سوال :قسم کھانا نذر کرنا اور قربانی کرنا غیر خدا کے لئے ذبح کرنا شرک اور بدعت هے اگر شیعہ اس بات کو مانتے ہیں تو کس دلیل سے کتاب اور سنت سے استناد کر تے ہیں؟
جواب:وہابیوں کے نزدیک قسم کھانا ،ذبح اور نذر کرنا غیر خدا کے لئے یا شرک هے یا حرام ان تین باتوں کو واضح کرنے کے لئے ہم ان تین باتوں کو مفصل بیان کریں گے ۔
ابن تیمیہ کہتا هے :”علما کا اتفاق هے کہ غیر خدا کی قسم منعقد ہی نہیں هوتی۔“(۱) اور وہ کہتا هے کہ :”غیر خدا کی قسم کھانا مشروع نہیں هے کیونکہ اس سے منع کیا گیا هے یا نہی تحریمی سے یا نہی تنزیہی سے ،علما ء اس مسئلہ میں دو نظر رکھتے ہیں کہ صحیح قول نہی تحریمی ہیں۔(۲)
صنعانی کہتے هے :”بلاشک غیر خداکی قسم چھوٹا شرک هے۔“(۳)
۱:قرآن کی آیات میں ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ بہت سے جگهوں پر دوسری چیزوں کی قسم کھاتا هے اگر یہ عمل منکر هوتا اور صحیح نہ هوتا تو خدا کو یہ عمل انجام نہیں دینا چاہئے تھا ۔خدا فرماتا هے :لاَیُحِبُّ اللهُ الْجَہْرَ بِالسُّوءِ مِنْ الْقَوْلِ(۴)
”خداوند متعالی غلط کلام پر تظاہر کرنا پسند نہیں کرتا ۔“اب ایک نمونہ خدا وند کی قسموں کا جو دوسری چیزوں کی کھائی هے ہم نقل کرتے ہیں ۔
خداوند متعال فقط سورہٴ ”شمس “میں سات چیزکی جو اس کی مخلوقات میں سے ہیں قسم کھاتا هے چاند ،سورج، رات،دن،آسمان،زمین اور انسان کانفس اور سورہٴ نازعات (۷۹)آیت ۱۔۳ میں تین چیز کی قسم کھاتا هے ۔سورہٴ مرسلات (۷۷)آیت۱۔۳میں اپنے دو مخلوق کی قسم کھاتا هے اور سورہٴ طارق ، قلم، عصر ،بلد،تین ،لیل،فجر،و طور میں بھی دوسری چیزوں کی قسم کھاتا هے۔
۲:بہت سی روایات میں جو شیعہ اور سنی کتابوں میں ہیں غیر خدا کی قسم کھانے کا مشاہدہ هوتا هے :
مسلم اپنی صحیح میں نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول خدا (ص) کے پاس آیا اور کہا:اے رسول خدا (ص)! کون سا صدقہ خدا کے نزدیک سب سے عظیم هے ؟رسول خدا (ص)نے فرمایا:هو شیار رهو!تمہارے باپ کی قسم۔۔۔(۵)کہ رسول خدا (ص)نے اس حدیث میں پوچھنے والے کے باپ کی قسم کھائی هے۔
اور دوسری حدیث میں اپنی سند سے نقل کیا هے کہ کوئی شخص نجد سے رسول خدا (ص)کے پا س آیا تاکہ اسلام کے بارہ میں سوال کرے ۔رسول خدا (ص)نے اس سے فرمایا:پانچ بار رات و دن میں نماز پڑھو اس نے سوال کیا :آیا اس کے علاوہ بھی میرے اوپر کچھ هے ؟پیغمبر نے فرمایا:نہیں۔۔۔مگر یہ چاهوکہ مستحب اعمال انجام دو۔اور ماہ رمضان کا روزہ بھی تمہارے اوپر واجب هے ۔اس کے بعد سائل نے عرض کیا اس کے علاوہ بھی کچھ مجھ پر واجب هے ؟پیغمبر نے فرمایا:نہیں۔۔۔مگر یہ چاهو کہ مستحب اعمال انجام دو۔ اس کے بعد وہ شخص یہ کہتا هوا گیا کہ خدا کی قسم ان سب واجبات پر نہ کچھ اضافہ کروں گا نہ کم ۔اس کے بعد رسول خدا (ص)نے فرمایا:”اس کے باپ کی قسم ،رستگار هوا اگر سچ کہہ رہا هے “یا فرمایا:اس کے باپ کی قسم ،بہشت میں داخل هوا،اگر سچ کہہ رہا هے۔(۶)
ایک اور حدیث کے ذیل میں جو امام احمد نے اپنی مسند میں نقل کیا هے کہ پیغمبر اکرم (ص)نے اپنے مخاطب سے فرمایا:”مجھے اپنی جان کی قسم هے اگر اچھے کام کا حکم کرو اور منکر و بُری بات سے منع کرو تو یہ کام ساکت رہنے سے اچھا هے۔“(۷)
امام علی علیہ السلام معاویہ کو خط میں لکھتے ہیں :”مجھے اپنی جان کی قسم هے اگر تم اپنی عقل سے دیکھو (نہ اپنی هوا اور هوس سے)تو تم مجھے ہر لحظہ قتل عثمان کے بارہ میں پاکترین شخص پاوٴ گے ۔“(۸)
مالک ابن انس نقل کرتے ہیں کہ ابو بکر ایک چور سے کہ جس نے ان کی بیٹی کا زیور چرایا تھا کہا:”تمہارے باپ کی قسم تمہاری رات چوروں کی رات نہیں تھی۔“(۹)
وہابیوں نے غیر خدا کی قسم کھانے کو حرام جلوہ دینے کے لئے ان بعض روایات سے مدد لیا هے جس میں پیغمبر اکرم (ص)نے لوگوں کو اپنے باپ دادا کو قسم کھانے سے منع کیا هے۔(۱۰)
اس دلیل کیا جواب یہ هے کہ:پیغمبر (ص)نے مسلمانوں کو اپنی باپ دادا کی قسم کھانے سے اس لئے منع کیا تھا کہ اس دوران ان کے باپ دادا یا کافر تھے یا مشرک و بت پرست تھے اور ان کے پاس کوئی کرامت نہیں تھی کہ اس کی قسم کھاتے اسی لئے بعض روایات میں ملتا هے :”اپنے باپ دادا اور طاغوتوں کی قسم نہ کھاوٴ۔“(۱۱)
اس روایت میں طاغوتوں کا تذکرہ باپ دادا کے ساتھ آیا هے اس سے واضح هوتا هے کہ پیغمبر (ص)کا مقصد کافر باپ دادا تھے لیکن جو بعض روایات میں پیامبر کا قول مطلق طور پر نقل هوا هے کہ:”جو شخص غیر خدا کی قسم کھائے وہ یقینا مشرک هے ۔“(۱۲)
تو اس سے اس مخصوص قسم کی طرف اشارہ هے جو” لات“”عزی“(صدر اسلام کے معروف بتوں کانام )کی قسم تھی جو اس دوران عربوں میں رائج تھی۔
وہابیوں کے یہاں ناجائز کاموں میں سے ایک خداکی قسم کھانا بھی هے جو مخلوق کے حق میں هے مثال کے طور پر کہاجائے :اے میرے معبود تجھ کو قسم دیتا هوں اپنے پیامبر (ص)کے حق کی میری حاجت پوری کر ۔
ابن تیمیہ کہتا هے :خدا وند متعال کی قسم کسی اور کے حق میں نہیں کھائی جاسکتی اسی لے جائزنہیں هے کہ انسا ن کهے:اے میرے خدا تجھے تیرے ملائکہ کی قسم هے اور اس کے مانند دیگر قسمیں ۔بلکہ فقط خدا اور اس کے اسماء و صفات کی قسم کھائی جاسکتی هے۔“(۱۳)
رفاعی کہتا هے :”قسم کھانا خداوندکی اس کے مخلوقات کے حق میں بہت بڑی بات اور شرک کے قریب هے اگر شرک نہ هو۔“(۱۴)
رفاعی کاکہنا هے کہ:جس چیز کے دن کی قسم جس چیز پر کھائی جائے وہ اس سے بلند و عظیم هو نا چاہئے لہٰذا خدا پر مخلوقات کے حق کی قسم دینے کا مطلب هے مخلوق خدا،خدا پر عظمت رکھتی هے۔
اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں :جس چیز کے حق کی خدا پر قسم دیتے ہیں اس کا لازمہ یہ هے کہ خدا کے نزدیک وہ شیء بڑی محترم نہ یہ کہ خداسے عظیم هے ۔
قدوری کہتا هے :”قسم کھانا اور مانگنا خداسے ،مخلوقین کے حق اور واسطہ سے جائزنہیں هے،کیونکہ خدا پر مخلوقات کا کوئی حق نہیں هے۔“(۱۵)
اس کے جواب میں بھی ہم کہتے ہیں :بہت سی آیات میں خدا پر موٴمنین کا حق معین هے ۔خداوندمتعال فرماتا هے : وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِینَ (۱۶)
”مومنین کا حق ہمارے اوپر یہ هے کہ ان کی یاری کریں ۔“اور سورہٴ توبہ اآیت ۱۱ ،سورہٴ یونس آیت ۱۰۲،سورہٴ نساء آیت ۱۷ میں بھی خدا پر لوگوں کے حق کا اشارہ هوا هے۔
رسول خدا (ص)نے فرمایا:”خدا پر حق هے کہ جنھوں نے عفت اورپرہیز گاری کی وجہ سے گناہ نہیں کیا هے اور اس سے گذر گئے ہیں وہ خوشحال رہیں خدا ان کی مدد کرے گا۔(۱۷)
حضرت آدم کی بھی خطا صرف ”اٴسالک بحق محمد الا غفرت لی“کہنے سے معاف هو گئی“(۱۸)
جن اعمال کی وجہ سے وہابیوں نے مسلمانوں کو شر ک کی نسبت دی هے ،اموات اور اولیاء خدا کے لئے ذبح کا موضوع هے۔
محمد ابن عبد الوہاب لکھتا هے :”پیامبر (ص)نے مشرکین سے جنگ کی تاکہ سب اعمال جس میں قربانی بھی شامل هے فقط خدا کے لئے انجام دیا جائے۔“ (۱۹)
اصل مطلب یہ هے کہ:اگر کسی نے کوئی حیوان غیر خدا کے عبادت کے لئے صدق سے ذبح کیا جیسے بت پرست لوگ کرتے تھے تویہ عمل شرک هے اور وہ دائرہ اسلام سے خارج هو گیا هے چاهے ان کے الوہیت پر اعتقاد رکھتا هو یا ان سے تقرب کی وجہ سے یہ عمل انجام دیا هو۔
لیکن اگر کسی نے کوئی حیوان انبیاء و اوصیاء یا مومنین کی طرف سے ذبح کیا تاکہ اس کا ثواب ان کو ملے ،جیسے کی بعض لو گ قرآن پڑھتے ہیں اور اس کا ثواب انبیاء واوصیاء یا مومنین کو ہدیہ دیتے ہیں ،کوئی شک و شبہ نہیں هے کہ ایسا کام عظیم اجرو ثواب رکھتاهے ۔اور اولیاء الٰہی کے لئے تمام قربانی کرنے والوں کا مقصد دوسری قسم هے۔
روایت میں هے کہ پیامبر (ص)نے اپنے ہاتھوں سے خود قربانی کیا اورفرمایا:بارالٰہا !یہ قربانی میری طرف سے اور جو میری امت کے ہر اس شخص کی طرف سے هے جنھوں نے قربانی نہیں کیا هے۔(۲۰)
ایک اور روایت میں آیا هے کہ امام علی علیہ السلام مسلسل رسول خدا (ص)کی طرف گوسفند قربانی کیا کرتے تھے اورفرما تے تھے :”رسول خدا (ص)نے وصیت کیا هے کہ ان کی طرف سے ہمیشہ قربانی کروں۔“(۲۱)
بریدہ نے روایت کیا هے کہ ایک عورت نے پیامبر (ص)سے سوال کیا کہ آیا اپنی ماں کے مرنے کے بعد ان کی طرف سے روزہ رہ سکتی هوںاور حج ادا کر سکتی هوں ؟پیا مبر (ص)نے فرمایا:ہاں(۲۲)
جس اعمال کے بارہ میں وہابیوں نے تحریم کا حکم دیا هے ،اس میں سے ایک غیر خداکی نذر کا حکم بھی هے۔
ابن تیمیہ کہتا هے-”ہمارے علماء جائز نہیں جانتے کہ کوئی شخص کسی قبر یا اس کے آس پاس کے لئے کوئی چیز نذر کرے ۔چاهے پیسہ هو یا شمع یا حیوان یا ان سب کے علاوہ چیزیں یہ سب نذریں حرام اور معصیت ہیں۔“(۲۳)
سید محسن امین عاملی کے کلام سے پتہ چلتا هے وہابی لوگ اس کام کو شرک سمجھتے ہیں ۔(۲۴)
اس میں کوئی شک نہیں هے کہ نذر غیر خدا کے لئے اس قصد کے ساتھ کہ وہ شخص نذر کے لئے شائستگی رکھتا هے اس وجہ سے کہ وہی اشیاء کا مالک هے اور تمام امور اس کے ہاتھوں میں هے ،شرک اور کفر هے ،کیونکہ نذر اعظم عبادات میں سے هے ۔لیکن اگر نذر کرنے والے کا مقصد یہ هو کہ اس کی نذر ایک صدقہ هے تاکہ اس کا ثواب اولیاء خدا کو ہدیہ دے توقطعا ًاس میں کوئی اشکال نہیں هے۔
پیامبر (ص)نے ایک لڑکی سے جو اپنی ماں کے لئے کسی عمل کی نذر کر چکی تھی فرمایا:”اپنی نذر پر عمل کرو۔۔۔“(۲۵)
ثابت ابن ضحاک نے پیغمبر اسلام (ص)سے روایت کی هے کہ ایک شخص نے نذر کیا هے کہ کسی حیوان کو بوّانہ میں ذبح کرے آیا یہ نذر صحیح هے ؟حضرت نے فرمایا:کیا وہاں کوئی ایسی جگہ هے جہاں بت کی عبادت هوتی هے۔عرض کیا نہیں ۔پھر حضرت نے فرمایا:وہاں مشرکین کی عید منائی جاتی هے؟عرض کیا نہیں اس کے بعد حضرت نے فرمایا:اپنی نذر پر وفا کرو۔(۲۶)
اس حدیث سے استفادہ هوتا هے کہ نذر صرف بتوں کے لئے محل اشکال رکھتی هے یا پھر عقیدہٴ شرک سے آلودہ هو۔
(۱)مجموعۃ الرسائل والمسائل ،ج۱،ص۲۰۹۔
(۲)وہی مدرک ،ج۱،ص۱۷۔
(۳)تطہیر الاعتقاد،ص۱۴۔
(۴)سورہٴ نساء (۴)آیت ۱۴۸۔
(۵)صحیح مسلم ،ج۳،ص۹۴،کتاب الزکاة ،باب فضل الصدقة۔
(۶)صحیح مسلم ،ج۱،ص۳۲باب ماھو الاسلام۔
(۷)مسند احمد،ج۵،ص۲۲۵۔
(۸)نہج البلاغہ،۳۶۷۔
(۹)موطاٴمالک رقم حدیث۲۹۔
(۱۰)سنن ترمذی،ج۴،ص۱۰۹؛سنن ابن ماجہ ،ج۱،ص۲۷۷؛مسند احمد،ج۲،ص۶۹۔
(۱۱)سنن نسائی ،ج۷،ص۷؛سنن ابن ماجہ ،ج۱،ص۲۷۸۔
(۱۲)بیہیقی ،السنن الکبریٰ ،ج۱۰،ص۲۹۔
(۱۳)مجموعۃ الرسائل والمسائل ،ج۱،ص۲۱۔
(۱۴)التوصل الی حقیقۃ التوسل ،ص۲۱۷۔۲۱۸۔
(۱۵)کشف الارتیاب،قدوری کے نقل کے مطابق۔
(۱۶)سورہٴ روم (۳۰)آیت ۴۷۔
(۱۷)سیوطی ،الجامع الصغیر ،ج۲،ص۳۳۔
(۱۸)المستدرک علی الصحیحین ،ج۲،ص۶۱۵۔
(۱۹)کشف الشبہات ،ص۶۲،چاپ المنار مصر۔
(۲۰)مسند احمد ،ج۳،ص۳۵۶؛سنن ابی داوٴد ،ج۳،ص۹۹،حدیث۲۸۱؛سنن ترمذی،ج۴، ص۷۷، حدیث۱۵۰۵۔
(۲۱)سنن ابی داوٴد ج۳،ص۹۴،حدیث۲۷۹۰۔
(۲۲)صحیح مسلم ج۲،ص۸۰۵،حدیث۱۱۴۹۔
(۲۳)رسائل الھدیۃ السنیۃ،ص۱۶۔
(۲۴)کشف الارتیاب ،ص۲۸۳۔
(۲۵)صحیح بخاری ،کتاب الاعتکاف ،حدیث ۵و۱۵و ۱۶؛صحیح مسلم ،کتاب الایمان ،حدیث ۲۷؛سنن ابی داوٴد،کتاب الایمان ،حدیث ۲۲؛سنن ترمذی ،کتاب النذور ،حدیث۱۲۔۔۔
(۲۶)سنن ابی داوٴد،کتاب الایمان ،حدیث ۲۲،سنن ابی ماجہ ،باب الکفارات ،حدیث ۱۸،مسند احمد باب اول،حدیث ۹۰۔