جب کوئي قوم قرآن مجيد کي عزت و تعريف و تمجيد کرتي ہے تو در حقيقت وہ خود اپني تعريف و تمجيد کرتي ہے ايسي قوم اس انسان کے مانند ہے جوفتات عالمتاب کي مدح و ثنا کرتا ہے، کيونکہ قرآن کتاب ہدايت ہے، قرآن انسان کے لئے قيمتي الٰہي يتوں کا مجموعہ ہے
قرآن کتاب ارتقائے انساني ہے ۔ جوشخص واقعي طور پر اس کتاب کا احترام کرے درحقيقت اس نے اپني ذات، اپنے ادراک اور اپنے عمل کو قدروقيمت عطا کي ہے ۔
مسلمانوں کو قرآن سے جدا کرنے کے لئے برسہا برس سعي و کوشش کي گئي اور افسوس ہے کہ يہ کوشش کرنے والے اپنے مقصد ميں کامياب بھي ہوگئے ۔ اس طويل عرصہ ميں اسلامي معاشرے ميں قرآن مجيد کي ظاہري شکل و صورت کے سواکچھ باقي نہ رہا ۔ جوکتاب ہر دور کي نسل انساني کي ہدايت کے لئے نازل ہوئي تھي وہ،اسلامي معاشرے ميں ظاہري تکلفات اور رسوم و رواج کا ذريعہ بنادي گئي ۔ قرآن مجيد کو اس کي اصل حيثيت سے دور کرديا گيا، التبہ خدا کا شکر ہے کہ مسلم قوموں کا ايمان قرآن سے ہرگز نہ اٹھا اور يہ خود قرآن کا ايک معجزہ ہے ۔ ليکن قرآن کے ساتھ مسلمانوں کا سلوک اس کے نزول کے اہداف و مقاصد کے مطابق نہ تھا ۔قرآن ، جو انسانوں کو تاريکي وظلمات سے نکال کر نور و روشني کي جانب ہدايت کرنے يا تھا، جس کتاب ميںہر چيز موجود تھي، انسانوں کے تمام سوالوں کے جواب موجود تھے ۔ جو کتاب انسان کي پوري زندگي کے لئے کافي تھي وہ رسومات و تکلفات کا ذريعہ بن گئي ۔
اس جرم کا حقيقي مجرم کون ہے؟
قوميں مجرم نہيں ہيں، انھيں اس جرم کا ذمہ دار نہيں ٹھہرايا جا سکتا ۔ سب سے پہلے ذمہ دار وہ سياست باز و منصوبہ ساز توسيع پسند ہيں جو اسلامي قوموں کے درميان قرآن مجيد کو اپنے مفادات کي راہ ميں رکاوٹ سمجھتے تھے ۔ لہٰذا انھوں نے عوام سے قرآن مجيد کو چھيننے کے لئے کمر باندھ لي تھي ۔ اس کے بعد وہ لوگ گناہگار ہيں جنھوں نے انسانيت سے دور اور اسلامي مصالح و مفادات سے بے گانہ اغيار کي سازشوںاور ان کي شيطاني ومنحوس تدبيروں کو قبول کيا اور اپنے معاشرے ميں انھيں مدد پہنچائي ۔
قوميں قرآن کي محتاج ہيں:
خود ہمارے معاشرے ميں انقلاب سے قبل،اسلام و قرآن کي نشاۃ ثانيہ سے پہلے کلام ا کي حالت افسوس ناک تھي ۔ مقصد يہ نہيں ہے کہ کوئي شخص تلاوت قرآن نہيں کرتا تھا، قرآن تھامگر صرف ظاہر داري کي حد تک، تلاوت قرآن کو ايک اضافي اور دوسرے درجے کي چيز سمجھا جاتا تھا، معاشرہ، توحيدي حاکميت اورقرآني تعليمات پر عمل پيرا نہ تھا ۔
جب کسي معاشرے ميں يہ چيزيں نہ ہوں تو درحقيقت اس معاشرے ميں قرآن کا وجود ہي نہيں ۔ ج مسلمان قوميں اپنے معاشرے ميں بازگشت قرآن کي محتاج ہيں اور يہ قرآن مجيد پر عمل کئے بغير ناممکن ہے ۔
ہميں يہ بات جان لينا چاہئے کہ بڑي طاقتيں قرآن مجيد کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتي ہيں ۔ وہ نہيں چاہتيں کہ حيات انساني کي قيادت وہدايت قرآن مجيد کے ذريعہ انجام پائے ۔ اسلاميان عالم کا فريضہ ہے کہ احيائ قرآن اور انساني معاشرے ميں قرآن مجيد حاکم کرنے کے لئے عظيم جہاد کريں، اس کے لئے جہاد کرنا مسلمانوں کا حق ہے ۔ اگر قرآن مسلمانوں کي زندگي ميںواپس جائے تو اسلامي قوموں پر بڑي طاقتوں کا اقتدار و تسلط ختم ہوجائے گا، امت اسلامي اورمسلم معاشرہ قرآن پسند شکل اختيار کرلے گا ۔
ہم نے اپنے ملک ميں صحيح معنوں ميں قرآن سے دوري کا احساس کيا ہے ’’ا ن قومي اتخذوا ہذا القرآن مہجوراً‘‘ يہ ہماري زندگي کي ايک حقيقت تھي، قرآن مہجور تھا، اسے بھلايا جا چکا تھا ۔
حتي کہ معارف اسلامي اور حقائق اسلام کے ادراک کے لئے بھي قرآن مجيدکو بطور سند و مصدر کم ہي پيش کياجاتا تھا ۔ تفسير قرآن کے سلسلے ميں کم کوشش ہوتي تھي ۔ حتي کہ ان تعبيرات کے مفاہيم کے ادراک پر جو قرں مجيد ميں موجود ہيں،بہت کم توجہ دي جاتي تھي، قرں کي زبان اکثر لوگوں کے لئے ناشنا اور نسل جوان قرآن سے بيزار تھي ۔رفتہ رفتہ گھروں، مدرسوں اور جلسوں وغيرہ ميں تلاوت قرآن بھي متروک ہوتي جارہي تھي ۔ ايک ايسي حالت ہمارے معاشرے پر طاري تھي ۔ البتہ يہ حالت پيدا کي گئي تھي ، دشمنوں نیزبردستي ہمارے عوام مسلط کي تھي، ہماري نئي نسل قرآن سے نامانوس تھي ۔
رفتہ رفتہ قرآن مجيد سے دوري کي پاليسي بنانے والے اپنے مقصد سے نزديک ہوتے جارہے تھے ۔ ان کا ئيڈيل مسقتبل قريب رہا تھا، وہ ايسے دور کے چکر ميں تھے جب مسلمان صرف نام کے مسلمان ہوں، انھيں دين کے بنيادي ستون، دين کے اصل ماخذ، دين کے بارے ميں کلام الٰہي يعني قرآن مجيد سے کوئي واقفيت نہ ہو۔ ہم ايک ايسے بھيانک مستقبل کي طرف بڑھ رہے تھے اور افسوس ہے کہ ج کچھ مسلمان قوميں اس حالت کو پنہچ چکي ہيں يا اس سے بھي بہت قريب ہيں ۔
قرآن زبان کي ترويج موقوف تھي ۔ جب کسي معاشرے ميں قرآن سے بے گانگي کا يہ عالم ہو مشکلات اور مسائل کے حل کے لئے قرآن نظريات سے بے توجہي برتي جائے تو ايسے معاشرے ميںزندگي بسر کرنے والے عوام ضلالت و گمراہي کے دلدل ميں غرق ہو جائيں گے ۔ اسلام کے نام پر حقيقت سے کوسوں دور غلط افکار معاشرے ميں رائج ہو جائيں گے ۔ ہمارے معاشرے ميں يہ ساري چيزيں ہو چکي تھيں ۔ مختلف ثقافتوں سے متاثر ہو کر پيدا ہونے والے افکار اسلامي نظريات کے طور پر ذہنوں ميں جاگزيں ہو چکے تھے ۔ قرآن مجيد کي حقيقي وجود جو سورج کي طرح تاريکيوں کا سينہ چير کي دنيا کو منور کرتا ہے، شبہات کو دور اور مسائل کا حل پيش کرتا ہے، معاشرے سے مٹ چکا تھا ۔
ليکن ہمارے انقلاب نے قرآن کو مرکز قرار ديا ۔ لہٰذا فطري بات تھي،انقلاب نے ہم لوگوں کو بھي قرآن سے وابستہ کرديا، قرں کي واپسي کا اثر، تلاوت ، تفسير اور تجويد جيسے قرآن مسائل سے ہمار عوام کا لگا پيدا کرنا ہے، يہ دلچسپي صحيح اوربجاہے ۔
خوشي کا مقام ہے کہ اب ہمارے معاشرے کو تحريک کا مرکز قرآن مجيد کے بنيادي اصول ہيں ۔ ہم يہي چاہتے تھي تھے، ہمارے ذمہ داروں نے قرآن تعليمات پر عمل کرنے کا عزم کيا ہے ۔ ہر چند ابھي ہميں مکمل کاميابي حاصل نہيں ہوئي ہے ليکن کامياب کوششيں ضرور ہوئي ہيں ۔
ہمارے معاشرے ميں تلاوت و قرآت قرآن کا رواج اس بات کي علامت ہیکہ قرآن معاشرے ميں واپس گيا ہے ۔ ہميں اعتراف ہے کہ اس سے پہلے ہمارے عوام قرآن س زياد مانوس نہ تھے ۔ لہٰذا ضروري ہے کہ ہمارے عوام مناسب اور موزوں طور پر قرآن سے انسيت پيدا کريں ۔ ممکن نہيں کہ ہم کسي قوم کي دنيا و خرت کو قرآن کے ذريعہ سنوارنا چاہيں اور وہاں نظام حکومت کي اساس وبنياد عوام ہوں ۔ ليکن خود عوام قرآن سے انسيت نہ رکھتے ہوں، يہ ناممکن ہے ۔
عوام قرآن سے سبق حاصل کريں:
معاشرے ميںقرآن کا رواج ضروري ہے ۔ ابھي تک جو کچھ انجام پايا ہے وہ صرف ايک قدم ہے ۔ ابھي اس کے بعد سوقدم اٹھانے باقي ہيں ۔ ہمارے عوام قرآن سيکھيں، حفظ قرآن کا رواج ہونا چاہئے، ہمارے گھروں ميں ہميشہ تلاوت قرآن ہوني چاہئے ۔ پ کو معلوم ہے کہ اسلام قرآت قرآن کے سلسلے ميںکيا کہتا ہے؟
’’اشرف امتي اصحاب الليل وحملہ القرآن‘‘
ميري امت کے معززين شب زندہ دار اور حاملات قرآن افراد ہيں ۔
حمل قرآن کا مطلب صرف يہ نہيں ہے کہ ہم قرآني تعليمات و قوانين پر عمل کرتے ہيں بلکہ قرآن سے انسيت ضروري ہے ۔ قرآن کي تلاوت کي جائے، قرآن کو حفظ کيا جائے، گھروں سے تلاوت قرآن کي دلنواز صدائيں بلند ہوں، نسل جوان قرآن پڑھے، بچے قرآن سيکھيں ۔
مائيں اپنے بچوں کو حتمي طورپر تلاوت قرآن کي تعليم ديں ۔ باپ اپنے بچوںک تلاوت قرآن کي نصيحت کرنا ايک فريضہ سمجھيں ۔ذکر قرآن سے معاشرے کو معمور کرديجئے، ہماري زندگي کو قرآن سے معطر ہونا چاہئے، اس کے بغير نجات ناممکن ہے ۔ صدر اسلام ميں قرآن عوام کے درميان رائج تھا، جو شخص قرآن لکھتا تھا،ياد کرتا تھا، اس کي تلاوت کرتا تھااسے معاشرے ميں عزت و قدر کي نگاہ سے ديکھا جاتا تھا، وہ پيغمبر۰ کي نگاہوں ميں محبوب سمجھا جاتا تھا ۔
پيغمبر۰ اسلام نے عظمت قرآن کا جو سکہ بٹھايا تھا، عوام کے درميان الفت قرآن کي جو موج ايجاد کي تھي وہ ايک عرصہ تک باقي رہي، عوام قرآن سے وابستہ رہے ۔ اور قرآن زندہ تھا ۔ اسلامي حکومت اس وقت اپني حقيقت کھو بيٹھي جب قرآن معاشرے سے رخصت کرديا گيا ۔
جب تک عوام ميں قرآن سے اس باقي تھي عياش وشہوت پرست بادشاہوں کے لئے ممکن نہ تھا کہ علانيہ فسق و فجور کے بھي مرتکب ہوں اور عوام پر حکومت بھي کرتے رہيں ۔ تاريخ ميں ايسے واقعات ملتے ہيں کہ عوام نے خليفہ کے مقابلے ميں قرآن کے ذريعہ مبارزہ و مجادلہ کرکے اسے عاجز و لاجواب کرديا ۔ يہ سلسلہ خلفائے بني اميہ اور کسي حد تک خلفائے بني عباس کے دور تک باقي رہا ۔ قرآن مجيد معيار و فرقان سمجھاجاتا تھا ۔ عوا اس کے معتقد تھے ۔ جب خليفہ کے رفتار وکردار اس معيارو فرقان سے ميل نہ کھاتے تو عوام ان سے جواب طلب کرتے تھے ۔ لہٰذا قرآن مجيد کو عوامي زندگي سے دور کرنے کوششيں شروع کرديں ۔ حتي کہ اموي خلفائ نے قرآن مجيد کو تيروںسے چھلني کرديا ۔ ہماري تاريخ ايسے حوادث سے دوچار ہوئي ہے ۔
معاشرے ميں تلاوت قرآن کے اثرات:
آج اگرہم معاشرے کي قرآني تحريک کو زندہ رکھنا چاہتے ہيں تو لازم اور ضروري ہے کہ عوام کے درميان قرآن مجيد بھي بشکل تلاوت زندہ رہے ۔ يہ کافي نہيں ہے کہ مجلس شوريٰ اسلامي حکومت اسلامي اور ان سب سے بڑھ کر حضرت امام امت کے بيان و سخن ميں قرآن مجيد زندہ متجلي رہے اس کے ساتھ ساتھ خود عوام کے درميان بھي قرآن کا زندہ رہنا ضروري ہے ۔ ہمارے معاشرے ميں قرآني تحريک اس وقت گزند سے محفوظ ہوگي جب عوام مکمل طور پر قرآن سے شنا ہو جائيں گے ۔ لہٰذا ضروري ہے کہ معاشرے ميں درس قرآن، تلاوت قرآن، معارف قرآن اور علوم قرآن کي نشرو اشاعت کاسلسلہ اسي طرح جاري رہے ۔
قرآن کي مجلسوں ميں اضافہ ہو، مختلف ميدانوں ميں اس قسم کے مقابلے متعقد ہوتے رہيں ۔ يہ پسنديدہ عمل ہے، عوام کو اس کي قدر کرني چاہئے اور اس قسم کے کاموں ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لينا چاہئے ۔ جو حضرات تعليم قرآن کي صلاحيت رکھتے ہيں وہ اسے فريضہ سمجھيں ۔ مدرسوں اور اسکولوں ميں تعليم قرآن کي بنياد و اساسي درس کي حيثيت ملني چاہئے ۔ ہم اپنے ئين ميں عربي زبان کي تعليم کو حکومت جمہوري اسلامي پر فر ض قرارديا ہے ۔ اس کاکيا مقصد تھا؟ پ کو پتہ ہے کہ دنيا ميں کسي اسلامي ملک ميں ميٹرک تک عربي زبان کي تعليم لازمي نہيں ہے ۔ يہ صرف ہمارے قانون کا امتياز ہے ۔
کيوں، اس کا مقصد کيا تھا ؟
ہميں قرآن کے بغير عربي زبان کي کيا ضرورت ہے؟ عربي اس لئے کہ معزز و محترم ہے کہ وہ زبان قرآن ہے ۔ميںنوجوانوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے سن و سال کي قدر جانيں جو حفظ قرآن کے لئے نہايت مناسب ہے ۔ قرآن کو حفظ کريں ۔ اگر ميرے پاس کوئي معنوي دولت و ثروت ہوتي تو ميں اس کے بدلے حفظ قرآن ک حاصل کرنے کے لئے تيا تھا ۔ حفظ قرآن ايک عظيم نعم الٰہي ہے ۔ قرں جس شخص کے ذہن ميںموجود ہے وہ ہميشہ قرآن کے ہمراہ ہے، اسے چاہئے کہ خدا کي عطا کردہ اس عظيم نعمت کے بدلہ ميں خدا کا شکر ادا کرے ۔
آج ہمارے نوجوانوں اور بچوں کے لئے ميدان ہموار ہے، حفظ قرآن کے لئے کسي قسم کي رکاوٹ نہيں ۔ قرآن کو خود حفظ کيجئے اور اپنے بچوں کو حفظ قرآن پر مادہ کيجئے ۔
حاکميت قرآن
کتاب انزلناہ اليک لتخرج الناس من الظلمات الي النور باذن ربہم الي صراط العزيز الحميد ( سورہ ابراہيم (
يہ کتاب ہے جسے ہم نے پ کي طرف نازل کيا ہے، تاکہ پ لوگوں کو حکم خدا سے تاريکيوں سے نکال کر نور کي طرف لے ئيں اور خدائے عزيز و حميد کے راستے پر لگاديں ۔
رسول ا صلي ا عليہ ولہ وسلم نے فرمايا:’’اذا لتبست عليکم الفتن کقطع الليل المظلمۃ فعليکم بالقرآن فانہ شافع مشفع وما حل مصدق من جعلہ امامہ قارہ اليٰ الجنۃ ومن جعلہ فاقہ اليٰ النار .... اليٰ خر الحديث‘‘
جب فتنے اندھيري رات کے تاريک حصوں کي طرح تمھارے لئے الجھنيںپيدا کرديں تو تمھيں قرآن ہي سے وابستہ رہنا چاہئے ۔ اس لئے کہ قرآن شفاعت، کرنے والا ہے، اس کي شفاعت مقبول ہے ۔ قرآن تصديق شدہ مدبر ہے ۔ جس نے اسے اپنے سامنے رکھا قرآن اسے جنت ميں لے جائے گا اور جس نے قرآن کو پس پشت ڈال ديا وہ ايسے شخص کو جہنم ميں پہنچا دے گا ۔ وہ بہترين راستے کا رہنما ہے ۔
’’وہ ايسي کتاب ہے جس ميں تفصيل و تشريح اور نتيجہ خيزي ہے ۔ و حتمي وقطعي فيصلہ کن کتاب ہے، غير سنجیدہ چيز نہيں ۔ اس کا ظاہر ہے، اس کا باطن ہے ۔ اس کا ظاہر حکم (فيصلہ) ہے اس ا باطن علم ہے، اس کا ظاہر خوش نمااور اس کا باطن بہت ہي عميق ہے ۔ اس کے عجائبات بے حساب ہيں اور اس کے غرائب اور ندرتوں پر کہنگي اپنا اثر دکھاتي ۔ اس ميں ہدايت کے چراغ اور حکمتوں کے مينار ہيں ۔‘‘
’’نظر دوڑانے والے کو اسے ديکھنا چاہئے اور نگاہ کو اس کي صفات تک رسائي حاصل کرنا ضروري ہے ۔ قرآن متلائے ہلاکت کو نجات اور مشکلوں ميں پھنسے ہوئے کو خلاصي دلاتا ہے ۔‘‘
حضرت علي عليہ السلام نے فرمايا:’’ واعلموا ان ہذا القرآن ہو الناصح الذي لا يغش والہادي الذي لايضل.....(اليٰ خرہ(
’’ياد رکھو!يہ قرآن (مجيد) وہ خير خواہ ناصح ہے جو کبھي دھوکا نيہں ديتا ۔ وہ رہنما ہے جو کبھي گمراہ نہيں کرتا، وہ سخن گوہے جو کبھي جھوٹ نہيں بولتا ۔ جو بھي قرآن کا ہم نشين ہوا وہ ہدايت کو بڑھا کر اور گمراہي کوگھٹا کر جاتا ہے ۔‘‘
پيغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) نے قرآن مجيد کا جس طرح تعارف فرمايا وہ ج امت اسلاميہ کے لئے خاص طور پر قابل توجہ ہے ۔جس قسم کي تہہ در تہہ تاريکياں اور سياہ بادل ج مسلمانوں کي زندگي پرچھائے ہوئے ہيں اس سے پہلے کبھي نہ تھے ۔ يہ درست ہے کہ اس صورتحال کي ابتدا اس وقت ہوئي جب اسلامي خلافت کي جگہ، طاغوتي سلطنت نے لے لي ۔ قرآن کريم سے رشتہ ايک تکلف اور رسم کي حيثيت سے باقي رہ گيا، وہ مسلمانوں کي زندگي سے باہر ہوگيا ۔ ليکن ج بيسويں صدي کے عہد جاہليت ميں سياسي پيچ و خم اور پروپيگنڈے کے ايسے مرحلے ميں داخل کرديا گيا ہے جو پہلے سے کہيں زيادہ خطرناک اور کہيں زيادہ فکرمند کردينے والي بات ہے ۔
سب سے بڑا ذريعہ اور موثر ترين حيلہ جس سے اسلام کو ايک گوشے ميں دھکيلا جا سکتا تھا يہي تھا کہ مسلمان عوام کے دل و دماغ سے قرآن کو نکال ديا جائے ۔ اسلامي ممالک ميں استعماري طاقتوں کے تے ہي اس کام کو نقطہ مرکزي بناليا گيا اور بيروني اقتدار طلب لوگوں کا ايک اہم کام بن گيا، اور اس کے لئے طرح طرح کے طور طريقے اختيار کئے گئے ۔قرآن کريم، جسے خود اسي کتاب مقدس ميں نور، ہدايت حق کو باطل سے جدا کرنے والا، زندگي، ميزان، شفا اور ذکر جيسے نام ديئے گئے ہيں اسي وقت ان خصوصيات کا مظہر ہو سکے گا جب پہلے مرحلے ميں مرکز فکر و فہم اوردوسرے مرحلے ميں محور عمل قرارپائے ۔
ابتدائے اسلام ميں، اسلامي حکومت کے دور ميں قرآن ہي حرف خر اور فيصلہ کن حکم تھا ۔ حد يہ ہے کہ خود کلام پيغمبر۰ اکرم کو اسي کي بنياد پر پرکھا جاتا تھا ۔ معاشرے ميں علمائے قرآن صحيح قدرومنزلت کے حامل تھے ۔ حضور۰ نے لوگوں کو سمجھايا تھا ۔’’اشرف امتي اصحاب الليل وحملۃ القرآن‘‘ميري امت کے معزز لوگ شب بيداري اور حاملين قرآن ہيں ۔
حمل قرآن کريم کو سيکھنا، اسے سمجھنا اس پر عمل کرنا ہے ۔ ان دنوں يہ صفت معاشرے ميں ايک فضيلت سمجھي جاتي تھي ۔ زندگي کي ہر مشکل ميں قرآن کي طرف رجوع کيا جاتاتھا ۔ ہر بات کو ماننے نہ ماننے، ہر دعوے کو پرکھنے اور ہرروش کو قبول کرنے نہ کرنے کا معيار قرآن کريم تھا ۔ وہ لوگ حق و باطل کو قرآن کے ذريعے پہچانتے تھے ۔ اس کے بعد زندگي کے ميدان ميں اس کے نمونے ديکھتے اور معين کرتے تھے ۔
جب سے اسلامي معاشروں پر مسلط ہونے والي قوتيں اسلامي اقدار سے محروم اور دور ہونے لگيں اسي وقت سے انھوں نے قرآن کو جو حق و باطل ميں تميز کا پيمانہ ہے، اپنے لئے رکاوٹ سمجھنا شروع کرديا ۔ پھر اس مہم کا غاز ہوا کہ کالم الٰہي کو زندگي کے ميدان سے نکال ديا جائے ۔
اس کا نتيجہ يہ ہوا کہ دين معاشرتي زندگي سے جدا اوردنيا، خرت سے الگ ہوگئي اور حقيقي دينداروں اور دنيا طلب قدرت مندوں ميں ٹھن گئي ۔ زندگي کے ميدانوں اور مسلمانوں کے معاشرے سے اسلام کوانتظامي منصب سے ہٹادياگيا، اسلام کا تعلق صرف عبادت گاہوں، مسجدوں اور گوشہ ہائے دل سے سمجھ ليا گيا ۔يوں حيات اجتماعي اوردين کے درميان ايک طويل جدائي رونمائي ہوئي ۔
مغربي تسلط اور صليبي وصہيوني ہمہ جہت حملوں سے پہلے اگرچہ حقيقي معنوں ميں قرآن زندگي کے ميدان سے غائب تھا مگر يہ ضرور ہے کہ مسلمانوں کے دل و دماغ پر کم و بيش اس کا ايک اثر باقي تھا اور صليبي اور صہيوني حملہ ور اسے بھي برداشت نہ کرسکے ۔جس قرآن کا واضح حکم يہ ہے کہ ان کے مقابلے کے لئے جتني قوت اور جتنے رہو اروں کي طاقت تم سے جمع ہوسکے جمع کرو۔ (سورہ انفال:٦٠) جو قرآن فرماتا ہے کہ ا ہر گز کافروں کو مومنوں پر غلبہ نہيں دے گا (سورہ نسائ:١٤١) اور جو قرآن مومنوں کو ايک دوسرے کا بھائي، دشمنوں پر سخت گراں اور غضبناک ديکھنا پسند کرتا ہے ( ماخوذ از سورہ فتح:١) وہ قرآن ايسے لوگوں کے لئے ناقابل برداشت تھا جو مسلمانوں کے معاملات کي باگ ڈور اپنے ہاتھ ميں لے کر۔ ان پر تسلط حاصل کرکے ان کا سب سے کچھ بتاہ کرنا چاہتے تھے ۔يہ اقتدار حاصل کرنے والے اچھي طرح سمجھ چکے تھے کہ عوام کي اپني زندگي ميں قرآن سے تھوڑي سي بھي وابستگي ان کے اقتدار اور اثرو نفوز کے راستے کو ناہموار بنادے گي ۔ لہٰذا انھوں نے قرآن کو يکسر مٹا دينے کا منصوبہ بنايا ۔ ليکن يہ منصوبہ کسي صورت عملي جامہ نہ پہن سکے گا ۔ خدا نے امت اسلاميہ سے قرآن کي دائمي حفاظت کا وعدہ فرمايا ہے ۔ اس کے باوجود دشمنوں کے اس مقصد کو انجام تک پہنچانے کے ارادے اور اس کے نتائج واثرات کو نظرانداز نہيں کرنا چاہئے ۔
ج مسلمانوں کي زندگي پر ايک نظر ڈالئے، قرآن کہاں نظر تاہے؟ کيا سرکاري اداروں ميں ہے؟ کيا اقتصادي نظام ميں ہے کيا روابط کے نظم و نسق اور عوام کے باہمي تعلقات ميں ہے؟ اسکولوں اور يونيورسٹيوں ميں ہے؟ خارجہ سياست يا حکومتوں سے تعلقات ميں ہے؟ قومي سرمائے کي تقسيم ميں ہے؟ اسلامي معاشرے کے سربراہوں کے عادت و خصائل ميں، اقوام و ملل کے مختلف طبقات ميں جن کے کم و بيش اثرات ہيں، کہيں قرآن نظر تا ہے ۔
مسلمان عوام کي انفرادي رفتار ميں، زن ومرد کے روابط ميں،خوراک ولباس ميںکہيں قرآني تعليمات کي کوئي جھلک نظر تي ہے؟ اقتدار کے ايوانوں ميں، امانتوں اور بينک ڈاپازٹ ميں، انسانوں کي عوامي اور سماجي تحريکات ميں قرآن کريم کہا ہے؟
زندگي کے اتنے ميدان ہيں ۔ مسجدوں اور ميناروں، عوام فريبي اور رياکاري کے لئے ريڈيو کے چند پروگراموں ميں البتہ قرآن دکھائي ديتا ہے ۔مگر کيا قرآن فقط اسي لئے ہے؟سيد جمال الدين سو برس پہلے اس بات پر روئے تھے، انھوں نے رلايا تھا کہ قرآن ہديہ دينے اور رائش وزينت،قبرستان ميںتلاوت کرنے، طاقوں ميں رکھنے کے لئے رہ گيا ہے ۔
بتائے کيا ان سوسالوں ميںکوئي فرق پڑا ہے؟ کيا امت قرآن کي حالت پريشان کن نہيں ہے؟
بات يہ ہے کہ قرآن انساني زندگي کي کتاب ہے اور انسان کي کوئي حد تک ہے ۔ انسان مسلسل ترقي کي حالت ميں ہے ۔ انسان کي بہت سي جہتيں ہيں ۔ وہ انسان جس کي ترقي پذيري کي حد اور سرحد نہيں، ہز رمانے ميں قرآن اس کا رہنما، معلم اور دستگير ہے ۔ انسان کو ايک مہذب اور مطلوب زندگي فقط قرآن ہي کے ذريعے سکھائي جا سکتي ہے ۔ ظلم، نسلي امتياز، فتنہ وفساد، جھگڑے، سرکشي، ناروائي، رسوائي، خيانت جو انساني تاريخ کے طويل درو ميں ہوئي اور انسان کي نشونما اور ترقي ميں رکاوٹ بني ہے، اسے قرآن ہي کے ذريعہ دور کيا جاسکتا ہے ۔ قرآني ہدايت اور رہنماہي انساني زندگي کا منشور بناتي ہے ۔
قرآن کي طرف رجوع انسان کي مطلوب اور پسنديدہ زندگي کي طرف رجوع ہے ۔ اس عمل کي ذمہ داري قرآن پرايمان رکھنے والوں پر عموماً اور قرآن شناس حضرات پر بالخصوص عائد ہوتي ہے ۔ يہ علمائ اور خطبائ کي ذمہ داري ہے ۔
قرآن کي طرف رجوع ايک نعرہ ہے، يہ نعرہ اگر حقيقت کا روپ اختيار کرلے تو يہ حقيقت حق و باطل کو جدا کردے ۔ جو قوتيں قرآن کي طرف بازگشت کو برداشت نہيں کرسکتيں، مسلمانوں کو چاہئے کہ ايسي قوتوں کو بر داشت نہ کريں ۔
عزيز مسلمان بھائيو اور بہنو!
ہم بھي قرآن سے دور ، قرآن دشمن عالمي منصوبے کا شکار تھے قرآن کي طرف بازگشت کي لذت اور لطف سے ناشنا تھے ۔ ايران کا پرشکوہ اسلامي انقلاب اور نظام جمہوري اسلامي کا قيام اس بازگشت کيايک برکت کا اثر ہے ۔ ج يہ قوم اپني حيات اجتماعي، معاشرتي تعلقات،حکومت کي تشکيل وہيئت، اپنے رہنماں کے اخلاق وعادات ،سياست خارجہ، نظام تعليم وتربيت ميں قرآني تعليمات کے کچھ شرارے ديکھ رہي ہے ۔ اب تک بہشت قرآن کي ايک نسيم کا جھونکا ہم تک تا ہے ليکن اس حقيقي جنت کے اندر جانے کا راستہ کھلا ہے ۔
ہميں فخر ہے کہ ہم نے اپنے گوش ہوش صدائے قرآن کے حوالے کرديئے ہيں ۔ تمام اقوام کي ذمہ داري بھي يہي ہے،خصوصاً علمائ دين، دانشوروں، خطيبوں، مصنفوں اور محققين پر يہ سب سے بڑا فريضہ ہے ۔
اس کانفرنس نے اگر قرآن معارف پيش کئے اور معرفت قرآن کے موضوع کي طرف نئے قدم بڑھائے تو اس کا مطلب يہ ہوگا کہ اس نے اپنا مقصد حاصل کرليا ۔ اس کانفرنس کے پروگرام ميںجو موضوع زير بحث ئيں وہ ذہنوں کو مطمئن کريں کہ زندہ انساني معاشرے کي گردش وحرکت کے لئے ہر چيز قرآن ميں موجود ہے ۔ ذہني معلومات سے عملي اندازوں اور حرکت فريں رہنماں اورنظام بخش عقيدے سے لے کر اجتماعي ومعاشرتي زندگي کے رنگارنگ نظام تشکيل نظام دينے والے معاملات تک اور گزشتہ تاريخ بشر کي تحليل و تجزئے سے مستقبل کي پيشين گوئيوں تک ج تمام فلسفے، تمام نظريات، مادي ئيڈيالوجي کے رنگارنگ پہلو، ذہني و عملي بھول بھليوں کي حيثيت اختيار کرچکے ہيں، وہ انساني قوتوں کو سميٹنے اور ايک دوسرے کو جذب کرنے سے عاجز ہو چکے ہيں ۔
اب قرآن کي حاکميت کا دور ہے اب قرں ہي انسان کے ذہني وعملي خلائ کو پر کرے گا، وہ ل’’يظہرہ علي الدين کلہ‘‘ کي بشارت دے رہا ہے ۔
بھائيو اور بہنو! علم سے عمل، تلاوت سے تفسير، قبول ذہني سے وجود خارجي تک اپني کوششوں کا محور قرآن کو قرارديجئے ۔ اسي کا اتباع کيجئے ۔ قرآن کي طرف رجوع وبازگشت کا نعرہ اپنے ملکوں اور اپنے عوام ميں لے جايئے اور اس نصب العين کو عملي بنانے کے لئے عوام کو قريب لائيے اور ان کي ہمت بڑھائيے ۔
اس مبارک کوشش ميں مجھے اميد ہے کہ روح قرآن پ کي مدد اور رہنمائي کرے گي ۔
اقتباس از قرآن ذریعہ نجات اورحاکمیت قرآن ( آیت اللہ العظميٰ سیدعلي خامنہ اي مدظلہ العالي کي نگاہ ميں