مترجم: حجة الاسلام والمسلمین محمد علی ایازی
شیخ الطائفہ مرحوم محمد بن حسن المعروف بہ شیخ طوسی کا تحقیقی کارنامہ بہت مفید و سود مند هے محققین اوراہل دانش و بینش نے اس عظیم مفسرفقہیہ اور مفکر کی تالیفات کی جامعیت نوگرائی،دقت،فصاحت و بلاغت اور محکم بیان کی تعریف کی هے ۔
شیخ الطائفہ کی گرانقدر اور کم نظیر تالیفات میں سے ان کی تفسیر ”البیان فی تفسیر القرآن هے ۔ تاریخی اعتبار سے اسلامی فرھنگ و ثقافت کے میدان میں تفسیر نگاری کا سلسلہ ”البیان“ کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی تنقید، تجزیہ اور تحقیق کے مرحلہ میں داخل هو گیا ۔
شیخ طوسی پہلے شخص ہیں جنهوں نے تفسیر قرآن کو نقل آیات اورسلف کے اقوال سے نکال کر تنقید، تجزیہ اور تحقیق کے میدان میں داخل کر دیا ۔
”بیان“ سے پہلے کی تفسیری کتب میں زیادہ تر نقل روایات اور لغات کے معانی کی وضاحت پر اکتفا کیا جاتا تھا ۔
محمد بن جریرطبری کی گرانقدر کتاب”جامع البیان“ اور معتزلیوں کی چند تفاسیر میں کہیں کہیں اجتہاد اوراستنباط اور تفسیر کاعقلی تجزیہ وتحلیل نظر آتا هے (۲)شیخ نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں واضح طور پر عقلی دلائل کی پیروی کو مسلّم جانا هے اور نقلی دلیل کے لیے تواتر او ر ” مجمع علیہ“ هونے کو شرط قرار دیا هے وہ تفسیر قرآن میں خبر واحد کو قبول نہیں کرتے اور متاخر مفسرین کے اقوال کو ناقابل پیروی خیال کرتے ہیںانهوں نے محکم اصول پر بھروسہ و اعتماد کرتے هوئے بہت ساری روایات اور سابقہ مفسرین کے اقوال کو قبول نہیں کیا اور ان کے اشتباہات اور نقائص کوبیان کیا هے ۔
شیخ الطائفہ نے مکتب تشیع کے افکار و اصول پر اعتماد کرتے هوئے ایک جامع اور مکمل تفسیر مرتب کی اور تفسیر لکھنے کے ھدف ومقصد کو آغاز کتاب میں یوں بیان فرمایا”جس چیز نے مجھے یہ تفسیر لکھنے پر مائل کیا وہ یہ تھی کہ کسی شیعہ عالم نے اب تک مکمل قرآن کی ایسی کوئی جامع اور کامل تفسیر نہ لکھی تھی جو مختلف فنون اور معانی پر مشتمل هو ماضی میں چند علماء نے ہمت کر کے کچھ روایات جمع کیں البتہ اس میں پوری تحقیق نہ کی گئی اور جن آیات کی تشریح و وضاحت کی ضرورت تھی انکی تشریح و وضاحت نہ هو سکی۔
بعض نے آیات کی تفسیر کی هے مگر ان میں بھی چند ایک (طبری)نے الفاظ و لغات کے معانی بیان کرتے هوئے طوالت سے کام لیا هے اور فنون کے حوالے سے جو کچھ ہاتھ لگا نقل کرڈالا هے بعض نے صرف مشکل الفاظ و لغات کے معانی بیان کرنے پر اکتفا کیا هے ۔
اعتدال کی راہ پر چلنے والوں کو جتنی سمجھ آئی لکھ ڈالا جس کو سمجھ نہ آئی نہ لکھا نحویوں نے ساری توجہ قرآن کے ادبی پہلوؤں پرمرتکز کر دی۔ جب کہ متکلموں نے کلامی مباحث پر توجہ دی هے چند ایک نے دوسرے فنون کا ذکر کیا هے اوربعض نے تو تفسیر سے مناسبت نہ رکھنے والے مطالب کا بھی ذکر کر لیا هے ۔
میں نے سنا هے کہ بعض علمائے شیعہ قدیم زمانے سے ان تفاسیر کی طرف مائل هوتے تھے جو اعتدال کے ساتھ ساتھ تمام علوم و فنون پر مشتمل تھے میں خداوند تعالیٰ کی توفیق سے اسی قصدکے ساتھ آغاز کرتاهوں اور انتخاب و اختصار سے کام لوں گا ۔ (۳)
مرحوم شیخ نے اپنی مفید و پر ثمر تفسیر میں آختر تک یہ وعدہ پورا کیا اور اختصار و انتخاب کے ساتھ ساتھ کلامی،ادبی،تاریخی، اور فقہی مباحث سے بھی اپنی تفسیر کو پر رونق بنایا هے ۔
”البیان“ کے مطالب کے وسعت اور گہرائی کا احاطہ ممکن نہیں هے اس کے مباحث اورمطالب تجزیہ و تحلیل اور شناخت و معرفت، تفسیر نگاری کے دوران اس کے اثرات اور محققین و مفسرین نے اس سے جو استفادہ حاصل کیا هے اُسے بیان کرنے کے لیے ایک جدا اور ضخیم کتاب کی ضرورت هے ۔ (۴)
بہت سارے علماء تفسیر نے تفسیر ”البیان“ پر اپنے اپنے اندازمیں تبصرہ کیا هے ہم یہاں پر عظیم مفسر قرآن مرحوم امین الاسلام طبرسی کا بیان تحریر کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں!
”البیان" ایسی کتاب هے جس میں نورحق چمکتا دکھائی دیتا هے سچ کی خوشبو اس سے آتی ہیاسرار و معانی کا خزانہ هے اور ادب سے پرُ هے ۔
موٴلف نے تمام مطالب و مباحث کو تحقیق و جستجو کے ساتھ آراستہ وپیراستہ کیا هے”البیان“ ایک ایسا روشن چراغ هے جس سے میں روشنائی حاصل کرتا هوں اور اسی کے پر تو سے میں نے اپنی تفسیرکی کتاب مجمع البیان میں استفادہ کیا هے ۔ (۵)
تفسیر البیان کے نسخہ جات ۱۳۶۴ء ہجری قمری تک مختلف کتابخانوں میں بکھرے پڑئے تھیسال مذکورہ میں اس کے بکھرے هوئے اجزاء آیت اللہ سید محمدحُجت کوہ کمری تبریزی کی کوششوں سے ایک جگہ جمع کئے گئےچند علماء نے اس کی تصحیح کی اور دو بڑی جلدوں میں(پہلی جلد ۸۷۹اور دوسری جلد۸۰۰صفحات پر مشتمل تھی)۱۳۶۵ہجری قمری میں شائع کی گئی اس طرح معارف تفسیر قرآن کے محققین کی آرزو بھرآئی۔
علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی اس سلسلے میں لکھتے ہیں ۔
” آیت اللہ حجت نے اس کتاب کو شائع کروا کے امت اسلامی کی ایک بہت بڑی خدمت کی هے چونکہ علماء ہمیشہ سے اس چیز کی آرزو کرتے چلے آرهے تھے کہ اس تفسیر کے بکھرے اجزاء کو جمع کر کے شائع کیا جائے یہ توفیق مرحوم حجت کے حصے میں آئی۔ (۶)
دس جلدوں میں اشاعت (قطع وزیری):
یہ اشاعت جناب حبیب فقیر العاملی کی تحقیق اصلاح اور حاشیہ کے ساتھ منظر عام پر آئیاس اشاعت کی جلداول کے آغاز میں محترم آقا بزرگ تہرانی کے حالات بیان کئے گئے ہیں ۔
کتاب کے محقق نے متن کی تصحیح اور تحقیق کے بعد حاشیے میں مفید چیزوں کا اضافہ کیا هے مثلاً آیات کا حوالہ اشعار،نسخوں کا اختلاف بعض لغات کی تشریح۔
ہر جلد کے آخر میں فہرستوں کی فنی لسٹ موجود هے مثلاً فہرست احادیث، متکلموں اور مفسروں کی طرف سے کئے گئے اعتراضات سے متعلق مرحوم شیخ کے جوابات، فہرست امثال، لغوی مباحث وغیرہ۔
جس اشاعت کا یہاں پر ذکر کیا گیا هے وہ ایک بہتر اور مفید اشاعت هے لیکن اس کے باوجود ”البیان" کی عظمت و شان اور تفاسیر میں اس کے ممتاز مقام اس کے اعلیٰ اور عظیم مطالب و مباحث کے پیش نظر اس میں مزید بنیادوں پرتحقیق وتصحیح کی بحمد اللہ ضرورت تھی۔
ادارہ اہل البیت الاحیاء التراث کے محققین نے اجتماعی کوششوں اور پوری دقت کے ساتھ اُسے نئے سرے سے مرتب کیا هے ۔
نسخوں کے درمیان مقائیسہ،تصحیح اور تحقیق کا کام مختلف کمیٹیوں میں تقسیم کر دیا گیاکتاب کے تحقیق کا کام درج ذیل مختلف اہل فن حضرات کی کمیٹیوں کے سپرد کیا گیا ۔
چند حضرات جو قدیم خطوط و الفاظ کو پڑھنے میں مہارت رکھتے تھے اور مناسب علمی قابلیت رکھتے تھے انهوں نے مطبوعہ نسخوں کا ان نسخوں کے ساتھ مقابلہ و مقائیسہ کیا کہ جن کا ذکر بعد میں کریں گے وہ اختلافی مواقع نوٹ کر لیتے تھے
منقولات کے مصادر و منابع کے استخراج کا کا م اس کمیٹی کے ذمے تھامرحوم شیخ نے جو کچھ تفسیر میں ذکر کیا هے کمیٹی کے اراکین نے انہیں استخراج کر کے ان کے مصادر اور منابع پر منطبق کیا جیسے احادیث،کتب،اقوال،نحویوں کی آراء،لغت دان حضرات،قرائتیں،اسباب نزول،اشعار امثال اور ہر وہ چیزجسے نکال کر منابع و مصادر پر منطبق کرنے کی ضرورت تھی۔
یہ بات قابل ذکر هے کہ محققین کی کوشش رہی تھی کہ مذکورہ مواقع پر شیخ الطائفہ سے قبل والے مأخذکا حوالہ دیا جائے اور منقولات کے اصلی اور پرانے مأخذ حاصل کیے جائیں ۔
یہ کمیٹی استخراج شدہ نصوص کو مأخذ کی طرف حوالہ دینے کے ساتھ مختلف نسخوں کا مقائیسہ کرتی۔ علاوہ ازیں مأخذکو وسعت دینے کی کوشش کرتی اس طرح اصلی مأخذ کے علاوہ دیگر مأخذ کا بھی حوالہ دیتی۔ تجدید نظر کے بعد مذکورہ تمام چیزوں کو نیچے حاشیے میں لکھ لیتی۔
اس کمیٹی کی ذمہ داری مصنف کے اصل متن کتاب کو اس طرح مرتب کرنا تھی کہ اس میں کسی قسم کی ملاوٹ ابہام یا اشتباہ باقی نہ رهے نیزاس میں کسی قسم کی کتابت کی یاادبی غلطی یا تحریف باقی نہ رهےیعنی متن کتاب مولف کی تحریر کے مطابق هو۔
۵ آخری چیک اپ کرنے والی کمیٹی:
علماء و فضلاء پر مشتمل یہ کمیٹی آخری نظر اور چیک اپ کے لئے تمام مذکورہ مواد اور کمیٹیوں کے تحقیقی کام کا جائزہ لیتی تھیضرورت کے تحت ان میں کمی و بیشی اور اصلاح کرتی تھی۔
۱ آیت اللہ مرتضٰی نجفی کے کتابخانہ کا نسخہ:
یہ نفیس اور عمدہ نسخہ ۴۵۵ء میں تحریر کیا گیا ۔ جوسورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۲۰سے شروع هوتا ہیاور سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۱۵۰کی تفسیر پر ختم هوتا هے ۔
۲ مذکورہ کتابخانہ کا ایک اور نسخہ:
یہ نسخہ منظم ترتیب کا حامل نہیں هے لیکن ایک قدیم نسخہ هے یہ ۴۰۰ء میں تحریر کیا گیا ۔
۳ تبریز شہر کا ایک نسخہ:
تہران یونیورسٹی میں اس کی ایک کاپی ۶۲۳۴نمبر پر محفوظ هے یہ نفیس نسخہ ۵۳۸ء میں تحریر کیا گیا سورہ انفال سے لیکر سورہ ھود کی آیت نمبر ۸۷تک هے
۴ کتابخانہ ملک کا نسخہ:
یہ ایک گرانقد رنسخہ هے سورہ ھود کی آیت ۴۴ سے لیکر کہف کی آیت نمبر ۶۱تک هے
۵ پرسٹن یونیورسٹی امریکہ کا نسخہ:
یہ عمدہ نسخہ ۵۶۷ء میں لکھاگیا یہ سورہ بقرہ کی آیت ۱۳۶سے لیکر سورہ آل عمران کی آیت نمبر۱۲۰تک هے ۔
۶ ترکی کا نسخہ:
یہ ۵۸۱ء میں تحریر کیا گیا یہ سورہ ذاریات کی آیت ۱۱ سے لے کر سورہ قمر کے آخر تک هے ۔
۷ کویت کا نسخہ:
سید حضرموت کے نسخہ کی کاپی هے یہ عمدہ نسخہ ۵۹۵ء میں لکھاگیا سورہ صافات سے لیکر آخر قرآن تک هے ۔
۸ تہران یونیورسٹی کا نسخہ:
یہ نسخہ آٹھویں یا نوویں صدی میں لکھا گیاجوسورہ انبیاء کی آیت نمبر۹۲سے شروع هوتا هے اور سورہ فاطر تک جاری رہتا هے ۔
حواشی
۱۔ تفسیر طبری سے آگاہی کے لیے ”مجلہ حوزہ“ شمارہ۲۴/۳۸ کی طرف رجو ع کریں
۲۔ معتزلیوں کی تفسیری کتاب سے آگاہی کے لئے ”مجلہ حوزہ“شمارہ ۲۶/۶۷ اور ۵۸ کی طرف رجو ع کریں”الکشاف" انکی مشهور تفسیرهے
۳۔ ”البیان“جلد ۱/ص۱
۴۔ البیان فی تفسیر القرآن سے آگاہی کے لئے ” مجلہ حوزہ“شمارہ ۱۹۰/۶۷ کا مطالعہ کریں
۵۔ ”مجمع البیان“ ج۱ص۱۰
۶۔ ”البیان“ ج۱ص۲۰