ابن تیمیہ ، جس کے نظریات اور فتووں پر وھابیوں کی بنیاد رکھی گئی ھے کھتے ھیں : تمام لوگوں پر خدا اور اس کے رسول کے کلام کو اصل قرار دینا اور اس کی پیروی کرنا واجب ھے ، چاھے وہ ان کے معنی کو سمجھیں یا نہ سمجھیں۔
اسی طرح لوگوں کو چاہئے کہ قرآنی آیات اور کلام پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اعتقاد اور ایمان رکھیں، چاھے اس کے حقیقی معنی کو نہ سمجھتے هوں،اور خدا و رسول اللہ کے کلام کے علاوہ کسی دوسرے کے کلام کو اصل قرا ر دینا جائز نھیں ھے، اور جب تک غیر خدا ورسول کے کلام کے معنی معلوم نہ هوجائیں ان کی تصدیق کرنا واجب نھیں ھے ، وہ کلام اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام سے موافق ھے تو قبول ورنہ باطل او رمردود ھے۔[2]
حافظ وھبہ اس سلسلہ میں کھتے ھیں:وھابیوں کا اعتقاد یہ ھے کہ اسلام کے صحیح عقائد جس طرح سے قرآن وسنت میں وارد هوئے ھیں انھیں اسی طرح سے باقی رکھا جائے ، اور اس میں کسی طرح کی کوئی تاویل کرنا جائز نھیں ھے۔
علمائے نجد کی کتابیں ان لوگوں کے نظریات کی ردّ سے بھری هوئی ھیں جنھوں نے تاویل کا سھارا لیا ھے ، یا جو لوگ دینی عقائد کو فلسفی نظریات سے مطابقت کرتے ھیں، [3]
(مقصود علمائے علم کلام ھیں)۔ وھابیوں کے قرآن وحدیث کی تاویل کی مخالفت میں ھم نے پھلے آلوسی کا نظریہ بیان کیا کہ موصوف قرآن کی آیات اور احادیث کو ان کے ظاھر پر حمل کرتے ھیں، اور ان کے حقیقی معنی کو خداوندعالم پر چھوڑدیتے ھیں، نیز خدا کے دیدار کے مسئلہ میں ھم یہ بات عرض کر چکے ھیں کہ وھابی حضرات بعض آیات قرآنی کے ظاھر کی وجہ سے خدا کے دیدار کے قائل ھیں یھاں تک کہ خداوندعالم کے لئے اعضائے(بدن)کے قائل ھیں۔
[1] سب سے پھلے جس فرقہ نے قرآن وحدیث کے ظواھر سے تمسک کرنے کا نعرہ لگایا وہ ھے فرقہ ”ظاھریہ“ ھے۔ یہ لوگ داود ظاھری اصفھانی (تیسری صدی) کے پیروکارھیں، (فقھاء کے طبقات کے بارے میں ، شیخ ابواسحاق شیرازی کی کتاب طبقات الفقھاء کی طرف رجوع فرمائیں)
[2] الفتاویٰ الکبریٰ ج۵ ص ۱۷، ابن تیمیہ کی نظر میں قرآن مجید کی بعض آیتوں کی تاویل، اور محکم ومتشابہ آیات کے بارے میں اس کے نظریات کو ”رسالة الا کلیل“ میں ملاحظہ فرمائیں۔
[3] جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۱۴۵۔