نسخ وآیت کی اصطلا ح اور ان کے معنی

اوّل۔  نسخ:

نسخ؛ لغت میں ایک چیز کو بعد میں آنے والی چیزکے ذریعہ ختم کرنے کو کہتے ھیں جیسے کہتے ھیں:  ”نسخت الشمس الظل“ سورج نے سایہ ختم کردیا ۔

نسخ؛ اسلامی اصطلاح میں : ایک شریعت کے احکام کو دوسری شریعت کے احکام کے ذریعہ ختم کرنا ھے، جیسے گزشتہ شریعتوں کے بعض احکام کا خاتم الانبیاء کی شریعت کے احکام سے نسخ یعنی ختم کرنا ھے، اسی طرح خاتم الانبیاء کی شریعت میںوقتی حکم کا دائمی حکم سے نسخ کرنا ، جیسے مدینہ میں فتح مکہ سے پھلے مھاجرین و انصار کے درمیان عقد اخوت کی بنیاد پرمیراث پانا رائج تھا جوفتح مکہ کے بعداعزاء واقارب کے میراث پانے کے حکم سے منسوخ ھوگیا۔[1]

دوم ۔  آیت:

آیت؛ اسلامی اصطلاح میں تین معنی کے درمیان ایک مشترک لفظ ھے:

۱۔ انبیاء کے معجزہ کے معنی میں جیسا کہ موسیٰ ابن عمران سے سورئہ نمل میں خدا ارشاد فرماتا ھے :

< واٴدخل یدک فی جیبک تخرج بیضاء من غیر سوءٍ  فی تسع آیاتٍ الیٰ فرعون و قومہِ> نمل/۱۲۔[2]

اپنے ھاتھ کو گریبان میں داخل کرو تاکہ سفید درخشاں اور بے عیب باھر آئےیہ انھیں نُہ گانہ معجزوں میں شامل ھے جن کے ھمراہ فرعون اور اس کے قوم کی جانب مبعوث کئے جا رھے ھو۔

۲۔ قرآنی الفاظ کی ترکیب جس کی تعیین شمارہ کے ذریعہ کی گئی ھے ، جیسا کہ سورئہ نمل میں ارشاد ھوتا ھے:

<طٰسٓ تلک آیات القرآن وکتاب مبین> 

طٰسٓ ،یہ قرآنی آیتیں اور ایک کھلی ھوئی کتاب ھے۔

۳۔ کتاب الہٰی کے ایک یاچند حصّے جس میںشریعت کا کوئی حکم بیان کیا گیاھو۔[3]

لہٰذا معلوم ھوا کہ قرآن کے بعض حصّوں کا آیت نام رکھنے سے مقصود اسکا مدلول اور معنی ھے یعنی وہ حکم جو اس حصّہ میں ایاھے اور --” نسخ “ اسی حکم سے متعلق ھے اور قرآن کے ان الفاظ کو شامل نھیں ھے جو کہ اس حکم پر دلالت کرتے ھیں۔

 اوریہ بھی معلوم ھوا کہ مشترک الفاظ کے معنی ، کلام میں موجود قرینے سے جو کہ مقصود پر دلالت کرتا ھے معین ھو تے ھیں۔

یہ نسخ اور آیت کے اسلامی اصطلا ح میں معنی تھے اوراب موضوع بحث دو آیتوں کی تفسیر نقل کرتے ھیں:

(۳)

 آیہٴ نسخ اور آیہٴ تبدیل کی تفسیر

 آیه  نسخ :

نسخ کی آیت سورئہ بقرہ میں ( ۴۰ سے ۱۵۲)آیات کے ضمن میں آئی ھے اس ضمن میںجو کچھ ھماری بحث سے متعلق ھوگااسے ذکر کررھے ھیں:

یَابَنِی إِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی اٴَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاٴَوْفُوا بِعَہْدِی اٴُوفِ بِعَہْدِکُمْ وَإِیَّایَ فَارْہَبُونِی (۴۰) وَآمِنُوا بِمَا اٴَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَکُمْ وَلاَتَکُونُوا اٴَوَّلَ کَافِرٍ بِہِ وَلاَتَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا وَإِیَّایَ فَاتَّقُونِی (۴۱) وَلاَتَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (۴۲) یَابَنِی إِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی اٴَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاٴَنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ (۴۷) وَاتَّقُوا یَوْمًا لاَتَجْزِی نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَلاَیُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَةٌ وَلاَیُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَلاَہُمْ یُنصَرُونَ (۴۸) وَإِذْ اٴَخَذْنَا مِیثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَیْنَاکُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْکُرُوا مَا فِیہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ [4]

اے بنی اسرئیل !ان نعمتو ں کو یاد کرو ، جو ھم نے تمھارے لئے قرار دی ھیں ؛ اورجو تم نے ھم سے عھد و پیمان کیا ھے اس کو وفا کرو ،تا کہ میں بھی تمھارے عھد و پیمان کو وفا کروں اور صرف مجھ سے ڈرو اور جو کچھ میں نے نازل کیا ھے اس پر ایمان لا وٴ، جو تمھا ری کتابوں کی تصدیق کرتی ھے اور تم لوگ سب سے پھلے اس کے انکار کرنے والے نہ بنو، نیز میری آیات کو معمولی قیمت پر فروخت نہ کرو اور صرف مجھ سے ڈرو اور حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو اور جو حقیقت تم جانتے ھو اسے نہ چھپاوٴ اے بنی اسرائیل !جو تم پر میں نے اپنی نعمتیں نازل کی ھیں اور تمھیں عالمین پر بر تری اور فضیلت دی ھے اسے یاد کرو نیز اس دن سے ڈرو ، جس دن کوئی کسی کے کام نھیں آئے گا اور کسی کی کسی کے بارے میں شفاعت قبول نھیں کی جائے گی اور نہ ھی کسی کاکسی سے تاوان لیا جائے گا اور کسی صورت مدد نھیں کی جائے گی ، اس وقت کو یاد کرو جب ھم نے تم سے عھد و پیمان لیا تھا نیز کوہِ طور کو تمھارے اوپر قرار دیا جو کچھ ھم نے تمھیں عطا کیا ھے مضبوطی سے پکڑ لو اور جو کچھ اس میں ھے اسے یاد رکھو شاید پرھیز گار ھو جاؤ۔

وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہِ بِالرُّسُلِ وَآتَیْنَا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَاٴَیَّدْنَاہُ بِرُوحِ الْقُدُسِ اٴَفَکُلَّمَا جَائَکُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَتَهوی اٴَنفُسُکُمْ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیقًا کَذَّبْتُمْ وَفَرِیقًا تَقْتُلُونَ (۸۷) وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَہُمْ اللهُ بِکُفْرِہِمْ فَقَلِیلًا مَا یُؤْمِنُونَ (۸۸) وَلَمَّا جَائَہُمْ کِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَہُمْ وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا فَلَمَّا جَائَہُمْ مَا عَرَفُوا کَفَرُوا بِہِ فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَی الْکَافِرِینَ (۸۹) بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہِ اٴَنفُسَہُمْ اٴَنْ یَکْفُرُوا بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ بَغْیًا اٴَنْ یُنَزِّلَ اللهُ مِنْ فَضْلِہِ عَلَی مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ فَبَائُوا بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ مُہِینٌ (۹۰) وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ آمِنُوا بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا اٴُنزِلَ عَلَیْنَا وَیَکْفُرُونَ بِمَا وَرَائَہُ وَهو الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَہُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ اٴَنْبِیَاءَ اللهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ (۹۱) وَلَقَدْ جَائَکُمْ مُوسَی بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِہِ وَاٴَنْتُمْ ظَالِمُونَ [5]

ھم نے موسیٰ کو کتاب دی اوران کے بعد بلا فاصلہ پیغمبروں کو بھیجا ؛ اور عیسیٰ ابن مریم کو واضح و روشن دلائل دئے اور اس کی روح القدس کے ذریعہ تائید کی ، کیا ایسا نھیں ھے کہ جب بھی کوئی پیغمبر تمھاری نفسانی خواھشات کے خلاف کوئی چیز لایا، تم نے سرکشی اور طغیانی دکھائی اور ایک گروہ کو جھٹلایا اور کچھ کو قتل کر ڈالا ؟ توان لوگوں نے کھا : ھمارے دلوں پر پردے پڑے ھوئے ھیں !نھیں ،بلکہ خدا وند عالم نے انھیں ا ن کے کفر کی وجہ سے اپنی رحمت سے دور رکھا ھے پس بہت کم لوگ ایمان لاتے ھیں اور جب خدا کی طرف سے ان کے پاس کتاب آئی جو کہ ان کے پاس موجود کتاب میں نشانیوں کے مطابق تھی اور اس سے پھلے اپنے آپ کو کافروں پر کامیابی کی نوید دیتے تھے ، ان تمام باتوں کے باوجود جبیہ کتاب اور شناختہ شدہ پیغمبر ان کے پاس آیا تو اسکا انکار کر گئے لہٰذا کافروں پر خدا کی لعنت ھو ، بہت برے انداز میں انھوں نے اپنا سودا کیا کہ ناحق خدا کی نازل کردہ آیات کا انکا ر کر گئے اور اس بات پر کہ خدا وندعالم اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاھے اپنی آیات ارسال کرے اعتراض کرنے لگے! لہٰذا دوسروں کے غیظ و غضب سے کھیں زیادہ غیظ و غضب میں گرفتار ھو گئے اور کافروں کے لئے رسوا کن عذاب ھے اور جب ان سے کھا جاتا ھے : جو خدا نے بھیجا ھے اس پر ایمان لے آوٴ ، تو وہ کہتے ھیں : ھم تو اس پر ایمان لائیں گے جو ھم پر نازل ھوا ھے اور اسکے علاوہ کے منکر ھوجاتے ھیں جب کہ وہ حق ھے اور انکی کتاب کی بھی تصدیق کرتاھے، کھو: اگر تم لوگ ایمان دار ھو تو پھر کیوں خدا کے پیغمبروں کو اس کے پھلے قتل کرتے تھے ؟اور موسیٰ نے ان تمام معجزات کو تمھارے لئے پیش کیا لیکن تم نے ان کے بعد ظالمانہ انداز میں گو سالہ پرستی شروع کردی۔

وَلَقَدْ اٴَنزَلْنَا إِلَیْکَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِہَا إِلاَّ الْفَاسِقُونَ (۹۹) وَلَوْ اٴَنَّہُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ خَیْرٌ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ (۱۰۳) مَا یَوَدُّ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ اٴَہْلِ الْکِتَابِ وَلاَالْمُشْرِکِینَ اٴَنْ یُنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِنْ خَیْرٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَاللهُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہِ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ (۱۰۵) مَا نَنسَخْ مِنْ آیَةٍ اٴَوْ نُنسِہَا نَاٴْتِ بِخَیْرٍ مِنْہَا اٴَوْ مِثْلِہَا اٴَلَمْ تَعْلَمْ اٴَنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ [6]

ھم نے تمھارے لئے روشن نشانیاں ارسال کیں اور بجز کفار کے کوئی ان کا انکار نھیں کرتا اور اگر وہ  لوگ ایمان لاکر پرھیز گار ھو جاتے تو خدا کے پاس جو ان کے لئے جزا ھے وہ بہتر ھے اگر وہ علم رکھتے کافراھل کتاب اور مشرکینیہ نھیں چاہتے کہ تمھارے خدا کی طرف سے تم پر خیر وبرکت نازل ھو، جبکہ خدا جسے چاھے اپنی رحمت کواس سے مختص کردے اور خدا وند عالم عظیم فضل کا مالک ھے ، جب بھی ھم کوئی حکم نسخ کرتے ھیں یا تاخیر میں ڈالتے ھیں تواس سے بہتر یااسی کے مانند پیش کرتے ھیں کیا تمھیں نھیں معلوم کہ خدا وندعالم ھر چیز پر قادر ھے؟

وَدَّ کَثِیرٌ مِنْ اٴَہْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ اٴَنفُسِہِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ الْحَقُّ ۔۔۔  وَقَالُوا لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ کَانَ هودًا اٴَوْ نَصَارَی تِلْکَ اٴَمَانِیُّہُمْ قُلْ ہَاتُوا بُرْہَانَکُمْ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ (۱۱۱) بَلَی مَنْ اٴَسْلَمَ وَجْہَہُ لِلَّہِ وَهو مُحْسِنٌ فَلَہُ اٴَجْرُہُ عِنْدَ رَبِّہِ وَلاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُونَ (۱۱۲)وَلَنْ تَرْضَی عَنْکَ الْیَهودُ وَلاَالنَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ قُلْ إِنَّ ہُدَی اللهِ هو الْہُدَی وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ اٴَهوائَہُمْ بَعْدَ الَّذِی جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنْ اللهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیرٍ[7]

بہت سارے اھل کتاب از روئے کفر وحسد(جو کہ ان کے رگ و ریشہ میں سرایت کرچکاھے) آرزومندھیں کہ تمھیں اسلام اور ایمان کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں جبکہ ان پر حق مکمل طور پر واضح ھو چکاھے۔۔۔۔ اورکہتے ھیںکوئی بھی یھود و نصاریٰ کے علاوہ بھشت میں داخل نھیں ھوگا ،ےہ انکی آرزوئیں ھیں ان سے کھو : اگر سچ کہتے ھو تو اپنی دلیل پیش کرو ، یقینا جو کوئی اپنے آپ کو خدا کے سامنے سراپاتسلیم کردے اور پرھیزگار ھو جائے تو خدا کے نزدیک اس کی جزا ثابت ھے نہ ان پر کسی قسم کا کوئی خوف ھے اور نہ ھی وہ محزون و مغموم ھوگا ،یھود و نصاریٰ تم سے کبھی راضی نھیں ھوں گے ، مگریہ کہ تم ان کے آئین کا اتباع کرو ، ان سے کھو: ھدایت صرف اور صرف الله کی ھدایت ھے اور اگر آگاہ ھونے کے باوجودان کے خواھشات کا اتباع کرو گے تو خدا کی طرف سے کوئی تمھارا ناصر و مدد گار نہ ھوگا -:

یَابَنِی إِسْرَائِیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِی الَّتِی اٴَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاٴَنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِینَ (۱۲۲) وَاتَّقُوا یَوْمًا لاَتَجْزِی نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَلاَیُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَلاَتَنفَعُہَا شَفَاعَةٌ وَلاَہُمْ یُنصَرُونَ[8]

اے بنی اسرائیل! جو نعمتیں ھم نے تمھیں عطا کی ھیں اور تم کوتمام عالمین پر فضیلت و برتری عطا کی ھے اسے یاد کرو اوراس دن سے ڈرو جس دن کوئی کسی کے کام نھیں آئے گا اور کسی سے کوئی تاوان نھیں لیا جائے گا اورکوئی شفاعت اسے فائدہ نھیں دے گی اور کسی صورت مدد نھیں ھو گی۔

خدا وندعالم نے ا ن آیات کے ذکرکے بعد ایک مقدمہ کی تمھید کے ساتھ جس کے بعض حصّے کو اس سے قبل حضرت ابراھیم (ع) اور اسماعیل  (ع) کے خانہ کعبہ بنانے کے سلسلے میں ھم نے ذکر کیا ھے، فرمایا-:

الف: < واِذ یرفع اٴبراھیم القواعدمن البیت و اِٴسماعیل…>[9]

اورجبکہ حضرت ابراھیم و اسماعیل  (ع) خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کر رھے تھے ۔

ب:<واِذ جعلنا البیت مثابة للنّاس و اٴمناً>[10]

اورجب ھم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے رجوع کا مرکز اور امن و امان کی جگہ قرار دی۔

ج:<و عھدنا الیٰ  اٴبراھیم و اٴسماعیل اٴن طھرا بیتی للطّا ئفین و العاکفین و الرّکّع السجود>[11]

اورھم نے ابراھیم (ع) و اسماعیل (ع) سے عھد لیا کہ ھمارے گھر کو طواف کرنے والوں ، مجاورں ، رکوع  اورسجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ رکھیں ۔

خدا وند عالم ایسی تمھید کے ذریعہ” نسخ “کا موضو ع معین کرتے ھوئے فرماتا ھے:

قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوہَکُمْ شَطْرَہُ وَإِنَّ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ اٴَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّہِمْ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ (۱۴۴) وَلَئِنْ اٴَتَیْتَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الکِتَابَ بِکُلِّ آیَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَکَ وَمَا اٴَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ۔۔۔(۱۴۵) الَّذِینَ آتَیْنَاہُمْ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ اٴَبْنَائَہُمْ وَإِنَّ فَرِیقًا مِنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُونَ

 ھم آسمان کی جانب تمھاری انتظار آمیز نگاھوں کو دیکھتے ھیں یقینا ھم تمھیںاس قبلہ کی جانب جسے تم دوست رکھتے ھو واپس کردیں گے لہٰذا اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لو اور جھاں کھیں بھی رھو اپنا رخ اسی جانب رکھو، یقینا جن لوگوں کو آسمانی کتاب دی گئی ھے بخوبی جانتے ھیں کہیہ فرمان حق ھے جو کہ تمھارے رب کی طرف سے نازل ھوا ھے اور خدا وند عالم جو وہ کرتے ھیںاس سے غافل نھیں ھے اور اگر اھل کتاب کیلئے تمام آیتیں لے آوٴ تب بھی وہ [12]تمھارے قبلہ کا اتباع نھیں کریں گے اور تم بھی ان کے قبلہ کا اتباع نھیں کرو گے ، جن لوگوں کو ھم نے آ سمانی کتاب دی ھے اس( پیغمبر ) کو وہ اپنے فرزندوں کی طرح جا نتے اور پہچانتے ھیں ، یقینا ان میں سے کچھ لوگ حق کو دانستہ طور پر چھپا تے ھیں۔

خداوندعالم اھل کتاب کی مسلمانوں سے (تعویض قبلہ کے سلسلہ میں) جنگ وجدال کی بھی خبر دیتے ھوئے فرماتا ھے:

سَیَقُولُ السُّفَہَاءُ مِنْ النَّاسِ مَا وَلاَّہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمْ الَّتِی کَانُوا عَلَیْہَا قُلْ لِلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَہْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ (۱۴۲)۔۔۔وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِی کُنتَ عَلَیْہَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ یَنقَلِبُ عَلَی عَقِبَیْہِ وَإِنْ کَانَتْ لَکَبِیرَةً إِلاَّ عَلَی الَّذِینَ ہَدَی اللهُ وَمَا کَانَ اللهُ لِیُضِیعَ إِیمَانَکُمْ إِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَءُ وفٌ رَحِیمٌ   [13]

عنقریب نا عاقبت اندیش اور بیوقوف لوگ کھیںگے :کس چیز نے انھیں اس قبلہ سے جس پروہ تھے پھیردیا ھے؟کھو ؛مغرب ومشرق سب خدا کے ھیں خدا جسے چاھے راہ راست کی ھدایت کرتا ھے،ھم نے اس (پھلے) قبلہ کو جس پرتم تھے صرف اس لئے قرار دیا تھا تاکہ وہ افراد جو پیغمبر کا اتباع کرتے ھیں ان لوگوں سے جو جاھلیت کی طرف لوٹ سکتے ھیں ممتاز اور مشخص ھو جائیں یقینا یہ حکم ان لوگوں کے علاوہ جن کی خدا نے ھدایت کی ھے دشوار تھا اور خدا کبھی تمھا رے ایمان کو ضایع نھیں کرے گا ،کیوں کہ خدا وند عالم لوگوں کی نسبت رؤف ومھربان ھے۔

 آیہٴ تبدیل :

 آیہٴ تبدیل سورئہ نحل میں ۱۰۱سے ۱۲۴ آیات کے ضمن میں ذکر ھو ئی ھے، [14]ھم اس بحث سے مخصوص آیات کا ذکر کریں گے، خدا وند عالم فرماتاھے : 

 وَإِذَا بَدَّلْنَا آیَةً مَکَانَ آیَةٍ وَاللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا اٴَنْتَ مُفْتَرٍ بَلْ اٴَکْثَرُہُمْ لاَیَعْلَمُونَ (۱۰۱)قُلْ نَزَّلَہُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِینَ آمَنُوا وَہُدًی وَبُشْرَی لِلْمُسْلِمِینَ (۱۰۲) إِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِآیَاتِ اللهِ وَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْکَاذِبُونَ (۱۰۵)فَکُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمْ اللهُ حَلاَلاً طَیِّبًا وَاشْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ (۱۱۴) إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیرِ وَمَا اٴُہِلَّ لِغَیْرِ اللهِ بِہِ فَمَنْ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلاَعَادٍ فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ (۱۱۵) وَلاَتَقُولُوا لِمَا تَصِفُ اٴَلْسِنَتُکُمْ الْکَذِبَ ہَذَا حَلاَلٌ وَہَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَی اللهِ الْکَذِبَ إِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللهِ الْکَذِبَ لاَیُفْلِحُونَ (۱۱۶) وَعَلَی الَّذِینَ ہَادُوا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ ۔۔۔(۱۱۸) ثُمَّ اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ اٴَنْ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنْ الْمُشْرِکِینَ (۱۲۳) إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَی الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیہِ ۔۔۔[15]

 اور جب ھم ایک آیت کو دوسری آیت سے تبدیل کرتے ھیں ( ایک حکم کو کسی حکم کی جگہ قرار دیتے ھیں)  خدا بہتر جانتا ھے کہ کونساحکم نازل کرے کہتے ھیں: تم افترا پردازی کرتے ھو ! نھیں بلکہ اکثریت ان کی نھیں جانتی، کھو :اسے روح القدس نے تمھارے پروردگار کی جانب سے حق کے ساتھ نازل کیا ھے تاکہ با ایما

افراد کو ثابت قدم رکھے نیز مسلمانوں کے لئے ھدایت و بشارت ھو ،صرف وہ لوگ افترا پردازی کرتے ھیں جو خدا پر ایمان نھیں رکھتے وہ لوگ خود ھی جھوٹے ھیں ، لہٰذا جو کچھ تمھارے لئے خدا نے روزی معین کی ھے اس سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ اور نعمت خدا وندی کا شکرےہ ادا کرو ، اگر اس کی عبادت اور پرستش کر تے ھو ۔ خداوندعالم نے تم پر صرف مردار ، خون ،سور کا گوشت اور وہ تمام اشیاء جن پر خدا کانام نہ لیا گیا ھو حرام کیا ھے،لیکن جو مجبور و مضطر ھو جائے (اس کے لئے کوئی مضائقہ نھیں ) جبکہ حد سے زیادہ تجاوز و تعدی نہ کرے خدا وند عالم بخشنے والا اورمھربان ھے اوراس جھوٹ کی بنا پر جو کہ تمھاری زبان سے جاری ھوتا ھے نہ کھو:”یہ حلال ھے اور وہ حرام ھے“ تاکہ خدا پر افتراء اور بہتان نہ ھو، یقینا جو لوگ خدا پر افتراء پردازی کرتے ھیں کامیاب نھیں ھو ں گے ، جو کچھ اس سے پھلے ھم نے تمھارے لئے بیان کیا ھے، یھود پر حرام کیا ھے، پھر تم پر وحی نازل کی کہ ابراھیم (ع) کے آئین کی پیروی کر و جو کہ خالص اور محکم ایمان کے مالک تھے اور مشرکوں میں نھیں تھے ،سنیچر کا دن صرف ان لوگوں کے برخلاف اور ضرر میں قرار دیا گیا ، جو لوگ اس دن کے بارے میں اختلاف ونزاع کرتے تھے۔

 لیکن جن چیز وں کی خدا وندعالم نے گزشتہ زما نہ میںپیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے لئے حکایت کی ھے اور اس سورہ کی ۱۱۸ویںآیت میں اس کا ذکر فرمایا ھے وہیہ ھے:

الف:۔سورہ آل عمران کی ۹۳ ویں آیت:

<کل الطعام  کان حلاّ لِبنی اٴسرائیل اٴلا ما حرّم اٴسرائیل علی نفسہ>

 تمام غذائیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں جز ان  چیزوں کے جسے اسرائیل (یعقوب) نے اپنے آپ پر حرام کرلیاتھا۔

ب: ۔سورئہ انعام کی ۱۴۶ ویں آیت:

 وماعلی الذین ھادواحرّمنا کلّ ذی ظفر و من البقر و الغنم حرّمنا علیھم شحومھما اِلا ما حملت ظھور ھما اٴو الحوایا  اٴو ما اختلط بعظم ذلک جزیناھم ببغیھم و اِنّا لصادقون[16]

 اور ھم نے یھودیوں پر تمام ناخن دار حیوانوں کو حرام کیا (وہ حیوانات جن کے کھر ملے ھو تے ھیں) گائے ،بھیڑ سے صرف چربی ان پر حرام کی ، جز اس چربی کے جو ان کی پشت پر پائی جاتی ھے اورپھلووٴں کے دو نوں طرف ھوتی ھے، یا وہ جو ہڈیوں سے متصل ھوتی ھے، یہ کیفر و سزا ھم نے ان کے ظا لمانہ روےہ کی وجہ سے دی ھے اور ھم سچّے ھیں۔

کلمات کی تشریح:

۱۔ <مصدقاً لما معکم>یعنی قرآن اور پیغمبر کے صفات ، پیغمبر کے مبعوث ھو نے اور آپ پر قرآن نازل ھونے کے بارے میں توریت کے اخبار کی تصدیق کرتے ھیں ، جیسا کہ توریت کے سفرتثنیہ کے ۳۳ ویں باب( میںطبع ریچارڈ واٹس لندن ۱۸۳۱ء عربی زبان میں)آیا ھے اور اس کا ترجمہ یہ ھے ۔

ےہ ھے وہ دعائے خیر جسے مرد خدا حضرت موسیٰ (ع) نے اپنی موت سے پھلے بنی اسرائیل پر پڑھی تھی اور فرمایا تھا : خدا وندعالم سینا سے نکلا اور ساعیر سے نور افشاں ھوا اور کوہ فاران سے آشکار ھوا اور اس کے ھمراہ ہزاروں پاکیزہ افراد ھیں، اس کے داھنے ھاتھ میں آتشیںشریعت ھے، لوگوں کو دوست رکھتا ھے ، تمام پاکیزہ لوگ اس کی مٹھی میں ھیں جو لوگ ان سے قریب ھیں اس کی تعلیم قبول کرتے ھیں، موسیٰ (ع) نے ھمیں ایسی سنت کا فرمان دیا جو جماعت یعقوب کی میراث ھے۔ یھی نص( ریچارڈ واٹس لندن ۱۸۳۹ ء ،فارسی زبان میں) اس طرح ھے

 ۳۳واں باب

۱۔ یہ ھے وہ دعائے خیر جو موسیٰ (ع) مرد خدا نے اپنے مرنے سے قبل بنی اسرائیل پر پڑھی تھی ۔

۲۔ اور کھا :خدا وندعالم سینا سے برآمد ھوا اور سعیر سے نمودار ھوا اور کوہ فاران سے نور افشاں ھوا اور دس ہزار مقرب اور برگزیدہ لوگوں کے سا تھ و ارد ھوا اور اس کے داھنے ھاتھ سے آتش بار شریعت ان لوگوں تک پھنچی۔

۳۔بلکہ تبائل کو دوست رکھا اور اس کے تمام مقدسات تیرے قبضہ اور اختیار میں ھیں اور مقربین در گاہ تیری قدم بوسی کرتے ھوئے تیری تعلیم قبول کریں گے

۴۔ موسیٰ (ع) نے ھمیں ایسی شریعت کا حکم دیا جو بنی یعقوب (ع) کی میراث ھے۔۔۔۔۔

یھی نص طبع آکسفورڈ یونیورسٹی [17]لندن میں(بغیر تاریخ طبا عت )صفحہ نمبر ۱۸۴ پر اس طرح آئی ھے: 

ےہ انگریزی نص فارسی زبان میں مذکورہ نص سے یکسانیت اور یگانگت رکھتی ھے:

 CHAPTER 33

And this the blessing,where with moses the man of God blessed the children of israel before his death  

2 and he said ,the LORD came from sinai and rose up from seir unto them ;he shined forth from mount paran and he came with ten thousands of saints; from his right hand went ,a fiery law for them.

3  yea,he loved the people ,all his saints are in thy hand :and they sat down at thy feet ;every one shall receive of thy words.

4 moses commanded us a law .even the inheritance of the   congreg ation       of      jacob (1 )                                                                                                                                                           

اس نص میں مذ کور ھے کہ ( وہ دس ہزار مقرب افراد کے ساتھ آیا)یعنی  ہزاروں کی عدد معین کیھے ، خواہ پھلی نص میںبغیر اس کے کہ ہزاروں کی  تعداد معین کرے آیا ھے: ”اس کے ساتھ ہزاروں پاکیزہ افراد“کیونکہ جس نے غار حرا سے فاران میں ظھور کیا پھر دس ہزارافرادکے ھمراہ مکّہ کی سرزمین پر قدم رکھا وہ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی الله علےہ و آلہ و سلم ھیں، اھل کتاب نے عصر حاضر میں اس نص میں تحریف کر دی ھے

 تا کہ نبی کی بعثت کے متعلق توریت کی بشارتوں کو چھپا دیں اور ھم نے ( ایک سو پچاس جعلی صحابی) نامی کتاب کی دوسری جلدکی پانچویں تمھید میں اس بات کی تشریح کی ھے  ۔  

 ”مصدقا لمامعکم“کی تفسیر میں بحث کا نتیجہ:

توریت کا یہ باب واضح طور پر یہ کہتا ھے : موسیٰ ابن عمران (ع) نے اپنی موت سے قبل اپنی وصیت میں بنی اسرائیل سے کھا ھے : پروردگار عالم نے توریت کو کوہ سینا پر نازل کیا اور انجیل کو کوہِ سعیر پر اور قرآن کو کوہِ فاران ( مکّہ ) پر پھر تیسری شریعت کی خصوصیات شمار کرتے ھوئے فرمایا:

جب وہ مکہ میں آئے گا دس ہزار لوگ اس کے مقربین میں سے اس کے ھمراہ ھوں گے، یہ وھی دس ہزار رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے سپاھی ھیں جو فتح مکّہ میں تھے اور یہ تیسری شریعت ، شریعت جھاد ھے۔

اور یہ کہ اس کی امت اس کی تعلیمات کو قبول کرے گی، اس تصریح میں بنی اسرائیل کے موقف کی طرف اشارہ ھے جنھوں نے منحرف ھو کر گو سالہ پرستی شروع کر دی اور اپنے پیغمبر موسیٰ (ع) اور تمام انبیاء کرام سے جنگ و جدال کرتے رھے ۔۔۔ قرآن اور توریت میں اس کا تذکرہ ھوا ھے۔

ھم یھاں پر نھایت ھی ا ختصارسے کام لیں گے، کیونکہ اگر ھم چاھیں کہ وہ تمام بشارتیں جو خاتم الانبیاء کی بعثت سے متعلق ھیں( ان تمام تحریفات کے باوجود جسکے وہ مرتکب ھوئے ھیں) جوکہ باقی ماندہ آسمانی کتابوں کے ذریعہ ھم تک پھنچی ھیں اور وہ آسمانی کتابیں جو حضرت خاتم الانبیاء کے زمانے میں اھل کتاب کے پاس تھیں ، اگر ھم ان تمام بشارتوں کو پیش کرنے لگیںتو بحث طولانی ھو جائے گی، البتہ انھیں بشارتوں کے سبب خداوند سبحان چندآیات کے بعد فرماتا ھے:

<الذین اٴتینا ھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم و اٴن فریقاً منھم لیکتمون الحقّ و ھم یعلمون>[18]

 جن لوگوں کو ھم نے آسمانی کتاب دی ھے وہ لوگ اس( پیغمبر) کواپنے فرزندوں کی طرح پہچانتے ھیں یقینا ان کے بعض گروہ حق کو دانستہ طور پر چھپا تے ھیں۔

بنابر این مسلم ھے کہ خاتم الانبیاء(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قرآن کے ساتھ بعثت، پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور ان کی امت کے مخصوص صفات

 ان چیزوں کی تصدیق ھیں جو اھل کتاب کے نزدیک توریت اورانجیل میں ھیں( عالمین کے پر وردگار ھی سے حمدوستائش مخصوص)

۲۔<لاتلبسواالحقّ بالباطل>

 حق کوباطل سے مخلوط نہ کرو کہ حقیقت پوشیدہ ھو جائے یا یہ کہ حق کو باطل کے ذریعہ نہ چھپاوٴ کہ ا سے مشکوک بنا کر پیش کرو ۔

۳۔”عدل“:فدیہ ، رھائی کے لئے عوض دینا۔

۴۔”قفّینا“:لگاتار ھم نے بھیجا یعنی ایک کے بعد دوسرے کو رسالت دی۔

۵۔”غلف“ جمعِ اغلف جو چیز غلاف اور پوشش میں ھو۔

۶۔”یستفتحونَ“کامیابی چاہتے تھے، جنگ میں دشمن پر فتح حاصل کر نے کیلئے،یعنی اھل کتاب پیغمبر خاتم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا نام لے کر اور انھیں شفیع بنا کر خدا کے نزدیک کامیابی چاہتے تھے۔[19]

۷۔”ننسٴھا: نوخّر ھا:“اُسے تاخیر میں ڈال دیا ، ننسٴھا ،ننسِئھٰا کا مخفف اور نساٴ کے مادہ سے ھے، یعنی ھر وہ حکم جسے ھم نسخ کریں یا اس کے نسخ میںتاخیر کریں تواس سے بہتر یااس کے مانند لاتے ھیں۔

”نُنْسِھا ،نُنْسِیْھا“کا مخفف مادئہ نسی سے جس کے معنی نسیان اور فراموشی کے ھیں ،نھیں ھو سکتا تاکہ اس کے معنی یہ ھو ںکہ جس آیت قرآن کی قرائت لوگوں کے حافظہ سے بھلا دیتے ھیں تواس سے بہتر یا اس کے مانند لے آئیں گے،جیسا کہ بعض لوگوں نے اسی طرح کی تفسیر کی ھے [20]کیونکہ:

الف ۔خدا وندمعتال نے خود ھی قر آن کی فراموشی اور نسیان سے حفاظت کی ضمانت لی ھے اور فرمایا ھے:<سنقرئک فلا تنسیٰ>ھم تم پر عنقریب قرآن پڑھیں گے اور تم کبھی اسے فراموش نھیں کر و گے۔

ب۔اس بات میں کسی قسم کی کوئی مصلحت نھیں ھے کہ اس کو لوگوں کے حافظہ سے مٹا دیا جائے،جب کہ خدا وندعالم نے خودآیات لوگوں کے پڑھنے کے لئے نازل کی ھیں پھر کیوں ان کے حافظہ سے مٹا دے گا؟

۸۔ھادوا  وھودا، ھادوا: یھودی ھوگئے،ھودا جمع ھے ھائد کی یعنی یھودی لوگ۔

۹۔”فضلتکم علی العا لمین“: یعنی خدا وند عالم نے تم کو اس زمانے میں مصر کے فرعونیوں ،قوم عمالقہ اور دیگر شام والوں پر فوقیت دی ھے

۱۰۔شطر:شطر کے کئی معنی ھیں کہ منجملہ ”جہت“ اور --”طرف“ھیں۔

۱۱۔ ”ماکان الله لیضیع ایمانکم“: خدا وند عالم ھر گز ان نمازوں کوجو تحویل قبلہ سے پھلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھی ھیںضائع نھیں کرے گا۔

۱۲۔”  اٴِذا بدّلنا “: جب بھی جا گزیں کریں، ایک حکم کو دوسرے حکم سے تبدیل کر د یں ، عوض اوربدل کے درمیان یہ فرق ھے کہ:عوض جنس کی قیمت ھوتا ھے اور بدل ا صل کا جا گزیں اور قائم مقام ھوتا ھے۔

۱۳۔”روح القدس“ : ایک ایسا فرشتہ جس کے توسط سے خدا وندعالم قرآن،احکام اور اس کی تفسیرپیغمبر پر نازل کرتا تھا ۔

۱۴۔” ذی ظفر“: ناخن دار  یھاں پر مراد ھر وہ حیوان ھے جس کے سم میں شگاف نھیں ھوتا جیسے اونٹ، شتر مرغ ،بطخ ،غاز، والله عالم بالصواب۔

۱۵۔”الحوایا“:  آنتیں۔

۱۶۔”ما اختلط بعظم“: وہ چربی جو ہڈی سے متصل ھو ۔

 تفسیر آیات

۱۔ آیہٴ تبدیل:

وہ آیت جو سورئہ نحل کی مکی آیات کے ضمن میں آئی ھے:خدا وند سبحان ان آیات میں فرماتا ھے : جب کبھی ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ قرار دیتے ھیںیعنی گزشتہ شریعت کا کوئی حکم اٹھا کر کوئی دوسرا حکم جو قرآن میں مذکور ھے اس کی جگہ رکھ دیتے ھیں تو ھمارے رسول سے کہتے ھیں:تم جھوٹ بولتے ھو۔

اے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ! کھو : قرآنی احکام کو مخصوص فرشتہ خدا کی جانب سے حق کے ساتھ لاتا ھے تاکہ مومنین اپنے ایمان پر ثابت قدم رھیں اور مسلمانوں کے لئے ھدایت اور بشارت ھو، تم جھوٹ بولنے والے یا گڑھنے والے نھیں ھو، جھوٹے وہ لوگ ھیں جوآیات الٰھی پر ایمان نھیں رکھتے،یعنی مشرکین،وہ لوگ خود ھی جھوٹے ھیں۔

خدا وندعالم اس کے بعد محل اختلاف کی وضاحت کرتے ھوئے فرماتا ھے: جو کچھ ھم نے تم کو روزی دی ھے جیسے اونٹ کا گوشت اور حیوانات کی چربی اور اسکے مانندجس کو بنی اسرائیل پر ھم نے حرام کیا تھا،حلال و پاکیزہ طور پر کھاوٴ،کیونکہ خدا ونداعالم نے اسے تم پر حرام نھیں کیا بلکہ صرف مردار ،خون ،سوٴر کا گوشت اور وہ تمام جانور جن پر خدا کا نام نہ لیا گیا ھو ان کا کھانا تم پر حرام کیاھے،سوائے مضطر اور مجبور انسان کے جو کہ اس کے کھانے پر مجبورھو،یہ وہ تمام چیزیں ھیں جو تم پر حرام کی گئی ھیں تم لوگ اپنے پاس سے نہ کھو:”ےہ حرام ھے اور وہ حلال ھے“جیسا کہ مشرکین کہتے تھے اور خدا وندعالم نے سوٴرہ انعام کی ۱۳۸سے۱۴۰ویں آیات میں اس کی خبر دی ھے کہ یہ سب مشرکوں کا کام ھے ،رھا سوال یھود کا توخدا وندعالم نے ان لوگوں پر مخصوص چیزوں کو حرام کیا تھا جس کا ذکر سورہٴ انعام میں ایا ھے۔

رھے تم اے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! تو ھم نے تم پر وحی کی :حلال و حرام میں ملّت ابراھیم (ع) کے پیرو رھو اور شریعت ابراھیم(ع) کے تمام امور میں سے یہ ھے کہ جمعہ کا دن ھفتہ میں آرام کر نے کا دن ھے،لیکن سنیچر تو صرف بنی اسرائیل کے لئے تعطیل کا دن تھا ان پر اس دن کام حرام تھا جیسا کہ سورہٴ  اعراف کی ۱۶۳ ویں آیت میں مذکور ھے۔

جو کچھ ھم نے ذکر کیا ھے اس کی بنیاد پر تبدیل آیت کے معنی  یھاں پر یہ ھیں کہ صرف توریت کے بعض احکام کو قرآن کے احکام سے تبدیل کرناھے اور شریعت اسلامی کی حضرت ابراھیم خلیل الله (ع) کی شریعت کی طرف باز گشت ھے ۔

جو چیز ھمارے بیان کی تاکید کرتی ھے، خدا وندسبحان کا فرمان ھے کہ ارشاد فرما تا ھے:

<و اِذا بد لنا آیة مکان آیة  …  قالوانما مفتر… قل نزّلہ روح القدس>

کیونکہ لفظ” نزلہ“ میں مذ کر کی ضمیر آیت کے معنی یعنی ”حکم“کی طرف پلٹتی ھے اور اگر بحث اس  آیت کی تبدیل کے محورپر ھوتی جو کہ سورہ کا جز ھے تو مناسب یہ تھا کہ خدا وندسبحان فرماتا:”قل نزلھا روح القدس“یعنی مونث کی ضمیر ذکر کرتا نہ مذکر کی( خوب دقت اور غور و خوص کیجئے)۔

۲۔آیہٴ نسخ:

یہ آیت سورہ بقرہ کی مدنی آیات کے درمیان آئی ھے،خداوندمتعال ان آیات میں فرماتا ھے:

اے بنی اسرائیل ؛خداوندعالم کی نعمتوں کو اپنے اوپر یادکرو اور اس کے عھد وپیمان کووفا (پورا)کروایسا پیمان جو توریت بھیجنے کے موقع پر ھم نے تم سے لیا تھا اور تم سے کھا تھا :جو کچھ ھم نے تم کو دیا ھے اسے محکم انداز میں لے لواورجو کچھ اس میں ھے اسے یادرکھو۔

اس میں خاتم الانبیاء(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بعثت سے متعلق بشارت تھی خدا سے اپنے عھد وپیمان کو وفا کروتا کہ خدا بھی اپنے پیمان کو جو تم سے کیاھے وفا کرے اور اپنی نعمتوں کادنیا واخرت میں تم پر اضافہ کرے اور جو کچھ خاتم الانبیاء پرنازل کیا ھے اس پر ایمان لاوٴ کہ وہ یقینا جو کچھ تمھارے پاس کتاب خدامیں موجود ھے سب کا اثبات کرتا ھے، حق کو نہ چھپاوٴ اوراسے دانستہ طور پر باطل سے پوشیدہ نہ کرو ،خدا وند عالم نے موسیٰ (ع) کو کتاب دی اوران کے بعد بھی رسولوں کو بھیجا کہ انھیں میں سے عیسیٰ ابن مریم (ع) بھی تھے وھی جن کی خدانے روشن دلائل اور روح القدس کے ذریعہ تائید کی ،کیا ایسا نھیں ھے کہ جب بھی کسی پیغمبر نے تمھارے نفسانی خواھشات کے خلاف کوئی چیز پیش کی تو تم لوگوں نے تکبر سے کام لیا کچھ لوگوں کوجھوٹا کھا اور کچھ کو قتل کر ڈالا؟اور کھا ھمارے دلوں پر پردے پڑے ھوئے ھیں اوران چیزوں کو ھم نھیں سمجھتے ھیں،اب بھی قرآن خدا کی جانب سے تمھارے لئے نازل ھوا ھے اور جو خبریں تمھارے پاس ھیںان سے بھی ثابت ھے پھر بھی تم اس کا انکار کرتے ھو جبکہ تم اس سے پھلے کفار پر کامیابی کے لئے اس کے نام کو اپنے لئے شفیع قرار دیتے  تھے اور اب تو پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) آگئے ھیں اور تم لوگ پہچانتے بھی ھو پھر بھی اس کا اور جو کچھ اس پر نازل ھوا ھے ان سب کا انکار کرتے ھو،تم نے خود کو ایک بری قیمت پر بیچ ڈالاکہ جو خدا نے نازل کیا اس کا انکار کرتے ھو، اس بات پر انکار کرتے ھو کہ کیوں خدا نے حضرت اسماعیل (ع)کی نسل میں پیغمبر بھیجا حضرت یعقوب (ع) کی نسل میں یہ شرف پیغمبری کیوں عطا نھیں کیا؟لہٰذا وہ غضب خدا وندی کا شکار ھوگئے اور کافروں کے لئے رسوا کن عذاب ھے۔

اور جب یھود سے کھا گیا : جو کچھ خاتم الانبیا ء پر نازل کیا گیا ھے اس پرایمان لاوٴ،تو انھوں نے کھا : جو کچھ ھم لوگوں پر نازل ھوا ھے ھم اس پر ایمان لائے ھیں اور جو ھم پر نازل نھیں ھوا ھے ھم اس کے منکر ھیں،جب کہ وہ جو کچھ خاتم الانبیاء پر نازل کیا گیا حق ھے اور انبیاء کی کتابوں میںموجود اخبار کی تصدیق اور اثبات کرتا ھے یعنی وہ اخبار جو بعثت خاتم الانبیاء سے متعلق ھیں اوران کے پاس ھیں،اے پیغمبر!ان سے کہہ دو! اگر تم لوگ خود کو مومن خیال کرتے ھو تو پھر کیوں اس سے پھلے آنے والے انبیاء کو قتل کر ڈالا ؟ کس طرح  کہتے ھو کے جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ھے اس پر ھم ایمان لائے ھیں جب کہ حضرت موسیٰ (ع)روشن علامتوں اور آیات کے ساتھ تمھارے پاس آئے اور تم لوگ خدا پر ایمان لانے کے بجائے گوسالہ پرست ھوگئے؟! اس وقت بھی خدا وندعالم نے جس طرح حضرت موسیٰ (ع) پر روشن آیات نازل کی تھیں اسی طرح خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بھی نازل کی ھیں اور بجز کافروں کے اس کا کوئی منکر نھیں ھوگا۔

اگر یھود ایمان لے آئیں اور خدا سے خوف کھائیں یقینا خدا انھیں جزا دے گا ،لیکن کیا فائدہ کہ اھل کتاب کے کفار اور مشرکین کو یہ بات پسند نھیں ھے کہ تم مسلمانوں پر کسی قسم کی کوئی آسمانی خبر یا کتاب نازل ھو،جب کہ خدا وندعالم جسے چاھے اپنی رحمت سے مخصوص کر دے ۔

خدا وندعالم اگر کوئی حکم نسخ کرے یااسے تاخیر میں ڈالے تو اس سے بہتر یا اس کے مانند لے آتا ھے خدا ھر چیز پر قادر اور توانا ھے۔

بہت سارے اھل کتاب اس وجہ سے کہ وحی الٰھی بنی اسرائیل کے علاوہ پر نازل ھوئی ھے حاسدانہ طور پر یہ چاہتے ھیں کہ تمھیں خاتم الانبیاء پر ایمان لانے کے بجائے کفر کی طرف پھیر دیںاور ایسااس حال میں ھے کہ حق ان پر روشن اور آشکار ھو چکاھے!یہ تم لوگوں سے کہتے ھیں کہ یھود اور نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں نھیں جائے گا یعنی تم لوگ اپنے اسلام کے باوجودبھشت سے محروم رھو گے؛کھو: اپنی دلیل پیش کرو !البتہ جو بھی اسلام لے آئے اور نیک اور اچھا عمل انجا م د ے اسکی جزا خدا کے  یھاں محفوظ ھے اور یھود ونصاری تم سے کبھی راضی نھیں ھوں گے مگر یہ کہ تم ان کے دین کا اتباع کرو۔

اُس کے بعد یھود کومخاطب کر کے فرمایا :اے بنی اسرائیل ؛جن نعمتوں کو ھم نے تم پر نازل کیا ھے اور تم لوگوں کو تمھارے زمانے کے لوگوں پر فضیلت وبرتری دی ھے اسے یاد کرو اور روز قیامت سے ڈرو۔

اس کے بعد یھود اور پیغمبر (ع) کے درمیان نزاع ودشمنی وعداوت کا سبب اور اس کی کیفیت بیان کرتے ھوئے فرماتا ھے: ھم بیت المقدس سے تحویل قبلہ کے سلسلے میں آسمان کی طرف تمھاری انتظار آمیز نگاھوں سے باخبر ھیں ابھی اس قبلہ کی طرف تمھیں لوٹا دیں گے جس سے تم راضی وخوشنود ھوجاوٴگے۔

 (اے رسول! )تم جھاں کھیں بھی ھو اور تمام مسلمان اپنے رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیں اھل کتاب،یھود جو تم سے دشمنی کرتے ھیں اور نصاریٰ یہ سب خوب اچھی طرح جانتے ھیں قبلہ کا کعبہ کی طرف موڑنا حق اور خدا وندکی جانب سے ھے اور تم جب بھی کوئی آیت یا دلیل پیش کرو تمھاری بات نھیں مانیں گے اور تمھارے قبلہ کی پیروی نھیں کریں گے۔

عنقریب بیوقوف کھیںگے : انھیں کونسی چیز نے سابق قبلہ بیت المقدس سے روک دیا ھے؟کھوحکم ،حکم خدا ھے مشرق و مغرب سب اسکا ھے جسے چاہتا ھے راہ راست کی ھدایت کرتا ھے، بیت المقدس کو اس کا قبلہ بنا نا اور پھر مکّہ کی طرف موڑنا لوگوں کے امتحان کی خاطر تھا مکّہ والوں کو کعبہ سے بیت المقدس کی طرف اور یھود کو مدینہ میں بیت المقدس سے کعبہ کی طرف موڑ کر امتحان کرتا ھے تا کہ ظاھر ھو جائے کہ آیاےہ جاننے کے بعد بھی کہ یہ موضوع حق اور خدا وندعالم کی جانب سے ھے اپنے قومی وقبائلی اور اسرائیلی تعصب سے باز آتے ھیں یا نھیں اور بیت المقدس سے کعبہ کی طرف رخ کرتے ھیں یا نھیں اوراس گروہ کا امتحان اس وجہ سے ھوا تاکہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ماننے والے ان لوگوں سے جو جاھلیت کی طرف پھرجائیں گے مشخص اور ممتاز ھوجائیں ،انکی نمازیں جو اس سے قبل بیت المقدس کی طرف پڑھی ھیں خدا کے نزدیک برباد نھیں ھوں گی۔

 اس طرح واضح ھوجاتا ھے کہ تبدیلی آیت سے مراد ،جس کا ذکر سورہٴ نحل کی مکی آیات میں قریش کی نزاع اور اختلاف کے ذکر کے تحت آیا ھے، خدا کی جانب سے ایک حکم کا دوسرے حکم سے تبدیل ھوناھے، اس نزاع کی تفصیل سورہٴ انعام کی ۱۳۸تا۱۴۶ویں آیات میں آئی ھے۔

اور یہ بھی واضح ھو جاتا ھے کہ (یھود مدینہ کی داستان  میں) نسخ آیت اور اس کی مدت کے خاتمہ سے مقصود و مراد موسیٰ کی شریعت میں نسخ حکم یا ایک خاص شریعت کی مدت کا ختم ھونا ھے ( اس حکمت کی بنا ء پر جسے خدا جانتا ھے)

 راغب اصفھانی نے لفظ (آیت) کی تفسیر میںصحیح راستہ اختیار کیاھے وہ فرماتے ھیں :کوئی بھی جملہ جو کسی حکم پر دلالت کرتا ھے آیت ھے، چاھے وہ ایک کامل سورہ ھو یا ایک سورہ کا بعض حصّہ ( سورہ میں آیت کے معنی کے اعتبار سے)یااس کے چند حصّے ھوں ۔

 لہٰذا مذکورہ دوآیتوں میں ایک آیت کودوسری آیت سے تبدیل کرنے اور آیت کے نسخ اور اس کے تاخیر میں ڈالنے سے مراد یھی ھے کہ جس کا تذ کرہ ھم نے کیا ھے ، اب آئندہ بحث میں حضرت موسیٰ (ع) کی شریعت میں نسخ کی حیثیت اور اس کی حکمت ( خدا کی اجازت اور توفیق سے ) تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔


[1] تفسیر طبری،ج۱۰،ص ۲۶،۲۷،تفسیر ابن کثیر ج،۲، ص۳۲۸ اور ۲۲۱ اور تفسیر الدر المنثور،ج۲،ص ۲۰۷۔

[2] نمل/۱۲۔

[3] اس بات کی مبسو ط اور مفصل شرح ((القرآن الکریم و روایات المدرستین)) کی دوسری جلد کی مصطلحات کی بحث میں مذ کور ھوئی ھے۔

[4] سورئہ بقرہ / ۴۰ ۔ ۶۳

[5] بقرہ ۸۷۔۹۲

[6] بقرہ/۹۹۔۱۰۶

[7] بقرہ/۱۱۹۔۱۲۰

[8] بقرہ/۱۲۲،۱۲۳

[9] بقرہ/ ۱۲۷

[10] بقرہ ۱۲۵

[11] بقرہ/ ۱۲۵

[12] بقرہ/ ۱۴۴تا۱۴۶

[13] بقرہ/ ۱۴۲،۱۴۳

[14]  بحث کی مزید شرح و تفصیل نیز اس کے مدارک و ماخذ ”قرآن کر یم اور مدر ستین کی روایات“: ج ۱، بحث : اسلامی اصطلاحات کے ضمن میں ملاحظہ کریں گے۔

[15] نحل:  ۱۰۱/  ۱۰۲/  ۱۰۵/  ۱۴ ۱/  ۱۱۵/  ۱۱۶/  ۱۱۸/  ۱۲۳/  ۱۲۴۔

[16] اسراء/۲

[17] ےہ طباعت سرخ اور سیاہ رنگ کے ساتھ(فقط) عھد جدید کے حصّہ میں مشخص ھو گی۔

[18] سورہ بقرہ / ۱۴۶۔

[19] تفسیر طبری آیہ مذکورہ

[20] آیت کی تفسیر سے متعلق تفسیر قرطبی، طبری اور سعد ابن ابی وقّاص سے ا ن دونوں کی روایت کی طرف مراجعہ ھو۔