یوسف قرآن – حصه دوم

( ٥٣ ) وَمَا أُبَرِّیئُ نَفْسِی إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّی إِنَّ رَبِّی غَفُورٌ رَّحِیمٌ

'' اور میں اپنے نفس کی صفائی پیش نہیں کرتا کیونکہ (انسانی) نفس برائی پر اکساتا ہے مگریہ کہ میرا پروردگار رحم کرے بے شک میرا پروردگار بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

قرآن مجید میں نفس کی مختلف حالتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں :

١۔ نفس امارہ: یہ نفس انسان کو برائی کی طرف لے جاتا ہے اگر عقل و ایمان کے ذریعہ لگام نہ لگائی جائے تو انسان یک بارگی ذلت و ہلاکت میں گر جائے گا ۔

٢۔ نفس لوّامہ : یہ وہ نفسانی حالت ہے جس کی بنیاد پر برائی کرنے والا انسان خود اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے ، تو بہ اورعذر خواہی کی طرف قدم بڑھاتا ہے، سورہ قیامت میں اس نفس کا تذکرہ ہے۔

٣۔ نفس مطمئنہ: یہ وہ نفسانی حالت ہے کہ جو انبیاء و اولیائے الٰہی اور ان کے حقیقی تریبت یافتہ افراد کو حاصل ہوتی ہے جس کی بنیاد پر وہ ہر وسوسے اور حادثے سے کامیاب و کامران پلٹتے ہیں ایسے افراد فقط خدا سے لو لگائے رہتے ہیں ۔

حضرت یوسف علیہ السلام اس امتحان میں اپنی سربلندی اور عدم خیانت کو خداوندعالم کے لطف کرم کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں اور ایک انسان ہونے کی بنیاد پر جس میں انسانی خصلت موجود ہے خود کو اس سے الگ نہیں سمجھ رہے ہیں۔

متعدد روایات میں نفس کے خطرات اور خود کو بری الذمہ قرار دینے نیز نفس سے راضی ہونے کا تذکرہ موجود ہے اپنے نفس سے راضی ہونے کو روایات میں عقل کا دیوانہ پن اور شیطان کا سب سے بڑا پھندہ قراردیا گیا ہے (١ )

--------------

( ١ ) غررالحکم .

پیام :

١۔ کبھی بھی اپنے آپ کو پاکباز اور خواہشات نفسانی سے محفوظ قرار نہیں دینا چاہیئے ۔ (وَمَا أُبَرِّیئُ نَفْسِی )

٢۔ شرط کمال یہ ہے کہ اگرچہ ساری دنیا اسے کامل سمجھ رہی ہو لیکن وہ شخص کبھی خود کو کامل نہ سمجھے ۔ حضرت یوسف (ع)کی داستان میں برادران یوسف ، عزیز مصر کی بیوی ، گواہ ، بادشاہ ، شیطان ، قیدی، سب کے سب آپکی پاکدامنی کی گواہی دے رہے ہیں لیکن آپ (ع)خود فرما رہے تھے کہ۔ (مَا أُبَرِّیئُ نَفْسِی )

٣۔ ہوا و ہوس اور نفس کا خطرہ بہت ہی خطرناک ہے اسے کھیل نہیں سمجھنا چاہیئے۔ ( إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَ بِالسُّوئِ)(١ )

٤۔ انبیاء (ع)، معصوم ہونے کے باوجود انسانی فطری غرائز کے حامل ہیں۔ ( إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَ بِالسُّوئِ )

٥۔ نفس اپنی خواہشات کی باربار تکرار کرتا ہے تاکہ تمہیں مصیبت میں گرفتار کردے۔ (لَأَمَّارَ )

٦۔ اگر خداوندعالم کا لطف و کرم نہ ہو تو فطرت انسانی منفی امور کی طرف زیادہ میلان رکھتی ہے ۔(٢)( لَأَمَّارَ بِالسُّوئِ )

٧۔ فقط رحمت خداوندی ہی سرمایہ نجات ہے اگر انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ قعر ضلالت و گمراہی میں گر پڑے گا۔( إِلاَّ مَا رَحِم )

٨۔جناب یوسف (ع)خداوندعالم کی خاص تربیت کے زیر سایہ تھے لہٰذا کلمہ (رَبِّی) کی تکرار ہوئی ہے۔

٩۔ مربی کو رحمت اور مہربانی سے کام لینا چاہیئے ۔( إِنَّ رَبِّی غَفُورٌ رَحِیمٌ )

١٠۔ عفو و درگزر رحمت الٰہی تک پہنچنے کا مقدمہ ہے پہلے(غَفُور)فرمایا ہے بعد میں (رَحِیم)کا ذکر ہے۔

١١۔ تمام خطرات کے باوجود رحمت الٰہی سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ ( غَفُورٌ رَحِیمٌ )

--------------

( ١ ) آیہ شریفہ میں چار طریقوں سے تاکید کی گئی ہے ۔ إِنّ ۔ لام تاکید ۔ صیغہ مبالغہ۔ جملہ اسمیہ .

( ٢ ) امام سجاد علیہ السلام نے مناجات شاکین میں نفس کے لئے ١٥ پندرہ خطرے ذکر کئےے ہیں جن کی طرف توجہ رکھنا ضروری ہے .

( ٥٤ ) وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِہِ أَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِی فَلَمَّا کَلَّمَہُ قَالَ إِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَامَکِینٌ أَمِینٌ۔

'' اور بادشاہ نے کہا یوسف کو میرے پاس لے ، میں ان کو خاص طور سے (بطور مشاور) اپنے لئے رکھوں گا اس نے یوسف سے باتیں کیں تو (یوسف کی اعلی قابلیت ثابت ہوئی اور)اس نے کہا بے شک آج سے آپ ہمارے بااختیار امانتدار ہیں''۔

نکات :

کتاب ''لسان العرب'' میں ہے :جب بھی انسان کسی کو اپنا محرمِ راز اور اسے اپنے امور میں دخیل قرار دیتا ہے تو ایسی صورت میں (استخلصہ) کہا جاتا ہے ۔

جناب یوسف (ع)نے قید خانہ سے نکلتے وقت زندان کے دروازے پر چند جملے لکھے تھے جن میں آپ(ع) نے قید خانہ کی تصویر کشی کی ہے۔ھذا قبور الاحیاء ،بیت الاحزان، تجرب الاصدقاء و شماتہ الاعداء ۔(١) زندان؛ زندہ لوگوں کا قبرستان ، غم و الم

--------------

( ١ ) شماتت ،کسی کی تباہی و بربادی پر خوش ہونے کو کہتے ہیں .

کا گھر، دوستوں کو پرکھنے کی جگہ اور دشمنوں کے لئے خندہ زنی کا مقام ہے(١ )

بادشاہ کو جب حضرت یوسف (ع) کی امانت و صداقت پر یقین ہوجاتا ہے اور آپ(ع) میں شمہ برابر بھی خیانت نہیں پاتا تو آپ (ع)کو اپنے لئے چن لیتا ہے (غور کیجئے کہ) اگر خدا اپنے بندوں میں خیانت نہ پائے گا تو وہ کیا کرے گا!؟

یقینا ایسے افراد کو خدا اپنے لئے چن لے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں انبیاء (ع)کے لئے یہ جملے مذکور ہیں ۔

( و انا اخترتک فاستمع لما یوحی) (٢) ترجمہ: اور میں نے آپ (حضرت موسیٰ) کو منتخب کرلیا ہے لہٰذا جو وحی کی جارہی ہے اسے سنیں۔(واصطنعتک لنفسی)(٣) ترجمہ: اور میں نے آپ (حضرت موسیٰ) کو اپنے لئے اختیار کیا ہے۔

بادشاہ نے کلمہ ئ ''لدینا''سے یہ اعلان کیا کہ یوسف (ع)ہماری حکومت میں قدرومنزلت کے حامل ہیں، نہ کہ فقط ہمارے دل میں ۔لہٰذا تمام عہدہ دار افراد پر ان کی اطاعت ضروری ہے ۔

چونکہ حضرت یوسف کے لئے حکومت تقدیر الٰہی میں تھی، لہٰذا خداوند عالم نے آپ (ع)کو چند امتحانات میں مبتلا کیا تاکہ آپ (ع)کو تجربہ حاصل ہوجائے . بھائیوں کے مکر و فریب میں گرفتار کیا تاکہ صبرکریں ۔ آپ (ع)کو کنویں اور قید خانے میں ڈلوایا تاکہ کسی (بے گناہ) کو

--------------

( ١ ) تفسیر مجمع البیان .

( ٢ ) سورہ طہ آیت ١٣ .

( ٣ ) سورہ طہ آیت ٤١ .

کنویں اور قیدخانے میں نہ ڈالیں ۔

غلامی کی طرف کھینچا تاکہ غلاموں پر رحم کریں. زلیخا کے دام میں گرفتار کیا تاکہ جنسی مسائل کی اہمیت کو سمجھیں. بادشاہ کی مصاحبت میں رکھا تاکہ آپ (ع)کی تدبیر جلوہ نما ہو۔

پیام :

١۔ اگر خدا چاہے تو کل کے قیدی کو آج کا بادشاہ بنا سکتا ہے ۔ (قَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِہِ أَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِی )

٢۔ سربراہ مملکت کے خاص مشیروں کو باتقوی، با تدبیر، قوم کی فلاح و بہبودی کے لئے صحیح پروگرام بنانے کی صلاحیت رکھنے والے ، اور امانت دار ہونا چاہیئے ۔ (أَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِی... مَکِینٌ أَمِینٌ)حضرت یوسف (ع)میں یہ تمام صفات موجود تھیں۔

٣۔ جب تک انسان خاموش رہے اس وقت تک اس کے عیوب و کمالات مخفی رہتے ہیں ۔ ( فَلَمَّا کَلَّمَہُ قَالَ )

٤۔ انتخاب کرتے وقت حضوری گفتگو مفید ہے ( فَلَمَّا کَلَّمَہُ )

٥۔ اگر کسی پر اطمینان حاصل ہوجائے تو اسے اختیارات دے دینا چاہئے۔ (لَدَیْنَا مَکِینٌ أَمِینٌ )

٦۔ کافر و مشرک بھی معنوی کمالات سے لذت محسوس کرتے ہیں ''کمال''کو پسند کرنا ہر انسان کی فطرت میں موجود ہے ۔ (أَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِی )

٧بااختیار اور امانت دار ہونا دونوں بیک وقت ضروری ہیں(مَکِینٌ أَمِینٌ ) کیونکہ اگر کوئی امین ہو لیکن بااختیار نہ ہو تو بہت سے امور کو انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتا اور اگر بااختیار ہو اور امین نہ ہو تو بیت المال کو بے دریغ خرچ کردے گا (١ )

--------------

( ١ ) اسی بنا پر حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے ایک خط میں مصر کے گورنر مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : لوگوں کو پہچاننے اور کام کرنے والوں کا انتخاب کرنے کے بعد انہیں کافی مقدار میں حقوق دو۔ (اسبغ علیہم الارزاق) ،نہج البلاغہ مکتوب نمبر ٥٣ .

( ٥٥ ) قَالَ اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ .

'' یوسف نے کہا (جب آپ نے میری قدر دانی کی ہے تو) مجھے ملکی خزانوں پر مقرر کیجئے کیونکہ میں (اسکا ) امانت دار خزانچی (اور اس کے حساب کتاب سے بھی)واقف ہوں''۔

نکات :

سوال: حضرت یوسف علیہ السلام نے عہدہ کیوں مانگا ؟ بزبان دیگر جناب یوسف علیہ السلام نے ریاست طلبی کیوں کی؟

جواب: چونکہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر کے خواب سے لوگوں کے لئے خطرے کو محسوس کرلیا اور خود کو اس اقتصادی بحران سے نجات دلانے کے لائق سمجھ رہے

تھے لہٰذا اس نقصان سے بچانے کے لئے انہوں نے ایسے عہدے کو قبول کرنے کا اعلان کردیا ۔

سوال: حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی تعریف و توصیف کیوں کی ؟ جبکہ قرآن کا فرمان ہے کہ اپنی تعریف و تمجید نہ کرو۔(١ )

جواب: حضرت یوسف علیہ السلام اپنی ستائش کرکے اپنی قابلیت اور استعداد کی یاد دہانی کروا رہے تھے کہ میں عہدہ کو قبول کرنے کی قابلیت و صلاحیت رکھتا ہوں جس کی بنیاد پر قحط اور خشک سالی سے نجات دلائی جاسکتی ہے یہ ستائش تفاخر اور غلط فائدہ اٹھانے کے لئے نہ تھی۔

سوال:حضرت یوسف علیہ السلام نے کافر حکومت کا کیوں ہاتھ بٹایا ؟ جبکہ خداوندعالم نے اس سے روکا ہے (٢ )

جواب:حضرت یوسف علیہ السلام نے ظالم کی حمایت کرنے کے لئے اس عہدہ کو قبول نہیں فرمایا تھا بلکہ مخلوق خدا کو خشک سالی کی مصیبت سے نجات دلانے کے لئے ایسا قدم اٹھایا تھا حضرت یوسف (ع) نے ذرہ برابر بھی چاپلوسی نہیں کی ۔

تفسیر''فی ظلال القرآن'' کے بیان کے مطابق سیاستمدار افراد ایسے خطرات کے وقت قوم کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں لیکن حضرت یوسف (ع)پر ایسے وقت میں مخلوق

کی حفاظت لازم ہے۔

--------------

( ١ ) فلا تزکوا انفسکم سورہ نجم آیت ٣٢ .

( ٢ ) لا ترکنوا الی الذین ظلموا... سورہ ہود آیت ١١٣ .

علاوہ از این اگر ظالم حکومت کو سرنگوں کرنا اور اسکے نظام میں تغیر و تبدل لانا ممکن نہ ہو توجہاں تک ممکن ہو وہاں تک ظلم و انحرافات کا مقابلہ کرنا چاہیئے ۔اگرچہ کچھ امور مملکت کو قبول کرنا پڑے۔

تفسیر نمونہ میں ملتا ہے کہ ''قانونِ اہم و مہم کی رعایت'' عقل اور شرع میں ایک بنیادی چیز ہے ،مشرک حکومت کی حمایت کرنا جائز نہیں ہے لیکن ایک قوم کو قحط سے نجات دلانا ایک اہم کام ہے ۔ اس دلیل کی بنیاد پر ''تفسیرتبیان میں''ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے سیاسی عہدہ قبول نہیں کیا تاکہ ظالم کی مدد نہ ہوسکے اور نہ ہی کوئی دفاعی و نظامی ذمہ داری قبول فرمائی تاکہ کسی کا ناحق خون نہ بہنے پائے فقط اور فقط اقتصادی ذمہ داری کو قبول فرمایا ۔ وہ بھی اس لئے کہ خلق خدا قحط سے محفوظ رہ سکے ۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا جب ضرورت نے اس بات کا تقاضا کیا کہ یوسف (ع)مصر کے خزانوں کے سرپرست ہوں تو انہوں نے خود اس بات کا مشورہ دیا (١) علی بن یقطین امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی بتائی ہوئی نصیحتوں کے بعد عباسی حکومت کے وزیر بنے تھے، اسی قسم کے افراد مظلوموں کے لئے پناہ گاہ ہوسکتے ہیں ۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :کفار عمل السلطان قضاء حوائج الاخوان۔یعنی حکومتی نظام میں کام کرنے کا کفارہ برادر مومن کی مدد کرناہے (٢ )

--------------

( ١ ) تفسیر نورالثقلین .

( ٢ ) وسائل الشیعہ ج١٢ ص ١٣٩ .

حضرت امام رضا علیہ السلام سے لوگوں نے پوچھا : آپ نے مامون کی ولی عہدی کیوں قبول کی ؟ آپ (ع)نے جواب دیا : یوسف (ع)باوجودیکہ پیامبر (ع)تھے لیکن مشرک کی حکومت میں چلے گئے میں تو وصی پیامبر(ص) ہوں ۔ میں ایسے شخص کی حکومت میں داخل ہوا ہوں جو مسلمان ہونے کا اظہار کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں مجھے عہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے جبکہ یوسف (ع)نے حالات کی اہمیت کے پیش نظر بذات خود عہدہ کو قبول کیا تھا ۔(١ )

حضرت یوسف (ع) نے مقام و منزلت حاصل کرتے ہی فوراً اپنے والدین سے ملاقات کی خواہش نہیں کی بلکہ خزانے کی مسلیت کا تقاضا کیا کیونکہ والدین کے دیدار میں عاطفی پہلوتھے جب کہ لوگوں کو خشک سالی سے نجات دلانا ان کی اجتماعی ومعاشرتی رسالت اور اجتماعی ذمہ داریوں کا تقاضا تھا ۔

امام صادق علیہ السلام نے ایسے افراد کو خطاب کرتے ہوئے کہ جو زہد اختیار کرنے اور دنیا سے کنارہ کشی کا اظہار کررہے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے رہے تھے کہ اپنی زندگی کس مپرسی میں گزر بسر کرو ،فرمایا: مجھے ذرا بت کہ تم لوگ یوسف (ع) پیامبر کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہو جنہوں نے بادشاہ مصر سے خود فرمائش کی کہ (اجعلنی علی خزائن الارض)اسکے بعد حضرت یوسف (ع) کے امور یہاں تک پہنچ گئے کہ پوری مملکت اور اس کے اطراف یمن کی سرحدوں تک اپنے ماتحت لے لئے تھے اسکے باوجود مجھے کوئی شخص نہیں ملتا کہ کسی نے اس کام کو حضرت یوسف (ع)کے لئے معیوب شمار کیا ہو(٢ )

--------------

( ١ ) وسائل الشیعہ ج١٢ ص ١٣٦ .

( ٢ ) تفسیر نورالثقلین .

ایک روایت میں امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے : حضرت یوسف (ع)نے پہلے سات سال گیہوں کو جمع اور ذخیرہ کیا ، دوسرے سات سال میں کہ جب خشک سالی شروع ہوگئی تو آہستہ آہستہ بہت دقت کے ساتھ اسے لوگوں کے حوالے کیا تاکہ وہ اپنے روز مرہ کے مصارف میں اسے خرچ کرسکیں اور بڑی ہی امانت داری اور دقت نظر کے ساتھ مملکت مصر کو بدبختی سے نجات دلائی ۔

حضرت یوسف (ع) نے سات سالہ قحط کے زمانے میں پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا تاکہ کہیں ایسانہ ہو کہ آپ (ع)بھوکے افراد کو فراموش کردیں۔(١ )

تفسیر مجمع البیان اور تفسیر المیزان میں حضرت یوسف (ع) کی انداز حکمرانی کو اس طرح ذکر کیا گیا ہے :

جب خشک سالی شروع ہوئی تو حضرت یوسف (ع) نے پہلے سال گیہوں سونے چاندی کے بدلے ، دوسرے سال جواہر اور زیورات کے بدلے ،تیسرے سال چارپایوں کے بدلے ، چوتھے سال غلام کے بدلے ،پانچویں سال گھروں کے عوض میں ۔ چھٹے سال گندم کھیتیوں کے عوض میں اور ساتویں سال خود لوگوں کو غلام بنانے کے عوض میں گندم فروخت کی ۔ جب ساتواں سال ختم ہوگیا تو آپ(ع) نے بادشاہ مصر سے کہا :

تمام افراد اور ان کا تمام سرمایہ میرے پاس ہے لیکن خدا شاہد ہے اور تو بھی گواہ رہ کہ تمام لوگوں کو آزاد کرکے ان کے تمام اموال ان کو لوٹا دوں گا اور تمہارا محل ، تخت ،

--------------

( ١ ) تفسیر مجمع البیان .

اورمہروانگوٹھی بھی تمہیں لوٹا دوںگا حکومت میرے لئے خلائق کو نجات دینے کے علاوہ کچھ نہیں تھی ۔

تم ان کے ساتھ عدالت کے ساتھ پیش بادشاہ ان باتوں کو سننے کے بعد ایسا مسحور ہوا اور خود کو یوسف (ع)کی معنوی عظمتوں کے مقابلے میں اس طرح حقیر سمجھنے لگا کہ یک بارگی بول اٹھا (اشھدان لا الہ الا اللّٰہ و انک رسولہ)میں بھی ایمان لے آیا لیکن تم کو حاکم رہنا پڑے گا۔ (فإنّکَ لدینا مکین امین )

افراد کی تشخیص اور ان کے انتخاب میں قرآنی معیار کی طرف توجہ کرنی چاہیئے ''حفیظ و علیم'' کے علاوہ قرآن مجید میں دوسرے معیار بھی ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں :

ایمان: افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لایستوون۔(١ )

کیا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

سبقت:والسابقون السابقون اولئک المقربون(٢ )

اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں یہی مقرب لوگ ہیں۔

ہجرت: والذین آمنوا و لم یھاجروا ما لکم من ولایتہم من شی (٣ )

--------------

( ١ ) سورہ سجدہ آیت ١٨ .

( ٢ ) سورہ واقعہ آیت ١٠۔١١ .

( ٣ ) سورہ انفال آیت ٧٢ .

اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی انکی ولایت سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

علمی و جسمی قوت:وزادہ بسط فی العلم والجسم (١ )

اور اسے (طالوت کو) اللہ نے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازاہے۔

خاندانی فضیلت: ماکان ابوک امرأَ سوءٍ (٢)تیرا باپ برا آدمی نہ تھا۔

جہادومبارزت: فضل اللّٰہ المجاھدین علی القاعدین اجراً عظیما (٣ )

اللہ تعالی نے بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

پیام :

١۔جب ضرروت پڑے تو حساس عہدوں کی فرمائش کرنی چاہیئے (اجْعَلْنِی )

٢۔نبوت؛ حکومت اور سیاست سے جدا نہیں ہے جس طرح دیانت سیاست سے جدا نہیں ہے۔(اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ )

--------------

( ١ ) سورہ بقرہ آیت ٢٤٧ .

( ٢ ) سورہ مریم آیت ٢٨ .

( ٣ ) سورہ نساء آیت ٩٥ .

٣۔اسلامی حاکم کےلئے کسی خاص مملکت کا باشندہ ہونا ضروری نہیں ہے حضرت یوسف (ع) مصری نہیں تھے لیکن حکومت مصر میں عہدہ دار ہوئے(بعبارت دیگر قوم پرستی (Nationalism) ممنوع ہے )

٤۔بوقت ضرورت اپنی لیاقت و شائستگی کا بیان توکل ، زہد ، اور اخلاص سے منافات نہیں رکھتا۔(إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

٥۔دو صفات جو بادشاہ نے حضرت یوسف (ع) کے لئے بیان کئے ''مکین ، امین'' اور دو صفات جو حضرت یوسف (ع) نے خود اپنے لئے بیان فرمائے ''حفیظ ، علیم'' ہیں ،ان بیانات سے بہترین اور شائستہ عہدےداروں کے اوصاف سمجھ میں آتے ہیں کہ ان کے اوصاف قدرت ، امانت ، حفاظت اور اپنے متعلقہ کام میں مہارت عہدےداروں کے لئے ضروری ہے ۔

٦۔منصوبہ بندی اور مصارف و اخراجات کی نگرانی کرتے وقت آئندہ آنی والی نسلوں کا حصہ بھی ملحوظ خاطر ہونا چاہیئے(حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

( ٥٦ ) وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْہَا حَیْثُ یَشَاءُ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلاَنُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ۔

'' اور ہم نے یوسف کو اس ملک میں اقتدار دیا کہ اس میں جہاں چاہیں اپنا مسکن بنالیں ہم جس پر چاہتے ہیں اپنا فضل کرتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کے اجر کو اکارت نہیں کرتے''۔

( ٥٧ ) وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ ۔

'' اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے ان کےلئے آخرت کا اجر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے''۔

نکات :

ان دو آیتوں میں حضرت یوسف (ع) کی توصیف محسن ، مومن اور متقی کہہ کر کی گئی ہے (١) اس پورے سورہ میں خداوندعالم کے ارادے کا مخلوق کے ارادہ سے تقابل کیا جاسکتا ہے (یعنی اس سورہ میں مختلف لوگوں کے مختلف ارادے تھے لیکن خدا کا ارادہ سب پر مسلط ہو کر رہا )

برادران یوسف (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو کنویںمیں ڈال کر انکو غلام بنا کر ذلیل و رسوا کریں لیکن عزیز مصر نے سفارش کرتے ہوئے کہا تھا ''اکرمی مثواہ''یعنی انکی عزت کرو۔

( ١ ) خداوندعالم نے آیہ شریفہ میں یوسف علیہ السلام کو محسنین کے مصادیق میں سے ایک مصداق قرار دیا ہے قرآن مجید میں محسنین کے لئے دس سے زیادہ الطاف خاصہ خداوندی مذکور ہیں۔

عزیز مصر کی بیوی نے ارادہ کیا تھا کہ آپ (ع)کے دامن کردار کو آلودہ کردے لیکن خداوندعالم نے اس سے بچا لیا۔زلیخا نے چاہا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو زندان میں بھیج کر ان کی مقاومت کو درہم برہم کردے اور ان کی تحقیر کرے ''لیسجنن ولیکونا من الصاغرین'' لیکن ان سب کے مقابلے میں خداوندعالم نے ارادہ کیا تھا کہ ان کو صاحب عزت قرار دے اور ان کو مصر کا حاکم قراردے۔ (مَکَّنَّا لِیُوسُفَ ...)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا یوسف (ع) اس آزاد مرد انسان کا نام ہے جس پر بھائیوں کی حسادت ، کنویں میں ڈالا جانا ، شہوت ، تہمت ، ریاست و قدرت کوئی چیز بھی ان کی مقاومت پر اثرانداز نہ ہوسکی(١)۔

قرآن مجید میں لفظ'' خیر '' مختلف امور کے سلسلے میں استعمال کیا گیا ہے ۔

مومن کے لئے آخرت بہتر ہے(والاخر خیر و ابقی)(٢ )

روزہ داروں کے لئے روزہ بہتر ہے(ان تصومواخیرلکم)(٣ )

حاجی کے لئے قربانی بہتر ہے(لکم فیھا خیر)(٤ )

انسانوں کے لئے تقوی بہتر ہے(ولباس التقوی ذلک خیر)(٥ )

--------------

( ١ ) تفسیر نور الثقلین .

( ٢ ) سورہ اعلیٰ آیت ١٧ .

( ٣ ) سورہ بقرہ آیت ١٨٤ .

( ٤ ) سورہ حج آیت ٣٦ .

( ٥ ) سورہ اعراف آیت ٢٦ .

سپاہی کے لئے جہاد بہتر ہے(عسی ان تکرھوا شیائً و ھو خیرلکم)(١ )

جزائے اخروی جزائے دنیوی سے بہتر ہے کیونکہ آخرت کی جزا :

( الف) نامحدود ہے۔(لھم ما یشاون)(٢ )

( ب) ختم ہونے والی نہیں ہے۔(خالدین)(٣ )

( ج)کسی خاص مکان میںمحدود نہ ہوگی۔(نتبوا من الجنہ حیث نشائ)(٤ )

( د)ہمارے لئے اس کا حساب کرنا ممکن نہیں ۔(اجرَھم بغیر حساب)(٥ )

( ھ)وہاںامراض ، آفات اور پریشانیوں کا گزر نہیں ۔(لایصدعون)(٦ )

( و)اضطراب و بے چینی کا گزر نہیں(لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون)(٧ )

( ز)جزا پانے والے اولیا، خداوندعالم کے پڑوسی ہیں۔(وھم جیرانی )

--------------

( ١ ) سورہ بقرہ آیت ٢١٦ .

( ٢ ) سورہ زمر آیت ٣٤ .

( ٣ ) سورہ فرقان آیت ١٦ .

( ٤ ) سورہ زمر آیت ٧٤ .

( ٥ ) سورہ زمر آیت ١٠ .

( ٦ ) سورہ واقعہ آیت ١٩ .

( ٧ ) سورہ بقرہ آیت ١١٢ .

پیام :

١۔خدا کی سنت ہے کہ پاکدامن اور باتقوی افراد کو عزت بخشے گا۔ (کذلک ...)

٢۔اگرچہ بظاہر بادشاہ مصر نے حضرت یوسف (ع) سے کہا تھا کہ(انک الیوم لدینا مکین) لیکن در حقیقت خدا وندعالم نے حضرت یوسف (ع) کو قدرت دی تھی۔(مکن )

٣۔حضرت یوسف (ع) کے اختیارات کا دائرہ وسیع تھا۔(حیث یشائ )

٤۔مملکت کے بحرانی حالات میں حکومتیں اس بات کا اختیار رکھتی ہیں کہ لوگوں کے اپنے اموال و املاک میں تصرف کی آزادی کو محدود کرتے ہوئے اسے اپنے اختیار میںلے کر عمومی مصالح میں خرچ کریں۔(یَتَبَوَّأُ مِنْہَا حَیْثُ یَشَائ )

٥۔قدرت اگر اہل افراد کے ہاتھوں میں ہوتو رحمت ہے وگرنہ نقصان دہ ہے (نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَ )

٦۔اگر انسان تقوی الٰہی اختیار کرے تو خدا اپنی رحمتیں اس پر نازل کرتا ہے (نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا...لِلَّذِینَ...کَانُوا یَتَّقُونَ )

٧۔الٰہی نظریہئ کائنات میں کوئی کام بھی بغیر اجر کے نہیں رہتا ہے(لاَنُضِیعُ )

٨۔لوگوں کے حقوق کا ضائع کرنایا تو جہالت کی بنیاد پر ہوتا ہے یا بخل کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یا...جن میں سے کوئی بھی خدا میں موجود نہیں ہے۔ (لاَنُضِیعُ )

٩۔مشیت الٰہی ،بانظم اور قانون وضابطہ سے ہے۔(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا... وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

١٠۔حالانکہ تمام چیزیں مشیت الٰہی کے تحت ہوتی ہےں لیکن چونکہ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا کسی کوبھی بغیر لیاقت کے قدرت و صلاحیت نہیں دیتا۔(أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

١١۔نیک سیرت اور اچھے اعمال بجالانے والے اشخاص جہاں دنیاوی زندگی میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہاں آخرت میں اس سے کہیں بہتر اجر و ثواب ان کے شامل حال ہوتا ہے۔ ( وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

١٢۔راہ خدا پر گامزن مردانِ خدا کے لئے مادی وسائل اور ظاہری حکومت لذت آور نہیں ہے بلکہ ان کے لئے جو چیز مطلوب و محبوب ہے وہ آخرت ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

١٣۔ایمان کے ساتھ ساتھ باتقوی ہونا بھی ضروری ہے وگرنہ گنہگار مومن کی عاقبت مبہم اور غیر یقینی ہے ( آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

١٤۔وہ تقوی قابل قدر ہے جس میں پائیداری و ہمیشگی پائی جائے، (کَانُوا یَتَّقُونَ )

١٥۔ایمان و تقوی کا لازم ملزوم ہونا آخرت کے اجر و ثواب سے بہرہ مند

ہونے کی شرط ہے (وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

١٦۔اگر نیک سیرت افراد کو اس دنیا میں اجر و مقام و منزلت نہ مل سکے تو اسے مایوس اور مضمحل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ آخرت میںاس کی جزا مل جائے گی۔ (لاَنُضِیع... وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

( ٥٨ ) وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْہِ فَعَرَفَہُمْ وَہُمْ لَہُ مُنکِرُونَ ۔

'' اور (چونکہ کنعان میں بھی قحط تھا، اس وجہ سے) یوسف (ع) کے (سوتیلے)بھائی (غلہ خریدنے کےلئے مصر میں)آئے اور یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو فوراً پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے''۔

نکات :

حضرت یوسف (ع) کی پیشین گوئی کے عین مطابق لوگوں کو سات سال تک بے حساب نعمت اور بارش میسر رہی ۔لیکن جب دوسرے سات سال آئے اور لوگ قحط وخشک سالی سے دوچار ہوئے تو اس خشک سالی کا دائرہ مصر سے فلسطین و کنعان تک آگے بڑھ گیا۔

حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں سے کہا کہ گیہوں مہیا کرنے کے لئے مصر ج ۔ وہ لوگ مصر میں وارد ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی ۔ حضرت یوسف (ع) نے ان تقاضا مندوں کے درمیان اپنے بھائیوں کو دیکھ لیا لیکن وہ لوگ حضرت یوسف (ع) کو پہچان نہ سکے اور حق بھی یہی تھا کہ نہ پہچانیں کیونکہ حضرت یوسف (ع) کو کنویں میں ڈالنے سے لے کر مصر کی حکومت تک پہنچنے میںتقریباً ٢٠ بیس سے تیس ٣٠ سال کا عرصہ گزر چکا تھا ۔(١ )

پیام :

١۔خشک سالی کے زمانہ میں معین اور محدود مقدارمیں غذا تقسیم کرنی چاہیئے اور ہر شخص کوا پنا حصہ لینے کے لئے خود آنا چاہیئے تا کہ دوسرے اس کے نام سے سوء استفادہ نہ کرسکیں(اخو )حالانکہ ممکن تھا کہ ایک بھائی کو سب کا نمائندہ بنا کر مصر روانہ کردیا جاتا لیکن سب بھائی اکٹھے مصر آئے ۔

٢۔خشک سالی کے زمانہ میں اگر دوسرے شہروں کے افراد امداد طلب کریں تو ان کی مدد کرنی چاہیئے ( وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ )

٣۔حضرت یوسف (ع) سے لوگ بہت آسانی سے ملاقات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ غیر مصری افراد بھی (وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ ...فَدَخَلُو)(حکمرانوں کو ایسا پروگرام بنانا چاہیئے کہ لوگ بآسانی ان سے ملاقات کرسکیں )

--------------

( ١ ) یوسف (ع)کو جب کنویں سے نکالا گیاتو آپ (ع)نوجوان تھے (یابشری ھذا غلام)چند سال عزیز مصر کے خدمت گزار رہے،چندسال قید خانہ میں زندگی بسر کی، زندان سے آزادی کے بعد بھی سات سال کا دور(نعمات کی فراوانی اورکثیر پانی کا زمانہ )گزرچکا تھا۔ اب جب قحط کا زمانہ آیا تو اس وقت برادران یوسف مصر آئے۔

( ٥٩ ) وَلَمَّا جَہَّزَہُمْ بِجَہَازِہِمْ قَالَ ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ ألاَ تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ وَأَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ۔

'' اور جب یوسف ان کے لئے سامان تیار کرچکے تو کہنے لگے :(دوبارہ تو)باپ کی طرف سے اپنے ایک سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں؟ ''

نکات :

حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ ) یعنی آئندہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ لانا جو تمہارا پدری بھائی ہے آپ (ع)نے یہ نہیں فرمایا : میرے بھائی کو لیتے آنا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے دانستہ تجاہل سے گفتگو کا سلسلہ جاری کیا تھا ۔

ان لوگوں نے بھی (جیسا کہ تفاسیر میں آیا ہے) بتانا شروع کردیا کہ ہم حضرت یعقوب (ع) کے فرزند اور جناب ابراہیم کے پوتے ہیں، ہمارے والدگرامی ضعیف ہوچکے ہیں جو اپنے اس فرزند کے غم و اندوہ میں جسے بھیڑئے نے پھاڑ ڈالا تھا،وہ سالہاسال سے گریہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور نابینا ہوچکے ہیں ہم لوگوں نے اپنے ایک بھائی کو انہی کی خدمت کے لئے چھوڑ دیا ہے ممکن ہو تو اس بھائی اور والد کا حصہ ہمیں عنایت فرمادیں تاکہ ہم خوشحال ہوکر واپس لوٹیں (یہ سن کر)حضرت یوسف (ع)نے حکم دیا کہ :دس اونٹوں پر لادے جانے والے بار میں دو حصوں( حضرت یعقوب (ع) اور ان کے بیٹے کے لئے )کا اضافہ کردیا جائے۔

حضرت یوسف (ع)نے اپنے بھائیوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کےلئے فرمایا (انَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) (یعنی ) میں بہترین میزبان ہوں اس کا اثر یہ ہوا کہ اس جملے کو سنتے ہی وہ لوگ حضرت یوسف کے زیادہ قریب ہوگئے لیکن (مقام افسوس ہے) کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کے لئے مختلف تعبیرات استعمال فرماتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے افراد اس کی طرف مائل نہیں ہوتے!!۔(١ )

پیام :

١۔حضرت یوسف (ع) اس غلے کی ذاتی طور پر نگرانی فرمارہے تھے جو مصر میںخشک سالی کے ایام کے لئے ذخیرہ کیا گیا تھا (جَہَّزَہُمْ )

٢۔راز داری و سچائی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے فرمایا (أَخٍ لَکُمْ) ''تمہارا بھائی'' ''میرا بھائی نہیں فرمایا'' تاکہ سچائی اور راز داری دونوں کا پاس رکھا جاسکے ۔

٣۔بحران اورخشک سالی کے زمانہ میں بھی بے عدالتی اور کم ناپ تول ممنوع ہے (أُوفِی الْکَیْل )

٤۔معاملے کے دوران ''جنس'' کی مقدار معین ہونی چاہیئے(الْکَیْل )

٥۔جولوگ ، ادارے یا ممالک کسی کی اقتصادی مدد کرتے ہیں وہ اس کی صحیح سمت رہنمائی یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر بعض شرطوں کو پیش کرسکتے ہیں (ائْتُونِی بِأَخٍ ...)

--------------

( ١ ) خیر الرازقین ، وہ بہترین روزی دینے والا ہے۔سورہ مومنون آیت ٧٢۔ خیر الغافرین ، وہ بہترین بخشنے والا ہے سورہ اعراف آیت ١٥٥۔ خیر الفاتحین ، وہ بہترین گشایش کرنے والا ہے۔سورہ اعراف آیت ٨٩۔ خیرالماکرین ، وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے سورہ انفال آیت ٣٠۔ خیر الحاکمین ، وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، سورہ یونس آیت ١٠٩

٦۔کسی ادارے یا ملک میں کام کرنے والے افراد اگر کوئی برا کام کریں یا عدل و انصاف سے کام لیں تو اس کا سارا کریڈٹ سربراہ کو جاتا ہے۔(أَنِّی أُوفِی (ع)(ع)الْکَیْلَ )

٧۔مہمان نوازی انبیاء (ع)کے اخلاق میں سے ہے۔(خَیْرُ الْمُنزِلِین )

٨۔وہ مسافر یا کاروان جو آپ کے علاقہ میں وارد ہو ،اس کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ قحط کا زمانہ ہی کیوں نہ ہو۔(خَیْرُ الْمُنزِلِین )

( ٦٠ ) فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی بِہِ فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَ تَقْرَبُونِ .

'' پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ ل گے تو تمہارے لئے نہ میرے پاس کچھ (غلہ وغیرہ) ہوگا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آسکوگے''۔

پیام :

١۔انتظامی امور میں محبت و دھمکی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے پہلے مژدہ ئ محبت دیا (أنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ )پھر تہدید اورالٹی میٹم (ultimatum) دیا (فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی )

٢۔قانون کو جاری کرتے وقت ،بھائی، خاندان اور دیگر افراد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہیئے (فَلاَکَیْلَ لَکُمْ )(ہر شخص کا ایک خاص حصہ تھا اور اسے اپنا حصہ خود آکر لینا تھا )

٣۔دھمکی و وعید میں ضروری نہیں ہے کہ سربراہ و مدیر صددرصد اس دھمکی کے اجرا کا ارادہ بھی رکھتا ہو(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ)(کیونکہ حضرت یوسف (ع) ایسے نہ تھے کہ وہ قحط کے زمانہ میں اپنے بھائیوں کو مرتا ہوا دیکھےں )

٤۔رہبری کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے منصوبے اور پروگرام (program) کا اجرا کرنے میں مصمم ارادے کا حامل ہو۔( فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ وَلاَ تَقْرَبُون )

( ٦١ ) قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْہُ أَبَاہُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ۔

'' وہ لوگ کہنے لگے ہم اس کے والد سے اس کے بارے میں جاتے ہی درخواست کریں گے اور ہم ضرور اس کام کو کریں گے''۔

نکات :

مراود: یعنی پے درپے اور مسلسل التماس کے ساتھ یا دھوکہ کے ساتھ رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔

ان بھائیوں کی گفتگو میں اب بھی حسد کی بو محسوس کی جاسکتی ہے ذرا غور کیجئے ''ابانا'' ہمارے باپ کی بجائے ''اباہ'' اس کے باپ کہا ہے جب کہ سورہ کے آغاز میں ان کی گفتگو یہ ہے کہ (لیوسف و اخوہ احب الی ابینا منا)یعنی حضرت یعقوب (ع)ہمارے باپ ہیں لیکن یوسف (ع)اور ان کے بھائی کو ہم سے زیادہ چاہتے ہیں۔

( ٦٢ ) وَقَالَ لِفِتْیَانِہِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَہُمْ فِی رِحَالِہِمْ لَعَلَّہُمْ یَعْرِفُونَہَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی أَہْلِہِمْ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ ۔

'' اور یوسف نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کی (جمع)پونجی جو غلے کی قیمت تھی ان کے سامان میں (چپکے سے) رکھ دو تاکہ جب یہ لوگ اپنے اہل (و عیال) کے پاس لوٹ کرجائیں تو اپنی پونجی کو پہچان لیں (اور اس طمع میں) شاید پھر لوٹ کر آئیں''۔

نکات :

حضرت یوسف (ع) جیسی شخصیت جن کے بارے میں گزشتہ آیات نے صادق ، محسن ، مخلص جیسے گراں بہا الفاظ کے ذریعہ قصیدے پڑھے ،ان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ بیت المال کو اپنے باپ اوربھائیوں میں تقسیم کردیں، ممکن ہے کہ آپ (ع)نے غلے کی قیمت اپنی ذاتی ملکیت سے ادا کی ہو۔

پیسہ لوٹا دیا تا کہ فقر و ناداری دوسرے سفر میں حائل نہ ہونے پائے ( لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ )

علاوہ ازیں پیسہ کا لوٹا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم قلبی لگ کی بنیاد پر دوبارہ بلا رہے ہیں اور بھائی کو بلانے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ بھی نہیں ہے ،نیز حضرت یوسف، اجناس کے درمیان ان کی رقم کو مخفیانہ طور پر رکھوا کر نہ صرف ان پر کوئی احسان جتلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ چوروں اور رہزنوں سے اس رقم کو محفوظ بھی کررہے تھے ۔

حضرت یوسف (ع) کہ جو کل تک غلام تھے آج آپ کے اردگرد غلام ہیں ( لِفِتْیَانِہِ) لیکن بھائیوں سے ملاقات کے وقت نہ ہی ان سے انتقام لیا ،نہ ہی کوئی گلہ شکوہ کیا اور نہ ہی دل میں کینہ رکھا، بلکہ ان کا سرمایہ لوٹا کر انہیں متوجہ کیا کہ میں تم لوگوں کو چاہتا ہوں ۔

پیام :

١۔لائق و فائق رہبر کے منصوبے ، نئے اور جدید ہونے چاہیئےں۔( اجْعَلُو )

٢۔انتقام و کینہ کچھ بھی نہیں بلکہ آئندہ کے رابطے کو یقینی بنانے کے لئے ہدیہ پیش کیا جارہا ہے۔ ( اجْعَلُوا بِضَاعَتَہُمْ فِی رِحَالِہِمْ... لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ )

٣۔لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے ۔ (اجْعَلُوا بِضَاعَتَہُمْْ... لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ )

٤۔محتاجی و نیاز مندی کے زمانے میں بوڑھے باپ اور بھائیوں سے پیسہ لینا کرامت نفس کے منافی ہے۔( اجْعَلُوا بِضَاعَتَہُمْ فِی رِحَالِہِمْ )

٥۔صلہ رحم یعنی مدد کرنا ، نہ کہ کاروبار کرنا۔( اجْعَلُوا بِضَاعَتَہُم )

٦۔برائیوں کا بدلہ اچھائیوں سے دینا چاہیئے۔( اجْعَلُوا بِضَاعَتَہُم )

٧۔پروگرام (pragrams) اور منصوبوں کے سو فیصد قابل عمل ہونے کا یقین ضروری نہیں ہے۔( لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ )

( ٦٣ ) فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی أَبِیہِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ۔

'' غرض جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر آئے تو سب نے مل کر عرض کی اے بابا! ہمیں (آئندہ) غلہ ملنے کی ممانعت کردی گئی ہے لہٰذا آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی (بنیامین) کو بھیج دیجئے تاکہ ہم (پھر) غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے''۔

پیام :

١۔حضرت یعقوب (ع) کو اپنے خاندان اور بیٹوں پر مکمل کنٹرول اور تسلط حاصل تھا (یَاأَبَانَا مُنِعَ )

٢۔باپ کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حکم دے یا کسی کام سے روک دے (فَأَرْسِلْ )

٣۔بنیامین اپنے باپ کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کرتے تھے (فَأَرْسِلْ مَعَنَ )

٤۔کسی چیز کو لینے اور کسی کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے عواطف و احساسات سے استفادہ کیا جاتا ہے (أَخَانَا )

٥۔مجرم چونکہ اپنے ضمیر کی عدالت میں پریشان ہوتا ہے لہٰذا اپنی گفتگو میںپے درپے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے(إِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ) ''لفظ إنّا''اور حرف لام اور اس جملے کا جملہ اسمیہ ہونا یہ سب تاکید پر دلالت کرتے ہیں یعنی آپ(ع) کے بیٹے آپ(ع) کو بھرپور یقین دلوانا چاہتے تھے ۔

( ٦٤ ) قَالَ ہَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْہِ إِلاَّ کَمَا أَمِنتُکُمْ عَلَی أَخِیہِ مِنْ قَبْلُ فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ۔

''( حضرت )یعقوب(ع) بولے : کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ بہترین رحم کرنے والا ہے''۔

نکات :

سوال: حضرت یعقوب(ع) کے بیٹوںکی بری سیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوبارہ حضرت یعقوب (ع) نے پھر کیوں اپنے دوسرے فرزند (بنیامین ) کو ان کے حوالے کردیا؟

اس سوال کے جواب میں فخر رازی نے متعدد احتمالات پیش کئے ہیں جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع) کے اس عمل کی توجیہ کی جاسکتی ہے :

١۔حضرت یوسف (ع) کے بھائی گزشتہ عمل کی بنیاد پر اپنا مقصد (باپ کی نگاہ میں محبوبیت) حاصل نہ کرسکے تھے۔

٢۔وہ بنیامین سے حضرت یوسف (ع) کی نسبت کم حسد کرتے تھے ۔

٣۔شایدخشک سالی کی وجہ سے مشکلات اتنی زیادہ ہوگئی ہوں کہ بنیامین کے ہمراہ دوسرا سفر ضروری ہو گیا ہو۔

٤۔حضرت یوسف (ع) کے واقعہ کو دسیوں سال گزر چکے تھے اور اس کا زخم کافی ہلکا ہوچکا تھا۔

٥۔خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) سے ان کے بچے کی حفاظت کا وعدہ کرلیا تھا۔

پیام :

١۔جس شخص کا گزشتہ ریکارڈ (record) خراب ہو اس پر فوراً اعتماد کرنا صحیح نہیںہے۔ (ہَلْ آمَنُکُمْ )

٢۔ماضی کی تلخ یادیں انسان کو آئندہ پیش آنے والے حادثات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کردیتی ہیں۔( ہَلْ آمَنُکُمْ ...عَلَی أَخِیہِ مِنْ قَبْلُ )

٣۔خداوندعالم کی بے نظیر رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز اس پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے حادثات ِ زندگی کا مقابلہ کرنا چاہیئے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ )

٤۔ایک شکست یا کسی تلخ تجربے کی بنیاد پر انسان کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔ (ہَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْہِ...فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظً)(١) یعقوب نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ بھی دوسرے فرزند کو ان کے حوالے کردیا۔

٥۔رحمت خدا، سرچشمہ حفاظت ہے ۔( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ )

( ٦٥ ) وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَہُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَہُمْ رُدَّتْ إِلَیْہِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مَا نَبْغِی ہَذِہِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا وَنَمِیرُ أَہْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ .

'' اور جب ان لوگوں نے اپنے اپنے اسباب کھولے تو اپنی اپنی پونجی کو دیکھا کہ بعینہ واپس کردی گئی ہے (تو اپنے باپ سے) کہنے لگے اے بابا! ہمیں(اور) کیا چاہیے (دیکھئے ) یہ ہماری (جمع) پونجی تک تو ہمیں واپس دےدی گئی ہے (اور

--------------

( ١ ) آیت نمبر ١٢ میں حضرت یعقوب(ع) نے حضرت یوسف (ع)کے لئے ان کے بھائیوں کے محافظ ہونے پر بھروسہ کیا تھا جس کے نتیجے میں یوسف (ع)کی جدائی اور نابینائی کا داغ اٹھانا پڑا لیکن بنیامین کے مورد میں خدا پر بھروسہ کیا اور کہا(فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا)نتیجہ یہ ہوا کہ بینائی بھی مل گئی اور فراق و جدائی ،وصال و ملن میں تبدیل ہوگئی۔

غلہ مفت ملا اب آپ بنیامین کو جانے دیجئے تو ) ہم اپنے اہل و عیال کے واسطے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی پوری حفاظت کریں گے۔ اور ایک بار شتر غلہ اور بڑھوا لائیں گے یہ (جو اب کی دفعہ لائے تھے ) تھوڑا سا غلہ ہے (یا معنی یہ ہو کہ ایک اضافی اونٹ کا بار عزیز مصر کےلئے معمولی چیز ہے )''

نکات :

کلمہ ''نمیر'' مادہ ''میر ''سے ہے یعنی کھانے پینے کا سامان ''نمیر اھلنا''یعنی اپنے گھر والوں کی غذا فراہم کریں گے ۔

جملہ '' َنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ''سے استفادہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کا حصہ ایک بارِ شتر تھا جس کی بنیاد پر خود حاضر ہونا ضروری تھاتا کہ اسے حاصل کرسکے ۔

پیام :

١۔فرزندان یعقوب (ع) اپنے باپ کے ساتھ تو زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کےلئے اسباب خوردونوش فراہم کرنے کےلئے تلاش و جستجو کرتے تھے۔( فَتَحُوا مَتَاعَہُمْ ... یَاأَبَانَا ...)

٢۔حضرت یوسف (ع) کا ہنر فقط یہ نہ تھا کہ وہ انسان کامل تھے بلکہ آپ کا کمال یہ تھا کہ آپ انسان سازی کررہے تھے۔''اپنے حاسد اور جفاکار بھائیوں کو مخفی طور پر ہدیہ دیا تاکہ دوبارہ آنے کے لئے راستہ ہموار ہوسکے ''(وَجَدُوا بِضَاعَتَہُمْ رُدَّتْ إِلَیْہِمْ)(١ )

٣۔اگر شروع میں جنس کی قیمت نہ لی جائے تو خریدار کی تحقیر ہو گی ۔ اگر ہدیہ کا قصد ہے تو پہلے قیمت لے لی جائے پھر محبت آمیز شکل میں پلٹا دیا جائے ۔(رُدَّتْ إِلَیْہِمْ )

٤۔اگر فراری کبوتر کو پکڑنا چاہو تو تھوڑا سا دانہ اسے ڈالنا پڑے گا '' یوسف (ع) نے غلہ کی قیمت لوٹا دی تا کہ پلٹنے کا ارادہ اور قوی ہوجائے ''( بِضَاعَتَہُمْ رُدَّتْ إِلَیْہِمْ )

٥۔مرد گھر والوں کو غذا فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔(نمیر اھلن )

٦۔قحط اور کمیابی کے حالات میں اشیاء خوردونوش کو محدود حصوں میں بانٹنا یوسفی سنت ہے۔ (نَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ )

( ٦٦ ) قَالَ لَنْ أُرْسِلَہُ مَعَکُمْ حَتَّی تُتُونِ مَوْثِقًا مِّنْ اﷲِ لَتَأْتُنَنِیْ بِہِ إِلاَّ أَنْ یُحَاطَ بِکُمْ فَلَمَّا آتَوْہُ مَوْثِقَہُمْ قَالَ اﷲُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ ۔

''( یعقوب (ع) نے)کہا جب تک تم لوگ میرے سامنے خدا سے عہد نہ کرلو گے کہ تم اس کو ضرور مجھ تک (صحیح و سالم ) لے گے مگر یہ کہ تم خود کسی مشکل میں گھر ج (تو مجبوری

--------------

( ١ ) قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے (ادفع باللتی ھی احسن )یعنی برائی کا جواب اچھائی سے دو۔ سورہ فصلت آیت ٣٤ .

ہے ورنہ میں تو تمہارے ساتھ ہر گز اس کو نہ بھیجوں گا) پھر جب ان لوگوں نے ان کے سامنے عہد کرلیا تو یعقوب نے کہا کہ ہم لوگ جو کہہ رہے ہیں خدا اس کا ضامن ہے''۔

نکات :

موثق : یعنی وہ چیز جو مدّ مقابل یعنی مخاطب کے بارے میں مایہئ وثوق و اطمینان ہو جو عہد، قسم یا نذر ہوسکتی ہے۔(مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ )

ہمارا پروردگار ہم پر ہمارے باپ سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ اس داستان میں حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں کی ایک خیانت پر اپنے دوسرے فرزند کو ان کے حوالے نہ کیا۔ لیکن ہم لوگ ہر روز خداوندعالم کے احکام کی صریحا ً خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن وہ اس معصیت کے باوجود ہم سے اپنی نعمات کو سلب نہیں کرتا۔

پیام :

١۔خدا پر ایمان ، ذات خداوند کی قسم نذر و عہد کل بھی قوی ترین سہارا تھا اور آج بھی محکم پشت پناہ ہیں ۔(مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ )

٢۔کسی کی بدقولی و بدرفتاری کے مشاہدہ کے بعد دوسرے موقع پر اس سے محکم و مستحکم معاہدہ کرنا چاہیئے۔(مَوْثِقً )

٣۔اپنے بچوں کو آسانی کے ساتھ دوسروں کے ساتھ بھیجنا صحیح نہیں ہے۔ (تُتُونِ مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ )

٤۔معاہدہ کرتے وقت ناگہانی اورغیر متوقع حوادث کی پیش بینی بھی کرنا چاہیئے۔( إِلاَّ أَنْ یُحَاطَ بِکُمْ )یعنی تکلیف مالا یطاق ممنوع ہے۔

٥۔تمام تر حقوقی اور قانونی معاہدوںکے ہوتے ہوئے خدا پر مکمل توکل سے غافل نہیں ہونا چاہیئے۔( اﷲُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ )

( ٦٧ ) وَقَالَ یَابَنِیَّ لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَ وَمَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْءٍ إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُتَوَکِّلُون۔

'' اور یعقوب نے (نصیحت کے طور پر چلتے وقت بیٹوں سے کہا) اے فرزندو! (دیکھو خبردار) سب کے سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا (کہ کہیں نظر نہ لگ جائے) اور متفرق دروازوں سے داخل ہونا اور میں تم سے اس (بلا) کو جو خدا کی طرف سے (آئے کچھ بھی ٹال نہیں سکتا) حکم تو (دراصل) خدا ہی کے واسطے ہے میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے''۔

پیام :

١۔نافرمان بیٹوں سے بھی باپ کی محبت ختم نہیں ہوتی( یَابَنِیَّ )

٢۔بچوں کی حفاظت وسلامتی کےلئے تدبیر و غوروفکر ضروری ہے۔( یَابَنِیَّ لاَتَدْخُلُوا۔۔۔ )

٣۔وعظ و نصیحت کے بہترین اوقات میں سے ایک اہم وقت وہ ہے جب انسان سفر کے لئے تیار ہو۔ حضرت یعقوب (ع) نے سفر کے موقع پر فرمایا:( یَابَنِیَّ لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ)(١ )

٤۔حساسیت ، بدگمانی اور بری نگاہ سے لوگوں کو بچانا چاہیئے جوانوں کا گروہی طور پر کسی اجنبی جگہ پر جانا بدگمانی و چغل خوری کا سبب بن سکتا ہے۔(لاَتَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ )

٥۔لطف و کرم اور قدرت خداوندی کو کسی ایک راہ میں منحصر نہیں سمجھنا چاہیئے اس ذات اقدس کا دست قدرت انتہائی وسیع ہے وہ جس راستہ سے چاہے مدد پہنچا سکتا ہے۔ (لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ)(٢ )

--------------

( ١ ) روایات میں بھی ہے کہ سفر کرتے وقت وعظ و نصیحت کرنی چاہیئے .

( ٢ ) روایات میں ہے کہ : تاجر افراد اپنی تمام جمع پونجی کی سرمایہ کاری ایک جگہ پر نہ کریں تا کہ اگر ایک راستہ بند ہوجائے تو دوسری راہ کھلی رہے .

٦۔احتیاط اور تدبیر کے ساتھ ساتھ (لاَ تَدْخُلُوا...) خدا پر توکل اور بھروسہ بھی ضروری ہے۔(عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ )

٧۔بہترین مدیر و سربراہ وہ ہے جو پروگرام اور منصوبے کے علاوہ تمام احتمالات کو مدنظر رکھے کیونکہ انسان اپنے امور کی انجام دہی میں مستقل نہیں ہے یعنی تمام تر احتیاط اور دقت کے باوجود خدا کا دست قدرت وسیع تر ہے اور ہماری تمام تر احتیاط اور حساب و کتاب کے باوجود ان کی انجام دہی پر صد در صد ضمانت نہیں ہے۔(وَمَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ )

٨۔خدا کے علاوہ کسی دوسرے پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے '' عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ'' کیونکہ وہ تن تنہا کافی ہے (و کفی باللہ وکیل)(١) اور اللہ بہترین وکیل ہے ۔(نعم الوکیل)(٢ )

٩۔حضرت یعقوب (ع) نے خود بھی خدا پر بھروسہ کیا اور دوسروں کو بھی خدا پر '' توکل'' کرنے کا حکم فرمایا۔( تَوَکَّلْت... فَلْیَتَوَکَّلْ ...)

١٠۔خداوندمتعال کے فیصلوں کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ (مَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ )

١١۔اس کائنات میں حکم کرنے کا مطلقا ًحق ، صرف ذات پروردگار کو ہے(إِن الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّہِ )

--------------

( ١ ) سورہ نساء آیت ٨١ .

( ٢ ) سورہ آل عمران آیت ١٧٣ .

( ٦٨ ) وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَیْثُ أَمَرَہُمْ أَبُوہُمْ مَا کَانَ یُغْنِی عَنْہُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ قَضَاہَا وَإِنَّہُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاہُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُون۔

'' اورجب یہ سب بھائی جس طرح انکے والد نے حکم دیا تھا اسی طرح (مصر میں)داخل ہوئے تو (جو حکم) خدا (کی طرف سے آنے کو تھا اس ) سے انہیں کوئی بچانے والا نہ تھا مگر (ہاں) یعقوب کے دل میں ایک تمنا تھی جسے انہوں نے بھی یوں پورا کرلیا چند مختلف دروازوں سے اپنے بیٹوں کو داخلے کا حکم دے کر یعقوب ان کو نظر بد سے بچانا چاہتے تھے کیونکہ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اسے چونکہ ہم نے علم دیا تھا صاحب علم ضرور تھامگر بہتےرے لوگ (اس سے بھی)واقف نہیں ہیں''۔

نکات :

حضرت یعقوب علیہ السلام کی کونسی اندرونی خواہش پوری ہوئی اس میں چند احتمالات ہیں :

١۔ بنیامین حضرت یوسف علیہ السلام تک پہنچ جائیں اور حضرت یوسف (ع)کو تنہائی سے نجات ملے اگرچہ بنیامین پر چوری کی تہمت لگے ۔

٢۔ باپ بیٹے کے ملن میں سرعت اور جلدی ہوسکے جس کے بارے میں آئندہ اشارہ کیا جائے گا ۔

٣۔ فریضہ کی انجام دہی ، اگرچہ نتیجہ کی کوئی ضمانت نہ ہو حضرت یعقوب علیہ السلام کی حاجت یہ ہے کہ ملاقات کے مقدمات میں کوتاہی نہ ہو اور وہ لوگ ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہوں لیکن جو ہو گا وہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔

پیام :

١۔ تلخ تجربے انسان کو باادب بنادیتے ہیں اور وہ بزرگوں کی باتوں کو قبول کرنے لگتا ہے ۔ (دَخَلُوا مِنْ حَیْثُ أَمَرَہُمْ أَبُوہُمْ )

٢۔ اگر کسی کی بے ادبی کا ذکر کیا ہے تو اس کے ادب کو بھی بیان کرنا چاہیئے ۔ (دَخَلُوا ... أَبُوہُمْ) (اگر برادران یوسف نے کل اپنے بابا پر گمراہی کا الزام لگایا تھا تو آج فرمان پدری پر سرتسلیم خم کردیا ہے۔ )

٣۔ پروگرام ، عزائم ، تخمینہ جات اورمصمم ارادے کے ساتھ اگر خداوندمتعال کا ارادہ بھی ہو تو پھر تمام پروگرام عملی جامہ پہن سکتے ہیں لیکن اگر خدا کا ارادہ شامل حال نہ ہو تو تمام عزم و ارادے بے کار ہوجاتے ہیں ۔ ( مَا کَانَ یُغْنِی عنھم مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ )

٤۔ جناب یعقوب (ع)تمام مطالب و اسرار سے آگاہ تھے لیکن مصلحتاً ان کا اظہار نہیں فرمایا۔ (حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ )

٥۔ اولیائے خداکی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں ۔ ( حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ قَضَاہَا )

٦۔ انبی(ع)ء کا علم خداوندعالم کی طرف سے ہے ۔(عَلَّمْنَ )

٧۔ اکثر لوگ اسباب و علل کو دیکھا کرتے ہیں لیکن خدا کی حاکمیت اور لزوم توکل سے بے خبر ہوتے ہیں۔ (أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُون )

( ٦٩ ) وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْہِ أَخَاہُ قَالَ إِنِّی أَنَا أَخُوکَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ۔

'' اور جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس جگہ دی اور (چپکے سے ) اس (بنیامین) سے کہہ دیا کہ میں تمہارا بھائی ہوں تو جوکچھ (بدسلوکیاں) یہ لوگ تمہارے ساتھ کرتے رہے ہیں اسکا رنج نہ کرو ''۔

نکات :

تفسیروں میں مذکور ہے کہ جب برادران یوسف (ع)وارد مصر ہوئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کی مہمان نوازی فرمائی جس میں ہر دو آدمیوں کے لئے غذا کا ایک طبق معین کردیا آخر میں بنیامین تنہا رہ گئے تو حضرت یوسف (ع)نے ان کو اپنے نزدیک بٹھا لیا اس کے بعد ہر دو آدمیوں کے لئے ایک کمرہ معین کیا تو پھر بنیامین تنہا رہ گئے تو انہیں اپنے حجرے میں رکھ لیا وہاں بنیامین نے اپنے بھائیوں کی بے وفائی اور ظلم و ستم کا ذکر چھیڑ دیا جو انہوں نے حضرت یوسف (ع)پر ڈھائے تھے یہاں پر کاسہ صبر یوسفی لبریز ہوگیا ۔ فرمایا: پریشان مت ہو میں وہی یوسف ہوں اور تاکید کے ساتھ فرمایا۔ (انی انا اخوک) میں ہی تمہارا بھائی ہوں تاکہ ایسا کوئی احتمال نہ آئے کہ میں تمہارے بھائی کی جگہ پر ہوں۔

جملہ (فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُون ) کے معنی کے سلسلے میں دو احتمال ہیں ۔

١۔ یا تو یہ کہ وہ اپنے بھائیوں کی گزشتہ کارستانیوں سے غمناک نہ ہو۔

٢۔ یا یہ کہ وہ پروگرام جسے ہمارے غلاموں نے تمہارے لئے بنایا ہے کہ تمہارے حصے میں پیمانہ ڈال دیں گے تاکہ تم میرے پاس رہ سکو اس سے پریشان نہ ہونا۔

پیام :

١۔ وہ برادران جنہیں کل اپنی قدرت پر ناز تھا اور کہہ رہے تھے ''نحن عصبہ'' ہمارا گروہ قوی ہے وہی آج اس درجہ کو پہنچ چکے ہیں کہ اپنا آذوقہ (انتہائی کم غذا) مہیا کرنے کے لئے آستانہ حضرت یوسف (ع)پر تواضع کے ساتھ بوسہ دینے پر مجبور ہیں۔ (دَخَلُوا عَلَی )

٢۔ کلام اور گفتگو کے مختلف مرحلے ہیں کہیں مخفیانہ گفتگو ہوتی ہے تو کہیں اعلانیہ، حضرت یوسف نے مخفیانہ انداز سے فقط بنیامین سے کہا : ( إِنِّی أَنَا أَخُوک)(ہرسخن جائی و ہر نکتہ مقامی دارد) ہر سخن اور نکتہ کا اپنا موقع و محل ہوتا ہے۔

٣۔ بعض امور سے فقط خاص لوگوں کو باخبر کرنا چاہیئے۔(فَلاَ تَبْتَئِسْ )

٤۔ جب بھی کوئی نعمت حاصل ہوتو ماضی کی تلخ کامیوں کو بھول جانا چاہیئے (یوسف (ع)اور بنیامین نے ملاقات کی چاشنی محسوس کرلی ہے تو اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پرانی باتوں کو بھلا دیا جائے۔)(فَلاَ تَبْتَئِسْ )

٥۔ کسی بھی پروگرام اور نقشہ کو عملی جامہ پہنانے سے قبل بے گناہ شخص کو روحانی و نفسیاتی طور پر آمادہ کرلینا چاہیئے ۔ (بنیامین سے کہا گیا کہ تمہیں چور قراردے کر یہاں روکا جائے گا لہٰذاپریشان نہ ہونا۔) (فَلاَ تَبْتَئِسْ )

( ٧٠ ) فَلَمَّا جَہَّزَہُمْ بِجَہَازِہِمْ جَعَلَ السِّقَایَ فِی رَحْلِ أَخِیہِ ثُمَّ أَذَّنَ مُذِّنٌ أَیَّتُہَا الْعِیرُ إِنَّکُمْ لَسَارِقُونَ ۔

'' پھر جب یوسف نے ان کا ساز وسامان (سفر غلہ وغیرہ)تیار کرا دیا تو اپنے بھائی کے سامان میں پانی پینے کا کٹورا رکھ دیا پھر ایک منادی للکار کے بولا کہ اے قافلے والو(ہو نہ ہو)یقینا تمہیں لوگ چور ہو''۔

نکات :

یہ دوسری نقشہ کشی ہے جسے حضرت یوسف علیہ السلام انجام دے رہے ہیں پہلی مرتبہ غلہ کی قیمت کو بھائیوں کے سامان میں رکھ دیا تاکہ وہ دوبارہ پلٹ آئیں اس بار قیمتی برتن اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا تاکہ اسے اپنے پاس رکھ سکیں ۔

'' سقایہ'' اس کٹورے اور پیمانے کو کہتے ہیں جس میں پانی پیا جاتا ہے ''رحل'' اس خوگیر یا بوری کو کہتے ہیں جو اونٹ کے اوپر رکھی جاتی ہے اور اس کے دونوں اطراف سامان وغیرہ رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے (پالان ، محمل) ''عیر''اس قافلہ کو کہتے ہیں جو غذائی اجناس لے کر جاتا ہے (١ )

تفسیروں میں بیان ہوا ہے کہ حضرت یوسف اور بنیامین کے درمیان جو نشست ہوئی اس میں حضرت یوسف نے بنیامین سے پوچھا کہ کیا وہ یوسف کے پاس رہنا پسند کرتے ہیں ؟ تو جناب بنیامین نے رضایت کا اظہار کردیالیکن یہ بتا دیاکہ ان کے بابا نے بھائیوں سے تعہد لیا ہے کہ بنیامین کو اپنے ہمراہ واپس لے کر آئیں گے ۔ اس پر حضرت یوسف نے فرمایا : گھبر نہیں ، میں تمہارے رہنے کے لئے نقشہ کشی کرکے ایک راستہ نکال لوں گا۔

اس ماجرے میں بے گناہوں پر چوری کاالزام کیوں لگایا گیا؟

جواب: بنیامین نے اپنے بھائی کے پاس رکنے کے لئے بسر و چشم اس منصوبے کو قبول کیا تھا باقی برادران اگرچہ کچھ دیر کے لئے ناراض ہوئے لیکن تحقیق کے بعد ان سے الزامات مرتفع ہوگئے علاوہ ازیں کام کرنے والوں کو خبر نہ تھی کہ حضرت یوسف نے خود سامان کے درمیان پیمانہ ڈال دیا ہے ۔ (جعل) ان لوگوں نے تو طبیعی طور چیخنا شروع کردیا کہ (انکم لسارقون)تم ہی لوگ چور ہو۔

--------------

( ١ ) مفردات راغب .

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ان لوگوں نے حضرت یوسف (ع)کو حضرت یعقوب (ع)کی بارگاہ سے چرا لیاتھا لہٰذاکام کرنے والوں نے یہ کہاکہ ہم نے بادشاہ کا پیمانہ گم کردیا ہے یہ نہیں کہا کہ تم لوگوں نے بادشاہ کا پیمانہ چرالیا ہے فقط حضرت یوسف علیہ السلام یہ بتانا چاہتے تھے تم لوگوں نے حضرت یعقوب (ع)کی بارگاہ سے یوسف (ع)کو چرایا ہے (١ )

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: ''لاکذب علی المصلح'' اگر کوئی شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح و آشتی اور رفع اختلافات کے لئے جھوٹ کا سہارہ لیتا ہے تو وہ جھوٹ شمار نہیں ہوتا ، اس وقت آنحضرت (ص)نے اسی آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی۔(٢ )

--------------

( ١ ) تفسیر نور الثقلین ۔البتہ اس عمل کو اصطلاح میں''توریہ'' کہتے ہیں یعنی کہنے والا ایک خاص ہدف رکھتا ہے لیکن سننے والا دوسرا ہدف سمجھتا ہے ۔ بہرحال اگر موذن سے مراد آیت میں حضرت یوسف علیہ السلام ہیں تو یہ توریہ صحیح ہے ۔ واللہ العالم۔

( ٢ ) تفسیر نورالثقلین۔ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایسے موارد کذب میں شمار ہوتے ہیں یا نہیں یعنی آیا مصلح یا اس قسم کے لوگوں سے کذب کا حکم اٹھا لیا گیا ہے یا اصلاً جھوٹ ہی نہیں ہے۔ اس مشکل کو حل کرنے کےلئے صدق و کذب ، سچ اور جھوٹ کے معنی کو دیکھنا پڑے گا عام طور پر صدق کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے : وہ خبر جو مطابق واقع ہو ۔ جھوٹ کی تعریف میںیہ کہا جاتا ہے : وہ خبر جو مخالف واقع ہو۔ اگر یہی تعریف صحیح ہے تو پھر بہت سے مقاما ت پر یہ قاعدہ ٹوٹ جائے گا مثال کے طور پر سورہ منافقین کی پہلی آیت میں خداوندعالم گواہی دیتا ہے کہ نبی اکرم (ص) خدا کے رسول ہیں لیکن وہیں پر فرماتا ہے کہ ''واﷲ یشھد ان المنافقین لکاذبون''اگر مطابق واقع خبر سچ ہے تو پھر منافقین کو سچا ہونا چاہیئے لیکن قرآن کریم فرما رہا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں ۔ اسی طرح مصلح خلاف واقع گفتگو کرتا ہے لیکن نبی اکرم فرماتے ہیں کہ یہ جھوٹ نہیں ہے ۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ معیار صدق و کذب مطابق و مخالف واقع ہونا نہیں ہے بلکہ معیار کچھ اور ہے درحقیقت معیار صدق و کذب E

پیام :

( ١ ) کبھی کبھی کسی ماجرے کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے نقشہ کشی اور سازش کا سہارہ لیا جاتا ہے (١) بنابریں اہم مصلحتوں کے پیش نظر بے گناہ شخص پر چوری کا الزام لگانا کہ جس کے بارے میں پہلے آگاہ کردیا ہو کوئی مشکل کام نہیں ہے (٢ )

( ٧١ ) قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَیْہِمْ مَاذَا تَفْقِدُونَ ۔

'' یہ سن کر یہ لوگ پکارنے والوں کی طرف رخ کرکے کہنے لگے (آخر) تمہاری کونسی چیز گم ہوگئی ہے ؟ ''

--------------

F عدل و ظلم ہے جہاں ایک کلام عدل ہوگا وہ صدق ہوگا اور جہاں ظلم ہوگا وہاں کذب اور جھوٹ ہو گا غالبا ًجوکلام صادق ہوتا ہے وہ عدل ہوتا ہے لیکن بہت کم موارد میں ایسا ہوتا ہے جہاں کذب عدل ہوتا ہے دوسری طرف غالباً کذب ظلم ہوتا ہے اور کم مواقع ایسے آتے ہیں جہاں صدق اور سچ ظلم ہوتا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ حکم شرعی ، حرام اور مباح ،دائر مدار صدق و کذب نہیں ہے بلکہ دائر مدار عدل و ظلم ہے ۔ بنابریں مصلح کا صلح قائم کرنے کےلئے صحیح بات بتانے سے گریز کرنا عدل ہے لہٰذا وہ جھوٹ نہیں ہے ، منافقوں کا رسول اکرم (ص) کو رسول کہنا باوجودیکہ دل سے ان کے مخالف تھے ظلم ہے، لہٰذا وہ سچ نہیں ہے ،جناب یوسف (ع)کا اپنے بھائی کو روکنا عدل ہے تاکہ آئندہ کےلئے راہ ہموار ہوسکے ، لہٰذا جھوٹ نہیں ہے۔مترجم۔

( ١ ) مثلاًنمائش ، تصاویر اورفلم وغیرہ میں بظاہر لوگوں کو مجرم ، گناہگاروغیرہ جیسے خطاب سے مخاطب کیا جاتا ہے حتی انکو شکنجہ بھی دیا جاتا ہے لیکن چونکہ ان لوگوں کو پہلے سے متوجہ کردیا جاتا ہے اور وہ راضی ہوتے ہیں اسی بنیاد پر اہم مصلحت کودیکھتے ہوئے اسے قبول کرلیتے ہیں۔

( ٢ ) تفسیر المیزان ج ،١١ ص ٢٤٤

( ٧٢ ) قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ وَلِمَنْ جَاءَ بِہِ حِمْلُ بَعِیرٍ وَأَنَا بِہِ زَعِیمٌ .

'' ان لوگوںنے جواب دیاکہ ہمیں بادشاہ کا پیالہ نہیں ملتا ہے جو شخص اسے پیش کرے گا اس کےلئے بارشتر(غلہ انعام) ہے اور میں اس کا ضامن ہوں''۔

نکات :

'' صُوَاعَ ''(١) اور''سقایہ''دونوں ہم معنی ہیں یعنی وہ ظرف جس سے پانی پیا جاتا ہو اور اسی سے گیہوں بھی تولا جاتا ہو جو صرفہ جوئی کی علامت ہے یعنی ایک چیز سے چند کام۔

'' حِملْ'' بار کو کہتے ہیں ''حَمل'' بھی بار ہی کو کہتے ہیں لیکن اس بار کو جو پوشیدہ ہو مثلاًوہ بارش جو بادل میں چھپی ہو یا وہ بچہ جو شکم مادر میں ہو (٢ )

جملہ ''َلِمَنْ جَاءَ بِہِ حِمْلُ بَعِیر'' یعنی جو ایسا کرے گا اس کی جزا یہ ہو گی اسے فقہی اصطلاح میں ''جُعالہ '' کہتے ہیںجو سابقہ اور قانونی اعتبار کا حامل ہے

--------------

( ١ ) تفسیر اطیب البیان میں آیا ہے کہ صواع اس ظرف کو کہتے ہیں جس میںایک صاع (تقریبا تین کلو) گیہوں کی گنجائش ہوتی ہے .

( ٢ ) مفردات راغب .

پیام :

١۔ انعام و اکرام کی تعیین پرانی روش ہے (لِمَنْ جَاءَ بِہِ حِمْلُ بَعِیر )

٢۔انعام و اکرام انسان اور زمانے کی مناسبت سے ہونا چاہیئے ۔ خشک سالی کے زمانے میں بہترین انعام غلے سے لدا ہوا ایک اونٹ ہے ( حِمْلُ بَعِیر )

٣۔ حصول اطمینان کے لئے ضامن قرار دینا تاریخی سابقہ رکھتا ہے (أَنَا بِہِ زَعِیم )

( ٧٣ ) قَالُوا تَاﷲِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْأَرْضِ وَمَا کُنَّا سَارِقِینَ .

'' تب یہ لوگ کہنے لگے خدا کی قسم تم تو جانتے ہو کہ ہم (تمہارے )ملک میں فساد کرنے کی غرض سے نہیں آئے اور نہ ہی ہم لوگ چور ہیں ''۔

نکات :

برادران یوسف نے کہا : آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہم لوگ چوری اور فساد برپا کرنے کے لئے نہیں آئے وہ لوگ یہ کیسے جانتے تھے کہ یہ چور اور فسادی نہیں ہیں ؟ اس میں چند احتمال ہیں ۔ (١) شاید حضرت یوسف نے اشارہ کیا ہو کہ یہ لوگ چور نہیں ہیں (٢) شاید شخصی داخلہ کے وقت کچھ افراد معین ہوں کہ جو رفت و آمد پر نظر رکھتے ہوں۔ جی ہاں! یقینا باہر سے آنے جانے والے افراد کی نگرانی کرنی چاہیئے خصوصا ًاس وقت جب ملک بحرانی کیفیت میں ہو تو زیادہ گہری نگاہ رکھنی چاہئےے تاکہ آنے والے مسافرین کے اہداف کا علم رہے ۔

پیام :

١۔ بے داغ ماضی ،بری الذمہ ہونے کی علامت ہے ۔ ( لَقَدْ عَلِمْتُم )

٢۔ ''چوری'' بھی زمین پر فساد کا ایک مصداق ہے۔( مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْأَرْضِ وَمَا کُنَّا سَارِقِینَ )

( ٧٤ ) قَالُوا فَمَا جَزَہُ إِنْ کُنتُمْ کَاذِبِینَ

'' وہ (ملازمین) بولے کہ اگر تم جھوٹے نکلے تو پھر اس (چور) کی سزا کیا ہونی چاہیئے ''۔

نکات :

جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ سوال تیار کرنے والے حضرت یوسف علیہ السلام ہیں چونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے بھائی کنعان کے علاقائی قانون اور حضرت یعقوب کے( نظریہ کے )مطابق اپنا نظریہ پیش کریں گے ۔

کیا قاضی کے علم اور ملزم کے قسم کھانے کے باوجود بھی تحقیق کرنا ضروری ہے ؟ ( تَاﷲِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ )

جواب: جی ہاں ۔ اس کی دلیل جملہ '' فَمَا جَزَہُ إِنْ کُنتُمْ کَاذِبِینَ '' ہے۔

پیام :

١۔ مجرم کی سزا کو معین کرنے کے لئے اس کے ضمیر سے سوال کیا جائے ۔( فَمَا جَزَہُ ...)

( ٧٥ ) قَالُوا جَزَہُ مَنْ وُّجِدَ فِی رَحْلِہِ فَہُوَ جَزَہُ کَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ .

'' وہ (بے دھڑک)بول اٹھے کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے بورے میں وہ (پیالہ) پایا جائے تو وہی اس کا بدلہ ہے (تو وہ مال کے بدلے میں غلام بنایا جائے گا)ہم لوگ تو(اپنے یہاں کنعان میں) ظالموں(چوروں) کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں''۔

پیام :

١۔ بعض گزشتہ اقوام میں چوری کی سزا چور کو غلام بنا لینا تھی(١)۔( فَہُوَ جَزَہُ )

٢۔ قانون میں کوئی استثناء اور پارٹی بازی نہیں ہونی چاہیئے ۔ جو بھی چور ہوگا غلامی کی زنجیر اس کے پیروں میں ہوگی۔( مَنْ وُجِدَ فِی رَحْلِہِ )

--------------

( ١ ) بنابر نقل تفسیر مجمع البیان اس غلامی کی مدت ایک سال تھی .

٣۔ ممکن ہے کہ مجرم کی سزا اس کے علاقے کے قانون کے مطابق ہو ۔ میزبان ملک کے قانون کے مطابق سزا دینا ضروری نہیں ہے۔(کَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ )

٤۔ چوری ، ظلم کا کھلا ہوانمونہ ہے کیونکہ آیت کے آخری حصے میں لفظ ''سارق'' کے بجائے ''ظالم ''استعمال ہوا ہے۔

( ٧٦ ) فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِہِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِیہِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَہَا مِنْ وِعَاءِ أَخِیہِ کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاہُ فِی دِینِ الْمَلِکِ إِلاَّ أَنْ یَشَاءَ اﷲُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ .

'' غرض یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتے کھولنے سے پہلے دوسرے بھائیوں کے شلیتوں سے (تلاشی) شروع کی اس کے بعد (آخر میں) اس (پیالے) کو یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتہ سے برآمد کیا ،یوسف کے (بھائی کو روکنے کی) ہم نے یوں تدبیر بتائی ورنہ وہ (بادشاہ مصر کے) قانون کے مطابق اپنے بھائی کو نہیں روک سکتے تھے مگر ہاں جب ہم چاہتے ہیں اس کے درجات بلند کر دیتے ہیں ،اور ہر صاحب علم سے بڑھ کر ایک بہت بڑی دانا ذات (بھی) ہے ''۔

نکات :

چونکہ بنیامین اس واقعہ سے آگاہ تھے لہٰذا تلاشی کے وقت کافی مطمئن تھے ، یہی وجہ ہے کہ اس پورے ماجرے میں کہیں بھی ان کی طرف سے کوئی اعتراض نقل نہیں کیا گیا ہے ۔ علاوہ ازین تاکہ یہ نقشہ کشی مخفی رہ سکے اور بدگمانی کا سبب نہ بنے تلاشی کو دوسرے لوگوں سے شروع کیا گیا یہاں تک کہ بنیامین کی نوبت آگئی اور جب وہ پیمانہ ان کے سامان میں پایا گیا تو اب گزشتہ قراردادکے مطابق ان کا مصر میں رہنا ضروری ہوگیا ۔یہ خدائی تدبیر تھی کیونکہ جناب یوسف علیہ السلام مصری قوانین کے تحت چور کو بعنوان غلام نہیں رکھ سکتے تھے۔

کلمہ ''کید'' تمام مقامات پر مذموم معنی میں استعمال نہیں ہواہے بلکہ تدبیر ، چارہ اندیشی اور منصوبہ بندی کے معنی میں بھی مستعمل ہے (کدنا )

پیام :

١۔اطلاعات جمع کرنے پر مامور افراد کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے دوسروں کو ان پر شک ہو جائے ۔( فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِہِمْ ) (وہ تلاشی لینے کےلئے سب سے پہلے بنیامین کے پاس نہیں گئے بلکہ تلاشی دوسرں کے سامان سے شروع کی۔ )

٢۔ کارکنان کے کاموں کی نسبت مسل کی طرف دی جاتی ہے (فَبَدَ) (برحسب ظاہر حضرت یوسف (ع)نے تلاشی نہیں لی تھی لیکن قرآن فرماتا ہے کہ تلاشی انہوں نے شروع کی تھی۔ )

٣۔ فکر و تخلیقی صلاحیت، منصوبہ بندی و چارہ جوئی غیبی امداد سے حاصل ہوتی ہے (کِدْنَ )

٤۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی تدبیریں الہامی تھیں۔ (کِدْنَا لِیُوسُفَ )

٥۔ حضرت یوسف (ع)کے پاس بنیامین کا رہنا حضرت یوسف کے لئے فائدہ مند تھا ۔ (کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ )

٦۔ قانون کااحترام اور اس کی رعایت غیر الٰہی حکومت میں بھی ضروری ہے۔ (مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاہُ فِی دِینِ الْمَلِک )

٧۔ معنوی مقامات مختلف درجات اور مراتب کے ایک سلسلہ کے حامل ہیں ۔ (نَرْفَعُ دَرَجَات ...)

٨۔ علم و آگاہی برتری کا سرمایہ ہے( نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ۔۔. وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ )

٩۔ بشری علم محدود ہے۔(فَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ )

( ٧٧ ) قَالُوا إِنْ یَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَہُ مِنْ قَبْلُ فَأَسَرَّہَا یُوسُفُ فِی نَفْسِہِ وَلَمْ یُبْدِہَالَہُمْ قَالَ أَنْتُمْ شَرٌّ مَکَانًا وَاﷲُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ .

''( غرض بنیامین روک لئے گئے )تو یہ کہنے لگے اگر اس نے چوری کی ہے تو (کونسی تعجب کی بات ہے) اس سے پہلے اسکا بھائی (یوسف) چوری کرچکا ہے تو یوسف نے (اس تہمت کا کوئی جواب نہیں دیا اور)اس کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا اور ان پر ظاہر نہ ہونے دیا (مگر) یہ کہہ دیاکہ تم لوگ برے ہو(نہ کہ ہم دونوں) اور جو (اس کے بھائی کی چوری کا) حال تم بیان کررہے ہو اس سے خدا خوب واقف ہے ''۔

پیام :

١۔ متہم یا تو انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں چور نہیں ہوں ۔ (ما کنا سارقین) یا یہ توجیہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا چوری کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے بھی اس کا بھائی چوری بھی کر چکا ہے۔ ( فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَہُ مِنْ قَبْل )

٢۔ حسد کا مریض سالہا سال کے بعد بھی چٹکی لینے سے باز نہیں آتا ۔( فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَہُ مِنْ قَبْل )

٣۔ ایک بھائی کا اخلاق دوسرے بھائی پر اثر انداز ہوتاہے ۔( أَخٌ لَہُ)ماں کا کردار بھی بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے (یوسف (ع)اور بنیامین کی ماں ایک تھی )

٤۔ جہاں محبت اور دل صاف نہ ہو وہاں تہمت بہت جلد لگا دی جاتی ہے ۔ (إِنْ یَسْرِقْ فَقَدْ...)(پیمانہ کا بنیامین کے سامان سے باہر نکلنا چوری کی دلیل نہیں ہے، لیکن چونکہ بھائیوں کو بنیامین سے محبت نہ تھی اس لئے ان لوگوں نے چوری کا الزام لگا دیا اور مسئلہ کو تسلیم کرلیا۔ )

٥۔ جہاں محبت نہیں ہوتی وہاں جزئی اور چھوٹی سی غلطی کو کلی اور بڑی بھاری خطا شمار کیا جاتاہے (انہوں نے ''سرق'' فعل ماضی کے بجائے فعل مضارع ''یسرق''استعمال کیا یعنی اس کام میں استمرار ہے گویا بنیامین کا روزانہ کاکام یہی تھا)۔

٦۔ ہدف تک پہنچنے کے لئے لعن و طعن کے تیر سہنے پڑتے ہیں ۔ ( سَرَقَ أَخٌ لَہُ مِنْ قَبْلُ )

٧۔ کچھ لوگ بعض مواقع پر اپنی آبرو بچانے کے لئے دوسرے پر تہمتیں لگاتے ہیں ۔ ( سَرَقَ أَخٌ لَہُ مِنْ قَبْلُ )

٨۔ جواں مردی اور کشادہ قلبی رمز رہبری ہے۔(أَسَرَّہَا یُوسُفُ )

٩۔ راز کا فاش کرنا ہمیشہ قابل اہمیت و ارزش نہیں ہے ۔ (وَلَمْ یُبْدِہَا لَہُمْ )

١٠۔ ''تحقیر'' نہی از منکر کا ایک طریقہ ہے۔( أَنْتُمْ شَرٌّ مَکَانً )

( ٧٨ ) قَالُوا یَاأَیُّہَا الْعَزِیزُ إِنَّ لَہُ أَبًا شَیْخًا کَبِیرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَکَانَہُ إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ .

( اس پر) ان لوگوں نے کہا : اے عزیز ! اس (بنیامین) کے والد بہت بوڑھے (آدمی) ہیں (اور اس کو بہت چاہتے ہیں)تو آپ اس کے عوض ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے اور اس کو چھوڑ دیجئے کیونکہ ہم آپ کو نیکوکار بزرگ سمجھتے ہیں ''۔

نکات :

جب برادران یوسف (ع)نے دیکھ لیا کہ بنیامین کا روکا جانا قطعی ہوگیا ہے تو حضرت یوسف (ع)کے سلسلے میں اپنے سابقے اور بنیامین کے بارے میں اپنے باپ سے کئے گئے عہد و پیمان کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز یہ احساس کرتے ہوئے کہ بنیامین کے بغیر پلٹنے کے نتائج بڑے تلخ ہوں گے، نفسیاتی طریقے سے حضرت یوسف (ع)سے التماس کرنے لگے۔ گڑگڑانے لگے اور احساسات کو بھڑکاتے ہوئے یہ کہنے لگے آپ(ع) صاحب عزت و قدرت اور نیک کردار ہیں ۔ اس کا باپ بوڑھا ہے اس کے بدلے میں آپ ہم میں سے کسی کو بھی غلام بنالیجئے اور سب بھائی بنیامین کی بخشش کرانے کےلئے آمادہ ہو گئے ۔

پیام :

١۔ مقدارت الٰہی ایک دن ہر سنگ دل اور ستمگر کو ذلت ورسوائی کی خاک چٹواتی ہے بلکہ گڑگڑانے پر مجبور کردیتی ہے ان لوگوں کے جملہ ( یَاأَیُّہَا الْعَزِیزُ...) کے آہنگ میں اس بات کا ثبوت موجود ہے۔

٢۔ اقتدار کے زمانے میںبھی حضرت یوسف (ع)کا نیک کردار نمایاں تھا۔ (نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ )

( ٧٩ ) قَالَ مَعَاذَ اﷲِ أَنْ نَأْخُذَ إِلاَّ مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہُ إِنَّا إِذًا لَظَالِمُونَ .

''( حضرت یوسف نے)کہا : معاذاللہ (یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ )ہم نے جس کے پاس اپنی چیز پائی ہے اسے چھوڑ کر دوسرے کو پکڑ لیں ؟(اگر ہم ایسا کریں)تو ہم ضروربڑے بے انصاف ٹھہریں گے''۔

نکات :

حضرت یوسف علیہ السلام کے نپے تلے الفاظ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپ (ع)بنیامین کو چور ثابت کرنا نہیں چاہتے ہیں اسی لئے آپ (ع)نے ''وجدنا سارقا '' نہیں فرمایا بلکہ'' وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہُ'' فرمایا ۔ یعنی متاع و پیمانہ اس کے سامان میں تھا وہ خود چور نہیںہے ۔

اگر جناب یوسف (ع)بنیامین کے بجائے کسی دوسرے بھائی کو رکھ لیتے تو ان کے سارے کئے کرائے پر پانی پھر جاتا اس کے علاوہ دوسرے بھائی ، بنیامین کے ساتھ چوروں جیسا سلوک کرتے انہیں مختلف طریقوں سے اذیت پہنچاتے اور جو شخص بنیامین کے بجائے رکتا وہ یہ سوچتا کہ ناحق گرفتار ہوگیا ہوں۔

پیام :

١۔ قانون کی رعایت ہر شخص پر لازم ہے حتی عزیز مصر کےلئے بھی قانون شکنی ممنوع ہے ۔ (مَعَاذَ اﷲِ )

٢۔ قانون شکنی ظلم ہے (کسی کے کہنے پر قانون توڑنا صحیح نہیں ہے) ( مَعَاذَ اﷲِ أَنْ نَأْخُذَ ... لَظَالِمُونَ )

٣۔ بے گناہ کو گناہ گار کے بدلے سزا نہیں دینی چاہیئے اگرچہ وہ خود اس پر راضی ہو،(مَعَاذَ اﷲ )

( ٨٠ ) فَلَمَّا اسْتَیْئَسُوا مِنْہُ خَلَصُوا نَجِیًّا قَالَ کَبِیرُہُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاکُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّی یَأْذَنَ لِی أَبِی أَوْ یَحْکُمَ اﷲُ لِی وَہُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ .

'' پھر جب یوسف کی طرف سے مایوس ہوگئے تو باہم مشورہ کرنے کے لئے الگ کھڑے ہوئے ۔ تو جو شخص ان سب میں بڑا تھا کہنے لگا ! (بھائیو!)کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ تمہارے والد نے تم سے خداکا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے تم لوگ یوسف کے بارے میں کیا کچھ تقصیر کر ہی چکے ہو،تو(بھائی) جب تک میرے والد مجھے اجازت (نہ) دیں یا خدا مجھے کوئی حکم (نہ) دے میں اس سرزمین سے ہرگز نہ ہلوں گا ۔اور خدا تو سب حکم دینے والوں سے کہیں بہتر ہے ''۔

نکات :

'' خلصوا''یعنی اپنے گروہ کو دوسرے سے جدا کرنا '' نَجِیًّا'' یعنی سرگوشی کرنا ، لہٰذا ''خَلَصُوا نَجِیًّا '' یعنی محرمانہ نشست (secret meeting) تشکیل دی کہ اب کیا کریں ۔

پیام :

١۔ احکام الٰہی کو جاری کرنے کی راہ میں التماس و خواہشات مانع نہیں ہونا چاہئے۔ (اسْتَیْئَسُوا مِنْہ )

٢۔ ایک دن وہ تھا جب یہی بھائی اپنی قدرت کے نشہ میں مست ہوکر جناب یوسف (ع)کے سلسلے میں مشورہ کر رہے تھے کہ ان کو کیسے ختم کریں (اقتلوا یوسف او طرحوہ ارضا ... لاتقتلوا ... القوہ...)آج وہ زمانہ آگیا ہے کہ کاسہئ التماس ہاتھوں میں لئے بنیامین کی آزادی کی بھیک مانگ رہے ہیں اور اسی کاسہئ التماس کے ہمراہ نجویٰ اور سرگوشی کررہے ہیں کہ کیسے بنیامین کو آزاد کرایا جائے ۔(خَلَصُوا نَجِیًّ )

٣۔ تلخ اور ناگوار حوادث میں بڑے لوگ زیادہ ذمہ دار اور شرمسار ہوتے ہیں (قَالَ کَبِیرُ ہُمْ )

٤۔ عہد و پیمان کا پوراکرنا ضروری ہوتا ہے۔ ( أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقً )

٥۔ سخت اور محکم عہد وپیمان غلط فائدہ اٹھانے کی راہ کو مسدود کردیتے ہیں۔ (أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقً )

٦۔ خیانت اور جنایت مرتے دم تک زندہ ضمیروں کو اذیت پہنچاتی رہتی ہے۔ (مِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ )

٧۔ دھرنا ڈالنا ایک پرانی روش اور انداز ہے۔ (فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْض )

٨۔ غربت (یعنی پردیس کو وطن پر ترجیح دینا)شرمندگی سے بہتر ہے( فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ )

٩۔ خداوندعالم کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن رکھناچاہئے ۔ (ہُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ )

( ٨١ ) إِرْجِعُوا إِلَی أَبِیکُمْ فَقُولُوا یَاأَبَانَا إِنَّ ابْنَکَ سَرَقَ وَمَا شَہِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حافِظِینَ .

'' تم لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر ج اور (ان سے جاکر) عرض کرو اے بابا آپ کے صاحبزادے نے سچ مچ چوری کی ہے اور ہم لوگوں نے تواپنی دانست کے مطابق (اس کے لئے آنے کا عہد کیا تھا )اور ہم کچھ (از) غیبی (آفت )کے نگہبان تو تھے نہیں''۔

پیام :

١۔ انسان خود خواہ ہے ،جب زیادہ گیہوں لانے کی بات تھی تو بھائیوں نے (ارسل معنا اخان)کہا یعنی ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ روانہ کردیجئے لیکن جب آج تہمت کی بات آئی تو (ابْنَکَ)(یعنی آپ کے صاحبزادے نے چوری کی )کہنے لگے ۔ ''ہمارے بھائی'' نہیں کہا۔

٢۔ شہادت اور گواہی ، علم کی بنیاد پرہونا چاہیئے ۔( وَمَا شَہِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَ )

٣۔ عہد و پیمان میں ان حوادث کے سلسلے میں بھی ایک تبصرہ کرنا چاہیئے جس کی پیش بینی نہ ہوئی ہو ( وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ ...)

٤۔ عذر کو صراحت کے ساتھ پیش کرنا چاہیئے ۔( وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حَافِظِینَ۔ )

( ٨٢ ) وَسْئَلِ الْقَرْیَ الَّتِی کُنَّا فِیہَا وَالْعِیرَ الَّتِی أَقْبَلْنَا فِیہَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ .

'' اور (اگر ہماری باتوں پر اعتبار نہیں ہے تو)آپ اس بستی کے لوگوں سے جس میں ہم لوگ تھے پوچھ لیجئے اور اس قافلہ سے بھی جس میں ہم آئے ہیں (دریافت کرلیجئے ) اور ہم یقینا بالکل سچے ہیں ''۔

نکات :

'' قریہ'' فقط دیہات کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر محل اجتماع اور رہائشی علاقہ کو ''قریہ'' کہتے ہیں چاہے وہ شہر ہو یا دیہات ۔ یہاں پر یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ وسئل القریہ سے مراد '' واسئل اھل القریہ''ہےں ۔یعنی اہل قریہ سے سوال کیجئے ۔

'' عیر'' خوردونوش کی چیزوں کو لانے لے جانے والے کارواں کو کہا جاتا ہے۔

کل حضرت یوسف (ع)کے قتل کے سلسلے میں (کہ بھیڑیا یوسف کو کھا گیا) بھائیوں کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی لیکن یہاں پر انہوں نے اپنے دعوے کی دو دلیلیں پیش کیں (١) اہل مصر سے سوال کیجئے (٢) اہل قافلہ سے سوال کیجئے کہ جن کے ساتھ ہم نے سفر کیا، علاوہ ازیں حضرت یوسف (ع)کے قتل کے واقعہ میں ان لوگوں نے ''لوکنا صادقین''کہا تھا جس میں ''لو'' تردید ، بے چینی اور سستی کی علامت ہے لیکن اس واقعہ میں کلمہ ''انّا''اور حرف لام کو جو ''لَصَادِقُونَ ''میں ہے استعمال کیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ و ہ قطعا ًسچے ہیں ۔

پیام :

١۔ برا سابقہ اور جھوٹ تادم مرگ، انسان کی گفتگو قبول کرنے میں شک و تردید پیدا کردیتاہے ۔ ( وَاسْأَلْ الْقَرْیَ )

٢۔ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے عینی شاہدوں کی گواہی ایک معتبر روش ہے۔ (وَاسْأَلْ الْقَرْیَ...وَالْعِیرَ ...)

( ٨٣ ) قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ عَسَی اﷲُ أَنْ یَأْتِیَنِی بِہِمْ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ .

''( غرض جب ان لوگوں نے جاکر بیان کیا تو )یعقوب نے کہا :(اس نے چوری نہیں کی ہے)بلکہ یہ بات تم نے اپنے دل سے گڑھ لی ہے، میں توصبر جمیل (اور خدا کاشکر)کروںگا خدا سے تو مجھے امید ہے کہ میرے سب (لڑکوں) کو میرے پاس پہنچا دے بے شک وہ بڑا واقف کار حکیم ہے''۔

نکات :

جب حضرت یوسف (ع)کے بھائی بناوٹی غمگین صورت میں ٹسوے بہاتے ہوئے خون بھرا کرتا لے کر اپنے بابا کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا تو اس وقت حضرت یعقوب (ع)نے فرمایا تھا(َ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ) یعنی یہ تمہارا نفس ہے جس نے اس کام کو تمہارے سامنے اچھا کرکے پیش کیا ہے لیکن میں بہترین صبرکروں گا۔

اور آج اس موقع پر جب آپ (ع)کے دو فرزند (بنیامین اور بڑا بیٹا) آپ (ع)سے جدا ہوگئے تو آپ (ع)نے پھر وہی جملہ دھرایا ۔ یہاں پر ممکن ہے ایک سوال پیداہو کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ماجرے میں تو ان لوگوں نے سازش اور خیانت کی تھی لیکن بنیامین کے سلسلے میں اس قسم کی بات نہ تھی پھر دونوں مواقع پر حضرت یعقوب (ع)کا لب ولہجہ ایک ہی کیوں ہے ؟( بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أمراً فَصَبْرٌ جَمِیل)تفسیر المیزان میں اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے: ''حضرت یعقوب (ع)بتانا چاہتے تھے کہ بنیامین کی دوری بھی تمہاری اسی پہلی حرکت کا نتیجہ ہے جو تم نے حضرت یوسف (ع)کے ساتھ انجام دی تھی یعنی یہ تمام تلخیاں اسی بدرفتاری کا نتیجہ ہیں ''۔

یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا مقصد یہ تھاکہ تم یہاں بھی یہی خیال کررہے ہو کہ تم بے گناہ ہو اور تمہارا کام صحیح ہے جبکہ تم گناہ گار ہو کیونکہ سب سے پہلے تو یہ کہ تم نے اپنے بھائی کے سامان میں پیمانہ دیکھ کر اسے چور سمجھ لیا، ہوسکتا ہے کسی دوسرے نے اس کے غلہ میں پیمانہ ڈال دیا ہو ۔ دوسری بات یہ کہ تم لوگ اتنا جلدی کیوں پلٹ آئے ،تمہیں تحقیق کرنا چاہیئے تھی ۔ اور تیسری بات یہ کہ تم نے چور کی سزا اس کو غلام بنانا کیوں قراردیا (١ )

--------------

( ١ ) تفسیر نمونہ، لیکن صاحب تفسیر المیزان کا کلام زیادہ مناسب ہے کیونکہ بنیامین کے سامان میں پیمانہ ملنے کی وجہ سے سب کو یقین ہو جاتاہے کہ وہی چور ہیں علاوہ ازیں بڑے بھائی کا مصر میں رکنا اسی کام کی تحقیق اور احساسات کو جلب کرنے کے لئے تھا اور چور کی سزا کی جو بات ہے تو اس علاقے میں چور کی سزا وہی تھی جو انہوں نے قرار دی بنابریں ان تینوںمیں سے کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں نفس کا دخل ہواور( بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ) کہا جائے۔

صبر کبھی ناچاری اور بے چارگی کی بنیاد پر ہوتا ہے جیساکہ اہل جہنم کہیں گے (سواء اصبرنا ام جز عنا) مقصود یہ ہے کہ صبر یا فریاد کرنا ہماری نجات کا باعث نہیں بن سکتا ، لیکن کبھی کبھی صبر باخبر ہونے کے باوجود اپنی پسند سے خداوندعالم کی رضا کی خاطر کیا جاتا ہے اس صبر کا رخ زیبا مختلف مقامات پر مختلف اندازمیں نکھرتا ہے ۔ میدان جنگ میں اس کا نام ''شجاعت'' ، دار دنیا میں اس کانام''زہد''، گناہوں کے مقابلے میں اس کانام ''تقوی''، شہوت کے مقابلے میں اس کانام ''عفت'' اور مال حرام کے مقابلے میں اس کانام ''ورع''ہے۔

پیام :

١۔ نفس گناہوں کی توجیہ کے لئے برے کام کو انسان کی نگاہ میں اچھا کرکے دکھاتاہے ( بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ)(١ )

٢۔ صبر کرنا مردان خدا کا شیوہ ہے اور '' صبر جمیل''اس صبر کو کہتے ہیں جس میں رضائے الٰہی کے لئے سر تسلیم خم کیا جائے اور زبان سے کوئی فقرہ بھی ادا نہ ہو (٢)( فَصَبْرٌ جَمِیلٌ )

--------------

( ١ ) شیطان بھی اسی چال کا استعمال کرتا ہے ۔(زین لھم الشیطان ماکانوا یعملون۔ انعام:٤٣)اسی طرح دنیا کے زرق برق بھی اس قسم کی خوشنمائی میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں ۔ حتی اذا اخذت الارض زخرفھا و ازینت ۔یونس ٢٤. (٢)تفسیر نور اثقلین .

٣۔ کبھی بھی قدرت خدا سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے ۔(عَسَی اﷲُ أَنْ یَأْتِیَنِی بِہِمْ جَمِیعً )

٤۔ حضرت یعقوب (ع)کو اپنے تینوں فرزندوں (یوسف ، بنیامین ۔ بڑے بیٹے) کی زندگی کا یقین تھا اور ان سے ملاقات کی امید تھی ۔(أَنْ یَأْتِیَنِی بِہِمْ جَمِیعً )

٥۔ پروردگار عالم تمام مسائل کو حل کرنے پر مکمل قدرت رکھتا ہے خداوندعالم کل کے یوسف اور آج کے بنیامین وغیرہ کو جمع کرسکتا ہے ۔ ( جَمِیعً )

٦۔ مومن ،تلخ حوادث کو بھی خداوندعالم کی حکمت سمجھتا ہے ۔ (الْحَکِیمُ )

٧۔ افعال الٰہی کے عالمانہ اور حکیمانہ ہونے پر یقین رکھنا انسان کو دشوار سے دشوار حادثات میں صبر وشکیبائی پر آمادہ کرتا ہے۔ (فَصَبْرٌ جَمِیلٌ إِنَّہُ ہُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیم )

( ٨٤ ) وَتَوَلَّی عَنْہُمْ وَقَالَ یَاأَسَفَی عَلَی یُوسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیمٌ .

'' اور یعقوب نے ان لوگوں سے منہ پھیر لیا اور (روکر) کہنے لگے : ہائے افسوس یوسف پر (اور اس قدر روئے کہ) غم کی وجہ سے ان کی آنکھیںسفید ہوگئیں وہ تو بڑے رنج کے ضابط تھے''۔

نکات :

کلمہ ''اسف'' غضب کے ہمراہ حزن وملال کو کہتے ہیں جناب یعقوب (ع)کی آنکھیں گریاں ، زبان پر ''یااسفا''اوردل میں حزن و ملال تھا ۔

ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ (ع)نے فرمایا: میرے بابا علی بن الحسین + واقعہئ کربلا کے بعد بیس )٢٠(سال تک ہر گھڑی آنسو بہاتے رہے۔ آپ (ع)سے سوال کیا گیا آپ اتنا کیوں روتے ہیں ؟ تو آپ (ع)نے جواب دیا : یعقوب کے گیارہ فرزند تھے جس میں سے ایک غائب ہوا تھا جبکہ (وہ جانتے تھے کہ) وہ زندہ ہے لیکن اتنا روئے کہ آنکھےں سفید ہوگئیں جبکہ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بابا، اپنے بھائیوں اور خاندان نبوت کے سترہ افراد کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے (ذرا بت)ہم کیسے آنسو نہ بہائیں؟

پیام :

١۔ حاسد کو ایک زمانہ تک حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ ( وَتَوَلَّی عَنْہُمْ )

٢۔ ان لوگوں نے چاہا کہ یوسف کو درمیان سے نکال کر اپنے بابا کے محبوب ہوجائیں گے ۔ (یخل لکم وجہ ابیکم)لیکن حسد و جلن نے باپ کے قہر و غضب میں اضافہ کردیا (تَوَلَّی عَنْہُم )

٣۔ غم و اندوہ اور گریہ و زاری کبھی کبھی بصارت کے زائل ہونے کا سبب ہوتی ہے ۔ (ابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْن )

٤۔ گریہ و غم، ضبط و تحمل اور صبر کے منافی نہیں ہے ۔( فَصَبْرٌ جَمِیلٌ۔ یَاأَسَفَی، فَہُوَ کَظِیمٌ )

٥۔ حضرت یعقوب (ع)کو معلوم تھا کہ ظلم صرف یوسف (ع)پر ہوا ہے دوسروں پر نہیں۔ (یاأَسَفَا عَلَی یُوسُف )

٦۔ فریاد وبکا سوز وعشق معرفت کے محتاج ہےں (حضرت یعقوب(ع) کو حضرت یوسف (ع)کی معرفت تھی اسی بنیاد پر ان کی آنکھوں کی بنیائی زائل ہوگئی۔ )

٧۔ مصائب کی اہمیت کا دارومدار افراد کی شخصیت پر ہے (یوسف (ع)پر ڈھائے گئے مظالم دوسروں پر کئے گئے مظالم سے فرق رکھتے ہیں اسی لئے یوسف (ع)کا نام لیا جاتا ہے دوسروں کا ذکر بھی نہیں ہوتا )

٨۔ عزیزوں کے فراق میں غم واندوہ، آہ و بکا اور نوحہ و ماتم جائز ہے۔ (وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ )

( ٨٥ ) قَالُوا تَاﷲِ تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنَ الْہَالِکِینَ .

''( یہ دیکھ کر ان کے بیٹے )کہنے لگے آپ تو ہمیشہ یوسف ہی کو یاد کرتے رہئےے گا یہاں تک کہ بیمار ہوجائےے گا یا جان دے دیجئے گا''۔

نکات :

'' حرض '' اس شخص کو کہتے ہیں جسے عشق یاحز ن ، کمزور و ناتواں بنادے۔

پیام :

١۔ ہر یوسف (ع)کو ہمیشہ اپنی یادوں کے فانوس میں سجائے رکھنا چاہئےے ۔(تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ) (جیسا کہ اولیائے الٰہی دعائے ندبہ میں یوسف زماں کو آواز دے کر آنسو بہاتے ہیں ۔ )

٢۔ مقدس عشق اورملکوتی آہیں قابل قدر ہیں ۔ ( تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضً)(اولیائے خدا کی یاد خدا کی یاد ہے )(١ )

٣۔ نفسیاتی اور روحی مسائل جسم پر اثر انداز ہوتے ہیں (حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنَ الْہَالِکِین)(فراق اور جدائی انسان کے وجود کو توڑ دیتی ہے بلکہ موت کی حد تک پہنچا دیتی ہے چہ جائیکہ اگر کوئی داغ مفارقت اور مصیبت کے پہاڑ اٹھائے ہوئے ہو۔ )

٤۔ باپ کی محبت عام محبتوں سے جدا ہے۔ ( تَکُونَ مِنَ الْہَالِکِینَ )

--------------

( ١ ) یعقوب (ع)اس سوز و گداز میں ہیں جسے عام افراد سمجھ نہیں سکتے ہیں(مجلس عزا ،نوحہ و ماتم پر طنز نہ کیجئے )

( ٨٦ ) قَالَ إِنَّمَا أَشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَی اﷲِ وَأَعْلَمُ مِنْ اﷲِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ .

'' یعقوب نے کہا : (میں تم سے کچھ نہیں کہتا ) میں تو اپنی بے

قراری اور رنج کی شکایت خدا ہی سے کرتا ہوں اور خدا کی طرف سے جوباتیں میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے''۔

نکات :

'' بث'' اس شدید حزن وملال کو کہتے ہیں جس کی شدت کو صاحب غم بیان نہیں کرپاتا ۔

قرآن مجید میں ہے کہ حضرت آدم (ع)نے اپنے فعل پر خدا کی بارگاہ میں نالہ و شیون کیا (ربنا ظلمنا انفسنا) (١) حضرت ایوب (ع)نے اپنی بیماری پر خدا سے فریاد کی (مسّنی الضر)(٢) حضرت موسی (ع)نے فقر و ناداری کی شکایت کی (رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر)(٣)اور حضرت یعقوب(ع) نے فراق فرزند میں آنسو بہائے (انما اشکو بثی و حزنی )

پیام :

١۔ توحید پرست انسان ،اپنا درد فقط خدا سے کہتا ہے ( إِنَّمَا أَشْکُو... إِلَی اﷲِ )

٢۔ جو چیز مذموم ہے وہ یا تو خاموشی ہے جو انسان کے قلب و اعضاء پر حملہ آور ہوتی ہے اور انسان کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے یا وہ نالہ و شیون ہے جو انسان کے

--------------

( ١ ) سورہ اعراف آیت ٢٣ .

( ٢ ) انبیاء آیت ٨٣ .

( ٣ ) سورہ قصص آیت ٢٤ .

سامنے کیا جاتا ہے جس سے انسان کی قدر و منزلت میں کمی آجاتی ہے لیکن خد اسے شکایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ (أَشْکُو... إِلَی اﷲِ )

٣۔ خدا سے گفتگو کرنے میں ایک لذت ہے جسے عام لوگ نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ (أَشْکُو بَثِّی إِلَی اﷲِ ...مَا لاَ تَعْلَمُونَ.)(١ )

٤۔ ظاہر بین افراد ،حوادث کے سامنے سے بڑی آسانی سے گزر جاتے ہیں اور اس سے کچھ حاصل نہیں کرپاتے ہیں، لیکن حقیقت بین افراد حادثات کے آثار کا تا قیامت مشاہدہ کرتے ہیں ۔ (أَعْلَمُ مِنْ اﷲِ ...)

٥۔ حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی ، فراق کے خاتمہ کی مدت ،نیز خداوندعالم اور اس کی صفات سے آگاہ تھے لیکن یہ امور دوسروں پر مخفی تھے ۔ (اعْلَمُ مِنْ اﷲِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )

--------------

( ١ ) ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

دست حاجت چوں بری نزد خداوند بر

کہ کریم است و رحیم است و غفور است و ودود

نعمتش نامتناہی کرمش بی پایاں

ھیچ خوانندہ از این در نرود بی مقصود

( ٨٧ ) یَابَنِیَّ اذْہَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُفَ وَأَخِیہِ وَلاَ تَیْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اﷲِ إِنَّہُ لاَ یَایْئَسُ مِنْ رَوْحِ اﷲِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ .

'' اے میرے بیٹو! (ایک بار پھر مصر)ج اور یوسف اور اس کے بھائی کو (جس طرح بنے) تلاش کرو اور خدا کے فیض سے ناامید نہ ہونا کیونکہ خدا کے فیض سے کافروں کے سوا اور کوئی ناامید نہیں ہوا کرتا ''۔

نکات :

کسی چیز کے بارے میں حواس کے ذریعہ جستجو کرنے کو ''تحسس'' کہتے ہیں ، ''تحسس'' کسی کی اچھائی کے سلسلے میں جستجو کو کہتے ہیںلیکن کسی کی برائی کے کھوج اور تلاش میں لگنے کو ''تجسس'' کہتے ہیں۔

راغب اصفہانی کے بیان کے مطابق ''رَوح اور رُوح'' دونوں جان کے معنی میں استعمال ہوتے ہیںلیکن روح، فرج ، گشائش اور رحمت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے گویا مشکلات کا حل ہونا، انسان میں ایک تازہ اور نئی جان ڈال دیتا ہے، تفسیر تبیان میں ہے کہ رَوح کا مادہ ریح ہے جس طرح انسان ہوںکے جھونکوں سے سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے اسی طرح رحمت الٰہی سے بھی شادمان ہوتا ہے ۔

پیام :

١۔ باپ کو اپنے بچوں سے دائمی طور پر قطع تعلق نہیں کرنا چاہیئے ۔ (فتولی عنھم ... یابنی )

٢۔ معرفت و شناخت کے لئے کوشش ضروری ہے۔ (اذْہَبُوا فَتَحَسَّسُو )

٣۔ لطف الٰہی تک پہنچنے میں سستی و کاہلی مانع ہے (اذْہَبُوا ، وَلاَ تَیْئَسُو)(١ )

٤۔اولیائے خدا بھی مایوس نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی ناامیدی کی راہ سے دور رکھتے ہیں (لاَ تَیْئَسُو )

٥۔ ناامیدی ، کفر کی علامت ہے کیونکہ مایوس ہونے والااپنے اندر یہی محسوس کرتا ہے کہ خدا کی قدرت ختم ہوگئی ۔(لاَ یَیْئَسُ...إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ )

( ٨٨ ) فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَیْہِ قَالُوا یَاأَیُّہَا الْعَزِیزُ مَسَّنَا وَأَہْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَ مُزْجَ فَأَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا إِنَّ اﷲَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ .

'' پھر جب یہ لوگ (تیسری بار) یوسف کے پاس گئے تو (بہت گڑگڑاکر ) عرض کی : اے عزیز مصر ! ہم کو اور ہمارے (سارے) کنبہ کو قحط کی وجہ سے بڑی تکلیف ہورہی ہے اور ہم کچھ تھوڑی سی پونجی لے کر آئے ہیں تو ہم کو (اس کے

--------------

( ١ ) روایات سے ثابت ہے کہ رحمت خداوندی سے مایوسی گناہ کبیرہ ہے (من لا یحضرہ الفقیہ باب معرف الکبائر )

عوض ) پورا غلہ دلوا دیجئے اور (قیمت ہی پر نہیں) ہمیں (اپنا) صدقہ خیرات دیجئے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ خدا صدقہ و خیرات دینے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے۔

نکات :

'' بضاعت'' اس مال کو کہتے ہیں جس پر قیمت کا عنوان صادق آتا ہو''مزج'' کا مادہ ''ازجاء '' ہے جس کے معنی ''دور کرنے'' کے ہیں کیونکہ بیچنے والے کم قیمت دیتے ہیں اس لئے ''بضاعت مزج'' کہتے ہیں ۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ '' تصدق علینا'' سے مراد یہ ہے کہ آپ بنیامین کو لوٹا دیجئے ۔

روایت میں ہے کہ حضرت یعقوب (ع)نے حضرت یوسف (ع)کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں ان کی جلالت قدر کو بیان فرمایا تھا۔ کنعان کی خشک سالی کا ذکر تھا اور بنیامین کی آزادی کی درخواست تھی آپ (ع)نے لکھاتھا کہ ''اب ہم پر رحم کرو اور احسان کرکے اسے رہائی دیدو اور اسے چوری کے الزام سے بری کردو '' اس خط کو آپ نے اپنے بیٹوں کے ہمراہ حضرت یوسف (ع)کی خدمت میں روانہ کیا تھا، جب حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کے سامنے اس خط کو کھول کر پڑھا اس کا بوسہ لیا آنکھوں سے لگایا اور آنسوںکی بارش ہونے لگی جن کے قطرات آپ کے لباس پر گرنے لگے برادران جو ابھی تک حضرت یوسف (ع)کو نہیں پہنچانتے تھے تعجب کرنے لگے کہ یہ ہمارے باپ کا اتنا احترام کیوں کررہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں امیدوں کی کرن پھوٹنے لگی جب حضرت یوسف علیہ السلام کو ہنستے ہوئے دیکھا تو سوچنے لگے کہ کہیں یہی یوسف (ع)نہ ہوں(١ )

پیام :

١۔ حضرت یعقوب کو یوسف (ع)کی تلاش ہے ۔ (فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُف)لیکن بھائیوں کو گیہوں کی پڑی ہے ۔ ( فَأَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ)۔

٢۔ رسوا کرنے والے ایک دن خود رسوا ہوتے ہیں ۔ وہ لوگ جو کل کہہ رہے تھے (نحن عصب)ہم طاقتور ہیں (سرق اخ لہ من قبل)اس سے پہلے اس کے بھائی نے چوری کی ہے ۔ (انا ابانا لفی ضلال)ہمارے بابا گمراہی میں پڑ گئے ہیں ۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ذلیل و رسوا ہوکر خود کہہ رہے ہیں ۔ (مَسَّنَا وَأَہْلَنَا الضُّرّ )

٣۔ حمایت اور مدد حاصل کرنے کے کچھ خاص طریقے ہیں۔

جس نے حمایت و مدد کی ہے اس کی تعریف و تمجید کی جائے۔ ( یَاأَیُّہَا الْعَزِیز )

اپنی نیاز مندی کے حال و احوال بیان کئے جائیں ۔(مَسَّنَا وَأَہْلَنَا الضُّرّ )

مالی فقر کا تذکرہ ہو ۔ (ِبِضَاعَ مُزْجَ )

مدد کے لئے کوئی سبب و علت ایجاد کرنا (وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا إِنَّ اﷲَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ )

٤۔ فقر و محتاجی انسان کو ذلیل کردیتی ہے۔ (مَسَّنَا وَأَہْلَنَا الضُّر )

بقول فارسی شاعر :

آنچہ شیران را کند روبہ مزاج

احتیاج است احتیاج است احتیاج

--------------

( ١ ) تفسیر نمونہ .

( ٨٩ ) قَالَ ہَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوسُفَ وَأَخِیہِ إِذْ أَنْتُمْ جَاہِلُونَ .

''( اب تو یوسف سے نہ رہا گیا) کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ جب تم نادان تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ ''

نکات :

ایک سوال میں ممکن ہے کہ مختلف مقاصد و اہداف پوشیدہ ہوں ، مثبت اورتعمیری اہداف یا منفی اور اذیت کنندہ مقاصد ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ سوال : تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور ان کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

١۔ شاید اس لئے ہوکہ مجھے سب کچھ معلوم ہے۔

٢۔ ممکن ہے کہ سوال کا مقصد یہ ہو کہ تم نے بہت برا کام کیا ہے لہٰذا توبہ کرو ۔

٣۔ ممکن ہے بنیامین کی تسلی خاطر مدنظر ہو جو وہاں موجود تھے ۔

٤۔ممکن ہے کہ ان کی سرزنش اور ملامت مدنظر ہو ۔

٥۔ یا اپنی عزت آشکار کرنا مقصود ہو ۔

٦۔ یا اس بات کی سرزنش کررہے ہوں کہ تم کو اتنے مظالم کے بعد صدقہ و خیرات کی امید کیسے ہوگئی ؟ مذکورہ اہداف ومقاصد میں سے پہلے تین اہداف حضرت یوسف علیہ السلام کے اہداف سے مطابقت رکھتے ہیں لیکن بقیہ موارد یوسفی کرامت اور جواں مردی (جسے آئندہ آیتیں واضح کریں گی ) کے خلاف ہےں( آپ (ع)نے بادشاہت کے رتبہ پر پہنچنے کے بعد چوری کا الزام سنا ) ، آپ کو چور کہا گیا لیکن آپ (ع)نے کچھ نہ کہا اور آخر کا ر اپنے بھائیوں سے کہہ دیا (لا تثریب علیکم الیوم )

جہالت فقط نادانی کانام نہیں ہے بلکہ ہوا و ہوس کا غلبہ بھی ایک قسم کی جہالت ہے ۔ گناہگار انسان چاہے جتنا بڑا عالم ہو جاہل ہے کیونکہ وہ متوجہ نہیں ہے کہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ خرید رہا ہے ۔

پیام :

١۔ جواں مردی یہ ہے کہ جرم کی جزئیات کو بیان نہ کیا جائے۔ (مَا فَعَلْتُمْ )

٢۔ جوان مردی یہ ہے کہ( اشاروں میں) خطا کار کو عذر خواہی کا راستہ دکھایا جائے۔ ( إِذْ أَنْتُمْ جَاہِلُون )

( ٩٠ ) قَالُوا أَإِنَّکَ لَأَنْتََ یُوسُفُ قَالَ أَنَا یُوسُفُ وَہذَا أَخِی قَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَیْنَا إِنَّہُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اﷲَ لاَ یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ .

''( اس پر وہ لوگ چونکے اور) کہنے لگے (ہائیں)کیا تم ہی یوسف ہو ؟ یوسف نے کہا : ہاں میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ، بے شک خدانے مجھ پر احسان کیا ہے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص (اس سے) ڈرتا ہے اور (مصیبت میں) صبر کرتا ہے تو خدا ہرگز (ایسے) نیکوکاروں کا اجر برباد نہیں کرتا ''۔

نکات :

زمانہ جتنا گزرتا جارہاتھا برادران اتنا ہی تعجب کی شدت سے مبہوت ہوئے جارہے تھے کہ عزیز مصر ہمارے بابا کے خط کو دیکھ کر کیوں رو رہے ہیں ؟ عزیز کو ماجرائے یوسف (ع)کا علم کہاں سے ہوگیا! غور سے دیکھا جائے تو اس کا چہرہ بالکل یوسف (ع)سے ملتا جلتا ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ یہی یوسف (ع)ہو ؟ بہتر ہے کہ انہی سے پوچھ لیں اگر یہ یوسف (ع)نہ ہوئے تو کوئی ہمیں دیوانہ نہیں کہے گا لیکن اگر یہ یوسف (ع)ہوئے تو شرمندگی کی پھٹکار کا کیا ہوگا ؟ اس فکر نے بھائیوں کے وجود میں ہیجان برپا کردیا کہ ہم کیا کریں ؟ اسی ادھیڑ بن میں یکایک اس سوال سے سکوت کا طلسم ٹوٹا : أَاِنَّکَ لَأَنْتََ یُوسُفُ ۔ کیا آپ ہی یوسف(ع) ہیں اس طلسم کے ٹوٹنے کے بعد کا سماں کیسا تھا وہاں کا ماحول کیا تھا آیا کسی نقاش میں اتنی صلاحیت ہے کہ اس کا نقشہ کھینچ سکے ؟ آیا شرمندگی و خوشی ، گریہ و محبت اور آغوش پھیلا کر سمیٹ لینا ان تمام دل کش اور روح فرسا مناظر کی تصویر کشی ہوسکتی ہے ؟ اسے تو بس خدا ہی جانتا ہے اور کوئی نہیں ۔

ایسا ماحول فراہم کردیا جائے کہ لوگ خود سوال کرنے لگیں ۔ رشد و تربیت کے لئے جوش و ولولہ کو بلند کرنا چاہئےے ۔ بھائیوں کے لحظہ بہ لحظہ جذبہئ جستجو اور سوال میں زیادتی ہورہی تھی ۔ اپنے آپ سے کہہ رہے تھے ۔ انہیں اصرار کیوں تھا کہ ہم بنیامین کو اپنے ساتھ لائیں؟ پیمانہ ہمارے ہی غلے میں کیوں ملا ؟ پہلی مرتبہ ہمارا پیسہ کیوں لوٹا دیا گیا یوسف (ع)کے قصہ سے یہ کیسے باخبر ہوگئے ؟ کہیں ایسا نہ ہوکہ اب ہمیں غلہ نہ دیں ؟جب یہ تمام ہیجانات ذہن پر اثر انداز ہوئے ، جب روح بلبلا اٹھی ، ذہن کی نسیں پھٹنے لگیں تو یکایک سوال کردیا : کیا آپ(ع) ہی یوسف ہیں ؟ جواب دیا: ہاں !

امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا درحقیقت حضرت قائم علیہ السلام کے سلسلے میں حضرت یوسف (ع)کی سنت ہے لوگ ان کو نہیں پہچانیں گے مگر جب خداوندعالم انہیں اجازت دے گا تو وہ خود کو پہچنوائیں گے (١ )

پیام :

١۔ گزرتے وقت اور تلخ و شیریں حوادث سے روابط اور شناسائی میں تبدیلی آتی

--------------

( ١ ) بحار الانوار ج ١٢ ص ٢٨٣ .

ہے۔ (أاِنَّکَ َأَنْتََ یُوسُف )

٢۔ عوام کے احسانات تلخ ہیں لیکن احسانات الٰہی شیریں ہیں۔ ( مَنَّ اﷲُ عَلَیْنَ )

٣۔ اولیائے الٰہی تمام نعمتوں کا مصدر و منبع خداوندعالم کو جانتے ہیں۔ ( مَنَّ اﷲُ عَلَیْنَ )

٤۔ لطف خداوندی ،حکیمانہ اور معیار کے مطابق ہوتا ہے ( مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اﷲَ ...)

٥۔ جوعہدہ داری اور حکومت کا اہل ہوتا ہے اسے حوادث ، حسادت ، شہوت ، ذلت، قیدخانہ، اور پروپیگنڈے جیسے امتحانات کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔(مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ ...)

٦۔ خطرناک اور حساس ترین اوقات سے تبلیغ کے لئے استفادہ کرنا چاہیئے ۔ جب بھائیوں کو اپنے کئے پر شرمندگی کا پورا احساس ہوگیا اور وہ دریائے شرم میں ڈوبنے لگے اور حضرت یوسف علیہ السلام کی تمام باتوں کو بغور سننے کے لئے آمادہ ہوگئے تب آپ (ع)نے فرمایا:(مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ ...)

٧۔ صبر اور تقوی عزت کا پیش خیمہ ہیں ( مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اﷲَ لاَ یُضِیعُ ...)

٨۔ صالحین کی حکومت ،خدا کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔(لاَ یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

( ٩١ ) قَالُوا تَاﷲِ لَقَدْ آثَرَکَ اﷲُ عَلَیْنَا وَإِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ .

'' وہ لوگ کہنے لگے خدا کی قسم آپ کو خدا نے ہم پر فضیلت دی ہے اور بےشک ہم ہی (سرتاپا) خطاکار تھے ''۔

نکات :

ایثار یعنی دوسروں کو خود پر برتری دینا ۔ یوسف (ع)کے بھائیوں نے اپنی کج فکری (نحن عصب)کی بنیاد پراتنا بڑا غلط کام انجام دیاکہ کہنے لگے اسے کنویں میں پھینک دو، ''القوہ فی غیابت الجب'' خداوندعالم نے ان کو ایسے مقام پر پہنچا دیا کہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے گدائی پر مجبور ہوگئے (مَسَّنَا وَأَہْلَنَا الضُّر )

آخر کار اعتراف پر مجبور ہوگئے کہ ہماری ساری سازشوں پر پانی پھر گیا'' کُنَّا خَاطِئِینَ '' بالآخر انہوں نے اپنے غلط تفکر کے بجائے ایک حقیقت کو قبول کرلیا '' لَقَدْ آثَرَکَ اﷲُ عَلَیْنَا ''

برادران یوسف (ع)نے تاللہ کہہ کر چند بار قسم کھائی ہے ۔( تَاﷲِ لقد علمتم ما جئنا لنفسد فی الارض) خدا کی قسم آپ خود جانتے ہیں کہ ہم فساد اور چوری کےلئے آپ کی سرزمین پر نہیں آئے ہیں ۔

( تَاﷲِ تفت تذکر یوسف)اللہ کی قسم آپ تو ہمیشہ یوسف یوسف کرتے رہتے ہیں ۔ (تَاﷲِ انک لفی ضلالک القدیم)خدا کی قسم باباجان آپ تو یوسف کی محبت میں گمراہ ہوکر اپنی پرانی گمراہی میں پڑے ہیں۔

( تَاﷲِ لَقَدْ آثَرَکَ عَلَیْنَا) خداکی قسم اللہ نے تمہیں ہم پر فضیلت دی ہے۔

پیام :

١۔اگر حسد و بغض کی بنیاد پر ہم کسی کی فضیلت کا اعتراف نہیں کریں گے تو ذلت و خواری کے ساتھ اس کا اقرار کرنا پڑے گا ۔ (لَقَدْ آثَرَکَ اﷲُ عَلَیْنَ )

٢۔ خدا کے ارادے کے مقابلے میں کوئی ٹھہر نہیں سکتاہے (١)۔( آثَرَکَ اﷲُ عَلَیْنَ )

٣۔ خطا و غلطی کا اعتراف ،عفو و بخشش کی راہیں ہموار کرتا ہے ۔ (إِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ )

( ٩٢ ) قَالَ لاَ تَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ وَہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ .

'' یوسف نے کہا : آج تم پر کوئی عقاب نہیں ہوگا خدا تمہارے گناہ معاف فرمائے وہ تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ''۔

--------------

( ١ ) فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

نکات :

'' تثریب'' کے معنی توبیخ ، گناہ گنوانااور زیادہ ملامت کرنا ہے ۔فتح مکہ کے موقع پر مشرکین نے کعبہ میں پناہ لی تھی ۔ عمر نے کہا : ہم تو انتقام لے کر رہیں گے ۔ پیغمبر (ص) نے فرمایا : آج کا دن ،رحمت کا دن ہے، پھر مشرکین سے پوچھا : آج تم لوگ میرے بارے میں کیا گمان رکھتے ہو ؟ ان لوگوں نے جواب دیا : بہتری ! آپ (ع)ہمارے کریم بھائی ہیں ۔ اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا : آج میں وہی کہوں گا جو حضرت یوسف علیہ السلام کا کلام تھا۔( لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ )عمر نے کہا : میں اپنی بات پر شرمندہ ہوگیا۔(١ )

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : اذا قدرتَ علی عدوّک فاجعل العفو عنہ شکر القدر علیہ۔ جب تم اپنے دشمن پر قابو پالو تو اس کا شکر اس کی بخشش قراردو (٢ )

حدیث میں وارد ہوا ہے : جوان کا دل نرم ہوتا ہے پھر معصوم نے اسی آیہئ شریفہ کی تلاوت فرمائی:، فرمایا: یوسف چونکہ جوان تھے اس لئے بھائیوں کو فوراً بخش دیا(٣ )

پیام :

١۔ کشادہ قلبی ، ریاست و حکومت کا سبب ہے ۔ ( لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ )

--------------

( ١ ) تفسیر قرطبی .

( ٢ ) نہج البلاغہ کلمات قصار ١١ .

( ٣ ) بحار الانوار ج ١٢ ص ٢٨٠ .

٢۔ جواں مردی حضرت یوسف سے سیکھنا چاہیئے جنہوں نے اپنا حق بھی معاف کردیا اور خداوندعالم سے بھی عفو و درگزرکی درخواست کی ۔ ( لَاتَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ ... یَغْفِرُ اﷲُ )

٣۔ لوگوں کی خطں کو فوراً معاف کردینا چاہیئے ۔ (الْیَوْمَ )

٤۔ جیسے ہی برائی کرنے والا غلطی کا اعتراف کرلے اسے فوراً قبول کرلینا چاہیئے اسے زیادہ شرمندہ نہیں کرنا چاہیئے ۔ (إِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ ۔قَالَ لَاتَثْرِیبَ ...)

٥۔ عفو و درگزر کا اعلان کردینا چاہیئے تاکہ دوسرے افراد بھی سرزنش نہ کریں (لَاتَثْرِیبَ عَلَیْکُم )

٦۔ بھر پور عزت و قدرت کے وقت عفو و درگزرکرنا، اولیائے الٰہی کی سیرت رہی ہے (لَاتَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ )

٧۔ خداوندعالم کی بخشش ان لوگوں کے بھی شامل حال ہوتی ہے جنہوں نے سالہاسال خدا کے دو پیغمبروں (یعقوب (ع)و یوسف(ع)) کو اذیت پہنچائی تھی ۔ (ہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ )

٨۔ جب بندہ معاف کررہا ہے تو''ارحم الراحمین '' خدا سے بخشش کے علاوہ کیا امید رکھی جاسکتی ہے (یَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ )

٩۔ شرمندہ افراد کو معاف کردینا الٰہی سنت ہے (یغفر۔ صیغہ مضارع ہے جو استمرار پر دلالت کرتاہے )

١٠۔ مظلومین کا ظالموں کو معاف کردینا رحمت الٰہی کے شامل حال ہونے کا پیش خیمہ ہے لیکن ایسے افراد کو معاف کردیا جانا مغفرت و رحمت الٰہی پر موقوف ہے ۔( لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ وَہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ .)

١١۔ خداوندعالم کو صفت مغفرت و رحمت (مانند ارحم الراحمین) سے یاد کرنا، دعا و استغفار کے آداب میں سے ہے ۔

( ٩٣ ) اذْہَبُوا بِقَمِیصِی ہَذَا فَأَلْقُوہُ عَلَی وَجْہِ أَبِیْ یَأْتِ بَصِیرًا وَأْتُونِی بِأَہْلِکُمْ أَجْمَعِینَ ۔

'' یہ میرا کرتا لے ج اور اس کو ابا جان کے چہرہ پر ڈال دینا کہ وہ پھر بینا ہوجائیں گے اور تم لوگ اپنے سب اہل و عیال کو لے کر میرے پاس آج''۔

نکات :

حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان میں آپ (ع)کے کرتے کا تذکرہ مختلف مقامات پر ملتا ہے ۔

( الف) (و جا علی قمیصہ بدم کذب)بھائیوں نے جناب یوسف(ع) کے کرتے کو جھوٹے خون سے آ غشتہ کردیا اور اسے باپ کے پاس لے گئے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔

( ب) (قدّ قمیصہ من دبر)پیچھے سے پھٹا ہوا کرتا جرم اور مجرم کے کشف کا سبب بنا ۔

( ج) (اذْہَبُوا بِقَمِیصِی)کرتا نابینا یعقوب (ع)کے لئے شفا کا سبب بنا ۔

اگر ایک کرتا یوسف (ع)کے ہمراہ رہنے کی بنیاد پر نابینا کو بینا بنا دیتاہے تو مرقد و صحن اس کے در و دیوار اور کپڑے بلکہ ہر وہ چیز جو اولیائے الٰہی کے جوار میں ہے وہ تبرک ہے اور اس سے شفا کی امید ہے ۔

یہ مرحلہ توحل ہوگیاجس میں بھائیوں نے جناب یوسف (ع)کو پہچان لیا، عذر خواہی کرلی اور حضرت یوسف علیہ السلام نے بخش بھی دیا ۔ لیکن ابھی دوسرا مرحلہ باقی ہے ابھی بھائیوں کے ظلم کے آثار باپ کی نابینائی کی شکل میں آشکار ہیں ۔لہٰذا اسی مشکل کو یوسفی تدبیر نے اس آیت میں حل کیا ۔ روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا: میرا کرتا لے کر بابا کے پاس وہی جائے جو میرا خون بھرا کرتا لے گےا تھا تاکہ جس طرح بابا کو آزردہ خاطر کیاتھا اسی طرح ان کا دل شاد کرے ۔

روایتوں میں آیاہے کہ اس عذر خواہی وغیرہ کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام ہر روز و شب اپنے بھائیوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے جس کی وجہ سے( حضرت یوسف (ع)کا سامنا کرنا پڑتا اور) بھائیوں کو شدید شرمندگی کا احساس ہوتا لہٰذا ان لوگوںنے پیغام بھیجاکہ ہمارا کھانا الگ لگایا جائے کیونکہ آپ(ع) کاچہرہ دیکھ کر ہم بے حد شرمندہ ہوتے ہیں اس پر حضرت یوسف علیہ السلام نے جواب دیا : لیکن میرے لئے یہ باعث افتخار ہے کہ میں آپ لوگوں کے ساتھ رہوں اور ایک ساتھ کھانا تناول کروں ۔ دنیا جب مجھے دیکھتی تھی تو یہ کہتی تھی: ''سبحان من بلغ عبدا بیع بعشرین درھما ما بلغ''خدا کی شان تو دیکھو کہ بیس درہم میں بکنے والا غلام آج کہاں سے کہاں پہنچ گیا ۔ لیکن آج آپ لوگوں کا وجود میرے لئے عزت کا سبب ہے ان لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ میں غلام اور بے حسب و نسب نہیں ہوں بلکہ آپ جیسے ہمارے بھائی اور حضرت یعقوب(ع) جیسے ہمارے بابا ہیں، یہ الگ بات ہے کہ میں غریب الوطن ہوگیا تھا (اللہ اکبر یہ جواں مردی ، یہ حلم و بردباری )

ظاہم واقعہ : منقول ہے کہ جب حضرت آی اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری یزدی اعلی اللہ مقامہ (حوزہ علمیہ قم کے مسس)نے علاج کے لئے اراک سے تہران کی سمت حرکت فرمائی تو درمیان راہ ایک شب قم میں ٹھہرے وہاں لوگوں نے تقاضا کیا کہ حوزہ علمیہ اراک کو قم منتقل کردیجئے کیونکہ قم حرم اہلبیت اور حضرت معصومہ ٭ کا مدفن ہے ۔ آپ نے استخارہ کیا تو یہ آیت برآمد ہوئی ( وَأْتُونِی بِأَہْلِکُمْ أَجْمَعِینَ )

پیام :

١۔ جو چیزیں اولیائے الٰہی سے مربوط ہیں ان سے برکت حاصل کرنا جائز ہے۔ ( اذْہَبُوا بِقَمِیصِی )(یوسفی کرتا نابینا کو بینا بنا دیتاہے )

٢۔ جو ہوا و ہوس کا مقابلہ کرتا ہے اس کا لباس بھی مقدسات میں شمار ہوجاتا ہے (بِقَمِیصِی )

٣۔ غم اور خوشی آنکھوں کی روشنی میں موثر ہیں ۔ (وابیضت عیناہ من الحزن... یَأْتِ بَصِیرًا )شاید اسی وجہ سے ہونہار فرزند کو ''قر عین ''اور خنکی چشم کہا جاتا ہے (یہ اس صورت میں ہے جب اس واقعہ کے معجزاتی پہلو کو مدنظر نہ رکھا جائے )

٤۔ معجزہ اور کرامت میں سن و سال کی قید نہیں ہے (بیٹے کا کرتا باپ کی آنکھوں کی بینائی کا باعث بنتا ہے )

٥۔ حضرت یوسف علیہ السلام عالم علم غیب تھے وگرنہ انہیں کہاں سے معلوم ہوگیا کہ یہ کرتا باپ کو بینائی عطا کردے گا ۔( یَأْتِ بَصِیرً )

٦۔ صاحب قدرت فرزندوں کو اپنے کمزور رشتہ داروں خصوصا ً بوڑھے ماں باپ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہیئے ۔ ( وَأْتُونِی بِأَہْلِکُمْ أَجْمَعِینَ )

٧۔ معاشرتی حالات ، فریضہ کی انجام دہی میں موثر ہیں ( وَأْتُونِی بِأَہْلِکُمْ أَجْمَعِینَ)(جناب یوسف (ع)کاایسے حالات میں صلہ رحم ایسا تھا کہ رشتہ داروں کو مصر آنا ہی پڑا )

٨۔ تمام افراد کے حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے رشتہ داروں کاخیال رکھنا لازم ہے۔ (أْتُونِی بِأَہْلِکُم )

٩۔ گھر کا بدل دینا اور ہجرت کرنا بہت سارے آثار کا حامل ہے مثلاًغم انگیز یادیں خوشیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔ (وَأْتُونِی بِأَہْلِکُمْ أَجْمَعِینَ )

١٠۔ جن لوگوں نے فراق اور جدائی کی مصیبت اٹھائی ہے ان کی آسائش کی فکر کرنا چاہیئے۔ (أَجْمَعِینَ)اب حضرت یعقوب (ع)مزید فراق کی تاب نہیں رکھتے ۔

١١۔ بہترین لطف وہ ہے جو سب کے شامل حال ہو۔ ( أَجْمَعِینَ )

( ٩٤ ) وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیرُ قَالَ أَبُوہُمْ إِنِّی لَأَجِدُ رِیحَ یُوسُفَ لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ .

'' اور جوں ہی یہ قافلہ (مصر سے حضرت یعقوب کے شہر کنعان کی طرف) چلا تو ان لوگوں کے والد (یعقوب) نے کہہ دیا کہ اگر مجھ کو سیٹھایا ہوا نہ کہو تو (ایک بات کہوںکہ) مجھے یوسف کی بو معلوم ہورہی ہے ''۔

نکات :

'' فَصَلَتْ'' یعنی دور ہوگئے ۔ فَصَلَتِ الْعِیرُ۔یعنی کارواں، مصر سے دور ہوگیا ۔''ْ تُفَنِّدُون'' کا مادہ (فند)سٹھیانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔

جناب یعقوب(ع) کو اس کی فکر تھی کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ ان کی عقل جواب دے گئی ہے۔ لیکن ہائے افسوس پیغمبر اسلام (ص) کے اردگرد رہنے والے بعض صحابیوں نے پیغمبر (ص) کو اس نسبت سے منسوب کردیا یہ اس وقت ہوا جب بوقت رحلت آپ (ص)نے فرمایا : قلم و کاغذ لے تاکہ ایسی چیز لکھ دوں کہ اگر اس پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے اس وقت تاریخ کی ایک طویل القامت شخصیت نے کہا : ان الرجل لیھجر۔یہ مرد ہذیان بک رہا ہے۔ اسکے بعدآنحضرت(ص) کو کچھ لکھنے نہ دیا ۔

انی لاجد ریح یوسف۔ کوئی مشکل نہیں ہے ۔ کیونکہ جس طرح انبیاء (ع)وحی کو درک کرتے ہیں لیکن ہم درک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اسی طرح بقیہ امور میں بھی ممکن ہے کہ ایسی چیزوں کو درک کرلیں جو ہماری عقول سے بالاتر ہیں ۔ کیا پیغمبر اسلام (ص)نے جنگ خندق میں خندق کھودتے ہوئے کدال اور پتھر سے مل کر نکلتی ہوئی چنگاری کو دیکھ کر نہیں فرمایا کہ میں نے اس چنگاری میں بڑے بڑوں کو خاک چاٹتے ہوئے دیکھ لیا ؟ لیکن جو ضعیف الایمان تھے وہ کہنے لگے پیغمبر (ص) تو اپنی جان کے خوف سے اردگرد خندق کھود رہے ہیں لیکن آنحضرت(ص) نے کدال کی ہر ضرب پر ایک حکومت کی شکست اور فتح کا وعدہ دےدیا ۔

شرح نہج البلاغہ آی اللہ خوئی قدس سرہ میں ہے کہ امام کے لئے ایک نوری ستون ہے جب خدا چاہتا ہے تو امام اس پر نگاہ کرنے کی وجہ سے آئند ہ کو دیکھ لیتا ہے اور کبھی ایک عام آدمی کی طرح ہوتا ہے(١)ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہاہے :

زمصر بوی پیراہن شنیدی

چرا در چاہ کنعانش ندیدی۔

مصر سے تو (حضرت یعقوب(ع))کو کرتے کی خوشبو آگئی مگر کنعان کے کنویں میں حضرت یوسف (ع)کو آپ نہ دیکھ سکے .

بگفت احوال ما برق جہان است

گہی پیدا و دیگر دم نہان است

انھوں نے کہا: ہمارا حال آسمانی بجلی کی مانند ہے کبھی روشن اور کبھی پنہان ہوجاتی ہے .

گہی برطارم اعلی نشینم

گہی تا پشت پای خود نبینم

( حکمت خدا کے تحت)کبھی ہم لوح محفوظ کا مطالعہ کرتے ہیں اور کبھی اپنے پں کے نیچے پڑی چیز سے بھی بے خبر ہوتے ہیں .

ممکن ہے کہ خوشبوئے یوسف (ع)سے مراد جناب یوسف (ع)کے بارے میں کوئی نئی خبر ہو یہ

--------------

( ١ ) تفسیر نمونہ .

مسئلہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بنام (telepathy) ( یعنی انتقال فکر یا ارتباط معنوی و فکری )مشہور و معروف ہے اور ''مسلّم علمی مسئلہ ''کے عنوان سے قبول شدہ ہے ۔ یعنی جو لوگ ایک دوسرے سے نزدیکی تعلق رکھتے ہیں یا ایک خاص قسم کی روحی قدرت سے سرشار ہیں جیسے ہی دنیا کے کسی گوشے میں کسی شخص پر کوئی مصیبت آتی ہے وہ دوسری جگہ اس سے مطلع ہوجاتے ہیں(١ )

ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا : کبھی کبھی میرادل کسی سبب کے بغیر غمناک ہوجاتا ہے اور وہ بھی اس حد تک کہ دوسرے سمجھ لیتے ہیں ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا : مسلمین خلقت میں ایک حقیقت وطینت سے ہیں جیسے ہی کوئی تلخ حادثہ کسی پر رونما ہوتا ہے دوسرا شخص دوسری زمین پر غمناک ہوجاتا ہے۔

اگر حضرت یوسف (ع)کی خوشبو کے سونگھنے کا تعلق صرف ''قوت شامہ '' سے ہے تو یہ ایک معجزہ اور خارق عادت واقعہ ہے کہ حضرت یعقوب (ع)اتنے طویل فاصلے پر حضرت یوسف (ع)کی خوشبو کو محسوس کرلیتے ہیں۔

آپ بیتی:جس وقت عراق نے ایران پر حملہ کیا تھا اور امام خمینی (رح)کے فرمان پرپوری قوم غربی و جنوبی محاذ پر موجود اور حاضر تھی میں بھی شہید آی اللہ اشرفی کے ہمراہ جو ٩٠/ نوے سال کے تھے، عملیات ''مسلم بن عقیل'' میں موجود تھا ۔ انہوں نے بارہا حملے کی رات مجھ سے کہا : میں بہشت کی خوشبو محسوس کررہا ہوں ۔ لیکن میں نے اپنی تمام تر کوششوں

--------------

( ١ ) تفسیر نمونہ .

کے باوجود کوئی خوشبو محسوس نہ کی ۔ ہاں کیوں نہ ہو جس نے نوے سال علم و تقوی و زہد میں اپنی زندگی گزاری ہو وہ اتنی قدرت رکھتا ہے کہ وہ ایسی چیزوں کا احساس کرے جس سے دوسرے عاجز ہوں ۔ اسی طرح آپ کی وہ پیشین گوئی کہ میں چوتھا شہید محراب ہوں ،دنیا کے سامنے آشکار ہوگئی(١) بہرحال ممکن ہے کہ بوئے بہشت سے مراد عرفانی خوشبو ہو جیسے مناجات کی شیرینی جو ایک معنوی مزہ ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ طبیعی خوشبو ہو لیکن ہر مشام اس خوشبو کو محسوس نہیں کرپاتا ۔ جیسے فضا میں ریڈیو کی تمام موجیں ہیں لیکن تمام ریڈیو اسے نہیں کھینچ پاتے۔

پیام :

١۔ انسان باطنی صفات کے ذریعہ معنوی حقائق کو درک کر سکتا ہے ۔ (انی لاجد ریح یوسف)۔ لیکن درک حقائق محدود ہے ایسا نہیں ہے کہ ہر زمان و مکان میں جو چاہیں درک کرلیں ، یہی وجہ ہے کہ یوسف کی خوشبو کو اس وقت محسوس کیا جب کاروان مصر سے دور ہوگیا ۔( فَصَلَتِ الْعِیرُ )

٢۔ اگر حقائق کو درک نہیں کرسکتے تو دوسروں کے بلند مقام کا انکار نہیں کرنا چاہیئے ۔ (لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ )

٣۔ نادانوں کے درمیان عالموں کی زندگی بڑی تکلیف دہ ہے ( لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ )

--------------

( ١ ) منافقین نے ایک دوسال کے اندر اندر آیت اللہ مدنی، صدوقی ، دستغیب، کو نماز جمعہ یا نماز جمعہ کے راستے میں بم سے شہید کردیا .

( ٩٥ ) قَالُوا تَاﷲِ إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِکَ الْقَدِیمِ .

'' وہ لوگ کہنے لگے : آپ یقینا اپنے پرانے خبط (محبت) میں (مبتلا) ہیں''۔

نکات :

اس سورہ کی آٹھویں آیت میں ہم نے پڑھا کہ بھائیوں نے باپ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کہا :(انا ابانا لفی ضلال مبین) ہمارے بابا تو یوسف (ع)اور اس کے بھائی کی بے جا محبت میں آشکارا گمراہی میں پڑ گئے ہیں ۔ اس آیت میں کہہ رہے ہیں کہ (ضلالک القدیم )یوسف(ع) کے سلسلے میں اب بھی اسی غلطی پر ڈٹے ہیں ۔

عوام الناس ،اولیائے الٰہی کو اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر نہ تولیں اور یہ فیصلہ صادر نہ کریں کہ فلاں کام ہوسکتا ہے اور فلاں کام نہیں ہوسکتا ۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : الناس اعداء ماجھلوا۔انسان ہر اس چیز کا دشمن ہے جسے نہیں جانتا۔

پیام :

١۔ نیک کردار افراد کے افعال کو خود سے قیاس نہ کیجئے (إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِک...) (باپ کی طرف گمراہی کی نسبت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ نبی کو اپنی عقل سے درک کرنا چاہتے تھے )

٢۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اس جدائی کی طولانی مدت میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی سے مطمئن تھے اور اس کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے اسی وجہ سے آپ کے بیٹوں نے کہا (إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِکَ الْقَدِیمِ )

( ٩٦ ) فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِیرُ أَلْقَاہُ عَلَی وَجْہِہِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ إِنِّی أَعْلَمُ مِنَ اﷲِ مَا لاَتَعْلَمُونَ .

'' پھر یوسف کی خوشخبری دینے والا آیا اور یوسف کے کرتے کو یعقوب کے چہرہ پر ڈال دیا تو یعقوب فوراً بینا ہوگئے (تب یعقوب نے) کہا کیوں میں تم سے نہ کہتا تھا جو باتیں خدا کی طرف سے میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے''۔

نکات :

اگر آنکھ کے سفید ہونے ''وابیضت عیناہ'' سے مراد بینائی میں کمی واقع ہونا ہے تو ''بصیراً'' سے مراد آنکھوں کا پر نور ہونا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خوشی اور غم انسان کی قوت باصرہ پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن اگر مراد مطلق نابینائی ہے یعنی جناب یعقوب (ع)فراق یوسف (ع)میں دیکھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے تھے جیساکہ ظاہر آیت ''فَارْتَدَّ بَصِیرًا''سے یہی سمجھ میں آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ اورتوسل تھا جس کی طرف قرآن مجید اشارہ کررہا ہے۔

دنیا نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے حضرت یوسف (ع)کے بھائیوں نے ایک دن خبر پہنچائی تھی کہ یوسف (ع)کو بھیڑیا کھا گیا اور آج وہی بھائی حضرت یوسف (ع)کے حاکم ہونے کی خبر لا رہے ہےں ۔

پیام :

١۔ علم انبیاء (ع)کا سرچشمہ، علم الٰہی ہوتا ہے ۔ ( أَعْلَمُ مِنَ اﷲِ ...)

٢۔ الٰہی نمائندوں کو خدا کے وعدوں پر یقین و اطمینان ہوتا ہے ۔ ( أَلَمْ أَقُلْ ...)

٣۔ حضرت یعقوب(ع) اپنے فرزندوں کے برعکس حضرت یوسف (ع)کی زندگی اور فراق کے وصال میں تبدیل ہونے پر مطمئن تھے ۔ ( أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ )

٤۔ ارادہ الٰہی طبیعی قوانین پر حاکم ہوتا ہے۔ ( فَارْتَدَّ بَصِیرً )

٥۔ اولیائے الٰہی کا لباس اور ان سے ارتباط بااثر ہوسکتا ہے۔ ( فَارْتَدَّ بَصِیرً )

( ٩٧ ) قَالُوا یَاأَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ .

'' ان لوگوں نے عرض کی : اے بابا ہمارے گناہوں کی مغفرت کی (خدا کی بارگاہ میں )ہمارے واسطے دعا مانگئے ہم بے شک از سر تاپا گنہگار ہیں''۔

نکات :

فرزندان حضرت یعقوب(ع) موحد تھے اور اپنے باپ کے والا مقام سے آگاہ تھے ( یَاأَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا) بنابریں اپنے باپ کو جو ''گمراہی اور ضلالت '' کی نسبت دی تھی اس کا مقصد عقیدہ میں گمراہی نہ تھا بلکہ ان کے زعم ناقص میں حضرت یعقوب (ع)حضرت یوسف (ع)کی محبت میں غلط تشخیص کی بنا پر گمراہ تھے ۔

ظالم کے تین طرح کے دن ہوتے ہیں :

١۔ قدرت کے روز۔

٢۔ مہلت کے روز۔

٣۔ ندامت کے روز۔

اسی طرح مظلوم کے بھی تینطرح کے دن ہوتے ہیں :

١۔ ''روز حسرت'' جس دن اس پر ظلم ہوتا ہے۔

٢۔ ''روز حیرت'' جس میں وہ کسی تدبیر کی فکر میں ہوتا ہے۔

٣۔ ''روز نصرت ومدد'' چاہے وہ دنیا میں ہو یاآخرت میں۔

پیام :

١۔ ظلم، مایہ ذلت و خواری ہے ، جس دن بھائیوں نے حضرت یوسف کو کنویں میں ڈالا تھا وہ روز ان کی خوشی اور حضرت یوسف (ع)کی ذلت کا دن تھا ۔لیکن آج معاملہ برعکس ہے ۔

٢۔ گناہوں کی بخشش کے لئے اولیائے الٰہی سے توسل جائز ہے۔ ( یَاأَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَ )

( ٩٨ ) قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّی إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ ۔

'' یعقوب نے کہا میں بہت جلد اپنے پروردگار سے تمہاری مغفرت کی دعا کروں گا بے شک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ''۔

نکات :

جو کل اپنی غلطیوں کی بنیاد پر اپنے باپ کو(ان ابانا لفی ضلال مبین) کہہ رہے تھے، آج وہی اپنی غلطیوں کی طرف متوجہ ہو کر (إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ)کہہ رہے ہیں۔

پیام :

١۔باپ کو کینہ توز نہیں ہونا چاہیئے اور بچوں کی لغزشوں کو دل میں نہیں رکھنا چاہیئے۔ (استَغْفِرُ لَکُمْ )

٢۔ دعا کے لئے خاص اوقات اولویت رکھتے ہیں ۔ ( سَوْف)(١ )

٣۔ لطف الٰہی، عظیم سے عظیم گناہ اور بڑے بڑے گناہگاروں کے بھی شامل حال ہوتا

--------------

( ١ ) تفسیر مجمع البیان میں اور اطیب البیان میں موجود ہے کہ حضرت یعقوب شب جمعہ یا سحر کے منتظر تھے تاکہ بچوں کے لئے دعائیں کریں .

ہے۔( ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ) حالانکہ سالہا سال دو الٰہی نمائندے اذیت وآزار میں مبتلا رہے لیکن پھر بھی بخشش کی امید ہے ۔

٤۔ باپ کی دعا فرزندوں کے حق میں انتہائی موثر ہوتی ہے ۔( سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ)(١ )

٥۔ اگر غلطی کرنے والا غلطی کا اعتراف کرلے تو اس کی ملامت نہیں کرنا چاہیئے جیسے ہی بیٹوں نے کہا ( إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ) ہم خطا کار تھے ۔ویسے ہی باپ نے کہا (سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ )

( ٩٩ ) فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْہِ أَبَوَیْہِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاءَ اﷲُ آمِنِینَ ۔

''( غرض) جب یہ لوگ (حضرت یوسف کے والد، والدہ ، اور بھائی) یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا: مصر میں داخل ہوجاہیئے اللہ نے چاہا توا من سے رہیں گے ''۔

نکات :

داستان کے اس حصے کو میں کیسے لکھوں میں نہیں جانتا حضرت یوسف (ع)اپنے والدین

--------------

( ١ ) اس سلسلے میں بہت ساری روایات موجود ہیں .

کے استقبال کے لئے بیرون شہر خیمہ ڈال کر انتظار کی گھڑیاں گزار رہے ہیں تاکہ بڑے ہی عزت و احترام سے انہیں شہر مصر میں لے جائیں (دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ... ادْخُلُوا مِصْرَ ...)

اسی طرح فطری بات ہے کہ ادھر جب حضرت یوسف (ع)کے والدین اور بھائی سفرکی تیاری کررہے ہوں گے تو پورے کنعان میں ہنگامہ ہوگا ۔ لوگ بغور ملاحظہ کر رہے تھے کہ کس طرح سالہاسال کے بعد بیٹے کی سلامتی کی خبر سن کر خوشی سے جھومتے ہوئے حضرت یعقوب روشن و منور آنکھوں کے ہمراہ مشتاقانہ دیدار فرزند کے لئے آمادہ سفر ہیں۔

اہل کنعان بھی باپ اور بیٹے کے اس ملن کی خبر سے بے حد خوشحال تھے بطور خاص اس بات پر خوش تھے کہ حضرت یوسف (ع)مصر کے خزانہ دار ہیں اور خشک سالی کے زمانے میں غلہ بھیج کران کی مدد فرمائی ہے ۔نہیں معلوم کس شوق و ولولہ اور عشق و محبت کے ساتھ اس واقعہ کو حوالہئ قرطاس کیا جائے اور کہاں پراسے تمام کیا جائے !

کلمہ ''ابویہ'' سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع)کی مادر گرامی بھی زندہ تھیں ۔ لیکن سوال جو ذہن میں اٹھتا ہے اور میں خود بھی اس کا جواب نہیں جانتا کہ آخر وجہ کیا تھی کہ پورے قصے میں حضرت یوسف(ع) کی مادر گرامی کا گریہ ، نالہ و شیو ن کہیں نہیں ملتا ۔ پوری داستان اس سلسلے میں خاموش ہے ۔(١ )

--------------

( ١ ) تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جناب یوسف کی ماں بچپن میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں، حضرت یوسف کو ان کی خالہ نے پالا تھا، آیہئ شریفہ میں ''ابویہ'' اس لئے کہا گیا ہے کہ آپ E

روایات میں آیا ہے کہ حضرت یعقوب(ع) نے قسم دے کر حضرت یوسف (ع)سے اصرار کیا کہ انہیں اپنی پوری داستان سنائیں ۔ حکم پدری پر حضرت یوسف (ع)نے داستان شروع کی جب اس موقع پر پہنچے کہ بھائیوں نے کنویں کے پاس لے جا کر زبردستی میرا کرتا اتروا لیا تو یہ سنتے ہی حضرت یعقوب (ع)بے ہوش ہوگئے ۔ جیسے ہی ہوش میں آئے فرمایا : داستان سناتے رہو لیکن حضرت یوسف (ع)نے فرمایا : بابا آپ (ع)کو ابراہیم و اسماعیل و اسحق ٪ کے حق کا واسطہ، مجھے اس داستان کے سنانے سے معاف فرمائیں! حضرت یعقوب علیہ السلام نے اسے قبول فرمالیا(١ )

--------------

F کی خالہ آپ کی تربیت کی ذمہ داری تھیں، جس طرح قرآن مجید نے آذر کو جناب ابراہیم(ع) کا باپ کہا ہے، جبکہ وہ آپ کا چچا تھا۔

علاوہ از ایں، ماں کا گریہ، آہ و نالہ، نوحہ و ماتم او رفریاد و زاری ایک عام بات ہے، کیونکہ ہر ماں اپنے بچے کے فراق پر آنسو بہاتی ہے، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے لیکن اس کے مقابلہ میں مرد عقل کے ساتھ قدم آگے بڑھاتا ہے، باپ ہونے کے باوجود وہ صبر و ضبط سے کام لیتا ہے، اور اگر وہ باپ نبی ہو تو پھر اس کا آنسو بہانا بہت بعید ہے، کیونکہ یہ خلاف عقل ہے ،گمشدہ چیز پر رونے سے کیا فائدہ، خصوصاً جب یقین ہو کہ فرزند زندہ ہے تو پھر آنسو بہانا دیوانہ پن ہے، زندہ شخص پر آنسو بہانے سے کیا فائدہ۔

انہی تمام پندار غلط اور تصورات ناقص پر خط بطلان کھینچنے کے لئے خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) کے آنسووں کا تذکرہ فرمایا کہ جو اپنے وقت کے نبی بھی تھے اور اس کی تائید بھی فرمائی کہ یہ آنسو مقدس ہے، اور اس کا ذکر کرکے دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کرنا ہے کہ یوسف کے فراق میں حزن و ملال، نالہ و شیون مقدس ہے، قابل اعتراض نہیں۔ مترجم۔

( ١ ) تفسیر نمونہ، تفسیر مجمع البیان .

پیام :

١۔ بیرون شہر استقبال کرنا اچھی بات ہے ۔ ( دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ)شہر کے باہر استقبالیہ مراسم ادا کئے گئے تھے اور وہیں پر خیمہ ڈالاگیا تھا۔

٢۔عہدہ اور مقام ہمیں والدین کے احترام سے غافل نہ کریں ۔(قَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ ...)

٣۔سربراہ مملکت بھی اگر اپنے ملک کے امن و امان کے سلسلے میں گفتگو کررہا ہے تو اس کو بھی خدا وندعالم کے لطف کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے ۔(إِنْ شَاءَ اﷲُ )(١ )

٤۔رہائش ومحل وقوع کے انتخاب میں سب سے پہلا قابل غور مرحلہ امنیت ہے۔ (آمِنِینَ )

٥۔ اگر ہر دور میں یوسف زمان حاکم ہوں تو امینت برقرار ہوجائے گی۔ (آمِنِینَ )

--------------

( ١ ) ایک قوم نے پہاڑوں کو تراش کر اپنے گھر بنالئے تھے تاکہ امن و سکون سے رہ سکیں لیکن خدائی قہر نے ان کے امن و امان کو درہم برہم کردیا۔(وکانوا ینحتون من الجبال بیوتاآمنین فاخذتہم الصیح مصبحین) حجر ٨٢۔٨٣ .

( ١٠٠ ) وَرَفَعَ أَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَہُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاأَبَتِ ہَذَا تَأْوِیلُ رُیَای مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَہَا رَبِّی حَقًّا وَقَدْ أَحْسَنَ بِی إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ وَجَاءَ بِکُمْ مِنْ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ أَنْ نَزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی إِنَّ رَبِّی لَطِیفٌ لِمَا یَشَاءُ إِنَّہُ ہُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ ۔

'' اور(مصر پہنچ کر) یوسف نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب کے سب (یوسف کی تعظیم کے واسطے )ان کے سامنے سجدہ میں گر پڑے اور (اس وقت)یوسف نے کہا : اے بابا یہ تعبیر ہے میرے اس پہلے خواب کی میرے پروردگار نے اسے سچ کردکھایا،بے شک اس نے میرے ساتھ احسان کیا ہے جب اس نے مجھے قیدخانہ سے نکالااور باوجودیکہ کہ مجھ میں اور میرے بھائیوں میں شیطان نے فساد ڈال دیا تھا ،اس کے بعد بھی آپ لوگوں کو صحرا سے (کنعان سے مصر)لے آیا (اور مجھ سے ملا دیا) بے شک میرا پروردگارجو چاہتا ہے اسے تدبیر خفی سے انجام دیتا ہے ، بے شک وہ بڑا واقف کار حکمت والا ہے ''۔

نکات :

'' عرش'' اس تخت کو کہتے ہیں جس پر بادشاہ بیٹھتا ہے ''خرّوا''زمین پر گرنا ''بدو'' بادیہ اور صحرا،''نزغ''کسی کے درمیان فساد کی غرض سے وارد ہونا۔

'' لطیف'' خداوندعالم کا ایک نام ہے ، یعنی اس کی قدرت پیچیدہ اور مشکل امور میں بھی اپنا راستہ بنالیتی ہے اس نام کا تناسب آیت میں یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں ایک ایسی مشکل گرہ تھی جسے صرف قدرت خدائی ہی کھول سکتی تھی ۔

حضرت یوسف علیہ السلام مثل کعبہ ہوگئے تھے اور انکے ماں باپ اور بھائیوں نے انکے بلند رتبے اور کرامت کی وجہ سے انکی طرف رخ کرکے خداوند عالم کا سجدہ کیا (خَرُّوا لَہُ سُجَّدًا) اگر یہ سجدہ غیر خدا کےلئے اور شرک کا باعث ہوتا تو یوسف اوریعقوب + جیسے دو پیغمبر الٰہی کبھی ایسے عظیم گناہ کے مرتکب نہ ہوتے ۔

پیام :

١۔ ہم جس مقام پر بھی ہیں اپنے والدین کو اپنے سے برترسمجھیں (رَفَعَ أَبَوَیْہِ)جس نے زیادہ رنج و مصیبت کاسامنا کیا ہے اس کو زیادہ صاحب عزت ہونا چاہئےے۔

٢۔ انبیاء بھی تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوئے ہیں ۔ ( عَلَی الْعَرْش )

٣۔ حاکم برحق کا احترام اور اس کے سامنے تواضع ضروری ہے۔ (خَرُّوا لَہُ سُجَّدً )

٤۔ سجدہئ شکر ،تاریخی سابقہ رکھتا ہے ۔(خَرُّوا لَہُ سُجَّدً)(١ )

٥۔خداوندعالم حکیم ہے کبھی کبھی سالہاسال کی طولانی مدت کے بعد دعا مستجاب فرماتاہے یا خواب کی تعبیر دکھاتاہے ( ہَذَا تَأْوِیلُ رُیَای مِنْ قَبْل )

٦۔ تمام پروگرام کو اس کے حقیقی انجام تک پہنچانا خداوندعالم کے ہاتھ میں ہے ( قَدْ جَعَلَہَا رَبِّی حَقًّ)جی ہاں حضرت یوسف (ع)اپنی مقاومت اور صبر کے سلسلے میں رطب اللسان نہ تھے بلکہ ہر چیز کو خداوندعالم کا لطف سمجھ رہے تھے ۔

٧۔ اولیاء خدا کے خواب برحق ہوتے ہیں (جَعَلَہَا رَبِّی حَقًّ )

٨۔ تمام اسباب و علل اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمیشہ حقیقی اصل اور سبب خداوندعالم کو سمجھنا چاہیئے حضرت یوسف کی زندگی میں مختلف اسباب و علل نے مل کر انہیں اس بزرگ مقام تک پہنچایا لیکن پھر فرماتے ہیں(قَدْ أَحْسَنَ بِی )

٩۔ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت گزشتہ تلخیوں کا ذکر نہیں کرنا چاہیئے۔ (أَحْسَنَ بِی إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ)باپ سے ملاقات کے وقت حضرت یوسف (ع)کا سب سے پہلاکام خدا کا شکر تھا گزشتہ واقعات کی تلخیوں کا ذکر نہیں فرمایا۔

١٠۔انسان کو جواں مرد ہونا چاہیئے اور مہمان کی دل آزاری نہیں کرنی چاہیئے (آیہ شریفہ میں حضرت یوسف (ع)زندان سے نکلنے کا واقعہ تو بیان فرماتے ہیں لیکن کنویں سے

--------------

( ١ ) امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: جناب یعقوب (ع)اور ان کے فرزندوں کا سجدہ ،سجدہئ شکر تھا۔ احسن القصص .

باہر نکلنے کی داستان نہیں دہراتے کہ کہیںدوبارہ ایسا نہ ہو کہ بھائی شرمندہ ہوجائیں )( إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ )

١١۔انسان کو جواں مرد ہونا چاہیئے اہل کینہ و انتقام نہیں حضرت یوسف (ع)فرمارہے ہیں ۔ (نَزَغَ الشَّیْطَانُ)یعنی شیطان نے وسوسہ کیا ورنہ میرے بھائی برے نہیں ہیں ۔

١٢۔اولیائے الٰہی زندان میں قید ہونے اور وہاں سے آزادی کو توحید و ربوبیت کا محور سمجھتے ہیں (رب السجن احب)گزشتہ آیتوں میں ملتا ہے اور ابھی فرمایا:(أَحْسَنَ بِی إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ )

١٣۔مصیبتوں کے بعد خوشی ہے ، مشکلوں کے بعد آسانی ہے ۔(أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ )

١٤۔بادیہ نشینی ضرورت ہے، فضیلت نہیں۔(قَدْ أَحْسَنَ بِی إِذ...جَاءَ بِکُمْ مِنْ الْبَدْوِ ...)

١٥۔بچوں کے ہمراہ والدین کا زندگی بسر کرنا ایک لطف الٰہی ہے ۔(قَدْ أَحْسَنَ بِی إِذ...جَاءَ بِکُمْ )

١٦۔بھائیوں ،بلکہ گھر کے ہر ہر فرد کو یہ جان لینا چاہیئے کہ شیطان ان کے درمیان اختلاف، افتراق اور جھگڑا کرانے کے چکر میں لگا رہتا ہے ۔( نَزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی )

١٧۔اپنے آپ کو برتر شمار نہ کیجئے ( بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی ) حضرت یوسف (ع)نے یہ نہیں کہاکہ شیطان نے ان لوگوں کو فریب اور دھوکادیا بلکہ فرمایا میرے اور ان کے درمیان ... یعنی اپنے آپ کو بھی ان کے ہمراہ مدمقابل قراردیا ۔

١٨۔خداوندعالم کے امور نرمی، مہربانی ، اور لطف و کرم پر استوار ہوتے ہیں۔(لَطِیف )

١٩۔تمام تلخ و شیریں حادثات ،علم و حکمت الٰہی کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ (الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ )

٢٠۔کسی کو معاف کرنے کے بعد اسے شرمندہ نہ کیجئے جب حضرت یوسف (ع)نے بھائیوں کو بخش دیا تو واقعہ بیان کرنے میں کنویں کا نام نہیں لیتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بھائیوں کو شرمندگی ہو۔

( ١٠١ ) رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنْ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِی مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ .

''( اس کے بعد یوسف نے دعا کی )پروردگار تو نے مجھے اقتدار کا ایک حصہ بھی عطا فرمایا اور مجھے خواب کی تعبیر بھی سکھائی، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی میرا مالک و سرپرست ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو مجھے (دنیا سے)مسلمان اٹھالے اور مجھے نیکوکاروں میں شامل فرما''۔

نکات :

اولیائے خدا جب بھی اپنی عزت و قدرت کو ملاحظہ کرتے ہیں تو فوراً یاد خدا میں سر نیاز خم کردیتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں: خدایاجو کچھ بھی ہے تیرا ہی دیا ہوا ہے۔ حضرت یوسف(ع) نے بھی یہی کہا ،باپ سے گفتگو کرتے کرتے خدا کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ خداوندعالم نے مصر کی حکومت دو افراد کے ہاتھ میں دی ایک فرعون کہ جس نے اس حکومت کو اپنی طرف منسوب کرلیا۔ (الیس لی ملک مصر) (١) دوسرے حضرت یوسف علیہ السلام جنہوں نے اس کی نسبت خداوندعالم کی طرف دی ۔(اتیتنی من الملک )

ابراہیمی طرز تفکر ،ان کی نسل میں بھی جلوہ گر ہے ۔کل حضرت ابراہیم (ع)نے فرمایا تھا۔ (اسلمت لرب العالمین)(٢) میںپروردگارعالم کے سامنے تسلیم ہوں ۔ آپ(ع) کے بعد آپ (ع)کے پوتے حضرت یعقوب (ع)اپنے فرزندوں سے وصیت فرماتے ہیں کہ باایمان اس دنیا سے رخصت ہوں (لاتموتن الا و انتم مسلمون)(٣) یہاںفرزند یعقوب حضرت یوسف + بھی وقت وفات تسلیم و رضائے الٰہی کی درخواست کررہے ہیں (توفنی مسلما)۔ بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شمار صالحین میں ہوتا ہے (انہ فی الاخر لمن الصالحین)(٤) اورحضرت یوسف (ع)چاہتے ہیں کہ انہی سے ملحق

--------------

( ١ ) سورہ زخرف آیت ٥١ . (٢)سورہ بقر آیت ١٣١ .

( ٣ ) سورہ بقر آیت ١٣٢ . (٤) سورہ بقر آیت ١٣٠ .

ہوجائیں (الحقنی بالصالحین )

خداوندعالم نے حضرت آدم (ع)کو اسما کی تعلیم دی ۔(علم آدم الاسماء کلھا)(١) حضرت دد (ع)کو زرہ سازی کی تعلیم دی (علمناہ صنعہ لبوس)(٢) حضرت سلیمان (ع)کومنطق الطیر (پرندوں کی بولی سمجھنا )کا علم دیا (علمنامنطق الطیر) (٣) اسی طرح حضرت یوسف (ع)کو تعبیر خواب کا علم عنایت فرمایا (علمتنی من تاویل الاحادیث)لیکن ہمارے نبی کو علم اولین و آخرین عنایت فرمایا۔علمک مالم تکن تعلم(٤ )

--------------

( ١ ) سورہ بقر آیت ٣١ .

( ٢ ) سورہ انبیاء آیت ٨٠ .

( ٣ ) سورہ نمل آیت ١٦. (٣) سورہ نساء آیت١١٣ .

یوسفی چہرہ (ایک کامیاب رہبر کی صفات و خصوصیات )

حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان کے اختتام پر ان کا رخ زیبا دیکھتے چلیں۔

( ١ ) تلخیوں میں خداوندعالم پر بھرپور بھروسہ ۔(رب السجن احب...)اور خوشی و شاد کامی میں بھی اسی پر توجہ ۔(رب قد اتیتنی من الملک )

( ٢ ) ہر منحرف گروہ کی انحرافی را ہ اور نقوش ترک کرنا ۔(انی ترکت مل قوم لا یومنون باللّٰہ و ھم بالاخر کافرون )

( ٣ ) بزرگوں کی راہ ِمستقیم پر گامزن ہونا(واتبعت مل آبائی ابراھیم ،

والحقنی بالصالحین )

( ٤ ) خدا کی راہ میں تادم مرگ پائیداری (توفنی مسلما )

( ٥ ) رقیبوں کے مقابلے میں وقار (احب الی ابینا منّا )

( ٦ ) حوادث اور تلخیوں میں صبر(یجعلوہ فی غیابت الجب ، ارادباھلک سوئ )

( ٧ ) آرام و آسائش پر پاکدامنی اور تقوی کو ترجیح دینا۔(معاذاللّٰہ ، رب السجن احب الی مما یدعوننی )

( ٨ ) غیروں سے باتوں کو چھپانا ۔(وشروہ بثمن بخس )

( ٩ ) وافر علم۔(علمنی من تاویل الاحادیث ، انی حفیظ علیم ...)

( ١٠ ) فصیح اور خوبصورت انداز بیان۔(فلما کلّمہ قال انک لدینامکین )

( ١١ ) خاندانی عظمت وبزرگی ۔(آبائی ابراھیم و اسحق ...)

( ١٢ ) دینی اور فکری مخالفین سے محبت سے پیش آنا۔(یا صاحبی السجن )

( ١٣ ) اخلاص۔ (کان من المخلصین )

( ١٤ ) دوسروں کی ہدایت کے لئے سوز دل(ءَ ارباب متفرقون )

( ١٥ ) منصوبہ بندی کرنے کی قدرت وتخلیقی صلاحیت (جعل السقای ، ائتونی باخ لکم ، فذروہ فی سنبلہ ...)

( ١٦ ) تواضع اور فروتنی ۔(رفع ابویہ علی العرش )

( ١٧ ) عفو و اغماض نظر(لاتثریب علیکم )

( ١٨ ) شجاعت وجواں مردی ۔(نزغ الشیطان بینی و بین اخوتی )

( ١٩ ) امانتداری (اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم )

( ٢٠ ) مہمان نوازی (انا خیرالمنزلین )

پیام :

١۔اعطائے حکومت؛ الٰہی ربوبیت کی شان ہے ۔( رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنْ الْمُلْکِ )

٢۔حکومت کو اپنی فکر، مال، قدرت، یارومددگار اور منصوبہ بندی کا نتیجہ نہ سمجھئے بلکہ ارادہ خداوندی اصلی اور حقیقی عامل ہے۔(آتَیْتَنِی )

٣۔جو چیز خدا ہمیں دیتا ہے یا ہم سے لے لیتا ہے سب کے سب ہماری تربیت کے لئے ہیں(رب بما اتیتنی، رب السجن احبّ )

٤۔حکومت تعلیم یافتہ افراد کا حق ہے جاہلوں کا نہیں۔( آتَیْتَنِی... عَلَّمْتَنِی) حضرت یوسف (ع)کا علم ان کی حاکمیت کا وسیلہ قرار پایا۔

٥۔ہر حال میں خود کو خدا کے سپرد کردینا چاہیئے۔(أَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ )

٦۔قدرت و حکومت و سیاست ، دین الٰہی سے دور ہونے کی راہ کو ہموار کرتے ہیں مگر یہ کہ لطف خداوندشامل حال ہو( تَوَفَّنِی مُسْلِمً)(حضرت یوسف (ع)نے کنویں میں ایک دعا کی ، قید خانہ میں ایک دوسری دعا کی لیکن جیسے ہی مسند حکومت پر پہنچے آپ (ع)کی دعا یہ تھی: ''خدایا میںمسلمان اس دنیا سے رخصت ہوں '')

٧۔اللہ کے بندے عزت و طاقت کی معراج پر بھی موت ، قیامت اور عاقبت کی یاد میں ہوتے ہیں (توفنی مسلما و الحقنی بالصالحین)(١ )

٨۔عظمت خدا فقط یہی نہیں کہ وہ ہماری نعمتوں میں اضافہ کردے بلکہ وہ تمام ہستی کو معرض وجود میں منصہئ شہود پر ظہور پذیر کرنے والا ہے ۔( فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ )

٩۔افتخار یوسف (ع)یہ نہیں کہ وہ لوگوں پر حاکم ہیں بلکہ آپ (ع)کا افتخار یہ ہے کہ خدا آپ (ع)پر حاکم ہے ۔(أَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ )

١٠۔کار خیر میں پائیداری اور اس کا نیک انجام اس کے شروع ہونے سے بہتر ہے ۔ انبیاء حسن عاقبت کے لئے دعا فرماتے ہیں( تَوَفَّنِی مُسْلِمً) یعنی مجھے اپنی تسلیم و رضا کی راہ میں تادم مرگ پائیداری عنایت فرما (٢ )

١١۔دعا میں پہلے خداوندعالم کی نعمتوں کا ذکر کیجئے ۔( رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی) اس کے بعد اپنی

--------------

( ١ ) اسی طرح فرعون کی بیوی آسیہ بھی اس کے محل میں قیامت کی فکر میں تھیں۔ فرمایا: (رب ابن لی عندک بیت فی الجن) خدایا جنت میں تو اپنے پاس میرے لئے ایک گھر بنا دے .

( ٢ ) تفسیر المیزان .

درخواست پیش کیجئے (تَوَفَّنِی مُسْلِمًا) (١ )

١٢۔جب قدرت مل جائے تو خدا سے مناجات فراموش نہ ہو۔(رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی ...)

١٣۔دعا اور مناجات میں فقط دنیا اور مادیات کے چکر میں نہیں رہنا چاہیئے (فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ )

١٤۔انسان کی قدرت ناچیز ہے (مِنْ الْمُلْکِ )انسان کا علم کم ہے (مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ...)لیکن خدا وندعالم کی حکومت تمام ہستی پر حکم فرما ہے( فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ )

١٥۔باایمان دنیا سے رخصت ہونا اور صالحین میں شمار ہونا ایک بہت بڑی فضلیت ہے ۔ (تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ )

--------------

( ١ ) حضرت یوسف (ع)جن کو خداوندعالم نے شروع سے محفوظ رکھا، انہیں علم عطا فرمایا۔حکومت عنایت فرمائی ، خطرات سے بچایا، وہ اپنی عاقبت اور انجام کار سے مضطرب اور پریشان ہیں ،ان لوگوں کا کیا برا حال ہوگا جنہوں نے کرسی ، حکومت ، علم سب کے سب مکاری اور فریب کاری سے حاصل کئے ہیں .

( ١٠٢ ) ذَلِکَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیہِ إِلَیْکَ وَمَا کُنتَ لَدَیْہِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَہُمْ وَہُمْ یَمْکُرُونَ۔

''( اے رسول) یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی کررہے ہیں ورنہ جس وقت یوسف کے بھائی مشورہ کررہے تھے اور ( ہلاک کرنے کی) تدبیریں کررہے تھے آپ انکے پاس موجودنہ تھے ''۔

پیام :

١۔انبیاء (ع)بذریعہ وحی غیب کی باتوں سے آشنا ہوتے ہیں۔(ذَلِکَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ ...)

٢۔انبیاء (ع)غیب کی تمام خبروں سے واقف نہیں ہوتے ۔(مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ )

٣۔جب تک مشیت خداوندی نہ ہو تو نہ کسی کا ارادہ (أَمْرَہُم)نہ کسی قوم کا اجماع (أَجْمَعُو) اور نہ ہی کسی کی پالیسی اور سازش ( یَمْکُرُونَ)کوئی بھی اثرانداز نہیں ہوسکتا۔

٤۔جب پے درپے حوادث رونما ہورہے ہوں تو اس میں اصلی نکتہ اور شروع ہونے کے محل کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئےے حضرت یوسف (ع)کی داستان کا مرکزی نقطہ حضرت یوسف (ع)کو نابود کرنا تھا۔(أَجْمَعُوا أَمْرَہُمْ وَہُمْ یَمْکُرُون )

( ١٠٣ ) وَمَا أَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُمِنِینَ۔

'' اور آپ کتنے ہی خواہش مند ہوں مگر بہترے لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں ''۔

نکات :

'' حرص'' یعنی کسی چیز سے بے حد لگ اور اس کو پانے کے لئے حد سے زیادہ جدوجہد کرنا۔

پیام :

١۔بارہا قرآن مجید میں انسانوں کی کثیر تعداد اپنے دینی عقائد و نظریات کی وجہ سے مورد تنقید قرار پائی ہے ۔(وَمَا أَکْثَرُ النَّاسِ... بِمُمِنِینَ )

٢۔الٰہی نمایندے دوسروں کی ہدایت کےلئے سوز، درد ، اور اشتیاق رکھتے ہیں (حَرَصْت )

٣۔اکثر و بیشتر لوگوں کا ایمان نہ لانا پیغمبروں (ع)کی کوتاہی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خود انسان کی آزادی اور اختیار کا نتیجہ ہے کہ وہ ایمان لانا نہیں چاہتے تھے (مَا أَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُمِنِینَ )

( ١٠٤ ) وَمَا تَسْأَلُہُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ ہُوَ إِلاَّ ذِکْرٌ لِلْعَالَمِینَ ۔

'' حالانکہ آپ ان سے اس بات (تبلیغ رسالت)کا کوئی صلہ بھی نہیں مانگتے اور یہ قرآن تو تمام جہان کے واسطے نصیحت (ہی نصیحت) ہے''۔

نکات :

دوسرے پیغمبروں ٪ کی طرح پیغمبر اسلام (ص) نے بھی قوم کی ہدایت کے لئے کوئی اجزت نہیں مانگی کیونکہ اگر لوگوں سے اجر کی توقع رکھی جائے تو لوگ دعوت حق کو قبول کرنے سے اجتناب اور بوجھ محسوس کرتے ہیں ۔سورہ طور کی ٤٠ویں آیت میں خداوندعالم فرماتا ہے :(ام تسئلھم اجرا فھم من مغرمٍ مثقلون)مگر کیا ان سے آپ نے کسی اجر کی درخواست کی ہے کہ جس کی ادائیگی ان پر بھاری ہے ۔اب اگر ہم دوسری آیت میں ملاحظہ فرماتے ہیں کہ قربی کی مدت اجر رسالت قرار پارہی ہے (الاّالمد فی القربی)(١)تو اس کا ہدف یہ ہے کہ اہلبیت (ع)کی پیروی میں خود امت کا فائدہ ہے، پیغمبر اسلام (ص) کا نہیں۔ کیونکہ اسی قرآن میں ایک دوسری جگہ پر موجود ہے کہ (وماسئلتکم من اجر فھو لکم)(٢)ہم جو اجر تم سے مانگ رہے ہیںوہ تمہارے لئے ہی ہے ۔ جی ہاں جوشخص اہل بیت (ع)سے محبت کرے گا اور ان کی اطاعت کرے گا در حقیقت اس نے خداوپیغمبر (ص) کی اطاعت کی ہے۔

قرآن ذکر ہے اس لئے کہ :

خدا کی آیات و نعمات و صفات کا یاد دلانے والا ہے ۔

انسان کے ماضی و مستقبل کویاد دلانے والا ہے ۔

سماج کی عزت و ذلت کے اسباب کو یاددلانے والا ہے۔

میدان قیامت کے احوال یاد دلانے والا ہے ۔

جہان و ہستی کی عظمتوں کو یاد دلانے والا ہے۔

تاریخ ساز شخصیتوں کی تاریخ اور زندگی یاد دلانے والا ہے۔

--------------

( ١ ) سورہئ شوری آیت۔٢٣ .

( ٢ ) سورہ ئسبا آیت٤٣ .

قرآن مجید کے معارف و احکام وہ حقائق ہیں جن کا جاننا ضروری ہے اور انہیں ہمیشہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کیونکہ ''ذکر'' اس علم و معرفت کو کہتے ہیں جو ذہن میں حاضر ہو اور اس سے کبھی غفلت نہ ہو۔

پیام :

١۔جس طرح انبیاء (ع)،قوم سے کوئی توقع نہیں رکھتے اس طرح مبلغ کو بھی قوم سے توقع نہیں رکھنی چاہیئے۔(مَا تَسْأَلُہُمْ مِنْ أَجْر )

٢۔اجر کی درخواست بری چیز ہے نہ اجر کا دریافت کرنا ( تَسْئل )

٣۔پیغمبراسلام (ص) کی رسالت تمام کائنات کے لئے ہے( لِلْعَالَمِینَ )

٤۔امت کا ایک گروہ حتی اکثریت کہیں کسی وقت ایمان نہ لائے تو دینی مبلغ کو مایوس اور غمگین نہیں ہونا چاہیئے اگر زمین کے کسی حصے میں کسی گروہ نے ایمان قبول نہیں کیا تو دوسری جگہ جاکر تبلیغ کرنی چاہیئے ( لِلْعَالَمِینَ )

( ١٠٥ ) وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ .

'' اور آسمانوں اور زمین میں (خدا کی قدرت کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ (دن رات) گزرا کرتے ہیں اور اس سے منہ پھیرے رہتے ہیں''۔

نکات :

در حقیقت یہ آیہ شریفہ رسول اکرم (ص) کی تسلی خاطر کے لئے نازل ہوئی ، بلکہ ہر برحق رہبر و پیشوا کے لئے تسلی ہے کہ اگر قوم ان کے فرامین کی نسبت بے توجہ ہے اور اسے قبول نہیں کررہی ہے تو اس سے پریشان نہ ہوں ،ایسے لوگ تو ہمیشہ طبیعت و خلقت خدائی میں قدرت و حکمت خداوندی کے شاہکار کا سامنا کرتے ہیں لیکن کبھی بھی اس سلسلے میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں۔ یہ لوگ زلزلے ،سورج گرہن چاند گرہن ، بجلیوںکی کڑک ستاروں کی گردش ، کہکشں کا اپنے مدار پر حرکت کرنا ان سب نشانیوں کو دیکھتے ہیں پھر بھی ان سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔

یمرون علیھا کا تین طرح معنی کیا گیا ہے :(الف) آیات الٰہی کا سامنا کرنے سے مقصود ان نشانیوں کا مشاہدہ کرنا ہے ۔(ب)انسانوں کا'' الٰہی نشانیوںسے گزرنے'' سے مراد زمین کی حرکت ہے کیونکہ زمین کی حرکت سے انسان اجرام فلکی پر مرور کرتا ہے۔(١ )

--------------

( ١ ) تفسیر المیزان .

٣۔'' الٰہی نشانیوںسے گزرنا''ایک پیشنگوئی ہے کہ انسان فضائی وسائل پر سوار ہوگا اور آسمانوں میں حرکت کرے گا۔(١ )

کسی چیز سے منہ موڑنا ، غفلت سے زیادہ خطرناک ہے چونکہ ان نشانیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے (کَأَیِّنْ )اور انسان ان سے دائماً رابطے میں بھی ہے '' یَمُرُّونَ''لیکن اسکے باوجود نہ صرف اسے فراموش کرتا ، اور ان سے غافل رہتا ہے بلکہ بعض اوقات متوجہ ہونے کے باوجود ان سے منہ موڑ لیتا ہے ۔

پیام :

١۔انسان اگر ہٹ دھرمی سے کام لے تو کسی نشانی کو بھی قبول نہیں کرسکتا (وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَ... یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُون )

٢۔تمام کائنات خدا کی پہچان کے اسرار و رموز اور نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔(آیَ )

--------------

( ١ ) سفر نامہ حج آیت اللہ صافی .

( ١٠٦ ) وَمَا یُمِنُ أَکْثَرُہُمْ بِاﷲِ إِلاَّ وَہُمْ مُشْرِکُونَ .

'' اور ان میں کی اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ''۔

نکات :

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:شرک اس آیت میں کفر و بت پرستی کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ غیر خدا کی طرف لو لگانا مقصودہے(١ )

امام صادق علیہ السلام نے فرمایاشرک انسان میں ''اندھیری رات میں سیاہ پتھر پر سیاہ چیونٹی کی حرکت ''سے بھی خفیف تر ہے(٢ )

امام باقر علیہ السلام نے بھی فرمایا لوگ عبادت میں موحد ہیں لیکن اطاعت میں غیر خدا کو شریک بنالیتے ہیں (٣) دوسری روایات میں آیا ہے کہ اس آیت میں شرک سے مراد شرک نعمت ہے۔

مثلاًانسان کہے ''کہ فلاں انسان نے ہمارا کام کردیا ''۔ ''اگر فلاں صاحب نہ ہوتے تو ہم نابود ہو گئے ہوتے ''اس جیسی دوسری مثالیں(٥ )

مخلص انسان کی علامتیں

١۔انفاق میںکسی سے اجر کی توقع اور تشکر کا انتظار نہیں رکھتا۔(لانرید منکم جزاء ولا شکور)(١ )

--------------

( ١ ) تفسیر نمونہ .

( ٢ ) سفینہ البحار، ج ١، ص ٦٩٧. (٣)کافی ،ج ٢، ص ٦٩٢ .

( ٤ ) تفسیر نمونہ .

( ٥ ) سورہ انسان آیت ٩ .

٢۔عبادت میںخدا کے علاوہ کسی دوسرے کی بندگی نہیں کرتا۔ (ولا یشرک بعباد ربہ احد)(١ )

٣۔تبلیغ میں خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے اجر نہیں چاہتا ۔(ان اجری الا علی اللّٰہ)(٢ )

٤۔شادی بیاہ میں فقر و تنگدستی سے نہیں ڈرتا بلکہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے شادی کرلیتا ہے۔(ان یکونوا فقراء یغنھم اللّٰہ من فضلہ)(٣ )

٥۔لوگوں سے سلوک کرنے میں خدا کی رضا کے علاوہ دوسری تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے ۔(قل اللّٰہ ثم ذرھم) (٤ )

٦۔جنگ اور دشمن سے مقابلہ کرنے میں خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔(لایخشون احداالا اللّٰہ )(٥ )

٧۔مہرو محبت میں خدا سے زیادہ کسی سے محبت نہیں کرتا۔(والذین آمنوا اشد حبا للّٰہ) (٦) (٭ )

--------------

( ١ ) سورہ کہف آیت ١١٠ .

( ٢ ) سورہ یونس آیت ٧٢ .

( ٣ ) سورہ نور آیت ٣٢ .

( ٤ ) سورہ انعام آیت ٩١ .

( ٥ ) سورہ احزاب آیت ٣٩ .

( ٦ ) سورہ بقرہ آیت ١٦٥ .

( ٭)عباس ساجری ہو کہ اکبر سامہہ جبیں

تجھ کو سبھی عزیز تھے لیکن خدا کے بعد

٨۔تجارت اور کسب معاش میں خداوندعالم کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔ (لاتلھیھم تجار ولا بیع عن ذکر اللّٰہ)(١ )

مومن مشرک کی علامتیں

١۔دوسروں سے عزت کا آرزومند ہوتا ہے (ایبتغون عندھم العز) (٢ )

٢۔عمل میںاچھے اور برے عمل کو مخلوط کردیتاہے ۔(خلطوا عملا صالحا و آخر سیّ) (٣ )

٣۔لوگوں سے ارتباط میں حزبی اور گروہی تعصبات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (کل حزب بما لدیھم فرحون)(٤ )

٤۔عبادت میںبے توجہ اور ریاکار ہوجاتا ہے۔(الذین ھم عن صلاتھم ساھون والذین ھم یرن)(٥ )

٥۔جنگ و جدال میں انسانوں سے ڈرتا ہے۔(یخشون الناس کخشی اللّٰہ )(٦ )

--------------

( ١ ) سورہ نور آیت ٣٧ .

( ٢ ) سورہ نساء آیت ١٣٩ .

( ٣ ) سورہ توبہ آیت ١٠٢ .

( ٤ ) سورہ مومنون آیت ٥٣ .

( ٥ ) سورہ ماعون آیت ٦۔٥ .

( ٦ ) سورہ نساء آیت ٧٧ .

٦۔تجارت اوردنیاوی امورمیں زیادتی اور اضافہ کی طلب اسے سرگرم کئے رکھتی ہے۔(الھٰکم التکاثر)(١ )

٧۔دنیا اور دین کے انتخاب میں دنیا کو منتخب کرلیتے ہیں اور پیغمبر (ص) کو تنہا چھوڑ دیتے ہےں۔(واذا رأو تجار او لھوا انفضوا الیھا وترکوک قائم)(٢ )

پیام :

١۔ایمان کے مختلف مراتب ہیں۔خالص ایمان جس میں کوئی شرک نہ ہو بہت کم ہے۔ (وَمَا یُمِنُ...إِلاَّ وَہُمْ مُشْرِکُونَ )

( ١٠٧ ) أَفَأَمِنُوا أَنْ تَأْتِیَہُمْ غَاشِیَ مِنْ عَذَابِ اﷲِ أَوْ تَأْتِیَہُمْ السَّاعَ بَغْتَ وَہُمْ لاَیَشْعُرُونَ .

'' کیا وہ لوگ (جو ایمان نہیں لائے) اس بات سے مامون ہیں کہ خدا کی طرف سے گھیرنے والا عذاب جو ان پر چھا جائے یا ان پر اچانک قیامت کی گھڑی آجائے اور ان کو کچھ خبربھی نہ ہو''۔

--------------

( ٣ ) سورہ تکاثر آیت ١ .

( ٤ ) سورہ جمعہ آیت ١١ .

نکات :

'' غاشیہ'' اس عذاب و عقاب کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا معاشرے کو اپنے گھیرے میں لے لے۔

پیام :

١۔کوئی بھی خود کو ضمانت یافتہ نہ سمجھے (افامنوا ...)

٢۔خدائی قہر ،ناگہاں دامن گیر ہوتا ہے۔(بغت )

٣۔خدائی قہر ،ہمہ گیر ہوتا ہے جس سے فرار کی کوئی راہ نہیں ہے ۔(غاشیہ )

٤۔قہر الٰہی کا احتمال ہی انسان کے لئے حق کی طرف قدم بڑھانے کے لئے کافی ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ بعض افراد قہر الٰہی کا احتمال بھی نہیں دیتے ۔(افامنو )

٥۔عذاب کا ایک چھوٹا سا نمونہ انسان کو گرفتار کرنے کے لئے کافی ہے۔ (غاشیمن عذاب )

٦۔قیامت کی یاد، تربیت کے لئے بہترین عامل ہے۔( تَأْتِیَہُمْ السَّاعَ )

( ١٠٨ ) قُلْ ہَذِہِ سَبِیلِی أَدْعُو إِلَی اﷲِ عَلَی بَصِیرَ أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی وَسُبْحَانَ اﷲِ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ .

''( اے رسول) ان سے کہہ دو : یہی میر ا راستہ ہے میں اور میرے پیروکار پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور خدا (ہر عیب و نقص سے)پاک و پاکیزہ ہے اور میں مشرکین سے نہیں ہوں''۔

نکات :

توحید کی طرف دعوت دینے والا شخص عوام سے جدا ہوتا ہے کیونکہ گزشتہ دو آیتوں سے ثابت ہے کہ عوام الناس کا ایمان غالباً شرک سے آلودہ ہوتا ہے ( وَمَا یُمِنُ أَکْثَرُہُمْ بِاﷲِ إِلاَّ وَہُمْ مُشْرِکُونَ ) لیکن دینی مبلغ کو ایسا ہونا چاہیئے کہ علی الاعلان کہہ سکے :(وما انا من المشرکین)۔

پیام :

١۔انبیاء (ع)کی راہ تمام افراد کے سامنے واضح اور روشن ہے ( ہَذِہِ سَبِیلِی )

٢۔رہبر کو بصیرتِ کامل کا حامل ہونا چاہیئے (عَلَی بَصِیرَ )

٣۔رہبر کی دعوت خدا کی طرف سے ہو ،نہ کہ اپنی طرف سے( أَدْعُو إِلَی اﷲ )

٤۔دینی مبلغ کو خالص و مخلص ہونا چاہیئے(وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ )

٥۔تبلیغ کا مرکز و محور ''خداوند عالم کو ہر شرک و شریک سے منزہ کرنا'' ہونا چاہیئے (سُبْحَانَ اﷲِ )

٦۔پیغمبر اسلام (ص) کے ہر پیروکار کو ایسا مبلغ ہونا چاہیئے کہ وہ بصیرت و آگاہی کے ساتھ لوگوں کو خدا کی طرف بلا سکے (أَدْعُو إِلَی اﷲِ...أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی )

٧۔توحید کا اقرار اور شرک کی نفی دین اسلام کی بنیاد ہے۔(أَدْعُو إِلَی اﷲِ...َمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ )

( ١٠٩ ) وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلاَّ رِجَالًا نُوحِی إِلَیْہِمْ مِنْ أَہْلِ الْقُرَی أَفَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَیَنْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَدَارُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا أَفَلاَتَعْقِلُونَ .

'' اور (اے رسول )آپ سے پہلے بھی ہم ان بستیوں میں صرف مردوں کو ہی بھیجتے رہے ہیں جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے تو کیا یہ لوگ روئے زمین پر چل پھر کر نہیں دیکھتے کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا ؟ اور جن لوگوں نے پرہیز گاری اختیارکی ان کے لئے آخرت کا گھر (دنیا سے )یقینا بدرجہا بہتر ہے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ ''

نکات :

مخالفین انبیاء ٪ نے یہی بہانہ تراشی کی کہ پیغمبران (ع)ہم ہی جیسے انسان کیوں ہیں ؟گویا پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے میں بھی یہی فکر کار فرماتھی اور لوگ یہی سوال کررہے تھے، یہ آیہ شریفہ اسی کا جواب ہے اور لوگوں کو خبردار کررہی ہے۔

پیام :

١۔تمام انبیاء (ع)مرد تھے (رجالً)کیونکہ تبلیغ اور ہجرت و جستجو کا امکان مرد کے لئے زیادہ ہے ۔

٢۔انبیاء (ع)کے علوم، وحی کے ذریعے یا بعبارت دیگر ''لدنی'' تھے(نُوحِی إِلَیْہِمْ )

٣۔انبیاء (ع)انسانوں ہی کی صنف سے تھے اور انسانوں کے درمیان ہی زندگی بسر کرتے تھے (نہ تو فرشتہ تھے نہ ہی گوشہ نشین تھے اور نہ ہی آرام و آسائش کے خوگر تھے) (مِنْ أَہْلِ الْقُرَی )

٤۔سیر و سفر باہدف ہونا چاہئے۔(أَفَلَمْ یَسِیرُوا... فَیَنْظُرُو )

٥۔زمین میں سیر و سیاحت کرنا ، تاریخی معلومات اور اس سے عبرت حاصل کرنا ہدایت و تربیت کے لئے بے حد مثر ہے (فَیَنْظُرُو )

٦۔عبرت اور آنے والی نسلوں کے لئے آثار قدیمہ کا محفوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ (فَیَنْظُرُو )

٧۔انبیاء (ع)کا بھیجنا ، وحی کا نزول اور ہٹ دھرم مخالفین کی ہلاکت سب کے سب تاریخ میں سنت الٰہی کے عنوان سے محفوظ ہیں (کَیْفَ کَانَ عَاقِبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ )

٨۔پیغمبروں (ع)کی مخالفت کرکے کفار کچھ بھی حاصل نہیں کرپاتے بلکہ دنیا ہی میں قہر وعذاب میں گرفتار ہوجاتے ہیں جبکہ اہل تقوی آخرت تک پہنچتے ہیں جو دنیا سے بہتر ہے ۔( وَلَدَارُ الْآخِرَ خَیْر )

٩۔عقل و خرد انسان کو انبیائی مکتب کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔(أَفَلاَ تَعْقِلُونَ )

( ١١٠ ) حَتَّی إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا جَاءَ ہُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَشَاءُ وَلاَیُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِینَ ۔

''( پیغمبران ماسلف نے تبلیغ رسالت کی) یہاں تک کہ جب (قوم کے ایمان لانے سے ) انبیاء مایوس ہوگئے اورلوگ بھی یہ خیال کرنے لگے کہ ان سے (عذاب کا وعدہ بطور) جھوٹ کہا گیا تھا توانبیاء کے لئے ہماری نصرت پہنچ گئی اس کے بعد جسے ہم نے چاہا اسے نجات مل گئی اور مجرموں سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جاسکتا''۔

نکات :

ہمیشہ سے تاریخ گواہ ہے کہ انبیاء (ع)اپنی دعوت میں پائیدار اورمُصرّ رہے اور آخری وقت تک خداوندعالم کی طرف بلایا کرتے تھے ۔ مگر یہ کہ کسی کی ہدایت سے مایوس ہوجائیں ۔! اسی طرح ہٹ دھرم مخالفین بھی مقابلہ سے دست بردار نہیں ہوتے تھے ۔ اس کے نمونے قرآن مجید میں موجود ہیں :

انبیاء (ع)کی ناامیدی کا نمونہ

سالہا سال حضرت نوح علیہ السلام قوم کو خدا کی طرف دعوت دیتے رہے لیکن چند افراد کے علاوہ کوئی بھی دولت ایمان سے بہرہ مند نہ ہوا ،خداوندعالم نے حضرت نوح (ع)کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:(لن یمن من قومک الا من قدامن)(١) جو ایمان لاچکے ہیں ان کے علاوہ کوئی بھی آپ کی قوم میں سے ایمان نہیں لائے گا۔

حضرت نوح (ع)اپنی قوم کےلئے بددعا کرتے ہوئے جو ان کی مایوسی کی علامت ہے فرماتے ہیں : (لایلدوا الّافاجراً وکفار)(٢) ان سے کافر و فاجر کے علاوہ کوئی دوسرا پیدا نہ ہوگا اسی طرح حضرت ہو د، صالح، شعیب، موسیٰ، عیسیٰ ٪ بھی اپنی اپنی زندگی میں امت کے ایمان لانے سے مایوس دکھائی دیتے ہیں ۔

قوم کی انبیاء (ع)سے بدگمانی کا نمونہ

انبیاء ٪ کی تہدید کو کفار کھوکھلے دعوے اور جھوٹ سمجھتے تھے ۔ سورہ ہود کی ٢٧ویں آیت میں کفار کا قول نقل کیا گیا ہے کہ (بل نظنکم کاذبین) یعنی ہمارا گمان تو یہی ہے کہ تم لوگ جھوٹے ہو ،یا فرعون نے حضرت مو(ع)سیٰ سے کہا (انی لاظنک یا موسیٰ مسحور)(٣) درحقیقت میرا گمان ہے کہ اے موسیٰ تم سحرزدہ ہوگئے ہو۔

--------------

( ١ ) سورہ ہود آیت ٣٦ .

( ٢ ) سورہ نوح آیت ٢٧ .

( ٣ ) سورہ بنی اسرائیل آیت ١٠١ .

خداکی مدد

ایسی حالت میں خداوندعالم نے نصرت و مدد کو اپنا حق بتایا ہے اور اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ مومنین کی نصرت فرمائے (وکان حقا علینا نصر المومنین)(١) یادوسری جگہ فرمایا :(نجینا ھودا والذین آمنوا معہ)(٢) ہم نے ہود اور ان مومنین کو نجات دی جو ان کے ساتھ تھے ۔

خدائی قہر

وہی خداوندعالم یہ بھی فرماتا ہے کہ میرا قہر وغضب نازل ہونے کے بعد پلٹنے والا نہیں ہے ۔ سورہ رعد میں ارشاد ہوا : (اذا اراد اﷲ بقوم سوء فلا مردّلہ)(٣) جب بھی خدا کسی قوم کو برے حال سے دوچار کرنے کا ارادہ کرلے تو اس کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی ۔

پیام :

١۔انسان میں قساوت اور ہٹ دھرمی کبھی کبھی اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ بردبار خدائی نمائندوں کو بھی مایوس کردیتی ہے۔ (إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ )

٢۔خوش بینی ، حسن نیت اور حوصلہ کی ایک حد ہوتی ہے۔(حتی )

--------------

( ١ ) سورہ روم آیت ٤٧ .

( ٢ ) سورہ ھود آیت ٥٨ .

( ٣ ) سورہ رعد آیت ١١ .

٣۔اپنی طاقت کو غیر قابل نفوذ افراد میں صرف نہیں کرنا چاہیئے بلکہ بعض لوگوں سے صرف نظر کرلینا چاہیئے ۔(اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ )

٤۔مجرمین کو مہلت دینا اور انکے عذاب میں تاخیر کرنا سنت الٰہی ہے (حَتَّی إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ) یعنی ہم نے مجرموں کو اتنی مہلت دی کہ انبیاء بھی ان کی ہدایت سے مایوس ہوگئے۔

٥۔عذاب الٰہی میں تاخیر مجرموں کو جری بنا دیتی ہے اور وہ جھٹلانے لگتے ہیں۔ ( حَتَّی إِذَا... وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُو )

٦۔انبیاء (ع)کا کسی قوم کی ہدایت سے مایوس ہوجانا نزول عذاب کی شرط ہے۔ (إِذَا اسْتَیْئَسَ...لاَیُرَدُّ بَأْسُنَا ...)

٧۔پیغمبروں (ع)کے لئے خدائی امداد کی بھی ایک خاص گھڑی ہوتی ہے ۔(إِذَا اسْتَیْئَسَ... جاء ھم )

٨۔قہر الٰہی ،انبیاء (ع)اور حقیقی مومنین کے شامل حال نہیں ہوتا۔(فَنُجِّیَ )

٩۔قہر و عذاب اور لطف و امداد دونوں خدا کے دست قدرت میں ہیں (نَصْرُنَا...بأسن )

١٠۔قہر یا نجات کاانجام خودانسان ہی کے ہاتھ میں ہے ( مَنْ نَشَاءُ ، مُجْرِمِینَ )

١١۔خداوندعالم کا ارادہ، قانون مندہے(مَنْ نَشَاء وَلاَیُرَدُّ بَأْسُنَا عَنْ الْقَوْمِ لْمُجْرِمِینَ )

١٢۔خدا کی راہ کہیں پر ختم نہیں ہوتی ۔(إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ... جَاءَ ہُمْ نَصْرُنَا )

( یعنی جہاں پر لوگ راستہ کو بند پاتے ہیں اور اندھیرے کا احساس کرتے ہیں وہیں پر خدائی قدرت جلوہ نما ہوتی ہے )

١٣۔قہر خدا کو کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی ۔( لَا یُرَدُّ بَأْسُنَا )

١٤۔انبیاء (ع)کی حمایت ، مجرمین کی ہلاکت، سنت خداوندی ہے(جَاءَ ہُمْ نَصْرُنَا، لاَ یُرَدُّ بَأْسُنَا )

( ١١١ ) لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِہِمْ عِبْرَ لِّأُوْلِی الْأَلْبَابِ مَا کَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَیٰ وَلَکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیلَ کُلِّ شَیْءٍ وَہُدًی وَرَحْمَ لِقَوْمٍ یُمِنُونَ ۔

'' اس میں شک نہیں کہ ان انبیاء کے قصوں میں عقل مندوں کے واسطے (اچھی خاصی) عبرت و نصیحت ) ہے یہ (قرآن) کوئی ایسی بات نہیں جو (خوامخواہ) گڑھ لی گئی ہو بلکہ (جو آسمانی کتابیں) اسکے پہلے سے موجودہیں یہ قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان داروں کے واسطے (از سرتاپا) ہدایت ورحمت ہے''۔

نکات :

'' عبرت'' و ''تعبیر'' یعنی عبور کرنا ، ایک واقعہ سے دوسرے واقعہ کی طرف عبور کرنا، ''تعبیر خواب'' یعنی خواب سے حقیقت کی طرف عبور کرنا۔ ''عبرت'' یعنی دیکھنے والی اور سنی جانے والی چیزوں سے ایسی چیز کی طرف عبور کرنا جو دیکھی اور سنی نہ جاسکیں ۔

' قصصھم'' سے مراد شاید تمام انبیاء (ع)کی داستان ہو ، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ حضرات یعقوب (ع)و یوسف(ع) اور ان کے بھائیوں اور عزیز مصر کی داستان مدنظر ہو جس میں تلخ و شیریں حوادث رونما ہوئے جو اسی سورہ میں آئے ہیں ۔

پیام :

١۔داستانوں کے امتیاز کی سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ وہ نصیحت آموز ہوں۔ سورہ کے شروع میں ارشاد فرمایا :(نحن نقص علیک احسن القصص)اور آخر میں فرمایا ( لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِہِمْ عِبْرَ )

٢۔قرآن مجید کی داستانیں چشم دید واقعات کو بیان کرتی ہیں اور عبرت آموز ہوتی ہیں (گڑھے ہوئے افسانے نہیں ہیں)(مَا کَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَی )

٣۔سچی اور حقیقی باتیں زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں ۔(عبر...مَا کَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَی )

٤۔فقط عقلمند افراد ہی داستانوں سے پند و عبرت حاصل کرتے ہیں (عِبْرَ لِأُوْلِی الْأَلْبَابِ )

٥۔قرآن مجید دوسری آسمانی کتابوں سے جدا نہیں ہے بلکہ ان کی تصدیق کرتا ہے (ان کے شانہ بشانہ ہے) ( تَصْدِیقَ الَّذِی ...)

٦۔قرآن مجید انسان کی تمام نیاز مندیوں اور احتیاجات کو بیان فرماتا ہے۔(تَفْصِیلَ کُلِّ شَیْئٍ )

٧۔قرآن عظیم خالص ہدایت ہے اور کسی گمراہی سے آمیختہ نہیں ہے۔ (ہُدًی )

٨۔فقط اہل ایمان ہی قرآنی ہدایت اور رحمت سے بہرہ مند ہوتے ہیں (ہُدًی وَرَحْمَ لِقَوْمٍ یُمِنُونَ )

٩۔نکتہ سنجی اور درس حاصل کرنے کے لئے عقل درکار ہے (عِبْرَ لِأُوْلِی الْأَلْبَابِ) لیکن نور اور رحمت الٰہی کو درک کرنے کے لئے ایمان بھی لازمی ہے ۔(لِقَوْمٍ یُمِنُونَ )

١٠۔قرآنی قصوں سے عبرت اور نصیحت آموزی کسی ایک زمانے سے مخصوص نہیں ہے۔ (لِأُوْلِی الْأَلْبَابِ )

اللّٰھم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجہم .

تمت بالخیر