حقائق قرآنی:

معجزہ

 نبوت کو ثابت کرنے کے راستے

معجز ہ کی تعریف

خارق عادت امور

الٰھی خارق عادت امور

انبیاء ( ع)کے معجزات کی خصوصیات

 نبوت کو ثابت کرنے کے را ستے۔

نبوت کے بنیادی مسائل میں سے ایک تیسرا  مسئلہ یہ ھے کہ سچے پیغمبروں کے د عوے کی صداقت اور جھوٹے نبیوں کے د عوے کا بطلان کیسے ثابت ھو؟

 اس امر میں کوئی شک نھیں ھے کہ اگر کوئی فرد گناھوں میں آلود ہ ھو، کہ جس کی قباحت کو عقل بھی بخوبی درک کرتی ھے، ایسا شخص کسی بھی صورت میں قابل اعتماد نھیں ھوسکتا، خصوصاً اُس وقت یہ اعتماد محال ھوجاتا ھے، کہ جب وہ عقل کے خلاف کسی امر کی طرف دعوت دنے یا اُس کی باتوں میں تناقض و اختلاف پایا جاتا ھو۔

اس کے علاوہ اس امر کا بھی امکان ھے کہ اس شخص کے گذشتہ حالات ایسے ھوں کہ بے غرض افراد  اس کی باتوں پر اعتماد کرلیں ،خصوصاً جب عقل بھی اُس کی باتوں کی تصدیق کر رھی ھو اور یہ بھی ممکن ھے کہ ایک فرد کی پیغمبری کسی دوسرے رسول کی پیشینگوئی کے ذریعہ ثابت ھوجائے اور وہ بھی اس طرح ثابت ھوجائے کہ حقیقت کے طلبگاروں کے لئے شک و تردید کا مقام باقی نہ رہ جائے۔

لیکن جب لوگوں کے پاس اطمینان بخش قرائن نہ ھوں، نیز اُن کے پاس کسی نبی کی بشارت یا تائید بھی موجود نہ ھو، تو انھیں نبوت کے اثبات کے لئے دوسر ے را ستے اختیار کرنے پڑ یں گے ، لہٰذا خدا نے اِس مشکل کو حل کرتے ھوئے اپنے رسولوں کو معجزے عطا کئے تاکہ یہ معجزے اُن کے د عوے کو ثابت کرنے میں اُن کی مدد کر یں اِسی وجہ سے اُنھیں آیات کے[1] نام سے یاد کیا گیا ھے۔

نتیجہ۔ کسی نبی کے د عوے کو ثابت کرنے کے لئے تین راستے ھیں۔

۱۔اطمینان بخش قرائن کے ذریعہ، لیکن یہ صرف ان نبیوں کے متعلق صحیح ھے جنھوں نے لوگوں کے درمیان سالھا سال زندگی گذاری ھو، اور ایک عظیم شخصیت کے مالک ھوں لیکن اگر کوئی نبی ایام جوانی یا   اپنی شخصیت کی پہچان سے پھلے وہ مبعوث بہ رسالت ھو جائے تو اُس نبی کے د عوے کو اس راہ کے ذریعہ ثابت نھیں کیا جاسکتا ۔

۲۔گذشتہ نبی نے، آنے والے نبی کی خبر دی ھو، یہ راستہ بھی انھیں لوگوں سے مخصوص ھے کہ جنھوں نے اُس سے پھلے کسی نبی کی معرفت حاصل کرلی ھو اور اس کی جانب سے آنے والے نبی کی تائید یا بشارت سنی ھو۔

۳۔ معجزہ، یہ راستہ نھایت مفید اور تمام مقامات پر مفید ھے، لہٰذ اس کے بارے میں مزید وضاحت پیش کرتے ھیں۔

معجزہ کی تعریف۔

معجزہ یعنی ایک ایسا غیر عادی عمل، جو ارادہ خداوند کے مطابق نبوت کا دعوی کرنے والے شخص کی جانب سے صادر ھو اور اُس کے دعوے کو ثابت کرے۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ یہ تعریف تین مطالب پر مشتمل ھے۔

الف: غیر عادی امور کا وجود ،جو عادی اسباب کے ذریعہ وجود میں نھیں آتے۔

 ب:  غیر عادی امور میں سے بعض ارادہ ٴ الٰھی اور اُس کی اجازت سے واقع ھوتے ھیں۔

ج: ایسے غیر عادی امور کسی پیغمبر کے دعوے کی صداقت کی علامت بن سکتے ھیں اسی وجہ سے اصطلاح  میںاس کو ”معجزہ“ کھا جاتا ھے۔

خارق عادت امور۔

جو موجودات بھی اس کائنات میں وجود میں آتے ھیں عموماً وہ سب کے سب کسی نہ کسی اسباب و علل کا نتیجہ ھوتے ھیں جنھیں آزمائشات کے ذریعہ پہچانا جا سکتا ھے جیسے کہ فیزیک، بیا لوجی ، کیمسٹری اور روحی علوم میں ترکیبات کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے موجودات کی جزئیات کا علم ھو جاتا ھے لیکن بعض نادر مواقع میں وجود میں آنے والے بعض موجودات کاوجود میں آنا، بالکل متفاوت ھوتا ھے، جس کے تمام اسباب و علل کو حسی آزمائشات کے ذریعہ معلوم نھیں کیا جاسکتا، بلکہ صرف کچھ ایسے شواھد مل جاتے ھیں کہ جو اس بات کی خبر دیتے ھیں کہ اس طرح کے موجودات کے پائے جانے میں کوئی دوسری علت کا ر فرما ھے ، جیسے کہ مرتاضوں (کے دریافت کرنے والوں) کے حیرت انگیز کام مختلف علوم کے ماھرین کا کھناھے کہ ایسے امور مادی اور تجربی قوانین کے تحت وجود میں نھیں آتے، لہٰذا اسے وہ ”خارق عادت “ کا نام دیتے ھیں۔

الٰھی خارق عادت امور۔

غیر عادی امور کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ھے خارق عادت امور کی ایک قسم، ایسے اسباب و علل پر مشتمل ھوتی ھے جو عادی تو نھیں لیکن بشر کے اختیار میں ضرور ھیں، جسے تعلیم اور تمرین کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ھے جیسے کہ مرتاضوں کے غیر عادی امور ، خارق عادت امور کی دوسری قسم: صرف اذن پروردگار سے واقع ھوتی ھے کہ جس کے اختیارات کبھی بھی اُن لوگوں کے سپرد نھیں کئے جاتے جواِس سے مر بو ط نہ ھوں، اِسی وجہ اس کی دو خصوصیات پیش کی گئی ھیں ،ایک تو یہ کہ ،یہ اس قابل نھیں کہ اس کو سیکھا اور سکھایا جا سکے،دوسرے یہ کہ کسی طاقت و قوت سے مرغوب نھیں ھوتے ، ایسے غیر عا دی امور اُس کے خاص بندوں سے مخصوص ھیں، جسے کبھی بھی ھوس باز اور گمرا ہ افراد کے سپردنھیںکیا جا سکتا، لیکن یہ صرف انبیاء ( ع)سے مخصوص نھیں ھے، بلکہ اولیاء الٰھی بھی اس سے سرفراز ھوتے ھیں ، اِسی وجہ سے علم کلام میں تمام خارق عادت امو ر کو معجزہ نھیں کھاجاتا ، لھذا وہ خارق عادت امور جو انبیاء (علیہم السلام)کے علاوہ اولیاء کرام سے صادر ھوتے ھیں انھیں کرامت کھا جاتا ھے، اِسی طرح غیر عادی علوم بھی وحی نبوت سے مخصوص نھیں ھیں، لہٰذا جب ایسے علوم  انبیاء( ع)کے علاوہ دوسروں کو عطا کئے جاتے ھیں تو اُسے الھام یا تحدیث یا انھیں جیسا دوسرا نا م دیا جاتا ھے۔

اس بحث کے ضمن میں خارق عادت امور (الٰھی اور غیر الٰھی)  دو نوعیت سے جانے جا سکتے ھیں ، یعنی اگر خارق عادت امور کو انجام دینا قابل تعلیم و تعلم ھوتا ،یا کسی دوسرے میں اتنی طاقت ھوتی کہ اِن کے  درمیان موانع یا خلل ایجاد کردے یا اِس کے اثر کو باطل کردے تو کسی بھی صورت میں یہ خدا کی جانب سے خارق العادہ امور کے حامل نھیں ھوسکتے تھے، جب کہ کسی شخص کی بد اخلاقی اور    تباہ کاری کو خدا سے رابطہ نہ ھونے کی دلیل اور اُس کے امور کے نفسانی یا شیطانی ھونے کو ثابت کیا جاسکتا ھے۔

اس مقام پر مناسب ھے کہ ایک دوسرے نکتہ کی طرف اشارہ کر دیا جائے کہ خارق العادہ

 امور کا فاعل، خدا کو قرار دیا جا سکتا ھے (اگر چہ تمام مخلوقات منجملہ عادی موجودات کی فاعلیت کی نسبت بھی اُسی کی طرف ھے) اس اعتبار سے اس کا محقق ھونا خدا کے اذن خاص پر موقوف ھے[2] اور اُنھیں واسطوں سے فرشتہ یا انبیاء (علیہم السلام)کی طرف نسبت دی جاسکتی ھے اِس لحاظ سے اس کی حثیت یا واسطہ یا فاعل قریب کی ھے ، جس طرح سے کہ قرآن میں مردوں کو زندہ کرنا، بیماروں کو شفاء دینا اور پرندوں کے خلق کرنے کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف نسبت دی گئی ھے،[3] لہٰذا اِن دونوں نسبتوں کے درمیان کوئی تضاد نھیں ھے اس لئے کہ خدا کی فاعلیت بندوں کی فاعلیت کے طول میں ھے۔

انبیاء  (علیہم السلام)کے معجزات کی خصوصیات۔

معجزہ کی تعریف میں جس تیسرے مطلب کی طرف اشارہ ھوا ھے وہ یہ ھے کہ انبیاء ( ع)کے معجزے ان کے د عوے کے صحیح ھونے کی علامت ھیں، اِسی وجہ سے جب کسی خارق عادت امر کہ جسے علم کلام میں معجزہ کھا جاتا ھے خدا کی اجازت پر منحصر ھونے کے علاوہ پیغمبرں کی پیغمبری کی دلیل ھوتے ھوئے اُس کے مفھوم میں معمولی تبدیلی کے ساتھ اُن خارق عادت امور کو بھی شامل ھوجاتا ھے جسے امامت کو ثابت کرنے کے لئے انجام دیا جاتا ھے، اور اِس طرح کرامت کی اصطلاح اُن خارق عادت امور سے مخصوص ھوجاتی ھے جو اوصیاءِ الٰھی سے صادر ھوتے ھیں، جو ایسے غیر عادی امور کے مقابلہ میں ھے جس کا انحصار نفس اورشیطان پر ھو جیسے سحر، کھانت اور مرتاضوں کے افعال ،یہ قسم قابل

 تعلیم و تعلم ھے اور طاقتور عوامل کے مقابلہ میں مغلوب بھی ھوسکتے ھے اور اُ س کا خدا کی جانب سے نہ ھونے کے سبب  اُن کے انجام دینے والوں کو گنھگار اور فاسد عقیدے سے تعبیر کیا جاسکتا ھے ۔

اس مقام پر جس نکتہ کی طرف توجہ لازم ھے وہ یہ ھے کہ انبیاء( ع)کے معجزات جس چیز کو براہ

 راست ثابت کرتے ھیں، وہ  انبیاء  (علیہم السلام)کی نبوت کا دعوی ھے ، لیکن رسالت کے پیغامات کا صحیح ھونا اور اُن کے احکامات کی پیروی کرنا بھی براہ راست اس سے ثابت ھوجاتا ھے، یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق انبیاء علیھم السلام کی نبوت عقلی دلیل اور اُن کے پیغامات تعبدی دلائل کے ذریعہ ثابت ھوتے ھیں۔[4]

سوالات

 ۱۔ سچے پیغمبروں کو کن راستوں سے پہچانا جاسکتا ھے اور ان راستوں میں کیا فرق ھے؟

۲۔ جھوٹے نبیوں کی پہچان کیا ھے؟

۳۔ معجزہ کی تعریف کریں؟

۴۔ خارق لعادت امور کیا ھیں۔؟

۵۔ الٰھی خارق العادہ امور اور غیر الٰھی خارق العادہ امور میں کیا فرق ھے؟

 ۶۔ الٰھی خارق عادت امور کو کن راھوں سے ثابت کیا جاسکتا ھے؟

 ۷۔ الٰھی خارق عادت امور کے درمیان انبیاء (علیہم السلام)کے معجزات کی خصوصیات کیا ھیں؟

۸۔ معجزہ اور کرامت کی اصطلاح کو بیان کریں؟

 ۹۔ معجزہ خدا کا کام ھے یا رسول( ص)کا؟

 ۱۰۔ معجزہ پیغمبروں کے سچے ھونے کی دلیل ھے یا اُن کے پیغامات کے صحیح ھونے کی؟

چند شبھات کا حل

کیا اعجاز اصل علیت کے لئے ناقض نھیں ھے؟

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ھے۔

کیا خارق عادت امور سنت الٰھی میں تغیر ایجاد کرنے کے مترادف نھیں ھیں؟

کیوں رسول اکرم( ص) معجزات پیش کرنے سے خودداری فرماتے تھے؟

کیا معجزات برھان عقلی ھیں یا دلیل اقناعی؟

چند شبھات کا حل۔

مسئلہ اعجاز کے سلسلہ میں چند شبھات ھیں کہ جن کے جوابات اِس درس میں دئے جائیں گے۔

 پھلا شبہ یہ ھے کہ ھمیشہ مادی موجودات کا وجود میں آنا ،کسی خاص علت کی بنیاد پر ھوتا ھے کہ جنھیں علمی آزمائشات کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ھے، اور کسی موجود کی علتوں کا نا شناختہ رہ جانا، اس موجود کے لئے علت نہ ھونے پر دلیل نھیں ھے، لہٰذا خارق عادت امور کو اِس عنوان سے قبول کیا جاسکتا ھے ،کہ وہ ناشناختہ علل و عوامل کے ذریعہ وجود میں آئے ھیں، اور جب تک ان امور کے علل و اسباب  نا شناختہ ھیں اس وقت تک انھیں حیرت انگیز امور میں شمار کیا جاسکتا ھے، لیکن قابل شناخت علتوں کا انکار علمی آزمائشوں کے ذریعہ اصل علیت کے نقض کے معنی میں ھے اور غیر قابل قبول ھے۔

اِس شبہ کا جوا ب  یہ ھے کہ اصل علیت کا صرف تقاضا یہ ھے کہ کسی بھی وابستہ موجود ، یا معلول کے لئے علت کا ھونا ضروری ھے، لیکن تمام علتوں کا آزمائشوں کے ذریعہ قابل شناخت ھونا کسی بھی صورت میں اصل علیت کا لازمہ نھیں ھے اور اس لازمہ کے لئے کوئی دلیل بھی نھیں ھے اس لئے کہ علمی آزمائش امور طبیعی میں محدود ھیں، اور کسی بھی صورت میں ماوراء طبعیت امورکے وجود ، یا عدم یا اُ س کی اثر گذاری کو آزمائش و سیلئہ کے ذریعہ ثابت نھیں کیا جاسکتا۔

لیکن اعجاز کی تفسیر ناشناختہ علتوں سے آگاھی کے معنی میں صحیح نھیں ھے، اس لئے کہ اگر یہ آگاھی عادی علتوں کے ذریعہ حاصل ھوئی ھو تو اِس میں اور بقیہ عادی موجودات میں کوئی فرق نھیں ھونا چاھیے اور کسی بھی صورت میں اُسے خارق عادت امر نھیں کھا جا سکتا، اور اگر آگاھی غیر عادی طریقہ سے حاصل ھوئی ھو تو اُسے خارق عادت امور میں سے شمار کیا جائے ، لیکن جب وہ اذن الٰھی پر منحصر اور نبوت کی دلیل ھو تو معجزہ کی قسموں میں شامل ھے، جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لوگوں کے ذ خائر اور خوراک سے آگاھی آپ کے معجزات میں سے تھا[5] لیکن معجزہ کو صرف اِسی ایک قسم میں منحصر نھیں کیا جاسکتا، اس اعتبار سے کہ بقیہ اقسام کی نفی کردی جائے لیکن پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی ھے کہ ایسے امور اور بقیہ خارق عاد ت امور میں اصل علیت کے اعتبار سے فرق کیا ھے؟

دوسرا شبہ یہ ھے کہ خدا کی ھمیشہ یہ سنت رھی ھے کہ وہ کسی بھی موجود کو کسی خاص علت کے سھارے وجود میں لاتا ھے، اور قرآن کی آیتوں کے مطابق سنت الٰھی قابل تغیر نھیں ھے۔[6]

لہٰذا خارق عادت امور سنت الٰھی میں تغیر و تبدل کا سبب بنیں ، مذکورہ آیتوں کی بنیاد پر یہ  بات غیر قابل قبول ھے؟

یہ شبہ بھی گذشتہ شبہ سے مشابہ ھے بس فرق اتنا ھے کہ گذشتہ شبہ میں عقلی دلائل استعمال ھوئے تھے اور اس شبہ میں قرآنی آیت کا سھارا لیا گیا ھے اس شبہ کا جواب یہ ھے کہ موجودات کے علل و اسباب کو عادی علل و اسباب میں منحصر سمجھنے کو تغیر ناپذیر سنت الٰھی کا جز سمجھنا بے بنیاد بات ھے، اس کی مثال ایسی ھی ھے ، جیسے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ علت حرارت کا آگ میں منحصر ھونا خدا کی تغیر ناپذیر، سنتوں میں سے ھے، اِیسے د عووں کے مقابلہ میں یہ کھا جا سکتا ھے کہ مختلف معلولات کے لئے مختلف علتوں اور اسباب عادی کے لئے غیر عادی اسباب کا جمع ھونا ایک ایسا امر ھے جو ھمیشہ دیکھا گیا ھے

 اور اس وجہ سے ُاسے سنت الٰھی کا جزء شمار کرنا چاھیے اور اسباب کے عادی اسباب میں منحصر ھونے کو اُس کے لئے ایک قسم کا تغیر سمجھنا چاھیے کہ کی قرآن نے نفی کی ھے۔

بھر حال ان آیتوں کی تفسیر کرنا جو سنت الٰھی کے تغیر ناپذیر ھونے پر دلالت کرتی ھیں، اس ’صورت میں کہ عادی اسباب کا جانشین قبول نہ کرنا اس عنوان کے تحت ھے کہ وہ خدا کی تغیر ناپذیر سنتوں میں ھے ایک بے بنیاد تفسیر ھے، بلکہ بہت سی وہ آیا ت جو معجزات اور خارق عادت امور کے ھونے پر دلالت کرتی ھیں،‘ اس تفسیر کے باطل ھونے کے لئے ایک محکم دلیل ، بلکہ اُن آیتوں کی صحیح تفسیر کو تفسیر کی کتابوں میں تلاش کرنا ھوگا اور ھم اس مقام پر صرف ایک اجمالی اشارہ کریں گے کہ یہ آیات ،معلول کی اپنی علت سے مخالفت نہ کرے پر دلالت کرتی ھیں نہ یہ کہ علتوں کا متعدد ھونا یا علت عادی کی جگہ علت غیر عاد ی کے آ جانے کی نفی کرتی ھیں بلکہ شاید یہ کھا جا سکتا ھے کہ تاحد یقین اسباب کی تاٴثیر اور غیر عادی علل ان آیتوں کے موارد میں سے ھیں۔

 تیسرا شبہ یہ ھے کہ قرآن کے مطابق لوگ بارھا رسول اکرم( ص) سے معجزہ کی درخواست کرتے تھے اور آنحضرت ایسی خواھشوں کے جواب سے خودداری فرماتے تھے[7]لہذا اگر معجزہ نبوت کو ثابت کرنے کا وسیلہ ھے تو پھر کیوں آنحضرت( ص) اس وسیلہ کے استعمال سے خودداری فرماتے تھے؟

اس شبہ کا جواب یہ ھے کہ ایسی آیتیں ان درخواستوں سے مربوط ھیں جو اتمام حجت اور ( ضحیح قرائن صدق، گذشتہ انبیاء ( ع)کی بشارتیں، اورمعجزات کے ذریعہ آپ کی نبوت کے اثبات کے بعد) ضد اور عناد کی وجہ سے کی جاتی تھیں[8] اورحکمت الٰھی کا تقاضا یہ تھا کہ ایسی خواھشو ں کا جواب نہ دیا جائے۔

 مزید وضاحت: معجزہ اِس جھان میںموجوہ نظام کے درمیان ایک علیحدہ مسئلہ ھے جسے لوگوں کی خواھشوں کو پورا کرے (جیسے ناقہٴ حضرت صالح   (علیہ السلام) ) اور کبھی بطور ابتدائی (جیسے حضرت عیسی (ع)  کے معجزات) انجام دیا جاتا تھا، لیکن اس کا ھدف خدا کے انبیاء( ع)کو پہچنوانا اور لوگوں پر حجت کو تمام کرنا تھا، لہٰذا معجزہ کا پیش کرنارسولوں کی دعوتوں کو جبراً قبول کرنے اور اُن کے احکامات کے سامنے مجبوراً تسلیم ھوجانے کے لئے نھیں تھا اور نہ ھی وقت گذارنے کے لئے ایک کھیل اور عادی اسباب و مسببات میں ھنگامہ ایجاد کرنے کے لئے تھا، اور ایسے ھدف کے ھوتے ھوئے ایسی خواھشوں کا جواب کبھی نھیں دیا  جا سکتا، بلکہ ایسی خواھشوںکاجواب دینا حکمت کے خلاف ھوگا، یہ خواھشیں ان درخواستوں سے مشابہ ھیں کہ جو ایسے امور سے مربوط تھیں کہ جس کی وجہ سے راہ اختیار ختم ھوجاتا، اور لوگوںکو  انبیا ء علیھم السلام کی دعوت قبول کرنے کے لئے مجبور ھونا پڑتا، یا ان درخواستوں کی طرح ھیں کہ جنھیں عناد اور دشمنی یا حقیقت طلبی کے علاوہ کسی دوسرے اغراض کے تحت پیش کئے کرتے تھے، اس لئے کہ ایسی درخواستوں کا جواب دینے کی وجہ سے معجزات کھلونا بن جاتے اور عوام اُسے اپنے لئے وقت گزارنے کا بہترین وسیلہ تصور کرلیتی، یا اپنے شخصی منافع حاصل کرنے کے لئے رسول( ص) کے پاس جمع ھوجاتی، اور دوسری طرف آزادانہ اختیار،و انتخاب کا راستہ بند ھوجاتا، اس کے علاوہ لوگ مجبور ھو کر انبیاء علیھم السلام کی اطاعت قبول کرتے، اور یہ دونوں صورتیں معجزات کے پیش کرنے کی حکمت کے خلاف ھیں، لیکن ان مقامات کے علاوہ جھان حکمت الٰھی کا تقاضا ھو،وھاں ان کی خواھشوں کا جواب دے دیا جاتا تھا جیسا کہ رسول اکرم( ص)کے بے شمار معجزات قطعی سند کے ساتھ ثابت ھیں، جن میں ھر ایک سے واضح اور جاودانی قرآن کریم ھے کہ جس کی وضاحت انشاء اللہ آئندہ آئے گی۔

چوتھا شبہ یہ ھے کہ معجزہ چونکہ اذن الٰھی پر منحصر ھے جو اس بات کی علامت ھوسکتا ھے کہ خدا اور معجزہ دکھانے والے کے درمیان خاص ارتباط پایا جاتا ھے اس لئے کہ اُسے خدا نے یہ خاص اجازت عنایت کی ھے، یا ایک دوسر ی تعبیر کے مطابق اس نبی نے اپنی خواھش اور عمل کو اُس کے ارادہ  کے ذریعہ تحقق بخشا ھے، لیکن ایسے ارتباطات کا عقلی لازمہ یہ نھیں ھے کہ اُس میں اور خدا کے درمیان اُس ارتباط کے علاوہ دوسرے ارتباطات بھی پائے جاتے ھوںلہذا معجزہ کو د عوی نبوت کے صحیح ھونے پر دلیل عقلی نھیں مانا جاسکتا، بلکہ اُسے صرف ایک ظنی اور قانع کردینے والی دلیل کا نام دیا جاسکتا ھے۔

اس شبہ کا جواب یہ ھے کہ خارق عادت امور اگرچہ الٰھی کیوں نہ ھوں، خود بخود رابطہ وحی کے ھونے پر دلالت نھیں کرتے اِسی وجہ سے اولیاء علیھم السلام کی کرامت کو اُن کے نبی ھونے کی دلیل نھیں مانی جاسکتی لیکن یھاں بحث اس شخص کے سلسلہ میں ھے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ھے اور اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے معجزہ دکھایا ھے اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ھے[9]، جو عظیم اور بدترین گناھوں میں سے ھونے کے علا وہ دنیا و آخرت میں تباھی کا موجب بھی ھے، اُس میں ھرگز خداُ سے ایسے ارتباط کے برقرار ھونے کی صلاحیت نھیں ھوسکتی، اور خدا کبھی بھی ایسے فرد کو معجزہ کی قدرت عطا نھیں کرسکتا کہ جس کی وجہ سے لوگ گمراہ اور بدبخت ھوجائیں[10]

نتیجہ: عقل بخوبی درک کرتی ھے کہ صرف وھی شخص خدا سے خاص ارتباط برقرار کرنے اور معجزہ کی قدرت سے سرفراز ھونے کی صلاحیت رکھتا ھے کہ جو اپنے مولا سے  خیانت نہ کرے اور ا سکے بندوں کی گمراھی اور بدبختی کا موجب نہ بنے، لہٰذا معجزہ کا پیش کرنا د عوای نبوت کے صحیح ھونے پر ایک قاطعِ دلیل عقلی ھے۔

سوالات

۱۔ اصل علیت کا مطلب کیا ھے؟ اور اسکا لازمہ کیا ھے؟

۲۔ کیوں اصل علیت کو مان لینا اعجاز کوقبول کرنے کے خلاف نھیں ھے؟

۳۔ کیوں اعجاز کی تفسیر ناشناختہ علتوں سے آگاھی کے معنی میں صحیح نھیں ھے؟

۴۔ کیا اعجاز کو قبول کرلینا تغیر ناپذیر سنت الٰھی کے خلاف نھیں ھے؟ کیوں؟

۵۔ کیاانبیاء علیھم السلام ابتداء امر میں معجزات پیش کرتے تھے یا جب لوگوںکی طرف سے درخواست ھوئی تو اس وقت اپنا معجزہ پیش کرتے تھے؟

۶۔ کیوں  انبیا ء علیھم السلام معجزہ کے حوالے سے بعض خواھشوں کا جوا ب نھیںدیتے تھے؟

۷۔ اس امر کی وضاحت کریں کہ معجزہ ایک دلیل ظنی اور اقناعی نھیں ھے بلکہ ادعاء نبوت کے سچے ھونے پر ایک عقلی دلیل ھے؟

 

انبیاء علیھم السلام کی خصوصیات

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ھے 

انبیاء علیھم السلام کی کثرت

انبیاء علیھم السلام کی تعداد

 نبوت و رسالت

اولو العزم انبیاء علیھم السلام

چند نکات

انبیاء علیھم السلام کی کثرت۔

اب تک ھم نے مسائل نبوت میںسے تین مسئلہ کے تحت بحث کی ھے اور اس نتیجہ پر پھنچے ھیں کہ دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرنے میں اُن معلومات کا بنیادی نقش ھے کہ جنھیں معلوم کرنے میں علومِ بشری ناکافی ھیں، اس مشکل کے تحت حکمت الٰھی کا تقاضایہ ھے کہ انبیاء علیھم السلام کا سلسلہ جاری رکھے اور انھیں ضروری حقائق کی تعلیم دے تا کہ وہ انھیں صحیح و سالم تمام انسانوں تک پھنچادیں، اس کے علاوہ ا سے لوگوں کے سامنے اس طرح بیان کر ے کہ اُن پر حجت تمام ھوجائے اس مقصد تک پھنچنے کے لئے سب سے عمومی راستہ معجزہ ھے۔

ھم نے اِن مطالب کو عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کیا ،لیکن یہ دلائل انبیاء علیھم السلام کے متعدد ھونے اور آسمانی کتابوں کے متعدد ھونے کو ثابت نھیں کرسکتے، اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ بشری زندگی اس طرح ھوتی کہ ایک ھی رسول اُس کی ضرورتوں کو کائنا ت کے ختم ھونے تک اِس طرح پورا کردیتا کہ ھر فرد اور گروہ اُسی ایک رسول کے ذریعہ پیام اسلام کو اخذ کرتا تو یہ امر اُن دلائل کے  تقاضے کے خلاف نہ ھوتا۔

لیکن ھمیںمعلوم ھے کہپھلے یہ کہ ، ھر انسان کی عمر خواہ نبی ھو یا غیر نبی محدود ھے لہٰذا حکمت الٰھی کا تقاضا یہ نھیں ھے کہ ایک ھی رسول جھان کے ختم ھونے تک زندہ رھے اور خود ھی تمام انسانوںکی ھدایت کا فریضہ انجام دے۔

دوسرے یہ کہ :   بشر کی زندگی مختلف حالات اور ادوار میں کبھی بھی ایک جیسی نھیں رہتی لہٰذا شرائط کا مختلف او ر متغیر ھوتے رھنا خصوصاً روابط اجتماعی کا پیچیدہ ھونا احکام اور اجتماعی قوانین کے درمیان میں اثر ا نداز ھے، بلکہ بعض حالات میںجدید قوانین کی ضرورت ھوتی ھے، لہذا اگر یہ  قوانین اسی رسول کے ذریعہ بیان ھوتے جو ہزاروں سال پھلے مبعوث ھوئے تھے تو یہ ایک غیر مفید امر ھوتا اور انھیں ان کے مقامات پر جاری کرنا اور ھی زیادہ سخت ھوتا۔

تیسرے یہ کہ : اکثر زمانوں میں مبعوث ھونے وا لے رسولوں کو اپنی تبلیغ کے لئے حالات اور شرائط ایسے نھیںتھے جو اپنے پیغام کو تمام انسانوں تک پھنچا سکتے۔

 چوتھے یہ کہ :جب بھی ایک رسول کسی قوم کی جانب مبعوث ھوتا تھا تو اس کی تعلیمات کو زمانہ کے گذرنے کے ساتھ بدل دیا جاتا اور ا ُس میں تحریف کردی جاتی تھی[11] اورآھستہ آھستہ ایک رسول کا لایا ھوا دین انحراف کا شکار ھوجاتا تھا، جس طرح کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جس دین کی طرف لوگوں کو دعوت دی تھی وھی دین ان کے بعد انحراف سے دو چار ھوگیا اور تثلیث جیسے عقائد اُس دین کے جزبن گئے۔

ان نکات کے پیش نظر انبیاء علیھم السلام کا متعدد ھونا اور شریعتوں کا بدلتے رھنا اور بعض احکامات میں اختلافات کا راز سمجھ میں آجاتا ھے،[12] لیکن ان سب شر یعتوں میں اصول عقائد اور مبانی اخلاقی کے اعتبار سے فردی و اجتماعی احکامات میں ھماھنگی تھی مثلاً نماز تمام شریعتوں میں تھی     اگر چہ ان نمازوں کی کیفیت متفاوت اور ان کے قبلہ مختلف تھے یا زکوٰة اور صدقہ دینا تمام شریعتوں میں تھا اگر چہ اس کی مقدار میں اختلاف تھا۔

بھر حال تمام رسولوں پر ایمان لانا اور نبوت کی تصدیق کے ساتھ اُن میں کسی فرق کے قائل نہ ھونا نیز اُن پر نازل ھونے والے تمام پیغامات اور معارف کو قبول کرنا  نیز اس علاوہ ان میں یکسانیت کا قائل ھونا ھر انسان پر لازم ھے،[13] ایک نبی کا ا نکار تمام انبیاء علیھم السلام کے انکار کے برابر اور کسی ایک حکم کا منکر ھونا تمام احکامات الٰھیہ کے منکر ھونے کے مساوی ھے[14] البتہ کسی بھی اُمت کے لئے کسی بھی زمانہ میں اسی دور کے نبی کے احکامات کے مطابق وظائف معین ھوتے رھے ھیں ۔

جس نکتہ کی طرف یھاں پر اشارہ کرنا لازم ھے وہ یہ ھے کہ اگر چہ عقل ،مذکورہ نکات کے کے تحت انبیا ء علیھم السلام اور شریعتوں کے متعدد ھونے کے راز کو معلوم کر سکتی ھے لیکن اصل راز کا پتہ نھیں لگا سکتی ،کہ کیوں؟ کب؟ کیسے؟ کسی دوسرے نبی کی بعثت یا کسی جدید شریعت کی ضرورت ھے ، فقط اس حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ھے کہ جب بھی بشر کی زندگی اس طرح ھو، کہ ایک نبی کے پیغامات تمام انسانوں تک پھنچ سکیں اور اس کے پیغامات آنے والوں کے لئے محفوظ رہ جائیں، نیز اجتماعی شرائط اس طرح متغیر نہ ھوں، کہ کسی جدید شریعت یا احکامات کلی میں تبدیلی کی ضرورت پڑے، تو ان حالات میں کسی جدید نبی کی بعثت کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔

انبیاء علیھم السلام کی تعداد۔

جیسا کہ ھم نے پھلے اشارہ کردیا ھے کہ ھماری عقل انبیاء علیھم السلام اور آسمانی کتابوں کی تعداد کا اندازہ نھیں لگا سکتی ، بلکہ اُسے صرف نقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ھے اور قرآن کریم میں اگر چہ یہ خبر موجود ھے کہ ھر اُمت کے لئے ایک نبی ضرور مبعوث ھوا ھے[15] لیکن اِ س کے باوجود قرآن نے اُن کی تعداد کو معین نھیں کیا ھے بلکہ اُن میں سے صرف ۲۴/ رسولوں کا نام آیا ھے اور اُن میں سے بھی بعض رسولوں کی داستانوں کی طرف فقط اشارہ کیا گیا ھے اِس کے علاوہ اُن میں بھی بعض

 نبیوں کے اسماء ذکر نھیں کئے گئے،[16] لیکن معصومین علیھم السلام کی طرف سے منقول روایتوں کے مطابق خدا نے ایک لاکھ چوبیس ہزار  نبیوں کو مبعوث کیا ھے[17] جن کا سلسلہ حضرت آدم ابوالبشر علیہ السلام سے شروع اور حضرت محمد( ص) پر ختم ھوتاھے۔

خدا کی طرف سے بھیجے گئے رسول ،نبی ھونے کے علاوہ  نذیر، منذر، بشیر، مبشر[18] جیسے صفات کے بھی حامل تھے نیز صالحین و مخلصین میں اُن کا شمار ھوتا تھا ،اور ان میں سے بعض منصب رسالت پر بھی فائز تھے بلکہ بعض روایتوں کے مطابق منصب رسالت پر فائز نبیوں کی تعداد ( تین سو تیرہ) ذکر کی گئی ھے۔[19]اسی وجہ سے اس مقام پر مفھوم نبوت وامامت اورنبی و رسول کے درمیان فرق کو بیان کر ر ھے ھیں ۔

نبوت اور رسالت۔

کلمہ ”رسول“ پیغام لانے والے کے معنی میں ھے اور کلمہٴ ”نبی“ اگر مادہٴ ” نباء سے ھے تو اھم خبر کے مالک ، اور اگر مادہ ,,نبو ،، سے ھے تو بلند و بالا مقام  والے کے ھیں ۔

بعض لوگوں کا گمان ھے کہ کلمہ نبی کلمہ رسول (ص)  سے اعم ھے یعنی نبی وہ ھے کہ جس کی طرف خدا کی جانب سے وحی کا نزول ھو اور اُسے لوگوں تک پھنچانے میں وہ مختار ھے لیکن رسول (ص)  وہ ھے کہ جس پر وحی کو لوگوں تک پھنچانا ضروری ھے۔

لیکن یہ صحیح نھیں ھے اس لئے کہ قرآن میں بعض مقامات پر نبی کی صفت رسول کی صفت کے بعد مذ کو ر ھے[20] حالانکہ قاعدہ کے مطابق جو چیز عام ھو اسے خاص سے پھلے ذکر ھونا چاھیے اس کے علاوہ رسول( ص) کے لئے ابلاغ وحی کے لئے وجوب پر کوئی دلیل بھی نھیں ھے۔

بعض روایتوں میں وارد ھو اھے کہ مقام نبوت کا تقاضا یہ ھے کہ نبی فرشتہ وحی کو خواب میں مشاھدہ کرتا ھے اور بیداری میں صرف اس کی آواز سنتا ھے جبکہ مقام رسالت کا حامل شخص بیداری میں فرشتہ وحی کو مشاھدہ کرتا ھے۔[21]

لیکن اس فرق کو مفھوم لفظ کو مد نظر رکھتے ھوئے قبول نھیں کیا جا سکتا ، بھر حال جس مطلب کو قبول کیا جا سکتا ھے وہ یہ ھے کہ ”  نبی“ مصداق کی رو سے (نہ مفھوم کے لحاظ سے) رسول، سے عا م ھے، یعنی تمام ر سول مقام نبوت سے سرفراز تھے لیکن مقام رسالت صرف کچھ خاص انبیاء علیھم السلام سے مخصوص تھا جن کی تعداد ( ۳۱۳) ھے، بس رسولوں کا مقام نبیوں کے مقابلہ میں بلند ھے جیسا کہ خود ،تمام ر سو ل فضیلت کے اعتبار سے ایک جیسے نھیں تھے[22] بلکہ ان میں سے بعض مقام امامت سے بھی سزاوار تھے۔[23]

(۳)/۳۵۳/ سورہٴ  بنی اسرائیل۔آیت/۵۵   

اولوالعزم انبیاء علیھم السلام۔

قرآن کریم نے بعض رسولو ں کو اولوالعزم کے نام سے یاد کیا ھے لیکن اُن حضرات کی خصوصیات کو بیان نھیں کیا ھے: روایتوں کے مطابق اولوالعزم پیغمبروں کی تعداد پانچ ھے [24] حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراھیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، اور حضرت محمد مصطفیٰ( ص) [25] قرآن کے بیان کے مطابق اِن حضرات کی خصوصیات صبر و استقامت میں ممتاز ھونے کے علاوہ اُن میں سے ھر ایک مستقل کتاب اور شریعت کے مالک تھے نیز ھم عصر اور متاٴخر انبیاء علیھم السلام، اُن کی شریعتوں کی اتباع کرتے تھے مگر یہ کہ، کوئی دوسرا اولوالعزم رسول مبعوث ھو اورگذشتہ شریعت منسوخ ھوجائے اِسی ضمن میں یہ امر بھی روشن ھوگیا کہ ایک زمانہ میں دو ،  پیغمبر اکٹھا ھو سکتے ھیں جیسا کہ حضرت لوط علیہ السلام جناب ابراھیم علیہ السلام کے ھم عصر، اور حضرت ھارون (علیہ السلام) جناب موسیٰ علیہ السلام ، کے ھم عصر اور حضرت یحییٰ علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ھم وقت ، ھم زمان  تھے۔

چند نکات۔

اس درس کے آخر میں مسئلہ نبوت کے تحت فھرست وارچند نکات کی طرف اشارہ کرتے ھیں۔

الف: ھر نبی دوسرے نبی کی تصدیق اور اُس کے آنے کی پیشنگوئی کرتا تھا[26] لہذا اگر کسی نبوت کا دعویٰ اور ھم عصر نبیوں یا گزشتہ رسولوں کی تکذیب کرے تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ھے۔

ب:  انبیاء علیھم السلام اپنی تبلیغ کی وجہ سے لوگوں سے اجر طلب نھیں کرتے تھے [27] فقط رسول اکرم( ص) نے اجر رسالت کے عنوان سے اھل بیت علیھم السلام کی مودّت کی وصیت فرمائی تھی[28] جس کی منفعت خود اُمت کے حق میں ھے[29]۔

ج: بعض انبیاء علیھم السلام منصب الٰھی کے مالک ھونے کے علاوہ قضاوت اور حکومت کے حق سے بھی سرفراز تھے جن میں سے حضرت داود ، اور حضرت سلیمان علیھما السلام کا نام لیا جا سکتا ھے سورہ نساء کی ۶۵ آیت سے استدلال ھوتا ھے کہ ھر رسول کی اطاعت مطلقاً  واجب ھے، اس کا مطلب یہ ھے کہ تمام  رسول إس مقام کے مالک تھے۔

د: جن، جو مکلف اور مختار مخلوقات میں سے ھیں اور عادی حالات میں انسان کے لئے قابل  دید نھیں ھیں، بعض انبیاء علیھم السلام کی دعوتوں سے باخبر ھوتے تھے اور اُن میں صالح افراد اُن کی دعوتوں پر ایمان بھی لائے تھے، اُن لوگوں کے درمیان حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت رسول اکرم( ص) کے پیرو موجود ھیں[30] اور ان میں سے بعض ابلیس کی پیروی کرتے ھوئے انبیاء علیھم السلام کی تکذیب بھی کرتے ھیں۔[31]

سوالات

۱۔  انبیاء علیھم السلام کے متعدد ھونے کی حکمت بیان کریں؟

۲۔  انبیاء علیھم السلام کی دعوتیں اور ان کے احکامات ے مقابل میں لوگوں کا وظیفہ کیا ھے؟

۳۔ کس صورت میں جدید نبی کو مبعوث کرنے کی ضرورت نھیں ھے؟

۴۔ انبیا ء اورر سولوں کی تعداد بیان کریں؟

۵۔ نبی اور رسول میں کیا فرق ھے اور مفھوم و مصداق کے اعتبار سے ان دونوں میں کیا فرق ھے؟

۶۔انبیاء علیھم السلام کو منصب الٰھی کی رو سے ایک دوسرے پر کیسے برتری حاصل ھے؟

۷۔ اولو العزم رسول کون ھیں؟ اور ان کی خصوصیات کیا ھیں؟

۸۔ کیا زمانِ واحد میں پیغمبروں کا متعدد ھونا ممکن ھے؟ اور ممکن ھونے کی صورت میں کسی ایک نمونہ کو بیان کریں؟

۹۔  انبیاء علیھم السلام کے اوصاف میں سے آپ کو مذکورہ اوصاف کے علاوہ اگر یاد ھوں تو ذکر کریں؟

۱۰۔ جنات کا طرز عمل، ایمان اور کفر کے لحاظ سے انبیاء علیھم السلام کی بہ نسبت کیسا ھیں؟

 

انبیاء علیھم السلام اور عوام

مقدمہ

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ھے ۔

انبیاء علیھم السلام کے مقابلہ میں لوگوں کا کردار

انبیاء علیھم السلام سے مخالفت کے اسباب

انبیاء علیھم السلام سے ملنے کا طریقہ

 انسانی معاشروں کی تدبیر میں بعض سنت الٰھی

مقدمہ

قرآن مجید جھاں گذشتہ انبیاء علیھم السلام کی داستانوں کو ذکر کرتا ھے اور ان کی درخشاں زندگی کے ھرھرگوشہ کی تفصیل بیان کرتا ھے اور اُن کی تاریخ میں موجود تحریفات کے پردے فاش کرتا ھے وھیں انبیاء علیھم السلام کی تبلیغات کے مقابلہ میں لوگوں کے ردّ عمل کی طرف بھی توجہ دلاتا ھے ایک طرف انبیا ء الٰھی علیھم السلام کے مقابلہ میں لوگوں کی مخالفتوں نیز ان کی مخالفت کے اسباب و علل کو بیان کرتا ھے اور دوسری طرف انبیاء علیھم السلام کا لوگوں کو ھدایت اور تربیت کرنے کے علاوہ کفر و شرک جیسے عوامل سے بر سر پیکار ھونے کی طرف بھی اشارہ کرتا ھے نیز انسانی معاشروں میں جاری سنت الٰھی خصوصا انبیاء علیھم السلام اور لوگوں کے درمیان ارتباط کی طرف توجہ دلاتا ھے کہ جس میں عبرت آموز نکات پوشیدہ ھیں۔

یہ مباحث اگر چہ براہ راست اعتقادی مسائل سے مربوط نھیں ھوتی لیکن چونکہ مسائل نبوت سے مربوط بہت سارے روشن پھلو ، مختلفابھامات سے پردہ ہٹانے کے علاوہ تاریخ کے وادثات سے عبرت حاصل کرنے اور انسانی زندگی کو سنوار نے میں نھایت اھم رول ادا کرتے ھیں اسی وجہ سے اس درس میں جو مھم نکات ھیں ان کی طرف اشارہ کیا جا رھا ھے۔

انبیاء علیھم السلام کے مقابل میں لوگوں کا کردار۔

جب بھی انبیاء الٰھی علیھم السلام قیام کرتے اور لوگوں کو خدئے ا واحد[32]اور اس کے احکامات کی اطاعت کرنے نیز باطل خداؤں کی پرستش سے بیزاری، شیاطین اور طاغوت سے کنارہ کشی، ظلم و فساد، گناہ اور معصیت سے پرھیز کرنے کے لئے دعوت دیتے تھے تو انھیں عموماً لوگوں کی مخا لفتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا [33] مخصوصاً معاشرہ کے وہ افراد جو حاکم اور مالدار ھونے کی وجہ سے اپنے عیش و نوش[34] میں مست ،علم و دانش[35] مال و  ثروت کی فراوانی پر مغرور تھے، وہ شدت سے مقابلہ کرتے تھے فقیر طبقات کی ایک بڑی جماعت کواپنا حامی بناکر لوگوں کو راہ حق کی پیروی سے روکتے تھے[36] اور اس طرح صرف وھی لوگ ایمان لاتے تھے جو معاشرہ کے پچھڑے ھوئے طبقہ سے تعلق رکھتے تھے [37] اور بہت کم ایسا ھوتا تھا کہ ایک سماج صحیح و سالم عقائد اور عدل کی بنیادوں پر قائم ھونے کے ساتھ احکامات الٰھیہ کا مطیع ھوتا جیسا کہ حضرت سلیمان  علیہ السلام کے دور میں ایسا سماج دیکھنے میں آیا، اگر چہ انبیاء علیھم السلام کی تعلیما ت کا ایک حصہ آھستہ آھستہ ضرور سماج میں نفوذ کرجاتا تھا، یا کبھی حاکمان وقت کی طرف ان کی جھوٹی عظمتوں کو بتانے کے لئے پیش کیا جاتا تھا ،جیسا کہ آج زیادہ  تر حقوقی نظام آسمانی شریعتوں کے اقتباس کا نتیجہ ھیں جنھیں منبع و ماخذ کے بغیر اپنے افکار کے عنوان سے پیش کیاگیا ھے۔

انبیاء علیھم السلام سے مخالفت کے اسباب۔

  انبیاء علیھم السلام سے مخالفت کے اسباب میں سے خواھشات نفسانی اور فحشا سے لگاؤ[38] کے علاوہ خود خواھی، غرور، اور استکبار ،جیسے عوامل ھیں کہ جو زیادہ تر سماج کے مالدوں اور اثر و نفوذ رکھنے والوں کے درمیان پائے جاتے ھیں[39] نیز گذشتہ آباو اجداد کی سنتوں کی پیروی بھی مھم عوامل میں سے تھی[40] ۔اسی طرح دانشمندوں ،حکمرانوں، اور مالداروں کی مخالفت کے اسباب میں سے سماجی مقام اور اقتصادی منابع کو اپنے لئے محفوظ رکھنا تھا[41]اور دوسری طرف لوگوں کا جھالت اور نادانی کی وجہ سے کفر کے سربراھوں کے دھوکے میں آجانا اور اُن کی پیروی کرنا سبب بنتا تھا کہ وہ کیسے اوھام اور باطل عقائد پر ایمان رکھنے سے دست بردار ھوں اور اس ایمان کو قبول کرنے سے پرھیز کریں جسے صرف چند محروم افراد نے قبول کیا ھے جبکہ یہ لوگ معاشرے کے مالداروں اور شرفا کی جانب سے مطرود و مردود بھی کردیئے جاتے تھے اس کے علاوہ سماج پر حاکم فضاکے اثرات کو بے اثر نھیں سمجھا جاسکتا۔[42]

انبیاء علیھم السلام سے ملنے کا طریقہ۔

مخالفین ، انبیاء علیھم السلام کی تبلیغات کو ناکام بنانے کے لئے مختلف طریقے اپناتے تھے ۔

الف: تحقیر و استہزاء : وہ لوگ پھلے مرحلہ میں پیغمبروں کی شخصیت کی تحقیر کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے[43] تاکہ لوگ ان سے بد ظن ھوجائیں۔

ب:ناروا بہتان: اور پھر ان پر بہتان باندھتے تھے نیز ان کی طرف ناروا نسبتیں دیتے تھے جیسے سفیہ و احمق اور مجنون کے نام سے پکارتے تھے[44] اور جب کوئی معجزہ پیش کرتے تو جادو گر کا نام دیتے تھے[45] اسی طرح الٰھی پیغاما ت کو اساطیر الاولین کہتے تھے۔[46]

ج: مجادلہ اور مغالطہ : اورجب انبیاء الٰھی علیھم السلام حکمت اور دلائل کے ذریعہ استدلال پیش کرتے یا جدال احسن کی صورت میں ان لوگوں سے مجادلہ کرتے یا لوگوں کو نصیحت کرتے ،اور کفر و شرک کے ناگوار نتائج سے آگاہ کرتے نیز خدا پرستی کے نیک انجام کے سلسلہ میں خبر دیتے، اور مومنین کو دنیا و آخرت میں سعادت کی خوشخبری دیتے ،تو کفر کے سربراہ، لوگوں کو ایسی باتوں کے سننے سے منع کرتے اور پھر اپنی ضعیف منطق کے ذریعہ اُن کا جواب دیتے، اس کے علاوہ اس امر میں اپنی پوری کوشش صرف کرتے تھے تا کہ لوگوں کو اُن کی باتوں کے سننے سے روک دیں[47] وہ لوگ اپنی منطق میں اپنے آباء و اجداد اور بزرگان ملت کے دین اور ان کے رسم و رواج کا سھارالیتے[48] اس کے علاوہ اپنی مادی ثروت کی چمک دمک، دکھلاتے اور با ایمان لوگوں کے ضعف اور ناداری کو ان کے عقائد کے باطل ھو نے کو دلیل بناتے[49] اور اپنے لئے یہ بھانہ بنالیتے کہ کیوں خدا نے اپنے رسول کو فرشتوں میں سے انتخاب نھیں کیا؟ یا اُن لوگوں کے ساتھ کیوں کسی فرشتہ کو نہ بھیجا؟ یاکیوںانھیں مالدار نھیں بنایا؟[50] اور کبھی ان کی لجاجت اس حد تک بڑھ جاتی کہ کہتے کہ ھم اسی صورت میں ایمان لا ئیں گے کہ جب ھم پر بھی وحی نازل ھو یا پھر خدا کو ھم دیکھ لیں اور اس کی آواز بلاواسطہ سنیں۔[51]

 د۔ دھمکی دینا اور طمع دلانا : ایک دوسرا طریقہ جو انبیاء علیھم السلام کی داستانوں میں مشاھدہ ھوتا ھے وہ یہ ھے کہ وہ لوگ انبیاء علیھم السلام، اور اُن کے اطاعت گذ اروں کو مختلف اذیتوں، شکنجوں ،شھر بدر کرنے، سنگ سار کرنے، اور قتل کرنے کی دھمکی دیتے تھے، [52] اس کے علاوہ مختلف چیزوں کی لالچ دلاتے تھے خصوصاً کثیر دولت کے ذریعہ لوگوں کو  انبیاء علیھم السلام کی اطاعت سے روکتے تھے۔[53]

 ھ ۔ خشونت اور قتل: لیکن جب وہ لوگ انبیا ء علیھم السلامی کاصبر و استقامت، اور صلاہت ومتانت کو مشاھدہ کرتے[54] اور دوسری طرف اُن کے چاھنے والوں کے اخلاص کو دیکھتے تواپنی تبلیغات کے ناکام ھونے اور استعمال کئے گئے ہتھکنڈوں کے ناکارہ ھونے کی صورت میں اپنی دھمکیوں کو عملی کر دیتے اور آزاز و اذیت شروع کردیتے جیسا کہ اسی طرح انھوں نے بہت سے انبیاء الٰھی کو قتل کرڈالا [55]   اورانسانی معاشرہ کو عظیم نعمتوں اور قوم اور سماج کو صالح رھبروں سے محروم کردیا۔

 انسانی معاشروں کی تدبیر میںبعض سنت الٰھی۔

اگر چہ انبیاء علیھم السلام کی بعثت کا اصلی ھدف یہ تھا کہ لوگ دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرنے میں ضروری تعلیمات سے آشنا ھوجائیں اور اُن کی عقل و تجربہ کا ضعف وحی کے ذریعہ ختم ھوجائے یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق اُن کے لئے حجت تمام ھوجائے[56] لیکن خدا نے انبیا ء کی بعثت کے دوران اپنی حکیمانہ تدبیر کے ذریعہ اُن کی دعوتوں کو قبول کرنے کے لئے فضا کو ھموار بنایا ، تا کہ اس طرح انسانوں کے تکامل کے لئے راستہ آسان ھوجائے اور چونکہ خدا اور ا سکے رسول سے روگردانی کے عظیم عوامل میںسے لوگوں کی نھایت مشکلات کے ھوتے ھوئے ان سے غفلت اور بے نیازی تھی [57] لہٰذا خدا فضاء کو اس طرح ھمو ار کرتا تھا کہ لوگ ان ضرورت مندں کی طرف متوجہ ھوجائیں اور غرور و تکبر کی سواری سے اُتر جائیں اِسی وجہ سے بلاؤں کو نازل کرتا اور انھیں سختیوں سے دوچار کردیتا تا کہ مجبور ھو کر اپنی ناتوانی کا احساس کرلیں اور خدا کی طرف متوجہ ھوجائیں۔[58]

لیکن اس عامل کا اثر ھر ایک پر موٴثر نہ تھا خصوصاً وہ لوگ جو دولت میں سرمست اور سالھا سال لوگوں پر ظلم و ستم کے ذریعہ کثیر مال و دولت جمع کرلی تھی قرآن کی تعبیر کے مطابق ان کے دل پتھر کی طرح سخت ھوچکے تھے وہ ان سب کے باوجود بھی وہ متوجہ نھیں ھوتے[59] اسی طرح خواب غفلت میں گرفتار رہتے، اور اپنی باطل راہ پر قائم رہتے اُن پر انبیاء علیھم السلام کے مواعظ، عذاب کی دھمکیاں ،اور ان کی نصیحتوں کا کوئی اثر نھیں ھوتا، اور جب خدا اُن سے بلاؤ ںکو ٹال دیتا، اورانھیں نعمتوں سے نوازدیتا ،تو یہ کہتے کہ نعمتوں اور بلاوں کا آنا جانا زندگی کا ایک لازمہ ھے اور ایسا تو ھوتا رہتا ھے نیز ایسا تو گذشتہ لوگوں کے ساتھ بھی ھوا ھے [60] اور حسب سابق مال کو جمع کرنے اور ظلم و ستم میں مشغول ھوجاتے، حالانکہ غافل تھے کہ نعمتوںکی افزائش دنیا و آخرت میں بدبخت ھونے کے لئے ان کے واسطے ایک حیلہ ھے[61]۔

بھر حال جب بھی انبیاء الٰھی علیھم السلام کے پیروکار تعداد کے اعتبار سے اس حد تک ھو جاتے کہ وہ ایک مستقل جامعہ تشکیل دے سکتے اور اُن میں دفاع کی قوت آجاتی تو انھیں دشمنان خدا سے جھاد کے لئے حکم دے دیا جاتا تھا[62] اور ان کے ھاتھوں جماعت کفار پر عذاب الٰھی نازل ھوتا تھا[63]  وگرنہ مومنین  انبیاء علیھم السلام کے حکم سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے اور پھر اُن پر بازگشت اور ایمان لانے کی ناامیدی کے بعد عذاب نازل ھو جاتا تھا[64] یہ ھے وہ سنت الٰھی جو کبھی بھی نھیں بدلتی۔[65]

 

سوالات

۱۔  انبیا ء علیھم السلام کی دعوت کے مقابل میں لوگوں کا رد عمل کیا تھا؟

۲۔  انبیاء علیھم السام سے مخالفت کے اسباب کیا ھیں؟

۳۔  انبیاء علیھم السلام کے مخالفین کیسے کیسے طریقے اپناتے تھے؟

۴۔ انبیاء علیھم السلام کی بعثت اور ان کے مقابل میں لوگوں کی مخالفت کی صورت میں سنتِ الٰھی کیا ھوتی تھی؟

 

پیغمبر اسلام( ص)

مقدمہ

پیغمبر اسلام( ص) کی رسالت کا اثبات

مقدمہ

ہزاروںانبیاء علیھم السلام، مختلف ادوار میں اورمختلف سرزمینوں پر مبعوث ھوئے اور انسانوں کی تربیت و ھدایت میں اپنا ممتاز کردار پیش کیا، انسانی معاشروں میں درخشاں آثار چھوڑے ،اور ان میں سے ھر ایک نے انسانوںکی ایک جماعت کی تربیت کی، اور بقیہ انساوںپرغیر مستقیم اثر چھوڑا، بلکہ اُن میں سے بعض توحیدی اور ایک عادلانہ سماج قائم کرنے اور اُس کی رھبری کرنے میں کامیاب بھی ھوئے۔

انبیاء الٰھی کے درمیان حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراھیم علیہ السلام، حضرت عیسی    علیہ السلام، اور حضرت مو سی علیہ السلام نے خدا کی جانب سے زمانے کے تقاضوں کے لحاظ سے اخلاقی وظائف اور فردی و اجتماعی احکام و قوانین پر مشتمل کتاب ،بشر کی دسترس میں قرار دی، لیکن یہ کتابیں یا تو زمانہ کے گذرنے کے ساتھ بالکل محو ھوگئیں یا اُن میں لفظی اورمعنوی تحریفیں کی گئیں، اور اس طرح آسمانی شریعتیں مسخ ھوگئیں جب کہ جناب موسی علیہ السلام کی کتاب توریت میں بے شمار تحریفیں ھوئیں اور اب حضرت عیسی علیہ السلام کی انجیل کے نام سے کوئی کتاب باقی نھیں رھی، بلکہ آج جو کچھ ھے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد اُن کے حواریوں کے نوشتہ جات ھیں، جنھیں کتاب مقدس کا نام دیا گیا ھے۔

اگر کوئی منصف انسان کتاب توریت اور انجیل کا مطالعہ کرے تو اُسے بخوبی معلوم ھو جائے گا، کہ یہ کتابیں حضرت موسی علیہ السلام اور جناب عیسی علیہ السلام کی نھیں ھیں توریت کا حال تو یہ ھے کہ وہ خدا کو ایک انسان کی شکل میں بیان کرنے کے علاوہ خدا اور اس کے رسولوں کی طرف شرمناک نسبتیں دیتی ھے ،کہ خدا بہت سے امور سے بے خبر ھے[66] اور بارھا جس عمل کو انجام دیتا ھے اس سے پشیمان ھوجاتا ھے[67] وہ اپنے بندوں میں سے ایک بندہ (حضرت یعقوب علیہ السلام) سے کشتی لڑتا ھے لیکن اُسے مغلوب نھیں کر پاتا اور جب تھک جاتا ھے تو اُس سے التماس کرتا ھے کہ اُسے چھوڑ دے ،  تا کہ اس کی مخلوقات اپنے خدا کو اِس حال میں مشاھدہ نہ کرے،[68] اسی کتاب میں جناب داؤد  علیہ السلام کی طرف زنا محصنہ کی نسبت دی ھے [69] اور جناب لوط علیہ السلام کی طرف شراب نوشی  اور محارم سے زنا کی نسبت بھی دی گئی ھے،[70] اس کے علاوہ کتاب توریت کے لانیوالے حضرت موسیٰ (ع)  کی موت کی شرح بھی بیان کرتی ھے کہ وہ کیسے اور کھاں انتقال کر گئے[71]

کیا صرف یھی نکات ھمارے سمجھنے کے لئے کافی نھیں ھیں کہ یہ توریت حضرت موسی علیہ السلام کی توریت نھیں ھے؟ لیکن انجیل کا حال تو توریت سے بھی برُا ھے ا س لئے کہ اولاً جو کتاب حضرت عیسی علیہ السلام پر نازل ھوئی یہ وھی انجیل نھیں ھے اور خود مسیحیوں نے بھی کوئی ایسا دعویٰ نھیں کیا ھے،  بلکہ آج جو کچھ بھی اُن کے حواریوں کے نوشتہ جات ھیں یہ کتا ب شراب نوشی کی تجویز کے علاوہ اُسے بنانے کو حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات میں شمار کرتی ھے[72]خلاصہ یہ ھے کہِ ان دو اولوالعزم رسولوں پر جو کچھ بھی نازل ھوا تحریف کا شکار ھوگیا، اور اب اس میں لوگوں کی ھدایت کی صلاحیت باقی نھیں رھی، لیکن یہ تحریفیں کیسے ھوئیں اس کی بڑی مفصل داستان ھے جسے یھاں بیان کرنے کا موقع نھیں ھے۔[73]

ھاں! حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت کے چھ سو سال بعد جب جھل اور ظلم  و بربریت نے دنیا کے گوشہ گوشہ کو تاریک بنارکھا تھا، اور ھدایت کے چراغ خاموش ھوچکے تھے، تو خداوند متعال نے اس دور کے پست ترین اور تاریک ترین سرزمین پر اپنے آخری رسول( ص) کو مبعوث کیا ،تا کہ ھمیشہ کے لئے چراغ وحی کو فروزاں بنادے ،اور نسخ و تحریف سے محفوظ جاودانی کتاب کو بشر کے ھاتھوں میں تھا دے اور اس طرح لوگوں کو حقیقی معارف، آسمانی حکمتیں اور الٰھی قوانین کی تعلیم سے آراستہ کردے نیز دنیا و آخرت میں سعادت کی راہ کی طرف گامزن کر دے ۔[74]

امیر الموٴمنین امام علی علیہ السلام آنحضرت( ص) کی بعثت کے دور کی توصیف کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ” خدا نے اپنے رسول( ص) کو اس وقت مبعوث کیا جب گذشتہ  انبیاء علیہ السلام کی بعثتوں سے کافی فاصلہ واقع ھوچکا تھا، لوگ گھرے خواب میں پڑے سورھے تھے، دنیا کے گوشہ گوشہ میںفتون کے شعلے بھڑک رھے تھے، امور پراکندہ تھے، جنگ کے شعلہ بھڑک رھے تھے، گناہ اور جھالت کی تاریکی چھائی ھوئی تھی، دھوکہ دھڑی اور حیلہ گری آشکار تھی، حیا ت بشر کا تناور درخت مرجھایا ھوا تھا اور اس کے سرسبز ھونے کی کوئی اُمید بھی نہ تھی، پانی کی قلت، مشعل ھدایت خاموش ، گمراھی کےپرچم  لھرا رھے تھے، بشر کو بد بختیوں نے گھیر رکھا تھا، اور اپنا کریہہ چھرہ نمایاں کردیا تھا، ایسی گمراھی و جھالت اور بد اخلاقی کی وجہ سے فتنہ کے سر اٹھانے کا ھر دم خطرہ تھا، لوگوں پر ناامیدی، ڈر، اور نا امنی کے تاریک بادل چھا ئے ھو ئے تھے، اور اپنے لئے شمشیر کے علاوہ کسی اور چیز کو پناھگاہ نھیں سمجھتے تھے“۔[75]

آنحضرت( ص)کے ظھورکے بعد بشر کے لئے خدا شناسی، حقیقت جوئی، نبوت کے سلسلہ میں جستجو تحقیق، اور دین اسلام کی حقانیت جیسے اھم موضوعات تصور کئے جاتے رھے ھیں، ان موضوعات کے اثبات کے ساتھ نسخ و تحریف سے محفوظ قرآن کریم کی حقانیت  اور اس کا کتاب الھی و آسمانی ھونا نیز تا قیامت بشر کے لئے ضمانت شدہ راستہ ،تمام صحیح عقائد کے اثبات اورتمام احکامات کا تعارف رہتی دنیا تک کے لئے کی گئی ھے ، جس کے ذریعہ تمام معارف ھستی کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ھے۔

پیغمبر اسلام( ص) کی رسالت کا اثبات۔

جیسا کہ ھم نے ستائسیویں درس میں بیان کیا کہ کسی بھی نبی کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے تین راستے ھیں

۔ ۱۔پھلا راستہ، اس نبی کی گذشتہ زندگی سے آشنائی اور حالات و قرائن سے مدد لینا۔

 ۲۔ دوسرا راستہ، گذشتہ نبی کی پیشینگوئی۔

 ۳۔ تیسرا راستہ ، انبیا ء علیھم السلام کا معجزہ دکھانا ھے۔

آنحضرت( ص) کی نبوت کے اثبات کے لئے یہ تینوں راستہ موجود تھے مکہ والوں نے آپ کی چالیس سالہ زندگی کو نزدیک سے مشاھدہ کیا تھا اور بخوبی اُنھیں معلوم تھا کہ آپ( ص)کی زندگی میں کوئی ضعیف پھلو نھیں ھے اور اِس حد تک آپ( ص)کو سچا اور امانتدار سمجھتے تھے ،کہ آپ کو

 امین کے لقب سے یاد کرتے تھے، لہٰذا ایسے شخص کی طرف جھوٹ بولنے اورجھوٹے دعویٰ کرنے کی نسبت نھیں دی جاتی تھی ،اس کے علاوہ گذشتہ نبیوں نے آپ کے ظھور کی بشارت دی تھی[76] اور اھل کتاب کا ایک گروہ واضح نشانیوں اور علامات کے ساتھ انتظار میں تھا۔[77] یھاں تک کہ یہ لوگ مشرکین عرب سے کھا کرتے تھے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ایک رسول مبعوث ھونے والا ھے کہ جس کی خبر گذشتہ انبیا ء علیھم السلام نے دی ھے اور وہ ادیان توحیدی کی تصدیق بھی کرے گا۔[78] اسی وجہ سے یھودو نصاریٰ کے بعض علما ء اِنھیں علامتوں کے پیش نظر آپ پر ایمان لائے [79] اگر چہ ان میں سے بعض نے نفسا نی اور شیطانی خواھشات کی وجہ سے اسلام کو قبول کرنے سے روگردانی کرلی، قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتا ھے:

<اَوَلَم یَکُن لَّھُم آیَةً اَن یَعلَمَہُ عُلمَاءُ بَنيِ اِسرَائِیلَ>[80]

کیا اُن کے لئے یہ نشانی کافی نھیں ھے کہ آپ( ص) کو علماء بنی اسرائیل جانتے ھیں۔

جس طرح علماء بنی اسرائیل کی طرف سے آنحضرت( ص) کے سلسلہ میں خبر دینا ،اور گذشتہ نبیوں کی پیشینگوئیاں، آنحضرت( ص)کی رسالت پر اھل کتاب کے لئے روشن گواھیاں تھیں اسی طرح دوسروں کے لئے گذشتہ نبیوں کی حقانیت نیز خود آنحضرت( ص)کی حقانیت پر حجت تھی، اس لئے کہ وہ لوگ ان پیشنگوئیوں کی صداقت اور علامتوں کو بخوبی مشاھدہ کرتے تھے اور اپنی عقل کی بنیاد پر اچھی طرح تشخیص بھی دیتے تھے۔

اور سب سے عجیب بات تو یہ ھے کہ آج کی توریت و انجیل میں ایسی بشارتوں کو تحریف اور محو کردینے کی تمام سعی و کوشش کے باوجود اس میں ایسے نکات ا ب بھی موجود ھیں جو حق کے طلبگاروں پر حجت تمام کر دیتے ھیں، جیسا کہ علما یھود و نصاریٰ میں سے ایک کثیر تعداد،انھیں نکات کے پیش نظر حق طلبی کی وجہ سے دین اسلام پر ایمان لاچکی ھے۔[81]

اسی طرح آنحضرت( ص)نے بے شمار معجزے پیش کئے جو احادیث کی صحیح کتابوں میں تواتر کے ساتھ نیز تاریخ کے دامن میں آج محفوظ ھیں،[82]لیکن آخری رسول اور جاودانی دین کو پہچنوانے میں عنایت الٰھی کا تقاضا یہ تھا، کہ ان معجزات کے علاوہ جو اتمام حجت کردیتے ھیں، آنحضرت( ص) کو ایک ایسا ابدی معجزہ عطا کر ے کہ جو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے حجت رھے، ھاں وہ قرآن ھے، اسی وجہ سے آئندہ درس میں ھم اس کتاب کی اعجازی شان بیان کریں گے۔

 سوالات

۱۔ سابق رسولوں کی کتابوں کا حال بیان کریں؟

۲۔ توریت میں موجود تحریفوں میں سے چند تحریفوں کو ذکر کریں؟

۳۔ موجودہ انجیل کے غیر معتبر ھونے کی وضاحت کریں؟

۴۔ آنحضرت( ص)کی رسالت کی اھمیت کو بیان کریں؟

۵۔آنحضرت( ص)کی رسالت کو ثابت کرنے والے راستہ کو بیان کریں؟

  

خاتمیت

یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ھے

مقدمہ

خاتمیت پر قرآنی دلائل

  خاتمیت پر روائی دلائل

ختم نبوت کا راز

چند شبھات کے جوابات

مقدمہ

۱۔ دین اسلام کے جاودانی ھونے کی وجہ سے شریعت اسلام کا کسی دوسرے نبی کی بعثت سے منسوخ ھونے کا احتمال ختم ھوجاتا ھے، لیکن یہ احتمال باقی رہتا ھے کہ کوئی ایسا نبی مبعوث ھو جوخود دین اسلام  کی ترویج کرے اور اس کا مبلغ ھو،جیسا کہ گذشتہ انبیاء علیھم السلام میں سے بہت سے نبی ایسی ھی ذمہ داریوں کے پابند تھے یہ انبیاء علیھم السلام خواہ صاحب شریعت نبی کے زمانہ میں رھے ھوں جیسے جناب لوط علیہ السلام ، صاحب شریعت پیغمبر جناب ابراھیم علیہ السلام  کے زمانہ میں تھے اور اُن کی شریعت کے تابع تھے ،یا بنی اسرائیل کے درمیان مبعوث ھونے والے اکثر انبیاء علیھم السلام صاحب شریعت نبی کے بعد مبعوث ھوئے اور ان کی شریعت کے تابع تھے اِسی وجہ سے آنحضرت  ﷺ کی خاتمیت کے لئے ایک جداگانہ بحث کرنا ضروری ھے تا کہ ایسے تو ھمات ختم ھوجائیں۔

خاتمیت پر قرآنی د لائل۔

اسلام کے ضروریات میں سے ایک یہ ھے کہ انبیاء علیھم السلام کا سلسلہ آنحضرت  ﷺ پر تمام ھوگیا ھے یعنی (آنحضرت  (ص) خاتم ھیں) اور آپ کے بعد نہ کوئی نبی مبعوث ھوا ھے اور نہ ھی آئندہ کوئی نبی مبعوث ھونے والا ھے یھاں تک کہ غیر مسلموں کو بھی معلوم ھے کہ یہ اسلام کے اعتقادات میں سے ھے اور اس پر ایمان رکھنا ھر مسلمان کا فرض ھے اسی وجہ سے دوسری ضروریات کی طرح اِس کے لئے استدلال کی ضرورت نھیں ھے، اس کے علاوہ اس مطلب کو قرآن اور متواتر دلیلوں کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ھے۔

جیسا کے قرآن کریم فرماتا ھے:

مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اٰبَآ اٴَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُم وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَ خَاتَمَ النَّبیِیّنَ۱)

 محمد  (ص) تم مردوں میںسے کسی کے باپ نھیں ھیں بلک اللہ کے رسول اور خاتم النبین ھیں۔

یہ آیت واضح انداز میں آپ کے خاتم ھونے کو بیان کرتی ھے، لیکن اسلام کے دشمنوں نے اس آیت پر دو اعتراض کئے ھیں۔

[83]پھلا اعتراض یہ ھے کہ ھم یہ مان لیتے ھیں کہ اس (کلمہ خاتم) کے وھی معنی مرادھیں جو مشھورھیں نیز یہ آیت سلسلہ انبیاء علیھم السلام کے ختم ھونے کی خبر بھی دے رھی ھے لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ رسولوں کی بعثت کا سلسلہ بھی ختم ھوگیا ھے۔

دوسرا ا عترض یہ ھے کہ ،بالفرض اگر ھم تسلیم کرلیں کہ مفاد آیت وھی ھے جو آپ نے بیان کیاھے،یعنی آنحضرت سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ھیں ،لیکن اس سے یہ ثابت نھیں ھوتا کہ نبوت کے ساتھ ، رسا لت کا سلسلہ بھی ختم ھو جائے ،

پھلے اعتراض کا جواب یہ ھے کہ خاتم کے معنی ختم کرنے اور تمام کرنے والے کے ھیں اور خاتم کو اسی وجہ سے انگوٹھی کے معنی میں استعمال کیا جاتا ھے کہ اس کے لگنے کے بعد تحریر مکمل ھو جاتی ھے 

دوسرے اعترض کا جواب یہ ھے کہ جو بھی نمائندہ  خدا مقام رسالت سے سرفراز ھو وہ مقام نبوت کابھی مالک ھے، لہٰذا انبیاء علیھم السلام کے سلسلہ کے ختم ھوتے ھی رسولوں کا سلسلہ بھی تمام ھوجاتا ھے اور جیسا کہ ھم نے پھلے بھی بیان کیا کہ [84] اگر چہ مفھوم نبی رسول سے اعم نھیں ھے لیکن یھاںپر خود نبی رسول سے عام ھے۔

خاتمیت پر روائی دلائل۔

آنحضرت  ﷺکی خاتمیت کے سلسلہ میں سیکڑوں روا یات موجود ھیں جو اس بات کی وضاحت اور تاکید کرتی ھیں جیسے کہ حدیث منزلت جو آنحضرت  ﷺ سے نقل ھوئی ھے اُسے شیعہ اور سنی علماء نے تواتر کے ساتھ نقل کی ھیں جس کی وجہ سے اُس کی صحت اور مضمون میں کسی بھی قسم کا شبہ باقی نھیں رہتا اور وہ روایت یہ ھے۔

جب آنحضرت  ﷺ نے جنگ تبوک کے لئے مدینہ سے خارج ھونا چاھا تو  حضرت علی علیہ السلام کو مسلمانوں کی دیکھ بھال اور اُن کے امور کی انجام د ھی کے لئے اپنا نائب بناکر مدینہ چھوڑ گئے ،لیکن حضرت علی علیہ السلام اس فیض الٰھی سے محروم ھو نے کے سبب غمگین و رنجیدہ خاطر تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ھوگئے، یہ دیکھ کر حضرت رسول اکرا م  ﷺنے آپ سے فرمایا ۔

 ”اَمَا تَرضَیٰ اَن تَکُونَ مِنِّي بِمَنزِلَہِ ہَارُونَ مِن مُوسیٰ اِلَّا اَنَّہُ لَا نَبِيَّ بَعدِي[85]

کیا تم اس بات سے راضی نھیں ھو کہ تم کو مجھ سے وھی نسبت ھے جو ھارون علیہ السلام کو موسی علیہ السلام سے تھی؟ اور ا سی جملہ کے فوراً بعد فرمایا :

 <اِلَّا اَنَّہُ لَانَبِيَّ بَعدِي>

بس فرق اتنا ھے کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں ھوگا یہ جملہ آپ کی خاتمیت کے سلسلہ میں بھی ھر قسم کے شبہ کو دفع کردیتا ھے۔

ایک دوسری روایت میں آپ  ﷺ سے نقل ھوا ھے کہ آپ فرماتے ھیں:

ایُّھا النَّاس اِنَّہُ لَا نَبِيَّ بَعدِي وَلَا اُمَّةَ بَعدَکُم:[86]

 اے لوگو ! میرے بعد کوئی نبی اور تمھارے بعد کوئی امت نھیں آئے گی۔

اسی طرح ایک دوسری روایت میں فرماتے ھیں :

اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّہُ لَا نَبِيَّ بَعدِي وَلَا سُنَّةَ بَعدَ سُنَّتِی[87]

 اے لوگو میرے بعد کوئی نبی نھیں آئے گا اور میری سنت کے بعد کوئی سنت نھیں ھوگی

 ختم نبوت کا راز۔

جیسا کہ ھم نے اِس مطلب کی طرف گذشتہ صفحات پر بھی ا شار ہ کیا ھے کہ پے در پے نبیوں کے  مبعوث ھو نے کی حکمت ایک طرف زمین کے مختلف گوشوں میں رھنے والوں تک پیغامات الٰھی کا پہچانا اس قدر آسان نھیں تھا اوردوسری طرف اجتماعی روابط کا پھیلنے کی وجہ سے حالات کا پیچیدہ ھوجانا  کہ جس کے سبب نئے آیئن اور جدید قوانین کی ضرورت تھی، اس کے علاوہ زمانہ کے گذرنے کے ساتھ افراد یا جماعتو ںکے درمیان تبدیلی اور جاھلانہ دخالتوں کی وجہ سے، وجود میں آنے والی تحریفات کا تقاضا یہ تھا کہ کسی جدید نبی کی بعثت کے ذریعہ تعلیم الٰھی کو آگے بڑھایا جائے اورتحریفات کا خاتمہ ھو۔

لہٰذا جب پوری کائنات کے لئے تبلیغ رسالت الھی کی ذمہ داری صرف ایک رسول اور اس کے حامیوں اور جانشینوں کی مدد سے ممکن ھو جا اور اس کی شریعت کے احکام و قوانین حال و آئندہ کی احتیاجات کے جواب دینے پرقادر ھوں نیز مسائل جدید کو حل کرنے کے لئے اس شریعت میں آنی صلاحیت ھو  اور اس کے علاوہ تحریف سے محفوظ رھنے کی ضمانت اُسے دی گئی، ھو تو پھر اس صورت میں کسی دوسرے پیغمبر کی بعثت کی کو ئی ضرورت نھیں ھے۔

لیکن بشری علوم ایسے شرائط کی تشخیص سے ناتواں اور عاجز ھے ، فقط خدا ھے جو اپنے لامتناھی علم کی وجہ سے ایسے زمان و شرائط کے تحقق سے باخبر ھے جیسا کہ اُس نے آخری نبی اور اُس کی کتاب کے ساتھ انجام دیا۔

لیکن سلسلہ نبوت کے ختم ھوجانے کا مطلب یہ نھیں ھے کہ خدا او راُس کے بندو ںکے درمیان اب کوئی رابطہ نھیں رہتا، بلکہ اگر خدا چاھے تو کسی بھی وقت اپنے شائستہ بندوں کو علم غیب کے ذریعہ اضافہ کرسکتا ھے اگرچہ وحی کی صورت ھی میں کیوں نہ ھو، جیسا کہ شیعوں کے عقیدھکے مطابق خدا نے ائمہ علیھم السلام کو ایسے علوم سے نوازا ھے، انشاء اللہ آئندہ دروس میں امامت سے متعلق مباحث کے سلسلہ میں بیان کریں گے۔

چند شبھات کے جوابات۔

گذشتہ بیان سے یہ سمجھ میں آتا ھے کہ ختمِ نبوت کا راز۔

 ایکً ،یہ ھے کہ آنحضرت  ﷺاپنے اصحاب کی مدد سے پیغامات ا لھی کو تمام انسانوں تک پھنچا سکتے تھے

دوسرے یہ کہ،آپ  ﷺ کی کتاب (قرآن) کے سلسلہ میں کسی بھی قسم کی تحریف سے محفوظ رھنے کی ضمانت لے لی گئی ھے،

تیسرے یہ کہ ۔ شریعت اسلام تا قیامت پیش آنے والی ضرورتوں کو پورا کرسکتی ھے۔

لیکن یہ ممکن ھے کہ ان مطالب کے پیش نظر کوئی یہ شبہ پیش کرے، جیسا کہ گذشتہ ادوار میں اجتماعی اور اقتصادی روابط کے پیچیدہ ھونے کی وجہ سے جدید احکامات یا اُن میں تغیرات کی ضرورت پڑھ جاتی تھی، یاپھر کسی دوسرے نبی کی بعثت کی ضرورت ھوتی تھی اسی طرح آنحضرت  ﷺ کے بعد بھی نمایاں تغیرات وجود میں آئے ھیں، اور اجتماعی روابط پیچیدہ ھوگئے ھیں،لہذا اس صورت میں ھمیں کھاں سے معلوم کہ آئندہ حالات کے بدلنے کی وجہ سے کسی دوسرے نبی کی بعثت کی ضرورت نہ پڑے؟

اس شبہ کے جواب میں ھم صرف اتنا کھیں گے کہ کس طرح کے تغیرات بنیادی قوانین کے بدل جانے کے موجب ھوتے ھیں، اس کی تشخیص بشر کے ھاتھ میں نھیں ھے اس لئے کہ ھمیں احکام و قوانین کی حکمتیں اور علتوں پر تسلط نھیںھے بلکہ ھم نے تو اسلام کے جاودانی ھونے کے دلائل آنحضرت  ﷺ کی خاتمیت کے ذریعہ کشف کئے ھیں کہ اب اس کے بعد اسلام کے بنیادی قوانین کو بدلنے کی ضرورت نھیں ھے۔

البتہ ھم بعض اجتماعی مسائل کی پیدائش کا انکا ر نھیں کرتے کہ جن کے لئے نئے قوانین کی ضرورت ھے، لیکن اسلام نے اپنے مسائل کے قوانین کو وضع کرنے کے لئے ایسے اصول و قواعد وضع کر دئے کہ جس کی مدد سے باصلاحیت افراد ضروری احکامات کو حاصل کر کے انھیں جاری کر سکتے ھیں،اور ان مطالب کی تفصیلی بحث کو فقہِ اسلام کی بحث حکومت اسلامی (امام معصوم اور ولی فقیہ) کے اختیارات کے حصہ میں تلاش کیا جاسکتا ھے۔

سوالات

۱۔ اسلام کے جاودانی ھونے کے اثبات کے بعد خاتمیت کے سلسلہ میں بحث کی کیا ضرورت ھے؟

۲۔ قرآنی دلیل کے ذریعہ کیسے خاتمیت کو ثابت کیا جاسکتا ھے؟

۳۔ اس دلیل کے سلسلہ میں موجودہ شبھات کو ذکر کریں اور ان کے جوابات تحریر فرمائیں؟

۴۔ خاتمیت پر دلالت کرنے والی روایتوں میں سے تین روا یت کو ذکر کریں؟

۵۔ کیوں آنحضرت  ﷺکی بعثت کے بعد سے انبیا ء علیھم السلام کی بعثت کا سلسلہ ختم ھوگیا؟

۶۔ کیا ختمِ نبوت کا مطلب یہ ھے کہ اس کے بعد، علوم سے استفادہ کا راستہ بند ھوگیا ھے؟ کیوں؟

۷۔ کیا آنحضرت (ص)  کے بعد وجود میں آنے والے سماجی تغیرات کے لئے جدید شریعت کی ضرورت نھیں ھے؟ کیوں؟

۸۔جدید مسائل کے پیدا ھونے کی وجہ سے سماج کی ضرورتوں کو آئین اسلام کے ذریعہ کیسے حل کیا جا سکتا ھے  ۔

قرآن کا معجزہ ھونا۔

قرآن تنھا ایک ایسی آسمانی کتاب ھے کہ جس نے پورے دعویٰ کے ساتھ اعلان کردیا ھے کہ کسی میں بھی اس کی مثل لانے کی طاقت نھیں ھے یھاں تک کہ تمام جن و انس اکٹھا ھوجائیں، پھر بھی وہ اس کتاب کی نظیر لانے سے ناتواں ھیں[88] بلکہ وہ اِس جیسی کتاب تو کیا، اِس کے دس سورہ[89] بلکہ ایک ھی سورہ یھاں تک کہ تنھا ایک سطر کا جواب لانے سے، حد درجہ ناتواں ھیں۔[90]

اس کے علاوہ نھایت تاکید کے ساتھ تمام انسانوں کو چیلنج کرتا ھے اور اِس کتاب کے جواب نہ لانے کی  قدرت کو اِس کتاب او راس  کتاب کے لانے رسول( ص)کا خدائی ھونے کی دلیل قرار دیتاھے ۔ [91]

لہذا اس امر میں کوئی شک نھیں ھے کہ خود اس کتاب نے اپنے معجزہ ھونے کی خبر دی ھے اور اسے لانے والے رسول( ص) نے اِس کتاب کے ابدی ھونے اور اپنی رسالت کی حقانیت پر جاودانی معجزہ قرار دیا ھے،بلکہ آج بھی چودہ صدیاں گذرجانے کے باوجود مختلف وسائل کے ذریعہ دوست و دشمن کے کانوں تک اس کے پیغامات پھنچ رھے ھیں اور اس طرح انسانوںپر حجت تمام ھورھی ھے۔

اور ھمیں بخوبی معلوم ھے کہ جب رسول اکرم( ص) نے اپنی رسالت کا آغاز کیا تو سب سے پھلے آ پ کو اپنے سخت ترین دشمنوں سے مقابلہ کرنا پڑا کہ جھنوں نے اُس دین کو نابود کرنے کے لئے اپنی کسی بھی کوشش سے دریغ نھیں کیا، اور جب آپ کے دشمن اپنی دھمکیوں اور طمع دلانے وغیرہ سے مایوس ھوگئے تو آپ کے قتل کے لئے کمر ھمت باندھ لی، لیکن یہ بھی خدا کی جانب سے وحی کے مطابق مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کے ذریعہ باطل ھوگیا، اور آپ نے اپنی بقیہ عمر مکہ مشرکین اور دھوکے باز یھودیوں سے جنگ میں گذار دی، اور آپ کے چراغ حیات کے گل ھوتے ھوئے آج تک داخلی اور خارجی منافقین اس نورِ الٰھی کو خاموش کرنے کے درپے ھیں جنھوںنے اُسے خاموش کرنے کے لئے اپنی کسی بھی کوشش سے دریغ نھیں کیا اور اگر قرآن جیسی کتاب لانا، ان کے بس میں ھوتا، تو وہ ایک لمحہ کی تاخیر بھی نہ کرتے۔

آج جب دنیا کی ظالم طاقتوں نے اپنے جبری تسلّط کی راہ میں اسلام کو سب سے بڑے دشمن کے عنوان سے پہچان لیا ھے اور اس سے مقابلہ کے لئے اپنی پوری توانائی کے ساتھ جد و جھد شروع کردی ھے، تمام مالی، سیاسی، تبلیغاتی، علمی، امکانات کو اکٹھا کرلیا ھے اگر ان لوگوں میں اتنی بساط ھوتی کہ قرآن کی صرف ایک سطر کے ماند کوئی عبارت بنالیتے تو اپنے وسائل اور تبلیغات کے ذریعہ دنیا کے چپہ چپہ میں اُس کا اعلان کردیتے، اِس لئے کہ اسلام سے مقابلہ کے لئے یہ آسان ترین راستہ ھے۔

لہٰذا اگر انسان سمجھ دار اور با شعور ھو تو ایسے قرائن اور حالات کو دیکھتے ھوئے مان لے گا کہ قرآن ایک لا ثانی او رجاودانی کتاب ھے بلکہ کوئی فرد ،یا جماعت تعلیم و تدریس ،یا  تمرین کے ذریعہ اس جیسی کتاب نھیں لا سکتا، یعنی یہ کتاب ایک معجزہ کی تمام خصوصیات کا (خارق عادت ھونا) الٰھی اور غیر قابل تقلید ھونا، نبوت کے دعویٰ کی حقانیت کی دلیل بننے کی مالک ھے اسی وجہ سے آنحضرت( ص) کی دعوت اور دین اسلام کی حقانیت پر دلیل قاطع ھے، اور بشر کے لئے سب سے عظیم نعمت اور کیا ھوسکتی ھے کہ اُس نے اِس کتاب کو اِس طرح نازل کیا ھے کہ تا ابد معجزہ بنی رھے ،نیز اپنی صداقت کی دلیل سے سرفراز رھے وہ بھی ایسی دلیل کہ جس کی دلالت کو سمجھنے کے لئے تحصیل اور ت مھارت کی  ضرورت نھیں ھے بلکہ ھر شخص کے لئے قابل فھم ھے۔

اعجاز قرآن کی صورتیں۔

اب تک ھمیں یہ اجمالاً معلوم ھوگیا ھے کہ قرآن خدا کا کلام اور معجزہ ھے لہٰذا اِس کے بعد اُس کے معجزہ ھونے کی صورتوں کی طرف اشارہ کریں گے۔

الف ۔قرآن کی فصاحت و بلاغت۔

قرآن کے اعجاز کی پھلی صورت اس کی فصاحت و بلاغت ھے یعنی خداوند متعال نے اپنے مقصود کو بیان کرنے کے لئے خوبصورت اور پرُ معنی ترین الفاظ کے ذریعہ منظم اور بہترین ترکیب کے ساتھ  پیش کیا ھے تا کہ معنی مقصود کو آسان اور بنحو اَحسن اپنے  مخا طبین کو سمجھا سکے، لہٰذا ایسے الفاظ کا انتخاب اور انھیں بلند معانی کے لئے مناسب جملوں کی خوبصورت لڑیوں کی ترکیب صرف اُسی ذات کے بساط میں ھے کہ جو پوری طرح الفاظ کی خصوصیات، معانی کے دقائق، اور ان دونوں میں موجود رابطوں پرتسلط ھو، نیز معانی کی بلندیاں اور مقام و محل کی رعایت کرتے ھوئے بہترین الفاظ اور عبارتوں کا انتخاب کرنے اور ایسا وسیع احاطہ، وحی اور الھام الٰھی کے بغیر کسی بھی انسان کے لئے میسر نھیں ھے۔

قرآن کا ملکوتی طرز سخن اور لاجواب لحن نیز الفاظ ومعانی کی وسعت و گھرائی ،عربی زبان  سے آشنا نیز فن فصاحت و بلاغت کے ماھر ین کے لئے قابل درک ھے ، لیکن فصاحت و بلاغت کے معجزہ ھونے کی تشخیص اُنھیں لوگوں کے بس میں ھے جو مختلف فنون میں ید طو لی سے سرفراز ھوں، قرآن کے مقابلہ میں دوسری فصیح و بلیغ عبارتوں کے علاوہ اپنی توانائیوں اور مھارتوں کو آزماچکے ھوں، اور یہ کام صرف عرب کے ماھر اور زبردست شعرا کرسکتے تھے، اِس لئے کہ عربوں کے لئے سب سے بڑا ھنر شعر گوئی تھی جو آ نحضرت( ص) کی بعثت کے دوران اپنے عرو ج پر پھنچ چکی تھی، شعرا اپنے بہترین اشعار کو ادبی تنقید وں کے بعد اُسے بہترین ھنر کے عنوان سے پیش کرتے تھے۔

بنیادی اعتبار سے حکمت الٰھی کا تقاضا یہ ھے کہ کسی بھی نبی کا معجزہ اُس زمانہ کے علم و ھنر کے تناسب و تقاضے کے مطابق ھو ، تا کہ اُس زمانہ کے لوگ اُس معجزہ کے اعجاز کو علوم بشری کے مقابلہ میں درک کرسکیں، جیسا کہ امام ھادی علیہ السلام سے جب ابن سکیت، نے سوال کیا کہ کیوں خدا نے حضرت موسی علیہ السلام کا معجزہ ، ید بیضاء ،اور عصا کو اژدھا میں تبدیل کردینا، اور اِسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کا معجزہ، بیماروں کو شفا دینا ،اور حضرت رسول اکرم( ص) کا معجزہ ،قرآن کو قرار دیا“؟ تو آپ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا، ”حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ میں رائج ھنر ،سحر اور جادو تھا، اِسی وجہ سے خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ،جادو سے مشابہ قرارا دیا ،تا کہ وہ لوگ معجزہ جیسے عمل کی ناتوانی کو درک کرسکیں ،اور حضرت عیسی علیہ السلام کے دور میں طبابت اپنے عروج پر تھی لھذا خدا نے حضرت عیسی علیہ السلام کا معجزہ لا علاج بیماروں کو شفا دینا قرار دیا، تا کہ لوگ اِس معجزہ کے اعجاز کو بخوبی درک کرسکیں، لیکن آنحضرت( ص)کے دور میں رائج ھنر سخن سرائی اور شعر گوئی تھی، لہٰذا خدا نے قرآن کو بہترین اسلوب کے ساتھ ناز ل کیا، تا کہ قرآن کے ا عجاز کی برتری کو بخوبی درک کیا جا سکے ۔[92]

ھاں اُس دور کے زبردست ادباء جیسے ،ولید بن مغیرہ مخزومی، عقبہ بن ربیعہ، اور طفیل بن عمرو، نے قرآن کی فصاحت و بلاغت اور بشر کے بہترین کلاموں پر اُس کی برتری کا اقرارا کیا[93] یھاں تک کہ ایک صدی کے بعد ابن ابی العوجاء، ابن مقفع، ابو شاکر دیصانی ،اور عبد الملک بصر ی، جیسے افراد نے قرآن کے مقابلہ میں زور آزمائی کرنے کی کوشش کی اور مسلسل ایک سال تک اس کا جواب لانے میں سعی و کوشش کرتے رھے لیکن وہ جواب میں ایک حرف بھی پیش نہ کر سکے، یھاں تک کہ مجبور ھو کر قرآن کی عظمت کے مقابلہ میں گھٹنے ٹیک دئے، اور جب وہ لوگ مسجد الحرام میں اپنی ایک سال کی زحمتوں کا نتیجہ جمع کرنے کے لئے اکٹھا ھوئے تو اسی ھنگام امام صادق علیہ السلام ان لوگوں کے پاس سے گذرے اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:

قُل لَئِنِ اجتَمَعَتِ الاِ نسُ وَ الجِنُّ عَلی اَن  یَاٴتُوا بِمِثلِ ہَذَا القُرآنِ َلا یَاٴتُونَ بِمِثلِہِ وَلَوکَانَ بَعضُہُم لِبَعضٍ ظَہِیراً[94]

اے رسول!( ص) اِن سے کھدو کہ اگر دنیا کے سارے جن و انس اس بات پر اکٹھے ھو جائے کہ اِس قرآن کا مثل لے آئیں تو اِس کا مثل نھیں لاسکتے اگر چھاس بابت ایک دوسرے کی مدد بھی کریں۔

 ب۔ قرآ ن لانے والے کا اُمیِّ ھونا۔

قرآن اپنے معمولی حجم کے باوجود فردی و اجتماعی احکام و قوانین نیز اسلامی معارف کا سمندر کو اپنے اندر سمیٹے ھوئے ھے، جنھیں جمع کرنے اور ا س سلسلہ میں تحقیق کے لئے علو م و فنون میں ماھر افراد کی ایک جماعت کی ضرورت ھے جو سالھا سال اس مسئلہ کے تحت جستجو و تحقیق کریںاور آھستہ آھستہ اِس میں موجود اسرارہ سے پردہ گشائی کریں اگر چہ اس کے تمامحقائق اور اسرار سے پردہ کشائی فقط انھیں لوگوں کے بساط میں ھے کہ جو علم الٰھی کے مالک اور خدا کی جانب سے تائید شدہ ھوں

قرآن میںموجود بلند معارف کے مجموعے، اخلباقی دستورات کے باارزش خزانے، عادلانہ اور منظم قوانین، عبادتوں کے باب میں فردی و ا جتما عی احکامات کا حکمت کی بنیاد پر استوار ھونا، مفید ترین نصیحتیں ،عبرتوں سے بھر پور داستانیں، تعلیم و تربیت کے طور طر یقے، یا ایک جملہ میں یہ کھا جاسکتا ھے کہ یہ قرآن اُن تمام اصول و قوانین پر مشتمل ھے جو انسان کی دنیوی و آخروی سعادتوں کے لئے ضروری ھیں، جسے بہترین اسلوب کے ساتھ اس طرح جمع کردیا ھے کہ جس سے ایک سماج کے مختلف افراد اپنی استعدادکے مطابق سمجھ سکیں۔

حقائق و معارف کے ایسے مجموعہ کو جمع کرنا عادی انسانوں کی بساط کے باھر ھے لیکن جو چیز آنکھوں کو خیرہ کردیتی ھے وہ یہ کہ ایسی با عظمت کتاب ایک ایسے شخص کے ھاتھوں پیش کی گئی ھے جس نے نہ مکتب دیکھا، نہ قلم کو ھاتھ لگایا ، بلکہ ایسے سماج میں تربیت پائی جو تمدن سے کوسوں دور تھا، اور اس سے بھی عجیب غریب بات یہ ھے کہ بعثت سے پھلے چالیس سال تک ایسا کوئی کلام بھی اُس ذات سے سننے میں نھیں آیا، اور رسالت کے دوران جو کچھ بھی وحی کے عنوان سے پیش کیا، ایک ایسے مخصوص اسلوب و ترکیب پر مشتمل تھا جو ا سے دوسرے کلاموں کے درمیان ممتاز کردیتا تھا یھاں تک کہ خود وحی اور آنحضرت( ص) کے ذاتی کلام میں فرق واضح و روشن رہتا تھا۔

قرآن اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ھو ے فرماتا ھے:

<وَمَا کُنتَ تَتلُوا مِن قَبلِہِ مِن کِتٰبٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِینِکَ اِذًا لَّارتَابَ المُبطِلُونَ>[95]

 اے رسول! قرآن سے پھلے نہ تو تم کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ھاتھ سے تم لکھا کرتے تھے ایسا ھوتا تو یہ جھوٹے ضرور تمھاری نبوت میںشک کرتے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتا ھے :

قُل لَّو شَاءَ اللَّہُ مَا تَلَوتُہُ عَلَیکُم  وَلَااَدرَٰیکُم بِہِ فَقَد لَبِثتُ فِیکُم عُمُراً مِّن قَبلِہِ اٴَفلََا تَعقِلُونَ[96]

اگر خدا چاہتا تو میں یہ کتاب تمھارے سامنے پیش نہ کرتا اور اس سے آگاہ نہ کرتا جیسا کہ اس سے پھلے تمھارے درمیان زندگی گذاری کیا تم لوگ کچھ سمجھ سکے؟

شاید قرآن میں سورہ بقرہ کی آیت (۲۳) ”فَاٴتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثلِہِ‘اسی اعجاز کی طرف اشارہ ھو یعنی احتمال یہ ھے کہ (مثلہ) کی ضمیر (عبدنا) کی طرف پلٹ رھی ھو۔

 اگر فرض محال کو ممکن مان لیا جائے کہ ہزاروں دانشمند افراد ایک دوسرے کی مدد سے ایسی کتاب کے جواب لانے میں کامیاب ھوجائیں لیکن کسی بھی صورت میںایک مکتب میں جانے والے اور درس نہ پرھنے والے شخص سے ایسی کتاب کا جواب لانا غیر ممکن ھے۔

لہٰذا ایک اُ مِّی شخص کے ذریعہ ایسی بے نظیر خصوصیات پر مشتمل کتاب کا ظاھر ھونا قرآن کے اعجاز کے دوسرے پھلوں کی طرف ایک اشارہ ھے۔

ج۔ اتفاق نظر اور عد م اختلاف۔

قرآن مجید ایک ایسی کتاب ھے جو (۲۳) سال کی مدت میں تلخ و شیریں حوادث ، نشیب و  فراز سے بھر پور حالات کے باوجود اُس کے مطالب میں روانی او راعجاز کے پھلو برقرار ھیں۔لہٰذ ظاھر و باطن،  الفاظ و معانی میں روانی قرآن کے اعجاز کی ایک دوسری صورت ھے خود قرآن میں اسی نکتہ کی طرف ایک اشارہ موجود ھے :<اَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ القُرآنَ  وَلَو کَانَ مِن عِندِ غَیرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوا فِیہِ اختِلاَفاً کَثِیراً>[97] تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نھیں کرتے اور یہ خیال نھیں کرتے کہ اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے آیا ھوتا تو ضرور اس میں ا ختلاف پاتے۔

وضاحت: ھر انسان ھمیشہ دو قسم کی حالتوں سے دوچار ھو تا ھے،

پھلے یہ کہ برابر اس کی معلومات اور مھارتوں میں اضافہ ھوتار ہتا ھے اور یہ افزائش اُس کے کلام میں پوری طرح اثر انداز بھی ھوتی ھے اور طبیعی اعتبار سے بیس سال کے اندر نمایاں فرق آجاتا ھے۔

دوم: یہ کہ زندگی کے مختلف حوادث اور مختلف حالات جیسے یاس و امید، خوشی و غم اور اضطراب و آرام، احساسات وخیالات کی تبدیلی کا باعث بنتے ھیں، لہٰذاُ اس کے حالات کا اسطرح سے متغیر ھوتے رھنا اُس کے کلام میں شدید اختلاف اور ضد و نقیضن کا سبب بنتا ھے، در اصل رفتار و گفتار میں تبدیلی روحی حالات کے متغیر ھونے کا سبب ھوتے ھیں کہ جو خود طبیعی اور اجتماعی اوضاع و احوال کے تابع ھیں۔

اب اگر ھم یہ فرض کرلیں کہ قرآن کریم آنحضرت( ص)کی اپنی لکھی ھوئی کتاب ھے تو آپ کی زندگی کے حوادث، تلخ و شیر یں حالات کی وجہ سے یہ کتاب بے شمار اختلافات اور ضد و نقیضن سے پرُ ھونی چاھیے تھی لیکن ھم ایسے اختلاف کامشاھدہ نھیں کررھے ھیں۔

لہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ قرآن کے مضامین میں عدمِ اختلاف اور اتحاد کا ھونا ،اُس کی فصاحت و بلاغت کا معجزہ ھے نیز اس بات کی دلیل ھے کہ اس کتاب کا سرچشمہ خداوند متعال کی ذات ھے جو بدلتے ھوئے حالات پر مسلط اور طبیعت پرحاکم ھے۔

سوالات

۱۔ قرآن کس طرح اپنے معجزہ ھونے کا دعویٰ کررھا ھے وضاحت فرمائیں ؟

۲۔ اعجاز قرآن پر اجمالی دلیل کیا ھے؟

۳۔ کیا یہ احتمال دیا جاسکتا ھے کہ اب تک کسی نے بھی اس کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا، یا اس کاجواب لائے ھوں اور ھم اس سے بے خبر ھوں؟ کیوں؟

۴۔ قرآن کی حیرت انگیز بلاغت کی  تشریح کریں؟

۵۔ اعجاز قرآن اور آنحضرت( ص) کے اُ مِّی ھونے میں کیا کوئی ربط برقرا رھے؟

۶۔ قرآن میں اختلاف کا نہ ھونا کیونکر اس کے معجزہ ھونے پر دلالت کرتا ھے؟

 

قرآن کا تحریف سے محفوظ رھنا

مقدمہ 

قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نہ ھونا

قرآن سے کسی چیز کا کم نہ ھونا

مقدمہ

جیسا کہ ھم نے پھلے اشارہ کردیا ھے کہ ضرورتِ نبوت کی دلیل کا تقاضا یہ ھے کہ الٰھی پیغامات صحیح و سالم انسانوںتک پھنچیں، تا کہ اس پر عمل کرتے ھوئے انسان اپنی دنیا و آخرت کی سعادتوں تک رسائی حاصل کر سکے۔

لہٰذا قرآ ن کا لوگوں تک پھنچنے تک محفوظ رھنا دوسری آسمانی کتابوں کی طرح محتاج بحث نھیں ھے لیکن ھمیںیہ کھاں سے معلوم کہ دوسری آسمانی کتابیں بشر کے اختیار میں آنے کے بعد تحریفات کا شکار ھوئیں یا ایک مد ت گذرنے کے بعد طاق نسیاں کا شکار ھوگئیں، جیسا کہ آج ھمارے درمیان حضرت ابراھیم و حضرت نوح علیھما السلام کی کتابوں کا کوئی اثر موجود نھیں ھے۔ اور حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیھما السلام کی کتابیں اپنی اصلی حالت میں باقی نھیں ھیں۔ لہٰذا اِن مطالب کے پیش نظر یہ سوال اُٹھتا ھے کہ آج ھمارے پاس جو آسمانی کتاب کے عنوان سے قرآن موجود ھے کیا یہ وھی کتاب ھے جو آنحضرت( ص) پر نازل ھوئی اس میں کسی بھی قسم کی کوئی تحریف ، کمی و زیادتی نھیں ھوئی ھے؟

البتہ وہ لوگ کہ جنھیں اسلام اور مسلمین کی تاریخ کا  تھوڑا ، بہت بھی علم ھے ، وہ جانتے ھیں کہ رسول اللہ( ص) اور آپ کے جانشین ائمہ علیھم السلام نے قرآن کی کتابت اور اُس کی آیات کے حفظ کرنے میںکیا اہتمام کیا ھے ، یھاں تک کہ تاریخ کے مطابق تنھا ایک جنگ میں قرآن کے حافظین میں سے سترافراد شھید کردئے گئے، چودہ صدیوں سے قرآن کو تواتر سے نقل کرنے اور اُس کی آیات و کلمات اور حروف کی تعداد کو شمار کرنے میں مصروف ھیں  وہ اس بات سے با خبر ھیں ایسے لوگ کھبی بھی قرآن میں معمولی تحریف کا امکان بھی نھیں دے سکتے، لیکن اگر تاریخ کے ایسے قطعی قرائن سے صرف نظر کرلیا جائے تو عقلی و نقلی دلائل کے ذریعہ قرآن کے سالم رھنے کو ثابت کیا جاسکتا ھے، یعنی پھلے مرحلہ میں دلیل عقلی کی بنیاد پر قرآن میں کسی بھی چیز کے زیادہ ھونے کو ثابت کرنے کے بعد خود قرآن کی آیات کے سھار ے اُس میں سے کسی بھی چیز کے کم نہ ھونے کو ثابت کیا جاسکتا ھے۔

 اسی وجہ سے قرآن کے سالم رھنے کی بحث کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ھے۔

قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نہ ھونا۔

قرآن میں کسی بھی چیز کے زیادہ نہ ھونے کا مسئلہ تمام مسلمین بلکہ جھان کے تمام باخبر افراد کے نزدیک قبول شدہ ھے، بلکہ کوئی ایسا حادثہ بھی رونما نھیں ھوا کہ جس کی وجہ سے قرآن میں کسی بھی چیز کے زیادہ ھونے کا احتمال دیا جاسکے، اور اِسی اضافہ کے لئے کسی سند کا کوئی بھی وجود نھیں ھے، بلکہ عقلی دلیل کی بنیاد پر اس مسئلہ کو اس طرح باطل کیا جاسکتا ھے کہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ قرآن کے معانی میں کسی کامل معنی کا اضافہ ھوا ھے تو اُس کا مطلب یہ ھوگا قرآن کا مثل یا نظیر لانا ممکن ھے، حالانکہ اعجاز قرآن اوربشر کی ناتوانی کے پیش نظر یہ امر باطل ھے، اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ تنھا ایک کلمہ یا ایک چھو ٹی آیت کا صرف اضافہ ھوا ھے تو اسکا لازمہ یہ ھے کہ نظم سخن میں خلل وارد ھوا ھے اور قرآن اپنی اعجاز آمیز شکل و صورت سے خارج ھوگیا ھے، اور اس صورت میں قابلِ تقلید اور اُس کے مثل لانے کا امکان پیدا ھوجائے گا، اس لئے کہ قرآن، آیتوں کے اعجاز آمیز نظم، کلمات و حروف کے انتخاب پر منحصر ھے ،لہٰذا اُن میں خلل اور تغیر کے وارد ھوتے ھی وہ اپنی اصلی حالت سے خارج ھوجائے گا۔

لہذا جس دلیل کے ذریعہ قرآن کا اعجاز ثابت ھے اُسی دلیل کے ذریعہ قرآن کا اضافات سے محفوظ رھنا ثابت ھے، نیز اُسی دلیل کے ذریعہ کسی کلمہ یا جملہ کا کم ھونا اس کے کم ھوتے ھی حالت اعجاز کے ختم ھوجانے کی نفی کرتا ھے ، لیکن قرآن سے کسی کامل سورہ کے کم نہ ھونے یا قرآن سے ایک کامل مطلب کا اس طرح سے خارج ھوجانا کہ ُاس کے اعجاز میں خلل وارد نہ ھو، اس کے نہ ھونے کو ثابت کرنے کے لئے دوسرے دلائل کی ضرورت ھے۔

قرآن سے کسی چیز کا کم نہ ھونا۔

آج تک علماء اسلام خواہ سنی ھوں یا شیعہ برابر اس امر کی تاکید کرتے رھے ھیں کہ جس طرح قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نھیں ھوا اسی طرح اُس سے کچھ کم بھی نھیں ھوا ھے انھوں نے اپنے اِس مطلب کے لئے بے شمار دلیلیں پیش کی ھیں، لیکن احادیث کی کتابوںمیں بعض من گھڑت حدیثوں کو نقل کرنے کی وجہ سے بعض معتبر روایتوں [98] سے غلط مفھوم کو حاصل کرتے ھوئے بعض نے اِس مطلب کا احتمال اور بعض نے قرآن سے بعض آیات کے کم ھونے کی تائید بھی کی ھے۔

قرآن کا کسی بھی قسم کی تحریف خواہ اضافہ کے معنی میں ھو یا کم ھونے کے معنی میں۔     

اس سلسلہ میں تاریخ کے قطعی قرائن ھونے کے علاوہ قرآن سے ایسے مطالب کا حذف ھوجانا جو اُس کے اعجاز کو ختم کردے، دلیلِ اعجاز کے ذریعہ باطل ھے بلکہ قرآن کی ایک سورہ یا ایک آیت کے حذف ھونے سے محفوظ رھنے کو خود قرآن کریم کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ھے۔

یعنی جب یہ امر واضح ھوگیا کہ تمام قرآن خدا کا کلام ھے اور اُس میں ایک حرف کا بھی نھیں ھوا ھے لہذا اُس کی آیات کے مفاھیم نقلی و تعبدی دلائل کے عنوان سے حجت ھیں، لہٰذا قرآن کی آیت سے حاصل ھونے والے مفاھیم میں سے ایک مفھوم قرآن کا خدا کی جانب سے ھر قسم کی تحریف سے محفوظ رھنے کی ضمانت لینا ھے، جبکہ دوسری آسمانی کتابوں کی حفاظت خود اُسی اُمت کے حوالہ تھی[99] یھی مفھوم سورہٴ حجر کی آیت نمبر(۹) میں موجود ھے <’اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِکرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ>        یہ آیت دو جملوں پر مشتمل ھے، پھلا جملہ<اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذَّکرَ> اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ قرآن کو خدا نے نازل کیا ھے اور نزول کے دوران اِس میںکسی بھی قسم کا کوئی تصرف بھی نھیں ھوا ھے اور دوسرا جملہ<وَاِناَّ لَہُ لحَافِظُونَ >اس جملہ میں نھایت تاکید ھوئی ھے جو اِس بات پر دلالت کرتی ھے کہ خدا نے اِس میں کسی بھی قسم کی تحریف نہ ھونے کی ضمانت لے رکھی ھے

یہ آیت اگر چہ قرآن میں کسی بھی قسم کے اضافہ کی نفی کررھی ھے لیکن ایسی تحریف کے نہ ھونے پر اِس آیت سے بھی استدلال نھیں کیا جاسکتا ھے اِس لئے کہ قرآن میں کسی بھی آیت کے اضافہ کے فرض میں وہ آیت خود بھی شامل ھے ،لہٰذا اِس آیت کے ذریعہ اِس فرض کو باطل کرنا صحیح نھیں ھے، اِسی وجہ سے ھم نے قرآن کے معجزہ ھونے کے ذریعہ اس فرضیہ کو باطل کیا ھے اور پھر اِسی آیت کے ذریعہ کسی آیت یا سورہ کا اس طرح سے حذف ھونا جو قرآن کے اعجاز آمیز نظم میں خلل وارد نہ کرے اس قسم کے حذف سے قرآن کے محفوظ رھنے کو بھی ثابت کردیا ھے، پس اسطرح قرآن کا تحریف (خواہ اضافہ کے ساتھ ھو یا حذف ھونے کے ساتھ) سے محفوظ رھنا عقلی اور نقلی دلائل کی ترکیب سے ثابت ھوجاتا ھے۔

اِس بحث کے آخر میں اِس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا لازم سمجھتے ھیں کہ قرآن کا تحریف سے محفوظ رھنے کا مطلب یہ نھیں ھے کہ قرآن جھاں بھی ھو کتابت یا قرائت کے اعتبار سے محفوظ یا غلط تفسیراور تحریفِ معنوی سے پوری طرح پاک ھو، یا نزول کے مطابق اس کے سورہ اور آیتیں منظم ھوں”…بما استحفظو امن کتاب اللہ وکانوا علیہ شھداء‘

،بلکہ اس کا مطلب یہ ھے کہ قرآن جس مقدار میں نازل ھوا ھے اسی طرح انسانوں کے درمیان کم و زیادتی کے بغیر موجود ھے تا کہ طالبان حقیقت اپنا مقصود حاصل کرسکیں، لہٰذا قرآن کے بعض نسخوں کا ناقص یا کتابت کے اعتبار سے غلط ھوناقرائتوںکے اختلاف یا نزول قرآن کے مطابق آیات اور سورں کا منظم نہ ھونا مختلف تفسیرں اورمعنوی تحریفوں کا ھونا قرآن کا تحریف سے محفوظ رھنے کے خلاف نھیں ھے۔

سوالات

۱۔ قرآن کا تحریف سے محفوظ رھنے کے مسئلہ کو بیان کریں؟

۲۔ تاریخی اعتبار سے قرآن کے تحریف سے محفوظ رھنے پر دلائل کیا ھیں؟

۳۔ قرآن کا محفوظ رھنا کس طرح ثابت کیا جاسکتا ھے؟

۴۔ قرآن میں زیادتی کے نہ ھونے کو ثابت کریں؟

۵۔کس دلیل کی بنیاد پر قرآن سے کچھ بھی کم نھیں ھوا ھے؟

۶۔ کیا انھیں دلیلوں کے ذریعہ قرآن میں اضافہ نہ ھونے کو ثابت کیا جا سکتا ھے ؟ کیوں اور کیسے؟

۷۔اس امر کی وضاحت کریں کہ قرآن کا قرائت یا کتابت کے اعتبا ر سے ناقص ھونا معنوی تحریفوں اور مختلف تفسیروں کا ھونا کیونکر قرآن کا کسی بھی قسم کی تحریف سے محفوظ رھنے کے مسئلہ کے خلاف نھیں ھے ۔؟


[1] کلمہ آیات مختلف معانی میں استعمال ھوتا ھے جیسے علم و قدرت، حکمت ، موجودات خواہ وہ عادی ھوں یا غیر عادی۔

[2] سورہٴ رعد۔ آیت /۳۷۔ سورہٴ غافر۔ آیت /۷۸

[3] سورہٴ آل عمران۔ آیت/ ۴۹۔ سورہٴ مائدہ۔ آیت/ ۱۱۰

[4] اسی کتاب کے چوتھے اور چوبیسویں درس کی طرف رجوع کیا جائے۔

[5] سورہٴ آل عمران۔ آیت/ ۴۹۔

[6] سورہٴ  بنی اسرائیل۔، آیت/ ۷۷،۔سورہٴ احزاب۔ آیت/ ۶۲۔ سورہٴ فاطر۔ آیت/ ۴۳ سورہٴ  فتح۔ آیت/ ۲۳۔

[7] سورہٴ انعام۔ آیت/ ۳۷ سورہٴ یونس۔ آیت /۲۰ سورہٴ رعد۔ آیت /۷ سورہٴ  انبیا ۔ آیت/ ۵

[8] سورہٴ انعام۔ آیت/ ۳۵/ ۱۲۴ سورہٴ طہ۔ آیت /۱۳۳ سورہٴ صافات ۔آیت /۱۴ سورہٴ قمر۔ آیت /۲         سورہٴ شعراء ۔آیت /۳/ ۴/ ۱۹۷ سورہٴ اسراء۔ آیت /۵۹ سورہٴ روم۔ آیت /۵۸

[9] سورہٴ انعام۔ آیت/ ۲۱/ ۹۳/ ۱۴۴ سورہٴ یونس ۔آیت/ ۱۷ سورہٴ ھود۔ آیت /۱۸ سورہٴ کھف ۔آیت/ ۱۵     سورہٴ عنکبوت۔ آیت/ ۶۸  سورہٴ شوریٰ۔ آیت /۲۴

[10] سورہٴ الحاقہ۔ آیت /۴۴/ ۴۶

[11] ایسے نمونہ سے آگاھی کے لئے علامہ شیخ محمد جواد بلاغی کی کتاب ”الھدایٰ الی دین المصطفیٰ“ کی طرف رجوع کیا جائے۔

[12] سورہٴ بقرة ۔آیت /۱۳۱۔ ۱۳۷۔ ۲۸۵، سورہٴ آل عمران۔ آیت/ ۱۹۔ ۲۰۔

[13] سورہٴ شوریٰ۔ آیت/ ۱۳/ ، سورہٴ نساء ۔آیت /۱۳۶/ ۱۵۲، سورہٴ آل عمران۔ آیت/ ۸۴/ ۸۵

[14] سورہٴ نساء۔ آیت /۱۵۰، سورہٴ بقرہ ۔آیت /۸۵

[15] سورہٴ فاطر۔ آیت/ ۲۴، سورہٴ نحل۔ آیت/ ۳۶

[16] سورہٴ بقرہ ۔آیت /۲۴۶/ ۲۵۶۔

[17] رجوع کیا جائے رسالہٴ اعتقادت صدوق اور بحار الانوار (طبع جدید) ج۱۱/ ص ۲۸/۳۰/۳۲/ ۴۲۔

[18] سورہٴ بقرة۔ آیت /۲۱۳، سورہٴ نساء۔ آیت /۱۶۵

[19] بحار الانوار ۔ج۸۱۱ص ۲۸، ۳۲

[20] بحار الانوار ج۱۱/ ص۳۲

[21] اصول کافی ج۱/ ص۱۷۶

[22] سورہٴ بقرہ۔ آیت

[23] سو رہ بقرہ۔ آیت/ ۱۲۴/ سورہٴ انبیاء ۔آیت/ ۷۳، سورہٴ سجدہ۔ آیت/ ۲۴۔

[24] سورہٴ احقاف ۔آیت ۳۵۔

[25] بحار الانوار ج۱۱/ ص۲۴ اور معالم النبوة آیت/ ۱۱۳۔

[26] سورہٴ آل عمران۔ آیت /۸۱

[27] سورہٴ انعام۔ آیت/ ۹۰/سورہٴ یس ۔آیت/۲۱، سورہٴ قلم۔ آیت /۴۲، سورہٴ یونس۔ آیت/ ۷۲، سورہٴ ھود۔ آیت /۲۹/ ۵۱، سورہٴ فرقان ۔آیت /۷۵، سورہٴ شعراء۔ آیت /۱۰۹، ۱۲۷،۱۴۵، ۱۶۴، ۱۸۰، سورہٴ یوسف ۔آیت/ ۱۰۴

[28] سورہٴ شوریٰ۔ آیت/ ۲۳

[29] سورہٴ سبا ۔آیت /۴۷

[30] سورہٴ احقاف۔ آیت /۲۹، ۳۲

[31] سورہٴ جن ۔آیت/ ۱، ۱۴

[32] سورہٴ نحل۔ آیت/ ۳۶، سورہ انبیاء ۔آیت /۲۵، سورہٴ فصلت ۔آیت/ ۱۴، سورہٴ احقاف۔ آیت/ ۲۱

[33] سورہٴ ابراھیم۔ آیت/ ۹، سورہٴ مومنون ۔آیت/ ۴۴

[34] سورہٴ سبا۔ آیت/ ۳۴،

[35] سورہٴ غافر ۔آیت/ ۸۳، سورہٴ قصص۔ آیت /۷۸، سورہ زمر۔ آیت /۴۹

[36] سورہ احزاب۔ آیت/ ۶۷، سورہ سبا۔ آیت/ ۳۱/۳۳

[37] سورہٴ ھود۔ آیت/ ۴/۲۷/۳۱

[38] سورہٴ مائدہ۔آیت/۷۰

[39] سورہٴ غافر آیت/۵، سورہٴ اعراف آیت/ ۷۶

[40] سورہٴ بقرآیت/  ۱۷۰، سورہٴ مائدہ آیت/۱۰۴، سورہ یو نس آیت/ ۷۸، سورہ انبیاء آیت/۵۳، سورہٴ شعرائآیت' ۷۴، سورہٴ لقما ن/ آیت ۲۱،

 سورہٴ زخرف آیت/۲۲،۲۳۔

[41] سورہٴ ھودآیت /۸۴، ۸۶، سورہٴ قصص \آیت /۷۶،۷۹، سورہ تو بہ آیت/ ۳۴۔

[42] سورہ ابرا ھیم /آیت ۲۱، سورہٴ فاطرآیت/۴۷، سورہٴ ھود آیت/۲۷، سورہٴ شعراء آیت/۳۴۔

[43] سورہٴ  حجر۔ آیت ۱۱، یس آیت ۳۰، زخرف آیت۷، مطففین آیت ۲۹،۳۲۔

[44] سورہٴ اعراف آیت ۶۶، سورہٴ بقرہ آیت ۱۳، سورہٴ مومنون آیت ۲۵۔

[45] سورہٴ ذاریات آیت۳۹، ۵۲،۵۳۔

[46] سورہٴ انعام آیت ۲۵، انفا ل آ یتٍ ۳۱، سورہٴ نحل آیت ۲۴، مومنون ۸۳، نمل ۶۸، قلم ۱۵، مطففین۔۱۳

[47] سورہٴ نوح ۷، سورہٴ فصلت ۲، انعام ۱۱۲، ،۱۲۱، سورہٴ غافر ۵، ۳۵، اعراف ۷۰، ۷۱، کھف ۵۶۔

[48] سورہٴ بقرہ ۱۷۰، مائدہ ۱۰۴، اعراف۲۸، انبیاء۵۳، یونس ۷۸ لقمان ۲۱۔

[49] سورہٴ یونس آیت/۸۸،سباء آیت/۳۵،‘ قلم آیت/ ۱۴،مریم آیت /۷۷، مدثر آیت/ ۱۲، مزمل آیت/۱۱، احقاف آیت۱۱

[50] سورہٴ  انعام آیت/۷،۹،اسراء/ ۹۰،۹۵، فرقان/ ۸۴

[51] سورہٴ بقرہ آیت /۱۱۸، انعام آیت/۱۲۴، نساء آیت/۱۵۳

[52] سورہٴ ابراھیم آیت/۱۳، ھود آیت/۹۱، مریم آیت/ ۴۶، یس آیت /۱۸، غافرآیت/۲۶

[53] انفال آ)یت/ ۳۶

[54] سورہٴ ابراھیم آیت/۱۲

[55] سورہٴ بقرہ  آیت/۶۱،۸۷،۹۱، آل عمران آیت/۲۱۱، ۱۱۲، ۱۸۱، مائدہ  آیت/۷۰، نساء آیت/۱۵۵

[56] سورہٴ نساء آیت/۶۵، طہ آیت/۱۳۴

[57] سورہٴ علق آیت/۶

[58] سورہٴ انعام آیت/۴۲،اعراف آیت /۹۴

[59] سورہٴ انعام آیت /۴۳، سورہٴ مومنون آیت/ ۷۶

[60] سورہٴ اعراف آیت /۱۸۳، ۹۵

[61] سورہٴ اعراف آیت/۱۹۳،۱۸۲، آل عمران آیت/ ۱۷۸، توبہ آیت/۵۵،۵۸، مومنون آیت/ ۵۴،۵۶

[62] سورہٴ آل عمران آیت /۱۴۶

[63] سورہٴ عنکبوت آیت/۴۱۰۔ اور بہت سے دوسرے مقامات پر قرآن میں ذکر ھوا ھے

[64] سورہٴ آل عمران آیت/۱۴۶

[65] سورہٴ فاطر آیت/۴۳، غافر آیت/۸۵، اسراء آیت/۷۷

[66] توریت سفر پیدائش۔ تیسرا باب شمارہ ۸۔۱۲

[67] توریت، سفر پیدائش۔ چھٹا باب شمارہ ۶۔

[68] توریت، سفر پیدائش ۔۳۲۰ باب شمارہ ۲۴۔۳۲۔

[69] عھدقدیم، سموئیل کی دوسری کتاب گیارھواں باب۔

[70] توریت سفر پیدائش انیسواں باب شمارہ ۳۰۔۳۸۔

[71] تورات سفر تشنیہ  ۔باب ۳۴

[72] انجیل، یوحنا باب سوم۔

[73] اظھار الحق، مصنف رحمة اللہ ھندی، الھدیٰ الی دین المصطفیٰ مصنف علامہ بلاغی، راہ سعات، مصنف علامہ شعرانی۔

[74] سورہٴ جمعہ ۲/۳۔

[75] نہج البلاغہ ۔خطبہ ۱۸۷

[76] سورہٴ صف آیت/۶

[77] سورہٴ اعراف۔ آیت /۱۵۷،بقرہ آیت/۱۴۶، سورہ انعام آیت/۲۰

[78] سورہٴ بقرہ۔ آیت /۸۹

[79] سورہٴ مائدہ آیت /۸۳، احقاف آیت/۱۰

[80] سورہ شعراء ۔ آیت /۱۹۷

[81] ان علماء میں مرزا محمد رضا (جنکا شمار تھران کے عظیم یھودی دانشمندوں میں ھوتا ھے) اور ”اقامة الشھود فی   رد الیھود“ کے مصنف بھی ھیں، یزد کے علماء یھود میں سے حاج بابا قزوینی  صاحب کتاب ”محضر الشھود فی رد الیھود“ بھی ھیں۔ مسیحیوں کے مطابق اسقف پروفیسر عبد الاحد داؤد صاحب کتاب ”محمد در توریت و انجیل“ ھیں۔

[82] بحار الانوار ج۲۷/ ص۲۲۵ اتک ۱۸، اور تمام حدیث و تاریخ کی کتابیں ملاحظہ فرمائیں

[83] سورہٴ احزاب۔ آیت ۴۰۔

[84] اس کتاب کے انتیسویں درس کی طرف رجوع کیا جائے۔

[85] بحارا الانوار۔ ج۳۷/ص۲۵۴/۲۸۹۔ صحیح بخاری ۔ج۳/ ص۵۸۔ صحیح مسلم ۔ج۲/ ص ۳۲۳۔ سنن ابن ماجہ ۔ج  ۱، ص۲۸۔ مستدرک حاکم۔ ج۳/ ص۱۰۹۔ مسند ابن حنبل۔ ج۱/ ص ۳۳۱و ج۲/ ص۳۶۹،۴۳۷۔

[86] وسائل اشیعہ ۔ج۱/ ص ۱۵۔ خصال ۔ج۱/ص ۳۲۲ خصال ج۔۲/ ص ۴۸۷۔

[87] وسائل الشیعہ، ج۱۸/ ص۵۵۵۔ من لا یحضرہ الفقی، ج۴/ ص ۱۶۳۔ بحار الانوار، ج۲۲/ ص ۵۳۱۔ کشف الغمہ ،ج۱، ص۲۱

[88] سورہٴ  بنی اسرا ئیل آیت/ ۸۸

[89] سورہٴ ھود آیت/ ۱۳

[90] سورہٴ یونس/ ۳۸

[91] سورہٴ بقرہ آیت /۲۳/۲۴

[92] اصول کافی، ج۔۱/ ص۲۴۔

[93] اعلام الوریٰ ص۲۷ /۲۸ سیرہ ابن ھشام ج۱/ ص۴۱۰۔

[94] سورہٴ بنی اسرائیل  آیت۸۸۔ تفسیر نور الثقلین اِسی آیت کے ضمن میں رجوع کریں۔

[95] سورہٴ عنکبوت ۔ آیت۴۸

[96] سورہٴ یونس آیت ۱۶

[97] سورہٴ نساء۔ آیت ۸۲

[98] جیسے کہ وہ روایات جو آیتوں کی تفسیر یا اس کے بیان کرنے یا غلط تفسیروں اور معنوی تحریفوں کو باطل کرنے والی ھیں، جن سے یہ سمجھا گیا ھے کہ وہ قرآن کے کلمات کے حذف ھونے پر دلالت کرتی ھیں۔

[99] جیسا کہ سورہٴ مائدہ کی آیت نمبر (۴۴) میں علماء یھود و نصاریٰ کے سلسلہ میں فرماتا ھے ۔