سورہ بقرہ کی پہلی ہی آیت میں مذکورهے:
”ذلک الکتاب لاریب فیہ مھدی للمتقین“
اور سورہ لقمان میں هے :
”تلک آیات الکتاب الحکیم ھدی و رحمة للمحسنین“
یہاں ایک سوال اٹھتا هے کہ آخر یہ کیوں صرف متقین اور محسنین ہی کے لیے صحیفہ ہدایت هے ؟ اس کا جواب دیتے هوئے مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی درجہ بدرجہ ہدایت دی هے ہدایت کا پہلا زینہ ہدایت جبلت هے جس کا ذکر قرآن کریم میں یوں هوا هے:
”الذی قَدرّ فھَدیٰ امر فالھمھا فجورھاوتقواھا“
یہ دراصل ادراک وتعقل اور ذوق وجدان کی ہدایت هے جس میں تمام نبی نوع انسان یکساں طور پر شامل ہیںاور اس کی مدد سے وہ اپنے کاموں میں نظم و ترتیب پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی ذاتی قوت فیصلہ سے شر کو چھوڑ کر خیر کو اختیار کرسکتے ہیں ۔ اس کے بعد ہدایت کا دوسرا درجہ انبیاء ورسل کی بعثت سے ظهور میں آیاچنانچہ انبیاء ورسل کی کدوکاوش سے شریعت کا وجود هوا اور اس شریعت کی تکمیل بھی بتدریج هوئی آخر میں آنحضور نے اس شریعت کی تکمیل فرمائی جسے دین اسلام کے نام سے دنیا جانتی هے ۔
قرآن کریم نے براہ راست تین جماعتوں کو مخاطب کیا هے عرب ،یهود اور نصاری،عربوں میں کچھ ایسے تھے جو دین ابراہیمی کی سادگی پر قائم تھیاسی طرح یهود کی ایک چھوٹی سی جماعت حق پر قائم تھیاور نصاری میں سے کچھ لوگ بھی صحیح دین مسیح پر باقی تھیقرآن نے سب سے پہلے عربوں کو مخاطب کیا چنانچہ ان میں جو دین ابراہیمی کی فطری سادگی پر قائم تھے انهوں نے جب قرآن کی آواز سنی تو ان کو محسوس هوا کہ گویا اپنے ہی دل کی آواز سن رهے ہیںانهوں نے دعوت قرآن کو بغیر معجزہ کے مطالبہ کے قبول کر لیاسورہ نور میں انہی لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیاکہ
”یکادزیتھا یضیی ولوھم تمسہ نارنورعلی نوریھدی اللہ لنورہ من یشاء“
اس آیت میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا هے ان سے محسنین اور متقین مراد ہیںاحادیث میں بھی احسان کا یہی مفهوم بیان کیا گیاہیمولانا کا بھی یہی خیال هے کہ قرآن مجیدنے اسی مفهوم کے اعتبار سے اہل مکہ یا اہل کتاب کی ان جماعتوں کے لئے اس کو استعمال کیا هے جنهوں نے فطرت اور وحی کی روشنی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ،قرآن میں جگہ جگہ وارد هے کہ اللہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر رکھتا ہیان کے عمل کو ضائع نہیں کرتا،ایسے ہی لوگوں کے لئے یہ کتاب الہی ہدایت و رحمت هے ۔(۱۵)
ان کے علاوہ جو دوسرے حضرات ہیں انهوں نے اپنی فطری صلاحیتوں کو برباد کرڈالا تھااوروہ غیر فطری معتقدات و اوہام کے شکار هوگئے تھیمولانا نے ان لوگوں پر اس طرح روشنی ڈالی هے ”چنانچہ جب آنحضرت نے ان کے سامنے قرآن مجید پیش کیا تو انهوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیںاس کے سننے اور سمجھنے سے انکار کردیااور ان کا یہ انکار درحقیقت ان کے بہت سے سابق انکاروں کا لازمی نتیجہ تھا ۔ انهوں نے ہدایت کے ابتدائی مراحل میں اس کو قبول کرنے سے اعراض کیا اس لئے بعد کے مرحلوں میں بھی اس کا ساتھ نہ دے سکے اور ایسا هونا قدرتی تھا ۔(۱۶)
اس کے بعد مولانا نے اس پہلو کو لیاهے کہ شریعت الہی عمل کے لئے نازل هوئی هے اسی لئے یہاں علم کے ساتھ ساتھ عمل بھی ضروری هے اگر علم بغیر عمل کے هے تو یہ علم ناقابل اعتبار هے اور اس علم سے مزید علم و عمل کے دروازے نہیں کھلا کرتیایسے علم کو علم نہیں بلکہ جہل کہیں گےیهود کی اکثریت کا معاملہ بھی ایسا ہی تھاانهوں نے اپنے تمام انبیاء کی تعلیمات کو جھٹلا دیااور قرآن مجید کا بھی انکار کردیا
مولانا آگے لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ابتداء ہی میں یہ اصولی بات ذکر کردی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سے امتحانوں سے گزرنے کے بعد کہا کہ”انی جاعل لٰلناس اماما“اسی طرح حضرت موسی نے جب اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لئے دعا کی ۔(۱۷)
تو اللہ نے فرمایا:
”عذابی اصیب بہ من اشاء ورحمتی وسعت کل شیئی فاً کتبھا للذین یتقون(سورہ الاعراف:۱۵۶)
میرا عذاب تو میں جس پر چاہتا هوں (یعنی جو اس کا مستحق هوتا هے) اس پر نازل کرتا هوں اور میری رحمت ہر چیز کو عام هے پس میں اس کو لکھ رکھوں گاان لوگوں کے لیے جوتقوی پر قائم رہیں گےیعنی جو اللہ کے عہد پر قائم رہیں گے اور اس کے حدود کا پاس و لحاظ رکھیں گے ۔
انہیں کے لیے یہ کتاب باعث ہدایت ثابت هو گیمولانا فرماتے ہیں،اس کو وہی لوگ قبول کریں گے جو متقی ہیں جنهوں نے اپنے عہدو پیمان کو قائم رکھا هے جنهوں نے خدا کی نعمت کی قدر کی هے ۔جنهوں نے اپنے انبیاء کی تعلیمات کو یاد رکھا هے اور جن لوگوں نے خدا سے کئے هوئے عہد کو توڑ دیا هے اس کے رشتوں پرمقراض چلا چکے ہیںوہ ہرگز قرآن کریم کو بطور صحیفہ ہدایت کے قبول نہیں کریں گیقرآن کریم میں ارشاد هے ۔
”یُضل بہ کٰتیرا ویھدی بہ کثیراومایضل بہ الاالفاسقین الذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ و یقطعون ماامراللہ بہ ان یوصل و یفسدون فی الارضاولئک ھم الخاسرُن(سورہ البقرہ:۲۶۲۷)
اللہ تعالیٰ اس حقیر مثال سے گمراہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس مثال کی وجہ سے بہتوں کو اور ہدایت کرتے ہیں اس کی وجہ سے بہتوں کو الگ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ اس مثال سے کسی کو مگر صرف بے حکمی کرنے والوں کو جو کہ توڑتے رہتے ہیں اس معاہدے کو جو اللہ تعالیٰ سے کرچکے تھے اس کے استحکام کے بعد اور قطع کرتے رہتے ہیں ان تعلقات کوکہ حکم دیا هے اللہ نے ان کو وابستہ رکھنے کا اور فساد کرتے رہتے ہیںزمین میں پس یہ لوگ پورے خسارے میں پڑنے والے ہیں ۔
آگے مولانا فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے چونکہ اللہ کے وعدوں اور اس کی نعمتوں کی قدر نہیں کی اسی لئے وہ قرآن عظیم جیسی نعمت اور رحمت سے محروم هے ۔ ٹھیک یہی حال نصاری کے ایک بڑے حصے کا بھی تھاجو تعلیمات قرآن کو اپنے افکار وخیالات کے برعکس تصور کرتا تھاچنانچہ یہ حضرات قرآن کریم کی ہدایت سے محروم رهے لیکن ان میں سے ایک ایسا صالح العقیدہ طبقہ تھا جس نے قرآن کریم کی آواز پر بڑھ کر لبیک کہاقرآن کریم نے انہیں محسنین کے لقب سے یاد کیا قرآن کریم میں ارشاد هے
”فاثا بھم اللہ بماقالوا جنّات تجری من تحتھا الانھارالانھارخالدین فیھا و ذلک جزاء المحسنین“ (سورہ المائدہ :۸۵)
پس ان کے اس قول کے صلہ میں اللہ نے ان کو ایسے باغ دیئے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے اوریہ بدلہ محسنین کا ۔
مولانا فرماتے ہیں کہ اس تفصیل کے بعد یہ بات واضح هو گئی کہ قرآن مجید کے متعلق جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا هے کہ یہ ہدایت هے متقین کے لئے ،یہ ہدایت هے محسنین کے لئے تو اس کا مفهوم اس سے کس قدر وسیع هے جو ہم عام طور پرسمجھتے ہیںاس کا مطلب یہ هے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت هے اس وجہ سے اس کا فہم و تدبر صرف انہی لوگوں کو نصیب هوتا ہیجو اس نعمت پر اللہ کے شکر گزار هوں اور اس کی شکر گزاری یہ هے کہ یہ جس مقصد کے لئے ان کو دی گئی هے اس مقصد کو پورا کریںاس کو دینے کا مقصد یہ هے کہ اپنی عملی و اعتقادی زندگی پر اس کو پوری طرح طاری کریںجوں جوں وہ اس نعمت کے قدر و احترام میں بڑھتے جائیں گے اس قدر اس کی برکتیں ان کے لئے بڑھتی جائیں گی ۔(۱۹)
اس کے بعد مولانا نے تدبر قرآن کے داخلی اور خارجی وسائل سے بحث کی هے لیکن مولانا نے خود بتایا کہ یہاں پہلے سوال کے ایک حصہ اور دوسرے سوال کے بعض ضروری پہلوؤں کی طرف بالاجمال اشارہ کیا گیا هے ۔
پہلے سوال کے ایک حصہ کا ذکر کرتے هوئے مولانا نے بتایا کہ قرآن مجید کے فہم و تدبر کے لئے سب سے پہلی چیز خود قرآن کریم ہیسلف کا یہ مذہب رہا هے کہ وہ تمام مشکلات میں پہلے قرآن کریم ہی کی طرف رجوع کرتے کیونکہ القرآن یفسربعضہ بعضا“اور قرآن نے خود اپنی صفت بتا ئی هے مفرد الفاظ کے علاوہ اسالیب کلام و نحوی تالیف وغیرہ کے باب میں بھی قرآن مجید کا یہی حال ہیمولانا کہتے ہیں کہ ارباب نحو قرآن مجید کی جن ترکیبوں میں نہایت الجھے ہیں اور کسی طرح اس کو نہیں سلجھا سکے ہیں خود قرآن مجید میں ان کی مثالیں ڈھونڈ لیں تو ایک سے زیادہ مل جائیں گی اور پیش و عقب کے ایسے دلائل و قرائن کے ساتھ مل جائیں گی کہ ان کے بارے میں ہمارے اطمینان کو کوئی چیز مجروح نہیں کر سکتی اس کے علاوہ قرآن مجید کی تعلیمات ،اس کے تاریخی اشہارات اور اس کی مخفی تعلیمات کے سلسلے میں تمام مفسرین نے اعتراف کیا هے کہ قرآن کریم نے دوسرے مقامات پر اس تفسیر اور تصریح بیان کی هے ۔
قرآن کریم کی تفسیر کے سلسلے میں مولانا کا خیال هے هے تفاسیر کو ہرگز مقدم نہ رکھا جائیتفاسیر دو طرح کی ملتی ہیںایک تو کسی مکتب فکر کی نمائندگی کرتی ہیں یاتو روایات اور اقوال سلف کے تمام رطب ویابس کا مجموعہ ہیںمولانا کا خیال هے کہ قرآن کریم کا طالب علم ہرگز ان تمام تفاسیر کے چکر میں نہ پڑیںورنہ اس کی تحقیق اور جستجو کا سلسلہ منقطع هو جائے گاپہلے کسی نتیجہ تک پہنچنے کے بعد ان تفاسیر کا رخ کرے،انشاء اللہ روایات سے ضرور اس کی تائید هو گیاگر روایات سے تائید نہ هو رہی هو تو دوبارہ اپنے خیال اور روایات کو سامنے رکھ کر غور کرے،انشاء اللہ یاتوآپ کی رائے کی کمزوری کا پہلو واضح هو جائے گایا حدیث کا صنعف منظر عام پر آجائے گالیکن ان مقامات پر عجلت کی نہیں بلکہ توقف کی ضرورت هے اس طرح دھیرے دھیرے ضرور وہ حکمتوں اور معارف کے خزینوں کو پالے گا ۔
مولانا نے فہم قرآن کے متعلق یہ بھی بتایا کہ طالب قرآن کے لئے ضروری هے کو وہ عید نزول قرآن،قدیم عرب اور ان سے متعلقہ اقوام کی تاریخ سے واقف هو کیونکہ قرآن کریم بے شمارآیات انہی موضوعات سے متعلق ہیںکیونکہ ان کے بغیر قرآن کریم کی تاثیر پورے طور سے منظر عام پر نہیں آسکتی(۲۰)مولانا فرماتے ہیں اس عہد کی تمدنی حالت ،اس عہد کے سیاسی رجحانات،اس زمانے کے مذہبی عقائد و تصورات اور اخلاقی معیارات وغیرہ،نیز زمانہ نزول میں مختلف قوموں کے تعلقات کی رعیت،ان کے دستورومراسم کی کیفیات،ان کے اصنام کی خصوصیات اور تمدن وسیاست پر ان کے اثرات وغیرہ(۲۱)پر قرآن کریم پر غور کرنے والی کی نظر هونا بہت ضروری ہیایسی کوئی تفسیر هے جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کر سکے؟اس کے علاوہ عرب کی جو تاریخ موجود ہیںوہ ناقابل اعتبار ہیں اس لئے اس باب میں جو کچھ قرآن میں موجود هے اسی پر اعتماد کیا جائے اس سلسلے میں مولانا نے اپنے استاذگرامی کا حوالہ دیا هے کہ اس باب میں ان کی تفسیر سورہ فیل!(۲۲)ایک اعلیٰ نمود کا درجہ رکھتی هے مولانا لکھتے ہیں ”اس معاملہ میں استاذ امام مولانا حمید الدین صاحب قراہی کے طریق فکر ونظر کا اندازہ کرنے کے لئے سورہ فیل کی تفسیر پڑھنی چاہیے اس سے معلوم هو گا کہ ان کا اصلی اعتماد ،قرآن مجید کے اشارات اور کلام عرب پر هوتا هے،اور تاریخ کی روایات کو وہ ہمیشہ انہی دونوں کسوٹیوں پر پرکھ کر قبول کرتے ہیں اور حق یہ هے کہ اس باب میں ان دوچیزوں کے سوا کسی تیسری چیز سے مشکل ہی سے مدد ملتی هے ۔(۲۳)
آگے مولانافرماتے ہیں قرآن مجید کی زبان اور اس کے اسالیب کی مشکلات حل کرنے میں تین چیزیں کتاب لغت اور کلام عرب،کتب نحو اور کتب بلاغت معاون ثابت هو سکتی ہیں ۔
کتب لغت میں سب سے زیادہ اہم مولانا نے ”لسان العرب“ کو قرار دیا هے یہ لغت قرآن مجید کے سلسلے میں ارباب تاویل کے اقوال نقل کردیتا هے ،اس سے بچنے کی ضرورت هے،کیونکہ اس سے لغت کا مفهوم فوت جاتا ہیاس کے بعد مولانا نے امام راغب کی مفردات القرآن کا ذکر کیا هے اور یہ بتایا هے کہ یہ لغت بھی قرآن کے سلسلے میں زیادہ حقیر نہیں هے بلکہ یہ صرف مبتدیوں کے لئے هے کیونکہ اس میں نہ تو سارے الفاظ ملتے ہیں اور نہ ہی کلام عرب سے استشہاد پیش کیا گیا ہیمولانا کہتے ہیں کہ ایسا کوئی لغت نہیں هے جس میں بہ صراحت هو کہ بہ لفظ خالص عربی هے ،یامولداس کے معنی کیا ہیں اور اس کے معانی میں سے کس پر اس کا اطلاق حقیقتہً هے اور کن پر اطلاق مجاز(۲۴) صرف ” صحاح جویری“(۲۵) میں کہیں کہیں یہ چیز ملتی هے مگر بہت کم لفظوں کے حقائق کااندازہ صرف کلام عرب اور اسالیب کلام سے لگایا جاسکتا هے اور انہی دونوں چیزوں کے ذریعہ الفاظ کے معروف اور شاذ معانی کا پتہ لگایا جاسکتا هے اور نہ وہی هوگاکہ”تمنی“ کے معنی تلاوت کرنے کے اور”نحر“ کے معنی سینہ پر ہاتھ باندھنے کے لئے جائیں گیمولانا قراہی کا انس سلسلے میں تمام تر انحصار کلام عرب تھاوہ اگر کسی لفظ کے باب میں متردد هوتے تو کلام عرب اور قرآن مجید میں اس کا حل تلاش کرتے ۔(۲۶) اس سلسلے میں مولانا کی دو کتابیں ” اسالیب القرآن“ (۲۷) اور ”مفردات القرآن“ (۲۸) بڑی عظمت کی حامل ہیں ۔
قرآن کریم کی نحوی مشکلات کے سلسلے میں مولانا نے بتایا کو اس سلسلے میں کوئی ایسی کتاب نہیں هے جس کی طرف اشارہ کیا جاسکیارباب تفسیر میں تنہاز مُحشری ہیں جنهوں نے اپنی تفسیرمیں نحوی مسائل سے بحث کی هے مولانا نے اس باب میں ایک گرانقدر بات یہ کہی هے کہ قرآن کریم کے طلبہ کو چاہیے کہ وہ کلام عرب پر اعتماد کریں اسی طرح مولانا نے یہ بھی بتایا کہ میری نظر میں ایسی کوئی کتاب نہیں جس میں قرآنی بلاغت سے بحث کی گئی هو(۲۹) البتہ اس موضوع پر امام باقلانی (۳۰) کی خدمات قابل قدر ہیں اسی طرح ابن تیمہ امداد بن قیم کی تصانیف میں بھی کچھ هوجواہر ریزے مل جاتے ہیں اور مولانا کی کتاب پر ”جمیرةالبلاغہ“(۳۱) اس سلسلہ کی آخری اور سب سے زیادہ اہم چیز هے (۳۲) یہ کتاب قرآنی بلاغت کو سمجھنے میں حد درجہ معاون هے ۔
اس مقالہ کے آخر میں مولانا نے بتایا کہ قرآن کریم کے طالب علم کو دیگر آسمانی کتب کا مطالعہ بھی ضرور ی هے تاکہ قرآن کریم کی ایک آخری آسمانی کتاب کی حیثیت سے عظمت منظر عام پر اس کے نیز اہل کتاب کے اعتراضات کا علمی اور مُسکت جواب اسی وقت ممکن هے جب کسی کو توریت اور انجیل پرگہری نظر هوان کتابوں کے مطالعہ سے ایک دوسرا فائدہ یہ هو گا کہ اہل کتاب کے باب میں جو اشارات اور تلمیحات ہیں انہیں بخوبی سمجھنے میں آسانی هو گیخود قرآن کریم کی بہت سی آیات سے یہ مترشح هوتا هے کہ ان آسمانی صحیفوں کا مطالعہ کیا جائے مثلاً ارشاد باقی هے:
”وھذا کتبنا فی الزبورمِنْ بعدَالذکر انّ الارض یرثھاعبادی الصالحون“ (سورہ الانبیاء:۲۵)
ہم نے زبور کے بعد لکھ دیا هے کہ زمین کے وارث صالح بندے هوں گے ۔
دوسری جگہ ارشاد هے :
”ان ھذا لفی الصحف الاولی صحف ابراہیم و موسی“ (سورہ الاعلیٰ:۱۸)
بیشک یہ بات پہلی کتابوں میں لکھی هوئی هے ابراہیم اور موسی کی کتابوں میں ۔
کتب سابقہ سے ایک قرآن کا طالب علم متعدد فوائد حاصل کر سکتا هے لیکن ان کتابوں کے باب میں اصل معیار اور کوئی قرآن کریم ہی کو بتایا جائے گامولانا حمید الدین قراہی نے ایک طرف جہاں ان کتابوں سے فائدہ اٹھایا وہیں قرآن کی روشنی میں ان کی تحریف کی طرف اشارہ کرتے ہیں(۳۳) اس سلسلے میں مولانا کی کتاب ”الذبیح“(۳۴) بطور مثال ملاحظہ کی جاسکتی هے اسی طرح علامہ ابن تیمہ کے یہاں بھی ان کتابوں کا ذکر ملتا هے ۔
اس کتاب کا تیسراباب تیسیرالقرآن هے ،آغاز بحث میں مولانا نے فرمایا کہ قرآن نے خود مختلف جگهوں پر اپنی تعریف بیان کر دی هے کہ وہ لوگوں کے لئے ہدایت هے اللہ نے اسے آسان بنایا ہیوہ پیچیدگیوں سے پاک ہیاور ہر چیزکو وضاحت سے بیان کرتی هے قرآن کی اس تعریف کی روشنی میں یہ کہا جاتا هے کہ قرآن میں کوئی چیز گنجلگ نہیں هے تمام لوگوں کے لئے کتاب ہدایت هے اسی لئے محتاج تفسیر تاویل نہیں اس کا انداز اتنا شگفتہ هے کہ وہ اپنے سوا کسی چیز کا محتاج نہیںقرآن دانی کے لیے عربی زبان دانی کافی هے اور وہ تفسیر آیات میں احادیث،شان نزول اور لغت عرب کا محتاج نہیں هےیعنی وہ بالکل واضح هے تفسیر آیات کے لئے صرف عربی زبان کا جاننا کافی هے مذکورہ خیال کی روشنی میں تین چیزیں سامنے آتی ہیں ۔
ایک تو یہ کہ چونکہ تمام طبقوں کے لئے صحیفہ ہدایت هے اس لئے قرآنی تعلیم دعوت کا معیار عام عقل انسانی کے معیار کے مطابق هے اس کے اسرار و رموز کی وضاحت کے لئے خواص کی ضرورت نہیںدوسرے یہ کہ قرآن کریم کی ہر بات چونکہ قطعیت کا درجہ رکھتی هے اس لئے اس کی وضاحت کے لئے تفسیر و تاویل کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا انحصارظنیات یعنی روایات و احادیث پر هوتا هے اور تیسرے یہ چیز سامنے آتی هے کہ قرآن کریم اپنے زبان وبیان کے لحاظ سے اس قدر شگفتہ هے کہ ایک عجمی کے لئے صرف عربی زبان کے علم کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیںمولانا کا خیال هے کہ ان آراء کے پیچھے بہت سی غلطیاں پوشیدہ ہیں جن کو آگے چل کر واضح کریں گے ۔
اس سلسلے میں مولانا سب سے پہلے تفسیر کے مختلف ادوار کی طرف اشارہ کیااور بتایا کہ قرآن کریم کا سب سے مبارک دور دوراول تھالیکن بعد میں جب دائرہ اسلام کشادہ هوا اور مختلف بدعات وخطرات سے قرآنی تعلیم دوچار هوئی تو اہل سنت اور اہل حق نے یہ طے کیا کہ تفسیر قرآن کے باب میں یہ تمام قیل وقال سے قطع نظرصرف احادیث رسول اور افوال و آثار صحابہ پر اعتماد کیا جائے گااس اصول کے پیش نظر سب سے پہلے جو تفسیر منظر عام پر آئی وہ علامہ ابن جریر کی تفسیر هے ایک آیت کی تفسیر کے لیے تمام روایات نقل کر دی گئی ہیںلیکن روایات کے سلسلے میں کوئی تنقید نہیں هے جس کی وجہ سے ان میں جو جواہر ریزے ہیں وہ منکر اور ضعیف روایات کے انبار میں گم ہیںلیکن پھر بھی مولف کی یہ بہت بڑی خدمت هے ۔
اس کے بعد سب سے زیادہ مقبول اور مشهور تفسیر ابن کثیر کی هے جو تفسیر ابن جریر کا خلاصہ هے اس میں ایک اضافہ هے کہ محدثانہ طریق پر اس میں روایات کی تنقید کی گئی هے اس کے بعد تفسیر کی بنیادی کتاب امام رازی کی هے جوحکیمانہ طرز پر لکھی گئی هے اصلاًیہ تفسیراشعریت کی تائید و توثیق کے لئے لکھی گئی هے جس کی وجہ سے مفید کی بجائے مضر ثابت هوئی اس کے بعد تفسیر کی چوتھی اہم کتاب علامہ زمحشری کی تفسیر کشاف هے یہ تمام مذکورہ تفاسیر سے جداگانہ هے یہ اپنا محور عبارت قرآن کو بتاتے ہیں یہ پہلے لغت اعراب اور ربط کلام سے بحث کرتے ہیں اور نہایت احتیاط کے ساتھ روایات بھی لاتے ہیںیہ تفسیر قرآن کریم کے طلبہ کے لئے مفید هے لیکن افسوس یہ هے کہ جس طرح امام رازی اشعریت کے ممدو معاون ہیں اسی طرح علامہ زمحشری مذہب اعتدال کے وکیل ہیںقرآن کریم کے ساتھ یہ حددرجہ نا انصافی هے کہ اس کے پیچھے چلنے کے بجائے آدمی اس بات کی کوشش کرے کہ اس کو خود اپنے کسی فکر وخیال کے پیچھے چلائے ۔
تفسیر کی یہی بنیادی کتابیں ہیں جن سے پتہ چلتا هے کہ دور اول کے بعد تفسیر قرآن کی راہ میں جوہ پہلا قدم اٹھایاگیا وہی غلط تھااس کے سدباب کے لئے روایات و آثار کاسہارا لیاگیالیکن اس درجہ انہماک هو ا کہ صحیح اور ضعیف کا امتیاز مٹ گیااور روایات کے ساتھ ساتھ قصوں اور اسرائیلیات کا ایک بڑا حصہ تفاسیر میں داخل کر دیا گیا ۔(۳۵) اس کے متعلق مولانا کا خیال هے ظاہر هے کہ تفسیر میں صرف روایات ہی پر پورا پورا اعتماد کر لینا قرآن مجید کی قطعیت کو نقصان پہنچانا هے اس صورت میں خود قرآن مجید کے الفاظ کا فیصلہ باطل هو جاتا هے(۳۶)مذکورہ گفتگو سے دو چیزیں منظر عام پر آتی ہیں ایک تو یہ کہ تفاسیر کا تمام تر انحصار صدر اول کے بعد روایت و آثار پر هو گیا اور دوسرے یہ کہ علم کلام کے علو م نے قرآن مجید کی قطعیت کو حد درجہ متاثر کیا یعنی قرآن کریم کے الفاظ پر اعتماد کرنے کے بجائے متکلمین کی برہانیات پر اعتماد شروع هو گیا ۔(۳۷)
اس کے بعد مولانا نے کلام کے مشکل اور آسان هونے کے تین پہلوؤں کا ذکر کرتے هوئے اس پہلو سے بحث کی هے کہ قرآن کریم کے نزول کا مقصد کیا هے چونکہ روز اول ہی سے بنی نوع انسان کو شیطان کے مکرو فریب کا سامنا کرنا پڑا اس لئے شیطان کی جعل سازیوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مستقل اپنے انبیاء ورسل کے ذریعہ ہدایات بھیجنے کا انتظام کیا اور خاتم الرسول حضرت محمد مصطفی کو آخری صحیفہ ہدایت قرآن کریم عطا کیا گیا قرآن کریم کے نزول کا مقصد یہ هے کہ بنی نوع انسان ہدایت کے راستوں پر گامزن هوجائیاللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو شیطان کی چالوں سے بچنے کے لئے اس طرح تسلی دی ۔
”فامایا تینکم منی ھدی فمن تیع ھدای فلاخوف علیھم و لاھم یخرنون“ (سورہ بقرہ:۳۸)
اگر میری جانب سے کوئی ہدایت آئے تو تم اس کی پیروی کرنا جس نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کے لئے نہ خوف هے نہ وہ غمگین هوں ۔
اس کے بعد مولانا نے یہ مسئلہ اٹھایا هے کہ جن و بشر میں سے جو بھی ہدایتکے راستہ سے لوگوں کو دور کرے وہ شیطان هے یعنی یہ شیاطین انسانوں میں بھی پائے جاتے ہیںقرآن کریم کی اصطلاح میں شیطان کا مفهوم بہت وسیع هے انسانی شیاطین کی طرف قرآن کریم نے خود اشارہ کیا هے
”الذی یوسوس فی صدورالناس من الجنة والناس“ (سورہ الناس:۵،۶)
جو لوگوں میں وسوسہ ڈالتا هے جنوں میں سے اور انسانوں میں سے ۔
سورہ بقرہ میں ارشاد هے:
”واذالقوالذین امنوا قالوااٰمنا واذاخلواالیٰ شیاطینھم قالواانامعکم“ (سورہ البقرة:۱۴)
جب وہ مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں(سرداروں)کے پاس هوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔
مولانا لکھتے ہیں کہ ایک ضمنی بحث تھی اصلاً بتانا یہ هے کہ قرآن کا نزول کن مقاصد کے پیش نظر هوا هے قرآن کریم میں یہ چیز صراحت کے ساتھ موجود هے کہ نبی کو اس دنیا میں تین چیزوں کے لئے مبعوث کیا گیا ۔
۱ تلاوت آیات ۲ تزکیہ ۳ تعلیم کتاب
تلاوت آیات: آیت کے مختلف مفاہم قرآن کریم میں موجود ہیں جس کا ایک مفهوم دلیل او حجت بھی هے یہاں پر آیات سے مراد قرآن مجید کا وہ حصہ هے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے دلائل و براہین پر مشتمل هے قرآن کی جو آیات ابتداء میں نازل هوئیںفقہی احکامات سے بالکل خالی ہیں اور هونا بھی ایسا ہی چاہیے تھاابتداء میں صرف دین اسلام کے اساسی مسائل سے بحث هےجس سے اسلام کا پورا نظام سامنے آجاتا هے بعد میں دین اسلام کی تمام جزئیات مدلل طریقہ سے بیان کی گئی ہیں ۔
تلاوت آیات کے بعد جب انسانی قلوب سے بدعات و خرافات اور باطل خیالات خارج هو جاتے ہیں تو تزکیہ کی نوبت آتی هے یعنی انسان کے دل میں صحیح خیالات و عقائد اپنی جگہ بتانا شروع کر دیتے ہیں تلاوت آیات کے بعد ہی انسان کے اندر جو فطری روشنی موجود هے اس کے ذریعہ وہ سیاہ و سفید میں تمیز کرنے لگتا هے اس روشنی کا ذکر قرآن میں اس طرح هوا هے ۔
”یل الانسان علی تفسہ بصیرة“ (سورہ القیامة :۱۴)
بلکہ انسان اپنے نفس پر خود بصیرت رکھتا هے ۔
یہی چیز دوسرے مقام پر اس طرح مذکور هے:
”فالھمھا فجورھا وتقواھا“ (سورہ الشمس:۸)
پس اُس کوالہام کی گئیں اس کی بدیاں اور اس کی نیکیاں ۔
آگے مولانا فرماتے ہیں کہ جو لوگ دنیاوی لذت اور شهوات میں منھمک هو کر اپنی اس فطری قوت اور فطری روشنی کو کھو دیتے ہیں تو قرآنی آیات اور پیغمبرانہ ارشادات اس کے لئے لاحاصل هوتے ہیں کیونکہ وہ روحانی اعتبار سے مردہ هو چکا هوتا هے ۔
قرآن کریم میں ارشاد هے:
”انک لاتسمع الموتی ولاتسمع الصم الدعاء الاولواتدبِرین “ (سورہ نمل:۸)
آپ مردوں کو نہیں ستا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چل دیں
جن کے دلوں میں یہ روشنی هوتی هے خواہ وہ کتنی ہی دھندلی هو پیغمبر تلاوت آیات سے اسے روشن تر کردیتا هےیعنی پیغمبر تزکیہ فطرت کے مطابق کرتا هے مولانا کا خیال هے کہ تزکیہ صرف مفرد اور سادہ عمل کا نام نہیں هے بلکہ یہ کئی اجزاء کا مرکب هے اس کا موضوع نفس انسانی هے جو دوچیزوں یعنی علم اور عمل کا مجموعہ هے اس لئے تزکیہ کے بھی دو پہلوہیں تزکیہ علم اور تزکیہ عملتزکیہ علم کامطلب یہ هے کہ وہ تمام کثافتوں اور آلودگیوں سے اتنا دور هو کہ شیاطین کی فتنہ انگیزیاں اس پر اپنا اثر نہ رکھاسکیں اور کبھی وہ خواہشات نفس کا شکارهو جائے تو تنبیہ هوتے ہی اس سے باز آجائے اور تو یہ دانابت سے اس کی تلافی کرے ایسے لوگوں کے قرآن کریم میں آیا هے
”ان الذین ین القوا ادامسھم طائف من الشیطن تذکرّوا فاذاھم مبصرون“ (سورہ اعراف:۲۰۱)
جو ڈر رکھتے ہیں اگر ان کو بھی شیطان کی چھوٹ لگ جاتی هے تو وہ فوراً متنبہ هوتے ہیں اور پھر دفعتہً ان کو نظر آنے لگتی هے ۔
آگے مولانا یہ فرماتے ہیں کہ ایک صالح علم کے لئے مستقل اللہ سے دعا مانگنی چاہیے خود پیغمبر جس کی فطرت علم وعمل کی مافوق العادت قوتوں اور قابلیتوں کا خزانہ هوتی هے وہ بھی ان آیات کا تزکیہ کے لئے محتاج هوتا هے یہ آیات اس کے دلوں کو کھول دیتی ہیںاور وہ عشق آیات میں بیتاب هو کر ”رب زدنی علما“ کا ورد کرنے لگتا هے اس کی بے خودی اور عجلت کا یہ حال هوتا هے کہ معلم غیب کی زبان سے اس کو ”لاتعجل بالقرآن“ کا محبت امیز عتاب سننا پڑتا هے ۔
جس قرآن عظیم کا یہ رتبہ هو اس کے متعلق یہ بد گمانی مناسب نہیں کہ وہ صرف چند قوانین ،وعظوں اور قصوں کا ایک منتشر مجموعہ هے اور جس کو سمجھنے کے لئے تفکر وتدبر کی ضرورت نہیں هے مولانا تعلیم آیات کے سلسلے میں نتیجہ یہ پیش کرتے ہیں”اس تفصیل سے معلوم هوا کہ پیغمبر پہلے تلاوت آیات کے ذریعے نفوس کا تزکیہ کرتا هے ۔ فطرت کے مدفون خزانوں کو ابھارتا هے الٹے هوئے چشموں کو جاری کرتاہیدبی هوئی صلاحیتوں کو نمایاں کرتا هے چونکہ فساو علم کی جڑ شرک اور فساو علم کی جڑ انکار حصار هے اس لئے سب سے پہلے توحید وحصار کی تعلیم کو دلوں میں راسخ کرتا هے اور جب ان سے فارغ هو چکتا هے تو تعلیم کتاب کا باب شروع کردیتا هے (۳۹)
اس کے بعد مولانا نے تعلیم کتاب پر روشنی ڈالی هے اور یہ بتایا هے کہ تعلیم کتاب سے قرآن مجید مراد هے لیکن اس سے پورا قرآن مقصود نہیں هے کیونکہ آگے حکمت کی بحث آرہی هے تعلیم کتاب سے وہ حصہ مراد هے جو احکام و قوانین سے متعلق هے ۔ کتاب کا متعدد مفهوم قرآن کریم میں پایا جاتا هے ۔ مثلاً آسمانی کتاب،اللہ کا قرار دادہ فیصلہ،شرائع وقوانین ،اللہ کے قرار دادہ فیصلوں کا دفتر اور اعمال نامے وغیرہلیکن یہاں تعلیم کتاب سے مراد قرآنی احکام و قوانین ہیں ۔ اس مفهوم میں قرآن کریم کی متعدد آیات موجود ہیں مثلاً
”کتب علیکم القصَاصولاتعزلواعقَدةالنکاح حتی یبلغ الکتاب اجلهواولواالاحام بعضھم اولیٰ بعض فی کتاب اللہ“
اس کے بعد مولانا نے فرمایا کہ تعلیم الہیٰ حکمتوں پر مبنی هوتی هے پہلے اس نے فطرت کے تقاضوں کے مطابق دلائل کے ذریعہ سے ہم کو غیر فطری آلودگیوں سے پاک نہ کرلیا اس وقت تک قوانین کی اطاعت کی ذمہ داری ہم پر نہیں ڈالی ۔(۴۰)
تعلیم کتاب پر روشنی ڈالتے هوئے مولانا نے بتایا کہ ”تمام شریعت کا سرچشمہ فطرت کے چند بنیادی حقائق ہیںجس طرح ایک سے سو اور ہزار وجود میں آتے ہیںاسی طرح چند بنیادی حقائق کے لوازم و نتائج کے طور پر دین کا سارا عملی واعتقادی نظام وجود میں آتا هے اسی وجہ سے دین اسلام کو دین فطرت کہا گیا هے ۔(۴۱)اور آگے ایک دوسری چیز یہ بتائی کہ ”دوسری بات یہ معلوم هوتی هے کہ شرائع و احکام حقیقت میں تزکیہ کے جزئیات ہیں یہ تزکیہ کو کامل اور روشن کرتے ہیںاللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت سے ایمان پیدا هوتا هے اور عمل کے ذریعہ سے بندہ اس ایمان کو بڑھاتا هے ۔(۴۲)
قرآن کریم میں ارشاد هے:
”ان الصلوةتنھی اعن الفحشاء والمنکر“
نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی هے ۔
قربانی کی بابت قرآن کریم میں ارشاد هے:
”لن ینال اللہ لحمومھاولاودماء ھاولکن ینالہ التقوی منکم“(سورہ الحج:۳۷)
خدا کو قربانی گوشت اور خون نہیں پہنچے گابلکہ تمہار تقوی ٰپہنچے گا ۔
اس کے بعد مولانا نے ”حکمت“ سے بحث کی هے کہ آیت میں حکمت سے مراد حکمت قرآن هے یاحدیثمولانا نے دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کیا هے کہاس سے مراد حدیث نہیں بلکہ حکمت قرآن مراد هے کیونکہ متعدد آیات میں حکمت کے لئے یُتْلیٰاُنْزِل اور اٰوحیِ کے الفاظ آئے ہیں جس کا استعمال حدیث کے لئے قرآن میں کہیں نہیں هوا هے مثلاً
”انزل اللہ علیک الکتاب والحکمة وعلمک مالم تکن تعلم“ (سورہ النساء:۱۱۳)
اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور وہ باتیں سکھائیں جو تم نہیں جانتے تھے ۔
دوسری جگہ هے :
”وذاکرن مایتلی فی بیوتکن من آیات اللہ والحکمة“ (سورہ الاحزاب:۳۴)
تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور حکمت پڑھی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو۔
ایک تیسری جگہ ارشاد هے:
”ذلک ممااوحی الیک ربک من الحکمة“ (سورہ الاسراء:۳۹)
تمہارے رب نے تمہارے پاس جو حکمت وحی کی هے یہ اس میں سے هے ۔
اس کے علاوہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کے دلائل و براہین کو حکمت بالغہ سے تعبیر کیا گیا هے اور خود قرآن حکیم اور کتاب حکیم وغیرہ کہا گیا هے مثلاً
”حکمة بالغة فماتغن النذرویٰسیں والقرآن الحکیم“
حضرت عیسی کی متعلق فرمایا گیا:
”واذعلمتک الکتاب والحکمة والتورة والانجیل“ (سورہ المائدہ:۱۱۰)
یاد کرو جب ہم نے تم کو کتاب حکمت تورات اور انجیل کی تعلیم دی ۔
یہاں پر ہر کتاب اور حکمت کے بعد تورات اور انجیل بطور تشریح کے آئے ہیں کتاب کا لفظ تورات کے لئے اس لئے آیا هے کہ یہ احکام و قوانین پر مشتمل هے اور حکمت کا لفظ انجیل کے لئے اس لئے آیا هے کہ یہ دلائل ونصائح پر چلتی هے ۔(۴۳)
مذکورہ وجود کی بنا پر حکمت سے حدیث مراد لینا مناسب نہیں هے آگے مولانا نے مولانا قراہی کتاب ”حکمت قرآن“ سے ایک طویل اقتباس کے ذریعہ لفظ حکمت کی لغوی تحقیق پیش کی هے ۔(۴۵)
مذکورہ بالا بحث کے بعد مولانا اس پہلو پر آتے ہیں کہ وہ احکام و قوانین کا مجموعہ ہی نہیںاس کے متعلق یہ خیال درست نہیں کہ بغیر تفکر وتدبر کے اس کی حکمتوں تک پہنچا جاسکتا هے اور اسے سمجھنے کے لئے صرف زبان عربی کا جاننا ہی کا فی هے یہ بھی مناسب نہیں هے کیونکہ احکام وقوانین کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اندر ایک عمبق فلسفہ اور گہری حکمت بھی رکھتاهے جس تک رسائی کے لئے صرف تیرنا ہی کافی نہیں بلکہ ڈوبنے کی بھی شدید ضرورت هے یہی وجہ هے کہ صحابہ کرام ایک ایک سورہ اور ایک ایک آیت پر سالوں سال اور گھنٹے صرف کرتیاورقرآن پر غوروخوض کے لئے وہ مجلسیں قائم کرتےخود سرورکائنات اس طرح کی مجلسوں کے قیام کے لئے صحابہ کرام کو شوق دلاتے(۴۵)ابو داود میں ذکر هے ۔
”مااجتمع قوم فی بیت من بیوت اللہ یتلون کتاب اللہ ویتارسونہ بینھم الانزلت علیھم السکینة وغشیتھم الرحمة وحقتھم الملائکة وذکرھم اللہ فیمن عندہ“ (۴۶)
جو لوگ کسی جگہ متہد هو کر اللہ کی کتاب پڑھنے اور باہم درس و مذاکرہ قرآن کی مجلسیں قائم کرتے ہیںان پر اللہ کی طرف سے تسکین اور رحمت کی بارش هوتی هے اور ملائکہ ان کو ہر طرف سے گھیرے کھڑے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے حلقہ میں ان کا ذکر فرماتا هے ۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر کے بارے میں آتا هے:
”عبداللہ بن عمر مکث علی سورة البقرة ثمانی سنین یتعلمھا“ (۴۷)
حضرت عبداللہ بن عمر مسلسل آٹھ برس تک سورہ بقرہ پر تدبر فرماتے رهے ۔
اس کے علاوہ خود قرآن کی بیشتر سورتوں میں مختلف انداز سے تفکر تدبر کی دعوت دی گئی ہیکہیں
لعلکم تعقلون،کہیں لعلکم تفکرون
اور کہیں لعلکم تذکرون آیا هے فہم قرآن مجید کے لئے ایک ضروری شرط کی طرف یوں اشارہ کیاگیاهے ۔
”ان فی ذالک لذکری لمن کان لہ قلب آوالقی السمع وھوشہید“ (ق:۳۷)
بیشک اس میں یاددہانی هے اس شخص کے لئے جس کے پاس دل هو بامتوجہ هو کر بات پر کان دھر لے ۔
مولانا فرماتے ہیں کہ فہم قرآن کے لئے اولین شرط یہ هے کہ انسان کے پا س بیدار دل هو اور سننے والا کان هو بغیر اس کے قرآنی حکمتوں سے فیضیاب هونا ممکن نہیں هے ۔(۴۸) مولانا فرماتے ہیں کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کا هونا لازمی هے یاتو آدمی کے سینہ کے دروازے کھلے هوئے هوں اور فہم وادراک کی روشنی اس کے اندر زندہ هو یایہ کہ اپنے کانوں کو وہ اس کے لئے کھول دے اورطبیعت کی آمادگی کے ساتھ اس کا خیر مقدم کرےجو حضرات دونوں باتوں سے محروم ہیں وہ قرآن مجید کے فیض سے محروم ہیںان لوگوں کی تصویر سورہ محمد میں ان الفاظ میں کھینچی گئی هے ۔(۴۹)
”اٰفلا یتد برون القرآن ام علی قلوب اقفالھا“
کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں ۔
اسی بحث کو مولانا نے آگے بڑھاتے هوئے ”ولقدیسّرنا القرآن کی صحیح تاویل“ پیش کی هے کہ قرآن کریم ایک سیدھی سادی کتاب هے یہ احکام و قوانین اورپندو موعظت پر مشتمل هے اس کی ایک ایک سورہ پر آٹھ آٹھ برس سر کھپانے کی کیا ضرورت هے ؟اس کے لئے روایات ،تفاسیر اور شان نزول کی کوئی حاجت نہیںمولانا فرماتے ہیں کہ اگر اس آیت پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا تو ہرگز ایسا نہ کہا جاتا بالعموم اس آیت کا مفهوم یہ بتایاجاتا هے کہ حصول نصیحت کی غرض سے یہ کتاب آسان هے جو ایک مناسب خیال هے لیکن یہ بات ہرگز درست نہیں کہ حفظ کے نقطہ نظر سے آسان هے ۔(۵۰)
مولانا اس پر روشنی ڈالتے هوئے”یسرنا“ اور ”للذکر“پر لغوی بحث کی هے مجاہد نے ”یسرنا“ کا معلوم ”ھوناہ“ بتایا هے اور ابن زید نے اس کا مفهوم ”بیناہ “قرار دیا هے اس سے ایک حد تک مفهوم تو ادا هو گیا لیکن اس کی جامعیت کا حق نہ اداهو سکا”یسر“کے معنی لغت میں نرمی اور فرمانبرداری کے ہیںاسی سے تیسیر هے جس کے معنی ہیں کسی شی کو کسی مقصد کے لئے موزوں،صالح ،موافق اور سازگار بنا لینامثلاً کہیں گے ۔”یسرالفرس“ یعنی اس نے گھوڑے کو زین،رکاب اور لگام سے آراستہ کر کے سواری کے لئے بالکل تیار کر لیا ۔
”یَسًرنا قتہ للسفراذارحلھاویسرالفرس للسفراذااسرجہ والجمہ“(۵۳)
اعرج معنی کا شعر هے ۔
”قمت الیہ باللجام یسرًامضالک یحبترینی الذی کنت اضع“ (۵۴)
میں اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا تو حال یہ تھا کہ وہ لگام کے ساتھ بالکل تیار کھڑا تھا ایسے ہی وقتوں میں وہ میرے احسانا ت کا حق اداکرتا هے یہیں سے اس میں اہل اور لائق بتانے کا مفهوم بھی پیدا هو گیامضرس بن ربعی کا شعر هے ۔
”نعین فاعلنا علی ماتابہحتی نیسرہ لفعل السید“ (۵۵)
ہمارے سردار کو جو مشکلیں پیش آتی ہیں ہم اس میں اس کی مدد کرتے ہیںیہاں تک کہ اس کو سرداری کے کام کا اہل بنا دیتے ہیں”للذکر“ کا ترجمہ بعض مفسرین نے نصیحت کرنے کے لئے کیاهے اور بعض نے سمجھنے کے لئے کیا هے مولانا کے نزدیک یہی درست هے اگرچہ پھر بھی پوری حقیقت منظر عام پر نہیں آرہی هے ذکر کے اصل معنی یاد کرنے اور بیان کرنے کے ہیںذکر آسمانی کتابوں کے لئے بھی آتا هے مثلاً”فاسئلوا اہل الذکر“اسی طرح قرآن مجید میں بھی آیا هے ۔
”وھذاذکرمبارک انزلناہ“
اور یہ لفظ قرآن کریم میں اس کی صفت کے طور پر بھی آیا هے مثلاً”والقرآن ذی الذکر“اسی طرح انبیائے کرام کو”مذکر“ اور ان کی تعلیمات کو تزکیہ اور ذکری کے لفظ سے تعبیر کیا گیا هے
”فذکران نفعت الذکریٰ“
اس طرح قرآن کو ”تذکرہ“ اور ”نور “کہاگیا هے ان دونوں لفظوں سے اس کی پوری حقیقت منظر عام پر آجاتی هے اور یہ چیز نہایت صراحت کے ساتھ سامنے آتی هے کہ قرآنی تعلیمات فطرت انسانی کے مطابق ہیںایک مذکر صرف اس لئے آتا هے کہ انسان کو اس کا بھولا بسرا هوا سبق یاد دلا سکے(۵۶)مولانا فرماتے ہیں کہ ”پس قرآن مجید کے سہل هونے کے معنی صرف یہ ہیں کہااگر کوئی طالب علم اس کی رہنمائی میں حقیقت تک پہنچنا چاهے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مدد هو گی کیونکہ اس نے وہ راہ اختیار کر لی هے جواللہ کی کھولی هو ئی راہ هے اورجس سے سیدھی اور کھولی هوئی کوئی دوسری راہ نہیں(۵۷)حضرت فتادہ نے”ھل من مدکر“کی تاویل فرماتے هوئے مندرجہ ذیل الفاظ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا هے ” ھل من طالب علم فیعان علیہ“هے کوئی طالب علم جس کی مدد کی جائے ۔
اسی حقیقت کی طرف صاحب کشاف نے بھی اشارہ کیا هے:
”یجوز ان یکون المعنی و لقد ھیاناہ للذکرمن یسر ناقتہ للسفراذارحلھا ویسرفرسہ للسفراذا اسرجہ والجمعة“ (۵۹)
یعنی اس کے یہ معنی بھی هو سکتے ہیں کہ ہم نے ذکر یعنی حصول علم کے لئے قرآن مجید کو تیار کیا هے جیسا کہ محاورہ هے کہ اس نے اونٹنی کو سفر کے لیے اور گھوڑے کو میدان جنگ کے لئے تیار کیا ہیاس بحث کے بعد یہ واضح هو گیا کہ تفسیر کا جو مفهوم بیان کیا جاتا هے کہ یہ ایک عام فہم کتاب هے اس کے لئے تفکر و تدبر کی ضرورت نہیں اور اس کو جاننے کے لیے صرف عربی جاننا ہی کافی هے مناسب نہیں هے مولانا فرماتے ہیں”اگر وہ ایمان لانا چاہتے ہیں اور یہ وعدہ محض مذاق و شرارت نہیں هے بلکہ سچائی کے ساتھ ان کے دل کا اقرار هے تو پھر علم کی راہ اختیار کریں،علم کے حصول کے لئے ہم نے قرآن مجید کو نہایت مکمل اور موزوں بتا دیا هے اس میں ہر سوال کا جواب هے ہر شبہہ کا ازالہ هے ہر خلش کے لے تشقی ہیبس اس کو اختیار کرلیں وہ ہر منزل میں رہنمائی کر ے گا اور ہر عقدہ کو حل کریگا ۔(۶۰)
اس کے بعد مولانا نے تفسیر کے مختلف پہلوؤں سے بحث کی هے تفسیر کا ایک پہلو یہ بھی هے کہ قرآن کا نزول عربی مبین میں هواقرآن کریم میں مختلف جگهوں پر اس خصوصیت کا ذکر هے (۶۱)مثلاًانا انزلناہ قرآنا عربیآ(سورہ یوسف:۲) دوسری جگہ ارشاد هے ”کتابُ فصلت آیاتہ قرآنا عریبا(سورہ قصلت:۳)اور تیسری جگہ ارشاد هے وھذ السان عربی مبین“(سورہ نحل:۱۰۳)مولانا فرماتے ہیںاس لئے قرآن مجید عربی میں نازل هواپھر عربی بھی وہ عربی جو عربی مبین هے بالکل واضح اور صاف ،مغلق اور پیچیدہ نہیں جس کو ہر طبقہ بآسانی نہ سمجھ سکے،محدود اور تنگ نہیںجس کے اسالیب و قواعد اور الفاظ و محاورات قبیلوں اور جماعتوں کے ساتھ مخصوص هوںبلکہ وہ عربی جو مصمائے عرب کی بولی تھیجس کو سب سمجھتے تھے اور جس کی وضاحت پر سب کا اتفاق و اجماع تھاپس عربی زبان میں قرآن مجید کا اترنا عربوں کے لحاظ سے نہایت کھلی هوئی تیسیر تھی چنانچہ بعض آیات میں اس کی تصریح بھی هے(۶۲)
”قانْما یسرناہ بلسا نک لتبشربہ المتقین وتذربہ قوماً لدا“ (سورہ مریم :۹۷)
ہم نے اس کو موزوں بتایا تھاتمہاری زبان میں تاکہ تم اس کے ذریعہ سے خدا ترسوں کو خوشخبری اور ہٹ دھرموں کو آگآہ کرو
اور دوسری جگہ ارشاد هے :
”قاعایسَّرناہ بلسانک لعلھم یتذکروں“ (سورہ ھاثیہ:۵۸)
اور علم نے اسکو استوار کیا تمہاری زبان میں تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں ۔
قرآن کی تیسیر کا دوسرا پہلو یہ هے کہ وہ تھوڑا نازل هوا ہیتاکہ قرآن کی تعلیمات دلوں میں واضح هو جائیںوہ آہستہ آہستہ حالات کے تقاضے اور ضروریات کے مطابق نازل هوتا رہا،جب کفارنے یہ اعتراض کیا کہ یہ کیوں نہیں تورات کی طرح ایک ساتھ نازل هو جاتا جستہ جستہ کیوں اترتا هے تو ان کے جواب میں اللہ فرماتا هے :
”کذالک لنثبت بہ فوادک ورتلناہ ترتیلا“(سو رہ الفرقان:۳۲)
ایسا اس لئے هے کہ اس طرح ہم تمہارے دل کو مضبوط کریں اور ہم نے قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر اتارا هے ۔
دوسری جگہ ارشاد هے:
”لتقراہ علی الناس علیٰ مکث“
بنی اسرائیل:۱۰۶)تاکہ تو اس کو لوگوں کو وقفہ وقفہ کے ساتھ سنائے ۔
تیسیر کا تیسرا پہلو سورہ هود کے آغاز میں مذکور هے :
”کتاب احکمت اٰیاتہ تم فصلت من لدن حکیم خیر“
سورہ یهود! ایسی کتاب هے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں پھر ایک حِکم کی طرف سے ان کی تفصیل کی گئی ۔
اس آیت کا مفهوم یہ هے کہ مکی سورتوں میں دین کی تمام اصولی تعلیمات توحید،رسالت اور معاد وغیرہ نہایت مختصر اور جامع لفظوں میں بیان هوئی ہیںاور بعد میں ان کی تفصیلات اور جزئیات مدنی سورتوں میں بیان کی گئیںقرآن کریم کے اجمال و تفصیل کا یہ طریقہ فطرت انسانی کے نقطہ نظر سے نہایت مناسب هے
تیسیرکا چوتھا پہلو تعریف آیات هے یعنی قرآن کریم مخاطب کے ذہن میں اچھی طرح بات کو ذہن نشین کرانے کے لئے ایک ہی بات کو مختلف انداز سے پیش کرتا هے(۶۳)قرآن کریم میں ارشاد هے:
”انظر کیف نصرف الآیات تم ھم یصدفون“(سورہ انعام:۶۴)
دیکھو‘کیسے ہم پھیر پھیر کر اپنے دلائل بیان کرتے ہیںپھر بھی وہ منہ موڑتے ہیں ۔
”انظر کیف نصرف الآیات لعلھم یفقھون“(سورہ انعام:۶۵)
دیکھو‘کیسے ہم اپنی دلیلیں پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں ۔
مولانا فرماتے کہ تصریف آیات کا لفظ تصریف ریاح سے لیاگیاهےیعنی هوا ایک ہی هے لیکن اس کے تصرفات میں تنوع او ر گونا گونی هے یعنی وہ رحمت بھی اور نعمت بھیمولانا کا خیال هے کہ اس کا بہر بھیس اس کا ئنات کی زندگی اور نشوونما کے لئے ضروری هوتا هے وہ کبھی گرم هوتی هے کبھی سرد کبھی خشک هوتی هے کبھی تر کبھی آندھی کی هولناکی بن کر نمودار هوتی هے کبھی نسیم صبح کی جان توازی اور عطربہتری بن کر اللہ تعالیٰ نے اس تصریف ریاح کا مختلف مقامات پر ذکر کیا هے سورہ ذاریات اور مرسلات میں اسکے عجائب تصرفات کی قسم بھی کھائی گئی هے ۔(۶۴)
بارش کی ایک مثال سے اللہ تعالیٰ نے تین حقائق کو پیش کیا هے ایک تو یہ کبھی مدتوں بارش نہیں هوتی هے ایسے میں بندہ اللہ کی رحمت سے مایوس هونے لگتا هے لیکن اچانک کو ئی ابر کا ٹکڑا اٹھتا هے اور دلوری سرزمین کو جل تھل کر دیتا هے چنانچہ بندے کی مایوسیاں امیدمیں بدل جاتی ہیں اسی لئے مناسب یہ هے کہ خوف اورطمع ہر حال میں اللہ ہی کو پکارا جائے ۔
”وادعوہ خوفاً وطمعًا ان رحمةاللہ قریب من المحسنین“(سورہ الاعراف:۵۶)
پس امید هو یا بہم ہر حال میں اسی کو پکارو اللہ کی رحمت سے اس اچھے بندوں سے قریب هے ۔
دوسری حقیقت یہ هے کہ منکرین کو اس پر حیرت هے کہ ہم گل سڑ جانے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ هو جائیں گے؟اللہ کا کہنا هے کہ اس میں کوئی استعجاب نہیں کیونکہ زمین جل جاتی هے اور سطح زمین پر گھاس کا ایک تنکا بھی نظر نہیں آتالیکن بارش هوتے ہی چند دنوں کے بعد سطح زمین پر سبزہ کی بارات بچھ جاتی هے قرآن کریم میں ارشاد هے
”سقناہ لبلدٍ میت فائزلنا بہ الماء فاخر جنابہ من کل الثمرات کذالک مخرج الموتی“(سورہ الاعراف:۵۷)
ہم نے ان بادلوں کو کسی سو کبھی زمین کی طرف پانک کر لے جاتے ہیںاور وہاں پانی برسا دیتے ہیںپھر اس سے پیدا کر دیتے ہیں ہرقسم کے پھل اسی طرح مُردوں کو بھی اٹھا کر کھڑے کریں گے ۔
ایک تیسری حقیقت یوں هے کہ بارش زمین کے ہر حصہ پر هوتی هے لیکن اس کے اثرات و نتائج مختلف حصوں میں مختلف هوتے ہیں زرخیز زمین لہلہا اٹھتی ہیں اور لوگوں کے لئے سبب رزق بن جاتی ہیں لیکن تھور زمینیں ویسی کی ویسی ہی پڑی رہتی ہیںاگر اس میں کچھ اُگا بھی تو وہ انسانوں کے لئے راس نہیںیہی حال آسمان کی روحانی بارش کا هے جو تمام لوگوں کے لئے عام هوتی هے لیکن ہر انسان بقدر استعداد اس سے فیضیاب هوتا هے فطرت صالحہ اس سے خیروبرکت حاصل کرتی هے اور فطرت فاسدہ اس سے اضطراب کا شکار هو جاتی هے قرآن کریم میں ارشاد هے ۔
”والبلد الطیب یخرج نباتہ باذن ربہ والذی خبث لایخرح الانکداً“ (سورہ الاعراف:۵۷)
جو زمین زرخیر هوتی هے اس کی نباتات خدا کے حکم سے خوب اُگتی هے اور جو زمین خراب هوتی هے وہ بہت کم اُگاتی هے ۔
تصریف آیات کا مقصد یہ هے کہ ”کذالک تصرف الآیات لقوم یشکرون“مولانا کہتے ہیں کہ تصریف آیات کا تعلیم اور تیسیر میں اس قدر دخل واضح کہ اس پر کسی بحث کی ضرورت نہیں اس تصریف کا مقصد خود قرآن مجید کی تصریحات کے مطابق یہ هے کہ لوگ یاد دہانی حاصل کریں اور سمجھیں
”ولقدصرفنافی ھذاالقرآن لیذکروا ومایز ید ھم الاکفورا“
اور ہم نے اس قرآن میں اپنے دلائل پھیر پھیر کر بیان کئے کہ لوگ یاددہانی حاصل کریںلیکن یہ چیز ان کی نفرت ہی بڑھاتی هے ۔
اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح سامنے آگئی کہ تیسیر کا وہ مفهوم درست نہیں هے جو عام طور سے سمجھا جاتا هے اس کا مطلب تو صرف یہ هے کہ یہ حصول علم اور یاددہانی کے نہایت آسان هے تو اس کا یہ مطلب نہیں هے کہ علم دین فکرو تدبر کی تمام کا وشوں سے مستعنی هو گیا هے ۔(۶۵)
اس کے بعد قرآن مجید کی مشکلات بااعتبار مخاطب پر روشنی ڈالی گئی ہیاور اس میں یہ بتایا گیا هے کہ دور اول میں صحابہ کرام قرآن کی امتثال ،اسالیب،اصطلاحات،تلمیحات،احوال عرب اور اپنی قوم کے عقائد ورسومات سے پوری طرح واقف تھےجہاں قرآن کریم نے ا شارہ کیا سمجھ گئے جہاں لسان غیب سے کوئی نقطہ تراوش هوا وہ بے تکلف اس کا مطلب سمجھ گئیاس کی مثا ل یہ هے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں ابولہب کی نسبت نہایت لطیف تصریحات ہیں جن کی تہہ تک پہنچنا صحابہ کرام کے لئے دشورا گزار نہ تھالیکن آج کے عہد میں ان تصریحات کا سمجھنا اور قرآنی اسالیب کا بآسانی پکڑنا مشکل هے ،بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں ہلکے سے اشارات ہیں ان کا سمجھنا ہم لوگوں کے لئے ایک مسئلہ هے لیکن صحابہ کرام اشارہ پاتے ہی پوری داستان کو سمجھ جاتے تھیاس سلسلے کی دو مثالیں یہاں پیش کی جارہی ہیںایک میں اہل مکہ کی نماز کا ذکر هے ۔
”وماکان صلوتھم عندالبیت الامکاءً ولتصدیةً“
نہیں تھی ان کی نماز خانہ کعبہ کے پاس مگر تالی بجانا اور صحیح بجانا
آج اہل مکہ کی اس عبادت کا پورا تصور منظر عام پر لانا ہمارے لیے کس قدر مشکل هے لیکن عہد نزول قرآن کے لوگوں کے سامنے اس کی پوری تصویر موجود تھیکیونکہ ظهور اسلام سے قبل خود اسی طرز پر اپنی نمازیں اداکرتے تھے ۔(۶۶)
اسی طرح سورہ اعراف میں ذکر هے:
”واذا فعلوافاحشة قالواوجدناعلیھا آباء ناواللہّٰ امرنا بھاء قل ان اللہ لایامربالفحشاء اتقولوٴن علی اللہ مالاتعلمون“(سورہ اعراف:۲۸)
اور جب کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں توکہتے یں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو یہ کام کرتے هوئے پایا هے اور اللہ نے ہم کو اس کا حکم دیا هے کہدو اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتاکیا تم اللہ پر ایسی بات کا الزام دھرتے هوجس کا تمہیں علم نہیں ۔
اس آیت میں اہل مکہ کے ننگے طواف کرنے کا ذکر هوا هے جبکہ بالفاظ اس کا ذکر نہیں هے بلکہ ایک لطیف سا اشارہ ہیکیونکہ اہل مکہ اس کے سیاق وسباق سے پوری طرح واقف تھیلیکن آج ہمارے لئے اس آیت کے پس منظر پوری طرح گرفت میں لے لینا آسان نہیں هے اسی ننگے پنے کی صورت طواف کرنے کا ذکر دوسری جگہ اس طرح هے ۔
”یٰبنی آدم خذوذینتکم عند کل مسجدوکلواواشربواولاتسرفواانہ لایحب المسرفین قل من حرم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزق“ (سورہ اعراف:۳۱، ۳۲)
ہر مسجد کے پاس لباس وغیرہ سے اپنے تئیس آراستہ کر لیا کرو اور کھاؤپیو اور فضول خرچیاں نہ کروکیونکہ خدا فضول خرچیاں کرنے والوں کو پسندنہیں کرتاان لوگوں سے کہ کس نے حرام کی اللہ تعالیٰ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی اور پاک روزیاں(جو اس نے اپنے بندوں کو بخشیں ۔
اسی طرح کی بہت سے واقعات اور اہل مکہ کے عقائد و رسومات متعدد آیات میں ذکر کئے گئے ہیں جن سے صحابہ کرام پوری طرح باخبر تھیلیکن موجودہ عہد میں ان تمام چیزوں سے آگاہ هونے کے لئے بہت چیزوں کا سہارا لینا پڑے گا ۔
جن کی طرف مولانا فراہی نے ان لفظوں میں اشارہ کیا هے ”ہم کو لازم هے کہ زمانہ نزول کی پوری حالت تمدن سے ہم واقف هوں“
۱۔ہم کو اس وقت کے یهود ونصاری ،مشرکین،صابیئین وغیرہ کے مذہب و معتقدات سے واقف هونا چاہیے
۲۔ہم کو عرب کے عام توہمات کو دریافت کرنا چاہیے ۔
۳۔ہم کو جاننا چاہیے کہ نزول قرآن کی مدت میں کیا کیا واقعات نئے پیدا هوئے اور ان سے عرب کی مختلف جماعتوں میں کیا کیا مختلف باتیں زیر بحث آگئیںکیا کیا ملکی و تمدنی جھگڑے چھڑ گئے اور تمام عرب میں کیا شورش پیدا هو گئی ۔
۴۔ہم کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ عرب کا مذاق سخن کیاتھا کس قسم کے کلام سننے اور بولنے کے وہ عادی تھے بزم میں ان کا خطیب کس روش پر چلتا تھاایجاز اور اطناب ،ترصیع وترکیب،دیگر اسالیب خطابت کو وہ کیونکر استعمال کرتے تھے ۔
۶۔اور بالآخر ہم کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ عرب کے ذہن میں اخلاق کے مدارج نیک وبد کیاتھے ۔(۶۷)
اس کے بعد مولانا نے سلف کے طریقہ تفسیر پر روشنی ڈالتے هوئے بتایاکہ پہلے وہ آیات کی تفسیر کے لئے دوسری آیات سے مددلیتے تھیاس کے بعد احادیث رسول کے ذریعہ قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے اور تیسرے مرحلہ میں صحابہ کرام کے آثار و اقوال سے مدد لیتے تھے ۔(۶۸)جس کی طرف علامہ سیوطی نے خود اپنی کتاب میں اشارہ کیا هے (۶۹)اور وہیں پر علامہ سیوطی نے یہ بات بھی بڑے شدومد کے ساتھ کہی هے کہ تفسیر
کے وقت اس کا ضرور خیال رهے کہ موضوع اور ضعیف احادیث سے احتراز کیاجائے ۔(۷۰)
شان نزول کے سلسلے میں مولانا فرماتے ہیں کہ تفاسیر کو دیکھا جائے تو تقریباًہر آیت سے متعلق کوئی نہ کوئی واقعہ موجود هے اور کبھی کبھی ایک ہی آیت کی شان نزول میں اتنے واقعات درج ہیں کہ ان میں تضاد پایاجاتا هے اس سلسلے میں مولاناکاخیال هے کہ ان میں سے اکثر واقعات کا آیت سے کوئی تعلق نہیں هے اور اگر ہر آیت سے متعلق کوئی واقعہ یا چند واقعات تسلیم کر لیے جائیں توقرآن میں نظم و تسلسل کی تلاش بے معنی هو کر رہ جائے گی ہر آیت کو کسی واقعہ سے جوڑنا تسلسل کے منافی هے ۔(۷۱)جیساکہ امام رازی نے
”واذا جاء ک الذین یومنون باٰیٰتینا “
کی تفسیر کرتے هوئے یہ لکھا هے کہ میرے سامنے یہاں ایک سخت اشکال هے وہ یہ کہ لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ پوری سورہ بیک دفعہ نازل هوئی جب معاملہ یوں هے تو یہ کیسے ممکن هے کہ سورہ کی ہر آیت کی نسبت یہ کہا جائے کہ اس کے نزل کا سبب فلاں واقعہ هے ۔(۷۲)
اسی کی مزید وضاحت علامہ سیوطی نے ان لفظوں میں کی هے کہ زرکشی نے برہان میں لکھا هے کہ صحابہ کرام وتابعین عظام کا یہ طریقہ عام هے کہ ان میں سے جب کوئی شخص یہ کہتا هے یہ آیت فلاں بارے میں نازل هوئی تو اس کا مطلب یہ هوتاهے کہ یہ بات اور پتہ اس کے نزول کا سبب هے گویا یہ بس آیت سے اس معاملہ پر ایک استدلال هوتا هے کہ نقل واقعہ(۷۳)ٹھیک یہی تحقیق شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی ”الفوزالکبیر میں پیش کی هے (۷۴)اسی بحث کو آگے بڑھاتے هوئے مولانا کا خیال هے کہ صرف ان قصص و واقعات کو جاننا ضروری هے جن کی طرف آیات ضروراشارہ کررہی هوں کیونکہ بغیر اس کے پوری طرح سے آیات کی تفسیر ممکن نہیں هے (۷۵)اس پہلو کی طرف خود شاہ صاحب نے بھی اشارہ کیاهے ۔(۷۶)
آخر میں مولانا نے خلاصہ بحث پیش کرتے هوئے بتایا کہ
۱۔قرآن مجید بعض پہلوؤں سے آسان هے اور بعض پہلوؤں دقیق اور مشکلاس لئے یہ کہنا کہ وہ ایک سپاٹ کتاب هے مناسب نہیں هے ۔
۲۔اس کے متعلق یہ نظریہ بھی درست نہیں کہ وہ محض احکام و قوانین کا مجموعہ اور حرام وحلال کے معلوم کرنے کا ایک خشک اور سیدھا سادہ ضابطہ هے بلکہ یہ کتاب الہی تین اجزاء پر مشتمل هے ۔
۱ آیات اللہ یعنی دلائل وبراہین
۲ کتاب یعنی قوانین و احکام
۳ اور حکمت یعنی روح شریعت اور جوہر دین پہلا حصہ دین کی منطق،دوسرا حصہ دین کا نظام اور تیسرا حصہ دین کا فلسفہ هے
۴ قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں هے جس سے یہ تقاضا هو کہ وہ ایک سپاٹ کتاب هے کیونکہ اس میں بیشمار ایسی آیات ہیں جن سے یہ مترشح هوتا هے کہ اس پر تفکر و تدبر کرنا چاہیے ۔
۵ جو لوگ قرآن مجید کی تفسیر کے باب میں صرف روایات ہی پر اعتماد کرتے ہیں یقینا وہ غلو کرتے ہیں،کیونکہ یہ بات محققین کے مذہب کے برعکس هے ۔
۶ شان نزول سے بھی قرآن مجید کی وضعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا هے محققین کے نزدیک یہ استنباط کی ایک قسم هے یعنی صحابہ کرام جو یہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت فلاں و اقعہ پر اتری یا فلاں بارے میں نازل هوئی تو اس کا مطلب یہ نہیں هوتا کہ اس آیت کے نزول کے سبب بعینہ وہی واقعہ هے بلکہ اس کا مطلب بالعموم یہ هوتا هے کہ وہ آیت فلاں حکم پر مشتمل هے ۔(۷۷)
اس کتاب کا آخری باب ”تفسیر کا اصول “ هے اس کے آغاز میں مولانا نے مفسرین کے چار مکاتب کا ذکر کیا هے جن میں سے تین مکاتب محدثین اور اہل روایت کا طریقہ (اس طرز پر تفسیر ابن جرید اور تفسیر ابن کثیر لکھی گئی )متکلمین کا طریقہ(اس طرز پر زمخشری ی تفسیر کشاف اور رازی کی تفسیر کبیر منظر عام پر آئی)اور مقلدین کا طریقہ(یعنی مذکورہ تفاسیر کے بعد بقیہ تمام تفاسیر گزشتہ تفاسیر کے خطوط پر تصنیف کی گئیں)کا ذکر باب ”تیسیر قرآن“میں آچکا هے (۷۸) اور چوتھا مکتب فکرو متجددین کا طریقہ یہ هے یہ وہ حضرات ہیں جو مغربی افکار و نظریات سے اس درجہ متاثر هوئے کہ اس کی تائیدقرآنی آیات سے کرنا شروع کر دیااس طریقہ تفسیر کی طرح سر سید مرحوم نے ڈالی اور پھر یہ فتنہ بڑھتا ہی گیامولانا نے ان چاروں مکاتب پر تنقید کی هے ان میں سے تین مکاتب پر باب ”تیسیر قرآن“ میں تنقید آچکی هے چوتھے مکتب فکر متجد دین کے باب میں مولانا کا خیال هے کہ جس طرح متکلمین نے اپنے نظریات کی تائید کے لئے قرآن کو توڑ مروڑ کر پیش کیااسی طرح انهوں نے بھی اپنے خیالات کو امت مسلمہ کے مابین مقبول بنانے کے لیے قرآن مجید پر ہاتھ صاف کیا اس سلسلے میں مصر کے علامہ طنطاوی اور ہندوستان کے سرسید کی تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ هو گا کہ انهوں نے دین کی تمام حدیں مسمار کر دی ہیںاس طرح کی تفاسیر کو تفسیر قرآن کی بجائے تحریف قرآن کہنا زیادہ صحیح هو گا ۔
مولانا نے تفسیر کے صحیح اصول کے متعلق بتایا کہ وہ دو۲ہیں ایک قطع اور دوسرے ظنی،قطع اصول چارہیںایک تو عربی زبان،دوسرا قرآن مجید کے الفاظ واسالیب،تیسرا قرآن مجید کی نحو اور چوتھا قرآن مجید کی بلاغت و صحافت ان تمام چیزوں پر مولانا نے اسی کتاب میں تدبر قرآن کے داخلی اور خارجی وسائل کے تحت روشنی ڈالی هے ۔(۷۹) اس باب کے آخر میں مولانا نے نظم قرآن سے بحث کی هے جس پر ان کا ایک مقالہ بھی هے ۔(۸۰)آپ کے استاذ گرامی مولانا قراہی کی اس موضوع پر ایک مستقل کتاب بھی هے ۔(۸۱)اور استاذ گرامی دونوں حضرات نے نظریہ نظم قرآن کو اپنی اپنی (۸۲)(۸۳)تفاسیر میں عملی جامہ پہنایا هے نظم قرآن کے متعلق مولانا کا خیال هے کہ یہ صحیح تاویل کے تعین میں ایک فیصلہ کن عامل هے نظم کا مطلب یہ هے کہ ہر سورہ کا ایک عمود یا موضوع هوتا هے اور سورہ کی تمام آیات نہایت ترتیب اور مناسبت کے ساتھ اپنے موضوع سے جڑی هوئی هوتی ہیںیعنی بہ متفرق آیات ایک حسین وحدت کی صورت اختیار کر جاتی ہیںاس کے بغیر سورہ کی اصل حیثیت اور آیات کی صحیح تاویلات منظر عام پر نہیں آ سکتیںلیکن چونکہ نظم قرآن ایک مشکل عمل هے اس لئے مفسرین نے اس کی طرف توجہ کم دی ہیاگر کسی نے دی بھی هے تو بڑے سر سری انداز میں اور کچھ لوگوں نے نظم قرآن کو کا ر غبت قرار دیا هے ۔(۸۴)
اس کے بعد مولانا نے یہ واضح کیا کہ نظم قرآن آج کوئی نئی چیز نہیں هے ۔ (۸۵)بلکہ پہلے کے لوگوں نے بھی اس موضوع پر اظہار خیال کیا هے علامہ ابو جعفر بن زبیر شیخ ابوحیان کے استاذ نے اس موضوع پر ”البرہان فی مناسبة ترتیب سورا القرآن“کے عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی ۔(۸۶) اور شیخ برہان الدین بقاعی (المتوفی:۱۴۸۰ء) کی تفسیر نظم ”الدروفی تناسب الای السور“(۸۷) بھی اسی اصول کو مد نظر رکھتے هوئے لکھی گئی علامہ سیوطی نے بھی نظم قرآن پر اپنی تصنیف کا ذکر کیا ۔(۸۸) اما م رازی نے بھی اپنی تفسیر میں نظم قرآن پر خصوصی توجہ دی هے ۔(۸۹)لیکن مولانا نے ان کی اس خدمت کو زیادہ مفید نہیں بتایا هے اسی سلسلہ کی ایک کوشش علامہ مخدوم مہایمی کی تفسیر”تبصیر الرحمان وتیسیر المنان“ هے ۔(۹۰) جس میں انهوں نے اپنی کوشش کو حد تک آیات قرآن کا نظم بیان کرنے کی کوشش کی هے اس مسلک کے ایک اور بزرگ علامہ ولی الدین علوی ہیں جن کا نظم قرآن کے متعلق ارشاد هے ”جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن مجید کا نزول چونکہ حالات کے تقاضے کے مطابق تھوڑا تھوڑا کر کے هوا هے اس وجہ سے اس میں نظم نہیں تلاش کرنا چاہییان کو سخت دھوکا هوا هے قرآن مجید کا نزول بلا شبہ حسب حالات جستہ جستہ هوا هے لیکن جس طرح اس کو ترتیب دیا گیا هے اس میں نہایت گہری حکمت ملحوظ هے ۔(۹۱)
اس باب کے آخر میں مولانا فرماتے ہیں کہ مذکورہ گفتگو کی روشنی میں یہ بات پوری طرح واضح هو گئی کہ مولانا قراہی اور ان کے اساتذہ سے قبل بھی نہ صرف یہ کہ اس نظریہ کے قائلین رهے ہیں بلکہ اس پر تصانیف منظر عام پر آئیں اور اسی کی روشنی میں تفاسیر بھی ترتیب دی گئیں(۹۲)
حواشی
۱۔”مبادی تدبر قرآن“ کی پہلی اشاعت اپریل ۱۹۵۱ءء میں تدبر قرآن کے عنوان سے هوئی تھیجس میں صرف دو باب”تدبر قرآن ”اور ”تیسیر قرآن“ شامل تھے”تدبر قرآن“ ہی کے عنوان سے مئی ۱۹۵۲ءء میں جب اس کی دوسری اشاعت زیر عمل آئی تو اس میں دواورباب کے اضافے کئے گئے جن کے عناوین ”فہم قرآن کے لئے چند ابتدائی شرطیں“ اور ”تفسیر کے اصول“ تھیاس کا عنوان ”مبادی تدبر قرآن“ کر دیا گیا ۔
۲۔اس سلسلے میں دیکھیے؛مولانا حمید الدین قراہی اور علم حدیثمولانا امین احسن اصلاحی مرحوممجلہ الفرقان لکھنو جلد ۶۶،شمارہ ۰۹،دفتر ماہنامہ الفرقان۳۱/۱۴ اظہر آباد،لکھنو ستمبر ۱۹۹۸ء ،ص۱۴۱۸۔
۳۔تدبر قرآن امین احسن اصلاحیمکتبہ چراغ راہلوٹیا بلڈنگ آرام باغ روڈ کراچی باردوم مئی ۱۹۵۶ء ص۲۴۲۵
۴۔ایضاًص۲۷۲۸
۵ ۔ایضاًص ۲۹ نمبر
۶ ۔ایضاً وضاحت کے لئے دیکھئے۳۲۳۴
۷۔ایضاً ص۳۴۳۵
۸۔ایضاً ص۴۱۴۲
۹۔ایضاً ص۴۲۴۳
۱۰۔وضاحت کے لئے دیکھیےص۴۴۴۶
۱۱۔ایضاً ص۴۷
۱۲۔ایضاً ص۱۲
۱۳۔ایضاً وضاحت کے لئے دیکھیے ص۵۳۶۴
۱۴۔ایضاًص۶۴
۱۵۔وضاحت کے لئے ص۶۵۷۱
۱۶۔ایضاً ص۷۱
۱۷۔ایضاً۷۳۷۴
۱۸۔ایضاً ص۷۵
۱۹۔ایضاً ص۷۹۸۰
۲۰۔وضاحت کے لیے دیکھیےص۸۴۹۰
۲۱۔ایضاً ص۹۰
۲۲۔مولانا کی یہ تفسیر جزوی طور پر اور دیگر تفسیری اجزاء کے ساتھ شائع هو چکی هے دیکھیے تفسیر نظام القرآن حمید الدین قراہی (ترجمہ از امین احسن اصلاحی) دائرہ حمیدیہ مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم ۱۹۹۰ء ء ص۳۶۳۴۱۰
مولانا کی یہ تفسیر اہل علم کے نزدیک ہمیشہ معرض بحث بنی رہی اس سلسلے میں دیکھیے مولانا فراہی فیل پر اعتراضات کا جائزہمولانا نسیم ظہیر اصلاحی مجلہ تحقیقات اسلامی علی گڑھ۶ /۲، اپریل جون ۱۹۷۸ء ص ۲۸۱۹۶
۲۳۔تدبر قرآن ص۹۱
۲۴ایضاً ص۹۱۹۲
۲۵صحاج جوہری بحوالہ تدبر قرآن ص۹۱۹۲
۲۶مبادی تدبر قرآنمولانا امین احسن اصلاحی مرکزی انجمن خدام القرآنلاهورباب چہارم ۱۹۸۰ء ص۶۰
۲۷ ” اسالیب القرآن“پر دیکھیے قرآن مجید کے بعض اسالیب سے متعلق مولانا فراہی کی توصیحاتایک مطالعہ مولانا تعلیم الدین اصلاحی (علامہ حمید الدین فراہی ،حیات و افکار، ۱۹۹۲ء انجمن طلبہ قدیم مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم گڑھیوپی انڈیاص۳۸۷۴۰۱
۲۸مفردات پر خاکسار کامضمون دیکھیے
۲۹۔تدبر قرآن ص۹۵۹۶
۳۰۔وضاحت کے لیے دیکھیے ”اعجاز القرآن الباقلانی ابوبکر محمد بن الطیب(تحقیق،السید احمد صفر) دارالمعارف مصر(بدون تاریخ) ص۷۲
۳۱وضاحت کے لیے دیکھیےجمرة البلاغہالمعلم عبدالحمید القراہیالدائرة الحمدیہ،اعظم گڑھ،الہند ۱۳۶۰ئھ ص۱۸۸
۳۲۔”جمرة البلاغہ“ پر دیکھیے؛ مولانا فراہی کے تنقیدی نظریاتجمرة البلاغہ کی روشنی میں پروفیسر محمد راشد ندویص۵۳۳۵۷۶(علامہ حمید الدین فراہی ؛حیات افکار) نیز دیکھییمولانا فراہی اور شعریات مشرق،ڈاکٹر عبدالباریص۵۴۷۵۶۱(علامہ حمید الدین فراہی حیات وافکار)
۳۳۔وضاحت کے لیے دیکھییتدبر قرآنص۹۶۱۰۰
۳۴۔ذبیح کون هے حمید الدین فراہی(ترجمہ امین احسن اصلاحی) طبع اول دائرہ حمیدیہ مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ(بدول تاریخ)ص۱۱۸۵
۳۵۔وضاحت کے لیے دیکھییتدبر قرآنص۱۰۳۱۱۲
۳۶۔ایضاً ص۱۱۲
۳۷۔ایضاً ص۱۱۹
۳۸۔وضاحت کے لیے دیکھییایضاًص۱۲۶۱۴۲
۳۹۔ایضاً ص۱۴۳
۴۰۔ایضاً ص۱۴۳۱۴۶
۴۱ایضاً ص۱۴۶
۴۲۔ایضاًص۱۴۷
۴۳۔ایضاًوضاحت کے لیے دیکھیےص۱۴۹۱۵۶”حکمت قرآن“ کا اردو ترجمہ شائع هو چکا هے (ترجمہ از خالد مسعود)طبع اول قاران فاونڈیشنلاهور ۱۹۹۵ء
۴۴۔ص۱۱۴۱
۴۵۔حکمت قرآن امام حمید الدین فراہی(اردو ترجمہ) ص۱۴
۴۶۔بنابر قولص۱۶۰۱۶۱
۴۷۔ابو داؤد بخاری اور مسلم دونوں میں یہ روایت موجود هے
۴۸۔تدبر قرآنص۱۶۴۱۶۵
۴۹۔ایضاًص۱۶۵
۵۰۔ایضاًص۱۷۱۱۷۲
۵۱۔اس کے لیے لسان العرب دیکھیے
۵۲۔یہ مفهوم لسان العرب اور متجد دونوں میں موجود هے
۵۳۔یہ مفهوم میں متجد میں موجود هے
۵۴۔بحوالہ مبادی تدبر القرآنص۱۶۸
۵۵۔دیوان الحماسة (بحواشی محمد اعزاز علی ) المکتبہ الرحیمیہدیو بند یوپی ہند(بدون تاریخ)ص۳۰۷
۵۶۔تدبر قرآن وضاحت کے لیےص۱۷۴۱۷۸
۵۷۔ایضاً ص۱۷۹
۵۸۔بحوالہ مبادی تدبر القرآنص۱۲۲
۵۹۔تفسیر الکشاف بحوالہ مبادی تدبر القرآن ص۱۲۲۱۲۳
۶۰۔تدبر قرآن ص۱۸۱
۶۱۔ایضاً ص۱۸۱
۶۲۔ایضاً ص۱۸۲
۶۳۔ایضاً وضاحت کے لیے دیکھیےص۱۸۲۱۸۶
۶۴۔ایضاً ص۱۸۷
۶۵۔ایضاً ص۱۸۷۱۹۱
۶۶۔ایضاً وضاحت کے لیے دیکھیےص۱۹۶۲۱۰
۶۷۔قرآنی مقالات(ترتیب و پیشکش ادارہ علوم القرآن علی گڑھ) طبع اول ناشر ادارہ علوم القرآن علی گڑھ ۱۹۹۱ء ص۱۴
۶۸۔تدبر قرآنص۲۱۱
۶۹۔ الاتقان فی علوم القرآنسیوطی(ترجمہ از مولانا محمد حلیم انصاری) نور محمد اصح المطابع کا رخانہ تجارت کتب،آرام باغ
۷۰۔الاتقان فی علوم القرآن (اردو ترجمہ) ۲/۵۶۵ کراچی (بدول تاریخ) ۲/۵۵۶۵۶۰
۷۱۔تدبر قرآنص۲۱۸
۷۲۔تفسیر رازیبحوالہ مبادی تدبر قرآنص۱۵۱
۷۳۔الاتقان(اردو ترجمہ) ۱/۷۶
۷۴۔الفوز الکبیر فی اصول التفسیر(اردو)شاہ ولی اللہ(مترجم:مولوی رشید احمد صاحب انصاری مرحوم) فاروق پریس دہلی(بدول تاریخ)ص۵
۷۵۔تدبر قرآنص۲۲۵
۷۶۔الفوز الکبیر فی اصول التفسیر(اردو)ص۵
۷۷۔تدبر قرآن،وضاحت کے لیے دیکھیےص۲۳۲۲۳۳
۷۸۔ایضاً ص۱۰۶۱۱۹
۷۹ایضاً ص۸۶۹۶
۸۰۔قرآنی مقالات(نظم قرآن مولانا امین احسن اصلاحی)طبع اول ۱۹۹۱ء ص۱۶۲۲
۸۱۔رسائل الامام الفراہی فی علوم القرآنالامام عبدالحمید فراہی الطبقہ الثانیہالدائرہ الحمیدیہ مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ(الہند) ۱۹۹۱ء ص۷۱۳۹
۸۲۔مولانا اصلاحی کی تفسیر تدبر قرآن کے عنوان سے آٹھ جلدوں پر مشتمل هے یہ پاکستان میں انجمن خدام القرآن لاهور سے اور ہندوستان میں سے شائع هوتی هے
۸۳۔تفسیر نظام القرآنحمید الدین فراہی (ترجمہ ازامین احسن اصلاحی )دائرہ حمیدیہ مدرسة الاصلاحی سرائے میر اعظم گڑھ( ۱۹۹۰ء ص۱)
۸۴۔تدبر قرآن وضاحت کے لیے دیکھیےص۲۵۲۲۵۴
۸۵۔نظم قرآن ہی کے موضوع پر دیکھییالبریان فی نظام القرآنمحمد عنایت اللہ اسد سبحانی الطبقہ الاولیٰ دارالکتب پشاور پاکستان ۱۹۹۴ء ص۱۶۲۸
۸۶۔الاتقان(اردو) ص۳۲۵
۸۷۔ ”نظم الدررفی تناسب الایات والسور“بائیس جلدوں پر مشتمل هے جو حیدر آباد دکن ہند کے مطبع ”مجلس دائرة المعارف العثمانیہ“ سے شائع هوئی هے صاحب تفسیر امام بقاعی نے نظم قرآن کے متعلق مقدمہ میں فرمایا هے ”الحمد للہ الذی انزل الکتاب متنا سباسورہ وآیانہ ومتنسابھا فواصلہ وغایاتہ“
۸۸۔علامہ سیوطی نے نظم قرآن پر جو کتاب تالیف کی هے اس کا عنوان ”اسرارالتفسرین“ هے جس کے متعلق ان کا خیال هے کہ وہ بھی سورتوں اور آیتوں کی باہمی مناسبتوں کی جامع هے الاتقان(اردو) ص۳۲۵
۸۹۔اس کے لیے دیکھیے تصنیف،نظم قرآن،جو دائرةالحمیدیہ،مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ سے ۱۹۹۲ ء میں شائع هوتی هے اس میں نظم قرآن کے متعدد قائلین کا ذکر هے
۹۰۔نظم قرآن کے موضوع پر ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی کی کتاب ۱۹۹۸ء میں شعبہ اسلامیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ انڈیا سے شائع هوئی هےجس میں مہائمی کی نظریہ نظم قرآن سے بحث کی گئی هے
۹۱۔بحوالہ مبادی تدبر قرآنص۱۷۶
۹۲۔تدبر قرآن ص۲۵۶