قرآن مجید کی آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ خداوندعالم گناھوں میں زیادہ آلود نہ ھونے والے گناھگاروں کو خطرہ کی گھنٹی یا ان کے اعمال کے عکس العمل یا ان کے اعمال کی مناسب سزا کے ذریعہ جگا دیتا ھے، اور ان کو راہ راست کی ھدایت فرمادیتا ھے، یہ وہ لوگ ھیں جن کے یھاں ھدایت کی صلاحیت پائی جاتی ھے ، ان پر لطف خدا ھوسکتا ھے، در اصل ان کی سزا یا مشکلات ان کے لئے نعمت حساب ھوتی ھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
<ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَہُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ>[1]
” (لوگوں کے ھاتھوں کی کمائی کی بنا پر) فساد خشکی اور تری ھر جگہ غالب آگیا ھے تاکہ خداان کو ان کے کچھ اعمال کا مزا چکھا دے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستہ پر آجائیں“۔
لیکن گناہ و معصیت میں غرق ھونے والے باغی اور نافرمانی کی انتھا کو پہچنے والے لوگوں کو خداوندعالم ان کے حال پر چھوڑ دیتا ھے ، ان کو مزید موقع دیتا ھے تاکہ وہ گناھوں میں مزید غرق ھوجائیں، اور بڑی سے بڑی سزا کے مستحق بن جائیں، یہ وہ لوگ ھیں جنھوں نے اپنے پیچھے کے تمام پلوں کو توڑ دیا ھے اور پیچھے پلٹنے کا کوئی راستہ باقی نھیں چھوڑا، انھوںنے حیا و شرم کے پردوں کو چاک کر ڈالااور ھدایت کی صلاحیت کو بالکل ختم کردیا ھے۔
قرآن مجید کی ایک دوسری آیت اسی معنی کی تائید کرتی ھے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:
<وَلاَیَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا اٴَنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ خَیْرٌ لِاٴَنْفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَہُمْ عَذَابٌ مُہِینٌ>[2]
”اورخبردار یہ کفارنہ سمجھیں کہ ھم جس قدر راحت وآرام دے رھے رھیں وہ ان کے حق میں بھلائی ھے ھم تو صرف اس لئے دے رھے ھیں کہ جتنا گناہ کرسکیں کرلیں اور ان کے لئے رسوا کن عذاب ھے“۔
اسلام کی شجاع خاتون جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا نے شام کی ظالم و جابر حکومت کے سامنے ایک بہترین خطبہ دیا جس میں اسی آیہٴ شریفہ سے ظالم و جابر یزید کے سامنے استدلال کیا اور یزید کو ناقابل بازگشت گناھگاروں کا واضح مصداق قرار دیا ،آپ فرماتی ھیں:
”تو آج خوش ھورھا ھے، اور سوچتا ھے کہ گویا دنیا کو ھمارے اوپر تنگ کردیا ھے اور آسمان کے دروازہ ھم پر بند ھوگئے ھیں، اور ھمیں اس دربار کے اسیر کے عنوان سے در بدر پھرایا جارھا ھے، تو سوچتا ھے کہ میرے پاس قدرت ھے، اور خدا کی نظر میں قدر و منزلت ھے، اور خدا کی نظر میں ھماری کوئی اھمیت نھیں ھے؟! تو یہ تیرا خیال خام ھے، خدا نے یہ فرصت تجھے اس لئے د ی ھے تاکہ تیری پیٹھ گناھوں کے وزن سے سنگین ھوجائے، اور خدا کی طرف سے درد ناک عذاب تیرا منتظرھے۔۔۔“
مذکورہ آیت بعض لوگوں کے ذھن میں موجود اس سوال کا جواب بھی دے دیتی ھے کہ کیوں بعض ظالم اور گناھگار لوگ نعمتوں سے مالا مال ھیں اور ان کو سزا نھیں ملتی؟
قرآن کا فرمان ھے: ان لوگوں کی اصلاح نھیں ھوسکتی، قانون آفرینش اور آزادی و اختیار کے مطابق ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ھے، تاکہ تنزل کے آخری مرحلہ تک پھنچ جائیں اور سخت سے سخت سزاؤں کے مستحق ھوجائیں۔
اس کے علاوہ قرآن مجید کی بعض آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ خداوندعالم اس طرح کے لوگوں کو بہت زیادہ نعمتیں عطا کرتا ھے اور جب وہ خوشی اور غرور کے نشہ میں مادی لذتوں میں غرق ھوجاتے ھیں تو اچانک سب چیزیں ان سے چھین لیتا ھے، تاکہ اس دنیا میںبھی سخت سے سخت سزا بھگت سکیں، چونکہ اس طرح کی زندگی کا چھن جانا ان لو گوں کے لئے بہت ھی ناگوار ھوتا ھے، جیسا کہ قرآن مجید میںارشاد ھوتا ھے:
<فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اٴَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُوا بِمَا اٴُوتُوا اٴَخَذْنَاہُمْ بَغْتَةً فَإِذَا ہُمْ مُبْلِسُونَ >[3]
” پھر جب ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انھیں یاد دلائی گئی تھیں تو ھم نے امتحان کے طور پر ان کے لئے ھر چیز کے دروازے کھول دئے یھاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوش حال ھوگئے تو ھم نے اچانک انھیں اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ مایوس ھوکر رہ گئے“۔
در اصل ایسے لوگ اس درخت کی طرح ھیں جس پر نا معقول طریقہ سے انسان جتنا بھی اوپر جاتا ھے خوش ھوتا رہتا ھے یھاں تک کہ اس درخت کی چوٹی پر پھنچ جاتا ھے اچانک طوفان چلتا ھے اور وہ زمین پر گر جاتا ھے اور اس کی تمام ہڈی پسلیاں چور چور ھوجاتی ھیں۔[4]
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
< وَلَوْ اٴَنَّ اٴَہْلَ الْقُرَی آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ۔۔۔>[5]
”اگر اھل قریہ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کر لےتے تو ھم ان کے لئے زمین وآسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے“۔
اس آیت کے پیش نظر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ اگر ایمان اور تقویٰ ،رحمت الٰھی اور برکات کا موجب ھے تو پھر ان قوموں کے پاس بہت زیادہ نعمتیں کیوں پائی جاتی ھیں جن کے پاس ایمان نھیں ھے! ان کی زندگی بہترین ھوتی ھے،اور ان کو پریشانی نھیں ھوتی، ایسا کیوں ھے؟
اس سوال کا جواب درج ذیل دو نکات پر توجہ کرنے سے روشن ھوجائے گا:
۱۔یہ تصور کرنا کہ بے ایمان قوم و ملت نعمتوں سے مالا مال ھے؛ ایک غلط فھمی ھے، جو ایک دوسری غلط فھمی کا نتیجہ ھے اور وہ مال و دولت ھی کو خوش بختی سمجھ لیناھے۔
عام طور پر عوام الناس میں یھی تصور پایا جاتا ھے کہ جس قوم و ملت کے پاس ترقی یافتہ ٹیکنیک ھے یا بہت زیادہ مال و دولت ھے وھی خوش بخت ھے، حالانکہ اگر ان اقوام میں جاکر نزدیک سے دیکھیں تو ان کے یھاں نفسیاتی اور جسمانی بے پناہ درد اور مشکلات پائی جا تی ھیں اور اگر نزدیک سے دیکھیں تو ھمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ان میں سے متعدد لوگ دنیا کے سب سے ناچار افراد ھیں، قطع نظر اس بات سے کہ یھی نسبی ترقی ان کی سعی و کوشش، نظم و نسق اور ذمہ داری کے ا حساس جیسے اصول پر عمل کا نتیجہ ھیں، جو انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات میں بیان ھوئے ھیں۔
ابھی چند دنوں کی بات ھے کہ اخباروں میں یہ بات شایع ھوئی کہ امریکہ کے شھر ”نیویورک“ میں (جو مادی لحاظ سے دنیا کا سب سے مالدار اور ترقی یافتہ شھر ھے)اچانک (طولانی مدت کے لئے) بجلی چلی گئی اور ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا:” بہت سے لوگوں نے دکانوں پر حملہ کردیا اور دکانوں کو لوٹ لےا، اس موقع پر پولیس نے تین ہزار لوگوں کو گرفتار کرلیا“۔
یہ بات طے ھے کہ لٹیروں کی تعدادان گرفتار ھونے والوں سے کئی گنا زیادہ ھوگی جو موقع سے فرار نہ کرسکے اور پولیس کے ھاتھوں گرفتار ھوگئے، اور یہ بھی مسلم ھے کہ یہ لٹیرے کوئی تجربہ کار نھیں تھے جس سے انھوں نے ایک پروگرام کے تحت ایسا کیا ھو کیونکہ یہ واقعہ اچانک پیش آیا تھا۔
لہٰذا ھم اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ھیں کہ اس ترقی یافتہ اور مالدار شھر کے ہزاروں لوگ چند گھنٹوں کے لئے بجلی جانے پر ”لیٹرے“ بن سکتے ھیں، یہ صرف اخلاقی پستی کی دلیل نھیں ھے بلکہ اس بات کی دلیل ھے کہ اس شھر میں اجتماعی نا امنی کس قدر پائی جاتی ھے۔
اس کے علاوہ اخباروں میں اس خبر کا بھی اضافہ کیا جو در اصل پھلی خبر کا ھی تتمہ تھا کہ انھیں دنوں ایک مشھور و معروف شخصیت نیویورک کے بہت بڑے ھوٹل میں قیام پذیر تھی، چنانچہ وہ کہتا ھے: بجلی جانے کے سبب ھوٹل کے ھال اور راستوں میں آمد و رفت خطرناک صورت اختیار کر چکی تھی کیونکہ ھوٹل کے ذمہ دار لوگوں نے آمد و رفت سے منع کردیا تھا کہ کوئی بھی اکیلا کمرے سے باھر نہ نکلے، کھیں لٹیروں کا اسیر نہ ھوجائے، لہٰذا مسافروں کی کم و بیش دس دس کے گروپ میں وہ بھی مسلح افراد کے ساتھ آمد و رفت ھوتی تھی اور مسافر اپنے اپنے کمروں میں پھنچائے جاتے تھے ! اس کے بعد یھی شخص کہتا ھے کہ جب تک شدید بھوک نھیں لگتی تھی کوئی بھی باھر نکلنے کی جرائت نھیں کرتا تھا!!
لیکن پسماندہ مشرقی ممالک میں اس طرح بجلی جانے سے اس طرح کی مشکلات پیش نھیں آتیں، جو اس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ ان ترقی یافتہ اور مالدار ممالک میں امنیت نام کی کوئی چیز نھیں ھے۔
ان کے علاوہ چشم دید گواھوں کا کھنا ھے کہ وھاں قتل کرنا پانی پینے کی طرح آسان ھے، اور قتل بہت ھی آسانی سے ھوتے رہتے ھیں، اور ھم یہ جانتے ھیں کہ اگر کسی کو ساری دنیا بھی بخش دی جائے تاکہ ایسے ماحول میں زندگی کرے تو ایسا شخص دنیا کا سب سے پریشاں حال ھوگا، اور امنیت کی مشکل اس کی مشکلات میں سے ایک ھے۔
اس کے علاوہ اجتماعی طور پر بہت سی مشکلات پائی جاتی ھیں جو خود اپنی جگہ دردناک ھيں، لہٰذا ان تمام چیزوں کے پیش نظر مال و دولت کو باعث خوشبختی تصور نھیں کرنا چاہئے۔
۲۔ لیکن یہ کھنا کہ جن معاشروں میں ایمان اور پرھیزگاری پائی جاتی ھے وہ پسماندہ ھیں، تو اگر ایمان اور پرھیزگاری سے مراد صرف اسلام اور تعلیمات ا نبیاء کے اصول کی پابندی کا دعویٰ ھو تو ھم بھی اس بات کو تسلیم کرتے ھیں کہ ایسے افراد پسماندہ ھیں۔
لیکن ھم جانتے ھیں کہ ایمان اور پرھیزگاری کی حقیقت یہ ھے کہ ان کا اثر زندگی کے ھر پھلو پر دکھائی دے، صرف اسلام کا دعویٰ کرنے سے مشکل حل نھیں ھوتی۔
نھایت ھی افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ھے کہ آج اسلام اور انبیا الٰھی کی تعلیمات کو بہت سے اسلامی معاشروں میں یا بالکل ترک کردیا گیا ھے یا آدھا چھوڑ دیا گیا ھے، لہٰذا ان معاشروں کا حال حقیقی مسلمانوں جیسا نھیں ھے۔
اسلام، طھارت، صحیح عمل، امانت اور سعی و کوشش کی دعوت دیتا ھے، لیکن کھاں ھے امانت اور سعی و کوشش؟
اسلام، علم و دانش اور بیداری و ھوشیاری کی دعوت دیتا ھے، لیکن کھاں ھے علم و آگاھی؟ اسلام، اتحاد اور فدارکاری کی دعوت دیتا ھے، لیکن کیا اسلامی معاشروں میں ان اصول پر عمل کیا جارھا ھے؟ جبکہ پسماندہ ھیں؟! اس بنا پر یہ اعتراف کرنا ھوگا کہ اسلام ایک الگ چیز ھے اور ھم مسلمان ایک الگ چیز، (ورنہ اگر اسلام کے اصول اور قواعد پر عمل کیا جائے تو اسلام اس نظام الٰھی کا نام ھے جس کے اصول پر عمل کرتے ھوئے مسلمان خوش حال نظر آئیں گے)[6]
قرآن مجید کی آیات سے بخوبی یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ ھر طرح کی ناکامی اور شکست جس سے ھم دو چار ھوتے ھیں ، دو چیزوں میں سے کسی ایک چیز کی وجہ سے ھے: یا تو ھم نے جھاد (و کوشش) میں کوتاھی کی ھے یا ھمارے کاموں میں خلوص نھیں پایا جاتا، اور اگر یہ دونوں چیزیں باھم جمع ھوجائیں تو خداوندعالم کے وعدہ کی بنا پر کامیابی اور ھدایت یقینی ھے۔
اگر صحیح طور پر غور و فکر کیا جائے تو اسلامی معاشرہ کی مشکلات اور پریشانیوں کا سبب معلوم ھوسکتا ھے۔
کیوں مسلمان آج تک پسماندہ ھیں؟
کیوں سب چیزوں میںغیروں کی طرف ھاتھ پھیلائے ھوئے ھیں یھاں تک کہ علم و ثقافت اور قوانین کے سلسلہ میں بھی دوسروں کی مدد کے محتاج ھیں؟
کیوں سیاسی بحران، فوجی حملوں کے طوفان میں دوسرے پر بھروسہ کیا جائے؟
کیوں اسلام کے علمی اورثقافتی دسترخوان پر بیٹھنے والے آج مسلمانوں سے آگے نکل گئے ھیں؟
کیوں غیروں کے ھاتھوں اسیر ھوچکے ھیں اور ان کی زمینوں پر اغیار کا قبضہ ھے؟!
ان تمام سوالوں کا ایک ھی جواب ھے کہ یا تو وہ جھاد کو بھول گئے ھیں یا ان کی نیتوں میں خلوص نھیں رھا اور ان کی نیتوں میں فتور آگیا ھے؟
جی ھاں! علمی، ثقافتی ، سیاسی، اقتصادی اور نظامی میدان میں جھاد (اور کوشش) کو بھلا دیا گیا ھے، حبّ نفس، عشق دنیا، راحت طلبی، تنگ نظری اور ذاتی اغراض کا غلبہ ھوگیا ھے یھاں تک کہ مسلمانوں کے ھاتھوں مسلمانوں کے قتل ھونے والی تعداد غیروں کے ھاتھوں قتل ھونے والوں کی تعداد سے کھیں زیادہ ھے!
بعض مغرب اور مشرق پرست افراد کا ھمت ھار جانا، بعض ذمہ دار لوگوں کا سیم و زر کے بدلے بِک جانا اور دانشوروں ومفکرین قوم کا گوشہ نشین ھوجانا، یہ سب ایسی وجوھات ھیں جس کی بنا پر جھاد و کوشش ھمارے یھاں سے جاتی رھی اور اخلاص بھی رخصت ھوگیا۔
اگر ھمارے درمیان تھوڑا بھی اخلاص پیدا ھوجائے اور ھمارے مجاھدین میں جوش وجذبہ پیدا ھوجائے تو پھر یکے بعد دیگرے کامیابی ھی کامیابی ھوگی۔
اسیری کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی، مایوسی امید میں ،شکست کامیابی میں، ذلت عزت و سر بلندی میں، اختلاف ونفاق وحدت و یکدلی میں تبدیل ھوجائےں گے، اور واقعاً قرآن مجید کس قدر الھام بخش ھے جس نے ایک چھوٹے سے جملہ[7]یں تمام مشکلات اور پریشانیوں کا راہ حل بیان کردیا!
جی ھاں جو لوگ راہ خدا میں جھاد کرتے ھیں، ھدایت الٰھی ان کے شامل حال ھوتی ھے،اور یہ بات واضح ھے کہ جس کو خدا کی طرف گمراھی سے ھدایت مل جائے تو اس کے یھاں شکست کا تصور ھی نھیں پایا جاتا۔
بھر حال جو شخص اس قرآنی حقیقت کو اپنی کوششوں اور کاوشوں کی روشنی کو اس وقت محسوس کرتا ھے، جب وہ خدا کے لئے اور اس کی راہ میں جھاد اور کوشش کرتا ھے تو رحمتِ خدا کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ھیں اور اس کے لئے مشکلات آسان اور سختیاں قابل تحمل ھوجاتی ھیں۔[8]
[1] سورہٴ روم ، آیت ۴۱۔
[2] سورہ آل عمران ، آیت ۱۷۸۔
[3] سورہٴ انعام ، آیت ۴۴۔
[4] تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۳۔
[5] سورہ اعراف ، آیت۹۶۔
[6] تفسیر نمونہ ، جلد ۶، صفحہ ۲۶۸۔
[7] سورہ عنکبوت ، آیت نمبر ۶۹ کی طرف اشارہ ھے، جھاں ارشاد ھوتا ھے:
< وَالَّذِینَ جَاہَدُوا فِینَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِینَ >
(اور جن لوگوں نے ھماری راہ میں جھاد کیا ھے ھم انھیں اپنے راستوں کی ھدایت کریں گے اور یقینا اللہ حسنِ عمل والوں کے ساتھ ھے (مترجم)
[8] تفسیر نمونہ ، جلد ۱۶، صفحہ ۳۵۰۔