سوال :قرآن میں تحریف نہ ہو سکنے کے باوجود جو کہ قرآن کریم میں بطورصریح اور واضح بیان ہوا ہے کیسے بعض شیعہ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں۔
تحریف لغت میں ،تغیر اور تبدل کے معنی میں ہے ۔(۱)اور قرآن میں ایک لفظ کے معنی کو دوسرے معنی میں بدلنے میں استعمال ہو ا ہے اور <یسمعون کلام اللہ ثم یحرفونہ>(۲)کی آیت اس بات کے ثبوت پر دلیل ہے ۔
لفظ تحریف اصطلاح میں مختلف معانی میںاستعمال ہوا ہے بعض اہم معانی ملاحظہ ہوں۔
۱۔ ترتیبی تحریف: کہ ایک آیت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر نقل کرنے کے معنی میں ہے اوراس معنی میں تحریف کا وقوع متفق علیہ ہے کہ قرآن میں واقع ہوتی ہے۔کیونکہ بہت سی مکی آیات مدنی آیات کے بیچ میں اور بالعکس واقع ہوئی ہیں ۔اگر قرآن کے جمع کرنے والے کو حضرت علی علیہ السلام یا رسول خدا کے علاوہ کسی کو سمجھتے ہو تو یہ تحریف معنی رکھتی ہے وگرنہ نہیں۔
۲۔معنوی تحریف: ایک لفظ کو دور کے معنی سے تفسیر کیا جائے جو لفظ کے ظاہر سے مرتبط نہ ہو یعنی کسی لفظ کا معنی مشہور تفسیر سے منافات رکھے یہ تحریف بھی قرآن میں واقع ہوئی ہے۔لیکن اس کی حرمت پر امت کااجماع ہے ۔پیغمبر (ص)نے فرمایا:”من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوء من النار“؛ (۳)”جوکوئی قرآن پر کسی مطلب کو علم کے بغیر نسبت دے تو اپنی جگہ آگ سے آمادہ سمجھے۔“اس ”تحریف کو تفسیر بالراٴی “بھی کہتے ہیں کہ روایات میں اس کی بہت سرزنش کی گئی ہے ۔(۴)
۳۔لفظی تحریف کہ جس کی خود کئی قسم ہے:
الف۔دو لفظ جا بجا کرنے کی تحریف ؛جیسے کہ بعض لوگ معتقد ہیں <فامضوا الی ذکر اللہ>کی جگہ <ِ فَاسْعَوْا إِلَی ذِکْرِ اللهِ>(۵)کی آیت آئی ہے کہ اس کی صحت کی دلیل موجود نہیں ہے۔
ب۔ الفاظ کو آگے پیچھے کرنے کی تحریف ؛جیسے کہ بعض لوگ کہتے ہیں :”وضربت علیھم المسکنت والذلة“،وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمْ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ(۶)آئی ہے ۔یہ تحریف بھی باطل ہے ،کیونکہ قرآن کے اعجاز سے منافات رکھتی ہے۔
ج۔کم و زیاد کرنے کی تحریف۔کہ یہ بھی تین قسم پر ہے
۱۔حروف اور حرکات میں تحریف جوکہ قرآن کی قرائت سے مربوط ہے ۔یہ تحریف بھی باطل ہے مگر بعض الفاظ میں ۔مثلا وَامْسَحُوا بِرُئُوسِکُمْ وَاٴَرْجُلَکُمْ (۷)کی آیت میں ”ارجل“کا لفظ ،فتحہ اور کسرہ کے دونوں ساتھ آیاہے ادبیات عرب کے قواعد و اصول اور مشہور قرائت کے مخالف نہیں ہے خاص طور اس جگہ جہاں قرائت کے سلسلے میں صحیح روایت وارد ہوتی ہے۔
۲۔کلمات میں تحریف جو خود دو قسم ہے: ایک یہ کہ اصل قرآن میں ہو کہ یہ بھی باطل ہے ۔اور دوسرے یہ کہ لفظ کو اضافہ کرنا مشکل آیت کو واضح کرنے کے لئے کہ یہ اضافہ کرنا جب آیات سے متمایز ہو تو بالاجماع کوئی اشکال نہیں ہے۔
۳۔سورہ اور آیات میں تحریف؛ یعنی اس پر معتقد ہوجائیں کہ سورہ اور آیات میں نقص یا اضافہ ہواہے کہ یہ قطعاً باطل ہے۔
نفی تحریف کی دلیلیں اس قدر قوی اور منطقی ہیں کہ قرآن کی روایتوں کو بھی باطل کردیتی ہےں علی الخصوص یہ کہ ساری روایتیں قابل خدشہ ہیں چاہے سند کے اعتبار سے چاہے دلالت کے اعتبار سے ہم بعض دلیلوں کو بیان کرتے ہیں :
عقل قطعی حکم کرتی ہے کہ قرآن کریم کسی بھی تغیر و تبدل اور تحریف سے محفوظ ہے کیونکہ قرآن ایسی کتاب ہے کہ جس پر دوران نزول اسلامی امت کی خاص توجہ مرکوز تھی اور ان کے نزدیک وہ بڑا مقدس و عظیم ہے اور اس میں کوئی تعجب اور تردید کی بات نہیں ہے ،کیونکہ قرآن لوگوں کی دینی ،سیاسی ،اور اجتماعی زندگی کا پہلا مرجع و منبع ہے قرآن دین و شریعت کی اساس واسلام کا رکن ہے اور کوئی امکان نہیں ہے کہ تحریف کا ہاتھ اس تک پہنچ پائے۔
قرآن کاتحریف نہ ہونا لطف الٰہی کا تقاضا ہے لطف یعنی ایسا کام انجام دینا جو بندہ کو اطاعت کے نزدیک اور معصیت سے دور کردے یہ معنی بحکم عقل خداوند پر واجب ہے ،اور کوئی شک نہیں کہ قرآن اصلی سندہے اسلام اور پیغمبر (ص)کی بنوت کے معتبر ہونے کا ۔اور ایسے دین کی بنیاد کو باقی اور اس کے رکن کو مضبوط رہنا چاہئے اور کبھی بدعت گذاروں کے نفسانی خواہشات اس کے آگے ٹک نہ سکےں ۔لہٰذا قاعدہ لطف کی وجہ سے قرآن تحریف سے محفوظ تھا اور ہے اور یہ خود قرآن کے اعجاز کا ایک رخ ہے۔
جب خدا وند متعال نے قرآن کی تحریف سے حفاظت کرنے کی ضمانت لی ہو تو کیسے قرآن میں تحریف ممکن ہوگی؟یہاں پر دو آیت کو نمونہ کے طور پر بیان کرتے ہیں:
الف۔انا نحن نزلنا الذکر وانالہ لحافظون(۸)”ہم نے خود ذکر (قرآن)کو نازل کیا ہے اور خود اس کے نگہبان ہیں ۔“
یہ آیت دو جملوں سے بنی ہے ،پہلے جملے میں ”ان“تاکید ی کلمہ اور ”نا و نحن“میں خبر کے قطعی اور مسلم ہونے کی علامت ہے اور منکرین کے ان شکوک وشبہات کو مٹانے کے لئے ہے جواس سورہ کی اس سے پہلے کی آیتوں میں انھیں ہوا ہے۔
دوسرا جملہ”ان ولام“جو تاکیدی لفظ ہیں اور ”نا“جو جمع کی ضمیر ہے اور ”حافظون“جوجمع کا صیغہ ہے کو ذکر کرکے قرآن کی حفاظت کرنے کی بات کی گئی ہے ۔ جملہ کایہ طرز بیان کسی بھی شک کو مٹا تا ہے اس آیت میں قرآن کی حفاظت بلا قید اور مطلق طور پر بیان ہوئی ہے لہٰذاہر قسم کی تحریف سے حفاظت کرنا شامل ہے اور چونکہ خدا کا ہر وعدہ سچا ہے اور<ان اللہ لا یخلف المیعاد>اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا(۹)لہٰذا قرآن کی حفاظت قطعی ہے۔
ب۔ ۔۔۔وَإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیزٌ لاَیَاٴْتِیہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَمِنْ خَلْفِہِ تَنزِیلٌ مِنْ حَکِیمٍ حَمِید (۱۰)اور قطعی طور پر وہ کتاب عزیز ہے ،باطل آگے پیچھے سے اس میں نہیں وارد ہو سکتااوریہ خداوند حکیم وحمید کی طرف سے نازل ہوا ہے۔“
ان دو آیتوں میں ”ذکر“اور ”کتاب“سے مقصود قرآن مجید ہے جو تین صفت ،<عَزِیز>،<لاَیَاٴْتِیہِ الْبَاطِل>،<تَنزِیلٌ مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ> سے متصف ہوا ہے پہلے دو وصف قرآن کی تحریف نہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں ،کیونکہ لفظ ”عزیز“کا معنی غیر قابل نفوذ ہے اور تحریف ، قرآن میں شکست اور نفوذ کا نام ہے ،لفظ ”باطل“وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں ثبات نہ رہے اورشئی فاسد و تباہ ہوجائے ۔ اور قرآن اپنے اندر کسی بھی تغیر وتبدل کی نفی کرتا ہے <لاَیَاٴْتِیہِ الْبَاطِل>کیونکہ قرآن کے اعجاز اور اس کے سوروں اور آیات کے نظم ا ورمضمون کومد نظر رکھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی طرح کا بھی تغیر و تبدل قرآن کے نظم اور مضمون کو خدشہ دار کردے گا ہیں اور قرآن کو تباہ ہونے کا مصداق بنادے گا جب کہ یہ بات <۔۔۔من بین یدیہ ومن خلفہ>کی تفسیر نے کلی طور پر ہر زمان اور ہر جہت سے غیر ممکن بتلاتی ہے اور <تَنزِیلٌ مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ>اس بات کو واضح کرتی ہے کہ قرآن ہرقسم کی تحریف سے محفوظ ہے خداوند حکیم وحمید کی طرف سے نازل ہوا ہے اس خدا کی طرف سے جو سب کمالات کا مالک ہے اور اس کاہر کام بامقصد اور بے نقص ہوتا ہے لہٰذا اگر قرآن میں تحریف ہوجائے تو خدا کی حکمت میں نقض لازم آجائے گا ۔
سورہٴ حجر کی آیت اور سورہٴ فصلت کی آیت کا مقایسہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کی حفاظت کسی بھی تحریف سے ضمانت میں ہے ۔
لاَتُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ(۱۱)”دیکھئے آپ قرآن کی تلاوت میں عجلت کے ساتھ زبان کو حرکت نہ دیں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے جمع کریں اور پڑھوائیں۔“ اس آیت سے بھی قرآن کی تحریف نہ ہونے کا استفادہ ہوتا ہے۔
احادیث بھی قرآن کی تحریف نہ ہونے کی دلیلوں میں سے ہیں ہم ان میں سے بعض کی طر ف اشارہ کرتے ہیں:
الف۔حدیث ثقلین : پیغمبر (ص)نے فرمایا:بیشک میں تم لوگوں کے درمیان دو قیمتی چیز چھوڑ کر جارہا ہوں ایک خدا کی کتاب اور دوسرے میری عترت میرے اہل بیت ؛اگر ان دونوں سے مستمک رہوگے تو ہر گز میرے بعد گمراہ نہیں ہوگے۔(۱۲)
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم پیغمبر (ص)کے دور ہی میں جمع ہوا ہے نہ اس کو کتاب کہنا صحیح نہ تھا اور اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ قرآن قیامت تک باقی رہے گا تاکہ پیغمبر (ص)کی عترت کے ساتھ امت اسلامی کی ہدایت کا سبب بن سکے۔
ب۔بہت سی احادیث معصومین علیہ السلام موجود ہےں جو واضح طور پر بیان کرتی ہیں کہ ۔قرآن کی تحریف ہونے سے محفوظ ہے اس میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ حسین بن عثمان نے امام جعفر صادق ںسے نقل کیا ہے کہ حضرت نے فرمایا:”ما بین الدفتین قرآن“(۱۳)جو کچھ ان دو جلدوں کے درمیان ہے وہ قرآن ہے ۔“(بغیر کسی کمی و زیاتی کے)
امام محمد باقر علیہ السلام کے خط کا کچھ حصہ جوآپ نے اپنے ایک صحابی ”سعدا لخیر “کے نام لکھا تھا اس میں آیا ہے ”۔۔۔وکان من نبذھم الکتاب ان اقاموا حروفہ وحرفواحدودہ“؛(۱۴)ان کی بے اعتنائی قرآن کے بارے میںیہ ہے کہ انھوں نے قرآن کے الفاظ پر عمل کیا لیکن اس کے حدود و معارف کو تحریف کر لیا۔“
امام کے کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے الفاظ میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔
ج۔وہ سب حدیث جس میں قرآن کا بلند مرتبہ انسانوں کی ہدایت کے لئے بیان کیا جاتا ہے ۔(۱۵)
د۔بہت سی احادیث جو قرآن کو مطلق طور پر صحیح و غلط روایات کا معیار سمجھتی ہیں ،رسول خدا (ص)نے فرمایا بیشک ہر حق کی ایک حقیقت ہے اور ہر درستگی کا ایک نور ہے پس جو قرآن کے موافق ہو اسے لے لو اور جو ا کے مخالف ہو اسے چھوڑ دو۔
یہ معنی دو وجہ سے قرآن کی تحریف ہونے کے احتمال سے مخالف ہے:
پہلی وجہ یہ ہے کہ میزان اور معیار کو قطعی ہونا چاہئے ،کیونکہ قرآن حق و باطل کی پہچان ہے ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ معیار ایسی چیز ہو جو سب مسلمانوں کے نزدیک مسلم اور ثابت ہوا ۔
ھ۔بے شمار روایات مختلف ابواب میں جوسب کی سب مجموع قرآن کی تحریف نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔مثال کے طور پر ”قرآن سے شفا چاہنا“(۱۷)،”قرآن سے توسل “،(۱۸)”قرآن کو حفظ کرنا“،(۱۹)”تلاوت قرآن کے آداب “،(۲۰)”قرآن کی قسم “،(۲۱)اور دوسرے موضوع جن میںسے ہر ایک دسیوں روایت پر مشتمل ہیں۔
قرآن اعجاز کی کتاب ہے اور ابھی تک کسی نے اس کی طرح آیت نہیں لایا ہے ،جس طرح قرآن کی آیت اس پر اشارہ کرتی ہے اور اگر اب قرآن میں تحریف کا راستہ کھولا رہے تو یہ اعجاز قرآن فصاحت اور بلاغت کی نظر سے مخالف ہے ۔
یہ بات سب کے نزدیک واضح ہے کہ کسی عقیدہ یا فتواکی کسی مذہب سے نسبت دینے کے لئے اس مذہب کے بزرگوں کی تالیفات اور کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہئے موضوع تحریف کے سلسلے میں بھی شیعہ بزرگوں کی کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر لوگ قرآن کی تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں اب ہم اس میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
۱۔شیخ صدوق الاعتقادات ،ص۹۲۔
۲۔شریف رضی حقائق التاویل فی متشابہ التنزیل ،ص۱۶۸۔
۳۔شیخ مفید المسائل السرویة،ص۸۳۔۸۴ واوائل المقالات ،ص۸۰۔
۴۔سید مرتضیٰ الذخیرة فی علم الکلام ،ص۳۶۱۔
۵۔شیخ طوسی التبیان فی تفسیر القرآن ،ج۶،ص۳۲۰۔
۶۔طبرسی مجمع البیان ،ج۶،ص۵۰۹۔
۷۔ابو الفتوح رازی روض الجنان روح الجنان ،ج۱،ص۳۱۔
۸۔قطب الدین رواندید الخرائج والجرائح ،ص۱۰۰۴۔
۹۔ابن ادریس حلی المنتخب من تفسیر القرآن ،ج۲،ص۲۴۶۔
۱۰۔ابن شہر آشوب متشابة القرآن ،ج۲،ص۷۷۔
۱۱۔رضی الدین علی بن طاوٴس سعد السعود،ص۱۴۴۔
۱۲۔سدیدی الدین محمود حمصی المنقذ من التقلید ،ج۱،س۴۷۷۔
۱۳۔ابوالمکارم حسنی ،البلابل والقلاقل ،ج۱،ص۲۴۴۔
۱۴۔محمد بن حسن شیبانی نہج البیان،ج۳،ص۱۸۴۔
۱۵۔محمد بن یوسف مطہر اجوبة المسائل المہنائیة،ص۱۲۱۔
۱۶۔جمال الدین مقداد سیوری کنزالعرفان،ص۲۔۵۔
۱۷۔زین الدین بیاض عاملی الصراط المستقیم ،ج۱،ص۳۲۶۔
۱۸۔کمال الدین حسین کاشفی،مواہب علّیہ، ج۱،ص۳۳۶۔
۱۹۔علی بن عبدالعالی رسالة فی جفی النقیصة فی القرآن نقل از التحقیق فی نفی التحریف ،ص۲۲۔
۲۰۔فتح اللہ کاشانی منہج الصادقین ،ج۵،ص۱۵۴۔
۲۱۔مقدس اردبیلی مجمع الفائدة والبرہان ،ج۲،ص۲۱۸۔
۲۲۔محمد بن نقی شیبانی مختصر نہج البیان،ص۲۶۲۔
۲۳۔ابو المحاسن حسین بن حسن جرجانی جلاء الاذہان وجلاء الاحزان ،ج۵،ص۱۲۸۔
۲۴۔ابو الفیض ناکوری سواطع الالہام ،ج۳،ص۲۱۴۔
۲۵۔قاضی نور اللہ شوشتری مصائب النواصب نقل از الاء الرحمن،ج۲،ص۲۵۔
۲۶۔شیخ بھائی العروة الوثقی،ص۱۶۔
۲۷۔فاضل تونی الوافیة فی الاصول ،ص۱۴۸۔
۲۸۔فیض کاشانی تفسیر صافی،ج۳،ص۱۰۲و المحجة البیضاء ،ج۲،ص۲۶۳۔
۲۹۔محمد بن حسن شریف لاہیجی تفسیر شریف لاہیجی،ص۲،ص۶۵۸۔
۳۰۔شیخ حر عاملی رسالةتواتر القرآن وعدم نقضہ و تحریفہ ۔خطی۔
۳۱۔محمد بن مرتضٰ کاشانی تفسیر المعین ،ج۲،ص۶۵۰۔
۳۲۔محمد رضا قمی کنز الدقائق،ج۷،ص۱۰۴۔
۳۳۔شیخ جعفر کاشف الغطاء کشف الغطاء ،ص۲۲۹۔
۳۴۔سید محسن کاظمی شرح الوافیة نقل از التحقیق فی نفی التحریف،ص۲۶۔
۳۵۔سید محسن طباطبائی مفاتیح الاصول نقل از کتاب پیشین،ص۲۷۔
۳۶۔شیخ ابراہیم کلباسی، ارشادات الاصول نقل از کتاب پیشین،ص۲۷۔
۳۷۔سید حسین کوہ کمری بشری الوصل نقل از کتاب پیشین،ص۲۷۔
۳۸۔موسی تبریزی اوثق الوسائل ،ص۹۱۔
۳۹۔محمد بن ابی القاسم مشہور بہ معرب تہرانی کشف الارتیاب فی عدم تحریف الکتاب۔
۴۰۔سید محمد شہرستانی حفظ الکتاب عن شبہة القول با التحریف۔
۴۱۔محمد حسن آشتیانی بحر الفوائد ،ص۹۹۔
۴۲۔محمدجواد حسسینی عاملی مفتاح الکرامة ،ج۲،س۳۹۰۔
۴۳۔شیخ ممد جواد بلاغینجفی الاء الرحمن ،ص۲۶۔
۴۴۔سیخ محمد حسین کاشف الغطاء اصل الشیعة واصولھا،ص۱۳۳۔
۴۵۔سید محسن امین اعیان الشیعة ،ج۱،ص۴۱۔
۴۶۔شیخ محمد نھاوندی نفحات الرحمن ،ج۱،ص۴۰۔
۴۷۔میر جعفر علوی حسینی کشف الحقائق ،ج۱،ص۴۰۔
۴۸۔سید عبد الحسین شرف الدین الفصول المہمة ،ص۱۶۲و اجوبة مسائل جار اللہ ،ص۲۸۔
۴۹۔علامہ امینی الغدیر ،ج۳،ص۱۰۱۔
۵۰۔سید محمد حسین طباطبائی ،المیزان ،ج۱۲،ص۱۰۴۔۱۳۳۔
۵۱۔آیت اللہ العظمیٰ خمینی تہذیب الاصول ،ج۲،ص۱۶۵،وانوار الہدایة،ص۲۴۳۔
۵۲۔ایت اللہ العظمیٰ خوئی البیان ،ص۱۹۷۔
تحریف پر دلالت کرنے والے احادیث کی توجیہ
حدیث و تفسیر کی کتابوں میں قرآن کے بارے میں ایسی روایتیں ملتی ہیں کہ بعض لوگ انھیں سب کو قرآن کی تحریف ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں ،لیکن توجہ کرنا چاہئے کہ :
اولاً: اکثر روایات ایسے افراد اور ایسی کتابوں سے نقل ہوئی ہیںکہ جس کا کوئی اعتبار نہیں ہے مثال کے طور پر کتاب قراء ات احمد بن محمد سیاری (متوفی۲۸۶ھ) کہ جسے علمائے رجال نے ضعیف جانا ہے اور اس کے مذہب کو فاسد سمجھا ہے(۲۲) یا علی ابن احمد کوفی (متوفی ۳۵۳ھ)کی کتاب علمائے رجال نے اس کے بارہ میں کہا ہے :”عمر کے آخر لحظات میں اس نے غلو اور افراط کا راستہ انتخاب کر لیا تھا ۔(۲۳)
ثانیاً: دوسری قسم روایات کی جو تحریف ہونے کو بیان کرتی ہیں ،تفسیر ی وجہ رکھتی ہیں یعنی روایت میں بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں یہ تفسیر قرآن کا جزء تھی اور اس میں سے حذف ہوگئی ہے مثال کے طور پر سورہٴ حمد <اھدنا الصراط المستقیم> کی آیت ،پیغمبر (ص)اور ان کی خاندان کی راہ یا علی علیہ السلام کی راہ سے تفسیر ہوئی ہے اور واضح ہے کہ ایسی تفسیر فرد کامل پر کلی کی تطبیق اور کچھ نہیں
امام خمینی جن روایت میں تحریف کی احتمال پایا جاتا ہے اس کی تین قسمیں کی ہےں:
الف۔ ضعیف روایات جن سے استدلال نہیں کیا جا سکتا ۔
ب۔جعلی روایات جن کے جعلی ہونے پرشواہد موجود ہیں۔
ج۔صحیح روایات جن میں دقت کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تحریف کا مقصد لفظی نہیں معنوی تحریف ہے ۔
ثالثاً: اگر کسی شخص کو کسی مذہب کے بارے میں قضاوت کرنا ہے تو اس مذہب کے عقایدکے بارے میں اسی مذہب کے علماء و مفسرین اور متکلمین سے اس کو پوچھنا چاہئے نہ کہ اس مذہب کی فقط بعض کتابوں کا مراجعہ کرے اور بعض احادیث کو پانے کے بعد اس کے مطالب کو عقیدہ کے عنوان سے اس مذہب کی طرف نسبت دےدے قرآن کی تحریف کے بارہ میں بھی یہی کرنا چاہئے کیا شیعہ مفسرین نے جوطول تاریخ میں سیکڑوں تفسیر قرآن لکھی ہے اس موجود قرآن کے علاوہ کسی دوسرے قرآن کی تفسیر ہے اور کیا ان تفاسیر میں وہ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں؟اور شیعہ فقیہوں کا فتواکہ جہاں مختلف ابواب میں قرآن سے استناد کیا ہے موجود ہ قرآن کے خلاف ہے؟اوراس میں قرآن کی تحریف کے قائل ہیں؟
شیعہ متکلمین قرآن کی تحریف نہ ہونے کے معترف ہیں جنھوں نے شیعہ عقائد کے اثبات کے لئے اسی قرآن سے تمسک کیاہے۔
اور شیعہ محدثین جنھوں نے اپنی حدیثی کتابوں میں سیکڑوں روایت اسی قرآن کے بارہ میں نقل کیا ہے ۔۔۔
کسی مذہب کے عقائد کی شناخت کا معیار ،اکثریت کا قول ہے
کسی مذہب کے عقائد کو بیان کرنے کے لئے معیار اور پہچان وہ نظریہ ہے کہ جس میں اس مذہب کے سب علماء کا اتفاق نظر ہواور اس حقیقت کو بعض اہل سنت کے محقق افراد سمجھتے ہیں اور شیعوں کو تحریف کا قائل ہونے سے پاک سمجھتے ہیں جیسے کہ شیخ رحمت اللہ ہندی نے اپنی معروف کتاب اظہار الحق میں لکھا ہے :”قرآن کریم اکثر شیعہ علماء کے نظریہ کے مطابق تحریف سے محفوظ ہے اور جو لوگ تحریف ہونے کے قائل ہیں ان کے قول کو مردود اور نامعقول سمجھتے ہیں۔(۲۶)
شیخ محمد محمد مدنی الازہر کے استاد نے بھی اس کے بارے میں کہا ہے :امامیہ مذہب کے افراد آیات اور قرآن کے سورہ میں کسی کمی کے قائل نہیں ہیں اگرچہ اس بارے میں ان کی حدیث کی کتابوں میں بعض روایات ویسے ہی نقل ہوئی ہیں جس طرح ہماری کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ہر مذہب (شیعہ ہو سنی) کے محقق ان سب کو نادرست سمجھتے ہیں ۔کوئی بھی شخص اتقان سیوطی کی طرف رجوع کر کے اس طرح کی روایات پاسکتا ہے جو ہماری نظر میں کوئی اعتبار نہیں رکھتیں علماءِ امامیہ بھی تحریف ہونے کی روایت کو مردود سمجھتے ہیں ۔(۲۷)
استاد مدنی نے اپنے کلام میں اس مطلب کی یاد دہانی کی ہے کہ اگر کوئی شخص (شیعہ ہویاسنی)ا س طرح کی غیرمعتبر روایات سے استناد کرکے تحریف کا قائل ہو جائے ،تواس کی بات کو ملاک بنا کر اس مذہب کے اعتقادات کی طرف منسوب نہیں کےاجاسکتا۔ جیسے کہ ایک مصری عالم نے ایک کتاب العرفان نام کی تالیف کیا اور ان سب روایات کو جمع کیا جو قرآن کی تحریف کے بارے میں تھی لیکن دانشگاہ الازہر نے اس کتا ب کو بے اعتبار ثابت کر کے حکومت کے ذریعہ اس کتاب کی توقیف کردی اور سارے نسخے ضبط کرلئے ۔
یہ دوسورہ ہیں کہ اس کے جاعلین نے ناسیئانہ طور پر سست وغلط عبارت سے امام علی کے مناقب و وصایت سے جعل کیا ہے یہ دو سورہ کیارہویں صدی کے پہلے کوئی منبع اور مدرک کے ساھت نہیں تھی اورکوئی نام ومتن کا اثر نہیں تھا جو افراد نے اس کو نقل یا انتقاد کیا ہے نے بھی کوئی منبع(معتبر وغیر معتبر ) اس صدی کے پہلے نہیں ارائہ کیا ہے مدارک اور شواہد کے بنا پر یہ دو سورہ ہندوستان میں نا معلوم افراد کے ہاتھ جعل ہوئی ہے اور اس کے بعد اسلام اور قرآن کے دشمنوں کے ذریعہ نشر ہوئی ہے ۔
علامہ عسکری کہتے ہیں :شیعوں کے مخالفین مثلا احسان الٰہی ظہیر جیسے لوگوں نے شیعوں کی طرف تحریف قرآن کی نسبت دینے میں تذکرة الائمہ اور دبستان المذاہب جیسی کتابوں پر اعتماد کیا ہے جب یہ کتابیں کوئی علمی قدر وقیمت نہیں رکھتیں۔کیونکہ:
اولاً: دبستان المذاہب کے موٴلف کا نام ہی نہیں تحریرہے لہٰذا علماء نے اس کے موٴلف کے سلسلہ میں اختلاف کیا ہے بعض لوگوں نے اس کو میر ذوالفقار علی حسین اردستانی سے نسبت دی ہے اور بعض لوگوں نے شیخ کشمیری جواہل سنت کے متعصب عالم تھے منسوب کیا ہے اور بعض لوگوں نے کیخسرو بن اسفندیار سے نسبت دی ہے جو ہندوستان میں مجوسیوں کا بڑا عالم تھا۔
بعض لوگ کہتے ہیں اس کتاب کے موٴلف نے اس وجہ سے اس کتاب کولکھا تاکہ دین زر دشت کی تبلیغ کر کے دوسرے ادیان کو سست اور کمرنگ کردے۔
ثانیاً: تذکرة الائمہ کتاب کو محمد باقر مجلسی سے نسبت دیا ہے لیکن یہ کتاب ان کی نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے شخص بنام ” محمد باقر بن محمد تقی “کی ہے جیسا کہ بعض مورخین سوانح نگاراس بات کی طرف متوجہ تھے اور انھوں نے مرحوم مجلسی کو اس اتہام سے مبرا سمجھا ہے مثال کے طور پر مرزاعبد اللہ آفندی مرحوم مجلسی کے شاگرد نے ریاض العلماء میں، سید اعجاز حسین نے اپنی کتاب کشف الحجب والاستار عن الکتب والاسفار میں، سید خوانساری نے اپنی کتاب روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات میں،شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب الفوائد الرضویہ میں ،اور شیخ آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب” الذریعہ“ میں۔
ثالثاً: مکتب اہل بیت میں ایسی روایات کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے جو صحیح سند کے ذریعے پیغمبر یا ائمہ معصومین تک نہ پہنچتی ہوںاور ان جعلی سوروں کے لئے تو کوئی سند ہی ذکر نہیں ہوئی ہے ۔(۲۸)
رضا زادہ ملک ،کتاب دبستان مذاہب کے توانا محقق ،نے جو متن کتاب سے اندازہ لگایا ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کا موٴلف ۱۰۲۵ ء میں پیدا ہوا اور ۱۰۶۹ ء تک زندہ تھا اس محقق نے کتاب دبستان مذاہب کا ارتباط شیخ کشمیری سے غیر واقعی جانا ہے۔(۲۹)
پھر دلیلوں اور شواہد کی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ سارے شواہد وقرائن اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اس کتاب کا موٴلف صد در صد آذرکیوان اور دین دساتریری کا ایک پکا پیرو ہے اوروہ بھی اس مذہب کے معتقد افراد کا مورد احترام شخص ہے اور یہ شخص موّبد کیخسرواسفندیار یعنی آذرکیوان کے لڑکے کے علاوہ اورکوئی نہیں ہے ۔(۳۰)
اس نے بحث میں کتاب دبستان مذاہب کے لکھنے کی دلیل میں لکھا ہے ”دبستان مذاہب کا موٴلف خود جعلی دین کا رہبر تھا اور اس کی اساسی غرض ۔اگرچہ اس اس کا اظہار نہیں کیا ہے ۔دوسرے ادیان کے پیروکاروں کا اعتقاد سست کرنا اور ان سب کو اپنے دین میں لانا تھا اسی لئے اس نے سست اورغیر معتبر مغرضانہ اسناد کو غیر مہذب لوگوں سے نقل کیا ہے ۔
برطانوی سامراج نے بھی دبستان مذاہب کے موٴلف کی غرض کو اجرا کرنے کے لئے اس دیاکیونکہ کتاب دبستان مذاہب پہلی بار انگریزوں کے ذریعہ پرچار ہوئی جیسا کہ اس کتاب کے پہلے فارسی اڈیشن میں ”ویلیام بیلی“ہندوستان میں انگریز سفیر کے ذریعہ اس کتاب کی رونمائی ہوئی اس وقت جبکہ اس خطہ میں ان کی ایسٹ انڈیا کمپنی تھی (۳۱)ان لوگوں نے ان مجلوں میں جو ا یشیا اور جہان اسلام پرچھائے ہوئے تھے ان سوروں کو شیعی سوروںکے عنوان سے منتشر کیا یہ سب استعمار گروں کی غرض اور” لڑاؤ اور حکومت کرو “ کی پالیسی کار فرما تھی۔
سورہٴ ”ولایت “صرف ایک مجہول اور خطی قرآن کے آخر میں۱۷ ویں صدی میں ہندوستان میں لکھا گیا ہے اور اس کا کوئی اثر شیعہ اور غیر شیعہ منابع میں موجود نہیں ہے اس کا تنہا ایڈرس یہ ہے کہ یہ نسخہ جون ۱۹۱۲ میں ہندوستان کے بانکی پور کے کتا ب خانہ میں پایا گیا اور اس کے مدیر نے کہا ہے کہ اس نسخہ کو نواب نام ککوٴسے بیست سال پہلے لکھنوٴ میں خرید ہ ہے یہ نسخہ کی قدمت ۲۰۰سے ۳۰۰ سال پہلے ہے۔“
بہر حال کوئی بھی قرآن کی سلامت کی دلیلوں پر غور کرنے اور یہ دو سورہ کی پریشان و۔۔۔۔عبارت دیکھ کر وہ سب کاجعلی ہونے کی حکم دے سکتا ہے التبہ یہ بات فقط یہ دو سورہ کے لئے نہیں ہے بلکہ قرآن کے نزول کے بعد کسی نے بھی کوشش کیا ہے قرآن کی طرح آیت اور دو سورہ لائے اس کا انجام رسوائی اور استہزاء تھا کیونکہ قرآن بے نظیر ہے اور اس کا زیبا متن اور عمیق مضمون کوئی متن سے قابل قیاس نہیں ہے ۔
(۱)تاج العروس ،زبیدی ،ج۶،ص۶۹۔
(۲)کتاب العین ،الخلیل ،ج۳،س۲۱۱؛لسان العرب ،ابن منظور،ج۹،ص۴۳۔۔۔
(۳)جامع البیان ،طبری،ج۱،ص۳۴ والاتقان ،سیوطی،ج۴،ص۲۱۰۔
(۴)التبیان ،طوسی،ج۱،ص۴۔
(۵)سورہٴ جمعہ (۶۲)آیت ۹۔
(۶)سورہٴ بقرہ (۲)آیت ۶۱۔
(۷)سورہٴ مائدہ(۵)آیت ۶۔
(۸)سورہٴ حجر(۱۵)آیت۹۔
(۹)سورہٴ رعد(۱۳)آیت ۳۱۔
(۱۰)سورہٴ فصلت(۴۱)آیت ۴۱۔۴۲۔
(۱۱)سورہٴ قیامت (۷۵)آیت۱۶۔۱۷۔
(۱۲)ر۔ک۔عبقات الانوار ،ج۱و۲۔
(۱۳)الاصول الستة عشر۔
(۱۴)کافی،۸،ص۵۳۔
(۱۵)تفسیر عیاشی ،ج۱،س۳۔۶۔
(۱۷)بحار الانوار،ج۹۲،ص۱۳۔۴۳وص۱۷۵۔۳۷۲۔۔۔
(۱۸)وہی مدرک
(۱۹)وہی مدرک
(۲۰)وہی مدرک
(۲۱)وہی مدرک
(۲۲)رجال نجاشی،ج۱،ص۲۱۱۔
(۲۳)وہی مدرک،ج۱،ص۹۶۔