قرآن حکیم کے اسلوب کاہرپہلو ایک معجزہ هے جملوں کی برجستگی، ترکیب کی چستی،عالمانہ انداز بیان،کوثر و تسنیم میں ملے هوئے جملے،موقع و محل کے مطابق زور بیان،سیاق وسباق کے مناسب صفات الہیہ ان میں سے ہر ایک ایسی چیز تھی جس نے اہل زبان عربوں کو مبھوت وششدر کر دیایہاں تک کہ اہل عرب جنہیں اپنی زبان دانی پر ناز تھاقرآن حکیم کے اعجاز و اسلوب کے مقابلے میں اپنے آپ کو عاجز وبے بس خیال کرنے لگے ۔ بلغاء وفصحاء کو اعتراف کرنا پڑا کہ اسلوب قرآنی زبان وبیان کی وہ جنس گراں هے جس تک ان کی پرواز نہیں اور نہ هو سکتی هے ۔ انهوں نے محسوس کیاکہ نظم و اسلوب خود اس کی فطرت لسانی کی روح اور جان هے اورکسی عرب کے دل و دماغ کو اس بیان سے متاثر هونے سے نہیں بچایا جاسکتا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کتاب عظیم، اس اعجاز کی طرف اشارہ هے جو قیامت تک کے تمام انسانوں کو شامل هے ۔
”وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمّٰانَزَّلْنٰا عَلٰی عَبْدِنٰا فَأتُو بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِہِ وَادْعُوا شُھَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَالَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ“
(سورہ بنی اسرائیل:۲۴،۲۳)
اور اگر تمہیں کچھ شک هو اس میں جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آو اور اللہ کے سوا اپنے سب حمایتیوں کو بلا لو اگر تم سچے هو پھر اگر نہ لا سکو تم ہرگز نہ لا سکو گے تو ڈر و اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جوتیار کر رکھی گئی هے ۔ کافروں کے لیے ۔
قرآن حکیم کا نظم ربط بھی اس کے وجوہ اعجاز میں ایک هے عربوں کے جملہ اصناف کلام میں سے کسی میں بھی یہ نظم وترتیب موجود نہیں ۔ قرآن کریم کے زور بیان اور ندرت کا راز اسی میں مضمر هے، اس نظم وربط کاایک نمایاں پہلو اس کی سورتوں فواتح وخواتم ہیںجن کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ بجائے خود ایک دلچسپی کا موضوع هے اور اس سے قرآن حکیم کے اعجاز کے بعض پہلووں کا انکشاف بھی هوتا هے ۔
فواتح السور القرآن کا مفهوم:
فواتح فاتحہ کی جمع هے اس کا سہ حرفی مادہ ف،ت،ح،هے جس کے لفظی معنی کھولنے اور کسی بھی چیز کی ابتداء کے ہیںابن منظور لکھتے ہیں ۔
”فتح الاغلاق الفتح نقیض الاغلاق وفاتحة الشئی، اولہ فواتح القرآن اوائل السورہ(۲)
یہ لفظ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر لغوی طور پر انہی معنوں میں استعمال هوا هے ۔
جن فواتح کو زیر نظر مقالہ میں بطور اصطلاح استعمال کیاجائے گا اس سے مراد فواتح السور القرآن هے جس کا مطلب قرآن حکیم کی سورتوں کا آغاز یاابتدائی حصہ هے ۔
علمائے مفسرین نے اس اصطلاح کو افتتاح السّور سے بھی تعبیر کیا هے ۔ (۳)
فواتح السور قرآن کی اہمیت:
ہمارا روزمرہ کامشاہدہ هے کہ جس چیز پر پہلی نظر پڑتی هے وہ اس چیز کا ظاہری یاابتدائی حصہ هوتا هے اور اسی سے انسان اس کے اچھے یا برے هونے کا تاثر لیتاهےچنانچہ قرآن حکیم کی سورتوں پر پہلی نظرپڑتے ہی انسان اس کی فصاحت، بلاغت اور ربط و نظم سے متاثر هوئے بغیر نہیں رہ سکتااس وجہ سے علمائے مفسرین نے فواتح السور القرآن کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا۔
اہل بیان کا قول هے حسن الابتداء بلاغت کی جان هے اور یہ اس چیز کا نام هے کہ کلام کے آغاز میں خوبی عبارت اور پاکیزگی لفظ کا بہت بڑا خیال رکھا جائے کیونکہ جس وقت کوئی کلام کانوں میں پڑنا شروع هوگا۔ اگر اس وقت عبارت کا چہرہ درست هوا تو سننے والا بڑی توجہ سے وہ کلام سنے گا اور اسے اپنے ذہن میں محفوظ کرنے کی کوشش کرے گا ورنہ عبارت کا چہرہ خراب هونے کی صورت میں باقی کلام خواہ کتنا ہی پاکیزہ هو سامع کو ابتداء کے بھونڈے الفاظ سن کر کچھ ایسی نفرت هو گی کہ وہ کبھی اس کو سننا گوارا نہ کرے گااسی وجہ سے یہ ضروری بات هے کہ آغاز کلام میں بہتر سے بہتر،شیریں سلیس،خوش نما اور معنی کے اعتبار سے صحیح تر اور واضح، تقدیم و تاخیر اور تعقید سے خالی التباس اور عدم مناسبت سے بری لفظ لایا جائے اور کلام مجید کی سورتوں کے فواتح بہترین وجوہ، نہایت بلیغ اور کامل هو کر آتے ہیں مثلاً تحمیدات، حروف تہجی اورنداء وغیرہ
فواتح السورالقرآن کی اقسام:
قرآن حکیم کی سورتوں کا آغاز کسی ایک طرزیا نوعیت سے نہیں هوتا بلکہ مختلف انداز واقسام سے هوتا هے یہی وجہ هے کہ ابتداء میں ایسے الفاظ اور موضوع کو لایا جاتاهے جو سورہ میں زیادہ تر مقصود بیان اور ملحوظ هوچنانچہ علمائے مفسرین نے فواتح السور القرآن پر سیر حاصل بحث کی هے جس کے نتیجے میں ان کی تحقیق و تالیف قابل ذکر ہیں علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
”ابن ابی الاصبع نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب تالیف کی هے اور اس کانام الخواطر السوانح فی اسرار الفواتح رکھا هے اور میں اس نوع (فواتح السور القرآن) میں اس کتاب کا ملخص کچھ زائد باتوں کے ساتھ جو مختلف کتابوں سے لی گئی ہیںدرج کرتا هوں ۔ (۵)
تلاش وتحقیق سے مجموعی طور پر یہ بات معلوم هوتی هے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی سورتوں کا افتتاح دس انواع کے ساتھ فرمایاهے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔
۱ قرآن حکیم کی کئی سورتوں کاآغاز اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء سے هوا هے اور حمد و ثناء کی دو اقسام ہیں ۔
اولاً اللہ تعالیٰ کے لیے صفات مدح کا اثبات
ثانیا صفات نقص کی ذات باری تعالی سے نفی اور ایسی صفتوں سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ چنانچہ پہلی قبیل میں پانچ سورتوں کاآغاز تحمید سے کیاگیاهے ۔ وہ یہ ہیں:
سورةالفاتحہ: الحمد للہ رب العٰلمین۔ (۶)
سورةالانعام: الحمدللہ الذی خلق السموات والارض۔ (۷)
سورةالکہف : الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الْکِتٰبُ۔ (۸)
سورةسبا: الحمدللہ الذی لہ مافی السموات وما فی الارض۔ (۹)
سورةفاطر: الحمد للہ فاطر السموات والارض۔ (۱۰)
جبکہ دوسورتوں میں تبارک کے عنوان سے جس میں ذات باری تعالیٰ کے لئے اثبات حمدی هے ابتداء فرمایا:
سورةالفرقان: تَبٰرَکَ الذی نَزَّلَ الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیراً۔ (۱۱)
سورةالملک: تَبَرَکَ الذی بیدہ الملک وھو علی کل شیٴٍ قدیر۔ (۱۲)
۲ قرآن کریم کی سات سورتوں کی ابتداء تسبیح کے صیغے کے ساتھ هوئی هے ۔ الکرمانی ”متشابہ القرآن“ کے بیان میں لکھتے ہیں کہ تسبیح ایک ایسا کلمہ هے جس کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے استعمال فرمایا هے چنانچہ ان سورتوں کا آغاز اس کلمہ کے ساتھ هوا هے ۔
سورةبنی اسرائیل: سبحان الذی اسری بعیدہ۔ (۱۳)
سورةالحدید: سَبَّح لِلّٰہِ مافی السموات والَارْض۔ (۱۴)
سورةالحشر: سَبَّح لِلّٰہِ مافی السَّموات والَارْض۔ (۱۵)
سورةاَلصَّفْ: سَبَّح لِلّٰہِ مٰافی السَّمٰواتِ وَمٰا فِی الْاَرْضِ۔
سورةالجمعة: یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مافی السموات والَارْض۔ (۱۶)
سورةالتغابن: یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مافی السَّموات ومافی الاَرْض۔ (۱۷)
سورةالاعلیٰ: سَبِّح اِسْمِ بک الاَعْلیٰ۔ (۱۸)
مذکورہ بالا سورتوں میں سے پہلی میں مصد ر دوسری اور تیسری میں ماضی،چوتھی، پانچویں سورت مضارع اور چھٹی سورة میں امر کا صیغہ استعمال کر کے اس کلمہ کا اس کی ہر جہت سے استعیاب کر لیا گیاهے ۔ (۱۹)
۲۔ حروف تہجی یا حروف مقطعات:
حروف تہجی سے قرآن حکیم کی انتیس(۲۹)سورتوں کا آغاز فرمایا هے جنہیں حروف مقطعات بھی کہتے ہیں ان کو سورتوں کا نقطہ آغاز یافو اتح السوُّر کہا جاتا هے سورتوں کے یہ فواتح پانچ اقسام پر آتے ہیںجو درج ذیل ہیں ۔
۱۔ بسیط مقطعات:
یہ حروف کی وہ قسم هے جو صر ف ایک حرف پر مشتمل هے اور یہ تین سورتیں ہیں ۔
سورةص: ص والقرآن ذی الذکر۔ (۲۰)
سورةق: ق والقرآن المجید۔ (۲۱)
سورةالقلم: ن والقلم ومایسطرون۔ (۲۱)
۲ دو حروف سے مرکب مقطعات:
ایسے مقطعات قرآن حکیم کی دس سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں جو یہ ہیں ۔
سورةطٰہٰ: طہ o مانزلنا علیک القرآن لتشقی(۲۲)
سورةالنمل: طسo تلک آیت القرآن وکتاب مبین(۲۳)
سورہ یس: یس o والقرآن الحکیم(۲۴)
سورةمومن: حم o تنزیل الکتاب من اللہ العزیز الحکیم(۲۵)
سورةحم السجدة: حم o تنزیل من الرحمن الرحیم(۲۶)
سورةالزخرف: حم o والکتب المبین(۲۸)
سورةالدخان: حم o والکتب المبین(۲۹)
سورةالجاثیہ: حم o تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم(۳۰)
سورةالاحقاف: حم o تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم(۳۱)
۳ تین حروف سے مرکب مقطعات:
اس نوع میں قرآن حکیم کی تیرہ سورتیں آتی ہیں ۔
سورةالبقرة: الم o ذالک الکتاب لاریب فیہ(۳۲)
سورةال عمران: الم o اللہ لاالہ الاھوالحی القیوم(۳۴)
سوریونس: الرا oتلک آیٰت الکتب الحکیم(۳۴)
سورہھود: الر oکتٰبٌ اُحْکمت اٰیٰتةُ (۳۵)
سورةیوسف: الر oتلک ایت الکتب المبین(۳۶)
سورةابراہیم: الرoکتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ(۳۷)
سورةالشعراء: طسم o ہ تلک ایت الکتب المبین(۳۸)
سورةالقصص: طسمo تلک ایت الکتب المبین(۳۹)
سورةالحجر: الرo تلک ایت الکتب و قرآن مبین(۳۷ا)
سورةالعنکبوت: المo احسب الناس ان یترکوا(۴۰)
سورةالروم: الم o غلبت الروم(۴۱)
سورةلقمن: الم o تلک ایت الکتب الحکیم(۴۲)
سورةالسجدة : الم oتنزیل الکتب لا ریب فیہ من رب العلمین (۴۳)
۴ چار حروف سے مرکب مقطعات:
قرآن کریم کی دو سورتیں چار حروف سے مرکب مقطعات سے شروع هوئی ہیں ۔
سورةالاعراف: المص o کتٰب انزل الیک(۴۴)
سورةالرعد: المرo تلک ایت الکتب(۴۵)
۵ پانچ حروف سے مرکب مقطعات:
صرف دو سورت کا آغاز پانچ حروف پر مشتمل مقطعات سے هوتا هے ۔
سورةمریم: کھیعص ہ ذکر رحمت ربک عبدہ ذکریا(۴۶)
سورةالشوری: حم o عسق کذالک یو حی الیک (۲۷)
حروف مقطعات کی حکمت:
مفسرین حروف مقطعات کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان حروف کے ذکر سے یہ فائدہ مقصود هے کہ یہ قرآن، حروف تہجی یعنی ا،ب،ج، د ہی سے مرکب اور مرتب هونے پر دلالت کرتا هے کیونکہ قرآن مجید کاکچھ حصہ مقطع (جدا جدا)حروف میں آیا هے اور باقی تمام مرکب الفاظ ہیں غرض یہ تھی کہ جن لوگوں کی زبان میں قرآن حکیم کانزول هوا هے وہ معلوم کرلیں کہ قرآن انہی کی زبان میں هے اور انہی حروف میں نازل هوا هے جن کو وہ جانتے اور اپنے کلام میں برتتے ہیں اور یہ بات ان لوگوں کے قائل کرنے اور ان کے قرآن حکیم کے مثل لانے سے عاجز هونے کا ثبوت دینے کے لیے ایک زبردست دلیل هے کیونکہ اہل عرب باوجود یہ معلوم کرلینے کے کہ قرآن حکیم انہی کی زبان میں اترا اور انہی حروف تہجی کے ساتھ نازل هوا جس سے وہ اپنے کلام کو بناتے ہیںپھر بھی قرآن کی اس تحدی (چیلنج) کو قبول کرنے سے عاجز رهے کہ اس کے مثل کوئی سورہ یا کم از کم ایک آیت ہی پیش کر سکیں ۔ (۴۷)
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی مقطعات کی حکمت بیان کرتے هوئے لکھتے ہیں” حروف مقطعات کے سلسلے میں سب سے پہلے یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان کی حیثیت ان سورتوں کے نام یاعنوان کی سی هے جس سورة سے اس کا تعلق هوتا هے چنانچہ جو باتیں سورة میں تفصیلی طور پرموجودهوتی ہیں وہ اجمالی طور پر حروف مقطعات میں بھی مضمر هوتی ہیںمثلاً جب کوئی کتاب لکھی جاتی هے تو اس کا ایک نام رکھا جاتا هے لیکن نام رکھنے میں ہمیشہ کتاب کے مضمون کی مناسبت کا خیال رکھا جاتا هے اور ایک ایسانام تجویز کیاجاتا هے جس کے سنتے ہی کتاب کی حقیقت اور اس کا مفهوم سننے والے کے ذہن میں آ جائے مثلاً امام بخارینے اپنی حدیث کا نام”الجامع الصحیح المسند فی احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھا هے اس نام کے سنتے ہی یہ علم هو جاتا هے کہ اس کتاب میں آنحضرت کی احادیث صحیحہ کو جمع کیاگیاهے ۔ (۴۸)
حضرت شاہ ولی اللہ کی بحث سے یہ بات واضح هو تی هے کہ سورتوں کے آغاز میں آنے والے حروف تہجی دراصل اس سورة میں مذکورہ مضامین کی مناسبت سے آتے ہیں ۔
۳ نداء:
قرآن حکیم کی دس سورتوں کاافتتاح حروف نداء سے کیا گیا هے جن میں پانچ حضور کوندأ سے شروع کیا گیاهے وہ یہ ہیں ۔
سورةالاحزاب: یاایھا النبی اتق اللہ(۴۹)
سورة۔ الطلاق: یاایھا النبی اذطلقتم النساء(۵۰)
سورةالتحریم: یاایھا النبی لما تحرم(۵۱)
سورةالمزمل: یاایھا المزمل(۵۲)
سورةالمدثر: یاایھا المدثر(۵۳)
پانچ سورتوں میں امت کو بذریعہ نداء مخاطب کیاگیاهے ۔
سورةالنساء: یاایھا الناس اتقوا ربکم(۵۴)
سورةالمائدة: یاایھا الناس امنوا اوفوا بالعقود(۵۵)
سورةالحج: یاایھا الناس اتقوا ربکم(۵۶)
سورةالحجرات: یاایھا الذین امنوا لاتقدموا(۵۷)
سورةالممتحنہ: یاایھا الذین آمنوا لاتتخدوا(۵۸)
۴۔ جملہ خبریہ:
قرآن حکیم کی تیس سورتوں کوجملہ خبر یہ سے شروع کیا گیا هے ۔
سورةالانفال: یسئلونک عن الانفال(۵۹)
سورةالتوبة: برآة من اللہ ورسولہ(۶۰)
سورةالنحل: اتی امر اللہ فلا تستعجلوہ(۶۱)
سورةالانبیاء: اقترب للناس حسابھم(۶۲)
سورةالمومنون: قدافلح المومنون(۶۳)
سورةالنور: سورة انزلنھا وفرضناھا(۶۴)
سورةالزمر: تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم(۶۵)
سورةمحمد: الذین کفروا وصدوا(۶۶)
سورةالفتح: انا فتحنا لک فتحاً مبینا (۶۷)
سورةالقمر: اقتربتِ الساعة وانشق القمر(۶۸)
سورةالرحمن: الرحمن o علّم القرآن(۶۹)
سورةالمجادلة: قدسمع اللہ قول التی(۷۰)
سورةالحاقة: الحاقة o ماالحاقة(۷۱)
سورةالمعارج: سال سائل بعذاب واقع(۷۲)
سورةنوح: انا ارسلنا نوحاً الی قومہ(۷۳)
سورةالقیامة: لااقسم بیوم القیامة(۷۴)
سورةعبس: عبس و تولی(۷۵)
سورةالبلد: لااقسم بھذالبلد(۷۶)
سورةالقدر: انا انزلناہُ فی لیلةالقدر(۷۷)
سورةالبینة: لم یکن الذین کفروا(۷۸)
سورةالقارعة: القارعة مالقارعة(۷۹)
سورةالتکاثر: الھکم التکاثر(۸۰)
سورةالکوثر: انا اعطینک الکوثر(۸۱