ندائے ولایت

 شیخ نجم الدین طبسی

مترجم: ناظم حسین اکبر

  مقدمہ

  فصل اول

  اذان ومؤذن کی فضیلت

  مؤذن کی فضیلت

  ١۔ مؤذن کا مقام جنّت هے

     ٢۔ مؤذن قیامت میں سر بلند هو گ

  فصل دوم

  قرآن وسنت میں وحدت کا مقام

  ١۔وحدت قوموں کی کامیابی کا راز

  ٢۔اختلاف جاہلیت کی علامت

  حضرت علی کی نظر میں اختلا ف کے برے اثرات

  ١۔فکری انحراف کا باعث

  ٢۔باطن کے نجس هونے کی علامت

  ٣۔ فتنہ کا باعث

  ڈھکو اور شیعہ اتحاد پر کاری ضرب

  فصل سوم

  دشمن کی شناخت

  نفاق کے معانی

  ١۔   مسلمات دین کی تضعیف

  ٢۔ گناہ کی تا ویل

  ٣۔صاحبان غیرت دینی کی توہین

  ٤۔اہل ایمان واصلاح هونے کی تشہیر کرنا

  ٥۔ خودی کا اظہار

  علمائے کرام کی ذمہ داری

  فصل چہارم

  بدعت کا بیان

  بدعت کالغوی معنیٰ

  بدعت کے ارکان

  ١۔ دین میں تصرف کرنا

  ٢۔ کتاب میں اس کی اصل کا نہ هونا

  بدعت قرآن کی رو سے

  ١۔ قانون گذاری کا حق فقط خدا ہی کو هے

  ٢۔ انبیاء کو بھی شریعت میں تبدیلی کا حق نہیں

  ٣۔ قرآن میں رہبانیت کی بدعت کی مذمت

  ٤۔بدعت ، خدا کی ذات پر تہمت لگانا هے

  ٥۔ بدعت ، خدا کی ذا ت پر جھوٹ باندھنا هے

  بدعت روایات کی روشنی میں

  ١۔ہر بدعت مردود هے

  ٣۔ بدعت گزار کے ساتھ ہم نشینی کی ممانعت

  ٤۔ اہل بدعت سے بیزاری واجب هے

  ٦۔ بدعت کا مقابلہ کرنے کاحکم

  بدعت کے بارے میں ڈھکوکا نظریہ

  بدعت  کے بارے میں ڈھکو کے نظریے کی رد

  بدعت علماء کی نظر میں

  ٢۔ طریحی طریحی کہتے ہیں

  فصل پنجم

  شہادت ثالثہ کے بارے میں روایات

  فصل ششم

  شہادت ثالثہ کے بارے میں ڈھکو کا نظریہ

  شہادت ثالثہ کے بارے میں علماء کے اقوال

  ١۔علامہ مجلسی

  ٢۔علامہ طباطبائی

  ٣۔صاحب الجواہر

  ٤۔ آیت اللہ العظمی خوئی

  ٥۔شیخ الفقھاء والمجتھدین آیت اللہ العظمی اراکی

  ٦۔مرحوم ملا احمد نراقی

  ٧۔ آیت اللہ العظمی بروجردی

  ٨۔ آیت اللہ العظمی گلپائیگانی

  ٩۔امام خمینی

  ١٠۔آیت اللہ العظمی سید محسن حکیم

  ١١۔آیت اللہ العظمی خامنہ ای

  ١٢۔آیت اللہ العظمی بہجت

  ١٣۔آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی

  ١٤۔آیت اللہ العظمیٰ شبیری زنجانی

  ہفتم فصل

  شہادت ثالثہ پر هونے والے اعتراضات کے جوابات

  ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ مولانا ڈھکو کے اخلاق کی جھلکیاں

  مولانا محمد حسین ڈھکو سے ہمارا سوال

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ

اذان اسلام کے وجود اور اپنے عقیدہ کے اظہار کا نام هے جس کے سنتے ہی شیطان اور اس کے پیروکاروں پر اضطراب طاری هوجاتاهے ۔برطانوی سیاست دان Gold stoneنے عیسا ئیوں کے اجتماع میں اس بات کا اعتراف یوں کیا

جب تک میناروں سے نام محمد بلند هو رہا هے اور قرآن مسلمانوں کے درمیان موجود هے تب تک اسلامی ممالک میں ہماری سیاست کامیاب نہیں هو سکتی ۔( تفسیر نمونہ ٤٤٣٨.   )

  اسی طرح جب مغیرہ بن شعبہ نے معاویہ سے کہا کہ اب بنو ہاشم میں اقتدار سنبھالنے کی قدرت نہیں رہی اور تمہاری حکومت کو ان سے کوئی خطرہ نہیں هے لہذا ان پر سختی کرنا چھوڑ دے تو اس نے جواب میں کہا

  ابوبکر ،عمر ،عثمان آئے اور چلے گئے ان کے نام کے سوا کچھ باقی نہیں رہا جبکہ ہر روز پانچ مرتبہ اشھد ان محمد ارسول اللہ کی آواز کانوں تک پہنچتی هے فای عمل یبقی مع ھذا لا ام لک !؟لاواللہ دفنا دفنا۔۔۔

  پس ایسے میں بنو امیہ کے لئے کیابچا! ؟خدا کی قسم میں اسے دفن کئے بغیر چین  سے نہیں بیٹھوں گا ۔(١)موفقیات زبیر بن بکار ٥٧٦؛ مروج الذھب ٣٤٥٤، شرح حوادث سال ٢١٢؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابیالحدید ٥١٣٠؛النصائح الکافیہ ١٢٤ [ 

  ایک دن معاویہ نے موذن کو پیغمبرۖ کی رسالت کی گواہی دیتے هوئے سنا تو اعتراض کی صورت میں کہنے لگا

للّہ أبوک  یابن عبداللہ ، لقد کنت عالی الھمة ما رضیت لنفسک الّاأن یقرن اسمک باسم رب العالمین.(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ١٠ ١٠١.)

 اے عبداللہ کے بیٹے!خدا کی قسم تم نے بہت ہمت کی یہاں تک کہ اپنے نام کو نام خدا کے ساتھ ملائے بغیر راضی نہیں هوئے ۔ 

  اس بناء پر مسلمانوں پر واجب هے کہ وہ اس شعار اسلامی کو جواسلام کی بقاء کا ضامن هے زیادہ سے زیادہ اچھے انداز میں جاری رکھیں اور اس طرح دشمن کی سا زش کو ناکام بنا دیں ۔

  اذان،اسلام کا اساسی ترین رکن اور شعار الہی میں سے هے جس میں توحید ورسالت کی گواہی کے ساتھ ساتھ ولایت کی گواہی دے کر اپنے ایمان کے کامل هونے کا اعلان کیا جاتا هے اسی لیے علماء فرماتے ہیں اگرچہ شہادت ثالثہ جزء اذان واقامت نہیں هے لیکن جزء ایمان اور اسکی شرط ضرور هے یعنی جب تک ولایت علی علیہ السلام کی گواہی نہ دی جائے تب تک ایمان کامل نہیں هو سکتا ۔(  اجماعیات فقہ الشیعہ واحوط الاقوال من احکام الشریعة  ١٢٤٥.)

  لیکن کچھ عالم نما ملاںبغیر دلیل  کے اس مقدس گواہی کوبدعت کہہ کراذا ن واقامت سے نکالنے کی مذموم کوشش میں مصروف عمل ہیں جبکہ وہ اس بات سے غافل ہیں کہ شیعیان حیدر کرار اپنی جان ومال کا نذرانہ تو پیش کر سکتے ہیں مگر اپنے عقیدہ پرکبھی سودابازی نہیں کر سکتے ۔ایسے ہی افراد میں سے حال ہی کے ایک مولوی ہیں جس نے اذان واقامت میں شھادت ثالثہ یعنی امام المتقین،مولی الموحدین،محی السنہ،ممیت البدعہ، علی بن ابیطالب علیہ السلام کی ولایت کا انکار کر کے اپنی گمراہی کا کھلم کھلا اظھار کیا هے ۔ چونکہ اس کا مقصد بدعت کی تعریف میں مغالطہ ڈال کر شیعیان حیدر کرار کے درمیان انتشاروافتراق پھیلا کر دشمنان اہل بیت علیہم السلام کوتقویت پہنچانا هے جس کا اعتراف اس مولوی کی شان میں لکھی جانے والی جھوٹ وافتراء پر مبنی کتاب (مردعلم میدان عمل میں ٢٦ ) پر بھی کیا گیا هے جبکہ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں

 ٫٫ألا من دعا الی ھذاالشعار فاقتلوہ،ولوکا ن تحت  عمامتی ھذہ  ،،

ترجمہآگاہ هو جائو جو بھی اختلاف کا نعر ہ لگائے اسے قتل کر دوچاهے میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ هو ۔( نہج البلاغہ ،خطبہ ١٢٧.)

  ہم نے دیکھا کہ مؤمنین کے عقائد کو متزلزل کرنے کی مسلسل کوشش جاری هے اور ایسے میں اگر خاموش تماشائی بنے رهے تو روز قیامت مولا کے حضور میں جواب نہ دے پائیں گے حق تو یہ تھا کہ علمائے کرام ہی اپنے اس وظیفہ کو نبھاتے لیکن جب سب مصلحتوں کا شکار نظر آئے تو ہم نے اپنی بے بساطی و کم علمی کے باوجود حوزہ علمیہ قم کے بزرگا ن کی فرمائش پر قلم اُٹھانے کی جرأت کی هے ۔

  جہد بسیار بکردم کہ نگویم غم دل             عاقبت جان بدھان آمد و طاقت برسید

میں نے کوشش تو بہت کی کہ اپنے دل کا غم کسی سے نہ کهوں ،آخر جان لبوں پر آئی اور وہ وقت آپہنچا تو کچھ کہنا پڑا ۔                 کتاب حاضر میں ہم سب سے پہلے اذا ن کی فضیلت ، وحدت و اتحادکی اہمیت اور پھر قرآن و سنت کی رو سے بدعت کی تعریف ،اسکے بعد روایات اور فقہاء کے اقوال کو نقل کریں گے تاکہ قارئین محترم خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ خرافات وانحرافات پر مشتمل کتاب (اصلااح الرسوم )کے اندر موجود بدعت کی تعریف اور اس کا شھادت ثالثہ پراطلاق درست هے یا قرآن وسنت اورآئمہ معصومین علیہم السلام کے اقوال کے مخالف اور ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ هے۔

  یہ کتاب صاحبان ایمان کیلئے خصوصی ہدیہ هے اس لیے کہ ایمان اس وقت تک کامل نہیں هوسکتا جب تک کہ ولایت علی علیہ السلام کو صدق دل سے نہ مان لیا جائے اوراس نعمت عظمی کا اظہارممکن نہیں مگر جب ان کے دشمنوںکی شناخت کرتے هوئے ان سے دوری اختیار کی جائے ۔

  آخر میں بارگاہ رب العزت میں دست بدعا هوںکہ وہ ہماری اس تحریر کو مومنین کے درمیان اتحاد وہمدلی کا باعث قرار دے اور انہیںافراط وتفریط کی راہ پر گامزن هونے کی مصیبت سے محفوظ فرمائے ۔ 

  أعاذنااللّہ تعالی من الافراط والتفریط وھدانا الی الصّراط المستقیم ۔

  والسّلام علی من اتّبع الھدٰی

  ناظم حسین اکبر (ریسرچ اسکالر )

  ابو طالب علیہ السلام اسلامک انسٹیٹیوٹ لاهور

٥ربیع الثانی ١٤٣٠ھ بمطابق     مارچ ٢٠٠٩ء

فصل اول  

اذان ومؤذن کی فضیلت

پنجگانہ نمازوںسے پہلے اذان و اقامت کاپڑھنامستحب بلکہ سنت مؤکدہ هے بعض علماء نے تواسے واجب قرار دیا هے شہید ثانی علیہ الرحمة شرح اللمعة میں لکھتے ہیں

  سید مرتضی اور شیخ طوسی نے اذان و اقامت کو نماز جماعت کے لیے واجب قرار دیا هے۔

 اذان کا مذاق اڑانے والوں کے بارے میں خدا وند متعال کا ارشادهے

(( واذانادیتم الی الصلاة اتخذوھا ھزوا و لعبا ذلک بأنّھم قوم لا یعقلون)).

  ( سورہ مائدہ  ٥٨ .)

ترجمہ اور جب تم نماز کے لیے اذان دیتے هو تو یہ اس کا مذاق اورکھیل بنا لیتے ہیں کیونکہ یہ بالکل بے عقل قوم ہیں۔

  شیعہ و سنی تفاسیر میں نقل کیا گیا هے کہ مدینہ منورہ میں ایک شخص تھا جو اذان میں ((أشھدأنّ محمد ا رسول اللہ ))کی آوازسنتا تو مذاق اڑاتے هوئے کہا کرتا  خدا جھوٹے کو جلا دے !ایک رات اس کے گھر کو آگ لگی وہ اور اس کے گھر کے تمام افراد جل کر راکھ هو گئے۔( تفسیر طبری ٤٤٣١ ؛ تفسیر تبیان ٣٥٧٠ ؛ تفسیر کبیر منہج الصادقین ٣٢٦٥ ؛کنز الدقائق ٣١٢٦ ؛ تفسیر صافی ٢٤٧ ؛ تفسیر در منثور ٢٢٩٤.)

 امام صادق علیہ السلام اذان و اقامت کی اہمیت کو بیان کرتے هوئے فرماتے ہیں

  ٫٫ لا بدّ للمریض أن یؤذّن ویقیم اذا أراد الصّلاة ولو فی نفسہ ان لم یقدر علی أن یتکلم بہ ، سئل فان کان شدیدا الوجع ؟ قال  لابدّ من أن یؤذن و یقیم لأنہ لا صلاة الا باذان و اقامة ،،

  مریض کو چاہیئے کہ جب نماز پڑھنے کا ارادہ کرے تو اذان واقامت کہہ کر نماز پڑھے ، اگر بلند آواز سے پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا تو دل میںہی پڑھ لے ، کسی نے پوچھا اگر انسان بہت زیادہ مریض هو تو کیا پھر بھی اسے اذان و اقامت کہنا چاہیئے ؟ امام نے فرمایہر حال میں اذان و اقامت کہناچاہیئے کیونکہ اذان و اقامت کے بغیر نماز درست نہیں هے (اذان شعائر اسلام    ) 

   اذان واقامت کی اہمیت اس قدر زیادہ هے کہ جو شخص اذان واقامت کہہ کر نماز  پڑھتا  هے اس پر شیطان  غالب نہیں آسکتا اورشیطانی وسوسہ سے بھی محفوظ رہتا هے اسی لیے پیدا هونے والے بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مستحب هے تاکہ وہ بچہ شیطان کے شر اور اس کے وسوسہ سے محفوظ رهے ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں

  ٫٫ من ولد لہ مولود فلیؤذّن فی اذنہ الیمنی بأذان الصّلاة والیُقم فی اُذنہ الیُسری فانّھا عصمة من الشّیطان الرّجیم،،                                     

جس شخص کے ہاں بچہ پیداهو تواسکے دائیں کان میںاذان اوربائیں کان میں اقامت کہی جائے کیونکہ اس کے ذریعہ وہ بچہ شیطان رجیم کے شر سے محفوظ رہتا هے ۔(وسائل الشیعہ ٢١ ٤٠٦، باب احکام الأولاد، حدیث١. )

  ہشام بن ابراہیم کہتا هے میں امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر هوا اور اپنے مریض و بے اولاد هونے کی شکایت کی تو امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا

  اے ہشام ! تم اپنے گھر میں بلند آواز سے اذان کہا کرو ۔

ہشام کہتا هے کہ میں نے امام علیہ السلام کے فرمان کے مطابق عمل کیا تو خداوند عالم نے مجھ اس عمل کی برکت سے شفا بخشی اور کثیر اولاد بھی عطاکی ۔                  

  محمد بن راشد کہتے ہیں میں اور میرے اہل خانہ اکثر مریض رہتے تھے جیسے    ہی  میں  نے  ہشام  کی  زبانی  یہ  بات  سنی  تو  میں  نے  بھی  اس  پر  عمل  کیا  جس  کے  نتیجہ  میں  خداوند متعال نے مجھے  اور  میرے اہل وعیال کو بیماری سے شفا بخشی۔

(  جامع احادیث الشیعہ ٥١٤٤، ح٧٣٩٥  .)              

  رسو ل خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمای                           

٫٫  یا علیّ ! ألأذان حجّة علی اُمّتی ،،

اے علی! اذان میری امت پر اتمام حجت کا وسیلہ هے ۔        

اور پھر فرماییا علی !ألأذان نور فمن أجاب نجا ومن عجز خسف وکنت لہ خصما بین یدی اللہ ومن کنت لہ خصما فماأسوأ حالہ ۔ 

اے علی ! اذان نور هے پس جس نے اس پر لبیک کہی وہ نجات پا گیا اور جس نے سستی سے کام لیا اس نے گھاٹا پایا اور خدا کی بارگاہ میں میںاس کا دشمن هوں گا اور جس کا میں دشمن بنا اس کا حا ل کتنا برا هو گا. ( تہذیب الاحکام ١ ٥٩.)                

    مؤذن کی فضیلت  

آسما ن پر فرشتوں میں سب سے پہلے مؤ ذن جناب جبرا ئیل ہیں او ر زمین پر انسانوںمیں سب سے پہلے مؤذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہیں یہی وجہ هے کہ وہ سب سے پہلے جنت میں داخل هوں گے مؤذن کی فضیلت کے بارے میںآئمہ معصومین علیہم  السلام سے بہت زیادہ روایات نقل هوئی ہیں جن کو یہا ں پر نقل کرنا ممکن نہیں هے البتہ  ان میں سے بعض ایک کو یہاں پر بطور تبرک نقل کر رهے ہیں۔ 

١۔ مؤذن کا مقام جنّت هے                                 

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 

٫٫من أذّن فی مصر من أمصار المسلمین سنة وجبت لہ الجنّة ،،

(  وسائل الشیعہ  ٥ ٣٧١ ،ابواب الأذان والأقامة ، باب ٢ ، ح ١  .) 

 جو شخص مسلمانو ں کے کسی شہر میں ایک سال تک اذان دے تواس پر جنت واجب هے .        

٢۔ مؤذن قیامت میں سر بلند هو گ

سند صحیح کے ساتھ امام صادق علیہ السلام سے نقل هوا هے 

   ٫٫ ان من أطول النّاس اعناقا یو م القیامة المؤذنین ،،

روز قیامت مؤذن سب سے  بلند گردن والے هوں گے .( حوالہ سابق ،ح٢.)

٣۔مؤذن بخشش کے ساتھ محشر میں آئے گا 

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں   

 ٫٫من أذّن سبع سنین احتسابا جاء یوم ا لقیامة ولا ذنب لہ  ،،

 جو شخص سات سال خداکی خاطر اذان دے تو روز قیامت بغیر گناہ کے حاضر هو گا۔

(  وسائل الشیعہ ٥ ٣٧١، ابواب الأذان والاقامة ، باب ٢ ، ح ٢.)

٤۔مؤذن عرش الہی کے سایہ میں هو گا   

ایک طولانی حدیث میں جو حدیث مناہی کے نام سے معروف هے امام صادق علیہ السلام نے اپنے اجداد کے ذریعہ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا هے

٫٫من أذّن محتسبا یرید بذلک وجہ اللہ أعطاہ اللہ ثواب أربعین ألف شہید ، وأربعین ألف صدیق ، ویدخل فی شفاعتہ أربعون ألف مسی ء من امتی الی الجنّة ، ألا وانّ الموذن اذا قال  أشھد أن لا الہ الا اللہ ، صلّی علیہ سبعون ألف ملک ، یستغفرون لہ ، وکان یوم القیامة فی ظلّ العرش حتّی یفرغ اللّٰہ من حساب الخلائق ، ویکتب ثواب قولہ  أشھد أنّ محمدا رسول اللہ ،أربعون ألف ملک ،،( وسائل الشیعہ ٥٣٧٦، ابواب الأذان والاقامة ، باب٢، ح ٢٠ .)

 رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

جو شخص خدا وند متعال کی خوشنودی کی خاطر اذان دے تو خداوندمتعال اسے چالیس ہزار شہید اور چالیس ہزار صدیق کا ثواب عطا کرے گا اور اس کی شفاعت سے میری  اُمت کے چالیس ہزار گناہگار افراد جنت میں داخل هوں گے ، آگاہ هو جاؤ کہ جب مؤذن کہتا هے  اشھد ان لا الہ اللہ تو ستر ہزار ملائکہ اس پر درود بھیجتے ہیں اور اس کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں اور وہ شخص روز قیامت عرش الہی کے سایہ میں رهے گا جب تک کہ خدا وند متعال مخلوقات سے حساب نہ لے لے ،اور جب اشھد ان محمد ا رسول اللہ کہتا هے تو اس کا ثواب چالیس ہزار ملائکہ لکھتے ہیں ۔

  ٥۔ مؤذن کا مرتبہ شھید کے برابر هے

حضرت علی علیہ السلام سے روایت هے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

٫٫للمؤذن فیما بین الأذان والاقامة مثل أجر الشھید المتشحّط بدمہ فی سبیل اللہ ، قال  قلت  یارسول اللہ انّھم یجتلدون علی الأ ذان ؟ قال  کلّا انّہ  یأتی علی النّاس زمان یطرحون الأذان علی ضعفائھم ، وتلک لحوم حرّمھا اللّٰہ علی النّار  ،، 

 (  وسائل الشیعہ ٥٢٧٣ ، ابواب الأ ن والاقامة ، باب٢ ، ح ٤.)

اذان و اقامت کہنے والے شخص کے لیے وہی ثواب هے جو راہ خدامیں خون میں غلطاں شہید کا هے ( حضرت علی فرما تے ہیں ) میں نے عرض کی یا رسول اللہۖ ! لوگ تو اذان کے لیے آپس میں لڑیں گے ؟ فرمایا  ہرگز ایسا نہیں . بلکہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ  اذان کی ذمہ داری ضعیف لوگوں کو سونپ دی جائے گی درحالانکہ خداوند متعال نے مؤذن کے گوشت کو آتش جہنم پر حرام قرار دیا هے ۔

فصل دوم

 قرآن وسنت میں وحدت کا مقام

١۔وحدت قوموں کی کامیابی کا راز

اس  میں  شک  نہیں هے کہ قوموں کی کامیابی وکامرانی کا ایک رازان کا آپس میں اتفا ق و اتحاد رہا هے جس طرح پانی کے قطرات کے متحد هونے سے بڑے بڑے دریا تشکیل پاتے ہیں اور دریائوں کے مل جانے سے سمندربنتے ہیں اسی طرح انسانوں کے اتحادا ور جمع هونے سے ایسی صفیں تشکیل پاتی ہیں جن پر نگاہ ڈالتے ہی دشمن وحشت زدہ هو کر رہ جاتا هے اور پھر کبھی بھی ان پر چڑھائی کرنے کا تصور تک نہیں کرتا      (( ترھبون بہ عدوّاللّٰہ وعدوّکم ))

ترجمہتم صف بندی کے ذریعہ اپنے اور خدا کے دشمن کو خوفزدہ کرو.( سورہ انفال٦٠    ) 

  قرآن مجید مسلمانوں کو وحدت و اتحاد کے تنہا عامل حبل اللہ سے تمسک کی دعوت اور ہر طرح  کے اختلاف سے بچنے کا حکم دیتا هے

  (( واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولا تفرّقوا ))( سورہ آل عمران ١٠٣.)

ترجمہاور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میںاختلاف پیدا نہ کرو ۔

  قرآن نے مومنین کو آپس میں بھائی بھائی شمار کیا هے اور ان سے یہ تقاضا کیاهے کہ ان کے آپس کے روابط وتعلقات دوستانہ اور بھائیوں کے مانند هونا چا ہئیںا ور پھر چھوٹے سے چھوٹے اختلاف کی صورت میں بھی صلح کا دستور صادر فرمایا هے

  ((انّماالمؤمنون اخوة فاصلحوا بین أخویکم واتّقوااللّہ لعلّکم ترحمون))

(  سورہ حجرات ١٠.)

ترجمہمومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے  بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رهو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے ۔

 ٢۔اختلاف جاہلیت کی علامت

جنگ بنو مصطلق میں مسلمانوں کی فتح کے بعد ایک انصاری اورمھاجر کے درمیا ن اختلاف ایجاد هو گیا ،انصاری نے اپنے قبیلہ کو مدد کے لیے پکارا اور مہاجر نے اپنے قبیلہ کو ،جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی خبر ملی تو فرمایا  ان بری باتوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اس لیے کہ یہ جاہلیت کاطریقہ هے جبکہ خدا وند متعال نے مومنین کوایک دوسرے کا بھائی اور ایک گروہ قرار دیا هے ہرزمان ومکان میں ہر طرح کی فریاد ومدد خواہی فقط اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کی خاطر هونی چاہیے نہ کہ ایک گروہ کی خیر خواہی اور دوسرے کو ضرر پہنچانے کی خاطر انجام پائے ۔ اس کے بعد جو بھی جاہلیت کے شعار بلند کرے گا اسے سزادی جائے گی ۔(  سیر ہ نبویہ ٣٣٠٣ غزوہ بنی مصطلق ؛ مجمع البیان ٥٢٩٣؛ رسائل و مقالات ١٤٣١. ) 

٣۔اختلاف بدترین عذاب

خدا وند متعال نے اپنی لاریب کتاب میں اختلاف کو بدترین عذاب شمار کرتے هوئے فرمای

((  قل هو القادر علی أن یبعث علیکم عذابا من فوقکم أو من تحت أرجلکم أو یلبسکم شیعا و یذیق بعضکم بأس بعض)) 

ترجمہکہہ دیجیے کہ وہی اس بات پر بھی قادر هے کہ تمھارے اوپر سے یا پیروں کے نیچے سے عذاب بھیج دے یا ایک گروہ کو دوسرے سے ٹکرا دے اور ایک کے ذریعہ دوسر ے کوعذاب کا مزہ چکھا دے ۔( سورہ انعام ٦٥.)

  ابن اثیر کہتے ہیں (شیعا )  سے مراد وہی مسلمانوںکے درمیان اختلاف ایجاد کرنا هے۔

 (النہایہ فی غریب الحدیث ٢٥٢٠. )

  رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے لوگوں سے رابطہ نہ رکھنے کا حکم فرمایا جوآپس میں اختلاف ایجاد کرتے اور اس پر اصرار کرتے ہیں

(( انّ الّذین فرّقوا دینہم وکانوا شیعا لست منھم فی شیء انّما أمرُھم الی اللّہ ثمّ ینبئھم بما کانوا یفعلون))( سورہ انعام ١٦٥.)

ترجمہجن لوگوں نے اپنے دین میں اختلاف ایجاد کیا اورٹکڑے ٹکڑے هوگئے ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں هے ان کا معاملہ خدا کے حوالے هے پھر وہ انہیں ان کے اعمال سے با خبر کرے گا ۔

  خدا وند متعال نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا هے کہ وہ مشرکوںکے مانند آپس میں اختلاف اور اس پر فخر و مبا حات مت کریں 

  (( ولا تکونوا من المشرکین من الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا  کل حزب بما لدیھم فرحون ))( سورہ روم٣٢.)

ترجمہ  اور خبردار مشرکین میں سے نہ هو جانا جنھوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا هے اور گروهوں میں  بٹ گئے ہیں پھرہر گروہ جو کچھ اس کے پاس هے اسی پر مست ومگن هے ۔ 

 ٤۔رسولخدا  ۖکاختلاف اُمت سے پریشان هونا

امت مسلمہ کے درمیان ہر قسم کا اختلاف پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے پریشانی کا باعث تھا سیوطی اور دیگر مولفین نے نقل کیا هے کہ شاس بن قیس نامی شخص جو زمانہ جاہلیت کا پرورش یافتہ اور مسلمانوں کے بارے میں حسد و کینہ اس  کے دل میں ٹھا ٹھیں مارتا رہتا تھا اس نے ایک یهودی جوان کوتیار کیا تاکہ اسلام کے دو بڑے قبیلوں اوس وخزرج کے درمیان اختلاف ایجاد کرے ۔ اس یهودی نے دونوں قبیلوںکے افراد کو زمانہ جاہلیت میں ان کے درمیان هونے والی جنگوں کی یاد دہانی کروا کر ان کے درمیان آتش فتنہ روشن کر دی یہاں تک کہ دونوں قبیلے ننگی تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے هوئے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر ملی تو انصار و مہاجرین کے ایک گروہ کے ہمراہ لڑائی کے مقام پر پہنچے اورفرمای

اے مسلمانو!کیا تم نے خدا کوفراموش کر ڈالا اور جاہلیت کے شعاربلندکرنے لگے هو جبکہ میں تمھارے درمیان موجود هوں ،خداوند متعال نے تمھیں نور اسلام کی طرف ہدایت کرکے مقام عطا کیا ،جاہلیت کے فتنوں کو ختم کرکے تمھیں کفر سے نجات دی اور تمھارے درمیان الفت وبرادری برقرارکی ،کیا تم دوبارہ کفر کی طرف پلٹنا چاہتے هو ؟

  پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس خطاب سے وہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ ایک شیطانی سازش هے اپنے اس عمل پر پشیمان هوئے ،اسلحہ زمین پر رکھ دیا اور آنسو بہاتے هوئے ایک دوسرے کو گلے لگا کر اظہار محبت کرنے لگے اور پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمراہی میں اپنے اپنے گھروں کی طرف واپس پلٹ گئے ( تفسیر در المنثور ٢٥٧ ؛ مجمع البیان ٤٣٢؛ فتح القدیر ١٣٦٨؛ تفسیر آلوسی ٤١٤؛ اسد الغابہ  ١١٤٩  .   )

  حضرت علی کی نظر میں اختلا ف کے برے اثرات

١۔فکری انحراف کا باعث

حضرت علی علیہ ا لسلام معتقدتھے   ٫٫الخلاف یھدم الرأ ی ،،

  اختلاف رائے کو نابود کردیتاهے۔(نہج البلاغہ ،حکمت٢١٥.)

  یہ ایک حقیقت هے کہ انسان پرسکون ماحول میں درست نظریہ بیان کر سکتا هے جبکہ اختلافات کی فضا میں انحراف واشتباہ سے دوچار هو جاتا هے ۔

٢۔باطن کے نجس هونے کی علامت

علی علیہ السلام اختلاف کی نجاست کو بیان کرتے هوئے فرماتے ہیں 

٫٫انما انتم اخوان علی دین اللہ ،ما فرّق بینکم الّا خُبث السّرائر وسوء الضّمائر،،(نہج البلاغہ ،خطبہ ١١٣.)

 ترجمہ

٣۔ فتنہ کا باعث

حضرت علی علیہ السلام بخوبی جانتے تھے کہ شیطان اختلاف ایجادکر کے فتنہ کی آگ بھڑکانا چاہتا هے لہذافرمایا

٫٫انّ الشیطان یسنی لکم طرقہ ، ویریدأن یحلّ دینکم عقدة عقدة، ویعطیکم بالجماعة الفرقة ، وبالفرقة الفتنة ،،(نہج البلاغہ ، خطبہ ١٢١ )

ترجمہ یقینا شیطان تمہارے لئے اپنی راہیں آسان بنا دینا چاہتا هے کہ ایک ایک کر کے تمہاری ساری گرہیں کھول دے وہ تمہیں اجتماع کے بجائے افتراق دے کر فتنوں میں مبتلا کرنا چاہتا هے

 ٤۔شیطان کے غلبہ کا باعث

حضرت علی علیہ السلام نے یہ سمجھانے کے لئے کہ اختلاف شیطان کو اپنے اوپر مسلط کرنے کے سوا کچھ اور نہیں هے فرمایا 

  ٫٫وألزموا السّواد الأعظم فانّ یداللہ مع الجماعة ،وایّاکم والفرقة فانّ الشاذ من النّاس للشّیطان ، کما أنّ الشّاذ من الغنم للذئب ،،()

 (نہج البلاغہ ،خطبہ ١٢٧.)

ترجمہ اور سواد اعظم کے ساتھ رهو کہ خدا کا ہاتھ اسی جماعت کے ساتھ هے اور خبردار تفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ جا تا هے وہ اسی طرح شیطان کا شکار هو جاتا هے جس  طرح ریوڑ سے الگ هوجانے والی بھیڑ بھیڑیئے کی نذرهو جاتی هے ۔

٥۔دوگروہ میں سے ایک کے یقینا باطل هونے کی علامت

امیرالمومنین علیہ السلام کے نزدیک اختلاف سے دوچار هونا وہی باطل کی پیروی کرنا هے لہذا فرمایا

  ٫٫  مااختلف دعوتان الاّ کانت احداھما ضلالة ،،

ترجمہ  جب بھی دو نظریوںمیں اختلاف هو تو ان میں سے ایک یقینی طور پر باطل پر هے ۔(نہج البلاغہ ، حکمت ١٨٣.)

یعنی ہمیشہ حق باطل کے مقابل میں هے اور یہ دونوں کبھی جمع نہیںهو سکتے ۔

٦۔ اختلاف ایجا د کرنے والے کی نابودی واجب هے

امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں

 ٫٫الا من دعا الی ھذاالشعار فاقتلوہ،ولوکا ن تحت  عمامتی ھذہ  ،،

ترجمہآگاہ هو جائو جو بھی اختلاف کا نعر ہ لگائے اسے قتل کر دوچاهے میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ هو ۔( نہج البلاغہ ،خطبہ ١٢٧.)

  ڈھکو اور شیعہ اتحاد پر کاری ضرب 

 اس میں شک نہیں هے کہ ہم ایک ایسے زمانہ میں زندگی بسر کر رهے ہیں جہاں دشمنان اسلام، اسلام اور خاص طور پر تشیع کی نابودی کے لئے آپس میں معاہدہ کر چکے ہیں اور اپنے تمام تر سیاسی واقتصادی امکانات تشیع کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے بروئے کار لا رهے ہیں ، جیسا کہ امریکی سی آئی اے کا نمائندہ ڈاکٹر مائیکل برانٹ اپنی کتاب (مکاتب الہی کو جدا کرنے کا منصوبہA plan to divis and desnoylte theology  )میں لکھتا هے

کتنی صدیوں سے عالم اسلام پر مغربی ممالک حکومت کرتے چلے آرهے ہیں اگرچہ اس آخری صدی میں اکثر اسلامی ممالک آزاد هو چکے ہیں لیکن پھر بھی ان کی آزادی ، سیاست ، تعلیم اور ثقافت پر مغرب کا قبضہ رہا هے خاص طور پر ان ممالک کا سیاسی اور اقتصادی نظام ہمارے کنٹرول میں رہا هے ۔

  ١٩٧٩ء میں ایران کے اسلامی انقلاب نے ہماری سیاست کوبہت نقصان پہنچایا ، ابتداء میں تو ہم نے یہ گمان کیا کہ یہ شاہ ایران کے ظلم و تشدد اور غلط سیاست کا نتیجہ هے جس سے مذہبی عناصر فائدہ اٹھا رهے ہیں ، شاہ ایران کے معزول هونے کے بعد دوبارہ ہم اپنی مرضی کے لوگ لاسکیں گے لیکن پہلے ہی دو تین سالوں میں جب امریکہ کو سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اسلام کی بیداری اور مغرب کے خلاف نفرت نے زور پکڑا،نیز انقلاب کا اثر شیعہ ممالک لبنان ، عراق ، بحرین ، کویت اور پاکستان تک پہنچ گیا تو اس وقت سی آئی اے کے سینئر افسروں کا اجلاس بلایا گیا جس میں برطانوی انٹیلی جنس کے شہرت یافتہ نمائندہ mixنے بھی شرکت کی ،اس اجلاس میں اس نتیجہ پر پہنچے کہ انقلاب اسلامی ایران کے باطن میں کچھ اور بھی عوامل پوشیدہ ہیں کہ جن میں سے مہم ترین عوامل شیعوں کی مرجعیت اورپیغمبر اسلامۖ کے نواسے حسین کی چودہ سو سال پہلے هونے والی شہادت هے جسے شیعہ حضرات انتہائی جوش و خروش سے مناتے ہیں یہی دو چیزیں ہیں جن کے باعث شیعہ دوسرے مسلمانوں سے زیادہ متحرک دکھائی دیتے ہیں ۔

  ا س اجلاس میں یہ طے پایا کہ شیعوں کے خلاف سازش کے لئے ایک الگ شعبہ تشکیل دیا جائے جس کے لئے پہلے ہی مرحلہ میں چالیس ملین ڈالر مختص کیا گیا ۔

اس نے مزید لکھا  هے کہ اس کام کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا گیا

١۔ خبروں کا اکٹھا کرنا ۔

٢۔ شیعوں کے خلاف تبلیغات اور شیعہ و سنی کے درمیان فتنہ و فسادایجاد کرنا۔

٣۔ شیعوں کا مکمل خاتمہ۔

 پہلے مرحلہ کی تکمیل کے لئے ایک تحقیقی ٹیم کو پاکستان سمیت کئی ایک ممالک میں بھیجا گیا ان کی لائی گئی رپورٹوں پرتحقیق کرنے کے بعد تمام دنیا کے شیعوں کے درمیان چند ایک مشترک امور سامنے آئے ہیں 

ان کے مذہب کی قدرت کا اصلی سرچشمہ ان کے مجتہد ہیںجنهوں نے تشیع کی اس طولانی تاریخ میں کبھی بھی غیر شرعی حاکم کی بیعت نہیں کی ، یہاں تک کہ ایک مجتہد وقت (( آیت اللہ العظمی شیرازی )) کے ایک فتویٰ کی وجہ سے برطانیہ ایران میں اپنی کارکردگی نہ دکھا سکا ۔اسی طرح عراق جو شیعوں کا بہت بڑا علمی مرکز تھا صدام اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اسے نہ خرید سکا اور بالآخر اسے بند کرنے پر مجبور هو گیا جبکہ قم نے شاہ ایران کا تختہ الٹ دیا اور آمریکہ سے جنگ کی ، لبنان میں آیت اللہ موسیٰ صدر کی تحریک نے برطانیہ ، فرانس اور اسرائیل کو فرار هونے پر مجبور کر دیا اور اسرائیل کے مقابلہ میں ایک بہت بڑی طاقت حزب اللہ کو تشکیل دیا ۔

 اس بناء پر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیںکہ

١۔ شیعوں سے ڈائریکٹ مقابلہ کرنے کی صورت میں کامیابی کا امکان بہت کم هے لہذا پس پردہ رہ کر ان کے خلاف کام کیا جائے ۔

٢۔ ایسے افراد جو شیعو ں سے اختلاف رائے رکھتے ہیں انھیں شیعوںکے خلاف منظم و مستحکم کر کے شیعوں کے کافر هونے کے نظریہ کو عام کر کے انھیں معاشرے سے جدا کیا جائے ۔

٣۔جاہل اور کم پڑھے افراد کی مدد کرکے انہیں شیعوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا جائے۔

٤۔ مرجعیت کے خلاف کام کیاجائے تاکہ لوگوں کے درمیان مجتہدوں کے بارے میں نفرت ایجاد کی جاسکے ۔

  ڈاکٹر مائیکل برانٹ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے بارے میں لکھتا هے

یہ مجالس اور ان کے سننے والے ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیںاس لئے کہ اسی عزاداری اور مجالس کی وجہ سے شیعوں کے اندر اس قدر جوش و جذبہ پایا جاتا هے لہذا ہم نے اپنے بجٹ کا کچھ حصہ ذاکرین اور سامعین کے لئے معین کیا هے تا کہ شیعوں میں سے جو لوگ دنیا پرست اورضعیف العقیدہ ہیں ان کی شناخت کر کے ان کے ذریعہ سے عزاداری میں رسوخ پیدا کیا جائے اور پھر ان لوگوں سے مندرجہ ذیل امور کا تقاضا کیا جائے

١۔ ایسے ذاکرین تیار کرنا یا ان کی سر پرستی کرنا جو شیعہ عقائد سے آشنائی نہ رکھتے هوں

٢۔ شیعوں میں سے ایسے افراد کی مدد کرنا جو اپنی تحریر کے ذریعے شیعہ عقائد اور ان کے    علمی مراکز پر حملہ کرکے مذہب شیعہ کی بنیادوں کو منہدم کر سکتے هوں ۔

٣۔ عزاداری میں ایسے رسم و رواج کی ترویج کرنا جن کا مذہب شیعہ سے کوئی تعلق نہ هو ۔ لہذا اس کے لئے ضروری هے کہ بڑے بڑے ذاکروں کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ تشیع ایک منطقی مذہب سے محض درویشی مذہب میں تبدیل اور اندر سے کھوکھلا هو جائے۔

٤۔ مرجعیت کے خلاف کثرت سے مطالب جمع کرکے دولت پرست مولفین کے حوالے کئے جائیں تاکہ وہ انہیں ذاکروں اور عوام کے درمیان پھیلا سکیں ۔

  اس نے اس بات کی تاکید کی هے کہ یوں ٢٠١٠ء تک تشیع کامرکز نابود هو جائے گا اور جو لوگ باقی بچ جائیں گے ان کے اور ان کے مخالفین کے درمیان مسلحانہ جنگ ایجاد کر کے انہیں پراکندہ کر دیا جائے گا ۔(آ موزہ ھای شیعہ ١١، تالیف حسین رجبی؛اخبار جمهوری اسلامی ٥۔٣۔١٣٨٣.)

  شیعیان پاکستان اپنے تما م تر فکری اختلافات کے باوجود اہل بیت علیھم السلام کے بیان کردہ فرامین سے راہنمائی لیتے هوئے اپنے درمیان اخوت اور بھائی چارے کو باقی رکھے هوئے دشمنان اسلام کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار کے مانند محکم واستوار کھڑے تھے لیکن افسوس کہ ١٩٨٥ء میں محمد حسین ڈھکو نے (اصلاح الرسوم) نامی خرافات پر مشتمل کتاب لکھ کر اس وحدت وہمدلی کو پارہ پارہ کر دیا ، شیعیان علی پر بدعت کی تہمت لگا کر ان کی صفوںپر ایسی کاری ضرب لگائی جس کا جبران ممکن نہیں هے ۔اور پھر علماء ومراجع عظام کے خلاف زبان درازی کر کے اسلام کے دیرینہ دشمنوں کے ہدف کو عملی جامہ پہنادیا ۔

  ( اس بات کے ثبوت کے لئے ماہنامہ دقائق الاسلام مارچ ٢٠٠٧ء اورچک نارنگ چکوال میں شہادت ثالثہ کے بارے میں هونے والے سوال وجواب کی سی ڈی مشاہدہ فرمائیں .)

                    فصل سوم       

                 دشمن کی شناخت  

دینی معاشرہ میں فضا سازی  ،طلاطم آفرینی اور معرکہ آرائی سخن اول نہیں هوتے بلکہ سخن اول بصیرت ونظرهے دعوت حق کے لئے بصیرت لازم ترین شرط هے اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کو چاہئے کہ وہ خود کو اس صفت سے آراستہ کریں

  ((قل ھذہ سبیلی ادعواالی اللہ علی بصیرت انا ومن اتبعنی)) 

(  سورہ یوسف١٠٨.  )

ترجمہ آپ کہہ دیجیے یہی میرا راستہ هے میں بصیرت کے ساتھ خداکی طرف دعوت دیتا هوں اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی هے۔     

  بصیرت ودانائی کے مختلف زوایا ہیں جیسے خدا،نبی،امام ، قیامت اور اپنے وظائف اور دشمن کی معرفت ۔ دشمن کی معرفت و شناخت اہم ترین زاویہ بصیرت پر مشتمل هے جسے قرآن کریم نے منافق سے تعبیر فرمایا هے ، قرآن کریم میں نفاق کے رخ کا تعارف کرانے کے سلسلہ میں کفر سے کہیں زیادہ اہتمام کیاگیا هے اس لئے کہ اسلامی معاشرہ کے لئے خطرات و نقصانات کافروں سے کہیں زیادہ منافقوں سے  ہیں ۔ اگر یہ نفاق نہ هوتا تو امیرالمومنین علی علیہ السلام کا حق غصب نہ کیا گیا هوتا ، سیدہ النساء فاطمة الزہراء سلام اللہ علیہا کے شکم و بازو پر جلتاهوا دروازہ نہ گرایا گیا هوتا ، قرة العین رسول امام حسن مجتبی علیہ السلام کے جنازے پر تیروں کی بارش نہ هوتی اور کربلا کے میدان میں پنجتن پاک کاتن تنہا مصداق تین دن کا تشنہ لب شہید نہ کیا گیا هوتا ۔ 

  منا فقوں کی پہچان کا ماحصل اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کی شناخت هے اور ان کے دشمنوں کی شناخت تبرا کے قالب میں جزء فروع دین هے ، فروع دین کی بجا آوری تکمیل ایما ن کا سبب هے ۔کبھی دشمن شناختہ شدہ هے علی الاعلان دشمنی کے بینر کو اٹھائے هوئے هے ایسی صورت میں دشمن سے ٹکرانا آسان هوتاهے لیکن کبھی دشمن ایسے لباس میں ظاہر هوتاهے جسے سماج ومعاشرہ مقدس سمجھتا هے ، مخالفت مذہب ودین کا پرچم اٹھائے نہیں هوتا بلکہ اپنی منافقانہ رفتار وگفتار کے ذریعہ خود کو دین کا مروج اور پاسبان و نگہبان ظاہر کرتا هے ۔ ایسی صورت میں دشمن سے مقابلہ کے علاوہ دوسری مشکلات وصعوبتیں بھی سا منے آتی ہیں جو اصل مقابلہ سے کہیں زیادہ هوتی سخت هوتی ہیںاور وہ مشکلات عوام فریبی اور اپنے گروہ و فریق پر اثر گذاری هے ۔اسی بناء پر امیرالمومنین علیہ السلام کی ناکثین ومارقین اور قاسطین سے جنگ ان جنگوں کی نسبت سخت ترین ومشکل ترین تھی جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بت پرستوں اور مشرکوں سے کی ہیں ۔

  اس لئے کہ مرسل اعظم (ص) کے مد مقابل وہ گروہ تھے جن کا نعرہ تھا بت زندہ باد ، جبکہ امام علی کا مقابلہ ان افراد سے تھا جن کو بہت سے جہادوں میں پیغمبر اسلام(ص) کے ہم رکا ب هونے کا تمغہ حاصل هو چکا تھا.(مروج الذہب ٢٣٦١، سفینہ البحارکلمہ زبیر .)اور جانباز اسلام کہلاتے تھے ان افراد سے مقابلہ تھا جن کے درخشاں ماضی کو دیکھتے هوئے پیغمبر (ص) نے تعریف و تمجید کی تھی.( اسدالغابہ ٢٢٥٠.)

  ان لوگوں سے مقابلہ تھا جن کی پیشانی پر کثرت عبادت وشب زندہ داری کی وجہ سے نشان پڑگئے تھے جن کی رات گئے قرائت قرآن کی دلنشین آواز کا جادو کمیل جیسی عظیم ہستی پر اثرانداز هو گیا تھا ۔ (بحارالانوار ٣٣٣٩٩، سفینہ البحار مادہ کمل .)

  آ ج بھی علی کے چاہنے والوں کو بیرونی دشمنوں سے کہیں زیادہ اندرونی دشمن کا خطرہ هے جواپنی تمام تر توانائی مذہب اہل بیت کے پیروکاروں کے درمیان شکوک وشبہات ایجاد کرکے انہیں مختلف گروهوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں امیرالمومنین علیہ السلام اندرونی دشمن کے خطرے کو بیان کرتے هوئے فرماتے ہیں

  ٫٫کن للعدوّ المکاتم أشدّ حذر منک للعدوّ المبارز ،،

(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید٢٠٣١١.)  

 ترجمہآشکار و ظاہر دشمن کی نسبت باطن و مخفی دشمن سے بہت زیادہ ڈرو۔

  اب بھی اگر علماء اور مذہب کے ذمہ دار افراد ایسے منافقوں کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے اور مصلحتوں کا شکار رہتے ہیںتوممکن هے اس ہزار چہرے والے منافق سے غفلت ورزی مذہب تشیع پر ایسی کاری ضرب ثابت هو جو التیام وبہبود کے قابل ہی نہ هو ۔ 

 نفاق کے معانی

 قرآن واحادیث میں نفاق دو معانی میں استعمال هوا هے 

١۔اعتقادی نفاق قرآن واحادیث میں نفاق کا پہلا معنی اسلام کا ظاہرکرنا اور باطن میں کافر هونا هے ۔

  قرآن میں جس مقام پر بھی نفاق کا لفظ استعمال هوا هے یہی معنی مقصود هے یعنی کسی فردکا ظاہر میں اسلام کا دم بھرنا لیکن باطن میں کفر کا شیدائی هوناهے۔

٢۔اخلاقی نفاق نفاق کادوسرا معنی جو بعض روایات میں استعمال هوا هے وہ اخلاقی نفاق هے یعنی دینداری کا نعرہ بلند کرنا لیکن دین پر عمل نہ کرنا ۔(بحار الانوار ٧٢١٠٨،اصول کافی ج٢، باب صفت النفاق والمنافق میں نفاق کو اسی معنی میں استعمال کیا گیا هے .)

  البتہ اخلاقی نفاق کبھی فردی اور کبھی اجتماعی پہلووں میںرونما هوتا هے وہ فردجو اسلام کے فردی احکام کو پامال کر رہا هو وہ فردیاخلاقی نفاق میں مبتلا هے اور وہ شخص جو معاشرے کے حقوق اور اجتماعی احکام کو جیساکہ اسلام نے حکم دیا هے نہ بجا لاتا هو تو وہ اخلاقی اجتماعی نفاق سے دوچار هے ۔  

 فردی نفاق کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں

٫٫أظھر النّاس نفاقا من أمر بالطاعة ولم یعمل بھا و نھی عن المعصیة ولم ینتہ عنھا،، (غررالحکم حدیث٣٢١٤.            )   

ترجمہکسی فرد کا سب سے واضح ونمایاں نفاق یہ هے کہ وہ اطا عت خدا کا حکم دے لیکن خودمطیع وفرمانبردار نہ هو ، گناہ وعصیان سے منع کرتا هو لیکن خود کو اس سے باز نہ رکھتا هو .

  حضرت امام صادق علیہ السلام نقل کرتے ہیں کہ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما ی

 ٫٫مازاد خشوع الجسد علی ما فی القلب فھو عندنا نفاق،،      

ترجمہ جب کبھی جسم ( ظاہر)کا خشوع ،قلب ( باطن)کے خشوع سے زیادہ هو توایسی حالت ہمارے نزدیک نفاق هے .(  اصول کافی ٢٣٩٦. )

  حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اخلاقی نفاق کے سلسلہ میںفرماتے ہیں

  ٫٫ان المنافق ینھی ولاینتھی ویأمر بما لا یأتی ۔۔۔،، (٣)   

 ترجمہ یقینا منافق وہ شخص هے جو دوسروں کو منع کرتاهے لیکن خوداس کام سے پرہیز

 نہیںکرتا اور ایسے کام کا حکم دیتا هے جس کو خود انجام نہیں دیتا۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں

  ٫٫ان المنافق ۔۔۔ان حدثک کذبک وان ائتمنہ خانک وان غبت اغتابک وان وعدک أخلفک ،،(  المحجة البیضائ)

ترجمہمنافق جب تم سے گفتگو کر ے تو جھوٹ بولتا هے اگر اس کے پاس امانت رکھو تو اس میںخیانت کرتا هے اگر اس کی نظروں سے اوجھل رهوتو غیبت کرتا هے اگر تم سے وعدہ کرے تو وفا نہیں کرتا هے ۔          

 امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں 

    ٫٫کثرت الوفاق نفاق،،

ترجمہکسی شخص کا زیادہ ہی وفاقی اور سازگاری مزاج وطبیعت کاهونا یہ اس کے نفاق کی علامت هے ۔

 ظاہر سی بات هے کہ صاحب ایمان شخص ہمیشہ حق کا طرف دارهوتا هے اور حق کا مزاج رکھنے والا کبھی بھی سب سے خاص کر ان لوگوں سے جو باطل پرست ہیں سازگار وہمراہ نہیں هوتا ،یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ مومن کبھی ابن الوقت نہیں هوتا ۔

  نفاق اجتماعی کاآشکار ترین نمونہ اجتماعی زندگی و معاشرے میں دو روئی اور دوزبان کا هونا هے ،یعنی انسان کا کسی کے حضور میں تعریف و تمجید کرنالیکن پس پشت مذمت و برائی کرنا۔صاف وشفاف گفتگو ، حق و صداقت کی پرستاری مومن کی صفت هے رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نوعیت کے نفاق کے انجام کے سلسلہ میں فرماتے ہیں

 ٫٫من کان لہ وجھان فی الدنیا کان لہ لسانان من نار یو م القیامة،،     

ترجمہ  جو شخص بھی دنیا میں دو چہرے والا هو گا آخرت میں اسے دو آتشی زبانیں دی جائیں گی ۔( المحجة البیضاء ٥٢٨٠.)

  امام باقر علیہ السلام بھی اخلاقی نفاق کے خد وخال کی مذمت کرتے هوئے فرماتے ہیں  

٫٫بئس العبد یکون ذا وجھین و ذا لسانین یطری اخاہ شاھدا ویاکلہ غائبا ان اعطی حسدہ وان ابتلی خذلہ ،،(المحجة البیضاء ٥٢٨٢.)

ترجمہ بہت بد بخت وبد سرشت هے وہ بندہ جو دو چہرے او ر دو زبان والاهو ، اپنے دینی بھائی کے سامنے تو تعریف وتمجید کرتا هے اور اس کی عدم موجو دگی میں اس کو ناسزاکہتا هے اگر خدا اس کے دینی بھائی کو کچھ عطا کرتا هے تو وہ حسد کرتا هے اور اگر مشکل میں گرفتار هوتا هے تو اسکی اہانت کرتا هے ۔

  ذکر شدہ روایات اور اس کے علاوہ دیگر احادیث جو ان مضامین پر دلالت کر تی ہیں ان کی روشنی میں بے عمل ، خائن اور سستی شہرت کے دلدادہ عالم کا شمار انہیںلوگوں میں سے هوتا هے جو فردی اخلاقی نفاق سے دوچارهوتے ہیں ہم یہاں پرمنافق کی چند ایک صفات کوبیان کر رهے ہیں تا کہ مومنین کرام علماء کے مقدس لباس میں چھپے هوئے خائن ومکار افراد سے اپنے ایمان کو بچاسکیں جنھیںروایات میں لشکر یزید سے بھی بد تر قرار دیا گیا هے ۔

             ١۔   مسلمات دین کی تضعیف

  منافق کی ایک صفت یہ هے کہ وہ دینی ومذہبی یقینیات ومسلمات کی تضعیف کے پیچھے پڑے رہتے ہیں یقینا جب تک انسان کا عقیدہ ضعف و تزلزل سے دوچار نہ هو تب تک کوئی طاقت اس کے عقیدہ کے خلاف زور آزمائی نہیں کرسکتی۔قدرت کا اقدار ، حکومت کی حاکمیت اجسام وابدان پر تو هو سکتی هے مگر دل میں نفوذ وقلوب پر مسلط نہیں هوسکتی۔ سر انجام انسان کی رسائی اس شے تک هو ہی جاتی هے جسے دل اور قلب پسند کرتا هے ۔

  اسلام کا اہم ترین اثر مسلمانوں پر بلکہ تمام ادیان کا اپنے پیروکاروں پر یہ رہا هے کہ فرضی وخرافاتی رسم ورواج کو ختم کرتے هوئے منطقی ومحکم اعتقاد کی بنیاد ڈالیں ،پہلے تو اسلام نے انسانوںکے اندرونی تحول وانقلاب کے لئے کام کیا هے تاکہ اسلامی سماج و معاشرہ وجود میں آئے ، جبکہ منافقین کی طرف سے ہمیشہ یہ کوشش رہی هے کہ مومنین عقائد دینی و مذہبی تعلیمات کے حوالے سے ہمیشہ شک و شبھہ میں مبتلا رہیں جیسا کہ آج بھی کبھی خمس کا انکار کر کے اور کبھی اذان و اقامت میں شھادت ثالثہ کے بدعت هونے کا شبھہ ڈال کر مومنین کے ایمان کو متزلزل کرنے کی منافقانہ سازش کی جا رہی هے ۔

  شبھہ القا ء کرنے کا مقصد حق وحقیقت تک پہنچنا نہیں هوتا بلکہ شبہ کا موجد اپنے باطل نظریہ کو حق کے لباس میں ان افراد کے سامنے پیش کرنا چاہتا هے جو حق و باطل میں تشخیص دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ امیرالمومنین علیہ السلام شبھہ کی اسم گذاری کے بارے میں لکھتے ہیں

   ٫٫انّما سمّیت الشّبھة شبھة لأنّھا تشبہ الحقّ،،(نہج البلاغہ ، خطبہ٣٨.)

ترجمہشبھہ کو اس لئے شبھہ کا نام دیا گیا کہ وہ حق سے شباہت رکھتا هے ۔     

  اگر شبہ القاء کرنے والے کو علم هو جائے کہ کسی مقام پر ہمارا مغالطہ کشف هو جائے گا اور اس کا  باطل هونا آشکار هو جائے گا تو ایسی صورت میں وہ اس مقام یا اس فر د کے پاس اصلا شبہ کو پیش ہی نہیں کرتا بلکہ وہاں پیش کرنے سے گریز کرے گا اور سعی و کوشش یہ هو تی هے کہ شبہ کے احتمالی جواب کو بھی مخدوش کر کے پیش کیا جائے،ایسے شخص کا مقصدبعض افراد کو اپنے میں جذب کرنا اور ان کے مبانی واصول میں تزلزل پیدا کرنا هوتا هے تاکہ انہیں حق سے دور اور اس سے جدا کرسکیں ، شبہ ایجاد کرنے والے حضرات اپنے باطل کو حق میں اس طرح آمیزش کر دیتے ہیں کہ وہ افراد جو تفریق وتمیزکی صلاحیت نہیں رکھتے فریب کا شکار هو جاتے ہیں،شبہات ہمیشہ حق کے لباس میں پیش کئے جاتے ہیں اور آسانی سے سادہ لوح افراد مجذوب هو جاتے ہیں ، شبہ خالص باطل نہیں هے اس لئے کہ باطل محض آسانی سے ظاہر هو جاتا هے ۔

  مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فتنہ کا سر چشمہ حق و باطل کی آمیزش کو بیان کرتے هوئے فرماتے ہیںکہ اگر حق و باطل ایک دوسرے سے جدا کر دیئے  جا ئیں تو راستہ کی تشخیص بہت ہی آسان اور سہل هو جاتی هے      

  ٫٫ انما بدء وقوع الفتن اھواء تتبع واحکام تبتدع یخالف فیھا کتاب اللہ و یتولی علیھا رجال رجالا علی غیر دین اللہ فلو ان الباطل خلص من مزاج الحق لم یخف علی المرتادین ولو ان الحق خلص من لبس الباطل انقطعت عنہ السن المعاندین ولکن یوخذ من ضغث فیمزجان ،،

 فتنہ کی ابتداء ان خواہشات سے هوتی هے جن کا اتباع کیا جاتا هے اور جدید ترین احکام سے هوتی هے جو گھڑ لئے جاتے ہیں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف هوتے ہیں اس میں کچھ لوگ دوسروں کے ساتھ هو کر دین خداسے جدا هو جاتے ہیں کہ اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلبگاروں پر مخفی نہیں رہ سکتا تھا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں کھل نہیں سکتی تھیں لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا هے اور ایک اس میں سے اور پھر دونوں کو آپس میں ملا دیا جاتا هے ۔(نہج البلاغہ ، خطبہ )

  تحقیقی مسائل کو علم ظاہر کرتے هوئے غیر علمی حلقوں اورماحول میں پیش کرناشبہ ایجاد کرنے کا واضح نمونہ هے جس کا روشن ترین مصداق محمد حسین ڈھکو هے جو علمی مسائل میںاپنے باطل نظریات کو عوام میں پیش کرکے ان کے عقائد کو متزلزل اور ان کے اندر دین و ایمان کی روح و فکر کو خدشہ دار کرنے میں ہمیشہ مصروف رہتا هے جب کہ علمی ماحول میں ان کے بیان کرنے سے راہ فرار اختیار کر جاتا هے ۔                                                                     

  جس کا عملی نمونہ ربیع الثانی ٢٠٠٨ء میں قم المقدسہ کی سر زمین پرعلماء کرام اور طلاب عظام نے بخوبی مشاہدہ فرمایا کہ جب خمس اور شھادت ثالثہ کے بارے میں شبہ القاء کرنے والے اور عوام الناس کے مجمعہ میں (کون هے مائی کا لال جو میرے سامنے آئے ) کا کھو کھلا نعرہ لگانے والے خود ساختہ مجتہد محمد حسین ڈھکو نے مراجع عظام اور حوزہ علمیہ قم کے طلاب سے اذان واقامت میں شھادت ثالثہ اور خمس کے علاوہ دیگر چھ موضوعات پر گفتگو کرنے سے انکار کر دیاتھا ،اس لئے کہ اسے معلوم تھا کہ اس کے نظریات محض ایک شبہ کے سوا کچھ اور نہیں ہیں لہذاسب کے سامنے ذلت اٹھانے پر میدان علم سے فرار کو ترجیح دینا ہی بہتر سمجھا ۔

  ایسے ہی علماء سوء کے بارے میں امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں

  ٫٫ھم أضرّ علٰی ضعفاء شیعتنا من جیش یزید علی الحسین بن علی علیھما السلام و أصحابہ ، فانّھم یسلبونھم الأرواح والأموال ، وھولاء علماء  السّوء النّاصبون المتشبّھون بانّھم لنا موالون ولأعدائنامعادون ،یدخلون الشّک والشّبھة علٰی ضعفاء شیعتنا ویمنعونھم عن قصد الحقّ المصیب ۔۔۔،،()

ترجمہعلماء سوء لشکر یزید سے بھی بدتر ہیں اس لئے کہ انهوں نے توحسین اور ان کے اصحاب کے مال و جان کو لوٹااور یہ ناصبی ، متشبھہ ہماری محبت کا دعوی کرتے ہیں اور ہمارے دشمنوں سے دشمنی رکھتے ہیں جبکہ ہمارے ضعیف شیعوں کے دلو ں میں شک و شبھہ ڈال کر انہیں گمراہ کرتے اور حق سے دور رکھتے ہیں ۔

  ( تفسیر امام عسکری  ٣٠١؛بحارالانوار٢٨٨ ، ح ١٢ ؛ الاحتجاج ٢٥١٢،ح ٣٣٧.)

  منافقین اسی طرح کے کئی ایک شبہا ت کی ترویج کرتے رهے ہیں اور کرتے رہیں گے تاکہ ان شبہات کے ذریعہ سے دین کے حقائق و مسلمات کو ضعیف اور اسلامی معاشرہ سے روح ایمان کو خالی کر دیں اور اپنے باطل و بیهودہ مقاصد حاصل کر سکیں ۔ 

  خداوند متعال مومنین کو ایسے عالم نما خیا نت کاروں کے شر سے محفوظ رکھے ۔آمین

                  ٢۔ گناہ کی تا ویل

منافق کی ایک صفت یہ هے کہ وہ ہمیشہ گناہ کی تاویل کرے گا اوراس کی تمام تر سعی یہ هو تی هے کہ اپنے باطن اور پلید نیت کو مخفی کرکے اور جھوٹی قسمیں کھا کر ،ظواہر کی آراستگی کرتے هوئے خود کو صاحبان ایمان کی صف میں شامل رکھے ۔

  اگرچہ صدر اسلام میں ایسا ممکن رہا هے لیکن ہمیشہ کے لئے باطن کو مخفی نہیں رکھا جاسکتا چونکہ ان سے بعض اوقات ایسے افعال و اعمال صادر هو جاتے ہیں کہ جس کی وجہ سے مومنین ان کے ایمان میں شک کرنے لگ جا تے ہیں لہذا منافقین اس لئے کہ مومنین کی نظروں سے نہ گر جائیں ،نیز مومنین کا اعتماد ان سے سلب نہ هو جائے اپنے کردار اور برے افعال کی عام پسند توجیہ کرنے لگتے ہیں جیسا کہ اصلاح الرسوم کا مولف مومنین پر بدعت جیسے عظیم گناہ کی تہمت کا مرتکب هونے کے بعد اس کی توجیہ کرتا پھر رہا هے اس خائن نے شھا دت ثالثہ کو اپنی  مذکورہ کتاب نیزدقائق الاسلام رسالے کے اندر بدعت لکھنے کے بعد جب دیکھا کہ لوگو ں کی نظروں میں گر رہا هوں تو اس کی توجیہ کرنا شروع کر دی اور جب ٢٠٠٨ء میں مولانا غضنفرحیدری کے عزیز سلیم صاحب نے اپنی خوشامد کا اظہارکرنے کی خاظر اسے ناشتہ کی دعوت دی تو چونکہ وہاں پہ چند ایک طلاب کرام بھی موجود تھے لہذا جیسے ہی کسی نے سوال کیا تو فوراتوجیہ کر دی کہ میرا مقصد یہ نہیں تھا تاکہ کہیں اپنے ہی چاہنے والو ں میں مقام نہ گر جائے اس لئے کہ کون مومن هے جو ایسی خرافات کو قبول کرے ۔خدا وند متعال ایسے افراد کے بارے میں فرماتا هے

  ((   فکیف اذا اصابتھم مصیبة بما قدمت ایدیھم ثم جائوک یحلفون باللہ ان اردنا الا احسانا وتوفیقا اولئک الذین یعلم اللہ ما فی قلوبھم فاعرض عنھم و عظھم وقل لھم فی انفسھم قولا بلیغا ))  ( سورہ نساء ٦٢و٦٣.)

ترجمہپس اس وقت کیا هو گا جب ان پر ان کے اعمال کی بنا ء پرمصیبت نازل هو گی وہ آپ کے پاس آکر خدا کی قسم کھائیں گے کہ ہمارا مقصد صرف نیکی کرنا اور اتحاد پیدا کرنا تھا یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل کا حال خدا خوب جانتا هے لہذا آپ ان سے کنارہ کش رہیں انھیں نصیحت کریں اور ان کے دل پر اثر کرنے والی موقع و محل سے مربوط بات کریں ۔

  بہر حال گناہ کی توجیہ وتاویل خود ایک عظیم گناہ هے جس کے منافق مرتکب هوتے ہی رہتے ہیں بسااوقات ممکن هے سیدھے سادے اور زود باور مومنین کو فریب دیدیں لیکن وہ اس سے غافل ہیں کہ خدا ہراس شے سے جو وہ اپنے دل کے اندر رکھے هوئے ہیں آگاہ هے ان کو اس دنیا میں ذلیل و رسوا کرے گا اور آخرت میں دوزخ کے عذاب سے ان کا استقبال کیا جائے گا ۔

              ٣۔صاحبان غیرت دینی کی توہین  

  منافقین کی ایک صفت یہ بھی هے کہ وہ ہمیشہ صاحبان غیرت دینی کی توہین کرتے دکھائی دیتے ہیں حضرت نوح کے دشمن ان کے پیروکاروں کو حقیر ،پست اور کوتاہ فکر سمجھتے تھے تحقیر و سفاہت کی یہ تہمت انبیاء علیھم السلام کے ماننے والوں تک محدود نہیں بلکہ خود انبیاء حضرات بھی دشمنوں کی طرف سے سفاہت کی تہمت کا شکار هونے سے نہ بچ سکے ۔

  انبیاء و صاحبان ایمان کے دشمنوں میں سے بعض دشمن منافق ہیںجو دونوں رو ش کا استعمال کرتے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی تحقیر کرتے ہیں اور مومنین کی بھی ، منافقین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سادہ لوح اور خوش خیال کہتے تھے اور مومنین کو سفہاء شمار کرتے ،جیسا کہ سورہ توبہ آیت نمبر ٦١میں بیان فرمایا۔

  لیکن چونکہ منافقین دین وایمان کا اظہار کرتے تھے لہذا پیغمبر اکرم (ص) کی نبوت پرزیادہ اعتراضات وتکذیب کی جرات نہیں رکھتے تھے بلکہ آنحضرتۖ کی رفتار و گفتار اور اخلاقی صفات میں عیب جوئی کیا کرتے تھے جیسا کہ آج کے منافقین    کی بھی یہی روش هے کہ کبھی رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اعتراض کررهے تو کبھی امام زین العا بدین علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتے هوئے نظر آتے ہیں ۔(  اصلاح الرسوم ١٨٨اور٢٣٧  .)

  اور پھر ان کی تعلیمات کو باقی رکھنے والے مجتھدین کرام آیت اللہ العظمی حافظ بشیر حسین نجفی حفظہ اللہ اورمولانا افتخار حسین نقوی مد ظلہ العالی جو ٢٢ کے قریب دینی اداروں کی سر پرستی کر رهے ہیں اور اسی طرح شھید اثیرجاڑوی جس نے اسلام و مذہب کی بقاء کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ،وہ بھی منا فقین زمانہ ڈھکو اور اس کے احمق طرفدارطاہر اعوان کی گستاخ زبان سے محفوظ نہ رہ سکے ۔(مرد علم میدان عمل میں        ؛ ماہنامہ دقائق الاسلام مارچ ٢٠٠٧ئ)             

  مجتھدین کرام اورعلمائے اسلام کی تحقیر وتوہین کرنے سے ان کا اساسی ہدف ان کے مقام واحترام کو سست کرتے هوئے دینی فرائض کے انجام دینے کی حساسیت واشتیاق کومومنین سے سلب کرکے دین و مذہب کا چہرہ مسخ کرنا هے جو درحقیقت اسلام کے دشمنوں کی مدد کرنا هے جیسا کہ اس بات کا اعتراف ڈاکٹر مائیکل برا نٹ نے بھی کیا هے ۔

          ٤۔اہل ایمان واصلاح هونے کی تشہیر کرنا

منافقین ہمیشہ معاشرے میں بظاہر ایمان ا ور اصلاح کا نعرہ بلند کرتے هوئے قد علم کرتے ہیں دین ومذہب سے معرکہ آرائی کی صریح گفتگو نہیں کرتے ، اسی طرح کبھی بھی فساد کا دعوی نہیں کرتے بلکہ شدت سے اس کا انکار کرتے هوئے خود کو اصلاح کی دعوت دینے والا اور دینداری کا علمبردار پیش کرتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید نے ان کی اس روش کی عکاسی کرتے هوئے فرمایا

 ((واذا قیل لھم لا تفسدوا فی الارض قالوا انّما نحن مصلحون))                   

ترجمہ جب ان سے کہا جاتا هے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو توکہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں ۔(سورہ بقرہ  ١١.)

  منافقین اس طرح خوبصورت اور دلچسپ انداز میں گفتگو کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمۖ کے لئے بھی تعجب خیز هوتا تھا پیغمبر اکرمۖ اگرچہ بعض منافقین کو پہچانتے بھی تھے لیکن اس کے باوجود دیکھتے کہ و ہ اچھائی اور بہتری کا نعرہ لگاتے ،دل موہ لینے والی گفتگو کرتے اور ان کی گفتگو میں خیر و اصلاح کی نمائش بھی هوتی۔ ظاہر کا آراستہ هو نا اور اچھے اچھے نعرے لگانا منافقین کی خصوصیات میں سے هے منافقین پلید افعالانجام دینے کے لئے ایمان و اصلاح کے نعرے لگاتے ہیں جبکہ خود اس پر عمل نہیں کرتے ، جیسا کہ اصلاح کا نعرہ لگانے والا محمد حسین ڈھکواپنی کتاب اصلاح الرسوم کے صفحہ نمبر ٢٦٥ پر لکھتا هے 

قل خوانی ، تیجہ ،دسویں ، چالیسواں ،چھ ماہی ، برسی  دین اسلام میں اس کے سوا کچھ اور نہیں هے کہ مرنے والے کا تین دن سوگ منایا جائے اور تیسرے دن صف ماتم اٹھا لی جائے ۔ اللہ اللہ خیر سلا ۔ یہ قل خوانی اسی طرح قل خوانی کے بعد دسواں ، دسویں کے بعد بیسواں اور سب کے آخر میں چالیسواں اور بعد ازاں چھ ماہی پھر سال کے بعد برسی اور اس موقع پر کھانے کی بہتات ، ہم نے پوری دیانتداری کے ساتھ پورے گلشن شریعت کی سیر کی هے ۔۔۔ہمیں رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی چیز نہیں ملی !پھر یہ رسم کہاںسے آئیْ؟ کس طرح جاری هوئی ؟ اس کا پس منظر کیا هے ؟ کچھ بھی تو نہیں معلوم ۔۔۔   ۔۔۔۔ لہذا ان رسموں کو ختم کرنا جملہ اہل ایمان کا مذہبی فریضہ هے۔.

  یہاں پر آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ یہ وہی شخص هے جو خود قل خوانی ، چالیسویں اور برسی کی رسو مات میں فقط شرکت ہی نہیں کرتا بلکہ ان رسومات میں منعقد هونے والی مجالس سے خطاب بھی کرتاهے اب آپ خود فیصلہ کریں کہ ایساشخص مجتھد تو دور کی بات مومن کہلوانے کا بھی حق دار نہیں هے اس لئے کہ قرآن مجید اور آئمہ اطہار کے فرامین کی واضح طور پر نافرمانی کر رہا هے خدا وند متعال فرماتا هے

       ((لم تقولون ما لا تفعلون ))

        ٥۔ خودی کا اظہار

منافقین کو اپنے تخریبی اقدامات جاری رکھنے کے لئے ہر چیز سے اشدمومنین کے اعتماد و اعتبار کی ضرورت هوتی هے تاکہ مومنین انہیں اپنوں میں سے تصور کریں اور ان کی اپنائیت میں شک سے کام نہ لیں ،یوں ان کے منحرف عقائد معاشرے میں اثر گذار هو سکیں اور ان کے منحوس مقاصد کی تکمیل هو سکے ۔

  ان کی تمام تر سعی و کوشش یہ هوتی هے کہ خود کو معاشرے میں اپنائیت کی جلوہ نمائی کرائیں ، اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ان کے باطن کا افشا ء هو جائے اور ان کے اسرار آشکار هو گئے تو کوئی مومن بھی ان کی باتوں کو قبول نہیں کرے گا اور یوں ان کی سازشیں جلد ہی ناکام هو جائیں گی اور وہ مذہب کے خلاف اپنی تبلیغی سرگرمیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔کسی بھی مذہب کے لئے یہ بہت عظیم خطرہ هے کہ اس کے پیروکار اس مذہب کی بنیادوں کو نابود کرنے والوں کو اپنوں میں شمار کرنے لگیں اور انہیں معاشرہ میں مقام دیا جانے لگے ۔ کوئی بھی دینی حادثہ اس وقت پیش آتا هے جب مومنین منافقین کی روش سے آشنائی نہ رکھتے هوں اور ان کو اپنا دوست تصور کرتے هوں ۔ 

  منافقین خودی کے اظہار کے لئے مختلف طریقوں سے استفادہ کرتے ہیں کبھی جھوٹ وریا کا ری اور کبھی جھوٹے عہد و پیمان کرکے طرف مقابل کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتے ہیں منافقین کی ظاہر سازی کچھ اس نوعیت کی هوتی هے کہ خودپیغمبرۖ کے لئے بھی باعث تعجب هوتی تھی

((واذا رایتھم  تعجبک اجسامھم ان یقولو ا تسمع لقولھم )) 

ترجمہاور جب آپ انہیں دیکھیں گے تو ان کے جسم بہت اچھے لگیں گے اور بات کریں گے تو آپ سننے لگیں گے ۔ (سورہ منافقون ٢.)

  امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے ہم عصر بعض منافقین ظاہر میں عباد وزہاد دہر تھے نماز شب ، قرآن کی تلاوت ، طولانی ترین سجدے ترک نہیں هوتے تھے ان کی ظاہر سازی سے اکثر مومنین فریب کا شکار هوجاتے تھے بہت کم ہی تھے جو ان کے دین و ایمان میں شک رکھتے هوں ۔

  لیکن بسااوقات ان سے عادتا ایسی خطائیں سر زد هو جاتی ہیں کہ جن کی کوئی توجیہ و تاویل ممکن نہیں هوتی جیسے ٢٠٠٤ء میں مدرسہ امام علی علیہ السلام قم المقدسہ میں ڈھکو کے خطاب کے بعد دوسروں کی خاطر اپنی دنیا خراب کرنے والے ملک اشرف نے اعلان کیا کہ جن سوالوں کے جواب نہیں دیئے گئے کل مولانا محمد حسین ڈھکو ان سوالوں کے جواب دینے کے لئے ظہیر شیرازی کے گھر پر موجود هوں گے جبکہ دوسرے دن اپنی منافقانہ عادت کے مطابق سارا دن گھر سے باہر رهے اور جب رات کو ساڑھے گیارے بجے واپس آئے اور ہم بھی وہیں پہ موجود تھے تو ان سے ٹائیم مانگااور کیا هوا وعدہ یاد دلایا تو کہنے لگے انهوں نے ایک بجے ایئر پور ٹ پہنچنا هے اور یوں وعدہ خلافی کر کے اپنے نفا ق کا اظہار کردیا ۔ اور پھر اس پروگرام کی سی ڈی فاتحانہ اندازمیں تقسیم کی تاکہ عمومی افکار اور مومنین کے اعتماد کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے ۔

  اور پھر٢٠٠٨ء میں جب انهوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگوں اور بعض طلاب حوزہ علمیہ قم کو فریب دے دیا تو دوبارہ محمد حسین ڈھکو کو دعوت دی تا کہ پہلے کی طرح دوبارہ دھوکہ دے کر سی ڈی بناکے پاکستان بھیجی جائے اور یوں مومنین کو اعتماد میں لیا جائے ، لیکن اس مرتبہ حوزہ علمیہ قم کے علماء وفضلاء نے دیکھا کہ اگر اب بھی خاموش تماشائی بنے رهے توشاید یہ مذہب سے ایک ایسی خیانت هو جس کی بخشش ممکن نہ هو لہذا سب سے پہلے حوزہ علمیہ قم جامعة المصطفی انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی میں پاکستانی طلاب کے امور کے انچارج حمید رضائی صاحب سے بات کی کہ ہم محمد حسین ڈھکو اور اس کے ہمفکر طلاب سے علمی گفتگو کا پروگرام رکھنا چاہتے ہیں اور آپ اس پروگرام کی سر پرستی کریں تو انهوں نے مشورہ دیا کہ آپ تحریک جعفریہ کے سینئر افراد سے رابطہ کریں اور ان کی سر پرستی میں یہ پروگرام هو تو بہتر رهے گا ،ہم نے اسی دن دفتر تحریک کے موجودہ انچارچ مولانا ساجد صاحب سے رابطہ کیا تو انهوں یہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا اور پھر تحریک جعفریہ شعبہ قم کے سابقہ انچارج حجة الاسلام والمسلمین سید سجاد حسین کاظمی صاحب سے رابطہ کیا جوپہلے سے ایسی گفتگو کیلئے مشورہ دے چکے تھے انهوں نے جب سنا کہ طلاب کرام قوم کے اندر ایجاد هونے والے اختلاف کو حل کرنے کے لئے محمد حسین ڈھکو سے گفتگو کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار ہیں تو حوصلہ افزائی کی اور ساتھ ہی کہا کہ پاکستان سے قائد محترم ،حافظ ریاض حسین نجفی صاحب اور محسن نجفی صاحب بھی تشریف لا رهے ہیں ان علماء کی موجودگی میں یہ پروگرام هو تو بہت ہی اچھا هے ۔

  جیسے ہی محمد حسین ڈھکو قم میں پہنچا تومولانا انیس خان صاحب نے علامہ اختر عباس صاحب اور شہید غلام حسین نجفی وکیل آل محمد کے ایصال ثواب کے لئے ایک مجلس کا اہتمام کیا اور بہت بڑے بڑے اشتہار لگائے گئے  جس پر مولانا موصوف کو مرجع تقلید کا لقب دیا گیا۔

  اس پروگرام کا مقصد سی ڈی بنا کر اپنے نجس مقا صد کو حاصل کرنے کا ذریعہ بنانا تھا تاکہ پروگرام کے آخر میں چند ایک معلوم شدہ جوابات کے متعلق سوال کر کے انہیں پاکستان بھیج کر یہ ظاہر کر سکیں کہ ہم نے علمائے قم سے علمی بحث ومباحثہ کیا هے اور انهوں نے بھی ہماری تائید کی هے جیسا کہ پہلے بھی طاہر اعوان ایسی ہی خیانت کر چکا تھاجبکہ قرآن مجید تو یہ فرما رہا هے

  ((یا ایھاالذین آمنو ااتقوااللہ و قو لوا قولا سدیدا))(١)

  جس دن شام چار بجے پروگرام کا آغاز هونا تھا تو اسی روز صبح نو بجے کچھ فضلاء کرام وہاں جا کر بیٹھ گئے جہاں پروگرام منعقد هونا تھا تاکہ ڈھکوکے چیلوں کو یہ معلوم هوجائے کہ آج طلاب کرام کو دھوکہ دینا ممکن نہیں هے اورساتھ ہی اپنے جھوٹے مجتھد کو بھی خبر دے دیں تاکہ وہ پوری تیاری کے ساتھ آئے لیکن انہیں یہ یقین تھا کہ انہیں کسی نہ کسی طرح ٹال لیں گے ،وہیں پہ ایک اشتہار لکھا گیاجس کا عکس پیش کر رهے ہیں

  جب یہ اشتہار لگانے لگے تو اب ڈھکو کے حامی سخت پریشان هوئے اورسازش کی کہ کسی طرح یہ اشتہار لگانے سے روکا جائے ، اچانک شاہد رئیس ہمارے پاس پہنچے اور بڑے نرم لہجے سے سلام کرتے هوئے کہنے لگے کیا کررهے ہیں ؟یہ کام اچھا نہیں هے ؟ آئیں میں آپ کو ڈھکو صاحب سے ٹائیم لے کر دیتاهوں اور آپ گفتگو کر لیں. سیدھے غضنفر حیدری صاحب کے گھر لے کر پہنچ گئے وہاں پہ مولانا اشتیاق کاظمی صاحب آف لیہ بھی موجود تھے جب حیدری صاحب کومعلوم هوا کہ محمد حسین ڈھکو سے گفتگو کیلئے وقت معین کرنے کے سلسلہ میں حاضر هوئے ہیں تو انهوں نے کہا ناظم بھائی میں یہاں پہ ایسی بات کی اجازت نہیں دونگا چونکہ وہ میری والدہ کی فاتحہ خوانی کے لئے آرهے ہیں ، اس وقت میں نے کہا ہم معذرت چاہتے ہیں ہمیںمعلوم نہیں تھا کہ یہ آپ کا گھر هے اور وہاں سے اٹھ کر چلے آئے ۔

  جیسے ہی مجلس سے ایک گھنٹہ باقی بچاتو انهوں نے مکاری سے کام لیتے هوئے اشتہار لگا دیا کہ مجلس کے بعد محمد حسین ڈھکو طالب علموں کے سوالوں کے جواب دیں گے جو چاهے آکر سوال کر کے تسلی بخش جواب لے سکتا هے یہ خود ایک دھوکہ تھا تاکہ کسی کو خبر نہ هو سکے اور ہم خود ہی سوال وجواب کر کے سی ڈی بنا لیں گے اور اگر کسی نے اعتراض کیا تو کہہ دیں گے کہ ہم نے تو اشتہار لگا د یا تھا ۔

  اب جیسے ہی مجلس شروع هونے لگی تودوستوں نے اندر داخل هونا چاہا تو انیس خان صاحب جلدی سے آگے بڑھے اورکہا ذرا بات تو سنیں .جب ان کی بات پر کسی نے توجہ نہ کی تو انیس خان اور طاہر اعوان وغیرہ میرے پاس پہنچے کہ آپ ان سے کہیں کہ وہ مجلس میں نہ آئیں ہمارا پروگرام خراب هو جائے گا ، میں نے کہا آپ نے تو اشتہار لگایا هے کہ کوئی بھی آکر سوال کر سکتا هے اور اگر دوسرے لوگوں نے سوال کیا تو ہم بھی کریں گے ورنہ خاموشی سے اٹھ کرچلے جائیں گے تو طاہر اعوان اور انیس خان نے اشتہار کا انکار کر دیا کہ ہم نے تو نہیں لگایا ہمارا تو مجلس ترحیم کا پروگرام تھا (جبکہ یہ ایک واضح جھوٹ تھا جو کسی عالم دین کو زیب نہیں دیتا اس لئے کہ جب دفتر تحریک میں اسی موضوع پر بات هوئی تو سجاد کاظمی صاحب کی موجودگی میں انهوں نے اس اشتہار کے لگانے کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔) میں نے کہا اگر آپ نے نہیں لگایا تو پھر اسے پھاڑ دیں شاید کوئی آپ کے پروگرام کو خراب کرنا چاہتا هو مگر انهوں نے اشتہا ر اتارنے سے انکار کر دیا ، اب مجلس هوگئی اور آخر میںجھوٹ بولنے کے ماہر ملک اشرف نے منبر امام حسین علیہ السلام پر کھڑے هو کر کہ آج سوال و جواب کا پروگرام نہیں هو گا اور اتوار کے دن پورے دس بجے ڈھکو صاحب آپ کے سوالوں کے جواب دینے کے لئے فلاں ہاسٹل میں موجود رہیں گے ،یہ بظاہر تو ایک اعلان تھا لیکن حقیقت میں جھوٹ اور ریا کاری کا حربہ اپنا کر خودی کا اظہار کرنا تھا اس لئے کہ مقررہ وقت پر جب طلاب محترم کا ایک کارواں سوال و جواب کے لئے پہنچا تو کیا دیکھا نہ تو ڈھکو هے اور نہ ہی اس کی خاطر اپنی آخرت خراب کرنے والے ملک اشرف وغیرہ وہاں پہ موجود ہیں ۔

  ادھر جب حوزہ علمیہ کے بزرگان کو خبر ملی تو انهوں نے بندہ حقیر سے رابطہ کیا تو ہم نے انہیں ڈھکو کے منحرف عقائد سے آگاہ کیا اور اختلاف کے حل کے لئے علمی گفتگو کا راستہ دکھایا اور اس بات کا بھی اظہار کیا کہ اگر مولانا محمد حسین ڈھکو اپنے عقائد کی صحیح دلیل پیش کرتے ہیں جس کی مراجع عظام تائید کر دیںتو ہمارے اوپر واجب هے کہ ان کا احترام بھی کریں اور اس کے بعد پاکستان میں ان کی حمایت بھی کریں ۔

  اب ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جوڈھکو سے رابطہ کرکے گفتگوکا وقت طے کرسکے ، دو دن بعد انهوں نے ہمیں جا معة المصطفی العالمیة میں بلوایا اورپاکستانی طلاب کے امور کے انچارج جناب حمید رضائی اور ان کے سینیئر افسر جناب مھدی نژاد صاحب نے میٹنگ میں شرکت کی ، وہاں پہ جناب مھدی نژاد صاحب نے معذرت خواہی کی کہ ہم کامیاب نہیں هو سکے اس لئے کہ محمد حسین ڈھکو کے سیکرٹری ظہیر شیرازی نے کل پورا دن اپنا موبائل اور گھر کا نمبر بند رکھا اور جب ان کو تلاش کر کے بات کی تو انهوں نے گفتگو کرنے سے انکار کر دیا ،وہاں پہ انهوں نے اس جملہ کا بھی اضافہ فرمایا

   ((دیگہ ما فھمیدیم کہ ایشون مشکل دارد ))

یعنی ہمیں اس بات کا علم هو گیا هے کہ اس بندے میں کوئی مشکل هے ۔

 اور ساتھ ہی اس مسئلہ کی تحقیق کا حکم دیا جس کے نتیجہ میںاسے دعوت کرنے والوں نے خود اسکے منحرف العقیدہ هونے کا اقرار کیا اور یوں ہمیشہ کی ذلت کا منہ دیکھنا پڑا ،یہ ایک حقیقت هے کہ جو کوئی بھی دین خدا کو ذلیل کرنے کی کوشش کرتا هے خدا خود اسے ذلیل و رسوا کر دیتا هے لیکن منافق ذلت و رسوائی کے بعد بھی اپنے نجس مقاصد کو حاصل کرنے اور خودی کا اظہار کرنے سے باز نہیںآتے جیسا کہ ڈھکو نے اس ذلت و رسوائی کے باوجود ایک بند کمرے میں بیٹھ کر سی ڈی بنا کر عوام کو فریب دینے کی کوشش کی هے۔   فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضا۔          

         علمائے کرام کی ذمہ داری                         

منافقین کے چہروں کا تعارف نیز ان کے اعمال وافعال کا افشاکرناعلماء کرام کی ذمہ داری بنتی هے تا کہ مومنین کرام ان کے فریب و خیانت سے بچتے هوئے اپنے ایمان کی حفاظت کر سکیں ،امیرالمومنین علیہ السلام بیت المال کے خیانت کاروں سے قاطعانہ سلوک کرتے آپ کے دور حکومت میں یہ مسئلہ بطور کامل مشھود هے تو جب مال میں خیانت کرنے والوں سے قاطعانہ برتائو کا حکم دیا گیا هے تو پھر دین میں خیانت کرنے والوں کا انجام تو ان سے بھی برا هونا چاہیے۔

  اگر منافقین کے گناہ وعیوب فردی هوں تو ان سے چشم پوشی کرناچا ہئے لیکن اگر ان کی سر گرمیاں اسلام و مذہب کے خلاف هوں تو ایسی صورت میں ان کی حرکات وسکنات کو فاش کرنا چاہئے ان کے افراد و ارکان کا تعارف کرانا چاہئے تاکہ وہ علماء کی خاموشی سے سوء استفادہ کرتے هوئے عوام کو گمراہ کرنے میں کامیاب نہ هونے پائیں ، قرآن مجید نے تین سو آیات کے ذریعہ منافقین کی افشا گری کرتے هوئے ان کی غلط سرگرمیوں کی نشاندہی فرمائی هے اگرآج علماء اپنی ذمہ داری نبھاتے هوئے اس قرآنی روش کو اپناتے ہیں تو یقینا اس سے کئی ایک فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں جن میں سے چند ایک کو ہم یہاں پر بطور نمونہ ذکر کر رهے ہیں

 ١۔مذہب میں خیانت کرنے والوں کی خیانت کا شکار هونے والے افراد خواب غفلت سے بیدار هو کر حق کے دامن میں واپس پلٹ آئیں گے ۔

 ٢۔ وہ افراد جو ان خیانت کاروں سے آشنائی نہیں رکھتے وہ هوشیارهو جائیں گے اور ان کے خلاف موقف اختیار کریں گے جس کی بنا ء پر منافق گرو ہ کے افراد کنارہ کش اور خلوت نشین هو جائیں گے ۔

 ٣۔ ان کی خیانت کے فاش هونے سے ان کی مالی پوزیشن خطرے میںپڑ جائے گی جس سے ان کی مذہب مخا لف سرگرمیوں میں خود بخود کمی آجائے گی۔  

 سورہ مائدہ میں خداوند متعال نے منافقین کا تذکرہ کرتے هوئے فرمای           

 لولا ینھٰھم الربانیون وألاحبار عن قولھم الأثم اکلھم السحت لبئس ماکانوا یصنعون ۔( سورہ مائدہ    ٦٣.)            

ترجمہ آخر انہیں اللہ والے اور علماء ان کے جھوٹ بولنے اور حرام کھانے سے کیوں    نہیں منع کرتے ، یہ یقینا بہت برا کر رهے ہیں ۔

  یہ آیت کریمہ اس حقیقت کا کھلا هوا اعلان هے کہ پرور دگا ر عالم کی نگاہ میں صرف گناہگار ہی مجرم نہیں هوتے بلکہ ان گناهوں پر خاموش رہ جانے والے اور انہیں منع نہ کرنے والے افراد بھی مجرم شمار کیے جاتے ہیں چاهے ان کا تعلق اللہ والے مقدسین سے هو یا اہل علم و فضل سے ۔ اسلام نہ ایسے مقدسین کو پسند کرتا هے اور نہ ایسے اہل علم کو جو برائیوں کو دیکھتے رہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر خامو ش رہ جائیں اور کسی طرح کا اقدام نہ کریں. ( استفادہ از حاشیہ قرآن مجید، علامہ ذیشان حیدر جوادی.)

فصل چہارم

بدعت کا بیان

بدعت کی تعریف کے بارے میں جو نظریہ مولانا محمد حسین ڈھکو نے بیان کیا هے اس کے متعلق نہایت حسن ظن سے کام لیتے هوئے یہی کہا جا سکتا هے کہ اس نے بدعت کے صحیح مفهوم کو نہیںسمجھا جس کی وجہ سے ہر وہ عمل یا قول جو اسے اپنی فکر کے مخالف نظر آیا اسے بد بینی کی عینک سے دیکھتے هوئے بدعت قرار دے دیا ، لہذا ہم سب سے پہلے بدعت کے لغوی معنی کو بیان کررهے ہیں اور پھراس کے بعد قرآن وسنت کی رو سے بدعت کے بارے میں تحقیق کریں گے اور آخرمیں فقہاء کی نظر میں بدعت کو بیان کریں گے تا کہ یہ واضح هو سکے کہ مولانا ڈھکو کی بیان کردہ تعریف کس قدر قرآن و سنت  اور علماء وفقہائے اسلام کے نظریہ سے سازگار هے ۔

بدعت کالغوی معنیٰ

 جوہری لکھتے ہیں ''انشاء الشیء لا علی مثال السابق ، واختراعہ وابتکارہ بعد ان لم یکن ...''.

(الصحاح ٣ ١١٣؛ لسان العرب ٨٦؛ کتاب العین ٢٥٤).

بدعت کا معنی ایک بے سابقہ چیز کا اختراع کرنا هے جس کا نمونہ پہلے موجود نہ هو ۔.

  یقینا آیات و روایات میں بدعت کے اس معنی کو حرام قرارنہیںدیا گیا اس لئے کہ اسلام انسانی زندگی میں نئی ایجادات کا مخالف نہیں هے بلکہ انسانی فطرت کی تائید کرتا هے جو ہمیشہ انسان کو اس کی انفرادی واجتماعی زندگی میں نئی ایجادات کی راہنمائی کرتی هے۔

 بدعت کا شرعی معنیٰ   

  دین میں بدعت کے جس معنی کے بارے میںبحث کی جاتی هے وہ دین میں کسی شے کو دین سمجھ کر کم یا زیادہ کرنا هے اور یہ معنیٰ اس لغوی معنیٰ سے بالکل جدا هے جسے بیان کیا گیا۔           

 راغب اصفہانی لکھتے ہیں ''والبدعة فی المذہبایراد قول لم یستند قائلھا وفاعلھا فیہابصاحب الشریعة واماثلھا المتقدمة واصولھا المتقنة.(مفردات الفاظ القرآن ٣٩ .)

دین میں بدعت ہر وہ قول و فعل هے جسے صاحب شریعت نے بیان نہ کیا هو اور شریعت کے محکم و متشابہ اصول سے بھی نہ لیا گیا هو ۔

ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں ''والمحدثات بفتح الدال جمع محدثة ،والمراد بھا  ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع ویسمیہ فی عرف الشرع بدعة ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعة ''( فتح الباری ١٣  ٢١٢ . )

  ہر وہ نئی چیز جس کی دین میںاصل موجود نہ هو اسے شریعت میں بدعت کہا جاتا هے اور ہر وہ چیز جس کی اصل پر کوئی شرعی دلیل موجود هو اسے بدعت نہیں کہا جائے گا ۔ یہی تعریف عینی نے صحیح بخاری کی شرح (عمدة القاری ٢٥ ٢٧. )،مبارکپوری نے صحیح ترمذی کی شرح (تحفة الأحوذی ٧ ٣٦٦ .) ، عظیم آبادی نے سنن ابی داؤد کی شرح (عون المعبود ١٢ ٢٣٥.) اور ابن رجب حنبلی نے جامع العلوم میں ذکر کی هے۔(جامع العلوم والحکم  ١٦٠ ، طبع ہندوستان.)

 بدعت کے ارکان    

گذشتہ مطالب کی بناء پر بدعت کے دو رکن ہیں

١۔ دین میں تصرف کرنا

 دین میں کسی بھی قسم کا تصرف چاهے وہ اس میں کسی چیز کے زیادہ کرنے سے هو یا اس میں سے کسی چیز کے کم کرنے سے مگر اس شرط کے ساتھ کہ تصرف کرنے والا اپنے اس عمل کو خدا یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف نسبت دے۔

  لیکن انسانی طبیعت کے تنوع کی خاطر نئی ایجادات جیسے فٹ بال ، والی بال ، باسکٹ بال   وغیرہ بدعت نہیں کہلائیں گے ۔

 ٢۔ کتاب میں اس کی اصل کا نہ هونا

بدعت کی اصطلاحی و شرعی تعریف کو مد نظر رکھتے هوئے نئی ایجادات اس صورت میں بدعت قرار پائیں گی جب منابع اسلامی میں ان کے بارے میںکوئی دلیل خاص یا عام موجود نہ هو ۔

جب کہ ایسی نئی ایجادات جن کی مشروعیت کو بطور خاص یا عام قرآن و سنت سے استنباط کرنا ممکن هو انھیں بدعت کا نام نہیںدیا جائے گا جیسے اسلامی ممالک کی افواج کوجدید اسلحہ سے لیس کرنا کہ جس کے جواز پر بعض قرآنی آیات کے عموم سے استنباط کیا جا سکتا هے جیسا کہ یہ فرمان خداوند

(وََعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اﷲِ وَعَدُوَّکُمْ...)(  سورہ انفال  ٦٠. )

ترجمہ  اور ( مسلمانو!) ان کفار کے ( مقابلہ کے ) واسطے جہاں تک تم سے هوسکے ( اپنے بازو کے ) زور سے اور بندھے هوئے گھوڑوں سے ( لڑائی کا ) سامان مہیا کرو اس سے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن پر دھاک بٹھا لو گے ۔

اس آیت شریفہ میں (وََعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ )جہاں تک هو سکے اپنی طاقت مہیا کرو ۔کے حکم عام سے اسلامی افواج کو جدید ترین اسلحہ سے مسلح کرنے کا جواز ملتا هے ۔(وہابیت ، مبانی فکری وکارنامۂ عملی ٨٣، تالیف آیت اللہ سبحانی ، خلاصہ کے ساتھ.)                                

بدعت قرآن کی رو سے

١۔ قانون گذاری کا حق فقط خدا ہی کو هے

قرآن کی رو سے تشریع اور قانون گذاری کا حق فقط اور فقط خدا وندمتعال کو هے اور کوئی دوسرا اس کے اذن کے بغیر قانون وضع کر کے اس کے اجراء کرنے کا حکم نہیں دے سکتا ۔

(اِنْ الْحُکْمُ ِلاَّ لِلَّہِ َمَرَ َلاَّ تَعْبُدُوا ِلاَّ ِیَّاہُ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ َکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ )(سورہ یوسف  ٤٠. )

ترجمہ  حکم تو بس خدا ہی کے واسطے خاص هے اس نے تو حکم دیاهے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔یہی سیدھا دین هے مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں ۔

(اَمَرَ َلاَّ تَعْبُدُوا ِلاَّ ِیَّاہُ)کے قرینہ سے پتہ چلتا هے کہ لفظ ( الحکم ) سے مراد قانون گذاری هے ۔

٢۔ انبیاء کو بھی شریعت میں تبدیلی کا حق نہیں

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا وظیفہ شریعت الٰہی کولوگوں تک پہنچا نا اور اسے اجراء کرنا هے وگرنہ احکام اسلام میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لا سکتے اور کفار کی آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے اس درخواست ۔کہ آپ اپنے دین میں تبدیلی لائیں یا ایسا قرآن لے کرآئیں جو ہماری مرضی کے مطابق هو ۔ کے جواب میں خد اوند متعال نے اپنے نبیۖ کوحکم دیا

(... قُلْ مَا یَکُونُ لِی َنْ ُبَدِّلَہُ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِی ِنْ َتَّبِعُ ِلاَّ مَا یُوحَی ِلَیَّ ِنِّی َخَافُ ِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ )( سورہ یونس  ١٥.  )

ترجمہ( اے رسول ۖ!) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں ۔ میں تو بس اسی کا پابند هوں جو میری طرف وحی کی گئی هے میں تو اگر اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو بڑے ( کٹھن کے )دن سے ڈرتاهوں ۔

٣۔ قرآن میں رہبانیت کی بدعت کی مذمت

خداوند متعال نے عیسائیوں کی رہبانیت جسے انھوں نے بندگا ن خداکی راہ پر جال کے طور پر بچھا رکھا هے اسے بدعت اور خلاف شریعت قرار دیتے هوئے سخت مذمت فرمائی هے

(...َرَہْبَانِیَّةً ابْتَدَعُوہَامَا کَتَبْنَاہَا عَلَیْہِمْ ِلاَّ ابْتِغَائَ رِضْوَانِ اﷲِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا فَآتَیْنَا الَّذِینَ آمَنُوا مِنْہُمْ َجْرَہُمْ وَکَثِیر مِنْہُمْ فَاسِقُونَ )(سورہ حدید ٢٧.)

ترجمہ  اور رہبانیت ( لذت سے کنارہ کشی ) ان لوگوں نے خو دایک نئی با ت نکالی تھی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر ( ان لوگوں نے ) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ( خو دایجاد کیا) تو اس کو بھی جیسا نبھانا چاہئے تھا نہ نبھا سکے ۔ تو جو لوگ ان میں سے ایمان لائے ان کو ہم نے اجر دیا ور ان میں بہت سے بد کار ہیں ۔ ( تفسیر نمونہ ٢٣ ٣٨٢.)

٤۔بدعت ، خدا کی ذات پر تہمت لگانا هے

خداوند متعال نے مشرکین کو دین میں بدعت ایجاد کرنے اوراسے خداکی طرف نسبت دینے کی وجہ سے سخت مذمت کرتے هوئے فرمایا

   (قُلْ َرََیْتُمْ مَا َنْزَلَ اﷲُ لَکُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْہُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ َاﷲُ َذِنَ لَکُمْ َمْ عَلَی اﷲِ تَفْتَرُونَ)(سورہ یونس  ٥٩. )

ترجمہ ( اے رسول ۖ! ) تم کہہ دو کہ تمہارا کیا خیال هے کہ خدا نے تم پر روزی نازل کی تو اب اس میں سے بعض کو حرام اور بعض کو حلال بنانے لگے ۔ (اے رسولۖ!) تم کہہ دو کہ کیا خد انے تمہیں اجازت دی هے یا تم خداپر بہتان باندھتے هو ۔

 ٥۔ بدعت ، خدا کی ذا ت پر جھوٹ باندھنا هے

ایک اور آیت شریفہ میں تاکید کرتے هوئے فرمای

(وَلاَتَقُولُوا لِمَا تَصِفُ َلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہَذَا حَلاَل وَہَذَا حَرَام لِتَفْتَرُوا عَلَی اﷲِ الْکَذِبَ ِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اﷲِ الْکَذِبَ لاَیُفْلِحُونَ )( سورہ نحل  ١١٦. )

ترجمہ  او رجھوٹ موٹ جو کچھ تمہاری زبان پرآئے ( بے سمجھے بوجھے ) نہ کہہ بیٹھا کرو کہ یہ حلال هے اور یہ حرام هے تاکہ اس کی بدولت خدا پر جھوٹ بہتان باندھنے لگو ۔ اس میں شک نہیں کہ جو لوگ خدا پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہ هوں گے ۔

 بدعت روایات کی روشنی میں

جس طرح قرآن مجید نے بدعت گذاروں کی شدید مذمت کی هے اوران کے اقوال کو حقیقت سے دور ، جھوٹ اور تہمت پرمبنی قرا ردیا هے اسی طرح شیعہ و سنی کتب کے اندر موجودہ روایات میں بھی بدعت گذارکی مذمت اور ا سے فاسق وبدکار انسان قرار دیا گیا هے ، نمونہ کے طور پر چند ایک روایات کی طرف اشارہ کر رهے ہیں

١۔ہر بدعت مردود هے

اہل سنت کی دو معتبر کتب صحیح بخاری اور صحیح مسلم میںحضرت عائشہ سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا قول نقل کیا گیا هے کہ آپۖ نے فرمای

''من احدث فی امرنا ھذا، مالیس فیہ فھو رد''.(صحیح بخاری ٣١٦٧ ؛کتاب الصلح ، باب قول الامام لا صحابہ ...؛ صحیح مسلم ٥ ١٣٢ ، کتاب الاقضیة ، باب بیان خیر الشھود..)

جو شخص ہماری لائی هوئی شریعت میں ایسی چیز کا اضافہ کرے جو اس میں نہ هو تو وہ مردود هے ۔

 نیزفرمای        ''...من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد''.(صحیح بخاری ٣ ٢٤ ،کتاب البیوع ، باب کم یجوز الخیار؛ صحیح مسلم ٥١٣٢، کتاب الاقضیة ، باب بیان خیر الشھود.)

 جو شخص ایسا عمل کرے جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ عمل مردود هے ۔

  ٢۔ہر بدعت گمراہی هے

صحیح مسلم میں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا فرمان بیان کیا گیا هے

 ''فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمّد و شرّ ا لا مور محدثا تھا وکلّ بدعة ضلالة ''.(صحیح مسلم ٣ ١١ کتاب الجمعة ، باب تخفیف الصلاة والجمعة.)

بہترین کلام ، کلام خدا هے اور بہترین ہدایت ، ہدایت پیغمبر گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) هے اور بد ترین امور بدعات ہیں جو دین میں ایجاد کی جاتی ہیں اور ہر بدعت گمراہی هے ۔

  سنن نسائی میں هے''کلّ بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار،،

ہربدعت گمراہی هے اور ہر گمراہی کا راستہ جہنم هے ۔(سنن نسائی٣ ١٨٨ ؛ جامع الصغیر سیوطی ١٢٤٣؛ صحیح ابن خزیمہ٣ ١٤٣ ؛ الدیباج علی مسلم ١ ٥.)

  ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کایہ فرمان '' کل بدعة ضلالة'' ہر بدعت گمراہی هے ۔

  منطوق و مفهوم یعنی ظاہر اور دلالت کے اعتبار سے ایک قاعدہ ٔ کلی هے اس لئے کہ اس فرمان کا مطلب یہ هے کہ جہاں بھی بدعت پائی جائے وہ گمراہی هے اور شریعت سے خارج هے اس لئے کہ پوری کی پوری شریعت ہدایت هے اس میں گمراہی کا کوئی امکان نہیں ۔

  اگر ثابت هو جائے کہ فلاں حکم بدعت هے تو منطق کے اعتبار سے یہ دو مقدمے (یہ حکم بدعت هے       اور ہر بدعت گمراہی هے ) صحیح ہیں جن کا نتیجہ یہ حکم گمراہی اور دین سے خارج هے ۔ خود بخود ثابت هو جائے گا ۔

    اورا س جملہ ''کل بدعة ضلالة '' سے آنحضرتۖ  کی مراد ہر وہ نیا کام هے جس پر شریعت میں کوئی دلیل خاص یا عام موجود نہ هو ۔(کل بدعة ضلالہ ،قاعدة شرعیہ کلیة بمنطوقھاومفھومھااما منطوقھا فکان یقال حکم کذابدعة وکل بدعةضلالة فلاتکون من الشرع لان الشرع کلہ ھدی فان ثبت ان الحکم المذکوربدعة صحت المقدماتانتجتاالمطلوب والمرادبقولہ ،................کلّ بدعة ضلالة ، مااحدث ولادلیل لہ من الشرع بطریق خاص ولاعام ، فتح الباری ١٣٢١٢.)

٣۔ بدعت گزار کے ساتھ ہم نشینی کی ممانعت

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں

''لا تصبحوا اہل البدع ولاتجالسوھم فتصیروا عند الناس کواحد منھم ، قال رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )  المرء علی دین خلیلہ وقرینہ''(اصول کافی ٢ ٣٧٥ ٣، باب مجالسة اہل المعاصی)

بدعت گزار وں کے ساتھ مت اٹھو بیٹھو کہ کہیں تمہیں بھی لوگ انھیں میں شمار نہ کرنے لگیں چونکہ انسان اپنے دوست کا ہم مذہب هوتا هے ۔

٤۔ اہل بدعت سے بیزاری واجب هے

امام جعفر صادق علیہ السلام نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا هے کہ آپ ۖ نے فرمایا

''واذا رأیتم اہل الریب والبدع من بعدی فاظھروا البراء ة منھم واکثروا من سبھم والقول فیھم والوقیعة..''(اصول کافی ٢ ٤٣٧٥، باب مجالسة اہل المعاصی .)

   اگر میرے بعد اہل شک اور بدعت گزاروں کو دیکھو تو ان سے بیزاری ونفرت کا اظہار کرو ،ان پر سب وشتم اور ان کی برائی کو بیان کرو ( تاکہ معاشرے میں ان کا مقام گر جائے اور ان کی بات کی اہمیت نہ رهے .)

 ٥۔بدعت گذار کا احترام ، دین کی نابودی

 امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں

  ''من تبسم فی وجہ مبتدع فقد اعان علی ھدم دینہ ''( بحار الانوار٤٧ ٢١٧،مناقب ابن شہر آشوب ٣ ٣٧٥ ؛ مستدرک الوسائل ١٢ ٣٢٢)

جو شخص بدعت گذار کے سامنے اظہار تبسم کرے اس نے دین کی نابودی میں اس کی مدد کی هے .

نیز فرمای٫٫من مشیٰ الی صاحب بدعة فوقرہ فقد مشی فی ھدم الاسلام،،. (محاسن برقی ١ ٢٠٨؛ثواب الأعمال ٢٥٨؛من لا یحضرہ  الفقیہ ٣٥٧٢؛بحار الأنوار٢٣٠٤. )

جو شخص بدعت گذار کی ہمراہی اور ا س کا احترام کرے درحققیت اس نے دین اسلام کی نابودی کی طرف ایک قدم بڑھایا۔

٦۔ بدعت کا مقابلہ کرنے کاحکم

   مرحوم کلینی (رحمة اللہ علیہ )نے محمد بن جمهور کے واسطے سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے  نقل کیا هے کہ آنحضرتۖ نے فرمایا

''اذا ظھرت البدع فی امتی فلیظھر العالم علمہ ، فمن لم یفعل فعلیہ لعنة اللہ ''۔(اصول کافی ١ ٥٤ ، باب البدع ، ح ٢.)

'' جب میری امت میں بدعات ظاہر هونے لگیں تو علماء پر واجب هے کہ وہ اپنے علم کا اظہار کریں ( اور اس بدعت کا راستہ روکیں ) پس جو ایسا نہ کرے اس پر خدا کی لعنت هے ۔

         بدعت کے بارے میں ڈھکوکا نظریہ

 اس نے بدعت کی تعریف میں آئمہ معصومین علیہم السلام اور علماء کرام کے اقوال کو نقل کرنے کے بعد نتیجہ کے طور پر لکھا هے                                              

 حضرت رسولخدا ۖاور حضرت علی المرتضی کے ان ارشادات اور ان علماء اعلام کے کلام سے جہاں بدعت کی مذمت واضح هوتی هے وہاں بدعت کی ماہیت و حقیقت بھی منکشف هو جاتی هے کہ ہر عقیدہ ، ہر نظریہ ، ہر عبادت ،ہر عادت ،ہر معاملہ اور ہر رسم اور ہر رواج جس کی صحت اور جواز پر شارع علیہ السلام کا کوئی خصوصی یا عمومی مستند فرمان موجود نہ هو اور نہ ہی خالق دو جہان کے قرآن میں اس کے جواز پر کوئی نص موجود هو اسے بدعت کہاجاتا هے ۔                                     

... انہی حقائق کی بناء پر بعض محقق علماء نے بدعت کی تعریف بایں الفاظ کی هے

ادخال ما لیس من الدین فی الدین

  یعنی٫٫ ہر وہ چیز جو دین میں داخل نہ هو اسے دین میں داخل کرنا،،

 اورجن علماء نے اس مذکورہ بالا تعریف کے ساتھ یہ پیوند لگایا هے کہبقصد انہ من الدین یعنی جو چیز دین میں داخل نہ هو اسے دین (جزء سمجھ کر ) دین میں داخل کرنا ۔

 ہماراخیال هے یہ اضافی قید در اصل بدعت کو مشرف باسلام کرنیکی ناکام کوشش هے ورنہ ظاہر هے کہ اگر کوئی شخص نماز صبح دو رکعت کی بجائے تین رکعت پڑھے یا ہر رکعت میں دو دو رکوع بجا لائے تو یہ بہر حال بدعت هو گی اور عبادت کے بطلان کا باعث هو گی ، جزء عبادت سمجھ کر بجا لائے یا اس کے بغیر ۔ بلکہ حقیقت یہ هے کہ ٫٫ادخال ما لیس من الدین فی الدین بای قصد کان،،کا نام بدعت هے اور وہ بہر حال حرام هے خواہ وہ کوئی ورد هو یا وظیفہ ،کوئی عمل هو یا کوئی عبادت ۔(اصلاح الرسوم١٤و١٥. )( مولانا صاحب کے اس قول کے مطابق تو اگر کوئی شخص ہر روز قرآن مجید کا ایک پارہ پڑھنے یا ہر روز درود شریف کی ایک تسبیح پڑھنے کی عادت بنا لیتا هے یا ہمیشہ  عبا و قبا اور عمامہ کے ساتھ مجلس  پڑھتا هے تو بدعتی اور دین سے خارج هے ۔جس کا ارتکاب وہ خود بھی کرتے رہتے ہیں اب نہیں معلوم کہ اب تک دین کے دائرہ میں موجود ہیں یا نکل چکے ہیں اس کا فیصلہ تو ہر انسان خود ہی کر سکتا هے ۔ )

 بدعت  کے بارے میں ڈھکو کے نظریے کی رد   

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس نے بدعت کی تعریف میں کہاهے کہ کسی طرح کا نیا عمل ، قول یا رسم و رواج بدعت هو گا چاهے اس کا انجام دینے والا اپنے اس عمل کو شریعت کی طرف نسبت دے یا نہ دے ، اس کے شر یعت کی جانب سے هونے ارادہ کرے یا نہ کرے ۔

    ذیل میں ہم بدعت کے بارے میں فقہاء کے اقوال نقل کر رهے ہیںجس سے خود قارئین محترم مولاناڈھکو کے علمی مقام کا اندازہ لگا لیں گے اور یہ سمجھ لیں گے کہ ہمیشہ سے علمی مراکز اور علماء ومراجع کرام کی طرف رجوع کرنے کا غل غپاڑہ مچانے والا اب خود کیوں علماء و فقہاء کی مخالفت پر اتر آیا هے...! 

         بدعت علماء کی نظر میں

 ١۔ سید مرتضی  شیعہ متکلم و فقیہ نامور سید مرتضیٰ بدعت کی تعریف میں لکھتے ہیں

  ''البدعة زیادة  فی الدین أو نقصان منہ ،من اسناد الی الدین''(رسائل شریف مرتضی  ٢٢٦٤، ناشر دارالقرآن الکریم ،قم .)

  بدعت ،دین میں کسی چیز کا دین کی طرف نسبت دیتے هوئے کم یا زیادہ کرناهے ۔

 ٢۔ طریحی طریحی کہتے ہیں

''البدعة الحدث فی الدین ، ومالیس لہ اصل فی کتاب ولا سنة ، وانما سمیت بدعة؛ لان قائلھا ابتدعھا ھو نفسہ''

بدعت، دین میں ایسا نیا کام هے جس کی قرآن و سنت میں اصل موجود نہ هو اور اسے بدعت کا نام اسلئے دیا گیا هے کہ بدعت گذار اسے اپنے پاس سے اختراع کرتا هے ۔

 ٣۔ فاضل اردبیلی ریاض السالکین میں فاضل اردبیلی سے نقل کیا گیا هے کہ انهوں نے اپنی کتاب منھاج البراعة فی شرح نہج البلاغہ جلد ٣صفحہ ٢٥٢ پر لکھا هے

  ٫٫بدعت ایسا عمل هے جسے بغیر دلیل کے شریعت کی طرف نسبت دی جائے ،،

  (  ریاض السالکین٢٢٦٣.)

٤۔ سید محسن امینیہ وہی شخصیت ہیں جنہیں مولانا موصوف نے اپنی کتاب اصول الشریعة کے صفحہ نمبر ٣٧٩پر مجاہد کبیر اور علاّمہ سے تعبیر کیا هے۔وہ  بدعت کی تعریف میںفرماتے ہیں 

دین میں ایسی چیز کا داخل کرنا جو اس کا جزء نہ هو ، بدعت شمار هو گا جیسے مباح کو حرام یا حرام کو مباح اور واجب کو حرام یاحرام کوواجب ،یا مستحب کو واجب اور واجب کو مستحب قرار دینا ۔(کشف الارتیاب ١٤٣؛ البدعة مفھومھا حدھا و آثارھا ٣٠.)

 ٥۔ سید علی طباطبائی   انهوں نے کسی عمل کے تشریع و حرام هونے کے لئے اس کے قصد قربت سے انجام دینے کی شرط لگائی هے وہ سفر میں نماز وتیرہ کے ساقط هونے کے بارے میںلکھتے ہیں 

٫٫نماز وتیرہ کو سفر میں قصد قربت کی نیت سے بجا لانا تشریع و حرام هو گا ،،۔( ریاض المسائل ٢١٣.)

دوسرے مقام پر لکھتے ہیں

تشریع یعنی کسی چیز کے شرعی هونے کا عقیدہ رکھنا جبکہ اس پردلیل شرعی موجود نہ هو ۔

(ریاض المسائل ٢٢٥٧.)

 اسی طرح اذان میں آواز کے گلے میں گھمانے کے بارے میں لکھاهے  

اذان واقامت میں ترجیع مکروہ هے لیکن اگر اس کے شرعی طور پر جائزهونے کا قصد کیاجائے تویہ عمل بدعت قرار پائے گا ۔(ریاض المسائل ٢٢٥٦.)

 ٦۔شہید ثانی اذان واقامت میں آواز کا کھینچنا مکروہ هے اگر اس کے شرعی هونے کا عقیدہ نہ رکھا جائے ،لیکن اگر اس کے شارع کی جانب سے هونے کا عقیدہ رکھ کر بجا لایا جائے تو بدعت شمار هو گا ۔( مسالک الافھام ١١٨٩.)

٧۔ میرزا آشتیانی دین میں کسی چیز کا اطاعت وعبادت کے قصد سے داخل کرنا جبکہ اس کا شرعی جواز ثابت نہ هو ، اس معنی میں کہ اپنے عمل کو صاحب شریعت کی طرف نسبت دے ۔(بحر الفوائد ٨٠. )

 ٨۔محدث بحرینی  ایسا عمل جس کے جواز پر دلیل شرعی موجود نہ هو اور اسے شریعت کی جانب سے سمجھ کر بجا لایا جائے تو وہ عمل بدعت و حرام هو گا ۔( حدائق الناظرة ١٤١. )

٩۔ آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی دام ظلہ العالی

 وہ اپنی کتاب ( وہابیت بر سر دو راہی ) میں بدعت کی تعریف کرتے فرماتے ہیں

 ((بدعت در لغت ھمان گونہ کہ قبلاھم اشارہ شد بہ معنی ھر گونہ نوآوری خوب یا بد است و در اصطلاح فقھاء  ٫٫ ادخال  ما لیس من الدین فی الدین ،،است آری ،ھر گاہ چیزی را کہ جز ء دین نیست در دین وارد کنیم ، و آن را بہ عنوان دستور الہی بشمریم ،بدعت گذاردہ ایم ۔واین بہ دو گونہ انجام می شود ، واجبی را حرام و حرامی را واجب ، ممنوعی را مباح و مباح را ممنوع سازیم ۔))  (وہابیت بر سر دو راہی  ١١٦. ) 

 بدعت لغت میں وہی ہر طرح کی اچھی یا بری ایجاد هے جیسا کہ پہلے اشارہ کر چکے ،اورفقہاء کی اصطلاح میں ٫٫کسی ایسی چیز کا دین میںداخل کرنا جو دین نہ هو ،، ہاں جب بھی ایسی چیز جو دین نہ هو اسے دین میں حکم الہی سمجھ کر داخل کریں تو بدعت کے مرتکب هوئے ہیں اور یہ دو طرح سے انجام پا سکتا هے  واجب کوحرا م اور حرام کو واجب ،ممنوع کو مباح اور مباح کو ممنوع قرار دینے سے۔

  قارئین محترم ! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مندرجہ بالا تمام فقہاء نے بدعت کے اثبات کے لئے کسی غیر شرعی کام کو شریعت کی طرف نسبت دینے کی قید لگائی هے لیکن اگر کوئی شخص ایک عمل انجا م دے مگر اسے شریعت کی طرف نسبت نہ دے تو اس کا وہ عمل بدعت شمار نہیں هو گا جیسے نماز کے بعد مصافحہ کرنا وغیرہ ۔علمائے کرام کی بدعت کے بارے میں بیان کردہ تعریف کے مطابق محمد حسین ڈھکو کا نظریہ خود بخودباطل هو جاتا هے اس لئے کہ اس نے بدعت کی تعریف میں لکھا هے  ٫٫ بای قصد کان ،،کسی بھی قصد سے دین میں کسی دوسری چیز کا داخل کرنا بدعت شمار هو گاچاهے اسے دین اور شریعت کی طرف نسبت دی جائے یا نہ دی جائے ۔جبکہ یہ تعریف تمام علماء کے اقوال کے مخالف هے لیکن ڈھکو بھی اپنے پیرو مرشد خالصی کی طرح ہمیشہ فقہاء کے خلاف فتوے دینے میں سر گرم رہتا هے اور یوں ضعیف شیعوں کے عقائد کومتزلزل کرنے کی مذموم کوشش کرتا رہتا هے ۔()

(دشمن علماء و مراجع، خالصی کی تعریف میں جو کچھ ڈھکو نے لکھا هے اس کے لئے ان کی کتاب اصول الشریعة صفحہ نمبر ٢٦٧ کا مطالعہ فرمائیں اور مؤمنین یہ بھی یاد رکھیں کہ جس طرح خالصی کی موت کے بعد نہ تو اس کا نام و نشان رہا هے اور نہ ہی اس کے باطل افکار بلکہ اس کی قبر کا نشان بھی مٹ چکا هے اسی طرح اس دور کے جھوٹے مدعی اجتھاد کا بھی یہی حال هوگا اس لئے کہ جو بھی خدا وند متعال نے دشمن اہل بیت علیہم السّلام کی یہی سزا مقرر کررکھی هے جیسے کہ اس کی کئی ایک مثالیں آپ کے سامنے موجود ہیں ۔)                                                                                                      

 فصل پنجم      

 شہادت ثالثہ کے بارے میں روایات

اذان اور اقامت نماز کا مقدمہ ہیں اوران کا مقصد لوگوں کو نماز کی یاد دہانی کروانا هے نماز اور دیگر عبادات اس وقت نفع بخش ثابت هو سکتی ہیں جب انہیں اہل بیت علیہم السلام کی محبت و معرفت اور ان کی اطاعت و ولایت کے سایہ میں انجام دیا جائے ۔

  وہ نماز جو آل محمد کی محبت کے بغیر انجام دی جائے ہر گز قبول نہیں هو گی اسی لئے تو اہل سنت کے امام شافعی یہ کہتے هوئے نظر آتے ہیں

یا آل رسول اللہ حبکم                   فرض من اللہ فی القرآن ماانزلہ

کفاکم من عظیم القدر انکم          من لم یصل علیکم لا صلاة لہ 

ترجمہاے آل محمد آپ کی محبت کو اس قرآن میں واجب قرار دیا گیاهے جسے خدا وند متعال نے نازل کیا هے ۔ آپ کی قدر و منزلت کے لئے اتنا ہی کافی هے کہ جو شخص نماز میں آپ پر درود نہ بھیجے اس کی نماز بھی قبول نہیں هے ۔

  حضرت امام صادق علیہ السلا م اس قول خدا وندی( (الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ والذین یمکرو ن السیئات لھم عذاب شدید))(سورہ فاطر١٠.)پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلند هوتے ہیں اور عمل صالح انہیں بلند کرتا هے اور جو لوگ برائیوں کی تدبیر کرتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب هے )) کے بارے میں فرماتے ہیں

اس سے مراد ہم اہل بیت ہیں ٫٫ فمن لم یتولنا لم یرفع اللہ عملا،،پس جو شخص ہماری ولایت کو قبول نہیں کرتا هے تو خدا وند متعال اس کے کسی  بھی عمل کوقبول نہیں کرتا ۔  (اصول کافی  ١٤٣٠. )

 زرارہ سے مروی هے کہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں 

  اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی هے   نماز، زکات ، حج ، روزہ اور ولایت ، زرارہ کہتے ہیں میں نے امام سے معلوم کیا کہ ان پانچ میں سے کس کا رتبہ بلند هے اور کون سی چیز افضل هے ؟امام علیہ السلام نے فرمایولایت ، کیونکہ ولایت ان سب کی کنجی هے ...۔      (اصول کافی  ٢ ١٨. )

 عظیم مفسر قرآن علامہ طباطبائی علیہ الرحمة لکھتے ہیں

 اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت اور و لا یت کے بغیر نمازکا کوئی فائدہ نہیں هے اسی لیے ہم لوگ نماز سے پہلے اپنی اذان واقامت میں٫٫اشھد ان علیا ولی اللہ ،،قرائت نماز میں ٫٫ اھدنا الصراط المستقیم ،،  اور تشہد میں درود شریف پڑھ کر محمد و آل محمد کی محبت اور ان کی ولایت کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔( تفسیر المیزان  ١٤١.)

  مندرجہ بالامطالب سے یہ واضح هو گیا کہ کسی بھی عبادت کی قبولیت کی شرط اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کو قبول اور اس کا اقرار کرنا هے ورنہ عبادت بے کار هو گی ۔

  مولانا محمد حسین ڈھکو نے کسی شے کے بدعت هونیکی ایک ہی شرط لگائی هے کہ اس کے جواز کے بارے میں شریعت میں دلیل خاص یا دلیل عام نہ پائی جاتی هو ،اور اگر کسی عمل یا قول کے بارے میں دلیل عام یا دلیل خاص موجود هو تو اسے بدعت نہیں کہا جائے گا۔ (اصلاح الرسوم )

  لہذا ہم پہلے دلیل خاص اور دلیل عام کو بیان کریں گے تاکہ مطلب واضح هوجائے ،اس کے بعدشہادت ثالثہ کے بارے میں روایات کو نقل کریں گے

  دلیل عام ایسی دلیل جو کئی ایک مطالب پر دلالت کر رہی هوجیسے  کل شئی لک طاہر حتی تعرف ا نہ نجس یعنی دنیا کی ہر چیز پاک هے جب تک اسکے  نجس هونے کا علم نہ هو، یہ ایک دلیل عام هے اب اگر ہم کسی شے کو نجس ثابت کرنا چاہیں تو اس کے لئے دلیل کی ضرورت هو گی ۔

  دوسری مثال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک

  (( من ذکرنی فلیصلّ علیّ   )) جو شخص بھی میرا نام لے تو اس پر واجب هے کہ مجھ پر درود بھیجے ۔           

 اب اس میں کسی قسم کی کوئی قید نہیں لگائی گئی بلکہ ہر وقت اور ہر مقام پر نام پیغمبرۖ کے بعد درود پڑھنے کا حکم دیا گیا هے ۔

  دلیل خاصایسی دلیل جو کسی خاص مطلب پر دلالت کررہی هوجیسے اقیموا الصلاة ، نماز قائم کرو ۔   

  اب دیکھنا یہ هو گا کہ کیا اذان میں أشھد أنّ علیّا ولی اللّہ کے بارے میں کوئی دلیل خاص یا دلیل عا م پائی جاتی هے یا نہیں ؟ تا کہ دلیل کے نہ هونے کی صورت میں اسے ترک کیا جائے اور اگر دلیل موجود هونے کے باوجود کوئی شخص اسے بدعت کهے تو یہ اس کے منافق هونے کی کھلی دلیل هے ۔

  ذیل میں ہم ان روایات کو ذکر رهے ہیں جو اذان و اقامت کے اندرامیرالمومنین علی بن ابیطالب علیہما السلام کی ولایت کی گواہی کی مشروعیت پر دلالت کر رہی ہیں 

 پہلی روایت  عدة من اصحابنا ، عن احمد بن محمدبن خالد ، عن احمد بن محمد بن أبی نصر قال جاء رجل الی أبی الحسن الرضا(ع) من وراء نھر بلخ فقال  انی أسألک عن مسئلة فان أجبتنی فیھا بما عندی قلت بامامتک ، فقال ابوالحسن (ع)  سل عما شئت ، فقال  أخبرنی عن ربک متی کان ؟وکیف کان ؟ وعلی أی شیء کان اعتمادہ ؟ فقال ابوالحسن (ع)  ان اللہ تبارک وتعالی أیّن الأین بلا أین ، وکیّف الکیف ، وکان اعتمادہ علی قدرتہ ، فقام الیہ الرّجل فقبّل رأسہ وقال  أشھد أن لا الہ الا اللہ وأنّ محمّدا رسول اللہ وأنّ علیّا وصی رسول اللہ (ص) والقیّم بعدہ بما قام بہ رسول اللہ (ص) ، وانّکم الأئمّة الصّادقون وأنّک الخلف من بعدہم.( اصول کافی ١ ١٤٢، کتاب التوحید ، باب ٢٨ ، ح٢ . )

 نہر بلخ کی دوسری جانب سے ایک شخص امام رضا ( علیہ السلام )کی خدمت میں حاضر هوا اور کہنے لگا  میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا هوں اگر آپ نے اس کا صحیح جواب دے دیا تو میں آپ کی امامت کا اقرار کر لوں گا .امام رضا( علیہ السلام ) نے فرمایا  پوچھ جو پوچھناچاہتاهے، تو اس نے کہا  یہ بتائیں کہ خدا کب سے تھا ؟ کیسے تھا ؟ اور کس چیز پر بھروسہ کیے هوئے تھا ؟ توا مام رضا( علیہ السلام) نے فرمای

خدا وند متعال نے کیفیّت کو مشخص کیا اور وہ اپنی قدرت پر بھروسہ کیے هوئے تھا ، وہ شخص امام  کی طرف بڑھا اور آپ کے سر کا بوسہ لے کر کہا  أشھد أن لا الہ الا اللہ وأنّ محمدا رسول اللہ وأنّ  علیاّ وصی رسول اللہ ( ص) اور آپ رسول اللہۖ کے بعد ان کی لائی هوئی شریعت کے فیصلے کرنے والے ہیں اور بے شک آپ ہی سچے آئمہ ہیں اور آپ ہی ان کے بعد ان کے جانشین ہیں ۔

دوسری روایت عن عائشة قالت  دخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفی یدہ خاتم فضة وفصہ عقیق فقلت  ماھذا یارسول اللہ ؟ قال  یا محمد انّ اللہ عزّوجلّ یقرئک السلام ویقول لک  تختّم بالعقیق الأحمر فی یمینک فانّہ یشھد لی بالوحدانیّة و یشھد لک بالنبوّة ویشھد لعلیّ بالوصیّة ویشھد لولدہ بالامامة و لشیعتة بالجنّة . (الأربعین ابن ابی الفوارس  ١٤٩ ، نسخہ خطی؛ مختصر البلدان  ٣٦، تألیف احمد بن محمد ہمدانی ؛ عیون الأخبار ١٧٥،ح ٣٢٤.   ) 

حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول خداۖ چاندی میں جڑے هوئے عقیق کی انگشتر پہنے هوئے گھر میں داخل هوئے تو میں نے عرض کیا  یا رسول اللہۖ یہ کیا هے ؟ تو فرمای یہ جبرا ئیل  نے خدا وند متعال کی جانب سے مجھے لا کر دی هے اور کہاهے کہ خداوند متعال نے سلام بھیجا هے اور فر ما یاهے  اپنے دائیں ہاتھ میں سرخ عقیق کی انگشتر پہنیں اس لیے کہ یہ وہ پتھر هے جس نے میری توحید ، آپۖکی نبّوت اور علی کے وصی ، ان کے بیٹوں کے امام اور ان کے شیعوں کے جنتی هونے کی گواہی دی هے.       

تیسری روایت عن عمران بن حصین قالبعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سریة و استعمل علیہم علیّافصنع علیّ شیئا أنکروہ فتعاقد أربعة من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أن اعلموہ وکانوا اذا قدموا من سفر بدأوا برسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فسلموا علیہ ونظروا الیہ ، ثمّ ینصرفون الی رحالھم . قال فلمّا قدمت السریة سلموا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقام أحد الأربعة فقال  یارسول اللہ ألم تر أن علیّاصنع کذاو کذا فأقبل الیہ رسول اللہ یعرف الغضب فی وجھہ ، فقال ماتریدون من علیّ ؟ ماتریدون من علیّ ؟ علیّ منی وأنا من علیّ وھو ولیّ کل مؤمن بعدی .(سنن ترمذی ٥٢٩٦، ح ٢٧٩٦؛ مسند أحمد بن حنبل ٥٣٥٦،ح ٣٣٠٦٢؛ صحیح ابن حبان ١٣٧٣،ح ٦٩٢٩؛ سنن الکبری ٥ ٤٥، ٨٤٧٤؛ مصنف ابن ابی شیبہ ٦ ٣٧٣،ح ٣٢١٢١؛ مسند طالبی ١١١١،ح ٨٢٩ ؛ مستدرک حاکم ٣ ١١٩ح٤٥٧٩؛ مسند أبو یعلی ١٢٩٣، ح ٣٥٥.)

عمران بن حصین روایت کرتے ہیںکہ رسول خداۖ نے ایک گروہ کو حضرت علی کی سپہ سالار ی میں جہاد کے لیے روانہ کیا تو بعض اصحاب نے ان کی کا رکردگی کو پسند نہ کیا ، ان میں سے چار افراد نے عہد کیا کہ جب مدینہ واپس پلٹیں گے تو رسول خداۖ سے حضرت علی کی شکایت کریں گے . جب واپس پلٹے تو سلا م واحوال پرسی کے بعد ان چار میں سے ایک نے کہا  یارسول اللہۖ ! کیا آپ ۖ یہ نہیں دیکھتے کہ علی نے یوں اور یوں کیا؟ رسول خداۖ نے اس کی طرف سے منہ پھیرا جبکہ غصہ کے آثار آپۖ کے چہرے پر نمایاں تھے اور فرمای

  ٫٫تم لوگ علی سے کیا چاہتے هو ؟ تم لوگ علی سے کیا چاہتے هو؟علی مجھ سے هے اور میں علی سے هوں اور وہ میرے بعد تمام مومنوں کے مولا ہیں ،،                               

 چوتھی روایت رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا     

٫٫والذی بعثنی بالحق بشیرا ، ما استقر ّ الکرسیّ والعرش ، ولا دار الفلک ولا قامت السما وات  والأرض الا بأ ن کتب اللہ علیہا 

لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، علی امیر المؤمنین ....(  بحار الأنوار ٢٧٨.) 

قسم هے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بشارت دینے والا بناکر بھیجا ، عرش و کرسی اس وقت تک مستقر نہیں هوئے ، نہ ہی افلاک نے حرکت کی اور نہ زمین و آسمان قائم هوئے مگر جب ان پر خداوند متعال نے یہ لکھ ٫٫لا الہ الا اللہ ،محمد رسول اللہ ، علی أمیرالمؤمنین ،،.

 پانچویںروایت خدا وند متعال نے اپنے نبیۖ کو وحی فرمائی

٫٫انّی لا أقبل عمل عامل الاّ بالاقرار بنبوّتک و ولایة علیّ ، فمن قال  لا الہ الا اللہ محمدا رسول اللہ و تمسّک بولایة علیّ دخل الجنّة ،،

 میں کسی عمل بجا لانے والے کے عمل کو قبول نہیں کروںگا مگرجب وہ آپۖ کی نبوّت اور علی کی ولایت کا اقرار کرے ، پس جس نے لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ کہا اور علی کی ولایت سے تمسک کیا وہ جنّت میں داخل هوگیا. (١)

چھٹی روایتشیخ صدوق لکھتے ہیں

٫٫حضر جماعة من العرب والعجم والقبط والحبشة عند رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) فقال لھم  أأقررتم بشھادة لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأنّ محمدا عبدہ و رسولہ وأنّ علیّ بن ابی طالب أمیرالمؤمنین و ولیّ الأمر بعدی .

قالو أللھمّ نعم ، فکرّرہ ثلاثا وھم یشھدون علی ذلک .،،

عرب وعجم اور قبط و حبشہ سے ایک گروہ پیغمبر ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کی خدمت میں پہنچا تو آنحضرتۖ نے ان سے فرمایا  کیا تم خدا کی توحید ، محمدۖ کی نبوت اور علی بن ابیطالب کے امیرالمؤمنین اور میرے بعد ولی امر هونے کی گواہی دیتے هو ؟

 سب نے کہا  ہاں ، آپۖ نے تین بار اس کا تکرار کیا اور وہ اس کی گواہی دیتے رهے .(  امالی صدوق ٢٣٠، مجلس ٦٠ .) 

ساتویں روایت امام باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں

٫٫انّ اللہ تعالی أخذ من بنی آدم من ظھورھم ذرّیتھم ، وقال أ لست بربّکم و محمد رسولی وعلی أمیر المؤمنین.قالوا  بلیٰ.،،

بے شک خداوند متعال جب بنی آدم کو خلق کیا تو ان سے کہ کیامیں تمہارا رب ، محمد میرے رسول اور علی امیرالمؤمنین نہیں ہیں .

 سب نے کہا  ہاں ایسا ہی هے   . ( سرّ الایمان فی الشھادةالثالثة فی الأذان ٢٣.)

آٹھویں روایت حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں

٫٫أنّ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) لمّا صلّی بالنبیین لیلة المعراج أمرہ اللہ أن یسألھم  بم تشھدون ؟ فالتفت الیھم وقال بم یشھدون؟

قالونشھد أن لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، وأنّک رسول اللہ ، وأنّ علیّاأمیرالمؤمنین وصیّک ،علی ذلک أخذ مواثیقنا لکما بالشھادة.،،     (  الیقین ابن طاؤوس ٥٠ .)

شب معراج جب رسول خداۖ نے انبیاء کو نماز پڑھائی توخداوند متعال نے انہیں حکم فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ وہ کس کی گواہی دیتے ہیں ؟

آنحضرتۖ ان کی طرف متوجہ هوئے اور فرمای

 تم کس کی گواہی دیتے هو ؟ تو انهوں نے جواب میں کہا  ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی شریک هے ، آپ اللہ کے رسول اور علی امیرالمؤمنین اور آپ کے وصی ہیں.  

نویں روایتسیدبن طاؤوس نے روایت کی هے کہ خداوند متعال نے حاملین عرش ملائکہ سے فرمایا

 اشھدا أن لا الہ الا أنا ، فشھدا .

فقال عزّوجل اشھدا أنّ محمدا رسول اللہ فشھدا . فقال تبارک و تعالی  اشھدا أنّ علیّا أمیر المؤمنین فشھدا.( الیقین  ٥٥.)

گواہی دو کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں .انهوں نے گواہی دی .

پھر فرمایا  گواہی دو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ، انهوں نے گواہی دی .

اور پھر فرمای گواہی دو کہ علی امیرالمؤمنین  ہیں تو انهوں نے اس کی بھی گواہی دی. 

دسویں روایتعن القاسم بن معاویہ قال  قلت لأبی عبداللہ الصادق (علیہ السلام)  ھؤلاء یروون حدیثا فی معراجھم أنّہ لمّا أسر ی برسول اللہ رأی علی العرش ( مکتوبا) لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، أبوبکر الصدیق !

فقال الامام (علیہ السلام )سبحان اللہ ! غیّروا کل شیء حتّی ھذا؟!!

قلت  نعم .

قال  انّ اللہ عزّ وجلّ لمّا خلق العرش کتب علی قوائمہ  لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، علی أمیرالمومنین .

] الی أن قال [ لمّا خلق عزّوجلّ الکرسی کتب علی قوائمہ  لاالہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، علی أمیرالمؤمنین .

 ولمّا خلق اللہ عزّ وجلّ اللوح کتب فیہ  لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، علی امیرالمؤمنین.

ولمّا خلق اللہ عزّ وجلّ اسرافیل کتب علی جبھتہ  لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، علی أمیرالمؤمنین .

ولمّا خلق عزّ وجلّ جبرئیل کتب علی جناحیہ  لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، علی أمیرا لمومنین .

ولمّا خلق اللہ عزّوجلّ السماوات کتب فی اکنافھا  لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، علی أمیرالمؤمنین .

ولمّاخلق اللہ الأرضین کتب فی اطباقھا  لا الہ الا اللہ ، محمد رسو ل اللہ ، علی أمیرالمؤمنین .

ولمّا خلق اللہ الشمس کتب علیھا  لاالہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، علی أمیرالمؤمنین .

ولمّا خلق القمر کتب علیہ  لا الہ الا اللہ ِ محمد رسو ل اللہ ، علی أمیرالمؤمنین .ثمّ قال 

فاذاقال أحدکم  لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، فلیقل  علی أمیرالمؤمنین ولی اللہ .(بحار الأنوار ٢٧ ١.)   

 قاسم بن معاویہ سے روایت هے کہ میں نے امام صادق علیہ السلا م سے عرض کی وہ لوگ حدیث معراج میں نقل کرتے ہیں کہ جب رسول خدا ۖ کو معراج پر لے جایا گیا توانهوں نے وہاں عرش پر یہ لکھا هوا دیکھ 

لاالہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، ابوبکر صدیق.    

امام علیہ السلام نے فرمایا  سبحان اللہ ! انهوں نے سب کچھ بدل ڈالا ، یہاں تک کہ یہ بھی ۔

میں نے عرض کیا  ہاں.

آپ نے فرمایا خدا وند متعال نے جب عرش کو خلق کیا تواس کے ستونوں پر لکھا 

لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، علی امیرالمؤمنین.

اور جب کرسی کو خلق کیا تو اس کے ستونوںپر لکھا 

لاالہ الا اللہ ،محمد رسول اللہ ، علی امیرالمؤمنین.      

اور جب لوح کو خلق کیا تو اس میں لکھا

 لا الہ الا اللہ ،محمد رسول اللہ ، علی امیرالمؤمنین .

اور جب اسرافیل کو خلق کیا تو اس کی پیشانی پر لکھ

 لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، علی امیرالمؤمنین.

اور جب جبرائیل کو خلق کیا تو اس کے پروں پر لکھا 

لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ ، علی امیرالمؤمنین.

اور جب آسمانوں کو خلق کیا تو ان میں لکھا 

لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ، علی امیرالمؤمنین .

اور جب زمین کو خلق کیا تو اس کے طبقات پر لکھا

 لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، علی امیرالمؤمنین.

اور جب سورج کوخلق کیا تو اس پر لکھا 

لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، علی امیرالمؤمنین.

اور جب چاند کو خلق کیا تو ا س پر لکھا 

لاالہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ، علی امیرالمؤمنین.

اور پھر فرمایا  پس جب کوئی تم میں سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کهے تو اس کے لیے ضروری هے کہ علی امیرالمؤمنین ولی اللہ بھی کهے .

 گیارهویں روایت 

امام رضا علیہ السّلام اس آیت مجید ہ ( الیہ یصعد الکلم الطیّب )]سورہ فاطر ١٠[کی تفسیر میں فرماتے ہیں

((الکلم الطیّب قول المؤمن لاالٰہ الاّاللہ محمّد رسول اللہ علیّ ولیّ اللہ وخلیفة رسول اللہ حقّا ...))

پاکیزہ کلمات سے مراد مومن کا یہ کہنا هے  لا الہ الاّ اللہ محمّد رسول اللہ علیّ ولی اللہ وخلیفة رسول اللہ حقّا۔ (تفسیر برہان ٨ ١٣٧.)

بارهویں روایت ساتویں صدی ہجری  کے معروف عالم اہل سنت علّامہ عبداللہ مراغی مصری اپنی کتاب ( السلافة فی أمر الخلافة ) میں تحریر فرماتے ہیں 

  ٫٫واقعہ غدیر کے بعد ایک دن صحابی رسولۖ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اذان میں أشھد أنّ علیاولی اللہ پڑھا تو ایک صحابی دوڑتا هوا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچااور عرض کیا 

  یا رسول اللہۖ ! آج میں نے ایک ایسی بات سنی هے جو اس سے پہلے نہیں سنی تھی .رسول خداۖ نے فرمایا  وہ کیا بات هے ؟ عرض کرنے لگا  سلمان نے اذان میں شھادتین کے بعد علی  کی ولایت کی بھی گواہی دی هے .

رسول خداۖ نے فرمایا  سمعتم خیرا.

 تم نے اچھی بات سنی هے،، .(الشھادة الثالثہ المقدسة معدن الاسلا م الکامل وجوہر الایمان الحق٣٢٣.)

 تیرهویں روایت 

اسی طرح علّامہ مراغی لکھتے ہیں

 ایک دن حضرت ابو ذرر ضی اللہ عنہ نے اذان میں أشھد أنّ علیّا ولی اللہ پڑھا تو ایک صحابی نے رسول خداۖ سے عرض کیا ابوذر نے اذان میں علی کی ولایت کی گواہی دی هے .

  رسول خداۖ نے فرمای کذالک  . اسی طرح هے . اور پھر فرمای

  ٫٫ أو نسیتم قولی فی غدیر خم من کنت مولاہ فعلی مولاہ ؟!     

کیا غدیر خم والا میرایہ فرمان تم نے بھلا ڈالا کہ جس جس کا میںمولا هوں اس اس کے علی مولاہیں .

اور پھر فرمای من ینکث فانما ینکث علی نفسہ  .

جس نے عہد وپیمان کو توڑا تو وہ اپنے کو نقصان پہنچائے گا .(اجماعیات فقہ الشیعہ واحوط الأقوال من احکام الشریعة  ١ ٢٤٣. )

  احتمال یہ هے کہ پیغمبرۖ کا آخری جملہ سوال کرنے والے کے نفاق کی طرف اشارہ هے .(اذان شعاراسلام ٢٨، تالیف محمد اسماعیل نوری.)

مندرجہ بالا روایات سے یہ ثابت هو گیا کہ علی اللہ کے ولی بھی ہیںمومنوں کے امیر بھی اور رسول خداۖ کے خلیفہ بلا فصل بھی . اب رہ گیا مسئلہ یہ کہ کیا اس جملہ کا اذان میں پڑھنا جائز هے یا نہیں ؟تو اس کا جواب بھی ذکر کر دیتے ہیں ۔

  حضرت ابوذر اور حضرت سلمان کا اذان میں علی مولا کی ولایت کی گواہی دینا اور رسو ل خدا ۖ کا اس کی تائید بلکہ اس کے انکار کرنے والے کو سر زنش کرنا یہ اس بات کی دلیل هے کہ یا  تورسول خدا ۖ نے خود انہیں اس بات کا حکم دیا تھا یا یہ کہ ان دو جلیل القدر صحابیوں نے آنحضرت کی احادیث سے یہ نتیجہ نکالا کہ اس گواہی کا اداکرنا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کا باعث هے.         

  اورپھر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس گواہی کی تائید فرمانا یہ خود سنت رسول ۖ شمار هو گا اس لیے کہ اگر اذان میں علی کی ولایت کی گواہی درست نہ هوتی تو اللہ کے رسول ، بانی شریعت اسے روک دیتے . 

  حقیقت تو یہ هے کہ اذان و اقامت میں أشھد أنّ علیّا ولی اللہ پڑھنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہی نہیں هے جیساکہ حضرت آیت اللہ العظمیٰ بہجت فرماتے ہیں . (توضیح المسائل ١٢٢، مسئلہ نمبر ٧٢٢.)

 اس کے علاوہ باقی فقہاء کا بھی یہی نظریہ هے .

  اور اگر دلیل لانا چاہیں تو وہ بھی موجود هے چونکہ جس طرح اذان عبادت هے اسی طرح ذکر علی بھی عبادت هے اس لیے کہ حضرت عائشہ نے رسولۖسے نقل کیا هے کہ آپۖ نے فرمای علی کا ذکر عبادت هے. 

  تو اذان کے اندر یہ گواہی عبادت کے اندر عبادت شمار هو گی اور اس گواہی کے اذان میں باطل هونے پر بھی کوئی دلیل نہیںهے اس لیے کہ ایک عبادت کو دوسری عبادت میں بجا لانا جائز هے مگر یہ کہ اس کی نفی پر کوئی دلیل موجود هو .جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے حالت رکوع میں زکوة دی اور ان کی اس فضیلت پر آیت بھی نازل هوئی .

  اور پھر اذان کے اندر تو عام بات کرنا بھی جائز هے جیساکہ وسائل الشیعہ جلد دوم ، باب جواز الکلا م فی الأذان والاقامة میں اس بارے میں کئی ایک روایات ذکر هوئی ہیں . تو جب اذان میں عام کلام کرنا جائزهے تو پھر وہ ذکرجو عبادت هے اس کا پڑھنا تو بدرجہ اولیٰ بہتر بلکہ ثواب کا موجب هوگا ۔

فصل ششم

شہادت ثالثہ کے بارے میں ڈھکو کا نظریہ

اس میں شک نہیں هے کہ تمام علمائے شیعہ ابتداء سے لیکر آج تک اذان و اقامت میں شہادت ثالثہ کی مقدس گواہی کو مستحب قرار دیتے چلے آئے ہیں سب سے پہلے( محمد حسین ڈھکو کے نزدیک مظلوم عالم ) شیخ خالصی علیہ اللعنة والعذاب نے شیعیان عراق کی صفوں میں اختلاف ایجاد کرنے کی خاطر اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس مقدس گواہی کو بدعت کہنا شروع کیا اور یوں تمام فقھاء شیعہ کی مخالفت کا پرچم بلند کیا اور یہ بات اس سے عجیب بھی نہیں هے اس لئے کہ یہ وہی شخص هے جس نے کاظمین شریفین میں منبر پر کہا تھا

  الا لعنة اللہ علی الشیعةالالعنة اللہ علی الشیعةانا لا شیعی ولا سنی ۔

ترجمہ خدا کی لعنت هو شیعوں پر ، خدا کی لعنت هو شیعوں پر ،میں نہ تو شیعہ هوں اور نہ ہی سنی ۔

  اور اس کے بعداس کے پروردہ محمد حسین ڈھکو نے پاکستان کے شیعوں میں اختلاف ایجاد کرنے کی خاطر یہی حربہ اپنایا ،اس فصل میں ہم شہادت ثالثہ کے بارے میں ڈھکو کا نظریہ اور پھر علماء کے اقوال کو نقل کر رهے ہیں تاکہ صاحبان ایمان پر یہ حقیقت آشکار هو جائے کہ کل تک علماء و مراجع اور تشیع کے علمی مرکزکی طرف رجوع کرنے کا حکم دینے والا اورتشھد میں شہادت ثالثہ کی نفی کے لیے علماء و مراجع عظام کے فتاوٰی کا سہارا لینے والا خود ساختہ مجتھد محمد حسین ڈھکو خوداذان و اقامت میں کیوں تمام فقھاء و مراجع کی مخالفت اور ان کی طرف رجوع کرنے سے فرار اختیار کرتا هے أفتؤمنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض.  یقینا اس کے پس پردہ کوئی راز موجود هے. اس نے اپنی کتاب اصلاح الرسوم میں بدعات کے باب میں لکھا هے 

اذان میں أشھد أنّ علیاّ ولی اللہ کا اضافہ  خاندان رسالت کی محبت و پیروی کے دعویدار بھی کسی سے پیچھے نظر نہیں آتے ۔ چنانچہ انهوں نے بھی مختلف اوقات اور مختلف ادوار میں شرعی احکام میں من پسند اضافے کیے ہیں اور کہیں اپنی مرضی کے مطابق کمی کی هے چنانچہ اذان میں ٫٫اشھد أن علیا ولی اللہ ،، کا اضافہ بھی انہی لوگوں کی اختراع کاشاہکار هے ۔(اصلاح الرسوم  ٩٦.)  

  اور پھر اس نے اپنے رسالہ میں ایک سوال کے جواب میں لکھاهے

سوال آپکے قول کے مطابق اذان و اقامت میں کلمہ علی ولی اللہ نہ واجب هے نہ مستحب ، اگر ہم یہ کلمہ اذان میں نہیں کہتے لوگ وہابی هونے کا فتوی لگاتے ہیں. اگر نہ پڑھیں تو فساد کا اندیشہ هے ہم کس نیت سے پڑھیں یا نہ پڑھیں ؟

جواب  باسمہ سبحانہ  ۔ آپ نہ پڑھیں اگر مجبورا پڑھنا پڑے تو تقیہ کی نیت سے پڑھیں اور جب دوسرے مقتدی پڑھیں تو آپ آہسة سے اپنی اذان واقامت صحیح طریقہ سے کہہ کر نماز پڑھ لیں ۔ ( ماہنامہ دقائق الاسلام  ١٣ ، ماہ اگست ٢٠٠٤ئ.)

  اسی طرح  ٢٩ دسمبر ١٩٩٥ء میں ڈھکو کے مدرسہ میں ایک اجلاس هوا جسے بعد میں تحریری  صورت میں انهوں نے اپنے چاہنے والو ں کو ارسال کیاجس کے اندر پہلا نکتہ یہ تھا  

میرے معتقدین ، میرے مقلدین ، ہمنوا اور قدر دان ! 

١۔ اذان واقامت میں ٫٫ اشھد أن علیا ولی اللہ ،، مت پڑھیں کیونکہ یہ جملہ اگرچہ معنوی لحاظ سے درست هے لیکن اذان و اقامت کا نہ جزء تھا اور نہ هے ۔ یہ خاندان رسالت کی محبت و پیروی کے دعویداروں کی اختراع کا شاہکار هے ۔ یہ حقیقت اگرچہ تلخ ضرور هے مگر هے بہر حا ل حقیقت کہ یہ فقرہ زمانہ مابعد کی ایجاد هے ... لہذا بدعت اور حرام هے ۔    اور اس پمفلٹ کا آخری  پوائنٹ یہ هے 

٢٣۔میں نے متوکلا علی اللہ اور متوسلا بالنبی وآلہ اپنے تمام مخالفوںاور معاندوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بہ بانگ دہل یہ اعلان کر دیا هے اب تم اپنے سب مکر و فریب اکٹھے کر لو اور مجھے مہلت نہ دو مگر تم میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے ۔(یہ پمفلٹ ہمارے پاس موجود هے جو بوقت ضرورت پیش کیا جا سکتا هے .)

  اسی طرح چکوال کے ایک گاؤں چک نارنگ میں جب ایک شخص نے سوال کیا کہ تمام مراجع کرام اذان میں علی ولی اللہ کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ آپ اس سے روک رهے تو اس نے جواب میں کہا 

چونکہ وہاں پہ لوگ مراجع کو بھونکتے ہیں لہٰذا وہ اپنی پگڑی بچانے کی خاطر اس جملہ کے جائز هونے کا فتویٰ دیتے ہیں ۔ ( مزید معلومات کے لیے اس پروگرام کی سی ڈی مشاہدہ فرمائیں.)

شہادت ثالثہ کے بارے میں علماء کے اقوال

١۔علامہ مجلسی

واقول  لا یبعد کون الشہادة بالولایة من الاجزاء المستحبة للاذان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ولو قا لہ الموذن او المقیم لا بقصد الجزئیة بل بقصد البرکة لم یکن آثما ۔۔۔۔(بحار الانوار ٨١١١١و١١٢،کتاب الصلاة ، باب الاذان والاقامة. )

 اور میں کہتا هوں کہ ولایت کی گواہی کا اذان کے مستحب اجزاء میں سے هونا بعید نہیں هے ... اور اگر مؤذن یا مقیم اسے جزء تصور کئے بغیر برکت و ثواب کی نیت سے پڑھے تو وہ گنہگار نہیں هو گا ،بے شک اہل سنت نے اذان و اقامت میں مطلقا کلام کرنے کوجائز قرار دیا هے تویہ (  اشہد ان علیا ولی اللہ ) تو بہترین ذکر اور دعا هے ۔

  یاد رهے کہ یہ وہی علاّمہ مجلسی رحمة اللہ ہیں جن کے متعلق مولانا موصوف اپنی کتا ب اصول الشریعة کے صفحہ نمبر ١٥٠پر اقسام تفویض کو بیان کرتے هوئے لکھتے ہیں  انسب یہ هے کہ اس سلسلہ میں اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے غوّاص بحار اخبار آئمہ اطہار سرکار علاّمہ مجلسی کی تحقیق انیق کو بلا کم وکاست نقل کرکے اس کا مطلب خیز ترجمہ پیش کر دیا جائے۔ سرکار موصوف قدس سرّہ کی علمی شخصیت اس قدر عظیم المرتبت هے کہ کوئی بھی شیعہ کہلانے والا آپ کی فرمائش کا انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ 

  ہم نے مولانا ڈھکو ہی کے نظریے کے پیش نظر علاّمہ مجلسی علیہ الرّحمة کی تحقیق انیق کی عبارت کو بلا کم و کاست ذکر دیا هے لیکن مولانا نے اپنے ہی بقول ان کے نظریے کی مخالفت کر کے یہ ثابت کردیا هے کہ ان کا شیعہ مذہب سے کوئی تعلق نہیں هے اس لئے کہ علاّمہ مجلسی رحمة اللہ علیہ تو یہ فرمارهے کہ اذان میں أشہد أنّ علیّا ولی اللہ کا جزء مستحب هونا بعید نہیں هے ، جبکہ آپ اسے بدعت اور دین سے خارج هونے کا باعث سمجھتے ہیں خدا جانے یہ کیسا تضاد هے ؟(اگر کوئی شخص ان کی کتب کا دقیق مطالعہ کرکے ان کے تضادات کو جمع کرنا چاهے تو ایک مستقل کتاب لکھی جا سکتی هے لیکن چونکہ ہمارا موضوع یہ نہیں هے لہذا اسے ترک کر رهے ہیںالبتہ اگر خدا وند متعال نے توفیق دی اور وقت نے ساتھ دیاتوان کی کتب میں موجود تضادات کو نکال کر الگ کتاب کی صورت میں مؤمنین کرام کے سامنے پیش کیا جائے گا تاکہ عام مؤمنین ان گمراہ افکار سے اپنے دامن کو بچا سکیں.)  

ھمہ کارم ز خود کامی بہ بدنامی رسید آخر          نھان کی ماند آں رازی کزو سازند محفل ھا

کاموں میں جو میں نے خود غرضی سے کام لیا هے اس نے میرے لئے بدنامی کے اسباب پیداکردئیے ۔خود غرضی کا راز پوشیدہ کیسے رہ سکتا هے جسے محفلوں کی رونق بنایا گیا هو۔        

٢۔علامہ طباطبائی

وہ اپنی کتاب تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں کہ اہل بیت علیہم السلام کی محبت اور ولایت کے بغیر نماز کا کوئی فائدہ نہیں هے اسی لئے ہم لوگ نماز سے پہلے اذان و اقامت میں ٫٫اشہد ان علیاولی اللہ ،،قرائت نماز میں ٫٫اھدنا الصراط المستقیم ،،اورتشھد میںدرود شریف پڑھ کر محمد وآل محمد کی محبت اور ولایت کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔  (تفسیر المیزان ١ ٤١.)

 ایک اور مقام پر لکھا هے 

  صل  اذا  ما اسم  محمد  بدا              علیہ  و  الآل  فصل  لتحمدا

  واکمل  الشھادتین  باالتی              قد  اکمل  الدین  بھا  فی  الملة 

جب محمد ۖ کا نام لیا جائے تو ان پر اور ان کی آل پر صلوات پڑھو ، اورشہادتین کو اس شہادت کے ذریعہ کامل کرو جس سے ملت میں دین کامل هوا ۔(منظومہ ، سنن و آداب اذان. )

٣۔صاحب الجواہر

وہ لکھتے ہیں ٫٫ولا باس بذکر ذلک لا علی سبیل الجزئیة عملا بالخبر المزبور ۔۔۔بل لو لا تسالم الاصحاب لامکن دعوی الجزئیة بناء علی صلا حیةا لعموم لمشروعیة الخصوصیة ،،( جواہر الکلام ٩٨٧.)

 یعنی مذکورہ روایت پر عمل کرتے هوئے اذان میں شہادت ثالثہ کوجزء کی نیت کے بغیر پڑھنے میں کو ئی عیب نہیں هے ۔۔۔ بلکہ اگر علماء کا اس کے جزء نہ هونے پر اجماع نہ هوتا تو اس کے جزء هونے کا دعوی کرنا بھی ممکن تھا اس لئے کہ عام میں (کسی بھی عمل کی) خصوصی مشروعیت کی صلاحیت پائی جاتی هے ۔

 اور پھر اپنی کتاب ٫٫نجاة العباد ،، میں لکھا هے 

یستحب الصلوات علی محمد وآل محمد عند ذکر اسمہ و اکمال الشھادتین بالشھادة لعلی بالولایة للہ و امرة المومنین فی الاذان و الاقامة وغیرہ ۔

جب محمد ۖ کا نام لیا جائے تو ان اور ان کی آل پر صلوات بھیجنامستحب هے اور اسی طرح اذان و اقامت وغیرہ میں شہادتین کو علی کی ولایت اور ان کے امیر المومنین هو نے کی گواہی سے کامل کرنا مستحب هے ۔ 

٤۔ آیت اللہ العظمی خوئی

وہ فرماتے ہیںوالشہادة  بولایةامیرالمومنین علیہ السلام مکملة للشھادةبالرسالةو مستحبةفی نفسھاوان لم تکن جزء من الاذان و الاقامة ۔  (المسائل المنتخبة٨٧.   )

علی علیہ السلام کی ولایت کی گواہی، ر سالت کی گواہی کومکمل کرنے والی هے اور بذات خود مستحب هے اگرچہ اذان و اقامت کا جزء نہیں هے ۔

٥۔شیخ الفقھاء والمجتھدین آیت اللہ العظمی اراکی

 اشہد ان علیاولی اللہ جزء اذان و اقامت نیست ولی خوب است بعد از اشہد ان محمد ا رسول اللہ ، بقصد قربت گفتہ شود ۔

 اشہد ان علیا ولی اللہ اذان و اقامت کا جزء نہیں هے لیکن بہتر یہ هے کہ اسے اشہد ان محمد رسول اللہ کے بعد ثواب کی نیت سے پڑھا جائے ۔(توضیح المسائل ١١٩،مسئلہ ٩١٢.)

 ٦۔مرحوم ملا احمد نراقی

انهوں نے اذان میں شہادت ثالثہ کو مکروہ جاننے والوں کو جواب دیتے هوئے فرمایا 

وعلی ھذا فلا بعد فی القول باستحبابھا فیہ للتسامح فی أدلتہ، و شذوذ اخبارھا لا یمنع عن اثبات السنن بھا کیف وتراھم کثیرا یجیبون عن الاخبار بالشذوذ فیحملونھا علی الاستحباب ۔(مستند الشیعہ)

اس بناء پر ادلہ تسامح کے ذریعہ شہادت ثالثہ کا اذان میں مستحب هونا بعید نہیں هے اور اخبار کا شاذ هونا مستحبات کے اثبا ت میں مانع نہیں بن سکتا ، اور یہ کیسے ممکن هے جبکہ آپ دیکھ رهے ہیں کہ اکثر فقھاء اخبار شاذ کے ذریعہ جواب دیتے اور انہیں استحباب پر اطلاق کرتے ہیں۔

٧۔ آیت اللہ العظمی بروجردی

والشھادة لعلی (ع) لیست جزء من الاذان ولکن لا باس بالاتیان بھا بقصد الرجحان بعد الشھادة بالرسالة کامرمستقل ۔(المسائل الفقیة ، فتاوی آیت اللہ بروجردی .)

علی علیہ السلام کی گواہی اذان کا جزء نہیں هے لیکن رسالت کی گواہی کے بعد مستقل امر کے طور پر ثواب کی نیت سے بجا لانے میں کوئی عیب نہیں هے ۔

٨۔ آیت اللہ العظمی گلپائیگانی 

اشھد ان علیا ولی اللہ جزء اذان واقامت نیست ولی خوب است بعد ازاشھد ان محمد ا رسول اللہ بقصد قربت گفتہ شود ۔(توضیح المسائل ١٩٠، مسئلہ ٩٢٨.)

  اشہد ان علیا ولی اللہ اذان و اقامت کا جزء نہیں هے لیکن بہتر یہ هے کہ اشہد ان محمدارسول اللہ کے بعد ثواب کی نیت سے پڑھاجائے۔

 ٩۔امام خمینی 

اشھد ان علیا ولی اللہ جزء اذان واقامت نیست ولی خوب است بعد از اشھد ان محمدا رسول اللہ بہ قصد قربت گفتہ شود ۔(منتخب توضیح المسائل  ١٠٣مسئلہ ٤٦٩ )

اشہد ان علیا ولی اللہ اذان واقامت کا جزء نہیں هے لیکن اشہد ان محمدارسول اللہ کے بعد ثواب کی نیت سے پڑھنا بہتر هے ۔

١٠۔آیت اللہ العظمی سید محسن حکیم

 لا با س بالاتیان بہ بقصد الاستحباب المطلق ۔۔۔  ، بل ذلک فی ھذہ الاعصار معدود من شعائر الایمان ورمز التشیع ، فیکون من ھذہ الجھة راجحا شرعا ، بل قد یکون واجبا۔ ( مستمسک العروة ٥٤٣٨.)

 (اذان میں شہادت ثالثہ کے ) استحباب مطلق کی نیت سے بجا لانے میں کوئی حرج نہیں هے ...بلکہ اس زمانہ میں تو یہ شعائر ایمان اور تشیع کی علامت هے پس اس اعتبار سے اس کا پڑھنا رجحان شرعی رکھتا هے اور بسا اوقات تو اس کا پڑھنا واجب هواتاهے ۔  

١١۔آیت اللہ العظمی خامنہ ای

رہبر شیعیان جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی اذان و اقامت میں شہادت ثالثہ کے بارے میں هونے والے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں

٫٫شرعا لیست جزء من الاذان ولاالاقامة ، ولکن لا مانع منھا اذا لم تکن بقصد الورود والجزئیة للاذان والاقامة ، بل تکون راجحة اذا کانت لمجرد اظھار الاعتراف والاذعان بما یعتقدہ فی خلیفة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی اوصیاء ہ المعصومین ،،  ( اجوبةالاستفتائات١١٣٩، سوال ٤٦٧ .) 

  اذان اور اقامت کا جزء نہیں هے لیکن جزء کی نیت کے بغیر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں هے بلکہ اگر خلیفہ رسول اور ان کے اوصیاء معصومین کے بارے میںاپنے عقیدہ کااظہار کرنیکی خاطر هو تو رجحان شرعی رکھتا هے ۔   

١٢۔آیت اللہ العظمی بہجت

بعید نیست مستحب بودن اقرار بہ ولایت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام در اذان مستحبی در صورتیکہ بہ نیت مطلوب بودن بہ عبارات مختلفی کہ در نہایہ و فقیہ و احتجاج   نقل شدہ است کہ ان علیا ولی اللہ و یا علی امیر المومنین ویا بہ عبارت اشھد ان علیا ولی اللہ باشد واما اقرار بہ ولایت در ھر جا اگرچہ در غیر اذان باشد خوب است پس احتیاج بدلیل مخصوص بہ اذان ندارد وکاملترین عبارتی کہ در اینجا گفتہ می شود آن است کہ اقرار بہ خلیفہ بودن یا وصی بودن حضرت امیرالمومنین (ع) وآئمہ طاہرین علیہم السلام در آن باشد ۔  (رسالہ توضیح المسائل ١٢٢،مسئلہ ٧٢٢.)

  مستحب اذان میں امیرالمؤمنین علی  بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا ان عبارات کے ساتھ جو نہایہ ، فقیہ اور احتجاج میں نقل هوئی ہیں کہ أنّ علیّا ولی اللہ یا علی أمیر المؤمنین یا أشھد أنّ علیّا ولی اللہ کا اقرار کرنا مستحب هے . البتہ ولایت کا اقرار اگرچہ اذان کے علاوہ بھی هو تب بھی بہتر هے پس اذان میں اس کے اقرار کے لیے کسی خاص دلیل کی ضرورت نہیں هے .اور اس مقام پر کامل ترین عبارت یہ هے کہ حضرت امیرالمؤمنین اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کے وصی یا خلیفہ( رسولۖ) هونے کا اقرار کیا جائے .  

 ١٣۔آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی 

 اشھد ان علیا ولی اللہ جزء اذان و اقامت نیست ولی خوب است بعد ازاشھد ان محمد ا  رسول اللہ بہ قصد تبرک گفتہ شود لکن بہ صورتی کہ معلوم شود جزء آن نیست ۔ ( توضیح المسائل  ١٦٠، مسئلہ ٨٤٣. ) 

اشھد ان  علیا  ولی اللہ  اذان و اقامت کا جزء نہیں هے لیکن بہتر یہ هے کہ اشھد ان محمد ارسول اللہ کے بعد ثواب کی نیت سے پڑھا جائے مگر اس طرح کہ اس کا جزء نہ هونا معلوم هو ۔ 

١٤۔آیت اللہ العظمیٰ شبیری زنجانی

أشھد أنّ علیّا ولی اللہ  جزء اذان و اقامت نیست البتہ ولایت امیرالمؤمنین وآئمہ معصو مین علیہم السلام از ارکان ایمان است  و اسلام بدون آ ن ظاہری بیش نیست وقالبی از معنیٰ تہی است و خوب است کہ پس از أشھد أنّ محمد ا رسول اللہ بہ قصد تیمن وتبرک شہادت بہ ولایت وامامت امیرالمؤمنین و سایر معصومین علیہم السلام بہ نحوی کہ شبیہ اذان و اقامہ نگردد ، ذکر گردد.

  أشہد أنّ علیّا ولی اللہ اذان و اقامت کا جزء نہیں هے البتہ امیر المؤمنین اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت ایمان کا رکن هے اور اس کے بغیر اسلام ایک ظاہر اور معنی سے خالی قالب کے سواکچھ اور نہیں هے ، اور بہتر یہ هے کہ أشھد أنّ محمد ا رسول اللہ کے بعد تبرک اور ثواب کی نیّت سے امیر المؤمنین   اور تمام معصومین علیہم السلام کی خلافت بلا فصل کی گواہی اس طرح سے دی جائے کہ اذان واقامت کے جملات کے مشابہ نہ هو.(رسالہء توضیح المسائل ١ ٢٢٣،مسئلہ ٩٢٨.)

ہفتم فصل

   شہادت ثالثہ پر هونے والے اعتراضات کے جوابات

پہلا سوالاذان میں شہادت ثالثہ کا آغاز کب سے هوا ؟

جواب  جیسا کہ صاحبان علم و بصیرت اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ شریعت مقدسہ اسلام کے تمام تر احکام ایک ساتھ نازل نہیں هوئے بلکہ جیسے جیسے ضرورت پیش آتی رہی یا وقت تقاضا کرتا رہا تو ایک ایک کر کے بتدریج احکام نازل هوتے رهے جیسا کہ سب سے پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا  قولو ا لا الہ الا اللہ تفلحوا، لا الہ الا الہ الا اللہ کهونجات پا جائو گے   ۔ اس کے سواکوئی اور حکم نہیں دیا لیکن جیسے جیسے مسلمانوں کی استعداد کامل هوتی گئی ویسے ویسے خداوند متعال دین اسلام اور اس کے احکام کو کامل کرتا گیا یہاں تک کہ حجة الوداع کے موقعہ پر اپنے رسولۖ کو تمام حاجیوں کے سامنے یہ اعلان کرنے کا حکم دیا

    ٫٫ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ،،

   یعنی جس جس کا میں مولا هوں اس اسکا یہ علی مولا هے ۔

جب رسولخدا صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم نے ایک لاکھ چوبیس ہزارحاجیوں میں علی مولا کی ولایت کا اعلان کر دیا تو اس وقت حکم پرور دگار نازل هوا

   الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا  (١)           

ترجمہ 

  یہی وجہ هے کہ اس سے پہلے اذان میں اشہد ان علیا ولی اللہ نہیں پڑھا گیا مگر جب علی  کی ولایت کے اعلان کا حکم نازل هوگیا تو موذن اسلام نے بھی اسے اذان میں پڑھ دیا اور پھر رسول خدا ۖ نے اس روکا ہی نہیں بلکہ اس کی تا ئید بھی فرما دی جیسا کہ اہل سنت بھائیوں کے ایک بہت بڑے عالم ،علامہ مراغی نے ان روایات کو اپنی کتاب میں نقل کیا هے ۔

دوسرا سوال کسی شیعہ کتاب میں یہ نہیں ملتا کہ امام زمانہ کی غیبت سے پہلے شہادت ثالثہ عام طور پر اذان میں پڑھی جاتی هو ؟

جوابشہادت ثالثہ کے اذان میں اعلانیہ طور پر پڑھے جانے کی باقاعدہ تاریخ معلوم نہیں هے اور اس کی کئی ایک وجوہات هوسکتی ہیں

 ١۔ اس زمانہ کے اکثر مورخین کا شیعیان علی علیہ السلام سے بغض وعناد  ۔ 

 ٢۔اس زمانہ کے ظالم حکمرانوں کا بغض علی  کی خاطر اس مقدس گواہی کے نقل کرنے پر سزادیناجیسا کہ ٥٤٣ھ میں حلب کے حکمران محمود زنکی نے اذان میں اشہد ان علیا ولی اللہ اورحی علی خیر العمل سے روکا اور اس کے پڑھنے والے کومینار سے نیچے پھینکنے کا حکم صادر کیا ۔(المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار ٣٢٢٦.)

  اور اسی طرح جب صلاح الدین ایوبی نے مصر پر قبضہ کیا تو اذان میں شہادت ثالثہ اور حی علی خیرالعمل سے روک دیا ۔(المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار ٣٢٢٧.)  

٣۔ممکن هے کہ ایسی روایات ذکر تو هوئی هوں مگر ہم تک نہ پہنچی هوں اوردلیل خاص کا ہم تک نہ پہنچنا یہ اس کے نہ هونے یا کسی شے کے حرام هونے کی دلیل نہیں هوسکتا ۔

  اور پھر اس زمانہ میں شیعوں کی کونسی مساجد تھیں جہاں سے اذان کی آواز توبلند هوتی هو مگر اس میں شہادت ثالثہ کی مقدس گواہی نہ دی جاتی هو ؟البتہ صدر اسلام ہی سے اذان میں اس مقدس گواہی کا اعلان کیا جاتا رہا لیکن رمز کی صورت میں، جسے منافقین بھی جانتے تھے اور یہی چیز باعث بنی کہ انهوں نے رسول خداۖ کے بعد یہ بہانہ بنا کر کہ کہیں اس جملہ کی وجہ سے مسلمان جہاد میں سستی نہ کرنے لگ جائیں اسے اذان سے نکال دیا جیساکہ روایت میں ذکر هوا هے

  سئل ابوالحسن علیہ السلام عن حی علی خیرالعمل لم ترکت من الاذان قال  ترید العلة الظاہرة او الباطنة ؟قیل  اریدھما جمیعا ، فقال اما العلة الظاہرة فلئلا یدع الناس الجھاد اتکالا علی الصلاة ۔ واما الباطنة فان خیرالعمل الولایة فاراد من امر بترک حی علی خیر العمل من الاذان ان لا یقع حث علیھاودعاء الیھا ۔(وسائل الشیعہ ٥٤٢٠، ابواب الأذان والاقامت،ح١٦.) 

ترجمہ امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کس لئے اذان سے حی علی خیر العمل کو نکال دیا گیا ؟ آپ  نے فرمایا اس کی ظاہری وجہ پوچھنا چاہتے هو یا باطنی ؟ عرض کیا گیا  دونوں ، فرمایا  اس کی ظاہری وجہ یہ تھی کہ لوگ نماز پر بھروسہ کرتے هوئے جہاد کو نہ ترک دیں ، اور باطنی وجہ یہ تھی کہ چونکہ خیرالعمل سے مراد ولایت هے تو اس کا مقصد یہ تھا کہ اسے اذان سے نکال کر لوگوں کو ولایت سے روکا جا سکے ۔ 

  اور پھر امام صادق علیہ السلام کے اس عمومی فرمان ٫٫من قال لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ فلیقل علی ولی اللہ ،،سے بھی یہی معلوم هوتا هے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام اور ان کے پیرو کارجہاں تقیہ کا مقام نہ هوتا وہاں اس گواہی کا برملا اظہار کرتے رہتے تھے جیسا کہ بعض اوقات تقیہ کی وجہ سے حی علی خیر العمل کو بھی چھوڑ دیا جاتا جسے شیخ صدوق نے بھی ذکر کیا۔(کتاب التوحید٢٣٨، باب ٣٤.)اسی شیخ محمد رضا نجف اپنی کتاب ( العدة النجفیہ جو لمعہ کی شرح هے )میں لکھتے ہیں اذان میں شہادت ثالثہ کے نہپڑھے جانے کاراز تقیہ هے ۔

  یہاں تک کہ اوائل غیبت کبری میں یہ جملہ اذان میں رائج هو چکا تھا اور اس کی دلیل اس زمانہ کی کتب میں شہادت ثالثہ کا ذکر هونا هے ورنہ علماء کا اسے اپنی کتب میں ذکر کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ 

  ٣٤٧ھ میں حلب میں اعلانیہ طور پر امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت کی گواہی دی جاتی ۔(المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار ٣٢٢٦.)یہاں تک کہ محمود زنکی نے اس سے روک دیا، یا مصر میں صلاح الدین ایوبی کا اس سے منع کرنا ۔اسی طرح چوتھی صدی ہجری میں بھی پڑھا جاتا رہا جیسا کہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اس کا تذکرہ کیا هے (من لا یحضرہ الفقیہ ١١٨٩.)   ُُِِ پانچویں صدی ہجری میں ترکی کے ایک شہر (مَبافارقین )سے کچھ لوگوں نے سید مرتضی علیہ الرحمة کو ایک خط لکھا جس میں کچھ عقادی اور فقہی سوالات کے جوابات طلب کئے ، ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ کیا اذان میں علی علیہ السلام کے خیرالبشر هونے کی گواہی دینا جائز هے ؟ تو انهوں نے جواب میں فرمایا ہا ں جائز هے ( مسائل مبافارقینات  ٢٥٧،یہ رسالہ جواہر الفقہ کے ساتھ چھپا هے. )  اور یہ بات اس زمانہ میں اس شہر میں شہادت ثالثہ کے پڑھے جانے کی علامت هے ورنہ سوال کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔   

  ٩٠٧ھ میں سلجوقیوں کے زوال کے بعد دوبارہ ایران میں شہادت ثالثہ میناروں سے بلند هونے لگی ( احسن التواریخ ٦١ ،حوادث سال ٩٠٧ھ.) اور علامہ مجلسی جو کہ گیارهویں صدی ہجری میں گذرے ہیں وہ شہادت ثالثہ کے بارے میں فرماتے ہیں ((عمل الشیعة کان علیہ فی قدیم الزمان وحدیثہ )) شیعہ زمانہ قدیم سے اس پر عمل کرتے چلے آرهے ہیں ۔(روضة المتقین ٢   ٢٤٥.)         

  لیکن جب تشیع کو عروج حاصل هوا اور خوف باقی نہ رہ گیا تو شہادت ثالثہ کا پرچار باقاعدہ طور پر مساجد کے میناروں سے هونے لگا یہاں تک کہ اوائل غیبت یعنی شیخ صدوق علیہ الرحمة کے زمانہ میں اذان میں یہ جملہ رائج هو چکا تھا اور اس کی دلیل شہادت ثالثہ کا اس زمانہ کی کتب میں ذکر هونا هے   جو خود اس دور میں اس کے شائع ورائج هونے کی دلیل هے ورنہ فقہاء کا اسے ذکر کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔

تیسرا سوالکیا شیخ صدوق علیہ الرحمة نے شہادت ثالثہ پڑھنے والوں کومفوضہ نہیں کہا هے ؟   

 جواب اولا تو شیخ صدوق علیہ الرحمة نے تمام شہادت ثالثہ پڑھنے والوں کو مفوضہ نہیں کہا بلکہ ان کی مراد وہ لوگ ہیں جو اذان میں جزء کی نیت سے پڑھتے ہیں جبکہ تمامفقہاء کا نظریہ یہ هے کہ شہادت ثالثہ اذان کا جزء نہیں هے پس شیخ صدوق کا یہ قول شیعہ فقہاء کے بارے میں نہیں هے ۔ اور اسے مان بھی لیا جائے تب بھی ان کا شہادت ثالثہ کے راویوں کو مفوضہ یا غالی کہنا یہ روایت نہیں هے بلکہ اسے درایت کہتے ہیں اور جس کی پیروی کرنا لازم هے وہ ثقہ افراد کی روایت هے نہ کہ ان کی درایت ،جیسا کہ صاحبان علم اس حقیقت سے آشنا ہیں ۔

  پس ہم شیخ صدوق علیہ الرحمة کی اس بات کو تو قبول کریں گے کہ شہادت ثالثہ کے بارے میں ہم تک روایات پہنچی ہیں لیکن ان کی اس بات کو قبول نہیں کریں گے کہ ان روایات کے راوی غالی یا مفوضہ ہیں اس لئے کہ انهوں نے نہ تو ان راویوں میں سے کسی ایک کا نام ذکر کیا هے اور نہ ہی ان کو مفوضہ کہنے کی دلیل بیان فرمائی هے لہذا اصل مسئلہ نظریات میں سے هے نہ کہ بدیھیات میں سے،اور بدیہیات کو قبول کرنا ضروری هوتا هے جبکہ نظریات میں ایک شخص کا نظریہ دوسرے کے لئے حجت نہیں هوتا هے ۔ 

ثانیا ممکن هے کہ وہ راوی عصمت نبیۖ و معصومین کے قائل هوں اس وجہ سے شیخ صدوق نے انہیں مفوضہ کہا هو چونکہ وہ خود سهو نبی کے قائل تھے۔

  بہر حال شیخ صدوق ، شیخ طوسی، فاضل اور شہید ثانی وغیرہ سے شہادت ثالثہ کے جواز کے بارے میں جو روایات نقل هوئی ہیں وہی درست اور مسلم ہیں اور قرآن وسنت اور اجماع و عقل کے مخالف بھی نہیں ہیں بلکہ ان کی تائید ان روایات سے بھی هو جاتی هے جو شیعہ و اہل سنت کتب میں ذکر هوئی ہیں ۔          

 چوتھا سوالکیا یہ صحیح نہیں هے کہ اذان توقیفی عبادت هے تو پھراس کے اندر شہادت ثالثہ کا اضافہ کرنا بدعت شمار نہیں هو گا ؟

جواب اصل احکام خداوندی توقیفی ہیں یعنی ان میںحکم شریعت کے بغیر کسی قسم کی تبدیلی کرنا جائز نہیں هے اگر اس نے کسی حکم کو واجب قرار دیا تو اسے مستحب نہیں کہہ سکتے اور اگر مستحب کہا تو اسے مکروہ یا حرام نہیں کہہ سکتے جیسا کہہ ارشاد خداوندی هے

            ( ان الحکم الا للہ امر ان لا تعبدوا الا ایاہ  )()

ترجمہ

خداوند متعال نے تمام احکام شریعت کو قرآن میں بیان فرمادیا اورجنہیں بیان نہیں فرمایا ان کا علم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرما دیا اور ہمیں ان سے وہ احکام لینے کاحکم صادر فرمای       ( وما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فنتھوا )()

ترجمہ

  رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید میں اجمالی طور پر بیان کئے گئے احکام کی تفصیل بیان فرمائی جنہیں فریضہ میں سنت کہا جاتا هے جیسے قرآن نے نماز کا حکم دیا مگر اس کی رکعات رسول خداۖ نے بیان فرمائیں یہ ایسے احکام ہیں جن میں تبدیلی جائز نہیں هے ۔اورایسے احکام جنہیں قرآن میں صراحت کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا بلکہ رسول اکرمۖ نے اسے بیان فرمایا ان احکام کو غیر فریضہ میں سنت کہا جاتا هے جیسے مستحبات وغیرہ ہیں امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں

  ٫٫ السنة سنتان ، سنة فی فریضة الاخذ بھا ھدی وترکھا ضلالة وسنة فی غیر فریضة الاخذبھا فضیلة وترکھا الی غیر خطیئة ،، (فصل الخطاب)

سنت دو طرح کی هے ایک فریضہ میں سنت هے جس پر عمل کرناہدایت کا موجب بنتا هے اور اس کا ترک کرنا گمراہی کا باعث هے اور دوسری غیر فریضہ میں سنت هے جس پر عمل کرنا فضیلت کا  باعث هے اور اس کا ترک کرنا گناہ نہیں هے ۔

  اب اذان کے بارے میں قرآن میں کوئی واضح حکم نازل نہیں هوابلکہ یہ سنت پیغمبر ۖ هے جسے آنحضرتۖ نے نماز سے پہلے مستحب قرار دیا هے تو اب اس غیر فریضہ کے اندر کسی دوسری سنت کا ادا کرنا فضیلت و ثواب کا باعث بنے گا ۔

 پانچواں سوال کیا قرآن میں شہادت ثالثہ کے جواز پر کوئی دلیل موجود هے ؟   

جواب جیسا کہ عرض کیا گیا کہ قرآن مجید میں کہیں پہ نماز سے پہلے خوداذان کا واضح حکم نازل نہیں هوا چہ جائیکہ اس میں پڑھے جانے والے جملات کا تذکرہ هو ۔

  جب خود اذان کے بارے میںقرآن کے اندر واضح دلیل نہیں ملتی تو پھر اس کے اندر پڑھے جانے والے جملات کے بارے میں قرآن سے دلیل طلب کرنا کوئی عقلی بات نہیں هو گی، البتہ شہا دت ثالثہ کے حق هونے کو ہم قرآن سے ثابت کر چکے ہیں رہ گیا مسئلہ اس کے اذان میں جائز هونے کا تو جب اذان کے اندر عام گفتگو کرنا جائز هے تو پھر اس جملے کے بارے میں بھی کہیں نہی نہیں کی گئی پس یہ بھی جائز هو گا ۔  

  اب جب اس کا جائز هونا تمام مذاہب کے نزدیک ثابت هے تو پھر ان روایات کے ذریعہ سے جو آئمہ معصومین علیہم السلام سے نقل هوئی ہیں خود بخود اس کا استحباب ثابت هو جائے گا ۔

 چھٹا سوالکیا شہادت ثالثہ اذان کی فصول میں موالات کے لئے مانع نہیں بنتی ؟

 جواب ایسے امور اذان کی فصول میں موالات کے لئے مانع نہیں بنتے بلکہ وہ امور جو اذان کی شکل و صورت بگاڑ دیں وہ اذان میں خلل کا باعث بنتے ہیں جیسے طولانی سکوت یا کلام آدمی وغیرہ ، جبکہ شہادت ثالثہ سے نہ تو اذان میں خلل واقع هوتا هے اور نہ ہی اس کی صورت میں تبدیلی لازم آتی هے بلکہ اس کا وہی حکم هے جو رسالت کی گواہی کے بعد صلوات پڑھنے کا هے ۔جیسا کہ علامہ طباطبائی نے بھی یہی فرمایاهے۔

ساتواں سوال چونکہ جاہل لوگ شہادت ثالثہ کو اذان کا جزء سمجھتے ہیں جو کہ جائز نہیں هے لہذابہتر یہی هے کہ اس کے پڑھنے سے اجتناب کیا جائے تا کہ جاہل گناہ کے مرتکب نہ هو ں ؟

جوابجاہل کا کسی حکم سے آشنا نہ هونا ، حکم شر عی میں تبدیلی یا اس کے ترک کر دینے کا باعث نہیں بنتا، چاهے جہلاء کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ هو اور زمانہ پیغمبر ۖ سے لے کرآج تک مسلمانوں کا یہی طریقہ کار رہا هے کہ وہ جاہل کے توہم کو مد نظر رکھے بغیر شرعی اعمال کو انجام دیتے چلے آرهے ہیں ورنہ آج دنیا میں کتنے لوگ ایسے ہیں جودشمن کے پروپیگنڈوںکی وجہ سے اسلام کو دہشت گرد، دین تصور کرتے ہیں اور اس کا سبب یقینا ان کا دین مبین اسلام کے نورانی احکام اور اس کے مبانی سے نا آشنائی اور جہالت هے تو پھر کیا ہمیں اسلام ہی چھوڑ دینا چاہئے تا کہ جاہل لوگ گناہ سے بچ سکیں یا یہ کہ انہیں اسلام کے عقائد و مبانی سے آگاہ کرنا چاہئے ، ولایت علی کے دشمن بھی چونکہ اس آواز کو اپنی ناکامی سمجھتے ہیں جیسا کہ خداوند متعال نے منافقین کا تعارف کراتے هوئے فرمای  یحسبون کل صیحة علیہم (سورہ منافقون ٤.)  یہ ہر فریاد کو اپنے خلاف  سمجھتے ہیں.

  خدا وند متعال مومنین کرام کو ایسے بد طینت منافقوں کے شر سے محفوظ رکھے جنھیں نہ تو خوف خدا هے اور نہ روز قیامت کا ڈر۔

  طبع اللہ علی قلوبھم فھم لا یعلمون    (سورہ توبہ ٩٣.)

  خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی هے تو اب کچھ نہیں سمجھ رهے ہیں۔

 آٹھواں سوال شہادت ثالثہ کے بارے میں نقل کی گئی تمام تر روایات شاذہیں تو پھر ان سے شہادت ثالثہ کے استحباب کو کیسے ثابت کیا جا سکتا هے ؟ 

جوابروایات کا شاذ هونا ان کے اسحباب پر دلالت کرنے میں مانع نہیں بن سکتا جیسا کہ ملا احمد نراقی فرماتے ہیں

  ((و شذوذ اخبارھا لا یمنع عن اثبات السنن بھا کیف وتراھم کثیرایجیبون عن الاخبار بالشذوذ فیحملونھاعلی الاستحباب ))(مستند الشیعہ)

 اور روایات کا شاذ هونا مستحبات کے اثبات میں مانع نہیں بن سکتا ،اور کیسے ممکن هے جبکہ آپ دیکھ رهے ہیں کہ فقھاء اکثر شاذ روایات کے ذریعہ جواب دیتے ہیں اور انہیں استحباب پر اطلاق کرتے ہیں ۔          

  شیخ صدوق نے بھی صحیحہ ابن یقطین کو استحباب پر حمل کیاهے جبکہ یہ روایت شاذهے (تہذیب الاحکام ٢٢٨٩ ،حدیث١١٠٩؛استبصار  ١  ٣٠٣ ، حدیث ١١٢٥؛)     

  لہذا فقہاء ہمیشہ روایات شاذ کو استحباب پر حمل کرتے ہیں پس اس اعتبار سے یہ اعتراض شہادت ثالثہ کے اذان و اقامت میں مستحب هونے پر درست نہیں هو گا ۔

نواں سوال   بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اذان میں أشھد أنّ علیا ولی اللہ بعد میں ایجاد هو ا لہذابدعت اور حرام قرار پائے گا جیسا کہ مولانا محمد حسین ڈھکو نے بھی لکھا؟  

جواب ١ اذان میں أشھد أنّ علیّا ولی اللہ خود زمانہ رسالت میں بھی پڑھا جاتا رہا جیسا کہ ہم نے اہل سنت کی روایات کو ذکر کیا هے ۔

٢۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ جملہ بعد میں اذان میں شروع هوا پھربھی اسے بدعت اور حرام کہنا فقہی احکام سے نا آشنائی کی علامت هے اسلیے کہ شریعت اسلام میں ہر نئی چیز کو بدعت نہیں کہاجاتا بلکہ ایسی چیز جسے ایجاد کر کے شریعت کی طرف نسبت دی جائے اور اس پر دلیل خاص یا دلیل عام بھی موجود نہ هو . جبکہ شھادت ثالثہ بذات خود مستحب هے اوراس پر کئی ایک ادلہ عامہ موجود ہیں جن میں سے چند ایک کو ہم نے روایات کی فصل میں ذکر کر دیا هے۔.  

 (وسائل الشیعة ٤٦٥٦، حدیث٤.)

  اور پھر شیعہ فقہاء میں سے کوئی بھی اس کے اذان کا جزو هونے کا قائل نہیں هے تاکہ اسے بدعت کہا جا سکے البتہ الصلاة خیر من النوم پر بدعت کا اطلاق صحیح هو گا اس لئے کہ اولا تو اس کے بارے میں کوئی دلیل نہ هونے کے ساتھ ساتھ آئمہ علیہم السلام نے اس سے نہی فرمائی هے اور پھر اہل سنت اسے صبح کی اذان کا جزو سمجھتے ہیں جو شریعت کی طرف نسبت دینا هے ۔

٣۔اگر آپ کی بات کو تسلیم کر بھی لیا جائے پھر بھی یہ جملہ بالکلخاک کربلا پر سجدہ کے مانند هے جیسا کہ رسالت مآبۖ کے زمانہ میں خاک کربلا پر سجدہ نہیں کیا جاتا تھا لیکن چونکہ خود زمین پر سجدہ کرنا افضل هے اورپھر خاک کربلا کی فضیلت بھی واضح هے تو اس اعتبار سے اس پر سجدہ کرنا عام زمین سے زیادہ افضل هو گا. یہی وجہ هے کہ آج تک کسی بھی مجتہد یا عالم نے اس کے بدعت یا حرام هونے کا فتویٰ نہیں دیاجبکہ زمانہ پیغمبرۖ میں اس طرح کا عمل موجود نہیں تھا .

دسواں سوال  مولانا محمد حسین ڈھکو کی علمی صلاحیت کے بارے میں علماء کا کیا موقف هے ؟  

جواب  ہم یہاں پر ان کی علمی صلاحیت کے بارے میں چند ایک علماء کے اقوال اور پھر ان کی کتب میں سے ان کے کچھ علمی و تحقیقی نمونے بیان کر رهے ہیں جس سے اہل علم حضرات پر یہ واضح هو جائے گا کہ وہ کس قدر مرد علم ہیں ؟

١۔مولانا موصوف نے اپنے ماہنامہ دقائق الاسلام مارچ ٢٠٠٧ء میں لکھاهے کہ مرجع تقلید جہان حضرت آیت اللہ حافظ بشیر حسین نجفی دام ظلہ العالی نے اصلاح الرسوم میں موجود عقائد کو پڑھنے کے بعد یہ فتویٰ دیا هے کہ اس کتاب کے اندر موجود عقائد کا شیعہ مذہب سے کوئی تعلق نہیں هے .

٢۔ آیت اللہ مدرس یزدی حفظہ اللہ سے جب بندہ حقیر نے چند طالب علموں کی موجودگی میں سوال کیا کہ کیا یہ خبر صحیح هے کہ آپ نے محمد حسین ڈھکو کی اقتدا میں نماز پڑھی هے توانهوں نے فرمایا 

  ٫٫ یہ بالکل جھوٹ هے اور کس نے کہا هے کہ وہ عالم هے وہ تو جاہل بے سواد هے،،

٣۔ مولانا ضیغم عباس میرانی صاحب نے ٢٠٠٨ء میں جامعة المصطفیٰ العالمیة کی مسجد میں مجھے یہ واقعہ نقل کرتے هوئے بتایا کہ ایک مرتبہ میں نے مولانا انیس خان صاحب سے کہا کہ آپ تو فقہ و اصول میں تخصص کر چکے ہیں پھر کیسے محمد حسین ڈھکو کی حمایت کرتے هو ؟

  تو انهوں نے جواب میں کہا  ایک دن میں نے اپنے فقہ واصول کے استاد کو قوانین الشریعة کی کچھ عبارت پڑھ کر سنائی تو استاد نے فرمایا  یہ شخص تو فقہ و اصو ل کی الف باء سے بھی آشنا نہیں هے۔

  ضیغم صاحب کہتے ہیں  میں نے کہا پھر آپ کیوں اس کے پیچھے پڑے هوئے ہیں تو کہنے لگے  تو پھر پاکستان میں جا کر ہم کس کا سہارا لیں؟

  یہ هے محمد حسین ڈھکو کا علمی مقام ان کے اپنے چاہنے والوں کے نزدیک۔

٤۔ مولانا موصوف نے تشہد میں شہادت ثالثہ کے قائلین کو ردکرنے کی خاطر حضرت آیت اللہ رضا استادی امام جمعہ قم کی طرف جھوٹی نسبت دیتے هوئے لکھاهے

  آقائے رضا استادی نے اپنے مخصوص رسالہ ٫٫تحقیقی پیرامون کتاب فقہ الرضا،، طبع ایران میں جو اسی کتاب کے بارے میں تالیف کیا هے ثابت کیا هے کہ یہ کتاب در اصل مشهور بد عقیدہ آدمی شلمغانی کا رسالہ هے ۔(اصلاح الرسوم ١٠٧.)

  جبکہ انهوں نے اس کتاب کے بارے میں دس اقوال نقل کرنے کے بعد لکھاهے

پیشنھاد  بسیار بجا است کہ کتاب ((فقہ الرضا)) بر اساس نسخہ ھای آن کہ شایدقدیمی ترین آنھا ھمان نسخہ کتابخانہ آستان قدس رضوی باشد بااسلوب جدید وفنی تجدید چاپ ودر دسترس فقہاء و فضلاء گیرد و واضح است کہ این کار برای روشن شدن وضع خود کتاب ھم کمک بسیار مؤثری خواھد بود.   

  ایک تجویزبہت اچھا هے کہ کتاب فقہ الرضا کو قدیمی  ترین نسخوں کے مطابق جو شاید آستان قدس رضوی کے کتاب خانہ والا نسخہ هو ، جدید اور فنی طرز پر چھپواکر فقہاء کے سامنے پیش کیا جائے . واضح هے کہ یہ کام کتاب کی نسبت کے مشخص هونے میں بہت مؤثر هو گا. (چہل مقالہ ٢٢.)   

ٍٍ٥۔مولانا موصوف اپنی کتاب اصلاح الرسوم میں لکھتے ہیں

٫٫قل خوانی ، تیجہ ، دسویں ، چالیسواں ، چھ ماہی ،برسی....... ہم نے پوری دیانتداری کے ساتھ پورے گلشن شریعت کی سیر کی هے ۔ تمام اسلامی مکتبہ ہائے فکر کی مذہبی کتابیں دیکھی پڑھی ہیں مگر ہم یہ اقرار کرنے میں ذرّہ بھر خجالت محسوس نہیں کرتے کہ ہمیں اس سلسلہ میں رائی کے دانہ برابر بھی کوئی چیز نہیں ملی !پھر یہ رسم کہاں سے آئی ؟ ( اصلاح الرسوم ٢٦٥. )

  افسوس هے ایسے شخص کو مجتہد کہنے والوں پر جسے فقہ کے عمومی قواعد سے بھی آشنائی نہیں !اس لیے کہ فقہ واصول کا ابتدائی طالب علم بھی اتنا تو جانتا هے کہ رسم و رواج میں دلیل کی ضرورت نہیں هوتی بلکہ ان کا شریعت مقدس اسلام کے قوانین کے مخالف نہ هونا ہی دلیل شمار هوتا هے چونکہ ان میں اصل اصالة الاباحة یعنی ان کا جائزهوناهے۔

ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ مولانا ڈھکو کے اخلاق کی جھلکیاں

علماء کرام اور مراجع عظام کی یہ صفت رہی هے کہ وہ اخلاق کے عالی مراتب پر فائز هوتے ہیں یہاں تک کہ کسی شخص یا ذات کو مشخص کر کے فتوٰی دینے سے بھی پرہیز کرتے ہیں مگر یہ کہ کوئی شخص اعلانیہ طور پر دین اسلام کو نقصان پہنچا رہا هو جبکہ مدعیان اجتہاد میں یہ صفت بہت کم دکھائی دیتی هے چاهے وہ پہلے دور کے خالصی کو دیکھ لیں یا اس دور کے اپنی زبانی مجتہد کہلوانے کے شائقین حضرات ۔ یہ لوگ مجتہدین کرام سے خائف رہتے ہیں لہذا جب کسی بات کا جواب نہیں دے پاتے تو ان کی مخالفت پر اتر آتے ہیں یہی کام خالصی ملعون نے بھی کیا کہ نجف اشرف کے تمام ترعلماء اور بالخصوص آیت اللہ العظمٰی سید محسن حکیم اعلی اللہ مقامہ الشریف  کی مخالفت میں گذار دی او راس کے بعد اسی دشمن اہل بیت کا قصیدہ پڑھنے والے محمد حسین ڈھکو نے یہی روش اپنائی کبھی آیت اللہ العظمٰی حافظ بشیر حسین نجفی دام ظلہ العالی کے خلاف زبان دراز کی تو کبھی قم و نجف کے دیگر مراجع کے خلاف کیچڑ اچھالا ۔یہاں تک کہ اس کے قریبی ترین افراد بھی اس کی زبان دراز ی سے محفوظ نہ رہ سکے ۔یہاں پر مجھے علاّمہ اختر عباس صاحب کا ایک جملہ یاد آرہا هے کہ جب قم المقدّسہ سے کچھ طالب علم ان کی خدمت میں پہنچے اور مولانا ڈھکو کی زبان درازی کی شکایت کی تو انهوں نے فرمای

٫٫میں نے تو اس سے کہا هے کہ نہ تیری زبان میں تہذیب هے اور نہ ہی قلم میں،بس یہ کام چھوڑ دے،، ِِ( حضرت جی کے اخلاق سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے انہی کے قریبی ساتھی مولانا اقرار حسین کاظمی صاحب کی کتاب٫٫ هو جاؤ سچوں کے ساتھ ،، کا مطالعہ فرمائیں تاکہ یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے کہ طاہر اعوان نے اپنی کتاب ٫٫ مرد علم میدان عمل میں،، میں کس قدر خیانت سے کام لیا هے ۔خدا جھوٹے کو ذلیل کرے ۔)

  ہم یہاں پر مولانا ڈھکو کے اخلاق کی چند ایک جھلکیاں بیان کررهے ہیں تاکہ اہل انصاف پر حقیقت عیاں هو جائے 

١۔ مولانا صاحب کا یہ جملہ مشهور هے کہ

    ٫٫بدنام جو هوں گے تو کیا نام نہ هوگا،،

ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ اسلام کے لئے کام کررهے ہیں یا نام کی جنگ لڑ رهے ہیں اس لئے کہ دین و مذہب کی خاطر زحمتیں اُٹھانے والوں کی سیرت تو آپ سے بالکل جدا نظر آتی هے انهوں اپنی ذات کو کبھی سامنے لانے کی کوشش ہی نہ کی اوراگر کوئی ان کی بڑھائی کی خاطر کسی دوسرے کی نفی کرنے لگتا تو اسے سختی سے ڈانٹ دیتے جیسا کہ ایک مرتبہ ان کے وکیل اور کسی دوسرے مجتہد کے وکیل میں بحث و گفتگو چھڑ گئی  ہر ایک اپنے مجتہد کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن  جب آیت اللہ العظمٰی سید محسن حکیم قدّس سرّہ کو اس کی خبر ملی تو انهوں اپنے وکیل کو بلاکر کہ

٫٫ادفن الحکیم وارفع الاسلام ،،   حکیم کو دفن کردو اور اسلام کوبلند کرو ۔

  جبکہ ڈھکو صاحب اپنے کو بانیان اسلام کے برابر لانے اور ذات کی برتری کی ناکام کوششوں میں مشغول ہیں اس کے لئے مرد علم میدان عمل کا بغور مطالعہ فرمائیے۔

٢۔مولانا صاحب اخلاق اس پست درجے پر پہنچ گئے ہیں کہ اپنی ذات کو بچانے کی خاطر جھوٹ تک بولنے اور دوسروں پر تہمت لگانے سے بھی پرہیز نہیں کرتے جیسا کہ آیت اللہ رضا استادی دام ظلہ العالی کی طرف جھوٹی نسبت دی یا یہ کہ اپنے ہی چاہنے والے شخص سید سبطین شاہ صاحب نے جب سوال کیا کہ آپ خمس نہیں مانتے تو اپنی ذات کو بچانے کی خاطر کہہ دیا کہ مسلمانوں کے دو فرقوں میں سے ایک اہل سنّت تو خمس کو مانتے بھی نہیں ہیں جبکہ یہ واضح جھوٹ هے اس لئے کہ ان کی کتب کے اندر خمس کے نام پر ابواب موجود ہیں جیسا کہ صحیح بخاری ایک پورا باب اسی موضوع پر هے ٫٫  باب أداء الخمس من الایمان ،،۔

٣۔ عوام کے مجمعوں میں ٫٫ کون هے مائی کا لال جو میرے سامنے آئے ،، کا کھوکھلا نعرے لگا تے  ہیںجبکہ علماء کے سامنے آنے سے کتراتے ہیں جو ایمان کی کمی اور جھوٹے پن کی واضح علامت هے ۔وہ جھوٹ جس کے بارے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ زنا سے بھی بد تر هے ۔ شرم تجھ کو آتی نہیں مگر      

٤۔ عوام کی اصلاح کے بجائے ان کا مقابلہ کرنا اور ہمیشہ علمی مراکز کی طرف رجوع کرنے کا حکم دینے والے کا آج انہیں مراکز اور انہیں علماء و مراجع کے پاس نہ جانا اس فرمان خدا وندی کی واضح مخالفت کرنا هے جس میں یہ فرمای

  لم تقولون ما لا تفعلون           

ایسے کا م کا حکم دوسروں کو مت دو جو خود نہیں کرتے هو ۔

٥۔ راہ اسلام میں شہید هونے والے عا لم دین مولانا اثیر جاڑوی اعلی اللہ مقامہ کو ان کی شہادت کے بعد بھی نہ چھوڑنا جبکہ اسلام مرنے والوں کو برے لفظوں میں یا دکرنے کی نہی فرما رہا هے البتہ یہ کوئی نئی بات نہیں هے اس لئے کہ مولانا صاحب کی زبان اس قدر دراز هے کہ انہیں پیغمبر  ۖاور امام سجاد علیہ السلام کی توہین کرنے میں بھی کوئی شرم نہ تو باقی افراد کے بارے میں کیسے ان سے نیکی کی امید رکھی جاسکتی هے ۔

  خدا وند متعال انہیں ان اخلاقی بیماریوں سے نجات دے ورنہ وہی حشر هو جو خالصی کا هوا ۔

  نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم              نہ ادھر کے رهے نہ ادھر کے رهے 

خسر الدّنیا والآخرة  ۔     

 کھلا چیلنج

ھاتو ا برھانکم ان کنتم صادقین

ہم مولانا محمد حسین صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ببانگ دہل یہ اعلان کر رهے ہیں کہ اگر تم واقعا اپنے کو مجتہد سمجھتے هو تو پھر اپنے ہی علاقے کے مندرجہ ذیل علماء میں سے پانچ سے تائید لے کر اپنے ہی رسالے دقائق الاسلام میں شائع کر دو تاکہ آپ کے مخالفین پر اتمام حجت هو جائے ورنہ...۔   

١۔ آیت اللہ العظمٰی حافظ بشیر حسین نجفی صاحب دام ظلہ العالی

٢۔ قائد محترم علاّمہ سید ساجد علی نقوی صاحب دام ظلہ العالی

٣۔ علاّمہ حافظ سید ریاض حسین نجفی صاحب دام ظلہ العالی

 ٤۔ علاّمہ سید محمد تقی نقوی صاحب دام ظلہ العالی

٥۔ علاّمہ سید اعجاز حسین کاظمی صاحب دام ظلہ العالی 

٦۔علاّ مہ سید افتخار حسین نقوی صاحب دام ظلہ العالی

٧۔ علاّمہ شیخ محسن نجفی صاحب دام ظلہ العالی

٨۔ علاّمہ  ملک اعجاز حسین صاحب دام ظلہ العالی 

  ہمیں یقین هے کہ آپ یہ کام کبھی نہیںکریں گے، اس لئے کہ آپ کو معلوم هے کہ ان  صوبہ پنجاب کے ان علماء کرام میں سے ایک بھی آپ کے اجتہاد تو دور کی بات آپ کے اخلا ق کی بھی تائید نہیں کرے گا ۔   

ھمہ کارم ز خود کامی بہ بدنامی رسید آخر         نھان کی ماند آں رازی کزو سازند محفل ھا

      مولانا محمد حسین ڈھکو سے ہمارا سوال

 ١۔کیا یہ تمام مراجع عظام جو آ ج اذان میں ٫٫أشھد أن علیا ولی اللہ ،،پڑھ بھی رهے اور اسکے پڑھنے کا حکم بھی دے رهے ہیں یاتمام گذشتہ مراجع کرام کی بھی یہی سیرت رہی هے تو پھر کیا یہ سب بدعتی اور دین سے خارج هو چکے ہیں ( نعوذ باللہ من ذلک )جیسا کہ آپ کا نظریہ هے   

 ٢۔ اور اگر یہ بات درست هے تو روایات میں تو بدعت گذارسے دوری اور نفرت وبیزاری کا حکم دیاگیا هے پھر آپ کیسے ان کے پاس جانے کے لیے ان سے وقت طلب کرتے رهے البتہ یہ الگ بات هے کہ انهوں نے خود آپ کو بدعتی هونے کی وجہ سے اندر داخل هونے کی اجازت نہ دی۔ 

٣۔ اگر آپ کی یہ بات درست هے تو پھر آپ کا اپنے آباؤ واجداد ، اپنے مدرسہ کے طلاب اور اپنی سابقہ عباد ات کے بارے میں کیا نظریہ هے جو بدعت گذاری کے عالم میں بجا لائیں ؟ کیا آپ نے توبہ کر لی هے ؟یا آپ کے لیے حکم شریعت کی پیروی کرنا واجب نہیں هے ؟

آخر میں دعا گو هوں کہ خدا وند متعال مؤمنین کرام کو ایسے شہرت پسندعلماء کے منحرف افکار سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے جن کے قول و فعل میں واضح تضاد پایا جاتا هے۔

آمین یا ربّ العالمین بحق محمد وآلہ الطاہرین