شھر ”افسوس“ کے طولانی مدت تک سونے والوں (یعنی اصحاب کہف) کی نیند کے بارے میں بعض لوگ شک و تردید کرسکتے ھیں ، ھوسکتا ھے کہ اس کو سائنس کے علمی اصول سے موافق نہ سمجھيں، لہٰذا اس کو ”قصہ اور کھانیوں“ کی صف میں قرار دے دیں، کیونکہ:
۱۔ بیدارر ھنے والوں کے لئے سیکڑوں سال تک زندہ رھنا مشکل ھے ، سوتے ھوئے لوگوں کے لئے تو بہت دور کی بات ھے!
۲۔ بیداری کے عالم میں تو بافرض محال یہ مانا بھی جاسکتا ھے کہ اتنی طویل عمر ھوسکتی ھے ، لیکن جو شخص سویا ھوا ھو اس کے لئے ناممکن ھے، کیونکہ کھانے پینے کی مشکل پیش آئے گی، انسان اتنی مدت تک بغیر کھائے پئے کیسے زندہ رہ سکتا ھے، اور اگر فرض کریں کہ انسان کے لئے ھر روز ایک کلو کھانا اور ایک لیٹر پانی کی ضرورت ھوتی ھے تو اصحاب کہف کی عمر کے لئے دس کونٹل کھانا اور ایک ہزار لیٹر پانی ضروری ھے جس کو بدن میں ذخیرہ کرنا معنی نھیں رکھتا۔
۳۔ اگر ان سب سے چشم پوشی کرلیں تو یہ اعتراض پیش آتا ھے کہ بدن کے ایک حالت میں اتنی طولانی مدت تک باقی رھنے سے انسانی جسم کے مختلف اعضا خراب ھوجاتے ھیں۔
اس طرح کے اعتراضات کے پیش نظر ظاھری طور پرکوئی راہ حل دکھائی نہ دیتی، جبکہ ایسا نھیں ھے، کیونکہ:
الف: طولانی عمر کا مسئلہ کوئی غیر علمی مسئلہ نھیں ھے کیونکہ ھم جانتے ھیں کہ (سائنس کے لحاظ سے) ھر زندہ موجود کے لئے کوئی معین معیار نھیں کہ اس وقت اس کی موت یقینی ھو۔
دوسرے الفاظ میں یوں کھیں کہ یہ بات اپنی جگہ مسلم ھے کہ انسان کی طاقت کتنی بھی ھو آخر کار محدود اور ختم ھونے والی ھے، لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ انسان کا بدن یا کوئی دوسرا جاندار اس معمولی مقدار سے زیادہ زندگی کرنے کی صلاحیت نھیں رکھتا، مثال کے طور پردرجہٴ حرارت سو تک پھنچنے پر پانی کھول جاتا ھے اور درجہٴ حرارت صفر ھونے پر پانی برف بن جاتا ھے، لہٰذا انسان کے سلسلہ میں ایسا کوئی قانون نھیں ھے کہ جب انسان سو سال یا ڈیڑھ سو سال کا ھوجائے تو انسان کی حرکت قلب بند ھوجائے اور وہ مرجائے۔
بلکہ انسان کی عمر کا معیار زیادہ تر اس کی زندگی کے حالات پر موقوف ھے اور حالات کو بدلنے سے اس کی عمر میں تبدیلی آسکتی ھے، اس کا زندہ ثبوت یہ ھے کہ ھم دیکھتے ھیں کہ دنیا بھر کے دانشوروں نے انسان کے لئے کوئی خاص عمر معین نھیں کی ھے، اس کے علاوہ متعدد دانشوروں نے بعض جانداروں کی عمر کو بعض مخصوص لیبریٹری میں رکھ کر دو برابر، چند برابر اور بعض اوقات ۱۲ برابر تک پھنچا یاھے، یھاں تک کہ محققین اور دانشوروں نے ھمیں امید دلائی ھے کہ مستقبل میں سائنس کے جدید طریقوں کے ذریعہ انسان کی عمر اس وقت کی عمر سے چند برابر بڑھ جائے گی، یہ خود طولانی عمر کے سلسلہ میں ھے۔
ب:اس طولانی نیند کے بارے میں کھانے پینے کا مسئلہ اگر معمولی نیند ھو تو اعتراض وارد ھوتا ھے کہ یہ مسئلہ سائنس سے ھم آھنگ نھیں ھے، اگرچہ سوتے وقت کھانے پینے کی ضرورت کم ھوتی ھے لیکن چند سالوں کے لئے یہ مقدار بہت زیادہ ھونی چاہئے، لیکن اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ جھان طبیعت میں ایسی بھی نیند پائی جاتی ھیں جن میں کھانے پینے کی ضرورت بہت ھی کم ھو تی ھے، اس کے لئے جانوروں کی مثال دی جاتی ھے جو موسم سرما میں سوجاتے ھیں۔
بہت سے جانور ایسے ھیں جو پوری سردیوں کے موسم میں سوتے رہتے ھیں اسے سائنس کی اصطلاح میں ”سردیوں کی نیند“ کھا جاتا ھے۔
ایسی نیند میں زندگی کے آثار تقریباً ختم ھوجاتے ھیں، زندگی کا معمولی سا شعلہ روشن رہتا ھے، دل کی دھڑکن تقریباً رک جاتی ھے، اور اتنی خفیف ھوجاتی ھے کہ بالکل محسوس نھیں ھوتی۔
ایسے مواقع پر بدن کو ایسے بڑے بھٹے سے تشبیہ دی جاسکتی ھے جو بجھ جاتا ھے اور چھوٹا سا شعلہ بھڑکتا رہتا ھے، واضح ھے کہ آسمان سے باتیں کرتے ھوئے شعلوں کے لئے بھٹے کو ایک دن کے لئے جتنے تیل یا گیس کی ضرورت ھوتی ھے ایک خفیف سے شعلہ کے لئے اتنی خو راک برسوں یا صدیوں کے لئے کافی ھے، البتہ اس میں جلتے ھوئے بھٹے کی مقدار اور خفیف سے شعلہ کی مقدار کے لحاظ سے فرق ھوسکتا ھے۔
جانوروں کی سردیوں کی نیند کے بارے میں دانشورں کا کھنا ھے: ”اگر کسی مینڈک کو سردیوں کی نیند سے اس کی جگہ سے باھر نکالیں تووہ مردہ معلوم ھوگا، اس کے پھیپھڑوں میں ھوا نھیں ھوتی، اس کے دل کی حرکت اتنی کمزور ھوتی ھے کہ پتہ نھیں چلایا جاسکتا، سرد خون جانوروں (Cool Blooded) میں بہت سے جا نورسردیوں کی نیند سوتے ھیں، اس سلسلہ میں کئی طرح کے کیڑے مکوڑے، حشرات الارض، زمینی سیپ (صدف) اور رینگنے والے جانوروں کے نام لئے جاسکتے ھیں، بعض خون گرم جانور (Warm Blooded) بھی سردیوں کی نیندسو تے ھیںاس نیند کے عالم میں حیاتی فعالتیں بہت سست پڑجاتی ھیں اور بدن میں ذخیرہ شدہ چربی آھستہ آھستہ صرف ھوتی رہتی ھے۔[1]
مقصد یہ ھے کہ ایک ایسی بھی نیند ھے جس میں کھانے پینے کی بہت کم ضرورت ھوتی ھے اور حیاتی حرکتیں تقریباً صفر تک پھنچ جاتی ھیں، اتفاق کی بات یہ ھے کہ یھی صورت حال اعضا کو فرسودگی سے بچانے اور جانوروں کو ایک طولانی مدت تک جینے میں مدد دیتی ھے، اصولی طور پر جو جاندار احتمالاً سردیوں میں اپنی غذا حاصل کرنے کی طاقت نھیں رکھتے ان کے لئے سردیوں کی نیند بہت غنیمت شئے ھے۔
یوگا کے ماھرین کے بارے میں دیکھا گیا ھے کہ ان میں سے بعض کو یقین نہ کرنے والے حیرت زدہ افراد کی آنکھوں کے سامنے بعض اوقات تابوت میں رکھ کر ہفتہ بھر کے لئے مٹی کے نیچے دفن کردیتے ھیں اور ایک ہفتہ کے بعد انھیں باھر نکالتے ھیں ان کی مالش کی جاتی ھے اور مصنوعی سانس دی جاتی ھے اور وہ رفتہ رفتہ اصلی حالت پر پلٹ آتے ھیں۔
اتنی مدت کے لئے اگر کھانے پینے کا مسئلہ کوئی اھم نہ ھو تو بھی آکسیجن کا مسئلہ بہت اھم ھے کیونکہ ھم جانتے ھیں دماغ کے خلیے آکسیجن کے معاملہ میں اتنے حساس اور ضرورت مند ھوتے ھیں کہ اگر چند سیکنڈ بھی اس سے محروم رھیں تو تباہ ھوجائیں، لہٰذا سوال پیدا ھوتا ھے کہ ایک یوگا کرنے والا پورا ہفتہ کس طرح آکسیجن کی اس کمی کو برداشت کرلیتا ھے۔
ھماری مذکورہ گفتگو کے پیش نظر اس سوال کا جواب کوئی زیادہ مشکل نھیں ھے، بات یہ ھے کہ یوگا کرنے والے کے بدن کی حیاتی حرکت اس عرصہ میں تقریباً رک جاتی ھے اس دوران خلیے کو آکسیجن کی ضرورت اور اس کا مصرف بہت کم ھوجاتا ھے یھاں تک کہ وھی ھوا جو تابوت کے اندرونی حصہ میں ھوتی ھے بدن کے خلیوں کی ہفتہ بھر کی غذا کے لئے کافی ھوجاتی ھے!!۔
جانوروں بلکہ انسانی بدن کو منجمد کرکے ان کی عمر بڑھانے کے بارے میں آج کل بہت سے نظریات پیش کئے گئے ھیں جن پر بحثیں ھورھی ھیں ان میں سے بعض تو عملی جامہ پھن چکے ھیں۔
ان تھیوریوں کے مطابق یہ ممکن ھے کہ ایک انسان یا حیوان کے بدن کو ایک خاص طریقہ کے تحت صفر سے کم درجہ حرات پر رکھ کر اس کی زندگی کو ٹھھرا دیا جائے جس سے اس کی مو ت واقع نہ ھو پھر ایک ضروری مدت کے بعد اسے مناسب حرارت دی جائے اور وہ عام حالت پر لوٹ آئے!!
بہت دور دراز کے فضائی سفر جن کے لئے کئی سو سال یا کئی ہزار سال کی مدت درکارھے، ان کے لئے کئی منصوبے پیش کئے جاچکے ھیں ان میں سے ایک یھی ھے کہ فضا نورد کے بدن کو ایک خاص تابوت میں رکھ کر اسے جما دیا جائے اور جب سالھا سال کی مسافت کے بعد وہ مقررہ کرّات کے قریب پھنچ جائے تو ایک ایٹو میٹک نظام کے تحت اس تابوت میں حرارت پیدا ھوجائے اور فضا نورد اپنی حیات کو ضا ئع کئے بغیر حالت معمول پر لوٹ آئے ۔
ایک سائنسی جریدہ میں یہ خبر شائع ھوئی ھے کہ حال ھی میں انسانی بدن کو لمبی عمر کے لئے منجمد کرنے کے بارے میں برابرٹ نیلسن نے کتاب لکھی ھے، سائنس کی دنیا میں یہ کتاب بہت مقبول ھو ئی ھے اور اس کے مندرجات کے بارے میں بہت کچھ کھا گیا ھے۔
جریدہ کے اس مقالہ میں یہ بھی لکھا ھے کہ حال ھی میں اس عنوان کے تحت ایک خاص سانئسی شعبہ قائم ھوگیا ھے، چنانچہ مذکورہ مقالہ میں لکھا ھے:
ھمیشہ سے انسانی تاریخ میں ”حیات جاویدانی“ انسان کا سنھرا خواب رھی ھے، لیکن اب یہ خواب حقیقت میں بدل گیا ھے، یہ امر ایک نئے علم کی خوشگوار اور حیرت انگیز ترقی کا مرھونِ منت ھے اس علم کا نام ”کریانک“ ھے، (یہ علم انسانی بدن کو منجمد کرکے زندہ رکھنے کے بارے میں ھے، اس کے مطابق انسان کے بدن کو منجمد کرکے اسے بچا یا جاسکتا ھے یھاں تک کہ سائنسداں اسے پھر سے زندہ کردیں)
کیا یہ بات قابل یقین ھے؟ بہت سے ممتاز دانشوراس مسئلہ پر غور و فکر کر رھے ھیں ، اس کے بارے میں متعدد کتابیں چھپ چکی ھیں مثلاً ”لائف“ اور ”اسکوائر“ ، پوری دنیا کے اخبارات پورے زور و شور سے اس مسئلہ پر بحث کر رھے ھیں، اور سب سے اھم بات یہ ھے کہ اس سلسلہ میں اب تجربات شروع ھوچکے ھیں۔[2]
کچھ عرصہ ھوا کہ اخبار میں یہ خبر چھپی تھی کہ برفانی قطبی علاقے سے چند ہزار سال پھلے کی ایک منجمد مچھلی ملی ھے جسے خود وھاں کے لوگوں نے دیکھا ھے اس مچھلی کو جب مناسب پانی میں رکھا گیا تو سب لوگ حیرت زدہ رہ گئے کہ وہ مچھلی پھر سے جی اٹھی اور چلنے لگی۔
واضح رھے کہ حالت انجماد میں علامات حیات ،موت کی طرح بالکل ختم نھیں ھوتی کیونکہ اس صورت میں تو زند ہ ھو نا ممکن نھیں ھےبلکہ اس عالم میں حیات کی فعالتیں اور حرکتیں بہت سست رفتار ھوجاتی ھيں۔
ان تمام باتوں سے ھم یہ نتیجہ نکالتے ھیں کہ انسانی زندگی کو ٹھھرایا یا بہت ھی سست کیا جاسکتا ھے، اور سائنس کی مختلف تحقیقات اس امکان کی متعدد حوالوں سے تائید کرتی ھیں، اس حالت میں غذا کا مصرف بدن میں تقریباً صفر تک پھنچ جاتا ھے اورانسان کے بدن میں موجود غذا کا تھوڑا سا ذخیرہ اس کی سست زندگی کے لئے طولانی برسوں تک کافی ھوسکتا ھے۔
اس چیز میں غلط فھمی نہ ھو کہ ھم ان باتوں کے ذریعہ اصحاب کہف کی نیند کے اعجازی پھلو کا انکار نھیں کرنا چاہئے بلکہ ھم چاہتے ھیں کہ سائنس کے اعتبار سے اس واقعہ کو ذھنوں کے قریب کردیں کیونکہ یہ بات مسلم ھے کہ اصحاب کہف ھماری طرح نھیں سوئے، جیسا کہ ھم معمول کے مطابق رات کو سوتے ھیں ان کی نیند ایسی نھیں تھی بلکہ وہ استثنائی پھلو رکھتی تھی، لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نھیں ھے کہ وہ ارادہ الٰھی کے تحت ایک طولانی مدت تک سوتے رھے، اس دوران نہ انھیں غذا کی کمی لاحق ھوئی اور نہ ان کے بدن کے ارگانیزم (اجزا) کو کوئی نقصان پھنچا۔
یہ بات قابل توجہ ھے کہ سورہ کہف کی آیات سے ان کی سرگزشت کے بارے میں یہ نتیجہ برآمد ھوتا ھے کہ ان کی نیند عام طریقہ کی نیند اور معمول کی نیند سے بہت مختلف تھی، چنانچہ ارشاد خداوندی ھے:
<وَتَحْسَبُہُمْ اٴَیْقَاظًا وَہُمْ رُقُودٌ وَنُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْیَمِینِ وَذَاتَ الشِّمَالِ وَکَلْبُہُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیدِ لَوْ اطَّلَعْتَ عَلَیْہِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْہُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْہُمْ رُعْبًا >[3]
”اور تمھارا خیال ھے کہ وہ جاگ رھے ھیں حالانکہ وہ عالمِ خواب میں ھیں اور ھم انھیں داھنے بائیں کروٹ بھی بدلوا رھے ھیں اور ان کا کتا ڈیوڑھی پر دونوں ھاتھ پھیلائے ڈٹا ھوا ھے اگر تم ان کی کیفیت پر مطلع ھوجاتے تو الٹے پاؤں بھاگ نکلتے اور تمھارے دل میں دھشت سما جاتی“۔
یہ آیت اس بات کی گواہ ھے کہ ان کی نیند عام نیند نہ تھی بلکہ ایسی نیند تھی جو حالت موت کے مشابہ تھی اور ان کی آنکھیں کھلی ھوئی تھیں۔
اس کے علاوہ قرآن مجید میں بیان ھوا ھے: ”سورج کی روشنی ان کے غار کے اندر نھیں پڑتی تھی“ نیز اس امر کی طرف توجہ کی جائے کہ ان کی غار احتمالاً ایشائے صغیر کے کسی بلند اور سرد مقام پر واقع تھا تو ان کی نیند کے استثنائی حالات مزید واضح ھوجاتے ھیں۔
دوسری طرف قرآن کہتا ھے:
<وَنُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْیَمِینِ وَذَاتَ الشِّمَالِ>[4]
”اور ھم انھیں داھنے بائیں کروٹ بھی بدلوا رھے ھیں “ اس سے معلوم ھوتا ھے کہ وہ بالکل ایک ھی حالت میں نھیں رہتے تھے ایسے عوامل جو ابھی تک ھمارے لئے معمہ ھیں ان کے تحت شاید سال میں ایک مرتبہ انھیں دائیں بائیں پلٹاجاتا تھا تاکہ ان کے بدن کے ارگانیزم (Organism)میں کوئی نقص نہ آنے پائے۔
اب جبکہ اس سلسلہ میں کافی واضح عملی بحث ھوچکی ھے اس سے نتیجہ اخذ کرتے ھوئے معاد اور قیامت کے بارے میں زیادہ گفتگو کی ضرورت نھیں رہتی، کیونکہ ایسی طویل نیند کے بعد بیداری، موت کے بعد کی زندگی کے غیر مشابہ نھیں ھے، اس سے ذھن معاد اور قیامت کے امکان کے قریب ھوجاتا ھے۔[5]([6])
[1] اقتباس از کتاب فرھنگنامہ (دائرة المعارف جدید فارسی) مادہ زمستانخوابی۔
[2] مجلہ دانشمند ، بھمن ماہ ۱۳۴۷ھ ش ، صفحہ ۴۔
[3] سورہ کہف ، آیت ۱۸۔
[4] سورہٴ کہف ، آیت ۱۸۔
[5] اس سلسلہ میں مزید وضاحت کے لئے کتاب ”معاد و جھان پس از مرگ“ کی طرف رجوع فرمائیں۔
[6] تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۴۰۶۔