”انطاکیہ “شام کے علاقہ کا ایک قدیم شھر ھے بعض کے قول کے مطابق یہ شھر مسیح علیہ السلام سے تین سو سال پھلے تعمیر هوا،یہ شھر قدیم زمانے میں دولت و ثروت اور علم و تجارت کے لحاظ سے مملکت ِروم کے تین بڑے شھروں میں سے ایک شمار هوتا تھا۔
شھر انطاکیہ ،حلب سے ایک سو کلو میٹر سے کچھ کم اور اسکندریہ سے تقریبا ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ھے ۔
یہ خلیفہ ثانی کے زمانہ میں ”ابو عبیدہ جراح“ کے ھاتھوں فتح هوااور رومیوں کے ھاتھوں سے نکل گیا اس میں رہنے والے لوگ عیسائی تھے انھوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا اور اپنے مذھب پر باقی رہ گئے ۔
پھلی عالمی جنگ کے بعد یہ شھر” فرانسیسیوں“ نے اسے چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اس بات کے پیش نظر کہ ان کے شام سے نکلنے کے بعد اس ملک میں هونے والے فتنہ و فساد سے عیسائیوں کو کوئی گزند نہ پہنچے، انھوں نے اسے ترکی کے حوالے کردیا۔
انطاکیہ عیسائیوں کی نگاہ میں اسی طرح دوسرا مذھبی شھر شمار هوتا ھے جس طرح مسلمانوں کی نظر میں مدینہ ھے اور ان کا پھلا شھر بیت المقدس ھے جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی دعوت کی ابتداء کی او راس کے بعد حضرت عیسیٰ (ع) پر ایمان لانے والوں میں سے ایک گروہ نے انطاکیہ کی طرف ہجرت کی اور” پولس“ اور” برنابا“ شھروں کی طرف گئے، انھوں نے لوگوں کو اس دین کی طرف دعوت دی ،یھاں سے دین عیسوی نے وسعت حاصل کی، اسی بناء پرقرآن میں اس شھر کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ گفتگو هوئی ھے۔
قرآن اس واقعہ کو بیان کرتے هوئے فرماتا ھے:
”تم ان سے بستی والوں کی مثال بیان کرو کہ جس وقت خدا کے رسول ان کی طرف آئے۔“[1]
قرآن اس اجمالی بیان کے بعد ان کے قصے کی تفصیل بیان کرتے هوئے کہتا ھے: ” وہ وقت کہ جب ھم نے دو رسولوںکو ان کی طرف بھیجا لیکن انھوں نے ھمارے رسولوں کی تکذیب کی ،لہٰذا ھم نے ان دو کی تقویت کے لئے تیسرا رسول بھیجا ،ان تینوں نے کھا کہ ھم تمھاری طرف خدا کی طرف سے بھیجے هوئے ھیں“۔[2]
اس بارے میں کہ یہ رسول کون تھے ،مفسرین کے درمیان اختلا ف ھے ،بعض نے کھا ھے کہ ان دو کے نام” شمعون “اور ”یوحنا“تھے اور تیسرے کا نام ”پولس “تھا اور بعض نے ان کے دوسرے نام ذکر کئے ھیں۔
اس بارے میں بھی مفسرین میں اختلاف ھے کہ وہ خدا کے پیغمبراور رسول تھے یا حضرت مسیح علیہ السلام کے بھیجے هوئے اور ان کے نمائند ے تھے (اور اگر خدا یہ فرماتا ھے کہ ھم نے انھیں بھیجا تواس کی وجہ یہ ھے کہ مسیح علیہ السلام کے بھیجے هوئے بھی خدا ھی کے رسول ھیں )۔یہ اختلافی مسئلہ ھے اگر چہ قرآن ظاھر پھلی تفسیر کے موافق ھے اگر چہ اس نتیجہ میں کہ جو قرآن لینا چاہتا ھے کوئی فرق نھیں پڑتا ۔
اب ھمیں یہ دیکھنا ھے کہ اس گمراہ قوم نے ان رسولوں کی دعوت پر کیا رد عمل ظاھر کیا ؟قرآن کہتا ھے:
انھوں نے بھی وھی بھانہ کیاکہ جو بہت سے سرکش کافروں نے گزشتہ خدائی پیغمبروں کے جواب میں کیا تھا: ”انھوں نے کھا ،تم تو ھم ھی جیسے بشر هو اور خدائے رحمن نے کوئی چیز نازل نھیں کی ھے، تمھارے پاس جھوٹ کے سوا اور کچھ نھیں ھے ۔“[3]
اگر خدا کی طرف سے کوئی بھیجا هوا ھی آنا تھا تو کوئی مقرب فرشتہ هونا چاہئے تھا ،نہ کہ ھم جیسا انسان اور اسی امر کو انھوں نے رسولوں کی تکذیب اور فرمان الٰھی کے نزول کے انکار کی دلیل خیال کیا ۔
حالانکہ وہ خود بھی جانتے تھے کہ پوری تاریخ میں سب رسول نسل آدم علیہ السلام ھی سے هوئے ھیں ان میں حضرت ابراھیم علیہ السلام بھی تھے کہ جن کی رسالت سب مانتے تھے ،یقینا وہ انسان ھی تھے اس سے قطع نظر کیا انسانوں کی ضروریات ،مشکلات اور تکلیفیں انسان کے علاوہ کوئی اور سمجھ سکتا ھے۔؟[4]
بھر حال یھی پیغمبر اس گمراہ قوم کی شدید اور سخت مخالفت کے باوجود مایوس نہ هوئے اور انھوں نے کمزوری نہ دکھائی اور ان کے جواب میں ”کھا:ھمارا پروردگار جانتا ھے کہ یقینا ھم تمھاری طرف اس کے بھیجے هوئے ھیں ۔“
”اور ھمارے ذمہ تو واضح اور آشکار طورپر ابلاغ رسالت کے علاوہ اور کوئی چیز نھیں ھے ۔“<وما علینا الا البلاغ المبین>
مسلمہ طورپر انھوں نے صرف دعویٰ ھی نھیں کیا اور قسم پر ھی قناعت نھیں کی، بلکہ”بلاغ مبین “ان کا ابلاغ ”بلاغ مبین “کا مصداق نہ هونا کیونکہ ”بلاغ مبین“تو اس طرح هونا چاہئے کہ حقیقت سب تک پہنچ جائے اور بات یقینی اور محکم دلائل اور واضح معجزات کے سوا ممکن نھیں ھے ۔ بعض روایات میں بھی آیا ھے کہ انھوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح بعض ناقابل ِعلاج بیماروںکو حکم خدا سے شفا بخشی۔
لیکن یہ دل کے اندھے واضح منطق اور معجزات کے سامنے نہ صرف جھکے نھیں بلکہ انھوں نے اپنی خشونت اور سختی میں اضافہ کر دیا اور تکذیب کے مرحلے سے قدم آگے بڑھاتے هوئے تہدید اور شدت کے مرحلے میں داخل هوگئے ”انھوں نے کھا:ھم تو تمھیں فال بد سمجھتے ھیں تمھارا وجود منحوس ھے اور تم ھمارے شھر کے بد بختی کا سبب هو۔“[5]
ممکن ھے کہ ان انبیاء الٰھی کے آنے کے ساتھ ھی ا س شھر کے لوگوں کی زندگی میں ان کے گناهوں کے زیر اثر یا خدائی تنبیہ کے طورپر بعض مشکلات پیش آئی هوں ،جیسا کہ بعض مفسرین نے نقل بھی کیا ھے کہ ایک مدت تک بارش کا نزول منقطع رھا،لیکن انھوں نے نہ صرف یہ کہ کوئی عبرت حاصل نھیں کی بلکہ اس امر کو پیغمبروں کی دعوت کے ساتھ وابستہ کردیا۔
پھر اس پر بس نھیں کی بلکہ کھلی دھمکیوں کے ساتھ اپنی قبیح نیتوں کو ظاھر کیا اور کھا:”اگر تم ان باتوں سے دستبردار نہ هوئے تو ھم یقینی طورپر سنگسار کردیں گے اور ھماری طرف سے تمھیں دردناک سزاملے گی“۔[6] یہ وہ مقام تھا کہ خدا کے پیغمبر اپنی منہ بولتی منطق کے ساتھ ان کی فضول ہذیانی باتوں کا جواب دینے کے لئے تیار هوگئے اور ”انھوں نے کھا : تمھاری بد بختی اور نحوست خود تمھاری ھی طرف سے ھے اور اگر تم ٹھیک طرح سے غور کرو تو اس حقیقت سے واقف هو جاوٴگے “۔[7]
اگر بدبختی اور منحوس حوادث تمھارے معاشرے کو گھیرے هوئے ھیں اور برکات الٰھیہ تمھارے درمیان میں سے اٹھ گئی ھیں تو اس کا عامل اپنے اندر اپنے پست افکار اور قبیح اعمال میں تلاش کرو نہ کہ ھماری دعوت میں ،یہ تمھیں ھی هو کہ جنھوں نے بت پرستی ،خود غرضی ،ظلم اور شهوت پر ستی سے اپنے زندگی کی فضا کو تاریک بناڈالا ھے اور خدا کی بر کات کو اپنے سے منقطع کر کے رکھ دیا ھے “۔
تمھاری اصلی بیماری وھی تمھارا حد سے تجاوزھے اگر تم تو حید کا انکار کرتے هوئے شرک کی طرف رخ کرتے هو تو اس کی وجہ حق سے تجاوز ھے اور اگر تمھار ا معاشرہ بُرے انجام میں گرفتار هوا ھے تو اس کا سبب بھی گناہ میں زیادتی اور شهوات میں آلودگی ھے خلاصہ یہ کہ اگر خیرخواهوں کی خیر خواھی کے جواب میں تم انھیں موت کی دھمکی دیتے هو تو یہ بھی تمھارے تجاوز کی بناپر ھے۔
قرآن میں ان رسولوں کی جدوجہد کا ایک اور حصہ بیان کیا گیا ھے اس حصے میں بتایا گیا ھے کہ ان میں سے تھوڑے سے مومنین نے بڑی شجاعت سے ان انبیاء کی حمایت کی اور وہ کا فر و مشرک اور ہٹ دھرم اکثریت کے مقابلے میں کھڑے هوئے اور جب تک جان باقی رھی انبیاء الٰھی کا ساتھ دیتے رھے ۔
پھلے ارشاد هوتا ھے :”ایک (باایمان )مرد شھر کے دور دراز مقام سے بڑی تیزی کے ساتھ بھاگتا هوا کافر گروہ کے پاس آیا اور کھا :اے میری قوم! مرسلین خدا کی پیروی کرو ۔“[8]
اس شخص کا نام اکثر مفسرین نے ”حبیب نجار “بیان کیا ھے وہ ایسا شخص تھا کہ جو پروردگار کے پیغمبروں کی پھلی ھی ملاقات میں ان کی دعوت کی حقانیت اور ان کی تعلیمات کی گھرائی کو پا گیا تھا وہ ایک ثابت قدم اور مصمم کا ر مومن ثابت هوا جس وقت اسے خبر ملی کہ وسط شھرمیں لو گ ان انبیاء الٰھی کے خلاف اٹھ کھڑے هوئے ھیں اور شاید انھیں شھید کر نے کا ارادہ رکھتے ھیں تو اس نے خاموش رہنے کو جائز نہ سمجھا چنانچہ
”یسعیٰ“کے لفظ سے معلوم هوتا ھے کہ بڑی تیزی اورجلدی کے ساتھ مرکز شھر تک پہنچا اور جو کچھ اس کے بس میں تھا حق کی حمایت اور دفاع میں فرو گزاشت نہ کی ۔
”رجل“ کی تعبیر نا شناختہ شکل میں شاید اس نکتے کی طرف اشارہ ھے کہ وہ ایک عام آدمی تھا ،کوئی قدرت و شوکت نھیں رکھتا تھا اور اپنی راہ میں یک و تنھا تھا لیکن اس کے باوجود ایمان کے نور و حرارت نے اس کا دل اس طرح سے روشن اور مستعد کر رکھاتھا کہ راہ توحید کے مخالفین کی سخت مخالفت کی پرواہ نہ کرتے هوئے میدان میں کودپڑا ۔
”اقصی المدینة“کی تعبیر اس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ ان رسولوں کی دعوت شھر کے دور دراز کے مقامات تک پہنچ گئی تھی اور آمادہ دلوں میں اثر کر چکی تھی ،اس سے قطع نظر کہ شھر کے دور دراز کے علاقے ھمیشہ ایسے مستضعفین کے مرکز هوتے ھیں کہ جو حق کو قبول کرنے کے لئے زیادہ و تیار هوتے ھیں ،اس کے بر عکس شھروں میں نسبتا ً خوشحال لوگ زندگی بسر کرتے ھیں جن کو حق کی طرف راغب کرنا آسانی کے ساتھ ممکن نھیں ھے ۔
آیئے اب دیکھتے ھیں کہ یہ مومن مجاہد اپنے شھر والوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کس منطق اور دلیل کو اختیار کرتا ھے ۔ اس نے پھلے یہ دلیل اختیار کی کہ :”ایسے لوگوں کی پیروی کرو جو تم سے اپنی دعوت کے بدلے میں کوئی اجر طلب نھیں کرتے “۔[9]
یہ ان کی صداقت کی پھلی نشانی ھے کہ ان کی دعوت میں کسی قسم کی مادی منفعت نھیں ھے ،وہ تم سے نہ کوئی مال چاہتے ھیں اور نہ ھی جاہ ومقام ،یھاں تک کہ وہ تو تشکر و سپاس گزاری بھی نھیں چاہتے اور نہ ھی کوئی اور صلہ ۔ اس کے بعد قرآن مزید کہتا ھے :(علاوہ ازین )یہ رسول جیسا ان کی دعوت کے مطالب اور ان کی باتوں سے معلوم هوتا ھے ”کہ وہ ہدایت یافتہ افرا د ھیں “۔[10]
یہ اس بات کا اشارہ ھے کہ کسی کی دعوت کو قبول نہ کرنا یا تو اس بناپر هوتا ھے کہ اس کی دعوت حق نھیں ھے اور وہ بے راہ روی اور گمراھی کی طرف کھینچ رھا ھے یا یہ کہ ھے توحق لیکن اس کو پیش کرنے والے اس کے ذریعے کوئی خاص مفاد حاصل کر رھے ھیں کیونکہ یہ بات خود اس قسم کی دعوت کے بارے میں بد گمانی کا ایک سبب ھے ،لیکن جب نہ وہ بات هو اور نہ یہ ،تو پھر تامل و تردد کے کیا معنی ؟
اس کے بعد قرآن ایک اور دلیل پیش کرتا ھے اور اصل توحید کے بارے میں بات کرتا ھے کیونکہ یھی انبیاء کی دعوت کا اھم ترین نکتہ ھے ،کہتا ھے: ”میں اس ہستی کی پرستش کیوں نہ کروں کہ جس نے مجھے پیدا کیاھے ۔“[11]
وہ ہستی پرستش کے لائق ھے کہ جو خالق و مالک ھے اور نعمات بخشنے والی ھے ،نہ کہ یہ بت کہ جن سے کچھ بھی نھیں هو سکتا ،فطرت سلیم کہتی ھے کہ خالق کی عبادت کرنا چاہئے نہ کہ اس بے قدر و قیمت مخلوق کی ۔
اس کے بعد خبردار کرتا ھے کہ یاد رکھو ”تم سب کے سب آخر کار اکیلے ھی اس کی طرف لوٹ کر جاوٴ گے ۔“[12]
اپنے تیسرے استدلال میں بتوں کی کیفیت بیان کرتا ھے اور خدا کے لئے عبودیت کے اثبات کو ،بتوں کی عبدیت کی نفی کے ذریعے تکمیل کرتے هوئے کہتا ھے :”کیا میں خدا کے سوا اور معبود اپنالوں ،جب کہ خدائے رحمن مجھے نقصان پہنچانا چاھے تو ان کی شفاعت مجھے معمولی سا فائدہ بھی نہ دے دے گی اور وہ مجھے اس کے عذا ب سے نہ بچا سکیں گے۔“[13]
اس کے بعد یہ مجاہد مومن مزید تاکید و توضیح کے لئے کہتا ھے :”اگر میں اس قسم کے بتوں کی پرستش کروں اورا نھیں پروردگار کا شریک قرار دوںتو میں کھلی هوئی گمراھی میں هوں گا ۔“[14]
اس سے بڑھ کر کھلی گمراھی کیا هوگی کہ عاقل و باشعور انسان ان بے شعور موجودات کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور انھیں زمین و آسمان کے خالق کے برابر جانے۔!!
اس مجاہد مومن نے ان استدلالات اور موٴثر و وسیع تبلیغات کے بعد ایک پراثر تاثیر آواز کے ساتھ سب لوگوں کے درمیان اعلان کیا:میں تمھارے پرور دگار پر ایمان لے آیا هوں اور ان رسولوں کی دعوت کو قبول کیا ھے ۔ ”اس بناء پر میری باتوں کو سنو۔“[15]
اور جان لو کہ میں ان رسولوں کی دعوت پر ایمان رکھتا هوں اور تم میری بات پر عمل کرو کہ یھی تمھارے فائدہ کی بات ھے ۔
آیئے اب دیکھتے ھیں کہ اس پاکباز مومن کے جواب میں اس ہٹ دھرم قوم کا رد عمل کیا تھا ،قرآن نے اس سلسلے میں کوئی بات نھیں کھی لیکن قرآن بعد کے لب و لہجہ سے معلوم هوتا ھے کہ وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے هوئے اور اسے شھید کر دیا ۔
ھاں! اس کی پر جوش اور ولولہ انگیز گفتگو قوی اور طاقتور استدلالات اور ایسے عمدہ و دلنشین نکات کے ساتھ تھی ،مگر اس سے نہ صرف یہ کہ ان سیاہ دلوں اور مکرو غرور سے بھرے هوئے سروں پر کوئی مثبت اثر نھیں هوا بلکہ کینہ و عداوت کی آگ ان کے دلوں میں ایسے بھڑکی کہ وہ اپنی جگہ سے کھڑے هوئے اور انتھائی سنگدلی اور بے رحمی سے اس شجاع مرد مومن کی جان کے پیچھے پڑگئے ،ایک روایت کے مطابق انھوں نے اسے پتھر مارنے شروع کئے اور اس کے جسم کو اس طرح سے پتھروں کا نشانہ بنایا کہ وہ زمین پر گر پڑ ااور جان جان آفرین کے سپرد کردی ،اس کے لبوں پر مسلسل یہ بات تھی کہ ”خدا وند ا!میری اس قوم کو ہدایت فرماکہ وہ جانتے نھیں ھیں “۔
لیکن قرآن اس حقیقت کو ایک عمدہ اور سر بستہ جملہ کے ساتھ بیان کرتے هوئے کہتا ھے :”اسے کھا گیا کہ جنت میں داخل هوجا“[16]
یہ وھی تعبیر ھے کہ جوراہ خدا کے شھیدوں کے بارے میں قرآن کی دوووسری آیات میں بیان هوئی ھے : ”یہ گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہ خدا میں قتل کئے گئے ھیںو ہ مردہ ھیں بلکہ وہ توزندہ ٴ جاوید ھیں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ھیں ۔“[17]
جاذب توجہ بات یہ ھے کہ یہ تعبیر اس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ یہ مرد مومن شھادت پاتے ھی جنت میں داخل هوگیا ،ان دونوں کے درمیان اس قدر کم فاصلہ تھا کہ قرآن مجید نے اپنی لطیف تعبیر میں اس کی شھادت کا ذکر کرنے کے بجائے اس کے بہشت میں داخل هونے کو بیان کیا ،شھیدوں کی منز ل یعنی بہشت و سعادت ۔۔کس قدر نزدیک ھے ۔!!
بھر حال اس شخص کی پاک روح آسمانوں کی طرف ،رحمت الٰھی کے قرب اور بہشت نعیم کی طرف پرواز کر گئی اور وھاں اسے صرف یہ آرزو تھی کہ :”اے کاش میری قوم جان لیتی ۔”اے کاش وہ جان لیتے کہ میرے پروردگار نے مجھے اپنی بخشش اور عفو سے نوازا ھے اور مجھے مکرم لوگوں کی صف میں جگہ دی ھے ۔“[18]
ایک حدیث میں ھے کہ پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا : ”اس باایمان شخص نے اپنی زندگی میں بھی اپنی قوم کی خیر خواھی کی اور موت کے بعد بھی اس کی ہدایت کی آرزو رکھتاتھا ۔“
بھر حال یہ تو اس مومن اور سچے مجاہد کا انجام تھا کہ جس نے اپنی ذمہ داری کی انجام دھی اور خدا کے پیغمبروں کی حمایت میں کوئی کوتاھی نھیں کی اور آخر کار شربت شھادت نو ش کیا اور جوار رحمت میں جگہ پائی ۔
اگر چہ قرآن میں ان تین پیغمبروں کے انجام کار کے متعلق کوئی بات نھیں کی گئی کہ جو ا قوم کی طرف مبعوث هوئے ۔لیکن بعض مفسرین نے لکھا ھے کہ اس قوم نے ،اس مر د مومن کو شھید کرنے کے علاوہ اپنے پیغمبروں کو بھی شھید کر دیا جب کہ بعض نے تصریح کی ھے کہ اس مرد مومن نے لوگوں کو اپنے ساتھ مشغول رکھاتا کہ وہ پیغمبر اس سازش سے بچ جائیں ،کہ جو ان کے خلاف کی گئی تھی ،اور کسی پر امن جگہ منتقل هو جائیں ۔
ھم نے دیکھا کہ شھر انطاکیہ کے لوگوں نے خدا کے پیغمبروں کی کیسے مخالفت کی ،اب ھم یہ دیکھتے ھیں کہ ان کا انجام کیا هوا۔
قرآن اس بارے میں کہتا ھے :”ھم نے اس کے بعد اس کی قوم پر کوئی لشکر آسمان سے نھیں بھیجا اور اصولاً ھمارا یہ طریقہ ھی نھیں ھے کہ ایسی سرکش اقوام کو نابود کرنے کے لئے ان امور سے کام لیں ۔“[19]
ھم ان امور کے محتاج نھیں ھیںصر ف ایک اشارہ ھی کافی ھے کہ جس سے ھم ان سب کو خاموش کر دیں اور انھیں دیا رعد م کی طرف بھیج دیں اور ان کی زندگی کو درھم برھم کردیں ۔
صرف ایک اشارہ ھی کافی ھے کہ ان کے حیات کے عوامل ھی ان کی موت کے عامل میں بدل جائیں اور مختصر سے وقت میں ان کی زندگی کا دفتر لپیٹ کر رکھ دیں ۔ پھر قرآن مزید کہتا ھے :”صرف ایک آسمانی چیخ پیدا هوئی ،ایسی چیخ کہ جو ھلادینے والی اور موت کا پیغام تھی اچانک سب پر موت کی خاموشی طاری هوگئی “،[20]
کیا یہ چیخ بجلی کی کڑک تھی کہ جو بادل سے اٹھی اور زمین پر جاپڑی اور ھر چیز کو لرزہ بر اندام کر دیا اور تمام عمارتوں کو تباہ کردیا اور وہ سب خوف کی شدت سے موت کی آغوش میں چلے گئے ؟
یا یہ ایسی چیخ تھی کہ جو زمین کے اندر سے ایک شدید زلزلے کی صورت میں اٹھی اور فضا میںدھماکہ هوا اور اس دھماکے کی لھرنے انھیں موت کی آغوش میں سلادیا ۔
ایک چیخ وہ جو کچھ بھی تھی لمحہ بھر سے زیادہ نہ تھی ،وہ ایک ایسی آواز تھی کہ جس نے سب آوازوں کو خاموش کردیا اور ایسی ھلا دینے والی تھی کہ جس نے تمام حرکتوں کو بے حرکت کر دیا اور خدا کی قدرت ایسی ھی ھے اور ایک گمراہ اور بے ثمر قوم کا انجام یھی هوتا ھے ۔
بسو زند چوب درختان بی بر
سزا خودھمین است مربی بری را
”بے ثمر درختوں کی لکڑی جلانے ھی کے کام آتی ھے کیونکہ بے ثمر چیز کی سزا یھی ھے ۔“
مفسر عالی قدر” طبرسی“ مجمع البیان میں کہتے ھیں :حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں میں سے اپنے دو نمائندے انطاکیہ کی طرف بھیجے جس وقت وہ شھر کے پاس پہنچے تو انھوں نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا کہ جو چند بھیڑیں چرانے کے لئے لایا تھا ،یہ ”حبیب“صاحب ”یس “تھا ،انھوں نے اسے سلام کیا ، بوڑھے نے جواب دیا اور پوچھا کہ تم کون هو؟انھوں نے کھا کہ ھم عیسیٰ علیہ السلام کے نمائندے ھیں ،ھم اس لئے آئے ھیں کہ تمھیں بتوں کی عبادت کے بجائے خدا ئے رحمان کی طرف دعوت دیں۔
بوڑھے نے کھا کہ تمھارے پاس کوئی معجزہ یا نشانی بھی ھے؟
انھوں نے کھا :ھاں اھم بیماروں کو شفا دیتے ھیں اور مادر زاد اندھوں اور برص میں مبتلالوگوں کو حکم خدا سے صحت و تندرستی بخشتے ھیں ۔
بوڑھے نے کھا :میرا ایک بیمار بیٹا ھے کہ جو سالھاسا ل سے بستر پر پڑا ھے ۔
انھوں نے کھا :ھمارے ساتھ چلو تاکہ ھم تمھارے گھر جاکر اس کا حال معلوم کریں ۔
بوڑھا ان کے ساتھ چل پڑا ،انھوںنے اس کے بیٹے پر ھاتھ پھیرا تو وہ صحیح و سالم اپنی جگہ پر اٹھ کھڑا هو ا۔ یہ خبر پورے شھر میں پھل گئی اور خدا نے اس کے بعد بیماروں میں سے ایک کثیر گروہ کو ان کے ھاتھ شفا بخشی۔
ان کا بادشاہ بت پرست تھا جب اس تک خبر پہنچی تو اس نے انھیںبلا بھیجا اور ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ هو؟ انھوں نے کھا :کہ ھم عیسیٰ علیہ السلام کے فرستادہ ھیں ،ھم اس لئے آئے ھیں کہ یہ موجودات جو نہ سنتے ھیں اور نہ دیکھتے ھیں ان کی عبادت کے بجائے ھم تمھیں اس کی عبادت کی طرف دعوت دیں جو سنتا بھی ھے اور دیکھتا بھی ھے ۔
بادشاہ نے کھا:کیا ھمارے خداوٴں کے علاوہ کوئی معبود بھی موجود ھے ؟
انھوں نے کھا :ھاں !وھی کہ جس نے تجھے اور تیرے معبودوں کو پیدا کیا ھے ۔
بادشاہ نے کھا: اٹھ جاوٴ کہ میں تمھارے بارے میں کچھ سوچ بچار کروں ۔
یہ ان کے لئے ایک دھمکی تھی ،اس کے بعد لوگوں نے ان دونوں نمائندوں کوبازار میں پکڑ کر مارا پیٹا۔
لیکن ایک دوسری روایت میں ھے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے ان دونوں نمائندوں کو بادشاہ تک رسائی حاصل نہ هوئی اور ایک مدت تک وہ اس شھر میں رھے ایک دن بادشاہ اپنے محل سے باھر آیا هوا تھا تو انھوں نے تکبیر کی آواز بلند کی ۔اور ”اللہ“کا نام عظمت کے ساتھ لیا ،بادشاہ غضب ناک هوا اور انھیں قید کر نے کا حکم دے دیا اور ھر ایک کو سو کوڑے مارے۔
جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان دونوں نمائندوں کی تکذیب هوگئی اور نھیں زوود کوب کیا گیا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے” شمعون الصفا “کو ان کے پیچھے روانہ کیا ،وہ جو حواریوں کے بزرگ تھے ۔
شمعون اجنبی صورت میں شھر میں پہنچے اور بادشاہ کے اطرافیوں سے دوستی پیدا کر لی ،انھیں ان کی دوستی بہت بھائی اور ان کے بارے میں بادشاہ کو بھی بتا یا ،بادشاہ نے بھی ان کو دعوت دی اور انھیں اپنے ھمنشینوں میں شامل کر لیا ،بادشاہ ان کا احترام کرنے لگا ۔
شمعون نے ایک دن بادشاہ سے کھا:میں نے سنا ھے کہ دو آدمی آپ کی قید میں ھیں اور جس وقت انھوں نے آپ کو آپ کے دین کے بجائے کسی دوسرے دین کی دعوت دی تو آپ نے انھیں مارا پیٹا؟کیا کبھی آپ نے ان کی باتیں سنی بھی ھیں ؟!
بادشاہ نے کھا:مجھے ان پر تنا غصہ آیاکہ میں نے ان کی کوئی بات نھیں سنی ۔
شمعون نے کھا :اگر بادشاہ مصلحت سمجھیںتو انھیں بلا لیں تاکہ ھم دیکھیں تو سھی کہ ان کے پلے ھے کیا۔ بادشاہ نے انھیں بلا لیا ،شمعون نے یوں ظاھر کیا جیسے انھیں پہچانتے ھی نہ هوں اور ان سے کھا :تمھیں یھاں کس نے بھیجا ھے ؟
انھوں نے کھا :”اس خدا نے کہ جس نے سب کو پیدا کیا ھے اور جس کاکوئی شریک نھیں ھے ۔“
شمعون نے کھا:تمھارا معجزہ اور نشانی کیا ھے ؟
انھوں نے کھا:جو کچھ تم چاهو!
بادشاہ نے حکم دیا اور ایک اندھے غلام کو لایا گیا جسے انھوں نے حکم خدا سے شفا بخشی ،بادشاہ کو بہت تعجب هوا ،اس مقام پر شمعون بول اٹھے اور بادشاہ سے کھا:اگر آپ اس قسم کی درخواست اپنے خداوٴں سے کرتے تو کیا وہ بھی اس قسم کے کام کی قدرت رکھتے ھیں؟
بادشاہ نے کھا تم سے کیا چھپا هوا ھے ھمارے یہ خدا کہ جن کی ھم پرستش کرتے ھیں نہ تو کوئی ضرر پہنچا سکتے ھیں ،نہ نفع دے سکتے ھیں اور نہ کوئی اور خاصیت رکھتے ھیں ۔
اس کے بعد بادشاہ نے ان دونوں سے کھا:اگر تمھارا خدا مردے کو زندہ کر سکتا ھے تو ھم اس پر اور تم پر ایمان لے آئیں گے ۔
انھوں نے کھا :ھمارا خدا ھر چیز پر قدرت رکھتا ھے ۔
بادشاہ نے کھا:یھاں ایک مردہ ھے جسے مرے هوئے سات دن گزر چکے ھیں ابھی تک ھم نے اسے دفن نھیں کیا،ھم اس انتظار میں ھیں کہ اس کا باپ سفر سے آجائے !تم اسے زندہ کر دکھاوٴ۔
مردہ کو لایا گیا تو وہ دونوں تو آشکار دعاکر رھے تھے اور شمعون دل ھی دل میں ،اچانک مردے میں حرکت پیدا هوئی اور وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا هوا اور کھا کہ میں سات روز سے مرچکاهوں میں نے جہنم کی آگ اپنی آنکھ سے دیکھی ھے اور میں تمھیں خبردار کرتاهوں کہ تم سب خدا ئے یگانہ پر ایمان لے آوٴ۔
بادشاہ نے تعجب کیا ،جس وقت شمعون کو یقین هو گیا کہ اس کی باتیں اس پر اثر کر گئی ھیں تو اسے خدا ئے یگانہ کی طرف دعوت دی اور وہ ایمان لے آیااور اس کے ملک کے باشندے بھی اس کے ساتھ ایمان لے آئے ،اگر چہ کچھ لوگ اپنے کفر پر باقی رھے ۔
اس روایت کی نظیر تفسیر عیاشی میں امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی نقل هوئی ھے ،اگر چہ ان کے درمیان کچھ فرق ھے۔
لیکن قرآن کے ظاھر کی طرف توجہ کرتے هوئے اس شھر والوںکا ایمان لانا بہت بعید نظر آتا ھے کیونکہ قرآن کہتا ھے کہ وہ صیحہٴ آسمانی کے ذریعہ ھلاک هو گئے۔
ممکن ھے کہ روایت کے اس حصہ میں راوی سے اشتباہ هوا هو۔
[1] سورہ یٰس آیت ۱۳۔
[2] سورہ یٰس آیت ۱۴۔
[3] سورہ یٰس آیت ۱۵۔
[4] یھاں پر خدا کی صفت رحمانیت کا ذکر کیوں کیاگیا ھے ؟ممکن ھے کہ یہ اس لحاظ سے هو کہ خدا ان کی بات کو نقل کرتے هوئے خصوصیت سے اس صفت کاذکر کرتا ھے تاکہ ان کا جواب خود ان کی بات ھی سے حل هو جائے ،کیونکہ یہ بات کیسے ممکن هو سکتی ھے کہ وہ خدا کہ جس کی رحمت عامہ نے سارے عالم کو گھیررکھا ھے وہ انسانوں کی تربیت اور رشد و تکامل کی طر ف دعوت دینے کے لئے پیغمبر نہ بھیجے ۔ یہ احتمال بھی ھے کہ انھوں نے خصوصیت کے ساتھ وصف رحمن کا اس لئے ذکر کیا ھے کہ وہ یہ کھیں کہ خدا وند مھربان اپنے بندوں کا کام پیغمبروں کے بھیجنے اور مشکل ذمہ داریاں عائد کرنے سے نھیں کرتا وہ تو آزاد رکھتا ھے ،یہ کمزور اور بے بنیاد منطق اس گروہ کے انکار کے ساتھ ھم آہنگ تھی۔
[5] سورہ یٰس آیت ۱۸۔
[6] سورہ یٰس آیت ۱۸۔
[7] سورہ ٴیٰس آیت ۱۸۔
[8] سورہٴ یٰس آیت ۲۰۔
[9] سورہٴ یٰس آیت۲۱۔
[10] سورہٴ یٰس آیت۲۲۔
[11] سورہٴ یٰس آیت ۲۲۔
[12] سورہٴ یٰس آیت ۲۲۔
[13] سورہٴ یٰس آیت ۲۳۔
[14] سورہٴ یٰسین ۲۴۔
[15]سورہٴ یٰس آیت ۲۵۔
[16] سورہٴ یٰس آیت ۲۶۔
[17] سورہٴ آل عمران آیت ۱۶۹۔
[18]سورہٴ یٰس آیت ۲۶تا ۲۷۔
[19] سورہٴ یٰس آیت ۲۸۔
[20] سورہٴ یٰس آیت ۲۹۔