چند قریشیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو آزمانا چاھا،اس مقصد کے لئے انهوں نے مدینے کے یهودیوں کے مشورے سے تین مسئلے پیش کیے۔ ایک اصحاب کہف کے بارے میں تھا۔ دوسرا مسئلہ روح کا تھا اور تیسرا ذوالقرنین کے بارے میں ۔ذوالقرنین کی داستان ایسی ھے کہ جس پر طویل عرصے سے فلاسفہ اور محققین غور و خوض کرتے چلے آئے ھیں اور ذوالقرنین کی معرفت کے لئے انهوں نے بہت کوشش کی ھے۔
اس سلسلے میں پھلے ھم ذوالقرنین سے مربوط جو قرآن میں بیان هوا ھے وہ بیان کرتے ھیں۔کیونکہ تاریخی تحقیق سے قطع نظر ذوالقرنین کی ذات خود سے ایک بہت ھی تربیتی درس کی حامل ھے اور اس کے بہت سے قابل غور پھلو ھیں۔اس کے بعد ذوالقرنین کی شخصیت کو جاننے کے لئے ھم آیات،روایات اورموٴرخین کے اقوال کا جائزہ لیںگے۔
دوسرے لفظوں میں پھلے ھم اس کی شخصیت کے بارے میں گفتگو کریں گے اور پھلا موضوع وھی ھے جو قرآن کی نظر میں اھم ھے۔ اس سلسلے میں قرآن کہتا ھے:”تجھ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ھیں:کہہ دو عنقریب اس کی سرگزشت کا کچھ حصہ تم سے بیان کروںگا“۔[1]
بھر حال یھاں سے معلوم هوتاھے کہ لوگ پھلے بھی ذوالقرنین کے بارے میں بات کیا کرتے تھے۔البتہ اس سلسلے میں ان میں اختلاف اور ابھام پایا جاتا تھا۔ اسی لئے انهوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ضروری وضاحتیں چاھیں۔
اس کے بعد فرمایا گیا ھے:”ھم نے اسے زمین پر تمکنت عطا کی(قدرت،ثبات قوت اور حکومت بخشی)۔اور ھر طرح کے وسائل اور اسباب اس کے اختیار میں دیئے۔اس نے بھی ان سے استفادہ کیا۔یھاں تک کہ وہ سورج کے مقام غروب تک پہنچ گیا۔وھاں اس نے محسوس کیا کہ سورج تاریک اور کیچڑ آلود چشمے یا دریامیںڈوب جاتا ھے“۔[2][3]
وھاں اس نے ایک قوم کو دیکھا (کہ جس میں اچھے برے ھر طرح کے لوگ تھے)”تو ھم نے ذوالقرنین سے کھا:کہ تم انھیں سزادینا چاهوگے یا اچھی جزا“۔[4]
ذوالقرنین نے کھا:”وہ لوگ کہ جنهوں نے ظلم کیے ھیں،انھیں تو ھم سزادیںگے ۔ اور وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جائیں گے اور اللہ انھیں شدید عذاب کرے گا“۔[5]
یہ ظالم و ستمگر دنیا کا عذاب بھی چکھیں گے اور آخرت کا بھی۔
”اور رھا وہ شخص کہ جو باایمان ھے اور عمل صالح کرتا ھے اسے اچھی جزاء ملے گی۔اور اسے ھم آسان کام سونپیں گے“۔[6]
اس سے بات بھی محبت سے کریں گے اور اس کے کندھے پر سخت ذمہ داریاں بھی نھیں رکھیں گے اور اس سے زیادہ خراج بھی وصول نھیں کریںگے۔
ذوالقرنین کے اس بیان سے گویا یہ مراد تھی کہ توحید پرایمان اور ظلم و شرک اور برائی کے خلاف جدوجہد کے بارے میں میری دعوت پر لوگ دوگروهوں میں تقسیم هوجائیں گے۔ایک گروہ تو ان لوگوں کا هوگا جو اس الٰھی تعمیری پروگرام کو مطمئن هوکر تسلیم کرلیں گے انھیں اچھی جزا ملے گی اور وہ آرام و سکون سے زندگی گزاریں گے جبکہ دوسرا گروہ ان لوگوں کا هوگا جو اس دعوت سے دشمنی پر اتر آئیں گے اور شرک و ظلم اور برائی کے راستے پر ھی قائم رھیں گے انھیں سزادی جائے گی۔
ذوالقرنین نے اپنا مغرب کا سفر تمام کیا اور مشرق کی طرف جانے کا عزم کیا اور جیسا کہ قرآن کہتا ھے:”جو وسائل اس کے اختیار میں تھے اس نے ان سے پھر استفادہ کیا۔اور اپنا سفر اسی طرح جاری رکھا یھاں تک کہ سورج کے مرکز طلوع تک جاپہنچا ۔وھاں اس نے دیکھا سورج ایسے لوگوں پرطلوع کررھا ھے کہ جن کے پاس سورج کی کرنوں کے علاوہ تن ڈھاپنے کی کوئی چیز نھیں ھے“۔[7]
یہ لوگ بہت ھی پست درجے کی زندگی گزارتے تھے یھاں تک کہ برہنہ رہتے تھے یا بہت ھی کم مقدار لباس پہنتے تھے کہ جس سے ان کا بدن سورج سے نھیں چھپتا تھا۔[8]
جی ھاں!ذوالقرنین کا معاملہ ایسا ھی ھے اور ھم خوب جانتے ھیں کہ اس کے اختیار میں(اپنے اہداف کے حصول کے لئے)کیا وسائل تھے۔[9]
بعض مفسرین نے یھاں یہ احتمال ذکر کیا ھے کہ یہ جملہ ذوالقرنین کے کاموں اور پروگراموں میں اللہ کی ہدایت کی طرف اشارہ ھے۔
قرآن میں حضرت ذوالقرنین(ع) کے ایک اور سفر کی طرف اشارہ کرتے هوئے فرمایا گیا ھے:
”اس کے بعد اس نے حاصل وسائل سے پھر استفادہ کیا“۔[10]
”اور اس طرح اپنا سفر جاری رکھا یھاں تک کہ وہ دوپھاڑوں کے درمیان پہنچا وھاں ان دوگروهوں سے مختلف ایک اور گروہ کو دیکھا۔ یہ لوگ کوئی بات نھیں سمجھتے تھے“۔[11]
یہ اس طرف اشارہ ھے کہ وہ کوہستانی علاقے میں جاپہنچے۔مشرق اور مغرب کے علاقے میں وہ جیسے لوگوں سے ملے تھے یھاں ان سے مختلف لوگ تھے،یہ لوگ انسانی تمدن کے اعتبار سے بہت ھی پسماندہ تھے کیونکہ انسانی تمدن کی سب سے واضح مظھر انسان کی گفتگو ھے۔[12]
اس وقت یہ لوگ یاجوج ماجوج نامی خونخوار اور سخت دشمن سے بہت تنگ اور مصیبت میںتھے۔ ذوالقرنین کہ جو عظیم قدرتی وسائل کے حامل تھے،ان کے پاس پہنچے تو انھیں بڑی تسلی هوئی ۔انهوں نے ان کا دامن پکڑلیا اور”کہنے لگے:اے ذوالقرنین!یاجوج ماجوج اس سرزمین پر فساد کرتے ھیں۔کیا ممکن ھے کہ خرچ آپ کو ھم دے دیںاور آپ ھمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادیں“۔[13]
وہ ذوالقرنین کی زبان تو نھیں سمجھتے تھے اس لئے هوسکتا ھے یہ بات انهوں نے اشارے سے کی هو یا پھر ٹوٹی پھوٹی زبان میں اظھار مدعا کیا هو۔[14]
بھر حال اس جملے سے معلوم هوتا ھے کہ ان لوگوں کی اقتصادی حالت اچھی تھی لیکن سوچ بچار، منصوبہ بندی، اور صنعت کے لحاظ سے وہ کمزور تھے۔لہٰذا وہ اس بات پر تیار تھے کہ اس اھم دیوار کے اخراجات اپنے ذمہ لے لیں، اس شرط کے ساتھ ذوالقرنین نے اس کی منصوبہ بندی اور تعمیر کی ذمہ داری قبول کرلیں۔
اس پر ذوالقرنین نے انھیں جواب دیا:”یہ تم نے کیا کھا؟اللہ نے مجھے جو کچھ دے رکھا ھے،وہ اس سے بہتر ھے کہ جو تم مجھے دینا چاہتے“۔[15]
اور میں تمھاری مالی امداد کا محتاج نھیں هوں۔
”تم قوت و طاقت کے ذریعے میری مدد کرو تا کہ میں تمھارے اور ان دو مفسد قوموں کے درمیان مضبوط اور مستحکم دیوار بنادوں“۔[16]
پھر ذوالقرنین نے حکم دیا:”لوھے کی بڑی بڑی سلیں میرے پاس لے آؤ“۔[17]
جب لوھے کی سلیں آگئیں تو انھیں ایک دوسرے پر چننے کا حکم دیا”یھاں تک کہ دونوں پھاڑوں کے درمیان کی جگہ پوری طرح چھپ گئی“۔[18]
تیسرا حکم ذوالقرنین نے یہ دیا کہ آگ لگانے کا مواد (ایندھن وغیرہ)لے آؤ اور اسے اس دیوار کے دونوں طرف رکھ دو اور اپنے پاس موجود وسائل سے آگ بھڑکاؤ اور اس میں دھونکو یھاں تک کہ لوھے کی سلیں انگاروں کی طرح سرخ هوکر آخر پگھل جائیں۔[19]
درحقیقت وہ اس طرح لوھے کے ٹکڑوں کو آپس میں جوڑکر ایک کردینا چاہتے تھے۔ یھی کام آج کل خاص مشینوں کے ذریعے انجام دیا جاتا ھے، لوھے کی سلوں کو اتنی حرارت دی گئی کہ وہ نرم هوکر ایک دوسرے سے مل گئیں۔
پھر ذوالقرنین نے آخری حکم دیا:”کھا کہ پگھلا هوا تانبا لے آؤ تاکہ اسے اس دیوار کے اوپرڈال دوں“۔[20]
اس طرح اس لوھے کی دیوار پر تانبے کا لیپ کرکے اسے هوا کے اثر سے اور خراب هونے سے محفوظ کردیا۔بعض مفسرین نے یہ بھی کھا ھے کہ موجودہ سائنس کے مطابق اگر تانبے کی کچھ مقدار لوھے میں ملادی جائے تو اس کی مضبوطی بہت زیادہ هوجاتی ھے۔ ذوالقرنین چونکہ اس حقیقت سے آگاہ تھے اس لئے انهوں نے یہ کام کیا۔آخر کار یہ دیوار اتنی مضبوط هوگئی کہ اب وہ مفسد لوگ نہ اس کے اوپر چڑھ سکتے تھے اور نہ اس میں نقب لگا سکتے تھے۔[21]
یھاں پرذوالقرنین نے بہت اھم کا م انجام دیا تھا۔مستکبرین کی روش تو یہ ھے کہ ایسا کام کرکے وہ بہت فخر وناز کرتے ھیں یا احسان جتلاتے ھیں لیکن ذوالقرنین چونکہ مرد خدا تھے۔
” لہٰذا انتھائی ادب کے ساتھ کہنے لگے:یہ میرے رب کی رحمت ھے“۔[22]
اگر میرے پاس ایسا اھم کام کرنے کے لئے علم و آگاھی ھے تو یہ خدا کی طرف سے ھے اور اگر مجھ میں کوئی طاقت ھے اور میں بات کرسکتا هوں تو وہ بھی اس کی طرف سے ھے اور اگر یہ چیزیں اور ان کا ڈھالنا میرے اختیار میں ھے تو یہ بھی پروردگار کی وسیع رحمت کی برکت ھے میرے پاس کچھ بھی میری اپنی طرف سے نھیں ھے کہ جس پر میں فخر و ناز کروں اور میں نے کوئی خاص کا م بھی نھیں کیا کہ اللہ کے بندوں پر احسان جتاتا پھروں۔ اس کے بعد مزید کہنے لگے:”یہ نہ سمجھنا کہ یہ کوئی دائمی دیوار ھے”جب میرے پروردگار کا حکم آگیا تو یہ درھم برھم هوجائے گی اور زمین بالکل ھموار هوجائے گی ،اور میرے رب کا وعدہ حق ھے“۔[23]
یہ کہہ کر ذوالقرنین نے اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ اختتام دنیا اور قیا مت کے موقع پر یہ سب کچھ درھم برھم هوجائے گا۔
جس ذوالقرنین کا قرآن مجید میں ذکر ھے،تاریخی طور پر وہ کون شخص ھے،تاریخ کی مشهور شخصیتوں میں سے یہ داستان کس پر منطبق هوتی ھے،اس سلسلے میں مفسرین کے مابین اختلاف ھے۔ اس سلسلے میں جو بہت سے نظریات پیش کیے گئے ھیں ان میں سے یہ تین زیادہ اھم ھیں۔[24]
جدید ترین نظریہ یہ ھے جو ہندوستان کے مشهور عالم ابوالکلام آزاد نے پیش کیا ھے۔ ابوالکلام آزاد کسی دور میں ہندوستان کے وزیر تعلیم تھے۔اس سلسلے میں انهوں نے ایک تحقیقی کتاب لکھی ھے۔ اس نظریہ کے مطابق ذوالقرنین،”کورش کبیر“ ”بادشاہ ہخامنشی “ھے۔[25][26]
پھلی بات تو یہ ھے کہ”ذوالقرنین“کامعنی ھے۔”دوسینگوں والا“سوال پیدا هوتا ھے کہ انھیں اس نام سے کیوں موسوم کیا گیا۔ بعض کا نظریہ ھے کہ یہ نام اس لئے پڑا کہ وہ دنیا کے مشرق و مغرب تک پہنچے کہ جسے عرب”قرنی الشمس“(سورج کے دوسینگ)سے تعبیر کرتے ھیں۔
بعض کہتے ھیں کہ یہ نام اس لئے هوا کہ انهو ںنے دوقرن زندگی گزاری یا حکومت کی۔اورپھر یہ کہ قرن کی مقدار کتنی ھے،اس میں بھی مختلف نظریات ھیں۔ بعض کہتے ھیں کہ ان کے سر کے دونوں طرف ایک خاص قسم کا ابھار تھا ا س وجہ سے ذوالقرنین مشهور هوگئے۔ آخر کار بعض کا نظریہ یہ ھے کہ ان کا خاص تاج دوشاخوں والا تھا۔
قرآن مجیدسے اچھی طرح معلوم هوتا ھے کہ ذوالقرنین ممتاز صفات کے حامل تھے ۔اللہ تعالیٰ نے کامیابی کے اسباب ان کے اختیار میں دئیے تھے،انهوں نے تین اھم لشکر کشیاں کیں۔پھلے مغرب کی طرف،پھر مشرق کی طرف اور آخر میں ایک ایسے علاقے کی طرف کہ جھاں ایک کوہستانی درہ موجود تھا، ان مسافرت میں وہ مختلف اقوام سے ملے۔ وہ ایک مرد مومن،موحد اور مھربان شخص تھے۔ وہ عدل کا دامن ھاتھ سے نھیں چھوڑتے تھے۔ اسی بناء پر اللہ کا لطف خاص ان کے شامل حال تھا۔ وہ نیکوں کے دوست او رظالموں کے دشمن تھے۔ انھیں دنیا کے مال و دولت سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ وہ اللہ پر بھی ایمان رکھتے تھے اور روز جزاء پر بھی۔ انهو ں نے ایک نھایت مضبوط دیوار بنائی ھے،یہ دیوار انهوں نے اینٹ اور پتھر کے بجائے لوھے اور تانبے سے بنائی(اور اگر دوسرے مصالحے بھی استعمال هوئے هوں تو ان کی بنیادی حیثیت نہ تھی)۔اس دیواربنانے سے ان کا مقصد مستضعف اور ستم دیدہ لوگوں کی یاجوج و ماجوج کے ظلم و ستم کے مقابلے میں مدد کرنا تھا۔
وہ ایسے شخص تھے کہ نزول قرآن سے قبل ان کا نام لوگوں میں مشهور تھا۔لہٰذا قریش اور یهودیوں نے ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا تھا، جیسا کہ قرآن کہتا ھے: ”تجھ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ھیں :“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماور ائمہ اھل بیت علیھم السلام سے بہت سی ایسی روایات منقول ھیں جن میںھے کہ: ”وہ نبی نہ تھے بلکہ اللہ کے ایک صالح بندے تھے“ ۔
بعض لوگ چاہتے ھیں کہ اسے مشهور دیوار چین پر منطبق کریں کہ جو اس وقت موجود ھے اور کئی سو کلو میٹر لمبی ھے لیکن واضح ھے کہ دیوار چین لوھے اور تانبے سے نھیں بنی ھے اور نہ وہ کسی چھوٹے کو ہستانی درے میں ھے ،وہ ایک عام مصالحے سے بنی هوئی دیوار ھے ،اورجیسا کہ ھم نے کھا ھے کئی سو کلو میٹر لمبی ھے اور اب بھی موجود ھے ۔ بعض کااصرار ھے کہ یہ وھی دیوار” ماٴرب“ ھے کہ جو یمن میں ھے ،یہ ٹھیک ھے کہ دیوار ماٴرب ایک کوہستانی درے میں بنائی گئی ھے لیکن وہ سیلاب کو روکنے کے لئے اور پانی ذخیرہ کر نے کے مقصد سے بنائی گئی ھے اور ویسے بھی وہ لوھے اور تانبے سے بنی هوئی نھیںھے۔
جب کہ علماء و محققین کی گواھی کے مطابق سرزمین ”قفقاز“ میں دریائے خزر اور دریائے سیاہ کے درمیان پھاڑوں کا ایک سلسلہ ھے کہ جو ایک دیوار کی طرح شمال اور جنوب کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ھے اس میں ایک دیوار کی طرح کا درہ کاموجود ھے جو مشهور درہ ”داریال“ ھے ،یھاں اب تک ایک قدیم تاریخی لوھے کی دیوار نظر آتی ھے ،اسی بناء پر بہت سے لوگوں کا نظریہ ھے کہ دیوار ِذوالقرنین یھی ھے ۔
یہ بات جاذب نظر ھے کہ وھیں قریب ھی ”سائرس“نامی ایک نھر موجود ھے اور ”سائرس“کا معنی ”کورش“ھی ھے (کیونکہ یونانی ”کورش“ کو”سائرس“کہتے تھے)۔ ارمنی کے قدیم آثار میں اس دیوار کو”بھاگ گورائی“کے نام سے یاد کیا گیا ھے ،اس لفظ کا معنی ھے ”درہ کورش“یا”معبر کورش“( کورش کے عبور کرنے کی جگہ) ھے یہ سند نشاندھی کرتی ھے کہ اس دیوار کا بانی ”کورش“ ھی تھا۔
[1] سورہٴ کہف آیت۸۳۔
[2] سورہٴ کہف آیت۸۴۔
[3] بعض مفسرین نے لفظ”قلنا“(ھم نے ذوالقرنین سے کھا)سے ان کی نبوت پر دلیل قرار دیا ھے لیکن یہ احتمال بھی ھے کہ اس جملے سے قلبی الھام مراد هو کہ جو غیر انبیاء میں بھی هوتا ھے لیکن اس بات کا انکار نھیں کیا جاسکتا کہ تفسیر زیادہ تر نبوت کو ظاھر کرتی ھے۔
[4] سورہٴ کہف آیت۸۶۔
[5] سورہٴ کہف آیت۸۷۔
[6] سورہٴ کہف آیت۸۸۔
[7] سورہٴ کہف آیت ۸۹۔۹۰۔
[8] بعض مفسرین نے اس احتمال کو بھی بعید قرار نھیں دیا کہ ان کے پاس رہنے کو کوئی گھر بھی نہ تھے کہ وہ سورج کی تپش سے بچ سکتے۔ اس سلسلے میں ایک اور احتمال بھی ذکر کیا گیا ھے اور وہ یہ کہ وہ لوگ ایسے بیابان میں رہتے تھے کہ جس میں کوئی پھاڑ،درخت،پناہ گاہ اور کوئی ایسی چیز نہ تھی کہ وہ سورج کی تپش سے بچ سکتے گویا اس بیابان میں ان کے لئے کوئی سایہ نہ تھا۔
[9] سورہٴ کہف آیت۹۱۔
[10] سورہٴ کہف آیت۹۲۔
[11] سورہٴ کہف آیت۹۳۔
[12] بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ھے کہ یہ مراد نھیں کہ وہ مشهور زبانوں میں سے کسی کو جانتے نھیں تھے بلکہ وہ بات کا مفهوم نھیں سمجھ سکتے تھے یعنی فکری لحاظ سے وہ بہت پسماندہ تھے۔
[13] سورہٴ کہف آیت۹۴۔
[14] یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ھے کہ هوسکتا ھے کہ ان کے درمیان مترجمین کے ذریعے بات چیت هوئی هو یا پھر خدائی الھام کے ذریعے حضرت سلیمان نے ان کی بات سمجھی هو جیسے حضرت ذوالقرنین بعض پرندوں سے بات کرلیا کرتے تھے۔
[15] سورہٴ کہف آیت ۹۵۔
[16] سورہٴ کہف آیت۹۶۔
[17] سورہٴ کہف آیت۹۶۔
[18] سورہٴ کہف آیت۹۶۔
[19] سورہٴ کہف آیت۹۶۔
[20] سورہٴ کہف آیت۹۶۔
[21] سورہٴ کہف آیت ۹۷۔
[22] سورہٴ کہف آیت۹۷۔
[23] سورہٴ کہف آیت ۹۸۔
[24] پھلا:بعض کا خیال ھے کہ”ا سکندر مقدونی“ ھی ذوالقرنین ھے۔
لہٰذا وہ اسے اسکندر ذوالقرنین کے نام سے پکارتے ھیں۔ ان کا خیال ھے کہ اس نے اپنے باپ کی موت کے بعد روم،مغرب اور مصر پر تسلط حاصل کیا۔اس نے اسکندریہ شھر بنایا۔ پھر شام اور بیت المقدس پر اقتدار قائم کیا۔وھاں سے ارمنستان گیا۔عراق و ایران کو فتح کیا۔پھر ہندوستان اور چین کا قصد کیا وھاں سے خراسان پلٹ آیا۔ اس نے بہت سے نئے شھروں کی بنیاد رکھی۔پھر وہ عراق آگیا۔ اس کے بعد وہ شھر” زور“ میں بیمار پڑا اور مرگیا۔بعض نے کھا ھے کہ اس کی عمر چھتیس سال سے زیادہ نہ تھی۔ اس کا جسد خاکی اسکندریہ لے جاکر دفن کردیا گیا۔
دوسرا:موٴرخین میں سے بعض کا نظریہ ھے کہ ذوالقرنین یمن کاایک بادشاہ تھا۔
اصمعی نے اپنی تاریخ” عرب قبل از اسلام“ میں،ابن ہشام نے اپنی مشهور تاریخ”سیرة“میں اورا بوریحان بیرونی نے”الآثار الباقیہ“میں یھی نظریہ پیش کیا ھے۔
یھاں تک کہ یمن کی ایک قوم”حمیری“کے شعراء اور زمانہٴ جاھلیت کے بعض شعراء کے کلام میں دیکھا جا سکتا ھے کہ انهوں نے ذوالقرنین کے اپنے میں سے هونے پر فخر کیا ھے۔
[25] فارسی میں اس کتاب کے ترجمے کا نام”ذوالقرنین یا کورش کبیر“ رکھا گیا ھے۔
[26] اس سلسلے میں مزید آگاھی کیلئے رجوع کریں تفسیر نمونہ جلد ۷ صفحہ ۱۹۷۔