آیہ تطھیر کا پنجتن پاک (علیھم السلام) کے بارے میں نازل ھونا

احادیث کا ایک اورگروہ ھے جن میں آیہ تطھیر کے نزول کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،علی وفاطمہ،حسن وحسین علیھم السلام کے بارے میں بیان کیا گیا ھے۔ان میں سے بعض احادیث میں یہ مطلب خود پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ھے،جیسے یہ حدیث:

”۔۔۔ عن ابی سعید الخدری قال: قال رسول اللّٰہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نزلت ہذہ الآیة فی خمسة:فیّ و فی علی و حسن وحسین وفاطمة ۔۔۔إنّما یرید اللّٰہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطہّرکم وتطھیراً[1]

۱۔جامع لبیان ،طبری،ج۲۲،ص۵،دارالمعرفة۔بیروت میں اس حدیث کی سند یوں ھے:حدثنی محمد بن المثنی قال:ثنابکر بن یحیی بن زبان العنزی قال:ثنا(حدثنا) مندل،عن الآعمش عن عطیة عن اٴبی سعید الخدری۔

اس سند میں ”بکر بن یحیی بن زبان“ ھے۔چنانچہ ان کا نام تہذیب التہذیب،۱،ص۴۲۸ دارالفکر،میں درج ھے۔ابن حبان نے اسے ”کتاب ا لثقات“(جس میں ثقہ راوی درج کئے گئے ھیں)میں درج کیا ھے۔

ابن حجر نے”مندل“(بن علی) کے بارے میں تہذیب التہذیب ،ج۱۰،ص۲۶۵،میں ذکر کیا ھے کہ یعقوب بن شیبہ اوراصحاب یحیی(بن معین)اور علی بن مدینی نے اسے حدیث میں ضعیف جانا ھے جبکہ وہ خیّر،فاضل اور راستگوھیںاوراسی کے ساتھ ساتھ وہ ضعیف الحدیث بھی ھیں ۔اس بیان سے واضح طور پر معلو م ھو تا ھے کہ جومذمتیں اس کے بارے میںھوئی ھیں وہ اس کی احادیث کے جہت سے ھے اورجیسا کہ عجلی نے اس کے بارے میں کھا ھے،۔اس کے شیعہ ھونے کی وجہ سے ھیں۔

حدیث کا ایک اورراوی”اعمش“(سلیمان بن مھران) ے کہ اس کے موثق ھونے کے بارے میں رجال کی کتا بوں میںکافی ذکرآیا  ھے،من جملہ یہ کہ وہ راستگوئی میں مصحف کے مانند ھے(تہذیب التہذیب،ج۴،ص۱۹۶،دارالفکر)

حدیث کا ایک اورراوی ”عطیہ بن سعد عرفی“ھے کہ اس کے بارے میں ”لا و انت علی خیر“  کی تعبیر کی تحقیق کے سلسلہ میں بیان کی گئی ۔

۔۔۔ابی سعید خدری سے رایت ھے کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا: یہ آیت پنجتن پاک(علیھم السلام) کے بارے میں نازل ھوئی ھے کہ جس سے مرادمیں،علی ،حسن،حسین اورفاطمہ (علیھم السلام)ھیں۔

دوسری احادیث میں بھی ابوسعید خدری سے ھی روایت ھے اس نے اس آیت کے نزول کو پنجتن پاک علیھم السلام سے مربوط جانا ھے۔جیسے یہ حدیث :

”عن اٴبی سعید قال: نزلت الآیة فی خمسة نفر - و سمّاھم - <إنّما یرید اللّٰہ لیذھب عنکم الرجس اٴھل البیت و یطہّرکم تطھیراً> فی رسول اللّٰہ و علیّ و فاطمة و الحسن و الحسین  علیھم السلام“۱#

ابوسعید خدری سے روایت ھے کہ اس نے کھا:آیہ <إنّمایرید اللہ۔۔۔>پانچ افراد کے بارے میں نازل ھوئی ھے:رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) علی وفاطمہ،حسن وحسین (علیھم السلام) “

ابوسعید خدری سے اورایک روایت ھے کہ (عطیہ نے)کھا:میں نے اس سے سوال کیا:اھل بیت کون ھیں؟(ابوسعید نے جواب میں)کھا:اس سے مراد پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ، علی وفاطمہ،حسن وحسین(علیھم السلام) ھیں۔[2]

اس سلسلہ کی بعض احادیث ام سلمہ سے روایت ھوئی ھیں کہ آیہ شریفہ پنجتن پاک کے بارے میں نازل ھوئی ھے،جیسے مندرجہ ذ یل حدیث:

”۔۔۔ عن اٴم سلمة قالت: نزلت ہذہ الآیة فی رسول اللہ ّٰ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) و علیّ و فاطمة و حسن و حسین - علیھم السلام - :إنّما یرید اللّٰہ لیذھب عنکم الرجس اٴھل البیت ویطہّرکم تطھیراً[3]

”ام سلمہ سے روایت ھے کہ اس نے کھا:یہ آیت(آیہ تطھیر) پیغمبر خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) علی و فاطمہ ،حسن و حسین (علیھم السلام)کے  بارے میں نازل ھوئی ھے۔“

آیہ تطھیر اوراس سے مربوط احادیث کے بارے میں دونکتے

اس سلسلہ میں مزید دواھم نکتے قابل ذکر ھیں:

۱۔اب تک جوکچھ ھم نے بیان کیا ھے اس سے یہ مطلب واضح ھوجاتا ھے کہ لفظ ”اھل بیت“میں ”بیت“سے مراد رھائشی بیت(گھر) نھیں ھے۔کیونکہ بعض افرادجیسے:ابی الحمراء، واثلہ،ام ایمن اورفضہ اس گھر میں ساکن تھے،لیکن ان میں سے کوئی بھی”اھل بیت“کی فھرست میں شامل نھیں ھے۔

نیزاس کے علاوہ”بیت“سے مراد نَسَب بھی نھیں ھے ۔کیونکہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا عباس ا وران کے فرزند،جن میں بعض نَسَب کے لحاظ سے علی علیہ السلام کی نسبت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب تھے وہ بھی اھل بیت میں شامل نھیں ھیں(البتہ عباس کے بارے میںایک حدیث نقل کی گئی ھے کہ سوالات کے باب میں اس پر بحث کریں گے)۔

بلکہ اس بیت(گھر)سے مرادنبوت کا”بیت“ھے۔کہ جس میںصرف ”پنجتن آل عبا داخل“ھیں اور وہ اس بیت(گھر)کے اھل اورمحرم اسرار ھیں۔اس سلسلہ میں آیہ شریفہ<فی بیوت اذن اللّٰہ ان ترفع ویذکرفیھااسمہ>[4]  نور خدا  ان گھروں میں ھے جن کے بارے میں خداکی طرف سے اجازت ھے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اوران میں خدا کانام لیا جائے)کے ذیل میں بیان کی گئی سیوطی [5]کی درجہ ذیل حدیث قابل توجہ ھے:

” اٴخرج ابن مردویہ عن اٴنس بن مالک و بریدہ قال: قراٴ رسول اللّٰہ ہذہ الآیة:< فی بیوت اٴذن اللّٰہ اٴن ترفع> فقام إلیہ رجل فقال قال: اٴیّ بیوتٍ ہذہ یا رسول اللّٰہ؟ قال: بیوت الآنبیاء فقام إلیہ اٴبوبکر فقال: یا رسول اللّٰہ ہذا البیت منھا؟ البیت علی وفاطمة؟ قال: نعم من اٴفا ضلھا۔“

”ابن مردویہ نے انس بن مالک اوربریدہ سے روایت کی ھے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس آیت:<  فی بیوت اُذن اللہ ۔۔۔>کی قراٴت فرمائی۔ایک شخص نے اٹھ کرسوال کیا:یہ جوبیوت(گھر)اس آیت میں ذکر ھوئے ھیں ان سے مرادکونسے گھر ھیں؟ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جواب میں فرمایا:انبیاء(علیھما السلام)کے گھر میں۔ابوبکراٹھے اورکھا:یارسول اللہ!کیا ان میںعلی و فاطمہ(علیھا السلام)کا گھر بھی شامل ھے؟ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:جی  ھاںوہ ان سے برتر ھے۔“

۲۔ان احادیث پر غورو خوض کرنے سے واضح ھوجاتا ھے کہ ان میں ایک حصر کا استعمال کیا گیاھے اور وہ حصر،حصراضافی کی ایک قسم ھے۔یہ حصر پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیویوںاورآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے دوسرے ر شتہ داروں(جیسے عباس اوران کے فرزندوں)کے مقابلہ میں ھے یہ حصران احادیث کے منافی نھیں ھے،جن میں اھل بیت سے مراد چودہ معصومین علیھم السلام یعنی پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)،علی وفاطمہ،حسن وحسین اوراوردوسرے نوائمہ معصومین (علیھم السلام)کو لیا گیا ھے ۔اول خودآیہ تطھیر کی دلیل سے کہ اس میں صرف<لیذھب عنکم الرجس ویطھرکم ۔۔۔>پر اکتفا  نھیں کیا گیا ھے بلکہ موضوع کا عنوان”اھل بیت“قراردیاگیا ھے۔ حدیث کساء میں صرف پنجتن پاک کا زیرکساء آنااورپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے ان کے لئے دعا کیا جا نا اس بناپر تھا کہ اس وقت اس محترم خاندان سے صرف یھی پانچ افراد موجود تھے ورنہ شیعوں کے تمام ائمہ معصومین علیھم السلام،من جملہ حضرت مھدی علیہ السلام”اھل بیت“ کے مصداق ھیں۔

چوتھے امام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ایک حدیث میں اپنے آپ کو”اھل بیت“کا مصداق جانتے ھوئے آیہ تطھیر سے استناد کیا ھے [6]نیزشیعہ واھل سنت سے حضرت مھدی( عج) کے بارے میںنقل کی گئی بہت سی احادیث کے ذریعہ ان کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اھل بیت میں شمار کیاگیا ھے۔[7]

حدیث ثقلین (جس کے معتبر ھونے میںکوئی شک وشبہ نھیں ھے نیز متواتر ھے )میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید اوراپنے اھل بیت کے بارے میں فرمایا ھے:

”۔۔۔فانّھا لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض [8]

”یہ دو (قرآن مجیداوراھل بیت) ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاںتک حوض کوثرپر مجھ سے ملیں گے۔“

اس بیان سے استفادہ ھوتا ھے قرآن مجید اور اھل بیت  کے در میان لازم و ملزم ھو نے کا رابطہ قیامت تک کے لئے قائم ھے اور یہ جملہ اھل بیت کی عصمت پردلالت کر تا ھے اور اس بات پر بھی دلالت کرتا ھے کہ ھرزمانے میں اھل بیت طاھرین میں سے کم ازکم ایک شخص ایسا موجود ھوگا کہ جو اقتداء اور پیروی کے لئے شائستہ وسزاوار ھو۔

اھل سنت کے علماء میں بھی بعض ایسے افراد ھیں کہ جنھوں نے حدیث ثقلین سے استد لال کرتے ھوئے اس مطلب کی تائید کی ھے کہ ھرزمانہ میں اھل بیت معصومین (ع)میں سے کوئی نہ کوئی ضرور موجود ھوگا۔[9]

جن احادیث میں اھل بیت کی تفسیرچودہ معصومین(ع)سے کی گئی ھے،ان میں سے ھم ایک ایسی حدیث کو نمونہ کے طور پر پیش کررھے ھیں،جس کو شیعہ [10]اورسنی دونوں نے  نقل کیا ھے:

ابراھیم بن محمد جوینی نے ”فرائد السمطین[11] “میں ایک مفصل روایت درج کی ھے۔چونکہ یہ حدیث امامت سے مربوط آیات کی تفسیر کے سلسلہ میں دوسری کتابوں میں درج کی گئی ھے، اس لئے ھم یھاں پر اس سے صرف آیہ تطھیر سے مربوط چند جملوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ھیں۔

اس حدیث میں حضرت علی علیہ السلام مھاجر وانصار کے بزرگوں کے ایک گروہ کے سامنے  اپنے فضائل بیان کرتے ھوئے اپنے اوراپنے اھل بیت کے بارے میں نازل ھوئی قرآن مجید کی چندآیتوں کی طرف اشارہ فرماتے ھیں،من جملہ آیہ تطھیرکی طرف کہ اس کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام نے یوں فرمایا:

”۔۔۔اٴیّھاالنّاس اٴتعلمون اٴنّ اللّٰہ اٴنزل فی کتابہ: إنّما یرید اللّٰہ لیذھب عنکم الرجس اٴھل البیت و یطہّرکم تطھیراً فجمعنی و فاطمة و ابنییّ الحسن و الحسین ثمّ اٴلقی علینا کساءً و قال: اللّھمّ ہؤلاء اٴھل بیتی و لحمی یؤلمنی ما یؤلمھم، و یؤذینی ما یؤذیھم، و یحرجنی ما یحرجھم، فاٴذھب عنھم الرجس و طہّرھم تطھیراً۔

فقالت اٴُمّ سلمة: و اٴنا یا رسول اللّٰہ؟ فقال: اٴنت إلی خیر إنّما اُنزلت فی (و فی ابنتی) و فی اٴخی علیّ بن اٴبی طالب و فی ابنیَّ و فی تسعة من ولد ابنی الحسین خاصّة لیس معنا فیھا لاٴحد شرک۔

فقالوا کلّھم: نشھد اٴنّ اٴمّ سلمة حدّثتنا بذلک فساٴلنا رسول اللّٰہ فحدّثنا کما حدّثتنا اٴمّ سلمة۔[12]

”اے لوگو!کیا تم جانتے ھو کہ جب خدا وند متعال نے اپنی کتاب سے آیہء:<إنّما یرید اللہ ۔۔۔> کو  نازل  فرمایا پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مجھے،فاطمہ اورمیرے بیٹے حسن وحسین (علیھم السلام)کوجمع کیا اور ھم پر ایک کپڑے کا سایہ کیا اورفرمایا:خداوندا! یہ میرے اھل بیت ھیں۔جس نے انھیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اورجس نے انھیں اذیت پھنچائی اس نے مجھے اذیت پھنچائی ھے جس نے ان پرسختی کی اس نے گویا مجھ پر سختی کی ۔(خدا وندا!)ان سے رجس کو دور رکھ اورانھیں خاص طورپرپاک وپاکیزہ قرار دے۔

ام سلمہ نے کھا:یارسول اللہ!میں بھی؟(رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے)فرمایا:تم خیر ونیکی پرھو، لیکن یہ آیت صرف میرے اورمیری بیٹی (فاطمہ زھرا)میرے بھائی علی بن ابیطالب(علیہ السلام) اور میرے فرزند ( حسن و حسین علیھما السلام) اور حسین (علیہ السلام)کی ذریت سے نوائمہ معصومین کے بارے میں نازل ھوئی ھے اورکوئی دوسرااس آیت میں ھمارے ساتھ شریک نھیں ھے ۔اس جلسہ میں موجود تمام حضار نے کھا:ھم شھادت دیتے ھیں کہ ام سلمہ نے ھمارے سامنے ایسی حدیث بیان کی ھے اورھم نے خود پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے بھی پوچھا توانھوںنے بھی ام سلمہ کے مانند بیان فرمایا۔“

آیہ تطھیرکے بارے میں چند سوالات اور ان کے جوابات

اس بحث کے اختتام پر ھم مناسب سمجھتے ھیں کہ آیہ تطھیر کے بارے میں کئے گئے چند سوالات کے جوابات پیش کریں:

پھلاسوال

گزشتہ مطالب سے جب یہ معلوم ھوگیا کہ اس آیہ کریمہ میں ارادہ سے مرادارادہ تکوینی ھے۔اگرارادہ تکوینی ھوگا تو یہ دلالت کرے گا کہ اھل بیت کی معنوی طھارت قطعی اورناقابل تغیر ھے۔کیا اس مطلب کو قبول کرنے کی صورت میںجبر کا قول صادق نھیں آتا ھے؟

جواب

خدا وند متعال کا ارادہ تکوینی اس صورت میں جبر کا سبب بنے گا جب اھل بیت کا ارادہ واختیار ان کے عمل انجام دینے میں واسطہ نہ ھو لیکن اگر خداوند متعال کاارادہ تکوینی اس سے متعلق ھو کہ اھل بیت اپنی بصیرت آگاھی نیز اختیارسے گناہ اور معصیت سے دور ھیں،توارادہ کا تعلق اس کیفیت سے نہ صرف جبر نھیں ھوگا بلکہ مزیداختیار پر دلالت کرے گا اورجبر کے منافی ھوگا،کیونکہ اس فرض کے مطابق خدا وند متعال کے ارادہ کا تعلق اس طرح نھیں ھے کہ وہ چاھیں یا نہ چاھیں ،اپنے وظیفہ انجام دیں گے، بلکہ خدا وند متعال  کے ارادہ کا تعلق ان کی طرف سے اطاعت کی انجام دھی اور معصیت سے اجتناب ان کے اختیار میں ھے اور ارادہ و اختیار کا پایا جا نا ھی خلاف جبر ھے۔

اس کی مزید وضاحت یوں ھے کہ: عصمت درحقیقت معصوم شخص میں پائی جانے والی وہ بصیرت اور وہ وسیع و عمیق علم ھے، جس کے ذریعہ وہ کبھی اطاعت الھیٰ سے منحرف ھو کر معصیت و گناہ کی طرف  تمائل پیدا نھیں کرتا ھے اور اس بصیرت اور علم کی وجہ سے اس کے لئے گناھوں کی برائیاں اور نقصانات اس قدر واضح اور عیاں ھو جاتے ھیں کہ اس  کے بعد اس کے لئے محال ھے کہ وہ گناہ کا مرتکب ھو جائے۔

مثال کے طور پرجب کوئی ادنی ٰشخص یہ دیکھتا ھے کہ وہ پانی گندا اور بدبو دار ھے، تو محال ھے و ہ اسے اپنے اختیارسے پی لے بلکہ اس کی بصیرت و آگاھی اسے اس پانی کے پینے سے  روک دے گی۔

دوسرا سوال

آیہ شریفہ میں آیا ھے: <انّما یریدا لله لیذھب عنکم الرّجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا>” اذھاب “ کے معنی لے جانا ھے اور اسی طرح ”تطھیر“ کے معنی پاک  کر نا ھے اور یہ اس جگہ پر استعمال  ھوتا ھے جھاں پر پھلے سے رجس وکثافت موجود ھو اور انھیں  پاک کیا جائے ۔ اسی صورت میں ”اذھابکا اطلاق،رجس کو دور کر نااور تطھیر“ کااطلاق ”پاک کرنا“حقیقت میں صادق آسکتا ھے۔ یہ اس بات کی دلیل ھے کہ اھل بیت پھلے گناھوں سے آلودہ تھے لہذا اس آلود گی کو ان سے دور کیا گیا ھے اور انھیں اس آلودگی سے پاکیزہ قرار دیا گیاھے۔

جواب

جملہء <لیذھب عنکم الرجس>میں لفظ ”اذھاب ‘ ‘لفظ  ” عن“ سے متعدی ھوا ھے۔ اس کا معنی اھل بیت سے پلیدی اور رجس کو دور رکھنا ھے اور یہ ارادہ پھلے سے موجود تھا اور اسی طرح  جاری ھے،نہ یہ کہ اس کے برعکس حال و کیفیت اھل بیت میں موجود تھی اور خداوند متعال نے ان سے اس حال و کیفیت (برائی) کو دور کیا ھے۔ اسی طرح اس سلسلہ میں تطھیر کا معنی کسی ناپاک چیز کو پاک کرنے کے معنی میں نھیں ھے بلکہ اھل بیت کے بارے میں اس کا مقصد ان کی خلقت ھی سے ھی انھیں پاک رکھنا ھے۔ اس آیہ کریمہ کے مانند <ولھم فیھاازواج مطھرة> [13] ”اور ان کے لئے وھاں(بھشت میں) ایسی بیویاں ھیں جو پاک کی ھوئی ھوں گی“

”اذھاب “اور”تطھیر“کے مذکورہ معنی کا یقینی ھونا اس طرح ھے کہ اھل بیت کی نسبت خود پیغمبر صلی اللهعلیہ وآلہ وسلم کی طرف یقینی ھے اوریہ بھی معلوم ھے کہ آنحضرت صلی اللهعلیہ وآلہ وسلم ابتداء ھی سے معصوم تھے نہ یہ کہ آیہ تطھیر کے نازل ھونے کے بعد معصوم ھوئے ھیں۔جب آنحضرت  صلی اللهعلیہ وآلہ وسلم کے بارے  میں مطلب اس طرح ھے اور لفظ ”اذھاب“ و ”تطھیر“ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میں سابقہ  پلیدی اور نجاست کے موجود ھونے کا معنی نھیں ھے، اھل بیت کے دوسرے افراد کے بارے میں بھی قطعی طور پر اسی طرح ھونا چاہئے۔ ورنہ”اذھاب“ و  ”تطھیر“  کے استعمال کا لازمہ پیغمبر صلی اللهعلیہ وآلہ وسلم  اور  آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے خاندان کے بارے میں مختلف معنی میں ھوگا۔

تیسرا سوال

اس آیہ شریفہ میں کوئی ایسی دلالت نھیں ھے جس سے یہ معلوم ھو کہ یہ طھارت ، اھل بیت(ع) میں(آیہء تطھیر کے نازل ھونے سے پھلے) موجود تھی بلکہ آیت اس پر دلالت کرتی ھے کہ خدا وند متعال اس موضوع کا ارادہ کرے گا کیونکہ  ”یرید“ فعل مضارع ھے اور مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ھے۔

جواب

   اول یہ کہ:کلمہ ”یرید“ جو خداوند متعال کا فعل ھے، وہ مستقبل پردلالت نھیں کرتا ھے اور دوسری آیات میں اس طرح کے کا استعمالات اس مطلب کو واضح کرتے ھیں کہ جیسے کہ یہ آیات:<یریدالله لیبین لکم ویھدیکم  سنن الّذین من قبلکم> [14]  اور < والله یرید ان یتوب علیکم> [15]

اس وصف کے پیش نظر آیت کے معنی یہ نھیں ھے کہ خداوند متعال ارادہ کرے گا، بلکہ یہ معنی ھے کہ خداوند متعال بد ستورارادہ  رکھتا ھے اور ارادہ الھیٰ مسلسل جاری ھے۔

دوسرے یہ کہ اس ارادہ کا پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مربوط ھونا اس معنی کی تاکید ھے، کیونکہ آنحضرت صلی اللهعلیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایسا نھیں تھا کہ پھلے تطھیر کا ارادہ نھیں تھا اور بعد میں  حاصل ھواھے۔ بلکہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)  پھلے سے اس خصوصی طھارت کے حامل تھے اور معلوم ھے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بارے میں ”یرید“کا استعمال ایک طرح اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اھل بیت کے لئے دوسری طرح نھیں ھوسکتا ھے۔

چوتھا سوال

احتمال ھے کہ ” لیذھب“ میں ”لام“ لام علت ھو اور ”یرید” کے مفعول سے مرادکچھ فرائض ھوںجو خاندان پیغمبرصلی اللهعلیہ وآلہ وسلم سے مربوط ھوں۔ اس حالت میں ارادہ تشریعی  اور آیت کے معنی یہ ھوںگے کہ خداوند متعال نے آپ اھل بیت سے مربوط خصوصی تکالیف اور فرائض کے پیش نظر یہ ارادہ کیا ھے تاکہ برائی اور آلودگی کو آپ سے دور کرے اور آپ کو پاک و پاکیزہ قرار دے، اس صورت میں آیت اھل بیت کی عصمت پر دلالت نھیں کرے گی۔

جواب

پھلے یہ کہ: ” یرید“ کے مفعول کا مخدوف اور پوشدہ ھونا خلاف اصل ھے اور اصل عدم پوشیدہ ھو نا ھے۔ صرف دلیل  اور قرینہ کے موجود ھونے کی صورت میں اس اصل کے خلاف ھونا ممکن ھے اور اس آیت میں اس کی کوئی دلیل نھیں ھے۔

دوسرے یہ کہ :  ”لیذھب“ کے لام  کے بارے میں چند احتمالات ھیں ان میں سے بعض کی بنا پر ارادہ کا تکونیی ھونا اور بعض کی بنا پر ارادہ کا تشریعی ھونا ممکن ھے لیکن وہ احتمال کہ جو آیت میں متعین ھے وہ ارادہ تکوینی سے ساز گار ھے۔ اس کی دلیل وہ اسباب ھیںجو ارادہ  تکوینی کے اسبات کے سلسلہ میں پیش کئے گئے ھیں من جملہ یہ کہ ارادہ تشریعی کا لازمہ یہ ھے  اس سے اھل بیت کی کوئی فضیلت ثابت نھیںھوتی، جبکہ آیہ ء کریمہ نے اھل بیت کی عظیم اور گراں بھا فضیلت بیان کی ھے جیسا مذکورہ احادیث اس کی دلیل ھیں۔

اس بنا پر آیہ شریفہ میں لام سے مراد’ ’ لام تعد یہ “ اور مابعدلام  ”یرید“کا مفعول ھے۔ چنانچہ ھم قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی مشاھدہ کرتے ھیں کہ  ”یرید“کبھی لام  کے ذریعہ اور کبھی لا م کے بغیر مفعول کے لئے متعدی ھوتا ھے ۔ قرآن مجید میں اس قسم کے متعدد مثالیں پائی جاتی ھیں۔ ھم یھاںپرا ن میں سے دو آیتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ھیں :

۱۔<فلا تعجبک اموالھم ولااولادھم،إنّمایریداللهلیعذبھم بھافی الحیوةالدّنیا۔۔۔>[16]  اور آیہ <ولا تعجبک اموالھم إنّمایریداللهان یعذّبھم بھا فی الدّنیا>[17]۔ اس سورہ  مبارکہ میں ایک مضمون کے باوجود  ”یرید“ ایک آیت میں” ان یعذبھم“  سے بلا واسطہ اور دوسری آیت میں لام کے ذر یعہ متعدی ھوا ھے۔

۲۔<یرید ون ان یطفئوانوراللهبافواھھم ویابی اللهإلّا ان یتم نورہ ولوکرہ الکافرون> [18]اور آیہ <یرید ون لیطفئوانورالله بافواھھم واللهمتم نورہ ولوکرہ الکافرون> [19]ایک آیت میں  ”یریدون“ ،  ”ان یطفئو“ پربلا واسطہ اور دوسری آیت میں لام کے واسطہ سے متعدی ھوا ھے۔

پانچواں سوال

آیہ شریفہ میں ”اھل البیت “سے مراد فقط  پنجتن نھیں ھیں بلکہ اس میں پیغمبر (صلی اللهعلیہ وآلہ وسلم) کے دوسرے رشتہ دار بھی شامل ھیں ۔ کیونکہ بعض احادیث میں آیا ھے کہ پیغمبر صلی اللهعلیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا  عباس اور ان کے فرزند وں کو بھی ایک کپڑے کے نیچے جمع کیا اور فرمایا:  ”ھو لاء اھل بیتی“ اور ان کے بارے میں دعا کی۔

جواب

اھل بیت کی تعدادکو پنجتن (ع) پاک یا چودہ معصومین(ع) علیھم السلام میں منحصر کر نے کے حوالے سے اس قدراحادیث وروایات مو جود ھیں کہ اس کے سامنے مذکورہ حدیث کا کوئی اعتبار نھیں رہ جاتاھے۔

اس کے علاوہ وہ حدیث سند کے لحاظ سے بھی معتبر نھیںھے کیونکہ اس کی سند میں  ”محمدبن یونسی“ ھے کہ جس کے بارے میں ابن حجر نے ابن حبان سے نقل کیا ھے کہ وہ حدیث جعل کرتا تھا۔ شا ئد اس نے ایک ہزار سے زیادہ جھوٹی حدیثیں جعل کی ھیں۔ ابن عدی نے اس پر حدیث گھڑنے کا الزام لگا یا ھے۔[20]          

اس کے علاوہ حدیث کی سند میں ” مالک بن حمزہ“ ھے کہ بخاری نے اپنی کتاب ” ضعفا“ میں اسے ضعیف راویوں کے زمرہ میں درج کیا ھے۔ [21]

اس کے علاوہ اس کی سند میں ” عبداللهبن عثمان بن اسحاق“ ھے کہ جس کے بارے میں ابن حجرنے عثمان کا قول نقل کیا ھے اور کھا ھے : میں نے ابن معین سے کھا: یہ راوی کیسا ھے؟ اس نے کھا : میںاسے نھیں پہچانتا ھوں اور ابن عدمی نے کھا : وہ مجھول اور غیر معروف ھے۔

اس صورت حال کے پیش نظر یہ حدیث کسی صورت میں مذکورہ احادیث کے ساتھ مقابلہ نھیں کرسکتی ھے۔

چھٹا سوال

ام سلمہ جب پیغمبر اکر م(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے سوال کرتی ھیں کہ: کیا میں بھی آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اھل بیت میں شامل ھوں؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:  ” انت الیٰ خیر“یا ” انت علیٰ خیر“ ّاس کے معنی یہ ھیںکہ تمھیں اس کی ضرورت نھیں ھے کہ تمھارے لئے دعا کروں ، کیونکہ تمھارے لئے پھلے ھی سے قرآن مجید میںآیت نازل ھوچکی ھیں اور جملہ ” انت علی خیر“ کے معنی یہ ھیں کہ تمھاری حالت بہترھے۔ یہ اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ ام سلمہ اھلبیت میں داخل نھیںھیں۔

جواب

سیاق آیت کے بارے میں کی گئی بحث سے نتےجہ حاصل کیا جاسکتا ھے کہ آیہ ء تطھیرکا سیاق اس سے پھلی والی آیتوں کے ساتھ یکسان نھیں ھے اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیویاں اھل بیت میں داخل نھیںھیں۔جملہء ”علی خیر“  یا  ” الیٰ خیر“  اس قسم کے موارد میں افضل تفضیل کے معنی میں نھیں ھے اور اس امر کی دلیل نھیں ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیویاں پنجتن پاک (علیھم السلام) سے افضل وبہتر ھوں۔ اس کے علاوہ خود ان احادیث میں اس مطلب کے بارے میں بہت سے قرآئن موجود ھیں ، من جملہ ام سلمہ آرزو کرتی ھیں کہ کاش انھیں بھی اجازت ملتی تاکہ اھل بیت کے زمرہ میں داخل ھوجاتیں اور یہ اس کے لئے ان تمام چیزوں سے بہترتھا جن پر سورج طلوع و غروب کرتا ھے۔

پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیویوں سے مربوط قرآن مجید کی آیتوں ، من جملہ آیہ ء تطھیر سے پھلی والی آیتوں اور سورئہ تحریم کی آیتوں کی شان نزول پر غور کرنے سے مذکورہ مطلب کی مکمل طور پر وضاحت ھوجاتی ھے۔ نمونہ کے طور پر سورہ تحریم کی درج ذیل آیتیںبیشتر تامل کی سزاوار ھیں۔

<   إن تتو با إلی الله فقد صغت قلو بکما>[22] < عسی ربہ إن طلقکنّ ان یبد لہ ازواجاً خیراً منکنّ مسلمات مئومنات قانتات  تائبات عبادات سائحات ثیبات وا بکاراً> [23]<ضرب الله مثلاً للّذین کفرواامراة نوح و امراة لوط کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانتا ھما فلم یغنیا عنھما من الله شےئاً و قیل اد خلا النار مع الداخلین>[24]

ساتواں سوال

احادیث میں آیا ھے کہ پیغمبر خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے آیہ تطھیر کے نازل  ھونے کے بعد اپنے خاندان کے حق میں یہ دعا کی: ” اللّھم ا ذھب عنھم الّرجس و طھّرھم تطھّیرا“ ”خداوندا: ان سے رجس وپلیدی کو دور کر اور انھیں خاص طور سے پاک و پاکیزہ قرار دے“آیہ کریمہ سے عصمت کا استفادہ کرنے کی صورت میںاس طرح کی دعا منا فات رکھتی ھے، کیونکہ آیہ کریمہ عصمت پر دلالت کرتی ھے اور عصمت کے حاصل ھونے کے بعدان کے لئے اس طرح دعا کرنا تحصیل حاصل اور بے معنی ھے۔

جواب

اول یہ کہ: یہ دعا بذات خود اس امر کی واضح دلیل ھے کہ ان کے لئے اس طھارت کے بارے  میں خداوند متعال کا ارادہ ارادہ تکوینی تھا نہ تشریعی ۔ کیونکہ  ” اذھاب رجس“ اور  ”تطھیر “ کا خدا سے جو مطالبہ کیا گیا ھے وہ قطعاً ایک تشریعی امر نھیں ھے اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی دعا یقینا مستجاب ھے۔ اس لئے مذکورہ دعا آیہ تطھیر کے مضمون پر تاکید ھے۔

دوسرے یہ کہ عصمت ایک فیض اور لطف الھیٰ ھے جو خدا وند متعال کی طرف سے ان مقدس شخصیات کو ان کی زندگی کے ھرھر لمحہ عطا ھوتی رہتی ھے کیونکہ وہ بھی دوسری مخلوقات کے مانند ھر لمحہ خدا کے محتاج ھیں اور ایسا نھیں ھے کہ ایک لمحہ کی نعمت اور فیض الھیٰ انھیں دوسرے لمحہ کے فیض و عطیہ الھیٰ سے بے نیاز کردے۔

یہ اس کے مانند ھے کہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) جملہ  ” إھد نا الصراط المستقیم“کو ھمیشہ تلاوت فرماتے تھے اور اس ھدآیت کو خدا وندمتعال سے طلب کرتے رہتے تھے ،باوجود اس کے کہ وہ اس ھدآیت کے اعلیٰ ترین درجہ پر فائز تھے اور یہ تحصیل حاصل نھیں ھے بلکہ یہ اس بات پر دلیل ھے کہ بندہ چاھے جس مقام پر بھی فائز ھو وہ ذاتی طور پر خدا کا محتاج ھوتا ھے اور اس احتیاج کا اظھار کرنا اور خدا وندمتعال سے دوسرے لمحات میں نعمت و الطاف الھیٰ کی درخواست کرنا بندہ کے لئے بذات خود ایک کمال ھے۔

اس بات کا علم کہ خدا وندمتعال مستقبل میںاس نعمت کو عطا کرے گا ، دعا کے لئے مانع نھیں بن سکتا ھے،کیونکہ خدا وندمتعال  ”اولواالباب“  کی دعا کو بیان کرتا ھے کہ وہ کہتے ھیں :< ربّنا وآتنا ما و عدتنا علی رسلک و لا تخذنا یوم القیامة إنّک ولا تخلف المیعاد>  [25]   ” پرور دگار جو تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ ھم سے وعدہ کیا ھے اسے ھمیں عطا کر اور روز قیامت ھمیں رسوانہ کر کیونکہ تو وعدہ کے خلاف نھیں کرتا “ ھم دیکھتے ھیں اور یہ جانتے ھوئے بھی کہ خدا وند متعال وعدہ خلافی نھیں کرتا اور مو منین کو دیا گیا وعدہ حتماً پور کرے گا ، پھر بھی اس سے اس طرح دعا کرتے ھیں۔

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اھل بیت کے حق میں دعا بھی اسی طرح ھے کہ طھارت اور عصمت الھیٰ اگر چہ انھیں حاصل تھی اور آئندہ بھی یہ نعمت ان کے شامل حال رہتی،  لیکن یہ دعا اس کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے ھے کہ باوجود اس کے کہ یہ اھل بیت (ع) اس عظمت و منزلت پر فائز ھیں لیکن ھمیشہ اپنے کو خدا کا محتاج تصور کرتے ھیں اور یہ خدا وندمتعال ھے کہ جو ھر لمحہ عظیم اور گرانقدرنعمت انھیں عطا کرتا ھے۔

اس لئے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی دعا خواہ آیہ ء تطھیر نازل ھونے سے پھلے ھو یا اس کے بعد ، ان کی عصمت کے منافی نھیںھے ۔

آٹھواں سوال

انبیاء علیھم السلام کی عصمت وحی کے تحقط کے لئے ھے،انبیاء کے علاوہ کیا ضرورت ھے کہ ھم کسی کی عصمت کے قائل ھو ں؟

جواب

اول یہ کہ : شیعہ عقیدہ کے مطابق مسئلہ امامت ، نبوت ھی کا ایک سلسلہ ھے اور یہ عھدہ نبوت کے ھم پلہ بلکہ اس سے بالاتر ھے۔[26]  امام ، مسئلہ وحی کے علاوہ بالکل وھی کردار ادا کرتا ھے جو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  ادا کرتے تھے۔

 اس لحاظ سے شیعہ امامیہ کے نزدیک امام میں عصمت کا ھوناعقلی او ر نقلی دلیلوں کی بنیاد پر شرط ھے۔

دوسرے یہ کہ : عصمت کے لئے ملزم عقلی کا نہ ھونا اس کے عدم وجود کی دلیل نھیں بن سکتی ھے ۔ اس کی مزید وضاحت یہ ھے کہ: نبی اور امام کے لئے ، عقل لزوم عصمت کا حکم کرتی ھے اور ان کے علاوہ کسی اور کے لئے یہ حکم ثابت نھیں ھے۔ عصمت خدا کی ایک خاص نعمت ھے،خدا وندمتعال جسے چاہتا ھے اسے عطا کرتا ھے ۔ انبیاء اور ائمہ کی عصمت کے وجود پربرھان عقلی قائم ھے اور ان کے علاوہ اگر کسی کے لئے قرآن وسنت کی دلیل عصمت کو ثابت کرے تو اس پر یقین کرنا چاہئے اور آیہ تطھیر پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ،ائمہ علیھم السلام اور حضرت زھراء سلام اللهعلیھا کی عصمت کی دلیل ھے۔

نواں سوال

حدیث ثقلین کے بارے میں صحیح  [27] مسلم کی روآیت کے مطابق پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے صحابی زید بن ارقم نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روآیت کی ھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: ”انا تارک فیکم الثقلین: کتاب الله ... و اھل بیتی “    زیدبن ا رقم سے سوال ھو تا ھے: آنحضرت     (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اھل بیت کون ھیں؟ کیا عورتیں (ازواج پیغمبر)بھی آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اھل بیت میں شامل ھیں؟جواب دیتے ھیں کہ : نھیں، سوال کرتے ھیں :پس آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اھل بیت کون ھیں؟جواب میں کہتے ھیں : آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اھل بیت وہ لوگ ھیں جن پر صدقہ حرام ھے۔ وہ علی ،عباس ،جعفر اورعقیل کی اولاد ھیں۔ اس بات کے پیش نظر اھل بیت کو کیسے پنجتن (ع) یا چودہ معصومین(ع)میں محدودکیا جا سکتا ھے؟

جواب

اول یہ کہ: یہ حدیث پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیویوں کو اھل بیت علیھم السلام کی فھرست سے خارج کرتی ھے۔

دوسرے یہ کہ :یہ حدیث بہت سے طرق سے نقل ھونے کے باوجود یزید بن حیان پراس حدیث کی سند کا سلسلہ منتھی ھوتا ھے اوریہ حدیث آیہ شریفہ اور دوسری بہت سی آحادیث کی دلالت سے مقابلہ کی صلاحیت نھیں رکھتی ھے۔

تیسرے یہ کہ:بالفرض اگر اس کا صدور ثابت بھی ھو جائے تو بھی یہ ایک صحابی کا اجتھاد ھے اور یہ حجت نھیں بن سکتا۔

چوتھے یہ کہ: حدیث ثقلین بہت طریقوں سے زید بن ارقم سے نقل ھوئی ھے اور اس میں جملہء: ”ماإن تمسکتم لن تضلّواابداً وإنّھمالن یفترقا حتّی یردا علیّ الحوض“ موجود ھے جو اھل بیت (ع) کی رھبری اور ان کے قرآن مجید سے لازم و ملزوم ھونے کو بیان کرتا ھے جو زیدبن ارقم کی مذکورہ تفسیر سے کسی بھی طرح سازگار نھیں ھے، کیونکہ مذکورہ تفسیر کی بنا پر خلفائے بنی عباس بھی اپنے تمام ترظلم و جرائم کے مرتکب ھونے کے باوجود اھل بیت کے زمرے میں شامل ھوجائیں گے اور یہ حدیث ثقلین کے الفاظ کے ساتھ سازگار نھیں ھے۔

دسواں سوال

بعض احادیث میں آیا ھے کہ جب ام سلمہ نے سوال کیا کہ : ” کیا میں بھی اھل بیت میں داخل ھوں ؟“ یا ” مجھے بھی ان کے زمرہ میں شامل کر لیجئے “ تو پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جواب دیا: ” ھاں انشاء الله“یا یوں فرمایا: ” انت من اھلی“ اس لئے نھیں کھا جاسکتا ھے کہ : اھل بیت پنجتن پاک میں منحصر ھیں؟

جواب

بیان کی گئی بہت سی حدیثوں سے کلمہ ” اھل بیت“ کی ایک خاص اصطلاح ھے جس کے مطابق صرف پنجتن پاک کا ان میں شامل ھونا اور دوسروں کی اس میں عدم شمولیت ثابت ھوتی ھے ۔ اس لئے کھا جاسکتا ھے کہ سوال میں اشارہ کی گئی احادیث میں ”اھل “ یا ”اھل بیت“سے مراد اس کے لغوی معنی ھوںگے جس میں آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیویاں بھی شامل ھیں۔

ھم سوال میں اشارہ کی گئی احا دیث کے بارے میں اھل سنت کے فقہ و حدیث کے ایک امام، ابو جعفر طحاوی کے نظریہ کی طرف اشارہ کرتے ھیں ۔ طحاوی ان افراد میں سے ھیں جو آیہ شریفہ تطھیر میں ” اھل بیت “ کو پنجتن پاک علیھم السلام سے مخصوص جانتے ھیں اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ازواج کو اس آیہ شریفہ سے خارج جانتے ھیں ۔ انھوں نے اپنی کتاب ”مشکل آلاثار[28] ‘میں ایک ایسی حدیث نقل کی ھے جو اس بات پردلالت کرتی ھے کہ ام سلمہ نے کھا:”مجھے ان (اھل بیت) کے ساتھ شامل کر لیجئے تو“ پیغمبر اکر م(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:  ” انت من اھلی“  ”تم میرے اھل میں سے ھو“ اس کے بعد طحاوی کہتے ھیں:

” فکان ذالک ممّا قد ےجوز ان یکون إرادة ا نّھا من اھلہ، لانّھا من

ازواجہ و ازواجہ اھلہ“

ممکن ھے پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا مقصد یہ ھو کہ ام سلمہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیویوں میں سے ایک ھے اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیویاں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اھل ھیں۔

اس کے بعد طحاوی اس سلسلہ میں شاھد کے طور پر آٹھ حدیثیں نقل کرتے ھیں جو اس بات پر دلا لت کر تی ھیں کہ ام سلمہ آیہ تطھیر میں ” اھل بیت“ میں سے نھیں ھیں۔وہ مزید لکھتے ھیں :

” فدلّ ماروینا فی ھذہ الآثار ممّا کان رسول الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) إلی اُمّ سلمة، ممّا ذکر نا فیھالم یردانھاکانت ممّااُریدبہ ممّافی الآہة المتلوة فی ھذاالباب،وان المراد بما فیھاھم رسول اللہ۔(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) و علیّ و فاطمة والحسن والحسین دون ماسواھم“[29]

یہ حدیثیں دلالت کرتی ھیں کہ ام سلمہ ان اھل بیت میں سے نھیں ھیں کہ جن کی طرف آیہ ء تطھیر اشارہ کرتی ھے ۔اورآیہ ء تطھیر میں موجود ” اھل بیت “ سے مراد صرف رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ، علی وفاطمہ،حسن و حسین(علیھم السلام) ھیں۔

طحاوی کی نظر میںایک اوراحتمال یہ ھے کہ ”انت اھلی“ کا مقصد یہ ھے کہ تم میرے دین کی پیروی کرنے کی وجہ سے میرے اھل میں شمار ھوتی ھو، کیونکہ حضرت نوح علیہ السلام کی داستان میں ان کا بیٹا ان کی اھل سے خارج ھے  اور اس کے بارے میں کھا گیا : <إنّہ لیس من اھلک إنّہ عمل غیر صالح>  [30]اس سے استفادہ کیاجاسکتا ھے کہ جو صاحب (ایمان اور) عمل صالح ھیںوہ ان کے اھل ھیں۔  طحاوی نے اس احتمال کو واثلہ کی حدیث بیان کرنے کے بعد پیش کیا ھے۔ واثلہ بھی ان صحابیوں میں سے ایک ھے، جس نے حدیث کساء کی روآیت کی ھے۔وہ اپنی روآیت میں پنجتن پاک کے کساء کے نیچے جمع ھونے کی طرف اشارہ کرتا ھے اور پیغمبر خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بیان کو نقل کرتا ھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”اللّھم ھولاء اھل بیتی واھل بیتی احق“ اس کے بعد کہتا ھے:میں نے کھا : یا رسول الله کیا میں بھی آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اھل بیت میں شامل ھوں ؟ فرمایا: ” تم میرے اھل سے ھو“۔

طحاوی اپنے بیان کو جاری رکھتے ھوئے کہتے ھیں:

” واثلہ کا ربط، ام سلمہ کی بہ نسبت پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے بہت دور کا ھے۔کیونکہ واثلہ (پیغمبر خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے گھر کا ایک خادم ھے )بنی لیث کا ایک شخص ھے اور قریش میں شمار نھیں ھوتا ھے اور ام سلمہ ( پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیوی ) قریش سے ھیں۔ اس کے باوجود ھم دیکھتے ھیں کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) واثلہ سے فرماتے ھیں : ” تم میرے اھل میں سے ھو“ لہذا اس کے یہ معنی ھیں کہ تم میرے دین کی پیروی کرنے کی خاطر اور مجھ سے ایمان رکھنے کے سبب ھم اھل بیت کے زمرہ میں داخل ھو۔

بیہقی نے بھی  ” السنن الکبریٰ “[31]میں واثلہ کی حدیث کو نقل کیا ھے اور کھاھے:

” وکانّہ جعل فی حکم الاھل، تشبیھا بمن یسحق ھذاالابسم لا تحقیقاً“

”گویا اس حدیث میں واثلہ کو تشبیہ کے لحاظ سے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اھل کے حکم میں قرار دیاگیا ھے نہ اس لئے کہ وہ حقیقی طور پر اھل بیت کا مصداق تھا۔“

اس لئے بہت سی حدیثیں کہ جو اھل بیت کے دائرہ کو منحصر کرنے کے سلسلہ میںوارد ھوئی ھیں اس میں کوئی رکاوٹ نھیں ھے۔

گیارھواں سوال

آیہ < إنّما یرید الله…> اس آیت کے مانند ھے: < مایریدالله لیجعل علیکم من حرج ولکن یرید لیطھّرکم ولیتمّ نعمتة علیکم>  [32] یعنی: ” خدا  تمھارے لئے کسی طرح کی زحمت نھیں چاہتا ، بلکہ یہ چاہتا ھے کہ تمھیں پاک و پاکیزہ بنادے اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کردے “

اور اسی طرح آیہ < إنّما یرید الله…>اس آیت کے مانند ھے: <لیطھّرکم ویذھب عنکم رجز الشیطان>   [33]یعنی ” تاکہ تمھیں پاکیزہ بنادے اور تم سے شیطان کی کثافت کو دور کردے “

اگر آیہ تطھیر عصمت پر دلالت کرتی ھے تو مذکورہ دو آیتوں کی بناپرھمیںبہت سارے اصحاب کی عصمت کے قائل ھونا چائیے۔

جواب

پھلافقرہ وہ ھے جو وضو کی آیت کے آخر میں آیا ھے۔ آیہ شریفہ یوں ھے:

<یا إیھاالّذین آمنواإذا قمتم إلی الصلوٰة فاغسلوا وجوھکم و ا یدیکم إلی المرافق و امسحوا برء وسکم و ارجلکم إلی الکعبین وإن کنتم جنباً فاطھّروا... فتیمموا صعیداً طیباً فامسحوا بو جوھکم وایدیکم منہ مایرید الله لیجعل علیکم من حرج ولکن یرید لیطھِّرکم و لیتم نعمتہ علیکم لولعلکم تشکرون>۳  

  اس آیہ کریمہ میں خدا وند متعال وضو، غسل اور تیمم کا حکم بیان کرنے کے بعد فرما تا ھے: ”خدا وندمتعال ( ان احکام کی تشریع سے ) تمھارے لئے کسی طرح کی زحمت نھیں چاہتا ھے، بلکہ یہ چاہتا ھے کہ تمھیں (وضویا غسل یا تیمم سے ) پاک و پاکیزہ بنادے“۔ یہ حدث پاک کرنا ھے جو وضو یا غسل یا تیمم سے حاصل ھوتاھے ، اور اس کا آیہ ء تطھیر کی مطلق طھارت تکوینی سے کوئی ربط نھیں ھے۔

دوسری آیت میں بھی ”رجز اللشیطان “یعنی شیطان کی نجاست سے مرا دوہ جنابت ھے جس سے جنگ بدر میں مسلمان دو چار ھوئے تھے اور خدا وندمتعال نے ان کے لئے بارش  نازل کی اور انھوںنے  بارش کے پانی سے غسل کیا اوراپنے جنابت کے حدث کو غسل سے برطرف کیا۔ اس آیت میں ایک خاص طھارت بیان کی گئی ھے اور اس طھارت کا تعلق ان صحابہ سے ھے جو جنگ بدر میں موجود تھے اور جنھوں نے بارش کے پانی سے غسل کرکے یہ طھارت حاصل کی تھی لہذا آیہ تطھیر سے استفادہ ھونے والی مطلق تکوینی طھارت سے اس کا کو ئی ربط نھیں ھے۔


[1] تاریخ مدینةدمشق،ج۱۳،ص۲۰۶،دارالفکر

[2] تاریخ مدینة دمشق،ج۱۳،ص۲۰۷،دارالفکر          

[3] تاریخ مدینة دمشق،ج۱،ص۳۳۲

[4] سورئہ نور/۳۶

[5] الدرالمنثور،ج۶،ص۲۰۲،دارالفکر

[6] تفسیر ابن کثیر،ج۳،ص۴۹۳

[7] کتاب منتخب الاثر کی طرف رجوع کیا جائے۔

[8] حدیث کے مختلف طریقوں سے آگاھی حاصل کرنے کے لئے ”کتاب اللہ واھل البیت فی حدیث الثقلین“کی طرف رجوع کیا جائے۔

[9] جواھر العقدین، سمھودی، ص۲۴۴،دار الکتب العلمیہ البیروت۔” الصواعق المحرقة “ فصل ”اھل بیت حدیث ثقلین میں“ابن حجر۔

[10] کمال الدین صدوق،ص۲۷۴

[11] مؤلف اور کتاب کے اعتبار کے بارے میں تفسیر آیہ ”اولوالامر“کا آخر ملاحظ ھو۔

[12] فرائد السمطین،ج۱،ص۳۱۶،موسةالمحمودی للطباعة والنشر،بیروت

[13] بقرہ/۲۵

[14] سورہ نساء /۲۶     

[15] سورہ نساء /۲۷

[16] سور ہء توبہ/۵۵ ۲۔سورہ توبہ/۸۵

[17] دارالمعرفہ،بیروت

[18] سورہ توبہ/۳۲

[19] سورہ  صف/۸

[20] تہذیب،ج،ص۵۴۲،طبع ھندوستان

[21] میزان الاعتدال،ج۲،ص۳۲۵،

[22] سورہ تحرم/۴

[23] سورہ تحریم/۵

[24] سورہ تحریم /۱۰

[25] ۔۷۱ سورہ آل عمران/۱۹۴

[26] اس سلسلہ میں مصنف کی کتابچہ ” امامت ، حدیث غدیر ، تقلین اور منزلت کی روشنی ھیں“ کی طرف رجوع کیا جائے

[27] صیحع مسلم، کتاب فضائل،باب فضائل علی بن ابطالب-

[28] مشکل الاثار،ج۱،ص۳۳۳۔۳۳۲

[29] مشکل ا  لآثار، ج۱،ص۳۳۶

[30] سورئہ ھود/۴۶

[31] السنن الکبریٰ ، ج۲،ص۵۲،دارالمعرفة،بیروت

[32] سورہ مائدہ/۶

[33] سورہ انفال/۱۱

=================================

37

 اسلام کے عقا ئد قرآن کریم کی رو شنی میں [1]

علّامہ سید مرتضی عسکری نے جو کچھ نصف صدی کے زیادہ سے عرصہ میں تحریر کیا ھے، مباحث کے پیش کرنے اور اس کی ارتقائی جہت گیری میں ممتاز اور منفرد حیثیت کے مالک ھیں، ان کی تحقیقات اور ان کے شخصی تجر بے اس طو لا نی مدت میں ان کے آثار کے خلوص وصفا میں اضا فہ کر تے ھیں ،وہ انھیں طو لا نی تحقیقات کی بنیاد پر اپنے اسا سی پر وگرا م کو اسلامی معا شرہ میں بیان اور اجراء کر تے ھیں، ایسے دقیق اور علمی پرو گرام جوھمہ جہت استوار اور متین ھیں ،روزافزوں ان کے استحکا م اور حسن میں اضا فہ ھو تا رہتاھے اور مباحث کا دائرہ وسیع تر اور ثمر بخش ھو جا تا ھے نیز افراط وتفر یط اور اسا سی نقطہ ٴ نگاہ سے عقب نشینی اور انصراف سے مبر ا ھے اورےہ ایسی چیز ھے جو مباحث کے مضمون اور اس کے وسیع اور دائمی نتا ئج سے مکمل واضح ھے۔

علا مہ عسکری کا علمی اور ثقا فتی پر وگرام واضح ھدف کا ما لک ھو تا ھے : ان کی کوشش رہتی ھے کہ اسلامی میراث کو تحر یفات اور افتراپردازیوں سے پاک و صاف پیش کر یں،جن تحر یفات اور افتراپردازیوں کا دشوار اور پیچیدہ حا لا ت میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حیا ت کے بعد اسلام کو سامنا ھوا ،ان کی کوشش ھے کہ اسلام کی حقیقت واصا لت نیز اس کے خا لص اور پاک وصاف منبع تک رسائی حاصل کر یںاور اس کے بعد اسلام کو جیسا تھا نہ کہ جیسا ھو گیا پاک و صا ف اور خا لص انداز سے امت اسلا مےہ کے سا منے پیش کر یں۔

 اسلامی تہذ یب میں اس طرح کا ھدف لے کر چلنا ابتدائے امر میں کوئی نئی اور منحصر بہ فرد چیز نھیں تھی،  کیونکہ ایسی آرزو اورتمنا بہت سارے اسلا می مفکرین ما ضی اور حا ل میں رکھتے تھے اور رکھتے ھیں ،لیکن جو چیز علّامہ عسکری کو دوسروں سے ممتا زکر تی ھے اور انھیں خاص حیثیت کی ما لک بنا تی ھے وہ یہ ھے کہ وہ جز ئی اور محدود اصلا ح کی فکر میں نھیں ھیں تا کہ ایک نظر کو دوسری نظر سے اور ایک فکر کو دوسری فکر سے موازنہ کرتے ھوئے تحقیق کریں، نیز اپنے نقد وتحلیل کی روش کو دوسروں کو قا نع کر نے کے لئے محدود قضےہ کے ارد گرد استعمال کریں بلکہ وہ اسلام اور اسلامی میراث میں تحر یف اور کجر وی کے اصل سر چشمے کی تلا ش میں رہتے ھیں تا کہ شنا خت کے بعد اس کا علاج کرنے کے لئے کما حقہ قد م اٹھا ئیں؛ اور چو نکہ تحریف اور انحراف وکجروی کو قضےہ واحد ہ کی صورت میں دیکھتے ھیں لہٰذا اصلی اور خا لص اسلام تک رسا ئی کو بھی بغیر ھمہ جا نبہ تحقیق و بر رسی کے جو کہ تمام اطراف وجوا نب کو شا مل اورحا وی ھو، بعید اور غیر ممکن تصور کر تے ھیں ؛ یھی وجہ ھے کہ اسلام کے تمام جو انب اور فروعات کی تحقیق و بر رسی کیلئے کمر بستہ نظر آتے ھیں ، نیز خود ساختہ مفروضوں اور قبل از وقت کی قضا وت سے اجتناب کرتے ھیں، اسی لئے تمام تا ریخی نصو ص جیسے روایات،احا دیث اور داستان وغیرہ جو ھم تک پھنچی ھیں ان سب کے ساتھ ناقدانہ طرز اپناتے ھیں اور سب کو قا بل تحقیق مو ضو ع سمجھتے ھیں اور کسی ایک کو بھی بے اعتراض اور نقص و اشکال سے مبرانھیں جا نتے وہ صر ف علمی اور سا لم بحث و تحقیق کو قرآن کریم اور قطعی اور موثق سنت کے پرتو میں ھر کھوٹے کھرے کے علا ج اور تشخیص کی تنھا راہ سمجھتے ھیں تا کہ جھو ٹ اور سچ اور انحرا ف کے مقا بل اصا لت کی حد و مرز مشخص ھوجا ئے۔ 

علّا مہ عسکری نے اپنے تمام علمی کا ر نا موں ، مشھو ر تا لیفا ت اور شھرہ آفاق مکتو بات کی اسی رو ش پر بنیا د رکھی ھے اور ان کو رشتہٴ تحر یر میں لا ئے ھیں ، ایسی تا لیفا ت جو مختلف علمی مید انوں میں ھیں لیکن اصلی و اسا سی مقصد میں ایک دوسرے کے ھمراہ ھیں اور اس ھدف کے تحقق کی راہ میں سب ھم آواز ھیں ، یھی وجہ ھے کہ اگر علّا مہ عسکری کو تا ریخ نگا ر یا تاریخ کامحقق کھیں تو ھماری یہ بات دقیق اور صحیح نھیں ھوگی ، جبکہ یہ ایک ایسا عنوان ھے جو بہت سارے قا رئین کے اذ ھا ن میں( ان کی عبد الله ابن سبانا می کتاب کے وجود میں آنے کے بعد چالیس سا ل پھلے سے اب تک )را سخ اور جا گز یں ھو چکا ھے۔

ھا ں علا مہ عسکر ی مور خ نھیں ھیں، بلکہ وہ ایک ایسے پر وگرام کے بانی اور موٴسس ھیں جو جا مع اور وسیع ھے جس کی شا خیں اور فر وعات ، اسلا می میرا ث کے تمام جوانب کو اپنے احا طہ میں لئے ھو ئے ھیں، وہ جھاں بھی ھوں انحرا ف و کجروی اور اس کے حدود کے خواھاں اور اس کی چھان بین کر نے والے ھیں ، تاکہ اصلی اور خا لص اسلا م کی شنا سائی اور اس کا اثبات کرسکیں، شاید یہ چیزاسی کتاب (عقائد اسلام در قرآن کر یم ) میںمعمو لی غور و فکرسے حا صل ھو جا ئے گی ،ایسی کتاب جس کی پھلی جلد تقر یبا ۵۰۰ /صفحات پر مشتمل عر بی زبان میں منتشر ھو چکی ھے۔

 یہ کتاب اسلام کے خا لص اور صا ف ستھرے عقائد کو قرآن کر یم سے پیش کر تی ھے،چنانچہ جنا ب علّامہ عسکر ی خود اس حقیقت کو بیان کر تے ھو ئے کتا ب کے مقد مہ میں فر ماتے ھیں: ” میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اسلا می عقائد کو نھا یت سا دگی اور کامل اندا ز میں بیان کر تا ھے ، اس طرح سے کہ ھر عا قل عر بی زبان سے ایسا آشنا جو سن رشد کو پھونچ چکا ھے اسے بخو بی سمجھتا اور درک کرتا ھے “علا مہ عسکر ی اس کتاب میں نرم اور شگفتہ انداز میں لماء پر اعترا ض کر تے ھو ئے فر ما تے ھیں:

 اسلامی عقائد میں یہ پیچید گی ، الجھاوٴاوراختلاف وتفرقہ اس وجہ سے ھے کہ علما ء نے قرآ ن کی تفسیر میں فلسفیوں کے فلسفہ، صوفیوں کے عرفان، متکلمین کے کلام ، اسرا ئیلیات اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف منسو ب دیگر غیر تحقیقی روا یات پر اعتماد کیا ھے اور قرآن کر یم کی آیا ت کی ان کے ذریعہ تا ویل اور تو جیہ کی ھے اور اپنے اس کار نامہ سے اسلام کے عقائد میں طلسم ، معمے اور پھیلیاں گڑھ لی ھیں کہ جسے صرف فنون بلا غت، منطق، فلسفہ اور کلا م میں علماء کی علمی روش سے وا قف حضرا ت ھی سمجھتے ھیں اور یھی کام مسلما نوں کے( درمیان ) مختلف گروھوں ،معتز لہ،اشا عرہ ،مر جئہ وغیرہ میں تقسیم ھو نے کا سبب بن گیا ھے ۔

 لہٰذا یہ کتاب اپنی ا ن خصو صیات اور امتیا زات کے ساتھ جن کی طرف ھم نے اشارہ کیا ھے یقینا یہ بہت اچھی کتاب ھے جو اسلامی علوم کے دوروں کے اعتبار سے بہتر ین درسی کتاب ھو سکتی ھے۔

 اس کتاب کے پڑھنے وا لوں کو محسوس ھو گا کہ ھمارے استاد علّامہ عسکری نے عقائد پیش کر نے میں ایک خا ص تر تیب اور انسجام کی رعا یت کی ھے اس طرح سے کہ گز شتہ بحث، آئندہ بحث کے لئے مقد مہ کی حیثیت رکھتی ھے ، نیز اس تک پھو نچنے اور درک کرنے کا را ستہ ھے اور قا رئین محتر م کو قدرت عطا کرتی ھے کہ عقائد اسلام کو دقت نظر اور علمی گھرا ئی کے ساتھ حاصل کر یں، چنا نچہ قارئین عنقر یب اس بات کو درک کرلیں گے کہ آئندہ مبا حث کو درک کر نے کے لئے لا زمی مقد مات سے گز ر چکے ھیں۔

اس کتاب میں مصنف کی دیگر تالیفات کی طرح لغو ی اصطلا حوں پر خاص طر سے تکےہ کیا گیا ھے ، وہ سب سے پھلے قا رئین کواصطلاح لغا ت کی تعر یفوں کے متعلق لغت کی معتبر کتا بوں سے آشنا کرا تے ھیں، پھر مورد بحث کلمات اور لغا ت نیز ان کے اصل مادوں کی الگ الگ تو ضیح و تشریح ،اسلا می اور لغوی اصطلا ح کے اعتبار سے کر تے ھیں تا کہ اسلا می اور لغو ی اصطلا ح میں ھر ایک کے اسباب اختلا ف اور جھا ت کو آشکا ر کریں اور ان زحمتوں اور کلفتوں کواس لئے بر داشت کر تے ھیں تا کہ بحث کی راہ ھموا ر کریں اور صحیح اور اساسی استفادہ اورنتیجہ اخذ کرنے کا امکا ن فر اھم کر یں۔

اس وجہ سے قا رئین کتاب کے مطا لعہ سے احساس کر یں گے کہ اسلا می عقید ے کو کا مل اور وسیع انداز میں جدید اور واضح علمی روش کے ساتھ نیز کسی ابھام وپیچید گی کے بغیر حا صل کرلیا ھے ؛ا ور اس کا مطا لعہ کر نے کے بعد دیگر اعتقا دی کتا بوں کی طرف رجو ع کر نے سے خو د کو بے نیاز محسوس کریں گے اورےہ ایسی خوبی ھے جو دیگر کتا بوں میں ند رت کے ساتھ پا ئی جا تی ھے ، با لخصوص اعتقا دی کتابیں جو کہ ابھام ، پیچید گی اور تکرار سے علمی واسلامی سطح میں مشھور ھیں،اسی طرح قارئین اس کتاب میں اسلام کے ھمہ جا نبہ عقائد کو درک کرکے قرآن کر یم اور اس کی نئی تفسیری روش کے سمجھنے کیلئے خود کو نئی تلاش کے سامنے دیکھتے ھیں،ےہ سب اس خاص اسلوب اور روش کا مرھون منت ھے جسے علّا مہ عسکری نے قرآنی آیات سے استفادہ کے پیش نظر استعمال کیا ھے۔

علّا مہ سید مرتضی ٰ عسکری کی کتاب قرآنی اور اعتقا دی تحقیقات میں مخصوص مرتبہ کی حا مل ھے ،انھوں نے اس کتاب کے ذریعہ اسلام کے اپنے اصلی پر وگراموں کو نافذ کر نے میں ایک بلند قدم اٹھا یا ھے ۔

مباحث کی سرخیاں

۱۔حضرت آدم کے بعد:حضرت نوح، حضرت ابراھیم ،حضرت موسی ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلوات الله علیھم اجمعین کی شریعتوں میں نسخ:

الف۔ حضرت آدم (ع) ، نوح اورابراھیم (ع) کی شریعت میں یگانگت اور اتحاد۔

ب۔ نسخ  و آیت کے اصطلاحی معنی۔

ج۔آیہٴ کریمہ”ما ننسخ من آیة“اور آیہ کریمہ ” اذا بد لنا آیة مکان آیة“کی تفسیر۔

د۔ حضرت موسیٰ (ع)کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص تھی اور حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بعثت کے بعد ختم ھو گئی ۔

ھ۔ ایک پیغمبر کی شریعت میں نسخ کے معنی۔

۲۔رب العالمین انسان کو آثار عمل کی جزا دیتا ھے ۔

الف۔ دنیوی جزا۔

ب۔ اخروی جزا ۔

ج۔ موت کے وقت ۔

 د۔ قبر میں ۔

ھ۔محشر اور قیامت میں۔

 و۔بھشت ودوزخ میں۔

ز۔صبر کی جزا۔

عمل کی جزا ء آ ئندہ والوں کی میراث۔ 

شفاعت، بعض اعمال کی جزا ھے۔

عمل کا حبط ھونا بعض اعمال کی سزا ھے ۔

جن اور انسان عمل کی جزا ء پانے میں برابر ھیں۔

۳۔”رب العالمین “کے اسماء اور صفات ۔

الف ۔اسم کے معنی۔

ب ۔رحمان۔

ج۔ رحیم۔

د۔ذوالعرش اور رب العرش۔

۴۔”وللہ الاسماء الحسنیٰ “ کے معنی ۔  

الف ۔الله۔

ب ۔کرسی۔

۵۔  الله رب العالمین کی مشیت ۔

الف۔ مشیت کے معنی۔

ب۔ رزق وروزی۔

د: رحمت و عذاب ۔

ج ۔ھدایت وراھنمائی۔

۶۔بدا یا محو و اثبات< یمحوالله ما یشاء و یثبت>

الف۔بداکے معنی۔

ب۔ بداعلمائے عقائد کی اصطلاح میں ۔

ج۔ بداٴ قرآن کریم کی روشنی میں۔

د۔ بدامکتب خلفاء کی روایات میں۔

ھ۔ بدامکتب اھل بیت (ع) کی روایات میں۔

۷۔جبر و تفویض اور اختیار نیز ان کے معنی۔

۸۔ قضا و قدر ۔

ا لف۔ قضا و قدر کے معنی۔

ب۔ ائمہ اھل بیت کی روایات قضا و قدر سے متعلق۔

ج ۔سوال وجواب۔

<۱>

۱۔صاحبان شریعت پیغمبروں کے زمانے میں نسخ

الف: حضرت آدم اور نوح کی شریعتیں ۔

ب : نسخ و آیت کی اصطلاح اور ھر ایک کے معنی۔

ج : آیہٴ کریمہ  ”ما  ننسخ من آیة “اور آیہٴ کریمہ: ”واذا بدلنا آیة مکان آیة۔۔ ۔“کی تفسیر

د: موسی کی شریعت بنی اسرائیل سے مخصوص تھی اور خاتم الانبیاء کی بعثت کے بعد ختم ھوگئی۔   

(۱ )

انبیاء علیھم السلام کی شریعتیں

اس بحث میں قرآن کریم اور اسلامی روایات کی جانب رجوع کرتے ھوئے صر ف ان امور کو بیان کریںگے جن سے صاحبان شریعت پیغمبروں کے زمانے میں (نسخ) کا موضوع واضح اور روشن ھو جائے ، اسی لئے ھود (ع) ،صالح  (ع)، شعیب (ع) جیسے پیغمبروں کا تذکرہ نھیں کریں گے جن کی امتیں نابودھو چکی ھیں ،بلکہ ھماری گفتگوان پیغمبر وں سے مخصوص ھے جنکی شریعتیں ان کے بعد بھی زندہ رھیں،جیسے حضرت آدم (ع) ، نوح(ع)، ابراھیم(ع) ، موسیٰ(ع) ، عیسیٰ(ع) اور محمد صلوات الله علیھم اجمعین اور اس کو ھم زمانے کی ترتیب کے ساتھ ذکر کریں گے۔

حضرت آدم (ع) ، نوح (ع)، ابراھیم (ع) اور محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شریعتوں میں اتحاد و یگانگت 

اوّل: حضرت آدم (ع) ابوالبشر

 روایات میں منقول ھے کہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا :روز جمعہ تمام ایام کا سردار ھے اور خدا کے نزدیک ان میں سب سے عظیم دن ھے، خدا وندعالم نے حضرت آدم (ع) کو اسی دن خلق فرمایا اور وہ اسی دن باغ(جنت) میں داخل ھوئے اور اسی دن زمین پر اترے[2] اور حجرالاسود ان کے ھمراہ نازل کیا گیا ۔[3]

دوسری روایات میں اس طرح آیا ھے : خدا وند عالم نے پیغمبروں ، اماموں اور پیغمبروں کے اوصیاء کو جمعہ کے دن خلق فرمایا-۔

اسی طرح روایات صحیحہ میں آیا ھے کہ جبرائیل (ع) حضرت آدم  - کو حج کیلئے لے گئے اور انھیں مناسک کی انجام دھی کا طریقہ سکھا یا اور بعض روایات میں مذکور ھے:

 بادل کے ٹکڑے نے بیت الله پر ساےہ کیا، جبرائیل نے سا ت بار آدم کو ا س کے ا رد گرد طواف کرایا پھر انھیں صفا و مروہ کی طرف لے گئے اور سات بار ان دونوں کے درمیان سعی(رفت و آمد) کی،پھر اسکے بعد ۹/ ذی الحجہ کو عرفات میں لے گئے حضرت آدم(ع) نے عرفہ کے دن عصر کے وقت خدا وندعالم کی بارگاہ میں تضرع و زاری کی اور خدا وند عالم نے ان کی توبہ قبول کر لی ،اسکے بعددسویں کی شب کو مشعر الحرام لے گئے تو وھاں آپ صبح تک خدا وندعالم سے راز و نیاز اور مناجات میں مشغول رھے اور دسویں کے دن منیٰ لے گئے تو وھاں پر توبہ کے قبول ھونے کی علامت کے عنوان سے سر منڈوایا پھر دوبارہ انھیں مکّہ واپس لائے اور سات بار کعبہ کا طواف کرایا، اسکے بعد خدا کی خوشنودی کی خاظر نماز پڑھی پھر نماز کے بعد صفا و مروہ کی سمت روانہ ھوئے اور سات بار سعی کی ، خدا وند عالم نے حضرت آدم و حوا (ع) کی توبہ قبول کرنے کے بعد دونوں کو آپس میں ملا دیا اور دونوں کو یکجا کر دیا اور حضرت آدم کو پیغمبری کے لئے برگزیدہ فرمایا۔[4]

 دوم :  ابو الا بنیاء حضرت نوح علیہ السلام

دا وندسبحان نے سورئہ نوح میں ارشاد فرمایا:

إِنَّا اٴَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَی قَوْمِہِ اٴَنْ اٴَنذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ اٴَنْ یَاٴْتِیَہُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ * قَالَ یَاقَوْمِ إِنِّی لَکُمْ نَذِیرٌ مُبِینٌ * اٴَنْ اعْبُدُوا اللهَ وَاتَّقُوہُ وَاٴَطِیعُونِی * وَقَالُوا لاَتَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلاَتَذَرُنَّ وَدًّا وَلاَسُوَاعًا وَلاَیَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا [5]

بیشک ھم نے نوح (ع) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور کھا : اپنی قوم کو ڈراؤ، نوح(ع) نے کھا:اے قوم ! میں آشکارا ڈرانے والا ھوں تاکہ خدا کی بندگی کرو اور اس کی مخالفت سے پرھیز کرو نیز میری اطاعت کرو۔

 ان لوگوں نے کھا :اپنے خداوٴں کو نہ چھوڑو اور ودّ ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نامی بتوں کو نہ چھوڑو۔

قرآن کریم میں حضرت نوح(ع) کی داستان کا جو حصہ ھماری بحث سے تعلق رکھتا ھے ،وہ سورئہ شوریٰ میں خدا وند متعال کا یہ قول ھے کہ فرماتا ھے:

شَرَعَ لَکم مِّن الدِّ ین مَا وَصَّیٰ بِہِ نُوحَاً وَ الَّذِی اَوحینا اِلیک وَ مَا وَ صّیناَ بِہ  اِبراھِیم وَ موَسیٰ وَ عِیسیٰ اَن اَقِیمواا لدِّین وَ لاَ تَتَفَرَّقُوا فیہ  [6]

وھی آئین و قانون تمھارے لئے تشریع کیا جس کا نوح(ع) کو حکم دیا اور جس کی تم کو وحی کی اورابراھیم (ع)، موسیٰ  اور عیسیٰ کو حکم دیا ، وہ یہ ھے کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔

کلمات کی تشریح

۱۔ودّ، سواع، یغوث اور نسر : علاّمہ مجلسی رحمة الله علےہ حضرت امام جعفر صادق (ع) سے بحارالانوار میں ایک روایت ذکر کرتے ھیں جسکا مضمون ابن کلبی کی کتاب الاصنام اور صحیح بخاری میں بھی آیا ھے جس کا خلاصہ اس طرح ھے :

ودّ ، سواع، یغوث اور نسر ، نیکو کار، مومن اور خدا پرست تھے جب یہ لوگ مر گئے تو انکی موت قوم کے لئے غم واندوہ کا باعث اور طاقت فرسا ھوگئی ،ابلیس ملعون نے ان کے ورثاء کے پاس آکر کھا: میں ان کے مشابہ تمھارے لئے بت بنا دیتا ھوں تاکہ ان کو دیکھو اور انس حاصل کر وخدا کی عبادت کرو ،پھر اس نے ان کے مانند بت بنا ئے تو وہ لوگ خدا کی عبادت کرتے اور بتوں کا نظارہ بھی اورجب جاڑے اور برسات کا موسم آیا تو انھیں گھروں کے اندر لے گئے اور مسلسل خدا وند عزیز کی عبادت میں مشغول رہتے ،یھاں تک کہ انکا زمانہ ختم ھوگیا اور ان کی اولاد کی نوبت آگئی وہ لوگ بولے یقینا ھمارئے آباء و اجداد ان کی عبادت کرتے تھے ، اس طرح خدا وندکی عبادت کے بجائے انکی عبادت کرنے لگے، اسی لئے خداوند عالم ان کے قول کی حکایت کرتا ھے:

 وَلاَتَذَرُنَّ وداًّ وَ لا سُواعاً[7]

۲۔ وصیت : انسان کا دوسرے سے وصیت کرنا یعنی ، ایسے مطلوب اور پسندیدہ کاموں کے انجام دینے کی سفارش اور خواھش کرنا جس میں اس کی خیر و صلاح دیکھتا ھے۔

خدا وندعالم کا کسی چیز کی وصیت کرنا یعنی حکم دنیا اور اس کا اپنے بندوں پر واجب کرنا ھے۔[8]

آیات کی مختصر تفسیر

خدا وندعالم نے گزشتہ آیات میں خبر دی ھے کہ نوح (ع) کو انکی قوم کے پاس بھیجا تاکہ انھیں ڈرائیں نوح نے ان سے کھا: میںتمھیں ڈرانے والا(پیغمبر) ھوں اور مجھے حکم دیا گیا ھے کہ تم سے کھوں : خدا سے ڈرو اور صرف اسی کی بندگی اور عبادت کرو اور خداوندا عالم کے اوامر اور نواھی کے سلسلے میں میری اطاعت کرو ،ان لوگوں نے انکار کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے جواب میں کھا : اپنے خدا کی عبادت سے دستبردار نہ ھونا! خدا وند عالم نے آخری آیتوں میںبھی فرمایا:

اے امت محمد! خداوند عالم نے تمھارے لئے وھی دین قرار دیا ھے جو نوح (ع) کے لئے مقرر کیا تھا اور جو کچھ تم پر اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) وحی کی ھے یہ وھی چیز ھے جس کا ابراھیم (ع) ،موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا گیا تھا ، پھر فرمایا اس دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ اندازی نہ کرو۔[9]

اورجو کچھ اس مطلب پر دلالت کرتا ھے وھی ھے جو خدا وند عالم سورئہ ( صافّات ) میں ارشاد فرماتا ھے:

سَلامٌ عَلَیٰ نُوحِ فِی العَالَمین ۔ اِنَّاکذٰلِکَ نَجزِیَ المُحسِنِین ۔ اِنَّہ مِن عِبَادِنَا المُوٴمِنِین۔ ثُمَّ اَ غرَقنَا ا لآ خرِین ۔وَاِنَّ مِن شِیعتِہ لاَ بِراھِیم  اِذ جَا ءَ رَبَّہُ بِقلبٍ سَلیم[10]

عالمین کے درمیان نوح (ع) پر سلام ھو ھم اسی طرح نیکو کاروں کو جزا دیتے ھیں کیونکہ وہ ھمارے مومن بندوں میں تھے ،پھر دوسروں کو غرق کر دیا اور ابراھیم (ع) ان کے شیعوں میں سے تھے ، جبکہ قلب سلیم کے ساتھ بارگاہ خدا وندی میں آئے۔

 شیعہ یعنی ثابت قدم اور پائدار گروہ جو اپنے حاکم و رئیس کے فرمان کے تحت رھے،شیعہ شخص ، یعنی اسکے دوست اور پیرو۔[11]

اس لحاظ سے، آیت کے معنی: (ابراھیم نوح کے شیعہ اور پیرو کارتھے)ےہ ھوں گے کہ ابراھیم (ع) حضرت نوح(ع) کی شریعت کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرتے تھے۔

 خدا وندعالم کی توفیق و تائید سے آئندہ مزید وضاحت کریں گے۔

سوم : خلیل خدا حضرت ابرا ھیم  (ع) 

ھماری بحث میں حضرت ابراھیم (ع) سے مربوط آیات درج ذیل ھیں:

الف۔سورہ حج َ :

 <وَ اِذ بَوّ انا لِابراھیم  مکان البیت ان لا تشرک بی شےئا وطھر بیتی للطا  ئفین و القائمین والرکع السجود# واذن فی الناس بالحج یاٴ توک رجالا و علیٰ کل ضامر یاٴ تین من کلّ فج عمیق # لیشھدوا منافع لھم و یذکروا اسم الله فی اٴیام معلومات  علی مارزقھم من بھیمة الا نعام >[12]

اورجب ھم نے ابراھیم کیلئے گھر( بیت اللہ) کو ٹھکانا بنایا توان سے کھا : کسی چیز کومیرے برابر اور میرا شریک قرار نہ دو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں ،قیام کرنے والوں ، رکوع اور سجودکرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ رکھو اور لوگوں کو حج کی دعوت دو تا کہ پیادہ اور لا غر سواریوں پر سوار دور دراز راہ سے تمھاری طرف آئیں ، تا کہ اپنے منافع کا مشاھدہ کریں اور خدا وند عالم کا نام معین ایام میں ان چوپایوں پر جنھیں ھم نے انکا رزق قرار دیا ھے اپنی زبان پر لائیں:

ب ۔ سورئہ بقرہ:

<و اِذ جعلنا البیت  مثابةً للناس و امناً و اتّخد وا من مقام اِبراھیم مصلی و عھدنا الی ابراھیم و اسماعیل ان طھرابیتی للطائفین و العا کفین و الرکع السجود۔۔۔ واذ یرفع اٴبراھیم القواعد من البیت و اسماعیل  ربّنا تقبّل منا اِنک اَنت السمیع العلیم ۔ ربنا واجعلنا مسلمین لک و من ذریتنا اٴمة مسلمة لک و اٴرنا منا سکنا وتب علینا اِنّک اَنت التوّاب الرحیم>[13]

اورجب ھم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا ٹھکانہ اور ان کے امن و امان کا مرکز بنایا اور ان سے فرمایا مقام ابراھیم(ع) کو اپنا مصّلیٰ قرار دو اور ابراھیم (ع) و اسماعیل کو حکم دیا کہ میرے گھر کوطواف کرنے والوں ،مجاورں ،رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ رکھو اور جب ابراھیم و اسما عیل (ع) خانہ کعبہ کی

دیواریں بلند کر رھے تھے تو کھا : خدایا ھم سے اسے قبول فرما اس لئے کہ تو سننے اور دیکھنے والا ھے ،خدایا !ھمیں اپنا مسلمان اور مطیع و فرما نبردار قرار دے اور ھماری ذریت سے بھی ایک فرمانبردار ، مطیع ومسلمان امت قرار دے نیز ھمیں اپنی عبادت کا طریقہ بتا اور ھماری توبہ قبول کر اس لئے کہ تو توبہ قبول کرنے والا اور مھربان ھے۔

ج۔ سورئہ بقرہ :

و قالو ا کونوا ھوداً او نصاریٰ تھتدوا قل  بل ملّة ابراھیم حنیفاً و ما کان من المشرکین قولوا آمنّا با للہ و ما اٴنزل الینا  و ما اٴنز ل  ا لیٰ اِبراھیم  واِسماعیل و اسحٰق ویعقوب و الاِٴسباط وما اٴوتی موسیٰ وعیسیٰ و ما اٴوتیٰ  النبیون من ربّھم لا نفرق بین اٴحد منھم و نحن لہ مسلمون[14]

اور انھوں نے کھا : یھودی یا نصرانی ھو جاؤ تاکہ ھدایت پاؤ؛ ان سے کھو : بلکہ حضرت ابراھیم کے خالص اور محکم آئین کااتباع کرو کیونکہ وہ کبھی مشرک نھیں تھے ان سے کھو ھم خدا پر ایمان لائے ، نیزاس پر بھی جو ھم پر نازل ھوا ھے اور جو کچھ ابراھیم(ع) ،اسماعیل ، اسحق ،یعقوب اور انکی نسل سے ھو نے والے پیغمبروں پر نازل ھوا ھے ، نیز جو کچھ موسیٰ ،عیسیٰ اور تمام انبیاء پر خداوندا عالم کی جانب سے نازل کیا گیا ھے ھم ان میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے سے الگ نھیں جانتے اور ھمصرف خدا کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ھیں۔

د۔سورئہ آل عمران:

ما کان اِبراھیم یھودیا ولانصرانیا و لکن کان حنیفاً مسلماً و ما کان من  المشرکین[15]

ابرا ھیم نہ تو یھودی تھے اور نہ ھی نصرانی بلکہ وہ ایک خالص خدا پر ست اور مسلمان تھے اور وہ کبھی مشرک نھیں تھے۔  

نیز اسی سورہ میں :

قل صدق الله فاتبعوا ملّة ابراھیم حنیفاً وما کا ن من  المشرکین [16]

کھو! خداوند عالم نے سچ کھا ھے ،لہٰذا براھیم کے خالص آئین کی پیروی کرو کیونکہ وہ کبھی مشرک نھیں تھے۔

ہ۔ سورئہ انعام:

قل انّنی ھدانی ربّی الی صراط مستقیم دیناً قیماً ملّة ابراھیم حنیفا وما کان من المشرکین[17]

کھو! ھمارے خدانے ھمیں راہ راست کی ھدایت کی ھے استوار و محکم دین اور ابراھیم کے خالص آئین کی وہ کبھی مشرک نھیں تھے۔

ز۔سورئہ نحل:

ثمّ اٴوحینا الیک ان اتّبع ملّة اِبراھیم حنیفاًو ما کان من المشرکین[18]

پھر ھم نے تم کو وحی کی کہ ابراھیم (ع) جو کہ خالص اور استوار ایمان کے مالک تھے نیز مشرکوں میں نھیں تھے ان کے آئین کی پیروی کرو۔

 کلمات کی تشریح:

۱۔ بوّانا: ھّیاٴنا :ھم نے آمادہ کیا ،جگہ دی اوراسے تمکن بخشا۔

۲۔اَذِّن: اعلان کرو ، دعوت دو ،صدا دو ،لفظ اذا ن کا مادہ یھی کلمہ ھے۔

۳۔ رجالاً: پا پیادہ ، جو سواری نہ رکھتا ھو،راجل یعنی پیادہ ( پیدل چلنے والا)

۴۔البھیمة: ھر طرح کے چوپائے۔

۵۔ ضامر: دبلا پتلا لاغر اندام اونٹ۔

۶۔فجّ: پھاڑوں کے درمیان درّہ کو کہتے ھیں۔

۷۔مثابة-: اس جگہ کو کہتے ھیں جھاں لوگ رجوع کرتے ھیں:

و اِٴذجعلنا البیت مثابة للناس

یعنی ھم نے گھر کو حجاج کے لئے رجوع اورباز گشت کی جگہ قرار دی تاکہ لوگ جوق در جوق اس کی طرف آئیں، نیز ممکن ھے ثواب کی جگہ مراد ھو ، یعنی لوگ مناسک حج و عمرہ کی انجام دھی کے ساتھ ساتھ ثواب و

 جزاکے بھی مالک ھوں ،نیز ان کے امن و امان کی جگہ ھے۔

۸۔< مناسکنا،عباداتنا>”نُسک “خدا کی عبادت اور وہ عمل جو خدا سے نزدیکی اور تقرب کا باعث ھو ،جیسے حج میںقربانی کرنا کہ ذبح شدہ حیوان کو -”  نسیکہ“کہتے ھیں ؛ منسک عبادت کی جگہ اورمناسک: عرفات ،مشعر اور منیٰ وغیرہ میں اعمال حج اور اس کے زمان و مکان کو کہتے ھیں۔

۹۔ مقام ابراھیم(ع) :کعبہ کے مقابل روئے زمین پر ایک پتھر ھے جس پر حضرت ابراھیم علےہ السلام کے قدموں کے نشانات ھیں۔

۱۰۔ حنیف : استوار، خالص ، ضلا لت و گمراھی سے راہ راست اور استقامت کی طرف مائل ھونے والا ؛ حضرت ابراھیم (ع) کی شریعت کا نام ”حنیفیہ“ ھے۔

۱۱۔قِیماً، قِیماور  قَیم: ثابت مستقیم اور ھر طرح کی کجی اور گمراھی سے دور۔

۱۲۔ ملة۔ دین، حق ھو یا باطل ، اس لحا ظ سے جب بھی خدا ، پیغمبر اور مسلمان کی طرف منسوب ھو اس سے مراد دین حق ھے۔

آیات کی مختصر تفسیر:

خدا وندا عالم فرماتا ھے: اے پیغمبر!اس وقت کو یاد کرو جب ھم نے ابراھیم کو خانہ کعبہ کی جگہ سے آگاہ کیا تاکہ اس کی تعمیر کر یں اور جب ابراھیم (ع)و اسماعیل (ع) خانہ کعبہ کی تعمیر کر رھے تھے تو وہ دونوں اپنے پروردگار کو آواز دیتے ھوئے کہہ رھے تھے : خدا یا !ھم سے اس عمل کو قبول کر اور ھمیں اپنا مطیع و فرما نبردار مسلمان بندہ قرار دے، نیز ھماری ذریت سے ایک سراپا تسلیم رھنے والی مسلمان امت قرار دے، نیز ھمیں اپنی عبادت کا طریقہ بتا ،خدا وند سبحان نے انکی دعا قبول کر لی ، ابراھیم(ع) نے خواب میں دیکھا کہ اپنے بیٹے اسماعیل  (ع) کو راہ خدا میں قربان کر رھے ھیں۔[19] اس وقت اسماعیل سن رشد کو پھنچ چکے تھے اور باپ کے ساتھ کعبہ کی تعمیر میں مشغول تھے، ابراھیم (ع) نے خواب میں جو کچھ دیکھا تھا اسماعیل  (ع) کو اس سے آگاہ کر دیا، انھوں نے کھا : بابا آپ جس امر پرمامور ھیںاسے انجام دیجئے ،آپ مجھے عنقریب صابروں میں پائیں گے، لہٰذا جب دونوں فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ھو گئے اور ابراھیم (ع) نے اپنے بیٹے اسماعیل (ع)کو زمین پر لٹا دیا تاکہ راہ خدا خدا وند عالم نے ابراھیم (ع) کو حکم دیا کہ حج کااعلان کردیں کہ عنقریب لوگ پاپیادہ اورسواری سے دور دراز مسافت طے کر کے حج کے لئے آئیں گے اور خدا وندعالم نے اس گھر کو امن و امان کی جگہ اور ثواب کا مقام قرار دیا اور حکم دیا کہ لوگ مقام ابراھیم (ع) کو اپنا مصلیٰ( نماز کی جگہ) بنا ئیں۔

 خدا وند عالم دیگرآیات میں ابراھیم (ع) کے دین اور ملت کے بارے میں خبر دیتے ھو ئے فرماتا ھے :

 ابراھیم (ع) خالص اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے ، وہ نہ تو مشرک تھے اور نہ یھودی اور نصرانی ، جیسا کہ بعض اھل کتاب کا خیال ھے ، خداوندعالم نے ھمیں حکم دیا ھے کہ ھم آئین ابراھیم کی پیروی کریں اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اس کام کے لئے مخصوص فرماتے ھو ئے ارشاد فرمایا کہ وہ لوگو ں سے کھیں:

ھمارے خدا نے ھمیں راہ راست کی ھدایت کی ھے ، جواستوار دین اور حضرت ابراھیم (ع) کی پاکیزہ ملت جوکہ شرک سے رو گرداں اور اسلام کی طرف مائل تھے منجملہ حضرت خاتم الا نبیا(ع)ء کا اپنے جد ابراھیم (ع) کی شریعت کی پیروی میں مناسک حج بجا لا نا بھی ھے اس طرح کہ جیسے انھوں نے حکم دیا تھا ، رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) خدا کی امت بھی ایسا ھی کرتی ھے اور مناسک حج اسی طرح سے بجا لاتی ھے جس طرح ابراھیم (ع) خلیل الر حمن نے انجام دیا تھا۔

 بحث کا نتیجہ

جمعہ کا دن حضرت آدم (ع) اور ان تمام لوگوں کے لئے جوان کے زمانے میں زندگی گزار رھے تھے  مبارک  دن تھا، یہ دن حضرت خاتم الانبیا ء اور ان کی امت کے لئے بھی ھمیشہ کے لئے مبارک ھے۔

 خانہ خدا کا حج آدم (ع) ، ابراھیم (ع) اور خاتم الانبیاء (ع) نیز ان کے ماننے والے آج تک بجا لا تے ھیں اور اسی طرح ابد الآبادتک بجا لا تے رھیں گے، خدا وند عالم نے حضرت خاتم الا نبیاء اوران کی امت کے لئے وھی دین اور آئین مقرر فرما یا جو نوح(ع) کے لئے تھا اورحضرت ابراھیم (ع) حضرت نوح(ع) کے پیرو اور ان کی شریعت کے تابع تھے ،اسی لئے خدا وند عالم نے خا تم الانبیا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور ان کی امت کو حکم دیا کہ شریعت ابرا ھیم(ع) اور ان کے محکم اور پائدار دین کے تابع ھوں ۔

پیغمبروں کی شریعتوں میں حضرت آدم سے پیغمبر خاتم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تک کسی قسم کا کوئی اختلاف نھیں ھے اور اگرکچھ ھے بھی تو وہ گزشتہ شریعت کی آئندہ شریعت کے ذریعہ تجد ید ھے اور کبھی اس کی تکمیل ھے،یہ بات پھلے گزر چکی ھے کہ حضرت آدم (ع) نے حج کیا اور حضرت ابراھیم (ع) نے خانہ کعبہ کی تعمیر کرکے حج کی بعض علا متوں کی تجد ید کی اور خا تم الانبیا ء(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے احرام کے میقا توں کی تعیین کی مقام ابراھیم (ع) کو مصلیٰ بنایا اور تمام نشانیوں کی وضاحت کر کے اس کی تکمیل کی۔

 خدا وند سبحان نے اسلا می احکام کواس وقت کے انسانوں کی ضرورت کے مطابق حضرت آدم کے لئے ارسال فرمایا جو انسان اپنی کھیتی باڑی اور جانورں کے ذریعہ گز ر اوقات کرتا تھا اور شھری تہذیب و تمدن سے دور تھا ،جب نسل آدمیت کا سلسلہ آگے بڑھا اور حضرت نوح (ع) کے زمانے میں آبادیوں کا وجود ھوا اور بڑے شھروں میں لوگ رھنے لگے تو انھیں متمدن اور مہذ ب افراد کے بقدر وسیع تر قانون کی ضرورت محسوس ھو ئی ، (انسان کی تجارتی ، سماجی اور گونا گوں مشکلات کو دیکھتے ھوئے جن ضرورتوں کا بڑے شھروں میں رھنے والوں کو سامنا ھوتاھے) تو خدا وندعالم نے اسلامی احکام کی جتنی ضرورت تھی حضرت نوح (ع) پر نازل کیا ،تا کہ ان کی ضرورتوں کی تکمیل ھو سکے جس طرح خاتم الا نبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)پرزمانے کی ضرورت کے مطابق احکام نازل فرمائے ۔

 گزشتہ امتیں عام طور پر اپنے نبیوں کے بعد منحرف ھوکر شرک کی پجاری ھو گئیں جیسا کہ اولاد آدم کا کام حضرت نوح (ع) کے زمانے میں بت پرستی تھا ،ایسے ماحول میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے سب سے پھلے خالق کی توحید کی دعوت دی اور بتوں کی عبادت کو ترک کرنے کا حکم دیا جیسا کہ حضرت نوح(ع) ، ابراھیم (ع) اور حضرت خاتم الانبیاء تک تمام نبیوں کا یھی دستور اور معمول رھاھے چنانچہ آ نحضرت عرب کے بازاروں اور حجاج کے خیموں میں رفت و آمد رکھتے اور فرماتے تھے < لاالہ الا الله > کھو !کا میاب ھو گے! کبھی بعض امتوں کے درمیان ان کے سرکش اور طاغوت صفت رھبر نے ” ربوبیت“ کا دعوی کیا جیسے نمرود ملعون نے حضرت ابراھیم (ع) کے ساتھ ان کے پروردگار کے بارے میں احتجاج کیا اور سرکش اور طاغی فرعون نے (انا ربکّم الا علیٰ )کی رٹ لگائی ،ایسے حالات میں خدا کے پیغمبر سب سے پھلے اپنی دعوت کا آغاز تو حید ربوبی سے کرتے تھے ، جیسا کہ ابر اھیم (ع) نے نمرود سے کھا: < ربّی  الذی یحیی و یمیت> میرا پر وردگار وہ ھے جو زندہ کرتا اور موت دیتا ھے۔

 اور حضرت موسیٰ (ع) نے فرعون سے کھا :

ربّنا الذی اعطیٰ کلّ شیءٍ  خلقہ ثمّ ھدیٰ۔[20]

ھمارا رب وہ ھے جس نے ھر مو جود کو اس کی خلقت کے تمام لوازم عطا کئے ،اس کے بعد ھدایت فر مائی۔

 حضرت موسیٰ (ع)کی فر عون سے اس گفتگو کی تشریح سورئہ اعلی میں موجود ھے:

سبّح اسم ربّک  الاٴ علیٰ ۔ الذی خلق فسوّیٰ ۔  و الذی  قدّر فھدیٰ  ۔ و الذی اٴخرج المرعیٰ ۔ فجعلہ غثاء ً اٴ حویٰ [21]

  اپنے بلند مرتبہ اور عالی شان پروردگار کے نام کو منزہ سمجھو ، وھی جس نے زیور تخلیق سے منظم و آراستہ فرمایا ، وھی جس نے تقدیر معین کی ھے اور پھر ھدایت فرمائی ، وہ جس نے چرا گاہ کو وجود بخشا پھر اسے خشک اور سیاہ بنادیا ۔

سورئہ اعراف میں بیان ھوتا ھے : 

 اِنّ ربّکم  الله الذی خلق السّموات و الا ٴرض[22]

بیشک تمھارا ربّ وہ خدا ھے جس نے آسمان و زمین خلق کیا ھے۔

اس بنا پر بعض گزشتہ امتیں بنیادی عقیدہ تو حید سے منحرف ھوجاتی تھیں جیسے حضرت نوح (ع) اور ابراھیم (ع) وغیرہ کی قومیں اور بعض عمل کے اعتبار سے اسلام سے منحرف ھو جاتی تھیں جیسے قوم لوط اور شعیب کے کرتوت۔

 اگر قرآن کریم ، پیغمبروں کی رو ایات ،انبیا ء کے آثار اور اخبار اسلامی مدارک میں بغور مطالعہ اورتحقیق کی جائے تو ھمیںمعلوم ھو گا کہ بعد والے پیغمبر خدا وند عالم کی جانب سے پھلے والے پیغمبروں پر نازل شدہ شریعت کی تجدید کرنے والے رھے ھیں ، ایسی شریعت جو امتوں کی طرف سے محو اور تحریف ھو چکی تھی ، اس لئے خدا نے ھمیں حکم دیا کہ ھم کھیں:

آمنّا بالله  و ما اٴنزل الینا  و ما اٴنزل ِالیٰ  ابراھیم و اِسما عیل  و اِسحق  و یعقوب و الاٴسباط  و ما اٴوتی  مو سیٰ  و عیسیٰ  و ما اٴو تی ٰ  النبیون  من ربّھم  لا نفرّق  بین اٴحد  منھم  ونحن لہ مسلمون[23]

 کھو کہ ھم خدا اور جو کچھ خدا کی طرف سے ھم پر نازل ھوا ھے اس پر ایمان لا ئے ھیںنیز ان تمام چیزوں پر بھی جو ابر اھیم، اسماعیل ، اسحق ، یعقوب اور انکی نسل سے ھو نے والے پیغمبروں پر نازل ھوئی ھیں ، نیزجو کچھموسیٰ، عیسیٰ اور تمام انبیا ء کو خدا کی جانب سے دیا گیا ، ھم ان میں سے کسی ایک کو بھی کسی سے جدا تصوّر نھیں کرتے ھم تو صرف اور صرف فرمان خدا وندی کے سامنے سراپا تسلیم ھیں ۔

سوال:

ممکن ھے کوئی سوال کرے: اگر پیغمبروں کی شر یعتیں ایسی ھی ھیں جیسا کہ آپ بیان کرتے ھیں تو انبیاء کی شریعتوں میں نسخ کے معنی ٰ کیا ھوں گے کہ خدا و ندعالم ارشاد فرماتا ھے :

ما ننسخ من آیة  اٴوننسھا نات بخیر منھا اٴو مثلھا  الم تعلم اٴنّ الله علی کلّ شیءٍ قدیر[24]

(کوئی حکم ھم اس وقت تک نسخ نھیں کرتے یا اسکے نسخ کو تاخیر میں نھیں ڈالتے جب تک کہ اس سے بہتر یا ا س جیسا نہ لے آئیں کیا تم نھیں جانتے کہ خدا ھر چیز پر قادر ھے)۔

نیز خدا وند عالم کی اس گفتگو میں ”تبدیل“ کے کیا معنی ھیں کہ فرما تا ھے:

و اِذا بدّلنا آیة  مکان آیة  و الله  اعلم بما ینزّ ل قالو اِنّما  اٴنت مفتر بل اٴکثرھم لا یعلمون[25]

(اور جب ھم ایک آیت کو دوسری آیت سے تبدیل کرتے ھیں ( کسی حکم کو نسخ کرتے ھیں ) توخدا بہتر جانتا ھے کہ کونسا حکم نازل کرے ، کہتے ھیں: تم افترا پردازی کرتے ھو ، بلکہ ان میں زیادہ تر لوگ نھیں جانتے)

جواب:

ھم اسکے جواب میں کھیں گے : یھاں پر بحث دو موضوع سے متعلق ھے:

۱۔ اصطلا ح ”نسخ“ اور اصطلا ح” آیت“ -۔

۲۔مذکورہ آیات کے معنی۔

انشاء الله آئندہ بحث میں اس کے متعلق چھان بین اور تحقیق کریں گے۔


[1] ”سلیم الحسنی“ کے مقالے کا ترجمہ کچھ تلخیص کے ساتھ جو عر بی زبان کے”الوحدة“نامی رسالہ میں شائع ھوا  ھے،نمبر ۱۷۶،شوال  ۱۴۱۵ ھ ،ص ۳۸۔

[2] صحیح مسلم،ج ۵،ص ۵ کتاب الجمعة باب فضل الجمعة،طبقات ابن سعد،ج۱،طبع یورپ۔

[3] مسند احمد،ج۲،ص ۲۳۲،۳۲۷اور۵۴۰۔ اخبار مکہ ازرقی(ت ۲۲۳ھج) طبع، ۱۲۷۵ھج ص ۳۱۔

[4] طبقات ابن سعد،طبع یورپ،ج،۱ ص ۱۲،۱۵،۳۶،مسند احمد، ج،۱۔۵ ص ۱۷۸ اور ۲۶۵،مسند طیالسی(حدیث /۴۷۹) بحار الانوار ج۱۱،ص ۱۶۷ اور ۱۹۷ حضرت آدم (ع) کی کیفیت حج سے متعلق متعدد اور مختلف روایات پا ئی جاتی ھیں۔

[5] نوح:۱/۲/۳/۲۳۔

[6] شوری ٰ: / ۱۳

[7] بحار الانوار۔ج۳،ص ۲۴۸ اور ۲۵۲؛ صحیح بخاری،ج۳ ص ۱۳۹ سورہ نوح کی تفسیر کے ذیل میں۔

[8] معجم الفاظ القرآن الکریم مادہٴ وصی۔

[9] آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر تبیان اور مجمع البیان میں ملاحظہ ھو ۔

[10] آیت کی تفسیر کے ذیل میں تفسیر ”تبیان“ ملاحظہ ھو۔

[11] لسان العرب مادہ :شیع ۔

[12] حج/۲۶۔۲۸

[13] بقرہ/ ۱۲۵۔۱۲۸

[14] بقرہ/ ۱۳۵ و ۱۳۶

[15] آل عمران/۶۸

[16] آل عمران/۹۵

[17] انعام/ ۱۶۱

[18] نحل/۱۲۳

[19] پیغمبر جو خواب میں دیکھتا ھے وہ ایک قسم کی وحی ھو تی ھے۔

میں قربان کریں تو خدا وند عالم نے آواز دی : اے ابراھیم (ع) !تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھا یا!کیو نکہ اسمٰعیل (ع) کو ذبح کرنے میں مشغول ھو گئے تھے اور یہ وھی چیز تھی جس کا انھوں نے خواب میں مشاھدہ کیا تھا ، انھوں نے خواب میں یہ نھیں دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذ بح کر چکے ھیں اسی اثنا میں خدا نے دنبہ کو اسماعیل (ع) کا فدےہ قرار دیا اور ابراھیم (ع) کے سامنے فراھم کردیا اور انھوں نے اسی کی منیٰ میں قربانی کی ۔

[20] طہ/۵۰

[21] اعلی / ۱ ۔ ۵

[22] اعراف/۵۴

[23] اعراف/۵۴

[24] سورہ ٴ بقرہ / ۱۰۶

[25] سورہ ٴ بقرہ / ۱۰۶