قرآن کی نظر میں اسلام میں سبقت کرنے والے

 پھلا مسلمان کون؟

 حضرت علی علیه السلام کی زندگی کا دوسرا دوربعثت کے بعد اور ہجرت سے پھلے کا ھے ۔ اس وقت آپ کی عمر ۱۳ سال سے زیادہ نھیں تھی حضرت علی علیه السلام اس پوری مدت میں پیغمبر اسلام کے ھمراہ تھے اور تمام ذمہ داریوںکو تحمل کئے ھوئے تھے، ا س زما نے کی بہترین اور حساس ترین چیز ایک ایسی قابل افتخارشئی ھے جو امام کونصیب ھوئی اور پوری تاریخ میں یہ سعادت و افتخار مولائے کائنات کے علاوہ کسی کو نصیب نہ ھوا ۔

آپ کی زندگی کا پھلا افتخار اس عمرمیں سب سے پھلے اسلام کاقبول کرنا ھے ، بلکہ بہترین لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اپنی دیرینہ آرزویعنی اسلام کا اظہار اور اعلان کرنا تھا ۔[1]

اسلام کے قبول کرنے  میں سبقت کرنا اور قوانین توحید کا ماننا ان امور میں سے ھے جس پر قرآن نے بھروسہ کیا ھے، اور جن لوگوں نے اسلام کے قبول کرنے میں سبقت کی ھے صریحاًان کا اعلان کیا ھے ”اور وہ لوگ خدا کی مرضی اور اس کی رحمت قبول کر نے میں بھی سبقت کرتے ھیں“۔[2]

قرآن کریم نے اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنے والوں پر اس حد تک خاص توجہ دی ھے کہ وہ لوگ جوفتح مکہ سے بھی پھلے ایمان لائے اور اپنے جان ومال کو خداکی راہ میںقربان کیا ھے ، ان لوگوں پر جو فتح مکہ کی کامیابی کے بعد ایمان لائے ھیںاورجہاد کیا برتری اور فضیلت دی ھے۔[3]

یہ بات واضح ھے کہ آ ٹھویں ہجری میں مکہ فتح ھواھے ا ور پیغمبر نے بعثت کے اٹھارہ سال بعد بت پرستو ں کے مضبوط قلعے اور حصار کو بے نقاب کر دیا ،فتح مکہ سے پھلے مسلمانوںکے ایمان کی فضیلت وبرتری کی وجہ یہ تھی کہ وہ لو گ اس زمانے میں ایمان لائے جب کہ اسلام کی حکومت شبہ جزیرہ پر نھیں پھونچی تھی ، اور ابھی بھی بت پرستوں کا مرکز ایک محکم قلعہ کی طرح باقی تھا اور مسلمانوں کی جان و مال کا بہت زیادہ خطرہ تھا، اگرچہ مسلمان، مکہ سے پیغمبر اسلام (ص) کی ہجرت کی وجہ سے، اور گروہ اوس و خزرج اور وہ قبیلے جو مدینے کے آس پاس تھے ایک طاقتور گروہ سمجھے جاتے تھے اور بہت سی لڑائیوں میں کامیاب بھی ھوئے تھے لیکن خطرات مکمل طور پر ختم نھیںھوئے تھے۔

اس وقت جب کہ اسلام کا قبول کرنا اور جان و مال کا خرچ کرنا اھمیت رکھتا ھو، قطعی طور پر ابتدائی زمانے میںایمان کا ظاہر کرنا اور قبول اسلام کا اعلان کرنا جب صرف قریش اور دشمنوں کی ھی طاقت و قوت تھی ایسے مقام پر اس کی اھمیت و فضیلت اور بڑھ جاتی ھے اس بنا پر مکہ میں پیغمبر (ص) کے صحابیوں کے درمیان اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کرناایک ایسا افتخار ھے جس کے مقابلے میں کوئی فضیلت نھیں ھے۔

 عمر نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک دن خباب، جس نے اوا ئل اسلام میںبہت زیادہ زحمتیں برداشت کی تھیں ،سے پوچھا کہ مشرکین مکہ کا برتاؤ تمہارے ساتھ کیسا تھا ؟

    اس نے اپنے بدن سے پیراہن کو جدا کرکے اپنی جلی ھوئی پشت اور زخموں کے نشان خلیفہ کو دکھایا اور کہا ۔اکثر وبیشتر مجھے لوھے کی زرہ پہناکر گھنٹوں مکہ کے تیزاورجلانے والے سورج کے سامنے ڈال دیتے تھے اور کبھی کبھی آگ جلاتے تھے اور مجھے آگ پر لے جاکر بیٹھاتے تھے یہاں تک کہ آگ بجھ جا تی تھی۔ [4]

جی ہاں ۔مسلّم و عظیم فضیلت اور معنوی برتری ان افراد سے مخصوص ھے جن لوگوں نے اسلام کی راہ میں ہر طرح کے ظلم وستم کو برداشت اور صمیم قلب کے سا تھ اسے قبول کیا۔

علی علیه السلام سے پھلے کسی نے اسلام قبول نھیں کیا

    اکثر محدثین و مؤرخین بیان کرتے ھیں کہ پیغمبر اسلام دوشنبہ کو منصب رسالت پرفائز ھوئے اور اس کے دوسرے دن (سہ شنبہ )حضرت علی علیه السلام ایمان لائے [5] تمام لوگوں سے پھلے اسلام قبول کرنے میںحضرت علی علیه السلام نے سبقت کی ،اور پیغمبرنے اس کی تصریح کرتے ھوئے صحابہ کے مجمع عام میں فرمایا:

قیامت کے دن سب سے پھلے جو حوض کوثر پرمجھ سے ملاقات کرے گا جس نے اسلام لانے میں تم سب پرسبقت حاصل کی ھے وہ علی ابن ابی طالب علیه السلام ھے ۔[6]

پیغمبر اسلام (ص)، حضرت امیر المو منین (ع) اور بزرگان دین سے منقول حدیثیں اور روایتیں مولائے کائنات کے اسلام قبول کرنے میں سبقت سے متعلق اس قدر زیادہ ھیں کہ سب کو اس کتاب میں نقل کرنا ممکن نھیں ھے۔ [7]

اس سلسلے میں امام  علیه السلام کا صرف ایک قول اور ایک واقعہ پیش کررھے ھیں امیر المومنین علیه السلام  فرماتے ھیں :

اَنٰا عَبْدُاللّٰہِ وَاَخُورَسُوْلِ اللّٰہِ وَاَنٰا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَر لاٰیَقُوْلُھٰابَعْدِیْ اِلَّاکَاذِبٌ مُفْتَرِیٌ وَلَقَدْ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہ قَبْلَ النَّاسِ بِسْبَعِ سِنِیْنَ وَاَنَا اَوَّلُ مَنْ صَلَّی مَعَہ ۔[8]

میں خدا کا بندہ، پیغمبر کابھائی اور صدیق اکبر ھوں ۔میرے بعد یہ دعوی صرف جھوٹا شخص ھی کرے گا ، تمام لوگوں سے سات سال پھلے میں نے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑ ھی اور میں ھی وہ پھلا شخص ھوں جس نے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑھی ۔

ا مام علی  -ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ھیں:

اس وقت اسلام صرف پیغمبر اور خدیجہ کے گھر میں تھا اورمیں اس گھر کا تیسرا فرد تھا۔[9]

ایک اور مقام پر امام  علیه السلام سب سے پھلے اسلام قبول کرنے کا تذکرہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں :

”اللُھَّم اِنِّی اَوَّلُ مَنْ اَنَابَ وَسَمِعَ وَاٴجاَبَ لَمْ یَسْبِقْنِیْ اِلاَّرَسُوْلُ اللّٰہ (ص) بِالصَّلاَةِ“[10]

پر وردگارا ، میںپھلا وہ شخص ھوں جو تیری طرف آیا اور تیرے پیغام کو سنا اور تیرے پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہا اور مجھ سے پھلے پیغمبر کے علاوہ کسی نے نماز نھیں پڑھی۔

 عفیف کندی کا بیان :

عفیف کندی کہتے ھیں :ایک دن میں کپڑااور عطر خریدنے کے لئے مکہ گیا اور مسجدالحرام میں عباس بن عبدالمطلب کے بغل میں جاکر بیٹھ گیا ،جب سورج اوج پر پھونچا تو اچانک میں نے دیکھا کہ ایک شخص آیا اور آسمان کی طرف دیکھا پھر کعبہ کی طرف رخ کرکے کھڑا ھوا، کچھ ھی دیر گزری تھی کہ ایک نوجوان آیا اور اس کے داہنے طرف کھڑاھو گیا پھر ایک عورت آئی اور مسجد میں داخل ھوئی اور ان دونوں کے پیچھے آکر کھڑی ھوگئی پھر وہ تینوں نمازوعبادت میں مشغول ھوگئے ، میں اس منظر کو دیکھ کر بہت متعجب ھواکہ مکہ کے بت پرستوں سے ان لوگوں نے اپنے کو دور کر رکھا ھے اور مکہ کے خداؤ ں کے علاوہ دوسرے خدا کی عبادت کررھے ھیں۔ میں حیرت میں تھا ، میں عباس کی طرف مخاطب ھوا اور ان سے کہا ۔”اَمرٌعَظِیمٌ “،عباس نے بھی اسی جملے کو دہرایا اور فرمایا ۔کیا تم ان تینوں کوپہچانتے ھو؟

میں نے کہا نھیں انھوں نے کہا ۔ سب سے پھلے جو مسجد میں داخل ھوا اور دونوں آدمیوں سے آگے کھڑا ھوا وہ میرا بھتیجا محمد بن عبداللہ ھے اور د وسراشخص جو مسجد میں داخل ھوا وہ میرا دوسرا بھتیجا علی ابن ابی طالب ھے اوروہ خاتون محمد کی بیوی ھے اور اس کا دعوی ھے کہ اس کے تمام قوانیں    خدا وند عالم کی طرف سے اس پر نازل ھوئے ھیں ، اور اس وقت کائنات میں ان تینوں کے علاوہ کوئی بھی اس دین الھی کا پیرو نھیں ھے۔[11]

ممکن ھے یہاں پر سوال کیا جائے کہ اگر حضرت علی علیه السلام  پھلے وہ شخص ھیں جو بعثت پیغمبر (صلی الله علیه و آله و سلم)کے بعد ان پر ایمان لائے تو بعثت سے پھلے حضرت علی علیه السلام کی وضعیت کیا تھی؟۔

اس سوال کا جواب بحث کے شروع میں بیان کیا گیا ھے جس سے واضح اور روشن ھوتاھے کہ یہاں پر ایمان سے مراد، اپنے دیرینہ ایمان کا اظہار کر نا ھے جو بعثت سے پھلے حضرت علی کے دل میں موجزن تھا،اور ایک لمحہ کے لئے بھی حضرت علی علیه السلام سے دور نہ ھوا ، کیونکہ پیغمبر کی مسلسل تربیت ومراقبت کی وجہ سے حضرت علی علیه السلام  کے روح ودل کی گہرائیوں میں ایمان رچ بس گیا تھااور ان کا مکمل وجودایمان واخلاص سے مملو تھا ۔

ان دنوں جب کہ پیغمبر مقام رسالت پر فائز نہ ھوئے تھے ،حضرت علی علیه السلام پر لازم تھا کہ رسول اسلام کے منصب رسالت پر فائز ھونے کے بعد پیغمبر سے اپنے رشتے کو اور مستحکم کرتے اور اپنے دیرینہ ایمان اور اقرار رسالت کو ظاہر اور اعلان کرتے، قرآن مجید میں ایمان و اسلام کا استعمال اپنے دیرینہ عقیدہ کے اظہار کے متعلق ھوا ھے ۔مثلاً خدا وند عالم نے جناب ابراھیم کو حکم دیا کہ ا سلام لاؤ جناب ا براھیم کہتے ھیں ،میں سارے جہان کے پروردگارپر ایمان لایا۔

قرآن مجید نے پیغمبر کے جملے کو نقل کیا ھے، پیغمبر خود اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ھیں:وَاُمِرْتُ اَنْ اَسْلَمَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ (مومن۶۶)اور مجھے تو یہ حکم ھوچکا ھے کہ اپنے بارے میں سارے جہان کے پالنے والے کا فر ماںبر دار بنوں ،حقیقتاًان موا رد اور ان سے مشابہت رکھنے والے تمام موارد میں اسلام سے مراد ، خدا کے سامنے اپنی سپردگی کا اظہار کرنا اور اپنے ایمان کوظاہر کرناھے ، جو انسان کے دل میں موجود تھا،اور اصلاً اسلام کے اظہار کا مطلب ایمان کا حاصل کرنا یا ایمان لانا نھیں ھے ،کیونکہ پیغمبر اسلام اس آیت کے نازل ھونے سے پھلے بلکہ بعثت سے پھلے موحد اور خدا کی بارگاہ میں اپنے کو تسلیم کرنے والے تھے اس بنا بر ثابت ھے کہ ایمان کے دو معنی ھیں ،

۱۔اپنے باطنی ایمان کا اظہار کرنا جو پھلے سے ھی انسان کے قلب وروح میں موجود تھا، حضرت علی(ع)   کا بعثت کے دوسرے دن ایمان لانے کا مقصد اور ہدف بھی یھی تھا اس کے علاوہ کچھ اور نہ تھا ۔

۲۔ایمان کا قبول کرنااور ابتدائی گروہ کااسلام لانا پیغمبر کے بہت سے صحابیوں اور دوستوں کا ایمان تھا (جو پھلے والے معنی کے بر عکس ھے )۔

اسحاق سے مامون کا مناظرہ :

مامون نے اپنی خلافت کے زمانے مےں چاھے سیاسی مصلحت کی بنیاد پر یا اپنے عقید ے کی بنیاد پر،مولائے کائنات کی برتری کا اقرار کیا اور اپنے کو شیعہ ظاہر کیا ۔ ایک دن ایک علمی گروہ جس میں اس کے زمانے کے( ۴۰)چالیس دانشمند اور خود اسحاق بھی انھیں کے ھمراہ تھے ، کی طرف متوجہ ھوا اورکہا:

جس دن پیغمبر خدا (صلی الله علیه و آله و سلم) رسالت پر مبعوث ھوئے اس دن بہترین عمل کیا تھا؟۱

اسحاق نے جواب دیا ، خدا اور اس کے رسول کی رسالت پر ایمان لانا ۔

مامون نے دوبا رہ پوچھا ، کیا اسلام قبول کرنے میں اپنے حریفوں کے درمیان سبقت حاصل کر نا  بہترین عمل نہ تھا ؟

اسحاق نے کہا ، کیوںنھیں ۔ ھم قرآن مجید میں پڑھتے ھیں ۔والسا بقون السا بقون اولیک المقربون،اور اس آیت میں سبقت سے مراد وھی اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنا ھے

مامون نے پھرسوال کیا ، کیا علی علیه السلام سے پھلے کسی نے اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کی ھے ؟یا  علی علیه السلام  وہ پھلے شخص ھیںجو پیغمبر پر ایمان لائے ھیں ؟

اسحاق نے جواب دیا ،علی ھی وہ ھیں جو سب سے پھلے پیغمبر پر ایمان لائے لیکن جس دن وہ ایمان لائے ، بچے تھے اور بچے کے اسلام کی کوئی اھمیت نھیں ھے لیکن ابو بکر اگر چہ وہ بعدمیں ایمان لائے اور جس دن خدا پرستوں کی صف میں کھڑے ھوئے وہ بالغ وعاقل تھے لہٰذا اس عمرمیں ان کا ایمان اور عقیدہ قابل قبول ھے۔

مامون نے پوچھا ، علی کس طرح ایمان لائے ؟کیا پیغمبر نے انھیں اسلام کی دعوت دی یا خدا کی طرف سے ان پر الہام ھوا کہ وہ آئیں اورتوحید اور اسلام کو قبول کریں؟

یہ بات کہنا بالکل صحیح نھیں ھے کہ حضرت علی کا اسلام لانا خدا وند عالم کی طرف سے الہا م کی وجہ سے تھا، کیونکہ اگر ھم یہ فرض کر لیں تو اس کا لازمہ یہ ھوگا کہ علی کا ایمان پیغمبر کے ایمان سے زیادہ افضل ھو جائے گا اس کی دلیل یہ ھے کہ علی کا پیغمبر سے وابستہ ھونا جبرئیل کے توسط اور ان کی رہنمائی سے تھا نہ یہ کہ خدا کی طرف سے ان پر الہام ھوا تھا ۔

بہرحال اگر حضرت علی کا ایمان لانا پیغمبر کی دعوت کی وجہ سے تھا تو کیا پیغمبر نے خود ایمان کی دعوت دی تھی یا خدا کا حکم تھا ؟۔یہ کہنا بالکل صحیح نھیں ھوگا کہ پیغمبر خدا نے حضرت علی کوبغیرخدا کی اجازت کے اسلام کی دعوت دی تھی بلکہ ضروری ھے کہ یہ کہا جائے کہ پیغمبر اسلام نے حضرت علی کو اسلام کی دعوت ،خدا کے حکم سے دی تھی ۔

کیا خدا وند عالم اپنے پیغمبر کو حکم دے گا کہ وہ غیر مستعد(آمادہ ) بچے کو جس کا ایمان لانا اور نہ لانا برابرھو اسلام کی دعوت دے ؟(نھیں) ۔بلکہ یہ ثابت ھے کہ امام  علیه السلام  بچپن میں ھی شعوروادراک کی اس بلندی پر فائز تھے کہ ان کا ایمان بزرگوں کے ایمان کے برابر تھا۔[12]

یہاں مناسب تھا کہ مامون اس کے متعلق دوسرا بھی جواب دیتا کیونکہ یہ جواب ان لوگوں کے لئے مناسب ھے جن کی معلومات بحث ولایت وامامت میں بہت زیادہ ھو اور اس کا خلاصہ یہ ھے کہ اولیائے الھی کا کبھی بھی ایک عام آدمی سے مقابلہ نھیں کرناچاہئے اور نہ ان کے بچپن کے دورکو عام بچوں کے بچپن کی طرح سمجھنا چاہئے اور نہ ھی ان کے فھم وادراک کو عام بچوںکے فھم و ادراک کے برابرسمجھنا چاھیے ، پیغمبروں کے درمیان بعض ایسے بھی پیغمبرتھے جوبچپن میں ھی فھم وکمال اور حقایق کے درک کرنے میں منزل کمال پر پھونچے تھے ،اور اسی بچپن کے زمانے میں ان کے اندر یہ لیاقت موجود تھی کہ پروردگار عالم نے حکمت آمیز سخن اور بلند  معارف الھیہ ان کو سکھایا، قرآن مجید میں جناب یحییٰ علیہ السلام کے متعلق بیان ھوا ھے :

یَا یَحْییٰ خُذِالْکِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَیْنٰا ہُ الْحُکْمَ صَبِیّاً(مریم۱۲) اے یحییٰ کتاب (توریت) مضبوتی کے ساتھ لو اور ھم نے انھیں بچپن ھی میں اپنی بارگاہ سے حکمت عطا کی جب کہ وہ بچے تھے۔

بعض لوگوں کا کہنا ھے کہ اس آیت میں حکمت سے مرادنبوت ھے اور بعض لوگوں کا احتمال یہ ھے کہ حکمت سے مراد معارف الھی ھے ۔بہر حال جو بھی مراد ھو لیکن آیت کے مفھوم سے واضح ھے کہ انبیاء اور اولیاء الھی ایک خاص استعداد اور فوق العادہ قا بلیت کے ساتھ پیدا ھوتے ھیں ،اور ان کا بچپن دوسروں کے بچپن سے الگ ھوتا ھے،

حضرت عیسیٰ  علیه السلام ۔ اپنی ولادت کے دن ھی خدا کے حکم سے لوگوں سے گفتگو کی اور کہا : بے شک میں خدا کا بندہ ھوں ،مجھ کو اُسی نے کتاب عطا فرمائی ھے اور مجھ کونبی بنایا۔[13]

معصومین علیھم السلام کے حالات زندگی میں بھی ھم پڑھتے ھیں کہ ان لو گوںنے بچپن کے زمانے میں عقلی ،فلسفی اور فقھی بحثوں کے مشکل سے مشکل مسئلوں کا جواب دیا ھے ۔[14]

جی ہاں نیک لوگوں کے کاموں کو اپنے کاموں سے قیاس نہ کریں ۔ اور اپنے بچوں کے فھم و ادراک کو پیغمبروں اوراولیاء الھی کے بچپن کے زمانے سے قیاس نہ کریں۔[15]

 

پھلا مددگار

مولائے کائنات کے فضائل کا چھپانا اور ان کے مسلم حقائق کے بارے میں منصفانہ تحلیل تحلیل نہ کرنا صرف بنی امیہ کے زمانے سے مخصوص نھیں تھا بلکہ بشریت کے اس نمونہء کامل ھمیشہ ہتک کی متعصب مؤرخین نے مولائے کائنات حضرت علی (ع) کے خاندان اور ان کے حق پر حملہ کرنے سے گریز نھیں کیا ھے ۔اور آج بھی جب کہ اسلام آئے ھوئے چودہ صدیاں گزر گئیں وہ لوگ جو اپنے کو نئی نسل کا رہبر اور روشنفکر تصور کرتے ھیں اپنے زہریلے قلم کے ذریعے اموی مقاصد کی مدد کرتے ھیں اور مولائے کائنات کے فضائل و مناقب پر پردہ ڈالتے ھیں جس کی ایک واضح مثال یہ ھے:

    غار حرا میں پھلی مرتبہ پیغمبر (ص) کے قلب پر وحی الھی کا نزول ھوا اور پیغمبر (ص) منصب رسالت و نبوت پر فائز ھوئے، وحی کے فرشتے نے اگرچہ آپ کو مقام رسالت سے آگاہ کردیا لیکن اعلان رسالت کا وقت معین نھیں کیا ،لہٰذا پیغمبر (ص) نے تین سال تک عمومی اعلان سے گریز کیا اور جب بھی راستے میں شائستہ اور معتبر افراد سے ملاقات ھوتی یا خصوصی ملاقات ھوتی تو ان کو اس نئے قوانین الھی سے روشناس کراتے اور چند گروہ کو اس نئے قانون الھی کی دعوت دیتے، یہاں تک کہ وحی کا فرشتہ نازل ھوا اور خداوند عالم کی طرف سے حکم دیا کہ اے پیغمبر اپنی رسالت کا اعلان اپنے رشتے داروںاوردوستوں کے ذریعے شروع کریں۔:

<وَاٴَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاٴَقْرَبِینَ  وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنْ اتَّبَعَکَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ  فَإِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ إِنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ > [16]

اور اے رسول! تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب خدا سے) ڈراوٴ اور جو مومنین تمہارے پیرو ھوگئے ھیں ان کے سامنے اپنا بازو جھکاوٴ (تواضع کرو) پس اگر لوگ تمہاری نافرمانی کریں تو تم (صاف صاف) کہہ دو کہ میں تمہارے کرتوتوں سے بری الذمہ ھوں۔

پیغمبر (ص) کی عمومی دعوت کا اعلان رشتہ داروں سے شروع ھونے کی علت یہ ھے کہ جب تک نمائندئہ الھی کے قریبی اور نزدیکی رشتہ دار ایمان نہ لائیں اور اس کی پیروی نہ کریںاس وقت تک غیر افراد اس کی دعوت پر لبیک نھیں کہہ سکتے ،کیونکہ اس کے قریبی افراد اس کے تمام حالات و اسرار اور تمام کمالات و معایب سے آگاہ ھوتے ھیں، لہٰذا اعزہ و احباب کا ان کی رسالت پر ایمان لانا ان کی صداقت کی نشانی شمار ھوگا اور رشتہ داروںکا پیروی و اطاعت سے اعراض کرنا ان کی صداقت سے منہ پھیرنا ھے۔

اسی لئے پیغمبر (ص) اسلام نے حضرت علی علیه السلام کو حکم دیا کہ بنی ہاشم کے ۴۵ بزرگوں کو دعوت پر مدعو کریں اور ان کے کھانے کیلئے گوشت اور دودھ کا انتظام کریں،تمام مھمان اپنے معین وقت پرپیغمبر کی خدمت میں حاضر ھوئے اور لوگوں نے کھانا کھایا ،پیغمبر کے چچا ابولہب نے ایک حقیر اور پست جملہ سے، بنے ھوئے ماحول کو خراب کر دیا اور لوگ منتشر ھوگئے اور بغیر کسی نتیجہ کے دعوت ختم ھوگئی اور لوگ کھانا کھا کر پیغمبر کے گھر سے نکل گئے ۔

پیغمبر نے پھر دوسرے دن اسی طرح کی دعوت کا اہتمام کرنے اور ابو لہب کے علاوہ تمام لوگوں کو دعوت دینے کا ارادہ کیا اور پھر حضرت علی  -نے پیغمبر کے حکم سے گوشت اور دودھ کھانے کے لئے آمادہ کیا اور بنی ہا شم کی مشھور ومعروف شخصیتوں کو کھانے اور پیغمبر کی گفتگوسننے کے لئے دعوت دی ،تمام مھمان اپنے معین وقت پر حاضر ھوئے اور کھانے وغیرہ کی فراغت کے بعد پیغمبر نے اپنی گفتگو کا آغازیوں کیا :

”خدا کی قسم میں لوگوںکو راہ راست پر لانے میں غلط بیانی سے کام نہ لو ںگا میں (بر فرض محال) اگر دوسروں سے غلط بیانی سے کام لوںتو بھی تم سے غلط نھیں کھوںگا اگر دوسروں کو دھوکہ دوں تو تمھیں دھوکا نھیں دوںگا ،خدا کی قسم کہ جس کے علاوہ کوئی خدا نھیں میں تمہاری طرف اور تمام عالم کی ہدایت کے لئے اسی کی طرف سے بھیجا گیا ھوں ،ہاں ،آگاہ ھو جاؤ ،جس طرح تم سو جاتے ھو ویسے ھی مر جاؤ گے اور جس طرح سوکر اٹھتے ھو ویسے ھی زندہ کئے جاؤ گے، اچھے اعمال انجام دینے والوںکو ان کا اجر دیا جائے گا اور برے اعمال انجام دینے والے اپنے عمل کا نتیجہ پائیں گے ،اور نیک اعمال کرنے والوں کے لئے جنت ھمیشگی کاگھر ھے اور برے کام کرنے والوں کے لئے جہنم آمادہ ھے۔

کوئی بھی شخص اپنے اھل وعیال کے لئے مجھ سے اچھی چےز نھیں لایا ھے میں تمہاری دنیا وآخرت کے لئے بھلائی لے کر آیا ھوں میرے خدا نے مجھے حکم دیا ھے کہ تم کو اس کی وحدانیت اور اپنی رسالت کی طرف دعوت دوں تم میں سے کون ھے جو اس راہ میں میری مدد کرے تا کہ وہ میرا بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرا نما ئندہ ھو؟“

آپ نے یہ جملہ کہا اور تھوڑی دیر خاموش رھے تاکہ دیکھیں کہ حاضرین میں سے کون ھمیشہ نصرت و مدد کرنے کے لئے آمادہ ھوتا ھے مگر اس وقت خاموشی نے ان پر حکومت کررکھی تھی اور سب کے سب اپنے سروں کوجھکائے فکروں میں غرق تھے ۔

یکایک حضرت علی  -جن کی عمر پندرہ سال سے زیادہ نہ تھی ، اس خاموشی کے ماحول کو شکست دے کر اٹھے اور پےغمبر سے مخاطب ھوکر کہا: اے پیغمبر خدا ، میں آپ کی اس راہ میں  نصرت و مددکروں گا پھراپنے ہاتھوں کو پیغمبر اسلام کی طرف بڑھایا تاکہ اپنے عہدوپیمان کی وفاداری کا ثبوت پیش کریں ۔

پےغمبر نے حکم دیا کہ اے علی بیٹھ جاؤ اور پھر اپنے سوال کو ان لوگوں کے سامنے دہرایا ،پھر علی علیه السلام اٹھے اورنصرت پیغمبر کا اعلان کیا ، اس مرتبہ بھی پےغمبر نے حکم دیا کہ علی بیٹھ جاؤ،تیسری مرتبہ پھر مثل سابق علی کے علاوہ کوئی دوسرا نہ اٹھا اور صرف علی  -نے اٹھ کر پےغمبر کی نصرت اور محافظت کا اعلان کیا ۔ اس موقع پر پےغمبر نے اپنے ہاتھ کو علی کے ہاتھ میں دےا اور حضرت علی کے بارے میں بزرگان بنی ہاشم کی بزم میں اپنے تاریخی کلام کا آغاز اس طرح سے کیا۔

”اے میرے رشتہ دارو اور دوستو ،جان لو کہ علی میرا بھائی میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا جانشین وخلیفہ ھے“

سیرہ حلبی کی نقل کی بنا پر ۔رسول اکرم نے اس جملے کے علاوہ دو اور باتیںاس کے ساتھ بیان کیںکہ :” وہ میرا وزیر اور میرا بھائی ھے “۔

اس طریقے سے پر خاتم النبیین کے توسط سے اسلام کے سب سے پھلے وصی کا تعیّن، اعلان رسالت کے آغاز پر اس وقت ھوا جب بہت ھی کم لوگ اس قانون الھی کے پیرو تھے،

پیغمبر اسلام نے ایک ھی موقع پر اپنی نبوت اور حضرت علی علیه السلام کی امامت کا اعلان کرکے۔یہ ثابت کر دیاکہ نبوت وامامت دو ایسے مقام ھیں جو ایک دوسرے سے جدا نھیں ھیں اور امامت تکمیل نبوت ورسالت ھے ۔

اس تاریخی واقعہ کے مدارک:

شیعہ اور غیر شیعہ محدثین اور مفسرین نے اس تاریخی واقع کو بغیر کسی کمی وزیادتی کے اپنی کتابوں مےںنقل کیا ھے[17] اور امام  -کے اھم فضائل ومناقب میں شمار کیا ھے اھلسنت کے صرف ایک مشھور مورخ ابن تیمیہ دمشقی نے جو اھلبیت علیھم السلام کے بارے میں ہر حدیث سے انکار کرنے میں مہارت رکھتے ھیں  اس سند کو رد کیا ھے اور اس سند کوجعلی قراردیا ھے ۔

انھوں نے نہ صرف اس حدیث کو جعلی اور بے اساس قرار دیاھے بلکہ امام کے خاندان کے سلسلے میں خاص نظریہ رکھنے کی وجہ سے اکثر ان حدیثوں کو جو خاندان رسالت کے فضائل و مناقب میں بیان ھوئیں ھےں اگر چہ وہ حد تواتر تک پھونچ چکی ھوں جعلی اور بے اساس قراردیاھے ۔

 تاریخ ”الکامل“  پر حاشیہ لگانے والے نے اپنے استاد کہ جن کا نام پوشیدہ رکھاھے، سے نقل کیاھے کہ میرے استاد نے بھی اس حدیث کوجعلی قرار دیا ھے (شاید ان کا استادبھی ابن تیمیہ کی فکروں پر چلنے والا تھا، یا یہ کہ اس سند کو خلفاء ثلاثہ کی خدمت کے مخالف جانا ھے اس لئےجعلی قراردیاھے )،پھر وہ خود عجیب انداز سے اس حدیث کے مفھوم کی توجیہ کرتے ھوئے لکھتے ھیں کہ :اسلام میں امام  علیه السلام  کا وصی ھونا ،بعد میں ابوبکر کی خلافت کے منافی نھیں ھے ،کیونکہ اس دن علی علیه السلام کے علاوہ کوئی مسلمان نہ تھا جو پیغمبر کا وصی ھوتا۔

ایسے افرادسے بحث ومباحثہ کرنا فضول ھے۔ ھمارا اعتراض ان لوگوں ھے جنھوں نے اس حدیث کو اپنی بعض کتابوں میں تفصیل سے  اور بعض کتابوں میںمختصر اور مجمل طریقے سے ذکر کیا ھے ،یعنی ایک طرح سے حقیقت بیان کرنے سے چشم پوشی کی ھے ،یا ھمارا اعتراض ان افراد پر ھے جن لوگوں نے اس حدیث کو اپنی کتاب کے پھلے ایڈ یشن میںتو شامل کیا لیکن اسکے بعد کے ایڈیشن میں کسی دباؤ اور خوف وہراس سے حذف کردیا ھے۔ یہاں پر ھم کہہ سکتے ھیں کہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم)کے انتقال کے بعد امام کے حقوق وفضائل کو پوشیدہ اور چھپا یا گیا ھے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ھے ۔

اب یہاں پرھم اس بات کی تشریح کررھے ھیں ۔

تاریخی حقایق کاکتمان:

محمد بن جریر طبری جوتاریخ اسلام کا ایک عظیم مؤرخ ھے ،اس نے اپنی تاریخ طبری میں اس تاریخی فضیلت کو معتبر سندوں کے ساتھ نقل کیاھے[18] لیکن جب اپنی تفسیر [19] میںاس آیت ”وَاٴَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاٴَقْرَبِینَ “ پر پھونچتا ھے تو اس سند کو توڑ مروڑ کر مجمل اور مبھم نقل کرتا ھے جس کی وجہ تعصب کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے۔

اس کے پھلے ھم بیان کرچکے ھیں کہ پیغمبر (ص) نے دعوت ختم ھونے کے بعد حاضرین کو مخاطب کر کے پوچھا تھا:

 ”فاٴیکم یوازرنی علیٰ ان یکون اٴخی و وصیّی وخلیفتی“؟

لیکن طبری نے اس سوال کو اس طرح نقل کیا ھے۔

 ”فاٴیکم یوازرنی علی ان یکون اٴخی و کذا وکذا“؟!

تعجب کی بات نھیں ھے کہ دو کلمہ وصی و خلیفتی کو تبدیل کر کے مبھم اور مجمل الفاظ کو اس کی جگہ پر ذکر کرنا سوائے تعصب اور خلیفہ کے مقام و منزلت کو گھٹانے کے کچھ نھیںھے۔

اس نے نہ صرف پیغمبر(ص) کے سوال میں تحریف کیا ھے، بلکہ حدیث کا دوسرا حصہ جو پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا تھا کہ ”ان ہذا اخی و وصیّی و خلیفتی“ بھی بدل ڈالا ھے، اور دو ایسے ا لفاظ جو مولائے کائنات امیر المومنین کی بلا فصل خلافت پر واضح دلیل تھے کو ایسے لفظوں یعنی کذاوکذا سے بدل دیاھے جو غیر معروف اور غیر مشھور ھیں۔

ابن کثیر شامی جس کی تاریخ کی اساس تاریخ طبری ھے، لیکن جب اس سند تک پھونچا ھے تو  تاریخ طبری کوچھوڑ کر طبری کی تفسیر کی روش کی پیروی کی اور وہ بھی مبھم اور مجمل طریقے سے ۔ ان تمام چیزوں سے بدتر و ہ تحریف ھے جسے اس زمانے کے روشن فکر اور مصر کے مشھور مورخ ڈاکٹر محمد حسنین ھیکل نے اپنی کتاب ”حیات محمد“ میں کیاھے اور خود اپنی کتاب کے معتبر ھونے پر سوالیہ نشان لگادیاھے۔

کیونکہ اولاً انھوں نے پیغمبر اسلام (ص) کے دو حساس جملے کو جودعوت کے آخر میں پیغمبر نے بعنوان سوال فرمایا تھا اس کو نقل کیا ھے لیکن اس دوسرے جملے کو جو پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایاتھا کہ تو میرا بھائی ،وصی اور میرا خلیفہ ھے کوبالکل حذف کردیا اور اس کا تذکرہ تک نھیں کیا۔

ثانیاً اپنی کتاب کے دوسرے اور تیسرے ایڈیشن میں اپنا تعصب کچھ اور بھی دکھایا اور اس حدیث کے پھلے حصے کو بھی حذف کردیا۔ گویا متعصب افراد نے انھیںاس پھلے جملے کو نقل کرنے پر ھی بہت ملامت کی،اور اس کتربیونت کی وجہ سے ناقدین تاریخ کو تنقید کا موقع دیا ، اور اپنی کتاب کے اعتبار کو گرا دیا ۔

اسکافی کا بیان

اسکافی نے اپنی مشھور و معروف کتاب میںاس تاریخی فضیلت کا تذکرہ کیاھے کہ حضرت علی (ع) نے اپنے باپ، چچا اور بنی ہاشم کی بزرگ شخصیتوں کے سامنے پیغمبر (ص) سے عہد و پیمان باندھاکہ ھم آپ کی مدد کریں گے اور پیغمبر (ص) نے انھیں اپنا بھائی، وصی اور خلیفہ قرار دیا۔ اس کے متعلق وہ لکھتے ھیں :

”وہ افراد جو یہ کہتے ھیں کہ امام (ع) بچپن میں ھی صاحب ایمان تھے ،اوریہ وہ زمانہ ھوتا ھے کہ جب بچہ اچھے اور برے میںتمیز نھیں کرپاتا، اس تاریخی فضیلت کے سلسلے میں کیا کہتے ھیں؟!

کیا یہ ممکن ھے کہ پیغمبر اسلام(ص) کثیر تعداد میں موجود افراد کے کھانے کا انتظام ایک بچے کے حوالے کریں؟ یاایک چھوٹے بچے کو حکم دیں کہ بزرگان کو کھانے پر مدعو کرے؟

کیایہ بات صحیح ھے کہ پیغمبر ایک نابالغ بچے کو راز نبوت بتائیں اور اپنے ہاتھ کو اس کے ہاتھ میںدےں اور اسے اپنا بھائی ، وصی اور اپنا خلیفہ لوگوںکے لئے معین کریں؟!

بالکل نھیں! بلکہ یہ بات ثابت ھے کہ حضرت علی (ع) اس دن جسمانی قوت اور فکری لحاظ سے اس حد پر پھونچ چکے تھے کہ ان کے اندر ان تمام کاموں کی صلاحیت موجود تھی ۔ یھی وجہ تھی کہ اس بچے نے کبھی بھی دوسرے بچوں سے انسیت نہ رکھی اورنہ ان کے گروہ میں شامل ھوئے اور نہ ھی ان کے ساتھ کھیل کود میں مشغول ھوئے، بلکہ جس وقت سے پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ نصرت و مدد اور فداکاری کا پیمان باندھا تو اپنے کئے ھوئے وعدے پر قائم و مستحکم رھے اور ھمیشہ اپنی گفتار کو پیغمبر (ص) کے کردار میں ڈھالتے رھے اور پوری زندگی پیغمبر(ص)کے مونس و ھمدم رھے۔

وہ نہ صرف اس موقع پر پھلے شخص تھے جو سب سے پھلے پیغمبر اسلام(ص) کی رسالت پر اپنے ایمان کا اظہار کیا ،بلکہ اس وقت بھی جب کہ قریش کے سرداروں نے پیغمبر (ص) سے کہا کہ اگر آپ اپنے وعدے میں سچے ھیں اور آپ کارابطہ خدا سے ھے تو کوئی معجزہ دکھائیں (یعنی حکم دیں کہ خرمے کا درخت یہاں سے اکھڑ کر آپ کے سامنے کھڑا ھوجائے) تو اس وقت بھی علی وہ واحد شخص تھے جو تمام لوگوںکے انکار کرنے کے باوجود اپنے ایمان کا لوگوں کے سامنے اظہار کیا۔[20]

امیر المومنین علیہ السلام نے قریش کے سرداروں کے معجزہ طلبی کے واقعے کو اپنے ایک خطبہ میںنقل کیاھے۔ آپ فرماتے ھیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ان لوگوں سے کہا:اگر خدا ایساکرے تو کیا خدا کی وحدانیت اور میری رسالت پر ایمان لاوٴ گے؟ سب نے کہا: ہاں یا رسول اللہ۔

اس وقت پیغمبر (ص) نے دعا کی اور خدا نے ان کی دعا کو قبول کیااور درخت اپنی جگہ سے اکھڑ کر پیغمبر(ص) کے سامنے بڑے ادب سے کھڑا ھوگیا۔ معجزہ طلب کرنے والے سرداروں نے کفر و عناد و عداوت کی راہ اختیار کی اور تصدیق کرنے کے بجائے پیغمبر(ص) کو جادوگر کے خطاب سے نوازا ،اور میں پیغمبر(ص) کے پاس کھڑا تھا ،میں نے ان کی طرف رخ کر کے کہا: اے پیغمبر ! میں وہ پھلا شخص ھوںجوآپ کی رسالت پر ایمان لایا، اور میں اعتراف کرتا ھوں کہ درخت نے اس کام کو خدا کے حکم سے انجام دیاھے تاکہ آپ کی نبوت کی تصدیق کرے اور آپ کے قول کوسچا کر دکھائے۔

اس وقت میرا یہ اعتراف کرنا اور تصدیق کرنا ان لوگوں پر گراں گزرا، ان لوگوںنے کہا کہ تمہاری تصدیق علی کے علاوہ کوئی نھیں کرے گا۔[21]

بے مثال فداکاری

ہر انسان کے اعمال و کردار کا پتہ اس کے فکر اور عقیدے سے ھوتا ھے ،اورقربانی اور فداکاری اھل ایمان کی علامت ھے ۔اگر انسان کا ایمان کسی چیز پر اس منزل تک پھونچ جائے کہ اسے اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز رکھے توحقیقت میں اس چیز پر کبھی آنچ نھیں آنے دے گا۔ اور اپنی ہستی اور تمام کوششوں کواس پر قربان کرے گا قرآن مجیدنے اس حقیقت کو اس اندازسے بیان کیاھے:

< إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاللهِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا وَجَاہَدُوا بِاٴَمْوَالِہِمْ وَاٴَنفُسِہِمْ فِی سَبِیلِ اللهِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ الصَّادِقُونَ >[22]”سچے مومن تو بس وھی ھیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، پھر انھوں نے اس میں سے کسی طرح کا شک وشبہ نہ کیا اور اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جہاد کیا یھی لوگ ( دعوائے ایمان میں ) سچے ھیں“

بعثت کے ابتدائی ایام میں مسلمانوں نے بہت زیادہ شکنجے اور ظلم و بربریت کواپنی کامیابی کی راہ میں برداشت کیا تھا جس چیز نے دشمنوں کو خدا کی وحدانیت کے اقرار سے روک رکھا تھا وھی بیھودہ خاندانی عقائد اوراپنے خداوٴں پر فخر و مباہات اور قوم پرستی پر تکبر و غرور اور ایک قبیلے کا دوسرے قبیلے والوں سے کینہ و عداوت تھیم یہ تمام موانع مکہ اور اطرافیان مکہ میں اسلام کے نشر و اشاعت میںاس وقت تک رھے جب تک پیغمبر(ص) نے مکہ فتح کر نہ لیا تھا اور صرف اسلام کی قدرت کاملہ سے ھی یہ تمام موانع ختم ھوئے۔

مسلمانوں پر قریش کی زیادتی سبب بنی کہ ان میں سے کچھ لوگ حبشہ اور کچھ لوگ مدینہ کی طرف ہجرت کریں، اور پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم)اور حضرت علی (ع) جنھیں خاندان بنی ہاشم خصوصاً حضرت ابوطالب کی مکمل حمایت حاصل تھی لیکن جعفر بن ابی طالب مجبور ھوئے کہ بعثت کے پانچویں سال چند مسلمانوں کے ساتھ مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کریں اور ہجرت کے ساتویں سال (فتح خیبر کے سال) تک وھیں پررھیں۔

بعثت کا دسواں سال پیغمبر اسلام(ص) کے لئے بہت سخت تھا، جب آپ کے حامی اور پشت پناہ اور مربی اور عظیم چچا کا انتقال ھوگیا۔ ابھی آپ کے چچا جناب ابوطالب کی وفات کو چند دن نہ گزرے تھے کہ آپ کی عظیم و مہربان بیوی حضرت خدیجہ کا بھی انتقال ھوگیا۔ جس نے اپنی پوری زندگی اور جان و مال کو پیغمبر کے عظیم ہدف پر قربان کرنے پر کبھی دریغ نھیں کیا، پیغمبر اسلام (ص)ان دو باعظمت حامیوں کی رحلت کی وجہ سے مکہ کے مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم و زیادتی ھونے لگی ، یہاں تک کہ بعثت کے تیرھویں سال تمام قریش کے سرداروں نے ایک میٹنگ میں یہ طے کیا کہ توحیدکی آواز کو ختم کرنے کے لئے پیغمبر(ص) کو زندان میں ڈال دیا جائے یا انھیں قتل کردیا جائے یا پھر کسی دوسرے ملک میں قیدکردیاجائے تاکہ یہ آواز توحید ھمیشہ کے لئے خاموش ھو جائے، قرآن مجید نے ان کے ان تینوں ارادوں کا تذکرہ کیاھے۔

ارشاد قدرت ھے:

<وَإِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ اٴَوْ یَقْتُلُوکَ اٴَوْ یُخْرِجُوکَ وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللهُ وَاللهُ خَیْرُ الْمٰاکِرِیْنَ>[23]

    اور (اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب کفار تم سے فریب کر رھے تھے تاکہ تم کوقید کرلیں یاتم کومار ڈالیں یا تمھیں (گھر سے) باہر نکال دیں وہ تو یہ تدبیر کر رھے تھے اور خدا بھی (ان کے خلاف) تدبیر کر رہا تھا اور خدا تو سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر ھے۔

قریش کے سرداروں نے یہ طے کیا کہ ہر قبیلے سے ایک شخص کو چنا جائے اور پھر یہ منتخب افراد نصف شب میں یکبارگی محمد (صلی الله علیه و آله و سلم)کے گھر پر حملہ کریں اور انھیں ٹکڑے ٹکڑے کردیں اور اس طرح سے مشرکین بھی ان کی تبلیغ اور دعوت حق سے سکون پا جائیں گے اور ان کا خون پورے عرب کے قبیلوں میں پھیل جائے گا۔ اور بنی ہاشم کا خاندان ان تمام قبیلوں سے جو اس خون کے بہانے میں شامل تھے جنگ و جدال نھیں کرسکتے، فرشتہٴ وحی نے پیغمبر(ص)  کو مشرکوں کے اس برے ارادے سے باخبر کیا اور حکم خدا کو ان تک پھونچایا کہ جتنی جلدی ممکن ھو مکہ کو چھوڑ کر یثرب چلے جائیں۔

ہجرت کی رات آگئی ،مکہ اور پیغمبر اسلام(ص) کا گھر رات کے اندھیروں میں چھپ گیا ،قریش کے مسلح سپاھیوں نے چاروں طرف سے پیغمبر(ص)کے گھر کا محاصرہ کرلیا اس وقت پیغمبر(ص)  کے لئے ضروری تھا کہ گھر کو چھوڑ کر نکل جائیں اور اس طرح سے جائیں کہ لوگ یھی سمجھیں کہ پیغمبر گھر میں موجود ھیں اور اپنے بستر پر آرام فرما رھے ھیں۔ لیکن اس کام کے لئے ایک ایسے بہادر اور جانباز شخص کی ضرورت تھی جو آپ کے بستر پر سوئے اور پیغمبر کی سبز چادر کو اس طرح اوڑھ کر سوئے کہ جو لوگ قتل کرنے کے ارادے سے آئیں وہ یہ سمجھیں کہ پیغمبر ابھی تک گھر میں موجود ھیں اور ان کی نگاھیں صرف پیغمبر کے گھر پر رھے اور گلی کوچوں اور مکہ سے باہر آنے جانے والوں پر پابندی نہ لگائیں ، لیکن ایسا کون ھے جو اپنی جان کو نچھاور کرے اور پیغمبر کے بستر پر سو جائے؟ یہ بہادر شخص وھی ھے جو سب سے پھلے آپ پر ایمان لایا اور ابتدائے بعثت سے ھی اس شمع حقیقی کا پروانہ کی طرح محافظ رہا، جی ہاں یہ عظیم المرتبت انسان حضرت علی (ع) کے علاوہ کوئی اور نہ تھا اور یہ افتخار بھی اسی کے حصہ میں آیا، یھی وجہ ھے کہ پیغمبر نے حضرت علی  -کومخاطب کرتے ھوئے فرمایا: مشرکین قریش مجھے قتل کرنا چاہتے ھیںاور ان کا یہ ارادہ ھے کہ یک بارگی مل جل کر میرے گھر پر حملہ کریںاور مجھے بستر پر ھی قتل کردیں۔ خداوند عالم نے مجھے حکم دیا ھے کہ میں مکہ سے ہجرت کرجاوٴں ۔اس لئے ضروری ھے کہ آج کی شب تم میرے بستر پر سبز چادر کواوڑھ کر سوجاوٴ تاکہ وہ لوگ یہ تصور کریں کہ میںابھی بھی گھر میں موجود ھوں اور اپنے بستر پر سو رہا ھوںاور یہ لوگ میرا پیچھا نہ کریں۔ حضرت علی پیغمبر کے حکم کی اطاعت کرتے ھوئے ابتداء شب سے پیغمبر اسلام کے بستر پر سوگئے۔

چالیس آدمی ننگی تلواریں لئے ھوئے رات بھر پیغمبر(ص) کے گھر کا محاصرہ کئے رھے اور دروازے کے جھروکوں سے گھر کے اندر نگاھیں جمائے تھے اور گھر کے حالات کا سرسری طور پر جائزہ لے رھے تھے ، ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ خود پیغمبر اپنے بستر پر آرام کر رھے ھیں۔ یہ جلاد صفت انسان مکمل طریقے سے گھر کے حالات پر قبضہ جمائے تھے اور کوئی چیز بھی ان کی نگاھوںسے پوشیدہ نھیں تھی۔

اب دیکھنا یہ ھے کہ دشمنوں کے اتنے سخت پہروںکے باوجود پیغمبر کس طرح سے اپنے گھر کو چھوڑ کر ہجرت کر گئے۔ بہت سے مؤرخین کا نظریہ ھے کہ پیغمبر اکرم جب گھر سے نکلے تو سورہٴ یٰسن کی تلاوت کر رھے تھے۔[24]

اور محاصرین کی صفوں کوتوڑتے ھوئے ان کے درمیان سے اس طرح نکلے کہ کسی کو بھی احساس تک نہ ھوا ۔یہ بات قابل انکار نھیںھے کہ مشیت الھی جب بھی چاھے پیغمبر کو بطور اعجاز اور غیر عادی طریقے سے نجات دے، کوئی بھی چیزاس سے منع نھیں کرسکتی۔ لیکن یہاں پر بات یہ ھے کہ بہت زیادہ قرینے اس بات کی حکایت کرتے ھیںکہ خدا اپنے پیغمبر کو معجزے کے ذریعے سے نجات نھیں دینا چاہتاتھا کیونکہ اگر ایسا ھو تا تو ضروری نھیں تھاکہ حضرت علی پیغمبر کے بستر پر سوتے اور خود پیغمبر غار ثور میں جاتے اور پھر بہت زیادہ زحمت و مشقت کے ساتھ مدینے کا راستہ طے کرتے۔

بعض مؤرخین کہتے ھیں کہ جس وقت پیغمبر اپنے گھر سے نکلے اس وقت تمام دشمن سورھے تھے اور پیغمبر ان کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر چلے گئے، لیکن یہ نظریہ حقیقت کے برخلاف ھے، کیونکہ کوئی بھی عقلمند انسان یہ قبول نھیں کرسکتاکہ چالیس جلاد صفت انسانوںنے گھر کا محاصرہ صرف اس لئے کیاتھا کہ پیغمبر گھر سے باہر نہ جاسکیں تاکہ مناسب وقت اور موقع دیکھ کر انھیں قتل کریں اور وہ لوگ اپنے وظیفے کواتنا نظر انداز کردیں کہ سب کے سب سے آرام سے سوجائیں۔

لیکن بعیدنھیںھے جیساکہ بعض لوگوں نے لکھا ھے کہ پیغمبر محاصرین کے درمیان سے ھوکر نکلے تھے۔[25]

خانہٴ وحی پر حملہ

قریش کے سپاھی اپنے ہاتھوں کوقبضہٴ تلوار پر رکھے ھوئے اس وقت کے منتظر تھے کہ سب کے سب اس خانہء وحی پر حملہ کریں اور پیغمبر کو قتل کردیں جو بستر پر آرام کر رھے ھیں ۔وہ لوگ دروازے کے جھروکے سے پیغمبر کے بستر پر نگاہ رکھے تھے اور بہت زیادہ ھی خوشحال تھے اوراس فکر میںغرق تھے کہ جلدی ھی اپنی آخری آرزوٴں تک پھونچ جائیں گے،مگر علی علیہ السلام بڑے اطمینان و سکون سے پیغمبر کے بستر پر سو رھے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خداوند عالم نے اپنے حبیب، پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم)کودشمنوں کے شر سے نجات دیا ھے۔ دشمنوں نے پھلے یہ ارادہ کیاتھا کہ آدھی رات کو پیغمبر کے گھر پر حملہ کریں گے لیکن کسی وجہ سے اس

ارادے کوبدل دیا اور یہ طے کیا کہ صبح کو پیغمبر کے گھر میں داخل ھوں گے اور اپنے مقصد کی تکمیل کریں گے، رات کی تاریکی ختم ھوئی اور صبح صادق نے افق کے سینے کو چاک کیا۔ دشمن برہنہ تلواریں لئے ھوئے یکبارگی پیغمبر کے گھر پر حملہ آور ھوئے اوراپنی بڑی اوراھم آرزووٴں کی تکمیل کی خاطر بہت زیادہ خوشحال پیغمبر کے گھر میں وارد ھوئے، لیکن جب پیغمبر کے بستر کے پاس پھونچے تو پیغمبر کے بجائے حضرت علی علیه السلام کوان کے بستر پر پایا ،ان کی آنکھیں غصے سے لال ھوگئیں اور تعجب نے انھیں قید کرلیا ۔حضرت علی  -کی طرف رخ کر کے پوچھا: محمد (صلی الله علیه و آله و سلم)کہاںھیں؟

آپ نے فرمایا: کیاتم لوگوںنے محمد (صلی الله علیه و آله و سلم)کو میرے حوالے کیا تھا جو مجھ سے طلب کر رھے ھو؟

اس جواب کو سن کر غصے سے آگ بگولہ ھوگئے اور حضرت علی پر حملہ کردیااور انھیں مسجد الحرام لے آئے، لیکن تھوڑی جستجو وتحقیق کے بعد مجبور ھوکر آپ کوآزاد کردیا، وہ غصے میں بھنے جارھے تھے،اور ارادہ کیا کہ جب تک پیغمبر کو قتل نہ کرلیں گے آرام سے نہ بیٹھیں گے۔[26]

قرآن مجیدنے اس عظیم اور بے مثال  فداکاری کو ھمیشہ اور ہر زمانے میں باقی رکھنے کے سلسلے میں حضرت علی  -کی جانبازی کو سراہا ھے اور انھیں ان افراد میں شمار کیا ھے جو لوگ خدا کی مرضی کی خاطر اپنی جان تک کونچھاور کردیتے ھیں:

<وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہ٘ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ رَوٴفٌ بِالْعِبٰادِ>

اور لوگوں میں سے خدا کے بندے کچھ ایسے ھیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ھیں اور خدا ایسے بندے پر بڑا ھی شفقت والاھے۔ [27]

بنی امیہ کے زمانے کے مجرم

بہت سارے مفسرین نے اس آیت کی شان نزول کو ”لیلة المبیت“ سے مخصوص کیا ھے اور کہا ھے کہ یہ آیت حضرت علی  -کے بارے میں اسی مناسبت سے نازل ھوئی ھے۔[28]

سمرہ بن جندب، بنی امیہ کے زمانے کا بدترین مجرم صرف چار لاکھ درھم کی خاطر اس بات پر راضی ھوگیا کہ اس آیت کے نزول کو حضرت علی علیه السلام کی شان میں بیان نہ کر کے لوگوں کے سامنے اس سے انکار کردے اور مجمع عام میں یہ اعلان کردے کہ یہ آیت عبد الرحمن بن ملجم کی شان میں نازل ھوئی ھے ۔اس نے صرف اتنا ھی نھیں کیا کہ اس آیت کو علی  -کے بارے میں نازل ھونے سے انکار کیا، بلکہ ایک دوسری آیت جو منافقوں کے بارے میں نازل ھوئی تھی اس کو حضرت علی  -سے مخصوص کردیا[29] کہ یہ آیت ان کی شان میں نازل ھوئی ھے وہ آیت یہ ھے:

<وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یُعْجِبُکَ قَوْلُہُ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیُشْہِدُ اللهَ عَلَی مَا فِی قَلْبِہِ وَہُوَ اٴَلَدُّ الْخِصَامِ>[30]

اے رسول: بعض لوگ (منافقین سے ایسے بھی ھیں) جن کی (چکنی چپڑی) باتیں (اس ذراسی) دنیوی زندگی میں تمھیں بہت بھاتی ھیںاو روہ اپنی دلی محبت پر خدا کو گواہ مقرر کرتے ھیں ۔ حالانکہ وہ (تمہارے) دشمنوںمیں سب سے زیادہ جھگڑالو ھےں۔

    اس طرح سے حقیقت پر پردہ ڈالنا اور تحریف کرنا ایسے مجرم سے کوئی بعیدنھیںھے ۔وہ عراق میں ابن زیاد کی حکومت کے وقت بصرہ کا گورنر تھا، اور خاندان اھلبیت سے بغض و عداوت رکھنے کی وجہ سے ۸ ہزار آدمیوں کو صرف اس جرم میں قتل کر ڈالا تھاکہ وہ علی  -کی ولایت و دوستی پر زندگی بسر کر رھے تھے۔ جب ابن زیاد نے اس سے باز پرس کی کہ تم نے کیوں اور کس بنیاد پر اتنے لوگوںکو قتل کر ڈالا، کیا تو نے اتنا بھی نہ سوچا کہ ان میں سے بہت سے افراد بے گناہ بھی تھے، اس نے بہت ھی تمکنت سے جواب دیا ”لو قتلت مثلھم ما خشیت“ میں اس سے دو برابر قتل کرنے میں بھی کوئی جھجھک محسوس نھیں کرتا۔ [31]

سمرہ کے شرمناک کارناموں کا تذکرہ یہاں پر ممکن نھیںھے ،کیونکہ یہ وھی شخص ھے جس نے پیغمبر اسلام کا حکم ماننے سے انکار کردیا آپ نے فرمایا: جب بھی اپنے کھجور کے پیڑ کی شاخیں صحیح کرنے کے لئے کسی کے گھر میں داخل ھو تو ضروری ھے کہ صاحب خانہ سے اجازت لے، لیکن اس نے ایسا نھیں کیا یہاں تک کہ پیغمبر اس درخت کو بہت زیادہ قیمت دیکر خریدنا چاہ رھے تھے پھر بھی اس نے پیغمبر کے ہاتھ نھیں بیچا اور کہا کہ اپنے درخت کی دیکھ بھال کے لئے کبھی بھی اجازت نھیں لے گا۔

    اس کی ان تمام باتوں کو سن کر پیغمبر نے صاحب خانہ کو حکم دیا کہ جاوٴ اس شخص کے درخت کو جڑ سے اکھاڑ کر دور پھینک دو۔ اور سمرہ سے کہا: ”انک رجل مضار و لا ضرر و لاضرار“یعنی تو لوگوںکونقصان پھونچاتا ھے اور اسلام نے کسی کو یہ حق نھیں دیا کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو نقصان پھونچائے، جی ہاں، یہ چند روزہ تحریف سادہ مزاج انسانوںپربہت کم اثر انداز ھوئی، لیکن کچھ ھی زمانہ گذرا تھا کہ تعصب کی چادریں ہٹتی گئیں اور تاریخ اسلام کے محققین نے شک و شبہات کے پردے کو چاک کرکے حقیقت کوواضح و روشن کردیاھے اور محدثین ومفسرین قرآن نے ثابت کردیا کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ھوئی ھے، یہ تاریخی واقعہ اس بات پر شاہد ھے کہ شام کے لوگوں پر اموی حکومت کی تبلیغ کا اثر اتنا زیادہ ھوچکا تھا کہ جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی بات سنتے تو اس طرح یقین کرلیتے گویالوح محفوظ سے بیان ھو رھی ھے، جب شام کے افراد سمرہ بن جندب جیسے کی باتوں کی تصدیق کرتے تھے تو اس سے صاف ظاہر ھوتا ھے کہ وہ لوگ تاریخ اسلام سے ناآشنا تھے، کیونکہ جس وقت یہ آیت نازل ھوئی اس وقت عبدالرحمن پیدا بھی نہ ھوا تھا اور اگر پیدا ھو بھی گیا تھا تو کم از کم حجاز کی زمین پر قدم نہ رکھا تھا اور پیغمبر کو نھیں دیکھا تھا کہ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ھوتی۔

ناروا تعصب

حضرت علی  -کی فداکاری، اس رات جب کہ پیغمبر کے گھر کو قریش کے جلادوںنے محاصرہ کیا تھا ایسی چیز نھیںھے جس سے انکار کیا جاسکے یا اسے معمولی سمجھا جائے۔

خداوند عالم نے اس تاریخی واقعے کو ھمیشہ باقی رکھنے کے لئے قرآن مجید کے سورہٴ بقرہ آیت ۲۰۷ میںاس کا تذکرہ کیا ھے اور بزرگ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر کرتے ھوئے بیان کیا ھے کہ یہ آیت حضرت علی  -کی شان میں نازل ھوئی ھے ۔لیکن حضرت علی علیه السلام سے بغض و عداوت اور کینہ رکھنے والوںنے پوری کوشش وطاقت سے اس بات کی کوشش کی کہ اس بزرگ اور عظیم تاریخی فضیلت کی اس طرح سے تفسیر کی جائے کہ حضرت علی علیه السلام کی عظیم و بے مثال قربانی کی کوئی فضیلت باقی نہ رھے۔

جاحظ، اھلسنت کا ایک مشھور ومعروف دانشمند لکھتا ھے :

علی  -کا پیغمبر کے بستر پرسونا ہرگز اطاعت اور بزرگ فضیلت شمار نھیں ھوسکتی، کیونکہ پیغمبر نے انھیں اطمینان دلایاتھا اگر میرے بستر پر سوجاوٴ گے توتمھیں کوئی تکلیف ونقصان نھیں پھونچے گا۔[32]

اس کے بعد ابن تیمیہ دمشقی [33]نے اس میں کچھ اور اضافہ کیاھے کہ علی علیه السلام کسی اور طریقے سے جانتے تھے کہ میں قتل نھیں ھوسکتا، کیونکہ پیغمبر نے ان سے کہا تھا کہ کل مکہ کے ایک معین مقام پر اعلان کرناکہ جس کی بھی امانت محمد (صلی الله علیه و آله و سلم)کے پاس ھے آکر اپنی امانت واپس لے جائے۔ علی اس ماموریت کوجو پیغمبر نے انھیں دیا تھا ،سے خوب واقف تھے کہ اگر پیغمبر کے بستر پر سووٴں گا تو مجھے کوئی بھی ضرر نھیں پھونچے گا اور میری جان صحیح و سالم بچ جائے گی۔

جواب

اس سے پھلے کہ اس موضوع کے متعلق بحث کریں ایک نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے اور وہ یہ کہ جاحظ اور ابن تیمیہ اور ان دونوں کے ماننے والوں نے جوخاندان اھلبیت سے عداوت رکھنے میں مشھور ھیں، علی علیه السلام کی اس فضیلت سے انکار کرنے کی وجہ سے غیر شعوری طور پر بڑی فضیلت کوحضرت علی علیه السلام کے لئے ثابت کیا ھے ،کیونکہ حضرت علی پیغمبر کی طرف سے مامور تھے کہ ان کے بستر پر سوجائیں، ایمان کے اعتبار سے یہ بات دوحالتوں سے خارج نھیں ھے ،یاان کا ایمان پیغمبر کی صداقت پر ایک حد تک تھا یا وہ بغیر چون و چرا پیغمبر کی ہر بات پر ایمان رکھتے تھے۔ پھلی صورت میںھم یہ نھیں کہہ سکتے کہ حضرت علی کو اپنی جان و سلامتی کے باقی رہنے کا قطعی طور پر علم تھا ۔کیونکہ جو شخص ایمان وعقیدے کے اعتبار سے ایک عام مرتبہ پرفائز ھو، ہرگز پیغمبر کی گفتار سے یقین واعتماد حاصل نھیں کرسکتا ،اور اگر ان کے بستر پر سوجائے توبہت زیادہ ھی فکر مند اور مضطرب رھے گا۔

لیکن اگر حضرت علی علیه السلام ایمان کے اعتبار سے عالی ترین مرتبہ پر فائز تھے اور پیغمبر کی گفتگو کی سچائیان کے دل ودماغ پر سورج کی روشنی کی طرح واضح وروشن تھی توایسی صورت میںحضرت علی  -کے  لئے بہت بڑی فضیلت کوثابت کیا ھے۔ کیونکہ جب بھی کسی شخص کا ایمان اس بلندی پر پھونچ جائے کہ جوکچھ بھی پیغمبر سے سنے اسے صحیح اور سچا مانے کہ وہ اس کے لئے روز روشن کی طرح ھو اور اگر پیغمبر اس سے کھےں کہ میرے بستر پر سوجاوٴ تواسے کوئی نقصان نہ پھونچے گا تووہ بستر پر اتنے اطمینان اور آرام سے سوئے کہ اسے ایک سوئی کی نوک کے برابر بھی خطرہ محسوس نھیںھوتو ایسی فضیلت کی کوئی بھی چیز برابری نھیں کرسکتی۔

آئیے اب تاریخ کے اوراق پلٹتے ھیں

ابھی تک ھماری بحث اس بات پر تھی کہ پیغمبر نے حضرت علی  -سے کہا کہ تم قتل نہ ھوگے۔ لیکن اگر ھم تاریخ کا مطالعہ کریں تومعلوم ھوگاکہ بات ایسی نھیںھے جیسا کہ جاحظ اور ابن تیمیہ کے ماننے والوں نے گمان کیا ھے اور تمام مؤرخین نے اس واقعہ کواس طرح نقل نھیں کیا ھے جیساکہ ان دونوںنے لکھا ھے:

طبقات کبریٰ [34] کے مؤلف نے واقعہٴ ہجرت کو تفصیل سے ذکر کیاھے اور جاحظ کے اس جملے کو(کہ پیغمبر نے علی سے کہا کہ میرے بستر پر سوجاوٴ تمھیں کوئی نقصان نھیں پھونچے گا) ہرگز تحریر نھیں کیا ھے۔

    نہ صرف یہ بلکہ مقریزی نویں صدی کا مشھور مؤرخ [35] اس نے اپنی مشھور کتاب       ”امتاع الاسماع“ میں بھی کاتب واقدی کی طرح اس واقعے کا تذکرہ کیا ھے اور اس بات سے انکار کیاھے کہ پیغمبر نے علی علیه السلام سے کہا ”کہ تمھیں کوئی نقصان نہ پھونچے گا“

جی ہاں۔ انھی افراد کے درمیان ابن ہشام نے اپنی کتاب سیرت ج۱ ص ۴۸۳ پراور طبری نے اپنی کتاب تاریخ طبری ج۲ ص۹۹ پر اس کا تذکرہ کیاھے اور اسی طرح ابن اثیر نے اپنی کتاب تاریخ کامل  ج۲ ص ۳۸۲ پراس کے علاوہ اور بھی بہت سے مؤرخین نے اسے نقل کیا ھے ان تمام مؤرخین نے سیرہٴ ابن ہشام یاتاریخ طبری سے نقل کیا ھے۔

اس بنا ء پر عقل اس بات کو قبول نھیں کرتی کہ پیغمبر نے یہ بات کھی ھے، اور اگر مان لےں کہ پیغمبر نے یہ بات کھی بھی ھے تو کسی بھی صورت سے یہ معلوم نھیںکہ ان دونوںباتوںکو (نقصان نہ پھونچنا اور لوگوںکی امانت واپس کرنا) اسی رات میں پھلی مرتبہ کہا ھو۔ اور اس کی دلیل یہ ھے کہ اس واقعے کوعلماء اور شیعہ مورخین اور بعض سیرت لکھنے والے اھلسنت نے دوسرے طریقے سے نقل کیاھے، جس کی ھم وضاحت کر رھے ھیں:

شیعوں کے مشھور و معروف دانشمند مرحوم شیخ طوسی ۺ اپنی کتاب ”امالی“ میںہجرت کا واقعہ بیان کرتے ھوئے ،جو کہ پیغمبر کی سلامتی اور نجات پر ختم ھوتا ھے، لکھتے ھیں :

شب ہجرت گزر گئی۔ اور علی  -اس مقام سے آگاہ تھے جہاں پیغمبر نے پناہ لی تھی۔ اور پیغمبر کے سفر پرجانے کے مقدمات کو فراھم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ رات میںان سے ملاقات کریں۔[36]

پیغمبر نے تین رات غار ثور میں قیام کیا، ایک رات حضرت علی  -، ہند بن ابی ہالہ غار ثور میں پیغمبر کی خدمت میں پھونچے، پیغمبر نے حضرت علی کو چند چیزوں کا حکم دیا:

    ۱۔ دواونٹ ھمارے اور ھمارے ھمسفر کے لئے مھیا کرو (اس وقت ابوبکر نے کہا: میں نے پھلے ھی سے دو اونٹ اس کام کے لئے مھیا کر لئے ھیں، پیغمبر(ص) نے فرمایا: میں اس وقت تمہارے ان دونوں اونٹوںکوقبول کروں گا جب تم ان دونوں کی قیمت مجھ سے لے لو، پھر علی کو حکم دیا کہ ان اونٹوں کی قیمت اداکردو“

۲۔ میں قریش کا امانتدار ھوں اورابھی لوگوں کی امانتیں میرے پاس گھر میں موجود ھیں، کل مکہ کے فلاںمقام پر کھڑے ھوکر بلندآواز سے اعلان کرو کہ جس کی امانت محمد (صلی الله علیه و آله و سلم)کے پاس ھے وہ آئے اور اپنی امانت لے جائے۔

۳۔ امانتیں واپس کرنے کے بعد تم بھی ہجرت کے لئے تیار رھو، اور جب بھی تمہارے پاس میرا خط پھونچے تو میری بیٹی فاطمہ اور اپنی ماں فاطمہ بنت اسد اور زبیر بن عبدالمطلب کی بیٹی فاطمہ کو اپنے ھمراہ لے آوٴ۔

پھر فرمایا: اب تمہارے لئے جو بھی خطرہ یا مشکلات تھیں وہ دور ھوگئیں ھیںاور تمھیں کوئی تکلیف نہ پھونچے گی۔[37]

یہ جملہ بھی اسی جملے کی طرح ھے جسے ابن ہشام نے سیرہٴ ہشام میں اور طبری نے تاریخ طبری میں نقل کیاھے، لہٰذا اگر پیغمبر نے حضرت علی کوامان دیاھے تو وہ بعد میں آنے والی رات کے لئے تھا نہ کہ ہجرت کی رات تھی، اور اگر حضرت علی کوحکم دیا ھے کہ لوگوں کی امانتوں کوادا کردو تووہ دوسری یا تیسری رات تھی نہ لیلة المبیت تھا۔

 اگرچہ اھلسنت کے بعض مؤرخین نے واقعہ کواس طرح نقل کیا ھے کہ پیغمبر اسلام نے شب ہجرت ھی حضرت علی علیه السلام کو امان دیا تھا اور اسی رات امانتوں کے ادا کرنے کا حکم دیا تھامگر یہ قول توجیہ کے لائق ھے کیونکہ انھوںنے صرف اصل واقعہ کونقل کیا ھے وقت اورجگہ اور امانتوں کے واپس کرنے کو وہ بیان نھیں کرنا مقصود نھیں تھا کہ جس کیوجہ سے دقیق طور پر ہر محل کا ذکر کرتے۔

حلبی اپنی کتاب ”سیرہٴ حلبیہ“ میں لکھتا ھے:

جس وقت پیغمبر غار ثور میں قیام فرما تھے توانھی راتوں میں سے کسی ایک رات حضرت علی  -، پیغمبر کی خدمت اقدس میں شرفیاب ھوئے، پیغمبر نے اس رات حضرت علی کو حکم دیا کہ لوگوں کی امانتیںواپس کردو اور پیغمبر کے قرضوں کوادا کردو۔[38]

در المنثورمیں ھے کہ علی نے شب ہجرت کے بعد پیغمبر سے ملاقات کی تھی۔[39]

امام  علیه السلام  کی فداکاری پر دو معتبر گواہ

تاریخ کی دو چیزیںاس بات پر گواہ ھیں کہ حضرت علی کا عمل، ہجرت کی شب، فداکاری کے علاوہ کچھ اور نہ تھااور حضرت علی صدق دل سے خدا کی راہ میں قتل اور شہادت کے لئے آمادہ تھے ملاحظہ کیجئے۔

    ۱۔ اس تاریخی واقعہ کی مناسبت سے جو امام علیہ السلام نے اشعار کھے ھیں اور سیوطی نے ان تمام اشعار کواپنی تفسیر[40] میںنقل کیا ھے جو آپ کی جانبازی اور فداکاری پر واضح دلیل ھے۔

وقیت بنفسی خیر من وطاٴ الحصیٰ                       و من طاف بالبیت العتیق وبالحجر

محمد لما خاف اٴن یمکروا  بہ             فوقاہ ربی ذو الجلال من المکر

و بتّ اراعیھم متی ینشروننی                   و قد وطنت نفسی علی القتل والاٴسر

میںنے اپنی جان کو روئے زمین کی بہترین اور سب سے نیک شخصیت جس نے خدا کے گھر اور حجر اسماعیل کا طواف کیا ھے اسی کے لئے سپر (ڈھال) قرار دیا ھے۔

وہ عظیم شخص محمد (صلی الله علیه و آله و سلم) ھےں اور میںنے یہ کام اس وقت انجام دیا جب کفار ان کو قتل کرنے کے لئے آمادہ تھے لیکن میرے خدا نے انھیں دشمنوں کے مکر و فریب سے محفوظ رکھا۔

میں ان کے بستر پر بڑے ھی آرام سے سویااور دشمن کے حملہ کا منتظر تھا اور خود کومرنے یا قید ھونے کے لئے آمادہ کر رکھاتھا۔

۲۔ شیعہ اور سنی مؤرخین نے نقل کیا ھے کہ خداوند عالم نے اس رات اپنے دو بزرگ فرشتوں، جبرئیل و میکائیل کومخاطب کرتے ھوئے کہا کہ اگر میں تم میں سے ایک کے لئے موت اور دوسرے کے لئے حیات مقرر کروں توتم میں سے کون ھے جوموت کو قبول کرے اوراپنی زندگی کودوسرے کے حوالے کردے؟ اس وقت دونوں فرشتوں میں سے کسی نے بھی موت کو قبول نھیں کیا اور نہ ایک دوسرے کے ساتھ فداکاری کرنے کا وعدہ کیا ۔ پھر خدا نے ان دونوں فرشتوں سے کہا : زمین پر جاوٴ اور دیکھو کہ علی  -نے کس طرح سے موت کو اپنے لئے خریدا ھے اور خود کو پیغمبر پر فدا کردیا ھے ،جاوٴ علی علیه السلام کودشمنوں کے شر سے محفوظ رکھو۔[41]

اگرچہ بعض لوگوںنے طویل زمانہ گذرنے کی وجہ سے اس عظیم فضیلت پر پردہ ڈالا ھے، مگر ابتدائے اسلام میں حضرت علی کا یہ عمل دوست اور دشمن سب کی نظر میں ایک بہت بڑی اور فدا کاری شمار کی جاتی تھی ۔

چھ آدمیوں پر مشتمل شوریٰ جو عمر کے حکم سے خلیفہ معین کرنے کے لئے بنائی گئی تھی، حضرت علی علیه السلام نے اپنی اس عظیم فضیلت کا ذکر کرتے ھوئے شرکائے شوریٰ پر اعتراض کیا اور کہا: میں تم سب کوخدا کی قسم دے کر کہتا ھوں کہ کیا میرے علاوہ کوئی اور تھا جوغار ثور میں پیغمبر کے لئے کھانا لے گیا؟

کیا میرے علاوہ کوئی ان کے بستر پر سویا؟ اورخود کوا س بلا میں ان کی سپر قرار دیا؟ سب نے ایک آواز ھوکر کہا: خدا کی قسم تمہارے علاوہ کوئی نہ تھا۔[42]

مرحوم سیدبن طاووٴس نے حضرت علی علیه السلام کی اس عظیم فداکاری کے بارے میں بہترین تحلیل کرتے ھیں اورانھیں اسماعیل کی طرح فداکار اور باپ کے سامنے راضی بہ رضا رہنے سے قیاس کرتے ھوئے حضرت علی کے ایثار کو عظیم ثابت کیاھے۔[43]


[1] اس بات کی وضاحت آخر میں ھوگی۔

[2] خدا فرماتا ھے: ”والسابقون السابقون اولئک المقربون“ سورہٴ واقعہ، آیت ۱۰ و ۱۱۔

[3] ”لایستوی منکم ۔۔۔“ سورہٴ حدید، آیت ۱۰۔

[4] اسد الغابہ، ج۲ ص ۹۹

[5] ”بعث النبی یوم الاثنین و اسلم علی (ع) یوم الثلاثاء“، مستدرک حاکم، ج۲ ص۱۱۲، الاستیعاب، ج۳ ص ۳۲

[6] ”اولکم وارداً علی الحوض اولکم اسلاما علی بن ابیطالب“، مستدرک حاکم، ج۳، ص ۱۳۶

[7] مرحوم علامہ امینی نے اس سلسلے کی تمام روایتوں اور حدیثوں کے متون اور مورخین کے اقوال کو الغدیر کی تیسری جلد ص ۱۹۱ سے ۲۱۳ پر نقل کیا ھے۔

[8] تاریخ طبری، ج۲، ص ۲۱۳، سنن ابن ماجہ، ج۱، ص ۵۷ ۔

[9] نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۱۸۷۔

[10] نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۷

[11] تاریخ طبری ج۲ص۲۱۲۔کامل ابن اثیر ج۲ ص۲۲۔ استیعاب ج۳۔ص۳۳۰و۔۔۔

[12] عقد الفرید، ج۳، ص ۴۳۔ اسحاق کے بعد جاحظ نے کتاب العثمانیہ میں اشکال کیاھے اور ابوجعفر اسکافی نے کتاب نقض العثمانیہ میں اس اعتراض کا تفصیلی جواب دیاھے اور ان تمام بحثوں کو ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح ج۱۳ ص ۲۱۸ سے ص ۲۹۵ پر لکھا ھے۔

[13] سورہٴ مریم، آیت ۳۰

[14] بطور مثال وہ مشکل سوالات جو ابوحنیفہ نے امام موسیٰ کاظم سے اور یحییٰ ابن اکثم نے امام جواد  علیه السلام سے کیے تھے۔ اور جوجوابات ان لوگوںنے سنا وہ آج بھی حدیث اور تاریخ کی کتابوںمیں محفوظ ھےں۔

[15] امیر المومنین  علیه السلام فرماتے ھیں: لَایُقٰاسُ بِآلِ مُحَمَدٍ مِنْ ہٰذِہِ الْاُمَّةِ اَحَدٌ۔ اس امت کے کسی بھی فرد کو پیغمبر اسلام کے فرزندوں اور خاندان سے موازنہ نہ کرو۔ نہج البلاغہ، خطبہ دوم

[16] سورہٴ شعراء، آیت ۲۱۶۔ ۲۱۴

[17] تفسیر سورہ شعراء آیت نمبر ۲۱۴ کی طرف رجوع کریں

[18] اس تاریخی فضیلت کو ان کتابوں نے نقل کیا ھے ، تاریخ طبری ج۲ ص ۲۱۶، تفسیر طبری ج۱۹ ص ۷۴، کامل ابن اثیر ج۲ ص ۲۴، شرح شفای قاضی عیاض ج۳ ص ۳۷، سیرہٴ حلبی ج۱ ص ۳۲۱ و ۔۔۔ اس حدیث کو تاریخ و تفسیر لکھنے والوں نے دوسرے طریقے سے بھی نقل کیا ھے جن کو ھم یہاں نقل کرنے سے پرھیز کر رھے ھیں۔

[19] تفسیر طبری، ج۱۹، ص ۷۴

[20] النقض علی العثمانیہ ص ۲۵۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۳ ص۲۴۴ و ۲۴۵، میں تذکرہ کیا ھے۔

[21] نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۲۳۸ (قاصعہ)

[22] سورہٴ حجرات، آیت ۱۵

[23] سورہٴ انفال، آیت ۳۰

[24] یہاں سورہٴ یٰسین کی آٹھویںاور نویں آیتیں مراد ھیں۔

[25] سیرہٴ حلبی ج۲ ص ۳۲

[26] تاریخ طبری ج۲ ص ۹۷

[27] سورہٴ بقرہ، آیت ۲۰۷

[28] حضرت علی کے بارے میں اس آیت کے نزول کے متعلق سید بحرینی نے اپنی کتاب تفسیر برہان (ج۱ ص ۲۰۶۔ ۲۰۷) میں تحریر کیا ھے۔ مرحوم بلاغی نے اپنی کتاب تفسیر آلاء الرحمان ، ج۱ ص ۱۸۵۔ ۱۸۴، میں نقل کیاھے۔ مشھور شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید کہتا ھے کہ مفسرین نے اس آیت کے نزول کو حضرت علی کے بارے میں نقل کیا ھے (مراجعہ کریں ج۱۳ ص ۲۶۲)

[29] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص ۷۳

[30] سورہٴ بقرہ، آیت ۲۰۴

[31] تاریخ طبری ج۲سن ۵۰، ہجری کے واقعات

[32] العثمانیہ، ص ۴۵

[33] ابن تیمیہ علمائے اسلام سے مخالفت رکھتا تھااورایک خاص عقیدہ ، شفاعت، قبروںکی زیارت و۔۔۔ کے متعلق رکھتا تھااس لئے علمائے وقت نے اسے چھوڑ دیاتھا اور آخر کار شام کے زندان میں ۷۲۸ ہجری میں اس کا انتقال ھوگیا۔

[34] محمد بن سعد جوکاتب واقدی کے نام سے مشھور ھے ۱۶۸ ہجری میں پیدا ھوئے اور ۲۳۰ ہجرت میں دنیا سے رخصت ھوئے ان کی کتاب طبقات جامع ترین اور سب سے اھم کتاب ھے جو سیرت پیغمبر پر لکھی گئی ھے ج۱ ص ۲۲۸ پر رجوع کرسکتے ھیں

[35] تقی الدین احمد بن علی مقریزی (وفات ۸۴۵ ہجری)

[36] اعیان الشیعہ ج۱ ص۲۳۷

[37] پیغمبر کی عبارت یہ ھے:

 ”انھم لن یصلوا الیک من الآن بشیء تکرہہ“

[38] سیرہٴ حلبی، ج۲، ص ۳۷۔ ۳۶

[39] سیرہٴ حلبی، ج۲، ص ۳۷۔ ۳۶

[40] الدر المنثور، ج۳، ص ۱۸۰

[41] بحار الانوار ج۱۹ ص ۳۹ ، احیاء العلوم غزالی

[42] خصال صدوق ج۲ ص۱۲۳، احتجاج طبرسی ص ۷۴

[43] رجوع کریں اقبال ص ۵۹۳، بحار الانوار ج۱۹ ص ۹۸