راہ نجات، کتاب الہی ہے
حارث ہمدانی فرماتے ہیں:
''میں مسجد میں داخل ہوا تور دیکھاکہ کچھ لوگ بعض (بے فائدہ) باتوں میں الجھے ہوئے ہیں، چنانچہ میں امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ آپ کے سامنے بیان کردیا آپ نے فرمایا: ۔۔۔ واقعاً ایسا ہی ہے؟ ۔۔۔ میں نے عرض کیا، ہاں یا مولا!۔۔۔ آپ نے فرمایا:... اے حارث! میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:عنقریب فتنے برپاہوں گے۔ میں نے عرض کیا مولا!۔۔۔ ان فتنوں سے نجات حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: راہ نجات، کتاب الہی ہے۔ وہی کتاب جس میں گذشتہ اور آنے والی نسلوں کے واقعات اور خبریں اور تم لوگوں کے اختلافی مسائل کے فیصلے موجود ہیں۔ وہی کتاب جو حق کو باطل سے بآسانی تمیز کر سکتی ہے۔ اس میں مذاق اور شوخی کا کوئی پہلو نہیں۔ وہی کتاب جس کو جو جابر و ظالم بادشاہ بھی ترک اور نظر انداز کرے، خدا اس کی کمر توڑ دیتا ہے۔ جو شخص غیر قرآن سے ہدایت حاصل کرنا چاہے خالق اسے گمراہ کر دیتا ہے۔ یہ (قرآن) خدا کی مضبوط رسی اور حکمت آمیز ذکر ہے۔ یہ صراط مستقیم ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی منحرف نہیں کر سکتیں۔ قرآن کی بدولت زبانیں التباس اور غلطیوں سے محفوظ رہتی ہیں۔ علاء اور دانشور اسے پڑھنے اور اس میں فکر کرنے سے سیر نہیں ہوتے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے سن کر جن یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب و غریب قرآن سنا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ جو بھی اس کی زبان میں بولے صادق ہی ہوگا اور جو قرآن کی روشنی میں فیصلے کرے گا یقینا عادل ہوگا، جو قرآن پر عمل کرے وہ ماجور ہوگا، جو قران (احکام قرآن) کی طرف دعوت دے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔ اس کے بعد امیر المومنین نے حارث ہمدانی سے فرمایا: حارث! اس حدیث کو لے لو اور یاد رکھو۔،،(١)
اس حدیث شریف میں چند غیر معمولی نکتے ہیں جن میں سے اہم نکتوں کی ہم وضاحت کرتے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:
''فیہ نباء من کان قبلکم و خبرمعادکم ۔،، ''قرآن میں گذشتہ اور آئندہ کی خبریں موجود ہیں۔،،
اس جملے کے بارے میں چنداحتمال دیئے جاسکتے ہیں:
١: اس کا اشارہ عالم برزخ اور روز محشر کی خبروں کی طرف ہو، جس میں نیک اور برے اعمال کامحاسبہ ہوگا، شاید یہ احتمال باقی احتمالات سے زیادہ قوی ہو۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید امیر المومنین کے اس خطبے سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:
''اس قرآن میں گذشتگان کی خبریں، تمہارے باہمی اختلافات کے فیصلے اور قیامت کی خبریں موجود ہیں۔،، (٢)
٢: ان غیبی خبروں کی طرف اشارہ ہو جن کی قرآن نے خبر دی ہے اور آئندہ نسلوں میں بھی رونما ہوں گی۔
٣: ان سے مراد گذشتہ امتوں میں رونما ہونے والے واقعات ہوں جو بعینہ اس امت میں بھی رونما ہوں گے۔ گویا یہ حدیث اس آیہئ شریفہ کی ہم معنی ہے:
''لترکبن طبقا عن طبق،، (٨٤:١٩)
''کہ تم لوگ ضرور ایک سختی کے بعد دوسری سختی میں پھنسو گے۔ ،،
یا اس حدیث کی ہم معنی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے آپ فرماتے ہیں:
''لترکبن سنن من قبلکم،، ''تم بھی گذشتہ لوگوں کی غلط اور گمراہ کن سنتیں اور طریقے اپناؤ گے۔،،
پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:
''من ترکہ من جبار قصمہ اللہ،، ۔۔۔ ''جو ظالم اور جابر بھی قرآن کو ترک کرے گا اوراسے پس پشت ڈالے گا خدا تعالیٰ اس کی کمر توڑ ڈالے گا۔،،
شاید اس جملے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بات کی ضمانت دے رہے ہیں کہ خدا قرآن کو جابروں اور ظالموں کے ہاتھ اس طرح کھلونا نہیں بننے دے گا جس سے اس کی تلاوت اس پر عمل ترک ہوجائے اور یہ لوگوں کے ہاتھوں سے لے لیا جائے جس طرح دوسری آسمانی کتابوں کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہے۔ گویا یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن (ہمیشہ) تحریف سے محفوظ رہے گا۔ اس پر تفصیلی بحث آئندہ صفحات میں کی جائے گی۔
حدیث کے اس جملے کا مطلب بھی یہی ہے ''لا تزیغ بہ الأھوائ،،۔۔۔ ''خواہشات اسے کج (زنگ آلود) نہیں کرسکتیں۔،، یعنی اس کی اصل حقیقت میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔۔۔ قرآن کی اصل حقیقت کے تحفظ کی ضمانت اس لیے دی جارہی ہے کہ قرآن کے خود ساختہ اپنی خواہشات کے مطابق معانی بیان کئے گئے ہیں۔ چنانچہ مخصووص آیات کی تفسیر کے موقع پر اسے مفصل بیان کیاجائے گا انشاء اللہ۔ اس کے علاوہ حدیث شریف میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر لوگ آپس کے اختلافات اور عقائد و اعمال کی مشکلات میں قرآن کی طرف رجوع کریں تو ان سب کا حل قرآن میں مل جائے گا اور لوگ اسے ایک عادل حاکم اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا پاِئیں گے۔
ہاں! اگر مسلمانوںمیں احکام اور حدود قرآن کا نفاذ ہوتا اور اسکے اشارات کی پیروی کی جاتی تو حق اور اہل حق پہچانے جاتے اور عترت پیغمبر کی معرفت بھی حاصل ہوجاتی جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔ (۳) اور یہی وہ ہستیاں ہیں جو آنحضرت کے بعد قرآن کی طرح آپ کا جانشین قرار پائیں، اور اگر مسلمان قرآنی علوم کی روشنی سے نور حاصل کرتے تو ذلت میں مبتلا نہ ہوتے، ان پر ضلالت و گمراہی کی تاریکیاں نہ چھاجاتیں، احکام خدامیں سے کوئی حکم بھی اپنے حقیقی ہدف سے منحرف نہ ہوتا، نہ کوئی شخص راہ راست سے بھٹکتا، نہ کسی کے پائے استقلال میں لغزش آتی، لیکن مسلمانوںنے قرآن کی پس پشت ڈالدیا اور زمانہئ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے خواہشات نفسانی کی پیروی اور باطل کے جھنڈے تلے پناہ اختیار کی، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر
(١) سنن دارمی، ج٢، ص٤٣٥، کتاب فضائل القرآن میں بھی اس طرح سے موجود ہے۔ صحیح ترمذی، ج ١١، ص ٣٠،باب فضائل قرآن میں بھی معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ موجود ہے۔ بحار، ج٩، ص ٧ میں تفسیر عیاشی سے منقول ہے۔
(٢) بحار الانوار، ج ١٩، ص٦۔
(۳) بحار الانوار میں تبیانا کی بجائے بنیانا ہے۔