علّامہ سید مرتضی عسکری نے جو کچھ نصف صدی کے زیادہ سے عرصہ میں تحریر کیا ھے، مباحث کے پےش کرنے اور اس کی ارتقائی جہت گیری میں ممتاز اور منفرد حےثیت کے مالک ھیں، ان کی تحقیقات اور ان کے شخصی تجر بے اس طو لا نی مدت میں ان کے آثار کے خلوص وصفا میں اضا فہ کر تے ھیں ،وہ انھیں طو لا نی تحقیقات کی بنیاد پر اپنے اسا سی پر وگرا م کو اسلامی معا شرہ میں بیان اور اجراء کر تے ھیں، ایسے دقیق اور علمی پرو گرام جوھمہ جہت استوار اور متین ھیں ،روزافزوں ان کے استحکا م اور حسن میں اضا فہ ھو تا رہتاھے اور مباحث کا دائرہ وسیع تر اور ثمر بخش ھو جا تا ھے نیز افراط وتفر ےط اور اسا سی نقطہ ٴ نگاہ سے عقب نشینی اور انصراف سے مبر ا ھے اورےہ ایسی چیز ھے جو مباحث کے مضمون اور اس کے وسیع اور دائمی نتا ئج سے مکمل واضح ھے۔
علا مہ عسکری کا علمی اور ثقا فتی پر وگرام واضح ھدف کا ما لک ھو تا ھے : ان کی کوشش رہتی ھے کہ اسلامی میراث کو تحر یفات اور افتراپردازیوں سے پاک و صاف پیش کر یں،جن تحر یفات اور افتراپردازیوں کا دشوار اور پیچیدہ حا لا ت میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حیا ت کے بعد اسلام کو سامنا ھوا ،ان کی کوشش ھے کہ اسلام کی حقیقت واصا لت نیز اس کے خا لص اور پاک وصاف منبع تک رسائی حاصل کر یںاور اس کے بعد اسلام کو جیسا تھا نہ کہ جیسا ھو گیا پاک و صا ف اور خا لص انداز سے امت اسلا مےہ کے سا منے پےش کر یں۔
اسلامی تہذ یب میں اس طرح کا ھدف لے کر چلنا ابتدائے امر میں کوئی نئی اور منحصر بہ فرد چیز نھیں تھی، کیونکہ ایسی آرزو اورتمنا بہت سارے اسلا می مفکرین ما ضی اور حا ل میں رکھتے تھے اور رکھتے ھیں ،لیکن جو چیز علّامہ عسکری کو دوسروں سے ممتا زکر تی ھے اور انھیں خاص حےثیت کی ما لک بنا تی ھے وہ یہ ھے کہ وہ جز ئی اور محدود اصلا ح کی فکر میں نھیں ھیں تا کہ ایک نظر کو دوسری نظر سے اور ایک فکر کو دوسری فکر سے موازنہ کرتے ھوئے تحقیق کریں، نیز اپنے نقد وتحلیل کی روش کو دوسروں کو قا نع کر نے کے لئے محدود قضےہ کے ارد گرد استعمال کریں بلکہ وہ اسلام اور اسلامی میراث میں تحر یف اور کجر وی کے اصل سر چشمے کی تلا ش میں رہتے ھیں تا کہ شنا خت کے بعد اس کا علاج کرنے کے لئے کما حقہ قد م اٹھا ئیں؛ اور چو نکہ تحریف اور انحراف وکجروی کو قضےہ واحد ہ کی صورت میں دیکھتے ھیں لہٰذا اصلی اور خا لص اسلام تک رسا ئی کو بھی بغیر ھمہ جا نبہ تحقیق و بر رسی کے جو کہ تمام اطراف وجوا نب کو شا مل اورحا وی ھو، بعید اور غیر ممکن تصور کر تے ھیں ؛ ےھی وجہ ھے کہ اسلام کے تمام جو انب اور فروعات کی تحقیق و بر رسی کیلئے کمر بستہ نظر آتے ھیں ، نیز خود ساختہ مفروضوں اور قبل از وقت کی قضا وت سے اجتناب کرتے ھیں، اسی لئے تمام تا رےخی نصو ص جیسے روایات،احا دےث اور داستان وغیرہ جو ھم تک پھنچی ھیں ان سب کے ساتھ ناقدانہ طرز اپناتے ھیں اور سب کو قا بل تحقیق مو ضو ع سمجھتے ھیں اور کسی ایک کو بھی بے اعتراض اور نقص و اشکال سے مبرانھیں جا نتے وہ صر ف علمی اور سا لم بحث و تحقیق کو قرآن کریم اور قطعی اور موثق سنت کے پرتو میں ھر کھوٹے کھرے کے علا ج اور تشخےص کی تنھا راہ سمجھتے ھیں تا کہ جھو ٹ اور سچ اور انحرا ف کے مقا بل اصا لت کی حد و مرز مشخص ھوجا ئے۔
علّا مہ عسکری نے اپنے تمام علمی کا ر نا موں ، مشھو ر تا لیفا ت اور شھرہ آفاق مکتو بات کی اسی رو ش پر بنیا د رکھی ھے اور ان کو رشتہٴ تحر یر میں لا ئے ھیں ، ایسی تا لیفا ت جو مختلف علمی مید انوں میں ھیں لیکن اصلی و اسا سی مقصد میں ایک دوسرے کے ھمراہ ھیں اور اس ھدف کے تحقق کی راہ میں سب ھم آواز ھیں ، ےھی وجہ ھے کہ اگر علّا مہ عسکری کو تا رےخ نگا ر یا تارےخ کامحقق کھیں تو ھماری یہ بات دقیق اور صحیح نھیں ھوگی ، جبکہ یہ ایک ایسا عنوان ھے جو بہت سارے قا رئین کے اذ ھا ن میں( ان کی عبد الله ابن سبانا می کتاب کے وجود میں آنے کے بعد چالیس سا ل پھلے سے اب تک )را سخ اور جا گز یں ھو چکا ھے۔
ھا ں علا مہ عسکر ی مور خ نھیں ھیں، بلکہ وہ ایک ایسے پر وگرام کے بانی اور موٴسس ھیں جو جا مع اور وسیع ھے جس کی شا خیں اور فر وعات ، اسلا می میرا ث کے تمام جوانب کو اپنے احا طہ میں لئے ھو ئے ھیں، وہ جھاں بھی ھوں انحرا ف و کجروی اور اس کے حدود کے خواھاں اور اس کی چھان بین کر نے والے ھیں ، تاکہ اصلی اور خا لص اسلا م کی شنا سائی اور اس کا اثبات کرسکیں، شاید یہ چیزاسی کتاب (عقائد اسلام در قرآن کر یم ) میںمعمو لی غور و فکرسے حا صل ھو جا ئے گی ،ایسی کتاب جس کی پھلی جلد تقر یبا ۵۰۰ /صفحات پر مشتمل عر بی زبان میں منتشر ھو چکی ھے۔
یہ کتاب اسلام کے خا لص اور صا ف ستھرے عقائد کو قرآن کر یم سے پےش کر تی ھے،چنانچہ جنا ب علّامہ عسکر ی خود اس حقیقت کو بیان کر تے ھو ئے کتا ب کے مقد مہ میں فر ماتے ھیں: ” میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اسلا می عقائد کو نھا یت سا دگی اور کامل اندا ز میں بیان کر تا ھے ، اس طرح سے کہ ھر عا قل عر بی زبان سے ایسا آشنا جو سن رشد کو پھونچ چکا ھے اسے بخو بی سمجھتا اور درک کرتا ھے “علا مہ عسکر ی اس کتاب میں نرم اور شگفتہ انداز میں لماء پر اعترا ض کر تے ھو ئے فر ما تے ھیں:
اسلامی عقائد میں یہ پیچید گی ، الجھاوٴاوراختلاف وتفرقہ اس وجہ سے ھے کہ علما ء نے قرآ ن کی تفسیر میں فلسفیوں کے فلسفہ، صوفیوں کے عرفان، متکلمین کے کلام ، اسرا ئیلیات اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف منسو ب دیگر غیر تحقیقی روا یات پر اعتماد کیا ھے اور قرآن کر یم کی آیا ت کی ان کے ذریعہ تا ویل اور تو جیہ کی ھے اور اپنے اس کار نامہ سے اسلام کے عقائد میں طلسم ، معمے اور پھیلیاں گڑھ لی ھیں کہ جسے صرف فنون بلا غت، منطق، فلسفہ اور کلا م میں علماء کی علمی روش سے وا قف حضرا ت ھی سمجھتے ھیں اور ےھی کام مسلما نوں کے( درمیان ) مختلف گروھوں ،معتز لہ،اشا عرہ ،مر جئہ وغیرہ میں تقسیم ھو نے کا سبب بن گیا ھے ۔
لہٰذا یہ کتاب اپنی ا ن خصو صیات اور امتیا زات کے ساتھ جن کی طرف ھم نے اشارہ کیا ھے یقینا یہ بہت اچھی کتاب ھے جو اسلامی علوم کے دوروں کے اعتبار سے بہتر ین درسی کتاب ھو سکتی ھے۔
اس کتاب کے پڑھنے وا لوں کو محسوس ھو گا کہ ھمارے استاد علّامہ عسکری نے عقائد پےش کر نے میں ایک خا ص تر تیب اور انسجام کی رعا یت کی ھے اس طرح سے کہ گز شتہ بحث، آئندہ بحث کے لئے مقد مہ کی حےثیت رکھتی ھے ، نیز اس تک پھو نچنے اور درک کرنے کا را ستہ ھے اور قا رئین محتر م کو قدرت عطا کرتی ھے کہ عقائد اسلام کو دقت نظر اور علمی گھرا ئی کے ساتھ حاصل کر یں، چنا نچہ قارئین عنقر یب اس بات کو درک کرلیں گے کہ آئندہ مبا حث کو درک کر نے کے لئے لا زمی مقد مات سے گز ر چکے ھیں۔
اس کتاب میں مصنف کی دےگر تالیفات کی طرح لغو ی اصطلا حوں پر خاص طر سے تکےہ کیا گیا ھے ، وہ سب سے پھلے قا رئین کواصطلاح لغا ت کی تعر یفوں کے متعلق لغت کی معتبر کتا بوں سے آشنا کرا تے ھیں، پھر مورد بحث کلمات اور لغا ت نیز ان کے اصل مادوں کی الگ الگ تو ضیح و تشریح ،اسلا می اور لغوی اصطلا ح کے اعتبار سے کر تے ھیں تا کہ اسلا می اور لغو ی اصطلا ح میں ھر ایک کے اسباب اختلا ف اور جھا ت کو آشکا ر کریں اور ان زحمتوں اور کلفتوں کواس لئے بر داشت کر تے ھیں تا کہ بحث کی راہ ھموا ر کریں اور صحیح اور اساسی استفادہ اورنتیجہ اخذ کرنے کا امکا ن فر اھم کر یں۔
اس وجہ سے قا رئین کتاب کے مطا لعہ سے احساس کر یں گے کہ اسلا می عقید ے کو کا مل اور وسیع انداز میں جدید اور واضح علمی روش کے ساتھ نیز کسی ابھام وپیچید گی کے بغیر حا صل کرلیا ھے ؛ا ور اس کا مطا لعہ کر نے کے بعد دےگر اعتقا دی کتا بوں کی طرف رجو ع کر نے سے خو د کو بے نیاز محسوس کریں گے اورےہ ایسی خوبی ھے جو دےگر کتا بوں میں ند رت کے ساتھ پا ئی جا تی ھے ، با لخصوص اعتقا دی کتابیں جو کہ ابھام ، پیچید گی اور تکرار سے علمی واسلامی سطح میں مشھور ھیں،اسی طرح قارئین اس کتاب میں اسلام کے ھمہ جا نبہ عقائد کو درک کرکے قرآن کر یم اور اس کی نئی تفسیری روش کے سمجھنے کیلئے خود کو نئی تلاش کے سامنے دیکھتے ھیں،ےہ سب اس خاص اسلوب اور روش کا مرھون منت ھے جسے علّا مہ عسکری نے قرآنی آیات سے استفادہ کے پےش نظر استعمال کیا ھے۔
علّا مہ سید مرتضی ٰ عسکری کی کتاب قرآنی اور اعتقا دی تحقیقات میں مخصوص مرتبہ کی حا مل ھے ،انھوں نے اس کتاب کے ذریعہ اسلام کے اپنے اصلی پر وگراموں کو نافذ کر نے میں ایک بلند قدم اٹھا یا ھے ۔
۱۔حضرت آدم کے بعد:حضرت نوح، حضرت ابراھیم ،حضرت موسی ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلوات الله علےھم اجمعین کی شریعتوں میں نسخ:
الف۔ حضرت آدم (ع) ، نوح اورابراھیم (ع) کی شریعت میں یگانگت اور اتحاد۔
ب۔ نسخ و آیت کے اصطلاحی معنی۔
ج۔آیہٴ کریمہ”ما ننسخ من آیة“اور آیہ کریمہ ” اذا بد لنا آیة مکان آیة“کی تفسیر۔
د۔ حضرت موسیٰ (ع)کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص تھی اور حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بعثت کے بعد ختم ھو گئی ۔
ھ۔ ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی۔
۲۔رب العالمین انسان کو آثار عمل کی جزا دیتا ھے ۔
الف۔ دنیوی جزا۔
ب۔ اخروی جزا ۔
ج۔ موت کے وقت ۔
د۔ قبر میں ۔
ھ۔محشر اور قیامت میں۔
و۔بھشت ودوزخ میں۔
ز۔صبر کی جزا۔
عمل کی جزا ء آ ئندہ والوں کی میراث۔
شفاعت، بعض اعمال کی جزا ھے۔
عمل کا حبط ھونا بعض اعمال کی سزا ھے ۔
جن اور انسان عمل کی جزا ء پانے میں برابر ھیں۔
۳۔”رب العالمین “کے اسماء اور صفات ۔
الف ۔اسم کے معنی۔
ب ۔رحمان۔
ج۔ رحیم۔
د۔ذوالعرش اور رب العرش۔
۴۔”وللہ الاسماء الحسنیٰ “ کے معنی ۔
الف ۔الله۔
ب ۔کرسی۔
۵۔ الله رب العالمین کی مشیت ۔
الف۔ مشیت کے معنی۔
ب۔ رزق وروزی۔
د: رحمت و عذاب ۔
ج ۔ھدایت وراھنمائی۔
۶۔بدا یا محو و اثبات< یمحوالله ما ےشاء و ےثبت>
الف۔بداکے معنی۔
ب۔ بداعلمائے عقائد کی اصطلاح میں ۔
ج۔ بداٴ قرآن کریم کی روشنی میں۔
د۔ بدامکتب خلفاء کی روایات میں۔
ھ۔ بدامکتب اھل بیت (ع) کی روایات میں۔
۷۔جبر و تفوےض اور اختیار نیز ان کے معنی۔
۸۔ قضا و قدر ۔
ا لف۔ قضا و قدر کے معنی۔
ب۔ ائمہ اھل بیت کی روایات قضا و قدر سے متعلق۔
ج ۔سوال وجواب۔
الف: حضرت آدم اور نوح کی شریعتیں ۔
ب : نسخ و آیت کی اصطلاح اور ھر ایک کے معنی۔
ج : آیہٴ کریمہ ”ما ننسخ من آیة “اور آیہٴ کریمہ: ”واذا بدلنا آیة مکان آیة۔۔ ۔“کی تفسیر
د: موسی کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص تھی اور خاتم الانبیاء کی بعثت کے بعد ختم ھوگئی۔
اس بحث میں قرآن کریم اور اسلامی روایات کی جانب رجوع کرتے ھوئے صر ف ان امور کو بیان کریںگے جن سے صاحبان شریعت پیغمبروں کے زمانے میں (نسخ) کا موضوع واضح اور روشن ھو جائے ، اسی لئے ھود (ع) ،صالح (ع)، شعیب (ع) جیسے پیغمبروں کا تذکرہ نھیں کریں گے جن کی امتیں نابودھو چکی ھیں ،بلکہ ھماری گفتگوان پیغمبر وں سے مخصوص ھے جنکی شریعتیں ان کے بعد بھی زندہ رھیں،جیسے حضرت آدم (ع) ، نوح(ع)، ابراھیم(ع) ، موسیٰ(ع) ، عیسیٰ(ع) اور محمد صلوات الله علےھم اجمعین اور اس کو ھم زمانے کی ترتیب کے ساتھ ذکر کریں گے۔
حضرت آدم (ع) ، نوح (ع)، ابراھیم (ع) اور محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شریعتوں میں اتحاد و ےگانگت
روایات میں منقول ھے کہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا :روز جمعہ تمام ایام کا سردار ھے اور خدا کے نزدیک ان میں سب سے عظیم دن ھے، خدا وندعالم نے حضرت آدم (ع) کو اسی دن خلق فرمایا اور وہ اسی دن باغ(جنت) میں داخل ھوئے اور اسی دن زمین پر اترے[2] اور حجرالاسود ان کے ھمراہ نازل کیا گیا ۔[3]
دوسری روایات میں اس طرح آیا ھے : خدا وند عالم نے پیغمبروں ، اماموں اور پیغمبروں کے اوصیاء کو جمعہ کے دن خلق فرمایا-۔
اسی طرح روایات صحیحہ میں آیا ھے کہ جبرائیل (ع) حضرت آدم - کو حج کیلئے لے گئے اور انھیں مناسک کی انجام دھی کا طریقہ سکھا یا اور بعض روایات میں مذکور ھے:
بادل کے ٹکڑے نے بیت الله پر ساےہ کیا، جبرائیل نے سا ت بار آدم کو ا س کے ا رد گرد طواف کرایا پھر انھیں صفا و مروہ کی طرف لے گئے اور سات بار ان دونوں کے درمیان سعی(رفت و آمد) کی،پھر اسکے بعد ۹/ ذی الحجہ کو عرفات میں لے گئے حضرت آدم(ع) نے عرفہ کے دن عصر کے وقت خدا وندعالم کی بارگاہ میں تضرع و زاری کی اور خدا وند عالم نے ان کی توبہ قبول کر لی ،اسکے بعددسویں کی شب کو مشعر الحرام لے گئے تو وھاں آپ صبح تک خدا وندعالم سے راز و نیاز اور مناجات میں مشغول رھے اور دسویں کے دن منیٰ لے گئے تو وھاں پر توبہ کے قبول ھونے کی علامت کے عنوان سے سر منڈوایا پھر دوبارہ انھیں مکّہ واپس لائے اور سات بار کعبہ کا طواف کرایا، اسکے بعد خدا کی خوشنودی کی خاظر نماز پڑھی پھر نماز کے بعد صفا و مروہ کی سمت روانہ ھوئے اور سات بار سعی کی ، خدا وند عالم نے حضرت آدم و حوا (ع) کی توبہ قبول کرنے کے بعد دونوں کو آپس میں ملا دیا اور دونوں کو یکجا کر دیا اور حضرت آدم کو پیغمبری کے لئے برگزیدہ فرمایا۔[4]
دا وندسبحان نے سورئہ نوح میں ارشاد فرمایا:
إِنَّا اٴَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَی قَوْمِہِ اٴَنْ اٴَنذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ اٴَنْ یَاٴْتِیَہُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ * قَالَ یَاقَوْمِ إِنِّی لَکُمْ نَذِیرٌ مُبِینٌ * اٴَنْ اعْبُدُوا اللهَ وَاتَّقُوہُ وَاٴَطِیعُونِی * وَقَالُوا لاَتَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلاَتَذَرُنَّ وَدًّا وَلاَسُوَاعًا وَلاَیَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا [5]
بیشک ھم نے نوح (ع) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور کھا : اپنی قوم کو ڈراؤ، نوح(ع) نے کھا:اے قوم ! میں آشکارا ڈرانے والا ھوں تاکہ خدا کی بندگی کرو اور اس کی مخالفت سے پرھیز کرو نیز میری اطاعت کرو۔
ان لوگوں نے کھا :اپنے خداوٴں کو نہ چھوڑو اور ودّ ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نامی بتوں کو نہ چھوڑو۔
قرآن کریم میں حضرت نوح(ع) کی داستان کا جو حصہ ھماری بحث سے تعلق رکھتا ھے ،وہ سورئہ شوریٰ میں خدا وند متعال کا یہ قول ھے کہ فرماتا ھے:
شَرَعَ لَکم مِّن الدِّ ین مَا وَصَّیٰ بِہِ نُوحَاً وَ الَّذِی اَوحینا اِلیک وَ مَا وَ صّیناَ بِہ اِبراھِیم وَ موَسیٰ وَ عِیسیٰ اَن اَقِیمواا لدِّین وَ لاَ تَتَفَرَّقُوا فیہ [6]
وھی آئین و قانون تمھارے لئے تشریع کیا جس کا نوح(ع) کو حکم دیا اور جس کی تم کو وحی کی اورابراھیم (ع)، موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا ، وہ یہ ھے کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔
۱۔ودّ، سواع، یغوث اور نسر : علاّمہ مجلسی رحمة الله علےہ حضرت امام جعفر صادق (ع) سے بحارالانوار میں ایک روایت ذکر کرتے ھیں جسکا مضمون ابن کلبی کی کتاب الاصنام اور صحیح بخاری میں بھی آیا ھے جس کا خلاصہ اس طرح ھے :
ودّ ، سواع، یغوث اور نسر ، نیکو کار، مومن اور خدا پرست تھے جب یہ لوگ مر گئے تو انکی موت قوم کے لئے غم واندوہ کا باعث اور طاقت فرسا ھوگئی ،ابلیس ملعون نے ان کے ورثاء کے پاس آکر کھا: میں ان کے مشابہ تمھارے لئے بت بنا دیتا ھوں تاکہ ان کو دیکھو اور انس حاصل کر وخدا کی عبادت کرو ،پھر اس نے ان کے مانند بت بنا ئے تو وہ لوگ خدا کی عبادت کرتے اور بتوں کا نظارہ بھی اورجب جاڑے اور برسات کا موسم آیا تو انھیں گھروں کے اندر لے گئے اور مسلسل خدا وند عزیز کی عبادت میں مشغول رہتے ،یھاں تک کہ انکا زمانہ ختم ھوگیا اور ان کی اولاد کی نوبت آگئی وہ لوگ بولے یقینا ھمارئے آباء و اجداد ان کی عبادت کرتے تھے ، اس طرح خدا وندکی عبادت کے بجائے انکی عبادت کرنے لگے، اسی لئے خداوند عالم ان کے قول کی حکایت کرتا ھے:
وَلاَتَذَرُنَّ وداًّ وَ لا سُواعاً[7]
۲۔ وصیت : انسان کا دوسرے سے وصیت کرنا یعنی ، ایسے مطلوب اور پسندیدہ کاموں کے انجام دینے کی سفارش اور خواھش کرنا جس میں اس کی خیر و صلاح دیکھتا ھے۔
خدا وندعالم کا کسی چیز کی وصیت کرنا یعنی حکم دنیا اور اس کا اپنے بندوں پر واجب کرنا ھے۔[8]
خدا وندعالم نے گزشتہ آیات میں خبر دی ھے کہ نوح (ع) کو انکی قوم کے پاس بھیجا تاکہ انھیں ڈرائیں نوح نے ان سے کھا: میںتمھیں ڈرانے والا(پیغمبر) ھوں اور مجھے حکم دیا گیا ھے کہ تم سے کھوں : خدا سے ڈرو اور صرف اسی کی بندگی اور عبادت کرو اور خداوندا عالم کے اوامر اور نواھی کے سلسلے میں میری اطاعت کرو ،ان لوگوں نے انکار کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے جواب میں کھا : اپنے خدا کی عبادت سے دستبردار نہ ھونا! خدا وند عالم نے آخری آیتوں میںبھی فرمایا:
اے امت محمد! خداوند عالم نے تمھارے لئے وھی دین قرار دیا ھے جو نوح (ع) کے لئے مقرر کیا تھا اور جو کچھ تم پر اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) وحی کی ھے یہ وھی چیز ھے جس کا ابراھیم (ع) ،موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا گیا تھا ، پھر فرمایا اس دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ اندازی نہ کرو۔[9]
اورجو کچھ اس مطلب پر دلالت کرتا ھے وھی ھے جو خدا وند عالم سورئہ ( صافّات ) میں ارشاد فرماتا ھے:
سَلامٌ عَلَیٰ نُوحِ فِی العَالَمین ۔ اِنَّاکذٰلِکَ نَجزِیَ المُحسِنِین ۔ اِنَّہ مِن عِبَادِنَا المُوٴمِنِین۔ ثُمَّ اَ غرَقنَا ا لآ خرِین ۔وَاِنَّ مِن شِیعتِہ لاَ بِراھِیم اِذ جَا ءَ رَبَّہُ بِقلبٍ سَلیم[10]
عالمین کے درمیان نوح (ع) پر سلام ھو ھم اسی طرح نیکو کاروں کو جزا دیتے ھیں کیونکہ وہ ھمارے مومن بندوں میں تھے ،پھر دوسروں کو غرق کر دیا اور ابراھیم (ع) ان کے شیعوں میں سے تھے ، جبکہ قلب سلیم کے ساتھ بارگاہ خدا وندی میں آئے۔
شیعہ یعنی ثابت قدم اور پائدار گروہ جو اپنے حاکم و رئیس کے فرمان کے تحت رھے،شیعہ شخص ، یعنی اسکے دوست اور پیرو۔[11]
اس لحاظ سے، آیت کے معنی: (ابراھیم نوح کے شیعہ اور پیرو کارتھے)ےہ ھوں گے کہ ابراھیم (ع) حضرت نوح(ع) کی شریعت کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرتے تھے۔
خدا وندعالم کی توفیق و تائید سے آئندہ مزید وضاحت کریں گے۔
ھماری بحث میں حضرت ابراھیم (ع) سے مربوط آیات درج ذیل ھیں:
الف۔سورہ حج َ :
<وَ اِذ بَوّ انا لِابراھیم مکان البیت ان لا تشرک بی شےئا وطھر بیتی للطا ئفین و القائمین والرکع السجود# واذن فی الناس بالحج یاٴ توک رجالا و علیٰ کل ضامر یاٴ تین من کلّ فج عمیق # لےشھدوا منافع لھم و ےذکروا اسم الله فی اٴیام معلومات علی مارزقھم من بھیمة الا نعام >[12]
اورجب ھم نے ابراھیم کیلئے گھر( بیت اللہ) کو ٹھکانا بنایا توان سے کھا : کسی چیز کومیرے برابر اور میرا شریک قرار نہ دو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں ،قیام کرنے والوں ، رکوع اور سجودکرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ رکھو اور لوگوں کو حج کی دعوت دو تا کہ پیادہ اور لا غر سواریوں پر سوار دور دراز راہ سے تمھاری طرف آئیں ، تا کہ اپنے منافع کا مشاھدہ کریں اور خدا وند عالم کا نام معین ایام میں ان چوپایوں پر جنھیں ھم نے انکا رزق قرار دیا ھے اپنی زبان پر لائیں:
ب ۔ سورئہ بقرہ:
<و اِذ جعلنا البیت مثابةً للناس و امناً و اتّخد وا من مقام اِبراھیم مصلی و عھدنا الی ابراھیم و اسماعیل ان طھرابیتی للطائفین و العا کفین و الرکع السجود۔۔۔ واذ یرفع اٴبراھیم القواعد من البیت و اسماعیل ربّنا تقبّل منا اِنک اَنت السمیع العلیم ۔ ربنا واجعلنا مسلمین لک و من ذریتنا اٴمة مسلمة لک و اٴرنا منا سکنا وتب علینا اِنّک اَنت التوّاب الرحیم>[13]
اورجب ھم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا ٹھکانہ اور ان کے امن و امان کا مرکز بنایا اور ان سے فرمایا مقام ابراھیم(ع) کو اپنا مصّلیٰ قرار دو اور ابراھیم (ع) و اسماعیل کو حکم دیا کہ میرے گھر کوطواف کرنے والوں ،مجاورں ،رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ رکھو اور جب ابراھیم و اسما عیل (ع) خانہ کعبہ کی
دیواریں بلند کر رھے تھے تو کھا : خدایا ھم سے اسے قبول فرما اس لئے کہ تو سننے اور دیکھنے والا ھے ،خدایا !ھمیں اپنا مسلمان اور مطیع و فرما نبردار قرار دے اور ھماری ذریت سے بھی ایک فرمانبردار ، مطیع ومسلمان امت قرار دے نیز ھمیں اپنی عبادت کا طریقہ بتا اور ھماری توبہ قبول کر اس لئے کہ تو توبہ قبول کرنے والا اور مھربان ھے۔
ج۔ سورئہ بقرہ :
و قالو ا کونوا ھوداً او نصاریٰ تھتدوا قل بل ملّة ابراھیم حنیفاً و ما کان من المشرکین قولوا آمنّا با للہ و ما اٴنزل الینا و ما اٴنز ل ا لیٰ اِبراھیم واِسماعیل و اسحٰق ویعقوب و الاِٴسباط وما اٴوتی موسیٰ وعیسیٰ و ما اٴوتیٰ النبیون من ربّھم لا نفرق بین اٴحد منھم و نحن لہ مسلمون[14]
اور انھوں نے کھا : یھودی یا نصرانی ھو جاؤ تاکہ ھدایت پاؤ؛ ان سے کھو : بلکہ حضرت ابراھیم کے خالص اور محکم آئین کااتباع کرو کیونکہ وہ کبھی مشرک نھیں تھے ان سے کھو ھم خدا پر ایمان لائے ، نیزاس پر بھی جو ھم پر نازل ھوا ھے اور جو کچھ ابراھیم(ع) ،اسماعیل ، اسحق ،یعقوب اور انکی نسل سے ھو نے والے پیغمبروں پر نازل ھوا ھے ، نیز جو کچھ موسیٰ ،عیسیٰ اور تمام انبیاء پر خداوندا عالم کی جانب سے نازل کیا گیا ھے ھم ان میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے سے الگ نھیں جانتے اور ھمصرف خدا کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ھیں۔
د۔سورئہ آل عمران:
ما کان اِبراھیم یھودیا ولانصرانیا و لکن کان حنیفاً مسلماً و ما کان من المشرکین[15]
ابرا ھیم نہ تو یھودی تھے اور نہ ھی نصرانی بلکہ وہ ایک خالص خدا پر ست اور مسلمان تھے اور وہ کبھی مشرک نھیں تھے۔
نیز اسی سورہ میں :
قل صدق الله فاتبعوا ملّة ابراھیم حنیفاً وما کا ن من المشرکین [16]
کھو! خداوند عالم نے سچ کھا ھے ،لہٰذا براھیم کے خالص آئین کی پیروی کرو کیونکہ وہ کبھی مشرک نھیں تھے۔
ہ۔ سورئہ انعام:
قل انّنی ھدانی ربّی الی صراط مستقیم دیناً قیماً ملّة ابراھیم حنیفا وما کان من المشرکین[17]
کھو! ھمارے خدانے ھمیں راہ راست کی ھدایت کی ھے استوار و محکم دین اور ابراھیم کے خالص آئین کی وہ کبھی مشرک نھیں تھے۔
ز۔سورئہ نحل:
ثمّ اٴوحینا الیک ان اتّبع ملّة اِبراھیم حنیفاًو ما کان من المشرکین[18]
پھر ھم نے تم کو وحی کی کہ ابراھیم (ع) جو کہ خالص اور استوار ایمان کے مالک تھے نیز مشرکوں میں نھیں تھے ان کے آئین کی پیروی کرو۔
کلمات کی تشریح:
۱۔ بوّانا: ھّیاٴنا :ھم نے آمادہ کیا ،جگہ دی اوراسے تمکن بخشا۔
۲۔اَذِّن: اعلان کرو ، دعوت دو ،صدا دو ،لفظ اذا ن کا مادہ یھی کلمہ ھے۔
۳۔ رجالاً: پا پیادہ ، جو سواری نہ رکھتا ھو،راجل یعنی پیادہ ( پیدل چلنے والا)
۴۔البھیمة: ھر طرح کے چوپائے۔
۵۔ ضامر: دبلا پتلا لاغر اندام اونٹ۔
۶۔فجّ: پھاڑوں کے درمیان درّہ کو کہتے ھیں۔
۷۔مثابة-: اس جگہ کو کہتے ھیں جھاں لوگ رجوع کرتے ھیں:
و اِٴذجعلنا البیت مثابة للناس
یعنی ھم نے گھر کو حجاج کے لئے رجوع اورباز گشت کی جگہ قرار دی تاکہ لوگ جوق در جوق اس کی طرف آئیں، نیز ممکن ھے ثواب کی جگہ مراد ھو ، یعنی لوگ مناسک حج و عمرہ کی انجام دھی کے ساتھ ساتھ ثواب و
جزاکے بھی مالک ھوں ،نیز ان کے امن و امان کی جگہ ھے۔
۸۔< مناسکنا،عباداتنا>”نُسک “خدا کی عبادت اور وہ عمل جو خدا سے نزدیکی اور تقرب کا باعث ھو ،جیسے حج میںقربانی کرنا کہ ذبح شدہ حیوان کو -” نسیکہ“کہتے ھیں ؛ منسک عبادت کی جگہ اورمناسک: عرفات ،مشعر اور منیٰ وغیرہ میں اعمال حج اور اس کے زمان و مکان کو کہتے ھیں۔
۹۔ مقام ابراھیم(ع) :کعبہ کے مقابل روئے زمین پر ایک پتھر ھے جس پر حضرت ابراھیم علےہ السلام کے قدموں کے نشانات ھیں۔
۱۰۔ حنیف : استوار، خالص ، ضلا لت و گمراھی سے راہ راست اور استقامت کی طرف مائل ھونے والا ؛ حضرت ابراھیم (ع) کی شریعت کا نام ”حنیفیہ“ ھے۔
۱۱۔قِیماً، قِیماور قَیم: ثابت مستقیم اور ھر طرح کی کجی اور گمراھی سے دور۔
۱۲۔ ملة۔ دین، حق ھو یا باطل ، اس لحا ظ سے جب بھی خدا ، پیغمبر اور مسلمان کی طرف منسوب ھو اس سے مراد دین حق ھے۔
آیات کی مختصر تفسیر:
خدا وندا عالم فرماتا ھے: اے پیغمبر!اس وقت کو یاد کرو جب ھم نے ابراھیم کو خانہ کعبہ کی جگہ سے آگاہ کیا تاکہ اس کی تعمیر کر یں اور جب ابراھیم (ع)و اسماعیل (ع) خانہ کعبہ کی تعمیر کر رھے تھے تو وہ دونوں اپنے پروردگار کو آواز دیتے ھوئے کہہ رھے تھے : خدا یا !ھم سے اس عمل کو قبول کر اور ھمیں اپنا مطیع و فرما نبردار مسلمان بندہ قرار دے، نیز ھماری ذریت سے ایک سراپا تسلیم رھنے والی مسلمان امت قرار دے، نیز ھمیں اپنی عبادت کا طریقہ بتا ،خدا وند سبحان نے انکی دعا قبول کر لی ، ابراھیم(ع) نے خواب میں دیکھا کہ اپنے بےٹے اسماعیل (ع) کو راہ خدا میں قربان کر رھے ھیں۔[19] اس وقت اسماعیل سن رشد کو پھنچ چکے تھے اور باپ کے ساتھ کعبہ کی تعمیر میں مشغول تھے، ابراھیم (ع) نے خواب میں جو کچھ دیکھا تھا اسماعیل (ع) کو اس سے آگاہ کر دیا، انھوں نے کھا : بابا آپ جس امر پرمامور ھیںاسے انجام دیجئے ،آپ مجھے عنقریب صابروں میں پائیں گے، لہٰذا جب دونوں فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ھو گئے اور ابراھیم (ع) نے اپنے بےٹے اسماعیل (ع)کو زمین پر لٹا دیا تاکہ راہ خدا خدا وند عالم نے ابراھیم (ع) کو حکم دیا کہ حج کااعلان کردیں کہ عنقریب لوگ پاپیادہ اورسواری سے دور دراز مسافت طے کر کے حج کے لئے آئیں گے اور خدا وندعالم نے اس گھر کو امن و امان کی جگہ اور ثواب کا مقام قرار دیا اور حکم دیا کہ لوگ مقام ابراھیم (ع) کو اپنا مصلیٰ( نماز کی جگہ) بنا ئیں۔
خدا وند عالم دےگرآیات میں ابراھیم (ع) کے دین اور ملت کے بارے میں خبر دیتے ھو ئے فرماتا ھے :
ابراھیم (ع) خالص اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے ، وہ نہ تو مشرک تھے اور نہ یھودی اور نصرانی ، جیسا کہ بعض اھل کتاب کا خیال ھے ، خداوندعالم نے ھمیں حکم دیا ھے کہ ھم آئین ابراھیم کی پیروی کریں اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اس کام کے لئے مخصوص فرماتے ھو ئے ارشاد فرمایا کہ وہ لوگو ں سے کھیں:
ھمارے خدا نے ھمیں راہ راست کی ھدایت کی ھے ، جواستوار دین اور حضرت ابراھیم (ع) کی پاکیزہ ملت جوکہ شرک سے رو گرداں اور اسلام کی طرف مائل تھے منجملہ حضرت خاتم الا نبیا(ع)ء کا اپنے جد ابراھیم (ع) کی شریعت کی پیروی میں مناسک حج بجا لا نا بھی ھے اس طرح کہ جیسے انھوں نے حکم دیا تھا ، رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) خدا کی امت بھی ایسا ھی کرتی ھے اور مناسک حج اسی طرح سے بجا لاتی ھے جس طرح ابراھیم (ع) خلیل الر حمن نے انجام دیا تھا۔
جمعہ کا دن حضرت آدم (ع) اور ان تمام لوگوں کے لئے جوان کے زمانے میں زندگی گزار رھے تھے مبارک دن تھا، یہ دن حضرت خاتم الانبیا ء اور ان کی امت کے لئے بھی ھمےشہ کے لئے مبارک ھے۔
خانہ خدا کا حج آدم (ع) ، ابراھیم (ع) اور خاتم الانبیاء (ع) نیز ان کے ماننے والے آج تک بجا لا تے ھیں اور اسی طرح ابد الآبادتک بجا لا تے رھیں گے، خدا وند عالم نے حضرت خاتم الا نبیاء اوران کی امت کے لئے وھی دین اور آئین مقرر فرما یا جو نوح(ع) کے لئے تھا اورحضرت ابراھیم (ع) حضرت نوح(ع) کے پیرو اور ان کی شریعت کے تابع تھے ،اسی لئے خدا وند عالم نے خا تم الانبیا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور ان کی امت کو حکم دیا کہ شریعت ابرا ھیم(ع) اور ان کے محکم اور پائدار دین کے تابع ھوں ۔
پیغمبروں کی شریعتوں میں حضرت آدم سے پیغمبر خاتم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تک کسی قسم کا کوئی اختلاف نھیں ھے اور اگرکچھ ھے بھی تو وہ گزشتہ شریعت کی آئندہ شریعت کے ذریعہ تجد ید ھے اور کبھی اس کی تکمیل ھے،یہ بات پھلے گزر چکی ھے کہ حضرت آدم (ع) نے حج کیا اور حضرت ابراھیم (ع) نے خانہ کعبہ کی تعمیر کرکے حج کی بعض علا متوں کی تجد ید کی اور خا تم الانبیا ء(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے احرام کے میقا توں کی تعےین کی مقام ابراھیم (ع) کو مصلیٰ بنایا اور تمام نشانیوں کی وضاحت کر کے اس کی تکمیل کی۔
خدا وند سبحان نے اسلا می احکام کواس وقت کے انسانوں کی ضرورت کے مطابق حضرت آدم کے لئے ارسال فرمایا جو انسان اپنی کھیتی باڑی اور جانورں کے ذریعہ گز ر اوقات کرتا تھا اور شھری تہذیب و تمدن سے دور تھا ،جب نسل آدمیت کا سلسلہ آگے بڑھا اور حضرت نوح (ع) کے زمانے میں آبادیوں کا وجود ھوا اور بڑے شھروں میں لوگ رھنے لگے تو انھیں متمدن اور مہذ ب افراد کے بقدر وسیع تر قانون کی ضرورت محسوس ھو ئی ، (انسان کی تجارتی ، سماجی اور گونا گوں مشکلات کو دیکھتے ھوئے جن ضرورتوں کا بڑے شھروں میں رھنے والوں کو سامنا ھوتاھے) تو خدا وندعالم نے اسلامی احکام کی جتنی ضرورت تھی حضرت نوح (ع) پر نازل کیا ،تا کہ ان کی ضرورتوں کی تکمیل ھو سکے جس طرح خاتم الا نبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)پرزمانے کی ضرورت کے مطابق احکام نازل فرمائے ۔
گزشتہ امتیں عام طور پر اپنے نبیوں کے بعد منحرف ھوکر شرک کی پجاری ھو گئیں جیسا کہ اولاد آدم کا کام حضرت نوح (ع) کے زمانے میں بت پرستی تھا ،ایسے ماحول میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے سب سے پھلے خالق کی توحید کی دعوت دی اور بتوں کی عبادت کو ترک کرنے کا حکم دیا جیسا کہ حضرت نوح(ع) ، ابراھیم (ع) اور حضرت خاتم الانبیاء تک تمام نبیوں کا ےھی دستور اور معمول رھاھے چنانچہ آ نحضرت عرب کے بازاروں اور حجاج کے خیموں میں رفت و آمد رکھتے اور فرماتے تھے < لاالہ الا الله > کھو !کا میاب ھو گے! کبھی بعض امتوں کے درمیان ان کے سرکش اور طاغوت صفت رھبر نے ” ربوبیت“ کا دعوی کیا جیسے نمرود ملعون نے حضرت ابراھیم (ع) کے ساتھ ان کے پروردگار کے بارے میں احتجاج کیا اور سرکش اور طاغی فرعون نے (انا ربکّم الا علیٰ )کی رٹ لگائی ،ایسے حالات میں خدا کے پیغمبر سب سے پھلے اپنی دعوت کا آغاز تو حید ربوبی سے کرتے تھے ، جیسا کہ ابر اھیم (ع) نے نمرود سے کھا: < ربّی الذی یحےی و یمیت> میرا پر وردگار وہ ھے جو زندہ کرتا اور موت دیتا ھے۔
اور حضرت موسیٰ (ع) نے فرعون سے کھا :
ربّنا الذی اعطیٰ کلّ شیءٍ خلقہ ثمّ ھدیٰ۔[20]
ھمارا رب وہ ھے جس نے ھر مو جود کو اس کی خلقت کے تمام لوازم عطا کئے ،اس کے بعد ھدایت فر مائی۔
حضرت موسیٰ (ع)کی فر عون سے اس گفتگو کی تشریح سورئہ اعلی میں موجود ھے:
سبّح اسم ربّک الاٴ علیٰ ۔ الذی خلق فسوّیٰ ۔ و الذی قدّر فھدیٰ ۔ و الذی اٴخرج المرعیٰ ۔ فجعلہ غثاء ً اٴ حویٰ [21]
اپنے بلند مرتبہ اور عالی شان پروردگار کے نام کو منزہ سمجھو ، وھی جس نے زیور تخلیق سے منظم و آراستہ فرمایا ، وھی جس نے تقدیر معین کی ھے اور پھر ھدایت فرمائی ، وہ جس نے چرا گاہ کو وجود بخشا پھر اسے خشک اور سیاہ بنادیا ۔
سورئہ اعراف میں بیان ھوتا ھے :
اِنّ ربّکم الله الذی خلق السّموات و الا ٴرض[22]
بےشک تمھارا ربّ وہ خدا ھے جس نے آسمان و زمین خلق کیا ھے۔
اس بنا پر بعض گزشتہ امتیں بنیادی عقیدہ تو حید سے منحرف ھوجاتی تھیں جیسے حضرت نوح (ع) اور ابراھیم (ع) وغیرہ کی قومیں اور بعض عمل کے اعتبار سے اسلام سے منحرف ھو جاتی تھیں جیسے قوم لوط اور شعیب کے کرتوت۔
اگر قرآن کریم ، پیغمبروں کی رو ایات ،انبیا ء کے آثار اور اخبار اسلامی مدارک میں بغور مطالعہ اورتحقیق کی جائے تو ھمیںمعلوم ھو گا کہ بعد والے پیغمبر خدا وند عالم کی جانب سے پھلے والے پیغمبروں پر نازل شدہ شریعت کی تجدید کرنے والے رھے ھیں ، ایسی شریعت جو امتوں کی طرف سے محو اور تحریف ھو چکی تھی ، اس لئے خدا نے ھمیں حکم دیا کہ ھم کھیں:
آمنّا بالله و ما اٴنزل الینا و ما اٴنزل ِالیٰ ابراھیم و اِسما عیل و اِسحق و یعقوب و الاٴسباط و ما اٴوتی مو سیٰ و عیسیٰ و ما اٴو تی ٰ النبیون من ربّھم لا نفرّق بین اٴحد منھم ونحن لہ مسلمون[23]
کھو کہ ھم خدا اور جو کچھ خدا کی طرف سے ھم پر نازل ھوا ھے اس پر ایمان لا ئے ھیںنیز ان تمام چیزوں پر بھی جو ابر اھیم، اسماعیل ، اسحق ، یعقوب اور انکی نسل سے ھو نے والے پیغمبروں پر نازل ھوئی ھیں ، نیزجو کچھموسیٰ، عیسیٰ اور تمام انبیا ء کو خدا کی جانب سے دیا گیا ، ھم ان میں سے کسی ایک کو بھی کسی سے جدا تصوّر نھیں کرتے ھم تو صرف اور صرف فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ھیں ۔
سوال:
ممکن ھے کوئی سوال کرے: اگر پیغمبروں کی شر یعتیں ایسی ھی ھیں جیسا کہ آپ بیان کرتے ھیں تو انبیاء کی شریعتوں میں نسخ کے معنی ٰ کیا ھوں گے کہ خدا و ندعالم ارشاد فرماتا ھے :
ما ننسخ من آیة اٴوننسھا نات بخیر منھا اٴو مثلھا الم تعلم اٴنّ الله علی کلّ شیءٍ قدیر[24]
(کوئی حکم ھم اس وقت تک نسخ نھیں کرتے یا اسکے نسخ کو تاخیر میں نھیں ڈالتے جب تک کہ اس سے بہتر یا ا س جیسا نہ لے آئیں کیا تم نھیں جانتے کہ خدا ھر چیز پر قادر ھے)۔
نیز خدا وند عالم کی اس گفتگو میں ”تبدیل“ کے کیا معنی ھیں کہ فرما تا ھے:
و اِذا بدّلنا آیة مکان آیة و الله اعلم بما ینزّ ل قالو اِنّما اٴنت مفتر بل اٴکثرھم لا یعلمون[25]
(اور جب ھم ایک آیت کو دوسری آیت سے تبدیل کرتے ھیں ( کسی حکم کو نسخ کرتے ھیں ) توخدا بہتر جانتا ھے کہ کونسا حکم نازل کرے ، کہتے ھیں: تم افترا پردازی کرتے ھو ، بلکہ ان میں زیادہ تر لوگ نھیں جانتے)
جواب:
ھم اسکے جواب میں کھیں گے : یھاں پر بحث دو موضوع سے متعلق ھے:
۱۔ اصطلا ح ”نسخ“ اور اصطلا ح” آیت“ -۔
۲۔مذکورہ آیات کے معنی۔
انشاء الله آئندہ بحث میں اس کے متعلق چھان بین اور تحقیق کریں گے۔
[1] ”سلیم الحسنی“ کے مقالے کا ترجمہ کچھ تلخیص کے ساتھ جو عر بی زبان کے”الوحدة“نامی رسالہ میں شائع ھوا ھے،نمبر ۱۷۶،شوال ۱۴۱۵ ھ ،ص ۳۸۔
[2] صحیح مسلم،ج ۵،ص ۵ کتاب الجمعة باب فضل الجمعة،طبقات ابن سعد،ج۱،طبع یورپ۔
[3] مسند احمد،ج۲،ص ۲۳۲،۳۲۷اور۵۴۰۔ اخبار مکہ ازرقی(ت ۲۲۳ھج) طبع، ۱۲۷۵ھج ص ۳۱۔
[4] طبقات ابن سعد،طبع یورپ،ج،۱ ص ۱۲،۱۵،۳۶،مسند احمد، ج،۱۔۵ ص ۱۷۸ اور ۲۶۵،مسند طیالسی(حدےث /۴۷۹) بحار الانوار ج۱۱،ص ۱۶۷ اور ۱۹۷ حضرت آدم (ع) کی کیفیت حج سے متعلق متعدد اور مختلف روایات پا ئی جاتی ھیں۔
[5] نوح:۱/۲/۳/۲۳۔
[6] شوری ٰ: / ۱۳
[7] بحار الانوار۔ج۳،ص ۲۴۸ اور ۲۵۲؛ صحیح بخاری،ج۳ ص ۱۳۹ سورہ نوح کی تفسیر کے ذیل میں۔
[8] معجم الفاظ القرآن الکریم مادہٴ وصی۔
[9] آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر تبیان اور مجمع البیان میں ملاحظہ ھو ۔
[10] آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر ”تبیان“ ملاحظہ ھو۔
[11] لسان العرب مادہ :شیع ۔
[12] حج/۲۶۔۲۸
[13] بقرہ/ ۱۲۵۔۱۲۸
[14] بقرہ/ ۱۳۵ و ۱۳۶
[15] آل عمران/۶۸
[16] آل عمران/۹۵
[17] انعام/ ۱۶۱
[18] نحل/۱۲۳
[19] پیغمبر جو خواب میں دیکھتا ھے وہ ایک قسم کی وحی ھو تی ھے۔
میں قربان کریں تو خدا وند عالم نے آواز دی : اے ابراھیم (ع) !تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھا یا!کیو نکہ اسمٰعیل (ع) کو ذبح کرنے میں مشغول ھو گئے تھے اور یہ وھی چیز تھی جس کا انھوں نے خواب میں مشاھدہ کیا تھا ، انھوں نے خواب میں یہ نھیں دیکھا تھا کہ وہ اپنے بےٹے کو ذ بح کر چکے ھیں اسی اثنا میں خدا نے دنبہ کو اسماعیل (ع) کا فدےہ قرار دیا اور ابراھیم (ع) کے سامنے فراھم کردیا اور انھوں نے اسی کی منیٰ میں قربانی کی ۔
[20] طہ/۵۰
[21] اعلی / ۱ ۔ ۵
[22] اعراف/۵۴
[23] اعراف/۵۴
[24] سورہ ٴ بقرہ / ۱۰۶
[25] سورہ ٴ بقرہ / ۱۰۶