تمام پیغمبر کی نسبت قرآن میں حضرت موسیٰ(ع) کا واقعہ زیادہ آیا ھے۔ تیس سے زیادہ سورتوں میں موسیٰ(ع) و فرعون اور بنی اسرائیل کے واقعہ کی طرف سومرتبہ سے زیادہ اشارہ هوا ھے۔
اگر ھم ان آیتوں کی الگ الگ شرح کریں ااس کے بعد ان سب کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیں تو بعض افراد کے اس توھم کے برخلاف کہ قرآن میں تکرار سے کام لیا گیا ھے،ھم کو معلوم هوگا کہ قرآن میں نہ صرف تکرار نھیں ھے بلکہ ھر سورہ میں جو بحث چھیڑی گئی ھے اس کی مناسبت سے اس سرگزشت کا ایک حصہ شاہد کے طور پر پیش کیا گیا ھے۔
ضمناًیہ بات بھی ذہن میں رکھنا چائیے کہ اس زمانے میں مملکت مصر نسبتاً وسیع مملکت تھی۔وھاں کے رہنے والوں کا تمدن بھی حضرت نوح(ع)،هود(ع)اور شعیب(ع) کی اقوام سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ لہٰذا حکومت فراعنہ کی مقاومت بھی زیادہ تھی۔
اسی بناء پر حضرت موسیٰ(ع) کی تحریک اور نہضت بھی اتنی اھمیت کی حامل هوئی کہ اس میں بہت زیادہ عبرت انگیز نکات پائے جاتے ھیں۔بنابریں اس قرآن میں حضرت موسیٰ(ع) کی زندگی اور بنی اسرائیل کے حالات کے مختلف پھلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ھے۔
کلی طور پر اس عظیم پیغمبر(ص) کی زندگی کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ھے۔
۱۔پیدائش سے لے کر آغوش فرعون میں آپ(ص) کی پرورش تک کا زمانہ۔
۲۔مصر سے آپ(ص) کا نکلنا اور شھر مدین میں حضرت شعیب(ع) کے پاس کچھ دقت گزارنا۔
۳۔آپ(ص) کی بعثت کا زمانہ اور فرعون اور اس کی حکومت والوں سے آپ(ص) کے متعدد تنازعے۔
۴۔فرعونیوں کے چنگل سے موسیٰ(ع) اور بنی اسرائیل کی نجات اور وہ حوادث جو راستہ میں اور بیت المقدس پہنچنے پر رونما هوئے۔
۵۔حضرت موسیٰ(ع) اور بنی اسرائیل کے درمیان کشمکش کا زمانہ۔
حکومت فرعون نے بنی اسرئیل کے یھاں جو نومولود بیٹے هوتے تھے انھیں قتل کرنے کا ایک وسیع پروگرام بنایا تھا۔ یھاں تک کہ فرعون کی مقرر کردہ دائیاں بنی اسرائیل کی باردار عورتوں کی نگرانی کرتی تھیں۔
ان دائیوں میں سے ایک والدہٴ موسیٰ(ع) کی دوست بن گئی تھی۔ (شکم مادر میں موسیٰ(ع) کا حمل مخفی رھا اوراس کے آثار ظاھر نہ هوئے) جس وقت مادر موسیٰ(ع) کو یہ احساس هوا کہ بچے کی ولادت کا وقت قریب ھے تو آپ نے کسی کے ذریعہ اپنی دوست دائی کو بلانے بھیجا۔جب وہ آگئی تو اس سے کھا:میرے پیٹ میں ایک فرزند ھے،آج مجھے تمھاری دوستی اور محبت کی ضرورت ھے۔
جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا هوگئے تو آپ کی آنکھوں میں ایک خاص نور چمک رھا تھا،چنانچہ اسے دیکھ کر وہ دایہ کاپنے لگی اور اس کے دل کی گھرائی میں محبت کی ایک بجلی سماگئی،جس نے اس کے دل کی تمام فضاء کو روشن کردیا۔
یہ دیکھ کر وہ دایہ، مادر موسیٰ(ع) سے مخاطب هوکر بولی کہ میرا یہ خیال تھا کہ حکومت کے دفتر میں جاکے اس بچے کے پیدا هونے کی خبر دوں تاکہ جلاد آئیں اور اسے قتل کردیں اور میں اپنا انعام پالوں۔ مگر میں کیا کروں کہ میں اپنے دل میں اس نوزائیدہ بچے کی شدید محبت کا احساس کرتی هوں۔ یھاں تک کہ میں یہ نھیں چاہتی کہ اس کا بال بھی بیکا هو۔اس کی اچھی طرح حفاظت کرو۔میرا خیال ھے کہ آخر کار یھی ھمارا دشمن هوگا۔
وہ دایہ مادر موسیٰ(ع) کے گھر سے باھر نکلی۔ تو حکومت کے بعض جاسوسوں نے اسے دیکھ لیا۔ انھوںنے تھیہ کرلیا کہ وہ گھر میں داخل هوجائیں گے۔ موسیٰ(ع) کی بہن نے اپنی ماں کو اس خطرے سے آگاہ کردیا۔ ماں یہ سن کے گھبراگئی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اب کیا کرے۔
اس شدید پریشانی کے عالم میں جب کہ وہ بالکل حواس باختہ هورھی تھی۔اس نے بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹا او رتنور میں ڈال دیا۔ اس دوران میں حکومت کے آدمی آگئے۔مگر وھاں انھوں نے روشن تنور کے سوا کچھ نہ دیکھا۔ انھوں نے مادر موسیٰ(ع) سے تفتیش شرو ع کردی ۔ پوچھا۔دایہ یھاں کیا کررھی تھی۔؟ موسیٰ(ع) کی ماں نے کھا کہ وہ میری سھیلی ھے مجھ سے ملنے آئی تھی ۔حکومت کے کارندے مایوس هوکے واپس هوگئے۔
اب موسیٰ(ع) کی ماں کو هوش آیا۔ آپ نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ بچہ کھاں ھے؟ اس نے لاعلمی کا اظھار کیا۔ ناگھاں تنور کے اندر سے بچہ کے رونے کی آواز آئی۔ اب ماں تنور کی طرف دوڑی ۔کیا دیکھتی ھے کہ خدا نے اس کے لئے آتش تنور کو ”ٹھنڈا اور سلامتی کہ جگہ“بنادیا ھے۔ وھی خدا جس نے حضرت ابراھیم(ع) کے لیے آتش نمرود کو ”برد وسلام“بنادیا تھا۔ اس نے اپنا ھاتھ بڑھایا اور بچے کو صحیح وسالم باھر نکال لیا۔
لیکن پھر بھی ماں محفوظ نہ تھی۔کیونکہ حکومت کے کارندے دائیں بائیں پھرتے رہتے اور جستجو میںلگے رہتے تھے۔ کسی بڑے خطرے کے لیے یھی کافی تھا کہ وہ ایک نوزائید بچے کے رونے کی آواز سن لیتے۔
اس حالت میں خدا کے ایک الھام نے ماں کے قلب کو روشن کردیا۔وہ الھام ایسا تھا کہ ماں کو بظاھر ایک خطرناک کام پر آمادہ کررھا تھا۔مگر پھر بھی ماں اس ارادے سے اپنے دل میں سکون محسوس کرتی تھی۔
”ھم نے موسیٰ(ع) کی ماں کی طرف وحی کی کہ اسے دودھ پلا اور جب تجھے اس کے بارے میںکچھ خوف پیدا هوتو اسے دریا میں ڈال دینا اور ڈرنا نھیں اور نہ غمگین هونا کیونکہ ھم اسے تیرے پاس لوٹا دیں گے اور اسے رسولوں میں سے قرار دیں گے۔[1]
اس نے کھا: ”خدا کی طرف سے مجھ پریہ فرض عائد هوا ھے۔ میں اسے ضرور انجام دوں گی“۔اس نے پختہ ارادہ کرلیا کہ میںاس الھام کو ضرور عملی جامہ پہناؤں گی اور اپنے نوزائیدہ بچے کو دریائے نیل میں ڈال دوںگی۔!!
اس نے ایک مصری بڑھئی کو تلاش کیا (وہ بڑھئی قبطی اور فرعون کی قوم میںسے تھا)اس نے اس بڑھئی سے درخواست کی کہ میرے لیے ایک چھوٹا سا صندوق بنادے۔
بڑھئی نے پوچھا:جس قسم کا صندوقچہ تم بنوانا چاہتی هو اسے کس کام میں لاؤگی؟
موسیٰ(ع) کی ماں جو دروغ گوئی کی عادی نہ تھی اس نازک مقام پر بھی سچ بولنے سے باز نہ رھی۔اس نے کھا:میں بنی اسرائیل کی ایک عورت هوں۔میرا ایک نوزائید بچہ لڑکا ھے۔میںاس بچے کو اس صندوق میں چھپانا چاہتی هوں۔
اس قبطی بڑھئی نے اپنے دل میں یہ پختہ ارادہ کرلیا کہ جلادوں کو یہ خبر پہنچادےگا۔وہ تلاش کرکے ان کے پاس پہنچ گیا۔ مگر جب وہ انھیں یہ خبر سنانے لگاتو اس کے دل پر ایسی وحشت طاری هوئی کہ اس کی زبان بند هوگئی۔ وہ صرف ھاتھوں سے اشارے کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ ان علامتوں سے انھیں اپنا مطلب سمجھا دے۔ حکومت کے کارندوں نے اس کی حرکات دیکھ کر یہ سمجھا کہ یہ شخص ھم سے مذاق کررھا ھے۔اس لیے اسے مارا اور باھر نکال دیا۔
جیسے ھی وہ اس دفتر سے باھر نکلا اس کے هوش و حواس یکجاهوگئے، وہ پھر جلادوں کے پاس گیا اور اپنی حرکات سے پھر مارکھائی۔
آخر اس نے یہ سمجھا کہ اس واقعے میں ضرور کوئی الٰھی راز پوشیدہ ھے۔چنانچہ اس نے صندوق بناکے حضرت موسیٰ(ع) کی والدہ کو دےدیا۔
غالباًصبح کا وقت تھا۔ابھی اھل مصر محو خواب تھے۔مشرق سے پو پھٹ رھی تھی۔ماںنے نوزائیدہ بچے اور صندوق کو دریائے نیل کے کنارے لائی،بچے کو آخری مرتبہ دودھ پلایا۔پھر اسے،مخصوص صندوق میں رکھا(جس میں یہ خصوصیت تھی کہ ایک چھوٹی کشتی کی طرح پانی پر تیرسکے)پھر اس صندوق کو نیل کی موجوں کے سپرد کردیا۔
نیل کی پر شور موجوںنے اس صندوق کوجلدھی ساحل سے دور کردیا۔ماں کنارے کھڑی دیکھ رھی تھی ۔ معاًاسے ایسا محسوس هوا کہ اس کا دل سینے سے نکل کر موجوںکے اوپر تیررھاھے۔اس دقت،اگر الطاف الٰھی اس کے دل کو سکون و قرار نہ بخشتا تو یقینا وہ زور زور سے رونے لگتی اور پھر سارا راز فاش هو جاتا،کسی آدمی میں یہ قدرت نھیں ھے کہ ان حساس لمحات میں ماںپر جو گزررھی تھی۔الفاظ میں اس کا نقشہ کھینچ سکے مگر ۔ ایک فارسی شاعرہ نے کسی حد تک اس منظر کو اپنے فصیح اور پر از جذبات اشعار میں مجسم کیا ھے۔
۱۔مادر موسیٰ چو موسیٰ (ع)رابہ نیل درفگند از گفتہٴ رب جلیل
۲۔خودز ساحل کرد باحسرت نگاہ گفت کای فرزند خرد بی گناہ!
۳۔گر فراموشت کند لطف خدای چون رھی زین کشتی بی ناخدای
۴۔وحی آمد کاین چہ فکر باطل است رھرو ما اینک اندر منزل است
۵۔ماگرفتیم آنچہ را انداختی دست حق را دیدی ونشاختی
۶۔سطح آب از گاهوارش خوشتراست دایہ اش سیلاب و موجش مادراست
۷۔رودھا از خودنہ طغیان می کنند آنچہ می گوئیم ما آن می کنند
۸۔ما بہ دریا حکم طوفان می دھیم ما بہ سیل وموج فرماں می دھیم
۹۔نقش ہستی نقشی از ایوان ما است خاک وباد وآب سرگردان ماست
۱۰۔بہ کہ برگردی بہ ما بسپاریش کی تو از ما دوسترمی داریش؟[2]
۱۔جب موسیٰ(ع) کی ماںنے حکم الٰھی کے مطابق موسیٰ(ع) کو دریائے نیل میں ڈال دیا۔
۲۔وہ ساحل پرکھڑی هوئی حسرت سے دیکھ رھی تھی اور کہہ رھی تھی کہ اے میرے بے گناہ ننھے بیٹے!
۳۔اگر لطف الٰھی تیرے شامل حال نہ هو تو ،تو اس کشتی میںکیسے سلامت رہ سکتا ھے جس کا کوئی نا خدا نھیں ھے۔
۴۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماںکو اس وقت وحی هوئی کہ تیری یہ کیا خام خیالی ھے۔ ھمارا مسافر تو سوئے منزل رواںھے۔
۵۔تونے جب اس بچے کو دریا میں ڈالاتھا تو ھم نے اسے اسی وقت سنبھال لیا تھا ۔ تو نے خدا کا ھاتھ دیکھا مگر اسے پہچانا نھیں۔
۶۔اس وقت پانی کی سطح(اس کے لیے)اس کے گهوارے سے زیادہ راحت بخش ھے۔دریا کا سیلاب اس کی دایہ گیری کررھا ھے اور اس کی موجیں آغوش مادر بنی هوئی ھیں۔
۷۔دیکھوں! دریاؤں میں ان کے ارادہ و اختیار سے طغیانی نھیں آتی۔وہ ھمارے حکم کے مطیع ھیں وہ وھی کرتے ھیں جو ھمارا امر هوتا ھے۔
۸۔ھم ھی سمندروں کو طوفانی هونے کاحکم دیتے ھیں اور ھم ھی سیل دریا کو روانی اور امواج بحر کو تلاطم کا فرمان بھیجتے ھیں۔
۹۔ہستی کا نقش ھمارے ایوان کے نقوش میں سے ایک نقش ھے جو کچھ ھے،یہ کائنات تو اس کامشتے ازخرواری نمونہ ھے۔ اور خاک،پانی،هوا اور آتش ھمارے ھی اشارے سے متحرک ھیں۔
۱۰۔بہتر یھی ھے کہ تو بچے کو ھمارے سپرد کردے اور خود واپس چلی جا۔ کیونکہ تو اس سے ھم سے زیادہ محبت نھیں کرتی۔
اب دیکھناچاہئیے کہ فرعون کے محل میں کیا هورھا تھا؟
روایات میں مذکور ھے کہ فرعون کی ایک اکلوتی بیٹی تھی۔وہ ایک سخت بیماری سے شدید تکلیف میں تھی۔فرعون نے اس کا بہت کچھ علاج کرایا مگر بے سود۔اس نے کاہنوں سے پوچھا۔ انھوں نے کھا:”اے فرعون ھم پیشن گوئی کرتے ھیں کہ اس دریا میں سے ایک آدمی تیرے محل میں داخل هوگا۔اگر اس کے منہ کی رال اس بیمار کے جسم پر ملی جائے گی تو اسے شفا هوجائیگی۔
چنانچہ فرعون اور اس کی ملکہ آسیہ ایسے واقعے کے انتظار میں تھے کہ ناگھاں ایک روز انھیں ایک صندوق نظر آیا جو موجوں کی سطح پر تیر رھا تھا۔فرعون نے حکم دیا کہ سرکاری ملازمین فوراً دیکھیں کہ یہ صندوق کیسا ھے اور اسے پانی میں سے نکال لیں۔دیکھیں کہ اس میں کیا ھے؟
نوکروں نے وہ عجیب صندوق فرعون کے سامنے لاکے رکھ دیا۔ کسی کو اس کا ڈھکنا کھولنے کی ھمت نہ هوئی۔ مطابق مشیت الٰھی،یہ لازمی تھا کہ حضرت موسیٰ(ع) کی نجات کے لیے صندوق کا ڈھکنا فرعون ھی کے ھاتھ سے کھولا جائے،چنانچہ ایسا ھی هوا۔
جس وقت فرعون کی ملکہ نے اس بچے کو دیکھا تو اسے یوں محسوس هواکہ ایک بجلی چمکی ھے جس نے اس کے دل کو منور کردیا ھے۔
ان دونوں بالخصوص فرعون کی ملکہ کے دل میں اس بچے کی محبت نے گھر بنالیا اور جب اس بچے کا آب دہن اس کے لیے موجب شفا هوگیا تو یہ محبت اور بھی زیادہ هوگئی ۔
قرآن میں یہ واقعہ اس طرح مذکور ھے کہ:۔فرعون کے اھل خانہ نے موسیٰ(ع) کو نیل کی موجوں کے اوپر سے پکڑ لیا۔ تا کہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لیے باعث اندوہ هوجائے۔[3]
”یہ امر بدیھی ھے کہ فرعون کے اھل خانہ نے اس بچے کے قنداقہ(وہ کپڑاجس میں بچہ کو لپیٹتے ھیں)کو اس نیت سے دریا سے نھیں نکالا تھا کہ اپنے جانی دشمن کو اپنی گود میں پالیں ،بلکہ وہ لوگ بقول ملکہ فرعون،اپنے لیے ایک نور چشم حاصل کرناچاہتے تھے۔
لیکن انجام کار ایسا ھی هوا،اس معنیٰ و مراد کی تعبیر میںلطافت یھی ھے کہ خدا اپنی قدرت کا اظھار کرنا چاہتا ھے کہ وہ کس طرح اس گروہ کو جنھوں نے اپنی تمام قوتیں اور وسائل،بنی اسرائیل کی اولاد ذکور کو قتل کرنے کے لیے وقف کردیا تھا،اس خدمت پر مامور کرے کہ جس بچے کو نابود کرنے کے لیے انھوں نے یہ پروگرام بنایا تھا،اسی کوو وہ اپنی جان کی طرح عزیز رکھیں اور اسی کی پرورش کریں۔
قرآن کی آیات سے یہ معلوم هوتاھے کہ اس بچے کی بابت فرعون،اس کی ملکہ اور دیگر اھل خاندان میں باھم نزاع اور اختلاف بھی هوا تھا،کیونکہ قرآن شریف میں یوں بیان ھے:فرعون کی بیوی نے کھا کہ یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں کا نور ھے۔ اسے قتل نہ کرو۔ ممکن ھے یہ ھمارے لیے نفع بخش هو یا ھم اسے ھم اپنا بیٹابنا لیں۔[4]
ایسا معلوم هوتا ھے کہ فرعون بچے کے چھرے اور ددیگر علامات سے،من جملہ ان کے اسے صندوق میں رکھنے اور دریائے نیل میںبھادینے سے یہ سمجھ گیا تھا کہ یہ بنی اسرائیل میں سے کسی کا بچہ ھے۔
یہ سمجھ کر ناگھاں،بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی کی بغاوت اور اس کی سلطنت کے زوال کا کابوس اس کی روح پر مسلط هوگیا اور وہ اس امر کا خواھاں هوا کہ اس کا وہ ظالمانہ قانون،جو بنی اسرائیل کے تمام نوزاد اطفال کے لیے جاری کیا گیا تھا اس بچے پر بھی نافذ هو۔
فرعون کے خوشامدی درباریوں او ررشتہ داروں نے بھی اس امر میں فرعون کی تائید و حمایت کی اور کھا اس کی کوئی دلیل نھیں ھے کہ یہ بچہ قانون سے مستثنیٰ رھے۔
لیکن فرعون کی بیوی آسیہ جس کے بطن سے کوئی لڑکا نہ تھا اور اس کا پاک دل فرعون کے درباریوں کی مانند نہ تھا،اس بچے کے لیے محبت کا کان بن گیا تھا۔ چنانچہ وہ ان سب کی مخالفت پرآمادہ هوگئی اور چونکہ اس قسم کے گھریلو اختلافات میں فتح ھمیشہ عورتوں کی هوتی ھے،وہ بھی جیت گئی۔
اگر اس گھریلو جھگڑے پر،دختر فرعون کی شفایابی کے واقعے کا بھی اضافہ کرلیا جائے تواس اختلاف باھمی میں آسیہ کی فتح کا امکان روشن تر هو جاتا ھے۔
قرآن میںایک بہت ھی پر معنیٰ فقرہ ھے:”وہ نھیںجانتے تھے کہ کیا کررھے ھیں:“[5]
البتہ وہ بالکل بے خبر تھے کہ خدا کا واجب النفوذ فرمان اور اس کی شکست ناپذیر مشیت نے یہ تھیہ کرلیا ھے کہ یہ طفل نوزاد انتھائی خطرات میں پرورش پائے۔ اور کسی آدمی میں بھی ارادہ و مشیت الٰھی سے سرتابی کی جراٴت اور طاقت نھیں ھے“۔
اس چیز کانام قدرت نمائی نھیںھے کہ خداآسمان و زمین کے لشکروں کو مامور کرکے کسی پُرقوت اور ظالم قوم کو نیست و نابود کردے۔
بلکہ قدرت نمائی یہ ھے کہ ان ھی جباران مستکبر سے یہ کا م لے کر وہ اپنے آپ کو خود ھی نیست و نابود کرلیں اور ان کے دل و دماغ میں ایسے خیالات پیدا هوجائیں کہ بڑے شوق سے لکڑیاں جمع کریں اور اس کی آگ میں جل مریں،اپنے لیے خودھی قیدخانہ بنائیں اور اسمیںاسیر هوکے جان دے دیں، اپنے لیے خود ھی صلیب کھڑی کریں اور اس پر چڑھ مرجائیں۔
فرعون اوراسکے زور منداور ظالم ساتھیوں کے ساتھ بھی یھی پیش آیا۔ چنانچہ تمام مراحل میںحضرت موسیٰ(ع) کی نجات اور پرورش انھی کے ھاتھوں سے هوئی،حضرت موسیٰ(ع) کی دایہ قبطیوں میںسے تھی،صندوق موسیٰ(ع) کو امواج نیل سے نکالنے اور نجات دینے والے متعلقین فرعون تھے،صندوق کا ڈھکنا کھولنے والا خود فرعون یا اس کی اھلیہ تھی،اور آخر کا ر فرعون شکن اور مالک غلبہ و اقتدار موسیٰ(ع) کے لیے امن و آرام اور پرورش کی جگہ خود فرعون کا محل قرار پایا۔
یہ ھے پروردگار عالم خدا کی قدرت!۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں نے اس طرح سے جیسا کہ ھم نے پیشتر بیان کیا ھے،اپنے فرزند کو دریائے نیل کی لھروں کے سپرد کردیا۔ مگر اس عمل کے بعد اس کے دل میں جذبات کا یکایک شدید طوفان اٹھنے لگا،نوزائیدہ بیٹے کی یاد،جس کے سوا اس کے دل میں کچھ نہ تھا،اس کے احساسات پر غالب آگئی تھی،قریب تھا کہ وہ دھاڑیں مار کر رونے لگے اور اپنا راز فاش کردے،قریب تھا کہ چیخ مارے اور اپنے بیٹے کی جدائی میں نالے کرے۔
لیکن عنایت خداوندی اس کے شامل حال رھی جیسا کہ قرآن میں مذکور ھے:”موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا دل اپنے فرزند کی یاد کے سوا ھر چیز سے خالی هوگیا،اگر ھم نے اس کا دل ایمان اور امید کے نور سے روشن نہ کیا هوتا تو قریب تھا کہ وہ راز فاش کردیتی۔ لیکن ھم نے یہ اس لیے کیا تاکہ وہ اھل ایمان میں سے رھے“۔[6]
یہ قطعی فطری امر ھے کہ: ایک ماں جو اپنے بچے کو اس صورت حال سے اپنے پاس سے جدا کرے وہ اپنی اولاد کے سوا ھر شے کو بھول جائے گی۔ اور اس کے حواس ایسے باختہ هو جائیںگے کہ ان خطرات کا لحاظ
کیے بغیر جو اس کے اور اس کے بیٹے دونوں کے سر پر منڈلارھے تھے فریاد کرے اور اپنے دل کا راز فاش کردے۔
لیکن وہ خدا جس نے اس ماں کے سپرد یہ اھم فریضہ کیا تھا،اسی نے اس کے دل کو ایسا حوصلہ بھی بخشا کہ وعدہٴ الٰھی پر اس کا ایمان ثابت رھے اور اسے یہ یقین رھے کہ اس کا بچہ خدا کے ھاتھ میں ھے آخر کار وہ پھر اسی کے پاس آجائے گا اور پیغمبر بنے گا۔
اس لطف خداوندی کے طفیل ماںکے دل کا سکون لوٹ آیامگر اسے آرزورھی کہ وہ اپنے فرزندکے حال سے باخبر رھے” اس لئے اس نے موسیٰ علیہ السلام کی بہن سے کھاکہ جا تو دیکھتی رہ کہ اس پر کیا گزرتی ھے“۔[7]
موسیٰ علیہ السلام کی بہن ماں کا حکم بجالائی اور اتنے فاصلہ سے جھاں سے سب کچھ نظر آتا تھا دیکھتی رھی ۔ اس نے دور سے دیکھا کہ فرعون کے عمال اس کے بھائی کے صندوق کو پانی میں سے نکال رھے ھیں اور موسیٰ علیہ السلام کو صندوق میں سے نکال کر گود میں لے رھے ھیں۔
”مگر وہ لوگ اس بہن کی ا س کیفیت حال سے بے خبر تھے۔“۔[8]
بھر حال ارادہ الٰھی یہ تھا کہ یہ طفل نوزاد جلد اپنی ماںکے پاس واپس جائے اور اس کے دل کو قرار آئے۔اس لیے فرمایا گیا ھے :”ھم نے تمام دودھ پلانے والی عورتوں کو اس پر حرام کردیا تھا“۔[9]
یہ طبیعی ھے کہ شیر خوار نوزاد چندگھنٹے گزرتے ھی بھوک سے رونے لگتا ھے اور بے تاب هوجاتا ھے۔ درین حال لازم تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلانے کے لیے کسی عورت کی تلاش کی جاتی۔ خصوصاً جبکہ ملکہ مصر اس بچے سے نھایت دل بستگی رکھتی تھی اور اسے اپنی جان کے برابر عزیز رکھتی تھی۔
محل کے تمام خدام حرکت میں آگئے اور دربدر کسی دودھ پلانے والی کو تلاش کرنے لگے۔مگر یہ عجیب بات تھی کہ وہ کسی کا دودھ پیتا ھی نہ تھا۔
ممکن ھے کہ وہ بچہ ان عورتوں کی صورت ھی سے ڈرتا هو اور ان کے دودھ کا مزہ(جس سے وہ آشنا نہ تھا) اسے اس کا ذائقہ ناگوار اور تلخ محسوس هوتا هو۔اس بچے کا طور کچھ اس طرح کا تھا گویا کہ ان (دودھ پلانے والی)عورتوں کی گود سے اچھل کے دورجاگرے در اصل یہ خدا کی طرف سے”تحریم تکوینی“تھی کہ اس نے تمام عورتوںکو اس پر حرام کردیا تھا۔
بچہ لحظہ بہ لحظہ زیادہ بھوکا اور زیادہ بیتاب هوتا جاتا تھا۔ بار بار رورھا تھا اور اس کی آواز سے فرعون کے محل میں شور هورھا تھا۔ اور ملکہ کا دل لرز رھا تھا۔
خدمت پرمامور لوگوں نے اپنی تلاش کو تیز تر کردیا۔ ناگھاں قریب ھی انھیں ایک لڑکی مل جاتی ھے۔ وہ ان سے یہ کہتی ھے:میںایک ایسے خاندان کو جانتی هوں جو اس بچے کی کفالت کرسکتا ھے۔ وہ لوگ اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے۔
”کیا تم لوگ یہ پسند کروگے کہ میں تمھیں وھاں لے چلوں“؟[10]
میں بنی اسرائیل میں سے ایک عورت کو جانتی هوں جس کی چھاتیوں میں دودھ ھے اور اس کا دل محبت سے بھرا هوا ھے۔ اس کا ایک بچہ تھا وہ اسے کھو چکی ھے۔ وہ ضرور اس بچے کو جو محل میں پیدا هوا ھے،دودھ پلانے پر آمادہ هوجائے گی۔
وہ تلاش کرنے والے خدام یہ سن کر خوش هوگئے اور موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو فرعون کے محل میں لے گئے۔ اس بچے نے جونھی اپنی ماں کی خوشبو سونگھی اس کا دودھ پینے لگا۔ اور اپنی ماں کا روحانی رس چوس کر اس میں جان تازہ آگئی۔اسکی آنکھوں میں خوشی کا نور چمکنے لگا۔
اس وقت وہ خدام جو ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گئے تھے۔ بہت ھی زیادہ خوش و خرم تھے۔ فرعون کی بیوی بھی اس وقت اپنی خوشی کو نہ چھپا سکی۔ممکن ھے اس وقت لوگوں نے کھا هوکہ تو کھاں چلی گئی تھی۔ھم تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گئے ۔ تجھ پر اورتیرے شیر مشکل کشا پر آفرین ھے۔
جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام ماں کا دودھ پینے لگے،فرعون کے وزیر ھامان نے کھا: مجھے لگتا ھے کہ تو ھی اسکی ماں ھے۔ بچے نے ان تمام عورتوں میں سے صرف تیرا ھی دودھ کیوں قبول کرلیا؟
ماں نے کھا:اس کی وجہ یہ ھے کہ میں ایسی عورت هوں جس کے دودھ میں سے خوشبو آتی ھے۔ میرا دودھ نھایت شیریں ھے۔ اب تک جو بچہ بھی مجھے سپرد کیا گیا ھے۔ وہ فوراً ھی میرا دودھ پینے لگتا ھے۔
حاضرین دربار نے اس قول کی صداقت کو تسلیم کرلیا اور ھر ایک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماںکو گراں بھا ہدیے اور تحفے دیے۔
ایک حدیث جو امام باقر علیہ السلام سے مروی ھے اس میں منقول ھے کہ: ”تین دن سے زیادہ کا عرصہ نہ گزرا تھا کہ خدانے کے بچے کواس کی ماں کے پاس لوٹا دیا“۔
بعض اھل دانش کا قول ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے یہ”تحریم تکوینی“(یعنی دوسری عورتوں کا حرام کیا جانا)اس سبب سے تھاکہ خدا یہ نھیں چاہتا تھا کہ میرا فرستادہ پیغمبر ایسا دودھ پیئے جو حرام سے آلودہ هو اور ایسا مال کھاکے بنا هو جو چوری،نا جائز ذرائع،رشوت اور حق الناس کو غصب کرکے حاصل کیا گیا هو۔
خدا کی مشیت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی صالحہ ماں کے پاک دودھ سے غذا حاصل کریں۔تاکہ وہ اھل دنیا کے شر کے خلاف ڈٹ جائیں اور اھل شروفساد سے نبردآزمائی کرسکیں۔
”ھم نے اس طرح موسیٰ علیہ السلام کو اس کی ماں کے پاس لوٹا دیا۔تاکہ اس کی آنکھیں روشن هوجائیں اور اس کے دل میں غم واندوہ باقی نہ رھے اور وہ یہ جان لے کہ خدا کا وعدہ حق ھے۔ اگر چہ اکثر لوگ یہ نھیں جانتے“۔[11]
اس مقام پر ایک سوال پیدا هوتا ھے اور وہ یہ ھے کہ:کیا وابستگان فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو پورے طور سے ماں کے سپرد کردیا تھا کہ وہ اسے گھر لے جائے اور دودھ پلایا کرے اور دوران رضاعت روزانہ یا کبھی کبھی بچے کو محل میں لایا کرے تا کہ ملکہ مصر اسے دیکھ لیا کرے یا یہ کہ بچہ محل ھی میں رہتا تھا اور موسیٰ علیہ السلام کی ماں معین اوقات میں آکر اسے دودھ پلاجاتی تھی؟
مذکورہ بالا دونوں احتمالات کے لیے ھمارے پاس کوئی واضح دلیا نھیں ھے۔ لیکن احتمال اول زیادہ قرین قیاس ھے۔
ایک اور سوال یہ ھے کہ:
آیا عرصہٴ شیر خوارگی کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں چلے گئے یا ان کا تعلق اپنی ماں اور خاندان کے ساتھ باقی رھا اور محل سے وھاں آتے جاتے رھے؟
اس مسئلے کے متعلق بعض صاحبان نے یہ کھا ھے کہ شیر خوار گی کے بعد آپ کی ماں نے انھیں فرعون اور اس کی بیوی آسیہ کے سپرد کردیا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ان دونوں کے پاس پرورش پاتے رھے۔
اس ضمن میں راویوںنے فرعون کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طفلانہ(مگر با معنیٰ)باتوں کا ذکر کیا ھے کہ اس مقام پر ھم ان کو بعذر طول کلام کے پیش نظر قلم انداز کرتے ھیں۔ لیکن فرعون کا یہ جملہ جے اس نے بعثت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کھا:
”کیا ھم نے تجھے بچپن میں پرورش نھیں کیا اور کیا تو برسوں تک ھمارے درمیان نھیں رھا“۔[12]
اس جملے سے معلوم هوتا ھے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام چند سال تک فرعون کے محل میں رہتے تھے۔
علی ابن ابراھیم کی تفسیر سے استفادہ هوتا ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تازمانہٴ بلوغ فرعون کے محل میں نھایت احترام کے ساتھ رھے۔مگر ان کی توحید کے بارے میں واضح باتیں فرعون کو سخت ناگوار هوتی تھیں۔
یھاں تک کہ اس نے انھیں قتل کرنے کا ارادہ کرلیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس خطرے کو بھاپ گئے اوربھاگ کر شھر میں آگئے۔ یھاں وہ اس واقعے سے دوچار هوئے کہ دو آدمی لڑرھے تھے جن میں سے ایک قبطی اور ایک سبطی تھا۔[13]
اب ھم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نشیب و فراز سے بھرپور زندگی کے تیسرے دور کو ملاحظہ کر تے ھیں۔
اس دور میں ان کے وہ واقعات ھیں جو انھیں دوران بلوغ اور مصر سے مدین کو سفر کرنے سے پھلے پیش آئے اور یہ وہ اسباب ھیں جو ان کی ہجرت کا باعث هوئے۔
”بھر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام شھر میں اس وقت داخل هوئے جب تمام اھل شھر غافل تھے“۔[14]
یہ واضح نھیں ھے کہ یہ کونسا شھر تھا۔لیکن احتمال قوی یہ ھے کہ یہ مصر کا پایہٴ تخت تھا۔ بعض لوگوں کا قول ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس مخالفت کی وجہ سے جو ان میں فوعون اور اس کے وزراء میں تھی اور بڑھتی جارھی تھی،مصر کے پایہٴ تخت سے نکال دیا گیا تھا۔ مگر جب لوگ غفلت میں تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کو موقع مل گیا اور وہ شھر میں آگئے۔
اس احتمال کی بھی گنجائش ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل سے نکل کر شھر میں آئے هوں کیونکہ عام طور پر فرعونیوں کے محلات شھر کے ایک کنارے پر ایسی جگہ بنائے جاتے تھے جھاں سے وہ شھر کی طرف آمدورفت کے راستوں کی نگرانی کرسکیں۔
شھر کے لوگ اپنے مشاغل معمول سے فارغ هوچکے تھے اور کوئی بھی شھر کی حالت کی طرف متوجہ نہ تھا۔ مگر یہ کہ وہ وقت کونسا تھا؟بعض کا خیال ھے کہ”ابتدائے شب“تھی،جب کہ لوگ اپنے کاروبار سے فارغ هوجاتے ھیں،ایسے میں کچھ تو اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے ھیں۔کچھ تفریح اور رات کوبیٹھ کے باتیں کرنے لگتے ھیں۔
بھر کیف حضرت موسیٰ علیہ السلام شھر میں آئے اور وھاںایک ماجرے سے دوچار هوئے دیکھا :” دو آدمی آپس میں بھڑے هوئے ھیں اور ایک دوسرے کو مار رھے ھیں۔ان میں سے ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا طرف دار اور ان کا پیرو تھا اور دوسراان کا دشمن تھا“۔[15]
کلمہ ”شیعتہ“ اس امر کا غماز ھے کہ جناب موسی (ع)اور بنی اسرائیل میں اسی زمانے سے مراسم هوگئے تھے اور کچھ لوگ ان کے پیرو بھی تھے احتمال یہ هوتا ھے کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنے مقلدین اور شیعوں کی روح کو فرعون کی جابرانہ حکومت کے خلاف لڑنے کے لئے بطور ایک مرکزی طاقت کے تیار کررھے تھے ۔
جس وقت بنی اسرائیل کے اس آدمی نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا:” تو ان سے اپنے ،دشمن کے مقابلے میں امداد چاھی“۔ [16]
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کی مدد کرنے کےلئے تیار هوگئے تاکہ اسے اس ظالم دشمن کے ھاتھ سے نجات دلائیں بعض علماء کا خیال ھے کہ وہ قبطی فرعون کا ایک باورچی تھا اور چاہتاتھا کہ اس بنی اسرائیل کو بیکار میں پکڑکے اس سے لکڑیاں اٹھوائے” حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس فرعونی کے سینے پر ایک مکامارا وہ ایک ھی مکے میں مرگیا اور زمین پر گر پڑا “۔[17]
اس میں شک نھیںکہ حضرت موسی کا اس فرعونی کو جان سے ماردینے کا ارادہ نہ تھا قرآن سے بھی یہ خوب واضح هوجاتاھے ایسا اس لئے نہ تھا کہ وہ لوگ مستحق قتل نہ تھے بلکہ انھیں ان نتائج کا خیال تھا جو خود حضرت موسی اور بنی اسرائیل کو پیش آسکتے تھے ۔
لہٰذا حضرت موسٰی علیہ السلام نے فوراً کھا:” کہ یہ کام شیطان نے کرایا ھے کیونکہ وہ انسانوں کا دشمن اور واضح گمراہ کرنے والاھے “۔[18]
اس واقعے کی دوسری تعبیر یہ ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام چاہتے تھے کہ بنی اسرئیلی کا گریبان اس فرعونی کے ھاتھ سے چھڑا دیں ھر چند کہ وابستگان فرعون اس سے زیادہ سخت سلوک کے مستحق تھے لیکن ان حالات میں ایسا کام کر بیٹھنا قرین مصلحت نہ تھا اور جیسا کہ ھم آگے دیکھیں گے کہ حضرت موسی اسی عمل کے نتیجے میں پھر مصر میں نہ ٹھھرسکے اور مدین چلے گئے ۔
پھر قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ھے اس نے کھا:”پروردگار ا!میں نے اپنے اوپر ظلم کیا تو مجھے معاف کردے ،اور خدا نے اسے بخش دیا کیونکہ وہ غفورو رحیم ھے “۔[19]
یقینا حضرت موسیٰ علیہ السلام اس معاملے میں کسی گناہ کے مرتکب نھیں هوئے بلکہ حقیقت میں ان سے ترک اولی سرزد هوا کیونکہ انھیں ایسی بے احتیاطی نھیں کرنی چاھیئے تھی جس کے نتیجے میں وہ زحمت میں مبتلا هوں حضرت موسی نے اسی ترک اولی کے لئے خدا سے طلب عفو کیا اور خدا نے بھی انھیں اپنے لطف وعنایت سے بھرہ مند کیا ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کھا: خداوندا تیرے اس احسان کے شکرانے میں کہ تونے میرے قصور کو معاف کردیا اور دشمنوں کے پنجے میںگرفتار نہ کیا اور ان تمام نعمتوں کے شکریہ میں جو مجھے ابتداء سے اب تک مرحمت کرتا رھا،میں عہد کرتا هوں کہ ھر گز مجرموں کی مدد نہ کروں گا اور ظالموں کا طرف دار نہ هوں گا “۔[20]
بلکہ ھمیشہ مظلومین اور ستم دیدہ لوگوں کا مددگارر هوں گا ۔[21]
فرعونیوں میں سے ایک آدمی کے قتل کی خبر شھر میں بڑی تیزی سے پھیل گئی قرائن سے شاید لوگ یہ سمجھ گئے تھے کہ اس کا قائل ایک بنی اسرائیل ھے اور شاید اس سلسلے میں لوگ موسیٰ علیہ السلام کا نام بھی لیتے تھے۔
البتہ یہ قتل کوئی معمولی بات نہ تھی اسے انقلاب کی ایک چنگاری یا اس کا مقدمہ شمار کیا جاتاتھا اور حکومت کی مشینری اسے ایک معمولی واقعہ سمجھ کراسے چھوڑنے والی نہ تھی کہ بنی اسرائیل کے غلام اپنے آقاؤں کی جان لینے کا ارادہ کرنے لگیں۔
لہٰذا ھم قرآن میں یہ پڑھتے ھیں کہ” اس واقعے کے بعد موسی شھر میں ڈررھے تھے اور ھر لحظہ انھیں کسی حادثے کا کھٹکا تھا اور وہ نئی خبروں کی جستجو میں تھے “۔[22]
ناگھاں انھیں ایک معاملہ پیش آیا آپ نے دیکھا کہ وھی بنی اسرائیلی جس نے گزشتہ روز ان سے مدد طلب کی تھی انھیں پھر پکاررھا تھا اور مدد طلب کررھاتھا (وہ ایک اور قبطی سے لڑرھا تھا) ۔
”لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سے کھا کہ تو آشکارا طور پر ایک جاھل اور گمراہ شخص ھے“۔[23]
توھر روز کسی نہ کسی سے جھگڑ پڑتا ھے اور اپنے لئے مصیبت پیدا کرلیتا ھے اور ایسے کام شروع کردیتا ھے جن کا ابھی موقع ھی نھیں تھا کل جو کچھ گزری ھے میں تو ابھی اس کے عواقب کا انتظار کرھا هوں اور تونے وھی کام از سر نو شروع کردیا ھے !۔
بھر حال وہ ایک مظلوم تھا جو ایک ظالم کے پنجے میں پھنسا هو تھا ( حواہ ابتداء اس سے کچھ قصور هوا هو یانہ هوا هو ) اس لئے حضرت موسی کے لئے یہ ضروری هوگیا کہ اس کی مدد کریں اور اسے اس قبطی کے رحم وکرم پر نہ چھوڑدیں لیکن جیسے ھی حضرت موسی نے یہ اراداہ کیا کہ اس قبطی آدمی کو (جو ان دونوں کا دشمن تھا )پکڑ کر اس بنی اسرائیل سے جدا کریں وہ قبطی چلایا، اس نے کھا :
اے موسیٰ : کیا تو مجھے بھی اسی طرح قتل کرنا چاہتا ھے جس طرح تو نے کل ایک شخص کو قتل کیا تھا“۔[24]”تیری حرکات سے تو ایسا ظاھر هوتا ھے کہ تو زمین پر ایک ظالم بن کررھے گا اور یہ نھیں چاہتا کہ مصلحین میں سے هو “۔[25]
اس جملے سے یہ معلوم هوتا ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے محل اور اس کے باھر ھر دو جگہ اپنے مصلحانہ خیالات کا اظھار شروع کردیا تھا بعض روایات سے یہ بھی معلوم هوتا ھے کہ اس موضوع پر ان کے فرعون سے اختلافات بھی پیدا هوگئے تھے اسی لئے تو اس قبطی آدمی نے یہ کھا :
یہ کیسی اصلاح طلبی ھے کہ تو ھر روز ایک آدمی کو قتل کرتاھے ؟
حالانکہ اگر حضرت موسی کا یہ ارادہ هوتا کہ اس اس ظالم کو بھی قتل کردیں تو یہ بھی راہ اصلاح میں ایک قدم هوتا ۔
بھرکیف حضرت موسی کو یہ احساس هوا کہ گزشتہ روز کا واقعہ طشت ازبام هوگیا ھے اور اس خوف سے کہ اور زیادہ مشکلات پیدا نہ هوں ، انھوں نے اس معاملے میں دخل نہ دیا ۔
اس واقعے کی فرعون اور اس کے اھل دربار کو اطلاع پہنچ گئی انھوں نے حضرت موسی سے اس عمل کے مکرر سرزد هونے کو اپنی شان سلطنت کے لئے ایک تہدید سمجھا ۔ وہ باھم مشورے کے لئے جمع هوئے اور حضرت موسی کے قتل کا حکم صادر کردیا ۔
(جھاں فرعون اور اس کے اھل خانہ رہتے تھے)وھاں سے ایک شخص تیزی کے ساتھ حضرت موسی کے پاس آیا اور انھیں مطلع کیا کہ آپ کو قتل کرنے کا مشورہ هورھا ھے ، آپ فورا شھرسے نکل جائیں ، میں آپ کا خیر خواہ هوں۔“[26]
یہ آدمی بظاھر وھی تھا جو بعد میں ”مومن آل فرعون “کے نام سے مشهور هوا ،کھا جاتاھے کہ اس کا نام حزقیل تھا وہ فرعون کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا اور ان لوگوں سے اس کے ایسے قریبی روابط تھے کہ ایسے مشوروں میں شریک هوتا تھا ۔
اسے فرعون کے جرائم اور اس کی کرتوتوں سے بڑا دکھ هوتا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ کوئی شخص اس کے خلاف بغاوت کرے اور وہ اس کار خیر میں شریک هوجائے ۔
بظاھر وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ آس لگائے هوئے تھا اور ان کی پیشانی میں من جانب اللہ ایک انقلابی ہستی کی علامات دیکھ رھا تھا اسی وجہ سے جیسے ھی اسے یہ احساس هوا کہ حضرت موسیٰ خطرے میں ھیں ، نھایت سرعت سے ان کے پاس پہنچا اور انھیں خطرے سے بچالیا ۔
ھم بعد میں دیکھیں گے کہ وہ شخص صرف اسی واقعے میں نھیں ، بلکہ دیگر خطرناک مواقع پر بھی حضرت موسی کے لئے بااعتماد اور ھمدرد ثابت هواحضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس خبر کو قطعی درست سمجھا اور اس ایماندار آدمی کی خیرخواھی کو بہ نگاہ قدر دیکھا اور اس کی نصیحت کے مطابق شھر سے نکل گئے۔”اس وقت آپ خوف زدہ تھے اور ھر گھڑی انھیں کسی حادثے کا کھٹکا تھا“۔[27]
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نھایت خضوع قلب کے ساتھ متوجہ الی اللہ هوکر اس بلا کو ٹالنے کےلئے اس کے لطف وکرم کی درخواست کی :”اے میرے پروردگار : تو مجھے اس ظالم قوم سے رھائی بخش [28]
میں جانتاهوں کہ وہ ظالم اور بے رحم ھیں میں تو مظلوموں کی مدافعت کررھاتھا اور ظالموں سے میرا کچھ تعلق نہ تھا اور جس طرح سے میں نے اپنی توانائی کے مطابق مظلوموں سے ظالموں کے شرکو دور کیا ھے تو بھی اے خدائے بزرگ ظالموں کے شرکو مجھ سے دور رکھ ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پختہ ارادہ کرلیا کہ وہ شھرمدین کو چلے جائیں یہ شھر شام کے جنوب اور حجاز کے شمال میں تھا اور قلم رو مصر اور فراعنہ کی حکومت میں شامل نہ تھا ۔
”مدین “ ایک شھر کانام تھا جس میں حضرت شعیب اور ان کا قبیلہ رہتا تھا یہ شھر خلیج عقبہ کے مشرق میں
تھا (یعنی حجاز کے شمال اور شامات کے جنوب میں )وھاں کے باشندے حضرت اسماعیل (ع) کی نسل سے تھے وہ مصر، لبنان اور فلسطین سے تجارت کرتے تھے آج کل اس شھر کانام معان ھے [29]
نقشے کو غور سے دبکھیں تو معلوم هوتا ھے کہ اس شھر کا مصر سے کچھ زبادہ فاصلہ نھیں ھے،اسی لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام چند روز میں وھاں پہنچ گئے۔
ملک اردن کے جغرافیائی نقشہ میں، جنوب غربی شھروں میں سے ایک شھر” معان “ نام کا ملتا ھے ، جس کا محل وقوع ھمارے مذکورہ بالا بیان کے مطابق ھے ۔
لیکن وہ جوان جو محل کے اندار نازو نعم میں پلا تھا ایک ایسے سفر پر روانہ هو رھا تھا جیسے کہ سفر اسے کبھی زندگی بھر پیش نہ آیا تھا۔
اس کے پاس نہ زادراہ تھا، نہ توشہٴ سفر، نہ کوئی سواری ، نہ رفیق راہ اور نہ کوئی راستہ بتانے والا ،ھردم یہ خطرہ لاحق تھا۔
کہ حکومت کے اھلکار اس تک پہنچ جائیں اور پکڑکے قتل کردیں اس حالت میں ظاھر ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کیا حال هوگا ۔
لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے یہ مقدر هوچکا تھا کہ وہ سختی اور شدت کے دنوں کو پیچھے چھوڑدیں اور قصرفرعون انھیں جس جال میں پھنسانا چاہتا تھا۔
اسے توڑکر باھر نکل آئیں اور وہ کمزور اور ستم دیدہ لوگوں کے پاس رھیں ان کے درد وغم کا بہ شدت احساس کریں ور مستکبرین کے خلاف ان کی منفعت کے لئے بحکم الٰھی قیام فرمائیں۔
بعض اھل تحقیق نے اس شھر کی وجہ تسمیہ بھی لکھی ھے کہ حضرت ابراھیم (ع)کا ایک بیٹا جس کا نام ” مدین “ تھا اس شھر میں رہتا تھا۔
اس طویل ، بے زادو راحلہ اور بے رفیق ورہنما سفر میں ایک عظیم سرمایہ ان کے پاس تھا اور وہ تھا ایمان اور توکل برخدا ۔
”لہٰذا جب وہ مدین کی طرف چلے تو کھا : خدا سے امید ھے کہ وہ مجھے راہ راست کی طرف ہدایت کرے گا“۔[30]
ایک نیک عمل نے موسیٰ (ع) پر بھلائیوں کے دروازے کھول دئیے
اس مقام پر ھم اس سرگزشت کے پانچوں حصے پر پہنچ گئے ھیں اور وہ موقع یہ ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام شھرمدین میں پہنچ گئے ھیں ۔
یہ جوان پاکباز انسان کئی روز تک تنھا چلتا رھا یہ راستہ وہ تھا جو نہ کبھی اس نے دیکھا تھا نہ اسے طے کیا تھا بعض لوگوں کے قول کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام مجبور تھے کہ پابرہنہ راستہ طے کریں، بیان کیا گیا ھے کہ مسلسل آٹھ روز تک چلتے رھے یھاں تک کہ چلتے چلتے ان کے پاؤں میں چھالے پڑگئے ۔
جب بھوک لگتی تھی تو جنگل کی گھاس اور درختوں کے پتے کھالیتے تھے ان تمام مشکلات اور زحمات میں صرف ایک خیال سے ان کے دل کوراحت رہتی تھی کہ انھیں افق میں شھرمدین کا منظر نظر آنے لگا ان کے دل میں آسود گی کی ایک لھر اٹھنے لگی وہ شھر کے قریب پہنچے انهوں نے لوگوں کا ایک انبوہ دیکھا وہ فورا سمجھ گئے کہ یہ لوگ چرواھے ھیں کہ جو کنویں کے پاس اپنی بھیڑوں کو پانی پلانے آئے ھیں ۔
”جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کنویں کے قریب آئے تو انھوں نے وھاں بہت سے آمیوں کو دیکھا جو کنویں سے پانی بھر کے اپنے چوپایوں کو پلارھے تھے،انھوں نے اس کنویں کے پاس دو عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنی بھیڑوں کو لئے کھڑی تھیں مگر کنویں کے قریب نھیں آتی تھیں“۔ [31]
ان باعفت لڑکیوں کی حالت قابل رحم تھی جو ایک گوشے میں کھڑی تھیں اور کوئی آدمی بھی ان کےساتھ انصاف نھیں کرتا تھا چرواھے صرف اپنی بھیڑوں کی فکر میں تھے اور کسی اور کو موقع نھیں دیتے تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لڑکیوں کی یہ حالت دیکھی تو ان کے نزدیک آئے اور پوچھا :
” تم یھاں کیسے کھڑی هو“۔[32]
تم آگے کیوں نھیں بڑھتیںاور اپنی بھیڑوں کو پانی کیوں نھیں پلاتیں ؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے یہ حق کشی ، ظلم وستم ، بے عدالتی اور مظلوموں کے حقوق کی عدم پاسداری جو انھوں نے شھر مدین میں دیکھی، قابل برداشت نہ تھی ۔
مظلوموں کو ظالم سے بچانا ان کی فطرت تھی اسی وجہ سے انھوں نے فرعون کے محل اور اس کی نعمتوں کو ٹھکرادیا تھا اور وطن سے بے وطن هوگئے تھے وہ اپنی اس روش حیات کو ترک نھیں کرسکتے تھے اور ظلم کو دیکھ کر خاموش نھیں رہ سکتے تھے ۔
لڑکیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جواب میں کھا :” ھم اس وقت تک اپنی بھیڑوں کو پانی نھیں پلاسکتے، جب تک تمام چرواھے اپنے حیوانات کو پانی پلاکر نکل نہ جائیں “۔[33]
ان لڑکیوںنے اس بات کی وضاحت کے لئے کہ ان باعفت لڑکیوں کے باپ نے انھیں تنھا اس کام کے لئے کیوں بھیج دیا ھے یہ بھی اضافہ کیا کہ ھمارا باپ نھایت ضعیف العمرھے ۔
نہ تو اس میں اتنی طاقت ھے کہ بھیڑوں کو پانی پلاسکے اور نہ ھمارا کوئی بھائی ھے جو یہ کام کرلے اس خیال سے کہ کسی پر بارنہ هوں ھم خود ھی یہ کام کرتے ھیں ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ باتیں سن کر بہت کوفت هوئی اور دل میں کھا کہ یہ کیسے بے انصاف لوگ ھیں کہ انھیں صرف اپنی فکر ھے اور کسی مظلوم کی ذرا بھی پرواہ نھیں کرتے ۔
وہ آگے آئے ،بھاری ڈول اٹھایا اور اسے کنوئیں میں ڈالا، کہتے ھیں کہ وہ ڈول اتنا بڑا تھا کہ چند آدمی مل کر اسے کھینچ سکتے تھے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے قوی بازوؤں سے اسے اکیلے ھی کھینچ لیا اور ان دونوں عورتوں کی بھیڑوں کو پانی پلادیا “۔[34]
بیان کیا جاتاھے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کنویں کے قریب آئے اورلوگوں کو ایک طرف کیا تو ان سے کھا:” تم کیسے لوگ هو کہ اپنے سوا کسی اور کی پرواہ ھی نھیں کرتے “۔
یہ سن کر لوگ ایک طرف ہٹ گئے اور ڈول حضرت موسی کے حوالے کرکے بولے :
” لیجئے، بسم اللہ، اگرآپ پانی کھینچ سکتے ھیں،انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تنھاچھوڑ دیا،لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام اس وقت اگرچہ تھکے هوئے تھے،اور انھیں بھوک لگ رھی تھی مگر قوت ایمانی ان کی مدد گار هوئی ، جس نے ان کی جسمانی قوت میں اضافہ کردیا اور کنویں سے ایک ھی ڈول کھینچ کر ان دنوں عورتوں کی بھیڑوںکو پانی پلادیا ۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام سائے میں آبیٹھے اور بارگاہ ایزدی میں عرض کرنے لگے :” خداوند ا!تو مجھے جو بھی خیراور نیکی بخشے ، میں اس کا محتاج هوں “۔[35]
حضرت موسیٰ علیہ السلام ( اس وقت ) تھکے هوئے اور بھوکے تھے اس شھر میں اجنبی اور تنھاتھے اور ان کے لیے کو ئی سرچھپانے کی جگہ بھی نہ تھی مگر پھر بھی وہ بے قرار نہ تھے آپ کا نفس ایسا مطمئن تھا کہ دعا کے وقت بھی یہ نھیں کھا کہ” خدایا تو میرے لیے ایسا یاویسا کر“ بلکہ یہ کھا کہ : تو جو خیر بھی مجھے بخشے میں اس کا محتاج هوں “ ۔
یعنی صرف اپنی احتیاج اور نیاز کو عرض کرتے ھیں اور باقی امور الطاف خداوندی پر چھوڑدیتے ھیں ۔
لیکن دیکھو کہ کار خیر کیا قدرت نمائی کرتا ھے اور اس میں کتنی عجیب برکات ھیں صرف ”لوجہ اللہ“ ایک قدم اٹھانے اور ایک نا آشنا مظلوم کی حمایت میں کنویں سے پانی کے ایک ڈول کھیچنے سے حضرت موسی کی زندگی میں ایک نیاباب کھل گیا اور یہ عمل خیران کے لیے برکات مادی اور روحانی دنیا بطور تحفہ لایا اور وہ ناپیدا نعمت (جس کے حصول کےلئے انھیں برسوں کوشش کرنا پڑتی ) اللہ نے انھیں بخش دی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے خوش نصیبی کا دور اس وقت شروع هوا جب انھوں نے یہ دیکھا کہ ان دونوں بہنوں میں سے ایک نھایت حیاسے قدم اٹھاتی هوئی آرھی ھے اس کی وضع سے ظاھر تھا کہ اسکوایک جوان سے باتیں کرتے هوئے شرم آتی ھے وہ لڑکی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب آئی اور صرف ایک جمکہ کھا : میرے والد صاحب آپ کو بلاتے ھیں تاکہ آپ نے ھماری بکریوں کے لئے کنویں سے جو پانی کھینچا تھا ، اس کا معاوضہ دیں “۔[36]
یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں امید کی بجلی چمکی گویاانھیں یہ احساس هوا کہ ان کے لئے ایک عظیم خوش نصیبی کے اسباب فراھم هورھے ھیں وہ ایک بزرگ انسان سے ملیں گے وہ ایک ایسا حق شناس انسان معلوم هوتا ھے جو یہ بات پسند نھیں کرتا کہ انسان کی کسی زحمت کا، یھاں تک کہ پانی کے ایک ڈول کھیچنے کا بھی معاوضہ نہ دے یہ ضرور کوئی ملکوتی اور الٰھی انسان هوگا یا اللہ ! یہ کیسا عجیب اور نادر موقع ھے ؟
بیشک وہ پیر مرد حضرت شعیب(ع) پیغمبر تھے انهوں نے برسوں تک اس شھر کے لوگوں کو” رجوع الی اللہ“کی دعوت دی تھی وہ حق پرستی اور حق شناسی کا نمونہ تھے ۔
جب انھیں کل واقعے کا علم هوا تو انھوں نے تھیہ کرلیا کہ اس اجنبی جوان کو اپنے دین کی تبلیغ کریں گے ۔
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس جگہ سے حضرت شعیب کے مکان کی طرف روانہ هوئے ۔
بعض روایات کے مطابق وہ لڑکی رہنمائی کے لئے ان کے آگے چل رھی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے چل رھے تھے اس وقت تیز هوا سے اس لڑکی کا لباس اڑرھا تھا اور ممکن تھا کہ هوا کی تیزی لباس کو اس کے جسم سے اٹھادے حضرت موسیٰ(ع) کی پاکیزہ طبیعت اس منظر کو دیکھنے کی اجازت نھیں دیتی تھی،اس لڑکی سے کھا:میں آگے آگے چلتا هوں،تم راستہ بتاتے رہنا۔
جب جناب موسیٰ علیہ السلام حضرت شعیب علیہ السلام کے گھر پہنچ گئے ایسا گھر جس سے نور نبوت ساطع تھا اور اس کے ھر گوشے سے روحانیت نمایاں تھی انھوں نے دیکھا کہ ایک پیر مرد، جس کے بال سفید ھیں ایک گوشے میں بیٹھا ھے اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خوش آمدید کھا اور پوچھا:
” تم کون هو ؟ کھاں سے آرھے هو ؟ کیا مشغلہ ھے ؟ اس شھر میں کیا کرتے هو ؟ اور آنے کا مقصد کیا ھے ؟ تنھا کیوں هو ؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس پہنچے اور انھیں اپنی سرگزشت سنائی تو حضرت شعیب علیہ السلام نے کھا مت ڈرو، تمھیں ظالموں کے گروہ سے نجات مل گئی ھے ۔“ [37]
ھماری سرزمین ان کی حدود سلطنت سے باھر ھے یھاں ان کا کوئی اختیار نھیں چلتا اپنے دل میں ذرہ بھر پریشانی کو جگہ نہ دینا تم امن وامان سے پہنچ گئے هو مسافرت اور تنھائی کا بھی غم نہ کرو یہ تمام مشکلات خدا کے کرم سے دور هوجائیں گی ۔ حضرت مو سیٰ علیہ السلام فورا ًسمجھ گئے کہ انھیں ایک عالی مرتبہ استاد مل گیا ھے، جس کے وجود سے روحانیت ، تقویٰ ، معرفت اور زلال عظیم کے چشمے پھوٹ رھے ھیں اور یہ استاد ان کی تشنگی تحصیل علم ومعرفت کو سیراب کرسکتا ھے ۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی یہ سمجھ لیا کہ انھیں ایک لائق اور مستعد شاگرد مل گیا ھے، جسے وہ اپنے علم ودانش اور زندگی بھر کے تجربات سے فیض یاب کرسکتے ھیں ۔
یہ مسلم ھے کہ ایک شاگرد کو ایک بزرگ اور قابل استاد پاکر جتنی مسرت هوتی ھے استاد کو بھی ایک لائق شاگرد پاکر اتنی ھی خوشی هوتی ھے۔
اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے چھٹے دور کا ذکر شروع هوتا ھے حضرت موسیٰ علیہ السلام جناب شعیب علیہ السلام کے گھر آگئے یہ ایک سادہ سادیھاتی مکان تھا، مکان صاف ستھرا تھا اور روحانیت سے معمور تھا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب شعیب علیہ السلام کو اپنی سرگزشت سنائی تو ان کی ایک لڑکی نے ایک مختصر مگر پر معنی عبارت میں اپنے والد کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ موسیٰ علیہ السلام کو بھیڑوں کی حفاظت کے لئے ملازم رکھ لیں وہ الفاظ یہ تھے :
اے بابا : آپ اس جوان کو ملازم رکھ لیں کیونکہ ایک بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھ سکتے ھیں وہ ایسا هونا چاہئے جو قوی اور امین هو اور اس نے اپنی طاقت اور نیک خصلت دونوں کا امتحان دے دیا ھے“ ۔[38]
جس لڑکی نے ایک پیغمبر کے زیرسایہ تربیت پائی هوا سے ایسی ھی موٴدبانہ اور سوچی سمجھی بات کہنی چاہئے نیز چاہئے کہ مختصر الفاظ اور تھوڑی سی عبارت میں اپنا مطلب ادا کردے ۔
اس لڑکی کو کیسے معلوم تھا کہ یہ جوان طاقتور بھی ھے اور نیک خصلت بھی کیونکہ اس نے پھلی بارکنویں پر ھی اسے دیکھا تھا اور اس کی گزشتہ زندگی کے حالات سے وہ بے خبر تھی؟
اس سوال کا جواب واضح ھے اس لڑکی نے اس جوان کی قوت کو تو اسی وقت سمجھ لیا تھا جب اس نے ان مظلوم لڑکیوں کا حق دلانے کے لئے چرواهوں کو کنویں سے ایک طرف ہٹایا تھا اور اس بھاری ڈول کو اکیلے ھی کنویں سے کھینچ لیا تھا اور اس کی امانت اور نیک چلنی اس وقت معلوم هوگئی تھی کہ حضرت شعیب علیہ السلام کے گھر کی راہ میں اس نے یہ گوارا نہ کیا کہ ایک جوان لڑکی اس کے آگے آگے چلے کیونکہ ممکن تھا کہ تیز هوا سے اس کا لباس جسم سے ہٹ جائے ۔
علاوہ بریں اس نوجوان نے اپنی جو سرگزشت سنائی تھی اس کے ضمن میں قبطیوں سے لڑائی کے ذکر میں اس کی قوت کا حال معلوم هوگیا تھا اور اس امانت ودیانت کی یہ شھادت کافی تھی کہ اس نے ظالموں کی ھم نوائی نہ کی اور ان کی ستم رانی پر اظھار رضا مندی نہ کیا ۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی بیٹی کی تجویز کو قبول کرلیا انھوں نے موسیٰ(ع) کی طرف رخ کرکے یوں کھا :”میرا ارادہ ھے کہ اپنی ان دولڑکیوں میں سے ایک کا تیرے ساتھ نکاح کردوں، اس شرط کے ساتھ کہ تو آٹھ سال تک میری خدمت کرے “۔[39]
اس کے بعد یہ اضافہ کیا:” اگر تو آٹھ سال کی بجائے یہ خدمت دس سال کردے تو یہ تیرا احسان هوگا مگر تجھ پر واجب نھیں ھے :“[40]
بھرحال میں یہ نھیں چاہتا کہ تم سے کوئی مشکل کام لوں انشاء اللہ تم جلد دیکھو گے کہ میں صالحین میں سے هوں ، اپنے عہدوپیمان میں وفادار هوں تیرے ساتھ ھرگز سخت گیری نہ کروں گا اور تیرے ساتھ خیراور نیکی کا سلوک کروں گا ۔[41]
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس تجویزاور شرط سے موافقت کرتے هوئے اور عقد کو قبول کرتے هوئے کھا : ” میرے اور آپ کے درمیان یہ عہد ھے “ ۔ البتہ” ان دومدتوں میں سے (آٹھ سال یا دس سال ) جس مدت تک بھی خدمت کروں ، مجھ پر کوئی زیادتی نہ هوگی اور میںاس کے انتخاب میں آزاد هوں“۔ [42]
عہد کو پختہ اور خدا کے نام سے طلب مدد کے لئے یہ اضافہ کیا : ”جو کچھ ھم کہتے ھیں خدا اس پر شاہد ھے “۔[43]
اوراس آسانی سے موسیٰ علیہ السلام داماد شعیب(ع) بن گئے حضرت شعیب علیہ السلام کی لڑکیوں کا نام ” صفورہ “( یا صفورا ) اور ” لیا “بتایا جاتاھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شادی ” صفورہ “ سے هوئی تھی ۔
کوئی آدمی بھی حقیقتاً یہ نھیں جانتا کہ ان دس سال میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کیا گزری لیکن بلاشک یہ دس سال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بہترین سال تھے یہ سال دلچسپ، شیریں اور آرام بخش تھے نیز یہ دس سال ایک منصب عظیم کی ذمہ داری کے لئے تربیت اور تیاری کے تھے ۔
درحقیقت اس کی ضرورت بھی تھی کہ موسیٰ علیہ السلام دس سال کا عرصہ عالم مسافرت اور ایک بزرگ پیغمبر کی صحبت میں بسر کریں اور چرواھے کاکام کریں تاکہ ان کے دل ودماغ سے محلول کی ناز پروردہ زندگی کا اثر بالکل محوهوجائے حضرت موسی کو اتنا عرصہ جھونپڑیوں میں رہنے والوں کے ساتھ گزارنا ضروری تھا تاکہ ان کی تکالیف اور مشکلات سے آگاہ هوجائے اور ساکنان محلول کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آمادہ هوجائیں۔
ایک اور بات یہ بھی ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسرار آفرینش میں غور کرنے اور اپنی شخصیت کی تکمیل کے لئے بھی ایک طویل وقت کی ضرورت تھی اس مقصد کے لئے بیابان مدین اور خانہٴ شعیب سے بہتر اور کو نسی جگہ هوسکتی تھی ۔
ایک اولوالعزم پیغمبر کی بعثت کوئی معمولی بات نھیں ھے کہ یہ مقام کسی کو نھایت آسانی سے نصیب هوجائے بلکہ یہ کہہ سکتے ھیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بعد تمام پیغمبروں میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذمہ داری ایک لحاظ سے سب سے زیادہ اھم تھی اس لئے کہ :
روئے زمین کے ظالم ترین لوگوں سے مقابلہ کرنا، ایک کثیر الا فراد قوم کی مدت اسیری کو ختم کرنا ۔
اور ان کے اندر سے ایام اسیری میں پیدا هوجانے والے نقائص کو محو کرنا کوئی آسان کام نھیں ھے ۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کی مخلصانہ خدمات کی قدر شناسی کے طور پر یہ طے کرلیا تھا کہ بھیڑوں کے جو بچے ایک خاص علامت کے ساتھ پیداهوں گے، وہ موسیٰ علیہ السلام کو دیدیں گے،اتفاقاًمدت مو عود کے آخری سال میں جبکہ موسیٰ علیہ السلام حضرت شعیب علیہ السلام سے رخصت هو کر مصر کو جانا چاہتے تھے تو تمام یا زیادہ تر بچے اسی علامت کے پیدا هوئے اور حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی انھیں بڑی محبت سے موسیٰ علیہ السلام کو دےدیا ۔
یہ امر بدیھی ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ساری زندگی چرواھے بنے رہنے پر قناعت نھیں کرسکتے تھے ھر چند ان کے لئے حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس رہنا بہت ھی غنیمت تھا مگر وہ اپنا یہ فرض سمجھتے تھے کہ اپنی اس قوم کی مدد کے لئے جائیں جو غلامی کی زنجیروں میں گرفتارھے اور جھالت نادانی اور بے خبری میں غرق ھے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنا یہ فرض بھی سمجھتے تھے کہ مصر میں جو ظلم کا بازار گرم ھے اسے سرد کریں،طاغوتوںکو ذلیل کریں اور توفیق الٰھی سے مظلوموں کو عزت بخشیں ان کے قلب میں یھی احساس تھا جو انھیں مصر جانے پر آمادہ کررھا تھا ۔
آخرکار انھوں نے اپنے اھل خانہ، سامان واسباب اور اپنی بھیڑوں کو ساتھ لیا اوراس وقت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ان کی زوجہ کے علاوہ ان کا لڑکا یا کوئی اور اولاد بھی تھی، اسلامی روایات سے بھی اس کی تائید هوتی ھے تو ریت کے ” سفر خروج “ میں بھی ذکر مفصل موجود ھے علاوہ ازیں اس وقت ان کی زوجہ امید سے تھی ۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے مصر کو جارھے تھے تو راستہ بھول گئے یا غالبا ًشام کے ڈاکوؤں کے ھاتھ میں گرفتار هوجانے کے خوف سے بوجہ احتیاط رائج راستے کو چھوڑکے سفر کررھے تھے ۔
بھرکیف قرآن شریف میں یہ بیان اس طور سے ھے کہ :”جب موسیٰ علیہ السلام اپنی مدت کو ختم کرچکے اور اپنے خاندان کو ساتھ لے کر سفر پر روانہ هوگئے تو انھیں طور کی جانب سے شعلہ آتش نظر آیا ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے اھل خاندان سے کھا :“ تم یھیں ٹھھرو“ مجھے آگ نظر آئی ھے میں جاتاهوں شاید تمھارے لئے وھاں سے کوئی خبرلاؤں یا آگ کا ایک انگارالے آؤں تاکہ تم اس سے گرم هوجاؤ“[44]
”خبر لاؤں“ سے یہ معلوم هوتا ھے کہ وہ راستہ بھول گئے تھے اور ”گرم هوجاؤ“یہ اشارہ کررھاھے کہ سرد اور تکلیف دہ رات تھی ۔
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زوجہ کی حالت کا کوئی ذکر نھیں ھے مگر تفاسیر اور روایات میں مذکورھے کہ وہ امید سے تھیں اور انھیں دروازہ هورھا تھا اس لئے موسیٰ علیہ السلام پریشان تھے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جس وقت آگ کی تلاش میں نکلے تو انھوں نے دیکھا کہ آگ تو ھے مگر معمول جیسی آگ نھیں ھے، بلکہ حرارت اور سوزش سے خالی ھے وہ نور اور تابندگی کا ایک ٹکڑا معلوم هوتی تھی ،حضرت موسیٰ علیہ السلام اس منظر سے نھایت حیران تھے کہ ناگھاں اس بلندو پُر برکت سرزمین ِمیں وادی کے دا ھنی جانب سے ایک درخت میں سے آواز آئی: ”اے موسیٰ میں اللہ رب العالمین هوں! “۔ [45]
اس میں شک نھیں کہ یہ خدا کے اختیار میں ھے کہ جس چیز میں چاھے قوت کلام پیدا کردے یھاں اللہ نے درخت میں یہ استعداد پیدا کردی کیونکہ اللہ موسیٰ علیہ السلام سے باتیں کرنا چاہتا تھا ظاھر ھے کہ موسیٰ علیہ السلام گوشت پوست کے انسان تھے، کان رکھتے تھے اور سننے کے لئے انھیں امواج صوت کی ضروت تھی البتہ انبیاء علیھم السلام پر اکثر یہ حالت بھی گزری ھے کہ وہ بطور الھام درونی پیغام الٰھی کو حاصل کرتے رھے ھیں ،اسی طرح کبھی انھیں خواب میں بھی ہدایت هوتی رھی ھے مگر کبھی وہ وحی کو بصورت صدا بھی سنتے رھے ھیں، بھر کیف حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو آواز سنی اس سے ھم ھرگز یہ نتیجہ نھیں نکال سکتے کہ خدا جسم رکھتا ھے ۔
موسیٰ علیہ السلام جب آگ کے پاس گئے اور غور کیا تودیکھا کہ درخت کی سبز شاخوں میں آگ چمک رھی ھے اور لحظہ بہ لحظہ اس کی تابش اور درخشندگی بڑھتی جاتی ھے جو عصا ان کے ھاتھ میں تھا اس کے سھارے جھکے تاکہ اس میں سے تھوڑی سی آگ لے لیں تو آگ موسیٰ علیہ السلام کی طرف بڑھی موسیٰ علیہ السلام ڈرے اور پیچھے ہٹ گئے اس وقت حالت یہ تھی کہ کبھی موسیٰ علیہ السلام آگ کی طرف بڑھتے تھے اور کبھی آگ ان کی طرف، اسی کشمکش میں ناگھاں ایک صدا بلند هوئی ،اور انھیں وحی کی بشارت دی گئی ۔
اس طرح ناقابل انکار قرائن سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یقین هوگیا کہ یہ آواز خدا ھی کی ھے، کسی غیر کی نھیں ھے ۔
”میں تیرا پروردگار هوں، اپنے جوتے اتاردے کیونکہ تو مقدس سرزمین ”طویٰ“ میں ھے “۔[46]
موسیٰ علیہ السلام کو اس مقدس سرزمین کے احترام کا حکم دیا گیا کہ اپنے پاؤں سے جوتے اتاردے اور اس وادی میں نھایت عجزوانکساری کے ساتھ قدم رکھے حق کو سنے اور فرمان رسالت حاصل کرے ۔
موسیٰ علیہ السلام نے یہ آوازکہ ” میں تیرا پروردگار هوں “ سنی تو حیران رہ گئے اور ایک ناقابل بیان پر کیف حالت ان پر طاری هوگئی، یہ کون ھے ؟ جو مجھ سے باتیں کررھا ھے ؟ یہ میرا پروردگارھے، کہ جس نے لفظ” ربک “ کے ساتھ مجھے افتخار بخشا ھے تاکہ یہ میرے لئے اس بات کی نشاندھی کرے کہ میں نے آغاز بچپن سے لے کر اب تک اس کی آغوش رحمت میں پرورش پائی ھے اور ایک عظیم رسالت کے لئے تیارکیا گیا هوں ۔“
حکم ملاکہ پاؤں سے اپنا جوتا اتار دو، کیونکہ تو نے مقدس سرزمین میں قدم رکھا ھے وہ سرزمین کہ جس میں نور الٰھی جلوہ گرھے ، وھاں خدا کا پیغام سننا ھے ، اور رسالت کی ذمہ داری کو قبول کرنا ھے، لہٰذا انتھائی خضوع اور انکساری کے ساتھ اس سرزمین میں قدم رکھو ،یہ ھے دلیل پاؤں سے جوتا اتارنے کی ۔
ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے ،حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے اس واقعہ سے متعلق ایک عمدہ مطلب نقل هوا ھے ،آپ فرماتے ھیں :
جن چیزوں کی تمھیں امید نھیں ھے ان کی ان چیزوں سے بھی زیادہ امید رکھو کہ جن کی تمھیں امید ھے کیونکہ موسی بن عمران ایک چنگاری لینے کے لئے گئے تھے لیکن عہدہٴ نبوت ورسالت کے ساتھ واپس پلٹے یہ اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ اکثر ایسا هوتا ھے کہ انسان کسی چیز کی امید رکھتا ھے مگر وہ اسے حاصل نھیں هوتی لیکن بہت سی اھم ترین چیزیں جن کی اسے کوئی امید نھیں هوتی لطف پروردگار سے اسے مل جاتی ھیں ۔
اس میں شک نھیں کہ انبیاء علیھم السلام کو اپنے خدا کے ساتھ ربط ثابت کرنے کے لئے معجزے کی ضرورت ھے ، ورنہ ھر شخص پیغمبر ی کا دعویٰ کرسکتا ھے اس بناء پر سچے انبیاء علیھم السلام کا جھوٹوں سے امتیاز معجزے کے علاوہ نھیں هوسکتا، یہ معجزہ خود پیغمبر کی دعوت کے مطالب اور آسمانی کتاب کے اندر بھی هوسکتا ھے اور حسی اور جسمانی قسم کے معجزات اوردوسرے امور میں بھی هوسکتے ھیں علاوہ ازیں معجزہ خود پیغمبر کی روح پر بھی اثرانداز هوتا ھے اور وہ اسے قوت قلب، قدرت ایمان اور استقامت بخشتا ھے ۔
بھرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرمان نبوت ملنے کے بعد اس کی سند بھی ملنی چاہئے، لہٰذا اسی پُر خطر رات میں جناب موسیٰ علیہ السلام نے دو عظیم معجزے خدا سے حاصل کئے ۔
قرآن اس ماجرے کو اس طرح بیان کرتا ھے :
”خدا نے موسیٰ سے سوال کیا : اے موسیٰ یہ تیرے دائیں ھاتھ میں کیا ھے“؟۔[47]
اس سادہ سے سوال ،میں لطف ومحبت کی چاشنی تھی ، فطرتاً موسیٰ علیہ السلام، کی روح میں اس وقت طوفانی لھریں موجزن تھیں ایسے میں یہ سوال اطمینان قلب کے لئے بھی تھا اورایک عظیم حقیقت کو بیان کرنے کی تمھید بھی تھا ۔”موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں کھا: یہ لکڑی میرا عصا ھے “۔[48]
اور چونکہ محبوب نے ان کے سامنے پھلی مرتبہ یوں اپنا دروازہ کھولا تھا لہٰذا وہ اپنے محبوب سے باتیں جاری رکھنا اور انھیں طول دینا چاہتے تھے اور اس وجہ سے بھی کہ شاید وہ یہ سوچ رھے تھے کہ میرا صرف یہ کہنا کہ یہ میرا عصا ھے، کافی نہ هو بلکہ اس سوال کا مقصد اس عصا کے آثار و فوائد کو بیان کرنا مقصودهو، لہٰذا مزید کھا : ”میں اس پرٹیک لگاتاهوں، اور اس سے اپنی بھیڑوں کے لئے درختوں سے پتے جھاڑتا هوں ،اس کے علاوہ اس سے دوسرے کام بھی لیتا هوں “۔[49]
البتہ یہ بات واضح اور ظاھر ھے کہ عصا سے کون کون سے کام لیتے ھیں کبھی اس سے موذی جانوروں اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک دفاعی، ہتھیار کے طور پر کام لیتے ھیں کبھی اس کے ذریعے بیابان میں سائبان بنا لیتے ھیں ، کبھی اس کے ساتھ برتن باندھ کر گھری نھرسے پانی نکالتے ھیں ۔
بھرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک گھرے تعجب میں تھے کہ اس عظیم بارگاہ سے یہ کس قسم کا سوال ھے اور میرے پاس اس کا کیا جواب ھے ، پھلے جو فرمان دئیے گئے تھے وہ کیا تھے ، اور یہ پرسش کس لئے ھے ؟
موسیٰ سے کھا گیا کہ : اپنے عصا کو زمین پرڈال دو “ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے عصا کو پھینک دیا اب کیا دیکھتے ھیں کہ وہ عصا سانپ کی طرح تیزی سے حرکت کررھا ھے یہ دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام ڈرے اور پیچھے ہٹ گئے یھاں تک کہ مڑکے بھی نہ دیکھا “ ۔[50]
جس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ عصا لیا تھا تاکہ تھکن کے وقت اس کا سھارا لے لیا کریں ،اور بھیڑوں کے لئے اس سے پتے جھاڑلیا کریں، انھیں یہ خیال بھی نہ تھا کہ قدرت خدا سے اس میں یہ خاصیت بھی چھپی هوئی هوگی اور یہ بھیڑوں کو چرانے کی لاٹھی ظالموں کے محل کو ھلادے گی ۔
موجودات عالم کا یھی حال ھے کہ وہ بعض اوقات ھماری نظر میں بہت حقیر معلوم هوتی ھیں مگرا ن میں بڑی بڑی استعداد چھپی هوتی ھے جو کسی وقت خدا کے حکم سے ظاھر هوتی ھے ۔
اب موسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ آواز سنی جو ان سے کہہ رھی تھی :” واپس آ اور نہ ڈر توامان میں ھے“۔[51]
بھرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ حقیقت آشکار هوگئی کہ درگاہ رب العزت میں مطلق امن وامان ھے اور کسی قسم کے خوف وخطر کا مقام نھیں ھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو معجزات عطا کئے گئے ان میں سے پھلا معجزہ خوف کی علامت پر مشتمل تھا اس کے بعد موسی کو حکم دیا گیا کہ اب ایک دوسرا معجزہ حاصل کرو جو نوروامید کی علامت هوگا اور یہ دونوں معجزہ گویا ”انذار اوربشارت“ تھے۔
موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ” اپنا ھاتھ اپنے گریبان میں ڈالو اور باھر نکا،لو موسیٰ علیہ السلام نے جب گریبان میں سے ھاتھ باھر نکالا تو وہ سفید تھا اور چمک رھا تھا اور اس میں کوئی عیب اور نقص نہ تھا “۔[52]
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ھاتھ میں یہ سفیدی اور چمک کسی بیماری (مثلا ”برص یا کوئی اس جیسی چیز) کی وجہ سے نہ تھی بلکہ یہ نور الٰھی تھا جو بالکل ایک نئی قسم کا تھا۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سنسان کو ہسار اور اس تاریک رات میں یہ دوخارق عادت ھم نے قبل ازیں کھا ھے کہ اس سانپ کے لئے جو یہ دوالفاظ استعمال هوئے ھیں ممکن ھے اس کی دو مختلف حالتوں کے لئے هوں کہ ابتدا میں وہ چھوٹا سا هو اور پھر ایک بڑا اژدھا بن گیا هو اس مقام پر یہ احتمال بھی هوسکتا ھے کہ موسی نے جب واویٴ طور میں اسے پھلی بار دیکھا تو چھوٹا سا سانپ تھا، رفتہ رفتہ وہ بڑا هوگیا ۔
اور خلاف معمول چیزیں دیکھیں تو ان پر لرزہ طاری هوگیا، چنانچہ اس لئے کہ ان کا اطمینان قلب واپس آجائے انھیں حکم دیا گیا کہ” اپنے سینے پر اپنا ھاتھ پھریں تاکہ دل کو راحت هوجائے “۔[53]
اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام نے پھروھی صدا سنی جو کہہ رھی تھی:” خدا کی طرف سے تجھے یہ دودلیلیں فرعون اور اس کے ساتھیوں کے مقابلے کے لئے دی جاری ھیں کیونکہ وہ سب لوگ فاسق تھے اور ھیں “۔[54]
جی ھاں!یہ لوگ خدا کی طاعت سے نکل گئے ھیں اور سرکشی کی انتھا تک جاپہنچے ھیں تمھارا فرض ھے کہ انھیں نصیحت کرو اور راہ راست کی تبلغ کرو اور اگر وہ تمھاری بات نہ مانیں تو ان سے جنگ کرو۔
موسیٰ علیہ السلام اس قسم کی سنگین مامورریت پر نہ صرف گھبرائے نھیں،بلکہ معمولی سی تخفیف کےلئے بھی خدا سے درخواست نہ کی، اور کھلے دل سے اس کا استقبال کیا ،زیادہ سے زیادہ اس ماموریت کے سلسلے میں کامیابی کے وسائل کی خدا سے درخواست کی اور چونکہ کامیابی کا پلااور ذریعہ، عظیم روح، فکر بلند اور عقل توانا ھے، اور دوسرے لفظوں میں سینہ کی کشاد گی وشرح صدر ھے لہٰذا ”عرض کیا میرے پروردگار! میرا سینہ کشادہ کردے “۔[55]
ھاں ، ایک رھبر انقلاب کا سب سے اولین سرمایہ ، کشادہ دلی ، فراوان حوصلہ، استقامت وبرد باری اور مشکلات کے بوجھ کو اٹھاناھے ۔
اور چونکہ اس راستے میں بے شمار مشکلات ھیں، جو خدا کے لطف وکرم کے بغیر حل نھیں هوتیں، لہٰذا خدا سے دوسرا سوال یہ کیا کہ میرے کاموں کو مجھ پر آسان کردے اور مشکلات کو راستے سے ہٹادے آپ نے عرض کیا : ”میرے کام کو آسان کردے “۔[56]
اس کے بعد جناب موسیٰ علیہ السلام نے زیادہ سے زیادہ قوت بیان کا تقاضا کیا کہنے لگے:” میری زبان کی گرہ کھول دے“ ۔[57]
یہ ٹھیک ھے کہ شرح صدر کا هونا بہت اھم بات ھے ، لیکن یہ سرمایہ اسی صورت میں کام دے سکتا ھے جب اس کو ظاھر کرنے کی قدرت بھی کامل طور پر موجود هو، اسی بناء پر جناب موسیٰ علیہ السلام نے شرح صدر اور رکاوٹوں کے دور هونے کی در خواستوں کے بعد یہ تقاضا کیا کہ خدا ان کی زبان کی گرہ کھول دے ۔
اور خصوصیت کے ساتھ اس کی علت یہ بیان کی :” تاکہ وہ میری باتوں کو سمجھیں“۔ [58]
یہ جملہ حقیقت میں پھلی بات کی تفسیر کرر ھاھے اس سے یہ بات واضح هورھی ھے کہ زبان کی گرہ کے کھلنے سے مراد یہ نہ تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں بچپنے میں جل جانے کی وجہ سے کوئی لکنت آگئی تھی (جیسا کہ بعض مفسرین نے ابن عباس سے نقل کیا ھے)بلکہ اس سے گفتگو میں ایسی رکاوٹ ھے جو سننے والے کے لئے سمجھنے میں مانع هوتی ھے یعنی میں ایسی فصیح وبلیغ اور ذہن میں بیٹھ جانے والی گفتگو کروں گہ ھر سننے والا میرا مقصد اچھی طرح سے سمجھ لے ۔
بھرحال ایک کامیاب رھبر ورہنما وہ هوتا ھے کہ جو سعیٴ، فکر اور قدرت روح کے علاووہ ایسی فصیح وبلیغ گفتگو کرسکے کہ جو ھر قسم کے ابھام اور نارسائی سے پاک هو ۔
نیز اس بار سنگین کے لئے ۔ یعنی رسالت الٰھی، رھبری بشر اور طاغوتوں اور جابروں کے ساتھ مقابلے کے لئے یارومددگار کی ضرورت ھے اور یہ کام تنھاانجام دینا ممکن نھیں ھے لہٰذا حضرت موسیٰ(ع)نے پروردگار سے جو چوتھی درخواست کی :
”خداوندا!میرے لئے میرے خاندان میں سے ایک وزیراور مددگار قراردے“۔[59]
البتہ یہ بات کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تقاضا کررھے ھیں کہ یہ وزیر ان ھی کے خاندان سے هو، اس کی دلیل واضح ھے چونکہ اس کے بارے میں معرفت اور شناخت بھی زیادہ هوگی اور اس کی ھمدردیاں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ هوں گی کتنی اچھی بات ھے کہ انسان کسی ایسے شخص کو اپنا شریک کار بنائے کہ جو روحانی اور جسمانی رشتوں کے حوالے سے اس سے مربوط هو۔
اس کے بعد خصوصی التماس کے بعد خصوصی طور پر اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرتے هوئے عرض کیا : ”یہ ذمہ داری میرے بھائی ھارون کے سپرد کردے “۔[60]
ھارون بعض مفسرین کے قول کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بڑے بھائی تھے اور ان سے تین سال بڑے تھے بلند قامت فصیح البیان اور اعلیٰ علمی قابلیت کے مالک تھے، انهوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات سے تین سال پھلے رحلت فرمائی ۔[61]
اور وہ نور اور باطنی روشنی کے بھی حامل تھے، اور حق وباطل میں خوب تمیز بھی رکھتے تھے ۔[62]
آخری بات یہ ھے کہ وہ ایک ایسے پیغمبر تھے جنھیں خدا نے اپنی رحمت سے موسیٰ علیہ السلام کو بخشا تھا۔[63]
وہ اس بھاری ذمہ داری کی انجام دھی میں اپنے بھائی موسیٰ علیہ السلام کے دوش بدوش مصروف کار ھے ۔
یہ ٹھیک ھے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اس اندھیری رات میں، اس وادیٴ مقدس کے اندر، جب خدا سے فرمان رسالت کے ملنے کے وقت یہ تقاضا کیا ، تو وہ اس وقت دس سال سے بھی زیادہ اپنے وطن سے دور گزار کر آرھے تھے، لیکن اصولی طور پر اس عرصہ میں بھی اپنے بھائی کے ساتھ ان کارابطہ کامل طور پر منقطع نہ هو، اسی لئے اس صراحت اور وضاحت کے ساتھ ان کے بارے میں بات کررھے ھیں، اور خدا کی درگاہ سے اس عظیم مشن میں اس کی شرکت کے لئے تقاضا رکرھے ھیں۔
اس کے بعد جناب موسیٰ علیہ السلام ھارون کو وزارت ومعاونت پر متعین کرنے کےلئے اپنے مقصد کو اس طرح بیان کرتے ھیں : ”خداوندا! میری پشت اس کے ذریعے مضبوط کردے“۔[64]
اس مقصد کی تکمیل کے لئے یہ تقاضا کرتے ھیں: ” اسے میرے کام میں شریک کردے۔“[65]
وہ مرتبہ رسالت میں بھی شریک هو اور اس عظیم کام کو رو بہ عمل لانے میں بھی شریک رھیں، البتہ حضرت ھارون ھر حال میں تمام پروگراموں میں جناب موسیٰ علیہ السلام کے پیرو تھے او رموسیٰ علیہ السلام ان کے امام و پیشوا کی حیثیت رکھتے تھے۔
آخر میں اپنی تمام درخواستوں کا نتیجہ اس طرح بیان کرتے ھیں: ” تاکہ ھم تیری بہت بہت تسبیح کریں اور تجھے بہت بہت یاد کریں، کیونکہ تو ھمیشہ ھی ھمارے حالات سے آگاہ رھا ھے۔“[66]
تو ھماری ضروریات و حاجات کو اچھی طرح جانتا ھے اور اس راستہ کی مشکلات سے ھر کسی کی نسبت زیادہ آگاہ ھے، ھم تجھ سے یہ چاہتے ھیں کہ تو ھمیں اپنے فرمان کی اطاعت کی قدرت عطا فرمادے اور ھمارے فرائض، ذمہ داریوں اور فرائض انجام دینے کے لئے ھمیں توفیق اور کامیابی عطا فرما۔
چونکہ جناب موسیٰ علیہ السلام کا اپنے مخلصانہ تقاضوں میں سوائے زیادہ سے زیادہ اور کامل تر خدمت کے اور کچھ مقصد نھیں تھا لہٰذا خداوندعالم نے ان کے تقاضوں کو اسی وقت قبول کرلیا،” اس نے کھا: اے موسیٰ ! تمھاری درخواستیں قبول ھیں۔“[67]
حقیقت میں ان حساس اور تقدیر ساز لمحات میں چونکہ موسیٰ علیہ السلام پھلی مرتبہ خدائے عظیم کی بساط مھمانی پر قدم رکھ رھے تھے،لہٰذا جس جس چیز کی انھیں ضرورت تھی ان کا خدا سے اکٹھا ھی تقاضا کرلیا،اور اس نے بھی مھمان کا انتھائی احترام کیا،اور اس کی تمام درخواستوں اور تقاضوں کو ایک مختصر سے جملے میں حیات بخش ندا کے سا تھ قبول کرلیا اور اس میں کسی قسم کی قیدو شرط عائد نہ کی اور موسیٰ علیہ السلام کا نام مکرر لا کر،ھر قسم کے ابھام کو دور کرتے هوئے اس کی تکمیل کر دی ،یہ بات کس قدر شوق انگیز اور افتخار آفرین ھے کہ بندے کا نام مولا کی زبان پر بار بار آئے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماموریت کا پھلا مرحلہ ختم هوا جس میں بتایا گیا ھے کہ انھیں وحی اور رسالت ملی اور انھوں نے اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وسائل کے حصول کی درخواست کی ۔
اس کے ساتھ ھی زیر نظر دوسرے مرحلے کے بارے میں گفتگو هوتی ھے یعنی فرعون کے پاس جانا اور اس کے ساتھ گفتگو کرنا چنانچہ ان کے درمیان جو گفتگو هوئی ھے اسے یھاں پر بیان کیا جارھا ھے۔
سب سے پھلے مقدمے کے طور پر فرمایا گیا ھے:اب جبکہ تمام حالات ساز گار ھیں تو تم فرعون کے پاس جاؤ ”اور اس سے کهو کہ ھم عالمین کے پروردگار کے رسول ھیں“۔[68]
اور اپنی رسالت کا ذکر کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیجئے اور کہئیے :”کہ ھمیں حکم ملا ھے کہ تجھ سے مطالبہ کریں کہ تو بنی اسرائیل کو ھمارے ساتھ بھیج دے“۔[69]
وہ مصر میں گئے اور اپنے بھائی ھارون کو مطلع کیا اور وہ رسالت جس کے لیے آپ(ع) مبعوث تھے،اس کا پیغام اسے پہنچایا۔پھر یہ دونوں بھائی فرعون سے ملاقات کے ارادے سے روانہ هوئے۔ آخر بڑی مشکل سے اس کے پاس پہنچ سکے۔اس وقت فرعون کے وزراء اور مخصوص لوگ اسے گھیرے هوئے تھے۔
اس مقام پر فرعون نے زبان کھولی اور شیطنت پر مبنی چند ایک جچے تلے جملے کھے جس سے ان کی رسالت کی تکذیب کرنا مقصود تھا۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منہ کرکے کہنے لگا:”آیا بچپن میں ھم نے تجھے اپنے دامن محبت میں پروان نھیں چڑھایا “۔[70]
ھم نے تجھے دریائے نیل کی ٹھاٹھیں مارتی هوئی خشمگین موجوں سے نجات دلائی وگرنہ تیری زندگی خطرے میں تھی۔تیرے لیے دائیوں کو بلایا اور ھم نے اولاد بنی اسرائیل کے قتل کردینے کا جو قانون مقرر کر رکھا تھا اس سے تجھے معاف کردیا اور امن و سکون اور نازونعمت میں تجھے پروان چڑھایا۔
اور اس کے بعد بھی ”تو نے اپنی زندگی کے کئی سال ھم میں گزارے“۔[71]
پھر وہ موسیٰ علیہ السلام پر ایک اعتراض کرتے هوئے کہتا ھے:تو نے وہ اھم کام کیا ھے۔(فرعون کے حامی ایک قبطی کو قتل کیا ھے)۔[72]
یہ اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ ایسا کام کرنے کے بعد تم کیونکررسول بن سکتے هو؟
ان سب سے قطع نظر کرتے هوئے ”تو ھماری نعمتوں سے انکار کررھا ھے“۔[73]
تو کئی سالوں تک ھمارے دسترخوان پر پلتا رھا ھے،ھمارا نمک کھانے کے بعد نمک حلالی کا حق اس طرح ادا کررھا ھے؟اس قدر کفران نعمت کے بعد تو کس منہ سے نبوت کا دعویٰ کررھاھے؟
در حقیقت وہ بزعم خود اس طرح کی منطق سے ان کی کردار کشی کرکے موسیٰ علیہ السلام کو خاموش کرنا چاہتا تھا۔
جناب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی شیطنت آمیز باتیں سن کر اس کے تینوں اعتراضات کے جواب دینا شروع کیے۔لیکن اھمیت کے لحاظ سے فرعون کے دوسرے اعتراض کا سب سے پھلے جواب دیا(یا پھلے اعتراض کو بالکل جواب کے لائق ھی نھیں سمجھا کیونکہ کسی کا کسی کی پرورش کرنا اس بات کی دلیل نھیں بن جاتا کہ اگر وہ گمراہ هوتو اسے راہ راست کی بھی ہدایت نہ کی جائے)۔
بھر حال جناب موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:”میں نے یہ کام اس وقت انجام دیا جب کہ میں بے خبر لوگوں میں سے تھا“۔[74]
یعنی میں نے اسے جو مکا مارا تھا وہ اسے جان سے ماردینے کی غرض نھیں بلکہ مظلوم کی حمایت کے طور پر تھا ،میں تو نھیںسمجھتا تھا کہ اس طرح اس کی موت واقع هوجائے گی۔
پھر موسیٰ علیہ السلام فرماتے ھیں:”اس حادثے کی وجہ سے جب میں نے تم سے خوف کیا تو تمھارے پاس سے بھاگ گیا اور میرے پروردگارنے مجھے دانش عطا فرمائی اور مجھے رسولوں میںسے قرار دیا“۔[75]
پھر موسیٰ علیہ السلام اس احسان کا جواب دیتے ھیں جو فرعون نے بچپن اور لڑکپن میںپرورش کی صورت میںان پر کیا تھادو ٹوک انداز میں اعتراض کی صورت میں فرماتے ھیں:”تو کیا جو احسان تو نے مجھ پر کیا ھے یھی ھے کہ تو بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنالے“۔[76]
یہ ٹھیک ھے کہ حوادث زمانہ نے مجھے تیرے محل تک پہنچادیا اور مجھے مجبوراًتمھارے گھر میں پرورش پانا پڑی اور اس میں بھی خدا کی قدرت نمائی کار فرما تھی لیکن ذرا یہ تو سوچو کہ آخر ایسا کیوں هوا؟کیا وجہ ھے کہ میں نے اپنے باپ کے گھر میں اور ماں کی آغوش میں تربیت نھیں پائی؟ آخر کس لیے؟
کیا تو نے بنی اسرائیل کو غلامی کی زنجیروں میں نھیں جکڑ رکھا؟یھاں تک کہ تو نے اپنے خودساختہ قوانین کے تحت ان کے لڑکوں کو قتل کردیا اور ان کی لڑکیوں کو کنیز بنایا۔
تیرے بے حدوحساب مظالم اس بات کا سبب بن گئے کہ میری ماں اپنے نو مولود بچے کی جان بچانے کی غرض سے مجھے ایک صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کی بے رحم موجوں کے حوالے کردے اور پھر منشائے ایزدی یھی تھا کہ میری چھوٹی سی کشتی تمھارے محل کے نزدیک لنگر ڈال دے۔ھاں تو یہ تمھارے بے اندازہ مظالم ھی تھے جن کی وجہ سے مجھے تمھارا مرهون منت هونا پڑا اور جنھوں نے مجھے اپنے باپ کے مقدس اور پاکیزہ گھر سے محروم کرکے تمھارے آلودہ محل تک پہنچادیا۔
جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دوٹوک اور قاطع جواب دے دیا جس سے وہ لا جواب اور عاجز هوگیا تو اس نے کلام کا رخ بدلا اور موسیٰ علیہ السلام نے جو یہ کھا تھا”میں رب العالمین کا رسول هوں“تو اس نے اسی بات کو اپنے سوال کا محور بنایا اور کھا یہ رب العالمین کیا چیز ھے؟[77]
بہت بعید ھے کہ فرعون نے و اقعاًیہ بات مطلب کے لئے کی هو بلکہ زیادہ تر یھی لگتا ھے کہ اس نے تجاھل عارفانہ سے کام لیا تھا اور تحقیر کے طور پر یہ بات کھی تھی۔
لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیدار اور سمجھ دارافراد کی طرح اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ دیکھا کہ گفتگو کو سنجیدگی پر محمول کریں اور سنجیدہ هوکر اس کا جواب دیں اور چونکہ ذات پروردگار عالم انسانی افکار کی دسترس سے باھر ھے لہٰذا انھوں نے مناسب سمجھا کہ اس کے آثار کے ذریعے استدلال قائم کریں لہٰذا انھوں نے آیات آفاقی کا سھارا لیتے هوئے فرمایا:”(خدا)آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ھے سب کا پر وردگار ھے اگر تم یقین کا راستہ اختیار کرو“۔[78]
اتنے وسیع و عریض اور باعظمت آسمان و زمین اور کائنات کی رنگ برنگی مخلوق جس کے سامنے تو اور تیرے چاہنے اور ماننے والے ایک ذرہٴ ناچیز سے زیادہ کی حیثیت نھیں رکھتے، میرے پروردگار کی آفرینش ھے اور ان اشیاء کا خالق ومدبر اور ناظم ھی عبادت کے لائق ھے نہ کہ تیرے جیسی کمزور اور ناچیز سی مخلوق۔
لیکن عظیم آسمانی معلم کے اس قدر محکم بیان اورپختہ گفتگو کے بعد بھی فرعون خواب غفلت سے بیدار نہ هوا اس نے انپے ٹھٹھے مذاق اور استہزاء کو جاری رکھا اور مغرور مستکبرین کے پرانے طریقہ کار کو اپناتے هوئے ”اپنے اطراف میں بیٹھنے والوں کی طرف منہ کرکے کھا: کیا سن نھیں رھے هو(کہ یہ شخص کیا کہہ رھا ھے)“۔[79]
معلوم ھے کہ فرعون کے گردکون لوگ بیٹھے ھیں اسی قماش کے لوگ تو ھیں۔صاحبان زوراور زرھیںیا پھرظالم اور جابر کے معاون ۔
وھاں پر فرعون کے اطراف میں پانچ سوآدمی موجود تھے،جن کا شمار فرعون کے خواص میں هوتا تھا۔
اس طرح کی گفتگو سے فرعون یہ چاہتا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کی منطقی اور دلنشین گفتگو اس گروہ کے تاریک دلوں میں ذرہ بھر بھی اثر نہ کرے اور لوگوں کو یہ باور کروائے کہ انکی باتیں بے ڈھنگی اور ناقابل فھم ھیں۔
مگر جناب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی منطقی اور جچی تلی گفتگو کو بغیر کسی خوف وخطر کے جاری رکھتے هوئے فرمایا:”تمھارا بھی رب ھے اور تمھارے آباء واجداد کا رب ھے“۔[80]
درحقیقت بات یہ ھے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے پھلے تو آفاقی آیات کے حوالے سے استدلال کیا اب یھاں پر” آیات انفس“اور خود انسان کے اپنے وجود میں تخلیق خالق کے اسرار اور انسانی روح اور جسم میں خداوند عالم کی ربوبیت کے آثار کی طرف اشارہ کررھے ھیں تاکہ وہ عاقبت نا اندیش مغرور کم از کم اپنے بارے میں تو کچھ سوچ سکیںخود کو اور پھر اپنے خدا کو پہچان سکیں۔
لیکن فرعون اپنی ہٹ دھرمی سے پھر بھی باز نہ آیا،اب استہزاء اور مسخرہ پن سے چند قدم آگے بڑھ جاتا ھے اور موسیٰ علیہ السلام کو جنون اور دیوانگی کا الزام دیتا ھے چنانچہ اس نے کھا:”جو پیغمبر تمھاری طرف آیا ھے بالکل دیوانہ ھے“۔[81]
وھی تھمت جو تاریخ کے ظالم اور جابر لوگ خدا کے بھیجے هوئے مصلحین پر لگاتے رہتے تھے۔
یہ بھی لائق توجہ ھے کہ یہ مغرور فریبی اس حد تک بھی روادارنہ تھا کہ کھے”ھمارا رسول“اور” ھماری طرف بھیجا هوا “بلکہ کہتا ھے”تمھارا پیغمبر“اور ”تمھاری طرف بھیجا هوا“ کیونکہ”تمھارا پیغمبر“میں طنز اور استہزاء پایا جاتا ھے او رساتھ ھی اس میں غرور اور تکبر کا پھلو بھی نمایاں ھے کہ میں اس بات سے بالا تر هوں کہ کوئی پیغمبر مجھے دعوت دینے کے لئے آئے اور موسیٰ علیہ السلام پر جنون کی تھمت لگانے سے اس کا مقصد یہ تھا کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کے جاندار دلائل کو حاضرین کے اذھان میںبے اثر بنایا جائے۔
لیکن یہ ناروا تھمت موسیٰ علیہ السلا م کے بلند حوصلوں کو پست نھیںکر سکی اور انھوں نے تخلیقات عالم میں آثار الٰھی اور آفاق و انفس کے حوالے سے اپنے دلائل کو برابر جاری رکھا اور کھا:”وہ مشرق ومغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ھے سب کا پروردگار ھے اگر تم عقل وشعور سے کام لو“۔[82]
اگر تمھارے پاس مصر نامی محدود سے علاقے میں چھوٹی سی ظاھری حکومت ھے توکیا هوا؟میرے پروردگار کی حقیقی حکومت تو مشرق و مغرب اور اس کے تمام درمیانی علاقے پر محیط ھے اور اس کے آثار ھر جگہ موجودات عالم کی پیشانی پر چمک رھے ھیں اصولی طور پر خود مشرق و مغرب میں آفتاب کا طلوع و غروب اور کائنات عالم پر حاکم نظام شمسی ھی اس کی عظمت کی نشانیاں ھیں، لیکن عیب خود تمھارے اندر ھے کہ تم عقل سے کام نھیں لیتے بلکہ تمھارے اندر سوچنے کی عادت ھی نھیں ھے۔[83]
درحقیقت یھاں پر حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے اپنی طرف جنون کی نسبت کا بڑے اچھے انداز میںجواب دیا ھے۔ دراصل وہ یہ کہنا چاہتے ھیں کہ دیوانہ میں نھیں هوں بلکہ دیوانہ اور بے عقل وہ شخص ھے جو اپنے پروردگار کے ان تمام آثار اور نشانات کو نھیں دیکھتا ۔
عالم وجود کے ھر درودیوار پر ذات پروردگار کے اس قدر عجیب وغریب نقوش موجود ھیں پھر بھی جو شخص ذات پروردگار کے بارے میں نہ سوچے اسے خود نقش دیوار هوجانا چاہئے ۔
ان طاقتور دلائل نے فرعون کو سخت بوکھلادیا، اب اس نے اسی حربے کا سھارا لیا جس کا سھارا ھربے منطق اور طاقتور لیتا ھے اور جب وہ دلائل سے عاجزهوجاتاھے تو اسے آزمانے کی کوشش کرتاھے۔
” فرعون نے کھا: اگر تم نے میرے علاوہ کسی اور کو معبود بنایا تو تمھیں قیدیوں میں شامل کردوںگا“۔[84]میں تمھاری اور کوئی بات نھیں سننا چاہتا میں تو صرف ایک ھی عظیم الہٰ اور معبوے کو جانتاهوں اور وہ میں خود هوں اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کہتا ھے تو بس سمجھ لے کہ اس کی سزا یا تو موت ھے یا عمر قید جس میں زندگی ھی ختم هوجائے۔
درحقیقت فرعون چاہتا تھا کہ اس قسم کی تیزوتند گفتگو کرکے موسی علیہ السلام کو ھراساں کرے تاکہ وہ ڈرکر چپ هوجائیں کیونکہ اگر بحث جاری رھے گی تو لوگ اس سے بیدار هوں گے اور ظالم وجابر لوگوں کے لئے عوام کی بیداری اور شعور سے بڑھ کر کوئی اور چیز خطر ناک نھیں هوتی ۔
گزشتہ صفحات میں ھم نے دیکھ لیا ھے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے منطق اور استدلال کی روسے فرعون پر کیونکر اپنی فوقیت اوربر تری کا سکہ منوالیا اور حاضرین پر ثابت کردیا کہ ان کا خدائی دین کس قدر عقلی ومنطقی ھے اور یہ بھی واضح کردیا کہ فرعون کے خدائی دعوے کس قدر پوچ اور عقل وخردسے عار ی ھیں کبھی تو وہ استہزاء کرتا ھے ،کبھی جنون اور دیوانگی کی تھمت لگاتاھے اور آخر کار طاقت کے نشے میں آکر قیدوبند اور موت کی دھمکی دیتا ھے ۔
اس موقع پر گفتگو کارخ تبدیل هوجاتاھے اب جناب موسیٰ کو ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے تھا جس سے فرعون کی ناتوانی ظاھر هوجائے ۔
موسیٰ علیہ السلام کو بھی کسی طاقت کے سھارے کی ضرورت تھی ایسی خدائی طاقت جس کے معجزانہ اندازهوں، چنانچہ آپ فرعون کی طرف منہ کرکے فرماتے ھیں :” آیا اگر میں اپنی رسالت کے لئے واضح نشانی لے آؤں پھر بھی تو مجھے زندان میں ڈالے گا “۔[85]
اس موقع پر فرعون سخت مخمصے میں پڑگیا، کیونکہ جناب موسی علیہ السلام نے ایک نھایت ھی اھم اور عجیب وغریب منصوبے کی طرف اشارہ کرکے حاضرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی تھی اگر فرعون ان کی باتوں کو ان سنی کر کے ٹال دیتا تو سب حاضرین اس پر اعتراض کرتے اور کہتے کہ موسیٰ کو وہ کام کرنے کی اجازت دی جائے اگر وہ ایسا کرسکتا ھے تو معلوم هوجائے گا اور اس سے مقابلہ نھیں کیا جاسکے گا اور اگر ایسا نھیں کرسکتا تو بھی اس کی شخیی آشکار هوجائے گی بھرحال موسیٰ علیہ السلام کے اس دعوے کو آسانی سے مسترد نھیں کیا جاسکتا تھا آخرکار فرعون نے مجبور هوکر کھا” اگر سچ کہتے هو تو اسے لے آؤ“[86]
”اسی دوران میں موسیٰ علیہ السلام نے جو عصا ھاتھ میں لیا هوا تھا زمین پر پھینک دیا اور وہ (خدا کے حکم سے ) بہت بڑا اور واضح سانپ بن گیا“۔ [87]
”پھر اپنا ھاتھ آستین میں لے گئے اور باھر نکالا تو اچانک وہ دیکھنے والوں کے لئے سفید اور چمک دار بن چکا تھا“۔ [88]در حقیقت یہ دو عظیم معجزے تھے ایک خوف کا مظھر تھا تو دوسرا امید کا مظھر، پھلے میں انذار کا پھلو تھا تو دوسرے میں بشارت کا ،ایک خدائی عذاب کی علامت تھی تو دوسرا نور اور رحمت کی نشانی ،کیونکہ معجزے کو پیغمبر خدا کی دعوت کے مطابق هونا چاہئے۔
فرعون نے جب صورت حال دیکھی تو سخت بوکھلا گیا اور وحشت کی گھری کھائی میں جاگرا ،لیکن اپنے شیطانی اقتدار کو بچانے کے لئے جو موسیٰ علیہ السلام کے ظهور کے ساتھ متزلزل هوچکا تھا اس نے ان معجزات کی توجیہ کرنا شروع کردی تاکہ اس طرح سے اطراف میں بیٹھنے والوں کے عقائد محفوظ اور ان کے حوصلے بلند کرسکے اس نے پھلے تو اپنے حواری سرداروں سے کھا: ”یہ شخص ماھر اور سمجھ دار جادو گر ھے“۔ [89]
جس شخص کو تھوڑی دیر پھلے تک دیوانہ کہہ رھا تھا اب اسے ” علیم“ کے نام سے یاد کررھا ھے، ظالم اور جابر لوگوں کا طریقہ کار ایسا ھی هوتا ھے کہ بعض اوقات ایک ھی محفل میں کئی روپ تبدیل کرلیتے ھیں اور اپنی انا کی تسکین کے لئے نت نئے حیلے تراشتے رہتے ھیں ۔
اس نے سوچا چونکہ اس زمانے میں جادوکادور دورہ ھے لہٰذا موسیٰ علیہ السلام کے معجزات پر جادو کا لیبل لگا دیا جائے تاکہ لوگ اس کی حقانیت کو تسلیم نہ کریں ۔
پھر اس نے لوگوں کے جذبات بھڑکانے اور موسیٰ علیہ السلام کے خلاف ان کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کے لئے کھا : ”وہ اپنے جادو کے ذریعے تمھیں تمھارے ملک سے نکالنا چاہتا ھے،تم لوگ اس بارے میں کیا سوچ رھے هو اور کیا حکم دیتے هو “۔[90]
یہ وھی فرعون ھے جو کچھ دیر پھلے تک تمام سرزمین مصر کو اپنی ملکیت سمجھ رھا تھا” کیا سرزمین مصر پر میری حکومت اور مالکیت نھیں ھے ؟“اب جبکہ اسے اپنا راج سنگھا سن ڈوبتا نظرآرھا ھے تو اپنی حکومت مطلقہ کو مکمل طور پر فراموش کر کے اسے عوامی ملکیت کے طور پر یاد کرکے کہتا ھے ” تمھارا ملک خطرات میں گھر چکا ھے اسے بچانے کی سوچو“۔وھی فرعون جو ایک لحظہ قبل کسی کی بات سننے پر تیار نھیں تھا بلکہ ایک مطلق العنان آمر کی حیثیت سے تخت حکومت پر براجمان تھا اب اس حد تک عاجز اور درماندہ هوچکا ھے کہ اپنے اطرافیوں سے درخواست کررھا ھے کہ تمھارا کیا حکم ھے نھایت ھی عاجز اور کمزور هوکر التجا کررھا ھے ۔
قرآن سے معلوم هوتا ھے کہ اس کے درباری باھمی طور پر مشور ہ کرنے میںلگ گئے وہ اس قدر حواس باختہ هوچکے تھے کہ سوچنے کی طاقت بھی ان سے سلب هوگئی تھی ھر کوئی دوسرے کی طرف منہ کرکے کہتا :
”تمھاری کیا رائے ھے ؟“ [91]
بھرحال کافی صلاح مشورے کے بعد درباریوں نے فرعون سے کھا:”موسی اور اس کے بھائی کو مھلت دو اور اس بارے میں جلدی نہ کرو اور تمام شھروں میں ھرکارندے روانہ کردو،تاکہ ھر ماھر اور منجھے هوئے جادوگر کو تمھارے پاس لے آئیں“۔[92]
در اصل فرعون کے درباری یا تو غفلت کا شکار هوگئے یا موسیٰ علیہ السلام پر فرعون کی تھمت کو جان بوجھ کر قبول کرلیا اور موسی کو” ساحر“ (جادوگر) سمجھ کر پروگرام مرتب کیا کہ ساحر کے مقابلے میں ” سحار“ یعنی ماھر اور منجھے هوئے جادو گروں کو بلایا جائے چنانچہ انھوں نے کھا : ”خوش قسمتی سے ھمارے وسیع وعریض ملک (مصر) میں فن جادو کے بہت سے ماھر استاد موجود ھیں اگر موسیٰ ساحر ھے تو ھم اس کے مقابلے میں سحار لاکھڑا کریں گے اور فن سحر کے ایسے ایسے ماھرین کو لے آئیں گے جو ایک لمحہ میں موسیٰ کا بھرم کھول کر رکھ دیں گے“۔
فرعون کے درباریوں کی تجویز کے بعد مصر کے مختلف شھروں کی طرف ملازمین روانہ کردئیے گئے اورانھوںنے ھر جگہ پر ماھر جادو گروں کی تلاش شروع کردی ” آخر کار ایک مقررہ دن کی میعادکے مطابق جادو گروں کی ایک جماعت اکٹھا کرلی گئی “[93]
دوسرے لفظوں میں انھوں نے جادوگروں کو اس روزکے لئے پھلے ھی سے تیار کرلیا تاکہ ایک مقرر دن مقابلے کے لئے پہنچ جائیں ۔
”یوم معلوم “ سے کیا مراد ھے ؟جیسا کہ سورہٴ اعراف کی آیات سے معلوم هوتا ھے مصریوں کی کسی مشهور عید کا دن تھا جسے موسیٰ علیہ السلام نے مقابلے کے لئے مقرر کیا تھا اور اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس دن لوگوں کو فرصت هوگی اور وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں شرکت کریں گے کیونکہ انھیں اپنی کامیابی کا مکمل یقین تھا اور وہ چاہتے تھے کہ آیات خداوندی کی طاقت اور فرعون اور اس کے ساتھیوں کی کمزوری اور پستی پوری دنیا پر آشکار هوجائے ”اور زیادہ سے زیادہ لوگوں سے کھا گیا کہ آیا تم بھی اس میدان میں اکٹھے هوگے؟[94]
اس طرزبیان سے معلوم هوتا ھے کہ فرعون کے کارندے اس سلسلے میں سوچی سمجھی ا سکیم کے تحت کام کررھے تھے انھیں معلوم تھا کہ لوگوں کو زبردستی میدان میں لانے کی کوشش کی جائے تو ممکن ھے کہ اس کا منفی رد عمل هو، کیونکہ ھر شخص فطری طور پر زبردستی کو قبول نھیں کرتا لہٰذا انھوں نے کھا اگر تمھاری جی چاھے تو اس اجتماع میں شرکت کرو اس طرح سے بہت سے لوگ اس اجتماع میں شریک هوئے ۔
لوگوں کو بتایا گیا” مقصد یہ ھے کہ اگر جادو گر کامیاب هوگئے کہ جن کی کامیابی ھمارے خداؤں کی کامیابی ھے تو ھم ان کی پیروی کریں گے “[95]اور میدان کو اس قدر گرم کردیں گے کہ ھمارے خداؤں کا دشمن ھمیشہ ھمیشہ کے لئے میدان چھوڑجائے گا ۔
واضح ھے کہ تماشائیوں کا زیادہ سے زیادہ اجتماع جو مقابلے کے ایک فریق کے ھمنوا بھی هوں ایک طرف توان کی دلچسپی کا سبب هوگا اور ان کے حوصلے بلند هوں گے اور ساتھ ھی وہ کامیابی کے لئے زبردست کوشش بھی کریں گے اورکامیابی کے موقع پر ایسا شور مچائیں گے کہ حریف ھمیشہ کے لئے گوشئہ گمنامی میں چلاجائے گا اور اپنی عددی کثرت کی وجہ سے مقابلے کے آغاز میں فریق مخالف کے دل میں خوف وھراس اور رعب ووحشت بھی پیدا کرسکیں گے۔
یھی وجہ ھے کہ فرعون کے کارندے کوشش کررھے تھے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں شرکت کریں موسیٰ علیہ السلام بھی ایسے کثیراجتماع کی خدا سے دعا کررھے تھے تاکہ اپنا مدعا اور مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں۔
یہ سب کچھ ایک طرف، ادھر جب جادو گر فرعون کے پاس پہنچے اور اسے مشکل میں پھنسا هوا دیکھا تو موقع مناسب سمجھتے هوئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور بھاری انعام وصول کرنے کی غرض سے اس سے کھا :” اگر ھم کامیاب هوگئے تو کیا ھمارے لئے کوئی اھم صلہ بھی هوگا ؟“ [96]
فرعون جو بری طرح پھنس چکا تھا اور اپنے لئے کوئی راہ نھیں پاتاتھا انھیں زیادہ سے زیادہ مراعات اور اعزاز دینے پر تیار هوگیا اس نے فورا ًکھا: : ”ھاں ھاں جو کچھ تم چاہتے هومیں دوں گا اس کے علاوہ اس صورت میں تم میرے مقربین بھی بن جاؤگے“۔ [97]
در حقیقت فرعون نے ان سے کھا :تم کیا چاہتے هو؟ مال ھے یا عہدہ: میں یہ دونوں تمھیں دوں گا ۔
اس سے معلوم هوتا ھے کہ اس ماحول اورزمانے میں فرعون کا قرب کس حد تک اھم تھا کہ وہ ایک عظیم انعام کے طور پر اس کی پیش کش کررھا تھا درحقیقت اس سے بڑھ کر اور کوئی صلہ نھیں هوسکتا کہ انسان اپنے مطلوب کے زیادہ نزدیک هو۔
جب جادوگروں نے فرعون کے ساتھ اپنی بات پکی کرلی اور اس نے بھی انعام، اجرت اور اپنی بارگاہ کے مقرب هونے کا وعدہ کرکے انھیں خوش کردیا اور وہ بھی مطمئن هوگئے تواپنے فن کے مظاھرے اور اس کے اسباب کی فراھمی کے لئے تگ ودوکرنی شروع کردی، فرصت کے ان لمحات میں انھوں نے بہت سی رسیاں اور لاٹھیاں اکٹھی کرلیں اور بظاھر ان کے اندر کو کھوکھلاکر کے ان میں ایسا کوئی کیمیکل مواد (پارہ وغیرہ کی مانند)بھر دیا جس سے وہ سورج کی تپش میں ھلکی هوکر بھاگنے لگتی ۔
آخرکاروعدے کا دن پہنچ گیا اور لوگوں کا اکثیر مجمع میدان میں جمع هوگیا تاکہ وہ اس تاریخی مقابلے کو دیکھ سکیں ،فرعون اور اس کے درباری، جادوگر اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی ھارون علیہ السلام سب میدان میں پہنچ گئے۔
لیکن حسب معمول قرآن مجید اس بحث کو خدف کرکے اصل بات کو بیان کرتا ھے ۔
یھاں پر بھی اس تاریخ ساز منظر کی تصویر کشی کرتے هوئے کہتا ھے: ”موسیٰ نے جادو گروں کی طرف منہ کرکے کھا :جو کچھ پھینکنا چاہتے هو پھینکو اور جو کچھ تمھارے پاس ھے میدان میں لے آؤ “۔[98]
قرآن سے معلوم هوتا ھے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے یہ بات اس وقت کی جب جادوگروں نے ان سے کھا:” آپ پیش قدم هوکر اپنی چیز ڈالیں گے یا ھم؟“[99]
موسیٰ علیہ السلام کی یہ پیش کش درحقیقت انھیں اپنی کامیابی پر یقین کی وجہ سے تھی اوراس بات کی مظھر تھی کہ فرعون کے زبردست حامیوں اور دشمن کے انبوہ کثیر سے وہ ذرہ برابر بھی خائف نھیں ،چنانچہ یہ پیش کش کرکے آپ نے جادوگروں پر سب سے پھلا کامیاب وار کیا جس سے جادو گروں کو بھی معلوم هوگیا کہ موسیٰ علیہ السلام ایک خاص نفسیاتی سکون سے بھرہ مند ھیں اور وہ کسی ذات خاص سے لولگائے هوئے ھیں کہ جوان کا حوصلہ بڑھارھی ھے ۔
جادو گر تو غرور ونخوت کے سمندر میں غرق تھے انھوں نے اپنی انتھائی کوششیں اس کام کے لئے صرف کردی تھیں اور انھیںاپنی کامیابی کا بھی یقین تھا” لہٰذانھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینک دیں اور کھافرعون کی عزت کی قسم ھم یقینا کامیاب ھیں “۔[100]
جی ھاں :انھوں نے دوسرے تمام چاپلوسیوں خوشامدیوں کی مانند فرعون کے نام سے شروع کیا اوراس کے کھوکھلے اقتدار کا سھارالیا ۔
جیسا کہ قرآن مجید ایک اور مقام پر کہتا ھے :
” اس موقع پر انھوں نے جب رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینکیںتو وہ چھوٹے بڑے سانپوں کی طرح زمین پر حرکت کرنے لگیں“۔ [101]
انھوں نے اپنے جادو کے ذرائع میں سے لاٹھیوں کا انتخاب کیا هوا تھا تاکہ وہ بزعم خود موسی کی عصا کی برابری کرسکیں اور مزید برتری کے لئے رسیوں کو بھی ساتھ شامل کرلیا تھا ۔
اسی دوران میں حاضرین میں خوشی کی لھر دوڑگئی اور فرعون اور اس کے درباریوں کی آنکھیں خوشی کے مارے چمک اٹھیں اور وہ مارے خوشی کے پھولے نھیں سماتے تھے یہ منظر دیکھ کر ان کے اندر وجدو سرور کی کیفیت پیدا هوگئی اور وہ جھوم رھے تھے ۔ چنانچہ بعض مفسرین کے قول کے مطابق ان ساحروں کی تعداد کئی ہزار تھی نیز ان کے وسائل سحر بھی ہزاروں کی تعداد میں تھے چونکہ اس زمانے میں مصر میں سحرو ساحری کا کافی زور تھا اس بناپر اس بات پر کوئی جائے تعجب نھیں ھے ۔
خصوصاً جیسا کہ قرآن [102]کہتا ھے کہ :
وہ منظر اتنا عظیم ووحشتناک تھا کہ حضرت موسی نے بھی اس کی وجہ سے اپنے دل میں کچھ خوف محسوس کیا ۔
اگرچہ نہج البلاغہ میں اس کی صراحت موجود ھے کہ حضرت موسی کو اس بات کا خوف لاحق هو گیا تھا کہ ان جادوگروں کو دیکھ کر لوگ اس قدر متاثر نہ هوجائیں کہ ان کو حق کی طرف متوجہ کرنا دشوار هوجائے بھرصورت یہ تمام باتیں اس بات کی مظھر ھیں کہ اس وقت ایک عظیم معرکہ درپیش تھا جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بفضل الٰھی سرکرنا تھا۔
لیکن موسیٰ علیہ السلام نے اس کیفیت کو زیادہ دیر نھیں پنپنے دیا وہ آگے بڑھےاور اپنےعصا کو زمین پردے مارا تو وہ اچانک ایک اژدھےکی شکل میں بتدیل هوکر جادو گروں کےان کر شموں کو جلدی نگلنےلگا اور انھیں ایک ایک کرکے کھاگیا۔[103]
اس میں کوئی شک نھیں کہ عصا کا ازدھا بن جانا ایک بیّن معجزہ ھے جس کی توجیہ مادی اصول سے نھیں کی جاسکتی، بلکہ ایک خدا پرست شخص کو اس سے کوئی تعجب بھی نہ هوگا کیونکہ وہ خدا کو قادر مطلق اور سارے عالم کے قوانین کو ارادہ الٰھی کے تابع سمجھتا ھے لہٰذا اس کے نزدیک یہ کوئی بڑی بات نھیں کہ لکڑی کا ایک ٹکڑا حیوان کی صورت اختیار کرلے کیونکہ ایک مافوق طبیعت قدرت کے زیر اثر ایسا هوناعین ممکن ھے ۔
ساتھ ھی یہ بات بھی نہ بھولنا چاہئے کہ اس جھان طبیعت میں تمام حیوانات کی خلقت خاک سے هوئی ھے نیز لکڑی و نباتات کی خلقت بھی خاک سے هوئی ھے لیکن مٹی سے ایک بڑا سانپ بننے کے لئے عادتاًشاید کروڑوں سال کی مدت درکار ھے،لیکن اعجاز کے ذریعے یہ طولانی مدت اس قدر کوتاہ هوگئی کہ وہ تمام انقلابات ایک لحظہ میں طے هوگئے جن کی بنا پر مٹی سے سانپ بنتا ھے ،جس کی وجہ سے لکڑی کا ایک ٹکڑا جو قوانین طبیعت کے زیر اثر ایک طولانی مدت میں سانپ بنتا،چند لحظوں میں یہ شکل اختیار کرگیا۔
اس مقام پر کچھ ایسے افراد بھی ھیں جو تمام معجزات انبیاء کی طبیعی اور مادی توجیھات کرتے ھیں جس سے ان کے اعجازی پھلوں کی نفی هوتی ھے،اور ان کی یہ سعی هوتی ھے کہ تمام معجزات کو معمول کے مسائل کی شکل میں ظاھر کریں،ھر چند وہ کتب آسمانی کی نص اور الفاظ صریحہ کے خلاف هو،ایسے لوگوں سے ھمارا یہ سوال ھے کہ وہ اپنی پوزیشن اچھی طرح سے واضح کریں۔کیا وہ واقعاً خدا کی عظیم قدرت پر ایمان رکھتے ھیںاور اسے قوانین طبیعت پر حاکم مانتے ھیں کہ نھیں؟ اگر وہ خدا کو قادر و توانا نھیں سمجھتے توان سے انبیاء کے حالات اور ان کے معجزات کی بات کرنا بالکل بے کار ھے اور اگر وہ خدا کو قادر جانتے ھیں تو پھر ذرا تاٴمل کریں کہ ان تکلف آمیز توجیهوں کی کیا ضرورت ھے جو سراسر آیات قرآنی کے خلاف ھیں (اگر چہ زیر بجث آیت میں میری نظر سے نھیں گزرا کہ کسی مفسر نے جس کا طریقہٴ تفسیر کیسا ھی مختلف کیوںنہ هو اس آیت کی مادی توجیہہ کی هو،تا ھم جو کچھ ھم نے بیان کیا وہ ایک قاعدہ کلی کے طور پر تھا۔
اس موقع پر لوگوں پر یکدم سکوت طاری هوگیا حاضرین پر سناٹا چھا گیا، تعجب کی وجہ سے ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے آنکھیں پتھرا گئی گویا ان میں جان ھی نھیں رھی لیکن بہت جلد تعجب کے بجائے وحشت ناک چیخ و پکار شروع هوگئی،کچھ لوگ بھاگ کھڑے هوئے کچھ لوگ نتیجے کے انتظار میں رک گئے اور کچھ لوگ بے مقصد نعرے لگارھے تھے لیکن جادوگرں کے منہ تعجب کی وجہ سے کھلے هوئے تھے۔
اس مرحلے پر سب کچھ تبدیل هوگیا جو جادوگر اس وقت تک شیطانی رستے پر گامزن ،فرعون کے ھم رکاب اور موسیٰ علیہ السلام کے مخالف تھے یک دم اپنے آپے میں آگئے اور کیونکہ جادو کے ھر قسم کے ٹونے ٹوٹکے او رمھارت اور فن سے واقف تھے اس لئے انھیں یقین آگیا کہ ایسا کام ھر گز جادو نھیں هوسکتا، بلکہ یہ خدا کا ایک عظیم معجزہ ھے ”لہٰذا اچانک وہ سارے کے سارے سجدے میں گر پڑے “۔[104]
دلچسپ بات یہ ھے کہ قرآن نے یھاں پر ”القی“کا استعمال کیا ھے جس کا معنی ھے گرادیئے گئے یہ اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ وہ جناب موسیٰ علیہ السلام کے معجزے سے اس قدر متاٴثر هوچکے تھے کہ بے اختیار زمین پر سجدے میں جاپڑے ۔
اس عمل کے ساتھ ساتھ جو ان کے ایمان کی روشن دلیل تھا ؛انھوں نے زبان سے بھی کھا:”ھم عالمین کے پروردگار پر ایمان لے آئے“۔[105]
اور ھر قسم کا ابھام وشک دور کرنے کے لئے انھوں نے ایک اور جملے کابھی اضافہ کیا تاکہ فرعون کے لئے کسی قسم کی تاویل باقی نہ رھے،انھوں نے کھا:”موسیٰ اور ھارون کے رب پر“ ۔[106]
اس سے معلوم هوتا ھے کہ عصازمین پر مارنے اور ساحرین کے ساتھ گفتگو کرنے کا کام اگرچہ موسیٰ علیہ السلام نے انجام دیا لیکن ان کے بھائی ھارون علیہ السلام ان کے ساتھ ساتھ ان کی حمایت اور مدد کررھے تھے۔
یہ عجیب وغریب تبدیلی جادوگروں کے دل میں پیدا هوگئی اور انھوں نے ایک مختصر سے عرصے میں مطلق تاریکی سے نکل کر روشنی اور نور میں قدم رکھ دیا اور جن جن مفادات کا فرعون نے ان سے وعدہ کیا تھا ان سب کو ٹھکرادیا ،یہ بات تو آسان تھی، انھوں نے اس اقدام سے اپنی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا،یہ صرف اس وجہ سے تھا کہ ان کے پاس علم و دانش تھا جس کے باعث وہ حق اور باطل میں تمیز کرنے میں کامیاب هوگئے اور حق کا دامن تھام لیا۔
کیا میری اجازت کے بغیر موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے؟
اس موقع پر اس طرف تو فرعون کے اوسان خطا هوچکے تھے اور دوسرے اسے اپنا اقتدار بلکہ اپنا وجود خطرے میں دکھائی دے رھا تھا خاص طور پر وہ جانتا تھا کہ جادوگرو ں کا ایمان لانا حاضرین کے دلوں پر کس قدر موٴثر هوسکتا ھے اور یہ بھی ممکن ھے کہ کافی سارے لوگ جادوگروں کی دیکھا دیکھی سجدے میں گر جائیں، لہٰذا اس نے بزعم خود ایک نئی اسکیم نکالی اور جادوگروں کی طرف منہ کرکے کھا:”تم میری اجازت کے بغیر ھی اس پر ایمان لے آئے هو[107] (۱)
چونکہ وہ سالھا سال سے تخت استبداد پر براجمان چلاآرھا تھا لہٰذا اسے قطعاً یہ امید نھیں تھی کہ لوگ اس کی اجازت کے بغیر کوئی کام انجام دیں گے بلکہ اسے تو یہ توقع تھی کہ لوگوں کے قلب و عقل اور اختیار اس کے قبضہٴ قدرت میں ھیں،جب تک وہ اجازت نہ دے وہ نہ تو کچھ سوچ سکتے ھیں اور نہ فیصلہ کرسکتے ھیں ،جابر حکمرانوں کے طریقے ایسے ھی هوا کرتے ھیں۔
لیکن اس نے اسی بات کو کافی نھیں سمجھا بلکہ دو جملے اور بھی کھے تا کہ اپنے زعم باطل میں اپنی حیثیت اور شخصیت کو برقرار رکھ سکے اور ساتھ ھی عوام کے بیدار شدہ افکار کے آگے بند باندھ سکے اور انھیں دوبارہ خواب غفلت میں سلادے۔
اس نے سب سے پھلے جادوگروں سے کھا:تمھاری موسیٰ سے یہ پھلے سے لگی بندھی سازش ھے ،بلکہ مصری عوام کے خلاف ایک خطرناک منصوبہ ھے اس نے کھا کہ وہ تمھارا بزرگ اور استاد ھے جس نے تمھیں جادو کی تعلیم دی ھے اور تم سب نے جادوگر ی کی تعلیم اسی سے حاصل کی ھے۔ “[108]
تم نے پھلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت یہ ڈرامہ رچایا ھے تا کہ مصر کی عظیم قوم کو گمراہ کرکے اس پر اپنی حکومت چلاؤ اور اس ملک کے اصلی مالکوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کردو اور ان کی جگہ غلاموں اور کنیزوں کو ٹھھراؤ۔
لیکن میں تمھیں کبھی اس بات کی اجازت نھیں دوں گا کہ تم اپنی سازش میں کامیاب هوجاؤ،میں اس سازش کو پنپنے سے پھلے ھی ناکام کردوں گا”تم بہت جلد جان لوگے کہ تمھیں ایسی سزادوں گا جس سے دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں گے تمھارے ھاتھ اور پاؤں کو ایک دوسرے کی مخالف سمت میں کاٹ ڈالوں گا(دایاں ھاتھ اور بایاں پاؤں ،یا بایاں ھاتھ اور دایاں پاؤں)اور تم سب کو (کسی استثناء کے بغیر)سولی پر لٹکادوں گا“۔[109]
یعنی صرف یھی نھیں کہ تم سب کو قتل کردوں گا بلکہ ایسا قتل کروں گا کہ جس میں دکھ،درد،تکلیف اور شکنجہ بھی هوگا اور وہ بھی سرعام کھجور کے بلند درختوںپرکیونکہ ھاتھ پاؤں کے مخالف سمت کے کاٹنے سے احتمالاًانسان کی دیر سے موت واقع هوتی ھے اور وہ تڑپ تڑپ کر جان دیتا ھے۔
لیکن فرعون یھاں پر سخت غلط فھمی میں مبتلا تھا کیونکہ کچھ دیر قبل کے جادوگر اور اس وقت کے مومن افراد نور ایمان سے اس قدر منور هوچکے تھے اور خدائی عشق کی آگ ان کے دل میں اس قدر بھڑک چکی تھی کہ انھوں نے فرعون کی دھمکیوں کو ھر گز ھرگز کوئی وقعت نہ دی بلکہ بھرے مجمع میں اسے دو ٹوک جواب دے کر اس کے تمام شیطانی منصوبوں کو خاک میں ملادیا۔
انھوں نے کھا:”کوئی بڑی بات نھیں اس سے ھمیں ھر گز کوئی نقصان نھیں پہنچے گا تم جو کچھ کرنا چاہتے هو کر لو، ھم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جائیں گے“۔[110]
اس کام سے نہ صرف یہ کہ تم ھمارا کچھ بگاڑ نہ سکوگے بلکہ ھمیں اپنے حقیقی معشوق اور معبود تک بھی پہنچادوگے،تمھاری یہ دھمکیاں ھمارے لئے اس دقت موٴثر تھیں جب ھم نے خود کو نھیں پہچانا تھا،اپنے خدا سے نا آشنا تھے اور راہ حق کو بھلاکے زندگی کے بیابان میں سرگردان تھے لیکن آج ھم نے اپنی گمشدہ گراں بھا چیز کو پالیا ھے جو کرنا چاهو کرلو۔
انھوں نے سلسلہٴ کلام آگے بڑھاتے هوئے کھا: ھم ماضی میں گناهوں کا ارتکاب کرچکے ھیں اور اس میدان میں بھی اللہ کے سچے رسول جناب موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مقابلے میں پیش پیش تھے اور حق کے ساتھ لڑنے میں ھم پیش قدم تھے لیکن”ھم امید رکھتے ھیں کہ ھمارا پروردگار ھمارے گناہ معاف کردے گا کیونکہ ھم سب سے پھلے ایمان لانے والے ھیں“۔[111]
ھم آج کسی چیز سے نھیں گھبراتے، نہ تو تمھاری دھمکیوں سے اور نہ ھی بلند و بالا کھجور کے درختوں کے تنوں پر سولی پر لٹک جانے کے بعد ھاتھ پاؤں مارنے سے۔
اگر ھمیں خوف ھے تو اپنے گزشتہ گناهوں کا اور امید ھے کہ وہ بھی ایمان کے سائے اور حق تعالیٰ کی مھربانی سے معاف هوجائیںگے۔
یہ کیسی طاقت ھے کہ جب کسی انسان کے دل میں پیدا هوجاتی ھے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کی نگاهوں میں حقیر هوجاتی ھے اوروہ سخت سے سخت شکنجوں سے بھی نھیں گھبراتا اور اپنی جان دیدینا اس کے لئے کوئی بات ھی نھیں رہتی۔
یہ عشق کے روشن ودرخشاں چراغ کا شعلہ هوتا ھے جو شھادت کے شربت کو انسان کے حلق میں شہد سے بھی زیادہ شیریں بنادیتا ھے اور محبوب کے وصال کو انسان کا ارفع و اعلیٰ مقصد بنا دیتا ھے۔
بھر حال یہ منظر فرعون اور اس کے ارکان سلطنت کے لئے بہت ھی مہنگا ثابت هوا ھر چند کہ بعض روایات کے مطابق اس نے اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ بھی پہنایا اور تازہ ایمان لانے والے جادوگروں کو شھید کردیا لیکن عوام کے جو جذبات موسیٰ علیہ السلام کے حق میں اور فرعون کے خلاف بھڑک اٹھے تھے وہ انھیں نہ صرف دبا نہ سکا بلکہ اور بھی بر انگیختہ کردیا۔
اب جگہ جگہ اس خدائی پیغمبر کے تذکرے هونے لگے اور ھر جگہ ان با ایمان شہداء کے چرچے تھے بہت سے لوگ اس وجہ سے ایمان لے آئے۔جن میں فرعون کے کچھ نزدیکی لوگ بھی تھے حتٰی کہ خود اس کی زوجہ ان ایمان لانے والوں میں شامل هوگئی۔
فرعون کی بیوی کا نام آسیہ اور باپ کا نام مزاحم تھا۔کہتے ھیں کہ جب اس نے جادوگروں کے مقابلہ میں موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو دیکھا تو اس کے دل کی گھرائیاں نور ایمان سے روشن هوگئیں،وہ اسی وقت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئی ۔وہ ھمیشہ اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھتی تھی۔ لیکن ایمان اور خدا کا عشق ایسی چیز نھیں ھے جسے ھمیشہ چھپایا جاسکے۔جب فرعون کو اس کے ایمان کی خبر هوئی تو اس نے اسے بارھا سمجھایا اور منع کیا اور یہ اصرار کیا کہ موسیٰ کے دین سے دستبردار هوجائے اور اس کے خدا کو چھوڑدے،لیکن یہ با استقامت خاتون فرعون کی خواہش کے سامنے ھر گز نہ جھکی۔
آخر کار فرعون نے حکم دیا کہ اس کے ھاتھ پاؤں میخوں ساتھ جکڑ کر اسے سورج کی جلتی هوئی دھوپ میں ڈال دیا جائے اور ایک بہت بڑا پتھر اس کے سینہ پر رکھ دیں۔جب وہ خاتون اپنی زندگی کے آخری لمحے گزار رھی تھی تو اس کی دعا یہ تھی:
”پروردگارا!میرے لئے جنت میں اپنے جوار رحمت میں ایک گھر بنادے۔ مجھے فرعون اور اس کے عمال سے رھائی بخش اور مجھے اس ظالم قوم سے نجات دے“۔
خدا نے بھی اس پاکباز اور فدار کار مومنہ خاتون کی دعا قبول کی اور اسے مریم(ع) جیسی دنیا کی بہترین خاتون جناب مریم(ع) کے ھم ردیف قرار پائی ھے۔
[1] سورہٴ قصص آیت۷۔
[2] از دیوان پروین اعتصامی۔
[3] سورہ قصص آیت ۸۔
[4] قصص آیت ۹۔
[5] سورہٴ قصص آیت ۹۔
[6] سورہٴ قصص آیت۱۰۔
[7] سورہٴ قصص آیت۱۱۔
[8] سورہٴ قصص آیت۱۱۔
[9] سورہٴ قصص آیت۱۲۔
[10] سورہٴ قصص آیت۱۲۔
[11] سورہٴ قصص آیت ۱۳۔
[12] سورہٴ شعراء آیت۱۸۔
[13] اس واقعہ کی تفصیل آئندہ آئے گی۔
[14] سورہٴ قصص آیت ۱۸۔
[15] سورہٴ قصص آیت ۱۵۔
[16] سورہ قصص آیت۱۵۔
[17] سورہ قصص آیت۱۵۔
[18] سورہ قصص آیت۱۵۔
[19] سورہ قصص آیت۱۵ ۔
[20] سورہ قصص آیت ۱۷
[21] کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ کا م مقام عصمت کے خلاف نھیں ھے ؟
مفسرین نے ، اس قبطی اور بنی اسرائیل کی باھمی نزاع اور حضرت موسی کے ھاتھ سے مرد قبطی کے مارے جانے کے بارے میں بڑی طویل بحثیں کی ھیں درحقیقت یہ معاملہ کوئی اھم اور بحث طلب تھا ھی نھیں کیونکہ ستم پسند وابستگان فرعون نھایت بے رحم اور مفسد تھے انهوں نے بنی اسرائیل کے ہزاروں بچوںکے سرقلم کیے اور بنی اسرائیل پر کسی قسم کا ظلم کرنے سے بھی دریغ نہ کیا اس جہت سے یہ لوگ اس قابل نہ تھے کہ بنی اسرائیل کےلئے ان کا قتل احترام انسانیت کے خلاف هو ۔
البتہ مفسرین کے لئے جس چیزنے دشواریاں پیدا کی ھیں وہ اس واقعے کی وہ مختلف تعبیرات ھیں جو خود حضرت موسی نے کی ھیں چنانچہ وہ ایک جگہ تو یہ کہتے ھیں:
”ھذا من عمل الشیطان “۔
”یہ شیطانی عمل ھے “۔
اور دوسری جگہ یہ فرمایا:
”رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی “۔
”خدایامیں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تو مجھے معاف فرمادے “۔
جناب موسیٰ علیہ السلام کی یہ دونوں تعبیرات اس مسلمہ حقیقت سے کیونکر مطابقت رکھتی ھیں کہ :
عصمت انبیا ء کا مفهوم یہ ھے کہ انبیا ء ماقبل بعثت اور ما بعد عطائے رسالت ھر دو حالات میں معصوم هوتے ھیں “ ۔
لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس عمل کی جو توضیح ھم نے آیات فوق کی روشنی میں پیش کی ھے ، اس سے ثابت هوتا ھے کہ حضرت موسی سے جو کچھ سرزد هوا وہ ترک اولی سے زیادہ نہ تھا انھوں نے اس عمل سے اپنے آپ کو زحمت میں مبتلاکرلیا کیونکہ حضرت موسی کے ھاتھ سے ایک قبطی کا قتل ایسی بات نہ تھی کہ وابستگان فرعون اسے آسانی سے برداشت کرلیتے۔
نیز ھم جانتے ھیںکہ ”ترک اولیٰ“کے معنی ایسا کام کرنا ھے جو بذات خود حرام نھیں ھے۔ بلکہ اس کا مفهوم یہ ھے کہ ”عمل احسن “ترک هوگیا بغیر اس کے کہ کوئی عمل خلاف حکم الٰھی سرزد هوا هو؟
[22] سورہٴ قصص آیت۱۵۔
[23] سورہٴ قصص آیت۱۶۔
[24] سورہ قصص آیت۱۹۔
[25] سورہ قصص آیت ۱۹۔
[26] سورہ قصص آیت ۱۹۔
[27] سورہ قصص آیت۲۱۔
[28] سورہ قصص آیت۲۱۔
[29] بعض لوگ کلمہ ” مدین “ کا اطلاق اس قوم پر کرتے ھیں جو خلیج عقیہ سے کوہ ٖسینا تک سکونت پذیر تھی توریت میں بھی اس قوم کو ” مدیان “کھا گیا ھے ۔
[30] سورہ قصص آیت ۲۲۔
[31] سورہ قصص آیت۲۳۔
[32] سورہ قصص آیت ۲۳۔
[33] سورہ قصص آیت ۲۴۔
[34] سورہ قصص آیت۲۴۔
[35] سورہ قصص آیت ۲۴۔
[36] سورہ قصص آیت ۲۵۔
[37] سورہٴ قصص آیت ۲۵۔
[38] سورہٴ قصص آیت ۲۶۔
[39] سورہ قصص آیت ۲۷ ۔
[40] سورہٴ قصص آیت ۲۷۔
[41] سورہٴ قصص آیت ۲۷۔
[42] سورہ قصص آیت ۲۸۔
[43] سورہ قصص آیت ۲۸۔
[44] سورہ قصص آیت۲۹۔
[45] سورہ قصص آیت ۳۰۔
[46] سورہٴ طہ آیت ۱۲۔
[47] سورہ طہ آیت ۱۷۔
[48] سورہ طہ آیت ۱۸۔
[49] سورہ طہ آیت۱۸۔
[50] سورہٴ قصص آیت ۳۱۔
[51]سورہ قصص آیت۳۱۔
البتہ قرآن کی بعض دوسری آیات میں ” ثعبان مبین“ (واضح اژدھا) بھی کھا گیا ھے ۔(اعراف ۱۰۷ ۔شعراء ۳۲۔)
[52] سورہ قصص آیت۳۱۔
[53] سورہ قصص آیت ۳۲۔
[54] سورہ قصص آیت ۳۲۔
[55] سورہ طہٰ آیت۲۳۔
[56]سورہ طہ ٰآیت۲۷۔
[57] سورہ طہ ٰآیت۲۷۔
[58] سورہ طہ ٰآیت۲۸ ۔
[59] سورہ طہٰ آیت۲۹۔
[60] سورہ طہ ٰآیت۳۱۔
[61] جیسا کہ سورہ مومنون کی آیہ ۴۵ میں بیان هوا ھے : <ثم ارسلنا موسی واخاہ ھارون بایا تنا وسلطان مبین >
[62] جیسا کہ سورہٴ انبیاء کی آیہ ۴۸ میں بیان هوا ھے : <ولقد اتینا موسی وھارون الفرقان وضیاء>
[63]<وو ھبنالہ من رحمتنا اخاہ ھارون نبیا> (سورہ مریم آیت ۵۳)
[64] سورہ طہٰ آیت ۳۱۔
[65] سورہ طہٰ آیت ۳۲۔
[66] سورہ طہٰ آیت ۳۳ تا۳۵۔
[67] سورہ طہٰ آیت ۳۶۔
[68] سورہٴ شعراء آیت۱۶۔
[69] سورہٴ شعراء آیت۱۷۔
[70] سورہٴ شعراء آیت ۱۸۔
[71] سورہٴ شعراء آیت ۱۸۔
[72] سورہٴ شعراء آیت۱۹۔
[73] سورہٴ شعراء آیت۱۹۔
[74] سورہٴ شعراء آیت۲۰۔
[75] سورہء شعراء آیت۲۱۔
[76] سورہٴ شعراء آیت۲۲۔
[77] سورہٴ شعراء آیت ۲۳۔
[78] سورہٴ شعراء آیت ۲۴۔
[79] سورہٴ شعراء آیت ۳۵۔
[80] سورہٴ شعراء آیت ۲۶۔
[81] سورہٴ شعراء آیت۲۷۔
[82] سورہٴ شعراء آیت۲۸۔
[83] سورہٴ شعراء آیت۲۸۔
[84] سورہ شعراء آیت۲۹۔
[85] سورہ شعراء آیت ۳۱ ۔
[86] سورہ شعراء آیت ۳۱۔
[87] سورہ شعراء آیت ۳۲۔
[88] سورہ شعراء آیت ۳۳۔
[89] سورہ شعراء آیت۳۴ ۔
[90] سورہ شعراء آیت۳۵۔
[91] سورہ اعراف آیت ۱۱۰۔
[92] سورہ شعراء ۳۶ تا ۳۶۔
[93] سورہ شعراء آیت ۳۸۔
[94] سورہ شعراء آیت ۳۹۔
[95] سورہ شعراء آیت۴۰۔
[96] سورہ شعراء آیت ۴۱ ۔
[97] سورہ شعراء آیت ۴۲۔
[98] سورہ شعراء آیت ۴۳۔
[99] سورہ اعراف آیت۱۱۵۔
[100] سورہ شعراء آیت۴۴۔
[101] سورہ طہٰ آیت ۶۶۔
[102] سورہٴ طہ اایت ۶۷۔
[103]سورہ طہٰ ، آیت۶۶۔ کیا عصاکا اژدھابن جانا ممکن ھے ؟
[104] سورہٴ شعراء آیت ۴۶۔
[105] سورہٴ شعراء آیت۴۷۔
[106] سورہٴ شعراء آیت ۴۸۔
[107] سورہٴ شعراء آیت ۴۹۔
[108] سورہٴ شعراء آیت ۴۹۔
[109] سورہٴ شعراء آیت۴۹۔
[110] سورہٴ شعراء آیت۴۹۔
[111] سورہٴ شعراء آیت ۵۱۔