عقل کے اندر اتنی قوت اور صلاحیت نھیں پائی جاتی ھے کہ وہ تن تنھاخواھشات کا مقابلہ کرسکے۔اور اگر کبھی ایسا موقع آجائے تو عقل کو ان کے سامنے بھر حال گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ھونا پڑیگا۔لیکن چونکہ خداوند عالم نے خواھشات کا مقابلہ کرنے کے لئے عقل کو اسکے معاون ومددگار صفات (اور لشکروں)سے نوازا ھے لہٰذا عقل کو ان کا مقابلہ کرنے یا انھیں کنٹرول کرنے میں کسی قسم کی زحمت کا سامنا نھیں ھوتا ھے اور یہ لشکر خود بخود بڑھ کر خواھشات کا راستہ روک لیتے ھیں اور ان کو بے راہ روی سے بچائے رکھتے ھیں ۔
جن صفات اور لشکروں کی امداد کے سھارے عقل خواھشات پر کنٹرول کرکے انھیں اپنے قابو میں رکھتی ھے انھیں اخلاقی دنیا میں عصم (محافظین عقل) کھا جاتا ھے ۔ لہٰذا عقل کے ان صفات کی صحیح تعلیم وتربیت اور پرورش اور نفس کے اندر ان کی بقاء و دوام ھی خواھشات نفس کے مقابلہ اور علاج کا سب سے بہترین اسلامی ،اخلاقی اورتربیتی طریقہٴ کار ھے ۔
کیونکہ ان عصمتوں (محافظوں)کا فریضہ یہ ھے کہ وہ انسان کو گناھوں میں آلودہ نہ ھونے دیں اور اسے حتی الامکان خواھشات کے چنگل سے محفوظ رکھیں۔ چنانچہ اگر نفس کے اندر خداوند عالم کے عطا کردہ یہ محافظ (عصمتیں)نہ ھوتے تو عقل تن تنھا کبھی بھی خواھشات کے حملوں کا مقابلہ نھیں کرسکتی تھی،لیکن اب چونکہ اسکے ساتھ ان محافظین کی کمک اورپشت پناھی موجود ھے لہٰذا وہ آسانی کے ساتھ انسانی خواھشات کے اوپر ھر لحاظ سے قابو پالیتی ھے اور ان کو اپنے کنٹرول میں رکھتی ھے ۔
یہ عصمتیں (محافظین عقل) مختلف حالات سے گذرتی رہتی ھیں یعنی کبھی یہ قوی ھوجاتی ھیں اور کبھی بالکل کمزور پڑجاتی ھیں ۔چنانچہ جب یہ بالکل طاقتور ھوتی ھیں تو انسان کو ھر قسم کی برائی سے بچائے رکھتی ھیں اور اسے گناہ نھیں کرنے دیتیں لیکن اگر خدا نخواستہ یہ کمزور ھوجائیں تو پھر انسان کی ھوس اور خواھشات نفسانی اس پر غالب آجاتے ھیں اور وہ انھیں کا ھوکر رہ جاتا ھے ۔
یہ عصمتیں تقویٰ کے ذریعہ مضبوط ھوتی ھیں اور گناھوں اور برائیوں کی وجہ سے کمزور پڑجاتی ھیں بلکہ گناھوں کا اثر ان کے اوپر اس حدتک ھوتا ھے کہ یہ بالکل چاک چاک اور پارہ پارہ ھوکر رہ جاتی ھیں جسکے بعدانسانی خواھشات اسکے اوپر اس طرح ٹوٹ پڑتے ھیں کہ وہ بالکل بے یارومددگار ھوجاتاھے اور کوئی اسکا بچانے والا محافظ اور نگھبان باقی نھیں رہ جاتا ۔جیساکہ دعائے کمیل کے اس جملہ میں اسکی طرف اشارہ موجودھے :
<اللّھم اغفر لی الذنوب التی تھتک العصم>
”بارالٰھا میرے ان گناھوں کو بخش دے جو عصمتوں کو چاک چاک کردیتے ھیں“
دوسری بات یہ کہ تقویٰ اور عصمتوں کے درمیان جو آپسی رابطہ ھے وہ طرفینی (دوطرفہ رابطہ)ھے یعنی اگر تقویٰ سے ان عصمتوں کو مدد ملتی ھے تو دوسری جانب یہ عصمتیں تقویٰ کی تقویت میں مددگار ثابت ھوتی ھیں۔
اس طرح گناھوں اور عصمتوں کے درمیان بھی دو طرفہ اثرات پائے جاتے ھیں یعنی جس طرح گناہ ،عصمتوں کوکمزور یا پارہ پارہ کردیتے ھیں اسی طرح اگر عصمت باقی نہ رہ جائے تو انسان بڑی آسانی کے ساتھ خواھشات کے چنگل میں گرفتار ھوجاتا ھے ۔
یہ عصمتیں نفس کے اندر ھی پیدا ھوتی ھیں اور ان کی بنیادیں اور جڑیں فطرت کی تھوں میں اتری ھوتی ھیں اور خداوند عالم نے انسان کے نفس اور اسکی فطرت کے اندر ان (عصمتوں)کے خزانے جمع کر رکھے ھیں جو خداوند عالم کی طرف سے معین کردہ فریضہ کی ادائیگی میں عقل کو سھارا دیتے ھیں ۔
جبکہ کچھ ماھرین سماجیات کا یہ خیال ھے کہ یہ عصمتیں نفس کے اندر پھلے سے موجود نھیں تھیں بلکہ جس سماج اور معاشرے میں انسان زندگی بسر کرتا ھے وہ انھیں سے یہ عصمتیں بھی سیکھتا ھے اور درحقیقت یہ سماج ھی کے ذریعہ اسکے نفس کے اندر منتقل ھوتی ھیں یھی وجہ ھے کہ مختلف قسم کے سماج اور معاشروں کے اعتبار سے انکی قوت وطاقت اورمقدار کم یا زیادہ ھوتی رہتی ھے ۔
اس نظریہ میں اتنی کمزوریاں پائی جاتی ھیں جن کا کوئی بھی جواب ممکن نھیں ھے ۔کیونکہ ذاتی خصلتوں ( اور اعمال)کا تعلق فطرت کی گھرائیوں سے ھوتا ھے البتہ ان کے اوپرمعا شرتی اور سماجی ماحول اثر انداز ضرور ھوتا ھے ا ور ان کو معاشرہ یا سماج سے جدا کردینا ممکن نھیں ھے ۔مگریہ سوچنا بالکل غلط ھے کہ ذاتی عادات و اطوار سماجیات سے بالکل الگ ھوتے ھیںیعنی ھم دوسری قسم کو سماج پر اثر انداز ھونے والے کے عنوان سے قبول کرلیں اور انھیں کے لئے پھلی خصلت کو چھوڑدیں کیونکہ ذاتی خصوصیات کو بالکل کالعدم قرار نھیں دیا جاسکتا اور نہ ھی کسی بھی اچھے یا برے معاشرے سے ان کو جدا کیا جاسکتا ھے ۔
ان دونوںصلاحتیوں اور صفات (اور طرز تفکر)کے درمیان یہ فرق ھے کہ ذاتی صلاحتیں ھر دوراورھر تمدن میں تمام انسانوں کے درمیان بالکل یکساں طورپر دکھائی دینگی جبکہ سماجی رسم ورواج ھرروز پیدا ھوتے رہتے ھیں اورمختلف اسباب کی بنا پر کچھ دن کے بعد ختم ھوجاتے ھیں حتی کہ بعض علاقوںیاملکوں میں کچھ ایسے رسم ورواج پائے جاتے ھیں جن کو دوسرے ممالک میں کوئی جانتا بھی نھیں ھے ۔
مثال کے طورپر خداوند عالم پر ایمان رکھناھر انسان کے اندر ایک ذاتی اور فطری چیز ھے جبکہ کفر والحاد ایک سماجی پیداوار ھے جو فطرت ایمان اور حتی خداوند عالم کے خلاف سرکشی اور بغاوت کے بعدپیدا ھوتاھے ۔
اگر چہ ایما ن اور کفر دونوں ھی کا وجود تقریباتاریخ انسانیت کے ساتھ ساتھ پایا جاتا ھے۔لیکن اسکے باوجود ان کے درمیان بے حد فرق ھے کیونکہ ایمان خدا کا وجود تو انسانی تمدن ،تاریخ اور زندگی میں ھر جگہ مل جائے گااور کوئی بشری تاریخ بھی اس سے ھرگز خالی نھیں ھے ۔حتی کے سورج،چاند ،اور بتوںکی عبادت کا سرچشمہ بھی در اصل یھی ایمان ھے ۔یہ اور بات ھے کہ ان کا رخ صحیح فطرت کی طرف ھونے کے بجائے کسی دوسری طرف ھوگیا ھے ۔
لیکن الحاد کاوجود کسی تہذیب یافتہ سماج کے اندر نھیں دکھائی دیتا چنانچہ نہ جانے انسان کے اوپر ایسے کتنے دور گذرے ھیں جن میںالحا دکا باقاعدہ کھیں کوئی وجود اورسراغ نھیںپایا جاتا جس کو کسی تہذیب و تمدن اور عقل و منطق کی پشت پناھی بھی حاصل رھی ھو۔
لیکن ایمان کا وجود آپ کو پوری کائنات میں ھر جگہ نظر آئے گا مگرالحاد کبھی کبھی کچھ عرصہ تک ادھر ادھر اپنا سر ابھارتا ھے اور ایک دن خود بخود نابود ھوجاتا ھے ۔جیسا کہ سیاست اور تہذیب و تمدن نیز فکر انسانی کی تاریخ میں اس کا سب سے زیادہ عروج مارکسیسم کے دور میں ھوا جب باقاعدہ ایک سپر پاور حکومت کی پشت پناھی نے اس نظریہ کو عام کرنے کی کوشش کی مگر دنیا نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اچانک اس کے غبارے کی ھوانکل گئی اور اب کوئی شخص مارکس کا نام لینے والا بھی نھیں ھے ۔
لیکن خداوند عالم پر ایمان کی صورتحال ایسی نھیں ھے ۔لہٰذا جو شخص خداوند عالم پر ایمان اور الحاد(اسکے انکار)کے درمیان فرق محسوس نہ کرسکے اس نے خود اپنے نفس کو دھوکہ میں ڈال رکھا ھے ۔
عصمتوں کے بارے میں مزید گفتگو
کچھ عرصہ پھلے میں نے عصمت کے بارے میں چند صفحات قلمبند کئے تھے جو ھماری اس بحث سے مربوط ھیں لہٰذا مناسب سمجھا کہ اسکے کچھ مفید اقتباسات اس مقام پر شامل کردئے جائیں تاکہ گذشتہ گفتگو تشنہ ٴ تشریح نہ رہ جائے ۔
ھم نے عرض کیا تھا کہ انسان کے اوپر اسکی خواھشات کی حکومت بہت مضبوط اور مستحکم ھوتی ھے جسکی وجہ سے اسکے نقصانات بھی بیحد خطرناک ھوتے ھیں لہٰذا جب تک انسان اپنی خواھشات کو اچھی طرح اپنے قابو میں کرکے متعادل اور محدود نہ بنادے وہ زندگی میں خواھشات کے خطرات سے کبھی بھی محفوظ نھیں رہ سکتا ھے چنانچہ ھر انسان کے سرپر یہ خطرات ھمیشہ منڈلاتے رہتے ھیں لہٰذا کوئی نہ کوئی ایسا اخلاقی اور تربیتی نظام درکار ھے جو انسان کو اسکی انفرادی اور سماجی زندگی میں ھر جگہ خواھشات کے طوفان کا مقابلہ کرنے اور انھیں قابو میں رکھنے نیزاسکے نقصانات سے بچنے کی صلاحیت عطا کردے ۔
اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ وہ نظام تربیت کیا ھے ؟جسکی پابندی کے بعد انسان اپنے خواھشات کے فریب سے محفوظ رہ سکتا ھے؟
اھل دنیا کے درمیان اس بارے میں چند نظریات پائے جاتے ھیں :
پھلا نظریہ رھبانیت کا ھے جس میں خواھشات کے مقابلہ کا یہ طریقہ بتایا گیا ھے کہ خواھشات کو نفس کے اندر اس طرح کچل دیا جائے کہ وہ اس میں گھٹ کر رہ جائیں اور اسکے ساتھ ساتھ حقیقی زندگی کے حصول کی خاطر فتنہ انگیز اور بھڑکانے والی باتوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی جائے ۔ رھبانیت میں یہ نظریہ بالکل عام ھے اور اسکی جڑیں ان کی قدیم تاریخ کے اندر دور دور تک پھیلی ھوئی ھیں ۔
اس مکتب فکر (نظریہ)کا خلاصہ یہ ھے کہ خواھشات کوھر قسم کے فتنہ سے دور رکھاجائے اور دنیاوی لذت وآرام سے پرھیز کرکے ان سے دوری اختیار کی جائے ۔کیونکہ انسان کاخاصہ یہ ھے کہ وہ برائی پر اصرارکرتاھے اورچونکہ خواھشات اور فتنوں کے درمیان رابطہ پایا جاتاھے اور انسان کی سلامتی اسی میں ھے کہ اسے فتنوں سے دور کردیا جائے ۔
لہٰذا خواھشات سے دوری اور دنیاکے فریبوں اور لذتوں سے کنارہ کشی میں ھی انسانیت کی بھلائی ھے اور اس نظام کا ماحصل یہ ھے کہ خواھشات اور لذتوں کو بالکل ترک کرکے دنیا سے ایک دم کنارہ کشی اختیار کرلی جائے اور اسے ترک کئے بغیر اس مقصدتک رسائی ممکن نھیں ھے ۔
تہذیب و تمدن کے افکار کے درمیان یہ ایک مشھور و معروف نظریہ ھے جس کے اثرات موجودہ دور کی باقی ماندہ مسیحیت میں بھی پائے جاتے ھیں ۔
لیکن اسلام نے اس طرز تفکر کی بہت سختی سے مخالفت کی ھے کیونکہ اسکی نگاہ میں خواھشات کو کچل دینا یا دنیا کی لذتوں سے کنارہ کشی اختیارکرلیناانسانی مشکلات کا حل نھیں ھے ۔
بلکہ خداوند عالم نے اسکی خلقت کے وقت اسکی جو فطرت بنادی ھے وہ اسی کے مطابق آگے قدم بڑھاتا ھے جس کی مزید وضاحت کے لئے قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں :
یابنی آدمَ خذوازینتکم عندکل مسجدٍ،وکلواواشربواولاتُسرفواانّہ لا یُحبّ المسرفین[1]
”اے اولاد آدم ھر نماز کے وقت اور ھر مسجد کے پاس زینت ساتھ رکھو اور کھاؤ پیو مگر اسراف
نہ کرو کہ خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نھیں رکھتا ھے “
دوسری آیہٴ کریمہ :
قل من حرّم زینةَ الله التی اٴخرج لعبادہ والطیبات من الرزق قل ھی للذین آمنوافی الحیاةالدنیاخالصةً یومَ القیامةِکذلک نفصّل الآیات لقوم یعلمون#قل إنّما حرّم ربّیَ الفواحشَ ماظھرَمنھا ومابطنَ والإ ثمَ والبغیَ بغیرالحقِّ واٴن تشرکوا باللّہِ مالم یُنزّل بہ سلطاناً واٴن تقولواعلیٰ اللهِ مالا تعلمون[2]
”پیغمبر آپ پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ھے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ۔اور بتائیے کہ یہ چیزیں روز قیامت صرف ان لوگوں کے لئے ھیں جو زندگانی دنیا میں ایمان لائے ھیں ھم اسی طرح صاحبان علم کے لئے مفصل آیات بیان کرتے ھیں۔کہہ دیجئے کہ ھمارے پروردگار نے صرف بدکاریوں کو حرام کیا ھے چاھے وہ ظاھری ھوں یا باطنی اور گناہ اور ناحق ظلم اور بلا دلیل کسی چیز کو خدا کا شریک بنانے اور بلاجانے بوجھے کسی بات کو خدا کی طرف منسوب کرنے کو حرام قرار دیا ھے “
مختصر یہ کہ یہ آیہٴ کریمہ:
<یابنی آدم خذوا زینتکم عندکل مسجد وکلوا واشربوا ولا تسرفوا>
ھر انسان کو یہ دعوت دے رھی ھے کہ وہ دنیاوی لذتوں سے خوب فائدہ اٹھائے بس شرط یہ ھے کہ اسراف نہ کرے۔ اسکے بعد دوسری آیت میں ان لوگوں کی مذمت ھے جنھوں نے خداوند عالم کی حلا ل کردہ پا ک و پاکیزہ چیزوں کو حرام (ممنوع)کردیا ھے جیسا کہ ارشاد ھے :
قل من حرّم زینة اللهِ التی اٴخرج لعبادہ والطیباتِ من الرزق
آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ھے کہ دنیا اور اسکی تمام نعمتیں اور سھولتیں در اصل مومنین کے لئے ھیں لیکن غیر مومنین کو بھی ان سے استفادہ کی اجازت دیدی گئی ھے لیکن آخرت کی تمام نعمتیں صرف اور صرف مومنین کے لئے ھیں ۔جیسا کہ ارشاد الٰھی ھے :
قل ھی للذین آمنوا فی الحیاة الدنیا خالصةً یوم القیامة
آیت نے یہ وضاحت بھی کردی ھے کہ خداوند عالم نے صرف اس دنیا کی پوشیدہ اور آشکار تمام برائیوںاور گناھوں سے منع کیا ھے اور اسکے علاوہ ھر چیز جائزقراردی ھے ۔
لہٰذاا سلام ،دنیا سے قطع تعلق کرنے والے نظریات کوٹھکراکر خداکی حلال اور پاکیزہ نعمتوں سے لطف اندور ھونے کا حکم دیتا ھے اور جن لوگوں نے دنیا سے اپنا ناطہ توڑکر خدا کی حلال کردہ اور پاکیزہ روزی کو حرام کررکھا ھے ان کے اس عمل کی سخت مذمت کرتا ھے۔ اللهکی انھیں پاک وپاکیزہ نعمتوں میں سے ایک نعمت امتحان و آزمائش بھی ھے ۔جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو آزماتا رہتا ھے ۔اسکے باوجود خداوند عالم کی طرف سے یہ اجازت ھرگز نھیں ھے کہ ھم ان چیزوں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلیں اور یا ان سے بالکل دور ھوجائیں بلکہ حکم الٰھی تو یہ ھے کہ صرف برائیوں سے محفوظ رھیں اور حدودالٰھی سے آگے قدم نہ بڑھائیں۔
چنانچہ روایت میں ھے کہ ایک بار ایک آدمی یہ کہہ رھا تھا:
اٴللھم انّی اٴعوذ بک من الفتنة
”بارالٰھا میں فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ھوں“
اس جگہ حضرت علی (ع) بھی موجود تھے جب آپ نے اس کی زبان سے یہ کلمات سنے تو فرمایا مجھے محسوس ھورھا ھے کہ تم اپنی اولاداور مال سے بھی خدا کی پناہ مانگ رھے ھو کیونکہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے :
إنما اٴموالکم واٴولادکم فتنة
”بیشک تمھارے اموال اور اولاد فتنہ ھیں“
لہٰذا یہ نہ کھو کہ میں فتنوں سے تیری پناہ چاہتا ھوں بلکہ اس طرح کھا کرو۔
اٴللھم انّی اٴعوذبک من مضلاّت الفتن[3]
”بارالٰھامیں گمراہ کن فتنوں سے تیری پناہ چاہتا ھوں“
مولائے کائنات (ع) کا یہ ارشاد گرامی ھے :
لایقولَنَّ اٴحدکم:اللھم انّی اٴعوذبک من الفتنة،لاٴنہ لیس اٴحد الاّٰ و ھو مشتمل علیٰ فتنة،ولکن من استعاذ فلیستعذ من مضلات الفتن،فان الله سبحانہ یقول:واعلموا اٴنّما اٴموالکم واٴولادکم فتنة[4]
” تم یہ ھرگز نہ کھو ! بارالٰھا میں فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ھوں کیونکہ تمھارے درمیان کوئی ایک بھی ایسا نھیں ھے جسکا دار ومدار فتنہ پرنہ ھو لہٰذا جس کو خدا سے پناہ چاہئے وہ گمراہ کن فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے “کیونکہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ھے :
”یاد رکھو!بیشک تمھارے اموال اور اولاد فتنہ ھیں“
اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ خواھشات کو قابو میں رکھنے اور کنٹرول کرنے کے بارے میںاسلام نے جو حکم دیا ھے اس کا نتیجہ کیا ھے ؟اس کا جواب یہ ھے کہ اسلام نے اس کے ذریعہ خواھشات کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک جدیدنظریہ اور نظام تربیت پیش کیا ھے اور اس نظریہ کو عصمتوں کا نظام کھا جاتا ھے ۔
کیونکہ عصمتوں (بچانے والی خصلتوں)کی مثال ایسی ھی ھے جیسے بجلی یا آگ کا کام کرتے وقت ھم دستانے یا واٹرپروف کپڑے پھن لیتے ھیں اور کسی خطرے کے بغیر بڑی آسانی سے اسکا ھر کام کرلیتے ھیں اسی طرح اگر انسان چاھے توعصمتوں کے سھارے دنیا کی رنگینیوں اور فتنوں کے درمیان بڑی آسانی سے زندگی گذار سکتا ھے اور ان کی موجودگی میں اسے کوئی نقصان بھی نھیں پھنچے گا ۔ لہٰذا جس طرح صرف آگ کی حرارت یا بجلی کے کرنٹ کے خطرات کی بناء پر ان کا استعمال ترک کردینا صحیح نھیں ھے اور دوسروں کو اس سے منع کرنا بھی غلط ھے کیونکہ دستانے اور واٹر پروف لباس وغیرہ کے سھارے ان سے ھر کام لیا جاسکتا ھے ۔اسی طرح لوگوں کو دنیا کی آزمائشوں سے دور رکھنا صحیح نھیں ھے کیونکہ ان کے مال واولاد بھی ایک قسم کی آزمائش اور فتنہ ھیں لہٰذا ھر شخص کے لئے یہ ضروری ھے کہ وہ ان گمراہ کن اور آزمائش طلب مقامات پر ان عصمتوںسے اچھی طرح استفادہ کرے جو اسے ان سے محفوظ رکھیں ۔کیونکہ اگر یہ عصمتیں کسی کی ذاتی یا سماجی زندگی میں تکامل کی منزل تک پھنچ جائیں تو پھر انسان اپنی خواھشات اور ھوی وھوس کا مختار کل بن جاتا ھے جس کی طرف روایت میں صریحاً اشارہ موجود ھے کہ دنیا میں دو طرح کے انسان پائے جاتے ھیں کچھ وہ ھیں جن کی خواھش اور ھوی وھوس ان پر غالب ھے اور کچھ لوگ ایسے ھیں جن کی خواھشات پر ان کا مکمل کنٹرول ھے لہٰذا کیونکہ خواھشات پر کنٹرول کرنا ممکن ھے اسی لئے اسلام میںدنیا کے راحت و آرام سے منع نھیں کیا گیا ھے البتہ اتنا ضروری ھے کہ جسے دنیا سے دل چسپی ھے وہ خواھشات اور ھوی و ھوس پر مکمل کنٹرول کرلے اسکے بعد چاھے جس نعمت دنیا کو استعمال کرے ،ھدایت اور ھوائے نفس کے درمیان یھی معیار اور حد فاصل ھے ۔
امام جعفر صادق (ع) :<منملک نفسہ اذا غضب،واذا رھب،واذا اشتھیٰ،حرّم اللهجسدہ علیٰ النار>[5]”جو شخص غصہ،خوف اور خواھشات ابھر نے کی حالت میں اپنے نفس کو قابو میں رکھے گاخداوندعالم اسکے جسم کو جھنم پر حرام کردیگا“
<منملک نفسہ اذا رغب،واذا رھب،واذا اشتھیٰ،واذا غضب،واذا رضی حرّم اللهجسدہ علیٰ النار>[6]
”جو شخص رغبت،خوف اور خواھشات ابھرنے اورغصہ یا خوشی کی حالت میں اپنے نفس کو قابو میں رکھے خداوندعالم اسکے جسم کو جھنم پر حرام کردیگا“
عصمتوں کی قسمیں
ھر انسان کے اندر تین طرح کی عصمتیں پائی جاتی ھیں:
۱۔کچھ عصمتیں ایسی ھیں جن کو خداوند عالم نے انسانی فطرت کی تکوینی خلقت اور تربیت کی گھرائیوں میں ودیعت فرمایا ھے جیسے حیا، عفت اوررحم دلی وغیرہ۔۔۔یھی وجہ ھے کہ انسان اور حیوان دونوں کے اندریکساں طور پر جنسی خواھشات موجود ھیں البتہ ان کے درمیان اتنا فرق ضرورھے کہ حیوانوں میں یہ جذبہ بالکل ھی واضح اورظاھرھے جبکہ انسان کے اس جذبہ کے اوپر حیاء وعفت کے پردے پڑے ھوئے ھیں یھی وجہ ھے کہ حیوانوں کو اسکی تسکین میں کوئی پریشانی نھیں ھوتی لیکن انسان کو اسکی تسکین سے بہت ساری جگھوں پرپرھیز کر ناپڑتاھے ۔ظاھرھے کہ یہ انسان کی جنسی کمزوری کی بناء پر نھیںھے ۔ بلکہ حیاء وشرم وعفت جیسی عصمتیں اسکے لئے مانع ھوجاتی ھیں کیونکہ یہ جنسی خواھش کو متعادل،لطیف اور کمزوربنادیتی ھیں اور اس پر روک لگاکر اسے مختلف طریقوں سے ابھرنے نھیں دیتیں۔
اسی طرح جذبہٴ رحمت(رحم دلی)سے کافی حد تک انسان کا غصہ ٹھنڈا ھوجاتا ھے یھی وجہ ھے کہ اگرچہ انسان اور حیوان دونوں کے اندر ھی غصہ کا مادہ پایا جاتا ھے مگر حیوان کے اندر اسکے آگے کوئی رکاوٹ نھیں ھوتی لیکن انسان کے یھاں اسکے اوپر رحمت (رحم دلی)کا سائبان ھے جس سے وہ بآسانی معتدل ھوجاتا ھے۔
۲۔کچھ عصمتیں وہ ھیں جن کو انسان اپنی ذاتی صلاحیت اور محنت سے حاصل کرتا ھے اور ھر انسان کی زندگی میں اسکی تربیت ان عصمتوں کے حصول میں اھم کردار ادا کرتی ھیں ۔جیسے ذکر الٰھی ، نماز ،روزہ ،تقویٰ وغیرہ ۔۔۔کیونکہ نماز برائی سے روکتی ھے ،ذکر الٰھی سے شیطان دور ھوجاتا ھے روزہ جھنم کی سپر ھے۔اور تقویٰ ایسا لباس ھے جو انسان کو گناھوں اور برائیوں کے مھلک ڈنک سے محفوظ رکھتا ھے۔اسی لئے قرآن مجید میں ارشاد ھے:
<ولباس التقوی ذٰلک خیر>[7]
”لیکن تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ھے “
۳۔عصمتوں کی تیسری قسم وہ ھے جسے خداوند عالم نے انسان کی معاشرتی زندگی میں ودیعت کیا ھے جیسے دیندار سماج اور معاشرہ یاشادی بیاہ وغیرہ ۔۔۔کیونکہ دیندار سماج اور معاشرہ بھی انسان کو برائیوں سے محفوظ رکھتا ھے۔اور شادی (شوھر اور زوجہ )دونوں کو بے شمار برائیوں سے بچالیتی ھے۔
فی الحال ھم آپ کے سامنے نفس کے اندر اللہ کی ودیعت کردہ ان عصمتوں کے دو نمونوں (خوف وحیا)کی وضاحت پیش کر رھے ھیں۔
خوف الٰھی
خداوند عالم نے انسان کے اندر جو عصمتیں ودیعت فرمائی ھیں ان کے درمیان خوف الٰھی سب سے اھم اور بڑی عصمت ھے جس کو حدیث میں عقل کاایک لشکر قرار دیا گیا ھے اوریہ خواھشات کو کنٹرول کرنے کاسب سے بہترین ذریعہ ھے ۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھے:
<واٴ مّا من خاف مقام ربّہ ونھیٰ النفس عن الھویٰ فانّ الجنة ھی الماٴویٰ >[8]
”اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ھے اور اپنے نفس کو خواھشات سے روکاجنت اسکا ٹھکانا اور مرکز ھے“
اس آیہٴ کریمہ سے بالکل صاف روشن ھے کہ خوف الٰھی اورنفس کو خواھشات سے روکنے کے درمیان ایک قریبی رابطہ پایا جاتا ھے۔
اسی آیت کے بارے میں امام صادق (ع) سے روایت ھے کہ:
<من علم اٴن الله یراہ ویسمع مایقول،ویعلم مایعملہ من خیر اٴو شر، فیحجزہ ذ لک عن القبیح،فذلک الذی خاف مقام ربّہ،ونھیٰ النفس عن الھویٰ >[9]
”یعنی جسے یہ علم ھوجائے کہ خداوند عالم اسے دیکھ رھا ھے اور اسکی ھر بات سنتا ھے اور اسکے ھر اچھے یا برے عمل پر اسکی نظر ھے تو یھی خیال اسکو برائی سے روک دیگا اور اسی انسان کے بارے میں یہ کھا جاتا ھے کہ وہ اپنے رب سے خوفزدہ ھوگیا اور اس نے اپنے نفس کو اپنی ھوس(خواھشات ) سے باز رکھا“
امیر المومنین (ع) :
<الخوف سجن النفس من الذنوب،ورادعھا عن المعاصی>[10]
”خوف الٰھی انسان کے نفس کو گناھوں اور برائیوں سے بچانے والا حصار ھے“
رسول اکرم (ص) :
<سبعةیظلّھم اللہ یو م لاظل الاظلہ،الامام العادل،وشاب نشاٴ بعبادةاللّٰہ
عزوجل،ورجل قلبہ معلّق فی المساجد ،ورجلان تحابّا فی اللّٰہ عزوجل اجتمعا علیہ وتفرقاعلیہ،ورجل تصدّق بصدقة فاٴخفاھا حتی لاتعلم شمالہ ماتنفق یمینہ، ورجل ذکر اللہ خالیاً ففاضت عیناہ،ورجل دعتہ امراٴة ذات منصب وجمال فقال انّی اٴخاف اللهعزّوجل>[11]
” سات افرادکے اوپر اس دن رحمت الٰھی سایہ فگن ھوگی جس دن اسکے علاوہ اور کوئی سایہ موجود نہ رھے گا:۱۔امام عادل۔۲۔وہ جوان جسکی نشو و نماعبادت الٰھی میں ھوئی ھو۔۳۔جسکا دل مسجدوں سے وابستہ ھو۔ ۴۔خداوند عالم کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے جو اسی کے نام پر جمع ھوں اور اسکی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ھوجائیں(یعنی ان کی ھر محبت اور دشمنی خدا کے لئے ھو) ۔۵۔جوشخص اس طرح چھپا کر صدقہ دے کہ اگر ایک ھاتھ سے دے تو دوسرے ھاتھ کو خبر نہ ھو۔۶۔جو گوشہٴ تنھائی میں ذکر الٰھی کرے اور اسکی آنکھ سے آنسو نکل آئیں۔۷۔وہ مرد جسے کوئی حسین وجمیل اور صاحب منصب عورت اپنی طرف دعوت دے اور وہ اس سے یہ کھدے کہ مجھے خدا سے ڈرلگتا ھے“۔
گویا خوف الٰھی ایک ایسی چیز ھے جو انسان کو اسکی سب سے خطرناک خواھش اور ھوس یعنی جنسی جذبہ سے بھی روک دیتی ھے اور انسان گناھوں اور برائیوں سے بچ جاتا ھے
حضرت علی (ع) :
<العجب ممن یخاف العقاب فلم یکف،ورجیٰ الثواب (بقیہ آئندہ صفحہ پر) فلم یتب ویعمل>[12]
”اس شخص پر حیرت ھے جسے سزا کا خوف ھومگر پھر بھی برائی سے نہ رکے اور ثواب کی امید رکھتا ھو اوراسکے باوجودتوبہ کرکے نیک عمل انجام نہ دے “
امام محمد باقر (ع) :
<لاخوف کخوف حاجز ولارجاء کرجاء معین> [13]
”برائیوں سے روکنے والے خوف سے بہتر کوئی خوف نھیں اور نیکیوں میں معاون ثابت ھونے والی امید سے بہتر کوئی امید نھیں ھے “
مولائے کائنات (ع) :
<نعم الحاجزمن المعاصی الخوف>[14]
”برائیوں سے روکنے والی سب سے بہترین چیز کانا م خوف ھے“
یہ کتنی عجیب بات ھے کہ جو خوف اورڈر،اضطراب سے پیدا ھوتا ھے اسی خوف سے اضطراب پیدا ھوجاتا ھے اوراگرچہ یہ امن وامان کے مقابل میں بولا جاتا ھے مگراس کو اسلام نے انسان کے لئے امان اور ڈھال بنادیا ھے ۔کیونکہ خوف ،انسان کو گناھوں اور برائیوں سے نھیں روکتا بلکہ در حقیقت یہ اسے ھلاکت اور بربادی سے بچانے والی ڈھال کا نام ھے۔یھی وجہ ھے کہ جس خوف کتاب محاربین باب ۴ ،صحیح مسلم در کتاب زکات باب ۳۰ اور ابوالفرج نے بھی اپنی کتاب ذم الھوی میں ص۲۴۳پر اس روایت کو نقل کیا ھے۔
کوانسان پھلی نظر میں خطرناک محسوس کرتا ھے وھی خوف انسان کی زندگی کو امن وامان عطا کرنے والی ایک نعمت ھے ۔
اسی بارے میں حضرت علی (ع) کا ارشاد ھے :
۱۔<الخوف امان >[15]
”خوف ایک امان ھے“
۲۔<ثمرة الخوف الامان>[16]
”خوف کا پھل امان ھے“
۳۔<خف ربک وارج رحمتہ، یوٴ منک مماتخاف،وینلک مارجوت>[17]
”خدا سے ڈرتے رھو اور اسکی رحمت کی امید رکھو تو جس سے بھی تم خوفزدہ ھو گے وہ تمھیں اس سے بچائے رکھے گا اور جس کی امید ھے وہ تمھیں حاصل ھوجائے گا“
<لاینبغی للعاقل ان یقیم علی الخوف اذا وجد الی الاٴمن سبیلا>[18]
”کسی صاحب عقل وخرد کے لئے یہ ھرگز مناسب نھیں ھے کہ امن وامان کا راستہ مل جانے کے بعد خوف کی منزل میں پڑا رھے“
روایا ت میں جس خوف کا تذکرہ ھے اس سے مرادعذاب الٰھی سے امان ھے،اور امان سے مراد ،عذاب خداکا خوف ھے اور یہ اسلامی تہذیب و تمدن کے ایک متقابل اور حسین معنی ھیں ۔جس کا مطلب یہ ھے کہ دنیا کا خوف آخرت کے لئے امن وامان ھے اور دنیا کا امن وامان اور بے فکری آخرت میں خوف بن جائے گا۔
امیر المومنین (ع) نے یہ مفھوم پیغمبر اسلام کے کبھی خشک نہ رھنے والے چشمہٴ فیاض سے اخذفرمایا ھے جیسا کہ رسول اکرم (ص) سے روایت ھے کہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ھے :
<وعزتی وجلالی لااٴجمع علی عبدی خوفین ولااٴجمع لہ امنین،فاذاامننی
فی الدنیااخفتہ یوم القیامة،واذاخافنی فی الدنیاآمنتہ یوم القیامة>[19]
”میری عزت وجلالت کی قسم میںاپنے کسی بندے کو دو خوف یا دو امان (ایک ساتھ)نہ دونگا پس اگر وہ دنیا میں مجھ سے امان میں رھا تو قیامت میں اسے خوف میں مبتلا کردونگا اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے خوفزدہ رھا تو آخرت میں اسے امن وامان عطا کردونگا“
چند واقعات
ھر انسان کو برائیوں اور گناھوں سے بچانے میں خوف الٰھی کیا کردار ادا کرتاھے؟ اسکی مزید وضاحت کے لئے ھم چند واقعات پیش کر رھے ھیں جن میں سے بعض واقعات روایات میں بھی موجود ھیں۔
۱۔ابن جوزی کا بیان ھے کہ مجھ سے عثمان بن عا مرتیمی نے بیان کیا ھے کہ ان سے ابو عمر یحیی بن عاص تیمی نے بیان کیا تھا کہ :”حی“نامی ایک جگہ کا ایک آدمی حج کے لئے گھر سے نکلا ایک رات پانی کے ایک چشمہ پر اس نے ایک عورت کو دیکھا جسکے بال اسکے کاندھوںپربکھرے ھوئے تھے وہ کہتے ھیں کہ میں نے اس کی طرف سے اپنا منھ پھیر لیا تو اس نے کھا کہ تم نے میری طرف سے منھ کیوں پھرلیا؟میں نے جواب دیا کہ مجھے خداوند عالم سے ڈرلگتا ھے ۔چنانچہ اس نے اپنا آنچل سر پر ڈال کر کھا:تم بہت جلدی خوف زدہ ھوگئے جبکہ تم سے زیادہ تو اسے ڈرنا چاہئیے جو تم سے گناہ کا خواھشمند ھے ۔
پھر جب وہ وھاں سے واپس پلٹی تو میں اسکے پیچھے پیچھے ھولیا اور وہ عرب دیھاتیوںکے کسی خیمے میں چلی گئی چنانچہ جب صبح ھوئی تو میں اپنی قوم کے ایک بزرگ کے پاس گیا اور ان سے پورا ماجرا بیان کرتے ھوئے کھا کہ اس جوان لڑکی کا حسن وجمال اور چال ڈھال ایسی تھی:تو وھیں ایک بوڑھا آدمی بیٹھا تھا وہ فوراًبول پڑا خدا کی قسم وہ میری بیٹی ھے۔میں نے کھا کیا آپ اس سے میری شادی کرسکتے ھیں؟اس نے جواب دیا اگرتم اسکے کفو ھوئے توضرور کردونگا۔میںنے کھا: خداکا ایک مرد ھوں اس نے کھا نجیب کفوھے چنانچہ وھاں سے چلنے سے پھلے ھی میں نے اس سے شادی کرلی اور ان سے یہ کھدیا کہ جب میں حج سے واپس پلٹوں گا تو اسے میرے ساتھ رخصت کردینا چنانچہ جب میں حج سے واپس پلٹاتو اسے بھی اپنے ساتھ کوفہ لے آیا اور اب وہ میرے ساتھ رہتی ھے اور اس سے میرے چند بیٹے اور بیٹیاں ھیں۔[20]
۲۔مکہ میں ایک حسین وجمیل عورت اپنے شوھر کے ساتھ رہتی تھی اس نے ایک دن آئینہ میں اپنی صورت دیکھ کر اپنے حسن وجمال کی تعریف کرتے ھوئے اپنے شوھر سے کھا ،ذرا بتائے آپ کی نظر میں کیا کوئی ایسا ھے جو اس حسن وجمال کو دیکھ کر نہ بھکنے پائے؟
شوھر نے کھا ھاں کیوں نھیں، پوچھا کون ھے؟جواب دیا عبید بن عمیر، عورت نے کھا: اگر تم مجھے اجازت دوتو میں آج اسے بھکاکردکھاؤوں گی؟ کھا :جاؤ تمھیں اجازت ھے۔چنانچہ وہ گھر سے نکلی اور مسئلہ پوچھنے کے بھانے اسکے پاس پھونچی اس نے اسے مسجد الحرام کے اندر تنھائی میں ملنے کا موقع دے دیا ،تو اس نے اسکے سامنے چاند کی طرح چمکتے ھوئے اپنے چھرہ سے نقاب الٹ دی، تو اس نے کھا: اے کنیز خدا ،عورت بولی: میں آپ کے اوپر فریفتہ ھوگئی ھوں لہٰذااس معاملہ میں آ پ کی رائے کیا ھے؟اس نے کھا میں تم سے چند سوال کرنا چاہتا ھوں اگر تم نے میری تصدیق کردی تو میں تمھیں اپنی رائے بتادوں گا، وہ بولی جو کچھ تم پوچھوگے میں سچ سچ جواب دوں گی۔ کھا:ذرا یہ بتاؤ اگر ملک الموت تمھاری روح قبض کرنے کے لئے آئیں تو اس وقت تمھیں اچھا لگے گا کہ میں تمھاری یہ تمنا پوری کردوں؟وہ بولی بخدا ھرگز نھیں۔کھا :تم نے سچ کھا ھے۔پوچھا اگر تمھیں تمھاری قبر میں اتار دیا جائے اور سوال کرنے کے لئے بٹھایا جائے تو اس وقت تمھیں اچھا معلوم ھوگا کہ میں تمھاری یہ تمنا پوری کردوں؟وہ بولی بخدا نھیں،کھا تم نے سچ جواب دیا۔پھر پوچھا یہ بتاؤکہ جب روز قیامت تمام لوگوں کے ھاتھ میں نامہٴ اعمال دئے جا رھے ھوں گے اور تم کو یہ معلوم نہ رھے کہ تمھارا نامہ عمل دائیں ھاتھ میں دیا جائے گا یا بائیں ھاتھ میں(یعنی نامہٴ عمل خراب ھے یا اچھا)اس وقت کیا تم یہ پسند کروگی کہ میں تمھاری یہ حاجت پوری کردوں؟بولی بخدا نھیں۔پھر سوال کیا بتاؤ جب سب کو میزان کے اوپر کھڑاکیا جارھا ھوگا اور تمھیں یہ معلوم نہ ھو کہ تمھارا نامہٴ عمل وزنی ھے یا ھلکا تو کیا تمھیں اس وقت خوشی ھوگی کہ میں تمھاری یہ تمنا پوری کردوں؟بولی بخدا نھیں۔کھا تم نے صحیح جواب دیا۔پھر پوچھا اگر تمھیں سوال اور جواب کے لئے خدا کے سامنے کھڑا کیا جائے اورمیں تمھاری یہ تمنا پوری کردوں توکیا اس وقت تم کو اچھا لگے گا؟بولی بخدا نھیں۔کھا تم نے سچ کھا ھے، تواس نے کھا: اے کنیز خدا ،ذرا خدا سے ڈرو اس نے تم کویہ نعمت دے کر تمھارے اوپر احسان کیا ھے یہ سن کر وہ اپنے گھر واپس آگئی شوھر نے پوچھا کھو کیا کرکے آئی ھو؟وہ بولی تم فضول ھو اور ھم سب کے سب فضول ھیں اور اسکے بعد وہ مستقل نماز ، روزہ اور عبادت میں مشغول ھوگئی وہ کہتا ھے کہ اسکا شوھر یہ کہتا رہتا تھا کہ بتاؤ عبید بن عمیر سے میری کیا دشمنی تھی ؟ جس نے میری بیوی کو برباد کردیا وہ کل تک تو ایک بیوی کی طرح تھی اوراب اس نے اسے راھبہ بناڈالا۔[21]
۳۔ابو سعد بن ابی امامہ نے روایت کی ھے ایک مرد ایک عورت سے محبت کرتا تھا ،اور وہ بھی اسے چاھنے لگی ایک دن یہ دونوں کسی جگہ ایک دوسرے سے ملے تو عورت نے اسے اپنی طرف دعوت دی ، اس نے جواب دیا :میری موت میرے قبضہ میں نھیں ھے اور تمھاری موت بھی تمھارے بس سے باھر ھے ایسا نہ ھو کہ ابھی موت آجائے اور ھم دونوں گناھکار اور مجرم کی صورت میں خداوند عالم کے دربار میں پھونچ جائیں، بولی: تم سچ کہہ رھے ھو، چنانچہ اسی وقت دونوں نے توبہ کرلی اور اسکے بعد دونوں راہ راست پرآگئے۔[22]
۴۔خارجہ بن زید کا بیان ھے کہ بنی سلیمہ کے ایک شخص نے مجھ سے اپنایہ ماجرا بیان کیا ھے کہ میں ایک عورت کا عاشق ھوگیاتھااور جب بھی وہ مسجد سے نکل کر جاتی تھی میں بھی اسکے پیچھے چل دیتا تھا اور اسے بھی میری اس حرکت کا علم ھوگیا۔چنانچہ اس نے ایک رات مجھ سے کھا تمھیں مجھ سے کچھ کا م ھے؟ میں نے کھا ھاں۔بولی: کیا کام ھے؟میں نے جواب دیا تمھاری محبت ۔اس نے کھا کہ اسے گھاٹے والے دن (روز قیامت) پر چھوڑدو، اسکابیان ھے کہ :خداکی قسم اس نے مجھے رلادیا جسکے بعد میں نے پھر یہ حرکت نہ کی۔[23]
۵۔بنی عبد القیس کے ایک بزرگ کی روایت ھے ،وہ کہتے ھیں کہ میں نے اپنے قبیلہ والوں سے سنا ھے کہ ایک شخص نے ایک عورت کو اپنی طرف دعوت دی تو وہ بولی تم نے حدیث سنی ھے اور قرآن پڑھا ھے تم پڑھے لکھے ھو،پھر مرد نے عورت سے کھا کہ :محل کے دروازے بند کردو، تو اس نے دروازے بند کردئے مگر جب وہ مرد اسکے نزدیک ھوا تو وہ عورت بولی کہ ابھی ایک دروازہ کھلارہ گیا ھے جو مجھ سے بند نھیں ھوسکا۔اس نے کھا کون سا دروازہ ؟جو اب دیا:وہ دروازہ جو تمھارے اور تمھارے پروردگار کے درمیان کھلا ھے یہ سن کر اس نے اسے ھاتھ بھی نھیں لگایا۔[24]
۶۔ابن جوزی کا بیان ھے کہ ھمیں یہ اطلاع ملی کے بصرہ کی زاھدہ وعابدہ خاتون ایک مھلّبی مرد[25]کے چنگل میں پھنس گئی ھے،کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھی اور جو کوئی اسے شادی کا پیغام دیتا تھاتو وہ منع کردیتی تھی چنانچہ مھلّبی کو یہ خبر ملی کے وھی عورت حج کرنے جاری ھے ،تو اس نے تین سو اونٹ خریدے اور یہ اعلان کردیا کہ جو حج کرنے کا ارادہ رکھتا ھے وہ مجھ سے اونٹ کرائے پرلے سکتا ھے۔چنانچہ اس عورت نے بھی اس سے کرایہ پرایک اونٹ لے لیا۔ایک دن راستہ میں وہ رات کے وقت اسکے پاس آیا اور کھا یاتم مجھ سے شادی کرو، ورنہ !عورت نے جواب دیا :تم پروائے ھو ذرا خدا کا خوف کرو، تو اس نے کھا:ذرا کان کھول کر سنو، خدا کی قسم میں کوئی اونٹوں کاساربان ( اونٹ والا) نھیں ھوں بلکہ میں تو اس کام کے لئے صرف اور صرف تمھاری وجہ سے نکلا ھوں، لہٰذا جب عورت نے اپنی آبرو خطرے میں دیکھی تو کھا کہ اچھا جاؤ یہ دیکھو کہ کوئی جاگ تو نھیں رھا ھے؟ اس نے کھا کوئی نھیں جاگ رھا ھے وہ پھر بولی ایک بار اور دیکھ آؤ چنانچہ وہ گیا اور جب واپس پلٹ کرآیا تو کھا: ھاں سب کے سب سوچکے ھیں تو عورت نے کھا: تجھ پروائے ھو،کیا رب العالمین کوبھی نیند آگئی ھے؟[26]
حیاء
عقل کے لشکرکی ایک اور صفت ”حیاء“بھی ھے یہ بھی انسان کو تباھی اور بربادی سے بچانے میں اھم کردار کرتی ھے۔چنانچہ اکثر ایسا ھوتا ھے کہ اگرکسی شخص کو خداوند عالم یا اسکے بندوں کی حیاء نہ ھوتووہ گناھوں میں مبتلا ھوجاتاھے اور اسے اسکی عقل بھی نھیں روک پاتی ھے ۔ایسے حالات میں صرف حیاء ھی اسکو گناہ سے بچاتی ھے۔
حیاء (چاھے جس مقدار میں ھو اس) کے اندر عصمت کے مختلف درجات پائے جاتے ھیں جیسے اعزاء و اقرباء سے شرم وحیاء میں جو عصمت پائی جاتی ھے وھی غیروں سے حیاء کے وقت ایک درجہ اور بڑھ جاتی ھے اسی طرح انسان جس کا احترام کرتا ھے اور اسکی تعظیم کا قائل ھے اسکے سامنے حیاء کی وجہ سے اسکے اندر اس سے اعلیٰ درجہ کی عصمت پیدا ھوجاتی ھے۔
آخر کار پروردگار عالم سے حیاء کرنے کی وجہ سے انسان عصمت کے سب سے بلند درجہ کا مالک ھوجاتا ھے ۔لہٰذا اگر انسان اپنے نفس کے اندر خداوند عالم کی حیاء پیدا کرلے اور اس کو اچھی طرح اپنے وجود میںراسخ کرلے اور خدااور اسکے فرشتوں کو ھمیشہ اپنے اوپر حاضر وناظر سمجھے تواس احساس کے اندر اتنی اعلیٰ درجہ کی عصمت پائی جاتی ھے جو اس کو ھر طرح کی نافرمانی، گناہ اور لغزشوںسے بچاسکتی ھے۔
الله تعالیٰ سے حیائ
یہ کیسے ممکن ھے کہ کسی انسان کے دل میں خداوند عالم کا خیال موجود ھواور وہ اسے حاضر وناظر بھی سمجھ رھا ھو اور اسے یہ بھی یاد ھو کہ خداوند عالم کے علاوہ اسکے معین کردہ فرشتے بھی اس سے اتنا نزدیک ھیں کہ خداوند عالم نے ان سے اسکا جو عمل پوشیدہ رکھتا ھے اسکے علاوہ اسکا کوئی عمل ان سے پوشیدہ نھیں ھے اورپھر بھی وہ گناہ کا مرتکب ھوجائے چنانچہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوذر ۻ کو جو وصیت فرمائی تھی اس میں یہ بھی ھے کہ اے ابوذر خدا وند عالم سے شرم وحیاء کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٴ قدرت میں میری جان ھے میرا حال تو یہ ھے کہ جب میں بیت الخلاء کے لئے جاتا ھو ں تو اپنے دونوں فرشتوں سے شرم وحیاء کی بناپر اپنے چھرے پر کپڑاڈال لیتا ھوں۔
حیاء کا وہ ارفع و اعلیٰ درجہ جو خداوند عالم نے اپنے رسول کو عنایت فرمایا ھے وہ دنیا میں بہت کم افراد کو نصیب ھوا ھے۔ مختصر یہ کہ جب انسان کے نفس کے اندر اور اسکے شعور و ادراک میں اچھی طرح حیائے الٰھی جلوہ فگن ھوجاتی ھے تو پھر اسے گناھوں، برائیوں نیزھوس کے مھلک خطرات کے سامنے سپر انداختہ نھیں ھونے دیتی ھے ۔
جب اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے شرم وحیاء کی بناء پرانسان نہ جانے کتنے ایسے کام نھیں کرتا ھے جنھیں ان کی عدم موجودگی یا تنھائی میں انجام دے لیتا ھے تواگر اسکے اندرخداوند عالم سے حیاء کا مادہ پیدا ھوجائے تو پھر خداوند عالم کی ناپسندیدہ چیزوں سے وہ بدرجہٴ اولیٰ پرھیز کریگا اور اسکے لئے ملاء عام (علی الاعلان)اور گوشہ تنھائی میں کوئی فرق نہ رہ جائے گا۔ اس لئے کہ خداوند عالم ھرجگہ حاضر وناظر ھے ۔اور یہ تو ممکن ھے کہ کوئی شخص ،بندوں سے کوئی بات پوشیدہ رکھ لے لیکن خداوندعالم سے اسکی کوئی بات ھرگز پوشیدہ نھیں رہ سکتی ھے۔
رسول اکرم (ص):
<یااٴباذراستح من الله،فاٴنی والذی نفسی بیدہ لاٴظل حین اٴذھب الیٰ الغائط متقنّعاًبثوبی استحی من المَلکین الذین معی> [27]
”اے ابوذر،خداوند عالم سے حیاء کرو،کیونکہ اس ذات کی قسم جسکے قبضہ میں میری جان ھے میں جب بھی بیت الخلاء کے لئے جاتاھوں تو اپنے ھمراہ دونوں فرشتوںسے شرم وحیاء کی وجہ سے اپنے چھرہ کو ڈھانپ لیتاھوں“
رسول اکرم (ص):
<استحِ من اللهاستحیاء ک من صالح جیرانک،فان فیھازیادةالیقین> [28]
”خداوند عالم سے اس طرح شرم وحیاء کرو جس طرح تم اپنے نیک اور صالح پڑوسی سے شرماتے ھو کیونکھاس سے یقین میں اضافہ ھوتا ھے“
آپ ھی سے یہ بھی مروی ھے :
<لیستحِ اٴحدکم من ملکیہ الذین معہ،کمایستحی من رجلین صالحین من جیرانہ،وھمامعہ باللیل والنھار>[29]
”اپنے فرشتوں سے تم اسی طرح شرم وحیا کیا کرو جس طرح تم اپنے دو صالح اور نیک پڑوسیوں سے شرماتے ھو کیونکہ یہ فرشتے رات دن تمھارے ساتھ رہتے ھیں“
خداوند عالم سے ھر حال میں شرم وحیا کے بارے میں امام کاظم (ع) سے نقل ھوا ھے:
<استحیوا من الله فی سرائرکم،کما تستحون من الناس فی علانیتکم> [30]
”تنھائی میں خداوند عالم سے اسی طرح شرم وحیا کیاکرو جس طرح لوگوں کے سامنے تمھیں حیا آتی ھے“
مختصر یہ کہ اگر کسی کے اندر خداوند عالم سے حیاکا عرفان پیدا ھوجائے تو وہ عصمت کے بلند ترین درجہ پر فائز ھوسکتا ھے اور اسکے لئے ملا ء عام یاگوشہٴ تنھائی میں کوئی فرق نھیں ھے اسکے لئے روایات میں مختلف تعبیرات ذکر ھوئی ھیں۔
حضرت علی (ع) :
<الحیاء یصدّ عن الفعل القبیح>[31]
”حیا برائیوں سے روک دیتی ھے “
آپ ھی نے یہ بھی فرمایا ھے:
<علیٰ قدرالحیاء تکون العفة>[32]
”حیا کی مقدار کے برابرھی عفت بھی ھوتی ھے“
رسول اکرم (ص):
<استحیوا من اللهحق الحیاء،فقیل یارسول الله:ومن یستحی من اللهحق الحیاء؟فقال:من استحییٰ من اللهحق الحیاء فلیکتب اٴجلہ بین عینیہ،ولیزھد فی الدنیاوزینتھا،ویحفظ الراٴس وماحویٰ والبطن وماوعیٰ>
”خداوند عالم سے ایسی حیا کروجو حیا کر نے کا حق ھے سوال کیا گیا خداوند عالم سے حیا کرنے کا جوحق ھے اسکا کیا طریقہ ھوگا؟آپ نے فرمایا کہ جو خداوند عالم سے واقعاً حیا کرنا چاہتا ھے وہ اپنی موت کو اپنی دونوں آنکھوں کے سامنے مجسم کرلے (اپنی پیشانی پر لکھ لے )اور دنیا اور اس کی زینتوںسے اجتناب کرے اور اپنے سر اور جو کچھ اس میں ھے اور اپنے پیٹ اور جو اسکے اندر بھرا ھے ان سے محفوظ رھے“[33]
امام موسیٰ کاظم (ع) :
<رحم الله من استحییٰ من اللہ حق الحیاء،فحفظ الراٴس وماحویٰ، و البطن وماوعیٰ>[34]
”الله تعا لی اس بندے پر رحم کرے جسکو اس سے واقعا حیا آتی ھو اور اسی لئے وہ اپنے سر کے وسوسوں اور پیٹ کی شھوتوں سے اپنے کو محفوظ رکھے“
روایت میں سر اور معدہ کا تذکرہ اس لئے کیا گیا ھے کہ اکثر شھوتیں انھیں دونوں جگھوں سے جنم لیتی ھیں مثلاًاگر آنکھیں شھوت کا ایک دروزہ اور کان دوسرا دروازہ ھے تومعدہ ( پیٹ ) شھوت کی پیدا ئش کاپھلامرکز اور شرم گاہ دوسرا مرکزھے ۔
لہٰذا جب انسان کے اندر شرم وحیاء پیدا ھوجاتی ھے تو پھر ذھن ودماغ کے برے خیالات (سر کے وسوسے )اور پیٹ کی شھوت کے سارے راستے خود بخود بندھوجاتے ھیں اور انسان ان کے شر سے محفوظ ھوجاتا ھے ۔
آپ ھی سے مروی ھے :
<مِن اٴفضل الورع اٴن لاتبدی فی خلواتک ما تستحی من اظھارہ فی علانیتک>[35]
”سب سے بڑا ورع اور پارسائی یہ ھے کہ جس کام کو تم کھلم کھلا کرنے سے شرماتے ھو اسے تنھائی میں بھی انجام نہ دو“
بارگاہ خدا میں قلت حیا کی شکایت
متعدد دعاؤں میں یہ ملتا ھے کہ انسان خداوند عالم کی بارگاہ میں اس سے حیاکی قلت کی شکایت کرتا ھے جو ایک بہت ھی لطیف اور عجیب بات ھے کہ انسان خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ شکایت کرے کہ اسکے اندر خود ذات پروردگار سے شرم وحیاء کی قلت پائی جاتی ھے جس میں خدا قاضی ھے کیونکہ اسکا فیصلہ اسی کے اوپر چھوڑدیاگیا ھے شکایت کرنے والا خود انسان (انا،میں )ھے اور جس کے خلاف شکایت کی گئی ھے وہ نفس ھے اور شکایت (مقدمہ) کا خلاصہ یہ ھے کہ یہ نفس اس خدا کے سامنے بے حیائی پر اتر آیا ھے جو خود اس مقدمہ میں قاضی ھے جس کا نتیجہ یہ ھے کہ گویا انسان خدا کی بارگاہ میں اپنے نفس کی یہ شکایت کررھا ھے کہ وہ خود خدا سے حیاء نھیں کرتا ھے بطورنمونہ دعائے ابوحمزہثمالی(رح) کے یہ جملات ملاحظہ فرمائیں:
<اٴنا یاربّ الذی لم اٴستحیک فی الخلاء،ولم اُراقبک فی الملاٴ،اٴناصاحب الدواھی العظمیٰ،اٴناالذی علیٰ سیدہ اجتریٰ۔۔۔اناالذی سترت علیّ فمااستحییت،وعملت بالمعاصی فتعدّیت،واسقطتنی من عینیک فما بالیت>[36]
”پروردگارا !میں وھی ھوں جس نے تنھائی میں تجھ سے حیا نھیں کی اور مجمع میں تیرا خیال نھیںکیا میرے مصائب عظیم ھیں میں نے اپنے مولا کی شان میں گستاخی کی ھے ۔۔۔میں وھی ھوں ۔۔۔ جس کی تونے پردہ پوشی کی تو میں نے حیا نھیں کی، گناہ کئے ھیں تو بڑھتا ھی چلا گیا اور تو نے نظروں سے گرا دیا تو کوئی پروا نھیں کی “
امام زین العابدین (ع) کی مناجات شاکین(شکایت اور فریاد کرنے والوں کی مناجات ) میں بھی خداوند عالم کی بارگاہ میں اپنے نفس اور گناھوں سے پرھیز نہ کرنے کی شکایت ان الفاظ میں کی گئی ھے:
<الٰھی اٴشکوالیک نفساًبالسوء اٴمّارة،والیٰ الخطیئة مبادرة، وبمعا صیک مولعة،ولسختک متعرّضة>[37]
”خدایا میں تجھ سے اس نفس کی شکایت کر رھا ھوں جو برائیوں کا حکم دیتا ھے اور خطاؤں کی طرف تیزی سے دوڑ تا ھے اور تیری معصیتوں پر حریص ھے اور تیری ناراضگی کی منزل میں ھے “۔
[1] سوره اعراف آیت ۳۱۔
[2] سوره اعراف آیت ۳۲۔۳۳۔
[3] بحار الانوار ج۹۳ص۲۳۵۔
[4] سوره انفال آیت ۲۸۔
[5] بحارالانوارج۷۸ص۲۴۳۔
[6] بحارالانوار ج۷۱ص۳۵۸
[7] سوره اعراف آیت ۲۶۔
[8] سوره نازعات آیت۴۰،۴۱۔
[9] اصول کافی ج۲ص۷۱۔
[10] میزان الحکمت ج۳ص۱۸۳۔
[11] صحیح بخاری بحث وجوب نماز جماعت باب ۸،بحث وجوب زکات باب ۱۸کتاب رقاق باب ۲۳
[12] بحارالانوارج۷۷ص۲۳۷۔
[13]بحارالانوار ج ۷۸ص۱۶۴۔
[14] میزان الحکمت ج۳ص۱۸۳۔
[15] میزان الحکمت ج۳ص۱۸۶۔
[16] گذشتہ حوالہ۔
[17] گذشتہ حوالہ۔
[18] گذشتہ حوالہ۔
[19] کنز العمال ،متقی ھندی حدیث ۵۸۷۸۔
[20] ذم الھوی لا بن جوزی ص۲۶۴۔۲۶۵۔
[21] ذم الھوی لابن جوزی ص۲۶۵۔۲۶۶۔
[22] ذم الھوی لا بن جوزی ص۲۶۸۔
[23] ذم الھوی لا بن جوزی ص ۲ ۲۷۔
[24] ذم الھوی لا بن جوزی ص۲۷۴۔
[25] مھلّب :ایک ثروت مند قبیلہ کا نام ،ذم الھویٰ لا بن جوزی ص۲۷۷۔
[26] مھلّب :ایک ثروت مند قبیلہ کا نام ،ذم الھویٰ لا بن جوزی ص۲۷۷۔
[27] بحارالانوار ج۷۷ص۸۳وکنز العمال ح۵۷۵۱۔
[28] بحارالانوار ج۷۸ص۲۰۰۔
[29] میزان الحکمت ج۲ص۵۶۸۔
[30] بحارالانوار ج۷۸ص۳۰۹۔
[31] میزان الحکمت ج۲ص۵۶۴۔
[32] گذشتہ حوالہ۔
[33] بحارالانوار ج۷۰ص۳۰۵۔
[34] بحارالانوار ج۷۰ص۳۰۵۔
[35] غررالحکم ج۲ص۲۵۳۔
[36] دعا ئے ابو حمزہ ثمالی۔
[37] مفاتیح الجنان: مناجات الشاکین ۔