قرآنی سوالات کا مجموعہ(3)

خواتین کے حقوق

1۔ اسلام خواتین کے لئے کن حقوق کا قائل ھے؟

ظھور اسلام اور اس کی مخصوص تعلیمات کے ساتھ عورت کی زندگی ایک نئے مرحلہ میں داخل ھوئی جوپھلے مراحل سے بہت مختلف تھی، یہ وہ دور تھا جس میں عورت مستقل اور تمام انفرادی، اجتماعی اور انسانی حقوق سے فیض یاب ھوئی، عورت کے سلسلہ میں اسلام کی بنیادی تعلیمات وھی ھیں جن کا ذکر قرآنی آیات میں ھوا ھے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ھوتا ھے: <لَہُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوف>[1] ” عورتوں کے لئے ویسے ھی حقوق بھی ھیں جیسی ذمہ داریاں ھیں“۔

اسلام عورت کو مرد کی طرح کامل انسانی روح ،ارادہ اور اختیار کا حامل سمجھتا ھے اور اسے سیرِ تکامل اور ارتقا کے عالم میں دیکھتا ھے جو  مقصد خلقت ھے، اسی لئے اسلام دونوں کو ایک ھی صف میں قرار دیتا ھے اور دونوں کو ”یا ایھا الناس“ اور ”یا ایھا الذین آمنوا“ کے ذریعہ مخاطب کرتا ھے، اسلام نے دونوں کے لئے تربیتی، اخلاقی اور عملی پروگرام لازمی قرار دئے ھیں، ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

<وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ اٴَوْ اٴُنْثَی وَهو مُؤْمِنٌ فَاٴُوْلَئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ>[2]

”اور جو نیک عمل کرے گا چاھے وہ مرد ھو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان بھی ھو اسے جنت میں داخل کیا جائے گا“۔

ایسی سعادتیں دونوں صنف حاصل کرسکتی ھیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

< مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ اٴَوْ اٴُنثَی وَهو مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاةً طَیِّبَةً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اٴَجْرَہُمْ بِاٴَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ>[3]

”جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ھو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ھو ھم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انھیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رھے تھے“۔

مذ کورہ آیات اس بات کو واضح کردیتی ھیں کہ مرد ھو یا عورت اسلامی قوانین و اعمال پر عمل کرتے ھوئے معنوی اور مادی کمال کی منزلوں پر فائز ھوسکتے ھیں اور ایک طیب و طاھر زندگی میں قدم رکھ سکتے ھیں جو آرام و سکون کی منزل ھے۔

اسلام عورت کو مرد کی طرح مکمل طور پر آزاد سمجھتا ھے ، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

<کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَةٌ >[4]

”ھر نفس اپنے اعمال کا رھین ھے“۔

یا ایک دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے:

<مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہِ وَمَنْ اٴَسَاءَ فَعَلَیْہَا>[5]

”جو بھی نیک عمل کرے گا وہ اپنے لئے کرے گا اور جو بُرا کرے گا اس کا ذمہ دار بھی وہ خود ھی ھوگا“۔

اسی طرح یہ آیت بھی مرد اور عورت دونوں کے لئے ھیں، اسی لئے سزا کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

<الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِاٴةَ جَلْدَةٍ>[6]

”زنا کار عورت اور زنا کار مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگائے جا ئیں“۔

اس کے علاوہ دیگر آیات میں بھی ایک جیسے گناہ پردونوں کے لئے ایک جیسی سزا کا حکم سنایا گیا ھے۔

ارادہ و اختیار سے استقلال پیدا ھوتا ھے، اور اسلام یھی استقلال اقتصادی حقوق میں بھی نافذ کرتا ھے، اسلام بغیر کسی رکاوٹ کے عورت کو اس بات کی اجازت دیتا ھے کہ وہ ھر قسم کے مالی معاملات انجام دے اور عورت کو اس سرمایہ کا مالک شمار کرتا ھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

<ٍ لِلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِمَّا اکْتَسَبْنَ>[7]

”مردوں کے لئے وہ حصہ ھے جو انھوں نے کمایا ھے اور عورتوں کے لئے وہ حصہ ھے جو انھوں نے کمایا ھے“۔

لغت میں ”اکتساب“ کے معنی کسب اور حاصل کرنے کے ھیں،[8] اسی طرح ایک دو سرا قانون کلی ھے:

”النَّاسُ مُسَلِّطُونَ عَلَی اٴمْوَالِھِمْ“ یعنی تمام لوگ اپنے مال پر مسلط ھیں۔

 اس قانون کے پیش نظر یہ معلوم ھوتا ھے کہ اسلام عورت کے اقتصادی استقلال کا احترام کرتا ھے اور عورت مرد میں کسی فرق کا قائل نھیں ھے۔

خلاصہ یہ کہ اسلام کی نظر میں عورت؛ معاشرہ کا ایک بنیادی رکن ھے اسے ایک بے ارادہ، محکوم ، سر پرست کا محتاج سمجھنا خیال خام ھے۔

مساوات کے معنی میں غلط فھمی نہ ھو:

اسلام نے مساوات کی طرف خاص توجہ دی ھے اور ھمیں بھی متوجہ ھونا چاہئے لیکن خیال رھے کہ بعض لوگ بے سوچے سمجھے جذبات میں آکر افراط و تفریط کا شکار ھوجاتے ھیں اور مرد و عورت کے روحانی و جسمانی فرق اور ان کی ذمہ داریوں کے اختلاف تک سے انکار کر بیٹھتے ھیں۔

ھم جس چیز کا چاھیں انکار کریں تاھم اس حقیقت کا انکار نھیں کرسکتے کہ دو صنفوں میں جسمانی اور روحانی طور پر بہت فرق ھے، مختلف کتابوں میں اس کی تفصیلات موجود ھیں ،یھاں اس کی تکرار کی ضرورت نھیں، خلاصہ یہ کہ عورت وجودِ انسانی کی پیدائش کا ظرف ھے، نونھالوں کا رشد اسی کے دامن میں ھوتا ھے، جیسے وہ جسمانی طور پر آنے والی نسلوں کی پیدائش ،تربیت اور پرورش کے لئے پیدا کی گئی ھے اسی طرح روحانی طور پر بھی اسے عواطف ،احساسات اور جذبات کا زیادہ حصہ دیا گیا ھے ۔

ان وسیع اختلافات کے باوجود کیا یہ کھا جا سکتا ھے کہ مرد عورت کو تمام حالات میں ھم قدم ھونا چاہئے اور تمام کاموں میں سو فیصد مساوی ھونا چاہئے ؟!

کیا عدالت اور مساوات کے حامیوں کو معاشرے کے تقاضوں کے حوالے سے بات کرنا چاہئے ؟کیا یہ عدالت نھیں ھے کہ ھر شخص اپنی ذمہ داری پوری کرے اوراپنے وجود کی نعمتوں اور خوبیوں سے فیض یاب ھو؟اس لئے کیا عورت کا ایسے کاموں میں دخل اندازی کرنا جو اس کی روح اورجسم سے مناسبت نھیں رکھتے، خلاف ِعدالت نھیں ھے!

یھی وہ مقام ھے جھاں ھم دیکھتے ھیں کہ اسلام جو عدالت کا طرفدار ھے کئی ایک اجتماعی کاموں میں سختی یا زیادہ دقتِ نظروالے کاموںمثلاً گھر کے معاملات کی سر پرستی وغیرہ میںمرد کو مقدم رکھتا ھے اور معاونت وکمک کا مقام عورت کے سپرد کر دیتا ھے ۔

ایک گھر اور ایک معاشرے کومنتظم ھونے کی ضرورت ھو تی ھے اور نظم و ضبط کا آخری مرحلہ ایک ھی شخص کے ذریعہ انجام پانا چاہئے ورنہ کشمکش اور بے نظمی پیدا ھوگی۔

اگر تمام تعصبات سے بے نیاز ھو کر غور کیا جائے تو یہ واضح ھو جا ئے گا کہ مرد کی ساخت کے پیش نظر ضروری ھے کہ گھر کی سر پرستی اس کے ذمہ کی جائے اور عورت اس کی معاون ھو، اگر چہ کچھ لوگ ان حقائق سے چشم پوشی اختیار کرنے پرمُصر ھیں۔

آج کی دنیا میں بھی بلکہ ان اقوام میں بھی جو عورتوں کو مکمل آزادی ومساوات دینے کا دعویٰ کرتے ھیں،خارجی حالات زندگی اس بات کی نشاندھی کرتے ھیں کہ عملی طور پر وھی بات ھے جوھم بیان کر چکے ھیں اگر چہ باتیں اس کے برخلاف بناتے ھیں۔[9]

عورت اور مرد کے معنوی اقدار

قرآن مجید نے مرد و عورت کو بارگاہ خداوندی اور معنوی مقامات کے لحاظ سے برابر شمار کیا ھے، اور جنس و جسمانی اختلاف ، نیزاجتماعی ذمہ داریوں کے اختلاف کو ترقی و کمال کی منزل حاصل کرنے کے لئے دلیل شمار نھیں کیا ھے بلکہ اس لحاظ سے دونوں کو بالکل برابر قرار دیا ھے، اسی وجہ سے دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا ھے، قرآن مجید کی بہت سی آیات اس وقت نازل ھوئی ھیں جس زمانہ میں متعدد اقوام و ملل عورت کو انسان سمجھنے میں شک کرتی تھیں اور اس کو نفرت و ذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا نیز عورت کو گناہ ، انحراف اور موت کا سر چشمہ سمجھا جاتا تھا!!

بہت سی گزشتہ اقوام تو یھاں تک مانتی تھی کہخداوندعالم کی بارگاہ میں عورت کی عبادت قبول نھیں ھے، بہت سے یونانی عورت کے وجود کو پست و ذلیل اور شیطانی عمل جانتے تھے، رومیوں اور بعض یونانیوں کایہ بھی عقیدہ تھا کہ عورت میں انسان کی روح نھیں ھوتی بلکہ انسانی روح صرف اور صرف مرد میں ھوتی ھے۔

قابل توجہ بات یہ ھے کہ انھیں آخری صدیوں میں اسپین کے عیسائی علمااس سلسلہ میں بحث و گفتگو کرتے تھے کہ کیا عورت؛ مرد کی طرح انسانی روح رکھتی ھے یا نھیں یا مرنے کے بعد اس کی روح جاویداں ھوجاتی ھے یا نھیں؟ اور بحث و گفتگو کے بعد اس نتیجہ پر پھنچے : چونکہ عورت کی روح؛ انسان و حیوان کے درمیان برزخ ھے (یعنی ایک حصہ انسانی روح ھے تو ایک حصہ حیوانی روح) لہٰذا اس کی روح جاویدانی نھیں ھے سوائے جناب مریم کے۔[10]

یھاں سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ یہ تھمتیں جیسا کہ اسلام کو صحیح طور پر نہ سمجھنے والے افراد اعتراض کردیتے ھیں کہ اسلام تو صرف مردوں کا دین ھے ، عورتوں کا نھیں، واقعاً یہ بات کس قدر بیھودہ ھے، اصولی طور پر اگر عورت مرد کے جسمی اور عاطفی اور اجتماعی ذمہ داری کے فرق کے پیش نظر اسلامی قوانین پر غور و فکر کیا جائے تو عورت کی اھمیت اور عظمت پر ذرا بھی حرف نھیں آئے گا، اور اس لحاظ سے عورت مرد میں ذرا بھی فرق نھیں پایا جاتا، سعادت و خوشبختی کے دروازے دونوں کے لئے کھلے ھیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے: <بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ۔۔۔> (سب ایک جنس اور ایک معاشرہ سے تعلق رکھتے ھیں)[11]

 

2۔ پردہ کا فلسفہ کیا ھے؟

بے شک عصر حاضر میں جس کو بعض لوگوں نے عریانی اور جنسی آزادی کا زمانہ قرار دیا ھے، اور مغرب نواز لوگوں نے اس کو عورتوں کی آزادی کا ایک حصہ قرار دیا ھے، لہٰذا ایسے لوگ پردہ کی باتوں کو سن کر منہ بناتے ھیں اور پردہ کو گزشتہ زمانہ کا ایک افسانہ شمار کرتے ھیں۔

        لیکن اس آزادی اور بے راہ روی سے جس قدر فسادات اور برائیاں بڑھتی جارھی ھیں اتنا ھی پردہ کی باتوں پر توجہ کی جارھی ھے۔

البتہ اسلامی اور مذھبی معاشرہ میں خصوصاً ایرانی انقلاب کے بعد بہت سے مسائل حل ھوچکے ھیں اور بہت سے سوالات کا اطمینان بخش جواب دیا جا چکا ھے، لیکن چونکہ یہ مسئلہ بہت اھم ھے لہٰذا اس مسئلہ پر مزید بحث و گفتگو کی ضرورت ھے۔

مسئلہ یہ ھے کہ (بہت ھی معذرت کے ساتھ)کیا عورتوں سے (ھمبستری کے علاوہ) سننے ، دیکھنے اور لمس کرنے کی دوسری لذتیں تمام مردوں کے لئے ھيں یا صرف ان کے شوھروں سے مخصوص ھيں؟!

بحث اس میں ھے کہ عورتیں اپنے جسم کے مختلف اعضا کی نمائش کے ایک بے انتھا مقابلہ میں جوانوں کی شھوتوں کو بھڑکائیںاور آلودہ مردوں کی ھوس کا شکار بنیں یا یہ مسائل شوھروں سے متعلق ھيں؟!

اسلام اس دوسری قسم کا طرف دار ھے ، اور حجاب کو اسی لئے قرار دیا ھے، حالانکہ مغربی ممالک اور مغرب نواز لوگ پھلے نظریہ کے قائل ھیں۔

اسلام کہتا ھے کہ جنسی لذت اور دیکھنے ، سننے اور چھونے کی لذت شوھر سے مخصوص ھے اس کے علاوہ دوسرے کے لئے گناہ، آلودگی اور معاشرہ کے لئے ناپاکی کا سبب ھے۔

فلسفہ حجاب کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز نھیں ھے، کیونکہ:

۱۔ بے پردہ عورتیں معمولاً بناؤ سنگار اور دیگر زرق و برق کے ذریعہ جوانوں کے جذبات کو ابھارتی ھیں جس سے ان کے احساسات بھڑک اٹھتے ھیں اور بعض اوقات نفسیاتی امراض پیدا ھوجاتے ھیں،انسان کے احساسات کتنے ھیجان آور وزن کو برداشت کرسکتے ھيں؟ کیا نفسیاتی ڈاکٹر یہ نھیں کہتے کہھمیشہ انسان میں ھیجان سے بیماریاں پیدا ھوتی ھیں۔

خصوصاً جب یہ بھی معلوم ھو کہ جنسی غریزہ انسان کی سب سے بنیادی فطرت ھوتی ھے جس کی بنا پر تاریخ میں ایسے متعددخطر ناک حوادث اور واقعات ملتے ھیں جس کی بنیاد یھی چیز تھی،یھاں تک بعض لوگوں کا کھنا ھے: ”کوئی بھی اھم واقعہ نھیں ھوگا مگر یہ کہ اس میں عورت کا ھاتھ ضرور ھوگا“!

ھمیشہ بازاروںاور گلی کوچوں میں عریاں پھر کر احساس کو بھڑکانا؛ کیا آگ سے کھیلنا نھیں ھے؟ اور کیا یہ کام عقلمندی ھے؟!

اسلام تو یہ چاہتا ھے کہ مسلمان مرد اور عورت چین و سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں اور ان کی آنکھیں اور کان غلط کاموں سے محفوظ رھیں اور اس لحاظ سے مطمئن طور پر زندگی بسر کریں، پردہ کا ایک فلسفہ یہ بھی ھے۔

۲۔ مستند اور قطعی رپورٹ اس چیزکی گواھی دیتی ھیں کہ دنیا بھر میں جب سے بے پردگی بڑھی ھے اسی وقت سے طلاقوں میں بھی روز بروز اضافہ ھوتا جارھا ھے، کیونکہ ”ھر چہ دیدہ بیند دل کند یاد“  انسان جس کا عاشق ھوجاتا ھے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ھے لہٰذا انسان ھر روز ایک دلبرکو تلاش کرتا ھے تو دوسرے کو الوداع کہتا ھوا نظر آتا ھے۔

جس معاشرہ میں پردہ پایا جاتا ھے (اور اسلامی دیگر شرائط کی رعایت کی جاتی ھے) اس میں یہ رشتہ صرف میاں بیوی میں ھوتا ھے ان کے احساسات، عشق اور محبت ایک دوسرے کے لئے مخصوص ھوتے ھیں۔

لیکن ”اس آزادی کے بازار“ میں جبکہ عورتیں ؛ عملی طور پر ایک سامان کی حیثیت رکھتی ھیں (کم از کم جنسی ملاپ کے علاوہ) تو پھر ان کے لئے میاں بیوی کا عھد و پیمان کوئی مفھوم نھیں رکھتا، اور بہت سی شادیاں مکڑی کے جالے کی طرح بہت جلد ھی جدائی کی صورت اختیار کرلیتی ھیں، اور بچے بے سر پرست ھوجاتے ھیں۔

۳۔ فحاشی کا اس قدر عام ھوجانا اور نا جائز اولادیں پیدا ھونا؛ بے پردگی کے نتیجہ کا ایک معمولی سا درد ھے، جس کے بارے میں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نھیں ھے، یہ مسئلہ خصوصاً مغربی ممالک میں اس قدر واضح ھے جس کے بارے میں بیان کرناسورج کو چرا غ دکھاناھے، سبھی لوگ اس طرح کی چیزوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ سے سنتے رہتے ھیں۔

ھم یہ نھیں کہتے کہ فحاشی اور نا جائز بچوں کی پیدائش کی اصل وجہ یھی بے حجابی ھے،ھم یہ نھیں کہتے کہ مغربی ماحول اور غلط سیاسی مسائل اس میں موثر نھیں ھے، بلکہ ھمارا کھنا تو یہ ھے کہ عریانی اور بے پردگی اس کے موثر عوامل اور اسباب میں سے ایک ھے۔

فحاشی اور ناجائز اولاد کی پیداوار کی وجہ سے معاشرہ میں ظلم و ستم اور خون خرابہ میں اضافہ ھوا ھے، جس کے پیش نظر اس خطرناک مسئلہ کے پھلو واضح ھوجاتے ھیں۔

جس وقت ھم سنتے ھیں کہ ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں ھر سال پانچ لاکھ بچے ناجائز طریقے سے پیدا ھوتے ھیں، اور جب ھم سنتے ھیں کہ انگلینڈ کے بہت سے دانشوروں نے حکومتی عھدہ داروں کو یہ چیلنج دیا ھے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رھا تو ملک کی امنیت کو خطرہ ھے، (انھوں نے اخلاقی اور مذھبی مسائل کی بنیاد پر یہ چیلنج نھیں کیا ھے) بلکہ صرف اس وجہ سے کہ حرام زادے بچے معاشرہ کے امن و امان کے لئے خطرہ بنے ھوئے ھیں، کیونکہ جب ھمیں معلوم ھوتا ھے کہ عدالت کے مقدموں میں اس طرح کے افراد کا نام پایا جاتا ھے، تو واقعاً اس مسئلہ کی اھمیت کا اندازہ ھوتا ھے کہ جو لوگ دین و مذھب کو بھی نھیں مانتے ،اس برائی کے پھیلنے سے وہ بھی پریشان ھیں، لہٰذامعاشرہ میں جنسی فساد کو مزید پھیلانے والی چیزمعاشرہ کی امنیت کے لئے خطرہ شمار ھوتی ھے اور اس کے خطر ناک نتائج ھر طرح سے معاشرہ کے لئے نقصان دہ ھيں۔

تربیتی دانشوروں کی تحقیق بھی اسی بات کی عکاسی کرتی ھے کہ جن کالجوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ھیں یا جن اداروں میں مرد اور عورت ایک ساتھ کام کرتے ھیں اور ان کو ھر طرح کی آزادی ھے تو ایسے کالجوں میں پڑھائی کم ھوتی ھے اور اداروں میں کام کم ھوتا ھے اور ذمہ داری کا احساس بھی کم پایا جاتا ھے۔

۴۔ بے پردگی اور عریانی عورت کی عظمت کے زوال کا بھی باعث ھے، اگر معاشرہ عورت کو عریاں بدن دیکھنا چاھے گا تو فطری بات ھے کہ ھر روز اس کی آرائش کا تقاضا بڑھتا جائے گا اور اس کی نمائش میں اضافہ ھوتا جائے گا، جب عورت جنسی کشش کی بنا پر ساز و سامان کی تشھیر کا ذریعہ بن جائے گی ، انتظار گاھوںمیں دل لگی کا سامان ھوگی اور سیّاحوں کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گی تو معاشرہ میں اس کی حیثیت کھلونے یا بے قیمت مال و اسباب کی طرح گرجائے گی، اور اس کے شایانِ شان انسانی اقدار فراموش ھوجائیں گے، اور اس کا افتخار صرف اس کی جوانی، خوبصورتی اور نمائش تک محدود ھوکر رہ جائے گا۔

اس طرح سے وہ چند ناپاک فریب کار انسان نما درندوں کی سر کش ھواو ھوس پوری کرنے کے آلہٴ کار میں بدل جائے گی!۔

ایسے معاشرہ میں ایک عورت اپنی اخلاقی خصوصیات، علم و آگھی اور بصیرت کے جلووں کو کیسے پورا کرسکتی ھے اور کوئی بلند مقام کیسے حاصل کرسکتی ھے؟!

واقعاً یہ بات کتنی تکلیف دِہ ھے کہ مغربی اور مغرب زدہ ممالک میں عورت کا مقام کس قدر گرچکا ھے خود ھمارے ملک ایران میں انقلاب سے پھلے یہ حالت تھی کہ نام، شھرت، دولت اور حیثیت ان چند ناپاک اور بے لگام عورتوں کے لئے تھی جو ”فنکار“ اور آرٹسٹ کے نام سے مشھور تھیں، جھاں وہ قدم رکھتی تھیں اُس گندے ماحول کے ذمہ دار اُن کے لئے آنکھیں بچھاتے تھے اور انھیں خوش آمدید کہتے تھے۔

اللہ کا شکر ھے کہ ایران میں وہ سب گندگی ختم کردی گئی اور عورت اپنے اس دور سے نکل آئی ھے جس میں اسے رُسوا کردیا گیا تھا، اور وہ ثقافتی کھلونے اور بے قیمت ساز و سامان بن کر رہ گئی تھی، اب اس نے اپنا مقام و وقار دوبارہ حاصل کرلیا ھے اور اپنے کو پردہ سے ڈھانپ لیا ھے لیکن ایسا نھیں ھے کہ وہ گوشہ نشین ھوگئی ھو، بلکہ معاشرہ کے تمام مفید اور اصلاحی کاموں میں یھاں تک کہ میدان جنگ میں اسی اسلامی پردے کے ساتھ بڑی بڑی خدمات انجام دے رھی ھیں۔

حجاب کے مخالفین کے اعتراضات

(قارئین کرام!)  ھم یھاں پر حجاب کے مخالفین کے اعتراضات کو بیان کرتے ھیں اور مختصر طور پر ان کے جوابات بھی پیش کرتے ھیں:

۱۔ حجاب کے مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہ ھے کہ معاشرہ میں تقریباً نصف عورتیں ھوتی ھیں لیکن حجاب کی وجہ سے یہ عظیم جمعیت گوشہ نشین اور طبعی طور پر پسماندہ ھوجائے گی ، خصوصاً جب انسان کو کاروبار کی ضرورت ھوتی ھے اور انسانی کار کردگی کی ضرورت ھوتی ھے، تو اگر عورتیں پردہ میں رھیں گی تو اقتصادی کاموں میں ان سے فائدہ نھیں اٹھایا جاسکتا، نیز ثقافتی اور اجتماعی اداروں میں ان کی جگہ خالی رھے گی! اس طرح وہ معاشرہ میں صرف خرچ کریں گی اور معاشرہ کے لئے بوجھ بن کر رہ جائےں گی۔

لیکن جن لوگوں نے یہ اعتراض کیا ھے وہ چند چیزوں سے غافل ھیں یا انھوںنے اپنے کو غافل بنا لیا ھے، کیونکہ:

اولاً : یہ کون کہتا ھے کہ اسلامی پردہ کی وجہ سے عورتیں گوشہ نشین اور معاشرہ سے دور ھوجائیں گی؟ اگر گزشتہ زمانہ میں اس طرح کی دلیل لانے میں زحمت تھی تو آج اسلامی انقلاب (ایران) نے ثابت کر دکھایا ھے کہ عورتیں اسلامی پردہ میں رہ کر بھی معاشرہ کے لئے بہت سے کام انجام دے سکتی ھيں، کیونکہ ھم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ھے کہ خواتین ؛اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ھوئے معاشرہ میں ھر جگہ حاضر ھيں، اداروں میں، کار خانوں میں، سیاسی مظاھروں میں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں، ھسپتالوں میں، کلینکوں میں، خصوصاً جنگ کے دوران جنگی زخمیوں کی مرھم پٹی اور ان کی نگھداشت کے لئے، مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں، دشمن کے مقابلہ میں میدان جنگ میں، خلاصہ ھر مقام پر عورتوں نے اپنا کردار ادا کیا ھے۔

مختصر یہ کہ موجودہ حالات خوداس اعتراض کا دندان شکن جواب ھيں، اگرچہ ھم گزشتہ زمانہ میں ان جوابات کے لئے ”امکان“ کی باتیں کرتے تھے (یعنی عورتیں پردہ میں رہ کر کیا اجتماعی امور کو انجام دے سکتی ھیں) لیکن آج کل یہ دیکھ رھے ھیں، اور فلاسفہ کا کھنا ھے کہ کسی چیز کے امکان کی دلیل خود اس چیز کا واقع ھونا ھے، یہ بات خود آشکار ھے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نھیں ھے۔

ثانیاً: اگر ان چیزوں سے قطع نظر کریں تو کیا عورتوں کے لئے گھر میں رہ کر بچوں کی تربیت کرنا اور ان کو آئندہ کے لئے بہترین انسان بنانا تاکہ معاشرہ کے لئے بہترین اور مفید واقع ھوں، کیا یہ ایک بہتر ین اور مفید کام نھیں ھے؟

جو لوگ عورتوں کی اس ذمہ داری کو مثبت اور مفید کام نھیں سمجھتے، تو پھر وہ لوگ تعلیم و تربیت، صحیح و سالم اور پر رونق معاشرہ کی اھمیت سے بے خبر ھیں، ان لوگوں کا گمان ھے کہ مردو عورت مغربی ممالک کی طرح اداروں اور کارخانوں میں کام کرنے کے لئے نکل پڑیں اور اپنے بچوں کو شیر خوار گاھوں میں چھوڑ دیں، یا کمرہ میں بند کرکے تالا لگا دیا جائے اور ان کو اسی زمانہ سے قید کی سختی کا مزا چکھادیں۔

وہ لوگ اس چیز سے غافل ھیں کہ اس طرح بچوں کی شخصیت اور اھمیت درھم و برھم ھوجاتی ھے، بچوں میں انسانی محبت پیدا نھیں ھوتی،جس سے معاشرہ کو خطرہ در پیش ھوگا۔

 ۲۔ پردہ کے مخالفین کا دوسرا اعتراض یہ ھے کہ پردہ کے لئے برقع یا چادر کے ساتھ اجتماعی کاموں کو انجام نھیں دیا جاسکتا خصوصاً آج جبکہ ماڈرن گاڑیوں کا دور ھے، ایک پردہ دار عورت اپنے کو سنبھالے یا اپنی چادر کو ، یا اپنے بچہ کو یا اپنے کام میں مشغول رھے؟!۔

لیکن یہ اعتراض کرنے والے اس بات سے غافل ھیں کہ حجاب ھمیشہ برقع یاچادر کے معنی میں نھیں ھے بلکہ حجاب کے معنی عورت کا لباس ھے اگر چادر سے پردہ ھوسکتا ھو تو بہتر ھے ورنہ اگر امکان نھیں ھے تو صرف اسی لباس پر اکتفا کرے (یعنی صرف اسکاف کے ذریعہ اپنے سر کے بال اور گردن وغیرہ کو چھپائے رکھیں)

ھمارے دیھی علاقوں کی عورتوں نے زراعتی کاموں میں اپنا پردہ با قی رکھتے ھو ئے یہ ثابت کردکھایا ھے کہ ایک بستی کی رھنے والی عورت اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ھوئے بہت سے اھم کام بلکہ مردوں سے بہتر کام کرسکتی ھیں، اور ان کا حجاب ان کے کام میں رکاوٹ نھیں بنتا۔

۳۔ ان کا ایک اعتراض یہ ھے کہ پردہ کی وجہ سے مرد اور عورت میں ایک طرح سے فاصلہ ھوجاتا ھے جس سے مردوں میں دیکھنے کی طمع بھڑکتی ھے، اور ان کے جذبات مزید شعلہ ور ھوتے ھیں کیونکہ ”الإنسَانُ حَرِیصٌ عَلٰی مَا مُنِعَ“!( جس چیز سے انسان کو روکا جاتا ھے اس کی طرف مزید دوڑتا ھے)

اس اعتراض کا جواب یا صحیح الفاظ میں یہ کھا جائے کہ اس مغالطہ کا جواب یہ ھے کہ آج کے معاشرہ کا شاہ کے زمانہ سے موازنہ کیا جائے آج ھر ادارہ میں پردہ حکم فرما ھے، اور شاہ کے زمانہ میں عورتوں کو پردہ کرنے سے روکا جاتا تھا۔

اس زمانہ میں ھر گلی کوچہ میں فحاشی کے اڈے تھے، گھروں میں بہت ھی عجیب و غر یب ماحول پایا جاتا تھا، طلاق کی کثرت تھی ناجائز اولاد کی تعداد زیادہ تھی، وغیرہ وغیرہ۔

ھم یہ نھیں کہتے کہ اب یہ تمام چیزیں بالکل ختم ھوگئی ھیں لیکن بے شک اس میں بہت کمی واقع ھوئی ھے، ھمارے معاشرہ میں بہت سدھار آیا ھے اور اگر فضل خدا شامل حال رھا اور یھی حالات باقی رھے اور دوسری مشکلات بر طرف ھو گئی تو ھمارا معاشرہ اس برائی سے بالکل پاک ھوجائے گا اور عورت کی اھمیت اجاگر ھوتی جائے گی۔[12]

3۔ میراث میں مرد کا حصہ عورت کے دو برابر کیوں ھے؟

اگرچہ میراث میں مرد کا حصہ عورت کے دو برابر ھے ، لیکن اگر غور و فکر کریں تو معلوم ھوگا کہ عورتوں کا حصہ مردوں کے دو برابر ھے! اور یہ اس وجہ سے ھے کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کی حمایت کی ھے۔

وضاحت:  اسلام نے مرد کے کاندھوں پر ایسی ذمہ داری رکھی ھے جس سے اس کی در آمد کا آدھا حصہ عورتوں پر خرچ ھوتا ھے، جبکہ عورتوں کے ذمہ کوئی خرچ نھیں ھے،چنا نچہ ایک شوھر پر واجب ھے کہ اپنی زوجہ کو ؛ مکان، لباس، کھانا اور دوسری چیزوں کا خرچ ادا کرے، اور اپنے بچوں کا خرچ بھی اسی کی گردن پر ھے، جبکہ عورتوں پر کسی طرح کا کوئی خرچ نھیں ھے یھاں تک کہ اپنا ذاتی خرچ بھی اس کے ذمہ نھیں ھے، لہٰذا ایک عورت میراث سے اپنا پورا حصہ بچا کر بینک میں رکھ سکتی ھے، جبکہ مرد اپنے حصہ کو بیوی بچوں پر خرچ کرتا ھے، جس کا نتیجہ یہ ھوگا کہ مرد کی آمدنی کا آدھا حصہ اھل و عیال پر خرچ ھوگا، اور آدھا اس کے لئے باقی رھے گا، جبکہ عورت کا حصہ اسی طرح محفوظ رھے گا۔

یہ مسئلہ وا ضح ھو نے کے لئے اس مثال پر توجہ کریں: فرض کریں کہ پوری دنیا کا مال و دولت ۳۰  ارب روپیہ ھے، جو میراث کے عنوان سے مردووں اور عورتوںمیں تقسیم ھونا ھے، تو اس میں ۲۰ ارب مردوں کا اور ۱۰ ارب عورتوں کا حصہ ھوگا، لیکن عورتیں عام طور پر شادی کرتی ھیں اور ان کی زندگی کا خرچ مردوں کے ذمہ ھوتا ھے، تو اس صورت میں عورتیں اپنے ۱۰ ارب کو بینک میں جمع کر سکتی ھیں، اور عملی طور پر مردوں کے حصہ میں شریک ھوتی ھیں، کیونکہ خود ان پر اور بچوں پر بھی مرد ھی کا حصہ خرچ ھوگا۔ اس بنا پر حقیقت میں مردوں کا آدھا حصہ یعنی ۱۰ ارب عورتوں پر خرچ ھوگا، اور وہ دس ارب جو ان کے پاس محفوظ ھے سب ملاکر ۲۰ ارب (یعنی دو تھائی) عو رتوں کے اختیار میں ھوگا، جبکہ عملی طور پر مردوں کے خرچ کے لئے صرف دس ارب ھی باقی رھے گا۔

نتیجہ یہ ھوا کہ عورتوں کا حقیقی خرچ اور فائدہ کے لحاظ سے مردوں کے دو برابر ھے، اور یہ فرق اس وجہ سے ھے کہ ان کے یھاں کاروبار کرنے کی قدرت کم پائی جاتی ھے، اور یہ ایک طرح سے منطقی اور عادلانہ حمایت ھے جس پر اسلام نے عورتوں کے لئے توجہ دی ھے، حقیقت میں ان کا حصہ زیادہ رکھا ھے، اگرچہ ظاھری طور پر ان کا حصہ مردوں سے آدھا رکھا ھے۔

 اسلامی روایات کے پیش نظر یہ معلوم ھوتا ھے کہ مذکورہ سوال پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ سے لوگوں کے ذھن میں موجود تھا جس کی بنا پر دینی رھبروں سے یہ سوال ھوتا رھا ھے، اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی طرف سے اس کا جواب دیا گیا ھے جن میں سے اکثر کا مضمون ایک ھی ھے، اور وہ جواب یہ ھے: ”خداوندعالم نے زندگی کا خرچ اور مھر مرد کے ذمہ رکھا ھے، اسی وجہ سے ان کا حصہ زیادہ قرار دیا ھے“۔

کتاب ”معانی الاخبار“ میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ھے کہ اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: ”میراث میں عورتوں کا حصہ مردوں کے حصہ سے آدھا اس وجہ سے رکھا گیا ھے کہ عورت جب شادی کرتی ھے تو وہ مھر لیتی ھے اور مرد دیتا ھے، اس کے علاوہ بیوی کا خرچ شوھر پر ھے، جبکہ عورت خود اپنی اور شوھر کی زندگی کے خرچ کے سلسلہ میں کوئی ذمہ داری نھیں رکھتی“۔[13]

4۔ فلسفہ متعہ کیا ھے؟

یہ ایک عام اور کلی قانون ھے کہ اگر انسان کی طبیعی خواھشات صحیح طریقہ سے پوری نہ ھوں تو پھر اس کو پورا کرنے کے لئے غلط راستہ اپنانا پڑتا ھے، کیونکہ اس حقیقت کا انکار نھیں کیا جاسکتا کہ طبیعی خواھشات کا گلا نھیں گھوٹا جاسکتا ، اور اگر بالفرض ایسا کربھی لیا جائے تو ایسا کام عقلی نھیں ھے، کیونکہ یہ کام ایک طرح سے قانونِ خلقت سے جنگ ھے۔

اس بنا پر صحیح راستہ یہ ھے کہ اس کو معقول طریقہ سے پورا کیا جائے اور اس سے زندگی بہتربنانے کے لئے فائدہ اٹھایا جائے۔

اس بات کا بھی انکار نھیں کیا جاسکتا کہ جنسی خواھش انسان کی بہت بڑی خواھش ھوتی ھے، یھاں تک کہ بعض ماھرین کا کھنا ھے کہ جنسی خواھش ھی انسان کی اصل خواھش ھوتی ھے اور باقی دوسری خواھشات کی بازگشت اسی طرف ھوتی ھیں۔

اب یھاں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ بہت سے مواقع ایسے ھیں جن میں انسان خاص عمر میں شادی نھیں کرسکتا، یا شادی شدہ انسان طولانی سفر میں یہ جنسی خواھش پوری نھیں کرسکتا۔

یہ موضوع خصوصاً ھمارے زمانہ میں تعلیم کی مدت طولانی ھونے کے سبب اور بعض دیگرمسائل اور مشکلات کی بنا پر شادی دیر سے ھوتی ھے، اور بہت ھی کم نوجوان ایسے ھیں جو جوانی کے شروع اور اس خواھش کے شباب کے وقت شادی کرسکتے ھیں، لہٰذا یہ مسئلہ بہت مشکل بن گیا ھے۔

  اس موقع پر کیا کیا جائے؟ کیاایسے مواقع پر لوگوں کی اس خواھش کا (راھبوںکی طرح) گلا گھوٹ دیا جائے ؟ یا یہ کہ ان کو جنسی آزادی دے دی جائے اور عصر حاضر کی شرمناک حالت کو ان کے لئے جائز سمجھ لیا جائے؟

یاایک تیسرا راستہ اپنایا جائے جس میں نہ شادی جیسی مشکلات ھوں اور نہ ھی جنسی آزادی؟

المختصر: ”دائمی ازدواج“ (شادی) نہ گزشتہ زمانہ میں تمام لوگوں کی اس خواھش کا جواب بن سکتی تھی اور نہ آج، اور ھم ایک ایسے مقام پر کھڑے ھیں جھاں سے دو راستے نکلتے ھیں، یا ”فحاشی“ کو جائز مان لیں، (جیسا کہ مغربی ممالک میں آج کل رسمی طور پر صحیح مانا جارھا ھے) یا ”وقتی ازواج“ (یعنی متعہ)کوقبول کریں، معلوم نھیں ھے جو لوگ متعہ کے مخالف ھیں انھوں نے اس سوال کے لئے کیا جواب سوچ رکھا ھے؟!

متعہ کا مسئلہ نہ تو شادی جیسی مشکلات رکھتا ھے کہ انسان کو اقتصادی یا تعلیمی مسائل اجازت نھیں دیتے کہ فوراً شادی کرلے اور نہ ھی اس میںفحاشی کے درد ناک حادثات پیش آتے ھیں۔

متعہ پر ھونے والے اعتراضات

ھم یھاں متعہ کے سلسلہ میں کئے گئے کچھ اعتراضات کا مختصر جواب پیش کرتے ھیں:

۱۔ کبھی تو یہ کھا جاتا ھے کہ ”متعہ“ اور ”فحاشی“ میں کیا فرق ھے؟ دونوں ایک خاص مَبلَغ کے عوض”جسم فروشی“ ھی توھيں، در اصل یہ تو فحاشی اور جنس بازی کے لئے ایک نقاب ھے ، صرف ان دونوں میں چند صیغوں کا فرق ھے!!۔

جواب:  ان لو گوںکے اعتراض سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ یہ لوگ متعہ کے سلسلہ میں معلومات نھیں رکھتے، کیونکہ متعہ صرف دو جملہ کھنے سے تمام نھیں ھوتابلکہ بعض قوانین، شادی کی طرح ھوتے ھیں، یعنی ایسی عورت متعہ کی مدت میں صرف اسی مرد سے مخصوص ھے، اور مدت تمام ھونے کے بعد عدہ رکھنا ضروری ھے یعنی کم سے کم ۴۵ دن تک کسی دوسرے سے شادی یا متعہ نھیں کرسکتی، تاکہ اگر پھلے شوھر سے حاملہ ھوگئی ھے توواضح ھوجائے، یھاں تک کہ اگر مانعِ حمل چیزیںاستعمال کی ھوں تو اس مدت کی رعایت کرنا واجب ھے، اور اگر اس مرد سے حاملہ ھوگئی ھے تو یہ بچہ اس مرد کا ھوگا اور اولاد کے تمام مسائل اس پر نافذ ھوں گے، جبکہ فحاشی میں اس طرح کی کوئی قید و شرط نھیں ھے، پس معلوم یہ ھوا کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ھے۔

اگرچہ (میاں بیوی کے درمیان) میراث ، خرچ اور دوسرے احکام میں شادی اور متعہ میں فرق پایا جاتا ھے، [14]لیکن اس فرق کی وجہ سے متعہ کو فحاشی کی صف میں قرار نھیں دیا جاسکتا، بھر حال یہ بھی شادی کی ایک قسم ھے اور شادی کے متعدد قوانین اس پر نافذ ھوتے ھیں۔

۲۔ متعہ پر دوسرا اعتراض یہ ھوتا ھے کہ اس قانون کے پیچھے بہت سے عیاش لوگ غلط فائدہ اٹھا سکتے ھیں، اور متعہ کی آڑ میں ھر طرح کی فحاشی کرسکتے ھیں، جبکہ اس کی اجازت نہ ھونے کی صورت میں بعض شریف انسان متعہ سے دور رہتے ھیں، اور شریف خواتین اس سے پرھیز کرتی ھیں۔

        جواب:  دنیا میں کس قانون سے غلط فائدہ نھیں اٹھایا جارھا ھے؟ کیا ھر فطری قانون کو اس لئے ختم کردیا جائے کہ اس سے غلط فائدہ اٹھایا جارھا ھے! ھمیں غلط فائدہ اٹھانے والوں کو روکنا چاہئے۔

مثال کے طور پر اگر بہت سے لوگ حج کے موقع سے غلط فائدہ اٹھانا چاھیں (جیسا کہ دیکھا گیا ھے) اور اس مبارک سفر میں منشیات کی تجارت کے لئے جائیں، تو کیا اس صورت میں لوگوں کو حج سے روکا جائے یا غلط فائدہ اٹھانے والوں کو روکا جائے؟!

اور اگر ھم دیکھتے ھیں کہ آج شریف انسان اس اسلامی قانون سے پرھیز کرتے ھیں، تو یہ قانون کا نقص نھیں ھے بلکہ قانون پر عمل کرنے والوں یا غلط فائدہ اٹھانے والوں کا نقص ھے، اگر آج ھمارے معاشرہ میں صحیح طریقہ پر متعہ کا رواج ھوجائے اور اسلامی حکومت خاص قوانین کے تحت اس سلسلہ میںصحیح منصوبہ بندی کرے ، تو اس صورت میں غلط فائدہ اٹھانے والوں کی روک تھام ھوسکتی ھے (اور ضرورت کے وقت ) شریف لوگ بھی اس سے کراہت نھیں کریں گے۔

۳۔ اعتراض کرنے والے کہتے ھیں: متعہ کی وجہ سے معاشرہ میں (ناجائز بچوں کی طرح) بے سرپرست بچوں کی تعداد میں اضافہ ھوجائے گا۔

جواب:  ھماری مذکورہ گفتگو مکمل طور پر اس اعتراض کا جواب ھے، کیونکہ ناجائز بچے قانونی لحاظ سے نہ باپ سے ملحق ھیں اور نہ ماں سے، جبکہ متعہ کے ذریعہ پیدا ھونے والے بچوں میں میراث اور اجتماعی حقوق کے لحاظ سے شادی سے پیدا ھونے والے بچوں سے کوئی فرق نھیں ھے، گویا اس حقیقت پر توجہ نہ کرنے کی وجہ سے مذکورہ اعتراض کیا گیا ھے۔

”راسل“ اور ”وقتی شادی“

آخر کلام میں مناسب معلوم ھوتا ھے کہ اس بات کی یاد دھانی کرادی جائے کہ مشھور و معروف انگریزی دانشور ”برٹرانڈ راسل “ کتاب ”زنا شوئی و اخلاق“ میں ”آزمائشی شادی“ کے عنوان سے اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ھے۔

 وہ ایک جج بنام ” بن بی لینڈسی“ کی تجویز ”دوستانہ شادی“ یا ”آزمائشی شادی“ کا ذکر کرنے کے بعد کہتا ھے:

جج صاحب موصوف کی تجویز کے مطابق جوانوں کو یہ اختیار ملنا چاہئے کہ ایک نئی قسم کی شادی کرسکیں جو عام شادی (دائمی نکاح) سے تین امور میں مختلف ھو:

الف: طرفین کا مقصد صاحب اولاد ھونا نہ ھو، اس سلسلہ میں ضروری ھے کہ انھیں حمل روکنے کے طریقہ سکھائے جائیں۔

ب۔ ان کی جدائی آسانی کے ساتھ ھوسکے۔

ج۔ طلاق کے بعد عورت کسی قسم کا نان و نفقہ کا حق نہ رکھتی ھو۔

راسل جج لینڈسی کا مقصد بیان کرنے کے بعد کہتا ھے: ”میرا خیال ھے کہ اس قسم کی شادی کو قانونی حیثیت دے دی جائے تو بہت سے نوجوان خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم وقتی نکاح پر تیار ھوجائیں گے اور وقتی مشترک زندگی میں قدم رکھیں گے، ایسی زندگی سے جو ان کی آزادی کا سبب بنے، تو اس طرح معاشرہ کی بہت سی خرابیوں، لڑائی جھگڑوں خصوصاً جنسی بے راہ روی سے نجات مل جائے گی۔[15]

بھر حال جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ وقتی شادی کے بارے میں مذکورہ تجویز کس لحاظ سے اسلامی حکم کی طرح ھے، لیکن جو شرائط اور خصوصیات اسلام نے وقتی شادی کے لئے تجویز کی ھیں وہ کئی لحاظ سے زیادہ واضح اور مکمل ھیں، اسلامی وقتی شادی میں اولاد نہ ھونے کو ممنوع نھیں کیا گیا ھے اور فریقین کا ایک دوسرے سے جدا ھونا بھی آسان ھے، جدائی کے بعد نان و نفقہ بھی نھیں ھے۔[16]

متعہ کی تاریخی حیثیت

علمائے اسلام کا اتفاق ھے بلکہ دین کے ضروری احکام میں سے ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں ”متعہ“ تھا، (اور سورہ نساء کی آیہٴ شریفہ <فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ اٴُجُورَہُنَّ فَرِیضَة>[17]  متعہ کے جواز پر دلیل ھے ، کیونکہ مخالف اس بات پر عقیدہ رکھتے ھیں کہ متعہ کا جواز سنت پیغمبر سے ثابت ھے) یھاں تک صدر اسلام میں مسلمان اس پر عمل کیا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت عمر کا یہ مشھور و معروف قول مختلف کتابوں میں ملتا ھے :

 ”مُتْعَتَانِ کَانَتَا عَلَی عَھْدِ رَسُولِ الله وَاٴنَا اُحرِّمُھُمَا وَ مُعَاقِب عَلَیْھِمَا: مُتعَةُ النِّسَاءِ وَ مُتْعَةُ الحجِّ“[18]

”دو متعہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں رائج تھے اور میں ان کو حرام قرار دیتا ھوں، اورانجام دینے والوں کو سزا دوں گا، متعة النساء اور حج تمتع (جو حج کی ایک خاص قسم ھے)، چنانچہ حضرت عمر کا یہ قول اس بات کی واضح دلیل ھے کہ متعہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں ھوتا تھا، لیکن اس حکم کے مخالف کہتے ھیں کہ یہ حکم بعد میں نسخ ھوگیا ھے اور حرام قرار دیا گیا ھے۔

لیکن قابل توجہ بات یہ ھے کہ جن روایات کو ”حکم متعہ کے نسخ“ کے لئے دلیل قرار دیا جاتا ھے ان میں بہت اختلا ف پایا جا تا ھے، چنانچہ بعض روایات کہتی ھیں کہ خود پیغمبر اکرم (ص)نے اس حکم کو نسخ کیا ھے، لہٰذا اس حکم کی ناسخ خود پیغمبر اکرم (ص)کی سنت اور حدیث ھے، بعض کہتی ھیں کہ اس حکم کی ناسخ سورہ طلاق کی درج ذیل آیت ھے:

< إِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاٴَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللهَ رَبَّکُمْ۔۔۔>[19]

”جب تم لو گ عورتوں کو طلاق دو تو انھیں عدت کے حساب سے طلاق دو اور پھر عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے ڈرتے رھو“۔

 حالانکہ اس آیہٴ شریفہ کا محل بحث سے کوئی تعلق نھیں ھے، کیونکہ اس آیت میں طلاق کی گفتگو ھے، جبکہ متعہ میں طلاق نھیں ھوتی متعہ میں مدت ختم ھونے سے جدائی ھوجاتی ھے۔

یہ بات مسلم ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں متعہ قطعی طور پر پایا جاتا تھا، اور اس کے نسخ ھونے پر کوئی محکم دلیل ھمارے پاس نھیں ھے، لہٰذا علم اصول کے قانون کے مطابق اس حکم کے باقی رھنے پر حکم کیا جائے گا، (جسے علم اصول کی اصطلاح میں استصحاب کھا جاتا ھے)۔

حضرت عمر سے منقول جملہ بھی اس حقیقت پر واضح دلیل ھے کہ متعہ کا حکم پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں نسخ نھیں ھوا تھا۔

اور یہ بات بھی واضح ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے علاوہ کوئی بھی شخص احکام کو نسخ کرنے کا حق نھیں رکھتا، اور صرف آنحضرت (ص)کی ذات مبارک ھی حکم خدا کے ذریعہ بعض احکام کو نسخ کرسکتی ھے، پیغمبر اکرم (ص)کی وفات کے بعد باب نسخ بالکل بند ھوچکا ھے ، اور اگر کوئی اپنے اجتھاد کے ذریعہ بعض احکام کو منسوخ کرے تو پھر اس دائمی شریعت میں کوئی چیز باقی نھیں رھے گی ، اور اصولی طور پر پیغمبر اکرم (ص)کی گفتگو کے مقابل اجتھاد کرے تو یہ ”اجتھاد مقابلِ نص“ ھوگا جس کا کوئی اعتبار نھیں ھے۔

مزے کی بات تو یہ ھے کہ صحیح ترمذی جو اھل سنت کی مشھور صحیح ترین کتابوں میں سے ھے،اور”دار قطنی“[20]میں تحریر ھے: ”ایک شامی شخص نے عبد اللہ بن عمر سے”حج تمتع“ کے بارے میں سوال کیا توعبد اللہ بن عمر نے کھا: یہ کام جائز اور بہتر ھے ، اس شامی نے کھا: تمھارے باپ نے اس کو ممنوع قراردیا ھے، تو عبداللہ بن عمر بہت ناراض ھوئے اور کھا: اگر میرا باپ کسی کام سے نھی کرے، جبکہ پیغمبر اکرم (ص)نے اس کی اجازت دی ھو تو کیا تم لوگ سنت پیغمبر کو چھوڑ کر میرے باپ کی پیروی کروگے؟ یھاں سے چلے جاؤ۔[21]

متعہ کے سلسلہ میں اسی طرح کی روایت”عبد اللہ بن عمر “ سے صحیح ترمذی میں بھی نقل ھوئی ھے، [22]

اور ”محاضرات“ راغب سے نقل ھوا ھے کہ ایک مسلمان نے متعہ کیا تو لوگوں نے سوال کیا کہ اس کام کے جوازکا حکم کس سے حاصل کیا ھے؟ تو اس نے کھا: ”عمر“ سے! لوگوں نے تعجب کے ساتھ سوال کیا: یہ کیسے ممکن ھوسکتا ھے جبکہ خود عمر نے اس کام سے روکا ھے یھاں تک کہ انجام دینے والے کے لئے سزا کا وعدہ کیا ھے؟ تو اس نے کھا: ٹھیک ھے، میں بھی تو اسی وجہ سے کہتا ھوں، کیونکہ عمر نے کھا: پیغمبر اکرم  (ص)نے اس کو حلال کیا تھالیکن میں اس کو حرام کرتا ھوں، میں نے اس کا جواز پیغمبر اکرم (ص)سے لیا، لیکن اس کی حرمت کسی سے قبول نھیں کروں گا![23]

یھاں پر اس بات کی یاد دھانی ضروری ھے کہ اس حکم کے منسوخ ھونے کا دعویٰ کرنے والے بھی متضاد بیانات رکھتے ھیں اور تناقض اور تضاد گوئی کے شکار نظر آتے ھیں:

اھل سنت کی معتبر کتابوں میں متعدد روایات اس بات کی وضاحت کرتی ھیں کہ یہ حکم پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں ھرگز منسوخ نھیں ھوا تھا، بلکہ عمر نے اس کو ممنو ع قرار دیاھے، لہٰذا اس حکم کو   منسوخ ماننے والی ان تمام روایات کا جواب دیں، ان روایات کی تعداد ۲۴ ھے، جن کو علامہ امینی علیہ الرحمہ نے اپنی نامور کتاب ”الغدیر“ کی چھٹی جلد میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ھے،ھم یھاں پر ان میں سے دو نمونے پیش کرتے ھیں:

۱۔ صحیح مسلم میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل ھوا ھے کہ انھوں نے کھا: ھم پیغمبر اکرم  کے زمانہ میں بہت آسانی سے متعہ کرلیتے تھے، اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رھا یھاں تک کہ عمر نے ”عمر بن حریث“ کے مسئلہ میں اس کام سے بالکل روک دیا۔[24]

۲۔ دوسری حدیث کتاب ”موطاٴ بن مالک“، ”سنن کبریٰ بیہقی“  اور ”عروہ بن زبیر“ سے نقل ھوئی ھے کہ ”خولہ بن حکیم“ نامی عورت حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں دربار میں حاضر ھوئی اور اس نے خبر دی کہ مسلمانوں میں ایک شخص ”ربیعہ بن امیہ“ نامی نے متعہ کیا ھے، تو یہ سن کر حضرت عمر نے کھا: اگر پھلے سے اس کام کی نھی کی ھوتی تو اس کو سنگسار کردیتا ،(لیکن آج سے اس کام پر پابندی لگاتا ھوں!)[25]

کتاب بدایة المجتھد، تالیف ابن رشد اندلسی میں بھی تحریر ھے کہ جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ھیں: ”پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں اور ”ابوبکر“ کی خلافت اور”عمر“ کی آدھی خلافت تک متعہ پر عمل ھو تا تھا اس کے بعد عمر نے منع کردیا“۔[26]

دوسری مشکل یہ ھے کہ اس حکم کے منسوخ ھونے کی حکایت کرنے والی روایات میں ضد ونقیض باتیں  ھیں، بعض کہتی ھیں: یہ حکم جنگ خیبر میں منسوخ ھوا ھے، بعض کہتی ھیں کہ ”روز فتح مکہ“ منسوخ ھوا اور بعض کہتی ھیں جنگ تبوک میں، نیز بعض کہتی ھیں کہ جنگ اوطاس میں منسوخ ھوا، لہٰذا ان تمام چیزوں سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ یہ تمام روایات جعلی ھیں جن میں اس قدر تناقض اور ٹکراؤ پایا جاتا ھے۔

(قارئین کرام!)  ھماری گفتگو سے یہ بات روشن ھوجاتی ھے کہ صاحب تفسیر المنار (دور حاضر کے سنی عالم ) کی گفتگو تعصب اور ہٹ دھرمی پر مبنی ھے، جیسا کہ موصوف کہتے ھیں: ”ھم نے پھلے تفسیر المنارکی تیسری اور چوتھی جلد میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ عمر نے متعہ سے منع کیا ھے لیکن بعد میں ایسی روایات ملی ھیں جن سے معلوم ھوتا ھے کہ متعہ کا حکم خود پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں منسوخ ھوگیا تھا نہ کہ زمانہ عمر میں منسوخ ھوا، لہٰذا اپنی گزشتہ بات کی اصلاح کرتے ھیں اور اس سے استغفار کرتے ھیں“۔[27] یہ تعصب نھیں تو اور کیا ھے؟! کیونکہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں متعہ کا حکم منسوخ ھونے کی حکایت کرنے والی ضد و نقیض روایات کے مقابل ایسی روایات موجود ھیں جو اس بات کی حکایت کرتی ھیں کہ یہ حکم حضرت عمر کے زمانہ میں بھی تھا، لہٰذا نہ تو معافی کی گنجائش ھے اور نہ توبہ و استغفار کی ، اور جیسا کہ ھم نے پھلے بھی عرض کیا کہ اس معاصر کا پھلا نظریہ حقیقت ھے اور دوسرے نظریہ میں حقیقت کو چھپانے کی ناکام کوشش کی ھے!

یہ بات یونھی ظاھر ھے کہ نہ تو ”عمر“ اور نہ کوئی دوسرا شخص یھاں تک ائمہ معصومین علیھم السلام جو کہ پیغمبر اکرم (ص)کے حقیقی جانشین ھیں، کسی کو یہ حق نھیں ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں موجود احکام کو منسوخ کرے، اور اصولی طور پر آنحضرت (ص)کی وفات کے بعد اور وحی کا سلسلہ بند ھونے کے بعد نسخ معنی نھیں رکھتا، اور جیسا کہ بعض لوگوں نے ”کلامِ عمر“ کو اجتھاد پر حمل کیا ھے کہ یہ حضرت عمر کا اجتھاد ھے، یہ بھی تعجب کا مقام ھے کیونکہ ”نص“ کے مقابلہ میں ”اجتھاد“ ممکن ھی نھیں۔[28]

5۔ عدّہ کا فلسفہ کیا ھے؟

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوا :

< وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاٴَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ>[29]

 ”مطلقہ عورتیں تین حیض تک انتظار کر یں گی، (اور عدہ رکھیں گی)“۔

یھاں پر سوال یہ ھوتا ھے کہ اس اسلامی قانون کا فلسفہ کیا ھے؟

چونکہ طلاق کے ذریعہ معمولاً گھر اجڑنے لگتا ھے اور معاشرہ کا ناقابل تلافی نقصان ھوتا ھے، اسی وجہ سے اسلام نے ایسا قانون پیش کیا ھے تاکہ آخری منزل تک طلاق سے روک تھام ھو سکے، ایک طرف تو ”اس کوجائز کاموں میں سب سے زیادہ قابل نفرت“ قرار دیا گیا ھے اور دوسری طرف شادی بیاہ کے مسائل میں اختلاف کی صورت میں طرفین میں صلح و مصالحت کے اسباب فراھم کرنے کی کوشش کی ھے تاکہ حتی ا اس کام سے روک تھام ھو سکے۔

انھی قوانین میں سے طلاق میں تاخیر اور خود طلاق کو متزلزل کرنا ھے یعنی طلاق کے بعد عدہ کو واجب کیا ھے جس کی مدت تین ”طھر“ یعنی عورت کا تین مرتبہ خون حیض سے پاک ھونا۔

”عدّہ“ یا صلح و مصالحت اور واپس پلٹنے کا وسیلہ

کبھی کبھی بعض وجوھات کی بنا پر انسان میں ایسی حالت پیدا ھوجاتی ھے کہ ایک چھوٹے سے اختلاف یا معمولی تنازع سے انتقام کی آگ بھڑک جاتی ھے اورعقل وجدان پر غالب آجاتی ھے۔

 معمولاً گھریلو اختلاف اسی وجہ سے پیش آتے ھیں، لیکن اس کشمکش کے کچھ ھی بعد میاں بیوی ھوش میں آتے ھیں اور پشیمان ھوجاتے ھیں، خصوصاً جب یہ دیکھتے ھیں کہ ان کے بچے پریشان ھیں تو مختلف پریشانیاں لاحق ھوتی ھیں۔اس موقع پر مذکورہ آیت کہتی ھے: عورتیں ایک مدت عدّہ رکھیں تاکہ اس مدت میں غصہ کی جلد ختم ھوجانے والی لھریں گزر جائیں اور ان کی زندگی میں دشمنی کے سیاہ بادل چھٹ جائیں۔

خصوصاً اسلام نے اس عدّہ کی مدت میں عورت کو حکم دیا ھے کہ گھر سے باھر نہ نکلے، جس کے پیش نظر اس عورت کوغور فکر کا مو قع ملتا ھے  جو میاں بیوی میں تعلقات بہتر ھونے کے لئے ایک موثر قدم ھے۔لہٰذا سورہ طلاق کی پھلی آیت میں پڑھتے ھیں:

 < لَا تُخْرِجُوہُنَّ مِنْ بُیُوتِہِن ۔۔۔ لَا تَدْرِی لَعَلَّ اللهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ اٴَمْرًا>

 ”ان کو گھروں سے نہ نکالو ۔۔۔ تم کیا جانو شاید خداوندعالم کوئی ایسا راستہ نکال دے کہ جس سے آپس میں صلح و مصالحت ھوجائے“۔ اکثر اوقات طلاق سے پھلے کے خوشگوار لحظات ، محبت اور پیار کے گزرے ھوئے لمحات کو یاد کرلینا کافی ھوجاتا ھے اور پھیکی پڑجانے والی محبت میں نمک پڑ جاتا ھے۔

عدّہ؛ نسل کی حفاظت کا وسیلہ

عدّہ کا دوسرا فلسفہ یہ ھے کہ عدہ کے ذریعہ یہ معلوم ھوجاتا ھے کہ طلاق شدہ عورت حاملہ ھے یا نھیں؟ یہ صحیح ھے کہ ایک دفعہ حیض دیکھنا حاملہ نہ ھونے کی دلیل نھیں ھے، لیکن بسا اوقات دیکھا گیا ھے کہ عورت حاملہ ھونے کی صورت میں بھی شروع کے چند ماہ تک حیض دیکھتی ھے، لہٰذا اس موضوع کی مکمل رعایت کا حکم دیا گیا ھے کہ عورت تین دفعہ تک حیض دیکھے اور پاک ھوجائے، تاکہ یہ یقین ھوجائے کہ اپنے گزشتہ شوھر سے حاملہ نھیں ھے، پھر اس کے بعد دوبارہ نکاح کرسکتی ھے۔[30]


[1] سورہ بقرہ ،آیت۲۲۸۔ 

[2] سور ہ ٴغافر(مومن)، آیت ۴۰۔

[3] سورہٴ نحل ، آیت ۹۷۔

[4] سورہ مدثر ، آیت ۳۸۔

[5] سورہ فصلت ، آیت ۴۶۔

[6] سورہ نور ، آیت نمبر ۲۔

[7] سورہ نساء ، آیت ۳۲۔

[8] دیکھئے مفردات راغب اصفھانی ،البتہ یہ نکتہ اس وقت ھے جب ”کسب“ اور ”اکتساب“ایک ساتھ استعمال ھو ۔

[9] تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۱۱۳۔

[10] ”و  سٹر مارک“ ، عذر تقصیر بہ پیشگاہ محمد  (ص)، اور ”حقوق زن در اسلام“ اور اس سلسلہ میں دوسری کتابیں دیکھٴے۔

[11] تفسیر نمونہ ، جلد  ۳، صفحہ ۲۲۳۔

[12] تفسیر نمونہ ، جلد ۱۴، صفحہ ۴۴۲۔

[13] تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۲۹۰۔

[14] اسلام کا یہ مسئلہ ھے کہ متعہ سے پیدا ھونے والے بچوں کے احکام شادی سے پیدا ھونے والے بچوں کی طرح ھیں، ان میں کوئی فرق نھیں پایا جاتا۔

[15] کتا ب زنا شوئی و اخلاق صفحہ ۱۸۹و ۱۹۰۔

[16] تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۳۴۱۔

[17] سورہٴ نساء ، آیت ۲۴۔ ”جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت بطور فریضہ دے دے“۔

[18] کنز العرفان ، جلد دوم، صفحہ ۱۵۸، اور تفسیر قرطبی ، تفسیر طبری میں مذکورہ جملہ کے مانند تحریر نقل ھوئی ھے، نیز سنن بیہقی ، جلد ۷ کتاب نکاح میں بھی وہ جملہ ذکر ھوا ھے۔

[19] سورہ طلاق ، پھلی آیت ۔

[20] تفسیر قرطبی ، جلد ۲ ، صفحہ ۷۶۲ ، سورہٴ بقرہ، آیت ۱۹۵ کے ذیل میں۔

[21] ”متعہ ٴ حج“ سے مراد جس کو عمر نے حرام قرار دیا تھا یہ ھے کہ اس حج تمتع سے قطع نظر کی جائے ، حج تمتع یہ ھے کہ انسان حج کے لئے جاتا ھے تو پھلے محرم ھوتا ھے اور ”عمرہ“ انجام دینے کے بعد احرام سے آزاد ھوجاتا ھے(اور اس کے لئے حالت احرام کی حرام چیزیں یھاں تک کہ ھمبستری بھی جائز ھوجاتی ھے) اور اس کے بعد دوبارہ حج کے دوسرے اعمال نویں ذی الحجہ کو انجام دیتا ھے، دور جاھلیت میں اس کام کو صحیح نھیں سمجھا جاتا تھا اور تعجب کیا جاتا تھا کہ جو شخص ایام حج میں مکہ معظمہ میں وارد ھوا ھو اور حج انجام دینے سے پھلے عمرہ بجالائے، اور اپنا احرام کھول دے، لیکن اسلام نے واضح طور پر اس بات کی اجازت دیدی، اور سورہ بقرہ ، آیت  ۱۸۶ میں اس موضوع کی وضاحت فرمادی۔

[22] شرح لمعہ ، جلد ۲ ،کتاب النکاح۔

[23] کنز العرفان ، جلد دوم، صفحہ ۱۵۹(حاشیہ)

[24] الغدیر ، جلد ۶، صفحہ ۲۰۶۔

[25] الغدیر ، جلد ۶، صفحہ ۲۱۰۔

[26] بدایة المجتھد ،کتاب النکاح۔

[27] تفسیر المنار ، جلد ۵، صفحہ ۱۶۔

[28] تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۳۳۷۔

[29] سورہٴ بقرہ ، آیت۲۲۸۔

[30] تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۱۰۶۔