حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
حدیثی حدیث ابی (ع) و حدیث ابی (ع) حدیث جدی (ع) و حدیث جدی (ع) حدیث الحسین (ع) و حدیث الحسین (ع) حدیث الحسن (ع) و حدیث الحسن (ع) حدیث امیر المومنین (ع) و حدیث امیر المومنین (ع) حدیث رسول اللّٰہ (ص) و حدیث رسول اللّٰہ (ص) قول اللّٰہ عز و جل“ [جامع احادیث الشیعۃ، ج۱ ص 127]
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے دادا علی بن الحسین (ع) کی حدیث ہے اور ان کی حدیث حسین ابن علی (ع) کی حدیث ہے اور حسین ابن علی (ع) کی حدیث حسن ابن علی (ع) کی حدیث ہے اور حسن ابن علی (ع) کی حدیث امام علی علیہ السلام کی حدیث ہے اور حضرت علی (ع) کی حدیث،کلام رسول خدا (ص) ہے اور رسول خدا (ص) کا کلام، کلام الٰہی ہے۔
1۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام إِنَّ الْعَزِيزَ الْجَبَّارَ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ كِتَابَهُ وَ هُوَ الصَّادِقُ الْبَارُّ فِيهِ خَبَرُكُمْ وَ خَبَرُ مَنْ قَبْلَكُمْ وَ خَبَرُ مَنْ بَعْدَكُمْ وَ خَبَرُ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ وَ لَوْ أَتَاكُمْ مَنْ يُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ لَتَعَجَّبْتُمْ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: خداوند عزیز و جبار نے تم پر اپنی کتاب نازل فرمائی؛ جبکہ وہ (اللہ) صادق اور نیک خواہ اور نیکی کرنے والا ہے؛ اس کتاب میں تمہاری خبر بھی ہے اور تم سے پہلے گذرنے والوں کی خبر بھی ہے اور بعد میں آنے والوں کی خبر بھی ہے؛ اور اس میں آسمان و زمیں کی خبر بھی ہے تاہم اگر کوئی تمہارے پاس آکر ان چیزوں کی خبر دے تو تم تعجب کرتے ہو۔
2۔ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ عليه السلام قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله و سلم أَنَا أَوَّلُ وَافِدٍ عَلَى الْعَزِيزِ الْجَبَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ كِتَابُهُ وَ أَهْلُ بَيْتِي ثُمَّ أُمَّتِي ثُمَّ أَسْأَلُهُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ وَ بِأَهْلِ بَيْتِي۔
حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: میں سب سے پہلا فرد ہوں کہ روز قیامت خدائی عزیز و جبار کی بارگاہ میں حاضر ہونگا اور اس کی بعد خدا کی کتاب اور میری اہل بیت علیہم السلام ہونگی اور اس کی بعد میری امت حاضر ہوجائی گی اور میں ان سے پوچھ لونگا کہ "تم نے کتاب خدا اور میری اہل بیت علیہم السلام کی ساتھ کیسا سلوک روا رکھا"۔
3۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ فِيهِ مَنَارُ الْهُدَى وَ مَصَابِيحُ الدُّجَى فَلْيَجْلُ جَالٍ بَصَرَهُ وَ يَفْتَحُ لِلضِّيَاءِ نَظَرَهُ فَإِنَّ التَّفَكُّرَ حَيَاةُ قَلْبِ الْبَصِيرِ كَمَا يَمْشِي الْمُسْتَنِيرُ فِي الظُّلُمَاتِ بِالنُّورِ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: بی شک یہ قرآن (ایسی کتاب) ہی جس میں ہدایت کی میںار، شب دیجور کے (لئے درکار) چراغ، ہیں پس انسان کو تیزبین اور زیرک ہونا چاہئے کہ اس میں غور کرے اور اس کی روشنی کی کرنوں کے لئے اپنی آنکھیں کھول دے کیونکہ غور و تفکر بصیر دلوں کی حیات ہے گویا کہ وہ دلِ بینا نور کے ذریعے تاریکیوں میں راہ پیمائی کرتا ہے۔
4۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام كَانَ فِي وَصِيَّةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام أَصْحَابَهُ اعْلَمُوا أَنَّ الْقُرْآنَ هُدَى النَّهَارِ وَ نُورُ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ جَهْدٍ وَ فَاقَةٍ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: جان لو کہ قرآن دن کے وقت ہدایت اور اندھیری راتوں کی روشنی ہے خواہ (اس کی روشنی ڈھونڈنے والا اور اس سے راہنمائی حاصل کرنے والا) شخص مشقت اور ناداری کا شکار ہو (کیونکہ غربت و مشقت اس شخص کو قرآن سے باز نہیں رکھتی بلکہ اس کی رغبت میں اضافہ کرتی ہے)۔
5۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ آبَائِهِ عليه السلام قَالَ شَكَا رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلی الله علیه و آله وَجَعاً فِي صَدْرِهِ فَقَالَ صلی الله علیه و آله اسْتَشْفِ بِالْقُرْآنِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ يَقُولُ وَ شِف اءٌ لِم ا فِي الصُّدُورِ۔
امام صادق علیہ السلام اپنے آباء طاہرین سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سینے کے درد کی شکایت کی تو آپ صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: قرآن سے شفاء حاصل کرو کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے: "یہ قرآن شفاء ہے ان دکھوں کے لئے جو سینوں میں ہیں"۔
(سورہ يونس آيت 57)۔
6۔ عن ابي بصير قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يَقُولُ إِنَّ الْقُرْآنَ زَاجِرٌ وَ آمِرٌ يَأْمُرُ بِالْجَنَّةِ وَ يَزْجُرُ عَنِ النَّارِ۔
ابوبصير کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک قرآن باز رکھنے والا اور فرمان دینے والا ہے؛ جنت کا فرمان دیتا ہے اور دوزخ سے باز رکھتا ہے۔
7۔ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ عليه السلام لَوْ مَاتَ مَنْ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ أَنْ يَكُونَ الْقُرْآنُ مَعِي وَ كَانَ عليه السلام إِذَا قَرَأَ م الِكِ يَوْمِ الدِّينِ يُكَرِّرُهَا حَتَّى كَادَ أَنْ يَمُوتَ۔
زھری کہتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: اگر مشرق اور مغرب کے مابین رہنے والے تمام لوگ مر جائیں میں تنہائی سے ہراساں نہیں ہونگا جب کہ قرآن مجید میرے پاس ہو؛ اور حضرت سجاد عليہ السلام کا شيوہ تھا کہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت جب سورہ فاتحہ کی آیت "مالك يوم الدين" پر پہنچتے تو اسے اس قدر زیادہ دہراتے کہ موت کے قریب پہنچ جاتے۔
8۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله و سلم إِنَّ أَهْلَ الْقُرْآنِ فِي أَعْلَى دَرَجَةٍ مِنَ الْآدَمِيِّينَ مَا خَلَا النَّبِيِّينَ وَ الْمُرْسَلِينَ فَلَا تَسْتَضْعِفُوا أَهْلَ الْقُرْآنِ حُقُوقَهُمْ فَإِنَّ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْجَبَّارِ لَمَكَاناً عَلِيّاً۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: بے شک قرآن والے انسانوں کے بلندترین درجات پر فائز ہیں سوائے انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کے؛ پس قرآن والوں کے حقوق کو کم اور ناچیز مت سمجھو کیونکہ خدائے عزیز و جبار کی کی بارگاہ میں بہت اونچے مقام پر فائز ہیں۔
9۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ الْحَافِظُ لِلْقُرْآنِ الْعَامِلُ بِهِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: قرآن پر عمل پیرا حافظین قرآن ان فرشتوں کے ہم نشین ہیں جو خدا کے سفیر اور عزت دار اور نیک کردار ہیں۔
10۔ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَهُوَ غَنِيٌّ وَ لَا فَقْرَ بَعْدَهُ وَ إِلَّا مَا بِهِ غِنًى۔
معاويہ بن عمار کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: جو شخص قرآن پڑھے وہ بےنیاز اور غنی ہوجاتا ہے اور جس کو قرآن بے نیاز اور غنی نہ کرے کوئی بھی چیز اسے بے نیاز نہیں کرسکے گی۔
11۔ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله و سلم يَا مَعَاشِرَ قُرَّاءِ الْقُرْآنِ اتَّقُوا اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ فِيمَا حَمَّلَكُمْ مِنْ كِتَابِهِ فَإِنِّي مَسْئُولٌ وَ إِنَّكُمْ مَسْئُولُونَ إِنِّي مَسْئُولٌ عَنْ تَبْلِيغِ الرِّسَالَةِ وَ أَمَّا أَنْتُمْ فَتُسْأَلُونَ عَمَّا حُمِّلْتُمْ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَ سُنَّتِي۔
حضرت باقر عليہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: اے قرآن کے قاریو! خدائے عز و جل سے ڈرو ان چیزوں کے حوالے سے جو اس نے اپنی کتاب میں سے تمہیں عطا کی ہیں کیونکہ مجھ سے بھی سوال ہوگا اور تم سے بھی سوال ہوگا؛ مجھ سے اپنی رسالت و تبلیغ کا سوال ہوگا اور تم سے سوال ہوگا ان چیزوں کے حوالے سے جو قرآن و سنت میں سے تمہارے پاس ہے۔
12۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله و سلم حَمَلَةُ الْقُرْآنِ عُرَفَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ الْمُجْتَهِدُونَ قُوَّادُ أَهْلِ الْجَنَّةَ وَ الرُّسُلُ سَادَةُ أَهْلِ الْجَنَّةَ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم نے فرمایا: قرآن کے حامل افراد جنت والوں کے نمائندے اور ان کے سرپرست ہیں اور مجتہدین جنت والوں کے راہنما ہیں اور اانبیاء اور رسل علیہم السلام جنت والوں کے سردار ہیں۔
13۔ عَنِ الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ الَّذِي يُعَالِجُ الْقُرْآنَ وَ يَحْفَظُهُ بِمَشَقَّةٍ مِنْهُ وَ قِلَّةِ حِفْظٍ لَهُ أَجْرَانِ۔
فضيل بن يسار کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ: جو شخص قرآن کے سلسلے میں رنج و مشقت برداشت کرے اور حافظے کی کمزوری کے باوجود اسے حفظ کرے اس کے لئے دو اجر ہیں۔
14۔ عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ سَيَابَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يَقُولُ مَنْ شُدِّدَ عَلَيْهِ فِي الْقُرْآنِ كَانَ لَهُ أَجْرَانِ وَ مَنْ يُسِّرَ عَلَيْهِ كَانَ مَعَ الْأَوَّلِينَ۔
صباح بن سيابہ کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ: جو شخص قرآن کو سختی کے ساتھ سیکھے اس کے لئے دو اجر ہیں اور جو شخص آسانی سے سیکھ لے وہ اولین کا ہم نشین ہے۔
توضيح :
علامه مجلسى (رح) لکهتے ہیں: شايد اولین سے مراد وہ لوگ ہوں جو خدا اور رسول خدا صلی الله علیه و آله و سلم پر ایمان لانے میں سبقت لے گئے ہیں۔
15۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ لَا يَمُوتَ حَتَّى يَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ أَوْ يَكُونَ فِي تَعْلِيمِهِ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: مؤمن کے لئے ضروری ہے کہ قرآن سیکھنے یا سکھانے سے قبل دنیا سے رخصت نہ ہو۔ (یعنی انسان کو مرنے سے قبل قرآن سیکھنا چاہئے یا قرآن سکھاتا ہوا دنیا سے رخصت ہو)۔
16۔ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام مَنْ نَسِيَ سُورَةً مِنَ الْقُرْآنِ مُثِّلَتْ لَهُ فِي صُورَةٍ حَسَنَةٍ وَ دَرَجَةٍ رَفِيعَةٍ فِي الْجَنَّةِ فَإِذَا رَآهَا قَالَ مَا أَنْتِ مَا أَحْسَنَكِ لَيْتَكِ لِي فَيَقُولُ أَ مَا تَعْرِفُنِي أَنَا سُورَةُ كَذَا وَ كَذَا وَ لَوْ لَمْ تَنْسَنِي رَفَعْتُكَ إِلَى هَذَا۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص (قرآن کی سورتیں حفظ کرکے) کوئی سورت بھول جائے وہ سورت قیامت کے روز اس کے سامنے نہایت حسین و جمیل صورت اور نہایت اونچے مرتبے میں نمودار ہوتی ہے؛ جب وہ شخص اس سورت کو اس حالت میں دیکھتا ہے تو پوچھتا ہے تو کون ہے! تو کتنی حسین و جمیل ہے! کاش تو میرے لئے ہوتی! سورت جواب دے گی: کیا تو مجھے نہیں پہچانتا؟ میں فلان سورت ہوں؛ تو اگر مجھے نہ بھولتا تو میں تجھے اسی مقام تک پہنچا دیتی۔
17۔ عَنْ يَعْقُوبَ الْأَحْمَرِ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام إِنَّ عَلَيَّ دَيْناً كَثِيراً وَ قَدْ دَخَلَنِي مَا كَانَ الْقُرْآنُ يَتَفَلَّتُ مِنِّي فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام الْقُرْآنَ الْقُرْآنَ إِنَّ الْآيَةَ مِنَ الْقُرْآنِ وَ السُّورَةَ لَتَجِي ءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى تَصْعَدَ أَلْفَ دَرَجَةٍ يَعْنِي فِي الْجَنَّةِ فَتَقُولُ لَوْ حَفِظْتَنِي لَبَلَغْتُ بِكَ هَاهُنَا۔
يعقوب احمر کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق عليہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: میں بہت زیادہ مقروض ہوں اور اس قدر رنج و مشقت میں مبتلا ہوں یہاں تک کہ رنج و غم کی وجہ سے قرآن میرے ذہن سے نکل گیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: قرآن، قرآن، بے شک قرآن کی ایک آیت اور اس کی ایک سورت قیامت کے روز آئے گی ہزار درجے اونچائی پر صعود کرے گی یعنی جنت میں، اور کہے گی: اگر تم مجھے حفظ کرتے تو میں تمہیں اس مقام پر پہنچاتی۔
18۔ عَنْ أَبِي كَهْمَسٍ الْهَيْثَمِ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام عَنْ رَجُلٍ قَرَأَ الْقُرْآنَ ثُمَّ نَسِيَهُ فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ ثَلَاثاً أَ عَلَيْهِ فِيهِ حَرَجٌ قَالَ لَا۔
ابو كہمس کہتے ہیں: میں نے امام صادق عليہ السلام سے اس مرد کے بارے میں پوچھا جس نے قرآن پڑہا ہے اور پھر اسے بھول گیا ہے؛ اور میں نے تین مرتبہ دریافت کیا کہ کیا اس شخص پر کوئی حرج اور کوئی عیب ہے؟ اور امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: نہیں۔
19۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ الْقُرْآنُ عَهْدُ اللَّهِ إِلَى خَلْقِهِ فَقَدْ يَنْبَغِي لِلْمَرْءِ الْمُسْلِمِ أَنْ يَنْظُرَ فِي عَهْدِهِ وَ أَنْ يَقْرَأَ مِنْهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ خَمْسِينَ آيَةً۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: قرآن مخلوقات کے ساتھ اللہ تعالی کا عہد و پیمان اور اس کا فرمان ہے پس مسلمان کے لئے ضروری ہے خدا کے ساتھ اپنے اس عہد و پیمان پرغور کرے اور ہر روز اس کی 50 آیتوں کی تلاوت کرے۔
20۔ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ عليه السلام يَقُولُ آيَاتُ الْقُرْآنِ خَزَائِنُ فَكُلَّمَا فُتِحَتْ خِزَانَةٌ يَنْبَغِي لَكَ أَنْ تَنْظُرَ مَا فِيهَا۔
زہرى کہتے ہیں: میں نے حضرت على بن الحسين زین العابدین علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا: قرآن کی آیتین خزانے ہیں پس ضرورت اس امر کی ہے کہ جب تم ایک خزانے کا دروازہ کھولتے ہو تو اس پر نظر ڈالو اور اس میں غور کریں۔
21۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ إِنَّ الْبَيْتَ إِذَا كَانَ فِيهِ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ يَتْلُو الْقُرْآنَ يَتَرَاءَاهُ أَهْلُ السَّمَاءِ كَمَا يَتَرَاءَى أَهْلُ الدُّنْيَا الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ فِي السَّمَاءِ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جس گھر میں ایک مسلمان شخص قرآن کی تلاوت کرتا ہے آسمان والے اس گھر پر نظر رکھتے ہیں جس طرح کہ زمیں والے آسمان میں موجود چمکتے ستارے کی طرف دیکھتے ہیں۔
22۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ مَا يَمْنَعُ التَّاجِرَ مِنْكُمُ الْمَشْغُولَ فِي سُوقِهِ إِذَا رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ أَنْ لَا يَنَامَ حَتَّى يَقْرَأَ سُورَةً مِنَ الْقُرْآنِ فَتُكْتَبَ لَهُ مَكَانَ كُلِّ آيَةٍ يَقْرَؤُهَا عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَ يُمْحَى عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: وہ کونسی چیز ہی جو بازار میں مصروف تاجر کو گھر لوٹنے کے بعد سونے سے باز رکھ سکے حتی کہ وہ قرآن کی ایک سورت کی تلاوت کرے؟ پس ہر آیت کے بدلے اس کے لئے دس حسنات لکھے جائیں اور دس گناہ اس کے عمل نامے سے مٹا دیئے جائیں؟
23۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ سَمِعْتُ أَبِي عليه السلام يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله و سلم خَتْمُ الْقُرْآنِ إِلَى حَيْثُ تَعْلَمُ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: میں نے اپنے والد ماجد (امام محمد باقر علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ختم قرآن اسی مقام تک ہے جو تم خود جانتے ہو۔
وضاحت:
يعنی ختم قرآن اسی مقام تک ہے جہاں تک تم تلاوت کرسکتے ہو اور جتنا تم نے قرآن سیکھ لیا ہے۔ اور ممکن ہے کہ مراد یہ ہو کہ قرآن صرف یہی نہیں ہے جو تم سیکھ لیتے ہو اور اس کے مفاہیم و معانی کثیر ہیں لیکن تمہیں ختم قرآن کا اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ تم نے سیکھ لیا ہے اور جتنی دانش تم نے قرآن سے حاصل کی ہے۔
24۔ عن أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي الْمُصْحَفِ مُتِّعَ بِبَصَرِهِ وَ خُفِّفَ عَنْ وَالِدَيْهِ وَ إِنْ كَانَا كَافِرَيْنِ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص قرآن مجید کو سامنے رکھ کر اس کی تلاوت کرے وہ اپنی آنکھوں سے بہرہ مند ہوگا اور اس کی قرأت اس کے والدین کے عذاب میں کمی کا باعث ہوگی خواہ وہ (والدین) کافر ہی کیوں نہ ہوں۔
25۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ إِنَّهُ لَيُعْجِبُنِي أَنْ يَكُونَ فِي الْبَيْتِ مُصْحَفٌ يَطْرُدُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ بِهِ الشَّيَاطِينَ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: مجھے بہت پسند ہے کہ ہر گھر میں ایک قرآن ہوتا کہ خداوند عز و جل اس کے وسیلے سے شیاطین کو اس گھر سے دور کردے۔
26۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ ثَلَاثَةٌ يَشْكُونَ إِلَى اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ مَسْجِدٌ خَرَابٌ لَا يُصَلِّي فِيهِ أَهْلُهُ وَ عَالِمٌ بَيْنَ جُهَّالٍ وَ مُصْحَفٌ مُعَلَّقٌ قَدْ وَقَعَ عَلَيْهِ الْغُبَارُ لَا يُقْرَأُ فِيهِ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: تین چیزیں ہیں جو خداوند متعال کی بارگاہ میں شکایت کرتے ہیں: وہ ویراں مسجد جس کے اہالیان اس میں نماز ادا نہیں کرتے؛ وہ عالم و دانشور جو نادانوں اور جاہلوں میں گھرا ہوا ہو اور قرآن جس پر گرد بیٹھی رہتی ہو اور کوئی اسے پڑھتا نہیں ہو۔
27۔ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ مُحْرِزٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عليه السلام يَقُولُ مَنْ لَمْ يُبْرِئْهُ الْحَمْدُ لَمْ يُبْرِئْهُ شَيْءٌ۔
سلمة بن محرز کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ: جس شخص کو سورہ فاتحہ بہتری (بیماریوں، پلیدیوں، قباحتوں اور برائیوں سے) پاک اور دور نہ کردے کوئی چیز بھی اس کو پاک نہیں کرسکے گی۔
28۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي أَحْفَظُ الْقُرْآنَ عَلَى ظَهْرِ قَلْبِي فَأَقْرَؤُهُ عَلَى ظَهْرِ قَلْبِي أَفْضَلُ أَوْ أَنْظُرُ فِي الْمُصْحَفِ قَالَ فَقَالَ لِي بَلِ اقْرَأْهُ وَ انْظُرْ فِي الْمُصْحَفِ فَهُوَ أَفْضَلُ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ النَّظَرَ فِي الْمُصْحَفِ عِبَادَةٌ۔
اسحاق بن عمار کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق عليہ السلام سے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں میں حافظ قرآن ہوں (آپ فرمائیں کہ) میں اسے ازبر پڑھوں بہتر ہے یا قرآن مجید کو سامنے رکھ کر تلاوت کروں تو بہتر ہے؟
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: قرآن کی تلاوت کرو اور قرآن کو سامنے رکھ کر اسے دیکھا کرو؛ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ قرآن کی طرف دیکھنا عبادت ہے؟
29۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه و آله صَلَّى عَلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَقَالَ لَقَدْ وَافَى مِنَ الْمَلَائِكَةِ سَبْعُونَ أَلْفاً وَ فِيهِمْ جَبْرَئِيلُ عليه السلام يُصَلُّونَ عَلَيْهِ فَقُلْتُ لَهُ يَا جَبْرَئِيلُ بِمَا يَسْتَحِقُّ صَلَاتَكُمْ عَلَيْهِ فَقَالَ بِقِرَاءَتِهِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ قَائِماً وَ قَاعِداً وَ رَاكِباً وَ مَاشِياً وَ ذَاهِباً وَ جَائِياً۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (جنگ خندق میں زخمی ہونے اور بنو قریظہ کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے شہید) معاذ بن جبل کی میت پر نماز ادا کی؛ اور فرمایا: ستر ہزار فرشتے بھی آئے تھے جنہوں نے سعد کی نماز جنازہ میں شرکت کی؛ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے کہا: اے جبرائیل سعد بن معاذ کس عمل کی وجہ سے تم (فرشتوں) کی نماز کے مستحق ٹہرے؟
جبرائیل علیہ السلام نے کہا: (وہ فرشتوں کی نماز کے لائق ٹہرے کیونکہ) وہ ہر حال میں سورہ اخلاص (قل ہو اللّہ احد ۔۔۔) کی تلاوت کرتے رہتے تھے اٹھک بیٹھک میں بھی سواری کے وقت بھی اور چلنے پھرنے کی حالت میں بھی۔
30۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام قَالَ كَانَ أَبِي علیه السلام يَقُولُ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ثُلُثُ الْقُرْآنِ وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ رُبُعُ الْقُرْآنِ۔
حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد ماجد فرمایا کرتے تھے: "قل ہو اللّہ احد" قرآن کا ایک تہائی حصہ ہے اور "قل يا ايہا الكافرون" ایک چوتھائی قرآن ہے۔
31۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام قَالَ مَنْ مَضَى بِهِ يَوْمٌ وَاحِدٌ فَصَلَّى فِيهِ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ وَ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ قِيلَ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ لَسْتَ مِنَ الْمُصَلِّينَ.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر ایک شخص پر پورا دن گذر جائی اور وہ نمازہائی پنجگانہ ادا کری اور وہ کسی نماز میں بہی سورہ "قل ہو اللہ احد" نہ پرہی اس سے کہا جاتا ہی: ای بندہ خدا! تم نمازگزارون کی زمری سے خارج ہو۔
32۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَدَعْ أَنْ يَقْرَأَ فِي دُبُرِ الْفَرِيضَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَإِنَّهُ مَنْ قَرَأَهَا جَمَعَ اللَّهُ لَهُ خَيْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ غَفَرَ لَهُ وَ لِوَالِدَيْهِ وَ مَا وَلَدَا۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص خدا اور روز جزا پر ایمان رکھتا ہے وہ ہر نماز کے بعد سورہ قل ہو اللہ احد کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ کیونکہ جو شخص ہر نماز کے بعد قل ہواللہ احد پڑھے گا خداوند دنیا اور آخرت کی خیر و خوبیاں اس کے لئے فراہم کرتا ہے اور اس کے والدین اور اس کے بھائیوں اور بہنوں کی مغفرت فرمائے گا۔
33۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه و آله لِكُلِّ شَيْءٍ حِلْيَةٌ وَ حِلْيَةُ الْقُرْآنِ الصَّوْتُ الْحَسَنُ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہر چیز کے لئے زینت ہے اور قرآن کی زینت اچھی آواز ہے۔
34۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ علیه السلام قَالَ قُلْتُ لَهُ إِنَّ أَبِي سَأَلَ جَدَّكَ عَنْ خَتْمِ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ فَقَالَ لَهُ جَدُّكَ كُلَّ لَيْلَةٍ فَقَالَ لَهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَقَالَ لَهُ جَدُّكَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَقَالَ لَهُ أَبِي نَعَمْ مَا اسْتَطَعْتُ فَكَانَ أَبِي يَخْتِمُهُ أَرْبَعِينَ خَتْمَةً فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثُمَّ خَتَمْتُهُ بَعْدَ أَبِي فَرُبَّمَا زِدْتُ وَ رُبَّمَا نَقَصْتُ عَلَى قَدْرِ فَرَاغِي وَ شُغُلِي وَ نَشَاطِي وَ كَسَلِي فَإِذَا كَانَ فِي يَوْمِ الْفِطْرِ جَعَلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه و آله و سلم خَتْمَةً وَ لِعَلِيٍّ علیه السلام أُخْرَى وَ لِفَاطِمَةَ علیها السلام أُخْرَى ثُمَّ لِلْأَئِمَّةِ علیهم السلام حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَيْكَ فَصَيَّرْتُ لَكَ وَاحِدَةً مُنْذُ صِرْتُ فِي هَذَا الْحَالِ فَأَيُّ شَيْءٍ لِي بِذَلِكَ قَالَ لَكَ بِذَلِكَ أَنْ تَكُونَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قُلْتُ اللَّهُ أَكْبَرُ فَلِي بِذَلِكَ قَالَ نَعَمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔
على بن مغيرہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوالحسن (امام موسی كاظم) عليہ السلام سے عرض كیا: میرے والد نے آپ کے جد بزرگوار سے ہر شب ختم قرآن کے بارے میں پوچھا تھا اور آپ کے جد بزرگوار نے سوال فرمایا تھا: کہ ماہ رمضان میں؟
میرے والد نے عرض کیا تھا: ہاں! ماہ مبارک رمضان میں؛ مجھ میں جتنی طاقت و توانائی ہو قرآن کی تلاوت کروں؛ اور میرے والد ماہ مبارک رمضان میں 40 بار ختم قرآن کیا کرتے تھے اور میں بھی والد کے بعد اتنی ہی مقدار میں ختم قرآن کرتا ہوں؛ کبھی زیادہ اور کام کاج سے فراغت اور نشاط و سستی کے مطابق کبھی کم؛ اور جب عید فطر کا دن آن پہنچتا ہے میں ایک ختم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر پیش کرتا ہوں، ایک کو علی علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتا ہوں؛ ایک کو سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور ہر امام معصوم علیہ السلام کی خدمت میں ایک ختم ہدیہ کے طور پر پیش کرتا ہوں حتی کہ یہ سلسلہ آپ تک آپہنچتا ہے اور میں اس حال تک پہنچتے پہنچتے اس روش پر عمل پیرا رہا ہوں؛ آپ فرمائیں کہ میرے لئے اس عمل کی کوئی پاداش و ثواب ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: تمہاری پاداش قیامت کے روز ان کے ساتھ ہم نشینی ہے۔
میں نے تین مرتبہ عرض کیا: اللہ اکبر! کیا میری پاداش یہ ہے؟ اور امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں۔
35۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ كَانَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ صلی الله علیه و آله أَحْسَنَ النَّاسِ صَوْتاً بِالْقُرْآنِ وَ كَانَ السَّقَّاءُونَ يَمُرُّونَ فَيَقِفُونَ بِبَابِهِ يَسْمَعُونَ قِرَاءَتَهُ وَ كَانَ أَبُو جَعْفَرٍ عليه السلام أَحْسَنَ النَّاسِ صَوْتاً۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: على بن الحسين زین العابدین علیہ السلام قرآن مجید کی تلاوت میں خوش صدا ترین تھے اور جب بہشتی (پانی دینے والے سقے) آپ علیہ السلام کے گھر کے دروازے کے سامنے سے گذرتے تو وہیں رک جاتے اور آپ کی تلاوت سنا کرتے تھے اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بھی خوش صدا ترین تھے۔
36۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يُكْرَهُ أَنْ يُقْرَأَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ بِنَفَسٍ وَاحِدٍ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: مكروہ ہے كہ سورہ "قل ہو اللّہ احد" کو ایک ہی سانس میں پڑھنا مکروہ ہے۔
37۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام أَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِي لَيْلَةٍ قَالَ لَا يُعْجِبُنِي أَنْ تَقْرَأَهُ فِي أَقَلَّ مِنْ شَهْرٍ۔
راوی محمد بن عبداللّہ میں کہتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا: کیا میں قرآن مجید کی تلاوت (ختم قرآن) ایک ہی رات میں مکمل کیا کروں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: میں پسند نہیں کرتا کہ تم ختم قرآن ایک مہینے سے کم مدت میں مکمل کرلو۔
38۔ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قُلْتُ لَهُ فِي كَمْ أَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَقَالَ اقْرَأْهُ أَخْمَاساً اقْرَأْهُ أَسْبَاعاً أَمَا إِنَّ عِنْدِي مُصْحَفاً مُجَزًّى أَرْبَعَةَ عَشَرَ جُزْءاً۔
حسين بن خالد کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا: کتنے عرصے میں قرآن کی تلاوت مکمل کیا کروں؟
فرمایا: قرآن کی تلاوت پانچ حصوں میں کیا کرنا؛ (یعنی پانچ دنوں میں اور ہر روز چھ پاروں کی تلاوت کرنا) اور سات حصوں میں تلاوت کرنا (یعنی سات دنوں میں)؛ اور میرے پاس ایک مصجف (قرآن) ہے جس کے 14 حصے ہیں (یعنی اس کی تلاوت چودہ دنوں میں مکمل ہوتی ہے)۔
39۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه و آله إِنَّ الرَّجُلَ الْأَعْجَمِيَّ مِنْ أُمَّتِي لَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ بِعَجَمِيَّةٍ فَتَرْفَعُهُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى عَرَبِيَّةٍ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتی ہیں: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میری امت کے عجمی (غیر عرب) لوگ قرآن کی تلاوت عجمی لہجے میں کرتے ہیں (یعنی قواعد و تجوید اور قرأت کی خوبصوتیوں سے واقف نہیں ہیں یا شاید وہ اعراب تک کو درست نہ پڑھ سکتے ہوں لیکن) اللہ کے فرشتے ان کی تلاوت عربی لہجے میں اوپر کی جانب لے کر جاتے ہیں۔
40۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیه السلام يَقُولُ مَنْ قَرَأَ الْمُسَبِّحَاتِ كُلَّهَا قَبْلَ أَنْ يَنَامَ لَمْ يَمُتْ حَتَّى يُدْرِكَ الْقَائِمَ وَ إِنْ مَاتَ كَانَ فِي جِوَارِ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ ص۔
جابر کہتے ہیں: میں امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ: جو شخص سونے سے قبل مسبحات کی سورتوں (جن کی ابتدا میں سَبّحَ یا یُسَبِحُ ہے) کی تلاوت کرے وہ نہیں مرے گا حتی کہ ہمارے قائم (امام مہدی) علیہ السلام کا دور دیکھ لے اور اگر (ظہور سے قبل) مر جائے تو نبی اللہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہم نشین ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مأخذ: اصول کافی جلد چهارم ـ كِتَابُ فَضْلِ الْقُرْآنِ۔
1۔ ص 399 حدیث 3۔
2۔ ص 400 حدیث 4۔
3۔ ص 400 حدیث 5۔
4۔ ص 400 حدیث 6۔
5۔ ص 400 حدیث 7۔
6۔ ص 401 حدیث9۔
7۔ ص 403 حدیث 13۔
8۔ ص 404 حدیث 1۔
9۔ ص 405 حدیث 2۔
10۔ ص 408 حدیث 8۔
11۔ ص 408 حدیث 9۔
12۔ ص 409 حدیث 11۔
13۔ ص 409 حدیث 1۔
14۔ ص 409 حدیث 2۔
15۔ ص 409 حدیث 3۔
16۔ ص 410 حدیث 2۔
17۔ ص 411 حدیث 3۔
18۔ ص 411 حدیث 5۔
19۔ ص 412 حدیث 1۔
20۔ ص 412 حدیث 2۔
21۔ ص 413 حدیث 2۔
22۔ ص 414 حدیث 2۔
23۔ ص 417 حدیث 7۔
24۔ ص 417 حدیث 1۔
25۔ ص 417 حدیث 2۔
26۔ ص 417 حدیث 3۔
27۔ ص 434 حدیث 22۔
28۔ ص 418 حدیث 5۔
29۔ ص 429 حدیث 13۔
30۔ ص 427 حدیث 7۔
31۔ ص 428 حدیث 10۔
32۔ ص 428 حدیث 11
33۔ ص 422 حدیث 4۔
34۔ ص 420 حدیث 10۔
35۔ ص 420 حدیث 11۔
36۔ ص 420 حدیث 12۔
37۔ ص 422 حدیث 1۔
38۔ ص 422 حدیث 3۔
39۔ ص 424 حدیث 1۔
40۔ ص 426 حدیث 3۔