یہ مسئلہ نبوت کے مسائل میں سے ھے جسے ایک ایسے برھان کے ذریعہ ثابت کرنا ھوگا کہ جو تین مقدمات پر مشتمل ھو۔
پھلا مقدمہ یہ ھے انسان کی خلقت کا ھدف یہ ھے کہ وہ اپنے مختار ھونے کے ساتھ اعمال کے ذریعہ راہ تکامل کو انتھائی کمال تک طے کرے، ایسا کمال کہ جو انسان کے مختار ھوئے بغیر قابل دست رسی نھیں ھے، ایک دوسری تعبیر کے مطابق انسان کو اس لئے خلق کیا گیا ھے، کہ وہ خدا کی اطاعت و عبادت کے ذریعہ اپنے وجود میں رحمت الٰھی کی دریافت کی لیاقت پیدا کرے، جو صرف اور صرف انسان کامل سے مخصوص ھے، اورخدا کاا رادہ بھی انسان کی سعادت اور اس کے کمال سے متعلق ھے لیکن چونکہ یہ سعادت اختیاری افعال انجام دئے بغیر میسر نھیں ھے اس مسئلہ نے بشری زندگی کو دو راھے پر کھڑا کردیا ھے ،تا کہ وہ اپنے اختیار سے جسے چاھے انتخاب کرے جن میں سے ایک راستہ شقاوت کی طرف جاتا ھے جو بالتبع ارادہ الٰھی سے متعلق ھے نہ بالاصالةً۔
یہ مقدمہ عدل و حکمت الٰھی کی بحث کے ضمن میں واضح ھوگیا۔
دوسرا مقدمہ: یہ ھے کہ غور و فکر کے ذریعہ اختیار و انتخاب کرنا، مختلف ا مور کی انجام دھی میں بیرونی عوامل کا مھیا ھونا اور ان کی طرف باطنی کشش کے پائے جانے کے علاوہ امور کے صحیح یا غلط ھونے اور اسی طرح شائستہ اور ناشائستہ راستو ں کی ضرورت ھے، اور انسان اسی صورت میں غور و فکر کے ساتھ انتخاب کر سکتا ھے کہ جب ھدف اور اس تک پھنچنے والے راستہ کو اچھی طرح جانتا ھو ، اور اس کے فراز و نشیب ، پیچ و خم سے پوری طرح آگاہ ھو لہذا حکمت الٰھی کا تقاضا یہ ھے کہ ایسی معرفت کے حصول کے لئے خدا وند متعال ضروری وسائل و امکانات ، بشر کے اختیار میں قرار دے، وگرنہ اس کی مثال اس شخص کی ھوگی جو کسی کو اپنے مھمان سرا پر دعوت دے، لیکن اسے اس کا پتہ اور وھاں تک جانے والے راستہ کی نشاندھی نہ کرے ، ظاھرھے کہ ایسا عمل حکمت اور غرض کے خلاف ھوگا۔
یہ مقدمہ بھی چونکہ واضح ھے لہٰذا ا س کے لئے زیادہ وضاحت کی ضرورت نھیں ھے۔
تیسرا مقدمہ :یہ ھے کہ انسانوں کی وہ معمولی معرفت جو حس و عقل کی بنیاد پر حاصل ھوتی ھے اگر چہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنا پورا کردار ادا کرتی ھے لیکن سعادت حقیقی اور راہ کمال کو فردی و اجتماعی ، مادی و معنوی، دنیوی و آخروی پھلوں کے لحاظ سے پہچاننے کے لئے کافی نھیں ھے، اور اگر ان مشکلات کے حل کے لئے کوئی اور راستہ نہ ھو تو انسان کی خلقت سے خدا کا ھدف پورا نھیں ھو سکتا۔
ان مقدمات کی بدولت ھم اس نتیجہ تک پھنچے ھیں کہ حکمت الٰھی کا تقاضا یہ ھے کہ راہ تکامل کی پہچان کے لئے حس و عقل کے علاو ہ کوئی دوسرا راستہ انسان کے اختیار میں ھونا چاھیے، تا کہ انسان براہ راست یا ایک یا چند واسطہ کے ذریعہ اس سے مستفید ھو سکے، ھاں،یہ وھی وحی کا راستہ ھے جسے خدا نے اپنے انبیاء ( ع)کے اختیار میں دے دیا ھے، جس سے عوام، انبیاء ( ع)کے ذریعہ اور انبیاء (علیہم السلام)براہ راست مستفید ھوتے ھیں، اور جو چیز کمال نھائی اور سعادت کے حصول میں ضروری ھے اسے انسانوں کے اختیار میں قرار دیا ھے۔
ان تینوں مقدموں میں تیسرے مقدمہ کی بہ نسبت ممکن ھے کسی کے دل میں کوئی شبہ پیدا ھو لہٰذا اس سلسلہ میں تھوڑی سی وضاحت کریں گے تا کہ اس طرح راہ تکامل کی تشخیص میں علوم بشری کی کمزوری اور بشر کیلئے راہ وحی کی ضرورت پوری طرح روشن ھوجائے۔
زندگی کے صحیح راستہ کو اس کے تمام جوانب کے ساتھ پہچاننے کے لئے ضروری ھے کہ سب سے پھلے انسان کے آغاز و انجام نیز بقیہ موجودات کے ساتھ اس کے روا بط اور مخلوقات کے ساتھ اس کی معاشرت کے علاوہ سعادت و شقاوت میں اثر انداز ھونے والے مختلف پھلوٴں کا جانا ضروری ھے نیز مصالح و مفاسد ،سود و زیاں میں کمی اور زیادتی کی تشخیص بھی ضروری ھے، تا کہ اس طرح کھربوں انسان کے وظائف مشخص ھو سکیں، جو مختلف طبیعی اور اجتماعی شرائط اور بدنی او روحی تفاوت و اختلافات کے ساتھ زندگی گذار رھے ھیں، لیکن ان تمام امور پر ایک یا چند افراد کی بات کیا ہزاروں علو م انسانی کے ماھرین بھی اکٹھا ھوجائیں تو بھی ایسے پیچیدہ فارمولے کو کشف کرکے اسے منظم اصول و قوانین کی ایسی شکل نھیں دے سکتے کہ جو تمام انسانوں کے لئے فردی و اجتماعی، مادی، معنوی، دنیوی و اخروی اعتبار سے مصالح و مفاسد کی ضمانت دے سکے، اس کے علاوہ بے شمار مصالح و مفاسد کے ٹکراؤ کے دوران جو اکثر اوقات پیش آتے ھیں ان میں اھم کو انتخاب کر کے وظیفہ کو معین کرنا بھی ان کی استطاعت کے باھر ھے۔
تاریخ بشر میں بدلتے ھوئے قوانین نے اس بات کو ثابت کردیا ھے کہ ہزاروں سال تک ہزاروں حقوق دانوں کی تحقیق و جستجو سے آج تک کامل اور عیب و نقص سے مبرا قوانین کا ایک مجموعہ وجود میں نھیں آسکا ،بلکہ ھمیشہ قانون کو وضع کرنے والے ایک مدت کے بعد اپنے ھی وضع کردہ قانون میں خطا سے آگاہ ھوئے، یا تو اسے بدل دیا یا پھر اسے کسی دوسرے وضع کردہ قانون کے ذریعہ کامل کردیا۔
لیکن اس مقام پر اس مطلب کی طرف توجہ مبذول رھے ،کہ انھوں نے بہت حد تک اپنے قوانین کو وضع کرنے میں الٰھی قوانین کا سھارا لیا ھے اور یہ بھی معلوم رھے، کہ قانون گذاروں کی تمام سعی و کوشش دنیوی اور اجتماعی زندگی کو سنوارنے کے لئے صرف ھوتی رھی ھے، لیکن کبھی بھی انھوں نے اخروی منافع کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور دنیوی قوانین سے اس کا کوئی موازنہ نھیں کیا، بلکہ اگر وہ اس مسئلہ کو مد نظر رکھ کر قو انین وضع کرتے تو کبھی بھی اس راہ میں کامیاب نہ ھوتے، اس لئے کہ مادی اور دنیوی مصلحتوں کو ایک حد تک تجربوں کے ذریعہ معین کیا جاسکتا ھے لیکن معنوی اور اخروی مصلحتیں کسی بھی حال میںتجربہ حسی کے قابل نھیں ھیں، اور پوری طرح سے اس کے مصالح کا اندازہ نھیں لگایا جاسکتا، اسی طرح ان کے لئے مصالح اخروی اور مصالح دنیوی کے ٹکراؤ کے ھنگام اھم ومھم کو تشخیص دینا بھی غیر ممکن ھے؟
بشر کے موجودہ قوانین کی حالت کو دیکھتے ھوئے ہزاروں سال پھلے جینے والے انسانوں کے علوم کا انداہ لگایا جا سکتا ھے اور یہ قطعی نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ھے کہ گذشتہ ادوار میں جینے والے اس عصر میں جینے والوں کے مقابلہ میں زندگی کے صحیح راستہ کی تشخیص میں نھایت ناتواں تھے، اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اس عصر کے انسانوں سے ہزاروں سالہ تجربات کے پیش نظر کامل قوانین کے مجموعہ کو وضع کرنے میں کامیابی حاصل کر بھی لی ھے یا بالفرض یہ قوانین انسانوں کی اخروی سعادت کے ضامن بھی بن گئے ھیں، لیکن پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی ھے کہ کس طرح ہزاروں انسانوں کو ان کی جھالت میں چھوڑ دینا حکمت الٰھی سے سازگار ھے؟
نتیجہ۔ آغاز سے انجام تک انسانوں کی خلقت کا ھدف اسی صورت میں قابل تحقّق ھے کہ جب زندگی کے حقائق اور فردی و اجتماعی وظائف کی معرفت کے لئے حس و عقل سے ماورا کوئی دوسرا راستہ بھی موجود ھو، اور وہ راستہ وحی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نھیں ھوسکتا۔
اس بحث کی روشنی میں یہ مطلب بھی واضح ھوگیا کہ اس برھان کا تقاضا یہ ھے کہ اس زمین پر قدم رکھنے والے سب سے پھلے انسان کا نبی ھونا ضروری ھے تا کہ وہ وحی کے ذریعہ زندگی کے صحیح طریقہ کو پہچانے اور ھدف خلقت اُس کے متعلق متحقق ھوجائے اور اس کے بعد آنے والے انسان اسی کے ذریعہ ھدایت یافتہ ھوں۔
انبیاء الٰھی انسانوں کے کمال کو مشخص کرنے اور وحی کو دریافت کرنے کے بعد لوگوں کے سامنے اُسے بیان کرنے کے علاوہ انسانوں کے تکامل(بتدریج کمال تک پھنچنے) کے لئے دوسرے مھم راستوں سے بھی آگاہ تھے جو درج دیل ھیں۔
۱۔ بہت سے ایسے مطا لب ھیں کہ جنھیں درک کرنے کے لئے انسانی عقول میں طاقت نھیں ھے، بلکہ اسے سمجھنے کے لئے گذشتہ زمانے کے علاوہ بے شمار تجربوں کی ضرورت ھے یا پھر وہ مطالب حیوانی خواھشات میں ملوث ھونے اور مادیات سے وا بسطہ ھونے کی وجہ سے فراموشی کا شکار ھوگئے ھیں، یا پھر زھریلی تبلیغات اور لوگوں کے درمیان غلط پروپگنڈوں کی وجہ سے مخفی ھوگئے ھیں، ایسے مطالب بھی انبیاء الٰھی کی جانب سے بیان کئے جاتے ھیں جنھیں پے درپے تذکرات اور بار بار تکرار کے ذریعہ پوری طرح فراموش ھونے سے بچا لیا جاتا ھے اور صحیح تعلیم کے ذریعہ ایسی زھریلی تبلیغات کے اثرات سے محفوظ کردیا جاتا ھے۔
یھیں سے انبیاء ( ع)کا ”مذکِّر“ اور ”نذیر“ اور قرآن کا ”ذکر“ اور تذکرہ“ جیسی صفات سے متصف ھونا سمجھ میں آتا ھے امام علی علیہ السلام بعثت انبیاء (علیہم السلام)کی حکمتوں کو بیان کرنے کے دوران فرماتے ھیں<لِیسَتاٴدُوھم میثاقَ فِطرَتہ و یُذکِّروھم مَنسِيِّ نِعمَتِہ وَ یَحتجّوا عَلَیھم
بِالتّبلیغ>یعنی خدا نے اپنے رسولوں کو پے در پے بھیجا تا کہ لوگوں سے پیمان فطرت پر وفاداری کا اقرار لیں، فراموش شدہ نعمتوں کی یاد دلائیں اور تبلیغ کے ذریعہ اتمام حجت کریں:
۲۔انسان کے تکامل(کمال کے آخری درجہ تک پھنچنے) کے مھم ترین عوامل میں سے اسوہ اور نمونہ کا ھونا ھے کہ جس کی ا ھمیت علم نفسیات ثابت ھے انبیاء الٰھی انسان کامل اور دست الٰھی کے ھاتھوں تربیت پانے کی وجہ سے اس کردار کو بہترین صورت میں پیش کرتے ھیں، لوگوںکو اپنی تعلیمات کامیابی حاصل کرنے کے علاوہ ان کی تربیت اور تزکیہ کا اہتمام بھی کرتے ھیں، اور ھمیں یہ معلوم ھے کہ قرآن میں تعلیم و تزکیہ کو باھم ذکر کیا گیا ھے یھاں تک کہ بعض مقامات پر تزکیہ کو تعلیم پر مقدم کیا گیا ھے۔
۳۔ لوگوں کے درمیان انبیاء ( ع)کے موجودھونے کی برکات میں سے ایک برکت یہ بھی ھے کہ صورتحال کے موافق ھوتے ھی لوگوں کی سیاسی، اجتماعی رھبری کو بھی سنبھالتے ھیں، اور یہ امر بخوبی روشن ھے کہ ایک سماج کے لئے معصوم رھبر کا ھونا عظیم نعمتوں میں سے ھے اس لئے کہ اس کے ذریعہ سماج کی بہت سی مشکلات کو روک دیا جاتا ھے، اور سماج اختلاف ،گمراھی اور کج روی سے نجات پاجاتا ھے اور کمال کی جانب گامزن ھوجاتا ھے۔
۱۔انسان کی خلقت کا ھدف کیا ھے؟
۲۔کیا جس طرح خداکا حکیمانہ ارادہ انسان کی سعادت سے متعلق ھے اسی طرح اس پر عذاب سے بھی متعلق ھے؟ یا پھران دونوں میں کوئی فرق ھے؟
۳۔غور و فکر کے ساتھ انسان کو اختیار و انتخاب کے لئے کن امور کی ضرورت ھے؟
۴۔ کیوں عقلِ بشر تمام معارف کے سمجھنے میں ناقص و قاصر ھے؟
۵۔ بعثت انبیاء (علیہم السلام)کی ضرورت پر موجود ہ برھان کو بیان کریں؟
۶۔ اگر انسان طولانی تجربوں کے ذریعہ دنیوی اور اجتماعی سعادتوں کو حاصل کر لیتا تو کیا پھر بھی اسے وحی کی ضرورت تھی؟ اور کیوں؟
۷۔ کیا سب سے پھلے انسان کے نبی ھونے پر دلیل قائم کی جاسکتی ھے؟
۸۔ انبیاء ( ع)کے موجود ھونے کے تمام فوائد کو بیان کریں؟
کیوں بہت سے لوگ انبیاء (علیہم السلام)کی ھدایت سے محروم ھو گئے؟
کیوں خدا نے انحرافات اور اختلافات کا سد باب نھیں کیا؟
کیوں انبیاء الٰھی صنعتی اور ا قتصادی امتیازات سے سرفراز نہ تھے؟
بعثت انبیاء علیھم السلام کے سلسلہ میں جو دلائل ذکر ھوئے ھیںانھیں دلائل کے ضمن میں چند شبھات اور سوالات ھیں جن کے جوابات یھاں ذکر کئے جائیں گے۔
کیوں بہت سے لوگ انبیاء (علیہم السلام)کی ھدایت سے محروم ھو گئے؟
اگر تمام انسانوں کی ھدایت کے لئے بعثت انبیاء (علیہم السلام)کااقتضا یہ ھے کہ وہ انبیاء (علیہم السلام)کو مبعوث کرے تو پھر کیوں سب کے سب فقط ایک ھی سرزمین ایشیا میں مبعوث ھوئے، اور بقیہ سر زمینیں اس نعمت سے محرم رھیں، خصوصاً گذشتہ ادوار میں ارتباطات کے و سائل بہت محدود تھے اور ایک مقام سے دوسرے مقام تک، کسی خبر کو پھنچانا نھایت سختی سے انجام پاتا تھا اور شاید اس وقت کچھ ایسی قومیں رھی ھوں، جنھیں اصلاً بعثت انبیاء (علیہم السلام)کی کوئی خبر نہ ملی ھو۔
اس سوال کا جواب یہ ھے کہ پھلے ، انبیاء (علیہم السلام)کی بعثت کسی خاص سرزمین سے مخصوص نھیں تھی، بلکہ قرآن کی آیات کے مطابق ھر امت اور ھر قوم کے پاس پیغمبر بھیجے گئے جیسا کہ سورہٴ فاطر کی چوبیسویں آیت
میں خدا فرماتا ھے:< وَان مِّن اُمَّةٍ اِلَّاخَلا فِیھا نَذِیرٌ>
اور دنیا میں کوئی امت ایسی نھیں گئی جس کے پاس ھمارا ڈرانے والاپیغمبر نہ آیا ھو۔
سورہٴ نحل کی آیت چھتیسویں میں وارد ھوا ھے :
وَلَقَد بَعَثنَا فِي کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولاً اَنِ اعبُدُوااللَّہَ وَاجتَنِبُوا الطَّاغُوتَ
اور ھم نے تو ھر امت میں ایک نہ ایک رسول ضرور بھیجا کہ وہ لوگوں سے کھے کہ خداکی عبادت کرو اور بتوں کی عبادت سے بچے رھو۔
اور اگر قرآن میں محدود انبیاء (علیہم السلام)کا نام آیا ھے تو اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ کل انبیا ء کی تعداد اتنی ھی تھی بلکہ خود قرآن کے بیان کے مطابق بہت سے انبیاء (علیہم السلام)تھے کہ جن کے اسماء اس قرآن میں ذکر نھیں کئے گئے ، جیسا کہ سورہٴ نساء کی آیت ۱۶۴ / میں خدا فرماتا ھے:
وَرُسُلاً لَّم نَقصُصہُم عَلَیکَ
دوسرے: اس برھان کا تقاضایہ ھے کہ حس و عقل کے ماوراء کوئی ایسا راستہ ھونا چاھیے کہ جس کے ذریعہ یہ امکان ھو کہ لوگوں کی ھدایت کی جاسکے، لیکن بشر کی ھدایت کو مرحلہٴ فعلیت تک پھنچنے کے لئے دو شرط ھے۔
۱۔ پھلےیہ کہ وہ لوگ خود اس نعمت الٰھی سے استفادہ کرنا چاھیں۔
۲۔دوسرے یہ کہ کوئی دوسرا اُن کی ھدایت میں مانع ایجاد نہ کرے، اور لوگوں کا انبیاء ( ع)سے محروم ھونے کا سبب خود اُن کے ناجائز اختیارات تھے، جس طرح کہ بہت سے لوگوں کا انبیاء (علیہم السلام)کی ھدایت سے محرو م ھونا اِنھیں موانع کی وجہ سے ھے، جسے وہ لوگ خود انبیاء (علیہم السلام)کی تبلیغ میں ایجاد کرتے تھے، اور ھمیں بخوبی معلوم ھے کہ انبیاء الٰھی برابر ایسے موانع کو برطرف کرنے کے لئے کوشاں رھے ، اور ھمیشہ ستمگروں، ظالموں اور مستکبروں سے بر سر پیکار رہتے تھے، بلکہ انبیاء (علیہم السلام)کی ایک کثیر تعداد راہ تبلیغ اور لوگوں کی ھدایت کی راہ میں شھید بھی ھوگئی ،بلکہ جب بھی انھیں نیک ساتھیوں کی حمایت ملی تو
اُنھوں نے وقت کے اُن ظالموں سے مقابلہ کیا ،کہ جو اُن کے اھداف میں موانع ایجاد کرتے تھے۔
قابل توجہ نکتہ تو یہ ھے کہ انسان کی تکاملی حرکت کی خصوصیات کا تقاضا یہ ھے کہ یہ تمام تدابیر اس طرح انجام پذیر ھوں کہ حق و باطل کے حامیوں کے لئے حسن انتخاب یا سوء انتخاب فراھم ھو جائے ،مگر یہ کہ ظالموں اور مستکبروں کا تسلط اس حد تک بڑھ جائے کہ ھادیوں کی ھدایت کا راستہ پوری طرح بند ھوجائے اور سماج سے نور ھدایت خاموش ھو جائے، یھی وہ صورت ھے کہ جب خدا غیب اور غیر عادی راھوں سے حق کے طرفداروں کی مدد فرماتا ھے۔
نتیجہ: اگر ایسے موانع انبیاء ( ع)کے راستو ںمیں نہ ھوئے تو ان کی دعوتِ توحید تمام انسانوں کے کانوں تک پھنچ جاتی اور تمام انسان وحی اور نبوت کے ذریعہ نعمت ھدایت سے بھر مند ھوجاتے، لہذا بہت سے لوگوں کا ھدایت انبیاء ( ع)سے محروم ھونے کا گناہ ،ان لوگوں کی گردنوں پر ھے کہ جنھوں نے راہ ھدایت انبیاء میں رکاوٹیں ایجاد کی ھیں۔
اگر انبیاء (علیہم السلام)تکامل انسان کے شرائط کو کامل کرنے کے لئے مبعوث ھوئے ھیں تو پھر کیوں ان کے ھوتے ھوئے بشرخطا اور بدبختیوں کا شکار ھوا اور ھر زمانہ میں لوگوں کی ایک بڑی جماعت کفر و الحاد میں گرفتار رھی، یھاں تک کہ ادیان آسمانی کے پیروکاروں نے ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے شعلہ بھڑکائے جس کی وجہ سے خونی جنگیں دیکھنے میں آئیں؟ کیا حکمت الٰھی کا تقاضا یہ نہ تھا کہ وہ کچھ ایسے راستہ بھی مھیا کرتا، جن کے ذریعہ ایسی بدبختیوں کا سد باب ھوجاتا اور کم از کم ادیان آسمانی کے پیروکار ایک دوسرے کے مقابلہ میں نہ ٹھھرتے۔
اس سوال کا جواب تکامل انسان کے اختیارات کی خصوصیات میں غور و فکر کرنے کے ذریعہ معلوم ھوجاتا ھے، اس لئے کہ حکمت الٰھی کا تقاضا یہ ھے کہ انسان کے تکامل کے اسباب و شرائط کا جبری ھونے کے بدلے اختیاری ھونا ضروری ھے تا کہ وہ لوگ جو راہ حق کو پہچاننا چاہتے ھیں اور اسے اختیار کرنا چاہتے ھیں، وہ کمال اور سعادت ابدی کو حاصل کرنے میں مختارھیں،لیکن ایسے تکامل اور کمال کے لئے اسباب و شرائط کا مھیا ھوجانا اس معنی میں نھیں ھے کہ تمام انسانوں نے بہ نحو احسن اس سے استفادہ کیا ھو، اور صحیح راستہ کاانتخاب کیا ھو بلکہ قرآن کی تعبیر کے مطابق خدا نے انسانوں کو ایسے شرائط کے تحت اس لئے خلق کیا ھے تا کہ انھیں آزما سکے کہ ان میں کون نیکوکار ھے[1]، اس کے علاوہ قرآن میں بارھا اس بات کی تاکید ھوئی ھے کہ اگر خدا چاہتا تو تمام انسانوں کو راہ ھدایت کی طرف راھنمائی کردیتا اور ظلم و ستم کو دبا دیتا[2]۔ لیکن اس صورت میں انتخاب کا کوئی مطلب نھیں رہ جاتا، نیز انسانوں کے کردار قابل ارزش بھی نہ رہتے،اور اسطرح انسان کی خلقت سے غرض الٰھی (اختیار و انتخاب) میں نقض آجاتا۔
نتیجہ۔ انسانوں میں فساد و تباہ کاری اور کفر و عصیان کی طرف میلان خود ان کے ناجائز اختیارات کا نتیجہ ھے، اور خود انسانوں کی خلقت میں ایسے امور پر قدرت کا لحاظ رکھا گیا ھے لہذا ایسے اختیار کے اثرات کا حاصل ھونا بالتبع لازم ھے، اگر چہ خدا کا ارادہ یہ ھے کہ انسان اپنے کمال کو حاصل کرلے، لیکن چونکہ اس ارادہ کا تعلق مختار ھونے پر مشروط ھے لہٰذا اس صورت میں سوء ِاختیار کے نتیجہ میں انحطاط کا انکار نھیں کیا جاسکتا، اور حکمت الٰھی کا تقاضا تو یہ نھیں ھے کہ تمام انسان خواہ نخواہ ھدایت یافتہ ھوجائیں اگرچہ ان کے ارادہ کے خلاف ھی کیوں نہ ھو۔
کیوں انبیاء ا لٰھی صنعتی اور اقتصادی امتیازات سے سرفراز نہ تھے؟
حکمت الٰھی کے تقاضوں کے پیش نظر کہ تمام انسان بہ نحو احسن اپنے حقیقی کمال کو حاصل کرلیں، کیا بہتر یہ نہ تھا ،کہ خدا وحی کے ذریعہ اس جھان کے اسرار لوگوں کے لئے فاش کردیتا، تا کہ مختلف نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے ذریعہ انسان راہ تکامل میں اپنے سفر کو سرعت بخش دیتا! جیسا کہ اس دور میں طبیعی طاقتوں کے ظھور اور مختلف اسباب کے ایجادات سے بشری تمدن نے نمایاں ترقی حاصل کی ھے، جن کی وجہ سے حفظ سلامت، امراض سے مقابلہ ارتباطات میں سرعت ،جیسے مطلوب عوامل اور آثار وجود میں آگئے، اس وضاحت کی روشنی میں آشکار ھے کہ اگر انبیاء الٰھی جدید علوم و صنائع اور آسائش کے وسائل لوگوں کے لئے فراھم کرنے کے ذریعہ اپنی اجتماعی اور سیاسی قدرت کو افزائش دے سکتے تھے اور بڑی آسانی سے اپنے اھداف تک پھنچ سکتے تھے۔
اس سوال کا جواب یہ ھے کہ وحی و نبوت کے ھونے کی اصلی ضرورت ان امور میں ھے کہ جن میں بشر عادی وسائل کے ذریعہ کشف نہ کر سکے، اور اس سے جاھل ھوتے ھوئے کمال حقیقی کی طرف جانے والے راستہ کو معین نہ کر سکے، ایک دوسری تعبیر کے مطابق انبیا ء علیھم السلام کا اصلی وظیفہ یہ ھے کہ وہ انسانوں کو صحیح زندگی اور کمال حقیقی کے حصول میں مدد کریں، تا کہ وہ ھر حال میں اپنے وظیفہ کو پہچان سکیں، اور مطلو ب کو حاصل کرنے میں اپنی پوری طاقت صرف کریں، انسان ،خواہ دشت میں رھنے والا ھو، یا دریاؤں کی سیر کرنے والا ھو یا کوئی بھی ھو، وہ ھر صورت میں اپنی انسانی حیثیت کو پہچان لے تا کہ معلوم ھوجائے کہ خدا کی عبادت کے وظائف کیا ھیں؟ تمام مخلوقات اور سماج میں رھنے والوں کے ساتھ رھن سھن کے واجبات کیا ھیں تا کہ انھیں انجام دینے کے ذریعہ کمال حقیقی اور سعادت ابدی تک پھنچ جائے لیکن صلاحیتوں اور صنعتی و طبیعی امکانات کا اختلاف خواہ ایک زمانہ میں ھو یا مختلف زمانوں میں، ایک ایسا امر ھے کہ جو خاص اسباب و شرائط کے تحت وجود میں آتا ھے اس کے علاوہ تکامل(کمال) حقیقی میں اس کا کوئی نقش بھی نھیں ھے، جیسا کہ آج کی علمی اور صنعتی ترقیاں دنیوی لذتوں کی افزائش کا باعث تو بنیں، لیکن لوگوں کی روحی اور معنوی تکامل میں ایک معمولی کردار بھی ادانہ کر سکیں، بلکہ ھم تو یہ دیکھ رھے ھیں کہ ان سب کا اثر بالکل بر عکس رھاھے
نتیجہ: حکمت الٰھی کا تقاضا یہ ھے کہ انسان مادی نعمتوں سے استفادہ کرتے ھوئے اپنی دنیوی زندگی کو جاری زکھ سکے ، اور عقل و وحی کی راھنمائی میں کمال حقیقی اور سعادت ابدی کی جانب قدم بڑھائے، لیکن روحی اور بدنی توانائیوں میں اختلاف، نیز طبیعی اور اجتماعی شرائط میں اختلاف، اسی طرح علوم و صنائع سے فائدہ حاصل کرنے میں اختلاف ایک خاص تکوینی اسباب و شرائط کے تابع ھے، جو نظام علِّی و معلولی کے تحت وجود میں آتے ھیں یہ اختلافات انسان کی ابدی تقدیر میں کسی بھی خاص کردار سے متصف نھیں ھیں، اس لئے کہ بسا اوقات ایسا ھوا ھے کہ ایک فرد یا ایک جماعت اپنی سادہ زندگی اور حداقل مادی و دنیوی نعمتوں سے سرفراز ھوتے ھوئے کمال و سعادت کے عظیم درجات پر فائز ھوئے ھیں، اور اکثر دیکھنے میں آیا ھےے کہ ایک فرد یا جماعت ترقی یافتہ علوم صنائع اور بہترین وسائل زندگی سے سرفراز ھوتے ھوئے ،غرور و تکبر اور ظلم و ستم کے نتیجہ میں شقاوت ابدی میں گرفتار ھوگئے ھیں۔
البتہ انبیاء الٰھی نے اصلی وظیفہ (حقیقی اور ابدی سعادت و کمال کی طرف ھدایت) کے علاوہ لوگوں کو صحیح زندگی گذارنے کے لئے مدد کی ھے اور جھاں حکمت الٰھی نے تقاضا کیا وھاں ناشناختہ حقائق اور اسرار طبیعت سے پردہ بھی اٹھادیا، اور اس طرح تمدن ِبشر کو ترقی دینے میں مدد کی، جیسا کہ ایسی مثالیں جناب داؤد اور ، جناب سلیمان اور جناب ذوالقرنین علیھم السلام [3] کے حالات میں دیکھی جا سکتی ھیں، انھوں نے سماج کو کامیاب بنانے اور امور میں حسن تدبیر کے لئے نمایاں کام انجام دئے ھیں، جب جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے سر زمین مصر پر انجام دیا[4] ایسے خدمات جو کچھ بھی انبیاء نے پیش کئے وہ ان کے اصلی وظیفہ سے جدا تھے۔
لیکن یہ سوال کہ کیوں انبیاء(علیہم السلام)نے اپنے اھداف کو کامیاب بنانے کے لئے صنعت و اقتصاد وغیرہ کا سھارا نھیں لیا ؟تو اس سوال کے جواب میں یہ کھنا بہتر ھے کہ انبیاء علیھم السلام کا ھدف جیسا کہ پھلے بیان ھوچکا ھے آزاد انتخاب کے لئے وسائل کا فراھم کرنا تھا ،اور اگر وہ غیر عادی طاقتوں کے بل بوتے پر قیام کرتے، تو آزادانہ تکامل اور رشد معنوی انسانوں کو حاصل نہ ھوتا، بلکہ عوام ان کی قدرتوں کے ڈر سے اطاعت کرتی ،نہ الٰھی فرمان اور آزاد انتخاب کے تحت۔
اسی سلسلہ میں امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں
اگر خداوند متعال اپنے انبیاء(علیہم السلام)کو مبعوث کرتے وقت سیم وزر کے گنجینہ، جواھرات اور قیمتی معادن اور باغات عطا کردیتا، ھواؤں کے پرندے اور زمین کے چرند ان کے لئے مطیع بنادیتا تو اس صورت میں جزا و سزا اور امتحان کا موقع باقی نہ رہتا۔
اور اگر اپنے انبیاء ( ع)کو بے مثال قدرت ، شکست ناپذیر عزت اور عظیم سلطنت عطا کرتا کہ جس کی وجہ سے لوگ ڈر کر یا طمع میں تسلیم ھوتے ھوئے، ظلم و ستم اور تکبر سے دست بردار ھوجاتے تو اس صورت میں اقدار مساوی ھوجاتے ،لیکن خدا کا یہ ارادہ تھا کہ پیغمبروں کی اطاعت اُن کی کتابوں کی تصدیق اور اُن کے حضور فروتنی کسی بھی عیب سے پاک ھوتے ھوئے حق کے لئے ھو،لہذا جس قدر بلا اور امتحان عظیم ھوں گے ثواب الٰھی اتنے ھی کثیر ھوںگے“۔[5]
البتہ جب لوگ اپنے ارادہ اور رغبت سے دین حق کو قبول کرلیں اور ایک الٰھی سماج کو تشکیل دےدیں ،تو پھر اھداف الٰھی کو کامیاب بنانے کے لئے مختلف قدرتوں سے استفادہ کرنا درست ھوگا، جیسا کہ ایسے نمو نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی زندگی میں ملتے ھیں۔[6]
۱۔ کیا تمام انبیاء ( ع)کسی خاص سرزمین پر مبعوث ھوئے؟ دلیل کیا ھے؟
۲۔ کیوںانبیاء (علیہم السلام)کی دعوتیں تمام انسانوں تک نہ پھنچ سکیں؟
۳۔کیوں خدا نے ایسے اسباب فراھم نھیں کئے کہ جس کی وجہ سے فساد و خون ر یزی کی روک تھام ھو ؟
۴۔ کیوں انبیاء ( ع)نے اسرار طبیعت کو فاش نھیں کیا تا کہ اُن کے ما ننے والے مادی نعمتوں سے زیادہ مستفید ھوتے؟
۵۔ کیوں انبیاء ( ع)نے اپنے اھداف کو کامیاب بنانے کے لئے صنعتی اور اقتصادی قدرتوں سے فائدہ نھیں اٹھایا؟
یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ھے
وحی کے محفوظ رھنے کی ضرورت
عصمت کی دوسری اقسام
انبیاء (علیہم السلام)کی عصمت
حس و عقل کی کمیوں کو پورا کرنے اور ضروری معا رف کے حصول میں مدد کرنے والے عامل یعنی اب جب کہ ھم نے وحی کی ضرورت کو سمجھ لیا ھے اس کے بعد یہ مسئلہ سامنے آتا ھے! یہ مطلب ھر ایک کو معلوم ھے کہ عادی انسان بالواسطہ وحی سے استفادہ نھیں کرسکتے اور وحی کو دریافت کرنے کی لیاقت اور استعداد سے سرفراز نھیں ھوسکتے ، بلکہ چندخاص اجزا (انبیاء الٰھی) کے ذریعہ وحی کے پیغامات کو اُن تک پہچا نا ھوگا، لیکن ان پیغامات کے صحیح ھونے کی ضمانت کیا ھے، اور کھاں سے یہ معلوم ھوکہ نبی خدانے وحی کو دریافت کر کے صحیح و سالم لوگوں کے حوالہ کیا ھے؟ اور اگرخدا اور رسول( ص)کے درمیان رابطہ ھے بھی تو کیا اس نے اپنی رسالت انجام دے دی ھے؟ اس لئے کہ وحی اُسی وقت مفید واقع ھو سکتی ھے
جب مرحلہ صدور سے مرحلہ وصول تک عمدی یا سھوی تمام خطاؤں اور اضافات سے محفوظ رھی ھو، وگرنہ واسطوں میں سھو و نسیان کے احتمال یا ان میں عمدی تضرفا ت کے احتمال کے ھوتے ھوئے لوگوں تک پھنچنے والے پیغام میں نادرست اور خطا ھونے کا باب کھل جائے گا، اور اس طرح اعتمادکے اٹھ جانے کا سبب ھوگا لہذا کیسے [7] معلوم ھو سکتا ھے کہ وحی صحیح و سالم لوگوں تک پھنچی ھے؟
یہ بات روشن ھے کہ جب وحی کی حقیقت لوگوں کے لئے مجھول ھو اور اسے دریافت کی استعداد سے وہ سرفراز نہ ھوں تو اس صورت میں واسطوں میں کافی نظارت بھی نھیں رکھ سکتے، اور صرف اسی وقت وحی میں ھونے والے تصرفات سے آزاھی ممکن ھے کہ جب عقل و منطق کے خلاف کوئی پیغام موجود ھو، جیسے کہ کوئی یہ دعوی کرے کہ خدا نے اُس پر وحی بھیجی ھے: کہ اجتماع نقیضین جائز یا واجب ھے یا العیاذ باللہ) ذات الٰھی میں تعدد یا زوال یا ترکیب کا ھونا امکان پذیر ھے، اِن مطالب کے جھوٹے ھونے کو عقل کے ذریعہ ثابت کیا جا سکتا ھے، لیکن وحی کی اصلی ضرورت اُن مسائل میں ھے کہ جس میں عقل نفی و اثبات کے قابل نھیں ھے اور اس میں اتنی استعداد نھیں ھے کہ ان پیغامات کے صحیح یا باطل ھونے کو ثابت کر سکے، لہٰذا ایسے موارد میں کس طرح وحی کے پیغامات میں واسطوں کے عمدی یا سھوی تصرفا ت سے محفوظ رھنے کو ثابت کیا جا سکتا ھے؟
اس سوال کا جواب یہ ھے کہ جس طرح سے عقل، حکمت الٰھی کے پیش نظر، بائیسویں درس میں بیان کئے گئے برھان کے مطابق اس امر کو بخوبی درک کرتی ھے کہ وظائف اور حقیقتوں کا پتہ لگانے کے لئے کسی دوسرے راستہ کا ھونا ضروری ھے، اگر چہ اس کی اصلی حقیقت سے وہ بے خبر ھے اور اس طرح یہ بھی درک کرتی ھے کہ حکمت الٰھی کا تقاضا یہ ھے کہ اس کے پیغامات صحیح و سالم حالت میں لوگوں تک پھنچیں، وگرنہ غیر صحیح و سالم ھونے کی صورت میں نقض غرض لازم آئے گی۔
ایک دوسری تعبیر کے مطابق جب یہ معلوم ھوگیا کہ الٰھی پیغامات ایک یا چند واسطوں سے لوگوں تک پھنچتے ھیں تا کہ انسان کے اختیاری تکامل کا راستہ ھموار رھے، اور بشر کی خلقت سے خدا کا ھدف پورا ھوجائے لہذا صفات کمالیہٴ الٰھی سے یہ امر بخوبی روشن ھوجاتا ھے کہ اس کی طرف سے آنے والے تمام پیغامات عمد ی یا سھوی تصرفات سے محفوظ ھیں، اس لئے کہ اگر خدا یہ ارادہ کرلے کہ اس کے پیغامات بندوں تک سالم نہ پھنچیں ،تو یہ حکمت کے خلاف ھوگا، جبکہ خدا کا حکیمانہ ارادہ اِس بات کی پوری طرح نفی کرتا ھے، اوراگر خدا اپنے بے کراں علم کے ھوتے ھوئے یہ سمجھ نہ سکے، کہ وہ کس طرح اور کن واسطوں سے اپنے پیغامات کو سالم لوگوں تک پھنچائے تو یہ اس کے لامتناھی علم سے سازگار نھیں ھے، اور اگر شائستہ واسطہ پیدا نہ کرسکے اور انھیں شیاطین کے ہجوم سے محفوظ نہ رکھ سکے تو یہ امر، اس کی لا محدود قدرت سے منافات رکھتا ھے،لہذا چونکہ خدا ھر شی کے بارے میں جانتا ھے لہٰذا خدا کے لئے یہ تصور نھیں کیا جاسکتا کہ جسے واسطہ بنارھا ھے، اس کی خطا کاریوںسے بے خبر ھو[8] اور اسی طرح یہ احتمال بھی باطل ھے کہ اس نے اپنی لامحدود قدرت کے ھوتے ھوئے بھی اپنے پیغامات کو شیاطین اور عمدی یا سھوی تصرفات سے محفوظ نہ رکھ سکا [9] جس طرح سے کہ حکمت الٰھی کے پیش نظر یہ احتمال بھی باطل ھے، کہ اس نے اپنے پیغامات کو لوگوں تک صحیح و سالم نہ پھنچانے کا ارادہ کرلیا ھے[10]، لہٰذا خدا کا علم، اس کی قدرت و حکمت کا تقاضا یہ ھے کہ وہ اپنے پیغامات کو سالم اور تصرفات سے محفوظ لوگوں تک پھنچائے اور اس طرح وحی کا محفوظ رھنا عقلی برھان کے ذریعہ ثابت ھوجاتا ھے۔[11]
فرشتوں اور ا نبیاء ( ع)کی وہ عصمت جودلیل کی بناء پر ثابت ھوتی ھے وحی کے پیغام پر منحصر ھے لیکن عصمت کی دوسری قسمیں بھی ھیں جو اس دلیل کے ذریعہ قابل اثبات نھیں ھیں ، جنھیں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ھے ، پھلی قسم فرشتوں سے متعلق ھے ، دوسری قسم انبیاء (علیہم السلام)کی عصمت ھے اور تیسری قسم بقیہ انسانوں ، جیسے ائمہ ( ع)، حضرت مریم ، اور حضرت زھراء + کی عصمت ھے
فرشتوں کی عصمت کے سلسلہ میں ابلاغ وحی کے علاوہ دو مسئلہ پیش کئے جا سکتے ھیں ۔
پھلا مسئلہ ان فرشتوں کی عصمت کا ھے، جو دریافت وحی اور اُسے رسول تک پھنچانے کے ذمہ دار ھیں دوسرا مسئلہ ان فرشتوں کی عصمت کا ھے، جنھیں وحی سے کوئی سروکار نھیں ھے بلکہ وہ کتابت اعمال، رزق پھنچانے اور قبض اوراح وغیرہ کے ذمہ دار ھیں۔
اس طرح انبیاء (علیہم السلام)کی عصمت ان چیزوں کے سلسلہ میں جو ان کی رسالت سے مربوط نھیں ھے اس میں بھی دو مسئلہ ھیں، پھلا مسئلہ یہ ھے کہ انبیاء ( ع)کا عمدی گناھوں اور سرپیچیوں سے محفوظ و مصوٴن رھنا دوسرا مسئلہ انبیاء ( ع)کا سھو و نسیان سے معصوم ھونا ھے اور انھیں دو مسئلہ کو غیر انبیاء ( ع)کی عصمتوں میں پیش کئے جاسکتے ھیں۔
لیکن فرشتوں کی عصمت وحی کے ابلاغ کے علاوہ دوسرے مسائل میں دلیل عقلی کے ذریعہ اسی وقت قابل حل ھے کہ جب ملائکہ کی ماھیت او ران کی حقیقت معلوم ھو جائے ، لیکن ملائکہ کی ماھیت کا سمجھنا نہ ھی آسان ھے اور نہ ھی اِس کتاب کے متناسب، اِسی وجہ سے فرشتوں کی عصمت کی دلیل میں قرآن سے دو آیتوں کے ذکر پر اکتفا کرتے ھیں، خدا وند عالم قرآن کے سورہٴ انبیاء کی ستا ئسیویں آیت میں ارشاد فرماتا ھے : بَل عِبَادٌ مُّکرَمُونَ لَا یَسبِقُونَہُ بِالقَولِ وَہُم بِاَمرِہِ یَعمَلُون
بلکہ فرشتے خدا کے معزز بندے ھیں وہ گفتگو میں اس سے سبقت نھیں کرسکتے اور وہ اس کے حکم پر چلتے ھیں۔
اور اسی طرح سورہٴ تحریم کی چھٹی آیت میں ارشاد فرماتا ھے :
لَا یَعصُونَ اللهَ مَا اَمَرَہُم وَ یَفعَلُونَ مَا یُوٴمَرُونَ
خدا جس بات کا حکم دیتا ھے اس کی نافرمانی نھیں کرتے اورجو حکم انھیں ملتا ھے اسے بجالاتے ھیں۔
یہ دو آیتیں پوری صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ ملائکہ منتخب مخلوق ھیں، جو فرمان الٰھی کے مطابق اعمال انجام دیتے ھیں اور کبھی بھی اس کے فرمان سے روگردانی نھیں کرتے، اگر چہ ان آیتوں کی عمومیت تمام فرشتوں کی عصمت کو شامل ھے۔
لیکن انبیاء (علیہم السلام)کی عصمت کے علاوہ بقیہ انسانوں کی عصمت کے سلسلہ میں بحث کرنا مباحث امامت سے سازگار ھے اسی وجہ سے اس حصہ میں انبیاء ( ع)کی عصمت کے تحت بحث کریں گے اگر چہ اُن میں سے بعض مسائل کو تنھا نقلی اور تعبدی مسائل کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ھے اور اصولی اعتبار سے اسے کتاب و سنت کی حجیت ثابت ھونے کے بعد ذکر ھونا چاہئے، لیکن موضوعات کی مناسبت سے اِسی مقام پر اس کے سلسلہ میں بحث کریں گے اور کتاب و سنت کی حجیت کی بحث کو اصل موضوع کے عنوان سے قبول کرتے ھوئے اُسے اِسی مقام پر ذکر کر تے ھیں ۔
گروہ مسلمین میں اس مسئلہ کے تحت شدید اختلافات ھے کہ انبیاء (علیہم السلام)گناھوں کے مقابلہ میں کس حد تک معصوم ھیں، انثا عشری شیعوں کا عقیدہ ھے کہ انبیاء (علیہم السلام)اپنے آغاز ولادت سے آخری لمحہ حیات تک تمام گناھوں سے پاک ھوتے ھیں، بلکہ بھولے سے بھی کوئی گناہ نھیں کرتے لیکن اھل سنت کی بعض جماعتوں نے عصمت انبیاء (علیہم السلام)کو گناھان کبیرہ کے مقابلہ میں مانا ھے، بعض نے دوران بلوغ سے، اور بعض نے کھا کہ بعثت کے بعد سے معصوم ھوتے ھیں، بلکہ اھل سنت کے بعض فرقوں (حشویہ اور اھل حدیث) کے اعتقاد کے مطابق) انبیاء (علیہم السلام)ھر قسم کی عصمت سے عاری ھیں، ان سے گناھان کبیرہ صادر ھوسکتا ھے بلکہ وہ نبی ھوتے ھو ئے بھی عمداً گناہ کرسکتے ھیں۔
انبیاء علیھم السلام کی عصمت کو ثابت کرنے سے پھلے ھمیں چند نکات کی طرف اشارہ کرنا لازم ھے پھلا نکتہ یہ ھے کہ انبیاء ( ع)اور غیر ا نبیاء میں سے بقیہ انسانوں کے معصوم ھونے کا مطلب صرف گناھوں سے معصوم ھونا نھیں ھے بلکہ اس بات کا امکان ھے کہ ایک معمولی انسان خصوصاً کم عمر ھو نے کی وجہ سے کوئی گناہ انجام نہ دے۔
بلکہ مطلب یہ ھے کہ نھایت طاقتور ملکہ نفسانی کے مالک ھیں، کہ جو سخت سے سخت شرائط و حالات میں اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ھیں اور یہ ملکہ گناھوں کی آلودگیوں سے آگاھی، شکست ناپذیر ارادہ، اور نفسانی خواھشوں کو مھار کرنے کے نتیجہ میں حاصل ھوتا ھے، اور چونکہ یہ ملکہ عنایت الٰھی کے ذریعہ حاصل ھوتاھے لہٰذا اس کی فاعلیت کو خدا کی جانب نسبت دی جاتی ھے، وگرنہ ایسا ھر گز نھیں ھے کہ خدا معصوم انسان (انبیاء و آئمہ) کو زبردستی گناھوں سے محفوظ رکھتا ھے
یا اس سے اختیار کو چھین لیتا ھے ان لوگوں کی عصمت جو منصب الٰھی ،جیسے نبوت و امامت سے متصف ھیں مراد یہ ھے ، کہ خدا نے گناھوں سے محفوظ رھنے کی ضمانت انھیں د ے دی ھے۔
دوسرا نکتہ یہ ھے کہ کسی بھی شخص کی عصمت کا لازمہ یہ ھے کہ وہ تمام حرام اعمال کو ترک کردے ،جیسے کہ وہ گناہ جو تمام شریعتوں میں حرام ھیں، یا وہ امور جو خود اسی کے زمانہ کی شریعت میں حرام ھوں، لہٰذا انبیاء (علیہم السلام)کی عصمت ان اعمال کے ذریعہ خدشہ دارنھیں ھوتی جو اس کی شریعت یا خود اس کے لئے جائز ھوں یا وھی عمل گذشتہ شریعت میں حرام ھو یا بعدمیں حرام کردیا جائے۔
تیسرا نکتہ یہ ھے کہ گناہ سے مراد یہ ھے، کہ جس سے ایک معصوم محفوظ رہتا ھے ایک ایسا عمل ھے کہ جسے فقہ میں حرام کھا جاتا ھے اور اسی طرح اس عمل کو ترک کرنا کہ جسے فقہ میں واجب کھا جاتا ھے۔
لیکن گناہ کے علاوہ دوسرے کلمات جیسے (عصیان) (ذنب) وغیرہ وسیع معنی میں استعمال ھوتے ھیں کہ جس میں ترک اولیٰ بھی شامل ھے اور ایسے گناھوں کا انجام دینا عصمت کے خلاف نھیں ھے۔
۱۔کس طرح وحی کو کسی بھی قسم کے خلل سے محفوظ رھنے کو ثابت کیا جاسکتا ھے؟
۲۔ دریافتِ وحی اور ابلاغ میں محفوظ رھنے کے علاوہ کن مقامات پر عصمت ضروری ھے؟
۳۔ فرشتوں کی عصمت کیسے ثابت کی جاسکتی ھے؟
۴۔ انبیا ء علیھم السلام کی عصمت کے سلسلہ میں کتنے اقوال ھیں؟ اور اھل تشیع کا نظریہ کیا ھے؟
۵۔ عصمت کی تعریف کریں اور اس کے لوازمات بیان کریں؟
مقدمہ
یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ھے
عصمت انبیاء (علیہم السلام)پر عقلی دلائل
عصمت انبیاء (علیہم السلام)پر نقلی دلائل
عصمت انبیاء (علیہم السلام)کاراز
شیعوں کے معروف اور قطعی عقائد میں سے انبیاء (علیہم السلام)کا عمدی اور سھوی گناھوں سے معصوم ھونے کا عقیدہ ھے جس کی ائمہ علیھم السلام نے اپنے پیروکاروں کو تعلیم دی ھے اور اپنے مختلف بیانات کے ذریعہ دشمنوں کے اقوال کو باطل قرار دیاھے ائمہ علیھم السلام کا عصمت انبیاء (علیہم السلام)کے سلسلہ میں اپنے دشمنوں سے احتجاجات میں سے سب سے زیادہ مشھور امام رضا علیہ السلام کا احتجاج ھے جو کتب حدیث اور تاریخ میں درج ھے۔
لیکن مباح امور میں انبیاء علیھم السلام کا سھو و نسیان باعث اختلاف رھا ھے اور ائمہ علیھم السلام کی جانب سے وارد ھونے والی روایات، اختلاف سے خالی نھیں ھیں، جس کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو اِس بحث کی وسعت سے خارج ھے، لیکن اتنا مسلم ھے کہ اِسے ضروری اعتقادات میں سے شمار نھیں کیا جا سکتا ، اور وہ دلائل جو انبیاء علیھم السلام کی عصمت کے تحت بیان کئے گئے ھیں دو حصوں میں تقسیم ھوتے ھیں۔
۱۔ عقلی دلائل۔
۲۔ نقلی دلائل۔
اگر چہ اس بحث میں زیادہ تر اعتماد نقلی دلائل پر کیاگیا ھے، ھم یھاں دو دلیلوں کے بیان کرنے پر اکتفا کرتے ھیں اور اس کے بعد کچھ قرآنی دلائل کو ذکر کریں گے۔
عصمت انبیاء ( ع)پر عقلی دلائل۔
انبیاء علیھم السلام کا گناھوں کے ارتکاب سے معصوم رھنے پر پھلی عقلی دلیل یہ ھے کہ ان کی بعثت کا پھلا ھدف انسانوں کو اُن حقائق اور وظائف کی طرف ھدایت کرنا ھے جسے خدا نے انسانوں کے لئے معین فرمایا ھے، در حقیقت یہ لوگ انسانوں کے درمیان خدا کے نمائندے ھیں ،کہ جنھیں لوگوں کو راہ راست کی طرف ھدایت کرنا ھے، لہذا اگر ایسے نمائندے دستورات خدا کے پابند نہ ھوں اور اپنی رسالت کے بر خلاف اعما ل کے مرتکب ھوں تو لوگ اُن کے اعمال کو اُن کی گفتار سے جدا کھیں گے اور اِس طرح لوگوں کا اعتماد اُن کی گفتار پر ختم ھوجائے گا اور یوں اُن کی بعثت کا ھدف مکمل نہ ھوسکے گا، لہذا حکمت الٰھی کا تقاضا یہ ھے کہ انبیاء (علیہم السلام)پاک اور تمام گناھوں سے دور ھوں بلکہ سھو و نسیان کی بنیاد پر کوئی نا شائستہ عمل بھی انجام نہ دیں، تا کہ لوگوں کو یہ گمان ھونے لگے کہ انھوں نے سھو و نسیان کو گناھوں کے ارتکا ب کے لئے بھانہ بنالیا ھے۔
عصمت انبیاء علیھم السلام پر دوسری عقلی دلیل یہ ھے کہ وہ وحی کو لوگوں تک پھنچانے اور انھیں راہ مستقیم کی طرف ھدایت کرنے کے علاوہ ان پر لوگوں کی تربیت اور تزکیہ کی بھب ذمہ داری ھے تا کہ وہ مستعدا افراد کو کمال کے آخری منازل تک لے جائیں یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق تعلیم اور ھدایت کے وظیفہ کے علاوہ وظیفہ تربیت کے بھی ذمہ دار ھیں،اور وہ بھی ایسی تربیت جو سماج کے برجستہ اور عاقل حضرات کو بھی شامل ھوتی ھے۔
لہٰذا ایسے مقامات انھیں لوگوں کے لئے شائستہ ھیں کہ جو انسانی کمالات کے اعلیٰ مقامات پر فائز ھوں اور ملکہ نفسانی (ملکہ عصمت) کے عظیم درجہ پر فائز ھو۔
اس کے علاوہ مربی کا کردار افراد کی تربیت کرنے میں ،اُس کی گفتار سے کھیں زیادہ موثر ھوتا ھے اور وہ افرادجو کردار کے اعتبار سے عیوب اور نقائص کے حامل ھو تے ھیں ان کی گفتار بھی مطلوب تاثیر سے برخوردار نھیں ھو سکتی،لہذا انبیاء علیھم السلام کی بعثت اس عنوان کے تحت کہ وہ سماج کے مربی ھیں اسی صورت میں قابل تحقق ھے کہ جب ان کا کردار اور ان کی گفتار ھر قسم کی خطا سے محفوظ ھو۔
۱۔ قرآن کریم بعض انسانوں کو مخلص[12] (جنھیں خدا کے لئے خالص کردیا گیا ھو) کے نام سے یاد کرتا ھے یھاں تک کہ ابلیس بھی انھیں گمراہ کرنے کی طمع نھیں رکھتا جیسا کہ قرآن نے اُس کے قول کو نقل کیا ھے کہ وہ تمام انسانوں کو گمراہ کرے گا لیکن مخلصین اُس کی دسترس سے خارج ھیں۔ سورہٴ ص کی آیت نمبر (۸۲/۸۳) میں ھے :
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُوِیَنَّہُم اَجمَعِینَ * اِلَّا عِبَادَکَ مِنہُمُ المُخلَصِینَ
وہ بولا تیری ھی عزت و جلال کی قسم ان میں سے تیرے خالص بندوں کے سوا سب کو گمراہ کروں گا۔
اور بے شک ابلیس کا انھیں گمراہ نہ کرنے کی طمع اُس عصمت کی وجہ سے ھے جو انھیں گناھوں سے مقابلہ میں حاصل ھے، وگرنہ وہ تو اُن کا بھی دشمن ھے اگر اُسے موقع مل جائے تو اُنھیں بھی گمراہ کئے بغیر نہ چھوڑے۔
لہٰذا عنوان (مخلَص) عنوان (معصوم) کے مساوی ھے، اگر چہ ھمارے پا س اس صفت کا انبیاء (علیہم السلام)سے مخصوص ھونے کے لئے کوئی دلیل نھیں ھے لیکن اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ یہ صفت انبیاء (علیہم السلام)کو بھی حاصل ھے جیسا کہ خود قرآن نے بعض انبیاء (علیہم السلام)کو مخلصین میں سے شمار کیا ھے سورہٴ ص کی آیت (۴۵/۴۶) میں فرماتا ھے :
اِنَّا اَخلَصنَا ہُم بِخَالِصَةٍ ذِکرَیٰ الدَّار * وَاذکُر عِبٰدِنَا اِبرَاہِیمَ وَ اِسحَاقَ وَ یَعقُوبَ اُولِی الاَیدِي وَالاَبصَارِ
اے رسول! ھمارے بندو ںمیں ابراھیم اسحاق اور یعقوب ( ع)کو یاد کرو جو قوت و بصیرت والے تھے ھم نے ان کو ایک خاص صفت کی یاد سے ممتاز کیا تھا۔
اور سورہٴ مریم کی (۵۱) آیت میں فرماتا ھے :
وَاذکُر فِي الکِتَابِ مُوسیٰ اِنَّہُ کَانَ مُخلَصاً وَ کَانَ رَسُولاً نَّبِیاً
اے رسول( ص)! قرآن میں موسیٰ (علیہ السلام)کا تذکرہ کرو اس میں شک نھیں کہ وہ میرا برگزیدہ اور بھیجا ھوا صاحب شریعت نبی تھا۔
اس کے علاوہ قرآن نے یوسف علیہ السلام کا سخت ترین لحظات میں محفوظ رھنے کو اُن کے
مخلص ھونے سے نسبت دے رھا ھے جیسا کہ سورہٴ یوسف کی آیت (۲۴) میں فرماتا ھے:
کَذَالِکَ لِنَصرِفَ عَنہُ السُّوءَ وَالفَحشَاءَ اِنَّہُ مِن عِبَادِناَ المُخلَصِینَ
ھم نے اُس کو یوں بچایا تا کہ ھم اس سے برُائی اور بدکاری کو دور رکھیں بے شک وہ ھمارے مخلص بندوں میں سے تھا۔
۲۔ قرآن انبیاء (علیہم السلام)کی اطاعت کو مطلق قرار دے رھا ھے جیسا کہ سورہٴ نساء کی آیت (۶۴) میں فرماتا ھے: وَمَا اَرسَلنَا مِن رَّسُولٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذنِ اللَّہِ
اور ھم نے کوئی رسول نھیں بھیجا مگر اس واسطے کہ خدا کے حکم سے لوگ اس کی اطاعت کریں۔
اور ان لو گوں کی مطلق اطاعت اُسی صورت میں صحیح ھے کہ جب ان کی اطاعت اطاعت خدا ھو، اور ان کی پیروی کرنا اطاعت خدا کے خلاف نہ ھو وگرنہ ایک طرف خدا کی اطاعت کا حکم اور دوسری طرف اُن لوگوں کی اطاعت کا حکم جو خطاؤں سے محفوظ نھیں ھیں غرض کے خلاف ھوگا۔
۳۔ قرآن نے الٰھی منصبوں کو انھیں لوگوں سے مخصوص جانا ھے ،کہ جن کے ھاتھ ظلم سے آلودہ نہ ھوں، جیسا کہ قرآن حضرت ابراھیم علیہ السلام کے جواب میں فرماتا ھے، کہ جب انھوں نے منصب امامت کی اپنی اولاد کے لئے درخواست کی لَا یَنَالُ عَھدِي الظَّالِمِینَ[13]
فرمایا ھاں! مگر میرے اس عھد پر ظالموں میں سے کوئی شخص فائز نھیں ھو سکتا ۔
اور ھمیں بخوبی معلوم ھے کہ ھر گناہ نفس پر ایک ظلم ھے اور قرآن کی زبان میں ھر گنھگار ظالم ھے، پس انبیاء الٰھی جو منصب الٰھی کے ذمہ دار ھوتے ھیں ،ھر قسم کے گناہ اور ظلم سے پاک ھوتے ھیں۔
عصمت انبیاء (علیہم السلام)کا راز ۔
اس درس کے اختتام پر بہتر ھے کہ ھم انبیاء (علیہم السلام)کے معصوم ھونے کے اسرار کی طرف ایک مختصر اشارہ کردیں،لہذا انبیاء علیھم السلام کا وحی کو حاصل کرنے میں معصوم ھونے کا راز یہ ھے کہ اصولاً وحی کو درک کرنا خطا بردار ادراکات سے ممکن نھیں ھے اور جو بھی اسے حاصل کر لینے کی صلاحیت سے سرفراز ھو، وہ ایک ایسے علم کی حقیقت کا مالک ھے جسے وہ اپنے سامنے حاضر پاتا ھے، او روحی سے اس کا رابطہ ھوتا ھے ،خواہ وہ وحی لانے والا فرشتہ ھویا کوئی اور ھو بخوبی اُسے مشاھدہ کرتا ھے [14] اور اس بات کا کوئی امکان نھیں ھے کہ و حی حا صل کرنے والا شک میں مبتلا ھوجائے کہ اس پر وحی ھوئی ھے یا نھیں؟ یا کس نے اس پر نازل کی ھے؟ یا وحی کے مطالب کیا ھیں؟ اور اگر بعض من گھڑت تو جو کچھ انھوں نے دیکھا ان کے دل نے جھوٹ نہ جانا۔
داستانوں میں آیا ھے کہ مثلاً کسی نبی نے اپنی نبوت میں شک کیا ،یا وحی کے مطلب کو بھلادیا ،یا وحی نازل کرنے والے کو پہچان نہ سکا، یہ سب کچھ صاف بہتان ھے اور ایسے بہتان بالکل اسی طرح ھیں کہ کوئی اپنے وجود یا کسی حضوری اور وجدانی امر کے تحت شک کرے!!
لیکن انجام وظائف (لوگوں تک پیغام الٰھی کے پہچانے) میں انبیا ء علیھم السلام کی عصمت کے راز کو بیان کرنے کے لئے ایک مقدمہ کی ضرورت ھے اور وہ یہ ھے کہ انسان کے اختیاری افعال اس صورت میں انجام پاتے ھیں، کہ جب انسانوں کے باطن میں اُس کے انجام دینے میں رجحان ھو ،جو مختلف اسباب و عوامل کے نتیجہ میں پیدا ھوتا ھے اور ایک شخص علم اور مختلف ادراکات کے ذریعہ مطلب تک پھنچنے والے راستہ کو معین کرتا ھے۔
اور اِسی کے مطابق امور کو انجام دیتا ھے لیکن جب اس میں متضاد رجحان ھوں تو اس صورت میں وہ بہترین کو انتخاب کرنے کی کوشش میں رہتا ھے، لیکن کبھی کبھی علوم کی کمزوری بہترین کو معین کرنے میں خطا سے دوچار ھونے کا سبب بن جاتی ھے یا بہترین سے غفلت یا پست ترین شی سے انس اشتباہ کا سبب بن جاتا ھے صحیح فکر اور صحیح انتخاب کا موقع نھیں مل پاتا۔
لہذا انسان جس قدر حقائق سے آشنا ھو، اور حقائق کے تحت زیادہ سے زیادہ توجہ سے سرفراز ھو، نیز ا س کے علاوہ باطنی ھیجانات اور ھنگاموں کو مھار کرنے میں عظیم قدرت سے سرفراز ھو تو وہ اتنا ھی حسن انتخاب میں کامیاب ھوگا ،اور خطاؤں سے اُسی انداز ے کے مطابق محفوظ رھے گا۔
یھی وجہ ھے کہ وہ لوگ جو مستعد، و راستہ ، عقل و بینش سے سرفراز ھونے کے علاوہ صحیح تربیت میں پلے، بڑھے ھیں وہ فضیلت و کمال کے درجات حاصل کرلیتے ھیں، یھاں تک کہ اس راہ میں مرتبہ عصمت تک بھی پھنچ جاتے ھیں، اور ان کے ذھنو ں میں گناہ کا خیال تک نھیں آتا، جیسا کہ کوئی بھی عاقل شخص اپنے ذھن میں زھر کو پینے یا غلاظتوں کے کھانے کی فکر کو نھیں لاتا، اسی طرح یہ لوگ بھی گناھوں کے ارتکاب کی فکر اپنے ذھن میں نھیں لاتے۔
اب اگر ھم یہ فرض کرلیں کہ ایک شخص کی استعداد حقائق کو سمجھنے میں بے نھایت اور روح کی طھارت و پاکیزگی کے اعتبار سے عظیم مقامات پر فائز ھے اور قرآن کی تعبیر کے مطابق وہ روغن زیتون کی طرح زلال نیز خالص اور شعلہ ور ھونے کے نزدیک ھو بغیر اس کے کہ وہ کسی شعلہ سے ارتباط برقرار کرے <یکادزیتھا یضئی و لو لم تمسہ نار>اور اُسی قوی ا ستعداد اور روح کی پاکیزگی کی وجہ سے خدا کی تربیت میں پرھان چڑھے اور خدا اس کی روح القدس کے ذریعہ مدد کرے، ایسا شخص غیر قابل وصف کمالات کے مدارج کو طے کر تاھے بلکہ ہزاروں سال طولانی راستہ کو ایک شب میں طے کر لیتا ھے ، دوران طفولیت بلکہ شکم مادر میں، ھر ایک پر، اُسے برتری حاصل ھوگی، ایسے شخص کی نگاہ میں گناھوں کی حقیقت اسی طرح آشکار ھے جس طرح دوسروں کے لئے زھر پینے اور غلاظتوں کو کھانے کی حقیقت۔
اورجس طرح عادی و معمولی افراد کا ایسے کاموں سے پرھیز جبری نھیں ھے اسی طرح معصوم کا گناھوں سے بچنا کسی بھی صورت میں ان کے اختیار کے خلاف نہ ھوگا۔
۱۔انبیاء علیھم السلام کی عصمت کو عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کریں؟
۲۔ قرآن کی کون سی آیات انبیاء (علیہم السلام)کی عصمت پر دلالت کرتی ھیں؟
۳۔ وحی کو بیان کرنے میں انبیاء (علیہم السلام)کے معصوم ھونے کا راز کیا ھے؟
۴۔ انبیاء ( ع)کا گناھوں سے بچنا کیسے ان کے اختیار سے سازگار ھے؟
معصوم جزاء کا کیونکر مستحق ھے؟
کیوں معصومین گناہ کا اقرار کرتے تھے؟
شیطان کا انبیاء (علیہم السلام)کے اعمال میں تصرف کرنا ان کے معصوم
ھونے کے ساتھ کیسے سازگار ھے؟
حضرت آد م (علیہ السلام) کی طرف نسیان اور عصیان کی نسبت ۔
بعض انبیاء ( ع)کی طرف جھوٹ کی نسبت ۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام)کے ذریعہ قبطی کا قتل۔
رسول اکرم( ص) کو اپنی رسالت میں شک کرنے سے نھی۔
انبیاء علیھم السلام کی عصمت کے سلسلہ میں چند شبھات پیش کئے گئے ھیں کہ جن کے جوابات ھم اسی درس میں بیان کریں گے۔
پھلا شبہ یہ ھے کہ اگر خدا نے انبیا ء علیھم السلام کو گناھوں کے ارتکاب سے روک رکھا ھے جس کا لازمہ وظائف کو انجام دینا بھی ھے تو پھر اس صورت میں انبیاء علیھم السلام کے لئے اختیاری امتیاز باقی نھیں رہتا، اور گناھوں سے بچنے کی جزا اور وظائف کو انجام دینے کی صورت میں کسی بھی پاداش کے مستحق نھیں رہ جاتے، اس لئے کہ اگر خدا انبیاء کے علاوہ کسی اور کو معصوم قرار دیتا تو وہ بھی انھیں کی طرح ھوتے۔
اسی شبہ کا جوا ب گذشتہ بیانات کی روشنی میں آشکار ھے جس کا ملازمہ یہ ھے کہ معصوم ھونے کا مطلب یہ نھیں ھے کہ وظائف کو انجام دینے کے لئے اور گناھوں سے پرھیز کرنے کے لئے ان پر جبر کیا گیا ھو جیسا کہ گذشتہ درس میں یہ مطلب روشن ھوچکا ھے، اورخدا کا انھیں معصوم رکھنے کامطلب یہ نھیں ھے کہ ان سے اختیاری افعال کی نسبت چھین لی جائے اگر چہ تمام موجودات نھایتاً خدا کے ارادہٴ تکوینی کے دائرے میں ھیں، چنانچہ جب خدا کی جانب سے کوئی خاص وضاحت ھو تو امو رکو اس کی طرف نسبت دینا ایک جدا صورت ھے، لیکن خدا کا ارادہ، ارادہ انسان کے طول میں ھے نہ کہ اُس کے عرض میں (یعنی انسان کا ارادہ وھی خدا کا ارادہ ھے نہ یہ کہ خدا کاا رادہ اور انسان کا ارادہ دو مستقل امر ھوں) اور نہ ھی انسان کا رادہ خدا کے ارادہ کاجانشین ھے۔
اور معصومین کی بہ نسبت خدا کی خاص عنایت ھے تو جس طرح خاص اسباب و شرائط سنگین ذمہ داریوں کا سبب بنتے ھیں، اسی طرح یہ خاص توجہ بھی سنگین ذمہ داریوں کا سبب ھے ،جس طرح وظائف کو انجام دینے کی جزا زیادہ ھوگی اسی طرح اس کی مخالفت کی سزا بھی زیادہ ھوگی، اسی طرح جزا و سزا کے درمیان اعتدال برقرار ھوجاتا ھے، اگرچہ ایک معصوم کبھی بھی اپنے اختیار سے کسی سزا کا مستحق نھیں ھو سکتا اور ا یسے اعتدال کی مثالیں اُن تمام لوگوں میں دیکھی جا سکتی ھیں کہ جو خاص نعمتوں سے سرفراز ھیں جیسا کہ علماء اور خاندان رسالت[15] سے وابستہ حضرات کی ذمہ دار یاں زیادہ ھیں لہٰذا جزا یا سزا بھی اتنی ھی زیادہ ھو گی [16] اسی وجہ سے جو جتنا بلند ھوتا ھے اس کے سقوط کے امکانات اتنے ھی زیادہ ھوتے ھیں۔
دوسراشبہ یہ ھے کہ معصومین اور انبیاء علیھم السلام کی طرف سے جو دعاؤں میں وارد ھوئے ھیں ان میں ان حضرات نے اپنے آپ کو گنھگار کھا ھے اور اپنے گناھوں سے استغفار کرتے تھے پس ایسے اعترافات کے ھوتے ھوئے کیسے ان کے معصوم ھونے کو تسلیم کیا جاسکتا ھے؟
اس شبہ کا جواب یہ ھے کہ حضرات معصومین علیھم السلام جو درجات کے اختلاف کے ساتھ کمال و قرب کے عظیم مقامات پر فائز تھے اپنے لئے دوسروں کے وظائف سے کھیں عظیم وظائف کے قائل تھے بلکہ معبود کے علاوہ کسی غیر کی طرف معمولی توجہ کو بھی عظیم گناہ شمار کرتے تھے اسی وجہ سے ھمیشہ استغفار کیا کرتے تھے اور جیسا کہ یھاں ذکر کیاجاچکا ھے کہ انبیاء ( ع)کی عصمت کا مطلب یہ نھیں ھے کہ وہ حضرات ان امور کے ارتکاب سے محفوظ ھیں جنھیں گناہ کا نام دیا جا تا ھے بلکہ ان کے معصوم ھونے کا مطلب واجبی تکالیف کی مخالفت اور محرمات فقھی کے مرتکب ھونے سے محفوظ رھنے کا نام ھے۔
تیسرا شبہ یہ ھے کہ انبیاء (علیہم السلام)کی عصمت پر قرآنی دلائل میں سے ایک دلیل یہ ھے کہ وہ مخلصین میں سے ھیں اور شیطان کو انھیں گمراہ کرنے کی بھی کوئی طمع نھیں ھے، حالانکہ خود قرآن سے بعض مقامات پر انبیاء علیھم السلام کے سلسلہ میں شیطان کی طرف سے کئے گئے تصرفات کو بیان کیا گیا ھے :
یَا بَنِی آدَمَ لَا یَفتِنَنَّکُمُ الشَّیطَانُ کَمَا اَخرَجَ اٴَبَوَیکُم منَ الجَنَّةِ [17]
اس آیت میں شیطان کا آدم و حوا علیھما السلام کو دھوکا دینا اور ان کا بھشت سے نکل جانے کو قرآن شیطان کی طرف نسبت دے رھا ھے، اور سورہٴ ص کی آیت (۴۱) میں جناب ایوب علیہ السلام کی زبانی نقل فرماتا ھے :
اِذ نَادَیٰ رَبَّہُ اٴَنّي مَسَّنِيَ الشَّیطَانُ بِنُصبٍ و عَذَابٍ
جب ایوب علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے فریاد کی کہ مجھے شیطان نے بہت تکلیف و اذیت پھنچا رکھی ھے۔
اس کے علاوہ سورہٴ حج کی آیت (۵۲) میں شیطان کی طرف انبیاء علیھم السلام پر القائات کو ثابت کرتا ھے، جیسا کہ فرماتا ھے:وَمَا اَرسَلنَا مِن قَبلِکَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ اِلَّا اِذَا تَمَنّیٰ اَلقَی الشَّیطَانُ فِي اُمنِیَّتِہِاور اے رسول( ص) ھم نے تو آپ سے پھلے جب کبھی کوئی رسول اور نبی بھیجا تو یہ ھوا، جس وقت اس نے تبلیغ دین کی آرزو کی تو شیطان نے ا ن کی آرزو میں خلل ڈالا ، اور لوگوں کو گمراہ کیا۔
اس شبہ کا جواب یہ ھے کہ ان تمام آیات میں شیطان کے تصرف کے نتیجہ میں انبیاء ( ع)کا واجبی تکالیف سے مخالفت کی طرف اشارہ نھیں کیا گیا ھے اور سورہٴ اعراف کی (۲۷) آیت میں شجرہ منھیہ کے سلسلہ میںجس وسوسہ کی طرف اشارہ ھوا ھے، اس میں اس درخت سے نہ کھانے کی کوئی تحریم نھیں تھی، بلکہ جناب آدم و حوا سے اتنا کہہ دیا گیا تھا کہ اگر اس درخت سے ،کھاؤ گے تو جنت سے نکال کرزمین کی طرف بھیج دئے جاؤ گے، اور شیطانی وسوسہ اس امر سے مخالفت کا سبب بنا، اس کے علاوہ وہ جس عالم میں تھے وہ عام تکلیف (ارشادی) تھی وھاں کوئی شریعت نھیں تھی کہ جس کے وہ پابند ھوتے، اور سورہٴ ص کی (۴۱) آیت میں ان مصیبتوں کی طرف اشارہ ھے کہ جو شیطان کی وجہ سے جناب ایوب (علیہ السلام)پر نازل ھوئی تھیں، اور آپ کے متعلق کسی بھی امر کے مخالفت کی طرف کوئی معمولی اشارہ بھی نھیں ھے، اور سورہٴ حج کی (۵۲) آیت میں ان رکاوٹوں کی طرف اشارہ ھے کہ جو انبیاء علیھم السلام کے اھداف میں شیطان ایجاد کرتا تھا، اور ان کی تکلیف کا باعث بنتا تھا، یھاں تک کہ خدا اس کے مکر کو باطل کردیتا ھے اور اپنے دین کو قائم کردیتا ھے۔
چوتھا شبہ یہ ھے کہ قرآن کے سورہٴ طہ کی (۱۲۱)آیت میں نسبت عصیان اور اسی طرح اسی سورہٴ کی آیت (۱۱۵) میں نسیان کی نسبت جناب آدم کی طرف دی جارھی ھے، لہٰذا ایسی نسبتیں ان کی عصمت سے کیسے سازگار ھیں؟
اس شبہ کا جواب یہ ھے کہ گذشتہ بیان سے واضح ھے کہ یہ عصیان اور نسیان واجبی تکالیف میں سے نھیں تھے کہ گناہ حساب کئے جائے۔
پانچواں شبہ یہ ھے کہ قرآن کے بعض مقامات پر جھوٹ کی نسبت انبیاء علیھم السلام کی طرف دی گئی ھے جیسا کہ سورہٴ صافات کی آیت (۸۹) میں جناب ابراھیم علیہ السلام کی زبانی فرماتا ھے:<فَقَالَ اِنِّي سَقِیمٌ> انھوں نے کھا کہ میں بیمار ھوں۔
حالانکہ جب جناب ابراھیم نے یہ جملہ کھا مریض نہ تھے اور اسی طرح آپ ھی کی زبانی سورہٴ انبیاء کی آیت (۶۳) میں فرماتا ھے : <قَالَ بَل فَعَلَہُ کَبِیرُہُم>
بلکہ ان بتوں کو اُن کے بڑے خدا نے توڑا ھے۔
حالانکہ خود جناب ابراھیم علیہ السلام نے بتوں کو منھدم کیا تھا، اور اسی طرح سورہٴ یوسف کی آیت (۷۰) میں فرماتا ھے :
ثُمَّ اٴَذَّنَ مُوَٴذِّنٌ اَیَّتُہَا العِیرُ اِنَّکُم لَسَارِقُونَ
پھر ایک منادی للکار کے بولا کہ اے قافلہ والو یقیناً تم ھی لوگ چور ھو۔
ان شبھات کا جواب یہ ھے کہ بعض روایتوں کے مطابق یہ سب ”توریہ“ سے ھے اھم ترین مصلحتوں کے لئے بولا جاتا ھے اور اس مطلب کو خود قرآن کی آیتوں سے ثابت کیا جا سکتا ھے، جیسا کہ جناب یوسف کی داستان میں فرماتا ھے:
کذلک کدنا لیوسف
بھر حال ایسے جھوٹ عصیان اورگناہ حساب نھیں کئے جاتے۔
چھٹا شبہ یہ ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی داستان میں آیا ھے کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) نے اُس قبطی کو مار ڈالا جو ایک بنی اسرائیل کے ساتھ جھگڑ رھا تھا، اسی وجہ سے آپ مصر سے فرار کرگئے ،اور جب خدا نے آپ کو فرعون کی جانب مبعوث کیا تو آپ نے بارگاہ خدا میں عرض کی :
وَلَہُم عَلَيَّ ذَنبٌ فَاَخَافُ اَن یَّقتُلُون[18]
اس کے علاوہ ان کے لئے میری گردن پر ایک جرم ھے مجھے خوف ھے کہ وہ مجھے قصاصاً قتل نہ کر دیں ۔
اور جب فرعون نے اس قتل کی نسبت آپ کی طرف دی تو فرمایا :
قَالَ فَعَلتَُہَا اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّالِینَ[19]
ھاں میں نے اس کام کو انجام دیا جب میں حالت غفلت میں تھا۔
یہ داستان کس طرح انبیا ء علیھم السلام کی عصمت بلکہ بعثت سے پھلے معصوم ھونے سے سازگار ھے۔
اس شبہ کا جواب یہ ھے کہ قبطی کا قتل عمدی نھیں تھا بلکہ ایک مشتی کی وجہ سے تھا کہ جسے صرف دور کرنے کے لئے مارا تھا، اس کے علاوہ (ولھم عَلَيّ ذَنب) کا جملہ فرعونیوں کے گمان کے مطابق ھے اور اس کا مطلب یہ ھے کہ وہ مجھے گنھگار سمجھتے ھیں اور مجھے ڈر ھے کہ کھیں وہ مجھے قصاص میں قتل نہ کر ڈالیں اور (وانا من الضّالین )کا جملہ فرعون سے ھم کلامی کے دوران کھا ھے کہ میں اس بعثت سے پھلے ایسے براھین سے بے خبر تھا اور اب دلیل قاطع کے ساتھ مبعوث ھوا ھوں یا ضلال کا مطلب یہ ھے، کہ میں اس عمل کے انجام سے بے خبر تھا، بھر حال کسی بھی صورت میں جناب موسیٰ کا واجبی تکالیف سے مخا لفت ،ان جملوں سے ثابت نھیں ھوتی۔
ساتواں شبہ یہ ھے کہ سورہٴ یونس کی آیت (۹۴) میں خدا اپنے رسول( ص) کو مخاطب کرتے ھوئے فرماتا ھے :فَاِن کُنتَ فِي شَکٍّ مِّمَّا اَنزَلنَا اِلَیکَ فَسئَلِ الَّذِینَ یَقرَءُ ونَ الکِتَابَ مِن قَبلِکَ لَقَد جَائَکَ الحَقُّ مِن رَبِّکَ فَلَا تَکُونَنَّ مِنَ المُمتَرِینَ
پس جو ھم نے تمھاری طرف نازل کیا ھے اگر اس کے بارے میں تم کو کچھ شک ھو تو جو لوگ تم سے پھلے کتاب خدا پڑھا کرتے ھیں ان سے پوچھ کر دیکھو تمھارے پاس پروردگار کی طرف سے کتاب آچکی ھے تم ھر گز شک کرنے والوں میں سے نہ ھونا۔
اسی طرح سورہٴ بقرہ کی آیت (۱۴۷)، سورہٴ آل عمران کی آیت (۶۰) سورہٴ انعام کی آیت /۱۱۴، سورہٴ ھود کی آیت (۱۷) اور سورہٴ سجدہ کی آیت (۲۳) میں آنحضرت( ص)کو شک و تردید سے منع فرماتا ھے، پس کس طرح یہ کھا جا سکتا ھے کہ وحی کو درک کرنا غیر قابل شک ھے۔
اس شبہ کا جواب یہ ھے کہ یہ آیات اس بات پر دلالت نھیں کرتیں کہ آپ نے کوئی شک کیا ھو بلکہ صرف اس مطلب کو بیان کرتی ھیں کہ آنحضرت کی رسالت اور قرآن کریم کی حقانیت میںکوئی شک و تردید نھیں ھے، در اصل ایسے بیانات ” ایاک اٴعنی واسعَیِ یا جارة“میں سے ھے۔
آٹھواں شبہ یہ ھے کہ قرآن میں آنحضرت( ص)کی طرف بعض گناھوں کی نسبت دی گئی ھے جنھیں خدا نے بخش دیا جیسا کہ فرماتا ھے:>
لَّیَغفِرَلَکَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِکَ وَمَا تاٴَ خَّرَ[20]
تاکہ خدا تمھاری اُمت کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے
ا س شبہ کا جواب یہ ھے کہ ان آیتوں میں (ذنب) سے مراد وہ گناہ یں جنھیں مکہ کے مشرکین ہجرت سے پھلے اور اس کے بعد قائل تھے کہ آپ نے اُن کے خداؤں کی توھین کی ھے اور مغفرت سے مرا د ، اُن آثار کو دفع کرنا ھے کہ جن کے مترتب ھونے کا امکان تھا، اور اس مطلب پر دلیل، فتح مکہ کو معاف کردینے کی علت شمار کی ھے جیسا کہ فرماتاھے:
اِنَّا فَتَحنَا لَکَ فَتحًا مُّبِیناً [21]
اے رسول( ص)! یہ حدیبیہ کی صلح نھیں بلکہ ھم نے حقیقتا تم کو کھلم کھلا فتح عطا کی ۔
اب یہ امر واضح ھوگیا ھے کہ اگر اس گناہ سے مراد اصطلاحی گناہ ھوتا تو بخشش کی علت میں فتح مکہ کو بیان کرنے کوئی وجہ نہ تھی ۔
نواں شبہ یہ ھے کہ قرآن کریم : جناب زید کی مطلّقہ سے آنحضرت کے شادی کرنے کی داستان کی طرف اشارہ کر رھا ھے ، جب کہ زید پیغمبر( ص) کے منہ بولے فرزند تھے ۔
وَتَخشَی النَّاسَ وَاللَّہُ اَحَقُّ اٴَن تَخشَاہُ[22]
اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ خدا کا زیادہ حق تھا کہ تم اُس سے ڈرو۔
ایسی تعبیر مقام عصمت سے کیسے سازگار ھے اس شبہ کا جواب یہ ھے کہ آنحضرت( ص)کو صر ف اور صرف اس بات کا ڈر تھا، کہ کھیںخدا کے اس دستور پرعمل کرنے اور جاھلیت کی رسومات میں سے ایک (گود لئے بچوں کو حقیقی بچوں جیسا سمجھنا) رسم توڑنے کی وجہ سے تھا کہ کھیں مسلمان ضعف ایمان کی وجہ سے ا ُس عمل کو نفسانی خواھشات کا نتیجہ نہ سمجھ بیٹھیںاور اُن کے دین سے نکل جانے کا باعث نہ بنے خدا اِس آیت میں اپنے رسول( ص) کو باخبر کرتا ھے کہ ارادہ الھی کے ساتھ اُس سنت شکنی کی مصلحت یعنی ایسی رسومات سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا اس طرح کے غلط تصور سے زیادہ سزاوار ھے لہذا اس آیت میں آنحضرت( ص)کو کسی بھی قسم کی کوئی سرزنش نھیں کی گئی ھے۔
دسواں شبہ یہ ھے کہ قرآن نے دو مقام پر آنحضرت( ص)پر عتاب ( ملامت و سرزنش ) کی ھے، ان میں سے پھلا مقام یہ ھے کہ جب رسول (ص) نے بعض افراد کو جنگ میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دی تو خدا نے فرمایا : < عَفَا اللَّہُ عَنکَ لِمَ اَذِنتَ لَہُم>[23]
اے رسول! خدا تم سے در گذر فرمائے تم نے اُنھیںپیچھے رہ جانے کی اجازت ھی کیوں دی اور بعض حلال امور میں اپنی بعض ازواج کی جلب رضایت کے لئے فرمایا:
یَاَ یُّھَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللَّہُ لَکَ تَبتَغِي مَرضَاتَ اَزوَاجِکَ[24]
اے رسول !جو چیز خدا نے تمھارے لئے حلال کی ھے تم اس سے اپنی بیویوں کی خوشنودی کے لئے کیوں کنارہ کشی کر تے ھوایسے عتاب آپ کی عصمت سے کیسے سازگار ھیں؟
اس شبہ کا جواب یہ ھے کہ ایسے بیانات در اصل عتاب کی شکل میں پیغمبر کی مدح میں ھیں جو آنحضرت کی بے نھایت عطوفت اور مھربانی پر دلالت کرتے ھیں یھاں تک کہ آپ نے منافقوں کو بھی ناامید نھیںکیا،اور ان کے اسرار کو فاش نھیں کیا نیز اپنی ازواج کی خواھشوں کو اپنی خواھش پرfontمقدم رکھا، اور ایک مباح فعل کو قسم کے ذریعہ اپنے اوپر حرام کرلیا تھااور پیغمبر کا ایسا کرنا ( معاذاللہ) اس لئے نھیں تھا کہ حکم خدا کو بدل دیں، اور لوگوں کے لئے حلال کو حرام کردیں۔
در اصل یہ آیات ان آیات سے نھایت مشابہ ھیں کہ جس میں منافقوں کی ھدایت کے لئے آپ کی دلسوزی کی طرف اشارہ کیا گیا ھے:
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفسَکَ اٴَلَّا یَکُونُوا مُوٴمِنِینَ[25]
اے رسول( ص) شاید اس فکر میں تم اپنی جان ھلاک کر ڈالو گے کہ یہ کفار ، مومن کیوں نھیں ھو جاتے ۔
یا ان آیات سے مشابہ ھیں کہ جو عبادت کی خاطر زحمتوں کے تحمل کرنے کی طرف اشارہ کرتی ھیں طہَ * مَا اٴَنزَلنَا عَلَیکَ القُرآنَ لِتَشقیٰ[26]
اے رسول( ص) ھم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نھیں کیا، کہ تم اس قدر مشقت اٹھاء وبھر حال یہ مقامات عصمت کے خلاف نھیں ھیں۔
۱۔ ایک معصوم کو دوسروں پر کیسے امتیازی اختیارات حاصل ھیں؟ وہ اعمال جو عصمت الٰھی کی بنا پر انجام دیئے جائیں اور کس جزا کے مستحق ھیں ؟
۲۔ کیوں انبیاء اور اولیاء (علیہم السلام)اپنے آپ کو گنھگار سمجھتے اور استغفار کرتے تھے؟
۳۔انبیاء علیھم السلام کے سلسلہ میں شیطان کے تصرفات ان کی عصمت سے کیسے سازگار ھیں؟
۴۔ قرآن میں حضرت آدم علیہ السلام کی طرف جس نسیان اور عصیان کی نسبت دی گئی ھے وہ آپ کی عصمت سے کیسے سازگار ھے؟
۵۔ اگر سارے انبیاء (علیہم السلام) معصوم ھیں تو پھر حضرت ابراھیم علیہ السلام اور جناب یوسف علیہ السلام نے کیوں جھوٹ بو لے؟
۶۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں موجودہ شبہ اور اس کے جواب کو ذکر کریں؟
۷۔ اگر وحی کے ادراک میں کوئی خطا واقع نھیں ھوسکتی تو پھر کیوں خدا باربار اپنے رسول( ص)کوآپ کی رسالت میں شک و تردید سے منع کردیا ھے؟
۸۔ سورہٴ فتح میں آنحضرت کی طرف جس گناہ کی نسبت دی گئی ھے وہ کیونکر آپ کی عصمت سے سازگار ھے؟
۹۔ جناب زید کی داستان کے متعلق شبھات اور جوابات بیان کریں؟
۱۰۔ حضرت رسول( ص) کی بہ نسبت قرآن میں جو عتاب وارد ھوا ھے وہ کیا ھے؟ اور اس کا جواب کیا ھے ؟
[1] رجوع کریں ۔سورہٴ ھود۔ آیت/ ۷۔ سورہٴ ملک۔ آیت /۲۔ سورہٴ مائدہ۔ آیت/ ۴۸ سورہٴ انعام۔ آیت/ ۱۶۵۔
[2] سورہٴ انعام۔ آیت/ ۳۵/ ۱۰۷/۱۳۸۷/ ۱۲۸۔ سورہٴ یونس۔ آیت/ ۹۹۔ سورہٴ ھود۔ آیت/ ۱۱۸۔ سورہٴ نحل۔ آیت /۹/ ۹۳۔ سورہٴ شوریٰ۔ آیت /۸۔ سورہٴ شعراء۔ آیت/ ۴۔ سورہٴ بقرہ۔ آیت /۲۵۳۔
[3] رجوع کریں۔سورہٴ انبیا ء آیت/ ۷۸/۸۲/ سورہٴ کھف ۔آیت /۸۳/ ۹۷۔ سورہٴ سباء۔ آیت /۱۰/ ۱۳۔ بعض روایتوں کے ذریعہ سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ حضرت ذوالقرنین نبی نھیں بلکہ ولی خدا تھے۔
[4] رجوع کریں۔ سورہٴ یوسف ۔آیت/ ۵۵۔
[5] نہج البلاغہ، خطبہ قاصعہ۔ سورہٴ فرقان ۔آیت /۷/ ۱۰۔ سورہٴ زخرف ۔آیت /۳۱/ ۳۵۔
[6] سورہٴ انبیا ء ۔آیت /۸۱/ ۸۲۔ سورہٴ نمل ۔آیت /۱۵/ ۴۴۔
[7] قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ھے:
<وَمَاکَانَ اللَّہُ لِیُطلِعَکُم عَلَی الغَیبِ وَ لَٰکِنَّ اللَّہَ یَجتَبِی مِن رُّسُلِہِ مَن یَشَاءُ>
سورہٴ آل عمران۔ آیت/ ۱۷۹۔
[8] قرآن اس بارے میں فرماتا ھے ”اللَّہُ اَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسَالَتَہُ “:سورہٴ انعام ۔آیت /۱۲۴
[9] قرآن اس سلسلہ میں فرماتا ھے :
< عَلِمُ الغَیبِ فَلاَ یُظہِرُ عَلَٰی غَیبِہِ اَحَدًا # اِلَّامَنِ ارتَضَیٰ مِن رَّسُولٍ فَاِنَّہُ یَسلُکُ مِن بَینَ یَدَیہِ وَمِن خَلفِہِ رَصَداً #لِّیَعلَمَ اَن قَد اَبلَغُوا رِسَٰلَٰتِ رَبِّہِم وَ اَحَاطَ بِمَا لَدَ یہِم وَاَحصیٰ کُلَّ شَيءٍ عَدَدَا> سورہٴ جن۔ آیت/ ۲۶/۲۸۔
[10] < لِیَھلِکَ مَن ھَلَکَ عَن بَیِنَّةٍ وَّ یَحیَ مَن حَيَّ عَن بَیِنَّةٍ> سورہٴ انفال ۔آیت/ ۴۲
[11] سورہٴ شعراء ۔آیت/ ۱۹۳۔ سورہٴ تکویر۔ آیت /۲۱۔ سورہٴ اعراف ۔آیت /۶۸۔ سورہٴ شعراء۔ آیت /۱۰۷/ ۱۲۵/ ۱۴۳/ ۱۶۲/ ۱۷۸۔ سورہٴ دخا ء آیت/۱۸/ سورہٴ تکویرآیت/ ۲۰/ سورہٴ نجم آیت /۵۔ سورہٴ حاقہ آیت /۴۴۔ سورہٴ جن آیت/ ۲۶/۲۸۔
[12] اس بات کی طرف توجہ ھے کہ مخلَص لام کے فتحہ کے ساتھ،مخلِص لام کے کسرہ کے ساتھ جدا ھے، مخلَص لام کے فتحہ کے ساتھ کا مطلب یہ ھے کہ خدا نے شخص کو خالص بنادیا ھو ،اورمخلِص لام کے کسرہ کے ساتھ اس کا مطلب یہ ھے کہ شخص نے اپنے اعمال اخلاص کے ساتھ انجام دئے ھوں۔
[13] سورہٴ بقرہ۔ آیت ۱۲۴۔
[14] قرآن اس سلسلہ میں فرماتا ھے :<مَاکَذَبَ الفُوَٴادُ مَارَاٴیٰ>سورہٴ نجم ۔آیت ۱۱
[15] قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ھے :<یَا نِسَاءَ النَّبِیِّ لَستُنَّ کَاٴَحدٍ مِّنَ النِسَاءِ> سورہٴ احزاب ۔آیت /۳۰/۳۲۔
[16] جیسا کہ روایت میں وارد ھوا ھے ’یَغفَرُ للِجَاہِل سَبعُونَ ذَنباً قَبلَ اَن یُغفَرَ للِعالِمِ ذَنب وَاحِدٌ“۔
[17] سورہ اعراف ۔ آیت/ ۲۷
[18] سورہٴ شعراء۔ آیت /۱۴
[19] سورہٴ شعراء آیت ۲۰۔
[20] سورہٴ فتح ۔آیت/ ۲
[21] سورہ فتح ۔آیت /۱۔
[22] سورہٴ احزاب ۔آیت\ ۳۷
[23] سورہ توبہ۔ آیت /۴۳
[24] سورہٴ تحریم۔ آیت/ ۱
[25] سورہٴ شعراء۔ آیت/ ۳
[26] سورہٴ طہ۔ آیت/ ۱،۲