حضرت علی علیہ السلام اسلام کی وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلام صلّی الله علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد قرآن کو جمع کیا ۔ روایات کے مطابق آپ نے آنحضرت صلیّ الله علیہ وآلہ وسلم کے بعد خانہ نشینی اختیار کرکے فقط چھ مہینہ میں اس کام کو مکمل کر ڈال ۱ ابن ندیم کے مطابق : پہلا قرآن جسے جمع کیا گیا وہ (حضرت)علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن تھا ۔ یہ قرآن آل جعفر کے پاس ہمیشہ رہا ۔ اس کے بعد وہ کہتا ہے : میں نے ایک قرآن ابو یعلی حمزہ حسنی کے پاس دیکھا جو (حضرت )علی علیہ السلام کے دست مبارک سے لکھا گےا تھا ۔ اس قرآن کے بعض صفحات غائب ہو چکے تھے ۔ اسے (امام) حسن ابن علی علیہ السلام کی اولاد نے میراث میں حاصل کیا تھ ۲ محمد بن سیرین نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ : ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں ( حضرت ) علی علیہ السلام خانہ نشین ہو گئے اور قرآن کو جمع کرنے لگے ۔ نیز کہتا ہے کہ : میں نے عکرمہ سے پوچھا : کیا اس قرآن کی ترتیب ونظم ، بقیہ قرآن کی طرح تھی؟ کیا اس قرآن میں نزول آیات کی ترتیب کا لحاظ رکھا گیا تھا؟ اس نے جواب دیا: اگر جن و انس مل کر بھی علی علیہ السلام کے اس قرآن کی طرح قرآن جمع کرتے تب بھی ان کے لئے یہ کام ممکن نہ تھا ۔ ابن سیرین کہتا ہے کہ : میں نے بہت کوشش کی کہ حضرت علی علیہ السلام کے جمع کردہ قرآن کو حاصل کروں مگر میں کامیاب نہیں ہو ۳ اسی طرح ابن جزی کلبی کا بیان ہے کہ : اگر حضرت علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن مل جاتا تو اس سے بے پناہ علم وحکمت حاصل ہوتے ۴
حضرت علیعلیہ السلام نے جس قرآن کو جمع کیا تھا اس میں متعدد خصوصیات تھےں جو بقیہ قرآنوں میں نہیں پائی جاتیں ۔
۱) اس قرآن میں آیتوں اور سوروں کو ان کے نزول کے مطابق ترتیب وار رکھا گیا تھا ۔ اسی طرح مکی آیات کو مدنی آیات سے پہلے لکھا گیا تھا ۔ اسی وجہ سے اس قرآن کو پڑھنے والے آیات کے تاریخی مراحل کو بخوبی سمجھ سکتے تھے یہی سبب ہے کہ اس قرآن کے ذریعہ احکام شریعت کی درجہ بندی نیز ناسخ ومنسوخ کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا تھا ۔
۲) اس قرآن میں تمام آیات کی قراٴت کو رسالت مآبصلیّ الله علیہ وآلہ وسلم کی قراٴت کے مطابق لکھا گیا تھا کیونکہ یہی قراٴت سب سے صحےح اور اصلی تھی ۔ اس قراٴت میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں تھی ۔ اس اعتبار سے اس قرآن کے ذریعہ مطالب کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ صحےح تفسیر تک رسائی بھی ایک آسان امر تھا۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو خاصی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ بسا اوقات قراٴت کا اختلاف بعض مفسرین کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے لیکن اس قرآن میں ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا ۔
۳) اس قرآن میں تنزیل اور تاٴویل دونوں کا تذکرہ تھا ۔ تنزیل سے مراد یہ ہے کہ اس قرآن میں آیتوں اور سوروں کی مناسبت اور ان کے اسباب نزول کا بھی ذکر تھا۔ لیکن یہ سب اس قرآن کے حاشیہ پر تھا یہ حواشی ، قرآن مجید کے مفہوم کو سمجھنے اور شبہات کو دور کرنے کا بہترین ذریعہ تھے ۔ اسی طرح اس قرآن میں تنزیل کے ساتھ تاٴویل کا بھی ذکر تھا ۔ یہ تاٴویلیں اجمالی طور پر خاص مواقع پر نازل ہونے والی آیتوں کی شرح کے طور پر حاشیہ پر تحریر کی گئی تھےں ۔ ان کے ذریعہ آیات کو سمجھنے میں مزید آسانی ہو تی حضرت علی علیہ السلام نے خود اس سلسلے میں فرمایا تھا : ولقد جئتہم بالکتاب مشتملاً علیٰ التنزیل والتاویل ۵ ( میں ایسا قرآن ( جمع کر کے ) لایا تھا جس میں تنزیل اور تاویل کا ذکر بھی شامل تھا )
اسی طرح فرمایا تھا : کوئی بھی آیت پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ وآلہ وسلم پر نازل نہیں ہوئی سوا یہ کہ آپ نے میرے لئے اس کو پڑھا اور مجھ سے اسے لکھنے کے لئے کہا اور میں اسے قید تحریر میں لایا۔ اسی طرح ہر آیت کے سلسلے میں تفسیر و تاویل ، ناسخ ومنسوخ اور محکم و متشابہ وغیرہ کو بھی میرے لئے بیان فرمایا اور میرے حق میں دعا فرمائی کہ خدا مجھے قرآن کو سمجھنے اور محفوظ رکھنے کی قوت عطا فرمائے ۔ اس دن سے آج تک میں کوئی بھی آیت نہیں بھولا ہوں اور کوئی بھی علم یا حکمت جو مجھے تعلیم فرمائی ہے اسے فراموش نہیں کیا ہے ۶# اس بنا پر اگر پیغمبر اسلام صلّی الله علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اس قرآن سے استفادہ کیا جاتا ہے جس میں شرح ، تفسیر اور تاویل آیات بھی شامل تھیں تو دور حاضر کی قرآن فہمی سے متعلق اکثر مشکلات دور ہو جاتیں ۔ (اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لئے تاریخ یعقوبی ج۳ ص۱۱۳ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے )
حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے خاص صحابی سلیم بن قیس ہلالیۻ ( متوفیٰ ۹۰ھ قمری) نے جناب سلمان فارسی ۻسے نقل کیا ہے کہ : جب حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کی بے رخی کا مشاہد ہ کیاتو خانہ نشین ہو گئے اور اس وقت تک گھر سے باہر تشریف نہیں لائے جب تک قرآن مجید کو پوری طرح جمع نہیں کر لیا ۔ آپ کے جمع کرنے سے قبل یہ کتاب الہی ، کاغذ کے ٹکڑوں ، باریک لکڑیوں اور پتوں پر لکھی ہوئی تھی اور پراگندہ تھی ۔ حضرت علی علیہ السلام نے اسکو مکمل کر لینے کے بعد ( یعقوبی کی روایت کے مطابق ) اس کو اونٹ پر حمل کیا اور مسجد میں لے کر آئے ۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب لوگ ابو بکر کے چاروں طرف جمع تھے ۔ آپ نے ان سب سے کہا : پیغمبر اسلام صلّی الله علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد سے اب تک اس قرآن کو جمع کرنے میں تھا ۔ اب اس کپڑے پر میںنے وہ سب جمع کرکے لکھ دیا ہے جو پیغمبر اسلام صلّی الله علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے ۔ کوئی ایسی آیت نازل نہیں ہوئی جسے نبی صلیّ الله علیہ وآلہ وسلم نے میرے لئے نہ پڑھا ہو اور اس کی تفسیر و تاویل بیان نہ کی ہو ۔ کل کو یہ نہ کہنا کہ میں اس سے غافل رہ گیا تھا ۔ اس وقت کسی سردار قبیلہ نے کھڑے ہو کر کہا آپ جو قرآن لے کر آئے ہیں اس کی چندان ضرورت نہیں ہے جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ ہمارے لئے کافی ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : اب آج کے بعد اس قرآن کو ہرگز نہ دیکھ سکو گے یہ کہہ کر آپ بیت الشرف تشریف لے آئے اور اس کے بعد کسی نے اس قرآن کو نہیں دیکھا ۔ ۷
جب جناب عثمان کے دور خلافت میں اصحاب و انصار کے درمیان قرآن کے نسخوں سے متعلق شدید اختلاف پیدا ہوا تو طلحہ بن عبداللہ نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے کہا کہ : آپ کو یاد ہے کہ ایک دن آپ نے اپنا جمع کردہ قرآن لوگوں کے سامنے پیش کیا تھا لیکن لوگوں نے قبول نہیں کیا تھا ۔ کیا اچھا ہوتا کہ آج آپ اس کو دوبارہ لے آتے شاید اس سے یہ اختلافات ختم ہو جاتے حضرت علیہ السلام نے جواب نہیں دیا طلحہ نے پھر اپنی بات دہرائی توحضرت علیہ السلام نے فرمایا : ”میں نے عمداً تمہاری بات کاجواب نہیں دیا تھا “ پھر طلحہ سے پوچھا : کیا جو قرآن لوگوں کے پاس ہے وہ پورا قرآن ہے یا اس میں کچھ اضافہ بھی ہو گیا ہے ۔ طلحہ نے کہا :وہ قرآن پورا ہے حضرت﷼ نے فرمایا : جب ایسا ہے تو اس کو لے لو اورعمل کرو ۔ اس طرح تم سب فلاح و نجات پا جاوٴگے ۔ طلحہ نے کہا : اگر آپ فرما رہے ہیں تو بس ٹھیک ہے پھر وہ کچھ نہیں بول ۸# آن حضرت نے اس طرح اسلام کی وحدت اور قرآن مجید کی صلابت کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچا لیا ۔
۱) اس سلسلے میں بحارالانوار ج ۲۳ ص۲۴۹ میں امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فقط تین دن میں قرآن کو جمع کر لیا تھا۔(مترجم)
۲) الفہرست ص ۴۷/۴۸
۳) طبقات ابن سعد ج۲ ص۱۰۱
۴) التسہیل لعلوم التنزیل ج۱ ص۴ والتمہید ج۱
۵) الاء الرحمٰن ج۱ص ۲۵۷
۶) تفسیر برہان ج ۱ ص۱۶ شمارہ ۱۴
۷) السقیفة ص۸۲
۸) السقیفة ص۱۲۴