اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں 4

بغض اہلبیت(ع)

بغض اہلبیت (ع) پر تنبیہ

1065۔ رسول اکرم ! میرے بعد ائمہ بارہ هوں گے جن میں سے نوصلب حسین (ع) سے هوں گے اور ان کا نواں قائم هوگا، خوشا بحال ان کے دوستوں کے لئے اور ویل ان کے دشمنوں کے لئے ۔( کفایة الاثر ص 30 روایت ابوسعید خدری) ۔

1066۔ رسول اکرم ! میرے بارہ ائمہ مثل نقباء بنئ اسرائیل کے بارہ هوں گے، اس کے بعد حسین (ع) کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہنو اس کے صلب سے هوں گے جن کانواں مہدی هوگا جو زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھری هوگی ، ویل هے ان سب کے دشمنوں کے لئے ۔ ( مناقب ابن شہر آشوب 1 ص 195) ۔

1067۔ رسول اکرم ! اگر کوئی بندہ صفاء و مروہ کے درمیان ہزا ر سال عبادت الہی کرے پھر ہزار سال دوبارہ اور ہزار سال تیسری مرتبہ اور ہم اہلبیت (ع) کی محبت حاصل نہ کرسکے تو پروردگار اسے منہ کے بھل جہنم میں ڈال دے گا جیسا کہ ارشاد هوتاهے ” میں تم سے محبّتِ اقربا کے علاوہ اور کوئی سوال نہیں کرتاهوں“ ( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 1 ص 132 / 182 روایت ابوامامہ باہلی ، مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 198) ۔

1068۔ رسول اکرم ! اگر کوئی شخص ہزار سال عبادت الہی کرے اور پھر ذبح کردیا جائے اور ہم اہلبیت (ع) سے دشمنی لے کر خدا کی بارگاہ میں پہنچ جائے تو پروردگار اس کے سارے اعمال کوو اپس کردے گا۔ ( محاسن 1 ص 271/ 527 روایت جابر عن الباقر (ع) ) ۔

1069۔ رسول اکرم ! پروردگار اشتہاء سے زیادہ کھانے والے ، اطاعت خدا سے غفلت برتنے والے، سنت رسول کو ترک کرنے والے عہد کو توڑ دینے والے، عترت پیغمبر سے نفرت کرنے والے اور ہمسایہ کو اذیت دینے والے سے سخت نفرت کرتاهے ۔( کنز العمال 16 / 44029 ، احقاق الحق 9 ص 521) ۔

1070۔ رسول اکرم ، ہم سے عداوت وہی کرے گا جس کی ولادت خبیث هوگی ۔( امالی صدوق (ر) ص 384 / 14 ، علل الشرائع ص 141 / 3 روایت زید بن علی ، الفقیہ 1 ص 96 / 203۔

1071۔ امام علی (ع) ! بدترین اندھا وہ هے جو ہم اہلبیت (ع) کے فضائل سے آنکھیں بند کرلے اورہم سے بلا سبب دشمنی کا اظہار کرے کہ ہماری کوئی خطا اس کے علاوہ نہیں هے کہ ہم نے حق کی دعوت دی هے اور ہمارے غیر نے فتنہ اور دنیا کی دعوت دی هے اور جب دونوں باتیں اس کے سامنے آئیں تو ہم سے نفرت اور عداوت کرنے لگا۔( خصال ص 633 / 10 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم، غرر الحکم 3296) ۔

1072۔ امام علی (ع)! ہر بندہ کے لئے خدا کی طرف سے چالیس پردہ داری کے انتظامات ہیں یہاں تک کہ چالیس گناہ کبیرہ کرلے تو سارے پردہ اٹھ جاتے ہیں اور پروردگار ملائکہ کو حکم دیتاهے کہ اپنے پروں کے ذریعہ میرے بندہ کی پردہ پوشی کرو اور بندہ اس کے بعد بھی ہر طرح کا گناہ کرتاهے اور اسی کو قابل تعریف قرار دیتاهے تو ملائکہ عرض کرتے ہیں کہ خدایا یہ تیرا بندہ ہر طرح کا گناہ کررہاهے اور ہمیں اس سے اعمال کے حیا آرہی هے ۔

ارشاد هوتاهے کہ اچھا اپنے پروں کو اٹھالو ، اس کے بعد وہ ہم اہلبیت (ع) کی عداوت میں پکڑا جاتاهے اور زمین و آسمان کے سارے پردے چاک هوجاتے ہیں اور ملائکہ عرض کرتے ہیں کہ خدایا اس بندہ کا اب کوئی پردہ نہیں رہ گیاهے ۔ ارشاد هوتاهے کہ اللہ کو اس دشمن اہلبیت (ع) کی کوئی بھی پرواہ هوتی تو تم سے پروں کو ہٹانے کے بارے میں نہ کہتا۔( کافی 2 ص 279 / 9 ، علل اشرائع ص 532 / 1 روایت عبداللہ بن مسکان عن الصادق (ع) ) ۔

1073۔ جمیل بن میسر نے اپنے والد نخعی سے روایت کی هے کہ مجھ سے امام صادق (ع) نے فرمایا، میسر ! سب سے زیادہ محترم کونسا شہر هے؟

ہم میں سے کوئی جواب نہ دے سکا تو فرمایا ، مکہ اس کے بعد فرمایا اور مکہ میں سب سے محترم جگہ؟

اور پھر خود ہی فرمایا رکن سے لے کر حجر اسود کے درمیان ، اور دیکھو اگر کوئی شخص اس مقام پر ہزار سال عبادت کرے اور پھر خدا کی بارگاہ میں ہم اہلبیت(ع) کی عداوت لے کر پہنچ جائے تو خدا اس کے جملہ اعمال کو رد کردے گا۔( محاسن 1 ص 27 / 28،) ۔

بغض اہلبیت (ع) کے اثرات

1۔ پروردگار کی ناراضگی

1074۔ رسول اکرم ! شب معراج میں آسمان پر گیا تو میں نے دیکھا کہ در جنت پر لکھا هے ۔ لا الہ الا اللہ ۔ محمد رسول اللہ ، علی حبیب اللہ الحسن والحسین (ع) صفوة اللہ ، فاطمة خیرة اللہ اور ان کے دشمنوں پر لعنة اللہ ۔( تاریخ بغداد 1 ص 259 ، تہذیب دمشق 4 ص 322 ، مناقب خوارزمی ص 302 / 297 ، فرائد السمطین 2 ص 74 / 396 ، امالی طوسی (ر) ص 355 / 737 ، کشف الغمہ 1 ص 94 ، کشف الیقین ص 445 / 551 ، فضائل ابن شاذان ص 71) ۔

1075۔ رسول اکرم ! جب مجھے شب معراج آسمان پر لے جایا گیا تو میں نے دیکھا کہ در جنت پر سونے کے پانی سے لکھاهے، اللہ کے علاوہ خدا نہیں ۔ محمد اس کے رسول ہیں ، علی (ع) اس کے ولی ہیں، فاطمہ (ع) اس کی کنیز ہیں، حسن (ع) و حسین (ع) اس کے منتخب ہیں اور ان کے دشمنوں پہ خدا کی لعنت هے ۔( مقتل خوارزمی 1 ص 108 ، خصال ص 324 / 10، مائتہ منقبہ 109 / 54 روایت اسماعیل بن موسیٰ (ع) ) ۔

1076۔ رسول اکرم ! ہر خاندان اپنے باپ کی طرف منسوب هوتاهے سوائے نسل فاطمہ (ع) کے کہ میں ان کا ولی اور وارث هوں اور یہ سب میری عترت ہیں ، میری بچی هوئی مٹی سے خلق کئے گئے ہیں، ان کے فضل کے منکروں کے لئے جہنم هے، ان کا دوست خدا کا دوست هے اور ان کا دشمن خدا کا دشمن هے ۔( کنز العمال 12 ص 98 / 34168 روایت ابن عساکر، بشارة المصطفیٰ ص 20 روایت جابر) ۔

1077۔ رسول اکرم ! آگاہ هوجاؤ کہ جو آل محمد سے نفرت کرے گا وہ روز قیامت اس طرح محشور هوگا کہ اس کی پیشانی پر لکھا هوگا ”رحمت خدا سے مایوس هے“( مناقب خوارزمی ص 73 ، مقتل خوارزمی 1 ص 40 ، مائتہ منقبہ 150 / 95 ، روایت ابن عمر ، کشاف 3 ص 403 ، فرائد السمطین 2 ص 256 / 524 ، بشارة المصطفیٰ ص 197 ، العمدة 54 / 52 ، روایت جریر بن عبداللہ، احقاق الحق 9 ص 487) ۔

1078۔ امام علی (ع)! ہمارے دشمنوں کے لئے خدا کے غضب کے لشکر ہیں۔( تحف العقول ص 116 ، خصال ص 627 / 10 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم ، غرر الحکم ص 7342) ۔

2۔ منافقین سے ملحق هوجانا

1079۔ رسول اکرم ! جو ہم اہلبیت (ع) سے نفرت کرے گا وہ منافق هوگا ۔(فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص661 ، 1166 ، درمنثور 7 ص 349 نقل از ابن عدی ،مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 205 ، کشف الغمہ 1 ص 47 روایت ابوسعید) ۔

1080۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت (ع) کا دوست مومن متقی هوگا اور ہمارا دشمن منافق شقی هوگا۔( ذخائر العقبئص 18 روایت جابر بن عبداللہ ، کفایة الاثر ص 110 واثلہ بن الاسقع) ۔

1081۔ رسول اکرم ! قسم هے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان هے ۔ انسان کی روح اس وقت تک جسم سے جدا نہیں هوتی هے جب تک جنّت کے درخت یا جہنم کے زقوم کا مزہ نہ چکھ لے اور ملک الموت کے ساتھ مجھے علی (ع) ، فاطمہ ، حسن (ع) اور حسین (ع) کو نہ دیکھ لے ، اس کے بعد اگر ہمارا محب هے تو ہم ملک الموت سے کہتے ہیں ذرا نرمی سے کام لو کہ یہ مجھ سے اور ہمارے اہلبیت (ع) سے محبت کرتا تھا اور اگر ہمارا اور ہمارے اہلبیت (ع) کا دشمن هے تو ہم کہتے ہیں ملک الموت ذرا سختی کرو کہ یہ ہمارا اور ہمارے اہلبیت (ع) کا دشمن تھا اور یاد رکھو ہمارا دوست مومن کے علاوہ اور ہمارا دشمن منافق بدبخت کے علاوہ کوئی نہیں هوسکتاهے ۔ (مقتل الحسین (ع) خوارزمی 1 ص 109 روایت زید بن علی(ع)) ۔

1082۔ رسول اکرم ! میرے بعد بارہ امام هوں گے جن میں سے نوحسین (ع) کے صلب سے هوں گے اور نواں ان کا قائم هوگا، اور ہمارا دشمن منافق کے علاوہ کوئی نہیں هوسکتاهے ۔(کفایة الاثر ص 31 روایت ابوسعید خدری) ۔

1083۔ رسول اکرم ! جو ہماری عترت سے بغض رکھے وہ ملعون، منافق اور خسارہ والا هے ۔( جامع الاخبار ص 214 / 527) ۔

1084۔ رسول اکرم ! هوشیار رهو کہ اگر میری امت کا کوئی شخص تمام عمر دنیا تک عبادت کرتارهے اور پھر میرے اہلبیت (ع) اور میرے شیعوں کی عداوت لے کر خدا کے سامنے جائے تو پروردگار اس کے سینے کے نفاق کو بالکل کھول دے گا ۔( کافی 2 ص 46 / 3 ، بشارة المصطفیٰ ص 157 روایت عبدالعظیم الحسنئ) ۔

1085۔ابوسعید خدری ! ہم گروہ انصار منافقین کو صرف علی (ع) بن ابی طالب کی عداوت سے پہچانا کرتے تھے ۔( سنن ترمذی 5 ص 635 / 3717 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 220 / 718 ، تاریخ الخلفاء ص 202 ، المعجم الاوسط 4 ص 264 / 4151، مناقب خوارزمی 1 ص 332 / 313 عن الباقر (ع) ، فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 239 / 1086 ، مناقب امیر المومنین (ع) کوفی 2 ص 470 / 965 روایت جابر ابن عبداللہ تذکرة الخواص ص 28 از ابودرداء ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 67 / 305 روایت امام حسین (ع) ، کفایة الاثر ص 102 روایت زید بن ارقم ، العمدہ ص 216 / 334 روایت جابر بن عبداللہ مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 207 ، مجمع البیان 9ص 160 روایت ابوسعید خدری ، قرب الاسناد 26 / 86 روایت عبداللہ بن عمر) ۔

3۔ کفار سے الحاق

1086۔ رسول اکرم ! هوشیار هو کہ جو بغض آل محمد پر مرجائے گا وہ کافر مرے گا، جو بغض آل محمد پر مرے گا وہ بوئے جنت نہ سونگھ سکے گا۔( کشاف 3 ص 403 ، مائتہ منقبہ 90 / 37 روایت ابن عمر، بشارة المصطفیٰ ص 197 ، فرائد السمطین 2 ص 256 / 254 روایت جریر بن عبداللہ ، جامع الاخبار 474 / 1335 ، احقاق الحق 9 ص 487) ۔

1087۔ رسول اکرم ! جس شخص میں تین چیزیں هوں گی وہ نہ مجھ سے هے اور نہ میں اس سے هوں، بغض علی (ع) بن ابی طالب (ع) عداوت اہلبیت (ع) اور ایمان کو صرف کلمہ تصور کرنا۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 218 / 712 ، الفردوس 2 ص 85 / 2459 ، مقتل خوارزمی 2 ص 97 ، مناقب کوفی 2 ص 473 / 969 روایت جابر) ۔

4۔ یهو و نصاریٰ سے الحاق

1088۔ جابر بن عبداللہ رسول اکرم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا، لوگو! جو ہم اہلبیت (ع) سے بغض رکھے گا اللہ اسے روز قیامت یهودی محشور کرے گا۔

میں نے عرض کی حضور ! چاهے نماز روزہ کیوں نہ کرتا هو؟ فرمایا چاهے نماز روزہ کا پابند هوا اور اپنے کو مسلمان تصور کرتا هو۔(المعجم الاوسط 4 ص 212 / 4002 ، امالی صدوق (ر) 273 / 2 روایت سدیف ملکی، روضة الواعظین ص 297) ۔

1089۔ امام باقر (ع) ! جابر بن عبداللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم منبر پر تشریف لے گئے جبکہ تمام انصار و مہاجرین نماز کے لئے جمع هوچکے تھے اور فرمایا:

ایہا الناس ! جو ہم اہلبیت (ع) سے بغض رکھے گا ، پروردگار اس کو یهودی محشور کرے گا۔

میں نے عرض کی حضور ! چاهے توحید و رسالت کا کلمہ پڑھتاهو؟ فرمایا بیشک !

یہ کلمہ صرف اس قدر کارآمدهے کہ خون محفوظ هوجائے اور ذلت کے ساتھ جزیہ نہ دینا پڑے ۔

اس کے بعد فرمایا ، ایہا الناس جو ہم اہلبیت (ع) سے دشمنی رکھے گا پروردگار اسے روز قیامت یهودی محشور کرے گا اور یہ دجال کی آمد تک زندہ رہ گیا تو اس پر ایمان ضرور لے آئے گا اور اگر نہ رہ گیا تو قبر سے اٹھایا جائے گا کہ دجال پر ایمان لے آئے اور اپنی حقیقت کو بے نقاب کردے ۔

پروردگار نے میری تمام امت کو روز اول میرے سامنے پیش کردیا هے اور سب کے نام بھی بتادیے ہیں جس طرح آدم کو اسماء کی تعلیم دی تھی۔ میرے سامنے سے تمام پرچمدار گذرے تو میں نے علی (ع) اور ان کے شیعوں کے حق میں استغفار کیا۔

اس روایت کے راوی سنا ن بن سدیر کا بیان هے کہ مجھ سے میری والد نے کہا کہ اس حدیث کو لکھ لو، میں نے لکھ لیا اور دوسرے دن مدینہ کا سفر کیا ، وہاں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر هوکر عرض کی کہ میری جان قربان، مکہ کے سدیف نامی ایک شخص نے آپ کے والد کی ایک حدیث بیان کی هے فرمایا تمھیں یاد هے؟ میں نے عرض کی میں نے لکھ لیا هے ۔

فرمایا ذرا دکھلاؤ، میں نے پیش کردیا، جب آخری نقرہ کو دیکھا تو فرمایا سدیر ! یہ روایت کب بیان کی گئی هے؟

میں نے عر ض کی کہ آج ساتواں دن هے ۔

فرمایا میرا خیال تھا کہ یہ حدیث میرے والد بزرگوار سے کسی انسان تک نہ پہنچے گی ، (امالی طوسی (ر) ص 649 / 1347 ، امالی مفید (ر) 126 / 4 روایت حنان بن سدیر از سدیف مکی، محاسن 1 ص 173 / 266 ، ثواب الاعمال 243 /1 ، دعائم الاسلام 1 ص 75) ۔

1090۔ امام باقر (ع) ! ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! کیا ہر لا الہ الا اللہ کہنے والا مومن هوتاهے؟

فرمایا ہماری عداوت اسے یهود و نصاریٰ سے ملحق کردیتی هے، تم لوگ اس وقت تک داخل جنت نہیں هوسکتے هو جب تک مجھ سے محبت نہ کرو، وہ شخص جھوٹا هے جس کا خیال یہ هے کہ مجھ سے محبت کرتاهے اور وہ علی (ع) کا دشمن هو۔( امالی صدوق (ر) 221 / 17 روایت جابر بن یزید الجعفی ، بشارة المصطفیٰ ص 120) ۔

5 روز قیامت دیدار پیغمبر سے محرومی

1091۔ عبدالسلام بن صالح الہروی از امام رضا (ع) … میں نے عرض کی کہ فرزند رسول ! پھر اس روایت کے معنی کیا ہیں کہ لا الہ الا اللہ کا ثواب یہ هے کہ انسان پروردگار کے چہرہ کو دیکھ لے؟

فرمایا کہ اگر کسی شخص کا خیال ظاہری چہرہ کا هے تو وہ کافر هے ۔ یاد رکھو کہ خدا کے چہرہ سے مراد انبیاء مرسلین اور اس کی حجتیں ہیں جن کے وسیلہ سے اس کی طرف رخ کیا جاتاهے اور اس کے دین کی معرفت حاصل کی جاتی هے جیسا کہ اس نے خود فرمایا هے کہ اس کے چہرہ کے علاوہ ہر شے ہلاک هونے والی هے، انبیاء و مرسلین اور حجج الہیہ کی طرف نظر کرنے میں ثواب عظیم هے اور رسول اکرم نے یہ بھی فرمایاهے کہ جو میرے اہلبیت(ع) اور میری عترت سے بغض رکھے گا وہ روز قیامت مجھے نہ دیکھ سکے گا اور میں بھی اس کی طرف نظر نہ کروں گا۔( عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 115 / 3 ، امالی صدوق (ر) 372 / /7 التوحید 117 / 21 ، احتجاج 2 ص 380 / 286) ۔

6۔ روز قیامت مجذوم هونا

1092۔ رسول اکرم ! جو بھی ہم اہلبیت (ع) سے بغض رکھے گا، خدا اسے روز قیامت کوڑھی محشور کرے گا ۔( ثواب الاعمال 243 / 2 ، محاسن 1ص 174 / 269 روایت اسماعیل الجعفی ، کافی 2 ص 337 / 2) ۔

7۔ شفاعت سے محرومی

1093۔ انس بن مالک ! میں نے رسول اکرم کو علی (ع) بن ابی طالب (ع) کی طرف رخ کرکے اس آیت کی تلاوت کرتے دیکھا ” رات کے ایک حصہ میں بیدار هوکر یہ خدائی عطیہ هے وہ اس طرح تمھیں مقام محمود تک پہنچانا چاہتاهے“ ( اسراء ص 79) ۔

اورپھر فرمایا ۔ یا علی (ع)! پروردگار نے مجھے اہل توحید کی شفاعت کا اختیار دیاهے لیکن تم سے اور تمھاری اولاد سے دشمنی رکھنے والوں کے بارے میں منع کردیا هے ۔( امالی طوسی (ر) 455 / 1017 ، کشف الغمہ 2 ص 27 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 279) ۔

1094۔ امام صادق (ع) ! بیشک مومن اپنے ساتھی کی شفاعت کرسکتاهے لیکن ناصبی کی نہیں اور ناصبی کے بارے میں اگر تمام انبیاء و مرسلین مل کر بھی سفارش کریں تو یہ شفاعت کارآمد نہ هوگی ، ثواب الاعمال 251 / 21 ، محاسن 1 ص 296 / 595 روایت علی الصائغ) ۔

8۔ داخلہ جہنم

1095۔ رسول اکرم ! قسم هے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان هے، ہم اہلبیت(ع) سے جو شخص بھی دشمنی کرے گا اللہ اسے جہنم میں جھونک دے گا، (مستدرک حاکم 3 ص 162 / 4717 ، موارد الظمان 555 / 2246، مناقب کوفی 4 ص 120/607 ، درمنثور ص 349 نقل از احمد ابوحبان) ۔

1096۔ رسول اکرم ! قسم هے اس کی جس کے قبضہ میں میری جان هے کہ جو بھی ہم اہلبیت (ع) سے بغض رکھے گا پروردگار اسے جہنم میں منھ کے بھل ڈال دے گا ۔( مستدرک 4 ص 392 / 8036 ، مجمع الزوائد 7 ص 580 / 12300 ، شرح الاخبار 1 ص 161 / 110 ، امالی مفید 217 / 3 روایت ابوسعید خدری) ۔

1097۔ رسول اکرم ! اے اولاد عبدالمطلب ، میں نے تمھارے لئے پروردگار سے تین چیزوں کا سوال کیا هے، تمھیں ثبات قدم عنایت کرے، تمھارے گمراهوں کو ہدایت دے اور تمھارے جاہلوں کو علم عطا فرمائے اور یہ بھی دعا کی هے کہ وہ تمھیں سخی، کریم اور رحم دل قرار دیدے کہ اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان کھڑا رهے نماز، روزہ، ادا کرتارهے اور ہم اہلبیت (ع) کی عداوت کے ساتھ روز قیامت حاضر هو تو یقیناً داخل جہنم هوگا۔( مستدرک 3 ص 161 / 4712 ، المعجم الکبیر 11 ص 142 / 11412 ، امالی طوسی (ر) 21 / 117 /184 / 247 / 435 ، بشارة المصطفیٰ ص 260 روایات ابن عباس) ۔

1098۔ معاویہ بن خدیج ! مجھے معاویہ بن ابی سفیان نے حضرت حسن (ع) بن علی (ع) کے پاس بھیجا کہ ان کی کسی بیٹئ یا بہن کے لئے یزید کا پیغام دوں تو میں نے جاکر مدعا پیش کیا ، انھوں نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) بچیوں کی رائے کے بغیر ان کا عقد نہیں کرتے لہذا میں پہلے اس کی رائے دریافت کرلوں۔

میں نے جاکر پیغام کا ذکر کیا تو بچی نے کہا کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں هے جب تک ظالم ہمارے ساتھ فرعون جیسا برتاؤ نہ کرے کہ تمام لڑکوں کو ذبح کرے اور صرف لڑکیوں کو زندہ رکھے ۔ میں نے پلٹ کر حسن (ع) سے کہا کہ آپ نے تو اس قیامت کی بچی کے پاس بھیج دیا جو امیر المومنین (معاویہ) کو فرعون کہتی هے ۔

تو آپ نے فرمایا معاویہ ! دیکھو ہم اہلبیت (ع) کی عداوت سے پرہیز کرنا کہ رسول اکرم نے فرمایا هے کہ جو شخص بھی ہم اہل بیت (ع) سے بغض و حسد رکھے گا وہ روز قیامت جہنم کے کوڑوں سے ہنکایا جائے گا۔( المعجم الکبیر 3 ص 81 / 2726 ، المعجم الاوسط 3 ص 39 / 2405) ۔

1099۔ امام باقر (ع) ! اگر پروردگار کا پیدا کیا هوا ہر ملک اور اس کا بھیجا هوا ہر نبی اور ہر صدیق و شہید ہم اہلبیت(ع) کے دشمن کی سفارش کرے کہ خدا اسے جہنم سے نکال دے تو ناممکن هے، اس نے صاف کہہ دیا هے، یہ جہنم میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، سورہٴ کہف آیت 3 ۔( ثواب الاعمال 247 / 5 از حمران بن الحسین ) ۔

1100۔ امام صادق (ع)! جو شخص یہ چاہتاهے کہ اسے یہ معلوم هوجائے کہ اللہ اس سے محبت کرتاهے تو اسے چاہئے کہ اس کی اطاعت کرے اور ہمارا اتباع کرے، کیا اس نے مالک کا یہ ارشاد نہیں سناهے کہ ” پیغمبر کہہ دیجئے اگر تم لوگوں کا دعویٰ هے کہ خدا کے چاہنے الے هو تو میرا اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناهوں کو معاف کردے گا۔(آل عمران آیت 31) ۔

خدا کی قسم کوئی بندہ خدا کی اطاعت نہیں کرے گا مگر یہ کہ پروردگار اپنی اطاعت میں ہمارا اتباع شامل کردے ۔

اور کوئی شخص ہمارا اتباع نہیں کرے گا مگر یہ کہ پروردگار اسے محبوب بنالے اور جو شخص ہمارا اتباع ترک کردے گا وہ ہمارا دشمن هوگا اور جو ہمارا دشمن هوگا وہ اللہ کا گناہگار هوگا اور جو گنہگار مرجائے گا اسے خدا رسوا کرے گا اور منہ کے بھل جہنم میں ڈال دے گا، والحمدللہ رب العالمین ( کافی 8 ص 14 / 1 روایت اسماعیل بن مخلدو اسماعیل بن جابر) ۔ 1001۔ اما م کاظم (ع) ! جو ہم سے بغض رکھے، وہ حضرت محمد کا دشمن هوگا اور جو ان کا دشمن هوگا وہ خدا کا دشمن هوگا اور جو خدا کا دشمن هوگا اس کے بارے میں خدا کا فرض هے کہ وہ اسے جہنم میں ڈال دے اور اس کا کوئی مددگار نہ هو ( کامل الزیارات ص 336 روایت عبدالرحمان بن مسلم) ۔

اہلبیت (ع) پر ظلم

ظلم پر تنبیہ

1102۔ رسول اکرم ! ویل هے میرے اہلبیت(ع) کے دشمنوں کے لئے جو ان پر اپنے کو مقدم رکھتے ہیں ، انھیں نہ میری شفاعت حاصل هوگی اور نہ میرے پروردگار کی جنت کو دیکھ سکیں گے ۔( امالی شجری 1 ص 154) ۔

1103۔ رسول اکرم (ع)! اس پر اللہ کا شدید غضب هوگا جو میری عترت کے بارے میں مجھے ستائے گا ۔( کنز العمال 12 ص 93 / 34143، الجامع الصغیر 1 ص 158 / 1045) ۔

1104۔ رسول اکرم ! اس پر میرا اور اللہ کا غضب شدید هوگا جو میرا خون بہائے گا اور مجھے میری عترت کے بارے میں ستائے گا ۔( امالی صدوق (ر) ص 377 / 7 ، الجعفریات ص 183 روایت اسماعیل بن موسیٰ ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 27 / 11 ، مقتل الحسین خوارزمی 2 ص 84 ، صحیفة الرضا (ع) ص 155 / 99، روایت احمد بن عامر الطای ، مسند زید ص 465 ، ذخائر العقبئ ص 39 ) ۔

1105۔ رسول اکرم ۔ ایہا الناس ! کل میرے پاس اس انداز سے نہ آنا کہ تم دنیا کو سمیٹے هوئے هو اور میرے اہلبیت(ع) پریشان حال ، مظلوم ، مقهور هوں اور ان کا خون بہہ رہا هو۔( خصائص الائمہ ص 74) ۔

1106۔ رسول اکرم ! جس نے میرے اہلبیت (ع) کو برا بھلا کہا میں اس سے بری اور بیزار هوں ۔( ینابیع المودہ 2 ص 378 / 74) ۔

1107۔ رسول اکرم ! جس نے مجھے میرے اہل کے بارے میں اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی هے ۔( کنز العمال 12 ص 103 / 34197 از ابونعیم) ۔

1108۔ رسول اکرم ! چھ افراد ہیں جن پر میری بھی لعنت هے اور خدا کی بھی لعنت هے اور ہر نبی کی لعنت هے، کتاب خدا میں زیادتی کرنے والا ، قضا و قدر کا انکار کرنے والا، لوگوں پر زبردستی حاکم بن کر صاحب عزت کو ذلیل اور ذلیلوں کو صاحب عزّت بنانے والا، میری سنت کو ترک کردینے والا، میری عترت کے بارے میں حرام خدا کو حلال بنالینے والا اور حرم خدا کی بے حرمتی کرنے والا ۔( مستدرک حاکم 2 ص 572 / 3940 روایت عبیداللہ بن عبدالرحمان بن عبداللہ بن موہب ، المعجم الکبیر 3 ص 126 / 2883 ، المعجم الاوسط 2ص 186 / 1667 ، روایت عائشہ، شرح الاخبار 1 ص 494 / 878 روایت سفیان ثوری، خصال صدوق (ر) 338 / 41 روایت عبداللہ بن میمون) ۔

1109۔ رسول اکرم ! پانچ افراد ہیں جن پر میری بھی لعنت هے اور ہر نبی کی لعنت هے، کتاب خدا میں زیادتی کرنے والا، میری سنت کا ترک کرنے والا ، قضائے الہی کا انکار کرنے والا میری عترت کی حرمت کو ضائع کرنے والا، مال غنیمت پر قبضہ کرکے اسے حلال کرلینے والا ۔( کافی 2 ص293 / 14 روایت میسّر) ۔

1110۔ زید بن علی (ع) ! اپنے والد بزرگوار کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ امام حسین (ع) نے مسجد میں روز جمعہ عمر بن الخطاب کو منبر پر دیکھا تو فرمایا کہ میرے باپ کے منبر پر سے اترآ۔ تو عمر رونے لگے اور کہا فرزند سچ کہتے هو، یہ تمھارے باپ کا منبر هے، میرے باپ کا نہیں هے ۔

حضرت علی (ع) نے واقعہ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ میں نے نہیں سکھایاهے! عمر نے کہا یہ سچ هے، ابوالحسن ! میں آپ کو الزام نہیں دے رہاهوں، یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے اور آپ کو منبر پر لے جاکر پہلو میں بٹھایا اور خطبہ شروع کیا اور کہا ! ایہا الناس ! میں نے تمھارے پیغمبر کو یہ کہتے سناهے کہ مجھے میری عترت و ذریت کے ذیل میں محفوظ رکھو، جو ان کے ذیل میں مجھے محفوظ رکھے گا خدا اس کی حفاظت کرے گا اور جو ان کے بارے میں مجھے اذیت دے گا اس پر خدا کی لعنت، خدا کی لعنت، خدا کی لعنت۔( امالی طوسی (ر) ص 703 / 1504) ۔

1111۔ رسول اکرم ! پروردگار کا غضب یهودیوں پر شدید هوا کہ عزیز کو اس کا بیٹا بنادیا اور نصاریٰ پہ شدید هوا کہ مسیح کو بیٹا بنادیا اور اس پر بھی شدید هوگا جو میرا خون بہائے گا اور مجھے میری عترت کے بارے میں ستائے گا ۔( کنز العمال 1 ص 267 / 1343 روایت ابوسعید خدری) ۔

1112۔ ابوسعید خدری ! جب جنگ احد میں رسول اکرم کا چہرہ زخمی هوگیا اور دندان مبارک ٹوٹ گئے تو آپ نے ہاتھ اٹھاکر فرمایا خدا کا غضب یهودیوں پر شدید هوا جب عزیز کو اس کا بیٹا بنادیا اور عیسائیوں پر شدید هوا جب مسیح کو اس کا بیٹا بنادیا اور اب اس پر شدید هوگا جس نے میرا خون بہایا اور مجھے میری عترت کے بارے میں اذیت دی ۔( امالی طوسی (ر) 142 / 231 ، تفسیر عیاشی 2ص 86 / 43 ، بشارة المصطفیٰ ص 280 روایت فضل بن عمرو، کنز العمال 10 ص 435 / 30050 نقل از ابن النجار) ۔

ظالم پر جنّت کا حرام هونا

1113۔ رسول اکرم ! پروردگار نے جنت کو حرام قرار دیدیاهے اس پر جو میرے اہلبیت (ع) پر ظلم کرے ۔ ان سے جنگ کرے ، ان پر حملہ کرے یا انھیں گالیاں دے ۔ (ذخائر العقبئص 20 ، ینابیع ا لمودہ 2 ص 119 / 344) ۔

1114۔ رسول اکرم ! میرے اہلبیت (ع) پر ظلم کرنے والوں اور میری عترت کے بارے میں مجھے اذیت دینے والوں پر جنت حرام هے ۔( تفسیر قرطبی 16 ص 22 ، کشاف 3 ص 402 ، سعد السعود ص 141 ، کشف الغمہ 1 ص 106 ، لباب الانساب 1 ص215 ، العمدة ص 53 ، فرائد السمطین 2 ص 278 / 542۔

واضح رهے کہ کشف الغمہ نے عترتی کے بجائے عشیرتی نقل کیا هے جو غالباً اشتباہ هے ۔

1115۔ رسول اکرم ، جنت حرام کردی گئی هے اس پر جو میرے اہلبیت (ع) پر ظلم کرے، ان سے جنگ کرے، ان کے خلاف کسی کی مدد کرے اور انھیں برا بھلا کهے ” ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصّہ نہیں هے اور نہ خدا ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف رخ کرے گا اور نہ انھیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب هوگا، آل عمران آیت 77 ( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 34 / 65 امالی طوسی 164 / 272 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 120۔

1116۔ امام علی (ع) ! خدا کی قسم میں اپنے انھیں کوتاہ ہاتھوں سے تمام اپنے دشمنوں کو حوض کوثر سے ہنکاؤں گا اور تمام دوستوں کو سیراب کروں گا ۔( بشارة المصطفیٰ ص 95 روایت ابوالاسود الدئلی ، کشف الغمہ 2 / 15) ۔

1117۔ امام علی (ع) ! میں رسول اکرم کے ہمراہ حوض کوثر پر هوں گا اور میری عترت میرے ہمراہ هوں گی اور ہم سب اپنے دشمنوں کو ہنکائیں گے اور اپنے دوستوں کو سیراب کریں گے اور جو شخص ایک گھونٹ پی لے گا وہ پھر کبھی پیاسا نہ هوگا۔( غرر الحکم ص 3763 ، تفسیر فرات کوفی 367 / 499) ۔

1118۔ انس بن مالک ! میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر هوا جب سورہٴ کوثر نازل هوچکا تھا اور میں نے دریافت کیا حضور یہ کوثر کیا هے؟ فرمایا جنت میں ایک نہر هے جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر هے، کوئی اس سے پینے والا پیاسا نہ هوگا اور کوئی اس سے منہ دھونے والا غبار آلود نہ هوگا لیکن وہ شخص سیراب نہیں هوسکتا جس نے میرے عہد کو توڑ دیا هے اور میرے اہلبیت (ع) کو قتل کیاهے ۔( المعجم الکبیر 3 ص 126 / 2882) ۔

1119۔ علی بن ابی طلحہ غلام بنئامیہ ! معاویہ بن ابی سفیان نے حج کیا اور اس کے ساتھ معاویہ بن خدیج بھی تھا جو سب سے زیادہ علی (ع) کو گالیاں دیا کرتا تھا مدینہ میں مسجد پیغمبر کے پاس سے گذرا تو حسن (ع) چند افراد کے ساتھ بیٹھے تھے، لوگوں نے کہا کہ یہ معاویہ بن خدیج هے جو حضرت علی (ع) کو گالیاں دیتاهے فرمایا اسے بلاؤ؟ ایک شخص نے آکر بلایا، اس نے کہا کس نے بلایا هے؟ کہا حسن (ع) بن علی (ع) نے ۔

وہ آیا اور آکر سلام کیا، حضرت حسن (ع) بن علی (ع) نے کہا کہ تیرا ہی نام معاویہ بن خدیج هے؟

اس نے کہا بیشک …؟

فرمایا تو ہی حضرت علی (ع) کو گالیاں دیتاهے؟

وہ شرمند ہ هوکر خاموش هوگیا

آپ نے فرمایا ، آگاہ هوجا کہ اگر تو حوض کوثر پر وارد هوا جس کا کوئی امکان نہیں هے تو دیکھے گا کہ حضرت علی (ع) کمر کو کسے هوئے منافقین کو یوں ہنکار هے هوں گے جس طرح چشمہ سے اجنبی اونٹ ہنکائے جاتے ہیں جیسا کہ پروردگار نے فرمایا هے کہ ” رسوائی اور ناکامی افترا پردازوں کا مقدر هے“۔ سورہ طٰہ آیت 61 ( المعجم الکبیر 3 ص 91/ 2758 ، سیر اعلام النبلاء 3 ص 39) ۔

ظالم کا عذاب

1120۔ رسول اکرم ! ویل هے میرے اہلبیت(ع) کے ظالموں کے لئے ، ان پر درک اسفل میں منافقین کے ساتھ عذاب کیا جائے گا ۔ (صحیفة الرضا (ع) 122/ 80 ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 47 / 177 ، مقتل الحسین (ع) خوارزمی 2 ص 83 ، مناقب ابن المغازلی 66 / 94 ، جامع الاحادیث قمی ص 128 ، ینابیع المودة 2 ص 326 / 950 ، ربیع الابرار 2 ص 828 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 743) ۔

1121۔ رسول اکرم ! جنت میں تین درجات ہیں اور جہنم میں تین طبقات … جہنم کے پست ترین طبقہ میں وہ هوگا جو دل سے ہم سے نفرت کرے اور زبان اور ہاتھ سے ہمارے خلاف دشمن کی مدد کرے اور دوسرے طبقہ میں وہ هوگا جو دل سے نفرت کرے اور صرف زبان سے مخالفت کرے اورتیسرے طبقہ میں وہ هوگا جو صرف دل نفرت کرے ۔( محاسن ص 251 / 472 روایت ابوحمزہ ثمالی) ۔

1122۔ امام علی (ع) ! جو ہم سے دل سے بغض رکھے گا اور زبان او ر ہاتھ سے ہمارے خلاف امداد کرے گا وہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ جہنم میں هوگا اور جو بغض رکھ کر صرف زبان سے ہمارے خلاف امداد کرے گا وہ بھی جہنم میں هوگا اور جو صرف دل سے بغض رکھے گا اور زبان یا ہاتھ سے مخالفت نہ کرے گا وہ بھی جہنم ہی میں هوگا ۔( خصال 629 / 10 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم ، تحف العقول ص 119 ، شرح الاخبار 1 ص 165 / 120 / 3 ص 121 ، جامع الاخبار 496 / 1377 ، ص 506 / 1400) ۔

1123۔ امام زین العابدین (ع) ! کربلائے معلیٰ اور امام حسین (ع) کی زیارت کے فضائل کا ذکر کرتے هوئے ، پروردگار آسمان، زمین، پہاڑ ، دریا اور تمام مخلوقات کو مخاطب کرکے فرماتاهے کہ میری عزت و جلال کی قسم ! میں اپنے رسول کا خون بہانے والوں ، اس کی توہین کرنے والوں، اس کی عترت کو قتل کرنے والوں، اس کے عہد کو توڑنے والوں اور اس کے اہلبیت (ع) پر ظلم کرنے والوں پر ایسا عذاب کروں گا جو ظالمین میں کسی پر نہ کیا هوگا ۔( کامل الزیارات ص 264 ، روایت قدامہ بن زائدہ) ۔

مظالم کے بارے میں اخبار رسول

1124۔ رسول اکرم ! افسوس آل محمد کے بچوں پر کیسا ظلم هونے والا هے اس حاکم کی طرف سے جسے دولت کی بنیاد پر حاکم بنادیا جائے گا۔( الفردوس 4 ص 307 / 7147 ، الجامع الصغیر 2 ص 718 / 6939 نقل از ابن عساکر روایت سلمہ بن الاکوع، کنز العمال 14 ص 593 / 39679 روایت اصبغ بن نباتہ، بشارة المصطفیٰ ص 203 روایت ابوطاہر) ۔

1125۔ رسول اکرم ! روز قیامت قرآن ، مسجد اور عترت اس طرح فریاد کریں گے کہ قرآن کهے گا خدایا ان لوگوں نے پارہ پارہ کیا هے اور جلایاهے اور مسجد کهے گی خدایا انهوں نے مجھے خراب بنادیاهے اور غیر آباد چھوڑ دیاهے اور عترت کهے گی خدایا انهوں نے مجھے نظر انداز کیا هے ، قتل کیا هے اور آوارہ وطن کردیاهے اور میں سب کی طرف سے وکالت کے لئے گھٹنہ ٹیک دوں گا تو آواز آئے گی کہ یہ میرے ذمہ هے اور میں اس محاسبہ کے لئے تم سے اولیٰ هے ۔( کنز العمال 11 ص 193 / 31190 نقل از طبرانی و ابن حنبل و سعید بن منصور، خصال صدوق (ر) 175 / 232 روایت جابر) ۔

1126۔ رسول اکرم ! عنقریب میرے اہلبیت (ع) میرے بعد میری امت کی طرف سے قتل اور آوارہ وطنی کا شکار هوں گے اور ان کے سب سے بدتر دشمن بنوامیہ ، بنو مغیرہ اور بنو مخروم هوں گے ۔( مستدرک حاکم 4 ص 534 / 8500 ، الملاحم والفتن ص 28 روایت ابوسعید خدری، اثبات الہداة 2 ص 263 / 177) ۔

1127۔ جابر از امام باقر (ع) ! جب آیت ” یوم ندعو کل اناس بامامھم “ نازل هوئی تو مسلمانوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ تمام لوگوں کے امام نہیں ہیں ؟ فرمایا میں تمام لوگوں کے لئے رسول هوں اور میرے بعد میرے اہلبیت(ع) میں سے اللہ کی طرف سے کچھ امام هوں گے جو لوگوں میں قیام کریں گے تو لوگ انھیں جھٹلائیں گے اور حکام کفر و ضلالت اور ان کے مرید ان پر ظلم کریں گے ۔

اس وقت جو ان سے محبت کرے گا، ان کا اتباع کرے گا اور ان کی تصدیق کرے گا وہ مجھ سے هوگا، میرے ساتھ هوگا، مجھ سے ملاقات کرے گا اور جو ان پر ظلم کرے گا، انھیں جھٹلائے گا وہ نہ مجھ سے هوگا اور نہ میرے ساتھ هوگا بلکہ میں اس سے بری اور بیزار هوں۔ ( کافی 1 ص 215 /1 محاسن 1ص 254 / 480 ، بصائر الدرجات 33/1) ۔

1128۔ رسول اکرم ! حسن (ع) و حسین(ع) اپنی امت کے امام هوں گے اپنے پدر بزرگوار هے کہ بعد اور یہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کی والدہ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں اور ان کے باپ سید الوصیین ہیں اور حسین (ع) کی اولاد میں نو امام هوں گے جن میں نواں ہماری اولاد کا قائم هوگا ان سب کی اطاعت میری اطاعت اور ان کی معصیت میری معصیت هے ۔میں ان کے فضائل کے منکر اور ان کے احترام کے ضائع کرنے والوں کے خلاف روز قیامت فریاد کروں گا اور خدا میری ولایت اور میری عترت اور ائمہ امت کی نصرت کے لئے کافر هے اور وہی ان کے حق کے منکرون سے انتقام لینے والا هے و سیعلم الذین ظلموا ایَّ منقلب ینقلبون ( شعراء ص 227 ،( کمال الدین ص 260 /6 فرائد السمطین 1 ص 54 / 19 روایت حسین بن خالد) ۔

1129۔ جنادہ بن ابی امیہ ! میں حضرت حن(ع) بن علی (ع) کے پاس مرض الموت میں وارد هوا جب آپ کے سامنے طشت رکھا تھا اومعاویہ کے زہر کے اثر سے مسلسل خون تھوک رهے تھے میں نے عرض کی حضور ! یہ کیا صورت حال هے، آپ علاج کیوں نہیں کرتے؟

فرمایا: عبداللہ! موت کا کیا علاج هے؟

میں نے کہا ” اِنَّا للہ ِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ راَجِعُون“ اس کے بعد آپ نے میری طرف رخ کرکے فرمایا یہ رسول اکرم کا ہم سے عہد هے کہ اس امر کے مالک علی (ع) و فاطمہ (ع) کی اولاد سے کل بارہ امام هوں گے اور ہر ایک زہریا تلوار سے شہید کیا جائے گا، اس کے بعد طشت اٹھا لیا گیا اور آپ ٹیک لگاکر بیٹھ گئے ۔(کفایةالاثر ص 226 ، الصراط المستقیم 2 ص 128) ۔

1130۔ امام صادق (ع) ! رسول اکرم نے حضرت علی (ع) حسن (ع) اور حسین (ع) کو دیکھ کر گریہ فرمایا اور فرمایا کہ تم میرے بعد مستضعف هوگے ۔ (معانی الاخبار 79 / 1) ۔

1131۔ امام صادق (ع)! رسول اکرم کا آخری وقت تھا، آپ غش کے عالم میں تھے تو فاطمہ (ع) نے رونا شروع کیا ، آپ نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ فاطمہ (ع) کہہ رہی ہیں، آپ کے بعد میرا کیا هوگا ؟ تو فرمایا کہ تم سب میرے بعد مستضعف هوگے ۔( دعائم الاسلام 1 ص 225 ، ارشاد 1 ص 184 ، امالی مفید (ر) 212/2 ، مسند ابن حنبل 1 ص 257 / 26940 ، المعجم الکبیر 25 ص 23 / 32) ۔

1132۔ رسول اکرم نے بنی ہاشم سے فرمایا کہ تم سب میرے بعد مستضعف هوگے(عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 61 / 244 روایت حسن بن عبداللہ از امام رضا (ع) ، کفایتہ الاثر ص 118 روایت ابوایوب) ۔

1133۔ ابن عباس ! حضرت علی (ع) نے رسول اکرم سے عرض کی کہ کیا آپ عقیل کو دوست رکھتے ہیں ؟ فرمایا دوہری محبت ! اس لئے بھی کہ ابوطالب ان سے محبت کرتے تھے اور اس لئے بھی کہ ان کافرزند تمھارے لال کی محبت میں قتل کیا جائے گا اور مومنین کی آنکھیں اس پر اشکبار هوں گے اور ملائکہ مقربین نماز جنازہ ادا کریں گے، یہ کہہ کر حضرت نے رونا شروع کیا ، یہاں تک کہ آنسؤوں کی دھار سینہ تک پہنچ گئی اور فرمایا کہ میں خدا کی بارگاہ میں اپنی عترت کے مصائب کی فریاد کروں گا۔( امالی صدوق (ر) 111/3) ۔

1134۔ انس بن مالک ! میں رسول اکرم کے ساتھ علی (ع) بن ابی طالب (ع) کے پاس عیادت کے لئے گیا تو وہاں ابوبکر و عمر بھی موجود تھے، دونوں ہٹ گئے اور حضور بیٹھ گئے تو ایک نے دوسرے سے کہا عنقریب یہ مرنے والے ہیں ! حضرت نے فرمایا یہ شہید هوں گے اور اس وقت تک دنیا سے نہ جائیں گے جب تک ان کا دل رنج و الم سے مملو نہ هوجائے ۔( مستدرک حاکم 3 ص 150 / 4673 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 3ص 74 / 1118 ص 267 / 1343 ) ۔

1135۔ جابر ! رسول اکرم نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ تم کو خلیفہ بنایا جائے گا ، پھر قتل کیا جائے اور تمھاری داڑھی تمھارے سر کے خون سے رنگین هوگی ۔( المعجم الکبیر 2 ص 247 / 2038 ، المعجم الاوسط 7 ص 218 / 7318 ، دلائل النبوة ابونعیم ص553 / 491 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 3 ص 268 / 1345) ۔

1136۔ عائشہ ! میں نے رسول اکرم کو دیکھا کہ آپ نے علی (ع) کو گلے سے لگایا ، بوسہ دیا اور فرمایا ، میرے ماں باپ قربان اس یکتا شہید پر جو تنہائی میں شہید کیا جائے گا۔( مسند ابویعلی ٰ 4 ص 318 / 4558 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع)3 ص 285 / 1376 ، مناقب خوارزمی ص 65 / 34 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 220) ۔

1137۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم میرے ہاتھ کو پکڑے هوئے مدینہ کی گلیوں میں چل رهے تھے کہ ہمارا گذرا ایک باغ کی طرف سے هوا، میں نے عرض کی کہ حضور کس قدر حسین یہ باغ هے؟

فرمایا ، تمھارے لئے جنت میں اس سے بہتر هے ، پھر دوسرے باغ کو دیکھ کر میں نے پھر تعریف کی اور آپ نے پھر وہی فرمایا، یہاں تک کہ ہمارا گذر سات باغات کے پاس سے هوا اور ہر مرتبہ میں نے بھی وہی کہا اور حضرت نے بھی وہی جواب دیا ۔

یہاں تک کہ جب تنہائی کی منزل تک پہنچ گئے تو آپ نے مجھے گلے سے لگایا اوربیساختہ رونے لگے ، میں نے عرض کی حضور ! یہ رونے کا سبب کیا هے؟ فرمایا لوگوں کے دلوں میں کینے ہیں، جو میرے بعد ظاہر هوں گے ؟

میں نے عرض کی حضور ! میرا دین سلامت رهے گا ؟

فرمایا بیشک ! ( سنن ابویعلی 1 ص 285 / 561 ، تاریخ بغداد 12 ص 398 ، مناقب خوارزمی ص 65 / 35 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع)ص 321 / 827 ، 831 ، ایضاح ص 454 ، فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 653 / 1109) ۔

1138۔ رسول اکرم ! میرا فرزند حسن (ع) زہر سے شہید کیا جائے گا ۔( کتاب سلیم بن قیس 2 ص 838 روایت عبداللہ بن جعفر ، الخرائج و الجرائح 3 ص 1143 / 55 ، عوالی اللئالی 1 ص 199 / 14) ۔

1139۔ ام سلمہ ! رسول اکرم ایک دن سونے کے لئے لیٹے اور پھر گھبرا کر اٹھ گئے ۔

پھر لیٹ کر سوگئے پھر چونک کر اٹھ گئے ، پھر تیسری مرتبہ ایسا ہی هوا اور اب جو اٹھے تو آپ کے ہاتھوں میں ایک سرخ مٹی تھی جسے بوسہ دے رهے تھے ، میں نے عرض کی حضور ! یہ خاک کیسی هے؟

فرمایا مجھے جبریل نے خبردی هے کہ میرا یہ حسین (ع) سرزمین عراق پر قتل کیا جائے گا ، میں نے جبریل سے کہا کہ مجھے وہ خاک دکھلادو تو انھوں نے یہ مٹی دی هے ۔( مستدرک حاکم 4 ص 440 / 8202 ، المعجم الکبیر 3 ص 109 / 2821 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ص 173 / 221 ، اعلام الوریٰ ص 43) ۔

1140۔ سحیم از انس بن حارث ، میں نے رسول اکرم سے سناهے کہ میرا یہ فرزند سرزمین عراق پر قتل کیا جائے گا لہذا جو اس وقت تک رهے اس کا فرض هے کہ اس کی نصرت کرے جس کا نتیجہ یہ هوا کہ انس بن حارث امام حسین (ع) کے ساتھ شہید هوگئے ۔( دلائل النبوة ابونعیم 554 / 493 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 239 / 283 ، اصابہ 1 ص 271 / 266 ، اسدالغابہ 1 ص 288 / 246 ، البدایتہ والنہایتہ 8 ص 199 ، مقتل الحسین خوارزمی 1 ص 159 ، ذخائر العقبیٰ ص 146) ۔

1141۔ انس بن مالک ! فرشتہ باران نے مالک سے اذن طلب کیا کہ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر هوا اور جب اذن مل گیا تو آپ نے ام سلمہ سے فرمایا کہ دیکھو دروازہ سے کوئی داخل نہ هونے پائے، اتنے میں حسین (ع) آگئے ام سلمہ نے روکا لیکن وہ داخل هوگئے اور کبھی حضور کی پشت پر ، کبھی کاندھوں پر کبھی گردون پر ۔!

فرشتہ نے کہا یا رسول اللہ ! کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟

فرمایا بیشک ، کہا لیکن اسے تو آپ کی امت قتل کردے گی اور آپ چاہیں تو میں وہ جگر بھی دکھلادوں؟

یہ کہہ کر ہاتھ مارا اور ایک سرخ مٹی لاکر دیدی، ام سلمہ نے آپ سے لے کر چادر میں رکھ لیا۔

اس روایت کے ایک راوی ثابت کا بیان هے کہ وہ خاک کربلا کی خاک تھی ۔( مسند ابن حنبل 4 ص 482 / 13539 ، المعجم الکبیر 3 ص 106 / 2813 ،مسند ابویعلی ٰ 3 ص 370 / 3389 ، دلائل النبوة ابونعیم 553 / 492 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 168 / 217 ، مقتل الحسین (ع) خوارزمی 1 ص 160 ، ذخائر العقبیٰ ص146) ۔

1142۔ام سلمہ ! ایک دن پیغمبر اسلام میرے گھر میں تشریف فرما تھے کہ آپ نے فرمایا خبردار کوئی گھر میں آنے نہ پائے، میں دیکھتی رہی کہ اچانک حسین (ع) داخل هوگئے اور میں نے رسول اکرم کی صدائے گریہ سنی ، اب جو دیکھا تو حسین (ع) آپ کی گود میں تھے اور پیغمبر ان کی پیشانی کو پونچھ رهے تھے، میں نے عرض کی کہ مجھے نہیں معلوم هوسکا کہ یہ کب آگئے، آپ نے فرمایا کہ جبریل یہاں حاضر تھے، انھوں نے پوچھا کیا آپ حسین (ع) سے محبت کرتے ہیں ؟

میں نے کہا بیشک !

جبرئیل نے کہا مگر آپ کی امت اسے کربلا نامی زمین پر قتل کردے گی اور انھوں نے یہ خاک بھی دکھلائی هے، جس کا نتیجہ یہ هوا کہ جب حسین (ع) نزغہ میں گھر کر اس سرزمین پر پہنچے تو دریافت کیا کہ اس زمین کا نام کیا هے؟

اور جب لوگوں نے کربلا بتایا تو فرمایا کہ خدا و رسول نے سچ فرمایاهے” یہ کرب و بلا کی زمین هے“ ۔( المعجم الکبیر 3 ص 108 / 2819) ۔

1143۔ عبداللہ بن بخی نے اپنے والد سے نقل کیا هے کہ وہ حضرت علی (ع) کے ہمراہ سفر تھے اور طہارت کے منتظم تھے، جب صفین جاتے هوئے آپ نینویٰ پہنچے تو آپ نے فرمایا ۔ عبداللہ صبر ، ابوعبداللہ صبر !

میں نے عرض کی حضور یہ کیا هے ؟

فرمایا کہ میں ایک دن رسول اکرم کی خدمت میں حاضر هوا تو دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، میں نے عرض کی حضور خیر تو هے کیا کسی نے اذیت دی هے؟

فرمایا ابھی میرے پاس سے جبریل گئے ہیں اور یہ بتاکر گئے ہیں کہ میرا حسین (ع) فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا اور اگر آپ چاہیں تو میں وہ خاک دکھلا سکتاهوں اور یہ کہہ کر ایک مٹھی خاک مجھے دی اور میں اسے دیکھ کر ضبط نہ کرسکا۔( مسند احمد بن حنبل العقبئ ص 184 /648 ، المعجم الکبیر 3 ص 105 / 2811 ، مسند ابویعلی ٰ 1 ص 206 / 358 ، ذخائر العقبئٰ ص 148، مناقب کوفی 2ص 253 /19 ، الملاحم والفتن ص 104 باب 24 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ص165 ۔ 171)

1144۔ محمد بن عمرو بن حسن ! میں حسین (ع) کے ساتھ نہر کربلا کے کنارہ تھا کہ آپ نے شمر کو دیکھ کر فرمایا کہ خدا و رسول نے سچ فرمایا تھا جب رسول اکرم نے خبردی تھی کہ میں کتے کو دیکھ رہاهوں جو میرے اہلبیت(ع) کے خون کو چاٹ رہاهے، اور شمر مبروص تھا۔( الخصائص الکبریٰ السیوطی 2 ص 125) ۔

1145۔ امام علی (ع)! رسول اکرم ہمارے گھر تشریف لے آئے تو ہم نے حلوہ تیار کیا اور ام سلمہ نے ایک کاسہ شیر ، مکھن اور کھجور فراہم کیا ، ہم سب نے مل کر کھایا ، میں نے حضرت کا ہاتھ دھلایا، آپ نے روبقبلہ هوکر دعا فرمائی اور پھر زمین کی طرف جھک کر بے ساختہ رونے لگے، ہم گھبرا گئے کہ کس طرح دریافت کریں اچانک حسین (ع) آگئے اور بڑھ کر کہا کہ یہ آپ کیا کررهے ہیں ؟

فرمایا آج تمھارے بارے میں وہ سناهے جو کبھی نہ سنایا گیا تھا۔

ابھی جبریل امین آئے تھے اور انھوں نے بتایا کہ تم سب قتل کئے جاؤگے اور سب کے مقتل بھی الگ الگ هوں گے ، میں نے تمھارے حق میں دعا کی اور میں اس خبر سے مخزون هوگیا ۔

حسین (ع) نے عرض کی کہ جب سب الگ الگ هوں گے تو ہماری قبر کی زیارت اور نگرانی کون کرے گا ؟

فرمایا میری امت کا ایک گروہ هوگا جو میرے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاهے گا اور جب روز قیامت هوگا اس گروہ کو دیکھ کر اس کا بازو تھام کر اسے هول و مصیبت محشورسے نجات دلاؤں گا۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی 2 ص 166 ، بشارة المصطفیٰ ص 195 روایت محمد بن الحسین ازامام زین العابدین (ع) ، اعلام الوریٰ ص 44) ۔

مظالم بر اہلبیت (ع)

1146۔ امام حسن (ع)! امیر المومنین (ع) کی شہادت کے بعد خطبہ دیتے هوئے فرمایا کہ مجھ سے میرے جد رسول اکرم نے فرمایا هے کہ اسرار امامت کے ذمہ دار میرے اہلبیت(ع) میں سے بارہ افراد هوں گے اور سب قتل کئے جائیں گے یا انھیں زہر دیا جائیگا ، (کفایتہ الاثر ص 160 روایت ہشام بن محمد) ۔

1147 ۔ امام علی (ع)! … یہاں تک کہ جب پروردگار نے اپنے رسول کو بلالیا تو ایک قوم الٹے پاؤں پلٹ گئی اور انھیں مختلف راستوں نے ہلاک کردیا اور انھوں نے اندرونی جذبات پر اعتماد کیا اور غیر قرابتدار کے ساتھ تعلق پیدا کیا اور جس سے مودت کا حکم دیا گیا تھا اسے نظر انداز کردیا، عمارت کو جڑ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ تعمیر کردیا، یہ لوگ ہر غلط بات کا معدن تھے اور ہر ہلاکت میں پڑ جانے والے کے دروازہ تھے ۔( نہج البلاغہ خطبہ 150) ۔

1148۔ منہال بن عمرو ! معاویہ نے امام حسن (ع) سے مطالبہ کیا کہ منبر پر جاکر اپنا نسب بیان کریں، آپ نے منبر پر جاکر حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا ۔

” قریش سارے عرب پر فخر کرتے ہیں کہ محمد ان میں سے ہیں اور عرب عجم پر فخر کرتے ہیں کہ محمد ان میں سے ہیں اور عجم بھی عرب کا احترام کرتے ہیں کہ محمد ان میں سے ہیں لیکن افسوس کہ سب دوسروں سے ہمارے حق کا مطالبہ کررهے ہیں اور خود ہمارا حق نہیں دے رهے ہیں۔( مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 12) ۔

1149۔ حبیب بن یسار ! امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد زید بن ارقم دروازہ مسجد پر کھڑے هوئے اور کہنے لگے کہ تم لوگوں نے یہ کام کیا هے، میں گواہی دیتاهوں کہ میں نے خود رسول اکرم کو یہ فرماتے سناهے کہ میں تم دونوں (حسن(ع) و حسین (ع) ) اور صالح المومنین کو خدا کے حوالہ کررہاهوں۔

لوگوں نے ابن زیاد سے کہا کہ زید بن ارقم یہ حدیث بیان کررهے ہیں ؟ اس نے کہا کہ بوڑھے هوگئے ہیں اور عقل چلی گئی هے ۔( المعجم الکبیر 5 ص 185 / 5037 امالی طوسی (ر) ص 252 / 450 ، شرح الاخبار 3 ص 170 / 1116 ۔ 1117) ۔

1150۔ یعقوبی جناب فاطمہ (ع) کی وفات کے ذیل میں بیان کرتاهے کہ زنان قریش اور ازواج پیغمبر آپ کے پاس آئیں اور مزاج دریافت کیا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں تمھاری دنیا سے بیزار هوں اورتمھارے فراق سے خوش هوں، میں خدا و رسول سے ملاقات کروں گی اس حال میں کہ تمھاری طرف سے رنج و غم لے کر جارہی هوں ، میرے حق کا تحفظ نہیں کیا گیا اور میرے ذمہ کی رعایت نہیں کی گئی ، نہ وصیت پیغمبر کو قبول کیا گیا هے اور نہ ہماری حرمت کو پہنچانا گیا هے ۔( تاریخ یعقوبی 2 ص115) ۔

1151۔ اما م حسین (ع) جب جناب فاطمہ (ع) کا انتقال هوا اور امیر المومنین (ع) نے خاموشی سے انھیں دفن کرکے نشانِ قبر کو مٹا دیا تو مڑ کر قبر رسول کو دیکھا اور آواز دی ” سلام هو آپ پر اے خدا کے رسول ، میرا اور آپ کی اس دختر کا جو آپ کے پاس آرہی هے اور آپ سے ملاقات کے لئے تہہ خاک آرام کررہی هے پروردگار نے بہت جلد اسے آپ سے ملادیا ، لیکن اب میرا صبر بہت دشوار هے اور میری قوت برداشت ساتھ چھوڑ رہی هے ، میں صرف آپ کے فراق کو دیکھ کر دل کو تسلی دے رہاهوں کہ میں نے آپ کو بھی سپرد خاک کیاهے اور آپ نے میرے سینہ پر سر رکھ کر دنیا کو خیر باد کہاهے ۔ اِنَّا للہ ِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونْ لیجئے آپ کی امانت واپس هوگئی اور فاطمہ آپ کی خدمت میں حاضر هوگئیں ۔ اب یہ آسان و زمین کس قدر بڑے نظر آرهے ہیں یا رسول اللہ ! اب میرا حزن و ملال دائمی هے اور میری راتیں صرف بیداری میں گذریں گی، یہ رنج میرے دل سے جانے والا نہیں هے جب تک میں بھی آپ کے گھر نہ آجاؤں بڑادر دناک غم هے اور بڑا دل دکھانے والا درد هے، کتنی جلدی ہم میں جدائی هوگئی ، اب اللہ ہی سے اس کی فریاد هے، عنقریب آپ کی بیٹی بیان کرے گا کہ آپ کی امت نے اس کا حق مارنے پر کس طرح اتفاق کرلیا تھا، آپ اس سے دریافت کریں اور مکمل حالات معلوم کرلیں، کتنے ہی ایسے رنجیدہ دستم رسیدہ ہیں جن کے پاس عرض حال کے لئے کوئی راستہ نہیں هے ، عنقریب فاطمہ (ع) سب بیان کریں گی اور خدا فیصلہ کرے گا کہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والاهے ۔

یہ الوداع کہنے والے کا سلام هے جو نہ رنجیدہ هے اور نہ بیزار ، اب اگر آپ سے رخصت هورہاهے تو کسی ملال کی بناپر نہیں هے اور اگر یہیں رہ جاؤں تو یہ صابرین سے هونے والے وعدہ سے بدظنی کی بناپر نہیں هے ۔( کافی 1 ص 459 / 3 ، امالی مفید (ر) ص 281 / 7، امالی طوسی (ر) 109 / 166 ، بشارة المصطفیٰ ص 258 روایت علی بن محمد الہرمزانی ، نہج البلاغہ خطبہ نمبر 202) ۔

1152۔ عبدالرحمان بن ابی نعم ! ایک مرد عراقی نے عبداللہ بن عمر سے سوال کیا کہ اگر کپڑے میں مچھر کا خون لگ جائے تو کیا کرنا هوگا؟ تو ابن عمر نے کہا کہ ذرا اس شخص کو دیکھو یہ مچھر کے خون کے بارے میں دریافت کررہاهے جبکہ ان عراقیوں نے فرزند رسول کا خون بہادیاهے جس کے بارے میں میں نے خود رسول اکرم سے سناهے کہ حسن (ع) و حسین (ع) اس دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔( سنن ترمذی 5 ص 657 / 3770 ، مسند ابن حنبل 2 ص 405 / 5679 ، ص 452 / 5947 ، الادب المفرد 38 / 85 ، المعجم الکبیر 3 ص 127 / 2884 ، ذخائر العقبئ ص 124 ، مسند ابویُعلیٰ 5 ص 287 / 5713 ، اسد الغابہ ص 2 / 26 ، امالی صدوق 123 /12 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 75 ، صحیح بخاری 3 ص 371 / 3543 ، خصائص نسائی ص 259 / 144 ، الادب المفرد 259 / 144 ، انساب الاشراف 3 ص 227 / 85 ، حلیة الاولیاء 5 ص 70 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 36 / 58 ، 60) ۔

1153۔ منہال بن عمرو ! میں امام زین العابدین (ع) کی خدمت میں حاضر هوا اور سلام کرکے مزاج دریافت کیا تو فرمایا کہ تم شیعہ هوکہ ہمارے صبح و شام سے باخبر نہیں هو؟ ہمارا حال یہ هے کہ ہم آل فرعون کے درمیان بنئ اسرائیل کی مثال ہیں کہ ان کے بچوں کو ذبح کیا جارہا تھا اور عورتوں کو زندہ چھوڑ دیا جاتا تھا اور آج یہ عالم هے کہ رسول اکرم کے بعد بہترین خلائق کو منبروں سے گالیاں دی جارہی ہیں اور ان کے سب و شتم پر اموال عطا کئے جارهے ہیں ، ہمارے چاہنے والوں کے حقوق اس محبت کے جرم میں پامال کئے جارهے ہیں اور صورت حال یہ هے کہ سارے عرب کے درمیان قریش کا احترام هورہاهے کہ پیغمبران میں سے ہیں اور اس طرح لوگوں سے ہمارا حق لیا جارہاهے اور ہمیں ہمارا حق نہیں دیا جارہاهے آؤ ، آؤدیکھو یہ ہیں ہمارے صبح و شام ( جامع الاخبار 238 / 607 ، تفسیر قمی 1ص 134 روایت عاصم بن حمید عن الصادق (ع) ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 169 ، مشیر الاحزان ص 105) ۔

1154۔ امام باقر (ع) ! جو شخص بھی ہمارے اوپر هونے والے ظلم ، ہمارے حق کی پامالی اور ہماری پریشانیوں کو نہ پہچانے وہ بھی ان لوگوں کا شریک هے جنھوں نے ہمارے اوپر ظلم ڈھائے ہیں۔( ثواب الاعمال ص 248 / 6 روایت جابر) ۔

1155۔ منہال بن عمرو ! میں امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں تھا کہ ایک شخص حاضر هوا اور اس نے سلام کرکے مزاج دریافت کیا ؟ فرمایا کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیاهے کہ تم ہمارے حالات کا اندازہ کرسکو جب کہ ہماری مثال امت میں بنئ اسرائیل جیسی هے جن کے بچے ذبح کردیے جاتے تھے اور بچیوں کو زندہ چھوڑ دیا جاتا تھا اور یہی حال اب ہمارا هے کہ ہمارے بچوں کو ذبح کردیا جاتاهے اور بچیوں کو زندہ چھوڑ دیا جاتاهے ۔

حیرت کی بات یہ هے کہ عرب نے عجم پر برتری کا اظہار کیا اور جب انھوں نے دلیل پوچھی تو کہا کہ محمد عرب تھے اور سب نے تسلیم کرلیا، اس کے بعد قریش نے عرب پر اپنی فضیلت کا اظہار کیا اور انھوں نے بھی یہی دلیل بیان کی کہ محمد ہم میں سے تھے اور سب نے مان لیا، تو اگر بات یہی هے تو گویا ہمارا سب پر احسان هے کہ ہم رسول اکرم کی ذریّت اور ان کے اہلبیت (ع) ہیں اور اس میں ہمارا کوئی شریک نہیں هے ۔

یہ سن کر اس شخص نے کہا کہ خدا کی قسم میں تو آپ اہلبیت (ع) سے محبت کرتاهوں، فرمایا اگر ایسا هے تو بلاء کی چادر اختیار کرلو کہ بلاء کی رفتار ہماری اور ہمارے چاہنے والوں کی طرف وادی کے سیلاب سے زیادہ تیزتر هے، بلائیں پہلے ہم پر نازل هوتی ہیں اور اس کے بعد تم پر اور سکون و آرام کا آغاز بھی پہلے ہم سے هوگا ، اس کے بعد تم کو حاصل هوگا۔( امالی طوسی (ر) 154 / 255 ، بشارة المصطفیٰ ص 89) ۔

1156۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں رقمطراز ہیں کہ حضرت ابوجعفر محمد بن علی (ع) نے بعض اصحاب سے فرمایا کہ تمھیں اندازہ هے کہ قریش نے ہم پر کس طرح ظلم اور ہجوم کیاهے اور ہمارے شیعوں اور دوستوں نے کس قدر مظالم کا سامنا کیا هے؟ رسول اکرم یہ فرماکر دنیا سے گئے تھے کہ ہم تمام لوگوں سے اولیٰ ہیں لیکن اس کا نتیجہ یہ هوا کہ تمام قریش نے ہمارے خلاف اتفاق کرلیا اور خلافت کو اس کے مرکز سے جدا کردیا ، ہمارے حق اور ہماری محبت کے ذریعہ انصار کے سامنے استدلال کیا اور پھر خود ہی قبضہ کرلیا اور ایک دوسرے کے حوالہ کرتا رہا یہانتک کہ جب خلافت پلٹ کر ہمارے گھر آئی تو قریش نے بیعت کر توڑ کر جنگ کا بازار گرم کردیا اور صاحب امر انھیں مصائب کا سامنا کرتے کرتے شہید کردیا گیا ۔

اس کے بعد امام حسن (ع) کی بیعت کی گئی اور ان سے عہد کیا گیا لیکن ان سے بھی غداری کی گئی اور انھیں بھی تنہا چھوڑ دیا گیا ، یہاں تک کہ عراق والوں نے حملہ کرکے خنجر سے ان کے پہلو کو زخمی کردیا اور ان کا سارا سامان لوٹ لیا اور گھر کی کنیزوں کے زیور ات تک لے لئے، جس کے نتیجہ میں آپ نے معاویہ سے صلح کرلی تا کہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگی کا تحفظ کرسکیں جو کہ تعداد میں انتہائی قلیل تھے ۔

اس کے بعد ہم اہلبیت (ع) کو مسلسل حقیر و ذلیل بنایا جاتارہا، ہمیں وطن سے نکالا گیا اور مبتلائے مصائب کیا گیا ، نہ ہماری زندگی محفوظ رہی اور نہ ہمارے چاہنے والوں کی زندگی ۔! جھوٹ بولنے والے اور ہمارے حق کا انکار کرنے والے اپنے کذب و انکار کی وجہ سے بلندترین درجات حاصل کرتے رهے اور ہر مقام پر حکام ظلم کے یہاں تقرب حاصل کرتے رهے، جھوٹی حدیثیں تیار کیں اور ہماری طرف سے وہ باتیں نقل کیں جونہ ہم نے کہی تھیں اور نہ کی تھیں تا کہ لوگوں کوہم سے متنفر اور بیزار بناسکیں۔

یہ کام زیادہ تیزی سے معاویہ کے دور حکومت میں امام حسن (ع) کی شہادت کے بعد هوا اور ہمارے شیعوں کا ہر مقام پر قتل عام هوا، ان کے ہاتھ پاؤں تہمتوں کی بناپر کاٹ دئے گئے اور جو بھی ہماری محبت کا نام لیتا تھا اسے گرفتار کرلیا جاتاهے اور اس کے اموال کولوٹ کر گھر کو گرا دیا جاتا تھا۔

اس کے بعد بلاؤں میں اور اضافہ هوتا رہا ، یہاں تک کہ عبیداللہ بن زیاد کا دور آیا اور پھر حجاج کے ہاتھ میں حکومت آئی جس نے طرح طرح سے قتل کیا اور تہمتوں پر زندانوں کے حوالہ کردیا اور حالت یہ هوگئی کہ کسی بھی انسان کے لئے زندیق اور کافر کہا جانا شیعہ علی (ع) کهے جانے سے زیادہ بہتر اور محبوب عمل تھا۔( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید 11 ص 43) ۔ 1157۔ حمزہ بن حمران ! میں امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں حاضر هوا تو آپ نے فرمایا کہ کہاں سے آرهے هو؟ میں نے عرض کی کوفہ سے ! آپ نے گریہ شروع کردیا یہاں تک کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر هوگئی ، میں نے عرض کی فرزند رسول (ع) ! اس قدر گریہ کا سبب کیا هے؟

فرمایا مجھے میرے چچا زیدا اور ان کے ساتھ هونے والے مظالم یاد آگئے ۔

میں نے عرض کی کہ وہ کیا مظالم یاد آگئے ؟

فرمایا کہ ان کی شہادت کا وہ منظر یاد آگیا جب ان کی پیشانی میں تیر پیوست هوگیا اور بیٹا آکر باپ سے لپٹ گیا کہ بابا مبارک هو، آپ اس شان سے رسول اکرم ، حضرت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کی خدمت میں حاضر هوں گے ۔ فرمایا بیشک ۔

اس کے بعد یحیٰ نے لوہا ر کو بلاکر پیشانی سے تیر نکلوا یا اور جناب زید کی روح جسم سے پرواز کر گئی اور یحیئ نے لاش کو ایک نہر کے کنارہ سپرد لحد کر کے اس پر نہر کا پانی جاری کردیا تا کہ کسی کو اطلاع نہ هونے پائے لیکن ایک سندی غلام نے یہ منظر دیکھ لیا اور یوسف بن عمر کو اطلاع کردی اور اس نے لاش کو قبر سے نکلوا کر سولی پر لٹکا دیا اور اس کے بعد نذر آتش کرکے خاکستر کو هوا میں اڑادیا ، خدا ان کے قاتل اور انھیں تنہا چھوڑ دینے والوں پر لعنت کرے ۔

ہم تو ان مصائب کی فریاد خدا کی بارگاہ میں کرتے ہیں جہاں اولاد رسول کو مرنے کے بعد بھی نشانہ ستم بنایا گیا اور پھر پروردگار ہی سے دشمنوں کے مقابلہ میں طالب امداد ہیں کہ وہی بہترین مدد کرنے والاهے ۔( امالی صدوق (ر) 321 / 3 ، امالی طوسی (ر) 434 / 973) ۔

1158۔ محمد بن الحسن ، محمد بن ابراہیم کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ اولاد حسن (ع) میں بعض افراد کو منصور کے سامنے لایا گیا تو اس نے محمد بن ابراہیم کو دیکھ کر کہا کہ تم ہی دیباج اصغر کهے جاتے هو؟ فرمایا بیشک ۔

اس نے کہا کہ خدا کی قسم تمھیں اس طرح قتل کروں گا جس طرح ابتک کسی کو قتل نہیں کیا هے… اور یہ کہہ کر ایک کھوکھلے ستون کے اندر کھڑا کرکے ستوں کو بند کرادیا اور وہ زندہ دفن کردئے گئے ۔( تاریخ طبری 7 ص 546 ، مقاتل الطالبیین ص 181) ۔

1159۔ محمدبن اسماعیل ! میں نے اپنے جد موسیٰ بن عبداللہ سے سناهے کہ ہمیں ایسے اندھیرے قید خانہ میں رکھا گیا تھا کہ اوقات نماز کا اندازہ بھی علی بن الحسن بن الحسن بن الحسن (ع) کی قرآن کے پاروں کی تلاوت سے کیا جاتا تھا۔( مقاتل الطالبیین ص 176) ۔

1160۔ موسیٰ بن عبداللہ بن موسیٰ ! علی بن الحسن کا انتقال منصور کے قیدخانہ میں حالت سجدہ میں هوا هے جب عبداللہ نے کہا کہ میرے بھتیجے کو جگاؤ ایسا معلوم هوتاهے کہ سجدہ میں نیند آگئی هے اور لوگوں نے حرکت دی تو معلوم هوا کہ روح جسم سے جدا هوچکی هے اور عبداللہ نے یہ دیکھ کر کہا کہ اللہ تم سے راضی رهے، میرے علم کے مطابق تمھیں اس طرح کی موت کا خوف تھا۔( مقاتل الطابیین ص 176) ۔

1161۔ محمد بن المنصور نے یحیئ بن الحسین بن زید کا یہ بیان نقل کیا هے کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ میں اپنے چچا عیسیٰ بن زید کو دیکھنا چاہتاهوں کہ میرے جیسے انسان کے لئے یہ بڑا عیب هے کہ اپنے ایسے محترم بزرگ سے ملاقات نہ کرے تو انھوں نے ٹال دیا اور ایک مدت تک یہ کہہ کر ٹالتے رهے کہ مجھے یہ خوف هے کہ انھیں یہ ملاقات گراں گذرے اورا س کے زیر اثر وہ جگہ چھوڑنے پر مجبور هوجائیں جہاں ان کا قیام هے ۔

لیکن میں برابر اصرار کرتا رہا اور اپنے اشتیاق کا اظہار کرتا رہا یہاں تک کہ وہ راضی هوگئے اور مجھے تیار کرکے کوفہ روانہ کردیا اور فرمایا کہ کوفہ پہنچ کر نبی حیّ کے مکانات دریافت کرنا اور وہاں فلاں کوچہ میں جاکر دیکھنا کہ درمیان کوچہ ان ان صفات کا ایک گھر نظر آئے گا مگر تم اس گھر کے پاس نہ تھہرنا بلکہ دور جاکر کھڑے هوجانا ، عنقریب تم دیکھوگے کہ مغرب کے وقت ایک ضعیف آدمی آرہاهے اور اس کا چہرہ چمک رہاهے، پیشانی پر سجدہ کا نشان هے اور ایک اونی کرتا پہنے هوئے ایک اونٹ پر سقائی کا کام انجام دے رہا هے اور جب بھی کوئی قدم اٹھاتاهے برابر ذکر خدا کرتا رہتاهے اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، تم یہ دیکھ کر سلام کرنا اور معانقہ کرنا ۔

وہ تم سے گھبرائیں گے اور خوف زدہ هوں گے لیکن تم فوراً اپنا شجرہٴ نسب بیان کردینا، انھیں یہ سن کر سکون هوگا اور تم سے تاویر گفتگو کرتے رہیں گے اور ہم لوگوں کے بارے میں تفصیلات دریافت کریں گے اور اپنے حالات بتائیں گے لیکن تم ان کے پاس زیادہ دیر نہ ٹھہرنا اور نہ لمبی گفتگو کرنا بلکہ فوراً خداحافظ کہہ دینا کہ وہ تم سے معذرت کریں گے کہ آئندہ ملاقات کے لئے نہ آنا اور تم اس کے مطابق عمل کرنا ورنہ وہ تم سے چھپ جائیں گے اور گھبراکر جگہ بدلنے پر مجبور هوجائیں گے جو ان کے لئے باعث مشقت عمل هوگا۔

میں اپنے دل میں یہ عزم لے کر روانہ هوا کوفہ پہنچ کر عصر کے بعد بنئحی کے علاقہ میں گیا اور گلی کے کنارہ دروازہ کو پہچان کر دور بیٹھ گیا کہ غروب کے بعدایک اونٹ ہنکانے والے کو دیکھا جس میں بابا کے بیان کر وہ تمام صفات موجود تھے اور ہر قدم پر مسلسل ذکر خدا کررہا تھا اور آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے ۔

میں نے اٹھ کر معانقہ کیا، وہ خوفزدہ هوگئے، میں نے کہا کہ چچا میں یحیئ بن الحسین بن زید، آپ کا بھتیجا هوں۔

انھوں نے کلیجہ سے لگالیا اور رونے لگے اور اس قدر روئے جیسے ہلاک هوجائیں گے، اس کے بعد اونٹ کو بٹھادیا اور میرے پاس بیٹھ کر ایک ایک فرد خاندان مرد، عورت ، بچہ کے بارے میں دریافت کرنے لگے، میں نے سب کا حال بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ فرزند ! میں اسی اونٹ پر سقائی کا کام کررہاهوں، جس قدر اجرت ملتی هے، اونٹ کا کرایہ دے کر باقی سے بچوں کی پرورش کرتاهوں اور اگر کسی دن کچھ نہیں بچتاهے تو آبادی کے باہر جاکر جو سبزی و غیرہ لوگ پھینک دیتے ہیں، اس کو اٹھا کر کھالیتاهوں۔

میں نے یہیں ایک شخص کی لڑکی سے شادی کی هے لیکن اسے نہیں معلوم هے کہ میں کون هوں اور اس سے ایک بیٹئ بھی پیدا هوچکی هے جو اب بلوغ کی منزل میں هے لیکن اسے بھی نہیں معلوم کہ میں کون هوں؟

ایک مرتبہ اس کی ماں نے کہا کہ محلہ کے فلاں سقاء کے بیٹے نے پیغام دیا هے لہذا اس بچی کا عقد کردیجئے، اس کے حالات ہم لوگوں سے بہترہیں اور پھر اصرار بھی کیا لیکن میں نہ بتاسکا کہ یہ بات ہمارے لئے جائز نہیں هے اور وہ ہمارا کفو نہیں هے، وہ برابر اصرار کرتی رہی اور میں خدا سے دعا کرتا رہا کہ اس مشکل سے نجات دلادے کہ اتفاقاً اس بچی کا انتقال هوگیا اور آج مجھے اس سے زیادہ کسی امر کا صدمہ نہیں هے کہ اسے رسول اکرم سے اپنی قرابت کا علم بھی نہ هوسکا ۔

اس کے بعد مجھے قسم دلائی کہ میں واپس چلا جاؤں اور دوبارہ پھر ان کے پاس نہ جاؤں اور یہ کہہ کر مجھے رخصت کردیا ، اس کے بعد جب بھی میں انھیں دیکھنے اس جگہ پر گیا وہ نظر نہیں آئے اور یہی میری آخری ملاقات تھی۔ ( مقاتل الطالبیین ص 345) ۔

واضح رهے کہ اسلام میں کفو هونے کے لئے اتحاد حیثیت و مذہب ضروری هے اور جہت ممکن هے کہ وہ بچہ سقا اہلبیت (ع) کے مسلک پر نہ رہاهو یا اس میں کوئی ایسا نقص رہا هو جو اس بچی کے کفو بننے سے مانع رہا هو ورنہ اس بچی کی ماں بھی خاندان اہلبیت(ع) سے نہیں تھی۔!

1162۔ منذر بن جعفر العبدی نے اپنے والد کا یہ بیان نقل کیا هے کہ میں صالح بن حیّ کے دونوں فرزند حسن اور علی (ع) ، عبدر بہ بن علقمہ اور جناب بن نسطا س سب عیسیٰ بن زید کے ہمراہ حج کے سفر پر نکلے اور عیسیٰ جمالوں کے لباس میں تقیہ کی زندگی گذار رهے تھے، ایک رات ہم لوگ مکہ میں مسجد الحرام میں جمع هوئے تو عیسیٰ بن زید اور حسن بن صالح نے سیرت کے مسائل پر گفتگو شروع کردی اور ایک مسئلہ میں دونوں میں اختلاف هوگیا، دوسرے دن عبد ر بہ بن علقمہ آئے تو کہا کہ تمھارا مسئلہ حل هوگیا هے سفیان ثوری آگئے ہیں ان سے دریافت کرلو، چنانچہ اٹھ کر مسجد میں ان کے پاس آئے اور سلام کرکے مسئلہ دریافت کیا تو سفیان نے کہا کہ اس کا جواب میرے بس سے باہر هے کہ اس کا تعلق سلطان وقت سے هے ۔

حسن نے انھیں متوجہ کیا کہ یہ سوال کرنے والے عیسیٰ بن زید ہیں ، انھوں نے جناب بن نسطاس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور انھوں نے بھی تصدیق کردی کہ یہ عیسیٰ بن زید ہیں توسفیان ثوری نے انھیں سینہ سے لگالیا اور بے تحاشہ رونا شروع کردیا اور آخر میں اپنے انداز جواب کی معذرت کی اور روتے روتے مسئلہ کا جواب دیدیا اور پھر ہم لوگوں کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ اولاد فاطمہ سے محبت اور ان کے مصائب پر گریہ ہر اس انسان کیلئے لازم هے جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان پایا جاتاهے، اور اس کے بعد پھر عیسی بن زید سے کہا کہ جاؤاپنے کو ان ظالموں سے پوشیدہ کرو کہیں تم پر کوئی مصیبت نازل نہ هوجائے، یہ سن کر ہم لوگ اٹھ گئے اور سب متفرق هوگئے ۔ (مقاتل الطالبیین ص 351) ۔

1163۔ علی بن جعفر الاحمر ! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ ہم لوگ ( میں ، عیسیٰ بن زید، حسن بن صالح ، علی بن صالح بن حیّ، اسرائیل بن یونس، بن ابی اسحاق ، جناب بن نسطاس) زید یوں کی ایک جماعت کے ساتھ کوفہ میں ایک گھر میں جمع هوتے تھے کہ کسی شخص نے مہدی کے یہاں جاسوسی کردی اور اس نے کوفہ کے عامل کو پیغام بھیج دیا کہ ہماری کڑی نگرانی کی جائے اوراگر ایسے کسی اجتماع کی اطلاع ملے تو سب کو گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دیا جائے ۔

ایک رات ہم لوگ سب جمع تھے کہ عامل کوفہ کو خبر هوگئی اور اس نے ہمارے اوپر حملہ کردیا اور قوم نے یہ محسوس کرتے ہی چھت سے چھلانگ لگادی اور میرے علاوہ سب فرار کرگئے، ظالموں نے مجھے گرفتار کرکے مہدی کے پاس بھیجدیا، میں اس کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے مجھے دیکھتے ہی حرام زادہ کہہ کر خطاب کیا اور کہا کہ تو عیسیٰ بن زید کے ساتھ اجتماع کرتاهے اور انھیں میرے خلاف اقدام پر آمادہ کرتاهے ۔

میں نے کہا مہدی ! تجھے خدا سے شرم نہیں آتی هے اور نہ اس کا خوف هے، تو شریف زادیوں کی اولاد کو حرام زادہ کہتاهے اور ان پر تہمت زنا لگاتاهے جبکہ تیرا فرض تھا کہ تیرے سامنے کوئی جاہل اور احمق اس طرح کے کلمات استعمال کرے تو اسے منع کرے ۔

اس نے دوبارہ وہی گالی دی اور اب اٹھ کر مجھے زمین پر پٹک دیا اور ہاتھ پاؤں سے گھونسہ لات کرنے لگا اور گالیاں دینے لگا میں نے کہا کہ واقعا بہت بہادر آدمی هے کہ مجھ جیسے بوڑھے کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرتاهے جس میں اپنے دفاع کی بھی طاقت نہیں هے ۔

اس نے مجھے قید خانہ میں ڈال دیا اور سختی کرنے کا حکم دیدیا، مجھے زنجیروں میں جکڑ کر قید کردیا گیا اور میں برسوں قیدخانہ میں رہا، یہاں تک کہ جب اسے اطلاع ملی کہ عیسیٰ بن زید کا انتقال هوگیا هے تو مجھے طلب کیا اور کہنے لگا کہ تو هے کون؟

میں نے کہا کہ مسلمان هوں۔

اس نے کہا اعرابی ؟

میں نے کہا نہیں

اس نے کہا پھر کیا هے؟

میں نے کہا کہ میرا باپ کوفہ کے کسی شخص کا غلام تھا، اس نے اسے آزاد کردیا تھا۔

کہا کہ عیسیٰ بن زید مرگئے!

میں نے کہا کہ یہ عظیم ترین مصیبت هے، اللہ ان پر رحمت نازل کرے، واقعاً بڑے عابد ، زاہد، اطاعت خدا میں زحمت برداشت کرنے والے اور اس راہ میں ا نتہائی نڈر تھے ۔

اس نے کہا کہ کیا تمھیں ان کی وفات کا علم نہیں تھا؟

میں نے کہا کہ معلوم هے ۔

کہا کہ پھر مجھے مبارکباد کیوں نہیں دی ؟

میں نے کہا کہ میں ایسی بات کی مبارکباد کس طرح دیتا کہ اگر رسول اکرم زندہ هوتے تو ہرگز اس بات کو پسند نہ کرتے وہ تادیر سر جھکائے خاموش رہا اور پھر کہنے لگا کہ تمھارے جس میں سزا کی طاقت نہیں هے اور میں کوئی ایسی سزا دینا نہیں چاہتا جس سے تم مرجاؤ اور اللہ نے مجھے میرے دشمن عیسئ بن زید سے بچا لیا هے لہذا جاؤ یہاں سے چلے جاؤ لیکن خدا تمھارا نگہبان نہ هوگا۔

اور یاد رکھو کہ اگر مجھے اطلاع ملی کہ تم نے پھر وہی کا م شروع کردیا هے تو خدا کی قسم تمھاری گردن اڑادوں گا۔

میں یہ سن کر کوفہ چلا آیا اور مہدی نے ربیع سے کہا کہ دیکھتے هو یہ شخص کس قدر بے خوف اور باہمت هے ۔ خدا کی قسم صاحبان بصیرت ایسے ہی هوتے ہیں ۔( مقاتل الطالبیین ص 352) ۔ 1164۔ امام کاظم (ع)! دعا کرتے ہیں … خدایا پیغمبر اسلام کے اہلبیت(ع) پر رحمت نازل فرما جو ہدایت کے امام ، اندھیروں کے چراغ ، مخلوقات پر تیرے امین ، بندوں میں تیرے مخلص، زمین پر تیری حجّت، شہروں میں تیرے منارہٴ ہدایت، بلاؤں میں صبر کرنے والے، رضاؤں کے طلب کرنے والے، وعدہ کو وفا کرنے والے، عبادتوں میں شک یا انکار نہ کرنے والے، تیرے اولیاء اور تیرے اولیاء کی اولاد، تیرے علم کے خزانہ دار، جنھیں تو نے ہدایت کی کلید، اندھیروں کا چراغ قرار دیاهے، تیری صلوات و رحمت و رضا انھیں کے لئے هے ۔

خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما … اور اپنے بندوں میں منارہٴ ہدایت، اپنی ذات کی طرف دعوت دینے والے تیرے امر کے ساتھ قیام کرنے والے اور تیرے رسول کا پیغام پہنچانے والے پر بھی ، اور خدایا جب اسے ظاہر کرنا تو اس کے وعدہ کو پورا کردینا اور اس کے اصحاب و انصار کو جمع کردیناا ور اس کے مددگاروں کو طاقت عطا فرمانا اور اسے آخری منزل امید تک پہنچا دینا اور اس کے سوالات کو عطا کردینا اور اس کے ذریعہ محمد و آل محمد کے حالات کی اصلاح کردینا اس ذلت، توہین اور مصائب کے بعد جو رسول اکرم کے بعد نازل هوئی ہیں کہ انھیں قتل کیا گیا ، وطن سے باہر نکالا گیا ، خوفزدہ حالت میں منتشر کردیا گیا ، انھوں نے تیری رضا اور اطاعت کی خاطر اذیت اور تکذیب کا سامنا کیا اور تمام مصائب پر صبر کیا اور ہر حال میں راضی رهے اور تیری بارگاہ میں ہمیشہ سراپا تسلیم رهے ۔

خدایا ان کے قائم کے ظهور میں تعجیل فرما، اس کی امداد فرما اور اس کے ذریعہ اس دین کی امداد فرما جس میں تغیر و تبدل پیدا کردیا گیا هے اور ان امور کو پھر سے زندہ کردے جو مٹادئے گئے ہیں اور نبی اکرم کے بعد بدل دئے گئے ہیں ۔( جمال الاسبوع ص 186) ۔

1165۔ ابوالصلت عبدالسلام بن صالح الہروی ، میں نے امام رضا (ع) کو یہ فرماتے سناهے کہ خدا کی قسم ہم میں کا ہر شخص شہید کیا جانے والا هے… تو کسی نے دریافت کرلیا کہ آپ کو کون قتل کرے گا ؟

فرمایا کہ میرے زمانہ کا بدترین انسان، جو مجھ کو زہر دے گا اور پھر بلا و غربت میں دفن کیا جاؤں گا۔( الفقیہ 2 ص 585 / 3192، امالی صدوق (ر) 61 / 8، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 256 / 9 ، جامع الاخبار 93 / 150 روضة الواعظین ص 257 ،مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 209) ۔

1166۔ امام رضا (ع) ! خدا کا شکر هے جس نے ہم میں اس کو محفوظ رکھاهے جس کو لوگوں نے برباد کردیا هے اور اسے بلند رکھاهے جسے لوگوں نے پست بنادیا هے، یہانتک کہ ہمیں کفر کے منبروں پر اسی سال تک گالیاں دی گئیں، ہمارے فضائل کو چھپایا گیا ، ہمارے خلاف جھوٹ بولنے کے لئے اموال خرچ کئے گئے، مگر خدا نے یہی چاہا کہ ہمارا ذکر بلندر هے اورہمارے فضائل آشکار هوجائیں، خدا کی قسم ایسا ہماری وجہ سے نہیں هوا هے، رسول اکرم اور ان کی قرابت کی برکت سے هوا هے کہ اب ہمارا مسئلہ اور ہماری روایات ہی ہمارے بعد پیغمبر کی بہترین دلیل هوں گی ۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 164 / 26 روایت محمد بن ابی الموج بن الحسین الرازی ) ۔

1167۔ امام عسکری (ع) ! بنی امیہ نے اپنی تلواریں ہماری گردنوں پر دو وجهوں سے چلائی ہیں ۔

ایک یہ کہ انھیں معلوم تھا کہ خلافت میں ان کا کوئی حق نہیں هے اور ہم نے دعویٰ کردیا اور وہ اپنے مرکز تک پہنچ گئی تو ان کا کیا هوگا۔

اور دوسرے یہ کہ انھوں نے متواتر اخبار سے یہ معلوم کرلیا تھا کہ ہمارے قائم کے ذریعہ ظالموں اور جابروں کی حکومت کا خاتمہ هونے والا هے اور انھیں یقین تھا کہ وہ ظالم و جابر ہیں، چنانچہ انھوں نے کو شش کی کہ اہلبیت (ع) رسول کو قتل کردیا جائے، ان کی نسلوں کو فنا کردیا جائے تا کہ اس طرح ان کا قائم دنیا میں نہ آنے پائے مگر پروردگار نے طے کرلیا کہ بغیر کسی اظہار و انکشاف کے اپنے نور کو مکمل کردے گا چاهے یہ بات کفار کو کسی قدر ناگوار کیوں نہ هو۔( اثبات الہداة 3 ص 570 / 685 روایت عبداللہ بن الحسین بن سعید الکاتب) ۔ 1168۔ دعائے ندبہ ، حضرت محمد و علی (ع) کے گھرانہ کے پاکیزہ کردار افراد پر گریہ اور ندبہ کرنے والوں کو ندبہ کرنا چاہئے، ان کے غم میں آنسؤوں کو بہنا چاہئے، صدائے نالہ و شیون کو بلند هونا چاہئے، آواز فریاد کو سنائی دینا چاہئے ۔

کہاں ہیں حسن (ع) ؟

کہاں ہیں حسین (ع) ؟

کہاں ہیں اولاد حسین (ع) ؟

ایک کے بعد ایک نیک کردار اور ایک کے بعد ایک صداقت شعار ،

کہاں ہیں ایک کے بعد ایک سبیل ہدایت اور ایک کے بعد ایک منتخب روزگار۔

کہاں ہیں طلوع کرنے والے سورج؟

اور کہاں ہیں چمکنے والے چاند؟

کہاں ہیں روشن ستارے؟

اور کہاں ہیں دین کے پرچم اور علم کے ستون؟

(بحار الانوار 102 / 107 نقل از مصباح الزائر ( مخطوط) محمد بن علی بن ابی قرة از کتاب محمد بن الحسین بن سفیان البزوفری) ۔

اس مقام پر تصریح کی گئی هے کہ یہ دعا امام عصر (ع) سے نقل کی گئی هے اور اس کا چاروں عیدیوں میں پرھنا مستحب هے ۔

عیدالفطر

عیدالاضحیٰ

عید غدیر

روز جمعہ !

حکومت اہلبیت (ع)

بشارات حکومت اہلبیت (ع)

” ہم چاہتے ہیں کہ اپنے ان بندوں پر احسان کریں جنھیں اس زمین میں کمزور بنادیا گیا هے اورانھیں قائد و امام بناکر زمین کا وارث بنادیں“ ۔( سورہٴ قصص آیت 5) ۔

” اس پروردگار نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب بنادے چاهے یہ بات مشرکین کو کتنی ہی ناگوار کیون نہ هو“ ( سورہٴ صف آیت 9) ۔

” پروردگار نے تم میں سے ایمان و کردار والوں سے وعدہ کیاهے کہ انھیں روئے زمین پر اسی طرح اپنا جانشین بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا هے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنادے گا جسے ان کیلئے پسندیدہ قرار دیاهے اور ان کے خوف کو امن میں تبدیل کردے گا اور یہ سب ہماری عبادت کریں گے اور کسی شے کو ہمارا شریک نہ قرار دیں گے اور اگر کوطی شخص اس کے بعد بھی انکار کرے تو اس کا شمار فاسقین میں هوگا“۔( سورہٴ نور نمبر 55) ۔

1169۔ رسول اکرم ! قیامت اس وقت تک برپا نہ هوگی جب تک میرے اہلبیت (ع) میں سے ایک شخص حاکم نہ هوجائے جس کا نام میرا نام هوگا ۔( مسندابن حنبل 2 ص 10 / 3571 از عبداللہ بن مسعود) ۔

1170۔ رسول اکرم ! یہ دنیا اس وقت تک فنانہ هوگی جب تک عرب کا حاکم میرے اہلبیت (ع) میں سے وہ شخص نہ هوجائے جس کا نام میرا نام هوگا ۔( سنن ترمذی 4 ص 505 / 2230 ، سنن ابی داؤد 3 ص 107 / 4282 ، مسند ابن حنبل 2 ص 11 / 3573 ، المعجم الکبیر 10 ص 131 /10208 ، الملاحم والفتن نمبر 148 ، بشارة المصطفیٰ ص 281) ۔

1171۔ ابولیلیٰ ! رسول اکرم نے علی (ع) سے فرمایا کہ تم میرے ساتھ جنّت میں هوگے اور سب سے پہلے جنت میں داخل هونے والوں میں… میں ، تم ، حسن (ع) حسین (ع) اور فاطمہ (ع) هوں گے ۔

یا علی (ع) ! ان کینوں سے هوشیار رہنا جو لوگوں کے دلوں میں چھپے هوئے ہیں اور ان کا اظہار میری موت کے بعد هوگا، یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی بھی لعنت هے اور تمام لعنت کرنے والوں کی بھی لعنت هے ۔

یہ کہہ کر آپ نے گریہ فرمایا … اور فرمایا کہ جبریل نے مجھے خبر دی هے کہ یہ لوگ علی (ع) پر ظلم کریں گے اور یہ سلسلہٴ ظلم قیام قائم (ع) تک جاری رہیگا اس کے بعد ان کا کلمہ بلند هوگا اور لوگ ان کی محبت پر جمع هوجائیں گے اور دشمن بہت کم رہ جائیں گے اور انھیں برا سمجھنے والے ذلیل هوجائیں گے اور ان کی مدح کرنے والوں کی کثرت هوگی اور یہ سب اس وقت هوگا جب زمانہ کے حالات بالکل بدل جائیں گے، بندگان خدا کمزور هوجائیں گے لوگ راحت و آرام سے مایوس هوجائیں گے اور پھر ہمارا قائم مہدی قیام کرے گا ایک ایسی قوم کے ساتھ جن کے ذریعہ پروردگار حق کو غالب بنادے گا ، باطل کی آگ کوان کی تلوار کے پانی سے بجھادے گا اور لوگ رغبت یا خوف سے بہر حال ان کا اتباع کرنے لگیں گے ۔

اس کے بعد فرمایا، ایہا الناس ! کشائش حال کی خوشخبری مبارک هو کہ اللہ کا وعدہ بہر حال سچاهے، وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتاهے اور اس کا فیصلہ رد نہیں هوسکتاهے، وہ حکیم بھی هے اور خبیر بھی هے اور خدا کی فتح بہت جلد آنے والی هے ۔

خدایا یہ سب میرے اہل ہیں ، ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں پاک و پاکیزہ رکھنا، خدایا ان کی حفاظت و رعایت فرمانا اور تو ان کا هوجانا اور ان کی مدد کرنا، انھیں عزت دینا اورذلت سے دوچار نہ هونے دینا اور مجھے انھیں کے ذریعہ باقی رکھنا کہ تو ہر شے پر قادر هے ۔ (ینابیع المودہ 3 ص 279 / 72 ، مناقب خوارزمی 62 / 31 ، امالی طوسی (ر) 351 / 726) ۔

1172۔ رسول اکرم ! لوگو مبارک هو، مبارک هو، مبارک هو، میری امت کی مثال اس بارش کے جیسی هے جس کے بار ے میں نہیں معلوم هے کہ اس کی ابتدا زیادہ بہتر هے یا انتہا۔

میری امت کی مثال اس باغ جیسی هے جس سے اس سال ایک جما عت کو سیر کیا جائے اور دوسرے سال دوسری جماعت کو سیر کیا جائے اور شائد آخر میں وہ جماعت هو جو وسعت میں سمندر، طول میں عمیق تر اور محبت میں حسین تر اهواور بھلا وہ امت کس طرح تباہ هوسکتی هے جس کی ابتدا میں میں هوں اور میرے بعد بارہ صاحبان بخت اور ارباب عقل هوں اور مسیح عیسی بن مریم بھی هوں ، ہاں ان کے درمیان وہ افراد ہلاک هوجائیں گے جو ہرح و مرج کی پیداوار هوں گے کہ نہ وہ مجھ سے هوں گے اور نہ میں ان سے هوں گا۔( عیون اخبار الرضا (ع) 1/52 / 18 ، خصال 476 / 39 ، کمال الدین 269 / 14 روایت حسین بن زید، کفایتہ الاثر ص 231 ، روایت یحییٰ بن جعدہ بن ہبیرہ ، العمدة 432 / 906 روایت مسعدہ عن الصادق (ع)) ۔

1173۔ حذیفہ ! میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے سنا هے کہ اس امت کے لئے باعث افسوس هے کہ اس کے حکام جابر و ظالم هوں گے اور لوگوں کو قتل کریں گے ، اطاعت گذاروں کو خوفزدہ کریں گے علاوہ اس کے کہ کوئی انھیں کی اطاعت کا اظہار کردے ، نتیجہ یہ هوگا کہ مومن متقی بھی زبان سے ان کے ساتھ دے گا اور آل سے دور بھاگے گا ، اس کے بعد جب پروردگار چاهے گا کہ اسلام کو دوبارہ عزت عنایت کرے تو تمام جابروں کی کمر توڑ دے گا کہ وہ جو بھی چاهے کرسکتاهے اور کسی بھی امت کو تباہی کے بعد اس کی اصلاح کرسکتاهے ۔

اس کے بعد فرمایا ۔ حذیفہ ! اگر اس دنیا میں صرف ایک دن باقی رہ جائے گا تو پروردگار اس دن کو طول د ے گا یہاں تک کہ میرے اہلبیت (ع) میں سے وہ شخص حاکم هو جس کے ہاتھوں میں زمام اقتدار هو اور وہ اسلام کو غالب بنادے کہ خدا اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتاهے اور وہ بہت جلد حساب کرنے والا هے ۔( عقد الدرر ص 62 ، کشف الغمہ 3 ص 262 ، حلیة الابرار 2 ص 704 ، ینابیع المودہ 3 ص 298 / 10) ۔

1174۔ رسول اکرم ! قیامت اس وقت تک بر پا نہ هوگی جب تک ہمارا قائم حق کے ساتھ قیام نہ کرے اور یہ اس وقت هوگا جب خدا اسے اجازت دے دے گا اس کے بعد جو اس کا اتباع کرے گا نجات پائے گا اور جو اس سے الگ هوجائے گا وہ ہلاک هوجائے گا ، بندگان خدا، اللہ کو یاد رکھنا اور اس کی بارگاہ میں پہنچ جانا، چاهے برف پر چلنا پڑے کہ وہ خدائے عزوجل کا اور میرا جانشین هوگا۔( عیون اخبار الرضا (ع) ص 59 / 230 ، دلائل الامامة ص 452 / 428 روایت حسن بن عبداللہ بن محمد الرازی ، کفایتہ الاثر ص 106 روایت ابوامامہ) ۔

1175۔ سلمان ! جب رسول اکرم پر مرض کا غلبہ هوا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ باہر جاؤ میں گھر والوں کے ساتھ تخلیہ چاہتاهوں، سب لوگ باہر نکل گئے ، میں نے بھی جانا چاہا تو فرمایا کہ تم میرے اہلبیت(ع) میں هو۔

اس کے بعد حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا ، دیکھو میری عترت اور میرے اہلبیت(ع) کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا کہ دنیا نہ پہلے کسی کے لئے باقی رہی هے، نہ بعد میں رهے گی اور نہ ہمارے لئے رہنے والی هے ۔

اس کے بعد علی (ع) سے فرمایا کہ سب سے اچھی حکومت حق کی حکومت هے اور دیکھو تم لوگ ان لوگوں کے بعد حکومت هے اوردیکھو تم لوگ ان لوگوں کے بعد حکومت کرو گے ایک دن کے بدلے دو دن، ایک مہینہ کے بدلے دو مہینے اور ایک سال کے بدلے دو سال، (مناقب امیر المومنین (ع) کوفی 2 ص 171 / 250) ۔

1176۔ امام علی (ع)! آل محمد ہی کے ذریعہ حق اپنے مرکز پر واپس آنے والا هے اور باطل اپنی جگہ سے زائل هونے والا هے ۔( نہج البلاغہ خطبہ 239) ۔

1177۔ امام علی (ع) ! میں بار بار حملہ کرنے والا اور صاحب حکومت حق هوں ، میرے پاس عصا بھی هے اور مہر بھی هے، میں وہ زمین پر چلنے والا هوں جو لوگوں سے روز محشر کلام کروں گا۔( کافی 1 ص 198 / 3 روایت ابوالصامت الحلوانی عن الباقر (ع)) ۔

1178۔ امام علی (ع) ! نرید ان نمّن علی الذین استضعفوا … کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آل محمد ہیں جن کے مہدی کو پروردگار سامنے لائے گا، اور اس کے ذریعہ انھیں عزت اور دشمنوں کو ذلت نصب فرمائے گا۔( الغیبتہ الطوسی (ر) ص 184 / 143 روایت محمد بن الحسین ) ۔

1179۔ امام صادق (ع) ! امیر المومنین (ع) نے فرمایا هے کہ یہ دنیا بیزاری کے بعد ہم پر ویسے ہی مہربان هوگی جیسے کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچہ پر مہربان هوتی هے اور اس کے ذیل میں آپ نے آیت ” نرید ان نمنّ“ کی تلاوت فرمائی هے ۔( خصائص الائمہ ذیل میں آپ نے آیت ”نرید ان نمنّ“ کی تلاوت فرمائی هے ۔( خصائص الائمہ ص 70 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 407 ، شواہد التنزیل 1ص 556 / 590 روایات ربیعہ بن ناجذ، نہج البلاغہ حکمت نمبر 209 ، تفسیر فرات کوفی 314 / 420) ۔

1180۔ امام علی (ع)! ” نرید ان نمن“ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آل محمد ہیں جن کے مہدی کو پروردگار مشقتوں کے بعد اقتدار دے گا اور وہ آل محمد کی عزت اور دشمنوں کی ذلت کا سامان فراہم کرے گا، ( الغیبتہ الطوسی (ر) 184 / 143 روایت محمد بن الحسین بن علی ) ۔

نوٹ! یہ روایت بعینہ نمبر1178 میں بیان هوچکی هے، اس مقام پر مولف محترم سے اعداد و شمار میں اشتباہ هوگیا هے، جوادی

1181۔ محمد بن سیرین ! میں نے بصرہ کے متعدد شیوخ سے یہ بات سنی هے کہ حضرت علی (ع) بن ابی طالب (ع) جنگ جمل کے بعد بیمار هوگئے اور جمعہ کا دن آگیا تو آپ نے اپنے فرزند حسن (ع) سے کہا کہ تم جاکر نماز جمعہ پڑھادو۔

وہ مسجد میں آئے اور منبر پر جاکر حمد و ثنائے پروردگار اور شہادت و صلوات کے بعد فرمایا۔

ایہا الناس ! پروردگار نے ہمیں نبوت کے ساتھ منتخب کیا هے اور تمام مخلوقات میں مصطفیٰ قرار دیاهے، ہمارے گھر میں کتاب اور وحی نازل کی هے اور خدا گواہ هے کہ جو شخص بھی ہمارے حق میں ذرا کمی کرے گا پروردگار اس کی دنیا و آخرت دونوں کم کردے گا اور ہمارے سر پر جو حکومت چاهے قائم هوجائے، آخر کا ہماری ہی حکومت هوگی ” اور یہ بات تمھیں ایک عرصہ کے بعد معلوم هوجائے گی “ ۔ سورہٴ ص آیت 88) ۔

اس کے بعد نماز پڑھائی اور اس واقعہ کی خبر حضرت علی (ع) تک پہنچا دی گئی ، نماز کے بعد جب حضرت حسن (ع) باپ کے پاس پہنچے تو حضرت دیکھ کر بیساختہ رونے لگے اور فرزند کو کلیجہ سے لگار کر پیشانی کا بوسہ دیا، فرمایا ” یہ ایک ذریت هے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ملا هواهے اور پروردگار بہت سننے والا اور جاننے والا هے ۔“ آل عمران آیت 34 ( امالی طوسی (ر) 82 /121 / 104 / 159 ، بشارة المصطفیٰ ص 263 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 11) ۔

1182۔ امام حسن (ع) نے سفیان ابی لیلیٰ سے گفتگو کرتے هوئے فرمایا سفیان مبارک هو، یہ دنیا نیک و بد سب کیلئے یونہی رهے گی یہاں تک کہ پروردگار آل محمد کے امام برحق کو منظر عام پر لے آئے ۔( شرح نہح البلاغہ معتزلی 16 / 45 روایت سفیان بن ابی لیلیٰ ، مقاتل الطالبیین ص 76 ، الملاحم والفتن ص 99) ۔

1183۔ امام حسن (ع) نے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ پروردگار نے جب بھی کسی نبی کو بھیجا هے تو اس کے لئے نقیب ، قبلہ اور گھر کا بھی انتخاب کیا هے، قسم هے اس ذات کی جس نے حضرت محمد کو نبی برحق بنایاهے، جو شخص بھی ہم اہلبیت (ع) کے حق میں کمی کرے گا خدا اس کے اعمال میں کمی کردے گا اور ہم پر جو بھی حکومت گذرجائے، آخر کا رِ حکومت ہماری ہی هوگی اور یہ بات تھوڑے عرصہ کے بعد معلوم هوجائے گی ۔ (مروج الذہب 3 ص 9 ، نثر الدر 1 ص 328) ۔

1184۔ امام باقر (ع) ! میں نے کتاب علی (ع) میں دیکھاهے کہ ” ان الارض اللہ …( سورہ اعراف آیت 128 ) سے مراد ہیں اور میرے اہلبیت(ع) ہیں کہ پروردگار نے ہمیں اس زمین کا وارث بنایاهے اور ہمیں وہ متقی ہیں جن کے لئے انجام کار هے، یہ ساری زمین ہمارے لئے هے لہذا جو بھی کسی زمین کو زندہ کرے گا اس کا فرض هے کہ اسے آباد رکھے اور اس کا خراج امام اہلبیت (ع) کو ادا کرتا رهے اور باقی خود استعمال کرے لیکن اگر زمین کو بیکار چھوڑ دیا اسے خراب کردیا اور دوسرے مسلمان نے لے کرآباد کرلیا اور زندہ کرلیا تو وہ چھوڑ دینے والے سے زیادہ صاحبِ اختیار هے اور اسے امام اہلبیت (ع) کو اس کا خراج ادا کرنا پڑے گا اور باقی اس کے لئے حلال رهے گی یہاں تک کہ ہمارے قائم کا ظهور هوجائے اور وہ تلوار اٹھاکر ساری زمینوں پر قبضہ کرلے اور انھیں اغیار کے قبضہ سے نکال لے تو صرف جس قدر زمین ہمارے شیعوں کے قبضہ میں هوگی اسے انھیں دیدیا جائے گا اور باقی امام کے قبضہ میں هوگی۔( کافی 1 ص 407 /1 روایت ابوخالد کابلی) ۔

1185۔ ابوبکر الحضرمی ! جب حضرت ابوجعفر باقر (ع) کو شام سے عبدالملک بن ہشام کے پاس لایا گیا اور دروازہ پر لاکر روک دیا گیا تو ہشام نے درباریوں سے کہا کہ جب تم لوگ دیکھو کہ میں محمد (ع) بن علی (ع) کو برا بھلا کہہ رہاهوں تو سب کے سب انھیں برا بھلا کہنا اور اس کے بعد آپ کو دربار میں طلب کیا گیا ، آپ نے داخل هوکر تما م لوگوں کو سلام کیا اور بیٹھ گئے، ہشام کو یہ بات سخت ناگوار گذری کہ نہ حاکم کو خصوصی سلام کیا اور نہ بیٹھنے کی اجازت طلب کی چنانچہ اس نے سرزنش شروع کردی اور کہا کہ تم لوگ ہمیشہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرتے هو اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے کر جہالت اور نادانی کی بناپر امام بننا چاہتے هو؟

یہ کہہ کر وہ خاموش هوا تو درباریوں نے وہی کام شروع کردیا، جب سب خاموش هوئے تو حضرت نے فرمایا کہ لوگو! تم کدھر جارهے هو اور تمھیں کہاں گمراہ کیا جارہاهے، ہمارے ہی اول کے ذریعہ تمھیں ہدایت دی گئی هے اور ہمارے ہی آخر پر تمھارا خاتمہ هونے والا هے ، اگر تمھارے پاس دنیا کی حکومت هے تو آخری اقتدا ر ہمارے ہی ہاتھوں میں هے جس کے بعد کوئی ملک نہیں هے کہ عاقبت صرف صاحبان تقویٰ کے لئے هے ۔( کافی 1 ص 471 /5) ۔

1186۔ امام باقر (ع) ! یاد رکھو کہ بنئ امیہ کے واسطے بھی ایک ملک هے جسے کوئی روک نہیں سکتاهے اور اہل حق کو بھی ایک دولت هے جسے پروردگار ہم اہلبیت(ع) میں سے جسے چاهے گا عطا کردے گا لہذا جو اس وقت تک باقی رہ گیا ، وہ بلندترین منزل پر هوگا اور اگر اس سے پہلے مرگیا تو خدا اسی میں خیر قرار دے گا ۔ (الغیبتہ النعمانی ص 195 / 2 ، روایت ابوالجارود ) ۔

1187۔ امام باقر (ع) ! ” قل جاء الحق و زہق الباطل کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ جب قائم آل محمد قیام کریں گے تو باطل کا اقتدار ختم هوجائے گا۔ ( کافی 8 ص 287 / 432 روایت ابوحمزہ) ۔

1188۔ امام صادق (ع)! ہمارے بھی دن ہیں اور ہماری بھی حکومت هے خدا جب چاهے گا اسے بھی لے آئے گا ۔( امالی مفید 28 / 9 روایت حبیب بن نزار بن حیان) ۔

1189۔ امام صادق (ع)! بلاؤں کا آغاز ہم سے هوگا پھر تمھاری نوبت آئے گی اور اسی طرح سهولتوں کی ابتدا ہم سے هوگی پھر تمھیں وسیلہ بنایا جائے گا اور قسم هے ذات پروردگار کی کہ پروردگار تمھارے ذریعہ ویسے ہی انتقام لے گا جیسے پتھر کے ذریعہ سزا دی هے ۔( امالی مفید 301 / 2 ، امالی طوسی (ر) 74 / 109 روایت سفیان بن ابراہیم الغادمی القاضی ) ۔

1190۔ امام صادق (ع) ! میرے والد بزرگوار سے دریافت کیا گیا کہ قاتلوا لامشرکین کافةً۔ توبہ نمبر 36 اور ” حتی لا تکون فتنہ“ ۔ سورہ انفال 39 کا مفهوم کیا هے؟

تو فرمایا کہ اس کی ایک تاویل هے جس کا وقت ابھی نہیں آیاهے اور جب ہمارے قائم کا قیام هوگا تو جو زندہ رهے گا وہ اس تاویل کو دیکھ لے گا جب دین پیغمبر وہاں تک پہنچ جائے گا جہاں تک رات کی رسائی هوگی اور اس کے بعد روئے زمین پر کوئی مشرک نہ رہ جائے گا۔ (تفسیر عیاشی 2 ص 56 / 48 روایت زرارہ ، مجمع البیان روایت زرارہ 4 ص 83 ، ینابیع المودة 3 ص 239 / 13) ۔

1191۔ امام صادق (ع) نے ” وعد اللہ الذین امنوا منکم و عملوا الصالحات … سورہ نور آیت 55 کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت قائم اور ان کے اصحاب کے بارے میں هے ۔( الغیبتہ للنعمانی 240 / 35 از ابوبصیر، تاویل الآیات الظاہرہ ص 365 ، ینابیع المودہ 3 ص 345 / 32 ، از امام باقر (ع)) ۔

1192۔ دعائے ندبہ آل محمد کے بارے میں پروردگار کا فیصلہ اسی طرح جاری هوا هے جسمیں بہترین ثواب کی امیدیں ہیں اور زمین اللہ کی هے جسے چاہتاهے اس کا وارث بنادیتاهے اور انجام کا بہر حال متقین کے لئے هے اور ہمارا پروردگار پاک و پاکیزہ هے اور اس کا وعدہ سچا اور برحق هے اور وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرسکتاهے کہ وہ صاحب عزت و غلبہ بھی هے اور صاحب حکمت بھی هے ۔( بحار الانوار 102 / 106 از مصباح الزائر از محمد بن علی بن ابی قرہ از کتاب محمد بن الحسین بن سفیان البزوفری) ۔

تمہید حکومت اہلبیت (ع)

1193۔ رسول اکرم ! کچھ لوگ مشرق سے برآمد هوں گے جو مہدی کے لئے زمین ہموار کریں گے ۔(سنن ابن ماجہ 2 ص1368 / 4088 ، المعجم الاوسط 1 ص 94 / 285 ، مجمع الزوائد 7 ص 617 / 12414 ، عقق الدرر ص 125 ، کشف الغمہ 3 ص 267 روایت عبداللہ بن الحارث بن جزوالزبیدی) ۔

1194۔ عبداللہ ! ہم لوگ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنئ ہاشم کے کچھ نوجوان آگئے، آپ نے انھیں دیکھا تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے میں نے عرض کیا کہ حضور آپ کے چہرہ پر افسردگی کے آثار دیکھ رہاهوں ؟ فرمایا ہم اہلبیت (ع) وہ ہیں جن کے پروردگار نے آخرت کو دنیا پر مقدم رکھاهے اور میرے اہلبیت (ع) عنقریب میرے بعد بلاء ، آوارہ وطنی اور دربدری کی مصیبت میں مبتلا هوں گے یہاں تک کہ ایک قوم سیاہ پرچم لئے مشرق سے قیام کرے گی اور وہ لوگ خیر کا مطالبہ کریں گے لیکن انھیں نہ دیا جائے گا تو قتال کریں گے اور کامیاب هوں گے اور مطلوبہ اشیاء مل جائیں گے مگر خود قبول نہ کریں گے بلکہ میرے اہلبیت(ع) میں سے ایک شخص کے حوالہ کردیں گے جو زمین کو عدل و انصاف سے ویسے ہی بھر دے گا جیسے ظلم و جور سے بھری هوگی ، دیکھو تم سے جو بھی اس وقت تک باقی رہ جائے اس کا فرض هے کہ ان تک پہنچ جائے چاهے برف پر چل کر جانا پڑے ۔( سنن ابن ماجہ 2 ص 1366 / 4082 ، الملاحم والفتن ص 47 ، المصنف ابن ابی شیبہ 8 ص 697 / 74 ، دلائل الامامہ ص 242 / 414 ، مناقب کوفی 2 ص 110 / 599 روایت عبداللہ بن مسعود، کشف الغمہ 3 ص 262 روایت عبداللہ بن عمر، مستدرک حاکم 1 ص 511 / 8434 ، العدد القویہ 91 / 157 ، ذخائر العقبئٰ ص 17) ۔

1195۔ رسول اکرم ! مشرق کی طرف سے سیاہ پرچم والے آئیں گے جن میں دل لوهے کی چٹانوں جیسے مضبوط هوں گے لہذا جو ان کے بارے میں سن لے اس کا فرض هے کہ ان سے ملحق هوجائے چاهے برف کے اوپر چل کر جائے ۔ ( عقد الدرر ص 129 روایت ثوبان) ۔

1196۔ امام باقر ! میں ایک قوم کو دیکھ رہاهوں جو مشرق سے برآمد هوئی هے اور حق طلب کررہی هے لیکن اسے نہیں جارہاهے اور پھر بار بار ایسا ہی هورہاهے یہاں تک کہ وہ لوگ کاندھے پر تلوار اٹھالیں گے اور پھر جو چاہیں گے سب مل جائے گا لیکن اسے قبول نہ کریں گے بلکہ تمھارے صاحب کے حوالہ کردیں گے اور ان کے مقتولین شہداء کے درجہ میں هوں گے، اگر میں اس وقت تک باقی رہتا تواپنی جان کو بھی صاحب الامر کے لئے باقی رکھتا ۔( الغیبتہ النعمانی ص 273 / 50 روایت ابوخالد) ۔

1197۔ امام علی (ع)! اے طالقان ! اللہ کے تیرے یہاں خزانہ ہیں جو سونے چاندی کے نہیں ہیں بلکہ ان صاحبان ایمان کے ہیں جو مکمل معرفت رکھنے والے هوں گے اور آخر زمانہ میں مہدی کے انصار میں هوں گے ۔ ( الفتوح 2 ص 320 ، کفایة الطالب ص 491 روایت اعثم کوفی ینابیع المودہ 3 ص 298 / 12) ۔

1198۔ امام حسن (ع)! رسول اکرم نے اہلبیت (ع) پر وارد هونے والی بلاؤں کا ذکر کرتے هوئے فرمایا کہ اس کے بعد خدا مشرق سے ایک پرچم بھیجے گا اور جو اس کی مدد کرے گا خدا اس کی مدد کرے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا خدا اسے چھوڑ دے گا یہاں تک کہ وہ لوگ اس شخص تک پہنچ جائیں جس کا نام میرا نام هوگا اور سارے امور حکومت اس کے حوالہ کردیں اور اللہ اس کی تائید اور نصرت کردے ۔( عقد الدرر 1 ص 130 ، الملاحم و الفتن ص 49 روایت علاء بن عتبہ ) ۔

1199۔ محمد بن الحنفیہ ! ہم حضرت علی (ع) کی خدمت میں حاضر تھے جب ایک شخص نے مہدی (ع) کے بارے میں سوال کرلیا تو آپ نے فرمایا افسوس … اس کے بعد اپنے ہاتھ سے سات گر ہیں باندھیں اور پھر فرمایا کہ وہ آخر زمانے میں خروج کرے گا جب حال یہ هوگا کہ اگر کوئی شخص خدا کا نام لے گا تو قتل کردیا جائے گا۔ پھر خدا اس کے پاس ایک قوم کو جمع کردے گا جو ابر کے ٹکڑوں کی طرح جمع هوجائیں گے اور ان کے دلوں میں محبت هوگی کوئی دوسرے سے گھبرائے گا نہیں اور وہ کسی کے آنے سے خوش بھی نہیں هوں گے، ان کی تعداد اصحاب بدر جیسی هوگی ، نہ اولین ان سے آگے جاسکتے ہیں اور نہ بعد والے انھیں پاسکتے ہیں، اصحاب طالوت کے عدد کے برابر، جنھوں نے نہر کو پار کرلیا تھا ۔( مستدرک حاکم 4 ص 597 / 8659 ، عقد الدرر 1 ص 131) ۔

1200۔ عفان البصری راوی ہیں کہ امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا کہ تمھیں معلوم هے کہ قم کانام قم کیوں هے؟ میں نے عرض کی خدا ، رسول اور آپ بہتر جانتے ہیں ! فرمایا اس کا نام قم اس لئے هے کہ یہاں والے قائم آل محمد کے ساتھ قیام کریں گے اور اس پر استقامت کا مظاہرہ کرتے هوئے قائم کی مدد کریں گے( بحار الانوار 60 ص 218 / 38 نقل از کتاب تاریخ قم ) ۔ 1201۔ امام صادق (ع) ۔ قم کی خاک مقدس هے اور اس کے باشندے ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں، کوئی ظالم اس سرزمین کا ارادہ نہیں کرے گا مگر یہ کہ خدا فوراً اسے سزا دے گا جب تک کہ خود وہاں والے خیانت نہ کریں گے ورنہ اگر ایسا کریں گے تو خدا ان پر ظالم حکام کو مسلط کر دے گا۔

اہل قم ہمارے قائم کے انصار ہیں اور ہمارے حق کے طلبگار ، یہ کہہ کر آپ نے آسمان کی طرف رخ کیا اور دعا کی خدایا، انھیں ہر فتنہ سے محفوظ رکھنا اور ہر ہلاکت سے نجات دینا ۔( بحار الانوار 60 ص 218 / 49) ۔

1202۔ امام صادق (ع) ۔ عنقریب کوفہ اہل ایمان سے خالی هوجائے گا اور علم اس میں مخفی هوجائے گا جس طرح کہ سانپ اپنے سوراخ میں چھپ جاتاهے اور پھر علم ایک قم نامی شہر میں ظاہر هوگا جو علم و فضل کا معدن هوگا اور پھر زمین پر کوئی دینی اعتبار سے مستضعف اور کمزور نہ رہ جائے گا، یہاں تک کہ پردہ دار خواتین بھی صاحب علم و فضل هوجائیں گی اور یہ سب ہمارے قائم کے ظهور کے قریب هوگا جب تک خدا قم اور اہل قم کو حجت کا قائم مقام قرار دیدے گا کہ ایسا نہ هوتا تو زمین اہل زمین کو لے کر دھنس جاتی اور زمین میں کوئی حجت خدا نہ رہ جاتی، پھر تم سے تمام مشرق و مغرب تک علم کا سلسلہ پہنچے گا اور اللہ کی حجت مخلوقات پر تمام هوجائے گی اور کوئی شخص ایسا باقی نہ رہ جائیگا جس تک علم اور دین نہ پہنچ جائے اور اس کے بعد قائم کا قیام هوگا۔ ( بحار الانورا 60 ص 213 / 23 نقل از تاریخ قم ) ۔

1203۔ امام صادق (ع) ! پروردگار نے کوفہ کے ذریعہ تمام شہروں پر حجت تمام کی اور مومنین کے ذریعہ تمام غیر مومنین پر اور پھر قم کے ذریعہ تمام شہروں پر اور اہل قم کے ذریعہ تمام اہل مشرق و مغرب کے جن و انس پر ، خدا قم اور اہل قم کو کمزور نہ رہنے دے گا بلکہ انھیں توفیق دے گا اور ایک زمانہ آئے گا جب قم اور اہل قم تمام مخلوقات کے لئے حجت بن جائیں گے اور یہ سلسلہ ہمارے قائم کی غیبت کے زمانہ میں ظهور تک رهے گا کہ اگر ایسا نہ هوگا تو زمین اہل سمیت دھنس جاتی ، ملائکہ قم اور اہل قم سے بلاؤں کو دفع کرتے ہیں اور کوئی ظالم اسکی برائی کا ارادہ نہیں کرتاهے کہ پروردگار اس کی کمر توڑ دیتاهے ۔( بحار الانوار 60 ص 212 / 22) ۔

1204۔ امام صادق (ع) ” آیت شریفہ ” بعثنا علیکم عباد النا“ … سورہ اسراء آیت 5 کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ یہ ایک قوم هے جسے پروردگار خروج قائم سے پہلے پیدا کرے گا اور یہ آل محمد کے ہر خون کا بدلہ لے لیں گے ۔( کافی 8 ص 206 / 250 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 272 روایت عبداللہ بن القاسم البطل، تفسیر عیاشی 2 ص 281 / 20 روایت صالح بن سہل) ۔ 1205۔ امام کاظم (ع)! اہل قم میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی دعوت دے گا اور اس کے ساتھ ایک قوم لوهے کی چٹانوں کی طرح جمع هوجائے گی جسے تیز و تند آندھیاں بھی نہ ہلاسکیں گی ، یہ لوگ جنگ سے خستہ حال نہ هوں گے اور بزدلی کا بھی اظہار نہ کریں گے بلکہ خدا پر بھروسہ کریں گے اور انجام کا ر بہر حال صاحبان تقویٰ کے لئے هے ۔( بحار الانوار 60ص 216 /37 نقل از تاریخ قم روایت ایوب بن یحییٰ الجندل) ۔

آخری حکومت

1206۔ امام باقر (ع)! ہماری حکومت آخری حکومت هوگی اور دنیا کاکوئی خاندان نہ هوگا جو ہم سے پہلے حکومت نہ کرچکا هو اور ہماری حکومت اس لئے آخری هوگی کہ کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں موقع ملتا تو ہم بھی یہی طریقہ اختیار کرتے اور اس نکتہ کی طرف پرودگار نے اشارہ کیا هے کہ عاقبت صاحبان تقویٰ کے لئے هے ۔( الغیبتة الطوسی (ر) 472 / 493 روایت کسیان بن کلیب ، روضة الواعظین ص 291) ۔

1207۔ امام صادق (ع)! ہر قوم کی ایک حکومت هے جس کا وہ انتظار کررہی هے لیکن ہماری حکومت بالکل آخر زمانہ میں ظاہر هوگی ۔ (امالی صدوق (ر) 396 / 3 ، روضة الواعظین ص 234) ۔

1208۔ امام صادق (ع) ! یہ سلسلہ یونہی جاری رهے گا یہاں تک کہ کوئی صنف باقی نہ رہ جائے جس نے حکومت نہ کرلی هو اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ رہ جائے کہ اگر ہمیں حکومت مل جاتی تو ہم انصاف سے کام لیتے ، اس کے بعد ہمارا قائم حق و عدل کے ساتھ قیام کرے گا۔(الغیبتہ النعمانی ص 274 / 53 روایت ہشام بن سالم ) ۔

انتظار حکومت

1209۔ اسماعیل الجعفی ! ایک شخص امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر هوا اور اس کے پاس ایک صحیفہ تھا جس کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ یہ مخاصم کا صحیفہ هے جس میں اس دین کے بارے میں سوال کیا گیا هے جس میں عمل قبول هوجاتاهے اس نے کہا خدا آپ پر رحمت نازل کرے میں بھی یہی چاہتا تھا؟

فرمایا لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و ان محمداً عبدہ و رسولہ کی شہادت اور تمام احکام الہیہ اور ہم اہلبیت(ع) کی ولایت کا اقرار اور ہمارے دشمنوں سے برائت اور ہمارے احکام کے آگے سر تسلیم خم کردینا اور احتیاط و تواضع اور ہمارے قائم کا انتظار یہی وہ دین هے جس کے ذریعہ سے اعمال قبول هوتے ہیں اور یہ انتظار اس لئے ضروری هے کہ ہماری بھی ایک حکومت هے اور پروردگار جب چاهے گا اسے منظر عام پر لے آئے گا۔( کافی 2 ص 22 / 13 ، امالی طوسی (ر) 179 / 299) ۔

1210۔ امام علی (ع)! ہمارے امر کا انتظار کرنے والا ایسا ہی هے جیسے کوئی راہ خدا میں اپنے خون میں لوٹ رہاهو۔( خصال 625 / 10 ، کمال الدین 645 / 6 روایت محمد بن مسلم عن الصادق (ع) ، تحف العقول ص 115) ۔

1211۔ زید بن صوحان نے امیرالمومنین (ع) سے دریافت کیا کہ سب سے زیادہ محبوب پروردگار کونسا عمل هے؟ فرمایا انتظار کشائش حال۔ ( الفقیہ 4 / 383 / 5833 روایت عبداللہ بن بکر المرادی) ۔

1212۔ اما م باقر (ع)! تم میں جو شخص اس امر کی معرفت رکھتاهے اور اس کا انتظار کررہاهے اور اس میں خیر سمجھتاهے وہ ایسا ہی هے کہ جیسے راہ خدا میں قائم آل محمد کے ساتھ تلوار لے کر جہاد کررہاهو۔(مجمع البیان 9 ص 359 روایت حارث بن المغیرہ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 640) ۔

1213۔ امام باقر (ع)! تمھارے مضبوط کو چاہئے کہ کمزور کو طاقتور بنائے اور تمھارے غنی کا فرض هے کہ فقیر پر توجہ دے اور خبردار ہمارے راز کو فا ش نہ کرنا اور ہمارے امر کا اظہار نہ کرنا اور جب ہماری طرف سے کوئی حدیث آئے تو اگر کتاب خدا میں ایک یا دو شاہد مل جائیں تو اسے قبول کرلینا ورنہ توقف کرنا اور اسے ہماری طرف پلٹا دینا تا کہ ہم اس کی وضاحت کرسکیں اور یاد رکھو کہ اس امر کا ا نتظار کرنے والا نماز گذار اور روزہ دار کا ثواب رکھتاهے اور جو ہمارے قائم کا ادراک کرلے اور ان کے ساتھ خروج کرکے ہمارے دشمن کو قتل کردے اسے بیس شہیدوں کا اجر ملے گا اور جو ہمارے قائم کے ساتھ قتل هوجائے گا اسے 25 شہیدوں کے اجر سے نوازا جائے گا ۔ (کافی 2 ص 222/ 4 روایت عبداللہ بن بکیر ، امالی طوسی (ر) 232 / 410 ، بشارة المصطفیٰ ص 113 روایت جابر ) ۔

1214۔ امام باقر (ع)! اگر کوئی شخص ہمارے امر کے انتظار میں مرجائے تو اس کا کوئی نقصان نہیں هے جبکہ اس نے امام مہدی (ع) کے خیمہ اور آپ کے لشکر کے ساتھ موت نہیں پائی هے ۔( کافی 1 ص 372 / 6 روایت ہاشم ) ۔

1215۔ امام صادق (ع)! جو ہمارے امر کا منتظر هے اور اس را ہ میں اذیت و خوف کو برداشت کررہاهے وہ کل ہمارے زمرہ میں هوگا۔( کافی 8 ص 37 / 7 روایت حمران ) ۔ 1216۔ امام صادق (ع) ! ہمارے بارھویں کا انتظار کرنے والا رسول اکرم کے سامنے تلوار لے کر جہاد کرنے والے کے جیسا هے جبکہ وہ رسول اکرم سے دفاع بھی کررہاهو۔( کمال الدین 335/ 5 ، الغیبتہ النعمانی 91 / 21 ، اعلام الوریٰ ص 404 روایت ابراہیم کوفی) ۔

1217۔ امام صادق (ع)! جو اس امر کے انتظار میں مرجائے وہ ویسا ہی هے جیسے قائم کے ساتھ ان کے خیمہ میں رہاهو بلکہ ایسا هے جیسے رسول اکرم کے سامنے تلوار لے کر جہاد کیاهو۔( کمال الدین 338 / 11 روایت مفضل بن عمر) ۔

1218۔ امام صادق (ع) ! جو شخص یہ چاہتاهے کہ اس کا شمال حضرت قائم (ع) کے اصحاب میں هو اس کا فرض هے کہ انتظار کرے اور تقویٰ اور حسن اخلاق کے ساتھ عمل کرے کہ اس حالت میں اگر مر بھی جائے اور قائم کا قیام اس کے بعد هو تو اس کو وہی اجر ملے گا جو حضرت کے ساتھ رہنے والوں کا هوگا لہذا تیاری کرو اور انتظار کرو تمھیں مبارک هو اے وہ گروہ جس پر خدا نے رحم کیا هے ۔( الغیبتہ للنعمانی 200 / 16 روایت ابوبصیر) ۔

1219۔ امام جواد (ع) ! خدایا اپنے اولیاء کو اقتدار دلوادے ان ظالموں کے ہاتھ سے جنھوں نے میرے مال کو اپنا مال بنالیا هے اور تیرے بندوں کو اپنا غلام بنالیاهے تیری زمین کے عالم کو گونگے، اندھے، تاریک ، اندھیرے میں چھوڑدیاهے جہاں آنکھ کھلی هوئی هے لیکن دل اندھے هوگئے ہیں اور ان کے لئے تیرے سامنے کوئی حجت نہیں هے، خدایا تو نے انھیں اپنے عذاب سے ڈرایا، اپنی سزا سے آگاہ کیا، اطاعت گذاروں سے نیکی کا وعدہ کیا ، برائیوں پر ڈرایا دھمکایا تو ایک گروہ ایمان لے آیا، خدایا اب اپنے صاحبان ایمان کو دشمنوں پر غلبہ عنایت فرما کہ وہ سب ظاہل هوگئے ہیں اور حق کی دعوت دے رهے ہیں اور امام منتظر قائم بالقسط کا اتباع کررهے ہیں ۔( نہج البلاغہ) ۔

1220۔ امام ہادی (ع)! زیارت جامعہ ، میں خدا کو اور آپ حضرات کو گواہ بناکر کہتا هوں کہ میں آپ کی واپس کا ایمان رکھتاهوں، آپ کی رجعت کی تصدیق کرتا هوں اور آپ کے امر کا انتظار کررہاهوں اور آپ کے حکومت کی آس لگائے بیٹھاهوں۔( تہذیب 6 ص 98 / 177) ۔

دعاء حکومت

1221۔ امام زین العابدین (ع)! پروردگار ! اہلبیت (ع) پیغمبر کے پاکیزہ کردار افراد پر رحمت نازل فرما جنھیں تو نے اپنے امر کے لئے منتخب کیا هے ۔ اور اپنے علم کا مخزن ، اپنے دین کا محافظ ، اپنی زمین میں اپنا خلیفہ اور اپنے بندوں پر اپنی حجت قرار دیاهے، انھیں اپنے ارادہ سے ہر رجس سے پاکیزہ بنایاهے اور اپنی ہستی کا وسیلہ اور اپنی جنت کا راستہ قرار دیاهے ۔

خدایا اپنے ولی کو اپنی نعمتوں کے شکریہ کی توفیق کرامت فرما اور ہمیں بھی ایسی ہی توفیق دے، انھیں اپنی طرف سے سلطنت و نصرت عطا فرما اور بآسانی فتح مبین عطا فرما، اپنے محکم رکن کے ذریعہ ان کی امداد فرما، ان کی کمر کو مضبوط اور ان کے بازو کو قوی بنا، اپنی نگاهوں سے ان کی نگرانی اور اپنی حفاظت سے ان کی حمایت فرما، اپنے ملائکہ سے ان کی نصرت اور اپنے غالب لشکر سے امداد فرما، ان کے ذریعہ کتاب و حد و شریعت و سنن رسول کو قائم فرما اور جن آثار دین کو ظالمین نے مردہ بنادیاهے انھیں زندہ بنادے، اپنے راستہ سے ظلم کی کثافت کو دور کردے اور اپنے طریق سے نقصانات کو جدا کردے راہ حق سے منحرف لوگوں کو زائل کردے اور کجی کے طلبگاروں کو محو کردے، ان کے مزاج کو چاہنے والوں کے لئے نرم کردے اور ہاتھوں کو دشمنوں پر غلبہ عنایت فرما ہمیں ان کی رافت ، رحمت ، مہربانی اور محبت عطا فرما اور ان کا اطاعت گذار اور خدمت شعار بنادے کہ ہم ان کی رضا کی سعی کریں، ان کی امداد اور ان سے دفاع کے لئے ان کے گرد رہیں اور اس عمل کے ذریعہ تیرا اور تیرے رسول کا قرب حاصل کرسکیں۔ (صحیفہ سجادیہ دعاء نمبر 47 ص 190 ۔191 ، اقبال الاعمال 2 ص 91) ۔

1222۔ امام باقر (ع) ! نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ کی تعلیم دیتے هوئے، پروردگار ! ہم تجھ سے باعزت حکومت کے طلبگار ہیں جس کے ذریعہ اسلام اور اہل اسلام کو عزت نصیب هو اور نفاق و اہل نفاق ذلیل هوں، ہمیں اپنی اطاعت کا داعی اور اپنے راستہ کے قائدین میں قرار دیدے اور اسی حکومت کے ذریعہ دنیا و آخرت کی کرامت عطا فرما۔( کافی 3 ص 424 / 6 روایت محمد بن مسلم) ۔

1223۔ امام صادق (ع)! خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور امام مسلمین پر رحمت نازل فرما اورانھیں سامنے ، پیچھے، داہنے، بائیں ، اوپر ، نیچے ہر طرف سے محفوظ رکھ انھیں آسان فتح عنایت فرما اور باعزت نصرت عطا فرما، ان کے لئے سلطنت و نصرت قرار دیدے ، خدایا آل محمد کے سکون و آرام میں عجلت فرما اور جن و انس میں ان کے دشمنوں کو ہلاک کردے ۔ ( مصباح المتہجد ص 392 ، جمال الاسبوع ص 293) ۔

1224۔ امام کاظم (ع)! سجدہ شکر کا ذکر کرتے هوئے ۔

خدایا میں واسطہ دیتاهوں اس وعدہ کا جو تو نے اپنے اولیاء سے کیا هے کہ انھیں اپنے اور ان کے دشمنوں پر فتح عنایت فرمائے گا کہ محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور آل محمد کے محافظین دین پر رحمت نازل فرما ۔ خدایا میں ہر تنگی کے بعد سهولت کا طلب گار هوں ۔( کافی 3 ص 225 / 17 روایت عبداللہ بن جندب) ۔

1225۔ امام رضا (ع) ! امام زمانہ (ع) کے حق میں دعا کی تعلیم دیتے هوئے ۔

خدایا اپنے ولی ، خلیفہ، مخلوقات پر اپنی حجت، اپنے حکم کے ساتھ بولنے والے اور اپنے مقاصد کی تعبیر کرنے والی زبان، اپنے اذن سے دیکھنے والی آنکھ ، اپنے بندوں پر اپنے شاہد، سردارمجاہد، اپنی پناہ میں رہنے والے اور اپنی عبادت کرنے والے سے دفاع فرما، اسے تمام مخلوقات کے شر سے اپنی پناہ میں رکھنا اور سامنے، پیچھے، داہنے، بائیں، اوپر نیچے سے اس کی ایسی حفاظت فرما جس کے بعد بربادی کا اندیشہ نہ رهے اور اس کے ذریعہ اپنے رسول اور اس کے آباء و اجداد کا تحفظ فرما جو سب تیرے امام اور تیرے دین کے ستون تھے، اسے اپنی امانت میں قرار دیدے جہاں بربادی نہیں اور اپنے ہمسایہ میں قرار دیدے جہاں تباہی نہیں اور اپنی پناہ میں قرار دیدے جہاں ذلت نہیں اور اپنی امان میں لے لے جہاں رسوائی کا خطرہ نہیں، اپنے زیر سایہ قرار دیدے جہاں کسی اذیت کا امکان نہیں، اپنی غالب نصرت کے ذریعہ اس کی امداد فرما اور اپنے قوی لشکر کے ذریعہ اس کی تائید فرما، اپنی قوت سے اسے قوی بنادے اور اپنے ملائکہ کو اس کے ساتھ کردے، اس کے دوستوں سے محبت فرما اور اس کے دشمنوں سے دشمنی کر، اسے اپنی محفوظ زرہ پہنادے اور ملائکہ کے حلقہ میں رکھ دے ۔

اس کے ذریعہ انتشار کو دور کردے، شگاف کو پر کردے، ظلم کو موت دیدے، عدل کو غالب بنادے، اس کے طول بقاء سے زمین کو موت دیدے، عدل کو غالب بنادے، اس کے طول بقاء سے زمین کو زینت دیدے اور اپنی نصرت سے اس کی تائید فرما ، اپنے رعب سے اس کی امداد فرما، اس کے مددگاروں کو قوی بنادے، اس سے الگ رہنے والوں کو رسوا کردے، جو دشمنی کرے اسے تباہ کردے اور جو خیانت کرے اسے برباد کردے، اس کے ذریعہ کا فروجابر حکام، ان کے ستون و ارکان سب کو قتل کردے اور گمراهوں کی کمر توڑ دے جو بدعت ایجاد کرنے والے، سنت کو مردہ بنادینے والے اور باطل کو تقویت دینے والے ہیں، اس کے ہاتھوں جابروں کو ذلیل، کافروں اور ملحدوں کو تباہ و برباد کردے وہ شرق و غرب میں هوں یا برو بحر میں یا صحرا و بیابان میں ، یہاں تک کہ نہ ان کا کوئی باشندہ رہ جانے اور نہ ان کے کہیں آثار باقی رہ جائیں۔

خدایا ان ظالموں سے اپنے شہروں کو پاک کردے اور اپنے نیک بندوں کو انتقام عطا فرما، مومنین کو عزت دے اور مرسلین کی سنت کو زندہ بنادے انبیاء کے بوسیدہ هوجانے والے احکام کی تجدید فرما اور دین کے جو احکام محو هوگئے ہیں یا بدل دیئے گئے ہیں انھیں تازہ بنادے تا کہ اس کے ہاتھوں دیں تازہ و زندہ خالص اور صریح هوکر سامنے آئے نہ کسی طرح کی کجی هو اور نہ بدعت اور اس کے عدل سے ظلم کی تاریکیوں میں روشنی پیدا هوجائے اور کفر کی آگ بجھ جائے اور حق و عدل کے عقدے کھل جائیں کہ وہ تیرا ایسا بندہ هے جسے تو نے اپنے بندوں میں مصطفی قرار دیاهے، گناهوں سے محفوظ اور عیب سے بری رکھاهے اور ہر رجس اور گندگی سے پاک و سالم قرار دیاهے ۔

خدایا ہم اس کے لئے روز قیامت گواہی دیں گے کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا هے اور کسی برائی کا ارتکاب نہیں کیا هے، کسی اطاعت کو نظر انداز نہیں کیا هے اور کسی حرمت کو برباد نہیں کیاهے، کسی فریضہ کو بدلا نہیں هے اور کسی شریعت میں تغیر نہیں پیدا کیاهے، وہ ہدایت یافتہ ، ہادی ، طاہر ، متقی ، پاکیزہ، پسندیدہ اور طیب و طاہر انسان هے ۔

خدایا اسے اس کی ذات، اس کے اہل و اولاد، ذریت و امت اور تمام رعایا میں خنکی چشم، سرور نفس عنایت فرما، تمام مملکتوں کو جمع کردے قریب هوں یا دور ، عزیز هوں یا ذلیل، تا کہ اس کا حکم ہر حکم پر جاری هوجائے اور اس کا حق ہر باطل پر غالب آجائے ۔

خدایا ہمیں اس کے ہاتھوں ہدایت کے راستہ اور دین کی شاہراہ اعظم اور اس کی معتدل راهوں پر چلادے جہاں ہر غالی پلٹ کر آتاهے اور ہر پیچھے رہ جانے والا اس سے ملحق هوجاتاهے، ہمیں اس کی اطاعت کی وقت اور اس کی پیروی کا ثبات عطا فرما، اس کی متابعت کا کرم فرما اور اس کے گروہ میں شامل کردے جو اس کے امر سے قیام کرنے والے ۔ اس کے ساتھ صبر کرنے والے اور اس کی رضا کے مخلص طلب گار ہیں ٹا کہ ہمیں روز قیامت اس کے انصار و اعوان اور اس کی حکومت کے ارکان میں محشور کرے ۔

خدایا ہمارے لئے اس مرتبہ کو ہر شک و شبہ سے خالص اور ہر ریاء و سمعہ سے پاکیزہ قرار دیدے تا کہ ہم تیرے غیر پر اعتماد نہ کریں اور تیری رضا کے علاوہ کسی شے کے طلبگار نہ هوں، ان کی منزل میں ساکن هوں اور انکے ساتھ جنت میں داخل هوں ۔

ہمیں ہر طرح کی کسلمندی ، کاہلی ، سستی سے پناہ دے اور ان لوگوں میں قرار دیدے جن سے دین کا کام لیا جاتاهے اور اپنے ولی کی نصرت کا انتظام کیا جاتاهے اور ہماری جگہ پر ہمارے غیر کو نہ رکھ دینا کہ یہ کام تیرے لئے آسان هے اور ہمارے لئے بہت سخت هے ۔

خدایا اپنے اولیاء عہد اور اس کے بعد کے پیشواؤں پر بھی رحمت نازل فرما اور انھیں ان کی امیدوں تک پہنچا دینا، انھیں طول عمر عطافرما اور ان کی امداد فرما، جو امر ان کے حوالہ کیا هے اسے مکمل کردے اور ان کے ستونوں کو ثابت بنادے، ہمیں ان کے اعوان اور ان کے دین کے انصار میں قرار دے دے کہ وہ سب تیرے کلمات کے معدن، تیرے علم کے مخزن تیری توحید کے ارکان اور تیرے دین کے ستون اور تیرے اولیاء امر ہیں۔

بندوں میں تیرے خالص بندے اور مخلوقات میں تیرے منتخب اولیاء اور تیرے اولیاء کی اولاد اور اولاد پیغمبر کے منتخب افراد ہیں، میرا سلام پیغمبر پر اور ان کی تمام اولاد پر اور صلوات و برکات و رحمت ۔

( مصباح المتہجد ص 409 ، مصباح کفعمی ص 548 ، جمائل الاسبوع ص 307 روایات یونس بن عبدالرحمان) ۔

1226۔ امام ہادی (ع) زیارت امام مہدی (ع) میں فرماتے ہیں، پروردگار جس طرح تو نے اپنے پیغمبر پر ایمان لانے اور ان کی دعوت کی تصدیق کرنے کی توفیق دی اور یہ احسان کیا کہ میں ان کی اطاعت کروں اور ان کی ملت کا اتباع کروں اور پھر ان کی معرفت اور ان کی ذریت کے ائمہ کی معرفت کی ہدایت دی اور ان کی معرفت سے ایمان کو کامل بنایا اور ان کی ولایت کے طفیل اعمال کو قبول کیا اور ان پر صلوات کو وسیلہ عبادت قرار دیدیا اور دعا کی کلی اور قبولیت کا سبب بنادیا، اب ان سب پر رحمت نازل فرما اور ان کے طفیل مجھے اپنی بارگاہ میں دنیا و آخرت میں سرخرو فرما اور بندہٴ مقرب بنادے…

خدایا ان کے وعدہ کو پورا فرما، ان کے قائم کی تلوارسے زمین کی تطہیر فرما، اس کے ذریعہ اپنے معطل حدود اور تبدیل شدہ احکام کے قیام کا انتظار فرما، مردہ دلوں کو زندہ کردے اور متفرق خواہشات کو یکجا بنادے راہ حق سے ظلم کی کثافت کو دور کردے تا کہ اس کے ہاتھوں پرحق بہترین صورت میں جلوہ نما هوا ور باطل و اہل باطل ہلاک هوجائیں اور حق کی کوئی بات باطل کے خوف سے پوشیدہ نہ رہ جائے ۔( بحار 102 ص 182 از مصباح الزائر) ۔

1227۔ امام عسکری (ع) ، ولی امر امام (ع) منتظر پر صلوات کی تعلیم دیتے هوئے ۔

خدایا اپنے ولی ، فرزند اولیاء پر رحمت نازل فرما جن کی اطاعت تو نے فرض کی هے اور ان کا حق لازم قرار دیاهے اور ان سے رجس کو دور کرکے انھیں طیب و طاہر قرار دیاهے ۔

خدایا اس کے ذریعہ اپنے دین کو غلبہ عطا فرما، اپنے اور اس کے دوستوں، شیعوں اور مددگاروں کی امداد فرما اور ہمیں انھیں میں سے قرار دیدے، خدایا اسے ہر باغی، طاغی اور شریر کے شر سے اپنی پناہ میں رکھنا اور سامنے، پیچھے ، داہنے بائیں ہر طرف سے محفوظ رہنا، اسے ہر برائی کی پہنچ سے دور رکھنا اور اس کے ذریعہ رسول اور آل رسول کی حفاظت فرمانا ، اس کے وسیلہ سے عدل کو ظاہر فرما، اپنی مدد سے اس کی تائید فرما، اس کے ناصروں کی امداد فرما، اس سے الگ هوجانے والوں کو بے سہارا بنادے اس کے ذریعہ کا فر جابروں کی کمر توڑ دے اور کفار و منافقین و ملحدوں کو فنا کردے چاهے مشرق میں هوں یا مغرب میں ، بر میں هوں یا بحر میں، زمین کو عدل سے معمور کردے اور اپنے دین کو غلبہ عنایت فرما، ہمیں ان کے انصار و اعوان، اتباع و شیعیان میں سے قرار دیدے اور آل محمد کے سلسلہ میں وہ سب دکھلا دے جس کی انھیں خواہش هے اور دشمنوں کے بارے میں وہ سب دکھلا دے جس سے وہ لوگ ڈر رهے ہیں، خدایا آمین، ( مصباح المتہجد ص 405 ، جمال الاسبوع ص 300 روایت ابومحمد عبداللہ بن محمد العابد) ۔

1228۔ ابوعلی ابن ہمام، کا بیان هے کہ حضرت کے نائب خاص شیخ عمری نے اس دعا کو ملاء کرایاهے اور اس کے پڑھنے کی تاکید کی هے، جو دور غیبت امام قائم کی بہترین دعا هے ۔

خدایا مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کہ اپنی معرفت نہ دے گا تو میں رسول کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنے رسول کی معرفت عطا فرما کہ اگر ان کی معرفت نہ دے گا تو میں تیری حجت کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنی حجت کی معرفت بھی عطا فرما کہ اگر اسے نہ پہچان سکا تو دین سے بہک جاؤ گا۔

خدایا مجھے جاہلیت کی موت نہ دینا اور نہ ہدایت کے بعد میرے دل کو منحرف هونے دینا۔

خدایا جس طرح تو نے ان لوگوں کی ہدایت دی جن کی اطاعت کو واجب قرار دیاهے اور جو تیرے رسول کے بعد تیرے اولیاء امر ہیں اور میں نے تیرے تمام اولیاء امیر المومنین (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) ، علی (ع) ، محمد ، جعفر (ع) ، موسیٰ (ع) ، علی (ع) ، محمد (ع) ، علی (ع) ، حسن (ع) حجت قائم مہدی (عج) سے محبت اختیار کی هے ۔

خدایا اب حضرت قائم (ع) کے ظهور میں تعجیل فرما، اپنی مدد سے ان کی تائید فرما، ان کے مددگاروں کی امداد فرما، ان سے الگ رہنے والوں کو ذلیل فرما، ان سے عداوت کرنے والوں کو تباہ و برباد کردے، حق کا اظہار فرما، باطل کو مردہ بنادے، بندگان مومنین کو ذلت سے نجات دیدے شہروں کو زندگی عطا فرمادے، کفر کے جباروں کو تہ تیغ کردے، ضلالت کے سر براهوں کی کمر توڑدے، جابروں اور کافروں کو ذلیل کردے، منافقوں عہد شکنوں اور شرق و غرب کے ملحدوں، مخالفوں کو ہلاک و برباد کردے چاهے وہ خشکی میں هوں یا دریاؤں میں، بیابانوں میں هوں یا پہاڑوں پر ۔ تا کہ ان کی کوئی آبادی نہ رہ جائے اور ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رهے، زمین کو ان کے وجود سے پاک کردے اور اپنے بندوں کے دلوں کو سکون عطا فرما، جو دین مٹ گیا هے اس کی تجدید فرما اور جو احکام بدل دیے گئے ہیں ان کی اصلاح فرما، جو سنت بدل گئی هے اسے ٹھیک کردے تا کہ دین دوبارہ اس کے ہاتھوں ترو تازہ هوکر سامنے آئے نہ کوئی کجی هو نہ بدعت نہ انحراف کفر کی آگ بجھ جائے اور ضلالت کا شعلہ خاموش هوجائے کہ وہ تیرا وہ بندہ هے کہ جسے تو نے اپنا بنایاهے، اور اسے دین کی نصرت کے لئے منتخب کیا هے اور اپنے علم سے چنا هے اور گناهوں سے محفوظ رکھاهے اور عیوب سے پاک رکھاهے، غیب کا علم دیا هے اور نعمتوں سے نوازاهے، رجس سے دور رکھاهے اور پاک و پاکیزہ بنایاهے ۔

خدایا ہم اس بات کے فریادی ہیں کہ تیرے نبی جاچکے ہیں، تیرا ولی بھی پردہ غیب میں هے، زمانہ مخالف هوگیاهے ، فتنے سر اٹھارهے ہیں، دشمنوں نے ہجوم کر رکھاهے اور ان کی کثرت هے اور اپنی قلت هے ۔

خدایا ان حالات کی اصلاح فرما فوری فتح کے ذریعہ، اور اپنی نصرت کے ذریعہ، اور امام عادل کے ظهور کے ذریعہ، خدائے برحق اس دعا کو قبول کرلے ۔

خدایا اپنے ولی کے ذریعہ قرآن کو زندہ کردے اور اس کے نور سرمدی کی زیارت کرادے جس میں کوئی ظلمت نہیں هے، مردہ دلوں کو زندہ بنادے اور سینوں کی اصلاح کردے، خواہشات کو ایک نقطہ پر جمع کردے معطل حدوداور متروک احکام کو قائم کرادے تا کہ ہر حق منظر پر آجائے اور ہر عدل چمک اٹھے، خدایا ہمیں ان کے مددگاروں اور حکومت کو تقویت دینے والوں میں قرار دیدے کہ ہم ان کے احکام پر عمل کریں، اور ان کے عمل سے راضی رہیں، ان کے احکام کے لئے سراپا تسلیم رہیں اور پھر تقیہ کی کوئی ضرورت نہ رہ جائے ۔

خدایا تو ہی برائیوں کو دور کرنے والا ، مضطر افراد کی دعاؤں کا قبول کرنے والا اور کرب و رنج سے نجات دینے والا هے لہذا اپنے ولی کے ہر رنج و غم کو دور کردے اور اسے حسب وعدہ زمین میں اپنا جانشین بنادے ۔

خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور مجھے ان کے طفیل دنیا و آخرت میں کامیابی اور تقرب عنایت فرما ۔( کمال الدین 512 / 43 ، مصباح المتہجد ص 411 ، جمال الاسبوع ص 315) ۔

1229۔ دعائے افتتاح۔… خدایا ہم ایسی باعزت حکومت کے خواہشمند ہیں جس سے اسلام و اہل اسلام کو عزت اور نفاق و اہل نفاق کو ذلت نصیب هو ہمیں اپنی اطاعت کے داعیوں اور اپنے راستہ کے قائدوں میں قرار دیدے اور پھر دنیا و آخرت کی کرامت عطا فرما۔

خدایا جو حق ہم نے پہچان لیا هے اسے اٹھانے کی طاقت دے اور جسے نہیں پہچان سکے ہیں اس تک پہنچا دے ۔

خدایا اس کے ذریعہ ہماری پراگندگی کو جمع کردے، ہمارے درمیان شگاف کو پڑ کردے، ہمارے انتشار کو جمع کردے ۔ہماری قلت کو کثرت اور ہماری ذلت کو عزت میں تبدیل کردے، ہماری غربت کو دولت میں بدل دے اور ہمارے قرض کو ادا کردے، ہمارے فقر کا علاج فرما اورہماری حاجتوں کو پورا فرما۔

ہماری زحمت کو آسان کردے اور ہمارے چہروں کو نورانی بنادے، ہمیں قید سے رہائی عطا فرما اور ہمارے مطالب کو پورا فرما، ہمارے وعدوں کو مکمل فرما اور ہماری دعاؤں کو قبول کرلے، ہمیں تمام امیدیں عطا فرما اور ہماری خواہش سے زیادہ عطا فرما۔

اے بہترین مسئول اور وسیع ترین عطا کرنے والے ، ہمارے دلوں کو سکون عطا فرما اور ہمارے رنج و غم کا علاج فرما، جہاں جہاں حق کے بارے میں اختلاف هے ہمیں ہدایت فرما کہ تو جسے چاهے صراط مستقیم کی ہدایت دے سکتاهے، اپنے اور ہمارے دشمنوں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما اور اے خدائے برحق ! ہماری اس دعا کو قبول کرلے ۔

خدایا ہماری فریاد یہ هے کہ تیرے نبی جاچکے، تیر اولی غیب میں هے، دشمنوں کی کثرت هے، فتنوں کی شدت هے ، زمانہ کا ہجوم هے، اب تو محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور ان حالات میں ہماری فوری فتح کے ذریعہ امداد فرما تا کہ رنج و غم دور هوجائیں، باعزت امداد دے اور حکومت حق کو ظاہر فرما، رحمت کی کرامت عطا فرما اور عافیت کا لباس عنایت فرما دے اپنی رحمت کے سہارے اے بہترین رحمت دینے والے ۔( اقبال الاعمال 1ص 142 روایت محمد بن ابی قرّہ) ۔

واضح رهے کہ یہ دعا امام زمانہ عج کی طرف سے هے جسے نائب دوم محمد بن عثمان بن سعید العمری کے بھتیجہ نے ان کی کتاب سے نقل کیاهے اور یہ ماہ رمضان کی شبوں میں پڑھی جاتی هے ۔!  

اہلبیت (ع) کے بارے میں غلو

غلو پر تنبیہ

1230۔ امام علی (ع)! خبردار ہمارے بارے میں غلو نہ کرنا، یہ کهو کہ ہم بندہ ہیں اور خدا ہمارا رب هے، اس کے بعد جو چاهو ہماری فضیلت بیان کرو، (خصال 614 /10 روایت ابوبصیر و محمدبن مسلم عن الصادق (ع) ، غرر الحکم نمبر 2740 ، تحف العقول 104 ، نوادر الاخبار ص 137) ۔

1231۔ اما م حسین (ع)! ہم سے اسلام کی محبت میں محبت رکھو کہ رسول اکرم نے فرمایا هے کہ خبردار میرے حق سے زیادہ میری تعریف نہ کرنا کہ پروردگار نے مجھے رسول بنانے سے پہلے بندہ بنایاهے ۔( المعجم الکبیر 3 ص 128 / 2889 روایت یحییٰ بن سعید) ۔

1232۔ امام صادق (ع)! جس نے ہمیں نبی قرار دیا اس پر خدا کی لعنت هے اور جس نے اس مسئلہ میں شک کیا اس پر بھی خدا کی لعنت هے ۔( رجال کشی (ر) 2 ص 590 / 540 روایت حسن وشاء) ۔

1233۔ امام صادق (ع)! ان غالیوں میں بعض ایسے جھوٹے ہیں کہ شیطان کو بھی ان کے جھوٹ کی ضرورت هے ۔( رجال کشی (ر) 2 ص 587 / 536 روایت ہشام بن سالم ) ۔

1234 ۔ مفضل بن عمر ! میں اور قاسم شریکی اور نجم بن حطیم اور صالح بن سہل مدینہ میں تھے اور ہم نے ربوبیت کے مسئلہ میں بحث کی تو ایک نے دوسرے سے کہا کہ اس بحث کا فائدہ کیا هے، ہم سب امام سے قریب ہیں اور زمانہ بھی تقیہ کا نہیں هے، چلو، چل کر انھیں سے فیصلہ کرالیں۔

چنانچہ جیسے ہی وہاں پہنچے حضرت بغیر رداء اور نعلین کے باہر نکل آئے اور عالم یہ تھا کہ غصہ سے سرکے سارے بال کھڑے تھے ۔

فرمایا ، ہرگز نہیں ۔

ہرگز نہیں، اے مفضل ، اے قاسم، اے نجم، ہم خدا کے محترم بندے ہیں جو کسی بات میں اس پر سبقت نہیں کرتے ہیں اور ہمیشہ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔( کافی 8 ص 231 / 303) ۔

1235۔ امام صادق (ع)! غالیوں کی مذمت کرتے هوئے ۔

خدا کی قسم، ہم صرف اس کے بندہ ہیں جس نے ہمیں خلق کیا هے اور منتخب کیا هے، ہمارے اختیار میں نہ کوئی نفع هے اور نہ نقصان، مالک اگر رحمت کرے تو یہ اس کی رحمت هے اور اگر عذاب کرے تو یہ بندوں کا عمل هے، خدا کی قسم ہماری خدا پر کوئی حجت نہیں هے اور نہ ہمارے پاس کوئی پروانہ برائت هے، ہمیں موت بھی آتی هے، ہم دفن بھی هوتے ہیں ہم قبر سے دوبارہ نکالے بھی جائیں گے، ہمیں عرصہ محشر میں کھڑا کرکے ہم سے حساب بھی لیا جائے گا ۔( رجال کشی 2 ص 49 / 403 روایت عبدالرحمان بن کثیر ) ۔

1236۔ صالح بن سہل، میں امام صادق (ع) کے بارے میں ان کے رب هونے کا قائل تھا تو ایک دن حضرت کے پاس حاضر هوا تو دیکھتے ہی فرمایا صالح ! خدا کی قسم ہم بندہٴ مخلوق ہیں اور ہمارا ایک رب هے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں اور نہ کریں تو وہ ہم پر عذاب بھی کرسکتاهے ۔( رجال کشی 2 ص 632 / 632، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 219) ۔

1237۔ اسماعیل بن عبدالعزیز ! امام صادق (ع) نے فرمایا کہ اسماعیل وضو کیلئے پانی رکھو میں نے رکھدیا تو حضرت وضو کے لئے داخل هوئے ، میں سوچنے لگا کہ میں تو ان کے بارے میں یہ خیالات رکھتاهوں اور یہ وضو کررهے ہیں۔

اتنے میں حضرت نکل آئے اور فرمایا اسماعیل ! طاقت سے اونچی عمارت نہ بناؤ کہ گر پڑے، ہمیں مخلوق قراردو، اس کے بعد جو چاهو کهو۔( بصائر الدرجات 236 / 5 ، الخرائج والجرائح 2 ص 735 / 45 ، الثاقب نی المناقب 452 / 330 ، کشف الغمہ 2 ص 403) ۔

1238۔ کامل التمار ! میں ایک دن امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ آپ نے فرمایا، کامل ! ہمارا ایک رب قرار دو جس کی طرف ہماری بازگشت هے، اس کے بعد جو چاهو بیان کرو۔

میں نے کہا کہ آپ کا بھی رب قرار دیں جو آپ کا مرجح هو اور اس کے بعد چاہیں کہیں تو بچا کیا ؟

یہ سن کر آپ سنبھل کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آخر کیا کہنا چاہتے هو، خدا کی قسم ہمارے علم میں سے ایک الف سے زیادہ تم تک نہیں پہنچاهے ۔(مختصر بصائر الدرجات ص 59 ، بصائر الدرجات 507 / 8) ۔

1239۔ امام صادق (ع) ! خبردار غالی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا چاهے وہ تمھاری جیسی بات کرتاهو اور مجهول الحال کے یپچھے اور کھلم کھلا فاسق کے پیچھے چاهے میانہ روہی کیوں نہ هو ۔( تہذیب 3 ص 31 / 109 روایت خلف بن حماد ، الفقیہ 1 ص 379 / 1110) ۔

1240 ۔ امام صادق (ع) !اپنے نوجوانوں کے بارے میں غالیوں سے هوشیار رہنا یہ انھیں برباد نہ کرنے پائیں کہ غالی بدترین خلق خدا ہیں، جو خدا کی عظمت کو گھٹاتے ہیں اور بندوں کو خدا بناتے ہیں، خدا کی قسم ، غالی یهود ونصاریٰ اور مجوس و مشرکین سے بھی بدتر ہیں ۔( امالی طوسی (ر) 650/ 1349 روایت فضل بن یسار) ۔

1241۔ امام رضا (ع)! ہم آل محمد و ہ نقطہٴ اعتدال ہیں جسے غالی پانہیں سکتاهے اور پیچھے رہنے والا اس سے آگے جا نہیں سکتاهے ۔( کافی 1 ص 101 / 3 روایت ابراہیم بن محمد النخزار و محمد بن الحسین ) ۔

غالیوں سے برأت

1242۔ امام علی (ع)! خدایا میں غالیوں سے بری اوربیزار هوں جس طرح کہ عیسیٰ (ع) بن مریم نصاریٰ سے بیزار تھے ۔

خدایا انھیں بے سہارا کردے اور ان میں سے کسی ایک کی بھی مدد نہ کرنا (امالی طوسی (ر) 650 / 1350 روایت اصبغ بن نباتہ، مناقب ابن شہر آشوب ! ص 263) ۔

1243۔ امام علی (ع) ۔ خبردار ہمارے بارے میں بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرنا، اس کے بعد ہمارے بارے میں جو چاهو کہہ سکتے هو کہ تم ہماری حد تک نہیں پہنچ سکتے هو اور هوشیار رهو کہ ہمارے بارے میں اس طرح غلو نہ کرنا جس طرح نصاریٰ نے غلو کیا کہ میں غلو کرنے والوں سے بری اور بیزار هوں۔(احتجاج 2 ص 453 / 314 ، تفسیر عسکری 50 / 24) ۔

1244۔ زین العابدین (ع)! یهودیوں نے عزیر سے محبت کی اور جو چاہا کہہ دیا تو نہ ان کا عزیز سے کوئی تعلق رہا اور نہ عزیر کا ان سے کوئی تعلق رہا، یہی حال محبت عیسیٰ میں نصاریٰ کا هوا ، ہم بھی اسی راستہ پر چل رهے ہیں، ہمارے چاہنے والوں میں بھی ایک قوم پیدا هوگی جو ہمارے بارے میں یهودیوں اور عیسائیوں جیسی بات کهے گی تو نہ ان کا ہم سے کوئی تعلق هوگا اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق هوگا ۔( رجال کشی (ر) 1 ص 336 / 191 روایت ابوخالد کابلی) ۔

1245 ۔ الہروی ! میں نے امام (ع) رضا سے عرض کیا کہ فرزند رسول ! یہ آخر لوگ آپ کی طرف سے کیا نقل کررهے ہیں؟

فرمایا کیا کہہ رهے ہیں؟

عرض کی کہ لوگ کہہ رهے ہیں آپ حضرات لوگوں کو اپنا بندہ تصور کررهے ہیں ! آپ نے فرمایا کہ خدایا، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے اور حاضر و غائب کے جاننے والے ! تو گواہ هے کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی اور نہ میرے آباء و اجداد نے کہی هے ، تجھے معلوم هے کہ اس امت کے مظالم ہم پر کس قدر زیادہ ہیں یہ ظلم بھی انھیں میں سے ایک هے ۔

اس کے بعد میری طرف رخ کرکے فرمایا، عبدلاسلام ! اگر سارے بندے ہمارے ہی بندے اور غلام ہیں تو ہم انھیں کس کے ہاتھ فروخت کریں گے ؟ میں نے عرض کیا کہ آپ نے سچ فرمایا۔

اس کے بعد فرمایا کہ خدا نے جو ہمیں حق ولایت دیاهے کیا تم اس کے منکر هو؟

میں نے عرض کیا کہ معاذ اللہ ۔ میں یقیناً آپ کی ولایت کا اقرار کرنے والاهوں۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 184 / 6) ۔

گویا ظالموں نے اس حق ولایت الہیہ کی غلط توجیہہ کرکے اس کا مطلب یہ نکال لیا اور اسے اہلبیت (ع) کو بدنام کرنے کا ذریعہ قرار دیا هے ۔ جوادی

1246۔ الحسن بن الجہم ! میں ایک دن مامون کے دربار میں حاضر هوا تو حضرت علی بن موسی الرضا (ع) بھی موجود تھے اور بہت سے فقہاء ور علماء علم کلام بھی موجود تھے، ان میں سے بعض افراد نے مختلف سوالات کئے اور مامون نے کہا کہ یا اباالحسن ! مجھے یہ خبر ملی هے کہ ایک قوم آپ کے بارے میں غلو کرتی هے اور حد سے آگے نکل جاتی هے ۔

آپ نے فرمایا کہ میرے والد بزرگوار حضرت موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) نے اپنے والد جعفر (ع) بن محمد (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد محمد (ع) بن علی (ع)سے اور انھوں نے اپنے والد علی (ع) بن الحسین (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد حسین بن علی (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد علی (ع) بن ابی طالب (ع) سے رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل کیا هے کہ خبردار مجھے میرے حق سے اونچا نہ کرنا کہ پروردگار نے مجھے نبی بنانے سے پہلے بندہ بنایاهے اور اس کا ارشاد هے ” کسی بشر کی یہ مجال نہیں هے کہ خدا اسے کتاب و حکمت و نبوت عطا کرے اور وہ بندوں سے یہ کہہ دے کہ خدا کو چھوڑ کر میری بندگی کرو، ان سب کا یپغام یہ هوتاهے کہ اللہ والے نبو کہ تم کتاب کی تعلیم دیتے هو اور اسے پڑھتے هو اور وہ یہ حکم بھی نہیں دے سکتاهے کہ ملائکہ یا انبیاء کو ارباب قرار دیدو، کیا وہ مسلمانوں کو کفر کا حکم دے سکتاهے ۔( آل عمران آیت 79 ، 80) ۔

اور حضرت علی (ع) نے فرمایاهے کہ میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک هوجائیں گے اور اس میں میرا کوئی قصور نہ هوگا، حد سے آگے نکل جانے والا دوست اور حد سے گرا دینے والا دشمن اور میں خدا کی بارگاہ میں غلو کرنے والوں سے ویسے ہی برأت کرتاهوں جس طرح عیسٰی نے نصاریٰ سے برائت کی تھی۔

جب پروردگار نے فرمایا کہ ” عیسیٰ (ع)! کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیاهے کہ خدا کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا مان لو اور انھوں نے عرض کی کہ خدایا تو خدائے بے نیاز هے اور میرے لئے یہ ممکن نہیں هے کہ میں کوئی خلاف حق بات کهوں، اگر میں نے ایسا کہا هے تو تجھے خود ہی معلوم هے کہ تو میرے دل کے راز بھی جانتاهے اور میں تیرے علم کو نہیں جانتاهوں، تو تمام غیب کا جاننے والا هے، میں نے ان سے وہی کہا هے جس کا تو نے حکم دیا هے کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب هے اور تمھارا بھی رب هے اور میں ان کا نگراں تھا جب تک ان کے درمیان رہا، اس کے بعد جب تو نے میری مدت عمل پوری کردی تو اب تو ان کا نگراں هے اور ہر شے کا شاہد اور نگراں هے“۔ (مائدہ نمبر 116 ، 117) ۔

اور پھر مالک نے خود اعلان کیاهے کہ مسیح بن مریم صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں اور ان کی ماں صدیقہ ہیں اور یہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے ۔( مائدہ نمبر 75) ۔ ” مسیح بندہ خدا هونے سے انکار نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ملائکہ مقربین اس بات کا انکار کرسکتے ہیں۔( نساء 172) ۔

لہذا جو بھی انبیاء کے بارے میں ربوبیت کا ادعا کرے گا یا ائمہ کو رب یا نبی قرار دے گا یا غیر امام کو امام قرار دے گا ہم اس سے بری اور بیزار رہیں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔(عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 200 / 1) ۔

1247۔ امام رضا (ع) مقام دعا میں ! خدایا میں ہر طاقت و قوت کے ادعاء سے بری هوں اور طاقت و قوت تیرے علاوہ کسی کے پاس نہیں هے میں ان تمام لوگوں سے بھی بری هوں جو ہمارے حق سے زیادہ دعویٰ کرتے ہیں اور ان سے بھی بری هوں جو وہ کہتے ہیں جو ہم نے اپنے بارے میں نہیں کیاهے ۔

خدایا خلق و امر تیرے لئے هے، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

خدایا ! تو ہمارا بھی خالق هے اور ہمارے آباء و اجداد کا بھی خالق هے ۔

خدایا ربوبیت کے لئے تیرے علاوہ کوئی سزاوار نہیں هے اور الوہیت تیرے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں هے ۔

خدایا ان نصاریٰ پر لعنت فرما جنھوں نے تیری عظمت کو گھٹا دیا اور ایسے ہی تمام عقیدہ والوں پر لعنت فرما۔

خدایا ہم تیرے بندے اورتیرے بندوں کی اولاد ہیں، تیرے بغیر اپنے واسطے نفع، نقصان، موت و حیات اور حشر و نشر کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے ہیں ۔

خدایا ! جس نے یہ خیال کیا کہ ہم ارباب ہیں ہم ان سے بیزار ہیں اور جس نے یہ کہا کہ تخلیق ہمارے ہاتھ میں هے یا رزق کی ذمہ داری ہمارے اوپر هے ہم اس سے بھی بیزار ہیں جس طرح عیسیٰ (ع) نصاریٰ سے بیزار تھے ۔

خدایا ہم نے انھیں ان خیالات کی دعوت نہیں دی هے لہذا ان کے مہملات کا ہم سے مواخذہ نہ کرنا اور ہمیں معاف کردینا ۔

خدایا زمین پر ان کافروں کی آبادیوں کو باقی نہ رکھنا کہ اگر یہ رہ گئے تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی اولاد بھی فاجر اور کافر هوگی۔( الاعتقادات ، صدوق (ر) ص 99) ۔

غالیوں کا کفر

1248۔ رسول اکرم ! میری امت کے دو گروہ ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں هے، ہمارے اہلبیت(ع) سے جنگ کرنے والے اور دین میں غلو کرکے حد سے باہر نکل جانے والے ۔( الفقیہ 3 ص 408 / 2425) ۔

1249۔ امام صادق (ع)! کم سے کم وہ بات جو انسان کو ایمان سے باہر نکال دیتی هے یہ هے کہ کسی غالی کے پاس بیٹھ کر اس کی بات سنے اور پھر تصدیق کردے ۔

میرے پدر بزرگوار نے اپنے والد ماجد کے حوالہ سے نقل کیا هے کہ رسول اکرم نے فرمایاهے کہ میری امت کے دو گروهوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں هے غالی اور قدریہ ۔( خصال 72 / 109 روایت سالم) ۔

غالی:

وہ لوگ جو کسی بھی ہستی کو اس کی حد سے آگے بڑھادیتے ہیں اور بندہ کے بارے میں خالق و رازق هونے کا عقیدہ پیدا کرلیتے ہیں۔

قدریہ

جو لوگ کہ خیر و شر سب کا ذمہ دار خدا کو قرار دیتے ہیں یا بقولے تقدیر الہی کے سرے سے منکر ہیں۔

تشبیہ

جو لوگ خالق کو مخلوق کی شبیہ اور اس کے صفات کو مخلوقات کے صفات جیسا قرار دیتے ہیں انھیں مشبہ کہا جاتاهے ۔

تفویض

کائنات کے تمام اختیارات کو بندہ کے حوالہ کرکے خدا کو معطل کردینا۔

1250۔ امام (ع) صادق نے مفضل سے ابوالخطاب کے اصحاب اور دیگر غالیوں کا ذکر کرتے هوئے فرمایا، مفضل ! خبردار ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور مصافحہ و تعلقات نہ رکھنا ۔( رجال کشی (ر) 2 ص 586 / 525) ۔

1251۔ امام صادق (ع)! خدا مغیرہ بن سعید پر لعنت کرے کہ وہ میرے والد پر بہتان باندھتا تھا، خدا نے اسے لوهے کا مزہ چھکادیا، خدا ان تمام افراد پر لعنت کرے جو ہمارے بارے میں وہ کہیں جو ہم خود نہیں کہتے ہیں اور خدا ان افراد پر لعنت کرے جو ہمیں اس اللہ کی بندگی سے الگ کردیں جس نے ہماری تخلیق کی هے اور جس کی بارگاہ میں ہم کو واپس جاناهے اور جس کے قبضہ قدرت میں ہماری پیشانیاں ہیں۔( رجال کشی (ر) 2 ص 590 / 542 روایت ابن مسکان) ۔

1252۔ ہاشم جعفری ! میں نے امام رضا (ع) سے غالیوں اور تفویض والوں کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ غالی کافر ہیں اور تفویض کرنے والے مشرک ہیں جو ان کے ساتھ بیٹھتا هے یا کھاتا پیتاهے یا تعلقات رکھتاهے یا شادی بیاہ کا رشتہ کرتاهے یا انھیں پناہ دیتاهے یا ان کے پاس امانت رکھتاهے یا ان کی بات کی تصدیق کرتاهے یا ایک لفظ سے ان کی مدد کرتاهے وہ ولایت خدا ولایت رسول اور ولایت اہلبیت (ع) سے خارج هے ۔ ( عیون اخبار الرضا 2 ص 203 / 4) ۔

1253۔ حسین بن خالد امام رضا (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص تشبیہ اور جبر کا عقیدہ رکھتاهے وہ کافر و مشرک هے اور ہم دنیا و آخرت میں اس سے بیزار ہیں ابن خالد ! ہماری طرف سے تشبیہ اور جبر کے بارے میں غالیوں نے بہت سی روایتیں تیار کی ہیں اور ان کے ذریعہ عظمت پروردگار کو گھٹایا هے لہذا جو ان سے محبت کرے وہ ہمارا دشمن هے اور جو ان سے دشمنی رکھے وہی ہمارا دوست هے، جو ان کا موالی هے وہ ہمارا عدو هے اور جو ان کا عدو هے وہی ہمارا موالی هے جس نے ان سے تعلق رکھا اس نے ہم سے قطع تعلق کیا اور جس نے ان سے قطع تعلق کیا اس نے ہم سے تعلق پیدا کیا ۔

جس نے ان سے بدسلوکی کی اس نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا اور جس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس نے ہمارے ساتھ برا سلوک کیا ، جس نے ان کا احترام کیا اس نے ہماری توہین کی اور جس نے ان کی توہین کی اس نے ہمارا احترام کیا ، جس نے انھیں قبول کرلیا اس نے ہمیں رد کردیا اور جس نے انھیں رد کردیا اس نے ہمیں قبول کرلیا، جس نے ان کے ساتھ احسان کیا اس نے ہمارے ساتھ برائی کی اور جس نے ان کے ساتھ برائی کی اس نے ہمارے ساتھااحسان کیا ، جس نے ان کی تصدیق کی اس نے ہماری تکذیب کی اور جس نے ان کی تکذیب کی اس نے ہماری تصدیق کی ، جس نے انھیں عطا کیا اس نے ہمیں محروم کیا اور جس نے انھیں محروم کیا اس نے ہمیں عطا کیا ۔

فرزند خالد ! جو ہمارا شیعہ هوگا وہ ہرگز انھیں اپنا دوست اور مددگار نہ بنائے گا ۔( عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 143 / 45 ، التوحید ص 364 ، الاحتجاج 2 ص 400) ۔

غالیوں کی ہلاکت

1254۔ امام علی (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کے بارے میں دو گروہ ہلاک هوں گے، حد سے زیادہ تعریف کرنے والا اور بیهود ہ افترا پردازی کرنے والا۔( السنتہ لابن ابی عاصم 475 / 1005) ۔

1255۔ امام علی (ع)! میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک هوجائیں گے، افراط کرنے والا غالی اور دشمنی رکھنے والا کینہ پرور، (فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 571 / 964 روایت ابن مریم ، نہج البلاغہ حکمت نمبر 117 ، خصائص الائمہ ص 124 ، شرح نہج البلاغہ معتزلی 20 ص 220) ۔

1256۔ امام علی (ع) عنقریب میرے بارے میں دو گروہ ہلاک هوجائیں گے، افراط کرنے والا دوست جسے محبت غیر حق تک کھینچ لے جائے گی اور گھٹانے والا دشمن جسے بغض ناحق خیالات تک لے جائے گا، میرے بارے میں بہترین افراد اعتدال والے ہیں لہذا تم سب اسی راستہ کو اختیار کرو۔ ( نہج البلاغہ خطبہ نمبر 127) ۔

1257۔ رسول اکرم ! یا علی (ع) ! تمھارے اندر ایک عیسیٰ (ع) بن مریم کی مشابہت بھی هے کہ انھیں قوم نے دوست رکھا تو دوستی میں اس قدر افراط سے کام لیا کہ بالآخر ہلاک هوگئے اور ایک قوم نے دشمنی میں اس قدر زیادتی کی کہ وہ بھی ہلاک هوگئے، ایک قوم حد اعتدال میں رہی اور اس نے نجات حاصل کرلی ، ( امالی طوسی (ر) ص 345 روایت عبید اللہ بن علی ، تفسیر فرات ص 404 کشف الغمہ 1 ص 321) ۔

1258۔ امام علی (ع) ! مجھ سے رسول اکرم نے فرمایا کہ تم میں ایک عیسیٰ (ع) کی مثال بھی پائی جاتی هے کہ یهودیوں نے ان سے دشمنی کی تو ان کی ماں کے بارے میں بکواس شروع کردی اور نصاریٰ نے محبت کی تو انھیں وہاں پہنچا دیا جو ان کی جگہ نہیں تھی۔

دیکھو میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک هوں گے، حد سے زیادہ محبت کرنے والا جو میری وہ تعریف کرے گاجو مجھ میں نہیں هے اور مجھ سے دشمنی کرنے والا جسے عداوت الزام تراشی پر آمادہ کردے گی ۔( مسند ابن حنبل 1 ص 336 / 1376 ، صواعق محرقہ ص 123 ، مسند ابویعلیٰ 1 ص 274 / 530 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 237 / 742 ، امالی طوسی (ر) 256 / 462 ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 63 / 263 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 560۔

غلو کی جعلی روایات

1259۔ ابراہیم بن ابی محمود ! میں نے امام رضا (ع) سے عرض کیا کہ فرزند رسول ! ہمارے پاس امیر المومنین (ع) کے فضائل اور آپ کے فضائل میں بہت سے روایات میں جنھیں مخالفین نے بیان کیا هے اور آپ حضرات نے نہیں بیان کیاهے کیا ہم ان پر اعتماد کرلیں؟

فرمایا ابن ابی محمود، مجھے میرے پدر بزرگوار نے اپنے والد اور اپنے جد کے حوالہ سے بتایا هے کہ رسول اکرم کا ارشاد هے کہ جس نے کسی کی بات پر اعتماد کیا گویا اس کا بندہ هوگیا، اب اگر متکلم اللہ کی طرف سے بول رہاهے تو یہ اللہ کا بندہ هوگا اوراگر ابلیس کی بات کہہ رہاهے تو یہ ابلیس کا بندہ هوگا۔

اس کے بعد فرمایا، ابن ابی محمود! ہمارے مخالفین نے ہمارے فضائل میں بہت روایات وضع کی ہیں اور انھیں تین قسموں پر تقسیم کیا هے ایک حصہ غلو کاهے، دوسرے میں ہمارے امر کی توہین هے اور تیسرے میں ہمارے دشمنوں کی برائیوں کی صراحت هے ۔

لوگ جب غلو کی روایات سنتے ہیں تو ہمارے شیعوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری ربوبیت کے قائل ہیں اور جب تقصیر کی روایات سنتے ہیں تو ہمارے بارے میں یہی عقیدہ قائم کرلیتے ہیں اورجب ہمارے دشمنوں کی نام بنام برائی سنتے ہیں تو ہمیں نام بنام گالیاں دیتے ہیں جبکہ پروردگار نے خود فرمایا هے کہ غیر خدا کی عبادت کرنے والوں کے معبودوں کو برا نہ کهو ورنہ وہ عداوت میں بلاکسی علم کے خدا کو بھی برا کہیں گے ۔

ابن ابی محمود! جب لوگ داہنے بائیں جارهے هوں تو جو ہمارے راستہ پر رهے گا ہم اس کے ساتھ رہیں گے اور جو ہم سے الگ هوجائیگا ہم اس سے الگ هوجائیں گے، کم سے کم وہ بات جس سے انسان ایمان سے خارج هوجاتاهے یہ هے کہ ذرہ کو گٹھلی کہہ دے اور اسی کو دین بنالے اور اس کے مخالف سے برات کا اعلان کردے ۔

ابن ابی محمو د! جو کچھ میں نے کہا هے اسے یاد رکھنا کہ اسی میں نے دنیا و آخرت کا سارا خیر جمع کردیاهے ۔(عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 304 / 63، بشارة المصطفیٰ ص 221) ۔    

کون اہلبیت (ع) سے هے اور کون نہیں هے؟

اہلبیت (ع) والوں کے صفات

” جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے هوگا“ ( سورہٴ ابراہیم آیت 36) ۔

1260۔ رسول اکرم ۔ ہر متقی انسان میرے وابستگان میں شمار هوتاهے ۔ (الفردوس 1 ص 418 / 1691 روایت انس بن مالک)

1261۔ انس ! رسول اکرم سے دریافت کیا گیا کہ آل محمد سے کون افراد مراد ہیں؟

فرمایا ہر متقی اور پرہیزگار۔

پروردگار نے فرمایا هے کہ اس کے اولیاء صرف متقین ہیں۔( المعجم الاوسط 3 ص 338 / 2332) ۔

1262۔ ابوعبیدہ امام باقر (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جو ہم سے محبت کرے وہ ہم اہلبیت(ع) سے هے تو میں نے عرض کی میں آپ پر قربان میں بھی آپ سے هوں؟

فرمایا بیشک کیا تم نے حضرت ابراہیم (ع) کا قول نہیں سناهے کہ جو میرا اتباع کرے وہ مجھ سے هے ۔( تفسیر عیاشی 2 ص 231 / 32) ۔

1263۔ امام صادق (ع)! جو تم میں سے تقویٰ اختیار کرے اور نیک کردار هوجائے وہ ہم اہلبیت سے هے ۔ راوی نے عرض کی کہ آپ سے فرزند رسول ؟

فرمایا بیشک ہم سے ، کیا تم نے پروردگار کا ارشاد نہیں سناهے کہ ” جو ان سے محبت کرے گا وہ ان سے هوگا“ ( مائدہ 51) ۔

اور حضرت ابراہیم (ع) نے کہا هے کہ جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے هوگا، ( دعائم الاسلام 1 ص 62 ، تفسیر عیاشی 2 ص 231 / 33 روایت محمد الحلبئ) ۔

1264 ۔ حسن بن موسیٰ الوشاء البغدادی، میں خراسان میں امام رضا (ع) کی مجلس میں حاضر تھا اور زید بن موسیٰ بھی موجود تھے جو مجلس میں موجود ایک جماعت پر فحر کررهے تھے کہ ہم ایسے ہیں اور ایسے ہیں اور حضرت دوسری قوم سے گفتگو کررهے تھے، آپ نے زید کی بات سنی تو فوراً متوجہ هوگئے ۔

فرمایا ۔ زید ! تمھیں کوفہ کے بقالوں کی تعریف نے مغرور بنادیا هے، دیکھو حضرت فاطمہ (ع) نے اپنی عصمت کا تحفظ کیا تو خدا نے ان کی ذریت پرجہنم کو حرام کردیا لیکن یہ شرف صرف حسن (ع) و حسین (ع) اور بطن فاطمہ (ع) سے پیدا هونے والوں کے لئے هے ۔

ورنہ اگر موسیٰ بن جعفر (ع) خدا کی اطاعت میں دن میں روزہ رکھیں رات میں نمازیں پڑھیں اور تم اس کی معصیت کرو اور اس کے بعد دونوں روز قیامت حاضر هوں اور تم ان سے زیادہ نگاہ پروردگار میں عزیز هوجاؤ، یہ ناممکن هے ، کیا تمھیں نہیں معلوم کہ امام زین العابدین (ع) فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے نیک کردار کے لئے دہرا اجر هے اور بدکردار کے لئے دہرا عذاب هے ۔

حسن وشاء کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت نے میری طرف رخ کرکے فرمایا۔

حسن ! تم اس آیت کو کس طرح پڑھتے هو؟

” پروردگار نے کہا کہ اے نوح (ع) یہ تمھارے اہل سے نہیں هے، یہ عمل غیر صالح هے ۔( هود نمبر 46) ۔

تو میں نے عرض کی کہ بعض لوگ پڑھتے ہیں ” عمل غیر صالح “ اور بعض لوگ پڑھتے ہیں ” عمل غیر صالح“ اور اس طرح فرزند نوح ماننے انکار کرتے ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں ۔

وہ نوح (ع) کا بیٹا تھا لیکن جب خدا کی معصیت کی تو خدا نے فرزندی سے خارج کردیا۔

یہی حال ہمارے چاہنے والوں کا هے کہ جو خدا کی اطاعت نہ کرے گا وہ ہم سے نہ هوگا اور تم اگر ہماری اطاعت کروگے تو ہم اہلبیت(ع) میں شمار هوجاؤگے ۔(معانی الاخبار 106 /1 ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 232 / 1) ۔

بیگانوں کے اوصاف

1265۔ رسول اکرم ! جو شخص ہنسی خوشی ذلت کا اقرار کرلے وہ ہم اہلبیت (ع) سے نہیں هے ۔( تحف العقول ص 58) ۔

1266۔ رسول اکرم ! جو ہمارے بزرگ کا احترام نہ کرے اور چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے فضل کی معرفت نہ رکھتاهو وہ ہم اہلبیت(ع) سے نہیں هے( جامع الاحادیث قمی ص 112 روایت طلحہ بن زید ، الجعفریات ص 183 ، امالی مفید 18 / 6 روایت ابوالقاسم محمد بن علی ابن الحنفیہ ، کافی 2 ص 165 / 2 روایت احمد بن محمد) ۔

1267۔ رسول اکرم ! جو بزرگ کا احترام نہ کرے اور چھوٹے پر رحم نہ کرے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرے وہ ہم سے نہیں هے ۔( مسند ابن حنبل 1ص554 /2329 روایت ابن عباس) ۔

1268۔ رسول اکرم ! ایہا الناس ۔ ہم اہلبیت(ع) وہ ہیں جنھیں پروردگار نے ان امور سے محفوظ رکھاهے کہ ہم نہ فتنہ کرتے ہیں اور نہ فتنہ میں مبتلا هوتے ہیں ، نہ جھوٹ بولتے ہیں، نہ کہانت کرتے ہیں، نہ جادو کرتے ہیں نہ خیانت کرتے ہیں نہ بدعت کرتے ہیں نہ شک و ریب میں مبتلا هوتے ہیں، نہ حق سے روکتے ہیں نہ نفاق کرتے ہیں لہذا اگر کسی میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں تو اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں هے اور خدا بھی اس سے بیزار هے اور ہم بھی بیزار ہیں اور جس سے خدا بیزار هوجائے اسے جہنم میں داخل کردے گا جو بدترین منزل هے ۔ (تفسیر فرات کوفی 307 / 412 روایت عبداللہ بن عباس) ۔

1269۔ رسول اکرم ! جس کی اذیت سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ رهے وہ ہم سے نہیں هے ۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 24 / 2 روایت ابراہیم بن ابی محمود عن الرضا (ع) ، عوالی اللئالی 1 ص 259 / 33) ۔

1270۔ رسول اکرم ! جو ہم کو دھوکہ دے وہ ہم سے نہیں هے ۔( مسند ابن حنبل 5 ص 544 16489 روایت ابی بردہ بن ینار۔ سنن ابن ماجہ 2 ص 49 / 2224، مستدرک حاکم 11 ص 2153 ، کافی 5 ص 160 / 1 تہذیب 7 ص 12 / 48 روایت ہشام بن سالم عن الصادق (ع) )

1271۔ رسول اکرم ! جو کسی مسلمان کو دھوکہ دے وہ ہم سے نہیں هے ۔( الفقیہ 3 ص 273 / 3986 ، عیون اخبار الرضا 2 ص 29/ 26 ، مسند زید ص 489 ، فقہ الرضا (ع) ص 369) ۔

1272۔ رسول اکرم ! جو امانت میں خیانت کرے وہ ہم سے نہیں هے ۔( کافی 5 ص 133/7 روایت سکونی عن الصادق (ع) ) ۔

1273۔ امام صادق (ع)! یاد رکھو کہ جو ہمسایہ کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کرے وہ ہم سے نہیں هے ۔( کافی 2 ص 668 / 11 ،روایت ابی الربیع الشامی) ۔

1274۔ امام صادق (ع)! جو نماز شب نہ پڑھے وہ ہم سے نہیں هے ۔( المقنع ص 131 المقنعہ ص 119 ، روضة الواعظین ص 321) ۔

1275۔ امام صادق (ع)! اگر شہر میں ایک لاکھ آدمی ہیں اور کوئی ایک بھی اس سے زیادہ متقی هے تو وہ ہم سے نہیں هے ۔( کافی 2 ص78 / 10 روایت علی بن ابی زید) ۔

1276۔ امام صادق (ع) ! وہ ہم سے نہیں هے جو دنیا کو آخرت کے لئے چھوڑ دے یا آخرت کو دنیا کے لئے چھوڑ دے ۔( الفقیہ3 ص 156 / 3568 ، فقہ الرضا (ع) ص 337) ۔

1277۔ امام صادق (ع) ! جو زبان سے ہمارے موافق هو اور اعمال و آثار میں ہمارے خلاف هو وہ ہم سے نہیں هے ۔( مشکوة الانوار ص 70 ، مستطرفات السرائر 147 / 21 روایت محمد بن عمر بن حنظلہ) ۔

1278۔ ابوالربیع شامی ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر هوا تو گھر اصحاب سے چھلک رہا تھا جہاں شام ، خراسان اور دیگر علاقوں کے افراد موجود تھے کہ مجھے بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملی، ایک مرتبہ حضرت ٹیک لگاکر بیٹھے اور فرمایا کہ اے شیعہ آل محمد ! یاد رکھو کہ وہ ہم سے نہیں هے جو غصہ میں نفس پر قابو نہ پاسکے اور ساتھی کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کرے، حسن اخلاق اور حسن رفاقت اور حسن مزاج کا مظاہرہ نہ کرے ۔

اے شیعہ آل محمد ! جہاں تک ممکن هو خدا سے ڈرو، اس کے بعد ہر قوت و طاقت اللہ ہی کے سہارے هے ۔( کافی 2 ص637 / 2 ، الفقیہ 2 ص 274 /2423 ، المحاسن 2 ص 102 / 270 ، تحف العقول ص 380 ، مستطرفات السرائر 61/ 33) ۔

1279۔ امام صادق (ع)! پروردگار عالم نے تم پر ہماری محبت اور موالات واجب قرار دی هے اور ہماری اطاعت کو فرض قرار دیا هے لہذا جو ہم سے هے اسے ہماری اقتدا کرنی چاہیئے اور ہماری شان ورع و تقویٰ، سعی عمل، ہر شخص کی امانت کی واپسی ، صلہٴ رحم، مہمان نوازی، درگذر هے اور جو ہماری اقتدا نہ کرے وہ ہم سے نہیں هے ۔(اختصاص ص 241) ۔

1280۔ امام کاظم (ع)! وہ ہم سے نہیں هے جو روزانہ اپنے نفس کا حساب نہ کرے کہ اگر عمل اچھا کیاهے تو خدا سے اضافہ کی دعا کرے اور اگر برا کیا هے تو استغفار اور توبہ کرے ۔( کافی 2 ص 453 / 2 ، روایت ابراہیم بن عمریمانی، تحف العقول ص 396 ، اختصاص ص 26 ، 243 ، مشکٰوة الانوار 70 / 247 ، الزہد للحسین بن سعید ص 76 / 203۔

1281۔ امام رضا (ع) ! جو ہم سے قطع تعلق رکھے یا تعلقات رکھنے والے سے قطع تعلق کرلے یا ہماری مذمت کرنے والے کی تعریف کرے یا مخالف کا احترام کرے وہ ہم سے نہیں هے اور ہم بھی اس سے نہیں ہیں۔( صفات الشیعہ 85 / 10 روایت ابن فضال) ۔

1282۔ الہروی! میں نے امام رضا (ع) سے عرض کی کہ فرزند رسول ! ذرا جنت و جہنم کے بارے میں فرمائیے کہ کیا ان کی تخلیق هوچکی هے؟ تو آپ نے فرمایا کہ بیشک ! رسول اکرم شب معراج جنت میں جاچکے هے اور جہنم کو دیکھ چکے ہیں۔

میں نے عرض کی کہ بعض لوگوں کا خیال هے کہ یہ دونوں علم خدا میں ہیں لیکن ان کی تخلیق نہیں هوئی هے ، فرمایا یہ لوگ ہم سے نہیں ہیں اور نہ ہم ان سے ہیں جس نے جنت و جہنم کی خلقت کا انکار کیا اس نے رسول اکرم کو جھٹلایا اور ہماری تکذیب کی اور اس کا ہماری ولایت سے کوئی تعلق نہیں هے اور اس کا ٹھکانا ہمیشہ کے لئے جہنم هے جس کے بارے میں پروردگار نے فرمایاهے کہ ” یہ وہ جہنم هے جس کو مجرمین جھٹلارهے تھے اب اس کے اور کھولتے پانی کے درمیان چکر لگارهے ہیں۔( رحمان 43 ، 44 (توحید 18/21 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 116 / 3 ، احتجاج 2 ص 381 / 286) ۔

اہلبیت(ع) والوں کی ایک جماعت

1۔ ابوذر

1283۔ رسول اکرم ! ابوذر ۔ تم ہم اہلبیت (ع) سے هو۔( امالی طوسی (ر) 525 / 1162 ، مکارم الاخلاق 2 ص 363 / 2661 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 51 روایت ابوذر) ۔

2 ۔ ابوعبیدہ

1284۔ ابوالحسن ! ابوعبیدہ کی زوجہ ان کے انتقال کے بعد امام صادق (ع) کی خدمت میں آئی اور کہا کہ میں اس لئے رورہی هوں کہ انھوں نے غربت میں انتقال کیا هے تو آپ نے فرمایا کہ وہ غریب نہیں تھے، وہ ہم اہلبیت(ع) میں سے ہیں۔( مستطرفات السرائر 40 /4) ۔

3۔ راہب بلیخ

1285۔ حبہ عرنی ! جب حضرت علی (ع) بلیخ نامی جگہ پر فرات کے کنارہ اترے تو ایک راہب صومعہ سے نکل آیا اور اس نے کہا کہ ہمارے پاس ایک کتاب هے جو آباء و اجداد سے وراثت میں ملی هے اور اسے اصحاب عیسیٰ بن مریم نے لکھاهے، میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتاهوں ،فرمایا وہ کہاں هے لاؤ، اس نے کہا اس کا مفهوم یہ هے ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اس خدا کا فیصلہ هے جواس نے کتاب میں لکھ دیا هے کہ وہ مکہ والوں میں ایک رسول بھیجنے والا هے جو انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے گا، اللہ کا راستہ دکھائے گا اور نہ بداخلاق هوگا اور نہ تند مزاج اور نہ بازاروں میں چکر لگانے والا هوگا، وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دے گا بلکہ عفو و درگذر سے کام لے گا، اس کی امت میں وہ حمد کرنے والے هوں گے جو ہر بلندی پر شکر پروردگار کریں گے اور ہر صعود و نزول پر حمد خدا کریں گے، ان کی زبانیں تہلیل و تکبیر کے لئے ہموار هوں گی۔

خدا اسے تمام دشمنوں کے مقابلہ میں امداد دے گا اور جب اس کا انتقال هوگا تو امت میں اختلاف پیدا هوگا، اس کے بعد پھر اجتماع هوگا اور ایک مدت تک باقی رهے گا، اس کے بعد ایک شخص کنارہٴ فرات سے گذرے گا جو نیکیوں کا حکم دینے والا اور برائیوں سے روکنے والا هوگا، حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور اس میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کرے گا ، دنیا اس کی نظر میں تیز و تند هواؤں میں راکھ سے زیادہ بے قیمت هوگی اور موت اس کے لئے پیاس میں پانی پینے سے بھی زیادہ آسان هوگی، اندر خوف خدا رکھتا هوگا اور باہر پروردگار کا مخلص بندہ هوگا خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہ هوگا۔

اس شہر کے لوگوں میں سے جو اس نبی کے دور تک باقی رهے گا اور اس پر ایمان لے آئے اس کے لئے جنت اور رضائے خدا هوگی اور جو اس بندہ نیک کوپالے اس کا فرض هے کہ اس کی امداد کرے کہ اس کے ساتھ قتل شہادت هے اور اب میں آپ کے ساتھ رهوں گا اور ہرگز جدا نہ هوں گا یہاں تک کہ آپ کے ہر غم میں شرکت کرلوں۔

یہ سن کر حضرت علی (ع) رو دیے اور فرمایا کہ خدا کا شکر هے کہ اس نے مجھے نظر انداز نہیں کیا هے اور تمام نیک بندوں کی کتابوں میں میرا ذکر کیا هے ۔

راہب یہ سن کر بے حد متاثر هوا اور مستقل امیر المومنین (ع) کے ساتھ رہنے لگا یہاں تک کہ صفین میں شہید هوگیا تو جب لوگوں نے مقتولین کو دفن کرنا شروع کیا تو آپ نے فرمایا کہ راہب کو تلاش کرو۔ اور جب مل گیا تو آپ نے نماز جنازہ ادا کرکے دفن کردیا اور فرمایا کہ یہ ہم اہلبیت (ع) سے هے اور اس کے بعد بار بار اس کے لئے استغفار فرمایا۔ (مناقب خوارزمی ص 242 ، وقعة صفین ص 147) ۔

4۔ سعد الخیر (ر)

1286۔ابوحمزہ ! سعد بن عبدالملک جو عبدالعزیز بن مروان کی اولاد میں تھے اور امام باقر (ع) ! انھیں سعد الخیر کے نام سے یاد کرتے تھے، ایک دن امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر هوئے اورعورتوں کی طرح گریہ کرنا شروع کردیا۔

حضرت نے فرمایا کہ سعد ! اس رونے کا سبب کیا هے؟

عرض کی ۔ کس طرح نہ روؤں جبکہ میرا شمار قرآن مجید میں شجرہٴ ملعونہ میں کیا گیا هے ۔

فرمایا کہ تم اس میں سے نہیں هو، تم اموی هو لیکن ہم اہلبیت (ع) میں هو۔

کیا تم نے قرآن مجید میں جناب ابراہیم (ع) کا یہ قول نہیں سناهے ۔

” جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے هوگا“ (اختصاص ص 85) ۔

5 ۔ سلمان (ر)

1287 ۔رسول اکرم نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ سلمان (ر) ہم اہلبیت (ع) سے ہیں اور مخلص ہیں لہذا انھیں اپنے لئے اختیار کرلو۔( مسند ابویعلی ٰ 6 ص 177 / 6739 روایت سعد الاسکاف عن الباقر (ع) ، الفردوس 2 ص 337/ 3532) ۔

1288۔ ابن شہر آشوب ! لوگ خندق کھود رهے تھے اور گنگنارهے تھے، صرف سلمان (ر) اپنی دھن میں لگے هوئے تھے اور زبان سے معذور تھے کہ رسول اکرم نے دعا فرمائی ۔

خدایا سلمان (ر) کی زبان کی گروہ کھول دے چاهے دو شعر ہی کیوں نہ هوں چنانچہ سلمان (ر) نے یہ اشعار شروع کردیے ۔

میرے پاس زبان عربی نہیں هے کہ میں شعر کهوں، میں تو پروردگار جو پسندیدہ اور تمام فخر کا حامل هے ۔

اپنے دشمن کے مقابلہ میں اور نبی طاہر کے دشمن کے مقابلہ میں، وہ پیغمبر جو پسندیدہ اور تمام فخر کا حامل هے ۔

تا کہ جنت میں قصر حاصل کرسکوں اور ان حوروں کے ساتھ رهوں جو چاند کی طرح روشن چہرہ هوں۔

مسلمانوں میں یہ سن کر شور مچ گیا اور سب نے سلمان کو اپنے قبیلہ میں شامل کرنا چاہا تو رسول اکرم نے فرمایا کہ سلمان (ر) ہم اہلبیت (ع) سے ہیں ۔( مناقب 1 ص 85) ۔

1289 ۔ رسول اکرم ۔ سلمان (ر) ! تم ہم اہلبیت (ع) سے هو اور اللہ نے تمھیں اول و آخر کا علم عنایت فرمایاهے اور کتاب اول و آخر کو بھی عطا فرمایا هے ۔( تہذیب تاریخ دمشق 6 ص 203 روایت زید بن ابی اوفیٰ) ۔

1290۔ امام علی (ع)! سلمان (ر) نے اوّل و آخر کا سارا علم حاصل کرلیاهے اور وہ سمندر هے جس کی گہرائی کا اندازہ نہیں هوسکتاهے اور وہ ہم اہلبیت(ع) سے ہیں ۔( تہذیب تاریخ دمشق 6 ص 201 روایت ابوالبختری ، امالی صدوق (ر) ص 209 /8 روایت مسیب بن نجیہ، اختصاص ص11 ، رجال کشی (ر) 1 ص 52 / 25 روایت زرار، الطرائف 119 / 183 روایت ربیعہ السعدی، الدرجات الرفیعہ ص 209 روایت ابوالبختری) ۔

1291۔ ابن الکواء ! یا امیر المومنین (ع) ! ذرا سلمان (ر) فارسی کے بارے میں فرمائیے؟ فرمایا کیا کہنا، مبارک هو، سلمان (ر) ہم اہلبیت (ع) سے ہیں، اور تم میں لقمان حکیم جیسا اور کون هے، سلمان (ر) کو اول و آخر سب کا علم هے ۔( احتجاج 1 ص 616 / 139 روایت اصبغ بن نباتہ، الغارات 1 ص 177 روایت ابوعمرو الکندی، تہذیب تاریخ دمشق 6 ص 204) ۔

1292 ۔ امام باقر (ع) ! ابوذر سلمان (ر) کے پاس آئے اور وہ پتیلی میں کچھ پکارهے تھے، دونوں محو گفتگو تھے کہ اچانک پتیلی الٹ گئی اور ایک قطرہ سالن نہیں گرا، سلمان (ر) نے اسے سیدھا کردیا ، ابوذر (ر) کو بے حد تعجب هوا ، دوبارہ پھر ایسا ہی هوا تو ابوذر دہشت زدہ هوکر سلمان (ر) کے پاس سے نکلے اور اسی سوچ میں تھے کہ اچانک امیر المومنین (ع) سے ملاقات هوگئی ۔

فرمایا ابوذر (ر) ! سلمان (ر) کے پاس سے کیوں چلے آئے اور یہ چہرہ پر دہشت کیسی هے!

ابوذر (ر) نے سارا واقعہ بیان کیا ۔

فرمایا ابوذر ! اگر سلمان (ر) اپنے تمام معلم کا اظہار کردیں تو تم ان کے قاتل کے لئے دعائے رحمت کروگے اور ان کی کرامت کو برداشت نہ کرسکوگے ۔

دیکھو! سلمان (ر) اس زمین پر خدا کا دروازہ ہیں، جو انھیں پہچان لے وہ مومن هے اور جو انکار کردے وہ کافر هے ۔ سلمان (ر) ہم اہلبیت(ع) میں سے ہیں ( رجال کشی 1 ص 59 / 33 روایت جابر) ۔

1293۔ حسن بن صہیب امام باقر (ع) کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت کے سامنے سلمان (ر) فارسی کا ذکر آیا تو فرمایا خبردار انھیں سلمان (ر) فارسی مت کهو، سلمان (ر) محمد ی کهو کہ وہ ہم اہلبیت(ع) میں سے ہیں ۔( رجال کشی 1 ص 54 / 26 ، 71 / 42 روایت محمد بن حکیم، روضة الواعظین ص 310) ۔

6 ۔ عمر بن یزید

1294۔ عمر بن یزید ! امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابن یزید ! خدا کی قسم تم ہم اہلبیت (ع) سے هو، میں نے عرض کیا ، میں آپ پر قربان ، آل محمد سے؟ فرمایا بیشک انھیں کے نفس سے؟

عرض کیا کہ انھیں کے نفس سے؟ فرمایا بیشک انھیں کے نفس سے ! کیا تم نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی هے” یقیناً ابراہیم سے قریب تر ان کے پیرو تھے اور پھر یہ پیغمبر اور صاحبان ایمان ہیں اور اللہ صاحبان ایمان کا سرپرست هے“ آل عمران نمبر 68۔

اور پھر یہ ارشاد الہی ” جس نے میرا ا تباع کیا وہ مجھ سے هے اور جس نے نافرمانی کی تو بیشک خدا غفور رحیم هے ۔ ابراہیم آیت 36 (امالی طوسی (ر) 45 / 53 ، بشارة المصطفیٰ ص 68) ۔

7 ۔ عیسیٰ بن عبداللہ قمی

1295۔ یونس ! میں مدینہ میں تھا تو ایک کوچہ میں امام صادق (ع) کا سامنا هوگیا، فرمایا یونس ! جاؤ دیکھو دروازہ پر ہم اہلبیت (ع) میں سے ایک شخص کھڑا هے میں دروازہ پر آیا تو دیکھا کہ عیسیٰ بن عبداللہ بیٹھے ہیں، میں نے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں۔

فرمایا میں قم کا ایک مسافر هوں

ابھی چند لمحہ گذرے تھے کہ حضرت تشریف لے آئے اور گھر میں مع سواری کے داخل هوگئے ۔

پھر مجھے دیکھ کر فرمایا کہ دونوں آدمی اندر آو اور پھر فرمایا یونس ! شائد تمھیں میری بات عجیب دکھائی دی هے ۔

دیکھو عیسیٰ بن عبداللہ ہم اہلبیت (ع) سے ہیں ۔

میں نے عرض کی میری جان قربان یقیناً مجھے تعجب هوا هے کہ عیسیٰ بن عبداللہ تو قم کے رہنے والے ہیں ۔ یہ آپ کے اہلبیت (ع) میں کس طرح هوگئے ۔

فرمایا یونس ! عیسیٰ بن عبداللہ ہم میں سے ہیں زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ۔( امالی مفید 140 /6 ، اختصاص ص 68 ، رجا ل کشی 2 ص 624/ 607) ۔

1296 ۔ یونس بن یعقوب ! عیسیٰ بن عبداللہ امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر هوئے اور پھر جب چلے گئے تو آپ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ انھیں دوبارہ بلاؤ۔

اس نے بلایا اور جب آگئے تو آپ نے انھیں کچھ وصیتیں فرمائیں اور پھر فرمایا، عیسیٰ بن عبداللہ ! میں نے اس لئے نصیحت کی هے کہ قرآن مجید نے اہل کو نماز کا حکم دینے کا حکم دیاهے اور تم ہمارے اہلبیت (ع) میں هو۔

دیکھو جب آفتاب یہاں سے یہاں تک عصر کے ہنگام پہنچ جائے، تو چھ رکعت نماز ادا کرنا اور یہ کہہ کر رخصت کردیا اور پیشانی کا بوسہ بھی دیا ، ( اختصاص ص 195 ، رجال کشی 2 ص 625 / 610) ۔

8 ۔ فضیل بن یسار

1297 ۔ امام صادق (ع) ! خدا فضیل بن یسار پر رحمت نازل کرے کہ وہ اہلبیت (ع) سے تھے ۔( الفقیہ 4 ص 441 ، رجال کشی 2 ص 473 / 381 روایت ربعی بن عبداللہ فضیل بن یسار کے غسل دینے والے کے حوالہ سے!۔

9 ۔ یونس بن یعقوب

1298۔ یونس بن یعقوب! مجھ سے امام صادق (ع) یا امام رضا (ع) نے کوئی مخفی بات بیان کی اور پھر فرمایا کہ تم ہمارے نزدیک متہم نہیں هو، تم ایک شخص هو جو ہم اہلبیت (ع) سے هو، خدا تمھیں رسول اکرم اور اہلبیت (ع) کے ساتھ محشور کرے اور خدا انش ایسا کرنے والا هے ۔( رجال کشی 2 ص 685 / 724) ۔

والحمدللہ ربا لعالمین

28 ۔ ربیع الاول 1418ء ھ

فہرست مآخذ و مدارک

 1۔ اتحاف السادة المتقین بشرح احیاء علوم الدین ابوالفیض محمد بن محمد الحسینی الزبیدی (متوفیٰ 1205ء ھ) ۔

2 ۔ اثبات الوصیة للامام علی بن ابی طالب (ع) ابوالحسن علی بن الحسین المسعودی ( متوفیٰ 346 ء ھ) ۔

3۔ اثبات الہداة الشیخ محمد بن الحسن الحر العاملی (متوفیٰ 1104 ء ھ) ۔

4۔ الاحتجاج علی اہل اللجاج ابو منصور احمد بن علی بن ابی طالب الطبرسی ( متوفیٰ 620 ء ھ) ۔

5۔ احقاق الحق و ازہاق الباطل قاضی نور اللہ بن السید الشریف اللہ (متوفیٰ 1019 ء ھ) ۔

6۔ احیاء علوم الدین ابوحامد محمد بن الغزالی (متوفیٰ 505ء ھ) ۔

7۔ الاخبار الطوال ابوحنیفہ احمد بن داود الدنیوری (متوفیٰ 282ء ھ) ۔

8 ۔ الاختصاص ابوعبداللہ محمد بن النعمان العکبری المفید(متوفیٰ 3 1 4 ء ھ) ۔

9۔ اختیار معرفة الرجال(رجا ل کشی) ابوجعفر محمد بن الحسن (شیخ طوسی (ر)) (متوفی 460ء ھ) ۔

10۔ الادب المفرد ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری ( متوفیٰ 256ء ھ) ۔

11۔ ارشاد القلوب ابومحمد الحسن بن ابی الحسن الدیلمی (متوفیٰ 711 ء ھ) ۔

12۔ الارشاد فی معرفة حجج اللہ علی العباد ابوعبداللہ محمد بن محمد بن النعمان الشیخ المفید (متوفیٰ 413 ء ھ) ۔

13۔ اسباب نزول القرآن ابوالحسن علی بن احمد الواحدی النیشاپوری (متوفیٰ 468 ء ھ) ۔

14۔ الاستبصار فیما اختلف من الاخبار ابوجعفر محمد بن الحسن الطوسی (متوفیٰ 460ء ھ) ۔

15۔ الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ابوعمر یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر القرطبی (متوفیٰ 363ء ھ) ۔

16۔ اسدالغابہ فی معرفة الصحابہ نحر الدین علی بن ابی الکرم محمد بن محمد بن عبدالکریم الشیبانی (متوفیٰ 630ئھ) ۔

17۔ الاصابتہ فی تمییز الصحابہ ابوالفضل احمد بن علی بن الحجر العسقلانی (متوفی 852ء ھ) ۔

18۔ الاصول الستہ عشر دارالشبستری

19۔ الاعتقادات و تصحیح الاعتقادات محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی الصدوق (ر) ( متوفی 381 ء ھ) ۔

20۔ اعلام الدین فی صفات المومنین الحسن بن ابی الحسن الدیلمی (متوفی 711 ء ھ) ۔

21 ۔ اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ ابوعلی الفضل بن الحسن الطبرسی (متوفی 845 ء ھ) ۔

22۔ اعیان الشیعہ السید محسن بن عبدالکریم الامین الحسینی العالمی (متوفی 1371ء ھ) ۔

23۔ اقبال الاعمال الحسنہ فیما یعمل مرة فی السنہ علی بن موسی الحلی (ابن طاؤس) (متوفیٰ 664ء ھ) ۔

24۔ امالی الشجری یحییٰ بن الحسین الشجری(متوفی 499ء ھ) ۔

25۔ امالی صدوق محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی (متوفیٰ 381ء ھ) ۔

26۔ امالی الطوسی محمد بن الحسن الشیخ الطوسی (متوفیٰ 460ء ھ) ۔

27۔ امالی المفید محمد بن النعمان العکبری شیخ مفید (متوفیٰ 314 ء ھ) ۔

28۔ الامامة والتبصرہ من الحیرة علی بن الحسین بن بابویہ القمی (متوفیٰ 329 ھ) ۔

29۔ الامامة واہل البیت محمد بتیوی دہران

30۔ انساب الاشراف احمد بن یحیئ بن جابر البلاذری (متوفی 279ء ھ) ۔

31۔ بحار الانورا الجامعة الدرر اخبار الائمة الاطہار محمد باقر بن محمد تقی المجلسی (متوفیٰ 1110 ء ھ) ۔

32۔ البدایة والنہایة ابوالفداء اسماعیل بن کثیر الدمشقی (متوفی 774ء ھ) ۔

33۔ بشارة المصطفیٰ لشیعة المرتضی ابوجعفر محمد بن محمد بن علی الطبری (متوفیٰ 525ء ھ) ۔

34۔ بصائر الدرجات ابوجعفر محمد بن الحسن الصفار القمی (متوفی 290 ء ھ) ۔

35۔ بلاغات النساء ابوالفضل احمد بن ابی طاہر ” ابن طینور“ متوفی 280 ء ھ) ۔

36۔ البلد الامین تقی الدین ابراہیم بن زین الدین الحارثی الکفعمی (متوفی 905 ء ھ) ۔

37۔ التاج الجامع الاصول فی احادیث الرسول منصور بن علی تاصیف معاصر

38۔ تاج العروس من جواہر القاموس السید محمد بن محمد مرتضیٰ الحسینی الزبیدی (متوفیٰ 1205ء ھ) ۔

39۔ تاریخ اصفہان ابونعیم احمد بن عبداللہ الاصفہانی ( متوفیٰ 430ء ھ) ۔

40۔ تاریخ الاسلام و فیات المشاہیر والاعلام محمد بن احمد الذہبی (متوفیٰ 748ء ھ) ۔

41۔ تاریخ الخلفاء جلال الدین عبدالرحمان بن ابی بکر السیوطی ( متوفی 911 ء ھ) ۔

42۔ تاریخ الطبری العلم والملوک ابوجعفر محمد بن جریر الطبری (متوفی 310 ء ھ) ۔

43۔ التاریخ الکبیر ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری ( متوفی 256 ء ھ) ۔

44۔ تاریخ الیعقوبی احمد بن ابی یعقوب بن جعفر بن وہب بن واضح (متوفی 284 ھ) ۔

45۔ تاریخ بغداد او مدنیة السلام ابوبکر احمد بن علی الخطیب البغدادی (متوفیٰ 463 ء ھ) ۔

46۔ تاریخ جرجان ابوالقاسم حمزہ بن یوسف السہمی (متوفیٰ 428 ء ھ) ۔

47۔ تاریخ دمشق ترجمة الامام الحسین (ع) ابوالقاسم علی بن الحسین بن ہبة اللہ ” ابن عساکر“ (متوفیٰ 571 ء ھ) ۔

48۔ تاریخ دمشق ترجمة الامام علی (ع) ابوالقاسم علی بن ا لحسین بن ہبة اللہ ( متوفیٰ 571 ء ھ) ۔

49۔ تاریخ دمشق ابوالقاسم علی بن الحسین بن ہبةاللہ (متوفیٰ 571ء ھ) ۔

50۔ تاریخ دمشق ترجمة الامام الحسن (ع) ابوالقاسم علی بن الحسین بن ہبة اللہ (متوفیٰ 571ء ھ) ۔

51۔ تاریخ واسط

52۔ تاویل الآیات الظاہرة فی فضائل العترة الطاہرہ علی الغروی الاستر آبادی معاصر

53۔ ” تفسیر “ ابوجعفر محمد بن الحسن الطوسی(متوفیٰ 460 ء ھ) ۔

54۔ التحصین فی صفات العارفین من العزلة والخمول ابوالعباس احمد بن محمد بن فہد الحلی الاسدی (متوفی 841ء ھ) ۔

55۔ تحف العقول عن آل الرسول ابومحمد الحسن بن علی الحرانی ” ابن شعبہ“ (متوفیٰ 381ئھ) ۔

56۔ تدوین السنتہ الشریفہ محمد رضا الحسینی الجلالی (متوفی 1325ء ھ) ۔

57۔ تذکرة الخواص یوسف بن قرغلی بن عبداللہ”سبط ابن الجوزی“(متوفیٰ 654ئھ) ۔

58۔ الترغیب و الترہیب من الحدیث الشریف عبدالعظیم بن عبدالقوی المنذری الشامی (متوفیٰ 656 ء ھ) ۔

59۔ تفسیر ابن کثیر ابوالفدا اسماعیل بن کثیر البصروی الدمشقی (متوفیٰ 774ء ھ) ۔

60۔ تفسیر البرہان ہاشم بن سلیمان البحرانی (متوفی 1107ء ھ) ۔

61۔ تفسیر طبری ( جامع البیان فی تفسیر القرآن ) محمد بن جریر الطبری(متوفیٰ 310ئھ) ۔

62۔ تفسیر العیاشی ابوالنضر محمد بن مسعود السلمی السمرقندی ( متوفی 320ء ھ) ۔

63۔ تفسیر القمی ابوالحسن علی بن ابراہیم بن ہاشم (متوفی 307ئھ) ۔

64۔ تفسیر الکشاف ابوالقاسم جار اللہ محمود بن عمر الزمخشری (متوفی 538ئھ) ۔

65۔ تفسیر امام عسکری (ع)

66۔ تفسیر الفخر الرازی مفاتیح الغیب ابوعبداللہ محمد بن عمر (متوفی 604ء ھ) ۔

67۔ تفسیر فرات الکوفی ابوالقاسم فرات بن ابراہیم بن فرات (متوفی قرن چہارم) ۔

68۔ تفسیر مجمع البیان ابوعلی الفضل بن الحسن الطبرسی ( متوفی 548 ھ) ۔

69۔ تفسیر المیزان علامہ محمد حسین طباطبائی (متوفی 1402ھ) ۔

70۔ تفسیر نور الثقلین شیخ عبد علی بن جمعہ الحویزی (متوفیٰ 1112 ء ھ) ۔

71۔ تلخیص الجیرفی تخریج احادیث الرافعی الکبیر ابوالفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی (متوفیٰ 777ئھ) ۔

72۔ التمحیص ابوعلی محمد بن ہمام اسکافی(متوفی 336ء ھ) ۔

73۔ تنبیہ الخواطر و نزہة النواظر ابوالحسین ورام بن ابی فراس (متوفی 605ء ھ) ۔

74۔ تنقیح المقال فی علم الرجال شیخ عبداللہ بن محمد بن حسن الماہقانی (متوفی 1351ء ھ) ۔

75۔ التوحید ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ قمی (متوفی 381ئھ) ۔

76۔ تہذیب الاحکام فی شرح المقنعہ ابوجعفر محمد بن الحسن الطوسی (متوفی 460 ئھ) ۔

77۔ تہذیب التہذیب ابوالفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی (متوفی 852 ھ) ۔

78۔ تہذیب الکمال فی اسماء الرجال یونس بن عبدالرحمن المزی (متوفی 742 ئھ) ۔

79۔ تہذیب تاریخ دمشق الکبیر ابوالقاسم علی بن الحسین بن ہبة اللہ ” ابن عساکر“ (متوفی 571 ء ھ) ۔

80۔ الثاقب فی المناقب ابوجعفر محمد بن علی بن حمزہ الطوسی (متوفیٰ 560 ء ھ) ۔

81۔ الثقات ابوحاتم محمد بن حبان البستئ التمیمی (متوفیٰ 354 ء ھ) ۔

82۔ ثواب الاعمال و عقاب الاعمال ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابوبہ ( متوفیٰ 381ء ھ) ۔

83۔ جامع الاحادیث ابومحمدجعفربن احمدبن علی القمی”ابن الرازی“(متوفی قرن چہارم) ۔

84۔ جامع الاخبار (معارج الیقین فی اصول الدین) محمد بن محمد الشعیری السبزواری (متوفیٰ قرن ہفتم) ۔

85۔ جامع الاصول فی احادیث الرسول ابوالسعادات مجد الدین المبارک بن محمد بن محمد الجزری(متوفی 606ء ھ) ۔

86۔ الجامع الصغیر فی احادیث البشیر النذیر جلال الدین عبدالرحمان بن ابی بکر السیوطی(متوفی 911 ء ھ) ۔

87۔ الجرح والتعدیل محمد بن ادریس بن منتذر الرازی (متوفیٰ 327 ء ھ) ۔

88۔ الجعفریات (الاشعثیّات) ابوالحسن محمد بن محمد بن الاشعث الکوفی (متوفیٰ قرن چہارم) ۔

89۔ جمال الاسبوع بکمال العمل المشروع ابوالقاسم علی بن موسیٰ الحلی ” ابن طاؤس“ (متوفی 664ھ) ۔

90۔ الجمل والنصرة لسید العترة فی حرب البصرة ابوعبداللہ محمد بن نعمان العکبری ”مفید“ (متوفی 413ئھ) ۔

91۔ جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام شیخ محمد حسن النجفی (متوفی 1266ء ھ) ۔

92۔ الحادی للفتاویٰ جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی (متوفی 911 ء ھ) ۔

93۔ حلیة الاولیاء و طبقات الاصفیاء ابونعیم احمد بن عبداللہ الاصفہانی (متوفی 430 ء ھ) ۔

94۔ الخرائج والجرائح ابوالحسین سعید بن عبداللہ الراوندی ”قطب الدین“ (متوفیٰ 573 ھ) ۔

95۔ خصائص الائمہ الشریف الرضی محمد بن الحسین بن موسیٰ ( متوفیٰ 406 ء ھ) ۔

96۔ خصائص الامام امیر المومنین (ع) ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب النسائی (متوفیٰ 303ء ھ) ۔

97۔ الخصال ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی (متوفیٰ 381ئھ) ۔

98 ۔ الدرالمنثور فی التفسیر الماثر جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی (متوفی 911 ء ھ) ۔

99۔ درد الاحادیث النبویہ یحیئ بن الحسین(متوفیٰ 298ء ھ) ۔

100۔ الدروع الواقیہ ابوالقاسم علی بن موسیٰ الحلّی (ابن طاؤس) (متوفیٰ 664ء ھ) ۔

101۔ الدرّة الباہرة من الاصداف الطاہرة ابوعبداللہ محمد بن المکی العاملی (متوفیٰ 786 ء ھ) ۔

102۔ دعائم الاسلام و ذکر الحلال والحرام ابوحنیفہ النعمان بن محمد بن منصور بن احمد المغربی ( متوفی 362 ء ھ) ۔

103۔ الدعوات ابولحسین سعید بن عبداللہ الراوندی (متوفیٰ 573ء ھ) ۔

104۔ دلائل الامامہ ابوجعفر محمد بن جریر الطبری(متوفیٰ 310 ء ھ) ۔

105۔ الدمعة الساکبہ فی احوال النبی والعترة الطاہرة محمد باقر بن عبدالکریم بہبہانی (متوفیٰ 1285ئھ) ۔

106۔ ذخائر العقبئٰ فی مناقب ذوی القربیٰ ابوالعباس احمد بن عبداللہ الطبری (متوفیٰ 693 ھ) ۔

107۔ ربیع الابرار و خصول الاخبار ابوالقاسم محمود بن عمر الزمخشری (متوفیٰ 538ئھ) ۔

108۔ رجال طوسی ابوجعفر محمد بن الحسن الطوسی (متوفیٰ 460ئھ) ۔

109۔ رجال العلامة الحلی(خلاصةالاقوال) جمال الدین الحسن بن یوسف بن علی بن المطہر الحلی(متوفیٰ 726 ھ) ۔

110۔ رجال نجاشی ( فہرس اسماء مصنفی الشیعہ) ابوالعباس احمد بن علی النجاشی (متوفیٰ 450ء ھ) ۔

111۔ رجال البرقی ابوجعفر احمد بن محمد البرقی الکوفی ( متوفیٰ 274ء ھ) ۔

112۔ روح المعانی ابوالفضل شہاب الدین السید محمود الالوسی ( متوفیٰ 1270ء ھ) ۔

113۔ روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات سید محمد باقر الخوانساری الاصفہانی (متوفی 1313ء ھ) ۔

114۔ روضة الواعظین محمد بن الحسن بن علی الفتال النیشاپوری (متوفی 508ھ) ۔

115۔ الزہد ابوعبدالرحمن بن عبداللہ بن المبارک المروزی (متوفیٰ 181 ء ھ)

116۔ الزہد ابومحمد الحسین بن سعید الکوفی (متوفیٰ 250 ئھ) ۔

117۔ السرائر الحادی لتحریر الفتاویٰ ابوجعفر محمد بن منصور بن احمد بن ادریس الحلی(متوفیٰ 598 ء ھ) ۔

118۔ سعد السعود ابوالقاسم علی بن موسی الحلی ( ابن طاوس)(متوفیٰ 664 ئھ) ۔

119۔ سفینة البحار شیخ عباس قمی (متوفی 1359ھ) ۔

120۔ سلسلة الاحادیث الصحیحہ محمد ناصر الدین الالبافی (معاصر) ۔

121۔ سنن ابن ماجہ ابو عبداللہ محمد بن یزید بن ماجہ قزوینی (متوفیٰ 275 ھ) ۔

122۔ سنن ترمذی ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سودہ ترمذی (متوفیٰ 297 ھ) ۔

123۔ سنن الدار قطنئ ابوالحسن علی بن عمر البغدادی ” دار قطنئ“ متوفی 285 ء ھ) ۔

124۔ سنن الدارمی ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی (متوفی 255 ھ) ۔

125۔ السنن الکبریٰ ابوبکر احمد بن الحسین بن علی البیہقی (متوفیٰ 458 ھ) ۔

126۔ سنن النسائی ابوعبد الرحمن احمد بن شعیب النسائی (متوفیٰ 303ء ھ) ۔

127۔ سنن ابی داؤد ابوداؤد سلیمان بن اشعث السجستانی (متوفیٰ 275 ء ھ) ۔

128۔ السنتہ ابوبکر احمد بن عمرو بن ابی عام الشیبانی (متوفیٰ 278 ئھ) ۔

129۔ سیر اعلام النبلاء ابوعبداللہ محمد بن احمد الذہبی (متوفیٰ 748 ھ) ۔

130۔ سیرة ابن ہشام ابومحمد عبدالملک بن ہشام بن ایوب الحمیری (متوفیٰ 218 ئھ) ۔

131۔ شذرات الذہب فی اخبار من ذہب ابوالفلاح عبدالحی بن احمد العکری ” ابن العما“ (متوفی 1089ئھ) ۔

132۔ شرح اصول کافی صدر الدین محمد بن ابراہیم الشیرازی ”ملاصدرا“ (متوفیٰ 1050ء ھ) ۔

133۔ شرح الاخبار فی فضائل الائمة الاطبار ابوحنیفہ قاضی نعمان بن محمد المصری (متوفیٰ 303ء ھ) ۔

134۔ شرح نہج البلاغہ غر الدین عبدالحمید بن محمد بن ابی الحدید المعتزلی (متوفیٰ 656ئھ) ۔

135۔ شعب الایمان ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی (متوفیٰ 458 ھ) ۔

136۔ شواہد التنزیل لقواعد التفضیل ابوالقاسم عبیداللہ بن عبداللہ نیشاپوری ”حاکم حسکانی“(متوفیٰ قرن پنجم) ۔

137۔ صحیح البخاری ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری (متوفیٰ256ئھ) ۔

138۔ صحیح مسلم ابوالحسین مسلم بن الحجاج القشیری (متوفیٰ 261 ئھ) ۔

139۔ صحیفة ا لامام الرضا (ع) منسوب بامام رضا (ع)

140۔ الصحیفة السجادیہ امام زین العابدین (ع)

141۔ الصراط المستقیم الی مستحقی التقدیم زین الدین ابو محمد علی بن یونس النباطی البیاضی(متوفیٰ 778ئھ) ۔

142۔ صفات الشیعہ ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ (متوفیٰ 381 ء ھ) ۔

143۔ صفة الصفوة ابوالفرج جمال الدین عبدالرحمٰن بن علی بن محمد ” ابن الجوزی“(متوفیٰ 597ئھ)

144۔ الصواعق المحرقہ فی الرد علی اہل البدع والزندقہ ۔ احمد بن حجر الہیثمی المکی (متوفی 974ء ھ) ۔

145۔ ضیافة الاخوان و ہدیة الخلان رضی الدین محمد بن الحسن القزوینی(متوفیٰ 1096ء ھ) ۔

146۔ الطبقات الکبریٰ محمد بن سعد الکاتب الواقدی (متوفیٰ 230 ئھ) ۔

147۔ الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف ابوالقاسم رضی الدین علی بن موسی بن طاؤس الحسنئ(متوفی 664ئھ) ۔

148۔ عدة الداعی و نجاة الساعی ابوالعباس احمد بن محمد بن فہد الحلی (متوفیٰ 841 ء ھ) ۔

149۔ العقد الفرید ابوعمر احمد بن محمد بن عبدر بہ الاندلسی (متوفی 328 ء ھ) ۔

150۔ علل الشرائع ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ قمی (متوفی 381 ء ھ) ۔

151۔ العلل و معرفة الرجال ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی (متوفی 241 ء ھ) ۔

152۔ عمدة عیون صحاح الاخبار فی مناقب امام الابرار ۔ یحییٰ بن الحسن الاسدی الحلی ” ابن بطریق “ (متوفیٰ 600ئھ) ۔

153۔ عوالی اللئالی العزیزیہ فی احادیث الدنییة محمد بن علی بن ابراہیم الاحسائی” ابن ابی جمهور“ (متوفیٰ 940 ئھ) ۔

154۔ عیون الاخبار ابومحمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ الدنیوری(متوفی 276ئھ) ۔

155۔ عیون الاخبارالرضا (ع) ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی (متوفی 381ء ھ) ۔

156۔ الغارت ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن سعید” ابن ہلال الثقفی“ (متوفی 283ئھ) ۔

157۔ الغدیر فی الکتاب والسنة والادب علامہ شیخ عبدالحسین احمد امینی (متوفی 1390ء ھ) ۔

158۔ غرر الحکم و درر الکلم عبدالواحد الآمدی التمیمی (متوفی 550 ئھ) ۔

159۔ الغیبتہ ابوجعفر محمد بن الحسین بن علی بن الحسن الطوسی(متوفیٰ 460ئھ) ۔

160۔ الغیبتہ ابوعبداللہ محمد بن ابراہیم بن جعفر الکاتب النعمانی (متوفیٰ 350ء ھ) ۔

161۔ فتح الابواب ابوالقاسم علی بن موسیٰ بن طاؤس الحلی(متوفی 664ئھ) ۔

162۔ الفتوح ابومحمد احمد بن اعثم کوفی (متوفی 314ء ھ) ۔

163۔ الفخری فی انساب الطالبین اسماعیل بن الحسین الروزی(متوفیٰ 514 ئھ) ۔

164۔ فرائد السمطین ابراہیم بن محمد بن الموید بن عبداللہ الجوینی(متوفیٰ 730ئھ) ۔

165۔ الفرج بعد الشدّة ابوالقاسم علی بن محمد التنوفی(متوفی 384 ھ) ۔

166۔ الفردوس بماثور الخطاب ابوشجاع شیروید بن شہر دار الدیلمی (متوفیٰ 509ئھ) ۔

167۔ الفصول المختارہ من العیون والمحاسن ابوالقاسم علی بن الحسین الموسوی”شریف مرتضیٰ“ (متوفی 436ئھ) ۔

168۔ الفصول المہمہ فی معرفة احوال الائمہ علی بن محمد بن احمد المالکی ” ابن الصباغ“ (متوفیٰ 855ء ھ) ۔

169۔ فضائل الشیعہ ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی(متوفیٰ 381ئھ) ۔

170۔ فضائل الصحابہ ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل (متوفیٰ 241 ء ھ) ۔

171۔ الفضائل ابوالفضل سدید الدین شاذان بن جبرئیل القمی (متوفیٰ 660ء ھ) ۔

172۔ فقہ الرضا (ع) منسوب الی الامام الرضا (ع)

173۔ الفقیہ ( من لا یحضرہ الفقیہ) ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ (متوفیٰ 381ء ھ) ۔

174۔ فلاح السائل ابوالقاسم علی بن موسیٰ بن طاؤس الحلی ( متوفیٰ 664ء ھ) ۔

175۔ الفہرست ابوجعفر محمد بن الحسن ” الشیخ الطوسی“ (متوفیٰ 460ئھ) ۔

176۔ فوات الوفیات محمد بن شاکر الکتبئ(متوفیٰ 764ء ھ) ۔

177۔ قاموس الرجال فی تحقیق رواة الشیعہ و محدثہم شیخ محمد تقی بن کاظم التستری (متوفیٰ 1320ء ھ) ۔

178۔ قرب الاسناد ابوالعباس عبداللہ بن جعفر الحمیری (متوفیٰ بعد 304ئھ) ۔

179۔ کافی ثقة الاسلام محمد بن یعقوب الکلینئ (متوفیٰ 329 ئھ) ۔

180۔ کامل الزیارات ابوالقاسم جعفر بن محمد بن قولویہ (متوفیٰ 367 ھ) ۔

181۔ الکامل فی التاریخ ابوالحسن علی بن محمد الشیبانی الموصلی ” ابن اثیر“ (متوفیٰ 630ء ھ) ۔

182۔ الکامل فی ضعفاء الرجال ابواحمد عبداللہ بن عدی الجرجانی ” ابن عدی“ (متوفیٰ 365ء ھ) ۔

183۔ کتاب سلیم بن قیس سلیم بن قیس الہلالی العامری (متوفی 90 ئھ) ۔

184۔ کشف الخفاء و مزیل الالباس ابوالفداء اسماعیل بن محمد العجلونی (متوفی 1162ء ھ) ۔

185۔ کشف الغمہ فی معرفة الائمہ علی بن عیسیٰ الاربلی (متوفی 687ء ھ) ۔

186۔ کفایة الاثر فی النص علی الائمة لاثنا عشر ابوالقاسم علی بن محمد بن علی الخزاز القمی (متوفی قرن چہارم) ۔

187۔ کفایتہ الطالب فی مناقب علی بن ابی طالب (ع) ابوعبداللہ محمد بن یوسف بن محمد الگنجی الشافعی ( متوفی 658ء ھ) ۔

188۔ کمال الدین و تمام النعمة ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ (متوفیٰ 381ئھ) ۔

189۔ کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال علاء الدین علی المتقی بن حسام الدین الہندی (متوفی 975ء ھ) ۔

190۔ کنز الفوائد ابوالفتح محمد بن علی بن عثمان الکراجکی(متوفیٰ 449ء ھ) ۔

191۔ لسان العرب ابوالفضل جمال الدین محمد بن مکرم بن منظور المصری (متوفی 711 ء ھ) ۔

192۔ لسان المیزان ابوالفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی (متوفی 852ء ھ) ۔

193۔ مائتہ من مناقب امیر المومنین (ع) و الائمة من ولدہ ابوالحسن محمد بن احمد بن علی بن شاذان القمی( متوفی ٰ قرن پنجم) ۔

194۔ المبسوط فی فقہ الامامیہ ابوجعفر محمد بن الحسن الطوسی ( متوفیٰ 460 ء ھ) ۔

195۔ مشیر الاحزان و منیر سبل الاشجان ابوابراہیم محمد بن جعفر الحلی ” ابن نما“ (متوفیٰ 645ھ) ۔

196۔ مجمع البحرین فخر الدین الطریحی (متوفیٰ 1085 ئھ) ۔

197۔ مجمع البیان فی تفسیر القرآن ابوعلی الفضل بن الحسن الطبرسی (متوفی 548ھ) ۔

198۔ مجمع الزوائد و منبع الفوائد نور الدین علی بن ابی بکر الھیثمی ( متوفی ٰ 807ء ھ) ۔

199۔ المحاسن ابوجعفر احمد بن محمد بن خالد البرقی (متوفی ٰ 280 ء ھ) ۔

200۔ مختصر بصائر الدرجات حسن بن سلیمان الحسنئ (قرن نہم) ۔

201۔ مدینة المعاجز شیخ ہاشم بن سلیمان البحرانی (متوفیٰ 1107ئھ) ۔

202۔ مروج الذہب و معاون الجوہر ابوالحسن علی بن الحسین المسعودی(متوفیٰ 346ئھ) ۔

203۔ مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل الحاج میرزا حسین النوری (متوفی 1320ھ) ۔

204۔ المستدرک علی الصحیحین ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم النیشاپوری (متوفی 405 ئھ) ۔

205۔ مسند اسحاق بن راهویہ ابویعقوب اسحاق بن ابراہیم الخنطلی المروزی (متوفی 238 ء ھ) ۔

206۔ مسند الامام زید منسوب بہ زید بن علی بن الحسین (ع) ( متوفی 122 ء ھ) ۔

207۔ مسند الشہاب ابوعبداللہ محمد بن سلامہ القضاعی(متوفی 454ئھ) ۔

208۔ مسند ابوداؤد الطیالسی سلیمان بن داؤد ابی رود البصری (متوفی 308ئھ) ۔

209۔ مسند ابویعلی الموصلی احمد بن علی بن المثنئ التمیمی (متوفی 307ھ) ۔

210۔ مسند احمد احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی (متوفی 241 ء ھ) ۔

211۔ مشارق انوار الیقین فی اسرار امیر المومنین (ع) رجب البرسی

212۔ مشکوٰة الانوار فی غرر الاخبار ابوالفضل علی الطبرسی( قرن ہفتم) ۔

213۔ مشکل الآثار ابوجعفر احمد بن محمد الازدی الطحاوی (متوفیٰ 321ء ھ) ۔

214۔ مصادقةا لاخوان ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بایوبہ

215۔ مصباح الشریعة ومفتاخ الحقیقہ منسوب بہ امام جعفر صادق (ر)

216۔ مصباح المتہجد ابوجعفر محمد بن الحسن بن علی بن الحسن الطوسی (متوفی 460ئھ) ۔

217۔ المصنف فی الاحادیث والآثار ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ العبسی ( متوفی 235 ئھ) ۔

218۔ المصنف ابوبکر عبدالرزاق بن ہمام الصفانی ( متوفی 211 ئھ) ۔

219۔ مطالب السئول فی مناقب آل الرسول کمال الدین محمد بن طلحہ الشافعی (متوفی 654 ھ) ۔

220۔ معانی الاخبار ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی (متوفی 381 ئھ) ۔

221۔ المعجم الاوسط ابوالقاسم سلیمان بن احمد الخمی الطبرانی (متوفیٰ 360 ء ھ) ۔

222۔ معجم البلدان ابوعبداللہ شہاب الدین یاقوت بن عبداللہ الحموی (متوفیٰ 626 ء ھ) ۔

223۔ معجم الثقات و ترتیب الطبقات ابوطالب التجلیل التبریزی (معاصر) ۔

224۔ المعجم الصغیر ابوالقاسم سلییمان بن احمد اللخمی ( متوفی 360 ء ھ) ۔

225۔ المعجم الکبیر ابوالقاسم سلیمان بن احمد اللخمی (متوفیٰ 360ء ھ) ۔

226۔ معجم احادیث الامام المہدی (ع) الہیة العلمیة فی موسسة المعارف الاسلامیہ ۔

227۔ معجم رجال الحدیث السید ابوالقاسم بن علی اکبر الخوی (معاصر) ۔

228۔ مقاتل الطالبین علی بن الحسین بن محمد الاصفہانی (متوفی 356 ء ھ) ۔

229۔ مقتل الحسین (ع) ابومخنف لوط بن یحییٰ الازدی الکوفی ( متوفیٰ 157 ئھ) ۔

230۔ مقتل الحسین موفق بن احم المکی الخوارزمی (متوفی 568 ء ھ) ۔

231۔ المقنع فی الامامة عبید اللہ بن عبداللہ الاسد آبادی( قرن پنجم) ۔

232۔ المقنعہ ابوعبداللہ محمد بن محمد النعمان العکبری شیخ مفید (ر) (متوفیٰ 413ء ھ) ۔

233۔ مکاتیب رسول علی بن حسین علی الاحمدی المیانجی ( معاصر) ۔

234۔ مکارم الاخلاق ابوعلی الفضل بن الحسن الطبرسی (متوفی ٰ 548ء ھ) ۔

235۔ الملاحم والفتن ابوالقاسم علی بن موسی الحلی ” ابن طاؤس“ (متوفی 664 ء ھ) ۔

236۔ الملهوف علی قتلی الطفوف ابوالقاسم علی بن موسی الحلی ( متوفی 664ء ھ) ۔

237۔ مناقب آل ابی طالب (ع) (ابوجعفر رشید الدین محمد بن علی بن شہر آشوب المازندرانی (متوفی 588ئھ) ۔

238۔ مناقب الامام امیر المومنین (ع) محمد بن سلیمان الکوفی ( متوفی 300ء ھ) ۔

239۔ المناقب ابوالحسین علی بن محمد بن محمد الواسطی ” ابن المغازلی“ (متوفیٰ 483 ء ھ) ۔

240۔ منتخب الاثر الشیخ لطف اللہ الصافی الگلپایگانی (معاصر) ۔

241۔ موارد الظمآن الی زوائد ابن جہان نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی( متوفی 807 ئھ) ۔

242۔ میزان الاعتدال فی نقد الرجال ابوعبداللہ محمد احمد الذہبی (متوفی 748 ء ھ) ۔

243۔ نثر الدّر ابوسعید منصور بن الحسین الآبی ( متوفی 421 ء ھ) ۔

244۔ نفحات الازہار علی بن الحسین المیلانی (معاصر) ۔

245۔ النہایة فی غریب الحدیث والاثر ابوالسعادات مبارک بن مبارک الجزری” ابن الاثیرہ“(متوفی 606ء ھ) ۔

246۔ نہج البلاغہ تالیف سید شریف رضی محمد بن الحسین بن موسیٰ الموسوی (متوفیٰ 406ئھ) ۔

247۔ نہج الحق و کشف الصدق جمال الدین الحسن بن یوسف بن مطہر الحلی ( متوفیٰ 726ء ھ) ۔

248۔ نہج السعادة فی مستدرک نہج البلاغہ الشیخ محمد باقر المحمودی (معاصر) ۔

249۔ نوادر الاصول فی معرفة احادیث الرسول ابوعبداللہ محمد بن علی بن سورہ الترمذی (متوفی 320 ئھ) ۔

250۔ نوادر الراوندی فضل اللہ بن علی الحسینی الراوندی ( متوفی 573 ھ) ۔

251۔ النوادر ( مستطرفات السرائر) ۔ ابوعبداللہ محمد بن احمد بن ادریس الحلّی (متوفیٰ 598 ئھ) ۔

252۔ نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار الشیخ مومن بر حسن مومن الشبلنجی ( متوفی 1298 ء ھ) ۔

253۔ ہدایة المحدثین الی طریقة المحمدین محمد امین بن محمد علی الکاظمی (معاصر) ۔

254۔ الوافی بالوفیات صفی الدین خلیل بن ایبک الصفدی ( متوفی 749 ء ھ) ۔

255۔ الوافی محمد محسن بن مرتضی الفیض الکاشانی ( متوفی 1091 ئھ) ۔

256۔ وفیات الاعیان شمس الدین ابوالعباس احمد بن محمد البرمکی ( ابن خلکان) ۔

257۔ وقعة الطف ابومخنف لوط بن یحییٰ الازدی الکوفی ( متوفیٰ 158ء ھ) ۔

258۔ وقعة صفین نصر بن مزاحم المنقری (متوفیٰ 212ء ھ) ۔

259۔ الیقین باختصاص مولانا علی بامرة المسلمین ابوالقاسم علی بن موسی الحلی ” ابن طاؤس“ (متوفی 664ھ) ۔

260۔ ینابیع المودة لذوی القربیٰ سلیمان بن ابراہیم القندوزی النحفی ( متوفی 1294ھ) ۔

والحمد للہ رب العالمین