غنا (گانا) کی حرمت میں کوئی خاص مشکل نھیں ھے ، صرف موضوعِ غنا کو معین کرنا مشکل ھے۔
آیا ھر خوش آواز اور مترنم لہجہ غنا ھے؟
مسلّم طور پر ایسا نھیں ھے، کیونکہ اسلامی روایات میں بیان ھوا ھے اور مسلمین کی سیرت اس بات کی حکایت کرتی ھے کہ قرآن اور اذان وغیرہ کو بہترین آواز اور خوش لہجہ میں پڑھا جائے۔
کیا ھر وہ آواز جس میں ”ترجیع“ (گٹگری) یعنی آواز کا اتار چڑھاؤ پایا جاتا ھو، وہ غنا ھے؟ یہ بھی ثابت نھیں ھے۔
اس سلسلہ میں شیعہ اور اھل سنت کے فقھا کے بیان سے جو نتیجہ نکلتا ھے وہ یہ ھے کہ غنا ، طرب انگیز آواز اور لھو باطل ھے۔
واضح الفاظ میں یوں کھا جائے: غنا اس آھنگ اور طرز کو کھا جاتا ھے جو فسق و فجور اور گناھگاروں، عیاشوں اور بدکاروں کی محفلوں سے مطابقت رکھتا ھو۔
یا اس کے لئے یوں بھی کھا جاسکتا ھے کہ غنا اس آواز اور طرز کو کھا جاتا ھے جس سے انسان کی شھوانی طاقت ھیجان میں آجائے، اور انسان اس حال میں احساس کرے کہ اگر اس طرز اور آواز کے ساتھ شراب اور جنسی لذت بھی ھوتی تو کتنا اچھا ھوتا!۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ھے کہ کبھی ایک ”آھنگ“ اور ”طرز“ خود بھی غنا اور لھو و باطل ھوتا ھے اور اس کے الفاظ اور مفھوم بھی، اس لحاظ سے عاشقانہ فتنہ انگیز اشعار کو مطرب طرز میں پڑھا جاتا ھے، لیکن کبھی صرف آھنگ اور طرز غنا ھوتا ھے لیکن اشعار یا قرآنی آیات یا دعا اور مناجات کو ایسی طرز سے پڑھیں جو عیاشوں اور بدکاروں کی محفلوں سے مناسب ھے، لہٰذا یہ دونوں صورتیں حرام ھیں۔ (غور کیجئے )
اس نکتہ کا ذکر کرنا ضروری ھے کہ غنا کے سلسلہ میں دو معنی بیان کئے گئے ھیں: ”عام معنی“ ، ”خاص معنی“ ، معنی خاص وھی ھیں جو ھم نے اوپر بیان کئے ھیں یعنی شھوانی طاقت کو ھیجان میں لانے والی اور فسق و فجور کی محافل کے موافق طرز اور آواز ۔
لیکن عام معنی : ھر بہترین آواز کو غنا کہتے ھیں، لہٰذا جن حضرات نے غنا کے عام معنی کئے ھیں انھوں نے غنا کی دو قسمیں کی ھیں، ”حلال غنا “، ”حرام غنا “۔
حرام غنا سے مراد وھی ھے جو ھم نے بیان کیا ھے اور حلال غنا سے ھر وہ دلکش اور بہترین آواز ھے جو مفسدہ انگیز نہ ھو اور محافل فسق و فجور سے مناسبت نہ رکھتی ھو۔
اس بنا پر غنا کی حرمت تقریباً اختلافی نھیں ھے، بلکہ اس کے معنی میں اختلاف ھے۔
اگرچہ ”غنا“ کے کچھ مشکوک موارد بھی ھیں (دوسرے تمام مفاھیم کی طرح) جس میں انسان کو معلوم نھیں ھوتا کہ فلاں طرز یا فلاں آواز فسق و فجور کی محفلوں سے مناسبت رکھتی ھے یا نھیں؟ اس صورت میں یہ آواز ”اصل برائت“ [1]کے تحت جواز کا حکم رکھتی ھے (البتہ غنا کی مذکورہ تعریف کے پیش نظر اس کے مفھوم سے کافی معلومات کے بعد)
یھیں سے یہ بات بھی روشن ھوجاتی ھے کہ وہ رزمیہ ترانہ جو میدان جنگ اور ورزش کے وقت مخصوص آھنگ و آواز کے ساتھ پڑھا جاتا ھے اس کے حرام ھونے پر کوئی دلیل نھیں ھے۔
البتہ غنا کے سلسلہ میں دوسری بحثیں بھی پائی جاتی ھیں جیسے غنا سے کیا کیا مستثنیٰ ھیں؟ اس سلسلہ میں کہ کس نے کس کو قبول کیا ھے اور کس نے کس کا انکار کیا ھے، فقھی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔
یھاں پر جس آخری بات کا ذکر ضروری ھے وہ یہ ھے کہ ھم نے جو کچھ اوپر بیان کیا ھے وہ پڑھنے سے متعلق ھے، لیکن موسیقی کے آلات اور ساز و سامان کی حرمت کے بارے میں دوسری بحث ھے جس کا ھماری بحث سے تعلق نھیں ھے۔
مذکورہ شرائط کے ساتھ ”غنا“ کے معنی اور مفھوم میں غور و فکر کرنے سے غنا کی حرمت کا فلسفہ بخوبی واضح ھوجاتا ھے۔
ھم یھاں پر ایک مختصر تحقیق کی بنا پر اس کے مفاسد اور نقصانات کو بیان کرتے ھیں:
تجربات اس بات کی نشاندھی کرتے ھیں (اور تجربات بہترین شاھد اور گواہ ھوتے ھیں) کہ غنا (یعنی ناچ گانے) سے متاثر ھونے والے افراد تقویٰ اور پرھیزگاری کی راہ کو ترک کرکے جنسی بے راہ روی کے اسیر ھوگئے ھیں۔
غنا کی محفلیں عام طور پر فساد کے مرکز ھوتی ھیں، یعنی اکثر گناھوں اور بدکاریوں کی جڑ یھی غنا اور ناچ گانا ھوتا ھے۔
بیرونی جرائد کی بعض رپورٹوں میں ھم پڑھتے ھیں کہ ایک پروگرام میں لڑکے اور لڑکیاں شریک تھیں وھاں ناچ گانے کا ایک مخصوص ”شو“ ھوا جس کی بنا پر لڑکوں اور لڑکیوں میں اس قدر ھیجان پیدا ھوا کہ ایک دوسرے پر حملہ آور ھوگئے اور ایسے واقعات پیش آئے جن کے ذکر کرنے سے قلم کو شرم آتی ھے۔
تفسیر ”روح المعانی“ میں ”بنی امیہ“ کے ایک عھدہ دار کے حوالہ سے نقل ھوا ھے جو کہتا تھا: غنا اور ناچ گانے سے پرھیز کرو، کیونکہ اس سے حیا کم ھوتی ھے، شھوت میں اضافہ ھوتا ھے، انسان کی شخصیت پامال ھوتی ھے، اور (یہ ناچ گانا) شراب کا جانشین ھوتا ھے، کیونکہ ایسا شخص وہ سب کام کرتا ھے جو ایک مست انسان (شراب کے نشہ میں) انجام دیتا ھے۔[2]
اس سے معلوم ھوتا ھے کہ وہ لوگ بھی ناچ گانے کے فسادات اور نقصانات سے واقف تھے۔اور اگر ھم دیکھتے ھیں کہ اسلامی روایات میں بارھا بیان ھوا ھے کہ ناچ گانے کے ذریعہ انسان کے دل میں روحِ نفاق پرورش پاتی ھے، تو یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ھے، روح نفاق وھی گناھوں اور برائیوں سے آلودہ ھونا اور تقویٰ و پرھیزگاری سے دوری کا نام ھے۔
نیز اگر روایات میں بیان ھوا ھے کہ جس گھر میں غنا اور ناچ گانا ھوتا ھے اس میں فرشتے داخل نھیں ھوتے تو یہ بھی انھیں فسادات سے آلودگی کی وجہ سے ھے کیونکہ فرشتے پاک و پاکیزہ ھیں اور پاکیزگی کے طالب ھیں نیز آلودہ فضا سے بیزار ھیں۔
بعض اسلامی روایات میں ”غنا“ کے معنی میں ”لھو “ کا استعمال ھونے والا لفظ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ھے کہ غنا اور ناچ گانے کے ذریعہ انسان اتنا مست ھوجاتا ھے کہ یاد خداسے غافل ھوجاتا ھے۔
حضرت امام علی علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ھوا ھے: ”کل ما الھی عن ذکر الله فھو من المیسر“ (یاد خدا سے غافل کرنے والی (اور شھوت میں غرق کرنے والی) ھر چیز جوے کا حکم رکھتی ھے۔
غنا اور ناچ گانا نیز موسیقی، در اصل انسانی اعصاب کے نشہ کے عوامل میں سے ھے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ نشہ کبھی منھ کے ذریعہ انسان کے بدن میں پھنچتا ھے (جیسے شراب)
اور کبھی حس شامہ اور سونگھنے سے ھوتا ھے (جیسے ھیروئن)
اور کبھی انجکشن کے ذریعہ ھوتا ھے (جیسے مرفین)
اور کبھی حس سامعہ یعنی کانوں کے ذریعہ نشہ ھوتا ھے (جیسے غنا اور موسیقی)
اسی وجہ سے کبھی کبھی غنا اور ناچ گانے کے ذریعہ انسان بہت زیادہ مست ھوجاتا ھے، اگرچہ کبھی اس حد تک نھیں پھنچتا لیکن پھر بھی نشہ کا تھوڑا بہت اثر ھوتا ھے۔
اور اسی وجہ سے غنا میں نشہ کے بہت سے مفاسد موجود ھیں چاھے اس کا نشہ کم ھو یا زیادہ۔
” اگر مشھور موسیقی داں افراد کی زندگی پر دقیق توجہ کی جائے تو معلوم ھوگا کہ وہ آھستہ آھستہ اپنی عمر میں نفسیاتی مشکلات میں گرفتار ھوجاتے ھیں یھاں تک کہ ان کے اعصاب جواب دے دیتے ھیں، اور بہت سے افراد نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ھوجاتے ھیں، بعض لوگ اپنی عقل و شعور کھو بیٹھتے ھیں اور پاگل خانوں کے مھمان بن جاتے ھیں، بعض لوگ مفلوج اور ناتواں ھوجاتے ھیں، یھاں تک بعض لوگوں کا موسیقی کا پروگرام کرتے ھوئے بلڈ پریشر ھائی ھوجاتا ھے اور وہ موقع پر ھی دم توڑ جاتے ھیں“۔[3]
مختصر یہ کہ غنا اور موسیقی کے آثار جنون کی حد تک ، بلڈ پریشر کا بڑھنا اور دوسرے خطرناک آثار اس درجہ ھیں کہ اس کے بیان کی کوئی ضرورت ھی نھیں ھے۔
عصر حاضر میں ناگھانی اموات کے سلسلہ میں ھونے والے اعداد و شمار سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ گزشتہ کی بنسبت اس زمانہ میں ناگھانی اموات میں بہت زیادہ اضافہ ھوگیا ھے، جس کی مختلف وجوھات ھیں ان میں سے ایک وجہ یھی عالمی پیمانہ پر غنا اور موسیقی کی زیادتی ھے۔
عالمی پیمانہ پر استعمار ،عام لوگوں خصوصاً نسل جوان کی بیداری سے خوف زدہ ھے، اسی وجہ سے استعمار کے پاس اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پھنانے کے لئے اپنی منصوبہ بندی ھے کہ جس سے مختلف قوموں کوجھالت اور غفلت میں رکھنے کے لئے غلط سرگرمیوں کو رائج کرے۔
عصر حاضر میں منشیات صرف تجارتی پھلو نھیں رکھتی، بلکہ ایک اھم سیاسی حربہ ھے یعنی استعمار کی ایک اھم سیاست ھے، فحاشی کے اڈّے، جوے خانے اور دوسری غلط سرگرمی، منجملہ غنا اور موسیقی کو وسیع پیمانہ پر رائج کرنا استعمار کا ایک اھم ترین حربہ ھے، تاکہ عام لوگوں کے افکار کو منحرف کردیں، اسی وجہ سے دنیا بھر کی ریڈیو سرویسوں میں زیادہ تر موسیقی ھوتی ھے، اسی طرح ٹیلی ویژن وغیرہ میں بھی موسیقی کی بھر مار ھے۔[4]
۱۔ زنا کے ذریعہ خاندانی نظام درھم و برھم ھوجاتاھے، ماں باپ اوراولادکے درمےان رابطہ ختم ھوجاتاھے جبکہ یہ وہ رابطہ ھے جو نہ صرف معاشرے کی شناخت کا سبب ھے بلکہ خود اولاد کی نشو ونما کا موجب بھی ھے، یھی رابطہ ساری عمر محبت کے ستونوں کو قائم رکھتا ھے اور انھیں دوام بخشتاھے۔
المختصر : جس معاشرے میںغیر شرعی اور بے باپ کی او لاد زیادہ ھواس کے اجتماعی روابط سخت متزلزل ھوجاتے ھيںکیونکہ ان روابط کی بنیاد خاندانی روابط ھی ھوتے ھیں۔
اس مسئلہ کی اھمیت سمجھنے کے لئے ایک لمحہ اس بات پر غور کرنا کافی ھے کہ اگر سارے انسانی معاشرے میں زنا جائز اور مباح ھوجائے اور شادی بیاہ کا قانون ختم کردیا جائے تو ان حالات میں غیر معین اور بے ٹھکانہ اولاد پیدا ھوگی، اس اولاد کو کسی کی مدد اور سر پرستی حاصل نہ ھوگی، اسے نہ پیدائش کے وقت کوئی پوچھے گا اور نہ بڑا ھونے کے بعد۔
اس سے قطع نظر برائیوں، سختیوں اور مشکلات میں محبت کی تاثیر تسلیم شدہ ھے جبکہ ایسی اولاد اس محبت سے بالکل محروم ھوجائے گی، اور انسانی معاشرہ پوری طرح تمام پھلوؤں سے حیوانی زندگی کی شکل اختیار کرلے گا۔
۲۔ یہ شرمناک اور قبیح عمل ھوس باز لوگوں کے درمیان طرح طرح کے جھگڑوں اور کشمکش کا باعث ھوگا، وہ واقعات جو بعض افراد نے بد نام محلوں اور غلط مراکز کی داخلی کیفیت کے بارے میں لکھے ھیں ان سے یہ حقیقت بالکل واضح ھوجاتی ھے کہ جنسی بے راہ روی بدترین جرائم کو جنم دیتی ھے۔
۳۔ یہ بات علم اور تجربہ نے ثابت کردی ھے کہ زنا طرح طرح کی بیماریاں پھیلانے کا سبب بنتا ھے، چنانچہ اسی بنا پر اس کے بُرے نتائج کی روک تھا م کے لئے آج کے دور میں بہت سے اداروں کی بنا رکھی گئی ھے اور بہت سے اقدامات کئے گئے ھیں، مگر اس کے باوجود اعداد وشمار نشاندھی کرتے ھیں بہت سے افراد اس راستہ میں اپنی صحت و سلامتی کھو بیٹھے ھیں۔
۴۔ اکثر اوقات یہ عمل اسقاط حمل، قتل ِ اولاد اور نسل کے قطع ھونے کا سبب بنتا ھے کیونکہ ایسی عورتیں ایسی اولاد کی نگرانی کے لئے ھرگز تیار نھیں ھوتیں، اصولاً اولاد ان کے لئے ایسا منحوس عمل جاری رکھنے میں بہت بڑی رکاوٹ ھوتی ھے، لہٰذا وہ ھمیشہ اسے پھلے سے ختم کردینے کی کوشش کرتی ھیں۔
یہ فرضیہ بالکل خیال خام ھے کہ ایسی اولاد حکومت کے زیر اہتمام چلنے والے اداروں میں رکھی جاسکتی ھے کیو نکہ اس فرض کی ناکامی عملی طور پر واضح ھوچکی ھے اور ثابت ھوچکا ھے کہ اس صورت میں بن باپ کی اولاد کی پرورش کس قدر مشکلات کا باعث ھے، اور نتیجتاً بہت ھی نامطلوب اور غیر پسندیدہ ھے، ایسی اولاد سنگدل، مجرم، بے حیثیت اور ھر چیز سے عاری ھوتی ھے۔
۵۔ اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ شادی بیاہ کا مقصد صرف جنسی تقاضے پورے کرنا نھیں ھے بلکہ ایک مشترکہ زندگی کی تشکیل ، روحانی محبت، فکری سکون، اولاد کی تربیت اور زندگی کے ھر موڑ پر ایک دوسرے کی ھر ممکن مدد کرنا شادی کے نتائج میں سے ھیں، اور ایسا بغیر اس کے نھیں ھوسکتا کہ عورت اور مرد ایک دوسرے سے مخصوص ھوں اور عورتیں دوسروں پر حرام ھوں۔
حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ھیں: ”میں نے پیغمبر اکرم سے سنا کہ آپ نے فرمایا: زنا کے چھ بُرے اثرات ھیں، ان میں سے تین دنیا سے متعلق ھیں اور تین آخرت سے:
دنیاوی برے اثراث یہ ھیں کہ یہ عمل ،انسان کی نورانیت کو چھین لیتا ھے، روزی منقطع کردیتا ھے اور موت کو نزدیک کر دیتا ھے۔
اور اُخروی آثار یہ ھیں کہ یہ عمل پروردگار کے غضب ، حساب و کتاب میں سختی اور آتش جھنم میں داخل ھونے (یا اس میں دوام) کا سبب بنتا ھے۔[5]،[6]
اگرچہ مغربی دنیا میں جھاں جنسی بے راہ روی بہت زیادہ رائج ھے ایسی برائیوں سے نفرت نھیں کی جاتی ، یھاں تک کہ سننے میں آیا ھے کہ بعض ممالک مثلاً برطانیہ میں پارلیمنٹ نے اس کام کو انتھائی بے شرمی سے قانونی جواز دے دیا ھے، لیکن ان برائیوں کے عام ھونے سے ان کی برائی اور قباحت میں ھرگز کوئی کمی نھیں آتی، اور اس کے اخلاقی، نفسیاتی اور اجتماعی مفاسد اپنی جگہ پر ثابت ھیں۔
بعض اوقات مادی مکتب کے بعض پیرو جو اس قسم کی آلودگیوں میں مبتلا ھیں اپنے عمل کی توجیہ کرنے کے لئے کہتے ھیں کہ اس میں طبی نکتہ نظر سے کوئی خرابی نھیں ھے لیکن وہ یہ بات بھول چکے ھیں کہ اصولی طور پر ھر قسم کا جنسی انحراف انسانی وجود کے تمام ڈھانچے پر اثر انداز ھوتا ھے اور اس کا اعتدال درھم و برھم کردیتا ھے۔
اس کی وضاحت یہ ھے کہ انسان فطری اور طبیعی طور پر صنف مخالف کی طرف زیادہ میلان رکھتا ھے اور یہ میلان انسانی فطرت میں بہت مضبوط جڑیں رکھتا ھے اور انسانی نسل کی بقا کا ضامن ھے، ھر وہ کام جو طبیعی میلان سے ہٹ کر انجام پذیر ھوتا ھے وہ انسان میں ایک قسم کی بیماری اور نفسیاتی انحراف پیدا کرتا ھے۔
وہ مرد جو جنسِ موافق کی طرف میلان رکھتا ھے اور وہ مرد جو اپنے کو اس کام کے لئے پیش کرتا ھے ھرگز کامل مرد نھیں ھے، جنسی امور کی کتاب میں ھم جنس بازی کو ایک اھم ترین انحراف قرار دیا گیا ھے۔
اگر یہ سلسلہ جاری رھے تو انسان میں جنس مخالف کا میلان آھستہ آھستہ ختم ھوجاتا ھے اور اس کام کے مفعول میں آھستہ آھستہ زنانے احساسات پیدا ھونے لگتے ھیں اور دونوں میں بہت زیادہ جنسی ضعف پیدا ھوتا ھے جسے اصطلاح کے مطابق ”سرد مزاجی“ کھا جاتا ھے، اس طرح سے کہ ایک مدت کے بعدوہ (جنس مخالف سے) طبیعی اور فطری ملاپ کرنے پر قادر نھیں رہتے۔
اس چیز کے پیش نظر کہ مرد اور عورت کے جنسی احساسات جھاں ان کے بدن کے ارگانیزم (Organism)میں موثر ھیں وھاں ان کے روحانی اور مخصوص اخلاقی پھلوؤں پر بھی اثر انداز ھوتے ھیں، یہ بات واضح ھے کہ طبیعی اور فطری احساسات سے محروم ھوکر انسان کے جسم اور روح پر کس قدر ضرب پڑتی ھے، یھاں تک کہ ممکن ھے کہ اس طرح کے انحراف میں مبتلا افراد اس قدر سرد مزاجی کا شکار ھوجائیں کہ پھر اولاد پیدا کرنے کی طاقت سے بھی محروم ھوجائیں۔
اس قسم کے افراد عموماً نفسیاتی طور پر صحیح و سالم نھیں ھوتے اور اپنی ذات میں اپنے آپ سے ایک طرح کی بیگانگی محسوس کرتے ھیں اور جس معاشرہ میں رہتے ھیں اس سے خود کو لاتعلق سا محسوس کرنے لگتے ھیں، ایسے افراد قوت ارادی جو ھر قسم کی کامیابی کی شرط ھے آھستہ آھستہ کھو بیٹھتے ھیں اور ان کی روح میں حیرانی و سرگردانی آشیانہ بنالیتی ھے۔
ایسے فراد اگر جلد اپنی اصلاح کا ارادہ نہ کریں بلکہ لازمی طور پر جسمانی اور روحانی طبیب سے مدد نہ لیں اور یہ عمل ان کی عادت میں شامل ھوجائے تو اس بُری عادت کا ترک کرنا مشکل ھوجائے گا، بھر حال اگر مصمم ارادہ کرلیا جائے تو کسی بھی حالت میں اس عادت کو ترک کرنے میں دیر نھیں لگتی، بھر صورت مستحکم ارادہ ھونا ضروری ھے۔
بھر حال نفسیاتی سرگردانی انھیں آھستہ آھستہ منشیات اور شراب کی طرف لے جاتی ھے اور ایسے لو گ مزید اخلاقی انحراف کا شکار ھوجاتے ھیں، یہ ایک اور بڑی بد بختی ھے۔
یہ بات جاذبِ نظر ھے کہ اسلامی روایات میں مختصر اور پُر معنی عبارات کے ذریعہ ان مفاسد کی طرف اشارہ کیا گیا ھے ان میں ایک روایت حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ھے، کسی نے امام علیہ السلام سے سوال کیا: خدا نے لواط کو کیوں حرام کیا ھے؟ تو آپ نے فرمایا: ”اگر لڑکوں سے ملاپ حلال ھوتا تو مرد عورتوں سے بے نیاز ھوجاتے (اور ان کی طرف مائل نہ ھوتے) اور یہ چیز نسلِ انسانی کے منقطع ھونے کا باعث بنتی، اور جنس مخالف سے فطری ملاپ کے ختم ھونے کا باعث بنتی، اور یہ کام بہت سی اخلاقی اور اجتماعی خرابیوں کا سبب بنتا۔[7]
یہ نکتہ بھی قابل ذکر ھے کہ اسلام ایسے افراد کے لئے جن سزاؤں کا قائل ھے ان میں سے ایک یہ ھے کہ فاعل پر مفعول کی بھن، ماں اور بیٹی سے نکاح حرام ھے یعنی اگر یہ کام نکاح سے پھلے ھوا ھو تو یہ عورتیں اس کے لئے ھمیشہ کے لئے حرام ھوجاتی ھیں۔[8]
ایک مغربی دانشور کا کھنا ھے کہ ۲۱ سے ۲۳ سالہ جوانوں میں ۵۱ فی صد شراب کے عادی مرجاتے ھیں جبکہ شراب نہ پینے والوں میں سے ۱۰ افراد بھی نھیں مرتے۔
ایک دوسرے مشھور دانشور نے کھا: بیس سالہ جوان جن کے بارے میں ۵۰ سال تک زندہ رھنے کی توقع کی جاتی ھے وہ شراب کی وجہ سے ۳۵ سال سے زیادہ زندہ نھیں رہ سکتے۔
بیمہ کمپنیوں کے تجربات سے ثابت ھوچکا ھے کہ شرابیوں کی عمر دوسروں کی نسبت ۲۵ سے ۳۰فیصد کم ھوتی ھے۔ ایک دوسرے اعداد و شمار سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ شرابیوں کی اوسط عمر ۳۵ سے ۵۰ سال ھے، جبکہ اصول صحت کا یہ اوسط ۶۰ سال سے زیادہ ھے۔
انسانی نسل میں شراب کی تاثیر
انعقاد نطفہ کے وقت اگر مرد نشہ میں تو ”الکلسیم حاد “ (Alcoalism) کی ۳۵ فیصد بیماریاں بچہ میں منتقل ھوتی ھیں اور اگر مرد اور عورت دونوں نشہ میں ھوں تو ”الکلسیم حاد “ (Alcoalism)کی سو فیصد بیماریاں بچہ میں ظاھر ھوتی ھیں، اس بنا پر اولاد کے بارے میں شراب کی تاثیر پر زیادہ توجہ دینا ضروری ھے، ھم یھاں کچھ مزید اعداد و شمار پیش کرتے ھیں:
طبیعی وقت سے پھلے پیدا ھونے والے بچوں میں ۴۵ فیصد ماں باپ دونوں کی شراب نوشی کی وجہ سے پیدا ھوتے ھیں، ۳۱ فیصد ماں کی شراب نوشی کے باعث ھوتے ھیں اور ۱۷ فیصد باپ کے شرابی ھونے کی وجہ سے، پیدائش کے وقت زندگی کی توانائی سے عاری سو بچوں میں ۶ شرابی باپ کی وجہ سے اور ۴۵ فیصد شرابی ماں کی وجہ سے ایسے ھوتے ھیں، شرابی ماں کی وجہ سے ۷۵ فیصد اور شرابی باپ کی وجہ سے ۴۵ فیصد بچے پست قد پیدا ھوتے ھیں۔ شرابی ماؤں کی وجہ سے ۷۵ فیصد اور شرابی باپ کی وجہ سے بھی ۷۵ فیصد بچے کافی عقلی اور روحانی طاقت سے محروم ھوتے ھیں۔
شرابی شخص گھروالوں سے ھمدردی اور اھل و عیال سے کم محبت کرتا ھے بارھا دیکھا گیا ھے کہ شرابی باپ نے اپنی اولاد کو قتل کردیا ۔
شراب کے اجتماعی نقصانات
ایک انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر کے مھیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۶۱ء میں ”نیون“ شھر کے شرابیوں کے اجتماعی جرائم کچھ اس طرح ھیں:
عام قتل : ۵۰ فی صد
مار پیٹ اور زخم وارد کرنے کے جرائم ۷۷۸ فیصد
جنسی جرائم ۸۸۸ فیصد۔
ان اعداد و شمار سے معلوم ھوتا ھے کہ بڑے بڑے جرائم زیادہ ترنشہ کی حالت میں انجام پاتے ھیں۔
نفسیاتی امراض کے ایک ڈاکٹر کا کھنا ھے: ” افسوس کے ساتھ یہ کھنا پڑ رھا ھے کہ حکومتیں شراب کے ٹیکس اور منافع کا حساب تو کرتی ھیں لیکن ان اخراجات کو نظر میں نھیں رکھتی جو شراب کے بُرے اثرات کی روک تھام پر ھوتے ھیں، نفسیاتی بیماریوں کی زیادتی، ایسے بُرے معاشرہ کے نقصانات، قیمتی اوقات کی بربادی، حالت نشہ میں ڈرائیورنگ حادثات، پاک نسلوں کی تباھی، سستی، بے راہ روی، ثقافت و تمدن کی پسماندگی، پولیس کی زحمتیں اور گرفتاری، شرابیوں کی اولاد کے لئے پرورش گاھیں اور ھسپتال، شراب سے متعلقہ جرائم کے لئے عدالتوں کی مصروفیات، شرابیوں کے لئے قید خانے مختصر یہ کہ اگر شراب نوشی سے ھونے والے دیگر نقصانات کو جمع کیا جائے تو حکومتوں کو معلوم ھوگا کہ وہ آمدنی جو شراب سے ھوتی ھے وہ مذکورہ نقصانات کے مقابلہ میں کچھ بھی نھیں ھے۔
ان کے علاوہ شراب نوشی کے افسوسناک نتائج کا موازنہ نہ صرف ڈالروں سے نھیں کیا جاسکتا بلکہ احساسات کی موت، گھروں کی تباھی، آرزوؤں کی بربادی اور صاحبان فکر افراد کی دماغی صلاحیتوں کا نقصان، یہ سب کچھ پیسے کے مقابل نھیں لائے جاسکتے۔
خلاصہ یہ کہ شراب کے نقصانات اتنے زیادہ ھیں کہ ایک دانشور کے بقول اگر حکومتیں یہ ضمانت دیں کہ وہ شراب خانوں کا آدھا دروازہ بند کردیں تو یہ ضمانت دی جاسکتی ھے کہ ھم آدھے ھسپتالوں اور آدھے پاگل خانوں سے بے نیاز ھوجائیں گے۔
اگر شراب کی تجارت میں نوعِ بشر کے لئے کوئی فائدہ ھو یا فرض کریں کہ چند لمحوں کے لئے انسان اس کی وجہ سے اپنے غموں سے بے خبر ھوجاتا ھے تب بھی اس کا نقصان کھیں زیادہ، بہت وسیع ھے کہ اس کے فوائد اور نقصانات کا آپس میں موازنہ نھیں کیا جاسکتا۔[9]
ھم یھاں پر ایک اور نکتہ کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ھیں، یہ نکتہ مختلف اعداد و شمار کا ایک مجموعہ ھے جن میں سے ھر ایک تفصیلی بحث کا محتاج کرتا ھے جس سے شراب کے نقصانات کا اندازہ ھوتا ھے۔
۱۔ برطانیہ میں شرابیوں کے دیوانہ پن کے سلسلہ میں ایک اعداد و شمار کے مطابق اس جنون کا دوسرے جنونوں سے مو ازنہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ۲۲۴۹ دیوانوں میں سے صرف ۵۳ دیوانے دوسری وجوھات کی بنا پر دیوانگی کا شکار ھوئے ھیں، اور باقی سب شراب کی وجہ سے دیوانہ ھوئے ھیں۔[10]
۲۔ امریکہ کے ھسپتالوں کے ایک اعداد و شمار کے مطابق نفسیاتی بیماروں میں ۸۵ فی صد صرف شرابی تھے۔[11]
۳۔ برطانوی دانشور ”بنٹم“ لکھتا ھے: شراب ؛ انسان کے اندر شمالی ممالک میں کم عقلی اور بے وقوفی اور جنوبی ممالک میں اس کے اندر دیوانہ پن پیدا کرتی ھے، اس کے بعد کہتا ھے کہ اسلامی قوانین نے ھر طرح کی شراب کو حرام قرار دیا ھے اور یہ اسلام کا ایک امتیاز ھے۔[12]
۴۔ اگر ان لوگوں کے اعداد و شمار کو جمع کیا جائے جنھوں نے نشہ کی حالت میں خود کشی، ظلم و جنایت،گھروں کی بربادی اور عورتوں کی عصمت دری کی ھے تو واقعاً انسان کے ھوش اڑ جائیں گے۔[13]
۵۔ فرانس میں ھر روز ۴۴۰ لوگ شراب پر اپنی جان قربان کرتے ھیں۔[14]
۶۔ امریکہ کے ھسپتالوں میں نفسیاتی بیماریوں کی وجہ سے ایک سال میں مرنے والوں کی تعداد”دوسری عالمی جنگ“ کے دو برابر ھے، امریکہ میں ڈاکٹروں کے کھنے کے مطابق نفسیاتی بیماریوں میں ”شراب“ اور ”سگریٹ“ بنیادی وجہ ھے۔[15]
۷۔ ”ماھنامہ علوم ابزار“ کی بیسوی سالگرہ کی مناسبت سے”ھوگر“ نامی دانشور کے اعداد و شمار کے مطابق : ۶۰ فی صد عمدی قتل، ۷۵ فی صد مار پیٹ اور زخمی کرنا، ۳۰ فیصد اخلاقی جرائم (منجملہ ماں بھن کے ساتھ زنا!) ۲۰ فی صد چوری شرابی پینے والوں سے متعلق ھیں، اور اسی دانشور کی تحقیق کے مطابق ۴۰ فیصد مجرم بچوں میں شراب کا سابقہ پایا جاتا ھے۔[16]
۸۔اقتصادی لحاظ سے صرف برطانیہ میں شراب پینے والے ملازمین کی غیر حاضری کی وجہ سے ۵۰ ملین ڈالر (225.000.000روپیہ) کا نقصان ھوا ھے، جس رقم سے بچوں کے لئے ہزاروں اسکول اور کالج بنائے جا سکتے ھیں۔[17]
۹۔ فرانس میں ایک اعداد و شمار کے مطابق شراب کی وجہ سے ھونے والے نقصانات کی شرح اس طرح ھے: شراب کی وجہ سے ۱۳۷ ارب فرانک فرانس کے بجٹ میں اضافہ کرنا پڑا:
۶۰ ارب فرانک ، کورٹ اور قید خانوں کا خرچ۔
۴۰ ارب فرانک ، عمومی فا ئد ہ مند امورکے لئے تعاون۔
۱۰ ارب فرانک ، شرابیوں کے ھسپتالوں کا خرچ۔
۷۰ ارب فرانک ، اجتماعی امنیت کے لئے خرچ۔
اس لحاظ سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ رو حا نی بیماروں ، ھسپتالوں، قتل و غارت، لڑائی جھگڑوں، چوری اور ایکسیڈنٹ وغیرہ کی تعداد براہ راست شراب خانوں کی تعداد سے متعلق ھے۔[18]([19])
جیسا کہ ھم قرآن مجید میں پڑھتے ھیں:
<حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اٴُمَّہَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالاَتُکُمْ وَبَنَاتُ الْاٴَخِ وَبَنَاتُ الْاٴُخْتِ وَاٴُمَّہَاتُکُمْ اللاَّتِی اٴَرْضَعْنَکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ مِنْ الرَّضَاعَةِ وَاٴُمَّہَاتُ نِسَائِکُمْ وَرَبَائِبُکُمْ اللاَّتِی فِی حُجُورِکُمْ مِنْ نِسَائِکُمْ اللاَّتِی دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَإِنْ لَمْ تَکُونُوا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَحَلاَئِلُ اٴَبْنَائِکُمْ الَّذِینَ مِنْ اٴَصْلاَبِکُمْ وَاٴَنْ تَجْمَعُوا بَیْنَ الْاٴُخْتَیْنِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللهَ کَانَ غَفُورًا رَحِیمًا>[20]
”تمھارے اوپر تمھاری مائیں، بیٹیاں ،بھنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ھے تمھاری رضاعی (دودھ شریک) بھنیں، تمھاری بیویوں کی مائیں، تمھاری پروردہ عورتیں جو تمھاری آغوش میں ھیں اور ان عورتوں کی اولاد جن سے تم نے دخول کیا ھے، ھاں اگر دخول نھیں کیا ھے تو کوئی حرج نھیں ھے، اور تمھارے فرزندوں کی بیویاں جو فرزند تمھارے صلب سے ھیں اور دو بھنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا سب حرام کردیا گیا ھے، علاوہ اس کے جو اس سے پھلے ھوچکا ھے کہ خدا بہت بخشنے والا اور مھربان ھے“۔
اس آیہٴ شریفہ میں یہ بیان ھوا کہ محرم عورتیں کون کون ھے جن سے شادی کرنا حرام ھے، اور اس لحاظ سے تین طریقوں سے محرمیت پیدا ھوسکتی ھے:
۱۔ ولادت کے ذریعہ، جس کو ”نسبی رشتہ“ کھا جاتا ھے۔
۲۔ شادی بیاہ کے ذریعہ، جس کو ”سببی رشتہ“ کھا جاتا ھے۔
۳۔ دودھ پلانے کے ذریعہ ، جس کو ”رضاعی رشتہ“ کہتے ھیں۔
پھلے نسبی محارم کا ذکر کیا گیا ھے جن کی سات قسمیں ھیں، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:
<حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اٴُمَّہَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالَا تُکُمْ وَبَنَاتُ الْاٴَخِ وَبَنَاتُ الْاٴُخْتِ>
”تمھارے اوپر تمھاری مائیں، بیٹیاں ،بھنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں حرام ھیں“۔
یھاں پر یہ توجہ رھے کہ ماں سے مراد صرف وہ ماں نھیں ھے جس سے انسان پیدا ھوتا ھے، بلکہ دادی ، پردادی، نانی اور پر نانی کو بھی شامل ھے، اسی طرح بیٹیوں سے مراد اپنی بیٹی مراد نھیں ھے بلکہ ، پوتی اور نواسی اور ان کی بیٹیاں بھی شامل ھیں، اسی طرح دوسری پانچ قسموں میں بھی ھے۔
یہ بات یونھی واضح ھے کہ سبھی اس طرح کی شادیوں سے نفرت کرتے ھیں اسی وجہ سے تمام قوم و ملت (کم لوگوں کے علاوہ) محارم سے شادی کو حرام جانتے ھیں، یھاں تک کہ مجوسی جو اپنی کتابوں میں محارم سے شادی کو جائزما نتے تھے، لیکن آج کل وہ بھی انکار کرتے ھیں۔
اگرچہ بعض لوگوں کی کوشش یہ ھے کہ اس موضوع کو ایک پرانی رسم و رواج تصور کریں، لیکن ھم یہ بات جانتے ھیں کہ تمام نوعِ بشر میں قدیم زمانہ سے ایک عام قانون کا پایا جانا اس کے فطری ھونے کی عکاسی کرتا ھے، کیونکہ رسم و رواج ایک عام اور دائمی صورت میں نھیں ھوسکتا۔
اس کے علاوہ آج یہ حقیقت ثابت ھوچکی ھے کہ ھم خون کے ساتھ شادی کرنے میں بہت سے نقصانات پائے جاتے ھیں یعنی پوشیدہ اور موروثی بیماریاں ظاھر اور شدید ھوجاتی ھیں، (نہ یہ کہ خود ان سے بیماری پیدا ھوتی ھے) یھاں تک کہ بعض محارم کے علاوہ دیگر رشتہ داری میںشادی کو اچھا نھیں مانتے جیسے دو بھائیوں کی لڑکی لڑکا شادی کریں، دانشوروں کا ماننا ھے کہ اس طرح کی شادیوں میں ارثی بیماریوں میں شدت پیدا ھوتی ھے[21] لیکن یہ مسئلہ دور کی رشتہ داریوں میں کوئی مشکل پیدا نھیں کرتا (جیسا کہ معمولاً نھیں کرتا) البتہ قریبی رشتہ داری (یعنی ایک خون )میںبہت سی مشکلات پیدا ھوتی ھیں۔
اس کے علاوہ محارم کے درمیان معمولاً جنسی جذابیت اور کشش نھیں پائی جاتی کیونکہ غالباً محارم ایک ساتھ بڑے ھوتے ھیں، اور ایک دوسرے کے لئے عام طریقہ سے ھوتے ھیں، مگر بعض نادر اور استثنائی موارد میں جن کو عام قوانین کا معیار نھیں بنایا جاسکتا، اور یہ بات بھی مسلم ھے کہ جنسی خواھشات شادی بیاہ کے برقرار رھنے کے لئے ضروری ھے، لہٰذا اگر محارم کے ساتھ شادی ھو بھی جائے تو ناپائیدار اور غیر مستحکم ھوگی۔
اس کے بعد رضاعی محارم کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے:
< وَاٴُمَّہَاتُکُمْ اللاَّتِی اٴَرْضَعْنَکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ مِنْ الرَّضَاعَةِ>
”وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ھے، اور تمھاری رضاعی (دودھ شریک) بھنیں تم پر حرام ھیں“۔
اگرچہ آیت کے اس حصہ میں صرف رضاعی ماں اور بھن کی طرف اشارہ ھوا ھے لیکن متعددروایات معتبر کتابوں میں موجود ھيں جن میں بیان ھو ا ھے کہ رضاعی محرم صرف انھیں دو میں منحصر نھیں ھے بلکہ پیغمبر اکرم (ص)کی مشھور و معروف حدیث کے پیش نظر دوسرے افراد میں شامل ھیں، جیسا آنحضرت (ص)نے ارشاد فرمایا: ”یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب“ (یعنی تمام وہ افراد جو نسب کے ذریعہ حرام ھوتے ھیں (رضاعت) دودھ کے ذریعہ بھی حرام ھوجاتے ھیں)
البتہ محرمیت ایجاد ھونے کے لئے کتنی مقدار میں دودھ پلایا جائے اس کی کیفیت کیا ھونی چاہئے اس کی تفصیل کے لئے فقھی کتابوں (یاتوضیح المسائل وغیرہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
رضاعی محارم کی حرمت کا فلسفہ یہ ھے کہ دودھ کے ذریعہ انسان کے گوشت اور ہڈیاں مضبوط ھوتی ھيں لہٰذا اگر کوئی عورت کسی بچہ کو دودھ پلاتی ھے تووہ اس کی اولاد جیسی ھوجاتی ھے، مثال کے طور پر اگر کوئی عورت کسی بچہ کو ایک مخصوص مقدار میں دودھ پلائے تو اس دودھ سے اس بچہ کے بدن میں رشد و نمو ھوتا ھے جس سے اس بچہ اور اس عورت کے بچوں میں شباہت پیدا ھوتی ھے، در اصل دونوں اس عورت کے بدن کا ایک حصہ شمار ھوں گے جس طرح دو نسبی بھائی۔
اس کے بعد قرآن مجید نے محارم کی تیسری قسم کی طرف اشارہ کیا ھے اور اس کو چند عنوان کے تحت بیان کیا ھے:
۱۔ وَ اٴمِّہَاتُ نِسَائِکُمْ: ”تمھاری بیویوں کی مائیں“ یعنی جب انسان کسی عورت سے نکاح کرتا ھے اور صیغہ عقد جاری کرتا ھے تو اس عورت کی ماں اور اس کی ماں کی ماں۔۔۔ اس پر ھمیشہ کے لئے حرام ھوجاتی ھیں۔
۲۔ <وَرَبَائِبُکُمْ اللاَّتِی فِی حُجُورِکُمْ مِنْ نِسَائِکُمْ اللاَّتِی دَخَلْتُمْ بِہِنَّ>
”تمھاری پروردہ لڑکیاں جو تمھاری آغوش میں ھیں یعنی تمھاری ان بیویوں کی اولاد جن سے تم نے دخول کیا ھے، وہ تم پر حرام ھیں“ گویا اگرکسی عورت سے صرف نکاح کیا ھے اور اس کے ساتھ ھمبستری نھیں کی اور اس عورت کی پھلے شوھر سے کوئی لڑکی ھو تو وہ حرام نھیں ھوگی،مگر اس بیوی سے ھمبستری کی ھو تو اس صورت میں وہ لڑکی بھی حرام ھوجائے گی، یھاں اس قید کا ھونا اس بات کی تائید کرتا ھے کہ ساس (خوش دامن)کے سلسلہ میں یہ شرط نھیں ھے (کیونکہ خوشدامن اس صورت میں حرام ھوتی ھے کہ جب بیوی کے ساتھ ھمبستری کی ھو) لہٰذا وھاں حکم مطلق ھے یعنی چاھے اپنی بیوی سے ھمبستری کی ھو یا نہ کی ھو ھر صورت میں ساس حرام ھے۔
اگرچہ ”فِی حُجُورِکُمْ“ کی ظاھری قید (یعنی تمھارے گھر میں ھو) سے یہ سمجھ میں آتا ھے کہ اگر بیوی کے پھلے شوھر سے لڑکی ھو ، اور وہ تمھارے گھر میں پرورش نہ پائے تو وہ اس صورت میں حرام نھیں ھے، لیکن دوسری روایات کے قرینہ اور اس حکم کے قطعی ھونے کی بنا پر یہ ”قید احترازی“ نھیں ھے ، ( یعنی یہ قید موضوع کو محرز اور معین کرنے کے لئے نھیں ھے) بلکہ اس سے حرمت کی طرف اشارہ ھے کیونکہ اس جیسی لڑکیوں کی عمر کم ھوتی ھے جن کی مائیں دوبارہ شادی کرتی ھیں اور وہ معمولاً سوتیلے باپ کی گھر میں اس کی لڑکیوں کی طرح پرورش پاتی ھیں، آیہٴ شریفہ کہتی ھے کہ در اصل یہ تمھاری بیٹیوں کی طرح ھیں، کیا کوئی اپنی بیٹی سے شادی کرتا ھے؟! چنانچہ اسی وجہ سے انھیں ”ربیبہ“ کھا گیا ھے جس کے معنی پرورش پانے والی ھے۔
اس حصہ میں اس کی مزید تاکید ھوتی ھے کہ اگر اس زوجہ سے ھمبستری نہ کی ھو تو ان کی لڑکیاں تم پر حرام نھیں ھيں،
<فَإِنْ لَمْ تَکُونُوا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ >
۳۔ <وَحَلاَئِلُ[22] اٴَبْنَائِکُمْ الَّذِینَ مِنْ اٴَصْلاَبِکُمْ >”اور تمھارے فرزندوں کی بیویاں جو فرزند تمھارے صلب سے ھیں “
در اصل ”مِنْ اٴَصْلاَبِکُمْ “ (تمھارے صلب سے ھو نے ) کی قید دور ِجاھلیت کی ایک غلط رسم کو ختم کرنے کے لئے ھے کیونکہ اس زمانہ میں رائج تھا کہ بعض افراد کو اپنا بیٹا بنا لیتے تھے، یعنی اگر کوئی کسی دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنالے تو اس پر حقیقی بیٹے کے تمام احکام نافذ کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے منھ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح نھیں کرتے تھے، لیکن اسلام نے منھ بولے بیٹے کو بیٹا قرار نھیں دیا اور اس غلط رسم و رواج کو بے بنیاد قرار دیدیا۔
۴۔ <وَاٴَنْ تَجْمَعُوا بَیْنَ الْاٴُخْتَیْنِ > ”اور تمھارے لئے دو بھنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا حرام کردیا گیا ھے“، یعنی ایک وقت میں دو بھنوں کا رکھنا جائز نھیں ھے، لیکن اگر دو بھنوں سے مختلف زمانہ میں اور پھلی بھن کی جدائی کے بعد نکاح کیا جائے تو کوئی حرج نھیں ھے۔
کیونکہ دور جاھلیت میں دو بھنوں کو ایک ساتھ رکھنے کا رواج تھا اور چونکہ بعض لوگ ایسا کئے ھوئے تھے لہٰذا قرآن مجید میں اضافہ کیا گیا: <إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ>”علاوہ اس کے جو اس سے پھلے ھوچکا ھے “ ، یعنی یہ حکم (دوسرے احکام کی طرح) گزشتہ پر عطف نھیں کیا جائے گا اور جن لوگوں نے اس حکم کے نازل ھونے سے پھلے ایسا کیا ھے ان کو کوئی سزا نھیں دی جائے گی اگرچہ اب ان دونوں میں سے ایک بیوی کا انتخاب کرے اور دوسری کو آزاد کردے۔
اور شاید اس طرح کی شادی سے روکنے کا راز یہ ھو کہ دو بھنیں نسبی لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت زیادہ محبت اور تعلق رکھتی ھیں، لیکن جس وقت ایک دوسرے کی رقیب ھوجائیں تو پھر اس گزشتہ رابطہ کو محفوظ نھیں رکھ سکتیں، اس طرح ان کی ”محبت میں تضاد“ پیدا ھوجائے گا جو ان کی زندگی کے لئے نقصان دہ ھے، کیونکہ ”محبت“ اور ”رقابت“ میں ھمیشہ کشمکش اور مقابلہ پایا جاتا ھے۔[23]
[1] یہ قاعدہ علم اصول میں ثابت ھے کہ اگر کسی کام کی حرمت پر کوئی دلیل نہ ھو تو اصل برائت جاری کی جائے گی یعنی وہ کام جائز ھے۔ (مترجم)
[2] تفسیر روح المعانی ، جلد ۲۱، صفحہ ۶۰۔
[3] تاثیر موسیقی بر روان و اعصاب، صفحہ ۲۶۔
[4] تفسیر نمونہ ، جلد ۱۷ صفحہ ۲۲۔
[5] مجمع البیان ، جلد ۶، صفحہ ۴۱۴۔
[6] تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۰۳۔
[7] وسائل الشیعہ ، جلد ۱۴، صفحہ ۲۵۲۔
[8] تفسیر نمونہ ، جلد ۹، صفحہ ۱۹۴۔
[9] تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۷۴۔
[10] کتاب سمپوزیوم الکل ، صفحہ ۶۵۔
[11] کتاب سمپوزیوم الکل، صفحہ ۶۵۔
[12] تفسیر طنطاوی ، جلد اول، صفحہ ۱۶۵۔
[13] دائرة المعارف ،فرید وجدی ، جلد ۳، صفحہ ۷۹۰۔
[14] بلاھای اجتماعی قرن ما، صفحہ ۲۰۵۔
[15] مجمو عہ انتشارات جوان۔
[16] کتاب سمپوزیوم الکل، صفحہ ۶۶۔
[17] مجموعہ انتشارات نسل جوان ، سال دوم صفحہ ۳۳۰۔
[18] نشریہ مر کز مطالعہ پیشرفتھای ایران (دربارہ الکل و قمار)
[19] تفسیر نمونہ ، جلد ۵، صفحہ ۷۴۔
[20] سورہٴ نساء آیت۲۳۔
[21] البتہ اسلام نے چچا زاد بھائی بھن میں شادی کو حرام قرار نھیں دیا ھے، کیونکہ ان کی شادی محارم سے شادی کی طرح نھیں ھے، اور اس طرح کی شادیوں میں خطرہ کم پایا جاتا ھے، اور ھم نے اس طرح کی بہت سی شادی دیکھی ھیں جن کے بچے صحیح و سالم ھیں اور استعداد و صلاحیت کے لحاظ سے بھی کوئی مشکل نھیں ھے۔
[22] ”حلائل “جمع” حلیلہ“مادہ ”حل“سے ھے اور اس سے وہ عورت مراد ھے جو انسان پر حلال ھے ،یا مادہ” حلول “ سے ھے جس سے مراد وہ عورت ھے جو ایک انسان کے پاس ایک ساتھ زندگی گزارتی ھو اور اس سے جنسی تعلقات رکھتی ھو۔
[23] تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۳۲۶۔