قرآنی مباحث کی گفتگو :

قیامت ایک مسلم حقیقت

(قیامت پر مستحکم دلایل)

پھلي دليل

اگر مندرجہ ذيل مطالب پر توجہ كريں گے، تو آپ كے لئے قيامت كي حقيقت روز روشن كي طرح واضح ھوجائے گي ۔

1) دنيا ميں كوئي بھي كام بغير مقصد كے نھيں ھوتا ھے اور جو شخص بھي كسي كام كو انجام دے اس كا بھي ايك ھدف ھوتا ھے اور ھدف و مقصد وہ چيز ھے جو انسان كو اس كام كي طرف آمادہ اور چلنے كے لئے تيار كرتا ھے لہذا انسان اس مقصد كے حصول كے لئے دل جمعي كے ساتھ پوري كوشش صرف كر ديتا ھے ۔

2) يہ صحيح ھے كہ كوئي كام بغير ھدف و مقصد كے نھيں ھوتا، ليكن تمام مقاصد و اھداف بھي تو برابر نھيں ھوتے ھيں بلكہ كرنے والے اور خود اس كام كي موقعيت ھدف ميں تفريق و جدائي كا باعث بنتي ھے ۔

پس جس قدر فاعل صاحب علم و كمال اور با تدبير ھوگا ويساھي اس كا ھدف بھي بلند اور پر اھميت ھوگا لہذا جو بچہ كھيلتے وقت اپنا ھدف ركھتا ھے ويسا ھدف عالم و انجينيراور سمجھدار نھيں ركھ سكتا ھے۔

3) جب بھي انسان كوئي كام انجام ديتا ھے تو اس كي پوري كوشش و توجہ نتيجہ كے كمال پر ھوتي ھے، كہ كسي طرف سے اس نتيجہ پر حرف نہ آئے اگر وہ غرض و غايت نقائص سے محفوظ ھے تو يھي اس كا كمال ھے، مثال كے طور پر ھم بھوك كے احساس پر كھانا كھاتے ھيں اور بھوك كا احساس جو نقص ھے كھانے سے ھم اس نقص كو بر طرف كرتے ھيں، ليكن خدا كے كاموں ميں يہ مطلب درست نھيں ھے اس لئے كہ يہاں پر فعل كے انجام كا فائدہ خود اس كي ذات كي طرف لوٹ كر نھيں آتا ھے، بلكہ خدا كے خلق و پيدا كرنے كا فائدہ خود اس كي مخلوق كي طرف پلٹ كر جاتا ھے جيسے خدا نے ھم كو پيدا كيا اور ھم نے نماز پڑھي نماز كا فائدہ خود ھماري ھي طرف واپس آتا ھے نہ كہ خدا كي طرف لوٹ كر جاتا ھو، اس لئے كہ خدا كي ذات ميں كمي و نقص نھيں پايا جاتا كہ وہ اپني كمي كو بر طرف اور اپنے نقص كو دور كرنے كے لئے كسي كام كو انجام دے اس بنا پر ھمارا يہ كھنا درست ھے كہ انسان كے اپنے اعمال كا فائدہ خود اس كي طرف واپس آتا ھے كيونكہ يہاں پر كام اور عمل سے مراد مقصد كو پورا كرنا يا فائدہ اٹھانا نھيں ھے بلكہ فائدہ پھونچانا اور كامل كرنا ھے ۔

شاعر كھتا ھے:

من نكردم خلق تا سودي كنم

بلكہ تا بر بندگان جودي كنم

ميں نے فائدہ حاصل كرنے كے لئے تمام چيزوں كو پيدا نھيں كيا ھے بلكہ ان كو فائدہ پھنچانے كے لئے پيدا كيا ھے خداوند عالم نے انسان كے جسم كو بھترين طريقے اور بھت ھي نظاقت اور نہايت باريك بيني سے خلق فرمايا ھے ۔

لہٰذا عقلا اس ميں جتنا غور و خوض كرتے ھيں اتنے ھي عجيب و غريب چيزوں سے دوچار، اور متحير رہ جاتے ھيں، ہاں يہ كھنا درست ھے كہ خداوند عالم حكيم ھے كہ جس نے انسان كے معمولي بدن ميں پوري دنيا كا نقشہ كھينچ كر ركھ ديا ھے (يعني كوزے ميں دريا كے مانند انسان كے چھوٹے سے بدن ميں وسيع و عريض دنيا كے نظام سے زيادہ باريك نظام كو محدود، محال كو ممكن، كر ديا ھے جس كي تعبير حضرت علي (ع) يوں فرماتے ھيں:

اتزعم انك جرم صغير

و فيك انطوي العالم الاكبر ۔

پانى، مٹى، گھانس، حيوان، سورج، ستارے، چاند اور تمام موجودا كو انسان كي ضروريات كو پورا كرنے كے لئے پيدا كيا ھے اور ان كے علاوہ انسان كو فائدہ پھنچانے كے لئے ہزاروں تعجب آميز رازوں كو دنيا ميں پوشيدہ كر ركھا ھے تاكہ اپني فلاح و بھبود كے لئے اس تك دست رسي پيدا كرے اور اس عظيم ترين پروردگار كے خزانہ سے استفادہ كرتے ھوئے حقيقت دنيا پر حكمراني كرے ۔

مذكورہ مطالب سے سمجھ ميں آتا ھے كہ خداوند حكيم نے انسان كے جسم كو نہايت تعجب آميز رازوں پر مشتمل شريف ترين مخلوق قرار ديا ھے اور اسي انسان كے لئے نظام كائنات كو مسخر كر ركھا ھے، فقط اس لئے كہ انسان ايك معمولي موت كے لئے يہاں پر رھے! اور اس كي بے انتھانعمتوں سے استفادہ كرے اور مر كر فنا ھوجائے؟ اگر ايسا ھي ھے تو كيا خدا كا پيدا كرنا غير عاقلانہ اور حكيمانہ كام نہ ھوگا ؟

آپ كي عقل اصلاً ايسا فيصلہ اور ايسي چيزوں پر بھروسہ نھيں كر سكتي ھے، بلكہ عقل تو خدائے حكيم كو بے غرض اور عبث كاموں سے منزہ و مبرا سمجھتي ھے، پس نتيجہ ميں انسان كا مر كر فنا ھونا اس كے پيدائش كا مقصد و ھدف نھيں ھو سكتا ھے كيونكہ انسان كي تخليق كا مقصد كمال ھے اگر موت كے بعد انسان كامل نہ ھو بلكہ فنا ھوجائے تو فنا خود بھي تو ايك نقص ھے پھر انسان كي اپني آخري منزل كمال كيا ھوگي ؟كيسے ھو سكتا ھے كہ انسان اپني تنك يا راحت اچھي يا خراب زندگي آرام يا مصيبت ميں گذار دے اور سب كا ايك ھي حشر نابودي اور فنا ھو ۔

ھماري عقل كھتي ھے خداوند عالم كي ذات لوگوں كي محتاج نھيں ھے اور كسي فائدہ كے تحت ان كو نھيں پيدا كيا ھے اور اس سے كوئي لغو و بے فائدہ كام بھي صادر نھيں ھوتا ھے مجبوراً كھنا پڑے گا كہ خدا نے انسان كو كسي بلند ھدف اور قيمتي مقصد كے لئے خلق فرمايا ھے، اور اس انسان كي زندگي كو چار دن ميں منحصر نھيں كر ركھا ھے اور نہ ھي مرنے كے بعد انسان كي زندگي تمام ھوتي ھے اور نہ ھي اس كے اعمال ختم ھوتے ھيں، بلكہ سب خدا كے نزديك محفوظ ھے ۔

ھماري عقل كھتي ھے: (اس دنيا كے بعد ايك اور دنيا ھوني چاھيے) اس چھوٹي اور مصيبت و رنج و الم سے بھري ھوئي دنيا كے علاوہ ايك اور دنيا ھوني چاھيے تاكہ انسان كے لئے آرام و آسائش كا پيش خيمہ ھو، خدا كا مقصد (انسان كے خلق كرنے كا) يہ ھے كہ انسان اس دنيا ميں ترقي اور معنوي كمالات اور سعادتمندي كے تمام وسائل كو فراھم كرے تاكہ مرنے كے بعد ھميشہ رھنے والي زندگي آخرت ميں تمام ناز و نعمت كے ساتھ خوشي خوشي گذارے ۔ 52

دوسري دليل

بعض افراد (انسان) نيك اور صالح ھيں، لوگوں كے لئے خير خواہ اور بھلائي چاھتے ھيں، اور كمزوروں كي مدد كرتے ھيں، اور يتيموں كے ساتھ مھرباني اور ناچار و مجبور افراد پر احسان كرتے ھيں، ان كے اخلاق اچھے، جھوٹ نھيں بولتے، ملاوٹ نھيں كرتے، اور كسي كے ساتھ ظلم و ستم كو جائز نھيں سمجھتے، لوگوں كے مال كو ناحق نھيں ليتے، نماز پڑھتے ھيں روزہ ركھتے ھيں اپنے واجبات پر عمل كرتے ھيں، اور گناھوں سے خودداري كرتے ھيں۔

دوسرے افراد: برے اور نالائق ھيں اپنے جيسے افراد پر ظلم و ستم دوسروں كے حقوق كو غصب، بد اخلاق، چھوٹے اور ھر ايك كي امانت ميں خيانت كرتے ھيں،خدا كے واجب امور كو انجام نھيں ديتے، نماز و روزہ سے كوئي مطلب نھيں ركھتے ھيں اور گندے برے كاموں (يعني حرام كے ارتكاب) سے نھيں ڈرتے حيوانوں كي طرح رات و دن ظلم و زيادتي اور شھوت پرستي ميں مشغول رھتے ھيں ۔

يہ دو طرح كے افراد قطعي طور پر موجود ھيں، ليكن دنيا ميں اپنے اعمال كي اصلا كوئي سزا يا جزا نھيں پاتے۔ معصيت كار ھيں ھر طرح كي ناز و نعمت ميں زندگي بسر كر كے دنيا سے چلے گئے اور اپنے اعمال كي كوئي سزا نھيں پائي۔۔۔ اور بھت سے لوگوں كو نيك و صالح پاتے ھيں ليكن وہ بیچارے نہايت سختي پريشانى، تنگي اور مصيبت ميں زندگي بسر كرتے ھيں، مگر اپنے كئے اعمال كي كوئي جزا نھيں ديكھتے ۔

كيا اس دنيا كے علاوہ كوئي دوسري دنيا نھيں ھوني چاھيے كہ جہاں پر اچھے اور برے كاموں كا حساب اور اس پر جزا و سزا مرتب ھو نيك افراد كو اچھا بدلہ اور بد كردار كو اپنے كئے كي سزا دي جائے؟ اگر انسان كي عمر اس دنيا ميں يوں ھي ختم ھوجائے اور اس كے نامہٴ اعمال يھيں ضائع ھو جائيں، تو كيا انسان كا پيدا كيا جانا عبث اور عدالت كے خلاف اور حكمت خدا كے مخالف نھيں ھوگا؟

كيا آپ كي عقل قبول كرے گي كہ اچھے فرمانبردار اور بد كردار و تباہ كار مساوي و برابر ھوجائيں اور ان كے درميان حساب و كتاب كے ذريعہ تفريق و جدائي نہ ھو؟ 53 كيا ايسے فضول كام كو اللہ كي طرف نسبت دينا درست ھوگا؟

اگر قيامت نہ ھو، انبياء كا بھيجنا اور اللہ كا امر ونھي كرنا، نا معقول اور بے بنياد نھيں ھوگا ان كاموں كا حساب و كتاب اور ثواب و عقاب نہ ھو تو لوگ كيونكر اللہ اور رسول (ص) كي اطاعت و فرباں برداري كرينگے؟

موت

موت يعني جسم اور روح كي جدائي و مفارقت كا نام ھے، اسلام ھم سے كھتا ھے انسان فقط موت سے ختم نھيں ھوتا، بلكہ موت كے ذريعہ انسان ايك دنيا سے دوسري دنيا كي طرف منتقل ھوتا ھے يعني (موت) ايك زندگي سے دوسري زندگي كي طرف لوٹنا ھے، پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا: تم فنا ھونے كے لئے پيدا نھيں كئے گئے بلكہ حيات جاودانى، يعني ھميشہ رھنے كے لئے پيدا كئے گئے ھو اس كے سوا كچھ نھيں كہ اس دنيا سے دوسري دنيا كي طرف منتقل ھونا ھے 54

اسلامي نكتہ نظر سے ھر ايك روح، جسم سے مساوي اعتبار سے جدا نھيں ھوتي ھے بلكہ جو لوگ گنھگار ھيں اور اس دنيا سے زيادہ دل لگا ركھا ھے، اور اُس دنيا سے (آخرت) غافل اور غير مانوس ھيں ان كي روح بھت سختي اور دشواري سے نكلتي ھے، ليكن جو حضرات اچھا كام (عمل صالح) كرتے ھيں اور خاص كر موجودہ دنيا كي

طرف رجحان و ميلان نھيں ركھتے اُس دنيا (آخرت) كيلئے اللہ اور اس كے رسول (ص) سے انسيت اور الفت زيادہ ركھتے ھيں وہ لوگ بھت ھي آرام و اطمينان سے اس زندگي سے نجات پاجاتے ھيں 55

برزخ

مرنے كے بعد كي زندگي كو ھماري عقل تصديق كرتي ھے ليكن وہاں پر كيسي اور كس طرح كي زندگي ھوگي اس چيز كو ھماري عقل راھنمائي (درك) نھيں كرتى، يہاں پر ھم مجبور ھيں كہ قرآن پاك اور پيغمبر (ص) كے ارشادات اور ائمہ اھل بيت (ع) كي حديثوں سے استفادہ كريں ۔

قرآن مجيد اور حضوراكرم (ص) اور آپ كے اھل بيت (ع) كي حديثوں سے استفادہ ھوتا ھے كہ قيامت سے پھلے (تمام لوگوں كے اٹھائے جانے سے پھلے) ايك دوسري دنيا موجود ھے جس كانام ”برزخ“ ھے جو كہ دنيا اور آخرت كے درميان ايك واسطہ اور رابطہ كي حيثيت سے موجود ھے، جب انسان كي موت آتي ھے تو برزخ كے ابتدائي مرحلہ ميں داخل ھوجاتا ھے يہاں پر ايك مخصوص طرح كي زندگي بسر كرتا ھے اس معنوي اور پوشيدہ زندگي كي ابتدا قبر ھے كہ جو معمولي سوال و جواب سے شروع ھوتي ھے جس ميں كلي اعتقادات اور اعمال كے مسائل پوچھے جاتے ھيں اگر عقيدہ صحيح اور عمل و كردار اچھے ھيں تو جنت كا ايك دروازہ اس پر كھول ديا جاتا ھے تاكہ وہ جنت كي نعمتوں سے استفادہ كرتا رھے قيامت آنے كے انتظار اور ھميشہ رھنے والي نعمتوں كے شوق ميں منتظر رھتا ھے ۔

اگر كوئي بد كردار اور باطل عقيدہ ركھنے والا ھو تو اس پر جھنم كے دروازوں ميں سے ايك دروازہ كھول ديا جاتا ھے اور قيامت تك وہ اسي طرح عذاب ميں نا گوار و تلخ زندگي بسر كرتا رھتا ھے اور دوزخ كے سخت عذاب اور قيامت آنے كے خوف سے ھر وقت ھراساں ر ھتاھے۔ 56

وَلَا تَقُولُوا لِمَن يقتَلُ فِي سَبِيلِ اللّٰہِ اَموَاتٌ بَل اَحياءٌ وَلٰكِن لَا تَشعُرُونَ“57

اور جو لوگ اللہ كي راہ ميں مارے گئے انھيں كبھي مردہ نہ كھنا بلكہ (وہ لوگ) زندہ ھيں مگر تم (ان كي زندگي كي حقيقت كا) كچھ بھي شعور نھيں ركھتے ۔

”وَلَا تَحسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّٰہِ اَموَاتاً بَل اَحياءٌ عِندَ رَبِّھِم يرزَقُونَ“58

اور جو لوگ اللہ كي راہ ميں شھيد ھو گئے ھيں انھيں ھر گز مردہ نہ سمجھنا بلكہ وہ لوگ زندہ ھيں، اپنے پروردگار كے يہاں سے روزي پاتے ھيں۔

قال النبي (ص) :” اِنَّ القَبرَ اَوَّلُ مَنَازِلِ الاٰخِرَةِ فَاِن نَجَا مِنہُ فَمَا بَعدَہ اَيسَرُ و اِن لَم ينجِ مِنہُ فَمَا بَعدَہ لَيسَ اَقَلَّ مِنہُ “59

آخرت كي پھلي منزل قبر ھے جو شخص يہاں نجات پا جائے اس كے لئے بعد كا كام آسان ھو جائے گا اور جو شخص يہاں نجات نہ پاسكے پس تو عذاب اس كے بعد اتنا آسان نھيں ۔

قال علي ابن الحسين (ع) : ” اِنَّ القَبرَ رَوضَةٌ مِن رِياضِ الجَنَّةِ اَو حَفَرَةٌ مِن حَفَرَالنِّيرَانِ “ 60

حضرت علي ابن حسين (ع) نے فرمايا: قبر بھشت كے باغوں ميں سے ايك باغ ھے، يا جھنم كے گڈھوں ميں سے ايك گڈھا ھے ۔

قيامت اور لوگوں كا قبروں سے نكلنا

قرآن مجيداور پيغمبر اسلام نيز آپ كے اھل بيت (ع) كي حديثوں ميں قيامت كي اس طرح توصيف و تعريف بيان كي گئي ھے چاند، سورج تاريك ھوجائيں گے، پہاڑ ريزہ ريزہ ھو كر بكھر جائيں گے، دريا بغير پانى كے جلنے لگے گا، منظومہٴ نظام شمسي درھم برھم ھو جائے گا، زمين و آسمان بدل كر دوسري صورت اختيار كر ليں گے اس وقت تمام مردے زندہ كئے جائيں گے، پس لوگ حساب و كتاب كے لئے حاضر ھونگے، لوگوں كے تمام اعمال و حركات خدا كے نزديك محفوظ كتابوں ميں لكھا موجود ھے، ان كے معمولي كردار و افعال غفلت و فراموشي كا شكار نھيں ھوں گے، قيامت كے دن لوگوں كي آنكھوں سے پردے ہٹا دئے جائيں گے، لوگ اپنے اعمال اور كردار كو حضوراً مشاھدہ كريں گے، اس وقت اعمال كا حساب شروع ھوگا اور بھت گھرائي اور نہايت دقت سے اس كي پوچھ تاچھ كي جائے گي كافر اور گنھگار جو بخشش كے لائق نھيں ھيں، ان كو جھنم ميں بھيجا جائے گا اور نيك و صالح افراد جنت كي طرف جائيں گے اور وہ گنھگار جن ميں بخشش كي صلاحيت موجود ھوگى، يعني انھوں نے برزخ ميں جھنم كا عذاب برداشت اور اپنے برے اعمال كا مزہ چكھا ھے انبياء اور ائمہ اطہار (ع) كي شفاعت كے نتيجہ ميں مورد عفو و بخشش قرار پائيں گے،يعني نور جلال پروردگار عالم ان كے گناھوں كي تاريكي كو ختم كر كے جنت ميں بھيج دے گا۔

صاحب ايمان اور نيك كام كرنے والوں كا حساب آساني سے ليا جائے گا اور بھت جلدي وہ جنت ميں چلے جائيں گے ليكن كفار اور بھت سارے گنھگار افراد كا سخت حساب اور چھوٹي سے چھوٹي چيزوں كے متعلق سختي سے پوچھا جائے گا، تاكہ زيادہ دير وہ محشر ميں كھڑے رھيں، اور نہايت سختي اور ناراحتي كے ساتھ حساب كے متعدد موارد كو سر كرتے رھيں ۔ 61

جنت

جنت: وہ جگہ ھے جہاں پر نيك و لائق افراد كو لے جائيں گے، مختلف انواع و اقسام كي نعمتيں عيش و آرام كے ساتھ رھنے كے تمام اسباب و وسائل وہاں پر موجود ھونگے ۔

جس چيز كا بھي انسان تصور (خيال ميں لائے) كرے اور اس كو چاھيے موجود ھوگي 62 جنت كي نعمتيں دنيا كي نعمتوں سے بھتر و عالي ھيں ان جيسي چيزوں كے متعلق انسان نے كبھي ديكھا اور نہ سنا ھے، كسي طرح كي كوئي سختي اور پريشاني وہاں نھيں ھے، جو شخص بھي جنت ميں داخل ھوا ھميشہ رھنے والي زندگي سے سرفراز ھوگا جنت كے بھي مختلف مراتب ھيں، جو جس طرح كے عمل خير اور فضائل و كمالات كا حامل ھوگا ويسے ھي جنت كے درجے ميں رھے گا۔ 63

جھنم

جھنم: وہ جگہ ھے جہاں كفار، گنھگار اور خطاكار رھيں گے ھر طرح كي سختي و عذاب وہاں پر ھے، جو لوگ وہاں جائيں گے بھت زيادہ سختي و عذاب ميں گرفتار ھونگے، جھنم كا عذاب اس قدر مشكل ھے كہ اس كو بيان نھيں كيا جا سكتا، جھنم كي آگ صرف جسم كو نھيں جلاتي ھے بلكہ روح اور اس كے دل كو بھي جلا ڈالے گى، انسان كے اندر سے ھي پھوٹے گي اور پورے بدن ميں پھيل جائے گي۔ 64

اھل دوزخ كے دو گروہ ھيں پھلا گروہ: اُن كفار كا ھے جو ايمان اور عبادت سے بالكل عاري ھيں يہ لوگ ھميشہ ھميشہ اس جھنم ميں عذاب كو برداشت كريں گے ان كے نكلنے كا كوئي راستہ نہ ھو گا ۔دوسرا گروہ: وہ لوگ جو خدا كي عبادت كرتے ھيں اپنے ايمان كي كمزوري كي بنا پر معصيت كے مرتكب ھوئے اور جھنم كے مستحق قرار پائے، يہ گروہ چند مدت كے لئے جھنم ميں رھے گا اور آخر كار نور خدا تاريكي گناہ كوكر خاكستر كر دے گا، اس كے بعد ائمہ (ع) اور پيغمبر (ص) كي شفاعت كے طفيل بھشت ميں داخل ھونگے ۔

جھنم كے بھي مراتب پائے جاتے ھيں جہاں پر ھر مرتبہ كے مطابق عذاب كي صورت پائي جاتي ھے ھر شخص كو اس كے گناہ كے مطابق جھنم كے طبقہ ميں قرار ديں گے كہ جس ميں وہ اس عذاب كا مزہ چكھے گا ۔ 65

شفاعت

شفاعت كا مسئلہ قرآن مجيد ميں بھي نازل ھوا ھے اور نبي اكرم (ص) و اھل بيت (ع) سے كثرت سے روايتيں اس ضمن ميں وارد ھوئي ھيں، اور وہ اس قدر زيادہ ھيں كہ كسي صورت سے شفاعت كے مسئلہ سے انكار نھيں كيا جا سكتا ھے، روايتوں ميں وارد ھوا ھے كہ حضرت رسول خدا (ص) اور ائمہ (ع) بعض گنھگاروں كي شفاعت كرائيں گے اور كھيں گے پروردگار درست ھے كہ يہ شخص گنھگار اور مستحق عذاب ھے ليكن فلاں خوبي كي وجہ سے تو خود اپني بزرگواري اور جو عزت كرامت ھم تيري بارگاہ ميں ركھتے ھيں آرزومند ھيں كہ اس كے گناھوں سے چشم پوشي فرما اور بخشش كے قلم سے اس كے گناہ كے عمل كو محو كردے، ان كي درخواست قبول كي جائے گي اور وہ شخص خدا كي رحمت اور اس كي نعمت ميں شامل ھوجائے گا، روايت و آيات كي رو سے شفاعت سے انكار نھيں كيا جا سكتا ھے ليكن چند نكات كي طرف توجہ ركھنا ضروري ھے ۔

1) شفاعت كرنے والے بغير خدا كي مرضي اور اس كے حكم كے شفاعت نھيں كريں گے ۔

2) قيامت ميں حساب و كتاب كے بعد شفاعت كي منزل ھے، يہ تو اس وقت كا معاملہ ھے، جب حساب و كتاب تمام ھوجائے اور نامہٴ اعمال ديكھ كر اُس طرف يا اِس طرف بھيجنے كا موقع آپھنچا ھو تو شفاعت كرنے والے كھيں گے كہ اس كو معاف كردو خداوند عالم قبول كر لے گا اور يہ جنت ميںچلے جائيں گے ليكن برزخي دنيا ميں شفاعت كي دور دور تك كوئي خبر نھيں ھے ۔

3) خود شفاعت كرنے والوں نے فرمايا: تم كوشش كر كے محشر ميں انسان كي صورت ميں آنا تاكہ ھم تمھاري شفاعت كرسكيں، اس بنا پر اگر گناھوں كے سبب اس كي يہ صورت بدل كر حيوانوں كي صورت ميں وارد محشر ھوئے تو اس كے لئے شفاعت كا دروازہ بند ھے، بھر حال ضروري ھے كہ حدّ اقل شفاعت كي صلاحيت و لياقت لے كر محشر ميں پھونچے ۔

۔ شفاعت كرنے والے (ائمہ اطہار (ع) ) نے بعض معصيت كے متعلق خاص طور پر فرمايا ھے جيسے نماز كو ترك كرنے والوں كو ميري شفاعت شامل نھيں ھو گي ۔

4) مذكورہ مطالب سے سمجھ ميں آتا ھے كہ انسان كو فقط شفاعت كے وعدہ پر مغرور ھو كر گناھوں كا مرتكب نھيں ھونا چاھيے اس لئے كہ جو شخص شفاعت كي اميد ميں گناہ كو انجام دے وہ اس شخص كے مانند ھے جو دوا اور ڈاكٹر پر بھروسہ كر كے زھر كھا لے اور اپنے كو ھلاكت كے گھاٹ اتار دے ۔

توبہ

قرآن كي آيات اور اھل بيت اطہار (ع) كے اقوال سے استفادہ ھوتا ھے كہ گناہ گار اپنے مرنے سے پھلے توبہ كر لے اور اپنے كئے پر شرمندہ اور نادم ھوجائے تو اس كے گناہ معاف كر دئے جاتے ھيں اور پھر ان گناھوں كے متعلق اس سے باز پرس نھيں كي جائے گي ۔ 66

اس بنا پر تمام گنھگاروں كے لئے توبہ كا دروازہ كھلا ھوا ھے كسي كو اللہ كي رحمت سے مايوس نھيں ھونا چاھيے ليكن ھرگز يہ خيال نہ كرنا كہ (اَستَغفِرُاللّٰہ) زبان پر آيا اور آنكھ مَل كر ايك قطرہ آنسو ٹپكايا سمجھ گئے توبہ قبول ھوگئي اور خدا كي رحمت و نعمت ميں شريك ھو گئے ۔

مگر معلوم ھونا چاھيے كہ حقيقي توبہ كے اپنے خاص شرائط پائے جاتے ھيں، حضرت علي (ع) نے اپني فرمائشات ميں اس كي طرف اشارہ فرمايا ھے ۔

حضرت (ع) فرماتے ھيں: توبہ ميں چھ چيزيں ضروري ھيں ۔

۔ اپنے گذشتہ گناھوں پر واقعاً پشيمان و شرمندہ ھو ۔

۔ قطعي ارادہ كرے كہ كبھي اس گناہ كو دوبارہ انجام نھيں دے گا ۔

۔ اگر تم پر لوگوں كا حق ھے تو پھلے اسے ادا كرو ۔

۔ جن واجبات كو چھوڑ ركھا ھے اس كو انجام دو ۔

۔ اور جو تمھارے بدن ميں حرام كھانے سے گوشت وغيرہ بنا ھے پھلے غم و الم كي وجہ سے اسے پگھلاؤ ۔

۔ جس طرح گناھوں سے لذت اٹھائي ھے ويسے ھي عبادت كي تلخي اور دشواري كو برداشت كرو۔ 67 اس وقت كلمہ ” اَستَغفِرُ اللّٰہ “ كو اپني زبان پر جاري كرو ۔

حواله جات:

52. خداوند عالم نے قرآن ميں اس كي طرف اشارہ فرمايا ھے:  اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنَاكُم عَبَثاً وَ اَنَّكُم اِلَينَا لَا تُرجَعُونَ  تم گمان كرتے ھو كہ ھم نے تمھيں يوں ھي بے فائدہ اور بےكار پيدا كيا ھے اور تم ھمارے حضور ميں لوٹائے نھيں جاؤگے ۔ مومنون (۲۳) آيت ۱۱۵۔

53. ۔ خداوند عالم قرآن مجيد ميں اس مطلب كي طرف يوں اشارہ كرتا ھے < ام نجعل المتقين كالفجار >كيا ھم پرھيزگاروں كو مثل بدكاروں كے بناديں؟ ص ۔۳۸، آيت ۲۸۔

54. بحار الانوار، ج۶، ص ۲۴۹۔

55. بحار الانوار، ج۶، ص ۱۴۵۔

56. خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ھے: ”وَمِن وَرَائِھِم َبرزَخٌ اِليٰ َيومِ يبعَثُونَ “ سورہٴ مومنون (۲۳) آيت ۱۰۰ان كے ”مرنے كے “بعد ”عالم “ برزخ ھے اس دن تك كہ دوبارہ قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔

57. سورہ بقرہ (۲) آيت ۱۵۴

58. سورہ آل عمران (۳) آيت ۱۶۹۔

59. بحار الانوار، ج۶، ص ۲۴۲۔

60. بحار الانوار، ج۶، ص ۲۱۴اور ص ۲۰۲۔ ۲۸۲۔

61. بحار الانوار، ج۷، ص۵۴ ۔ ۲۳۷۔

62. سورہٴ زخرف (۴۳) آيت ۷۱

63. بحار الانوار، ج۸، ص۷۱ ۔ ۳۲۲۔

64. ھمزہ (۱۰۴) آيت ۶۔

65. بحار الانوار، ج۸، ص ۲۲۲۔ ۳۷۴۔

66. وافى، ج۱، تيسرا حصہ، ص ۱۸۳۔

67. نھج البلاغہ، (طبع مصر) دوسرا جز، ص ۲۵۳۔