اس مسئلہ میں شیعہ علمااور دانشوروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ”بسم اللہ “سورہ حمد اور بقیہ دوسرے سوروں کا جز ہے، اور قرآن مجید کے تمام سوروں کے شروع میں ”بسم اللہ “ کا ذکر ہونا خود اس بات پر محکم دلیل ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید میں کوئی چیز اضافہ نہیں ہوئی ہے، اور پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ سے آج تک ہر سورہ کے شروع میں بسم اللہ کا ذکر ہوتا رہا ہے ۔
لیکن اہل سنت علمامیں سے مشہور و معروف موٴلف صاحب تفسیر المنار نے اس سلسلہ میں مختلف علماکے اقوال نقل کئے ہیں:
علماکے درمیان یہ بحث ہے کہ کیا ہر سورے کے شروع میں بسم اللہ سورہ کا جز ہے یا نہیں؟ مکہ کے قدیمعلما (فقہا اور قاریان قرآن) منجملہ ابن کثیر اور اہل کوفہ سے عاصم اور کسائی قاریان قرآن، اور اہل مدینہ میں بعض صحابہ اور تابعین اور اسی طرح امام شافعی اپنی کتاب جدید میں اور ان کے پیروکار ، نیز ثوری اور احمد (بن حنبل) اپنے دوقول میں سے ایک قول میں ؛ اسی نظریہ کے قائل ہیں کہ بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے، اسی طرح شیعہ علمااور (ان کے قول کے مطابق) اصحاب میں (حضرت ) علی، ابن عباس، عبد اللہ بن عمر اور ابوہریرہ ، اور تابعین میں سے سعید بن جبیر، عطاء، زہری اور ابن المبارک نے بھی اسی عقیدہ کو قبول کیا ہے ۔
اس کے بعد مزید بیان کرتے ہیں کہ ان کی سب سے اہم دلیل صحابہ اور ان کے بعد آنے والے حکمران کا اتفاق اور اجماع ہے کہ ان سب لوگوں نے سورہ توبہ کے علاوہ تمام سوروں کے شروع میں ”بسم اللہ“ کو ذکر کیا ہے، جبکہ یہ سبھی حضرات اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ جو چیز قرآن مجید کا جز نہیں ہے اس سے قرآن کو محفوظ رکھو ، اور اسی وجہ سے ”آمین“ کو سورہ حمد کے آخر میں ذکر نہیں کیا ہے ۔
اس کے بعد (امام) مالک اور ابو حنیفہ کے پیرو نیز دوسرے لوگوں سے نقل کیا ہے کہ وہ لوگ ”بسم اللہ“ کو ایک مستقل آیت مانتے تھے جو ہر سورے کے شروع میں سوروں کے درمیان فاصلہ کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے ۔
اور احمد (بن حنبل) (اہل سنت کے مشہور و معروف فقیہ) اور بعض کوفی قاریوں سے نقل کرتے ہیں کہ وہ لوگ ”بسم اللہ“ کو صرف سورہ حمد کا جز مانتے تھے نہ کہ دوسرے سوروں کا،(1)
(قارئین کرام!) مذکورہ اقوال سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اہل سنت کے علماکی اکثریت بھی اسی نظریہ کی قائل ہے کہ بسم اللہ سورہ کا جز ہے، ہم یہاں شیعہ اور سنی دونوں فریقوں کی کتابوں میں منقول روایات کو بیان کرتے ہیں (اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان تمام کا یہاں ذکر کرنا ہماری بحث سے خارج ہے، اور مکمل طور پر ایک فقہی بحث ہے)
۱۔ ”معاویہ بن عمار“ جوامام صادق علیہ السلام کے چاہنے والوں میں سے ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ جب میں نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوجاؤں تو کیاسورہ حمد کے شروع میں بسم اللہ پڑھوں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں، میں نے پھر سوال کیا کہ جس وقت سورہ حمد تمام ہوجائے اور اس کے بعد دوسرا سورہ پڑھنا چاہوں تو کیا بسم اللہ کا پڑھنا ضروری ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں۔(2)
۲۔سنی عالم دین دار قطنی صحیح سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ ”السبع المثانی“ سے مراد کیا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس سے مراد سورہ حمد ہے، تو اس نے سوال کیا کہ سورہ حمد میں تو چھ آیتیں ہیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی اس کی ایک آیت ہے ۔(3)
۳۔ اہل سنت کے مشہور و معروف عالم بیہقی، صحیح سند کے ساتھ ابن جبیر اور ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ہیں:”استرَقَ الشَّیْطَان مِنَ النَّاسِ، اٴعظم آیة من القرآن بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ “(4) شیطان صفت لوگوں نے قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت یعنی ”بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“کو چوری کرلیا ہے“ (اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سوروں کے شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھتے)
اس کے علاوہ ہمیشہ مسلمانوں کی یہ سیرت رہی ہے کہ ہر سورے کو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتے ہیں اور تواتر کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) بھی ہر سورے کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرتے تھے، اس صورت میں کیسے ممکن ہے کہ جو چیز قرآن کا حصہ نہ ہو خود پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کی امت اسے قرآن کے ساتھ ہمیشہ پڑھا کریں؟!۔
لیکن جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بسم اللہ ایک مستقل آیت ہے اور قرآن کا جز ہے مگر سوروں کا جز نہیں ہے، یہ نظریہ بھی بہت ضعیف ہے، کیونکہ بسم اللہ کے معنی کچھ اس طرح کے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کام کی ابتدا اور آغاز کے لئے ہے، نہ یہ کہ ایک مستقل اور الگ معنی ، درحقیقت اس طرح کا شدید تعصب کہ اپنی بات پر اڑے رہیں اور کہیں کہ بسم اللہ ایک مستقل آیت ہے ،جس کاما قبل مبا لغہ سے کوئی ربط نہیں ہے، لیکن بسم اللہ کے معنی بلند آواز میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ بعد میں شروع ہونے والی بحث کا سر آغاز ہے ۔
صرف مخالفین کا ایک اعتراض قابل توجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے سوروں میں (سورہ حمد کے علاوہ) بسم اللہ کو ایک آیت شمار نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے بعد والی آیت کو پہلی آیت شمار کیا جاتا ہے ۔
اس اعتراض کا جواب”فخر الدین رازی“ نے اپنی تفسیر کبیر میں واضح کردیا کہ کوئی ممانعت نہیں ہے کہ بسم اللہ صرف سورہ حمد میں ایک آیت شمار کی جائے اور قرآن کے دوسرے سوروں میں پہلی آیت کا ایک حصہ شمار کیا جائے، ( اس لحاظ سے مثلاً سورہ کوثر میں <بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ إِنَّا اٴعطینکَ الکَوْثَر> ایک آیت شمار ہو۔
بہر حال یہ مسئلہ اتنا واضح اور روشن ہے کہ تاریخ نے لکھا ہے کہ معاویہ نے اپنی حکومت کے زمانہ میں ایک روز نماز جماعت میں بسم اللہ نہیں پڑھی، تو نماز کے فوراً بعد مہاجرین اور انصار نے مل کر فریاد بلند کی : ”اسرقت اٴم نسیت“ (اے معاویہ! تو نے بسم اللہ کی چوری کی ہے یا بھول گیا ہے؟)(5)(6)
(1)تفسیر المنار ، جلد ۱ صفحہ۳۹۔۴۰
(2) اصول کافی ، ، جلد ۳،صفحہ & (3) الاتقان ، جلد اول، صفحہ ۱۳۶
(4) بیہقی ، جلد ۲، صفحہ ۵۰
(5) بیہقی نے جزء دوم کے صفحہ ۴۹ پر اور حاکم نے بھی مستدرک میں جزء اول کے صفحہ ۲۳۳ پر اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس حدیث کوصحیح جانا ہے
(6) تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۱۷