امیر المومنین (علیہ السلام) قرآن کی تعریف میں فرماتے ہیں:
''ثم انزل علیہ الکتاب نورا لاتطفا مصابیحہ، و سراجا لا یخبو توقدہ، و بحرا لایدرک قعرہ، و منہاجا لا یضل نہجہ، و شعاعا لایظلم ضوؤہ، و فرقانا لا یخمد برھانہ، و تبیانا (١) لا تہدم ارکانہ، و شفاء لا تخشی اسقامہ، عزا لاتہزم انصارہ، و حقا لا تخذل اعوانہ، فہو معدن الایمان و بحبوحتہ، و ینابیع العلم و بحورہ، و ریاض العدل و غدرانہ، و اثافی الاسلام و بنیانہ، و اودیۃ الحق و غیطانہ، و بحر لا ینزفہ المنتزفون، و عیون لا ینضبہا الماتحون، و مناھل لا یغیضہا الواردون، منازل لا یضل نہجہا المسافرون، و اعلام لا یعمی عنہا السائرون، و آکام لایجوز عنہا القاصدون، جعلہ اللہ ریّاً لعطش العلمائ، و ربیعا لقلوب الفقھاء و محاجّ لطریق الصلحائ، و دوائً لیس بعدہ دائ، و نورا لیس معہ ظلمۃ، و حبلاً و ثقیاًعروتہ، و معقلا منیعا ذروتہ، رزا لمن تولاہ، و سلما لمن دخلہ، و ھدی لمن ائتم بہ، وعذرا لمن انتحلہ، و برھانا لمن تکلم بہ، و شاھدا لمن خاصم بہ، و فلجا کمن حاج بہ، و حاملا لمن حملہ، و مطیۃً لمن اعملہ، و آیۃ لمن توسم و جنۃ لمن استلأم، و علماً لمن وعی، و حدیثا لمن روی، و حکما لمن قضی،،(٢)
''پھر آپ پرایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو (سراپا) نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں، ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس کی گہرائی تک کسی کی رسائی نہیں اور ایسی راہ ہے جس کی راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن ہے جس کی پھوٹ مدہم نہیں پڑتی، وہ (حق و باطل میں) ایسا امتیاز کرنے والی ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی، ایسا کھول کر بیان کرنے والی ہے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جاسکتے، و ہسراسر شفا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے روحانی بیماریوں کا کھٹکا نہیں، وہ سرتاسر عزت و غلبہ ہے جس کے یار و مددگار شکست نہیں کھاتے، وہ (سراپا) حق ہے، جس کے معین و معاون بے سہارا نہیں چھوڑے جاتے، وہ ایمان کا معدن اور مرکز ہے جس سے علم کے چشمے پھوٹتے اور دریا بہتے ہیں، اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں، وہ اسلام کا سنگ بنیاد اور اس کی اساس ہے، حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے، وہ ایسا دریا ہے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے، وہ ایسا چشمہ ہے کہ پانی بھرنے والے اسے خشک نہیں کرسکتے، وہ ایسا گھاٹ ہے کہ اس پر اترنے والوں سے اس کا پانی گھٹ نہیںسکتا، وہ ایسی منزل ہے جس کی راہ میں کوئی راہ رو بھٹکتا نہیں، وہ ایسا نشان ہے کہ چلنے والے کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا، وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے، اللہ نے اسے علماء کی تشنگی کے لیے سیرابی، فقہاء کے دلوں کے لیے بہار اور نیکو کاروں کی رہ گزر کے لیے شاہراہ قرار دیا ہے.
یہ ایسی دوا ہے جس سے کوئی مرض نہیں رہتا، ایسا نور ہے جس میں تیرگی کا گزر نہیں، ایسی رسی ہے جس کے حلقے مضبوط ہیں، ایسی چوٹی ہے جس کی پناہ گاہ محفوظ ہے، جو اس سے وابستہ رہے اس کے کئے پیغام صلح و امن ہے، جو اس کی پیروی کرے اس کےلئے ہدایت ہے، جو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کےلئے حجت ہے، جو اس کی رو سے بات کرے او کے لیے دلیل و برہان ہے، جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کے لئے گواہ ہے جو اسے حجت بنا کر پیش کرے اس کے لئے فتح و کامرنی ہے، جو اس کا بار اٹھائے یہ اس کا بوجھ بٹانے والا ہے، جو اسے اپنا دستور العمل بنائے اس کے لئے مرکب (تیز گام) ہے، یہ حقیقت شناس کے لیے ایک واضح نشان ہے، (ضلالت و گمراہی سے ٹکرانے کے لیے) جو مسلح ہو ا س کے لئے سپر ہے، جو اس کی ہدایت کو گرہ میں باندھ لے اس کے لئے علم و دانش ہے، بیان کرنے والے کے لئے بہترین کلام او رفیصلہ کرنے والے کےلئے قطعی حکم ہے۔،،
یہ خطبہ بہت سے اہم نکات پر مشتمل ہے جن سے آگاہی اور ان میں غور و خوض لازمی ہے:
امیر المومنین کے ارشاد ''لا یخبو توقدہ،، ۔۔۔''قرآن ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی،،۔۔۔ اور خطبے میں اس قسم کے دوسرے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے معانی لا متناہی اور ابدی ہیں۔
مثال کے طور پر ایک آیہ کریمہ کسی خاص مقام، شخص یا قوم کے بارے میں نازل ہوئی مگر وہ آیہ اس مقام، شخص اور قوم سے ہی مختص نہیں رہتی بلکہ اس کے معانی عام ہوتے ہیں اور یہ ہر جگہ، ہر شخص اور ہر قوم پر منطبق ہوتی ہے، عیاشی نے اپنی سند سے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے آیہ ''ولکل قوم ھاد( ١٢:٨)،، ۔۔۔(ہر قوم کے لئے ایک ھادی ہوا کرتا ہے) کی تفسیر کے بارے میں روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:
'' علی: الھادی، و منا الھادی، فقلت : فانت جعلت فداک الھادی، قال : صدقت ان القرآن حی لایموت، و الآیۃ حیّۃ لا تموت، فلو کانت الآیۃ اذا نزلت فی الاقوام و ماتوا ماتت الآیۃ لمات القرآن و لکن ھی جاریۃ فی الباقین کما جرت فی الماضین۔،،
(یعنی) اس آیہ شریفہ میں ہادی سے مراد امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام ہںی اور ہادی ہم ہی میں سے ہوا کرے گا۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا: میں آپ پر نثار ہوں کیا آپ بھی ہادی اور اس آیہئ شریفہ کے مصداق ہیں؟ ہاں میں بھی اس کا مصداق ہوں، قرآن ہمیشہ زندہ رہے گا، اسے موت نہیں آئے گی اور یہ آیہ و لکل قوم ھاد بھی زندہ ہے اور اسے موت نہیں آسکتی، اگر ایک قوم پر اترنے والی آیت قوم کے مرنے سے مر جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کو بھی موت آگئی حالانکہ ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ قرآن جس طرح گذشتہ اقوام پر منطبق ہوتا تھا اسی طرح آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی منطبق ہوگا۔،،
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
''ان القرآن حی لم یمت، و انہ یجری کما یجری اللیل و النہار، و کما تجری الشمس و القمر، و یجری علی آخرنا کما یجری علی اولنا،،۔
(یعنی) ''قرآن زندہ و جاوید ہے، اسے موت نہیں آسکتی، دن اور رات کی طرح یہ بھی چلتا رہے گا اور سورج اور چاند کی طرح ہر دور میں ضوفشانی کرتا رہے گا۔،،
اصول کافی میں ہے، جب عمر بن یزید نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے آیت کریمہ ''و الذین یصلون ما امر اللہ بہ ان یوصل ١٣:٢١،، کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:
'' ھذہ نزلت فی رحم آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وقد ثم مات اولئک ماتت الآیۃ لما بقی من القرآن شیئ، و لکن القرآن یجری اولہ علی آخرہ مادامت السماوات و الأرض، و لکل قوم آیۃ یتلوھا ھم منہا من خیر او شر،،
یہ آیتِ کریمہ ہم آلِ محمد کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن یہی آیہئ کریمہ شریفہ تمہارے قریبی رشتہ داروں پر منطبق ہوسکتی ہے، تو ان لوگوں میں سے نہ بن جو ایک خاص مقام اورچیز پرنازل شدہ آیت کو اس مقام اورچیز سے مختص کردیتے ہیں۔
تفسیر فرات میں ہے:
''و لو أن الآیۃ اذا نزلت فی قوم ثم مات أولئک ماتت الآیۃ لما بقی من القرآن شیئ، ولکن القرآن یجری أولہ علی آخرہ ما دامت السماوات و الأرض، و کل قومٍ آیۃ یتلوھا ھم منہا من خیر أو شر،،
''اگر کسی قوم پر کوئی آیت نازل ہو پھر وہ قوم مرجائے اور اس قوم کے ساتھ آیت بھی مرجائے تو قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہ جائے مگر ایسا نہیں جب تک آسمان اور زمین موجود ہیں گذشتہ لوگوں کی طرح آئندہ آنے والی نسلوں کے لیےبھی اس کی ہدایت کا سلسلہ جاری رہیگا اور قرآن میں ہر قوم و ملت کے بارے میں ایک آیت موجود ہے جس میں ان کی اچھی یا بری سرنوشت و تقدیر اور انجام کا ذکر ہے۔،،
اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات منقول ہیں۔(۳)
و منہا جا لا یضل نہجہ ''یعنی قرآن وہ سیدھا راستہ ہے جو اپنے راہرو کو گمراہ نہیں کرتا،،۔ اسے خالق نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے قرآن ہر اس شخص کو گمراہی سے بچاتا ہے جو اس کی پیروی کرے۔
''و تبیاناً لا تہدم ارکانہ،، اس جملے میں دو احتمال ہیں:
الف: پہلا احتمال یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ می ںکسی قسم کا خلل اور نقص نہیں ہوسکتا ہے، اس احتمال کے مطابق اس جملے میں امیر المؤمنین اس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہی ںکہ قرآن کریم تحریف سے محفوظ ہے۔
'' وریاض العدل و غدرانہ،، (١) ''اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ عدالت چاہے عقیدہ کے اعتبار سے ہو یا اخلاق کے اعتبار سے، اس کے تمام پہلو قران میں موجود ہیں۔ پس قرآن عدالت کا محور اوراس کی مختلف جہات کا سنگم ہے۔
و أثا فی الاسلام۔(٢) ''اسلام کا سنگ بنیاد اور اسکی اساس ہے۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو جو استحکام اور اثبات حاصل ہوا ہے وہ قرآن ہی کی بدولت ہے جس طرح دیگ کو استحکام ان پایوں کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے جس کے نیچے رکھے ہوتے ہیں۔
''و أودیۃ الحق و غیطانہ،، ''حق کی وادی اوراس کا ہموار میدان ہے۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن حق کا سرچشمہ ہے۔ اس جملے میں قرآن کو وسیع اور پرسکون زرخیز سرزمین سے تشبیہ دی گئی ہے اور حق کو ان نباتات سے تشبیہ دی گئی ہے جو اس سرزمین پر اگی ہوں کیونکہ قرآن ہی حق کا سرچشمہ ہے، قرآن کے علاوہ کہیں اور سے حق نہیں مل سکتا۔
'' وبحر لا ینزفہ المنتزفون،، ''وہ ایسا دریا ہے جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے،، اس جملے اور اس کے بعدوالے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ جو معانیئ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے وہ اس کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا کیونکہ قرآن کے معانی لامتناہی ہیں بلکہ اس جملے میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قرآن میں کبھی کمی واقع ہو ہی نہیں سکتی، جس طرح چشمے سے پانی نکالنے، پینے یا برتن بھرنے سے پانی کم نہیں ہوتا۔
'' وآکام لا یجوز عنہا القاصدون،، ''وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے نہیں گزر سکتے،،۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو محققین اور مفکرین قرآن کی بلندیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی اس کے معانی کی بلندیوں اور چوٹیوں سے تجاوز ن ہیں کرسکتے۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قران کریم ایسے سربستہ رازوں پر مشتمل ہے جن تک صاحبان فہم کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ ہم آئندہ اس حقیقت کو بیان کریں گے۔ انشاء اللہ۔
١) ریاض روضہ کی جمعہ ہے یہ اس سرسبز زمین کو کہتے ہیں جس میں سبزہ ہو، غدران جمع ہے غدیر کی اس کا معنی سیلاب کا جمع شدہ پانی ہے۔
٢) اثانی جو امانی کے وزن پر ہے، ''اثفیہ،، کی جمع ہے۔ ''اثفیہ،، اس پتھر کو کہا جاتا ہے جس پر دیگچی رکھی جاتی ہے۔
اس جملے سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ جب قرآن کے متلاشی اس کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں پہنچ کر رک جاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے، اس لیے کہ انہیں مکمل ططور پر اپنی مراد مل جاتی ہے اور وہ منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔
(١) بحار الانوار میں تبیانا کی بجائے بنیانا ہے۔
(٢)نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ١٩٦۔
۳) مرأۃ الانوار، ص ٣۔٤