یہ بات ظاہر ہے كہ یہ امت ایسی تعلیمات كی پروردہ ہے جو توسط و تعادل كی حامل ہے۔قرآن كی یہ آیت ختمی امت اور ختمی تعلمیات كا ذكر صرف ایك كلمہ كے ذریعہ كردیتی ہے اور وہ وسطیت و تعادل ہے۔
ہاں ایك سوال پیدا ہوتا ہے كہ كیا تمام انبیاء كی تعلیمات میں وسطیت اور تعادل موجود نہیں رہا ہے۔اس سوال كے جواب میں كچھ كہنا ضروری ہے۔
اس روئے زمین پر انسان ہی ایك جاندار مخلوق نہیں ہے اور صرف وہی اجتماعی انداز میں زندگی بسر كرنے كا عادی نہیں ہے، دوسری جاندار مخلوقاتبھی ہیں جو مقررہ معمولات، ایك خاصنظم اور ڈھانچے كے مطابق زندگی بسر كرتی ہیں انسان كے بر عكس ان كی زندگی جنگل كے زمانے پتھر كے زمانے لو ہے كے زمانے ایٹم كے زمانے سے آشنا نہیں ہے۔روز اول سے جب سے كہ وہ وجود میں آئی ہیں ان كی زندگی كا ایك ہی منظم ڈھانچہ ہے یہ انسان ہی ہے جو اس آیت قرآنی كے مطابق"
"و خلق الانسان ضعیفاً" 5
ترجمہ:"انسان كمزور طپیدا كی گیا ہے۔"
اپنی زندگی كا آغاز صفر سے كرتا ہے اور ترقی كے لامتناہی راستے پر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔انسان فطرت كا ایك ہونہار اور بالغ فرزند ہے اسی لئے اسے آزادی و خود مختاری حاصل ہے اسے كسی مستقل ناظم و سرپرست اور ایسی جبری ہدایت كی ضرورت نہیں جس پر عمل كرنے كے لئے كوئی پوشیدہ اندرونی قوت اسے مجبور كرے۔دوسرے جاندار جو كچھ جبلت كے سامنے سر جھكا كر انجام دیتے ہیں وہ انسان آزادانہ ماحول میں عقل و قانین كے مطابق انجام دیتا ہے:
"انا ہدینٰہ السبیل اما شاكراًو اما كفوراً" 6
ترجمہ:"ہم نے اسے راستہ دكھا دیا خواہ شكر كرنے والا ہے یا كفر كرنے والا۔"
انسان میں انحراف و سقوط اور جمود و انحطاط پایا جاتا ہے جبكہ دوسرے جاندار ایك حالت پر قائ رہتے ہیں۔وہ اس بات پر قدرت نہیں ركھتے كہ سوچ سمجھ كر كہ خود آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں، سیدھی جانب كا رخ كریں یا بائیں سمت كا تیز چلیں یا آہستہ اس كے بر عكس انسان اپنی عقل و شعور سے كام لے كر آگے بھی قدم بڑھا سكتا ہے پیچھے بھی ہٹ سكتا ہے وہ دائیں یا بائیں كسی بھی سمت مڑسكتا ہے وہ تیز بھی چل سكتا ہے اور آہستہ بھی وہ ایك بندۀ شاكر بھی بن سكتےا ہے اور سركس كافر بھی۔اس طرح وہ افراط و تفریط كے درمیان كحڑا نظر آتا ہے۔
انسانی معاشرہ كبھی اس طرح عادات كا اسیر اور جامد و ساكن ہوجاتا ہے كہ كوئی موثر طاقت ہی اس كی زنجیروں كو كاٹ كر اسے حركت میں لاسكتی ہے۔كبھی انسانی معاشرہ پر حرص و طمع اور نئی راہوں پر چلنے كی خوہش اس طرح مشلط ہوجاتی ہے كہ وہ فطرت كے اصول و قوانین تك كو بھلا بیٹھتا ہے اور كبھی وہ غرور و خود پرستی اور تكبر میں غرق ہوجاتا ہے، اسے خود بینی كی راہ سے ہٹا كر زہد و پرہیزگاری كی راہ پر ڈالنے كے لئے كسی اثر انداز ہونے والی طاقت كی ضرورت ہوتی ہے تاكہ وہ اپنے حقوق كے ساتھ دوسروں كے حقوق كا بھی خیال ركھ سكے جب یہی انسانی معاشرہ آرام طلبی مادر پدر آزادی اور ظلم و ستم كی راہ پر چل پڑتا ہے تو اس كے ضمیر كو جھنجھوڑ نے اور اس میں حقوق كا شعور احساس كے پیدا كرنے كے سوا اور چارہ نہیں ہوتا۔
یہ بات واضح ہے كہ تیزی كے ساتھ پیش قدمی ہو یا سست روی بائیں جانب میلان ہو یا دائیں جانب ان میں سے ہر ایك كے لئے ایك خاص لائحہ عمل كی ضرورت ہوتی ہے۔اگر معاشرہ كا انحراف دائیں جانب ہو تو اصلاح كرنے والی طاقت كو اسے بائیں جانب موڑنے كی كوشش كرنی ہوگی دورسری صورت میں اسے اس كے بر عكس عمل كرنا ہوگا۔
ہی وجہ ہے كہ كسی ایك زمانے اور كسی ایك قوم كی اصلاح كے لئے كوئی تدبیر دوا كی حیثیت ركھتی ہے تو وہی تدبیر دوسرے دور اور دوسری قوم كے لئے ایك مرض مہلك میں مبتلا كرنے كا سبب بن سكتی ہے چنانچہ بظاہر مختلف انبیاء كے درمیان ایك اختلاف نظر آتا ہے كسی پیامبر (ص) كو جنگ كی راہ اختیار كرنی پڑتی ہے تو كسی كو صلح كی كوئی نبی نرمی سے كام لیتا ہے تو كوئی سختی سے كسی پیغمبر كو انقلابی انداز میں كام كرنا پڑتا ہے تو كسی كو اعتدال و سلامتی كی راہ اپنانی پڑتی ہے۔ایك پیغمبر كا سارا دور ابتلاؤ آزمایش سے بھرا ہوتا ہے تو دوسرے پیغمبر كے حصے میں فتح و نصرت بھی آتی ہے۔انبیاء كے درمیان اختلافات كا تعلق ان كے اس روئے سے ہے جو وہ اپنے زمانے كے حالات كے پیش نظر اختیار كرتے ہیں ورنہ ہدف كے اعتبار سے ان كے درمیان كوئی اختلاف نہیں ہے ہدف تمام انبیاء كا یك ہی ہے اور راستہ وہی صراط مستقیم ہے۔
قرآن كریم نے قصص انبیاء كے ضمن میں پوری طرح اس بات كی نشان وہی كی ہے كہ پیغمبروں میں سے ہر ایك مبداء و معاد سے متعلق اپنی مشترك تعلیمات كے تحت كسی ایك خاص نكتہ پر زور دیتا ہے وہ ایك مخصوص لائحہ عمل كے اجراء پر مامور ہوتا ہے یہ بات قصص قرآنی كے مطالعہ سے بخوبی روشن ہوجاتی ہے۔
مصلحین جب كسی تیزی سے آگے قدم بڑھانے والے یا پسماندہ معاشرہ میں دائیں یا دائیں جانب مائل معاشرہ میں ظہور كرتے ہیں اور اصلاح كا كام شروع كرتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں كہ ایك متعین لائحہ عمل صرف ایك محدود مدت كے لئے قابل اجراء ہوتا ہے اور معاشرہ كسی بھی نوعیت كا ہوا سے راہ عدل پر لانے كے لئے اس سے زیادہ جدوجہد كرنی پڑتی ہے جتنی كہ دوسری جانب سے اسے انحطاط و انحراف كی زاہ پر ڈالنے كے لئے كی جاتی ہے۔
ان توضیہحات كے بعد ہم زیر نظر آیت كے مفہوم كو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سكتے ہیں۔
پیغمبر اسلام كی رسالت تمام دوسرے انبیاء كی رسالتوں سے ان معنوں میں فرق و امتیاز ركھتی ہے كہ اس كی حیثیت قانون كی ہے كسی وقتی لائحہ عمل كی نہیں انسانیت كے لئے آپ كا لایا ہوا اساسی قانون كسی ترقی پسند یا رجعت پسندیدہ دائیں بازو یا بائیں بازو كی جانب مائل معاشرہ كے لئے مخصوص نہیں ہے۔
اسلام ایك جامع اور ہمہ گیر نظام حیات ہے جو ہر موقع و محل كے لئے كار آمد اور زندگی كے تمام جزئی طریقوں پر حاوی ہے۔انبیاء كسی ایك معاشرہ كے لئے مبعوث كئے جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ كی طرف سے اس معاشرہ كے لئے ایك مخصوص لائحہ عمل لے كر آتے تھے۔اسلام كی آمد كے بعد علماء اور امت مسلمہ كے دینی رہنماؤں كو بھی اسی طرح كام كرنا چاہیے جس طرح انبیاء نے انجام دیا تھا لیكن علماء و مصلحین اور انبیاء كے كام كے درمیان فرق یہ ہے كہ علماء وحی اسلام كے ابدی سرچشمے سے ہدایت حاصل كركے ایك خاص لائحہ عمل وضع كرتے ہیں اور اس كے نفاذ كی كوشش كرتے ہیں۔
قرآن دوسری آسمانی كتابوں كی وقتی اور محدود تعلیمات كی روح اپنے اند لئے ہوئے ہے۔یہی وجہ ہے كہ قرآن خود آسمانی كتابوں كا محافظ و نگہبان قرار دیتا ہے:
"و انزلنا الیك الكتٰاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الكتٰب و مہیمناً علیہ" 7
ترجمہ:"پھر اے نبی (ص) ہم نے تمہاری طرف یہ كتاب بھجی جو حق لے كر آئی ہے اور الكتاب میں سے جو كچھ اس كے آگے موجود ہے اس كی تصدیق كرنے والی اور اس كی محفظ و نگہبان ہے۔"
اسلامی مخصوص سے یہ بات ثابت ہے كہ تمام انبیاء جو ایك كلی و خاتمی نبوت اور ایك اساسی قانون كے پیشرو كی حیثیت ركھتے ہیں اس بات كی پابند رہے ہیں كہ وہ اپنی اپنی امتوں كو ختم نبوت كے آخری دور میں دین كے اتمام و تكمیل كی خوشخبری دیں، اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں تمام پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا ہے۔
نہج البلاغہ كے پہلے خطبے میں اس كا ذكر بڑی عمدگی كے ساتھ كیا گیا ہے:
ولم یخل سبحانہ خلقہ من نبی مرسل اور كتاب منزل اور حجہ لازمہ اور محجہ قائمہ رسل لاتقصیر بھم قلہ عددہم و لاكثرہ المكذبین لہم و سلفت الاباء خلفت الابناء الی ان بعث اللہ محمدا رسول اللہ (ص) من سابق سعی كہ من بعدہ اوغا بر بر عرفہ من قبلہ علی ذلك نسلت القرون و مضت الدھور لانجاز عدتہ و تمام نبوتہ ماخوذا علی النبین، میثاقہ، مشہور سماتہ كریما میلادہ۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق كو كبھ كسی پیغمبریا كسی كتاب آسمانی یا كافی دلیل یا كسی روش طریقے سے خالی نہیں ركھا ہے، پیغمبروں كو ان كی قلت تعداد اور ان كے مخالفین كی كثرت تعداد نے كبھی ادائے فض سے نہیں روكا، ہر پیغمبر اپنے سے پہلے گزرنے والے پیغمبر سے پوری طرح متعارف رہا ہے اور خود اس كی آمد كی بشارت سابق پیغمبر كی زبانی لوگوں كو ملتی رہی ہے اسی طرح ایك نسل كے بعد دوسری نسل آتی رہی اور زمانہ گزر تا چلا گیا، یہاں تك كہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے كے مطابق محمد (ص) كو سلسلہ نبوت كی تكمیل كے لئے بھیجا، اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے آپ كے بارہ میں پہلے ہی عہد و پیمان لے ركھا تھا۔آپ كی نشانیاں مشہور و معروف ہوچكی تھیں اور آپ كی ولادت ایك ولادت عظیم تھی۔
اس بارے میں رسول اكرم (ص) كے دو بڑے عمدہ كلمے ہم یہاں نقل كرتے ہیں:
"نحن الاخرون السابقون یوم القیامہ"
"ہم تمام پیغمبروں اور امتوں كے بعد دینا میں آئے ہیں لیكن آخرت میں ہم سب سے آگے ہوں گے اور سب ہمارے پیچھے آئیں گے۔"
آپ كا ایك دوسرا ارشاد یہ ہے:
"آدم و من دونہ تحت للوئی یوم القیامہ"
"قیامت كے دن تمام پیغمبر میرے پرچم تلے ہوں گے۔"
قیامت كے دن اس پیشروی اور پس روی اور رسول اكرم (ص) كے پرچم تلے تمام انبیاء كے ہونے كا اصل سبب یہ ہے كہ تمام انبیاء رسول اكرم (ص) كی بعثت كے لئے مقدمہ ہیں تو آپ نتیجہ سابق انبیاء پر جو وحی نازل ہوئی وہ ایك وقتی لائحہ عمل كے دائرہ تك محدود تھی اور رسول اكرم (ص) پر نازل ہونے والی وحی ایك كلی و ابدی قانون اساسی كے لئے تھی۔مسلمان بزرگوں نے رسول اكر (ص) كے ان دو عمدہ كلمات اور معارف اسلامی كے اس اصولسےہدایت حاصل كرتے ہوئے كہ جو كچھ اس دنیا میں ظاہر ہوتا ہے اس دنیا كے واقعات كا ملكوتی ظہور ہے بڑی عمدہ اور دلپذیر باتیں كہی ہیں:
و انی وان كنت ابن آدم صورۃ
فلی فیہ معنی شاہد بابوتی
و كلہم عن سبق معنای دائیر
بدائیرئی او وارد من شریعتی
و ما منہم الا و قد كان داعیا
بہ قومہ للحق عن تبعیتی
و قبل فعالی دون تكلیف ظاہری
ختمت بشرعی المضحی كل شرعۃ
مولوی نے بھی یہی مضمون باندھا ہے:
ظاہراً آن شاخ اصل میوہ است
باطناً بھر ثمر شد شاخ
گر نبودی میل و امید ثمر
كی نشاندہی باغبان بیخ شجر
پس بمعنی آن شجر از میوہ زاد
گر بصورت از شجر بودش بار
مصطفیٰ زین گفت كارم و انبیاء
خلف من باشند در زیر لوا
بھر این فرمودہ است آن زد فنون
رمز نحن آلاخرون و السابقون
گر بصورت من ز آدم زادہ ام
من بعمنی جد جد افتادہ ام
پس ز من زائید در معنی پدر
پس ز میوہ زاد در معنی شجر
اول فكر آخر آمد در عمل
خاصہ فكری كو بود وصف ازل
شبستری كہتا ہے:
كی خط است از اول تابہ آخر
بر او خلق خدا جمل مسافر
در این رہ انبیاء چون سار بانند
دلیل و رہنمای كاروانند
و زیشان سید ماگشتہ سالار
ہم او اول ہم او آخر در این كا
احد درمیم احمد گشت ظاہر
دراین دور اور آمد عین آخر
ز احمد تا احد یك میم فرق است
جھانی اندرین یك میم غرق است
بر او ختم آمد پایان این راہ
بدو منزل شدہ ادعوا الی اللہ
مقام دلكشایش جمع جمع است
جمال جانفرایش شمع جمع است
شدہ اور پیش و دلہا جملہ در پی
گرفتہ دست جادہا دامن وی
قرآن كریم نے بعد میں آنے والے انبیاء (اور بدرجہ اولی خاتم انبیاء) پر سابق انبیاء كی جانب سے ایمان لانے ان كی نبوت كو تسلیم كرنے بلكہ ان كی آمد كو خوشخبری دینے كا اور ذمہ داری كا كہ وہ اپنی امت كو بھی ایسا كرنے كی ہدایت كریں اور انہیں بعد میں آنے والے انبیاء كی تعلیمات كو قبول كرنے كے لئے تیار كریں اور اسی طرح بعد میں آنے والے پیغمبروں كی جانب سے پیشرو پیغمبروں كی تائید و تصدیق كا اور اللہ تعالیٰ كا اپنے پیغمبروں سے اس خوشخبری اس تسلیم تائید تصدیق پر پختہ عہد لینے كا اس طرح ذكر كیا ہے:
"و اذ اخذ اللہ میثاق النبین لما اتییكم من كتاب و حكمۃ ثم جاء كم رسول مصدق لما معكم لتومنن بہ و لتنصرنہ قال اقررتم و اخذتم علی ذلكم اصی قالوآ اقررنا قال فاشہدوا وانا معكم من الشہدین" 8
ترجمہ:"یاد كرو اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا كہ"آج میں نے تمہیں كتاب اور حكمت و دانش سے نوازا ہے۔كل اگر كوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اس تعلیم كی تصدیق كرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے تو تم كو اس پر ایمان لانا ہوگا اس كی مدد كرنی ہوگی"یہ ارشاد فرما كہ اللہ نے پوچھا"كیا تم اس كا اقرار كرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد كی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو۔"انہوں نے كہا"ہاں ہم اقرار كرتے ہیں"اللہ نے فرمایا "اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گاوہ ہوں۔"
نيوتوں كا ایك رشتہ میں بندھا ہونا اور ایك نبوت كا دوسری سے مربوط ہوتے چلے جانا یہ ظاہر كرتا ہے كہ نبوت تكمیل كی جانب ایك تدریجی سفر ہے جس كا آخر حلقہ اس كی سب سے اونچی چوٹی ہے۔عارفین اسلام كہتے ہیں:
"الخاتم من ختم المراتب باسرھا"
عنی پیغمبر خاتم وہ ہے جس نے تمام مراحل طے كرلیے ہیںاور وحی كی رو سے كوئی ایسی راہ باقی نہیں رہ گئی ہے جسے اس نے طے نہ كیا ہو اور كوئی ایسا نكتہ باقی نہیں رہ گیا ہے جس كی اس نے وضاحت نہ كی ہو۔اگر ہم یہ فرضكر لیں كہ كسی علم سے متعلق تمام مسائل حل ہوچكے ہیں تو پھر اس شعبہ میں كسی نئی تحقیق یا كسی نئے انكشاف كی گنجائش باقی نہیں رہتی۔وحی سے متعلق مسائل كا معاملہ بالكل ایسا ہی ہے۔خدا كے آخری دستور كے آجانے كے بعد كسی نئے انكشاف اور كسی نے پیغمبر كی ضرورت باقی نہیں رہتی۔محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كے ذریعہ جو كچھ انسنا پر منكشف ہوا ہے، اسے ایك ایسے كامل ترین مكاشفہ كی حیثیت حاصل ہے جو كسی انسنا كے دائرہ امكان میں ہو سكتا ہے یہ بات واضح ہے كہ ایك ایسے مكمل مكاشفہ كے بعد دوسرا جو بھی مكاشفہ ہو گا، وہ دار اصل پہلے سے طے كردہ راہ كی ہی ایك چیز ہو گی اس كے ساتھ كوئی نئی بات نہیں ہوغی، آخری بات تو وہی ہے جو اس كامل ترین مكاشفہ میں آچكی ہے:
"و تمت كلمت ربك صدقاً و عدلاً لامبدل لكلمٰتہ و ہو السمیع العلیم" 9
ترجمہ:"تمہارے رك كی بات سچائی اور انصاف كے اعتبار سے كامل ہے كوئی اس كے فرامین كو تبدیل كرنے والا نہیں ہے اور وہ سب كچھ سنتا اور جانتا ہے۔"
مرحوم فیض نے اپنی كتنا علم الیقین كے 10 پر كسی بزرگ كا قول نقل كیا ہے:
"انسانی فطرت كا ہدف و مقصود و قرب الٰہی كے مقام تك پہنچنا ہے اور پیغمبروں كی رہنمائی كے بغیر ممكن نہیںہے۔اس اعتبار سے نبوت نظام زندگی كا ایك حصہ قرار پاتی ہے لیكن اس كا مقصود اور ہدف سب سے اونچا مرتبہ اور نبوت كا آخری درجہ ہے نہ كہ نبوت كا اولین درجہ، سنت الٰہی كے مطابق نبوت بتدریج درجہ كمال تك پہنچتی ہے جیسے كہ ایك عمارت بتدریج مكمل ہوتی ہے۔عمارت كی تعمیر كا ہدف اس كے پایے اور دیواریں نہیں ایك مكمل مكان ہوتا ہے، نبوت كا معاملہ بھی ایسا ہی ہے نبوت كا ہدف اس كی تكامل صورت ہے یہی وجہ ہے كہ نبوت كا سلسلہ ایك جگہ پہنچ كر ختم ہو جاتا ہے اور مكلم ہو جاتا ہے۔
وہ مزید كسی اضافے كو قبول نہیں كرتا كیونكہ تكمیل كے بعد كوئی اضافہ و كمال كے منافی ہو تا ہے اور اس كی حیثیت ایك زائد انگلی كی سی ہو جاتی ہے، پیغمبر اكرم (ص) كی معروف حدیث میں اس جانب اشارہ كیا گیا ہے، آپ نے فرمیا نبوت ایك مكان كی مانند ہے جو تیار ہو چكا ہے لیكن اس كے مكمل ہو ے میں سرف ایك اینٹ كی جگہ باقی رہ گئی ہے اس جگہ كو میں ہی بھرنے والا ہوں یا میں ہی اس آخری اینٹ كی جگہ باقی رہ گئی ہے اس جگہ كو میں ہی بھرنے والا ہوں یا میں ہی اس آخری اینٹ كا نصب كرنے والا ہوں!
ہم نے گذشتہ صفحات میں جو كچھ لكھا ہے، وہ عقیدہ ختم نبوت كے پس منظراور اس كی بنیادون كی جانب رہنمائی كے لیے كافی ہے۔
یہ بات واضح ہوگئی كہ انسانی فطرت میں دین كی طلب وہ بنیاد ہے جس پر عقیدۀختم نبوت استوار ہوتا ہے تمام انسانوں كی فطرت ایك ہے، تكمیل انسانیت كا سفر ایك با مقصد سفر ہے جو ایك متعین اور سیدھے راستہ جاری ہے ۔اس اعتبار سے دین حق، جو فطرت كے تقاضوں كی وضاحت كرتا ہے اور انسان كی راہ راست كی جانب رہنمائی كرتا ہے، صرف ایك ہی ہوسكتا ہے ۔ایك طریق زندگی جو انسانی فطرت كے مطابق ہو، جامع اور كلی ہو اور ہر طرح كی تبدیلی و تحریف سے محفوظ ہو اور جو مسائل كی اچھی طرح تشخیص كر سكے اور جسے اچھی طرح منطبق كیا جاسكے اور عمل و نفاذ كے مرحلے میں ہمیشہ رہنمائی كرسكے اور حالات كے مطابق مختلف طریقوں لائحہ عمل اور بے شمار جزئی قوانین كے لئے سرچشمہ ثابت ہوسكے انسانی فطرت كا ایك اہم تقاضا اور انسان كی ایك بنیادی ضرورت ہے آئدہ مضامین اس پہلو كو بہتر طریقے پر واضح كریں گے ۔
اب ہم ان سوالات كا جواب تلاش كرتے ہیں جن كی طرف ابتدا میں اشارہ كیا گیا تھا۔
پہلا سوال جس كے سبب ختم نبوت كا عقیدہ وجود میں آیا وہ عالم غیب اور انسان كے درمیان رابطے سے تعلق ركھتا ہے وہ سوال یہ ہے كہ سب سے پہلے دور كے انسان نے اپنی جہالت اور بے علمی كے باوجود وحی و الہٰام كے راستے سے عالم غیب كے ساتھ كس طرح رابطہ پیدا كرلیا اور اس پر آسمان كے دروازے كیسے كھل گئے؟ جبكہ ترقی یافتہ بعد كا انسان اس رحمت سے محروم رہا اور اس پر آسمان كے دروازے بند ہوگئے۔
كیا فی الواقع انسان كی روحانی اور باطنی صلاحیتیں كم ہوگئی ہیں اور وہ اس اعتبار سے تنزل میں چلا گیا ہے۔
یہ شبہ اس خیال سے پیدا ہوا ہے كہ عالم غیب كے ساتھ معنوی ربط و تعلق انبیاء كے ساتھ مخصوص ہے اس لئے سلسلہ نبوت كے منقطع ہونے كا لازمی نتیجہ عالم غیب اور عالم انسانی كے درمیان روحانی اور معنوی رابطے كے انقطاع كی صورت میں ظاہر ہوگا۔
لیكن یہ خیال اپنی كوئی بنیاد نہیں ركھتا۔قرآن كریم بھی غیب اور ملكوت كے ساتھ اتصال كے درمیان اور مقام نبوت كے درمیان لازم و ملزوم كے تعلق كا قائل نہیں ہے جیسا كہ خرق عادت كو وہ پیغمبری كی واحد دلیل تسلیم نہیں كرتا، قرآن كریم ایسے اشخاص كا بھی ذكر كرتا ہے كہ ان كی معنوی زندگی ایسی طاقت سے بہرہ مند رہی ہے كہ انہوں نے فرشتوں كے ساتھ ہمكلامی كی ہے اور ان سے خارق العادت (غیر معمولی) امور انجام پائے ہیں حالانكہ وہ اشخاص نبی نہیں تھے۔اس كی بہترین مثال عمران كی بیٹی، عیسی مسیح (ع) كی ماں مریم ہے۔قرآن نے ان كے بارے میں حیرت انگیز واقعات كا ذكر كیا ہے۔قرآن موسیٰ (ع) كی والدہ كے بارے میں بھی كہتا ہے ہم نے اس كی طرف وحی بھیجی كہ موسیٰ (ع) كو دودہ پلائے اور جب اسے موسیٰ (ع) كے بارے میں كسی خوف كا احساس ہوا تو اسے دریا میں بہادے ہم اسے محفوظ ركھ كر تیری طرف واپس لوٹا دیں گے ہمیں معلوم ہے كہ عیسیٰ (ع) كی ماں پیغمبر تھیں اور نہ موسیٰ (ع) كی والدہ۔
حقیقت یہ ہے كہ ملكوتی حقائق كے غیب و شہود كے ساتھ اتصال، آواز غیبی كا سننا اور بالاخر غیب سے خبر كا پانا نبوت نہیں ہے، نبوت پیغام كا لانا ہے ہر دو شخص جسے غیب كی خبر مل جائے پیغام كا لانے والا نہیں ہوتا۔
قرآن اشراق اور الہٰام كا درازہ ان تمام لوگوں پر كھلتا ہے جو اپنے باطن كو پاك كرلیتے ہیں:
"ان تتقوا اللہ یجعل لكم فرقاناً" 11
ترجمہ:"اگر تم خدا ترسی اختیار كرو گے تو اللہ تمہارے لئے كسوئی بہم پہنچادے گا۔"
والذین جاھد و افینا لنھدینھم سبلنا 12
ترجمہ:جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ كریں گے انہیں ہم اپنے رستے دكھائیں گے۔
اسی فلسفہ كے نقطہ نظر سے معنوی اور عرفانی زندگی زندگی كا ایك نمونہ پیش كرنے كے لئے نہج البلاغہ كے ایك خطبہ كچھ حصہ یہاں نقل كرنا كافی ہوگا۔
نہج البلاغہ كے خطبہ ۲۲۰میں اس طرح بیان كیا گیا ہے۔
"ان اللہ تعالیٰ جعل الذكر جلاء للقوب تسمع بہ بعد الوقرۃ و تبصربہ بعد العشوŭ و تنقادبہ بعد المعاندŭ و ما برح للہ عزت آلائہ فی البرھۃ بعد البرھۃ و فی ازمان الفترات عبادنا جاہم فی فكر ہم و كلمھم فی ذات عقولہم"
ترجمہ:"اللہ تعالیٰ نے اپنی یاد كو دلوں كا صیقل قرار دیا ہے۔دل بہرے ہوجانے كے بعد بھی اس ذكر كے ذریعہ سننے والے اور اندھے ہوجانے كے بعد دیكھنے والے اور سركشی و عناد كی راہ پر چل پڑنے كے بعد بھی مطیع و فرمانبردار ہو جاتے ہیں۔ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے كہ زمانے كے ہر ایك حصے میں اور ان زمانوں میں جبكہ لوگوں كے درمیان كوئی پیغمبر موجود نہ ہو اللہ تعالیٰ كے ایسے بنے موجود رہے ہیں آج بھیء موجود ہیں جن كے دلوں میں وہ كوئی راز كی بات ڈالتا رہا ہے اور ان كی عقلوں كی راہ سے ان كے ساتھ بات كرتا ہے۔"
رسول اكرم (ص) سے روایت ہے:
"ان للہ عباداً لیسوا بانبیاء یغبط ہم النبوŭ"
"اللہ تعالیٰ كے ایسے بندے بھی موجود ہیں كہ وہ پیغمبر نہیں ہیں لیكن نبوت ان پر رشك كرتی ہے۔"
شیعہ ائمہ اطہار (ع) كی باطنی ولایت و امامت كے قائل ہیں جبكہ وہ انہیں نبی نہیں سمجھتے۔اس سے بات بالكل واضح ہوجاتی ہے۔
عارفین اسلام نے عرفانی اصطلاحات میں معنی سیرو سلوك كے مراتب كو چار مرحلوں میں تقسیم كیا ہے ہم طول كلام سے بچنے كے لئے اس كے صرف دو مرحلوں كی طرف اشارہ كرتے ہیں:
الف) سفر از خلق بہ حق (مخلوق كی طرف سے خالق كی جانب سفر)
ب) سفر حقبہ خلق (خالق كی طرف سے مخلوق كی جانب سفر)
مخلوق كی جانب سے خلاق كی طرف سفر پیغمبروں كے لئے مخصوص نہیں ہے۔پیغمبر تو معبوث ہی اسی لئے ہوئے ہیں كہ اس سفر میں انسان كی مدد كریں، جو كچھ پیغمبروں كے لئے مخصوص ہے، وہ خالق كی جانب سے مخلوق كی جانب سفر ہے یعنی وہ مخلوق كی دستگیری اور ارشاد ہدایت پرمامور ہیں اس سے مراد پیغمبر كی كثرت كی جانب واپسی ہے تا كہ اسے وحدت كی راہ دكھا سكے۔
صدر المتالھین 13 پر لكھتے ہیں:
"وحی یعنی پیغمبری اور منصب نبوت كے لئے قلب و سماعت پر فرشتے كا نزول منقطع ہو چكا ہے اور اب كسی شخص پر كوئی فرشتہ نازل مہیں ہوگا اور اسے كسی فرمان الٰہی كے جاری كرنے پر مامور نہیں كیا جائے گا، كیونكہ "اكلمت لكم دینكم" كے حكم كے تحت جو كچھ وحی كے راستے انسان تك پہنچتا تھا وہ پہنچ چكا ہے لیكن الہام و اشراق كا دروازہ كبھی بند نہیں ہوا ہے اور نہ آئند ہوگا اس راہ كا مسدوء ہونا ممكن نہیں۔"
اس سلسلے میں پہلے بہت كچھ كہا جا چكا ہے اس كا نقل مرنا موجب ظوالت ہوگا۔ہمارے زمانے كے دانشمندوں میں سے عالمہ اقبال نے ایك بڑی لطیف بات كہی ہے۔اقبال نے نبی اور عارف كے درمیان (ان كے قول كے مطابق مرد باطنی) فرق كو اس طرح واضح كیا ہے۔
ایك مرد عارف تجرنہ اتحادی (وصول بہ حق) سے حاصل كرنے والے اطمینان و سكون كے بعد حیات دنیوی كی جانب واپسی كو پسند نہیں كرتا۔اگر وہ ضرورت كی بنا پر واپس بھی آتا ہے تو انسانیت كے لئے اس كی واپسی چنداں سودمند نہیں ہوتی لیكن خلق كی طرف پیغمبر كی واپسی ثمر بخش اور تخلیقی پہلو كی حامل ہوتی ہے۔پیغمبر واپس آتا ہے اور وقت كے دھارے میں اتر جاتا ہے تاكہ تاریخ كے دھارے كو قابو میں لائے اور اس طرح كمال مقاصد سے ایك جہاں تازہ پیدا كرے۔ایك مرد عارف كے لیے تجربہ اتحادی (وصول بہ حق) سے حاصل ہونے والا سكون ایك انتہائی مرحلہ ہے اور پیغمبر كے لئے اس كی روحانی قوت كا بیدار ہونا ہے جو ساری دنیا كو ہلا كر ركھ دیتی ہے۔یہ قوت ایك ایسے اندازے كے ساتھ ظاہر ہوتی ہے كہ عالم انسانی میں ایك مكمل انقلاب برپا كردیتی ہے پیغمبری كو ایك ایسی باطنی خود آگاہی ركھنے والی نوع سے تعبیر كیا جاسكتا ہے كی اس میں تجربہ اتحادی (وصول بہ حق) اپنی حدود سے باہر نكلنے كے قریب پہنچ جاتا ہے اور ایسے مواقع كی تلاش میں ہوتا ہے كہ اجتماعی زندگی كی طاقتوں كو از سر نو توجیہ كرے یا انہیں ایك تازہ شكل دے!
پس انقطاع نبوت سے مراد ارشاد و ہدایتر كے لیے خدا كی طرف سے ماموریت كا منقطع ہونا ہے۔خدا كی طرف سفر كرنے والوں اور سالكوں كے لیے معنوی فیض كا منقطع ہونا نہیں۔
اگر ہم نے یہ گمان كیا كہ اسلام نے نبوت كے اعلان كے ساتھ معنوی زندگی كی بھی نفی كردی ہے تو ہم سخت غلطی كریں گے۔
دوسرا سوال یہ ہے كہ پیغمبران كرام بحثییت مجموعی دو بڑی ذمہ داریوں كو پورا كرتے رہے ہیں۔وہ خدا كی طرف سے انسان كے لیے قانون اور دستور العمل لاتے رہے ہیں وہ دوسرے یہ كہ وہ لوگوں كو خدا كی طرف بلانے كے ساتھ انہیں اس دور اور زمانے كے الٰہی دستور العمل پر كاربند ہونے كی دعوت دیتے رہے ہیں۔پیغمبروں كی اكثریت اسی دوسرے فریضے كے انجام دینے پر مامور رہی ہے۔ایسے پیغمبروں كی تعداد بہت كم ہے جن كو قرآن اولوالعزم قرار دیتا ہے اور جن كے ذریعے قانون اور دستور العمل بھیجا گیا ہے۔اس اعتبار سے نبوتیں دو قسم كی رہی ہیں ایك نبوت تشریعی اور دوسری نبوت تبلیغی …تشریعی پیغبر جن كی تعداد بہت تھوڑی ہے وہ صاحب شریعت و قانون انبیاء كہلاتے ہیں جبكہ تبلیغی پیغمبروں كا كام صاحب شریعت پیغمبروں كی تعلیمات كو عام كرنا اور ان ہی كے مطابق تعلیم و ارشاد كا كام انجام دینا رہا ہے۔اسلام نے ختم نبوت كا اعلان كركے نہ صرف تشریعی نبوت بلكہ تبلیغی نبوت كے سلسلے كوبھی ختم كردیا ہے۔آخر ایسا كیوں كیا گیا؟ امت محمد (ص) اور ملت اسلامیہكو پیغمبروں كے ہدایت و ارشاد كے اس سلسلے سے كیوں محروم كیا گیا؟
بلفرض ہم نے یہ بات تسلیم كرلی كہ تكمیل اتمام اور جامعیت و كلیت كی بنا پر تسریعی نبوت كا سلسلہ منقطع كردیا گیا لیكن تبلیغی نبوت كے سلسلے كو كس حكمت و فلسفے كی بنا پر ختم كیا گیا؟
حقیقت یہ ہے كہ نبوت اور ہدایت وحی كی اصل ذمہ داری یعنی وہی پہلی ذمہ داری (تشریعی) ہے جبكہ تبلیغ تعلیم اور دعوت كی ذمہ داری (تبلیغی) نصف بشری ہے تو نصف الٰہی۔
وحی اور نبوت یعنی عالم وجود كی بنیادوں سے ایك پوشیدہ اتصال اور رابطہ اور مخلوق كی ہدایت كے لیے اس كی ماموریت در اصل مظاہر ہدایت كا ایك مظہر ہے جو سارے عالم وجود پر حكم فرما ہے۔
"الذی خلق فسویٰ والذی قدر فہدیٰ" 14
ترجمہ:"جس نے پیدا كیا اور تناسب قائم كیا جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دكھائی۔"
موجودات زندگی كی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اس درجہ كمال كی مناسبت سے جس پر وہ پہنچ جاتے ہیں ہدایت خاص سے پہرہ مند ہوتے ہیں یعنی ہدایت كی شكل اور خصوصیت زندگی كے مختلف مراحل كے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔تمام دانشور اس بات كو تسلیم كرتے ہیں كہ حیوانات اپنی ساخت كے وسائل طبیعی كے اعتبار سے ضعیف تر اور ناتوان تر ہیں لیكن وہ پوشیدہ جبلی رہنمائی كے اعتبار سے قوی تر ہوتے ہیں انہیں فطرت كی ایك مستقل سر پرستی اور حمایت حاصل رہتی ہے۔وہ جس قدر طبعی وسائل اور عقلی وہمی خیالی اور حسی طاقتوں سے لیس ہوتے چلے جاتے ہیں وجود كی سیڑھی پر ان كے قدم بلندی كی جانب اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ان كی جبلی ہدایت میں كمی آنے لگتی ہے۔ٹھیك اس بچہ كی طرح جو كمسنی كے ابتدائی مراحل میں ماں باپ اور دوسرے اشخاص كی مستقل سر پرستی اور نگرانی سے بہرہور رہتا ہے اور جس قدر وہ رشد و بلوغ حاصل كرتا جاتا ہے والدین كی مستقل نگرانی و سرپرستی كے دائرے سے باہر نكتا چلا جاتا ہے۔
جاندار مخلوقات كا زندگی كی سیڑھیوں پر چڑھ كر بلند ہونا اور ان كا عقلی وہمی خیالی حسی اور عضوی وسائل سے لیس ہونا ان كے استحكام و استقلال كو بڑھانا ہے اور اس اعتبار سے ان كی جبلی ہدایت كم ہوجاتی ہے۔
كہا جاتا ہے كیڑے دوسرے تمام حیوانات كی بہ نسبت جبلی ہدایت سے زیادہ لیس ہوتے ہیں اس كی وجہ یہ ہے كہ وہ تكمیلی مراحل كے اعتبار سے سب سے نچلے درجہ میں ہیں اور انسان جو تكمیل كی سیڑھی كے سب سے اونچے پلہ پر پہنچا ہوا ہے تمام مخلوقات كی بہ نسبت جبلی ہدایت میں كمزور تر ہے۔
وحی ہدایت كے عالی ترین اور بلند ترین مراتب و مظہر میں سے ایك ہے۔وہ اپنے اندر ایك ایسی رہنمائی ركھتی ہے جو حس خیال عقل علم اور فلسفہ كی دسترس سے باہر ہے ان میں سے كوئی چیز وحی كی جگہ نہیں لے سكتی لیكن وحی تشریعی ہی اس خصوصیت كی حامل ہے وحی تبلیغی نہیں وحی تبلیغی كا معاملہ دوسرا ہے۔
انسان اس وقت تك تبلیغی وحی كا محتاج رہتا ہے جب تك اس كی عقل علم اور تمدن كا فرجہ اس مقام تك بلند نہیں ہو جاتا كہ وہ خود اپنے دین كے بارے میں دعوت تعلیم تبلیغ تفسیر اور اجتہاد كا فرض انجام دے سكے علم اور عقل كا ظہور دوسرے الفاظ میں انسانیت كا رشد و بلوغ خود وحی تبلیغی كو ختم كر دیتا ہے اور علماء ان انبیاء كے جانشین قرار پاتے ہیں۔
جیسا كہ ہمیں معلوم ہے قرآن نے اپنی نازل ہونے والی پہلی آیت میں پڑھنے لكھنے كی اور قلم وعلم كی بات كی ہے۔
اقرا باسم ربك الذی خلق؛ خلق الانسان من علق؛ اقراء و ربك الاكرم؛ الذی علم بالقلم؛ علم الانسان مالم یعلم" 15
ترجمہ: "پڑھو (اپنے نبی) اپنے رب كے نام كے ساتھ جس نے پیدا كیا جمے ہوئے خون كے ایك لو تھڑے سے انسان كی تخلیق كی پڑھو اور تمہارا رب بڑا كریم ہے جس نے قلم كے ذریعہ سے علم سكھایا۔انسان كو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔"
یہ آیت اس بات كا اعلان كرتی ہے كہ قرآن كا عہد پڑھنے لكھنے سكھانے كا اور علم و عقل كا عہد ہے۔یہ آیت ہمیں اشار تا بتاتی ہے كہ قرآن كے اس دور میں تعلیم تبلیغ اور آسمانی آیات كی حفاظت كی ذمہ داری علماء كی طرف منتقل كردی گئی ہے اور علماء اس اعتبار سے انبیاء كے جانشین قرار پاتے ہیں۔اس آیت نے اس عہد میں بشریت كے استقلال اور بلوغ كا اعلان كیا ہے۔ قرآن نے اپنی تمام آیات میں تدبر عقلی استدلال فطرت كے تجرباتی و عینی مشاہدہ تاریخ كے مطالعہ اور گہرے غور و فكر كی دعوت دیتا ہے یہ سب ختم نبوت كی اور وحی تبلیغی كی جگہ علم و عقل كے جانشین ہونے كی نشانیاں ہیں۔
قرآن كے لیے جس قدر كام ہوچكا ہے كیا كسی دوسری آسمانی كتاب كے لیے اس قدر كام انجام دیا گیا ہے؟ نزول قرآن كے ساتھ ہی قرآن كے ہزاروں حافظ پیدا ہوگئے۔نزول قرآن كو ابھی نصف صدی بھی نہیں گزری تھی كہ علوم قرآنی كی خاطر نحو وصرف قواعد زبان اور عربی زبان كی لغات كی تیاری كا كام شروع ہوچكا تھا۔معانی بیان اور بدایع كا علم ایجاد ہوا ہزاروں تفسیریں اور ان كے مفسرین تفسیر قرآن كی درسگاہیں وجود میں آگئیں۔قرآن كے لفظ لفظ كے بارے میں تحقیق كا كام ہونے لگا اس كام زیادہ حصہ ان لوگوں كے ہاتھوں انجام پاتا رہا جن كی مادری زبان عربی نہیں ہے۔ صرف یہ قرآن سے متعلق خاطر ہی رہی ہے جس نے اس قدر جوش و جذبہ پیدا كردیا۔یہ ساری سرگرمیاں آخر توریت انجیل اور اوستا كے لیے كیوں ظاہر نہیں ہوئیں كیا خود یہ بات بشریت كے رشد و بلوغ اور كتاب آسمانی كی تبلیغ و حفاظت اس كی صلاحیت پر دلالت نہیں كرتی؟ كیا یہ اس بات كی دلیل نہیںہے كہ عقل و دانش نبوت تبلیغی كی جانشین بن گئی ہے۔
انسان اپنے ابتدائی دور میں مكتب كے اس كمسن بچے كی طرح تھا جو چند روز بعد ہی اپنی كتاب كو پھاڑ كرپھینك دیتا ہے اس كے بر عكس عہد اسلامی كا انسان ایك بزرگ عالم كی طرح ہے كہ وہ جس قدر اپنی كتابوں كا بار بار مطالعہ كرتا ہے اسی قدر ان كے مضمین اسے یاد ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ ان كی گہرائی میں اتر تا چلا جاتا ہے۔
انسانی زندگی كو بالعموم عہد تاریخ اور تاریخ سے پہلے كے عہد كے دو ادوار میں تقسیم كیا جاتا ہے۔تاریخ كا عہد اس دور كو كہا جاتا ہے جس میں انسان اپنی یادداشتوں كو كتبوں اور كتابوں كی صورت میں محفوظ كرنے كے قابل ہوگیا تھا اس دور كی زندگی كے بارے میں ان ہی یادداشتوں كو فیصلہ كن قرار دیا جاتا ہے لیكن ما قبل تاریخ كے عہد كے ایسے كوئی آثار موجود نہیں ہیں جو اس زمانے كی زندگی كے بارے میں فیصلے كی بنیاد بن سكیں۔
لیكن ہمیں یہ بھی معلوم ہے كہ عہد تاریخ كے آثار بھی زیادہ تر پراگندہ اور منتشر ہیں، البتہ اس عہد كا وہ آخری حصہ ظہور اسلام كے دور سے پوری طرح متصل ہے جس میں انسان نے پانی تاریخ اور آثار كو منظم طریقے پر نسل بہ نسل منتقل كرنا شروع كردیا تھا خود اسلام كو اس رشد عقلی كا ایك بڑا عامل سمجھا جاتا ہے۔عہد اسلامی میں مسلمانوں نے خود اپنے آثار كی حفاظت و نگہداشت كا كام شروع كردیا تھا۔اس كے ساتھ مسلمانوں نے پچھلی قوموں كے آثار كی بھی كم و بیش حفاظت كی اور انہیں بعد كی نسلوں كی طرف منتقل كرتے رہے۔یہ ختم نبوت كا قریبی زمانہ ہی ہے كہ جس میں انسان نے اپنے علمی اور دینی ورثوں كی كی حفاظت كی صلاحیت كا مظاہرہ كیا۔امر واقع یہ ہے كہ حقیقی عہد تاریخ ظہور اسلام كے عہد سے بالكل متصل ہے، گذشتہ ادوار میں ایك طرف نفیس علمی، فلسفی، اور دینی آثار ہوا اور دوسری طرف یہ آثار آب و آتش كے نذر بھی ہوتے رہے، تاریخ میں اس كی دردناك تفصیلات پوری طرح محفوظ ہیں۔
اسكندریہ كا عظیم مشرق روم كی شہنشاہیت پر مسیحیت كے اثر و رسوخ كے بعد تباہ ہو گیا اور اس مركز تاریخی كتب خانہ متعصب عیسائیوں كے ہاتھوں نزر آتش ہو گیا!
علم كے ظہور اور ترقی كے ایك ایسے درجے تك انسان كی رسائی نے كہ وہ دین آسمانی كا محافظ، داعی اور مبلغ بن سكے، نبوت تبلیغی كی ضرورت باقی رہنے نہ دی اور اس كا سلسلہ منقطع ہوگیا۔یہی وجہ ہے كہ پیغمبر اكرم (ص) نے اس امت كے علماء كو انبیاء بنی اسرائیل كی مانند كہا ہے۔
علامہ اقبال نے ایك بڑی عمدہ بات كہی ہے۔
"پیغمبر اسلام دنیائے قدیم جدید كے درمیان كھڑے ہیں۔الہام كے سرچشمے سے جب آپ كا رشتہ جوڑا جاتا ہے تو دنیائے قدیم سے آپ كا تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور جب روح الہام كو بروئے كار لایا جاتا ہے تو دنیائے جدید سے آپ كا ربط ہو جاتا ہے۔زندگی نے آپ كی ذات میں معرفت كے وہ دوسرے سرچشمے دریافت كر لئے ہیں جو اس (زندگی) كے نئے سفر كے لیے موزون ہیں۔اسلام كا ظہور در اصل استدلالی اور استقرائی عقل كا وجود میں آنا ہے۔ظہور اسلام كے ساتھ رسالت، خود نبوت كے اختتام پذیر ہونے كی ضرورت كے نتیجے میں، حد كمال كو پہنچ جاتی ہے جس سے لازما یہ دانش مندانہ نتیجہ نكلتا ہے كہ زندگی ہمیشہ، كمسنی كے مرحلے میں اور باہر سے رہنمائی كی محتاج نہیں رہ سكتی۔اسلام میں كاہنی (فالگیر) اور موروثی سلطنت كی نفی اور قرآن میں عقل اور تجربہ پر دائمی توجہ اور اس كتاب مبین كا فطرت اور تاریخ كو معرفت بشری كے سرچشموں كی حیچیت دنیا در اصل ختم نبوت كے واحد عقیدے كے مختلف خدوخال ہیں۔عقیدۀ ختم نبوت كے یہ معنے نہیں لینے چاہیں كہ زندگی كی انتہائی سرنوشت یہ ہے كہ عقل كامل جزبات و احساسات كی جگہ حاصل كرلے، یہ بات نہ ممكن ہے اور نہ مطلوب"
اسلام نے اعلان ختم نبوت كے ضمن میں اپنی ابدیت كا اعلان كیا ہے:"حلال محمّدٍ حلال الی یوم القیامہ و حرام محمد حرام الی یوم القیامۃ"
ترجمہ: "محمد كا حلال كیا ہوا قیامت تك حلال ہے اور محمد (ص) كا حرام كیا ہوا قیامت تك حرام ہے"
سوالات اور اعتراضات كی ساری بوچھاڑ اسی موضوع سے ہے كہا جاتا ہے كیا كسی چیز كے لیے ہمیشگی ممكن ہے؟
دنیا میں ہر چیز فانی ہے، اس دنیا كی اصل بنیاد تغیر ہے، دنیا میں سرف ایك ہی چیز جاودانی ہے اور وہ یہ كہ كسی چیز كو ہمیشگی حاصل نہیں۔
ہمیشگی اور ابدیت كے منكر كبھی اپنی باتوں كو فلسفہ كا رنگ دے دیتے ہیں اور دلیل میں تغیر و تبدل كے اس قانون كو پیش كرتے ہیں جو فطرت كا ایك مجموعی قانون ہے۔
اگر ہم مسئلے پر اس نقطہ نظر سے غور كریں تو اعتراض كا واضح جواب مل جاتا ہے كہ وہ چیز جو ہمیشہ تغٰر و تبدل سے دوچار رہتی ہے وہ مادہ اور دنیا كی مادی تركیبات ہیں لیكن قوانین اور نظامات خواہ وہ طبیعی نظامات ہوں یا وہ اجتماعی نظامات جو طبیعی اصولوں سے ہم آہنگ ہوں اس قانون تغیر و تبدل كے تحت نہیں آتے، ستارے اور شمسی نظامات ظاہر ہوتے ہیں اور چند دنوں بعد فرسودہ اور فانی ہو جاتے ہیں لیكن قانون كشش اپنی جگہ رہنا ہے، نباتات اور حیوانات وجود میں آتے ہیں اور فنا ہو جاتے ہیں لیكن قوانین حیات باقی رہتے ہیں۔
ہی حال انسانوں اور ان كی زندگی كے قابون كا ہے، انسان جن میں پیغمبر بھی شامل ہے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیكن پیغمبر كا لایا ہوا آسمانی قانونزندہ اور تابندہ رہتا ہے ۔
مصطفیٰ را وعدہ داد الطاف حق
گر بمیری تو نمیرد این سبق
مظاہر فطرت تغیر پذیر ہیں قوانین فطرت كو تغیر نہیں، اسلام قانون ہے نہ كہ مطاہر كائنات سے ایك مظہراسلام اسی صورت مین مردہ ہو سكتا ہے كہ وہ قوانین فطرت سے ہم آہنگ نہ ہو لیكن جب اسلام كا اپنا دعویٰ ہے كہ وہ فطرت اور انسانی سرشت سے اور اس كے معاشرے سے تازگی اور قوت حاصل كرتا ہے اور قوانین فطرت سے ہم آہنگ ہے تو آخر وہ كس طرح ہو سكتا ہے؟
كبھی اجتماعیت كے پہلو سے اعتراض كیا جاتا ہے اور كہا جاتا ہے كہ اجتماعی ضوابط اجتماعی تقاضوں كی بنیاد پر وضع كئے جاتے ہیں، جب معاشرہ كی ضروریات قوانین اجتماعی كی بنیاد ہیں تو ان كا عوامیل تمدن كی توسیع و تكمیل كے ساتھ ساتھ متغییر ہونا بھی ضروری ہے ہر زمانے كی ضروریات دوسرے زمانے كی ضروریات سے مختلف ہوتی ہیں، میزائیل طیاروں بجلی اور ٹیلی ویژن كے اس جدید دور كی ضروریات گھوڑوں، خچرون اور اونٹون كی پرانے كی ضروریات سے قطعی مختلف ہون گی، یہ كس طرح ممكن ہے كہ اس جدید دور كے لیے بھی وہی ضوابط نافذ ہوں جو پرانے زمانے میں رائج تھے، دوسرے الفاظ میں عوامل تمدن كے اندر ترقی و توسیع لازمانئے تقاضے پیدا كرے گی، اس لیے جبر تاریخ كا راستہ روكنا اور زمانہ كے ایك ہی حال پر ركھنا ممكن نہیں ہے اور زمانے كے تقاضوں كے ساتھ ہم آہنگی اختیار كرنا بھی ممكن نہیں ہے، جامد اور یكساں ضوابط كا پابند رہنا مقتضیات زمانہ كے ساتھ مطابقت اور لچك پیدا كرنے اور تمدن كے قافل كے ساتھ ہم آہنگ ہونے كی راہ میں ایك بڑی ركاوٹ ہے۔
بے شك اہم ترین مسئلہ ہے، ہماری نئی نسل بجز تغیر و تبدل اور وجدت طلبی اور زمانے كے نئے نئے تقاضوں كے كچھ نہیں سوچتی، نئی نسل كا سامنا كرتے بھی جو بات سب سے پہلے كانون تك پہنچتی ہے وہ یہی ہے، اس نسل كی انتہا پسندوں كے نقطہ نظر سے مذہب اور نو طلبی دو متضاد وجود ہیں، نو طلبی كی خاصیت حركت اور ماضٰ سے منہ موڑنا ہے جبكہ مذہب كی خاصیت جمود سكون، ماضی سے وابستگی اور موجودہ وضع كی حفاظت كرنا ہے۔
اسلام كو دسرے ہر مذہب سے زیادہ اس طرز فكر كے حامل گروہ سے مقابلہ كرنا پڑ رہا ہے، اسلام كا ابدیت و ہمیشگی كا دعوی اس گروہ كے لیے بڑا نا قابل برادشت ہے، اسلام زندگی كے تمام شعبون میں عمل دخل ركھتا ہے، خدا اور بندے كے درمیان تعلق سے لے كر افراد كے اجتماعی روابط، خاندانی روابط، فرد اور اجتماع كے روابط انسنا اور اس دنیا كے با ہمی روابط سب ہی سے وہ بحث كرتا ہے، اگر اسلام دوسرے مذاہب كی طرح چند رسلم عبادات اور خشك اخلاقی ضوابط تك محدود ہوتا تو پھر اس كے لیے كوئی دشواری نہ تھی لیكن وہ اس قدر مدنی، فوجداری، دیوانی، سیاسی، اجتماعی اور خاندانی قوانین و ضوابط ركھتے ہوئے كیا كر سكتا ہے؟
ہم نے اوپر جو اعتراض نقل كیا ہے اس میں جبر تاریخ ضروریات میں تغیر مقضیات زمانہ كی رعایت جیسے نكات كو اٹھا یا گیا ہے اس لیے اعتراض كے ان تین اصل نكات پر مختصراً، بحث كرنا ضروری ہے، اس كے بعد اسلام كے نقطہ نظر سے ہم اس اعتراض كو رفع كرنے كی كوشش كریں گے، ان محدود صفحات مین بحث كے تمام پہلووں كا احاطہ كرنا ممكن نہیں ہے، ایك ایسا مسئلہ جو فلسفہ، فقہ، تاریخ اور اجتماعیات سب ہی سے متعلق ہے ایك ضخیم كتاب كی وسعت چاہتا ہے جسے برسون كے مطالعہ كا حاسل قرار دیا جا سكے تا ہم توقع ہے كہ یہ مختسر مقالہ اس اشكال كے رفع كرنے میں مدد دے گا۔
یہ كلمہ و اجزاء سے مركب ہے ۔جبر اور تاریخ جبر كا مطلب كسی چیز كا حتمی اور یقینی ہونا ہے فلاسفہ كی اصطلاح میں اسے ضرورت اور وجوب كہا جاتا ہے مثلا :جب ہم ۵×۵ كہتے ہیں تو یہ ضرب كھانے والے دونوں اعداد ضرورتا اور جبرا ۲۵ كے مساوی ہوں گے یعنی حتما ایسا ہی ہے اس كے خلاف ہونا ممكن نہیں ہے ۔یہ بات ظاہر ہے كہ جبر كا لفظ اصطلاحا ایك فلسفیانہ مفہوم ركھتا ہے ۔اس سے ہٹ كر جبر كا مفہوم حقوقی فقہی اور عرفی ہے یعنی یہ لفظ اكراہ اور جبریہ ارمال كے لئے استعمال كیا جاتا ہے ۵×۵ اپنی ذاتی ساخت كی بناء پر ۲۵ كے مساوی ہے یہ كسی جبری قوت اور جبریہ عمل كی وجہ سے نہیں ہے لیكن تاریخ، تاریخ یعنی حادثات كا مجموعہ جو انسان كی سرگذشت كو تشكیل دیتا ہے ۔انسانی سرگذشت ایك راستہ طے كرتی ہے كچھہ ایسی طاقتیں كار فرما ہیں جو اسے حركت میں لاتی ہیں اور اسے قابو میں ركھتی ہیں جیسے ایك دستی پہیہ یا ایك كارخانہ جسے ہاتھہ یا بھاپ كی طاقت سے چلایا جاتاہے ۔تاریخ كو بھی كچھہ عوامل اور طاقتیں حركت میں ركھتی ہیں ۔اسے گردش میں لاتی ہیں اور آگے بڑھاتی ہیں ۔اس اعتبار سے جبر تاریخ، كا مطلب سرگذشت بشر كا حتمی اور پایبند ہونا ہے، جب ہم یہ كہتے ہیں كہ تاریخ كی حركت كی حركت جبری ہے تو اس كا مطلب یہ ہوتا ہے كہ انسان كی اجتماعی زندگی میں كچھہ ایسے طاقتور عوامل ہیں جو اپنے قطعی اچرات ركھتے ہیں ۔ان سے بچنا ممكن نہیں ان عوامل كی تاثیر یقینی اور حتمی ہوتی ہے ۔
جبر تاریخ، كے كلمے نے ہمارے اس دور میں بڑی قدر و قیمت حاصل كر لی ہے یہ كلمہ موجودہ زمانے میں وہی كردار ادا كررہا ہے جو اس نے ماضی میں قضا و قدر كے پردہ میں ادا كیا تھا۔حوادث زمانہ كے آگے سپرڈال دینا اور اپنے غلطیوں كے عذر تراشنا اس كا مدعا ہے ۔
یہ ایك شیر خونخوار ہے كہ اس كے مقابل تسلیم و رضا كے سوا كوئی چارہ نہیں ۔ماضی میں اس كا نام قضا و قدر تھا اور موجودہ دور میں اسے جبر تاریخ كہا جاتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے كہ نقضا و قدر اور جبر تاریخ دونوں كلمہ صحیح فلسفیانہ مفہوم كے ھامل ہیں ۔ان كے حقیقی مفہوم كو نہ سمجھنا ہی غلط تعبیر كا سبب بنا ہے ہم نے اپنی كتاب "انسان و سرنوشت :میں قضاء و قدر كے بارے میں بحث كی ہے لیكن جبر تاریخ، یہ كہ انسانی سرگذشت دینا كے تمام حوادث كی طرح نہ تبدیل ہونے والا قانون ركھتی ہے اور تاریخی عوامل دوسرے تمام عوامل كی طرح قطعی اور لازمی تاثیرات ركھتے ہیں، یہ كوی ایسی بات نہیں ہے ۔قرآن كریم نے خود سنۃاللہ كہہ كر اس كی تائید كی ہے لیكن ان عوامل كی تاثیر كی نوعیت اصل مسئلہ ہے ۔كیا تاریخ كے جبری عوامل كا اثر اس صورت میں ظاہر ہوتا ہے كہ ہر چیز وقتی محدود اور زوال پذیر ہو كر رہ جاتی ہے یا اس كی كوئی دوسری صورت بھی ہے؟
ظاہر ہے اس مسئلہ كا تعلق عوامل كی نوعیت سے ہے ۔اگر تاریخ كو گردش میں لانے والے عوامل مضبوط اور پائیدار ہوں گے تو ان كی جبری تاثیر كا نتیجہ اس شكل میں ظاہر ہوگا كہ وہ گردش و تسلسل كو برقرار ركھیں گے ۔اگر اس كے بر عكس یہ عوامل ناپا۴دار عامل كا تعلق خاندان كی تشكیل رفیق زندگی كے انتخاب اور بچوں كی تولید میں موثر رہا ہے ۔تاریخ كے طویل دور میں خاندانی زندگی كے خلاف تحریكیں اٹھتی رہیں لیكن وہ سب ناكام ہوگئیں ۔ایسا كوں ہوا؟ یہ تحریكیں جبر تاریك كے خلاف تھیں، جبر تاریخ كا تقاضا یہ تھا كہ خاندانی زندگی باقی رہے ۔
ایك دوسرا تاریخی عامل مذہب ہے ۔پرستش انسان كی سرشت میں شامل ہے یہ كسی نہ كسی صورت میں موجود رہی ہے ۔یہ عامل تاریخ كے تمام ادوار میں موثر رہا ہے اور اس نے مذہب پر سے توجہ كو ہٹنے نہیں دیا ۔
غرض یہ كہ جبر تاریخ كو كسی محدود اور وقتی چیز كے مساوی قرار دے كر ہر قانون اور قائدہ كی ناپائیداری پر دلیل لانا ایك بڑی غلطی ہے ۔جبر تاریخ، اس جگہ ناپائیداری كو نتیجہ كی صورت میں سامنے لاتی ہے جہاں زیر نظر عامل، جیسے اقتصادی پیداوار كا عامل ہو اور كوئی دوسرا عامل اس كی جگہ لے اس لئے انسان اور اس كی ضرورت تاریخ كو گوشزد میں لانے والے عوامل اور ان میں سے ہر عامل كی معاشرہ پر اثر انداز ہونے والی تاثیری قوت كا سراغ لگانا چاہئے تا كہ یہ معلوم ہو كہ اس كا اثر كہاں تك پہنچتا ہے اور ان میں سے كونسا عامل مضبوط و پائدار ہے اور كونسا كمزور و ناپائیدار ۔
حقیقت یہ ہے كہ انسانی زندگی كی جملہ حالتوں كی ناپائیداری كو جبر تاریخ كے مساوی قرار دینے كا مفروضہ ہی انسان كے "یك جہتی" ہونے كے مفروضے كو آگے لانے كا سبب بنا ہے اس مفروضے كے مطابق "یك جہت" انسان زیادہ قدر و قیمت نہیں ركھتا اور تاریخ كا تعغیر ایك "یك شاخہ" تعغیر ہے ۔اس مفروضے كے حامیوں كے نقطہ نظر سے ہر دور میں تاریخ كا اصلی اور بنیادی عامل معشیت ہے دولت كی پیداوار اور تقسیم كا طریقہ، افراد كے اقتصادی روابط جیسے كارخانہ اور مزدور كے روابط، كسان اور زمیندار كے روابط جو كمزور اور تعغیر پذیر روابط ہیں، زندگی كے دوسرے گوشوں مثلا دین علم، فلسفہ، قانون، اخلاق اور ہنر كا تعین كرتے ہیں ۔ابتدا "دنیا میں اس مفروضے كا بڑا چرچا ہوا لیكن اب یہ اپنی قدر و قیمت كھو چكا ہے ۔آج دنیا اور تاریخ كے بہت سے مادہ پرست مفسرین اس مفروضے كو مسترد كرچكے ہیں ۔
ہر چند كہ ابھی علمی اعتبار سے قطعی طور ہر یہ نہیں كہاجاسكتا كہ انسان "یہ ناشنوا ساوجود "كثیر الجہت ہے اور انسانی تاریخ كی توجیہ كثیرالجہت، كے مفروضے سے ہی كی جاسكتی ہے البتہ یہ تسلیم شدہ قدر ہے انسان "یك جہت" نہیں ہے ۔اس كے یك جہت ہونے كا نظریہ اور انسانی تاریخ كے سفر كا یك خطی ہونے كا مفروضہ سب سے زیادہ بے بنیاد بے بنیادمفروضہ ہے ۔
كیا یہ درست ہے كہ انسان كی تمام ضروریات بدلتی رہتی ہے اور ضروریات كے تغیر كے ساتھہ ان سے متعلق قوانین و ضوابط میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے ؟ اس كا جواب یہ كہ نہ تمام انسانی ضروریات حالت تعغیر میں ہوتی ہیں اور نہ ضروریات كے تغیر كا لازمی نتیجہ یہ نكل سكتا ہے كہ زندگی كے بنیادی اصول اور ضوابط ہی میں تبدیلی آجائے ۔
ضروریات دو طرح كی ہیں :بنیادی ضروریات اور ثانوی ضروریات، بنیادی ضروریات انسان كی جسمانی و روحانی ساخت اور اجتماعی زندگی كے مزاج كی گہرائیوں سے تعلق ركھتی ہیں جب تك انسان اس دنیا میں موجود ہے اور اجتماعی زندگی بسر كررہا ہے اس كی یہ ضروریات باقی رہیں گی ۔یہ ضروریات تین طرح كی ہیں "جسمانی "روحانی اور اجتماعی :
۔ جسمانی ضروریات كا تعلقات خوراك، پوشاك، مسكن اور رفیق حیات سے ہے ۔
۔ روحانی ضروریات كے ذیل میں علم، زیبایش، نیكی، پرستش، احترام و تربیت آتے ہیں اور
۔ معاشرت مبادلہ اشیاء، تعاون، عدالت، آزادی اور مساوات كا تعل قاجتماعی ضروریات سے ہے
وہ ضروریات ہیں جو بنیادی ضروریات سے پیدا ہوتی ہیں مختلف آلات اور وسائل زندگی كی ضروریات اسی نوع كی بنیادی ضروریات سے پیدا ہوتی ہیں جو زمانہ كے ساتھہ ساتھہ بدلتی ضرورت ہے تو خدا كے ساتھہ انسان كے رابطے یا فطرت كے ساتھہ رہتی ہیں ۔
یہ بنیادی ضروریات ہی جو انسان كو زندگی كی توسیع اور ترقی كی جانب قدم بڑھانے كے آمادہ كرتی ہیں ثانوی ضروریات زندگی كی توسیع و ترقی سے پیدا ہوتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ توسیع و ترقی كے لئے محرك ثابت ہوتی ہیں ۔
ضروریات میں تغیر اور ان كے نئے ہونے اور پرانے ہونے كا تعلق ثانوی ضروریات سے ہے بنیادی ضروریات نہ پرانی ہوتی ہیں اور نہ ختم ہوتی ہین وہ ہمیشہ زندہ اور نئی رہتی ہیں
ثانوی ضروریات كا ایك حصہ بھی ایسا ہی ہے قانون كی ضروریات ثانوی ضروریات كے اسی حصے سے تعلق ركھتی ہے ۔قانون كی ضروریات اجتماعی زندگی كی بنیادی ضرورت كا ایك لازمی لازمی نتیجہ ہے اور اسے بھی دوام اور ہمیشگی حاصل ہے ۔انسان كسی دور میں بھی قانون سے بے نیاز نہیں ہوسكتا ۔
یہ بات صحیح ہے كہ تمدن كے عوامل میں توسیع نئینئی ضروریات كو سامنے لاتی ہے اور وقتا فوقتا فرعی قوامین ضوابط و معاہدات كا ایك سلسلہ وجود میں آتا رہتا ہے مثلا حمل و نقل كے مشینی وسائل كی بنا پر یہ ضروری ہوجاتا ہے كہ شہروں كے درمیان آمد ورفت كے لئے اور مختلف ممالك كے درمیان سفر اور حمل و نقل كے لئے كچھہ قوانین و ضوابط وضع كئے جائین جبكہ ماضی میں اس طرح كے قوانین اور معاہدوں كی ضرورت نہیں تھی البتہ تمدن كے عوامل میں توسیع حقوقی، تعزیری اور شہری قوانین جن كا تعلق لین دین، وكالتوں، ناجائز قبضوں، ضمانتوں، وراثت، ازدواج اور ایسے ہی دوسرے امور سے ہوتا ہے ۔اگر وہ فی الواقع عدالت اور فطری حقوق پر مبنی ہوں تو انہیں تبدیل كرنے كی كوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔جب یہان سان كے رابطے سے متعلق قوانین كی تبدیلی كا سوال كیسے پیدا ہوگا۔
قانون ضروریات كی تكمیل كا شریفانہ اور عادلانہ طریقہ مقرر كرتا ہے وسائل و آلات ضرورت كی تبدیلی ان كے حصول و استفادہ اور ان كے عادلانہ تبادلے كے طریقے كو تبدیل كرنے كا سبب نہیں بنتی ۔مگر یہ فرض كرلیا جائے كہ زندگی كے اسباب وسائل اور آلات میں تبدیلی آتی ہے اور وہ ترقی و كمال كی صورت اختیار كرتے ہیں تو حق "انصاف اور اخلاق كا مفہوم بھی بدل جاتا ہے ۔دوسرے الفاظ میں ہم كو یہ فرض كرنا پڑے گا كہ حق، عدالت اور اخلاق كے مفاہیم اضافی ہیں ۔ایك چیز اگر كسی زمانے میں حق عدالت اور اخلاق كے ذیل میں آتی ہے تو دوسرے زمانے میں وہ حق، عدالت اور اخلاق كے خلاف مسجھی جاتی ہے ۔
ہمارے دور میں اس مفروضے كا بڑا چرچا ہے لیكن اس سلسلہ بیان مین اس مسئلہ پر بحث كی زیادہ گنجائش نہیں ہے یہاں ہم صرف یہ كہیں گے كہ اس مفروضے كا سبب حق، عدالت اور اخلاق كے حقیقی مفہوم سے ناواقیفیت ہے ۔حق عدالت اور اخلاق كے ذیل میں جو چیز تغیر پذیر ہے وہ ان كا نفاذ اور ان كی عملی صورت ہے نہ كہ ان كی حقیقت و ماہیت ۔اگركوئی آئیں و دستور حقوق اور فطرت كی بنیادس پر بنایا گیا ہو تو وہ ایك زندہ انقلابی قوت سے بہرہمند ہوگا وہ زندگی كی اس شكل و سورت سے بحث كرنے كی بجائے جس كا تعلق بظاہر تمدن سے ہے، زندگی كے لئے اصلی اور حقیقی خطاط كھیچے گا ۔وہ نہ صرف زندگی كے تغیرات سے ہم آہنگ ہوگا بلكہ ان كی رہنمائی كرے گا۔نئی نئی ضروریات اور قوانین كے درمیان تضاد اس وقت پیدا ہوتا ہے جبكہ قانون حركت و عمل كی راہ متعین كرنے كے بجائے زندگی كی ظاہری شكل و صورت پر توجہ دے مثلا مخصوص آلات اور وسائل كو جن كا تعلق سارے كا سارا تہذیب و تمدن كے مراحل سے ہوتا ہے انہیں ہمیشہ ایك ہی صورت میں ركھنا چاہئے ۔
اگر قانون یہ چاہے كہ ہمیشہ تحریری كام ہاتھ ہی سے كیا جائے گھوڑے اور خچر ہی سواری كاكام لیا جائے اور روشنی كے لئے مٹی كے تیل كی قندیل ہی استعمال كی جائے اور صرف وہی كپڑا پہنا جائے جو ہاتھہ سے بنایاجاتا ہے ۔اس طرح كا قانون علم و تمدن كی توسیع اور اس سے پیدا ہونے والی احتیاجات سے جنگ كرتا ہے اور یہ لازمی بات ہے كہ جبر تاریخ، اس قانون كو بدل كر ركھ دے گا ۔
قانون جس قدر جزئی اور مادی ہوگا یعنی مخصوص مواد و رنگ اور مخصوص صورتوں كا حامل ہوگا، اس كے بقاء و دوام كے امكانات كم ہی ہوں گے ۔اس كے بر عكس قانون جس قدر كلی اور معنوی ہوگا اور اشیاء كی ظاہری صورتوں پر توجہ دینے كی بجائے اشیاء كے درمیان یا اشخاص كے مابین روابط پر توجہ دے گا اس كے بقاء و دوام كے امكانات زیادہ ہوں گے ۔
زمانے كے تقاضے، یعنی ماحول معاشرے اور زندگی كے
تقاضے، انسان عقل، ایجاد و اختیار كی قوت سے لیس ہے اور بہتر زندگی كی خواہش ركھتا ہے، اس لیے وہ اپنی اقتصادی، اجتماعی، اور معنوی ضروریات رفع كرنے كے لیے بہتر سے بہتر افكار و نظریات اور عوامل و وسائل كو كار زار حیات میں لانے كی كوشش كرتا ہے، بہتر اور كامل تر وسائل و عوامل كی زندگی میں آمد خود بخود پرانے اور ناقص تر عوامل كو اپنی جگہ خالی كر دینے پر مجبور كرتی ہے، اس طرح انسان جدید عوامل اور ان كی مخصوص ضروریات سے وابستگی پیدا كرلیتا ہے، انسان كی مادی اور معنوی احتیاجات كے ایك سلسلے سے وابسگتی اور ان احتیاجات كو رفع كرنے والے عوامل و وسائل كا دائمی تغیر اور ان وسائل كا ہمیشہ بہتر ہوتے چلے جانا اور ایك مرحلہ پر خود ان كا نئی نئی احتیاجات كے ایك سلسلے كو وجود میں لا نا ہر دور اور زمانے میں ماحول اجتماع اور زندگی كے تقاضوں میں تغیر كا سبب بنتا رہتا ہے اور انسان كو لازمی طور پر جدید تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا كرنے پر آمادہ كرتا رہتا ہے، اس طرح كے تقاضوں سے جنگ نہیں كرنی چاہیے اور نہ جنگ كی جاسكتی ہے۔
لیكن افسوس كہ كسی عہد كے دوران پیدا ہونے والے نئے مظاہر بہترافكار و نظریات اور كامل تر وسائل و عوامل كے اعتبار س زندگی كے لیے زیادہ سعادت بخش نہیں ہوتے۔یہ انسان ہی ہے جو اپنے زمانے، ماحول اور معاشرہ كو تشكیل دیتا ہے، اور انسان غلطی سے محفوظ نہیں ہے، اس اعتبار سے انسان كی صرف یہی ذمہ داری نہیں ہے كہ وہ وقر كے دہارے پر بہلتا چلا جائے اور اپنے دور كے افكار و نظریات، عادات و اطوار اور پسند و ناپسند كو اپنا تا چلا جائے اس كی ایك ذمہ داری یہ بھی ہے وقت كی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے اور زمانے كی اصلاح كرے اگر انسان خود كو صدفی صد زمانے كے مطابق بنا تا رہے گا تو پھر وہ زمانے كو كس چیز سے ہم آہنگ كرے گا؟
افلاس فكر ركھنے والے افراد كے لیے زمانے كے تقاضے یعنی"آج كی پسنداور سلیقہ"اور یہ جملہ"آج كی دنیا پسند نہین كرتے"ہر نظری، عملی، صوری، مادی، قیاسی، تجربی، اور استقرائی منطق كی رو سے ان كی شخصیت كو متاثر كرنے اور ان كے غیر مشروط طور پر سر تسلیم خم كر دینے كے لیے بہت كافی ہے، ان لوگون كے طرز فكر كی رو سے خصوصا دنیا نے مگرب میں كسی چیز كا فیشن اور سلیقہ قرار پانا یہ كہنے كے لیے كافی ہے كہ زمانے كے تقاضے بدل گئے ہین، ان كے نزدیك یہ جبر تاریخ ہے اس سے بچنا ممكن نہیں بلندی و ترقی كے لیے اسے اختیار كرنا لازم ہے، حالانكہ یہ انسان ہی ہے جو اپنے زمانے، ماحول اور اجتماعی عوامل كو تشكیل دیا ہے، یہ چیزین عالم قدس سے نازل نہیں ہوریں، انسان خود وہ مغرب كا رہنے والا ہی كیون نہ ہو غلطی غلطی كا سزاوار ہے۔
انسان عقل اور علم سے آراستہ ہونے كے ساتھ شہوت اور خواہش نفس بھی ركھتا ہے، مصلحت اور زندگی كی طرف وہ اچھے قدم اٹھا تا ہے تو كبھی كبھی اس كے قدم غلط سمت پر بھی اٹھ جاتے ہیں، اس اعتبار سے زمانہ جہان راہ راست پر پیش قدمی كر سكتا ہے وہاں وہ راہ انحراف بھی اختیار كر سكتا ہے، اس لیے جہاں زمانے كی ایسی پیش قدمیوں كا ساتھ دنیا چاہے وہاں اس كے انحرافات كی مزاحمت بھی كرنی چاہیے۔
لفظ "آزادی" كی طرح "زمانے كے تقاضے"ان كلمات میں سے ایك ہے جن كا مشرق كی سرزمین پر بڑا برا حشر ہوا ہے اور آج یہ كلمہ استعمار كا ایك ایسا مكلم ہتھیار ہے جس سے وہ مشرق كی اصل تہذیب پر ضرب لگائے اور اس پر مغربی روح مسلط كرنے كا كام لیتا ہے كتنے فریب ہیں جو اس عنوان سے دئے جاتے ہیں اور كتنی بد بختیاں ہیں جو اس خوبصورت كتبہ كے ساتھ ہم پر مسلط كی جاتی ہیں۔
كہا جاتا ہے كہ زمانہ علم ہے، بلا شبہ یہ بات درست ہے لیكن كیا اس سرچشمہ علم كے علاوہ دوسرے تمام سرچشمے انسان كے لیے خشك ہو چكے ہیں اور آج جو كچھ پیش كیا جا تا ہے وہ صحیح و خالص علم كی حیثیت ركھتا ہے؟ آخر كس دور مین ہمارے اس عہد كی مانند علم و دانش كو اس قدر قوت و قدرت اور وسعت حاصل رہی ہے اور كس زمانے میں اس دور كی طرضح علم و دانش اپنی آزادی سے محروم ہو كر شہرت كے عفریت كی غلام اور خود غرضی، جاہ طلبی، زر پر ستی و استحصال كے اژدہون كا شكار رہے ہیں؟
جو لوگ اس بات كے مدعی ہیں كہ زمانے كے تغیر پذیر تقاضے كسی قانون كو ہمیشہ كے لیے باقی نہیں رہے دیتے انہیں چاہیے متذكرہ بالا دو موضوعات كو ایك دوسرے سے الگ كریں تا كہ انہیں معلوم ہو كہ اسلام میں كوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے، جو بہتر زندگی كی جانب پیش قدمی كی مخالف ہو۔
ہمارے اس دور كی مشكل یہ ہے كہ آج كے انسانكو ان دونون باتوں كو الگ كر كے غور كرنے كی بہت كم توفیق ہوتی ہے، وہ قدیم كے ساتھ رشتہ جوڑ كر جمود اختیار كر لیتا ہے اور جو كچھ نیا ہو اس سے لڑنے لگتا ہے یا پھر اس قدر جہلات پر اتر آتا ہے كہ ہر نئی ظاہر ہونے والی چیز كو "زمانے كے تقاضوں" كے نام پر ضروری سمجھنے لگتا ہے۔
بعض مسائل جبر تاریخ، ضروریات زندگی میں تغیر زمانے كے تقاضے یہ تینوں باتیں ہمارے لیے سرف یہ جاننے كے لیے مفید ہیں كہ ہم ان بوتوں كو بہانی بنا كر اور آنكھیں بن كر كے كسی قانون كو ہدف نہیں بنا سكتے اور اس كی ابدیت كے مفكر نہیں ہو سكتے۔
واضع ہے كہ صرف ان مسائل پر بحث، قانون كی ابدیت كے مسئلے كی شكل حل كرنے كے لیے كافی نہیں ہے، اس لیے كہ یقیناً اگر كوئٰ ابدی قانونزندگی كی تمام متغیر صورتوں كا اھاطہ كرنا چاہے اور تمام مشكلات كے حل كرنے كی راہ دكھا ئے اور ہر مشكل كع بہتر طریقے پر رفع كر دے تو اسے قوت و حركت كے ساتھ ایك لچك سے بھی بہرہ مند ہونا چاہیے وہ خشك، جامد اور بے لچك نہ ہو، ابن ہم یہ دیكھین گے كہ اسلام اپنی اس اصل كی حفاظت كرتے ہوئے "حلال محمد حلال الی یوم القیامۃ و حرام محمد حرام الی یوم القیامۃ" زندگی كے مختلف مسائل كے حل كی راہ كسی طرح دكھا تا ہے۔
قیناً اسلام كے قانون سازی كے نظام میں كوئی راز اور رمز چھپا ہوا ہےجو اس بڑی مشكل پر قابو پا لیتا ہے اسلام كی منطقی روح كے تمام بھیدون اور رازوں كا سرچشمہ اس انسان كی فطرت و طبعیت، اجتماعیت اور پورے عالم كے ساتھ كامل وابستگی ہے۔
اسلام نے اپنے قوانین و ضوابط كے وضع كرنے میں فطرت كے احترام اور فطری قوانین كے ساتھ اپنی وابستگی كا با قاعدہ طور پر اعلان كیا ہے، اسلام كی یہی وہ جہت ہے جس نے قوانین اسلام كے ابدی ہونے كا املان پیدا كر دیا ہے۔
فطرت كے ساتھ اسلام كی وابستگی اور ربط كو مندرجہ ذیل نكات سے سمجھا جا سكتا ہے۔
دنیا كے كسی دین نے اسلام كی طرح عقل كے ساتھ اس قدر قریبی رشتہ نہں ركھتا ہے اور اس كے"حق"كو تسلیم نہیں كیا ہے، كسی دین كا نام لیا جا سكتا ہے كہ جس نے عقل كو اپنے احكام كے سرچشموں میں سے ایك سرچشمہ قرار دیا ہو، فقہاء اسلام نے احكام كے چار سر چشمے اور ذریعہ قرار دیئے ہیں، كتاب، سنت، اجتماعاور عقل، فقہائے اسلام عقل اور شرع كے درمیان نا قابل شكست رشتے كے قائل ہیں اور اسے ایك لازمی اصول قرار دیتے ہیں وہ كہتے ہیں:
"كل ما حكم بہ العقل حكم بہ الشرع و كل ما حكم بہ الشرع حكم بہ العقل"
"جو كچھ عقل سلیم حكم كرتے ہے شرع بھی اسی كے مطابق حكم كرتے ہے اور جس چیز كا شرع حكم دیتی ہے عقل بھی اس كا حكم كرتے ہے۔"
فقہ اسلامی میں خود عقل كسی قانون كو منكشف كرنے والی ہو سكتے ہے اور وہ كسی قانون میں قیود و حدود وضع كر سكتے ہے یا اس قانون میں عمومیت پیدا كر سكتے ہے اور تمام سرچشموں اور ذرائع سے استنباط كرنے میں بڑی اچھی مددگار ثابت ہو سكتی ہے۔
عقل كی دخل اندازی كا حق اس طرح پیدا ہوا ہے كہ اسلامی قوانین زندگی كی حقیقت سے سروكار ركھتے ہیں اسلام اپنی تعلیمات مین ایسی مجہول پر اسراریت اور رمزیت كا قائل نہیں ہے، جسے حل نہ كیا جا سكتا ہو۔
كسی قانون كا مكتب قانون كا یكطرفہ ہونا خود اپنے اندر اپنی تنسیخ كی دلیل ركھتا ہے، انسان كی زندگی پر غلبہ ركھنے والے اور اثر انداز ہونے والے عوامل بہت زیادہ ہیں، ان میں سے كسی ایك سے بھی صرف نظر كرنا خود عدم تعادل پیدا كرتا ہے، قوانین كے ابدی ہونے كا سب سے اہم عنصر ان كا تمام مادی، روحانی، انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں پر محیط ہونا ہے، تعلیمات اسلام كی جامعیت اور ہمہ جہتی كی صفت ہی اسلام سے شنا سا ہونے والوں كے درمیان اس كی مقبولیت كا سبب ہے، اس نكتہ پر تفصیلی بحث ہماری اس گفتگو كے دائرے سے باہر ہے۔
تمام اسلامی تعلیمات نے روح اور معانی پر اور اس طریقے پر توجہ دی ہے جو انسان كو ان مقاصد و معانی تك پہنچا تا ہے، اسلام نے مقاصد و معانی اور ان تك پہنچنے كے طریقے كی طرف رہنمائی اپنے ذمے لینے كے بعد انسان كو اس كے علاوہ دوسرے امور میں آزاد چھوڑدیا ہے، اس طرح اس نے تہذیب و تمدن كے توسیعی عمل كے ساتھ تصادم سے پرہیز كیا ہے۔
اسلام میں كوئی مادی وسیلہ اور كوئی ظاہری شكل نہیں ملے گی، جسے تقدس حاصل ہو اور مسلمان كی یہ ذمہ داری ہو كہ وہ اس شكل اور ظاہر كی حفاظت كرے، اس اعتبار سے علم و تمدن كے توسیعی مظاہر كے ساتھ تصادم سے پرہیز اسلام كی ایك ایسی جہت ہے كہ اس نے زمانے كے تقاضوں پر دین كو منطبق كرنے كا كام آسان كر دیا ہے اور اپنی ابدیت كی راہ میں حائل ہونے والی ایك بڑی ركاوٹ كو دور كردیا ہے۔
اس دین كی خاتمیت اور ابدیت كا ایك دوسرا زمر یہ ہے كہ قوانین فطرت كے ساتھ ہم آہنگی سے قوت حاصل كرت اہے اس نے انسان كی مستقل اور دائمی ضروریات كے لییے مستقل اور غیر متبدل قوانین بنائے ہیں اور تغیر پذیر حالات اور صورتوں كے لیے اس نے قابل تغیر وضع قانون كی پیش بینی كی ہے،
سطور بالا میں ہم كہہ چكے ہیں كہ بعض انسان ضروریات خواہ ان كا تعلق انفرادی شعبوں سے ہو یا اجتماعی شعبوں سے اپنی مستقل صورت ركھتے ہیں اور وہ تمام انسانوں میں یكساں ہوری ہیں، اسنان اپنی جبلتوں اور عادتوں كے لیے جو نظام وضع كرتا ہے وہ اخلاق كہلاتا ہے اور اجتماعی زندگی كے لیے جو نظام تشكیل دیتا ہے اس عدالت، كا نام دیا جاتا ہے اور وہ اپنے خالق سے جو رابطہ قائم كرتا ہے اور اپنے ایمان كی تجدید و تكمیل كرتا ہے اسے عبادت كہتے ہیں، ان تینوں كا تعلق ان مستقل قسم كی ضروریات سے ہے۔
انسان كی بعض دوسرے ضروریات تغیر پذیر ہوتی ہیں، جو قانون كے لحاظ سے ایسے قانون سازی كو لازم كرتے ہیں جس میں تبدیلی ہو سكتی ہے، اسلام نے ایسی تغیر پذیر احتیاجات كے لیے وضع قانون كی لچكدار صورت اختیار كی ہے اس طرح اس نے قابل تغیر حالات كے لیے قانون سازی كو مستقل اور غیر متبدل اصولوں كے ساتھ مربوط كر دیا ہے اور وہ اصول ہر تغیر پذیر نئی صورت حال میں خاص متناسب فرعی قانون كو وجود میں لاتے ہیں۔
ہم صرف دو مچالون پر اكتفا كرتے ہیں۔
اسلام میں ایك اجتماعی اصول یہ ہے:
"و اعدوا لہم ما استطعتم من قوہ" 16
عنی آخری امكانی حد تك دشمن كے مقابل قوت فراہم كرو اور طاقتور بن كر رہو، كتاب یعنی قرآن ہمیں اس اصول كی تعلیم دیتا ہے، دوسری طرف سنت سے ہمیں ہدایات كا ایك سلسلہ ملتا ہے كہ فہ میں یہ ہدایات "سبق و رمایتہ"كے عنوان سے معروف ہیں، ہدایت كی گئی ہے مسلمان اور ان كے فرزند گھوڑے سواری اور تیر اندازی میں كامل مہارت حاصل كرین، گھوڑے سواری اور تیر اندازی اس دور كے فنون حرب كے ایك اہم جز تھے اور دشمن كے مقابل قور كی فراہمی اور طاقتور بننے كا بہترین ذریعہ تھے، "سبق درمایہ"كے قانون كی اصل تو قرآنكا یہ حكم ہے:"و اعدو لہم ما استطعتم من قوہ"یعنی اسلام كے نقطہ نظر سے تیر، تلوار اور نیزہ اور گھوڑا اصلیت نہیں ركھتے، یہ اسلامی مقاصد كا جز نہیں ہیں، جو بات اصلیت ركھتی ہے، وہ یہ ہے كہ مسلمانوں كو ہر دور اور زمانے میں دشمن كے مقابل اپنے فوجی اور دفاعی وسائل كو آخری حد امكان تك مضبوط طاقتور بنا نا چاہیے۔
در حقیقت تیر اندازی اور گھوڑا دوڑانے میں مہارت ایك لباس ہے جو دشمن كے مقابل طاقت كے جسم كو پہنایا گیا ہے، دوسرے الفاظ میں تیر اندازی میں مہارت اس زمانے میں طاقتور بننے كی ایك عملی صورت تھی دشمن كے مقابل طاقتور بننے كا لزوم ایك مستقل قانون كی حیثیت ركھتا ہے، جو ایك دائمی اور مستقل ضرورت سے قوت حاصل كرنا ہے لیكن تیر اندازی اور اسب دوانی ایك وقتی ضرورت كا مظہر ہیں اور زمانے كے تقاضوں اور تہذیبی عوامل كی توسیع كے ساتھ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور دوسری چیزیں جیسے آج كے جدید اسلحہ كے استعمال میں مہارت كا حصول ان كی جگہ لے لیتی ہیں۔
دوسری مثال، پیغمبراكرم (ص) نے فرمایا ہے:
"علم و دانش كا حصول ہر مسلمان پر واجب ہے۔"
حكماء اسلام نے یہ ثابت كیا ہے كہ علم و دانش كا حصول اسلامی نقطہ نظر سے دو صوتوں میں واجب ہے:ایك اس صورت میں جبكہ ایمان كا حصول علم و دانش سے وابستہ ہو، دوسرے اس وقت جب كسی ذمہ داری كا پورا كرنا علم و دانش كے حصول پر منحصر ہو۔
دوسری صورت كے بارے میں كہا گیا ہے كہ طلب دانش كا واجب ہونا تیاری كے لیے ہے كہ انسان كسی ذمہ داری كے ادا كرنے كی قابلیت پیدا كرے۔
اس لیے علوم كا حصول كا واجب ہونا یا نہ ہونا زمانے كے تقاضوں كے مطابق مختلف ہو جاتا ہے، پچھلے بعض ادوار میں اسلامی فرائض كی ادائیگی حتی اجتماعی فرائض جیسے تجارت، صنعت و سیاست كے لیے دانش كا حصول زیادہ ضروری نہیں تھا، اس كے لیے عام تجربات كافی تھے، ہمارے زمانے كی طرح بعض دوسرے زمانوں میں ان فرائض كی ادائیگی اس قدر دشار و پیچیدہ رہی ہے كہ اس كے لیے برسون تعلیم اور خصوصی تربیت لازمی قرار پائی تا كہ اسلامی اجتماعی فرائض (واجبات كفائی) انجام پا سكیں، یہی وجہ ہے كہ سیاسی، اقتصادی اور فنی علوم كی تحصیل جو ایك دور میں واجب نہیں تھی، دوسرے دور میں واجب ہو جاتی ہے، ایسا كیوں ؟ اسلامی معاشرہ كے استقلال، عزت اور حیثیت كے تحفظ كے لازمی اصول پر عمل كرنا ایك مستقل اور دائمی اسا كی حیثیت ركھتا ہے اور موجودہ دور كے حالات میں تحصیل و تكمیل دانش كے بغیر اس اصول پر پوری طرح عمل نہیں كیا جا سكتا، اس فرض كی ادائگی مختلف زمانوں اور مختلف حالات میں یكساں شكل مین نہیں رہی ہے، اس سلسلے میں بہت سی مثالیں دی جا سكتی ہیں۔
ایك دوسرا پہلو جو فطرت اور طبیعت كے ساتھ اسلام تعلیمات كی ہم آہنگی كی علامت ہے جس كی وجہ سے السامی قوانین كی ابدیت كا امكان پیدا ہوتا ہے وہ حقیقی مصالح اور مفاسد كے ساتھ احكام السامی كا علت و معلول كا رابطہ اور اس رو سے احكام كی درجہ بندی ہے۔
اسلام نے یہ واضح كیا ہے كہ احكام حقیقی مصالح و مفاسد كے ایك سلسلے كے تابع ہیں اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے كہ یہ مصالح و مفاسد ایك ہی درجے میں نہیں ركھے جاتے۔
اسی وجہ سے فقہ اسلامی میں ایك مخصوص باب باب"تراجم"یا "اہم و مہم"ركھا گیا ہے تا ك فقہا اور اسلامی كاركنوں كے لیے مختلف مصالح و مفاسد كے یكجا ہونے اور ان سے واسطہ پڑنے كی صورت میں آسانی حاصل ہو، اسلام نے اس بات كی اجازت دی ہے كہ اس طرح كے مواقع پر علمائے امت مصلحتوں كی اہمیت كے درجوں كا خود اسلام كی رہنمائی میں پوری توجہ كے ساتھ یقین كریں اور زیادہ اہم مصالح كو كم اہمیت والے مصالح ترجیح دیں اور تعطل كی حالت سے باہر نكل آئیں، رسول اكرم (ص) سے روایت ہے۔
"اذا اجتمعت حرمتان طرحت الصغریٰ للكبریٰ"
"جہاں دو امور واجب الاحترام جمع ہوجائیں تو بڑے امر كی خاطر چھوٹے امر سے صرف نظر كرنا چاہیے۔"
ابن كثیر"النہایہ"میں اس حدیث كو نقل كرتے ہوئے لكھتے ہیں"
"اگر كوئی ایسا معامہ ہو جس میں جماعت كا فائدہ اور فرد كا نقسان ہو رہا ہو تو جماعت كا مفاد فرد كے نقصان پر مقدم ہے۔"
جو كچھ ابن كثیر نے كہا ہے وہ زیادہ اہم مصلحت كو كم اہمیت والی مصلحت پر مقدم ركھنے كے ایك موقع سے متعلق ہے، حدیث كا فائدہ اسی ایك موقع تك محدود نہیں ہے، مردہ جسم كے اعضاء كی تشریح (Anatomy) كے علم كو ہمارے دور میں علم كی ترقی كے لیے ضروری سمجھا گیا ہے، اس كا تعلق باب"تزاحم"سے ہے، جیسا كہ ہمیں معلوم ہے اسلام نے مسلمان كے بدن كے احترام اور مراسم تجہیزیں عجلت كو لازم قرار دیا ہے جبكہ ہمارے زمانے مین طب كی تعلیم و تحقیق كے ایك حصے كا انحصار تشریح پر ہے، اس طرح دو مصلحتیں ایك دوسرے كے مقابل آگئی ہیں، ظاہر ہے كہ طبی تعلیم و تحقیق كی مصلحت میت كی جلد تجہیز اور اس كے بدن كے احترام كی مصلحت پر مقدم ہے اس احتیاط كے ساتھ كہ غیر مسلم كی لاشوں كے كافی نہ ہونے كی صورت میں مسلمان كی لاش پر انحصار كیا جائے اور پہچانی جانے والی لاس كو چھوڑ كرنہ پہچنای جانے والی لا استعمال كی جائے اسی طرح دوسرے باتوں كا بھی لحاظ ركھنا چاہیے، اس طرح "اہم ومہم"كے قاعدہ كے تحت مسلمان لاش كے اعضاء كی تشریح كی ممانعت ختم ہو جاتی ہے، اس قاعدہ كے تحت بھی بہت سی مثالیں ہیں۔
ایك دوسری چیز جس نے اسلامی ضوابط كو لچك، حركت اور تطبیق كی خاصیت عطا كی ہے اور ان كی ہمیشگی كو بر قرار ركھا ہے، بعض كنٹرول كرنے والے قواعد كے سلسلے كی موجودگی ہے جسے اسلامی قوانین كے متن میں شامل كیا ہے، فقہاء نے ان قواعد كا بڑا انچھا نام ہے اور انہیں"حاكمہ"كہتے ہیں یعنی وہ قواعد جو تمام اسلامی احكام و ضوابط پر بالادستی ركھتے ہیں اور ان سب پر حكومت كرتے ہیں، یہ قواعد اعلیٰ مناسب ركھنے والے انسپكٹروں كی تمام احكام و ضوابط كی نگرانی كرتے ہیں اور انہیں كنٹرول كرتے ہیں، قاعدہ"حرج"اور قاعدہ"لاضرر"ان ہی نگران قواعد (حاكمہ) سے تعلق ركھتے ہیں، در حقیقت اسلام نے ان نگران قواعد كو ویٹو كیا حق دیا ہے ان قواعد كی داستان بڑی دلچسب اور مفصل ہے۔
كچھ دوسرے اختیارات میں جو اسلام نے حكومت اسلام كو اور دوسرے الفاظ میں اجتماع اسلامی كو دئیے ہیں یہ اختیارات ابتدائی درجہ میں خود پیغمبر (ص) كی حكومت سے تعلق ركھتے ہیں، اس كے بعد امام كی حكومت سے ان كا تعلق ہے پھر ہر شرعی حكومت كو یہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں، قرآن كریم كا ارشاد ہے:"النبی اولی بالمومنین من انفسہم"
"پیغمبر خود مومنین سے زیادہ ان كے نفوس پر تسلط كا حق ركھتا ہے۔
یہ اختیارات ایك وسیع دائرہ ركھتے ہیں، اسلامی حكومت جدید حالات اور جدید ضروریات كو پیش نظر ركھتے ہوئے اسلام كے اساسی اصول و مبانی پر توجہ كر كے ضوابط كا ایك سلسلہ وضع كر سكتی ہے كہ ماضی میں موضوعا موجود نہیں رہے ہیں! 17
حكومت اسلامی كی قوت كے لیے ان اختیارات كو وجود لامی شر ہے تا كہ وہ آسمانی قوانین كا بہتر طریقہ پر اجرا ۴ اور انہیں بہتر انداز مین زمانے كے تقاضوں سے ہم آہنگ كر سكے اور ہر دور كے مخصوص لائحہ عمل كو بہتر طور پر مرتب و منظم كر سكے یہ اختیارات كچھ حدود اور شرائط ركھتے ہیں كہ یہان ان كے بارے میں كچھ كہنے كی گنجائش نہیں ہے۔
ہماری گذشتہ باتوں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے كہ انسان كا عقلی و علمی بلوغ اور اس كے توانائی كے نئے دور كا آغاز، جس میں اس پر الٰہی قوانین و معارف كے تمام حقائق روشن ہوئے اور دینی ورثوں كی حفاظت، تحریفات اور بدعتوں كے خلاف جنگ، دین كی اشاعت تبلیغ اور دعوت كا كام انجام پایا ختم نبوت كا اصل بنیادی پس منظر ہے، انسان كے دور اول میں مجبورا"وحی"نے جو ذمہ داری عمدہ طریقے پر پوری كی تھی اسے رشد و بلوغ عقل كے دور میں علمی و عقلی قوت انجام دیتی ہے اور علماء انبیاء كے وارث قرار پاتے ہیں
باوجودیكہ اسلام رائج مذاہب كی روایات كے بر عكس علمائے امركے لیے كسی ایسے اختیار كا قائل نہیں ہے جو طبقاتی امتیاز پر منتج ہو، دین كی بڑی اہم ترین ذمہ داری ان كے شانوں پر عائد كی ہے اسلام كی طرض كسی دین مین علمائ نے ایسا موثر اور حقیقی نقش مرتسن نہیں كیا ہے اور یہ اس دین كی خاتمیت س حاصل ہونے والے خصوصیت ہے، اولیم منصب جو خاتمیت كے دور میں پیغمبرون كی طرف سے علمائے امرت كی جانب منتقل ہوا ہے وہ دعوت، تبلیغ، ارشاد اور تحریفات و بدعات كے خلاف جن كا منصب ہے، انسانی گروہ تمام زمانون مں دعوت و ارشاد كے محتاج رہے ہیں۔قرآن نے صراحت كے ساتھ ذمہ داری كو خود امت كے ایك گروہ پر ڈالا ہے۔
"و لتكن منكم امہ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینہون عن المنكر" 18
"تم مین سے ایك گروہ ہونا چاہیے جو خیر كی طرف دعوت دے نیكی كا حكم كرے اور برائی سے روكے"
وہ اسباب ہر وقت موجود رہے ہیں جو تحریفات و بدعت پر منتج ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے، یہ علماء امت ہی كی ذمہ داری ہے كہ تحریفوں اور بدعتوں كے خلاف جنگ كریں، رسول اكرم (ص) نے فرمیا ہے:
"اذا ظہرت البدع فعلی العالم ان یظہر علمہ و من لو یفعل فعلیہ لعنۃ اللہ"
"جب بدعتیں ظاہر ہوں یہ عالم كی ذمہ داری ہے كہ اپنے علم كو ظاہر كرے اور جو ایسا نہیں كرے گا اس پر خدا كی لعنت۔"
جو چیز تحریفات و بدعات كے خلاف جنگ كو ممكن اور اس كے كام كو آسان بناتی ہے وہ اصلی معیار و مقیاس یعنی قرآن كا محفوظ رہنا رسلو اكرم (ص) نے خاص طور پر تاكید كی ہے جو كچھ آپ كی زبان سے نقل ہوا ہے اس كی صحت و سقم كو معلوم كرنے كے لیے قرآن كی كسوٹی سے فائدہ اٹھا یا جائے۔
كتابون كے اصل متن كو حوادث كے دستبرد سے محفوظ ركھنا، اصول سے فروع كا استنباط، جزئیات پر كلیات كا انطباق ہر دور كے جدید مسائل كی دریافت ان پر غور و بحث، یك طرفہ رجحانات كا سدباب، صورتوں، ظواہر اور عادتوں پر جمود كے خلاف جنگ، فرعی ضوابط اور فتیہ سے اصل اور مستقل احكام كو الگ كرنا، اہم ومہم تشخیص اور اہم كو ترجیح دینا وقتی قوانین كے وضع كرنے میں حكومت كے اختیارات كے حدود كا تعین، زمانے كی ضروریات سے ہم آہنگ لائحہ عمل كیا تیاری ختم نبوت كے اس دور میں علماء كے اہم فرائض ہیں۔
امت اسلامیہ كے علامء اپنی ذمہ داری اور اہم منصب كے پیش نظر اپنے زمانے كے سب سے زیادہ علام افراد ہونے چاہیں كیونكہ وہ انسانوں كے اخلاقی انحرافات اور روحانی انحطاط كے مقتضیات سے وقت كے حقیقی مقتضیات كو جدا كركے ان كو ٹھیك ٹھیك تشخیص اس وقت تك نہیں كر سكتے جب تك كہ وہ زمانے كی روح سے زمانے كی ساخت میں كار فرما عوامل اور انع و امعل كی سمت سفر سے اچھی طرح واقف نہ ہو۔
علماء امت كی اہم ذمہ داریوں اور فرائض میں سے ایك اجتہاد بھی ہے اجتہاد كا مطلب صحیح طریقے سے وہ علامانہ كو ششجو كتاب، سنت، اجماعاور عقل كے سرچشموں سے استفادہ كر كے اسلام كے اصلو و ضوابط معلوم كرنے كے لیے كی جاتی ہے۔
اجتہاد كا لفظ پہلی بار احادیث نبوی میں استعمال ہوا پھر مسلمانوں مین رواج ہو گیا، قرآن مین یہ لفظ نہیںآیا، روح معنی كے لحاظ سے جو لفظ اس كا مرادف ہے اور قرآن مین بھی آیا ہے وہ "تفقہ"ہے قرآن نے صراحت كے ساتھ تفقہ، دین كی گہری فہم حاصل كرنے كی تاكید كی ہے۔
اجتہاد یا تفقہ سے خاتمیت كے اس دور میں بہت نازك اور بنیادی ذمہ داری وابستہ ہے اور اسلام كی ابدیت كے لیے اسے ایك اہم شرط كی حیثیت حاصل ہے، اجتہاد كو الام كی قوت محركہ كہا گیا جو بالكل درست ہے بزرگ مسلمان فلسفی ابن سینا بڑی روشن فكری كے ساتھ اس مسئلہ پر بحث كی ہے وہ كہتا ہے:
"اسلامی كلیات مستقل، غیر متغیراور محدود ہیں لیكن حوادث و مسائل غیر محدود اور متغیر ہیں اور ہر دور مخصوص تقاضوں اور مخصوص مسائل كا حامل ہوتا ہے، اسی لیے ہر دور اور عہد میں ایسے افراد كی ضرورت ہے جو ماہر، اسلامی كلیاتے كے عالم، زمانے كو درپیش مسائل سے آگاہ اور جو كلیات اسلامی كی روشنی میں جدید مسائل میں اجتہاد و استنباط كی صلاحیت كے حامل اور اس ذمہ داری كو پورا كرسكیں ۔"تمدن اسلامی كے درخشان دور میں جبكہ ایك وسیع اور بدوی مسلم معاشرہ ترقی و توسیع كی جانب تیزی سے قدم بڑھارہاتھا اور اس نے ایشیا كے علاوہ اور افرقہ كے بعض حصوں پر غلبہ حاصل كرلیا تھا اور گوناگون نسلوں اور قوموں پر جن میں سے ہر ایك اپنا ایك خاص ماضی اور تہذیب ركھتی تھی، اسے حكومت كرنے كا موقع ملا، اس دوران ہزاروں جدید مسائل پیدا ہوئے ۔مسلمان اس ذمہداری سے بڑی كامیابی كے ساتھہ عہدہ برآہوئے اور دنیا كو حیرت میں ڈال دیا ۔علمائے اسلام نے ثابت كردیا كہ اسلامی سر چشمہ اپنی بہتر تشخیص اپنے بہتر اسنباط سے ترقی و تكمیل كے مراحل سے گزرنے والے كسی بھی معاشرہ كے ساتھہ چل سكتے ہیں اور اس كی رہنمائی كرسكتے ہیں ۔انہوں نے ثابت كردیا ہے كہ "اسلامی حقوق" كا قانون یعنی (etytlpocedure) زندہ ہے اور زمانے كی ترقی سے پیدا ہونے والے تقاضوں كے ساتھہ ہمآہنگی كی قابلیت ركھتا ہے اور ہر دور كی ضروریات كا جواب دےسكتا ہے ۔
مستشرقین اور ماہرین قانون جنہوں نے اس دور كی فقہ اسلامی كی تاریخ كا مطالعہ كیا ہے اس حقیقت كے معترف ہیں اور حقوق اسلامی یعنی اسلام كے (etvilprocedure) كو مستقل "مكتب قانون "كی حثیت سے تسلیم كیا ہے اوور اسے ایك زندہ مكتب قانون قرار دیا ہے ۔
ساتویں صدی ہجری تك اجتہاد كا حق محفوظ تھا اور اس كا دروازہ كھلا ہوا تھا البتہ اس ساتویں صدی میں خاص تاریخی اسباب كی بنا پر شوری اور اجماع كو بنیاد بمناكر علماء سے یہہ حق سلب كرلیا گیا اور علماء ہمیشہ كے لئے دوسری اور تیسری صدی ہجری كے علماء كے نظریات كا اتباع كرنے پر مجبور ہوگئے اور یہیں سے چھہ معروف مذاہب تك فقہی مذاہب كی تجدید وجود میں آئی ۔
اجتہاد كے دروازے كا بند ہوجانا عالم اسلام كا ایك بڑا المناك حادثہ سمجھا جاتا ہے شاید اجتہادات میں افراط كے سلسلہ كے خلاف رد عمل كے طور پر ایسا ہوا ہو بہر كیف فقہ اسلامی میں جمود اور ٹھراؤ اسی وقت سے شروع ہوا ۔
اجتہاد كے دروازے كے بند ہونے كے ناپسندیدہ اثرات اہل تشیع پر بھی مرتب ہوئے ساتویں صدی ہجری كے بعد شیعہ فقہ میں عمیق فكر و نظر پیدا ہوگئی تھی اور بعض شعبوں میں وسیع تبدیلیاں رونماہوئی تھیں ۔اس كے باوجود اس بات سے انكار نہیں كیا جاسكتا كہ اس فقہی سسٹم میں بھی چند صدی پہلے كی طرح مسائل كی تشریح كا رجحان اور وقت كے مسائل كا سامنا كرنے سے گریز اوعر جدید و عمیق تر طریقوں كے دریافت كی جانب سے بے رغبتی واضح صورت میں نظر آتی ہے ۔نہایت افسوس كی بات یہ ہے كہ حالیہ صدیوںں كے دوران نجوانوں اور اصطلاحا روشن فكر مسلمانوں كے طبقے میں مغرب كی طرف میلان، مشرقی و اسلامی روایات كی نفی كی رجحان اور مغربی "آزمون "كی اندھی تقلید كا مرض پیدا ہوگیا ہے ۔بد قسمتی سے یہ مرض بڑھتا جارہا ہے لیكن خوش نصیبی كا پہلو یہہے كہ ان اندھے اور خوابیدہ رجحانات كی تاریكی میں بیداری اور آگاہی كا ایك كرن بھی پھوٹ رہی ہے ۔
اس خواب غفلت میں مبتلا كرنے والی گمراہی كی جڑ وہ غلط تصور ہے جو یہ گروہ اصطلاحا اسلامی ضوابط كے تحكمانہ، ادعائی (dogmatie) پہلو كے بارے میں ركھتا ہے ۔گذشتہ صدیوں كے دوران اجتہاد میں جمود نے ان غلط تصورات كو تقویت فراہم كی ہے ۔قوم كے رہنمائی اور ذمہ دارافراد كا غرض یہ ہے كہ جس قدر جلد ہوسكے علمی و منطقی انداز میں اس طرح كے رجحانات كا مقابلہ كرنے كے لئے اتھہ كھڑے ہوں ۔
اس صورت حال كے اسباب و عوامل كسی سے پوشیدہ نہیں ہیں جس بات پر ہمیں پردہ نہیں ڈالنا چاہیئے وہ یہ ہے كہ فكری جمود اور ٹھراؤ گذشتی صدیوں كے دوران عالم اسلام پر مسلط رہا ہے ۔خسوصا اسلامی فقہ۹ میں جمود ۔ماضی كی طرف دیكھنے اور زمانے كی روح كو سمجھنے اور اس كا سامنا كرنے سے گریز ہماری اس ناكامی اور شكست كا ایك بڑا سبب سمجھا جاتا ہے آج عالم اسلام كو ہمیشہ سے زیادہ ایك ایسی قانون سازی كی تحریك كی ضرورت ہے جو ایك جدید وسیع اور ہمہ گیر نظر سے اسلامی تعلیمات كیگہرائی سے فیض حاصل كرے اور مسلمانوں كے دست و پا كو مغربی افكار و نظریات كے استعماری بندھنوں سے آزاد كرائے ۔
فلسفہ كے موضوعات میں سے ایك حیرت انگیزز موضوع كا تعلق اسلامی سرچشموں خصوصا، قرآن كریم كے مضامیں میں تحقیق، دریافت و استنباط ہے صرف فقہ اور حقوق كے مسائل ہی نہیں تمام شعبوں كے بارے میں یہی كہا جاسكتا ہے ہر انسانی كتاب خواہ وہ ایك بڑا شاہكار ہی كیاں نہ ہو تحقیق و مطالعہ كے لئے اپنے اندر محدود استعداد اور ختم ہوجانے والی وسعت ركھتی ہے اور اس كتاب كے تمام نكات كو واضح كرنے كے لئے چند ماہرین كافی ہوسكتے ہیں لیكن قرآن نے جن پر گذشتہ چودہ صدیوں كے دوران ہمیشہ سینكڑوں ماہرین تحقیقی كا كرتے رہے ہیں یہ ثابت كردیا ہے كہ تحقیق و اجتہاد كے نقطہ نظر سے وہ بے پایان استعداد اور وسعت اپنے اندر ركھتا ہے ۔قرآن اس اعتبار سے فطرت كے مانند ہے كہ جس قدر فكر و نظر وسیع تر اور عمیق تر ہوتی چلی جاتی ہے قرآن كے مضامین میں تحقیقات و مطالعہ كی پہنائی اور زیادہ وسیع ہوتی چلی جاتی ہے اور نئے سے نئے سے نئے راز سامنے آتے چلے جاتے ہیں مبدا و معاد حقوق، فقہ، اخلاق، تاریخی قصص اور طبیعیات سے متعلق جن مسائل كا ذكر قرآن میں آیا ہے اگر ان كا دقیق مطالعہ كرنے كے بعد چودہ صدیوں كے دوران ابھرنے والے اور پرانے ہوجانے والے نظریات كے ساتھہ موازینہ كیا جائے تو حقیقت پوری طرح روشن ہوجائے گی ۔
فكر و نظر خواہ كتنی ہی ترقی كرجائے اور وسیع تر و عمیق تر ہوجائے وہ خود كو قرآن كے ساتھہ ہم آہنگ پائےگی حقیقت یہ ہے كہ آسمانی كتاب كو جو ایك باقی رہنے والا معجزہ ہے ایسا ہونا چاہئے ۔
قرآن كے نزدیك سن سے بڑا دشمن جمود اور ایك خاص زمانے اور متعین مرحلے كی دانش پر اھصار كرنا ہے جیسا كہ علوم فطرت كی راہ میں سب سے بڑی ركاوت تھی كہ ہمارے علماء یہ سمجھتے تھے كہ فطرت كا علم وہی ہے جو ماضی میں ارسطو اور افلاطون و غیرہ جیسے افراد نے ترتیب دیا ہے ۔
قرآن كریم حتی كہ خود رسول اكرم (ص) كے جامع كلمات اپنے اندر تحقیق و كاوش كے بے وسعت ركھتے ہیں، اس لئے نظروں كو محدود ہوكر نہیں ہہ جانا چاہئے ۔اول روز سے اسلام كے عظیم رہبر كی وجہ اس جانب رہی ہے اور آپ (ص) اسے اپنے اصحاب كے گوش زد كرتے رہے ہیں رسول اكرم (ص) نے بار بار اپنے كلمات میں اس نكتہ كی طرف توجہ دلائی ہے كہ قرآن كو ایك خاص زمانے كی دانش و بینش كے ساتھہ محدود نہ كرو ۔آپنے فرمایا :"قرآن كا ظاہر خوبصورت اور اس كا باطن عمیق ہے جس كی ایك حد و ںہایت ہے پھر اس كے اوپر ایك اور حد و نہایت ہے اس كے عجائبات كبھی ختم نہیں ہوں گے اور اس كی تازگیوں پر كبھی پژمردگی طاری نہیں ہوگی ۔"
امام صادق علیہ السلام سے سوال كیا گیا :"یہ كیا راز ہے كہ قرآن كو لوگوں كے درمیان جس قدر پھلایاجاتا ہے اور اسے پڑھاجاتا ہے اور اس كے بارے میں بحث و فكر كی جاتی ہے اسی قدر اس كی طراوت و تازگی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ؟ "امام (ع) نے جواب دیا :"ایسا اس لئے ہے كہ قرآن كو ایك خاص و زمان كے لئے اور كسی خاص قوم كے لئے نازل نہیں كیا گیا ہے قرآن تمام زمانوں كے لئے اور تمام انسانوں كے لئے ہے اس اعتبار سے وہ ہر زمانے میں جدید ہے اور تمام لوگوں كے لئے ہروقت تاززہ ہے۔"
رسول اكرم (ص) جب اپنی احادیث كو ٹھیك ٹھیك یاد كرنے اور دوسروں تك پہچانے كی تاكید فرماتے تھے تو اس میں یہ خاص نكتہ پوشیدہ ےھا كہ شاید جس شخص نے آپ سے براہ راست آپ كی احادیث كو سنا ہو تفقہ سے بہرہ مند نہ ہو اور وہ كسی صاحب دانش و بینش تك انہیں منتقل كرنے كے لئے محض ایك رابطے كا كام دے یا پھر جو شخص آپ سے حادیث سنے وہ تفقہ سے بہرہ منر ہو لیكن اس كے ذریعہ جس شخص تك كی كوئی حدیث پہچانے والے سے زیادہ تفقہ كا مالك ۔
تاریخ سے یہ بات ثابت ہوچكی ہے كہ بعد كے زمانوں میں آن حضور (ص) كی احادیث مفاہیم و مطالب كے سمجھنے میں پہلے سے زیادہ تفقہ سے كام لینے كی ضرورت پیش آئی۔
ترقی و تكمیل كی طرف مسلسل بڑھنے والی دانش و بینش كا اثر كسی جگہ اس قدر محسوس نہیں كیا جاسكتا جس قدر كہ فقہی مسائل میں اسے دیكھا جاسكتا ہے ۔فقہ اسلامی پر كئی دور گزد چكے ہیں ہر دور میں ایك خاص طرز فكر اور ایك خاص دانش حكمفرما رہی ہے ۔آج كے استنباط كے قواعد سے مختلف ہیں ۔ایك ہزار سال پہلے كے علماء جیسے شیخ طوسی یقینا ایك ممتاز مجتہد رہے ہیں اور لوگوں نے ان كی جو پیروی و تقلید كی ہے وہ صحیح ہے قدیم علماء كا طرز فكر ان كی ایسی كتابوں سے واضح ہے جو فقہ خصوصا اصول فقہ پر لكھی گئی ہیں ۔
شیخ طوسی كی اصول فقہ پر بعض كتابیں ان كے طرز تفكر كو بخوبی ظاہر كرتی ہیں یہ كتابیں آج بھی موجود ہیں ۔
حالیہ ادوار كے فقہاء پر نظر ڈالیں تو یہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ سابق طرز تفكر منسوخ ہوگیا ہے ۔اس لئے كہ جدید تر عمیق تر اور وسیع تر دانش نے پرانے طرز فكر كی جگہ حاصل كرلی ہے ۔جیسا كہ موجودہ دور میں سماج، نفسیات اور قانون كے شعبوں میں علم و دانش نے فقہی مسائل میں زیادہ گہرائی كے امكانات پیدا كردئے ہیں ۔
اگر كوئی شخص یہ پوچھے كہ كیا اس سابق عہد كے علماء اپنے اس وقت كے تفقہ اور طرز فكر كے ساتھہ مجتہد كے مقام پر فائز رہے ہیں ؟ اور كیا وہ اس بات كے مستحق تھے كہ عوام ان كی تقلید كرتے اور ان كے تفقہ كو اسلامی ضوابط كی تشخیص و تدوین كا اہل قرار دیتے ؟ ان سوالات كا جواب اچبات میں دیا جائے گا ۔
پھر اگر یہ سوال كیا گیا كہ موجودہ دور میں اگر كوئی شخص یہ چاہے كہ چاتھی اور پانچویں سدی كے بعد كی تمام كتابیں اور تالیفات اور آچار كو جوں كا توں قبول كرلے اور خود كو پانچویں صدی میں فرض كرے اور شیخ طوسی جیسے علماء نے جن كتابوں كا مطالعہ كیا تھا ان ہی كا وہ بھی مطالعہ كرے اور وہی طرز تفكر اور وہی تفقہ اپنے اندر پیدا كرے جو ان علماء نے اپنے اندر پیدا كیا تھا تو كیا وہ مجتہد كہلاسكے گا اور لوگوں كو یہ حق حاصل ہوگا كہ اس كی تقلید كریں ؟ اس كا جواب نفی میں دیا جائے گا ۔آخر ایسا كیوں ؟ اس شخص كے درمیان اور پانچویں صدی كے لوگوں كے درمیان كیا فرق ہے؟
فرق یہ ہے كہ ان علماء نے جس دور میں زندگی بسر كی تھی اس كی دانش و بینش اسی دور كے لئے تھی یہ شخص ایسے عہد میں زندگی بسر كررہا ہے جس میں ماضی كے اس طرز تفكر اور تفقہ كی جگہ ایك جدید تر طرز تفكر اور تفقہ نے لے لی ہے اور ماضی كا وہ طرز تفكرات منسوخ ہوچكا ہے ۔
اس سے یہ بات بخوبی سمجھی جاسكتی ہے كہ اجتہاد ایك اضافی اور تكاملی مفہوم ركھتا ہے ہر دور ایك مخصوص دانش و بینش پیدا كرا ہے ۔یہ اضافیت دو چیزوں سے ختم ہوجاتی ہے ۔اشف و تحقیق كے لئے اسلامی سرچشموں كی بے پایان وسعت و صلاحیت اور دوسرے انسانی افكار اور علوم طبیعی كی تكمیل خاتمیت كا سب سے بڑا راز یہی ہے ۔
5.سورۀ نساء آیت ۲۸.
6.سورۀ دہر آیت ۳.
7.سورۀ مائدہ آیت ۴۸.
8.سورۀ آل عمران آیت ۸۱.
9.سورہ انعام، آیت ۱۱۵.
10.فیض كاشانی، علم الیقین، صفحہ ۱۰۵.
11.سورۀانفال۔آیت ۲۹.
12.سورۀ عنكبوت آیت ۶۹.
13.صدر المتالھین شیرازی، مفاتیح الغیب، صفحہ ۱۳.
14.سورۀاعلیٰ آیت ۱۔۳.
15.سورۀ علق آیت ۱۔۵.
16.سورۀانفال، آیت ۶۰.
17. رجوع كیجئے"تنبیہ الامہ" مرحوم آیت اللہ نائنی، صفحات۹۷، ۱۰۲، اور مقالہ"ولایت و زعامت" علامہ طباطبائی كے قلم سے، كتاب "مرجعیت و روحانیت" چاپ دوم صفحات ۸۲، ۸۴۔
18.سورۀآل عمران، آیت ۱۰۴.