تعلیمات قرآن و حدیث کی روشنی میں

فروع دین

خدا وند عالم نے ھماری زندگی کو صحیح راہ پر لگانے کے لئے خاص دستور العمل کو معین فرمایا ھے کہ اگر ھم اس پر عملی اعتبار سے پابند ھو جائیں تو ھماری دنیاوی زندگی بھترین اور بوجہ احسن گذرے گی ، نیز آخرت میں بھی سعادت مند اور نجات یافتہ رھیں گے، ایسے احکام و قوانین کو فروع دین کھتے ھیں، فروع دین تو بھت زیادہ ھیں لیکن جن کا جاننا نہایت ضروری ھے ھم ان کو یہاں پر اجمالاً بیان کر رھے ھیں ۔ان میں سے مھم ترین فروع دین آٹھ ھیں :نماز، روزہ ، زکوٰة ، خمس ، حج ، جہاد ، امر بالمعروف ونھی عن المنکر ۔

نماز

واجب نمازیں چھ ھیں:

۱۔ نماز پنجگانہ ۔

۲۔ نماز آیات (سورج گھن و چاند گھن )

 ۳۔ نماز میت۔

 ۴۔ نماز طواف۔

 ۵۔ وہ نمازیں جو قسم و نذر وغیرہ کی وجہ سے انسان اپنے اوپر واجب کرلے۔

۶۔ نماز قضاء والدین (جو نمازیں نافرمانی کی وجہ سے ترک نہ کی ھو بلکہ قضا کرنا چاھتا تھا لیکن اس کو انجام نہ دے سکا ھو ) اس کی قضا انجام دینا بڑے فرزند پر واجب ھے ۔

نماز پنجگانہ :

 نماز دین کا ستون ھے ، بندے کو خدا سے نزدیک کرتی ھے آنحضرت(ص)نے فرمایا : خدا کی قسم میری شفاعت نماز کو ( حقیر ) معمولی سمجھنے والے اور ترک کرنے والے کو نھیں پھونچے گی۔ [1]

 تمام مسلمانوں کو پانچ وقت کی نماز پڑھنا واجب ھے ، صبح کی دورکعت ، ظھر کی چار رکعت ، عصر کی چار رکعت ، مغرب کی تین رکعت ، اور عشا کی چار رکعت ۔

اوقات نماز :

نماز صبح کا وقت ،صبح صادق سے لے کر سورج نکلنے کے وقت تک ھے ۔

نمازظھر و عصر کا وقت سورج کے زوال سے لے کر غروب آفتاب تک ھے۔

نماز مغرب و عشا سورج ڈوبنے (مغرب ) سے لے کر آدھی رات تک ھے آدھی رات جو تقریباً گیارہ بجکر ۱۵ منٹ پر ھوتی ھے ۔

وضو

 وضو کا طریقہ

۱۔ پھلے نیت کرے کہ خدا کی خوشنودی کے لئے وضو انجام دیتا ھوں قربةً الی اللہ۔

۲۔ چھرے پر بال اگنے کی جگہ سے ٹھڈی کے آخری حصے تک ۔

۳۔ داھنے ہاتھ کو کھنی سے لے کر انگلیوں کے آخری سرے تک ( یعنی اوپر سے نیچے کی طرف) دھوئے ۔

۴۔ بائیں ہاتھ کو کھنی سے لے کر انگلیوں کے آخری سرے تک یعنی اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے ۔

۵۔ داھنے ہاتھ کی تری سے، سر کے اگلے حصہ پر اوپر سے نیچے کی طرف کھینچے۔

۶۔ اور داھنے ہاتھ کی بچی ھوئی تری سے داھنے پیر کی انگلیوں سے لے کر پیر کے ابھار تک کھینچے ۔

۷۔ بائیں ہاتھ سے بائیں پیر کی انگلیوں سے لے کر پیر کے ابھار کی جگہ تک کھینچے ۔

اذان[2]

نماز سے پھلے اذان کھنا مستحب ھے ، اس کی ترتیب یہ ھے :

اَللّٰہُ اَکبَرُ ۴ مرتبہ

اللہ سب سے بڑا ھے ۔

اَشہَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُُ ۲ مرتبہ

میں گواھی دیتا ھوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے ۔

اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰہِ   ۲ مرتبہ

 میں گواھی دیتا ھوں کی محمد(ص) بن عبد اللہ ، اللہ کے رسول ھیں۔ 

حَیَّ عَلیٰ الصَّلٰوةِ        ۲مرتبہ

نماز کے لئے جلدی کرو ۔

حَیَّ عَلیٰ الفَلَاحِ        ۲ مرتبہ

کامیابی کے لئے جلدی کرو ۔

حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمَلِ  ۲مرتبہ 

بھترین عمل کے لئے جلدی کر و 

اَللّٰہُ اَکبَرُ  ۲مرتبہ

خدا اس سے بزرگ و برتر ھے کہ اس کی توصیف کی جائے ۔

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ    ۲مرتبہ 

خدا کے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے ۔

اقامت

نماز کے لئے اذان کے بعداقامت کھنا مستحب ھے،اس کی ترتیب یہ ھے : 

اَللّٰہُ اَکبَرُ         ۲ مرتبہ

 خدا اس سے بزرگ و برتر ھے کہ اس کی توصیف کی جائے ۔

اَشہَدُ اَن لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ      ۲مرتبہ       

 میں گواھی دیتا ھوں کہ خداکے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے ۔

اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّداًرَسُولُ اللّٰہِ    ۲ مرتبہ

میں گواھی دیتا ھوں کہ محمد(ص) خدا کے بھیجے ھوئے رسول(ص) ھیں۔  

 حَیَّ عَلیٰ الصَّلٰوةِ           ۲ مرتبہ    

نماز کے لئے جلدی کرو

حَیَّ عَلَیٰ الفَلاَحِ   ۲ مرتبہ     

کامیابی کے لئے جلدی کرو 

حَیَّ عَلَیٰ خَیرِ العَمَلِ     ۲مرتبہ       

بھترین عمل کے لئے جلدی کرو ۔

قَد قَا مَتِ الصَّلَوٰةُ       ۲مرتبہ

نماز قائم ھوگئی ۔

اَللّٰہُ اَکبَرُ     ۲مرتبہ      

اللہ سب سے بڑا ھے۔

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ         ۱ مرتبہ     

خدا کے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے ۔

نماز پڑھنے کا طریقہ

نماز میں چند چیزوں کا انجام دینا ضروری ھے : 

۱۔ نیت : قبلہ رخ کھڑے ھونے کے بعد (قصد ) نیت کریں میں دو رکعت نماز صبح پڑھتا ھوں واجب قربة ً الی اللہ ۔

۲۔تکبیرة الاحرام : نیت کے بعد ہاتھوں کو کان کی لو تک لیجا کر کھیں” اللہ اکبر“ پھر ہاتھوں کو نیچے لائیں ۔

۳۔ قرائت : تکبیرة الاحرام کے بعد سورہ حمد کو شروع کریں :

 بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰالَمِینَ۔ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ ۔ مَالِکِ یَومِ الدِّینِ۔ اِیَّاکَ نَعبُدُ وَاِیَّاکَ نَستَعِینُ۔ اِھدِنَاالصِّرَاطَ المُستَقِیمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیھِم غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیھِم وَلَا الضَّالِّینَ ۔

ترجمہ : خداوند رحمن و رحیم کے نام سے (شروع کرتا ھوں ) ساری تعریفیں اس خدا کے لئے مخصوص ھیں جو جہانوں کو پالنے والا ھے ، جو دنیا میں سب پر رحم ، اور آخرت میں صرف مومنین پر رحم کرنے والا ھے ، قیامت اور جزا کے دن کا مالک ھے ، پروردگار صرف تیری عبادت کرتے ھیں ، اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ھیں، ھم کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ ، ایسے لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اپنی نعمتیں نازل کی ھیں ، ان لوگوں کا راستہ نھیں ، جن پر تو نے غصب نازل کیا ھے اور گمراھوں کا راستہ ۔

نکتہ ۱: سورہ حمد پڑھنے کے بعد قرآن مجید سے کوئی ایک سورہ پڑھیں مثلا سورہ توحید اس طرح  :

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

قُل ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۔ لَم یَلِد وَلَم یُولَد ۔ وَلَم یَکُن لَّہ کُفُواً اَحَدٌ۔

ترجمہ : اللہ کے نام سے شروع کرتا ھوں جو رحمن و رحیم ھے، اے پیغمبر ! کہہ دیجئے وہ خدا یکتا ھے ، وہ خدا سب سے بے نیاز ھے مگر سب اس کے نیاز مند ھیں ، کوئی اس سے نھیں پیدا ھواھے اور نہ وہ کسی سے پیدا ھوا ھے  اور کوئی اس کا مثل و نظیر نھیں ھے ۔

 نکتہ ۲: مردوں پر واجب ھے کہ نماز صبح و مغرب و عشا میں سورہ حمد اور دوسرا سورہ بلند آواز سے پڑھیں ۔

نکتہ ۳: تکبیرة الاحرام (اللہ اکبر) کھتے وقت ہاتھوں کا کان کی لو تک اٹھانا واجب نھیں بلکہ مستحب ھے ۔

 ۴۔ رکوع : سورہ حمد اور دوسرے سورہ کے بعد رکوع میں جائیں، یعنی اس انداز میں جھک جائیں کہ ہاتھ دونوں گھٹنوں تک پھنچ جائے اور پھر پڑھیں :

 ”سُبحَانَ رَبِّیَ العَظِیمِ وَ بِحَمدِہ “

یا تین مرتبہ کھیں ”سُبحَانَ اللّٰہ“ِ  یعنی میرا عظیم پروردگار ھر عیب و نقص سے پاک و منزہ ھے اور میں اس کی حمد و ثنا، کرتا ھوں ، رکوع کے بعد سیدھے کھڑے ھوجائیں اور کھڑے ھو کر کھیں:    ”سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہ “ ( خدا وند عالم اپنے بندے کی حمد وثنا قبول کرنے والا ھے)پڑھنا مستحب ھے ۔ 

 ۵۔ سجدہ : رکوع کے بعد سجدہ میں جائیں یعنی پیشانی کو زمین پر یا جو چیز اس سے اگتی ھے (لیکن کھانے اور پھننے والی نہ ھو )اس پر رکھیں اور حالت سجدہ میں پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ھتھیلی اور دونوں گھٹنے دونوں انگوٹھے کے سرے کو زمین پر رکھیں پھر پڑھیں: ”  سُبحَانَ رَبِّیَ الاَعلَیٰ وَبِحَمدِہ “یا تین مرتبہ ”  ُسبحَانَ اللّٰہ ِ “ (میرا پروردگار ھر ایک سے بالا وبرتر ھے اور ھر عیب و نقص سے پاک و منزہ ھے اور میں اس کی حمد کرتا ھوں ) پڑھیں ۔ پھر سجدہ سے سر اٹھائے اور تھوڑا ٹھھر کر پھر دوبارہ سجدہ میں جائیں اور سجدہٴ دوم سے سر اٹھا کر تھوڑی دیر بیٹھیں اور دوسری رکعت کے لئے کھڑے ھو جائیں اور کھڑے ھوتے وقت پڑھیں ” بِحَولِ للّٰہِ وَقُوَّتِہ اَقُومُ وَاَقعُدُ“  میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت و مدد سے کھڑا ھوتا اور بیٹھتا ھوں ،کھنا مستحب ھے جب سیدھے کھڑے ھوگئے تو مطمئن ھو کر الحمد اور دوسرا سورہ پھلی رکعت کی طرح پڑھیں ۔

۶۔ قنوت : سورہ حمد اور دوسرے سورہ سے فارغ ھونے کے بعد دونوں ہاتھوں کو چھرے کے سامنے لا کر قنوت (دعا) پڑھیں:”رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَةً وَفِی الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ“ ( اے پروردگار! دنیا اور آخرت میں ھم کو حسنہ مرحمت فرما اور جھنم کے عذاب سے بچا ) دونوں ہاتھوں کو نیچے لائیں اور مثل سابق رکوع کریں۔

توجہ: قنوت پڑھنا واجب نھیں بلکہ مستحب اور فضیلت و ثواب کا باعث ھے ۔

۷۔ تشھد : تمام نمازوں میں دوسری رکعت کے کامل کرنے کے بعد دوسرے سجدہ سے سر اٹھا کر بیٹھ جائیں اور اس طریقے سے تشھد پڑھیں : ”  اَلحَمدُ لِلّٰہِ اَشہَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحدَہ لَا شَرِیکَ لَہ وَاَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہ وَرَسُولُہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ “ میں گواھی دیتا ھوں کہ خدا کے علاوہ کوئی پرستش کے قابل نھیں ھے وہ یگانہ ھے اور اس کا کوئی شریک نھیں ھے ، اور میں گواھی دیتا ھوں کہ محمد(ص) خدا کے بندے اور اس کے رسول ھیں خداوند عالم محمد(ص) اور ان کی آل پر درود بھیج ۔

توجہ : نماز مغرب میں پھلے تشھد کے بعد سلام نھیں پڑھنا چاھیے بلکہ کھڑے ھوجائیں اور کھڑے ھوکر اطمینان کی حالت میں تیسری رکعت کو شروع کریں پھر رکوع و سجود و تشھد کے بعد سلام پڑھیں ،اور نماز ظھر و عصر و عشا میں پھلے تشھد کے بعد سلام نھیں پڑھیں گے بلکہ کھڑے ھو کر تیسری اور چوتھی رکعت انجام دینے کے بعد بیٹھ کر تشھد و سلام پڑھا جائے گا ۔

۸۔ سلام : نماز صبح میں تشھد کے بعد سلام اس طرح سے پڑھیں:

” اَلسَّلَامُ عَلَیکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ “

”  اَلسَّلَامُ عَلَینَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ “

”  اَلسَّلاَمُ عَلَیکُم وَرَحمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ “

 اے نبی(ص) !آپ پر سلام اور خدا کی رحمت و برکت ھو ھم پر اور خدا کے تمام نیک بندوں پر سلام ھو، اے نماز تم پر سلام اور خدا کی رحمت و برکتیں ھوں ۔

۹۔ تسبیحات اربعہ : نماز مغرب کی تیسری اور نماز عشا ظھر و عصر کی تیسری و چوتھی رکعت میں سورہ حمد کے بجائے تسبیحات اربعہ پڑھیں گے :

 ”  سُبحَانَ اللّٰہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکبَرُ “

خداوند عالم پاک ومنزہ ھے حمد و ثنا اس کے لئے مخصوص ھے اس کے علاوہ کوئی خدا نھیں خدا اس سے کھیں بزرگ ھے کہ اس کی تعریف کی جائے ۔

 توجہ : نماز پڑھنے والے کا جسم و لباس پاک ھونا چاھیے اور لباس کے پاک ھونے کے ساتھ مباح اور حرام گوشت رکھنے والے جانور یا مردار کی جلد اور کھال سے بنا ھوا نھیں ھونا چاھیے ۔

 توجہ : نماز پڑھنے والی عورت ، جنابت و حیض و استحاضہ و نفاس سے اور مرد جنابت سے پاک ھو ۔

نماز کے ارکان

نماز کے پانچ ارکان ھیں :

۱۔ نیت۔

۲ ۔تکبیرة الاحرام۔

 ۳۔ قیام ، تکبیرة الاحرام کھتے وقت اور رکوع میں جانے سے پھلے جس کو قیام متصل بہ رکوع کھاجاتا ھے یعنی رکوع سے پھلے کھڑے ھونا ۔

 ۴۔رکوع۔

 ۵۔ دونوں سجدے عمداً و سھواً یا ان ارکان کو کم یا زیادہ کرنے سے نماز باطل ھوجاتی ھے ۔

نماز کو باطل کرنے والی چیزیں

ان کاموں کو انجام دینے سے نماز باطل ھوجاتی ھے :

۱۔ چاھے عمداً ھو یا سھواً وضو کے ٹوٹ جانے سے نماز باطل ھوجاتی ھے ۔

۲۔ جان بوجھ کر دنیا کے متعلق گریہ کرنا ۔

۳۔ عمداً  قہقہ کے ساتھ ھنسنا ۔

۴۔ جان بوجھ کر کھانا اور پینا ۔

۵۔ بھول کر یا جان بوجھ کر کسی رکن کو کم یا زیادہ کردینا ۔

۶۔ حمد کے بعد آمین کھنا ۔

۷۔ سھواً یا عمداً قبلہ کی طرف پیٹھ کرنا ۔

۸۔ بات کرنا ۔

۹۔ ایسا کام کرنا جس سے نماز کی صورت ختم ھو جائے جیسے تالی بجانا اوراچھلنا ،کودنا وغیرہ۔

۱۰۔ پیٹ پر ہاتھ باندھنا ( اھل سنت کی طرح ) ۔

۱۱۔ دو رکعتی یا تین رکعتی نماز کی رکعتوں میں شک کرنا ۔

مسافر کی نماز

ان شرائط کے ساتھ مسافر کو چاھیے کہ چار رکعتی نماز کو دو رکعت پڑھے : 

۱۔ آٹھ فرسخ جانے کا ارادہ رکھتا ھو (۴۳ کلو میٹر) یا چار فرسخ جائے اور واپس آئے ۔

۲۔ کثیر السفر نہ ھو ، یعنی ڈرائیور یا ملاح (ناؤ چلانے والے ) کے مانند نہ ھو کہ اس کا کام ھی سفر میں رھتا ھے ۔

۳۔ تاجر نہ ھو کہ سفر کی حالت میں تجارت کرتا ھو ۔

۴۔ اس کا سفر کسی حرام کام کے لئے نہ ھو ، جیسے سفر کرے چوری یا مومن کے قتل کرنے کے لئے اسی طرح عورت بغیر شوھر کی اجازت کے گھر سے باھر نکلے یا بیٹا اور بیٹی اپنے والدین کی اجازت کے بغیر فرار کریں ۔

۵۔ آٹھ فرسخ سے پھلے اس کا وطن یا دس دن قیام نہ کرے ۔

نکتہ ۱: جو مسافر سفر میں ایک جگہ دس دن رھنے کا ارادہ رکھے تو جب تک وہاں پر قیام ھے نماز پوری پڑھے اور وہ مسافر جو تیس دن تک متردد حالت میں رہ رھاھو تیسویں دن کے بعد چاھیے کہ نماز کو پوری پڑھے ۔

نکتہ ۲: جو شخص سفر کا ارادہ رکھتا ھے اپنے وطن سے یا رھنے کی جگہ سے اس کو چاھیے کہ حد ترخص کے بعد نماز کو قصر اور روزہ کو افطار کرلے اس سے پھلے نماز قصر اور روزہ باطل نھیں کرنا چاھیے (حدِّ ترخص ) مسافر اپنے گھر سے اس قدر دور نکل جائے کہ شھر کی آوازِ آذان سنائی نہ دے اور نہ ھی

 شھر کی دیوار دکھائی دے، اس سے پھلے وہ شخص شرعی مسافر نھیں ھے ۔

نماز آیات

نماز آیات پڑھنے کا وقت سورج گھن ، چاند گھن ، زلزلہ اور غیر عادی حادثہ جس سے اکثر لوگ خوف محسوس کریں مثلاً سیاہ و سرخ آندھی اس وقت ھر مسلمان پر واجب ھے کہ وہ نماز آیات بجالائے ۔

نماز آیات کا طریقہ : ۱۔ وضو کے بعد قبلہ رخ کھڑا ھوکر نیت کرے کہ میں نماز آیات پڑھتا ھوں ( قُربَةً اِلَی اللّٰہِ ) 

۲۔ نیت کے بعد دونوں ہاتھوں کو کانوں کے برابر لے جا کر کھے ” اللہ اکبر“۔

۳۔ سورہ حمد اور دوسرا سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے اور ذکر رکوع کو بجا لائے ۔

۴۔ رکوع سے سر اٹھا کر سورہ حمد اور دوسرا سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے اسی طرح انجام دے یہاں تک کہ پانچ سورہ حمد اور پانچ رکوع تمام ھوجائے ۔

 ۵۔ پانچویں رکوع کے بعد سجدہ میں جائے اور نماز پنجگانہ کی طرح دو سجدہ بجالائے ۔

۶۔ دوسری رکعت کے لئے کھڑا ھو جائے اور رکعت اول کی طرح اس کو بھی بجا لائے اور پانچویں رکوع کے بعد سجدہ بجالائے ۔

۷۔ دونوں سجدہ کے بعد تشھد اور سلام پڑھکر نماز تمام کرے ۔

توجہ : نماز آیات کا وقت سورج اور چاند گھن کے وقت سے شروع ھوجاتا ھے یہاں تک کہ یہ گھن ختم ھوجائے لیکن اور دوسری نماز آیات ( جیسے زلزلہ و سیاہ و سرخ آندھی ) جس وقت بھی پڑھیں، ادا ھے ۔

روزہ

اسلام کے اھم واجبات میں سے روزہ ھے ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی (ص)نے فرمایا : روزہ جھنم کی آگ کے مقابلہ میں ڈھال ھے۔ [3]

 خدا وند تبارک و تعالیٰ فرماتا ھے: روزہ میرے لئے ھے اور میں خود اس کا اجر دوںگا ۔[4] یہ عظیم عبادت اپنے دامن میں بھت زیادہ فوائد رکھے ھوئے ھے، ڈاکٹری تحقیق کے مطابق پیٹ کی مشینوں کے لئے آرام کا باعث ھے ، اور انسان کی سلامتی کے لئے مفید ھے اور اخلاقی اعتبار سے دشواری اور سختی کے وقت صبر و استقامت بخشتا ھے اور امیروں کو ناتواں اور مفلوک الحال افراد کے بارے میں غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ھے ۔

امام جعفر صادق  (ع) نے فرمایا : روزہ واجب ھے تاکہ پیسے والے، بھوک کا مزہ چکھیں،

مجبوروں اورغریبوں کے حال پر غور و فکر کریں( نیز)ان کے ساتھ احسان و بخشش کریں ۔ [5]

تمام مسلمانوں پر رمضان کے مھینے کا روزہ کھنا واجب ھے ، یعنی صبح صادق سے لے کر مغرب تک تمام وہ کام جو روزہ کو باطل کر تے ھیں ان سے اجتناب و پرھیز کرے اور روزہ کو باطل کرنے والے امور یہ ھیں : 

۱۔ کھانا اور پینا۔

۲۔ غلیظ گردوغبار کا حلق تک پھنچانا ۔

۳۔ قے کرنا۔

۴۔ جماع( عورت سے ھمبستری کرنا)

۵۔ حقنہ کرنا۔

۶۔ پانی میں سر ڈبونا۔

۷۔ اللہ اور اس کے رسول(ص) پر جھوٹا الزام لگانا۔

۸۔ استمناء (منی نکالنا) (۹)صبح کی اذان تک جنابت و حیض و نفاس پر باقی رھنا ۔

نکتہ : اگر یہ روزہ توڑنے والی چیزیں عمداً واقع ھو تو روزہ باطل ھوجاتا ھے

لیکن اگر بھول چوک یا غفلت کے سبب واقع ھو تو روزہ باطل نھیں ھوتا ھے سوائے جنابت و حیض و نفاس پر باقی رھنے کے ، کہ اگر سھواً اور غفلت کی وجہ سے بھی ھو، تو بھی روزہ باطل ھے ۔

وہ افراد جو روزہ کو توڑ سکتے ھیں

۱۔ بیمار :جس پر روزہ رکھنا ضرر کا باعث ھو ۔

۲۔ مسافر، انھیں شرائط کے ساتھ جو مسافر کی نماز کے متعلق بیان ھوئی ھیں۔

۳۔ وہ عورت جو ماھواری (حیض کی حالت میں ) یا نفاس میں ھو ۔

نکتہ : ان تینوں قسم کے افراد کو چاھیے کہ اپنے روزہ کو توڑدیں اور عذر کو بر طرف ھونے کے بعد روزہ کی قضا کریں ۔

۴۔ حاملہ عورتیں جن کا وضع حمل قریب ھو اور روزہ خود اس کے لئے یا اس کے بچے کے لئے ضرر کا باعث ھو ۔

۵۔ بچے کو دودھ پلانے والی عورتیں جسکو روزہ رکھنے سے دودھ میں کمی آتی ھو اور بچہ کی تکلیف کا سبب ھو۔

۶۔ بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں جن پر روزہ رکھنا سخت اور دشوار ھے ۔

نکتہ۱ : یہ عورتیں عذر کے زائل ھونے کے بعد اپنے روزے کی قضا اور تین پاؤ گیھوں فقیر کو دیں گی ۔

نکتہ ۲ : اگر یہ لوگ رمضان کے بعد بآسانی روزہ رکھ سکتے ھوں تو قضا کریں ، لیکن اگر ان پر روزہ رکھنا دشواری کا باعث ھے تو قضا واجب نھیں ھے ، لیکن ھر روزہ کے بدلے تین پاؤ گیھوں فقیر کو دیں۔

نکتہ ۳: جو شخص عذر شرعی کے بغیر ماہ رمضان کے روزہ کو توڑ دے تو اسے چاھیے کہ اس کی قضا کرے اور ھر روزہ کے بدلے ساٹھ روزہ رکھے یا ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے ۔

زکوٰة

اسلام کی واجب چیزوں میں سے زکواة ھے ، حضرت امام صادق  (ع) نے فرمایا : جو شخص اپنے مال کی زکواة نہ دے وہ نہ مومن ھے اور نہ ھی مسلمان ھے [6]

اور امام محمد باقر  (ع) نے فرمایا : خداوندعالم نے قرآن مجید میں زکواة کو نماز کے ساتھ ذکر کیا ھے ، جو شخص نماز پڑھے مگر زکواة نہ دے اس کی نماز قبول نھیں ھے [7]

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ھیں : اگر تمام لوگ اپنے مال کی زکواة ادا کرتے تو (دنیا) میں کوئی فقیر نہ ھوتا[8]

زکوٰة (۹) چیزوں پر واجب ھے : (۱ )گیھوں (۲) جو (۳) کھجور (۴) کشمش (۵) گائے بھینس (۶) بھیڑ بکری ( ۷) اونٹ(۸) سونا ( ۹) چاندی ۔

 دین اسلام نے ان چیزوں کے لئے ایک حد و مقدار بیان فرمائی ھے اگر اس حد تک پھنچ جائے تو اس میں زکوٰة دینا واجب ھوگی اگر اس مقدار تک نہ پھونچے تو اس پر زکوٰة واجب نہ ھوگی اس حد کو نصاب کھتے ھیں ۔

گیھوں ، جو ، کھجور اور کشمش : ان چار چیزوں کا نصاب ۲۸۸ من تبریزی ھے اگر اس مقدار سے کم ھوتو اس پر زکوٰة واجب نھیں ھے ، زکوٰة نکالتے وقت یہ نکتہ بھی ذھن نشین رھے کہ جو زراعت پر اخراجات ھوئے ھیں ان سب کو نکال کر اگر نصاب کی حد تک پھنچے تو زکوٰة واجب ھو گی ،

زکوٰة کی مقدار :

گیھوں ، جو ، کھجور و کشمش کی آب پاشی اگر بارش ، نھر ، زمین کی تری سے ھوئی  ھو تو اس کی زکوٰة دسواں حصہ ھے اور اگر کنویں کے پانی یا ڈول وغیرہ سے کھینچ کر ھوئی ھے تو اس کی زکوٰة بیسواں حصہ ھوگی ۔

بھیڑ بکری کا نصاب :

اس کا پانچ نصاب ھے :

پھلا: ۴۰ بھیڑوں پر ایک بھیڑ کی زکوٰة ھوگی (اس سے کم پر زکوٰة واجب نھیں ھے )

دوسرا : ۱۲۱ بھیڑوں کی زکوٰة دو بھیڑ ھوگی ۔

 تیسرا : ۲۰۱ بھیڑوں کی زکوٰة تین بھیڑ ھوگی

چوتھے : ۳۰۱ بھیڑوں کی زکوٰة چار بھیڑ ھوگی ۔

 پانچویں : چار سو سے زیادہ بھیڑوں میں ھر سو پر ایک بھیڑ بطور زکوٰة ادا کرے ۔

نکتہ: کوئی گیارہ مھینے بھیڑوں کا مالک رھاھو تو اس کو بارھویں مھینے میں زکوٰة دینا واجب ھے بھیڑ بکریوں پر اس وقت زکوٰة واجب ھوتی ھے جب وہ پورے سال بیابانوں میں چری ھوں اگر تمام سال یا کچھ مھینہ چراگاہ کی گھانس یا خریدی ھوئی گھانس کھائے ھوں تو اس پر زکوٰة واجب نہ ھوگی ۔

گائے کا نصاب :

گائے کے دونصاب ھیں :

( پھلا ) تیس گائے کی زکوٰة ،گائے کا ایسا بچہ جو دوسرے سال میں داخل ھوا ھو۔

 (دوسرا) چالیس گائے کی زکوٰة ، گائے کا ایسا بچہ ( جومادہ ھو ) جو تیسرے سال میں داخل ھو۔

 اگر چالیس سے زیادہ گائے ھوتو ان دو نصابوں میں سے جو حساب میں بھتر تطبیق ھو اس کی زکوٰة ادا کرنا چاھیے یا تو تیس تیس عدد کا حساب کرے یا چالیس چالیس عدد کا حساب کرے یا دونوں کو ملا کر حساب کرے مثلاً کسی کے پاس ساٹھ گائے ھے تو چاھیے کہ تیس کا حساب کرے اور اگر ستر گائے ھے تو ایک تیس اور ایک چالیس کا حساب کرے اور اگر اسّی گائے ھے تو چاھیے کہ دو چالیس کا حساب کرے ۔

نکتہ۱ : گائے کی زکوٰة اس وقت واجب ھوتی ھے جب پورے سال بے کار رھی ھو بیابانوں میں چری ھو ۔ [9]

سونے کا نصاب :

سونے کا دو نصاب ھے:

پھلا ۔ بیس مثقال شرعی جو ۱۵ مثقال معمولی کے برابر ھوتا ھے اس مقدار کے برابر ھو اس کا چالیسواں حصہ بہ عنوان زکوٰة ادا کرے ۔

(دوسرا) چار مثقال شرعی جو تین مثقال معمولی کے برابر ھوتا ھے ،یعنی اگر ۱۵ مثقال معمولی پر تین مثقال معمولی کا اضافہ ھوجائے تو پورے ۱۸ مثقال معمولی (یعنی ۲۴ مثقال شرعی ) کی زکوٰة ڈھائی فیصد کے حساب سے دے اور اگر تین مثقال معمولی (چار مثقال شرعی ) سے کم کا اضافہ ھوتو صرف ۱۵ مثقال معمولی کی زکواة ھوگی باقی پر زکوٰة واجب نہ ھوگی ۔

اسی حساب سے چاھے جس قدر اضافہ ھوتا جائے زکوٰة واجب ھوگی ، اگر تین مثقال معمولی (۴مثقال شرعی ) کا اضافہ ھوجائے تو پورے کی زکوٰة دے اور اگر تین مثقال معمولی سے کم اضافہ ھوتو اس اضافہ پر زکوٰة نہ ھوگی ۔

چاندی کا نصاب

چاندی کے دو نصاب ھیں:

پھلا نصاب : جب چاندی ۱۰۵ مثقال معمولی کے برابر ھوجائے تو ڈھائی فیصد کے حساب سے اس پر زکوٰة واجب ھوگی اور اگر ۱۰۵ مثقال سے کم ھے تو زکوٰة واجب نھیں ھوگی ۔

دوسرا نصاب : (۲۱مثقال پر ھے ) اگر ۱۰۵ مثقال پر ۲۱ مثقال زیادہ ھوجائے تو پورے ۱۲۶ مثقال کی زکوٰة واجب ھوگی اور اگر ۲۱ سے کم کا اضافہ ھوتو صرف ۱۰۵ مثقال پر زکوٰة ھوگی اور باقی پر نھیںاسی طرح چاھے جسقدر اضافہ ھوجائے اسی حساب سے زکوٰة واجب ھوگی ۔

نکتہ۱ : سونا چاندی سکہ دار ، رائج الوقت، اور گیارہ مھینے مالک کے اختیار میں رھاھو، اس پر زکوٰة واجب ھوگی ۔

نکتہ۲:اگر سونا، چاندی حد نصاب سے خارج نہ ھوا ھو، تو ھر سال زکوٰة دینا چاھیے چاھیے اس سے پھلے سال زکوٰة ادا کی ھو ۔

نکتہ ۳: شاید زکوٰة میں اسلام کا فلسفہ یہ ھوکہ سونا چاندی سکہ دار ذخیرہ نہ ھو بلکہ اقتصادی حالات کو صحیح کرنے کے لئے اس کو مصرف اور خرچ میں لانا چاھیے ۔

 زکواة کا مصرف

درج ذیل آٹھ مقامات میں سے کسی ایک مقام پر زکوٰة صرف کرنا چاھیے: 

۱۔ فقیر : یعنی جو شخص اپنے اور اپنے عیال کے سال بھر کے اخراجات نہ رکھتا ھو ۔

۲۔ مسکین : یعنی جس شخص کی مالی حالت فقیر کی حالت سے بھی زیادہ بدتر ھو۔

۳۔ فی سبیل اللہ : یعنی ایسے کاموں میں صرف کرنا جس سے عام طور سے دینی منفعت ھو جیسے مسجد و مدرسہ بنانے میں پل ، ہاسپیٹل وغیرہ ۔

۴۔ ابن سبیل : یعنی جو شخص سفر میں درماندہ و محتاج ھوگیا ھو اس کو زکوٰة سے بقدر ضرورت دیا جائے گا کہ اپنے شھر پھونچ جائے ۔

۵۔ جو مقروض اپنے قرض کو ادا نہ کر سکتے ھوں ان کے قرض کی ادائیگی میں صرف کریں گے ۔

۶۔ غلاموں کو خرید کر آزاد کرنے میں ۔

۷۔ اس کافر کو دیں گے کہ جس کیلئے امکان ھے احسان کے توسط سے اسلام کی طرف مائل ھوجائے گا ۔

۹۔ جو شخص حاکم شرع کی طرف سے زکوٰة اصول کرنے پر مامور ھو ۔

نکتہ : اگر لوگ زکوٰة کا پیسہ ادا کریں تو حاکم شرع کو چاھیے کہ فقر و بےکاری کے ختم کرنے کی کوشش اور شھروں اور دیہاتوں کے آباد کرنے میں سعی کرے اور امور خیریّہ کی بنیاد ڈالے ۔

خمس

اسلام کے مالی حقوق میں سے خمس ھے جو تمام مسلمانوں پر فرض ھے۔

 سات چیزوں پر خمس دینا واجب ھے :

۱۔ کاروبار کے منافع ، انسان کو زراعت و صنعت و تجارت مختلف اداروں میں ملازمت کاریگری وغیرہ سے جو آمدنی ھوتی ھے اس میں سے (مثلاً کھانا ، لباس ، گھر کا برتن ، گھر خریدنا ، شادی ، مھمان نوازی ، مسافرت کے خرچ ) سالانہ خرچ سے جو بچ جائے اس بچت کا پانچواں حصہ بعنوان خمس ادا کرے ۔

۲۔ کان سے جو سونا ،چاندی ،لوھا، تانبہ ، پیتل ، تیل ، نمک ، پتھر کا کوئلہ ، گندھک معدنی چیز برآمد ھوتی ھے اور جو دھاتیں ملتی ھیں، ان سب پر خمس واجب ھے ۔

۳۔ خزانے ۔

۴۔ جنگ کی حالت میں مال غنیمت ۔

۵۔ دریا میں غوطہ خوری کے ذریعہ حاصل ھونے والے جواھرات ۔

۶۔جو زمین مسلمان سے کافر ذمی خرید ے اس کو چاھیے کہ پانچواں حصہ اس کا یا اس کی قیمت کا بعنوان خمس ادا کرے ۔

۷۔ حلال مال جو حرام مال میں مخلوط ھوجائے اس طرح کی حرام کی مقدار معلوم نہ ھو اور نہ ھی اس مال کو  پہچانتا ھو، تو اسے چاھیے ان تمام مال کا پانچواں حصہ خمس دے تاکہ باقی مال حلال ھوجائے ۔

نکتہ ۱: جو شخص خمس کے مال کا مقروض ھے اس کو چاھیے کہ مجتھد جامع الشرائط یا اس کے کسی وکیل کو دے تاکہ وہ عظمت اور ترویج اسلام اور فقیر سادات کے مخارج کو اس سے پورا کرے۔

نکتہ ۲: خمس و زکوٰة کی رقوم اسلامی مالیات کا سنگین اور قابل توجہ بجٹ ھے۔

اگر صحیح طریقہ سے اس کی وصولی کی جائے اور حاکم شرع کے پاس جمع ھوتو اسے مسلمانوں کے تمام اجتماعی کاموں کو بطور احسن انجام دیا جا سکتا ھے ، یا فقیری و بیکاری اور جہالت کا ڈٹ کر مقابلہ اور اس سے لاچار و فقیر لوگوں کی دیکھ ریکھ کی جا سکتی ھے اور لوگوں کی ضروری امور کہ جس کا فائدہ عمومی ھوتا ھے اس کے ذریعہ کرائے جا سکتے ھیں مثلاً ہاسپیٹل ، مدرسہ ، مسجد ، راستہ ، پل اور عمومی حمام وغیرہ ۔

حج

جو شخص مالی اور جسمانی قدرت رکھتا ھو پوری عمر میں ایک مرتبہ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے جانا اور دنیا کے سب سے بڑے اجتماع اور تمام مسلمانوں کے جاہ و جلال کے ساتھ شرکت کرنا واجب ھے ۔

حضرت امام صادق  (ع)نے فرمایا : جو شخص مر جائے اس حال میں کہ عذر شرعی کے بغیر اپنے واجبی حج کو ترک کیا ھے تو ایسا شخص دنیا سے مسلمان نھیں جاتا بلکہ وہ یھود و نصاریٰ کے ساتھ محشور ھوگا ۔ [10]

حج اسلام کی بڑی عبادتوں میں سے ایک عبادت ھے اور اپنے دامن میں بڑے فوائد کو رکھے ھوئے ھے مسلمان چاھے تواس حج کے مراسم و مناسک میں اپنے ایمان کی تقویت اور خدا سے اپنے رابطہ کو محکم و استوار کرلے خدا پرستی و فروتنی ،برادری و بھائی چارگی اور بخشش و درگذر کرنے کا عملی شاھکار اس بڑی اسلامی درس گاہ میں سیکھ دنیا کے تمام مسلمان ایک جگہ اور ایک مقام پر جمع اور ایک دوسرے کے رسوم و عادات سے آشنا ھوتے ھیں اور ھر ملک کے عمومی حالات کے تبادلہٴ خیالات کے نتیجہ میں علمی سطح میں اضافہ ھوتا ھے اور جہاں پر مسلمان اسلام کی مشکلات اور مھم خطرات سے با خبر ھوتے ھیں، اسی کے ساتھ ایک دوسرے کے اقتصادی اور سیاسی و فرھنگی پروگراموں کے سلسلہ میں باز پرس کرتے ھیں جہاں اسلام کے عمومی مصالح و فوائد پر آپس میں گفتگو کرتے ھیں اتحاد ، ھم فکری نیز آپسی دوستی کے روابط مستحکم ھوتے ھیں۔

نکتہ : حج ھر مالی استطاعت رکھنے والے شخص پر واجب ھے یعنی اس کے پاس اتنا مال موجود ھو کہ اگر وہ اپنے مال سے حج کے اخراجات نکال لے تو واپس آنے پر بےچارہ حیران و سرگرداں نہ پھرے بلکہ مثل سابق اپنی زندگی اور کام وغیرہ کو ویسے ھی انجام دے سکتا ھو ۔

جہاد

اسلام کا ایک مھم دستور جہاد ھے ۔ خدا پرستی کی ترویج و احکام اسلام کے نفوذ ، کفر و بے دینی اور اسلام کے دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے کو جہاد کھتے ھیں اور جہاد تمام مسلمانوں پر واجب ھے، اس ضمن میں قرآن مجید کھتا ھے :< اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہ صَفًّا کَاَنَّھُم بُنیَانٌ مَرصُوصٌ> خدا تو ان لوگوں سے الفت رکھتا ھے جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھ کر لڑتے ھیں کہ گویا وہ سیسہ پلائی ھوئی دیوار ھیں [11]

اور دوسرے مقام پر اس طرح تشویق کرتا ھے < وَقَاتِلُ المُشرِکِینَ کَافَّةً کَمَا یُقَاتِلُونَکُم کَافَّةً > اور مشرکین جس طرح تم سے سب کے سب لڑتے ھیں تم بھی اسی طرح سب کے سب مل کر ان سے لڑو۔ [12]

 اور ایک مقام پر قرآن کھتا ھے ان کے رھنماؤں کے پیر اکھاڑدو < فَقَاتِلُوا اَئِمَّةَ الکُفرِ ِلانَّھُم لَا اَیمَانَ لَھُم لَعَلَّھُم یَنتَھُونَ >کفار کے سربرآوردہ لوگوں سے خوب لڑائی کرو ، ان کی قسموں کا ھر گز کوئی اعتبار نھیں ھے تاکہ یہ لوگ (اپنی شرارت ) سے باز آجائیں۔ [13]

 اسی طرح ارشاد باری ھے : <وَقَاتِلُوھُم حَتَّی لَا تَکُونَ فِتنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ لِلّٰہِ>کفار سے اس قدر جنگ کرو کہ فتنہ و فساد بر طرف ھوجائے اور (فقط ) خدا کا دین (باقی) رھے ۔[14]

 اور ایک مقام پر ارشاد رب العزت ھے ، ان کو مرعوب کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ طاقتیں فراھم کرو < فَثَبِّتُوا الَّذِینَ آمَنُوا سَاُلقِی فِی قُلُوبِ الَّذِینَ کَفَرُوا الرُّعبَ فَاضرِبُوا فَوقَ الاَعنَاقِ وَاضرِبُوا مِنھُم کُلَّ بَنَانٍ> تم ایمانداروں کو ثابت قدم رکھو میں بھت جلد کافروں کے دلوں میں تمھارا رعب ڈال دونگا (پس پھر کیا ھے اب) تو ان کفار کی گردنوں پر مارو اور ان کی پور پور چٹیلی کر دو ۔ [15]

 <وَاَعِدُّوا لَھُم مَااستَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَمِن رِبَاطِ الخَیلِ تُرھِبُونَ بِہ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُم وَآخَرِینَ مِن دُونِھِم> [16]

اور (مسلمانو) کفار کے (مقابلہ کے) واسطے جہاں تک ھوسکے (اپنے بازو کے ) زور سے اور بدھے ھوئے گھوڑوں سے (لڑائی کا ) سامان مھیا کرو اسے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن اور اس کے سوا دوسرے لوگوں کے اوپر  بھی اپنی دھاک بٹھالوگے ۔ (مترجم)

حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ھیں :جہاد جنت کے دروازے میں سے ایک دروازہ ھے جو شخص جہاد سے انکار کرے خدا اس کو ذلیل و رسوا کرے گا ۔ [17]

اسلام نے جہاد کو اسلامی ملکوں کی حفاظت کے لئے تمام مسلمانوں پر واجب قرار دیا ھے اور تمام مسلمانوں کو مجاھد اور اسلامی ملک کو مجاھدوں کی جگہ قرار دی ھے ، مجاھدین اسلام کو چاھیے ھمیشہ کفر و الحاد کے مقابلہ میں مسلح اور صف بصف آمادہ رھیں تاکہ دشمن اسلام قدرت و شوکت اور اتحاد مسلمین سے خوف کھائے اور اس کے ذھن سے اسلامی ملکوں پر زیادتی اور تجاوز کے خیالات ھوا ھوجائیں، اگر کفار کی فوج اسلام کے کسی علاقہ پر حملہ آور ھو جائے تو تمام مسلمانوں پر اپنے استقلال کے لئے اس کا دفاع کرنا واجب ھے اور تمام لوگوں کی ذمہ داری ھے کہ سب کے سب دشمنوں کے مقابلہ میں صف بستہ کھڑے ھوں اور ایک ھی حملہ میں مخالف کی فوج کو تھس نھس اور تباہ و برباد کر کے اپنی جگہ پر بٹھادیں تاکہ دوبارہ وہ اس کی جراٴت و ھمت نہ کر سکیں ۔

جب تک مسلمان جہاد کو اپنا مقدس دینی وظیفہ سمجھتے تھے اور دشمن کے مد مقابل اسلحہ سے لیس آمادہ اور تمام تیاری کے ساتھ ایک صف میں محاز آرائی کے لئے کھڑے تھے ، اس وقت تک کسی دشمن اسلام کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ھمت نہ تھی، اس وقت دشمنان اسلام خوفزدہ اور اپنی قدرت و طاقت کی کمزوری کو درک کرتے تھے ۔

لیکن جب مسلمان (مجاھدین ) پراگندہ ھو گئے اور بکھر گئے (بجائے اس کے کہ دشمن کے مقابلہ میں صف بستہ ھوتے) بلکہ اپنی عزت و عظمت کو خود ھی تباہ کر بیٹھے اور دوسروں کے دست نگر اور محتاج ھوکر استعمال ھونے لگے، لہذا اپنی حفاظت و استقلال کے لئے مجبور ھوگئے کہ غیروں کا سہارا لیں، تاکہ وہاں کاسہ لیسی اور خوشامدی کر کے اپنی حفاظت کی بھیک مانگیں لیکن نتیجہ اس کے بر خلاف نکلا (خود ابریشم کے کیڑے کی طرح ) روز بروز اس کے فریب کے جال میں گھرتے گئے ۔

نکتہ : جہاد کے لئے مخصوص شرائط ھیں جس کی بابت چاھیے کہ فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے ۔

امر بالمعروف و نھی عن المنکر

اسلام کے واجبات میں سے امر بالمعروف و نھی عن المنکر ھے ، ترویج اسلام و تبلیغ احکام میں کوشش کرنا لوگوں کو دینی ذمہ داریوں اور اچھے کاموں سے آشنائی کرانا تمام مسلمانوں پر واجب ھے اگر کسی کو دیکھے کہ اپنے وظیفہ پر عمل پیرا نھیں ھے تو اس کو انجام دینے کے لئے آمادہ کرے اس کام کو امر بالمعروف کھتے ھیں ۔

منکرات (خدا کی منع کردہ چیزیں ) سے لوگوں کو منع کرنا بھی اسلام کے واجبات میں سے ھے ، اور واجب ھے کہ مسلمان فساد ، ظلم و ستم کے خلاف جنگ کرے اور برے و گندے کاموں سے روکے اگر کسی کو دیکھے کہ جو منع کئے ھوئے کاموں (منکرات) کو انجام دیتا ھے تو اس کام کے برے ھونے کی طرف اس کی توجہ دلائے ، جس حد تک ممکن ھوسکے اس کو برے کاموں سے روکے اس کام کو نھی از منکر کھتے ھیں۔

لہٰذا امر بالمعروف اور نھی عن المنکر اسلام کی بڑی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ھے اگر اس وظیفہ پر عمل ھونا شروع جائے تو اسلام کا کوئی بھی قانون بلا عمل باقی نھیں رھے گا جیسا کہ اسلام تمام احکام و قوانین دینی کو مسلمانوں کے اجرا کا مسئول سمجھتا ھے ، تمام مسلمانوں پر واجب ھے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں نیز مسلمانوں پر واجب ھے دین اسلام کے قوانین کا ھر طرح سے دفاع اور اس کی حفاظت اور رائج کرنے میں کوشش کریں ، تاکہ اس کے فائدے سے تمام افراد بھرہ مند ھوسکیں ، ھر مسلمان کی ذمہ داری ھے کہ خود نیک کام کو انجام دے اور لوگوں کو بھی نیک کام پر آمادہ کرے ، خود بھی برے اور گندے کاموں سے دوری کرے اور دوسروں کو بھی محرّمات الٰھی سے روکے ۔

مذکورہ دستور العمل سرنامہ اسلام اور قرآن کا مخصوص پروگرام شمار ھوتا ھے قرآن مجید اس دستور العمل کو انجام دینے میں مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی شمار کرتا ھے ۔

خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ھے : <کُنتُم خَیرَ اُمَّةٍ اُخرِجَت لِلنَّاسِ تَامُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَتَنھَونَ عَنِ المُنکَرِ وَتُوٴمِنُونَ بِاللّٰہِ>تم کیا اچھے گروہ ھو کہ لوگوں کی ھدایت کے واسطے پیدا کئے گئے تم (لوگوں) کو اچھے کام کا حکم کرتے اور برے کاموں سے روکتے اور خدا پر ایمان رکھتے ھو [18]

اور ایک جگہ پر ارشاد ھوتا ھے :< وَلتَکُن مِنکُم اُمَّةٌ یَدعُونَ اِلَی الخَیرِ وَیَامُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَیَنھَونَ عَنِ المُنکَرِ >اور تم میں سے ایک گروہ(ایسے لوگوں کا بھی ) تو ھونا چاھیے جو (لوگوں کو) نیکی کی طرف بلائیں اور اچھے کام کا حکم اور برے کاموں سے روکیں۔[19]

حضرت امام علی رضا (ع) فرماتے ھیں : امر بالمعروف نھی از منکر کرو اگر تم نے اس فرض پر عمل نھیں کیا تو اشرار تم پر مسلط ھوجائیں گے اس وقت اچھے لوگ جس قدر بھی دعائیں کریں اور ان کے ظلم و ستم پر گریہ کریں ان کی دعا محل اجابت میں قبول نھیں کی جائے گی ۔[20]

پیغمبر(ص) اسلام نے فرمایا : جب بھی میری امت امر بالمعروف اور نھی از منکر کو ترک کردے گویا خدا سے اعلان جنگ کر رھی ھے [21]

رسول(ص) خدا نے ارشاد فرمایا : جب بھی میری امت نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے کے کام میں مشغول رھے گی معاشرہ اور سماج آبرومنداور بھتر رھے گا، لیکن جس وقت اس ذمہ داری کو ترک کردے ان کے ہاتھوں سے برکت اٹھ جائے گی، اور ان میں سے بعض (شریر) افراد تمام لوگوں پرغالب آجائیں گے اس وقت یہ فریاد اور مدد کے لئے پکارتے رھیں زمین و آسمان سے کوئی ان کی مدد کے لئے نھیں آئے گا ۔[22]

امام حسن عسکری (ع) فرماتے ھیں : نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے کو ترک نہ کرنا ورنہ تم سب پر (خدا کی طرف سے ) عذاب نازل ھوگا اور تم گرفتارِ عذاب ھوجاؤگے جب بھی کوئی تم میں سے کسی کو برا کام کرتے ھوئے دیکھے تو فوراً اس کے روک تھام کے لئے قدم بڑھائے، اگر ایسا نھیں کر سکتا تو اپنی زبان سے منع کرے اگر زبان سے منع کرنے پر قادر نھیں ھے تو چاھیے اس برے کام کے انجام پانے پر دل سے ناراض و غمگین ھو۔ [23]

حضرت علی بن ابی طالب (ع) اپنے اصحاب سے فرماتے ھیں : اگر تم پر کوئی خطرہ اور مصیبت آجائے تو تم اپنے اموال کو اپنے نفس پر فدا کردو ، اگر تمھارے دین کے لئے خطرہ اور ھلاکت کا باعث ھوتو اپنی جان کو دین کی مدد و نصرت کے لئے فدا کردو ،جان لو کہ بد بخت اور شقی وہ شخص ھے جو اپنے دین کو کھو بیٹھے اور چوری اس کی ھوئی ھے جس کے دین کی چوری ھو جائے ۔[24]

امر بالمعروف اور نھی از منکر کے چند مراحل ھیں :

پھلا مرحلہ : زبان سے نرمی کے ساتھ اس کام کی اچھائی یا برائی اس شخص کے لئے ثابت کی جائے اور نصیحت و موعظہ کی صورت میں اس سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اس کام کو نہ کرے یا برے کام کو چھوڑ دے ۔

دوسرا مرحلہ : اگر زبان سے موعظہ و نصیحت اسے کوئی فائدہ نہ پھنچائے تو سختی اور غصہ سے، برے کام سے روکا جائے ۔

تیسرا مرحلہ : سختی و غصہ کی وجہ سے بھی اگر اس پر اثر نہ ھو تو جس حد تک ، اگر قدرت رکھتا ھے یا جس وسیلہ و طریقہ سے ممکن ھے برے کام سے منع کرے ۔

چوتھا مرحلہ : اگر اس کے باوجود بھی اس کو گناہ سے نہ روک سکے تو تمام لوگوں کو چاھیے اس سے اس طرح اظہار نفرت کریں کہ اس کو احساس ھوجائے کہ تمام لوگ اس کے مخالف اور اس سے متنفر ھیں ۔


[1] وافی ۔ج۲ ، جزء پنجم، ص ۱۳ ۔

[2] مراجع تقلید نے کھاھے کہ ” اَشہَدُ اَنَّ عَلِیّاً وَلِیُ اللّٰہِ “( میں گواھی دیتا ھوں کہ حضرت علی (ع) تمام لوگوں پر اللہ کے ولی ھیں) اذان و اقامت کا (جز) حصہ نھیں ھے ، لیکن ” اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰہِ “ کے بعد ” اَشہَدُ اَنَّ عَلِیاً وَلِیُّ اللهِ “ بقصد تبرک و تیمن کھنا بھتر ھے ۔ ( توضیح المسائل مسئلہ ۹۱۹ )

[3] وافی ،ج۲، جز ۷، ص۵ ۔

[4] وافی ،ج۲، جز ۷، ص۵ ۔

[5] وافی ،ج۲، جز۷، ص۵۔      

[6] وافی، ج۲ ،ص۵ ، جز ۶ ۔

[7] وافی، ج۲ ،ص۵ ، جز ۶ ۔

[8] وافی ،ج۲، ص۶ ۔

[9] چونکہ موجودہ صورت حال میں اونٹ کی زکواة کا اتفاق نھیں ھوتا ھے، اس لئے ھم نے اس کے نصاب کو بیان نھیں کیا ھے ۔

[10]وافی ، ج۲ ، آٹھواں حصہ ، ص۴۸

سکتا ھے ۔

[11]سورہ صف(۶۱) آیت ۴ ۔

[12] سورہ توبہ (۹ )آیت ۳۶ ۔

[13] سورہ توبہ (۹) آیت ۱۲ ۔

[14] سورہ بقرہ (۲) آیت ۱۹۳۔

[15] سورہ انفال(۸) آیت ۱۲ ۔

[16] سورہ انفال (۸ )آیت ۶۰ ۔

[17] وسائل الشیعہ، ج۱۱، ص ۱۱ ۔

[18]آل عمران (۳) آیت ۱۱۰ ۔

[19]آل عمران (۳ )آیت ۱۰۴ ۔

[20]وسائل الشیعہ ،ج۱۱، ص ۳۹۴

[21] وسائل الشیعہ ،ج۱۱، ص ۳۹۴۔

[22] وسائل الشیعہ ،ج۱۱، ص ۳۹۸۔

[23] وسائل الشیعہ، ج ۱۱،ص ۴۰۷ ۔

[24] وسائل الشیعہ ،ج ۱۱، ص ۴۵۱۔