مفہوم ولایت مختلف تراجم وتفاسیر کی روشنی میں تحقیقی جائزہ

ڈاکٹر محمد شکیل اوج

قرآن مجید کی ایک آیت کے حوالہ سے مختلف تراجم و تفاسیر کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے ۔ اور وہ سورہ انفال کی آیت نمبر ۷۲ ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے :

” اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھٰاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَنَصَرُوْا اُولٰئِکَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُہَاجِرُوْا مَالَکُمْ مِّنْ وِلاَیَتِھِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوْا وَاِنِ اسْتَنْصَرُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلاّٰ عَلٰی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ وَاللّٰہُ بِمَاتَعْلَمُوْنَ بَصِیْرٌ "

ترجمہ: بے شک جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال ونفوس کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کیااور وہ لوگ کہ جنہوں نے انہیں ٹھکانہ دیااور امداد دی یہی لوگ ایک دوسرے کے اولیاء(سچے رفقاء اور ورثاء) ہیں اسی طرح وہ لوگ جو ایمان لائے مگر ہجرت(واجب ہونے کے باوجود)نہ کی (یعنی بلاعذر مخالفین کے ساتھ رہنا گوارا کر لیا)تو تمہارے لیے ان کی ولایت (وراثت) میں سے کچھ نہیں جب تک وہ ہجرت نہ کریں البتہ اگر وہ دین کے لیے تم سے کوئی مدد چاہیںتو تم پران کی مدد لازم ہے بشرطیکہ وہ اس قوم کے مقابلہ میں نہ ہوں جن سے تمہارا کوئی معاہدہ (امن دوستی )ہے اور اللہ ہر اس عمل کادیکھنے والا ہے جو تم کرتے ہو۔

اس آیت سے درج ذیل فوائد سامنے آتے ہیں ۔

۱۔ مومن مہاجرین و انصار ایک دوسرے کے اولیاء ہیں ۔ ۲۔ مومن مہاجرین، غیر مہاجرین کی وراثت سے (دارالکفر میں رہنے کی وجہ سے )محروم ہیں اسی طرح اس کے برعکس بھی ہو گا۔

۳۔ مومن غیر مہاجرین کے دارالکفر میں ہونے کے باوجود ملت اسلامیہ کے مرکز کی ذمہ داری ہے کہ دینی معاملات میں ان کی مدد کرے بشرطیکہ وہ اس امداد کے طالب ہوں (ظاہر ہے کہ ان کی یہ مدد جہاد کی صورت میں ہو گی )

۴۔ اگر کافر قوم(ملک)سے مسلمانوں کے مرکز کا کوئی معاہدہ صلح و امن موجود ہے تو اس صورت میں بقائے عہد تک یہ امداد نہیں دی جاسکتیالبتہ عہد کو ختم کر کے مدد کرناجائز ہو گا جیسا کہ عبدالماجد دریا بادی نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے ۔

فائدہ نمبر ۳ کے مفہوم کی مزید تاکید کے لیے آیت مابعد(آیت نمبر ۷۳) ملاحظہ ہو۔

” وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ اِلَّا تَفْعَلُُْوہُ تَکُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَاٰدٌکَبِیْرٌ “

ترجمہ: اور جو کفر کرتے ہیںوہ ایک دوسرے کے اولیاء ہیں(اے مسلمانو)اگر تم ایسا نہ کرو گے (یعنی دین میں مدد کے طالبوں کی نصرت واعانت اور حفاظت و مدافعت، سرپرستی و پشتیبانی، بصورت جہاد)تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو جائے گا۔

اس آیت میں اکثر وبیشتر علماء کے نزدیک ”اَلاّٰتَفْعَلُوہ“ میں ضمیر مفعول کا مرجع وہی نصرت ہے جس کا ذکر ”فعلیکم النصر“میں آیا ہے ۔

تفسیر جلالین میں” الاتفعلوہ“کا مفہوم” تولی المومنین وقطع الکفار“سے اور ”تکن فی الارض وفساد کبیر“ کامعنی ”بقوة الکفروضعف الاسلام“ سے کیاگیاہے ۔

تاہم پیش نظرآیت میں لفظ”اولیاء“ اور ”ولایت“ قابل توجہ ہیں ۔

در اصل آیت میں مہاجرین و انصار کو ایک دوسرے کااولیاء قرار دے کر غیر مہاجرین کو اس ”ولایت“ سے خارج کر دیا گیاہے چنانچہ اس مقام پر ان ہر دو لفظوں کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے یہ دونوں لفظ اپنے معنی و مفہوم کے اعتبا ر سے ایک دوسرے سے پیوست نظر آتے ہیں چونکہ یہاں” مالکم من ولایتھم من شیءِ“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس لیے اگر اس فقرہ میں لفظ ولایت کو سمجھ لیا جائے تو اولیاء کا مفہوم آپ سے آپ پر واضح ہو جائے گا۔

اردو زبان کے بعض مترجمین نے اس فقرہ میں استعمال ہونے والے لفظ ولایت کو ولایت ہی رہنے دیاہے اس کاکوئی مفہوم اپنے ترجمہ میں بیان نہیں کیامثال کے طور پر سید ابو الاعلی مودودی،امین احسن اصلاحی،اور مسعود احمد(امیر جماعت المسلمین) کے تراجم دیکھے جاسکتے ہیں اور اب نمونہ کے طور پر ایک ترجمہ بھی دیکھ لیجیے ۔

تو ان سے تمہاراولایت کاکوئی تعلق نہیں ہے(سید مودودی )

سید مودودی نے لفظ ولایت کو اپنی تفسیر میں بایں الفاظ بیان کیا ہے

” ولایت کا لفظ عربی زبان میں حمایت،نصرت،مددگاری،پشتیبانی،دوستی،قرابت،سرپرستی،اور اس سے ملتے جلتے مفہومات کے لیے بولا جاتا ہےاور اس آیت کے سیاق وسباق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں اور شہریوں کا اپنی ریاست سے اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے“( ۱ )

اس مقام پر مودودی صاحب کا مفہوم ولایت جن جن لفظوں میں بیان ہوا ہےان پر ایک نظر پھر ڈال لیجیےحمایتنصرتمددگاریپشتیبانیدوستی قرابتاور سرپرستی وغیرہ ظاہر ہے ۔ کہ ان مفہومات میں سے کوئی بھی مفہوم یہاں نہیں لیا جا سکتا اس لئے کہ اس فقرہ کے بعد کا جو فقرہ ہے ۔

” وان استنصرو کم فی الدین فعلیکم النصر“الخ

وہ ان مفہومات سے ابا کرتا ہےمطلب یہ کہ اگر وہ تم سے نصر طلب کریں تو تم پر ان کی نصرت فرض ہےلہذا ولایت کا یہاں کوئی ایسا مفہوم نہیں لیاجا سکتاجو ان کی نصرت کے خلاف جاتا ہواسی لیے خود سید مودودی نے بھی یہاں ولایت کا ان مفہومات میں سے کوئی مفہوم مراد نہیں لیابلکہ ان کے نزدیک یہاں ولایت سے مراد”وہ رشتہ ہے،جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے اور شہریوں کا اپنی ریاست سے اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے“ظاہر ہے کہ اس مفہوم کی رو سے لفظ ولایت ملکی قومیت/وطنیت کے سیاسی تصور کو پیش کر رہا ہے اور یوں بحیثیت مجموعی ایک امت کے تصور کی نفی ہو رہی ہے علامہ اقبال وطنیت کے اس سیا سی تصور کے سخت مخالف تھےانہوں نے اپنی ایک نظم میں اسے خلاف اسلام قرار دیا ہے فرماتے ہیں ۔

گفتار رسیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے

ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

وہ اس تصور کو شرک سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

اور مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں :

بازو تراتوحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

نظارہ دیرنہ زمانے کو دکھا دے

اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے( ۲ )

لہذا اس مقام پر ”ولایت“ کا یہ مفہوم بھی غیر قرآنی معلوم ہوتا ہےبصورت دیگر ملکی /وطنی نیشنلزم کا تصور قرآن سے ماننا پڑے گا جو ناممکن سی بات ہے ۔

نیز اسی عدم ولایت کی بناء پر مودودی صاحب دارالکفر اور دارالاسلام کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا وارث قرار نہیں دیتے اور نہ ہی ان کے مابین شادی بیاہ کے قائل ہیںاور قابل ذکر بلکہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ان سب باتوں کو وہ ”اسلام کے دستوری و سیاسی ولایت“ کے تحت مستقل بنیادوں پر تسلیم کرتے ہیں ۔ ( ۳ )

گویا ان کے نزدیک تفریق ریاست کے سبب بشرطیکہ وہ دارلاسلام اور دارلکفر ہوں)آج بھی ہر دو ریاستوں کے مسلمان رشتہ ازدواج میں منتقل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیںہمارے خیال میں دونوں باتیں صحیح نہیں ہیں اور نہ ہی ان باتوں کی پشت پر کوئی نص قطعی موجود ہے ۔

اب آپ اردو کے وہ مترجمین دیکھئے جنہوں نے اس مقام پر ”ولایت“ کا معنی رفاقت سے کیا ہے ان میں

۱ محمود حسن صاحب (اسیر مالٹا )

۲ ثناء اللہ امرتسری

۳ فتح محمد خان جالندھری

۴ وحید الدین خان

۵ غلام احمد پرویز

۶ صوفی عبدالحمید سواتی

۷ محمد جونا گڑھی شامل ہیں

نمونہ کے طور پر محمود صاحب کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

” تم کو ان کی رفاقت سے کچھ کام نہیں “

یہ ترجمہ دیکھئے اور آیة گرامی کا فقر ہ مابعد دیکھئے ۔

” وان استنصرواکم فی الذین فعلیکم النصر “

بھلا بتائیے کہ وہ لوگ کو جن کی رفاقت سے مسلمانوں کے کچھ کام نہ ہوں ۔ پھر ان کی نصرت کا حکم بھی دیا جائے کیا یہ ممکن ہے؟

اسی طرح وہ مترجمین جنہوں نے ”ولایت“ کا معنی دوستی سے کیا ہےوہ یہ ہیں سرسید احمد خان، مرزا حیرت دہلوی،مرزا بشیر الدین محمود(قادیانی)اور محمد علی (لاہوری) نمونہ کے طور پر سرسید احمد خان کا ترجمہ دیکھئے

” تو تم کو نہیں ہے اس کی دوستی سے کچھ“جبکہ مرزا بشیر الدین کے ہاں دوستی کے ساتھ لفظ ”ولی“ کا اضافہ ملتا ہے

ظاہر ہے کہ رفاقت اور دوستی دونوں ہم معنی الفاظ ہیں اس اعتبار سے ہمارے نزدیک اس مفہوم کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر رفاقت کے تحت تبصرہ میں پیش کیاگیا ہے ۔

اہل تشیع میں حافظ فرمان علی نے ولایت کا معنی سرپرستی سے کیا ہےملاحظہ ہو”تم لوگوں کو ان کی سرپرستی سے سروکار نہیں “

مگر تعجب ہے کہ مترجم موصوف نے اپنا حاشیہ وراثت کے مفہوم پر مشتمل لکھا ہے فرماتے ہیں ۔ ( ۵) ” جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ آئے تو مہاجرین و انصار کو باہم ایک دوسرے کا بھائی قرار دیااور باہم ایک دوسرے کے وارث بھی ہوئے ۔

جب آیہ اولوالارحام نازل ہوئی تو یہ وراثت موقوف ہوئی “

ترجمہ: میں سرپرستی اور حاشیہ میں وراثت اس واضح فرق پر کیا تبصرہ کی جائے ۔

تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کی تفسیر بایں الفاظ کی گئی ہے :

” قیل نزلت الایةفی المیراث وکانوایتو ارثون بالھجرة فجعل اللہ المیراث المھا جرین والانصار دون ذوی الارحام وکان الذی امن ولم یھاجرلم یرث من اجل انہ لم یھا جرولم ینصر وکانو ایعملون بذلک حتی انزل اللہ تعالیٰ واولو الارحام بعضھم اولی بعض فسخت ھذہ الایة وصارالمیراث لذوی الارحام المومنین ولایتوارث اہل ملتین عن ابن عباس والحسن وقتادہ ومجاہد والسدیی“ ( ۶ )

اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ ولایت کا معنی میراث ہےاور اکثرمترجمین ومفسرین نے اس کا معنی وراثت یا میراث سے ہی کیا ہےالبتہ ایک ترجمہ میں لفظ ترکہ بھی استعمال کیا گیاہے ۔

واضح رہے کہ وراثت اور میراث ہم معنی الفاظ ہیں اور ترکہ میں البتہ قدرے وسعت پائی جاتی ہےیعنی میت جو کچھ چھوڑ جائے وہ ترکہ ہےاور ترکہ ان تمام مفاہیم پر بولا جاتا ہے ۔

۱ میت اگر مقروض ہے تو ترکہ میں سے قرضہ ادا کیا جاتا ہے ۔

۲ میت نے اگر کسی کے حق میں مشروع وصیت کر دی ہے تو وہ بھی ترکہ میں سے نکالی جاتی ہے

۳ میت نے اگر اپنی اہلیہ کو مہر نہیں دیا ہے تو وہ بھی ترکہ میں سے نکالا جاتا ہے ۔

۴ خود میت کی تجہیز،تکفن اور تدفین بھی ترکہ میں سے کی جاتی ہے ۔

پھر جو کچھ بچ گیا ہے اسے مال موروثہ،ورثہ،میراث یا وراثت کہا جاتا ہےاور اس باقی ماندہ مال پر احکام وراثت جاری کیے جاتے ہیںیوں میت کے چھوڑے ہوئے کل مال کو ترکہ کہا جاتا ہےمعلوم رہے کہ ہمارے محولہ تمام مترجمین ومفسرین میں احمد رضاخان صاحب بریلوی واحد متراجم ہیں کہ جو ولایت کا ترجمہ ترکہ سے کرتے ہیںملاحظہ ہو”تمہیں ان کا ترکہ کچھ نہیں پہنچتا “

اس ترجمہ کی رو سے فقط تعدیم میراث ہی ثابت نہیں ہوتی بلکہ تعدیم دین(قرض)تعدیم مہر اور تعدیم وصیت غرض سب ہی ثابت ہو جاتے ہیں یو ں یہ ترجمہ اپنی جامعیت اور معنویت میں سب سے بڑھا ہوا معلوم ہوتا ہےبلاشبہ یہ ترجمہ رضاصاحب کے تفردات میں داخل کیا جاسکتا ہے ۔

جبکہ

۱ ڈپٹی نذیر احمد صاحب

۲ اشرف علی تھانوی

۳ سید محمد محدث کچھوچھوی

۴ احمد سعید دہلوی

۵ مفتی احمد یا رخان نعیمی

۶ عبدالماجد دریابادی

۷ احمد سعید کاظمی

۸ پیر محمد کرم شاہ الازھری

کے ہاں ولایت کا ترجمہ وراثت یا میراث سے کیا گیا ہے ۔

نمونہ کے طور پر ڈپٹی نذیر احمد کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

” تو تم مسلمانوں کو ان کی وراثت سے کچھ تعلق نہیں “

وراثت کے لفظ سے مفہوم آیت یہ نکلتا ہے کہ دارالکفر میں رہنے والے مومنوں کے وراثت مہاجروں میں جاری نہیں ہو گی(اسی طرح اس کے برعکس ہو گا)خواہ وہ ایک دوسرے کے باپ،بھائی،کیوں نہ ہوںالبتہ احمد رضا خان صاحب کے ترجمہ کی رو سے اسی مفہوم پر اتنا اضافہ اور کرلیں کہ اگر کوئی کسی کا مقروض ہویا کسی کے حق میں وصیت ہو یا اہلیہ کا مہر ہو توبھی دارالکفر اور دارالاسلام کے مسلمانوں کے مابین یہ تینوں حقوق غیر موثر رہیں گےنیز ان پراحکام وراثت جاری نہیں ہوں گے(مگر اب یہ احکام منسوخ ہو چکے ہیں)البتہ تفسیر جلالین میں زیر بحث فقرہ قرآنی کامفہوم بایں الفاظ درج ہے ۔

” فلاارث بینکم وبینھم ولانصیب لھم فی الغنیمہ “

( یعنی اے مہاجر مسلمانو) تمہارے اور غیر مہاجر مسلمانوں کے مابین کوئی میراث نہیں اور نہ ہی اس کے مال غنیمت میں سے کوئی حصہ ہےاور

” الاستا الدکتور وھبة الزحیلی بھی اپنی تفسیر“ التفسیر المنیر فی الشریعة والمنھج “

میں مذکورہ بالا الفاظ ایضاً لکھے ہیںگویا ان ہر دو حضرات کے نزدیک میراث کے ساتھ مال غنیمت بھی شامل ہے جس میں غیر مہاجرین کا کوئی حصہ نہیں ۔

جبکہ مُلّا احمد جیون نے آیت مذکورہ کو جس عنواں کے تحت لکھا ہے وہ یہ ہے ” ہجرت کی بناء پر جو ورثاء، وراثت سے محروم ہوئے“ ۷ اس لئے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک اس آیت میں ولایت بمعنی وراثت ہی استعمال ہوا ہے ۔ اسی طرح اما م ابن جریر طبری نے بھی اپنی تفسیر میں،اور امام عبدالرحمن بن علی بن محمد الجوزی القرشی البغدای ( ۰۵۹۷ ھ) نے بھی اپنی تفسیر زاد لمسیر فی علم التّفسیر میں ولایت سے مراد میراث لیا ہے ۔ فرماتے ہیں ۔

” لیس بینکم وبینھم میراث “

ولایت کا معنی وراثت قرآنی لُغت سے بھی ثابت ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں لفظ ” ولی" بمعنی وارث بھی استعمال ہوا ہے ۔ سورہ الاسرا کی آیت نمبر ۳۳ میں ارشاد ہوا۔

” وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہ سُلْطٰنًا "

اور جو شخص ظلم سے قتل کیاجائے ۔ ہم نے اُس کے وارث کو اختیار دیا ہے ۔

( فتح محمد جالندھری )

تفسیر جلالین میں بھی لَوَلّیہ کا معنی لوارثہ لکھا ہوا ہے ۔ چنانچہ ولایت کا معنی وراثت سے کرنا از روئے لغت قرآن کریم بھی ثابت ہوا۔ اور یہ ہمارے موقف کے حق میں دوسری دلیل ہے ۔ پہلی دلیل تو خود نظم کلام سے مستنبط تھی جیسا کہ اوپر گذرا۔ اور اب ہم اپنے موقف کے حق میں تیسری دلیل آلایات تفسیر بعضھا بعض کے تحت سورہ النساء کی آیت نمبر ۷۵ سے پیش کرتے ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے ۔

” وَمَالَکُمْ لَاتُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَان الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَةِ الْظَّالِمِ اَھْلُھَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَاجْعَلْ لَّنَامِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا “

ترجمہ:۔ اور تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی راہ میں قتال نہ کرو یعنی کمزور مردوں اورعورتوں اور بچوں کے واسطے جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال کہ جن کے لوگ ظالم ہیں اور (اے اللہ!)ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے ۔

اس آیت کو دیکھیے اور پھر سورئہ انفال کے آیت نمبر ۷۳ کو دیکھیے ۔ اورخود فیصلہ کیجئیے کہ جب سورئہ النساء میں مکہ معظمہ کے بے بس، اور کمزور مسلمانوں کی مدد کے لیے مدینہ منورہ کے مسلمانوں کو اُبھارا جارہا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سورئہ انفال میں انہی مسلمانوں کے لیے یہ کہا جا رہا ہو کہ

تم کو انکی رفاقت سے کچھ کا م نہیں (محمود حسن )

تمہارے لیے انکی کچھ بھی رفاقت نہیں (محمد جونا گڑھی )

تمہاری ان سے ذرا رفاقت نہ ہونی چائیے (ثناء اللہ امرتسری )

توان سے تمہارا رفاقت کاکوئی تعلق نہیں (وحید الدین خان )

تم لوگوں کو انکی سرپرستی سے سروکار نہیں (حافظ فرمان علی )

تم پر انکی دوستی کا کوئی حق نہیں (محمد علی لاہوری )

ان سے دلی دوستی کرنا تمہارا کام نہیں (مرزا بشیر الدین محمود قادیانی )

تمکو ان کی رفاقت سے کچھ سروکار نہیں (فتح محمد خان جالندھری )

نہیں آپ لوگوں کا کچھ تعلّق ان کی رفاقت سے (صوفی عبدالحمید سواتی )

تو تم کو نہیں ہے ان کی دوستی سے کچھ (سرسّید احمد خان )

تو تمہیں انکی دوستی سے کچھ (کام )نہیں (مرزا حسرت دہلوی) وغیرہ وغیرہ۔

خلاصہ یہ کہ سورئہ انفال کی آیت نمبر( ۷۲) میں جن مترجمین نے ولایت کا معنی وراثت،میراث،اور ترکہ سے نیز لفظ اولیاء کا معنی اسی مناسبت سے وارث ہونے سے کیا ہےوھی ہمارے نزدیک زیادہ صحیح اور نظم قرآن کے مناسب اور رُوحِ قُرآنی کے مطابق ہے ۔ اس مقام پر اس مطلوب کے پانے کی سعادت جن اُردو مترجمین کے حصّے میں آئی ہے ۔ ان کے اسمائے گرامی ایک بار پھر ملاحظہ ہوں ۔

ڈپٹی نذیر احمد دہلوی احمد رضا خان بریلوی اشرف علی تھانوی

سید محمدمحدث کچھوچھوی

احمد سعید دہلوی

مفتی احمد یار خان نعیمی عبدالماجد دریابادی

احمد سعید کاظمی اور پیر محمد کرم شاہ الازھری

اور انگریزی مترجمین قرآن میں پروفیسر شاہ فرید الحق اور عبدالماجد دریا بادی ( ۶) نے اسی مفہوم کو اپنے اپنے تراجم میں پیش نظر رکھا ہے ۔ نمونہ کے طور شاہ فرید الحق کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

"You have no duty to their inharitence" (9)

جبکہ محمد علی لاہوری،عبداللہ یوسف علی، مارما ڈیوک پکتھال،ڈاکٹر حنیف اختر فاطمی،ڈاکٹر محمد تقی الدین الہلالی، ڈاکٹر محمد محسن خان اور محمدمعظم علی کے ہاں ولایت کا مفہوم Protection سے ادا کیا گیا ہے ۔ البتہ ایم ایچ شاکر کے ہاں Guardianship اور آرتھر جے آربری کے ہاں Friendship کے الفاظ لکھے گئے ہیں ۔ اور لبنان سے شائع ہونے والے مُسلم اسکالرز کے ترجمے میں Responsibility کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔

ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا انگریزی تراجم میں ہمارا مختار اور مطلوب ترجمہ عبدالماجد دریا بادی اور پروفیسر شاہ فرید الحق کا ہے ۔

حواشی و حوالاجات

۱۔ تفہیم القرآن،جلد دوئم حاشیہ نمبر۵۰ص۱۶۱ ادارہ ترجمان القرآن لاہور، ۱۹۷۵ء

۲۔ بانگ ِدرا، نظم زیر عنوان وطنّیت ص ۱۶۰۱۶۱ شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور سنہ اشاعت ۱۹۷۶ء

۳۔ تفہیم القرآن،جلد دوئم،سورئہ انفال،حاشیہ نمبر۵۱،ص ۱۶۲ ادارہ ترجمان القران لاہور سنہ اشاعت۱۹۷۵ء

۴۔ غلام احمد پرویز نے اپنے مفہوم القرآن میں ولایت کو ”اعانت و رفاقت“ سے تعبیر کیا ہے

۵۔ اسی طرح تعجّب ہے کہ پیر محمد کرم شاہ الازھری،اپنے ترجمہ میں ولایت کا ترجمہ وراثت سے کرتے ہیں مگر اپنے حاشیہ میں،ترجمے سے ہٹ کر تفسیر کرتے ہیں دیکھئیے ضیاء القرآن،جلد دوئم،سورئہ انفال کا حاشیہ نمبر ۹۰

۶۔ الشیخ الطبرسی (متوفٰے ۵۴۸)، مجمع البیان فی تفسیر القرآن،جلد دوئم ص ۵۶۱،مکتبہ العلمیة الاسلامیہ،طھران،سنہ اشاعت ندارد،

۷۔ تفسیرات احمدیہ فی بیان آلایات الشرعیہ،(اُردوترجمہ) جلد اوّل،ص۵۲۳،قرآن کمپنی لمٹیڈ،اُردو بازار لاہور،سنہ اشاعت ندارد

۸۔ عبدالماجد دریابادی کا پہلا ترجمہ مع تفسیر کے انگریزی میں ہوا تھا

۹۔ محمد علی لاہوری نے بھی اُردو ترجمہ و تفسیر سے قبل انگریزی میں ترجمہ و تفسیر کا کام کر لیا تھا