قرآن پاک کے اسامی اور ناموں کے بارے میں کتاب اور سنت کے پیروکاروں اور بہت سارے محققین نے مفصل کتاب ، تحقیقی مقالات او رجریدے نشر و اشاعت کئے ہیں، لہذا شاید قارئین محترم یہ تصور کریں کہ اس موضوع پر اتنی ساری کتابیں اور مقالات ہونے کے باوجود مزید اس موضوع پر قلم اٹھانا چندیں افادیت کا حامل نہ ہو ، لیکن مرحوم علامہ طباطبائی عارف زمان علم و عمل ، زہد و تقوی کے بینظیر ہستی کا فرمان ہے کہ فہم قرآن کی خاطر ہر سال جدید تفسیر اور تحریر کی ضرورت ہے لہذا جتنے مقالات اور کتابیں اس موضوع پر لکھی گئی ہیں پھر بھی ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس جدید دور کے تقاضے کے مطابق علوم قرآن کے موضوع پر جو فہم قرآن کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے مقالات ، جریدے اور کتابوں کی شکل میں تحریر کریں تاکہ ہر ایک طالبعلم اپنی شرعی ذمہ داری سمجھے لہذا دانشمند حضرات میں سے نامور علوم قرآن کے ماہر مرحوم علی بن احمد جوحرّالی کے لقب اور ابوالحسن کی کنیت سے معروف ہیں۔
اسامی قرآن کے عنوان پر مستقل ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے فرمایاہے کہ اللہ نے کلام پاک میں قرآن کو٩٠ ناموںاور عناوین سے یاد کیا ہے ۔ جسکی حقیقت درک کرنے کی خاطر ماہرین علماء اور مفسرین کی ضرورت ہے ۔(١ )
..................................
( ١ ) البرھان
شافعی مذہب کے معروف فقیہ جو ابولمعالی کی کنیت سے معروف ہیں ، انکی معروف کتاب کا نام البرہان فی مشکلات القرآن ہے جس میں انہوں نے فرمایا :کلام پاک میں قرآن مجید کو ٥٥ عناوین اورناموں سے یاد فرمایا ہے ۔(١ )
جناب حسین بن علی رازی امامیہ کے برجستہ اور نامور و مشہور علماء میں سے ایک ہیں جن کی کنیت ابو الفتوح تھی ، آپ مرحوم طبرسی صاحب مجمع البیان اور آقای زمخشری کے ہم عصر تھے آپ نے فرمایا کہ قرآن مجید کو قرآن مجید میں ٤٣ ناموں اور عناوین سے یاد کیاہے ۔
مرحوم طبرسی جو ابو علی کی کنیت امین الدین یا امین الاسلام کے لقب سے معروف اور مشہور ہیں فرمایا قرآن کریم کے چارنام ہیں:١۔ قرآن ٢۔ کتاب ٣۔ فرقان ٤۔ذکر(٢ )
اور بہت سارے مفسرین او رعلوم قرآن کے محققین نے انہیں چار عناوین اور ناموں کی تفسیر اور وضاحت فرمائی ہے لہذا ہمارے دور کے بہت سارے محققین نے اسامی قرآن کو فقط پانچ عناوین قرار دیے ہیں.١۔ قرآن ٢۔کتاب ٣۔ذکر ٤۔تنزیل،٥۔فرقان، دیگر تمام عناوین کو قرآن مجید کے اوصاف قرار دیے ہیں، لیکن دقت کے دامن میں تمام محققین کے
............................
( ١ ) البرہان فی مشکلات القرآن،ج٣،ص٤٠١ )
( ٢ ) مجمع البیان، ج١،ص١٤۔
کلام او رتحقیقات کو بیان کرکے نقد و بررسی کرنے کی گنجایش نہیں ہے، فقط بیشتر مفسرین او رعلوم قرآن کے ماہرین کے نظریہ کو اجمالی طور پر نقل کرنے پر اکتفا کرو نگا جس پر ہمارے استاد محترم حضرت حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج رجبی نے بھی اپنے لکچر میں اشارہ کیا تھا آپ اس دور میں حوزہ علمیہ قم میں علوم قرآن کے ماہر ترین استاد ، موسسہ امام خمینی ؓ کے شعبہ علوم قرآن کے ڈائریکٹر ہیں ، آپ نے فرمایا قرآں مجید کے اسامی معروف مفسرین او رعلوم قرآن کے محققین کی نظر میں درج ذیل ہیں :
١۔ قرآن ٢۔کتاب ٣۔فرقان ٤۔ذکر ٥۔تنزیل ٦۔مبین ٧۔کریم ٨۔نور ٩۔ہدی ١٠۔ موعظہ ١١۔شفاء ١٢۔مبارک ١٣۔علیّ ١٤۔حکمۃ ١٥۔حکیم ١٦۔مصدّق ١٧۔مہیمن١٨۔حبل ١٩۔صراط المستقیم ٢٠۔قیّم ٢١۔قول فصل ٢٢۔ نباء العظیم ٢٣۔احسن الحدیث ٢٤۔متشابہ ٢٥۔مثانی ٢٦۔روح ٢٧۔وحی ٢٨۔عربیّ ٢٩۔بصائر ٣٠۔بیان ٣١۔علم ٣٢۔حق ٣٣۔ہادی ٣٤۔عجب ٣٥۔تذکرہ ٣٦۔العروۃ الوثقی ٣٧۔عدل ٣٨۔صدق ٣٩ امر ٤٠۔منادی ٤١۔بشری ٤٢۔مجید ٤٣۔زبور ٤٤۔بشیر ٤٥۔نذیر ٤٦۔عزیز ٤٧۔بلاغ ٤٨۔قصص ٤٩۔صحف ٥٠۔مکرّمہ ٥١۔مرفوعہ ٥٢۔مطہرۃ ٥٣۔کلام اللہ ٥٤۔رزق الرّب ٥٥۔تبیان ٥٦۔نجوم ٥٧۔سراج المنیر ٥٨۔نعمۃ ٥٩۔مصحف ۔
اگرچہ دیگر کچھ محققین نے اس سے زیادہ ذکر کئے ہیں، لیکن اکثر علوم قرآن کے ماہرین نے انہیں مذکورہ عناوین پر اکتفا کئے ہیں، لہذا یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کے متعدد نام او راسامی ہیں جس پر سارے مسلمانوں کااتفاق ہے ، لیکن ان کی کمیت او رتفسیر کے بارے میںمسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے ۔
مگر اختصار اور فرصت کی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے قارئین محترم کو اس موضوع کے متعلق دیگر مفصل کتابوں کی طرف محوّل کرتا ہوں رجوع کیجئے ۔
آیات قرآن کی وضاحت :
الف: معنی آیہ. آیات کے دو معانی ہیں. ١۔لغوی ٢۔اصطلاحی
١۔ لغت میں آیہ چار معانی میں استعمال ہوا ہے :
١۔معجزہ ،چنانچہ اللہ نے فرمایا: سَلْ بَنِی إِسْرَائِیلَ کَمْ آتَیْنَاہُمْ مِنْ آیَۃٍ بَیِّنَۃٍ (١)(اے رسول) بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے ان کو کتنے روشن معجزہ پیش کئے ۔
یہاں بہت سارے مفسرین اور محققین نے آیۃ بینۃ کا معنی معجزہ واضحہ کیاہے، اس بات کی بنیاد پر آیہ معجزہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، لیکن اس آیہ میں بہت سارے مترجمین نے کلمہ آیت کا ترجمہ نشانی اور علامت کیا ہے، جسکی بناء پر کلمہ آیہ کا معنی معجزہ نہیں ہے، بلکہ
............................
( ١ ) البقرہ/٢١١
علامت اور نشانی ہے جو آنے والے معانی میں سے ایک ہے ۔
٢۔ علامت: چنانچہ اللہ نے فرمایا:ان آیہ ملکہ ان یاتیکم التابوت(١ )
اس کے بادشاہ ہونے کی علامت اور پہچان یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صدوق آجائے .اس آیت کر یمہ میں لفظ آیت علامت اور نشانی کے معنی میں استعمال ہوا ہے .
٣۔عبرت: چنانچہ اللہ نے فرمایا: انّ فی ذالک لایۃ. اس میں یقینا (تمہارے لئے) عبرت ہے .
٤۔ عجیب و غریب: چنانچہ اللہ نے حضرت عیسی او رحضرت مریم کے بارے مےں فرمایا: و جعلنا ابن مریم و امّہ آیۃ'' اور ہم نے حضرت عیسی اور انکی والدہ گرامی عجیب و غریب قرار دی''۔ (٢ )
٥۔جماعت: چنانچہ لغت عرب میں کہا جاتا ہے ''خرج القوم بآیتہم ''
'' قوم اپنی وفد اور گروپ کے ساتھ نکلی ''
٦۔ برہان اور دلیل: چنانچہ اللہ نے فرمایا :'' و من آیاتہ خلق السموات و الارض اور اس کی قدرت پر قائم کردہ برھانوں میںسے آسمانوںو زمین کی تخلیق ہے ۔(٣ )
.................................
( ١ ) بقرہ/٢٤٨،
( ٢ ). مومنون/٥٠ )
( ٣ ) روم/٢٢ )
بہت سارے محققین نے اس طرح آیات مذکورہ کو کلمہ آیہ کے لغوی معنی متعدد ہونے پر دلیل قرار دیاہے، حالانکہ اگر ہم غور کریں تو ان معانی میں سے صرف دو معنی صحیح ہیں:١۔علامت ٢۔جماعت ، لہذا مذکورہ آیات میں سے اکثر وہی علامت اور نشانی کے معانی میں استعمال ہوا ہے ۔
٢۔ اصطلاحی معنی :
کلام الہی کے و ہ حصّے جس کے آغاز اور انجام معین ہونے کے علاوہ ہر آیت اپنی مخصوص جگہ میںگامزن ہے، اس کو اصطلاح میں آیت کہا جاتا ہے، اور آیۃ اور جملے کے مابین عام و خاص من وجہ کا فرق قابل تصور ہے یعنی کبھی جملہ ہے آیت نہیں ہے کبھی آیت ہے جملہ نہیں ہے ، کبھی جملہ او رآیت دونوں ہیں یعنی قرآن کریم میں مفردات، جملات او رکلمات ہوا کرتے ہیں جس کے ایک خاص مجموعہ کو آیت کہا جاتا ہے جو ہر حوالے سے فصاحت و بلاغت کے اصول و ضوابط کے ہماہنگ ہونے کے علاوہ مکمل ایک معقول مطلب کو اداکریں نیزتمام آیات کی حد بندی ،جگہ کا تعین بھی پیغمبر اکرم (ص) نے ہی کیا ہے، لہذا آیات او رسورے کی حد بندی، جگہ کا تعین توقیفی ہے، جسمیں عقل اور اجتہاد و قیاس وغیرہ کرنے کی گنجایش نہیں ہے یعنی جس جملہ اور ترکیب کو آیت کہا گیاہے یا جس سورہ کی جگہ معین ہے ، اس میں اجتہاد اورنظر دینے اور قیاس کرنے کا حق نہیں ہے ، جس پر تمام مسلمین کا اتفاق ہے ۔
لہذا علوم قرآن کے ماہرین نے المص کو ایک آیت قرار دیاہے،جبکہ المرا کو ایک آیت شمار نہیں کیا ہے، یا سین کو ایک آیت قرار دیتے ہیں جبکہ اس کے ہموزن طس کو ایک آیت نہیں کہا گیا ، اسطرح حمعس کو دو آیات قرار دیتے ہیں،لیکن کہٰیعٰس کو حروف کے حوالے سے زیادہ ہونے کے باوجود ایک آیت قرار دیتے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ آیات قرآنی کی حد بندی ،جگہ کا تعین امر توقیفی ہے جس میں اجتہاد اور قیاس یا دیگر راہوںکو بروی کار لانے کی گنجایش نہیں ہے اگرچہ علوم قرآن اور تفاسیر کی کچھ کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ کبھی کبھار کلمہ آیہ ایک حصہ اور بعض آیۃ پراستعمال کیاگیا ہے چنانچہ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ کلمہ ارجی ایک آیت یا سورہ زلزال کے آخری دو جملوں کو ابن مسعود سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ دو آیات ہیں، لیکن ایسے موارد میں کلمہ آیت کا استعمال کرنا بظاہر مجازی ہے، کیونکہ اس کے معنی اصطلاحی اور لغوی کے موضوع لہ سے ایسے موارد یقینا خارج ہیں۔
نیز قرآن کی آیات کی تعداد اور گنتی میں بھی تھوڑا بہت علوم قرآن کے ماہرین کے درمیان اختلاف ہے،لیکن ایسا اختلاف آیات قرآنی کی حد بندی، اور جگہ کا تعیّن توقیفی ہونے کے ساتھ کوئی تضاد اور ٹکراو نہیں ہے،کیونکہ ایسے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ جب حضرت پیغمبر اکرم (ص) اصحاب او رکاتبین کی خدمت میں نازل شدہ آیات کی تلاوت کرتے تھے تو جس سے اصحاب خیال کرتے تھے کہ جہان پیغمبر اکرم (ص) وقف اوررک جا تے تھے وہاں تک ایک آیت ہے لیکن کچھ دوسرے اصحاب اور کاتبین ان کے خلاف خیال کرتے تھے، کہ مزید وضاحت کیلئے علوم قرآن کی مفصل کتابوں کی طرف رجوع کی ضرورت ہے لہذا آیات کی تعداد کے بارے میں مختلف نظریے موجود ہیں ۔
١۔ بصریین کے عقیدے کی بنا پر کلام پاک کی آیات کی تعداد ٦٢٠٤ یا بعض بصریین کے نزدیک ٦٢٠٥ یا دیگر کچھ بصریین کی نظر میں ٦٢١٩ ہے ۔
٢۔ مدنیین کے عقیدے کی بنا پر آیات کی تعداد ٦٢١٤ یا دیگر کچھ مدنیین کی نظر میں ٦٢١٧ ہے ۔
٣۔ مکیوّن کی نظر میں کلام مجید میں ٦٢٢٠ ہے ۔
٤۔ شامیوں کے نزدیک قرآن مجید میں ٦٢٢٦آیات ہیں۔
٥۔ کوفیوں کی نظر میں ایات قرآنی کی تعداد ٦٢٣٦ ہے ۔(١ )
٦۔ لیکن جب ہم اپنے شفیق استاد محترم رجبی صاحب کے لیکچر سن رہے تھے اور ان کے اسی موضوع پر دیے ہوئے لیکچر کو کتابچہ کی شکل میں طلاب کو عطا بھی کئے تھے اس میں آیات کی تعداد کو ٦٦٦٦ بتائی ہے اور ہم نے علوم قرآن کے اصول و ضوابط کے مطابق کئی دفعہ قرآن کے آغاز سے آخر تک آیات کو گنا تھا لیکن ٦٦٦٦ آیات کی تعداد بہت بعید نظر آتی ہے ۔
.............................
.( ١ ) مناہل العرفان،ج١،ص٣٣٧
آیات کی ترتیب اور نظم و ضبط :
آیات کی موجودہ ترتیب اور نظم و ضبط تمام امت مسلمہ کے نزدیگ اجماعی اور اتفاقی ہے . یعنی جسمیں کوئی تبدیلی اور جابجائی یا قیاس و اجتہاد کرنے اور نظر دینے کی گنجایش نہیں ہے کیونکہ جب حضرت جبرئیل آیات لیکر حضرت پیغمبر (ص) کی خدمت میں تشریف لائے تھے تو جبرئیل ان
آیات کی جگہ او رترتیب بھی معین کرتے تھے اور حضرت پیغمبر اکرم (ص) ہو بہو اسی ترتیب اور نظم و ضبط کے ساتھ اصحاب اور کاتبین وحی کی خدمت میں پیش کرتے تھے. اور ہر ایک آیت کی جگہ بھی معین کرتے تھے، اور عین اسی ترتیب اورنظم و ضبط کے ساتھ نماز اور خطبوں اور موعظوں کے اوقات تلاوت فرماتے تھے ، حتی علو م قرآن کے ماہرین اور محققین اپنی گرانبہا کتابوں میں تحریر کر چکے ہیںکہ حضرت جبرئیل ہرسال ایک دفعہ پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میںتشریف لاتے تھے او رعین اسی نظم و ضبط کے ساتھ آیات کو تکرار کرتے تھے او رپیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے سال میں جبرئیل دو دفعہ ائے اور پوری آیات کو اسی ترتیب اور نظم و ضبط کے ساتھ تکرار کیا تھا جسکو علوم قرآن کی اصطلاح میں عرضہ اخیر کہا جاتا ہے، اور اصحاب و کاتبین وحی اور حافظین قرآن بھی اسی ترتیب اور نظم و ضبط کی ہمیشہ رعایت کرتے تھے،لہذا کہا جا سکتاہے کہ آیات کی ترتیب اور نظم نسق اور آیات کی جگہ جس طرح موجود ہیں اسی طرح پیغمبر اکرم (ص) کے حکم سے رکھی گئی ہے، جس میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کی گنجایش نہیں ہے ، جس کی تائید احادیث بھی کرتی ہیں، چنانچہ ابی العاص نے کہا کہ میں پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں آنحضرت(ص) نے آسمان اور زمین کی طرف نظر کی اور فرمایا ابھی جبرئیل امین نازل ہوئے تھے اور مجھ سے کہا اس آیت کو اپنے سورہ کے مخصوص معین جگہ رکھیے ۔''ان اللہ یامر بالعدل والاحسان و ایتاء ذی القربی ''(١ )
نیز بخاری نے زبیر سے روایت کی ہے کہ زبیر نے کہا کہ میں نے عثمان سے پوچھا اللہ کا یہ قول کہ والذین یتوفون منکم و یذرون ازواجا(٢ )
نسخ شدہ آیہ تھی. کیوں لکھی گئی ہے؟ تو عثمان نے کہا میرے بھائی میں کسی آیہ کو اس کی معین جگہ سے تبدیل یا اس کو حذف نہیں کر سکتا(٣ )
ان روایتوں سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ نسخ شدہ آیہ کی جگہ بھی تبدیل نہیں کر سکتا، اس بات کی دلیل یہ ہے کہ آیات کی ترتیب توقیفی ہے جس میں کسی قسم کی تبدیل اور جابجائی کی گنجایش نہیں ہے ۔
نیز جناب سیوطی نے اپنی گرانبہا کتاب میں فرمایا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کئی سورتوں کو نماز جمعہ کے خطبے اور اصحاب کے حضور میں آیات کی موجودہ ترتیب او رنظم و نسق کے ساتھ تلاوت فرماتے تھے یہ چیزیں آیات قرآن کی ترتیب اورنظم وضبط توقیفی ہونے کی
.........................
( ١ ) النحل/(اتقان ج١ص١٠٤
( ٢ ) بقرہ/٢٤ )
( ٣ ) صحیح بخاری۔
بہترین دلیل ہیں او راصحاب بھی اسی ترتیب کے پایبندرہتے تھے کبھی کسی کو اس ترتیب کے خلاف تلاوت کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی ،یہ بات تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچی ہے ۔(١ )
اسی طرح جناب زرکشی نے کتاب برہان میں جعفر بن زبیر اور دیگر کچھ محققین آیات قرآن کی ترتیب جو اس وقت بین الدفتین موجود ہے توقیفی ہونے پر اجماع کے دعویدار ہوئے ہیں۔
سوال و جواب :
آیات قرآنی کی حد بندی ،جگہ کے تقرر معلوم ہونے کا کیا فائدہ اورنتیجہ ہے؟
اس بحث اور گفتگو کا نتیجہ اور افادیت وہاں ظاہر ہو جاتی ہے جہاں کسی نے نماز میں یا عام عادی حالت میں کچھ آیات کی تلاوت کرنے کی نذر کی ہے وہاں آیت کی حد بندی کا اثر ظاہر ہو جاتا ہے،لہذا اس بحث کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ بھی ہوسکتاہے کہ جس طرح دیگر مباحث میں علمی نتائج کے علاوہ عملی نتائج او رافادیت سے مالا مال ہے، اس طرح یہ بحث بھی افادیت اور نتائج سے خالی نہیں ہے ۔
...................................
( ١ ) اتقان ج ١ص١٠٥
سورتوں کی حد بندی :
جس طرح کلمہ آیہ کا دو معنی قابل تصور ہے اس طرح کلمہ سورہ کے بھی دو معنی ہیں :
١۔ لغوی ٢۔اصطلاحی
کلمہ ''سورۃ ''لغت عرب میں کئی معانی میں استعمال ہوا ہے ۔
١۔جناب صاحب قاموس نے فرمایا کہ کلمہ سورہ منزلت کے معنی مےں آیا ہے ۔
جیسے : الم تران اللہ اعطاک سورہ تری کل ملک حولہ یتذبذب
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے تجھے کیا مقام و منزلت عطا کیا ہے کہ جس کے سبب ہر بادشاہ کی رفت و آمد کا مرکز بنا۔
٢۔ علامت اور نشانی کے معنی میں آیا ہے ۔
٣۔ دیوار بلند یعنی شہر کی دیوار کو بھی سورہ کہا جاتا ہے ۔
٤۔ نیز سورہ قوت اور طاقت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔
اس کے علاوہ اور بھی معانی میں استعمال ہواہے جس کی تفصیل اس مختصر کتیبہ میںنقل کرنے کی گنجایش نہیں۔لہذا لسان العرب و مجمع البحرین ،تاج العروس کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
٢۔ اصطلاح علوم قرآن میں سورہ متعدد ایسی آیات کے مجموعہ کا نام ہے ، جس کی طبیعت ،لحن اور نظم وضبط او ر سیاق و سبق یقینا دوسرے سورہ کی سیاق و سبق سے فصاحت و بلاغت کے حوالے سے متفاوت ہے، اگر چہ کبھی کبھار ایک ہی سورہ کی آیات کے مابین قبل و بعد کے حوالے سے یا سبق و سیاق کے لحاظ سے مختلف نظر آتا ہے، جیسے آیہ تطہیر قبل و بعد کے حوالہ سے دیکھا جائے تو آیت قبلی اور بعدی زوجات سے مربوط ہیں، لیکن درمیان میں آیہ تطہیر جو اہلبیت ؑ کا تذکرہ کر رہی ہے بظاہر متفاوت نظر آتی ہے، ایسی کیفیت پر ہونے والی آیہ کو ادبی اصطلاح میں جملہ معترضہ کہا جاتا ہے لیکن اگر ہم سورہ احزاب کے آغاز اور انجام تک کی آیات کے سبق و سیاق کو غور کریں تو آیہ تطہیر اور دیگر آیات کا سیق و سبق ملتا جلتا ہے ۔
لہذا اگر مختصر الفاظ میں سورہ کی تعریف کرنا چاہیں تو یہ ہے: ایسی آیات کے مجموعے کا نام سورہ ہے، جو سبق و سیاق اور نظم و نسق فصاحت وبلاغت کے حوالے سے ایک ہی طبیعت کے ہو دوسرے مجموعہ آیات کی طبیعت سے مختلف ہو نیز تمام امت مسلمہ کے درمیان اجماع ہے کہ قرآن مجید میں ایک سو چودہ سورتیں ہیں کہ جن کی نام گذاری بھی ایک نظریہ کی بنا پر جس طرح قرآن مجید میں اسوقت موجود ہے اس طرح خود پیغمبر اکرم (ص) کی زبان مبارک سے ہوئی ہے، تبھی تو سورتوں کی نامگذاری بھی آیات کی ترتیب اور نظم و نسق کی مانند توقیفی ہے، جسمیں نظر اور اجتہاد یا قیاس کے ذریعہ تبدیلی کی گنجایش نہیں ہے جس پر کئی صحیح السند احادیث عامہ اور خاصہ کی کتابوں میں مختلف مضامین کے ساتھ موجود ہے جس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے تمام سورتوں کا نام معین کیا ہے ۔(١ ) .........................
( ١ ) شناخت قرآن ص١٠٣ علی کمالی )
اور سورتوںکی موجودہ ترتیب بھی خود پیغمبر اکرم (ص) کے حکم سے ہوئی ہے یعنی جس طرح آیات کی ترتیب توقیفی ہے اسی طرح سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب بھی توقیفی ہے جس میں اعمال نظر کی گنجایش نہیں ہے ،لیکن اس مشہور و معروف نظریے کے مقابل میں کچھ دوسرے محققین کا عقیدہ ہے کہ سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب خود پیغمبر اکرم (ص) کی زبان سے نہیں ہوئی ہے کیونکہ اگر نفس رسول خدا ؐ کی طرف سے سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب ہوتی تو اصحاب کے مصاحف میں سورتوں کی ترتیب اور نام گذاری کے حوالے سے مختلف نہیں ہونا چاہیے، جبکہ اصحاب کے مصاحف میں بہت بڑا اختلاف موجودہے، لہذا سورتوں کی نام گذاری اورترتیب توقیفی نہیں ہے،البتہ اس نظریہ کو رد کرتے ہوئے بعض محققین نے اس نظریہ کے قائلین کو دو جواب دیئے ہیں ۔
الف :اصحاب کے مصاحف میں اختلاف کا پائے جانے کی بات، دلیل قطعی سے ثابت نہیں ہوئی ہے ۔
ب: بالفرض ثابت بھی ہوا ہو تو ہم احتمال دے سکتے ہیں کہ اصحاب کے مصاحف پیغمبر اکرم (ص )
کی زبان سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب دینے سے پہلے ہے ۔(١ )
تیسرا نظریہ یہ ہے کہ کچھ سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے جبکہ دیگر کچھ سورتوں کی
....................................
( ١ ) شناخت قرآن ص١٠٥ علی کمالی )
ترتیب توقیفی نہیں ہے ۔ اس عقیدے پر کئی برہان بیان کئے گئے ہیں لیکن کتاب اوروقت کے دامن میں گنجایش نہ ہونے کے حوالے سے اقوال کے تذکرہ پر اکتفاء کروںگا۔
قرآن کریم کے سورتوں کے احکام میں سے ایک یہ ہے کہ ہر سورہ کے آغاز میں جو بسم اللہ ہے وہ سورہ کا جز اور مستقل ایک آیہ ہے یا اس کا جزء اور مستقل ایک آیہ نہیں ہے؟
چنانچہ ہر مکتب فکر اس مسئلہ سے با خبر ہے کہ بسم اللہ کے بارے میں امامیہ اور دیگر مذاہب کے درمیان اختلاف ہے امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ ہے ، لہذا نماز میں سورہ حمد کے آغاز میں یا دیگر سورتوں جو حمد کے بعد پڑھا جاتا ہے ، بسم اللہ الرحمن الرحیم کی قرائت اور تلاوت کرنا ضروری ہے ورنہ نماز باطل ہے، جبکہ اس مسئلہ کے باے میں اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ بسم اللہ ہر سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ قرآنی نہیں ہے ،لہذا نمازوں میں سورہ حمد یا دیگر سورتوں کی تلاوت کے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھنے سے نماز باطل نہیں ہوتی مرحوم شیخ طوسی نے تفسیر التبیان میں اس مسئلہ کے بارے میں ایک دلچسپ گفتگو کی ہے رجوع کریں۔ (١ )
لیکن اگر مکا تب فکر سیاسی اور مذہبی لگاو اور افادیت سے ہٹ کر علم کے اصول و ضوابط کی رو سے اس سلسلہ کے متعلق غور و خوض کریں ، تو یہ بات معقول نہیں ہے کہ بسم اللہ
.....................................
( ١ ) تفسیر التبیان ج١ص٢٤ )
الرحمن الرحیم ہر مصحف میں موجود ہو، اور ہر وقت ہر سورہ کے آغاز میں جس طرح دیگر آیات کی تلاوت کرتے تھے، اس طرح پیغمبر اکرم (ص) اور اصحاب و تابعین اور قراٰء تلاوت کریں ، اور دوسری طرف سے قرآن پاک میں تحریف یعنی کمی و بیشی نہ ہونے کے قائل بھی ہوں تو ہم بسم اللہ کو ہر سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ نہ ماننا نا انصافی کے علاوہ متضاد رویہ ہے ۔
لہذا امامیہ اور شافعی مذہب کا عقیدہ ہے کہ ہر بسم اللہ اسی سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ ہے جس پر کئی احادیث واضح الفاظ میں دلالت کرتی ہیں: جیسے من ترکہا فقد ترک مائۃ و اربع عشرۃ آیۃ من کتاب اللہ تعالی(١ )
ابن عباس نے کہا اگر کوئی بسم اللہ کو ترک کرے تو اس نے اللہ کی کتاب سے ایک سو چودہ آیات چھوڑئی ہے ۔
سورتوں کا مکی اور مدنی ہونے کی وضاحت :
علوم قرآن کے ماہرین اور مفکرین نے ایک سو چودہ قرآنی سورتوں کو دو قسموں میں تقسیم کی ہے، مکی اور مدنی اور قرآن کے تمام سورہ کے آغاز میں ہذہ السورۃ مدنیہ یامکیہ کی تعبیر موجود ہے ،اور علوم القرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں سورے مکی اور مدنی ہونے کے ملاک اور اصول و ضوابط بھی بیان کئے ہیں ، اورمکی ومدنی ہونے کے
....................................
( ١ ) کشاف ،ج١،ص١،در منثور ،ج١، دیگر تفاسیر
اصول وظوابط کا خلاصہ در ج ذیل ہے :
١۔ بعض محققین نے لکھا ہے کہ جوآیات اور سورہ ہجرت سے پہلے نازل ہوا ہے وہ مکی ہے جو ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے و ہ مدنی ہے ۔
٢۔ جو مکہ میں نازل ہوا ہے وہ مکی ہے جو مدینہ میںنازل ہوا ہے وہ مدنی ہے، اور جو مکہ ومدینہ کے گرد ونواح میں نازل ہوا ہے وہ بھی مدنی ہے ۔
٣۔جن آیات کا مخاطب اہل مکہ ہیںوہ مکی ہے جن آیات کا مخاطب اہل مدینہ ہیں و ہ مدنی ہے ۔
٤۔ ہر وہ سورتیں جن میں سجدہ اور لفظ کلا ہے وہ مکی ہے، لیکن جن سورتوں میں سجدہ اور کلمہ کلا نہیں ہے وہ مدنی ہے ۔
٥۔ جہاں یا ایہاالناس کا خطاب ہے و ہ مکی ہے باقی مدنی ہے مگر سورہ حج اس ملاک اورمعیار سے خارج ہے کیونکہ اس کے آخری آیہ'' یاایہاالذین آمنوا ارکعوا والسجدو ا'' ایا ہے اس کے باوجود اکثر علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ مکی ہے نہ مدنی۔
٦۔ ہر وہ سورتیں کہ جن میں انبیاء سلف کے قصے اور امم سابقہ کی کہانی اور عبرتوں پر مشتمل ہے وہ مکی ہے باقی مدنی اس ملاک اور قانون سے سورہ بقرہ کو خارج کیا گیا ہے ۔
٧۔ہر وہ سورتیں جن میں حضرت آدم ؑ اور ابلیس کا قصہ بیان کیا گیا ہے وہ مکی ہے باقی سورتیں مدنی ہیں۔
٨۔ ہر وہ سورتیں جن کاآغاز حروف مقطعات سے ہوا ہے وہ مکی ہے، اور وہ سورتیں جن کا آغاز حروف مقطعات سے نہیں ہوا ہے وہ مدنی ہے،(١)لیکن اگر دانشمند حضرات اور مکاتب فکر سورتوںکے مکی اور مدنی ہونے کے مسئلہ کو کڑی نظر سے غور کریں تو علمی نتائج اورمعلومات کے علاوہ عملی نتائج بھی ہیں جن پرغور کیجئے تاکہ علمی نتائج اور معلومات کے علاوہ نذر اور ناسخ و منسوخ کی تشخیص اورتعیین کے موارد میںکام آئے، لہذا اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے سورتوں کے دیگر مباحث جیسی آیات کی تعداد اور فصاحت و بلاغت کے حوالے سے کونسا سورۃ دیگر سورتوں پر بیش قدم ہے، وغیرہ کے بارے میں علوم قرآن کے موضوعات پر لکھی ہوئی مفصل کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔(٢ )
تدوین قرآن کا پس منظر :
پہلا نظریہ :
قرآن کی جمع آوری کے متعلق کئی اقوال اورنظریے موجود ہیں، اور قرآن کی تدوین اور جمع آوری کا مسئلہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے ،علوم قرآن کے مباحث میں اس بحث کو مرکزیت حاصل ہونے کے باوجود بہت سارے محققین نے اعتراف کیاہے کہ یہ مسئلہ علوم قرآن کے پیچیدہ مسائل میں سے ایک ہے جس کے متعلق امت مسلمہ کو کڑی نظر سے غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلام اور مسلمین تحریف اور کورکورانہ عقیدہ اور اندھی تقلید سے نجات حاصل کر سکے، کیونکہ ایک طرف سے تمام مسلمین کا اجماع ہے کہ قرآن اللہ کی
..............................
١ .( شناخت قرآن .(
٢ ) شناخت قرآن ص٢٩٦ علی کمالی )
آخری کتاب ہے، جو بشر کے لئے تا قیام قیامت ضابطہ حیات ہے ،خود اللہ نے فرمایا :''انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون'' '' ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں''یا دوسری آیت میں فرمایا: ''ان علینا جمعہ و قرآنہ ''''بیشک اسکا جمع کرنا اور قرائت کرنا ہم پر فرض ہے''(١ )
نیز فریقین کے علوم قرآن کے ماہرین نے کاتبین وحی کے اسامی اپنے مقالات اور کتابوں میں مفصل بیان کئے ہیں،حتی لکھا گیا ہے کہ اصحاب میں سے ایک وفد کاتبین وحی کے لقب سے معروف اور مشہور تھا۔
اور بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے مجھ سے فرمایا: عبداللہ قرآن کو ایک مہینے میں مکمل کرو اسوقت مےں نے کہا اس سے زیادہ قدرت ہو تو آنحضرت ؐ نے فرمایا ہر دس دن کے بعد مکمل کرو، میں نے کہا اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہو تو آنحضرت(ص) نے فرمایا ہر ہفتہ میں مکمل کرو اس سے زیادہ نہ کرو،(٢ )
جس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کی تدوین اور جمع آوری حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی حیات طبیہ میں ہوئی تھی ، نیز عین اسی کہانی کو ابو عبیدہ نے قیس بن ابی صعصعہ کے بارے میں نقل کیاہے، حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے قیس بن ابی صعصعہ سے پوچھاتم
.................................
( ١ ) قیامت/١٧
( ٢ ) نقل شناخت قرآن ص١٠٧ )
قرآن کو کتنے دنوں میں ختم کرتے ہو؟ اس نے کہا چالیس دنوں میں ختم کرتاہوں(١ )
اور اسی روایت کی بنا پر امام احمد بن حنبل نے کہاہے کہ چالیس دن سے زیادہ ختم قرآن میں تاخیر کرنا مکروہ ہے ۔
اس روایت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کی پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی میں جمع آوری اور تدوین ہوئی تھی ،بخاری اور ابو داود اورنسائی نے روایت کی ہے ۔
ابو سعید العلاء نے کہا: میں مسجد میں نماز پڑھا رہاتھا اتنے میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے مجھے بلایا لیکن میں نے جواب نہ دیا (نماز سے) فارغ ہونے کے بعد آپ کی خدمت میں گیا اور کہا یا رسول اللہ ؐ میں نماز پڑھا رہا تھا، اس وقت آپ نے فرمایا مگر اللہ نے نہیں فرمایا :'' یا ایہاالذین آمنوا استجیبوا للہ و للرسول اذا دعاکم'''' یعنی اے ایمان والو جب تمہیں خدا اور اس کا رسول ؐ نے بلائے تو جواب دو '' اس وقت آنحضرت(ص) نے فرمایا کیا میں تجھے ایسا کوئی سورۃ نہ بتا دوںجو قرآن کا سب سے بڑا سورہ ہے،(٢)اس روایت سے بظاہر معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن کی تدوین و جمع آوری پیامبر اکرم (ص) کی حیات میں ہو چکی تھی۔
.................................
( ١ ) شناخت قرآن،ص١٠٨ )
( ٢ ) بخاری،نسائی
ابن عباس سے روایت ہے، حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا گیا کونسا عمل اللہ کی نظر میں زیادہ محبوب ہے ؟ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ قرآن کے آغاز سے آخر تک تلاوت کرنا اللہ کی نظر میںزیادہ محبوب ہے ۔(١ )
ان کے علاوہ بہت سی روایات بخاری اور دیگر محققین نے نقل کی ہیں کہ جن میں لفظ قرآن کی تلاوت یا قرآن جمع کرنے والے افراد کا نام مذکور ہے ایسے الفاظ سے بخوبی روشن ہو جاتا ہے کہ قرآن کی تدوین پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ہی ہوئی تھی ، اگرچہ اس زمانے کی جمع آوری کی کیفیت اور اس دور کی کیفیت میں یقینا فرق ہے ۔
نیز اصحاب کے دور اور پیغمبر اکرم (ص) کے دور کی تدوین کی کیفیت میں یقینا بڑا فرق ہے. لہذا قرآن و سنت اور عقل کی رو سے واضح ہوا کہ قرآن کی تدوین اور جمع آوری حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ہوئی ہے لیکن اگر ہم قرآن کی تدوین اور جمع آوری کو حیات پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ہونے پرروایت اور بعض آیات اور عقل کی رو سے تائید ہونے کے باوجود قبول نہ کریںتو اس کا لازمی نتیجہ تحریف ہے کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد کچھ اصحاب جو پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ اکثرو بیشتر رفت و آمد رکھتے تھے ، امامت اور خلافت کے ساتھ کھیل کھیلا ہے جو آج تاریخ اسلام کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں
................................
( ١ ) ترمذی ج٣ص٩
بخوبی روشن ہے، اگر پیغمبر اکرم (ص) کے دستور کے مطابق قرآن کریم بین الدفتین کتاب کی شکل میں تدوین نہ ہوتی تو آج مسلمانوں کے ہاتھوں موجود ہ قرآن کے نسخون میں طرح طرح کے اختلافات نظرآنا چاہیے حالانکہ تمام قرآن کی کیفیت اور نسخے کتابت اور چاپی ڈیزائن اور جلد سازی کے علاوہ باقی تمام جہات یعنی سورتوں اور آیات کی ترتیب اورنظم و ضبط میں اختلاف نظر نہیں آتا ۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنی امت سے یہ کہیں کہ میں آخری نبی ہوں ،میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا یہ آخری کتاب ہے جس کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں ہوگی تمہارامرجع قرآن وعترت ہے لیکن اس کی تدوین اور جمع آوری کے بغیر پیغمبر اکرم (ص) چلے جائیں کیا اسکی حفاظت کرنا ہر حوالے سے پیغمبر اکرم (ص) پر لازم نہ تھا؟ کیا پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی ذمہ داری کوا داء کرنے میں کوتاہی کی ہے؟
کیا پیغمبر اکرم (ص) امت کے سلوک و رفتار سے واقف نہ تھے کیاپیغمبر اکرم (ص)اپنی امت کے قرآن اور امامت کے ساتھ کرنے والے سلوک اور رفتار سے آگاہ نہ تھے کیا امت محمدی مثل پیغمبراکرم ؐ معصوم تھی؟ اگرچہ بہت سارے مسلمان نبی (ص)اور جانشین نبی ؐ کا معصوم ہونا ضروری نہیں سمجھتے ،لیکن قرآن کی حفاظت کرنالاز م سمجھتے ہیں۔
دوسرا نظریہ: حضرت علی (ع) کے ہاتھوں قرآن کی تدوین :
گذشتہ نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے ثابت کیاگیاہے کہ قرآن کی تدوین حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی حیات میں ہوئی تھی لیکن حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے فورا بعد حضرت علی (ع) نے اصحاب کی بے وفائی اور منفعت پرستی کا عالم دیکھا تو اپنی دولت سرا میں گوشہ نشینی اختیار کی جس کا مقصد قرآن کی حفاظت کرناتھاتاکہ قرآن کو تحریف اور کمی بیشی سے بچاسکیں، چنانچہ اس مطلب کو جناب سلیم بن قیس نے اپنی کتاب میںسلمان فارسی سے یوں نقل کیا ہے، جب حضرت علی (ع) نے اصحاب کی بے وفائی اور غداری کی حالت دیکھی تو آپ نے اپنے قیامگاہ میں گوشہ نشینی کرکے قرآن کی جمع آوری اور تدوین شروع کی جبکہ اس سے پہلے قرآن متعدد صحف اور کھالوں پر لکھا گیا تھا، اورآپ ہی نے قرآن کی اس طرح تدوین کی تھی کہ جس طرح آیات ناسخہ، اور منسوخہ، تنزیل، و تاویل، عام وخاص، نازل ہوا تھاجبکہ اس وقت آپ سے بیعت لینے کیلئے خلیفہ وقت کی طرف سے پیغام بھی بھیجا تھا۔(١ )
نیزخصال میںمرحوم شیخ صدوق نے مسلم بن قیس سے روایت کی ہے کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوئی ہو مگر پیغمبر اکرم (ص) نے مجھ سے نہ فرمایا ہو اور میں نے اپنے ہاتھوں سے اس کو نہ لکھا ہو، اور اس کی تفسیر او رتاویل مجھے یاد نہ دی ہو اس کا ناسخ و منسوخ مجھے نہ فرمایا ہو، محکم و متشابہ، عام و خاص نہ بتایا ہو، اور پیغمبر اکرم (ص )
ہمیشہ دعا کرتے تھے کہ خدای حضرت علی (ع)کو اس کی حفاظت اور فہم و درک کی توفیق دے ،
.........................................
( ١ ) کتاب سلیم بن قیس ص٨١، چاپ دار الکتب
لہذا جب سے پیغمبر اکرم (ص) نے میرے لئے دعا شروع کی تب سے کوئی آیت اور حکم کومیں نے کبھی فراموش نہیں کیا ہے ۔ (١ )
نیز حضرت امام باقر (ع)سے روایت ہے آپ نے فرمایا : اس امت سے کوئی، قرآن کی جمع آوری اورتدوین نہیں کرسکتا مگر آنحضرت(ص) کاجانشین اوروصی۔(٢ )
اس طرح حضرت امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا:تحقیق حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: یا علی (ع) قرآن میرے فراش کے پیچھے پڑا ہوا ہے، اس کو مصحف اور کاغذ اور حریر میںجمع ہے اس کو لوحوںاور مصحف کی شکل میں جمع کرو تاکہ جس طرح یہودیوں نے تورات کو ضائع کیا اس طرح قرآن ضائع نہ ہو جائے .. حضرت علی (ع) چلے گئے اور قران کو کسی کپڑے میں لپیٹ کردولت سرا کے اندر داخل ہوئے اور فرمایا جب تک قرآن کی جمع آوری کا کام مکمل نہیں ہوگا تب تک میں عبا نہیں پہنوں گا، لہذا بسا اوقات دولت سرا کے دروازے پرعبا کے بغیر نظر آتے تھے ۔(٣ )
......................................
( ١ ) بحار الانوار ج٤
( ٢ ) بحارلانوار ج٩٢،ص٤٨۔
( ٣ ) بحارالانوار ،ج٩٢،ص٤٨
مذکورہ آیات اور احادیث سے دو مطلب واضح ہوجاتے ہیں :
الف: قرآن کی جمع آوری حضرت علی (ع) نے کی ہے چاہے پیغمبر اکرم (ص) کی حیات میں کی ہویا پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد۔
ب: ان روایات اور مذکورہ نظریہ کے مابین کوئی تضاد اورتنافی بھی نہیں ہے کیونکہ حضرت علی (ع) نے پیغمبراکرم (ص) کی وفات کے بعد جس کیفیت پر قرآن کی جمع آوری کی ہے وہ ایک خاص کیفیت کاحامل تھا جبکہ حیات حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی جمع آوری کی کیفیت میں تنزیل و تاویل، ناسخ و منسوخ ،نزول کی تاریخ معین نہ تھی، لہذ حضرت علی (ع) نے وفات پیغمبر ؐ کے بعد تدوین قرآن کی اور حیات پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں جو جمع آوری ہوئی تھی وہ بھی حضرت کے ہاتھوں،ا ن کے درمیان کوئی تضاد نہیںہے کیونکہ دونوںزمانوںمیںجمع آوری علی (ع)نے ہی کی ہے ۔
مرحوم سیوطی نے ابن الفرس سے انہوںنے محمد بن سیرین سے روایت کی ہے: جب ابو بکر کی خلافت کا آغاز ہوا تو حضرت علی (ع) نے اپنی دولت سرا میں گوشہ نشینی اختیار کی ،لوگوں نے ابو بکر سے کہا کہ حضرت علی (ع) تیری اطاعت اور بیعت کرنے سے انکار کرتے ہیں ،اتنے میںابوبکر نے کسی کو بھیجا اورحضرت علی (ع) سے پوچھا آپ ابو بکر کی بیعت سے انکار کرتے ہیں؟آپ نے فرمایا :میں اس وقت قرآن میں تحریف ،کمی اور بیشی ہونے سے بچانا اپنا فریضہ سمجھتا ہوں حتی نماز کے لئے عبا پہننے کی فرصت بھی نہیں بلکہ قرآن کی جمع آوری کے کاموں میںمصروف ہوں ،اتنے میںابو بکر نے کہا آپ کتنے اچھے کام میںمصروف ہیں (١ )
حضرت علی (ع) کی سیرت یہ تھی کہ آپ ہر وقت حضرت پیامبر اکرم (ص) کے حضور میں رہتے تھے ،مہبط وحی میںآپ کی تربیت پائی تھی آپ تمام اسرار با الخصوص وحی کے کاتب تھے لہذ حضرت علی (ع) کے سوا کسی اور شخص سے خدا کے حکم اورفرمان رسول (ص) کے مطابق آیات کی ترتیب اوران کے مخصوص نظم ونسق ،سیاق وسبق ،فصاحت وبلاغت کے اصول وضوابط کے ساتھ قرآن کی جمع آوری اور تدوین قرآن ناممکن تھا ، اگر چہ مورخین نے دیگرکچھ افراد کا نام جمع آوری قرآ ن کی فہرست میںعلی (ع) کے نام کے ساتھ لکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ تدوین قرآن کی لسٹ میں حضرت ابوبکر اورحضرت عثمان کا نام بھی آئے لیکن تعصب مذہبی سے ہٹ کر علم اور ایمان کی روسے نگاہ کریں تو تدوین قرآن کے مسئلہ کو غیر معصوم افراد کی طرف نسبت دینا ناانصافی اورمسلمانوں کے عقیدہ کمزور ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔کیونکہ ایسے افراد کے ہاتھوں قرآ ن جمع آوری ہونے کادعواکرنا جو نہ ہمیشہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے حضور میں رہتے تھے نہ وہ لوگ حقائق اوراسرار سے باخبر تھے ایسے افراد کے ہاتھوں جمع آوری قرآ ن کے قائل ہونے کا لازمی نتیجہ تحریف قرآن کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
....................................
( ١ ) شناخت قرآن ص١١١
جبکہ تمام مسلمانوں کاعقیدہ یہ ہے کہ قرآن تحریف سے پاک ہے چونکہ قرآن امت محمدی ؐ کے لئے ضابطہ حیات ہونے کے حوالے سے قرآن کو ایسی حالت میںچھوڑ کر دار بقاکی طرف کوچ کرنا ناممکن نظر آتا ہے اورقرآن جو تمام کتب آسمانی کا نچوڑ اورخلاصہ ہونے کی حیثیت سے اس کی جمع آوری کوحضرت ابوبکر جیسے عمر رسیدہ صحابی کے ذمہ ڈالیں یاحضرت عثمان کے دور حکومت کوقرآن کی جمع آوری کا زمان قرار دینا الہی عقائد اوراصول وضوابط کمزور قراردینے کے علاوہ کچھ نہیںہے ایسی باتیںدرحقیقت پیکراسلام پر ضربت اورمسلمانوںکے ساتھ خیانت کے مترادف ہے ہاں یہ ہوسکتاہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان کے دور حکومت میں تدوین شدہ قرآن کی تجدید ہوئی ہو ،ایسی باتیں فضول ہیں ورنہ کفار مکہ ومدینہ کی سیرت سے عالم اسلام بخوبی آگاہ ہے کہ حضرت پیامبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد حضرت عثمان کے دور حکومت تک کے زمان میں کیا انہوں نے اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی جانی دشمنی سے ہاتھ اٹھایا ،کیا ان کے ہاتھوں سے پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں تدوین نہ شدہ قرآن کی حفاظت کا تصور ممکن ہے ؟ایک سطر ایک ٹکڑا کا غذ یاکپڑاکہ جن میںقرآن مستور تھا یا مکتوب تھا،ایسااحتمال ہی، تحریف قرآن ثابت کر نے کے لئے کافی ہے ،جبکہ پورئے عالم اسلام کاعقیدہ یہ ہے کہ قرآن میںتحریف واقع نہیںہوئی ہے بلکہ ہمارئے عقیدہ کی بنیاد پر ہرگز تحریف کے قائل نہیں ہوسکتے اورجو قرآن اس وقت مسلمانوںکے ہاتھوں میںموجود ہے اس میںکسی قسم کااختلاف نظم وضبط اورترتیب وتدوین کے حوالے سے نظر نہیںآتا ، یہ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے یعنی قرآن کی تدوین خود پیغمبراکرم (ص) نے اپنے دورمیںاپنے خاص الخاص صحابے کے ہاتھوںکی تھی ،اگرچہ پیغمبر اکرم (ص) کے بعد دیگر اصحاب کے ہاتھوںقرآن کی تدوین اورجمع آوری کی بات مذاہب اورمکاتب کے درمیان مشہور ہے ،لیکن صاحبان ذوق وشعورہستی کواس مسئلہ کے بارئے میں غور وخوص کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک طرف سے ان کا عقیدہ یہ ہو کہ قرآن کی تدوین اورجمع آوری حضرت ابوبکر یاحضرت عثمان نے کی ہے دوسری طرف سے اس میںتحریف نہ ہونے کے قائل ہیں ،لہذا زمان ومکان اورحالات کی تبدیلیوںکے پیش نظر اوراصحاب کے عملی اقدام اورمنفی پالیسیوںکو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کی تدوین اورجمع آوری کے اہم ترین مسئلہ کوحضرت ابو بکر اورحضرت عثمان سے منسوب کرنا اشتباہ ہے جس پر کوئی ٹھوس دلیل نہیںہے صرف چند ایک ضعیف السند روایت کے ذریعے مسئلہ اعتقادی کو ثابت کرنا نا انصافی ہے لہذا اگر تاریخ میںیا کسی ضعیف السند روایت میںتدوین قرآن کی نسبت حضرت ابو بکر یا حضرت عثمان کی طرف دی گئی ہے تو اس کو تجدید تدوین یا مرمت پر محمول کیا جانا چاہیے کیونکہ مسلمانوںکاعقیدہ یہ ہے کہ اعتقادی مسائل کو خبر تواتر اوربر ہان یقینی کے ذریعے ثابت کرنا چاہیے ان کو خبر واحد یا ظنی الدلالۃ سے ثابت نہیںکیا جاسکتا ،لہذا اگر قرآن کی تدوین اورجمع آوری کے مسئلہ کوحضرت ابوبکر اورحضرت عثمان کے ہاتھوںہونے کو خبر تواتر اوربرہان قطعی الدلالۃ کے ذریعے ثابت کر سکیں تو سب سے پہلے ہم ہی قبول کریں گے کیونکہ ہم ہر وقت ہرمسئلے میںدلیل کے تابع ہیں ۔
مرحوم سیوطی نے اپنی گرانبہا کتاب الاتقان میں قرآن کی تدوین حضرت ابوبکر کے ہاتھوں ہونے کے متعلق دلچسپ باتیں بیان کی ہیں اسکا اگر کڑی نظر سے غور کیا جائے تو بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر کے ہاتھوں اور دور خلافت میں قرآن کی تدوین ہونے پر دلالت کرنے والی روایت خبر واحد ہے جوبرہان ظنی ہے نہ تواتر اور برہان یقینی حال اینکہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مسائل اعتقادی برہان یقینی اور تواتر کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتے ۔
جناب ابن سعد کی روایت ہے حضرت علی (ع) نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد قسم کھائی کہ جب تک میں قرآن کو بین الدفتین جمع نہ کرلوں تب تک عبازیب تن نہیں کروں گا اور آپ نے یقینا اپنے عہد کو پورا کیا۔ (١ )
لہذا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ حضرت ابو بکر اورعثمان کے دور خلافت میں قرآن کی تدوین بیان کرنے والی روایات ان دستہ روایات کے ساتھ ٹکراو نہیں رکھتیں جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی حیات اور حضرت علی (ع) کے ہاتھوں قرآن کی جمع آوری اور تدوین ہونے پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ حضرت ابوبکر اورعثمان کے دورحکومت میں ان کے ہاتھوں قرآن کی
........................................
( ١ ) صیفات ج٣ص١٣٧
جمع آوری پر دلالت کرنے والی تمام روایات خبر واحد اور ظنی ہیں جبکہ حضرت پیامبر اکرم کی حیات میں اورحضرت علی (ع) کے ہاتھوںقرآ ن کی تدوین ہونے پر دلالت کرنے والی روایات متواترہ اور برہان یقینی ہیں۔
مرحوم علامہ نے کتاب تذکرہ میں فرمایاہے جو قرآن دور حاضر میں بین الدفتین میں مسلمانوں کے ہاتھوں موجود ہے یہ عین وہی قرآن ہے جو حضرت علی ؑ نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد جمع کیاتھا دیگر تمام مصاحف کو حضرت عثمان نے ختم اورنابود کردیاتھا۔
لہذا حقایق اور واقعیات پر پردہ ڈالنے کی خاطر شیعہ امامیہ کے عقائد پر حملہ کرتے ہوئے اسلامی معاشرے میں منبر رسول (ص) سے اس طرح خطاب کرنا کہ شیعہ امامیہ کے قرآن اور ہمارے قرآن میں فرق ہے، وہ موجودہ قرآن کے قائل نہیں ہیںان کا قرآن حضرت علی (ع) کے ہاتھوں جمع اور تدوین ہوئی ہے، وہ ہمارے قرآن سے الگ اورمختلف ہے لہذا وہ کافر ہے، کیونکہ جو قرآن ہمارے پاس موجودہے اس کے وہ مخالف ہے !ایسی بات درحقیقت شیعہ امامیہ سے منسوب کرنا نا انصافی ہے ، اگر حقیقت اور کتاب و سنت کے بالا دستی اورمسلمانوں کے مابین یکجہتی کے خواہاں ہیں تو ضرور شیعہ امامیہ کے عقائد اور علوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کیجئے ۔
کاتبین وحی کاتذکرہ :
جب قرآن کے نزول کا آغاز ہوا توپیغمبر اکرم (ص) نے سب سے پہلے اس کی حفاظت کی خاطر اپنے دور کے کاتبین کو جمع کیا اور آیات قرآنی کو لکھنے اور ضبط کرنے کا حکم دیا، لہذا نزول وحی کے وقت بیشتر کاتبین حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے حضور میں ہوتے تھے اگرچہ پورے کاتبین کا ہونا لازمی نہ تھا بلکہ بسا اوقات فقط ایک نفر یا دو نفر ہوتا تھا جو پیغمبر اکرم (ص) کے دستور کے مطابق آیت کی تلاوت اور ضبط کرتے تھے. اورعلوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں معروف اور مشہور کاتبین وحی افراد ذیل قرار دیئے ہیں :
حضرت علی علیہ السلام، عثمان بن عفان، ابان بن سعید، خالد بن سعید، ابی بن کعب، زید بن ثابت ، ثابت بن قیس، ارقم بن ابیّ،حنظلہ بن ربیع،عبداللہ بن ابی سرح، زبیر بن عوام، عبداللہ بن رواحہ، محمد بن مسلمۃ،عبد اللہ بن عبد اللہ ،عبداللہ بن ارقم،حنظلۃالاسدی، علاء الحضرمی، جہم بن صلت، معیقیب بن ابی فاطمہ، شرجیل بن حنسہ ان کے علاوہ اور بھی افراد کا نام مفصل کتابوں میں موجود ہے، لکن انہیں افراد میں حضرت علی - کا تب وحی کے علاوہ عہد ناموں اور رسالہ کے کاتب بھی تھے ۔ (١ )
ایسی روایات اور احادیث سے بخوبی واضح ہو جاتاہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے
.........................
( ١ ) شناخت قرآن،ص٩٥
قرآن کی حفاظت کیلئے پوری کوشش کی ہے،لہذا معقول نہیں ہے کہ ایسا شخص، قرآن کی تدوین اور جمع آوری کو امت مسلمہ کے ذمہ چھوڑ کر چلا جائے،حتی علوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں کاتبین وحی نے قرآن کو بحکم پیامبر اکرم (ص) کس چیز پرتحریر کی ان کا نام بھی بخوبی واضح کیا گیا ہے ۔(١)لہذا قرآن کی تدوین اور جمع آوری کے مسئلہ کے بارئے میں درج ذیل نظریے موجود ہیں :
الف: حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں جمع آوری ہوئی ہے ۔
ب: حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد حضرت علی (ع) کے ہاتھوں ایک خاص کیفیت کے ساتھ قرآن کی تدوین ہوئی ہے ۔
ج: حضرت ابوبکر کے دور حکومت میں قرآن کی تدوین اور جمع آوری ہوئی ہے ۔
د: حضرت عثمان کے دور حکومت میں قرآن کی تدوین ہوئی ہے ۔
ھ: جناب سالم یا ابی حذیفہ وغیرہ نے قرآن کی جمع آوری کی ہے ۔
لیکن محققین اور پڑھے لکھے حضرات کی ذمہ داری یہ ہے کہ قرآن کی تدوین او رجمع آوری کب اور کس نے کی؟ اس میں غوروخوص کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی معاشرئے میںحقیقت کی عکاسی ہو ۔
.............................
١۔شناخت قرآن، ص٩٦ )
نزول قرآن کی وضاحت :
نزول قرآن کے متعلق کئی آیات موجود ہیں،کبھی نزول کے متعلق انزلناہ، یا نزلناہ ،یا تنزیل، یا انزل، کے علاوہ بہت سارے الفاظ جو نزل سے مشتق ہوئے ہیں موجود ہیں ان الفاظ کی بازگشت اورمرجع دو مطلب بتایا جاتا ہے ۔
١۔ قرآن مجید کو اللہ نے ایک ہی دفعہ میں نازل کیا ۔
٢۔ اللہ نے قرآن کو آہستہ آہستہ ٢٣ سال کے عرصے میں نازل کیا۔
اورکچھ آیات سے نزول قرآن دفعی ہونے کا پتہ چلتا ہے جبکہ دوسرا دستہ آیات سے تدریجی ہونے کا پتہ چلتاہے ان دودستہ آیات کے درمیان بظاہر تعارض اور ٹکراو نظرآتاہے اسی لئے علوم قرآن کے ماہرین نے اس تعارض اورٹکڑاؤ کوبرطرف کرنے کی خاطر نزول قرآن کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے :
الف: دفعی
ب:تدریجی
یعنی ماہ رمضان المبارک میں قرآن، قلب حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر اتر آیا پھر ٢٣ سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ ایک ایک آیت یاسورۃ کی شکل میںحضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوا ،لہذاقارئین محترم سے نزول قرآن کے متعلق مفصل کتابیں جومختلف زبانوںمیںلکھاجاچکاہے ان کی طرف رجوع فرمائیں۔
نزول قرآن کا ہدف :
قرآن کی ترویج اور تبلیغ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے یعنی ہمیںچایئے کہ ہم قرآن کے قیمتی اور نورانی فرامین کو دنیا کے سامنے پیش کریں ۔تاکہ قرآن اورپرچم اسلام کی سربلندی کفرونفاق کی نابودی ہرقسم کے انحرافات اورغلط تہذیب وتمدن سے معاشرتی زندگی کو نجات دے سکیں ، اگر ہم اپنی ذمہ داری پر عمل کریں اورقرآن کو اللہ نے جس مقصد اورہدف کے لئے نازل کیا ہے اس کو سمجھیں تو یقینا ہم اس دور کے جابروں کے ناپاک سازشوں اورپالیسیوں سے نجات پاسکتے ہیں قرآن اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی قائم کرنے کے لئے نازل ہوا ہے قرآن کی حکمت تمام مراحل زندگی میںضروری ہے چنانچہ خود اللہ نے فرمایا : واعتصموبحبل اللہ جمیعا ولاتفرقو ''اور سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے آپس میںجدائی نہ ڈالیں(١ )
یادوسری آیہ میں فرمایا : ولاتنازعو فتفشلوا وتذہبوا''آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تمہاری قدرت اوراقدار نابود ہوجاؤگی ،(٢ )
اگر مسلمان حضرات ایسی آیات کو اپنا سرنامہ عمل قرار دے تو یقینا اللہ کے ایسی فرامین کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان حضرات اتحاد اور یکجہتی کو توڑ نے اور نقصان پہنچانے والی حرکات اوررفتار سے پرہیز کرینگے لہذا نزول قرآن کے اہداف کو فہر ست وار بیان کر کے اس موضوع سے اجازت چاہیں گے ۔
١۔ قرآن دیگر کتابوں کی مانند ایک کتاب معمولی نہیں ہے کہ من گھڑت داستانوں او ر کہانیوں پر مشتمل ہو بلکہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جسمیں انسان کو تکامل وترقی علم ومعرفت نیک اورعاقلانہ اورحکمانہ زندگی گذار نے کی تاکید کی گئی ہے لہذا نزول قرآن کے اہداف میںسے ایک ہدایت بشر ہے جسکی طرف
...........................
١۔عمران ۔١٠٣(٢)انفال ٤٧۔
اللہ نے اشارہ کر تے ہوئے فرمایا ہدہ للناس یا دیگر آیات میں ''ہدی للمتقین'' یا ''اناہدینا ہ السبیل ''کی نص موجود ہے ۔ان آیات میں لفظ ہدایت کو کسی قید وشرط کے بغیر بیان کر کے یہ بتانا چاہتے ہیںکہ قرآن ہدایت تکوینی اورہدایت تشریعی کے لئے نازل کیا ہے جسمیںشک وتردید کی کوئی گنجائش نہیں ہے اورہدایت اس وقت قابل تصور ہے اگر ہم قرآن فہمی کی کلاسوں میںشرکت کر کے قرآن کو سمجھے ورنہ قرآن دیگر موجودات کی مانند ہے جو ہماری فلاح وبہبود ہی کے لئے خلق ہوئے ہیں لیکن ہماری نافہمی اورجہالت کی وجہ سے ان سے مستفیض ہونے سے محروم ہیں ۔
٢۔ نیز قرآن کے نزول کے اہداف میںسے دوسرا ہدف بشرکی تربیت ہے چاہے اجتماعی تربیت ہو یا انفرادی تربیت جس کی طرف ''ویتلو علیہم آیتنا ویزکیہم ''کے ذیرعے اشارہ فرمایا ہے تربیت کو معاشرتی اورانفرادی زندگی میں مرکزیت حاصل ہے جس کے حصول کی خاطر طرح طرح کی زحمتیں اورمشقتیں اٹھانا پڑتا ہے قرآن واحد سرنامہ عمل ہے جومشیت ،تربیت کے اصول وضوابط کے بیان کرنے کے ساتھ اس کے نتائج اورعاقبت سے بھی بخوبی آگاہ کیا جارہا ہے ۔
٣۔ نزول قرآن کے اہداف میںسے تیسرا ہدف تدبر اور تفکر ہے یعنی فلاسفر اورقضایا عقل سے بحث کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ فکر اورتدبر سے انسان دیگر حیوانات سے جدا ہوسکتا ہے ۔جسکی طر ف قرآن میںشدت سے تاکید کی ہے چنانچہ فرمایا ''لعلکم تتفکرون ''یا تم لوگ کیوں قرآن کے بارئے میں غور وفکر نہیں کرتے ہیں ایسی آیات تفکر وتدبر کی اہمیت کو بیان کرنے کے ساتھ تدبر وتفکر کے آثار سے بھی آگاہ کیا ہے ۔
٤۔نزول قرآن کے اہداف میںسے چوتھا ہدف عبرت بتائی جاتی ہے چنانچہ قرآن میں آدم سے لیکر خاتم تک کے امتوں کی عبرت ناک منفی اورمثبت حالات کو بیان کرکے ہمیں ان سے عبرت لینے کا درس دیتا ہے کبھی قوم لوط کا تذکرہ ،کبھی قوم ہود کاتذکرہ کبھی آدم کے فرزندان کی حالات کبھی حضرت خاتم کی امت کا تذکرہ کر کے ہمیں عبرت لینے کا حکم دیا ہے ۔
٥۔نزول قرآن کے اہداف میںسے پانچواں ہدف اخلاق حسنہ سے بشر کو مزین اور رزیلہ واخلاق سیئہ سے نجات دینا ہے چنانچہ امام خمینی ؓ کا فرمان ہے کہ قرآن کی تمام آیات سے چاہے اقتصادی مسائل سے مربوط ہو یا فقہی ہر ایک سے اخلاقی کوئی نہ کوئی نکتہ سمجھ میں آتا ہے ۔
٦۔نزول قرآن کے اہداف میںسے ایک لوگوں کو بصیرت اور حکیمانہ وعالمانہ زندگی گذار نے کی تاکید کرتا ہے تاکہ معاشرے میں وہ حرکتیں انجام نہ دے ،جو منفی اور لو گوں کو منفی اور تنزل کی طرف لے جاتا ہے ۔
٧۔ نزول قرآن کے اہداف میں سے ایک معاشرے میںعدالت اورانصاف کو رواج دینا ہے ،اور ظلم وبر بریت کو نابود کرنا ہے ، چنانچہ کئی آیات میں نظام اسلام کے قیام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : یقوم الناس با القسط ''
٨۔ قرآن کے آنے کے اہداف میں سے ایک اس دور کے ناپاک سیاسی اور منفی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کو متحد ہونے کی دعوت ہے تاکہ فرق مسلمین ''انما اللمؤمنون اخوۃ'' کے ساتھ زندگی گذار سکیں۔
٩۔ قرآن جامع ترین کتب آسمانی کی حیثیت سے دعوت دیتا ہے کہ ہر انسان کے مقررہ حقوق کی رعایت کریں حتی حیوانات اور درخت وشجر کے مقرر ہ حقوق کی رعایت کرنے کی شدت سے تاکید کرتا ہے چنانچہ کئی آیات میںصاف الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
١٠۔ قرآن نازل ہونے کے اہداف میں سے ایک مادی اورمثالی اورابدی زندگی کو سعادت اورآباد کرنے کی گذارش کرتا ہے ، ان کے علاوہ اور بھی اہداف واضح الفاظ میںبیان کیا ہے ،ان کے پیش نظر قرآن کو فقط اموات کے ایصال ثواب کے فاتحہ خوانی یا شادی کے وقت ختم قرآن کے لئے یا دیگر معمول امور میںمنحصر کرنا ہماری جہالت کے علاوہ کچھ نہیں رب العزت سے اس ناچیز کاوش پر امام زمانہ (ع) کی تائید کے خواہاں ہوں۔
قرائت قرآن کی اجمالی وضاحت :
علوم قرآن کے مہمترین اور پیچیدہ ترین مسائل میں سے ایک قرائت قرآن سمجھا جاتا ہے، جس کے متعلق بہت سارے محققین نے مقالے کتابیں لکھی ہیں،لہذا شاید اس کے بارے میں مزید قلم اٹھانا تحصیل حاصل کے مترادف ہو لیکن ہماری اس ناچیز زحمت کے ہدف کے حصول کی خاطر قرائت قرآن کی طرف بھی اشارہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہو ں کیونکہ ہمارے استاد محترم علوم قرآن کے ماہر آقای رجبی جو عرصہ دراز سے موسسہ امام خمینی کے علوم قرآن کے مدیر ہونے کے علاوہ حوزہ علمیہ قم میں علوم قرآن کا سپیشلسٹ سمجھا جاتا ہے، انہوں نے مؤسسۃ امام خمینی میںدیئے ہوئے اپنے لکچرز میں کئی مرتبہ فرمایا جب تک علوم قرآن کے تمام مسائل سے اجمالی بحث نہ کریں تب تک علوم قرآن کی ضرورت کا احساس نہ ہونے کے باوجود اس کی افادیت سے فیضیاب نہیں ہو سکتے ، لہذا قرائت قرآن کا مختصر خاکہ قارئین کے گوشزد کرنے میں آسانی ہونے کے علاوہ قرآن کے افہام و تفہیم کے مرحلہ میں مشکل پیش نہیں آتی۔
حقیقت قرائت قرآن کی وضاحت کرتے ہوئے بہت سے علماء نے فرمایا قرائت یعنی قرآن کے کلمات اور الفاظ کو اس طرح پڑھنا جس طرح حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے تلاوت کی ہے ۔
یا دوسرے الفاظ میں قرائت قرآن یعنی قرآن کے کلمات اور الفاظ کو ان کے مخارج اور لہجے کے ساتھ پڑھنا ۔
لیکن ہمارا مقصد قرائت قرآن کی طرف اجمالی اشارہ کرنا ہے لہذا قرائت کے معنی لغوی اور اصطلاحی سے ہٹ کر دیگر کچھ ایسے مطالب کی طرف اشارہ کردوں جو قرائت قرآن سے وابستہ ہیں کیونکہ تمام مسلمانوں کے درمیان اجماع ہے کہ قرآن کریم کے کلمات اور الفاظ میں سے بعض کی قرائت یقینا مختلف ہے اور مخارج کے ساتھ کتابوں میںنقل کیا گیا ہے، حتی علوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی بہت سے کتابوں میں قراء سبعہ یا قراء عشرہ یا قراء اربعہ عشرہ کے عنوان سے ان کے اسامی گرامی بھی نقل کیئے گئے ہیں، چنانچہ قراء سبعہ کانام صاحب حدایق نے اس طرح بیان کیا ہے :
( ١ ) عبداللہ بن عامر (٢) عبداللہ بن کثیر (٣) عاصم (٤) ابو عمرو بن العلاء (٥) حمزہ بن زیات (٦) نافع (٧) الکسائی۔
البتہ علم قرائت کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد اصحاب کے دور میں افراد ذیل کی قرائت معروف اور مشہور تھی۔(١) حضرت علی ؑ (٢) عثمان (٣) ابن کعب (٤) زید بن ثابت (٥) عبداللہ بن مسعود (٦) ابو الدرداء (٧) ابو موسی ۔
اور اصحاب کا دور ختم ہونے کے بعد لفظ قراء ، قراء سبعہ یا قراء عشرہ یا قراء اربعہ عشرہ انہی افراد کے لئے لقب کے طور پر استعمال ہونے لگا یعنی کلمہ قراء سے ہمیشہ انہیں افراد کی طرف تبادر ہوتا تھا، لہذا مسلمانوں کے مابین اختلاف ہے کہ ان قرائت میں سے کونسی قرائت صحیح ہے ، کونسی غلط ،کیا ان تمام قراأات کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح ہے یا نہ۔
اس مسئلہ کے بارے میں اہل سنت کے محققین میں سے ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرائت سبعہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے حتیٰ جناب سبکی نے مناہل العرفان میں فرمایا ہے قرائت عشرہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے ۔ (١ )
جناب مفتی البلاد الندلیسہ ابو سعید فرج ابن لب کا کہنا ہے کہ جو قرائت قراء سبعہ کو تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچے سے انکار کرے تو وہ کافر ہے، (٢ )
نیز ہمارے مذہب کے علماء میں سے کچھ مجتہدین کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ قرائت سبعہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے جیسے شہید اول نے کتاب ذکری میں جناب محقق شیخ علی، مرحوم جندی وغیرہ نے فرمایا قرائت سبعہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے ۔(٣)لیکن مذہب تشیع کی نظر میں معروف اور مشہور نظریہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ ہم تک نہیں پہونچی ہے بلکہ انہیں قراأات میں سے بعض قرائت قاری کا خود ساختہ ہے بعض ان کا اجتہاد ہے بعض قرائت اگرچہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے منقول ہے
............................
( ١ ) مناہل العرفان ص٤٣٣ )
( ٢ ) مناہل العرفان ص٤٢٨ )
( ٣ ) حدایق ج٨ص٩٥ )
لیکن نہ تواتر کے ساتھ، بلکہ باالاحاد منقول ہے ، اور اسی نظریہ کو اہل سنت کے محققین میں سے ایک گروہ نے بھی اختیار کیاہے ۔
چنانچہ مرحوم فخررازی نے نظریہ اول کو اپنی گرانبہا کتاب میں نقل کرنے کے بعد فرمایا: اتفق الاکثرون علی ان القراأات المشہورۃ منقولۃ بالتواتر وفیہ اشکال لانّ..... یعنی اکثر علماء کا اجماع ہے کہ مشہور قرائت تواتر کے ساتھ نقل کی گئی ہے اس میں اشکال ہے کیونکہ اس نظریہ کے قائل ہونے کی صورت میں ترجیح بلا مرجح لازم آتا ہے، جو عقلا ممکن نہیں ہے ۔(١)اگرچہ ہمارے علما میں سے جیسے شہید ثانی وغیرہ قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ نقل ہونے کے طرفدار ہیں جناب فخر رازی کے اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : لیس المراد بتواترہا ان کل ما ورد متواتر بل المراد الخصار المتواتر الان فی ما نقل۔(٢ )
قرائت سبعہ تواتر سے منقول ہونے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ان قرائت میں سے ہر ایک تواتر سے ہم تک پہونچی ہو بلکہ اس کا مقصد ہے کہ اب تک جو قرائت نقل کی گئی ہے انہیں میں تواتر، منحصر ہے لیکن حقیقت میں اس طرح توجیہ کرکے جواب دینا ظہور کلام کے مخالف ہے ۔
............................
( ١ ) حدایق ج٨ ص٩٧) (٢)حدایق ج٨ص٩٧
لہذا پہلا نظریہ اگرچہ اکثر اہل تسنن اور اہل تشیع کے برجستہ علماء میں سے ایک جماعت کا نظریہ ہے . لیکن اسی کی حجیت پرکوئی ٹھوس دلیل نظر نہیں آتی ہے،کیونکہ تواتر کے دعویدار سنّی ہیں، جس پر ٹھوس دلیل عقلی اور نقلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بات قبول نہیں کرسکتے ۔
ثانیاً:خود اہل سنت کی پوری ایک جماعت نے اس نظریہ کو رد کیا ہے ۔
ثالثا: پہلے نظریہ کے طرفدار اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : ''ان القرآن قد نزل علی سبعہ احرف کلہا شاف واف''۔(١)قرآن سات حروف پر نازل ہواہے جو تمام صحیح ہے اور کافی ہے ۔اور اس طرح کی ایک اور روایت جناب صدوق نے نقل کی ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:ان اللہ یأمرک ان تقراء القرآن علی حرف واحد فقلت یا ربّ وسع علی امتی فقل ان اللہ یأمرک ان تقراء القرآن علی سبعہ احرف(٢ )
'' بتحقیق اللہ نے تجھے قرآن کو ایک حرف پر پڑھنے کا حکم دیاہے. اس وقت میں نے اللہ سے درخواست کی پالنے والے میری امت پر( رحم فرمایا) انکو تلاوت قرآن پر توسعہ فرما، اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا: آپ قرآن کوسات حرف پر تلاوت کرسکتے ہیں۔
..................................
( ١ ) تفسیر طبری، ج١، ص٩) (٢)خصال ج٢،ص١١ )
ان روایات اور ان کی مانند دیگر تمام روایات کا جواب یہ ہے کہ یہ سند کے حوالے سے ضعیف ہونے کے علاوہ مجمل ہے ، ان تقراء القرآن علی سبعۃ احرف کا مختلف قرائت کے ساتھ پڑھنا مقصود ہے، یا کیا ہے واضح نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ مرحوم ثقۃالاسلام کلینی نے روایت کی ہے حضرت امام محمد باقر ؑ نے فرمایا: ان القرآن واحد منزل من عند الواحد و لکن الاختلاف من قبل الرواۃ.(١)قرآن ایک ہے جو ایک ہی کی طرف سے نازل ہواہے لہذا اگر اختلاف اور متعدد نظر آئے تو یہ راویوں کی طرف سے ہے ۔روایت مطلق ہے جسمیں ہر اختلاف اور تعدد شامل ہے ، حتی قرائت کا اختلاف اور تعدد بھی۔
نیز سند صحیح کے ساتھ کلینی نے روایت کی ہے فضیل بن یسار نے کہا : میں نے حضرت امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا:ان الناس یقولون نزل القرآن علی سبعۃ احرف فقال کذبوا اعداء اللہ و لکنہ نزل علی حرف واحد من عند واحد.(٢)تحقیق لوگ کہا کرتے ہیں کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے (کیا یہ صحیح ہے) آپ نے فرمایا: اللہ سے بغض رکھنے والے جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ قرآن ایک ہی
ہستی کی طرف سے ایک ہی حرف پر نازل ہوا ہے ۔ان دو، روایتوں کو
.............................
١ ) الوافی، ج٥،باب اختلاف القراء ات)(٢)الوافی، ج٥ )
نقل کرنے کے بعد مرحوم محدث کاشانی نے فرمایا:نزل علی حرف کامعنی یہ ہے کہ قرأت میں سے فقط ایک صحیح ہے ۔
صاحب وافی نے مذکورہ دوحدیثوں کو نقل کرنے کے بعد فرمایا :ان احادیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرائت فقط ایک صحیح ہے، جو بھی قرائت ہے وہ اہل بیت ؑ کی قرائت کے مطابق ہے، لیکن اس کی قرائت ہمارے دور میں مشخص نہیں ہے ۔
لہذا ان مطالب کے پیش نظر حضرت آیۃ اللہ العظمی خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا قرائت قرآن تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہے اورمرحوم سیوطی اور قاضی کے نظریہ کو واضح الفساد قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرأ سبعۃ تواتر کے ساتھ نقل ہونے کا نظریہ صحیح نہ ہونے پر دلیل قطعی ہے ۔(١ )
ان نکات کی بناء پر قرائت سبعہ با تواتر ہم تک پہونچنے کی بات قبول نہیں کر سکتے ہیں، لہذا ہم اپنی بات کی مزید استحکام کی خاطر اختلاف قرائت کے عوامل و اسباب کی طرف اشارہ کرینگے ۔
١۔ کچھ اسباب و عوامل کو غیر اختیاری اور قہری سمجھا جاتا ہے جس کی بازگشت حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے دور کی طرف ہوتی ہے لہذا کہا جا سکتا ہے جو قرائت پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں
...............................
( ١ ) البیان، ج١ ص ١٢٤ بیروت
معمول تھی، اس دور میں قبیلے مختلف ہونے کی وجہ سے ہر ایک کا مخصوص لہجہ اور لحن ہوا کرتا تھا لہذا حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے بارہا فرمایا تم قرآن کو فصیح ترین لحن اور لہجے میں تلاوت کرو۔
اور فارابی کا کہنا ہے: کانت قریش اجود العرب اتقا لا فصیح من الالفاظ و اسہلہا علی اللسان عند المنطق و احسنہا مسموعا و (١) قریش ،عرب قوموں میں سے رفتار میں نیکو ترین بولنے میں فصیح ترین الفاظ کی ادائیگی میں آسان ترین سنے میںبہترین سیرت کے عادی تھے ۔
اور عرب اقوام میں قریش فصاحت کے حوالے سے بنی سعد زبان کی سلامتی کے اعتبار سے معروف اور مشہور تھا،لہذا شاید اسی وجہ سے حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ''انا افصح العرب بید انی من قریش و انی نشأت فی بنی سعد بن بکر ''(٢ )
'' میں عرب میں فصیح ترین ہستی ہوں کیونکہ میرا تعلق قریش سے ہے اور میرا نشو و نما بنی سعد بن بکر کے قبیلے میں ہوا ہے ''
اور قرآن کی آیات اور الفاظ فصیح ترین اور بلیغ ترین ترکیبات کے ساتھ نازل ہوئی ہیں جبکہ اقوام عرب ،مختلف لحن ولہجے کے مالک تھے جسکو ادبی کتابوں میں مختلف قبیلوں
...........................
( ١ ) کتاب الالفاظ والحروف )
( ٢ ) بحار الانوار، ج١٧،ص١٥٨
کا لحن یا لہجہ دلیل اور برہان کے طور پرنقل بھی کیا گیا ہے ۔
لہذا فصیح ترین کلام کو جب حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے اقوام عرب میں سے کم از کم مکہ و مدینہ کے عرب زبان والوں کی خدمت میں تلاوت کی اور یاد کرنے کی سفارش کے ساتھ ہمیشہ تلاوت کرنے کی تاکید کی اس اختلاف لحن اور لہجے کی بنا پر قرآن کی قرائت میں بھی اختلاف لحن اور لہجہ عام ہو گیاہے ۔
٢۔ اختلاف کی دوسری وجہ حفاّظ قرآن یا محافظین قرآن کی حفاظت اور ثبت و ضبط کی نارسائی بتایا جاتا ہے ۔
یعنی بسا اوقات کوئی مسلمان مدینہ میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے کوئی آیہ سنتے تھے اسو قت معمول یہ تھا کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے سنی ہوئی آیت کو دوسرے مسلمانوں کی خدمت میں پیش کریں، اس وقت مسلمان عین وہ الفاظ جو مخصوص ہیأت اور شکل و صورت میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے سنا تھا وہ فراموش کرتے تھے اس کی مانند اور شبیہ دوسری ہیئت اور لحن پر پیش کرتے تھے. اور حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے ایک روایت بھی منقول ہے جو اسی مطلب کی عکاسی کرتی ہے:''و کلہا شاف کاف مالم یختم آیۃ عذاب برحمۃ و آیۃ رحمۃ بعذاب کقولک ہلمّ و تعالی''(١ )
...........................
( ١ ) شناخت قرآن ص١٣٤
وہ تمام قراأات صحیح اور کافی ہیں جب تک آیت رحمت آیت عذاب میں اور آیت عذاب آیت رحمت میں مختلف قرائت کی وجہ سے نہ بدل جائے،نیز رسم الخط اور علامت و اعراب گذاری کی وجہ سے بھی اختلاف واقع ہوا ہے جسکی مثالیں علوم قرآن کی کتابوں میں وافر مقدار میں موجود ہیںرجوع کیجیے ۔
٣۔ اختلاف کی تیسری وجہ کاتبین اورنساّخ کافراموش اور سہو بتایا جاتا ہے ۔
چنانچہ زبیر نے ابان بن عثمان سے پوچھا المتقین کے نون پر فتحہ کیوں آیا ہے؟ ابان نے جواب میں کہا یہ کاتبین کی فراموشی اور خطاء کا نتیجہ ہے، نیز عین اسی مطلب کو عروۃ بن زبیر نے عایشہ سے نقل کیاہے، ایسے اسباب اور عوامل کو غیر اختیاری اور قہری بتایا جاتا ہے جن کے نتیجے میں قرائت قرآن متعدد اور مختلف ہو چکی ہے ۔
عمدی اور اختیاری اسباب :
قرائت قرآن کے مختلف ہونے کے اسباب میں سے ایک عمدی اور اختیاری بتایا جاتا ہے جس کے بارے میں علوم قرآن کے محققین نے تفصیلی گفتگو کی ہے پھر بھی کچھ اشارہ کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں تاکہ قارئین محترم کی تشنگی کو بجھا سکیں، عمدی اور اختیاری اسباب سے مراد لیا جاتا ہے کہ قرآن کے واضح اورروشن دستور کو اپنے مفادات اور اغراض کی خاطر تلاوت قرآن اور قرائت قرآن میں تبدیلی لائی جاتی ہے تاکہ فاعل کو مفعول یا مفعول کو فاعل یا دیگر وجوہ کی شکل میں پیش کرسکیں۔
اسی وجہ سے ہر علم میں مختلف مذاہب اور مکاتب فکر وجود میں آئے ہیں جیسے ابوعبید نے کتاب فضائل میں ابن جریر نے تفسیر میں، ابو شیخ محمد بن کعب قرظی اور حاکم مستدرک نے اسامہ سے انہوںنے محمد بن ابراہیم التمیمی سے نقل کیا ہے کہ جناب عمر نے آیت ذیل کی قرائت اس طرح کی :
'' السابقون الاولون من المہاجرین والانصار'' یعنی کلمۃ انصار کو مرفوع پڑھا تاکہ سابقون پر عطف کرسکیں نہ مہاجرین پر، اور والذین میں واو عاطفہ کو حذف کرکے والذین کو انصار اور مہاجرین پر عطف کرنے کی بجائے الذین پڑھکر انصار کیلئے صفت قرار دی ہے ۔
جبکہ باقی قراء نے'' والانصار والذین التّبعوا'' کی شکل میں قرائت کی ہے یعنی الانصار کو مکسور الذین کے اوپر واو عاطفہ کے ساتھ قرأت کی ہے ،ایسی قرائت کا سبب عمدی اور اختیاری تھا چونکہ ذاتی مفادات کو فروغ دینے کی خاطر اس طرح تلاوت کی ہے تاکہ سابقون انصار پر عظمت حاصل نہ کرسکیں اور تابعین کے نام سے ایک گروہ کو انصار کی عظمت اور فضیلت میں شریک قرارنہ دے سکیں، اس داستان اور کہانی کے پس منظر کو جناب بلاغی نے مقدمہ تفسیر الاء الرحمن میں یوں نقل کیاہے ۔
جب زید بن ثابت نے عمر کی خدمت میں عرض کیا الانصار اور والذین دونوں المہاجرین پر عطف ہیں تو جناب عمر تعجب کے ساتھ زید بن ثابت سے کہنے لگے میں نے گمان کیا تھا کہ سابقیت مہاجرین کا مخصوص کوئی منصب ہے،زید بن ثابت نے کہا والذین واو عاطفہ کے ساتھ پڑھنا صحیح ہے. جناب عمر نے اس کی بات نہیں مانی بارہا بغیر واو عاطفہ قرائت کرتا رہا، اس وقت زید بن ثابت نے کہا جناب خلیفہ دانا تر ہیں، جناب عمر نے ابی بن کعب کو بلا بھیجا اس سے بغیر واو قرأت کی تصدیق کروانا چاہیے مگر ابی نے بھی والذین واو عاطفہ کے ساتھ قرائت کی پھر بھی جناب عمر نے نہیں مانا اور جناب عمر نے قرائت کے وقت جناب ابی بن کعب سے اشارہ بھی کیا اور کہا میری قرائت کی تصدیق کرو اس وقت ابی نے کہا خدا کی قسم اللہ کے رسول ؐ نے ہمیں والذین کی شکل میں تلاوت کرکے بتایا ہے لیکن آپ بہت بڑے اشتباہ کے شکار ہے اس وقت عمر نے کہا فنعم اذن۔ (١ )
لہذا کہا جا سکتا ہے کہ قرائت قرآن کی صورتحال مختلف ہونے کے اسباب عمدی میں سے قوی ترین اسباب سیاسی، کلامی اور حزبی اور عملی انگیزہ بتایا جاتا ہے،لہذا مصاحف عثمانی کو نقطہ اور اعراب کے بغیر لکھا گیا تھا تاکہ مختلف قراء ات کو جائز التلاوت قرار دے سکیں(٢ )
حتی اہل سنت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مصاحف عثمانی کو عبدالملک بن مروان کے دور حکو مت تک بغیر نقطہ و اعراب کے رکھا گیا اس کے دور میں حجاج بن یوسف کو جو عراق
..................................
( ١ ) شناخت قرآن، ص١٣٩) (٢)تاریخ عرب قبل الاسلام ج ٨ ص ١٨٦ )
کا حکمران تھا مصاحف عثمانی کو نقطہ گذاری کرنے کا حکم ہوا اس نے دو ہستیوں کو بنام نصر بن عاصم اور یحیی بن یعمر کے ذمہ پر ڈالا یہ دونوں ابوالاسود ویلی کے شاگر دتھے ۔
نیز لکھا گیا ہے کہ جس مصحف میں تحریف ہونے کا خوف پیدا ہوا تو عبدالملک کے دور میں ابوالاسود ویلی کے بعد خلیل بن احمد نے نقطہ گذاری ، علائم ہمزہ تشدید (اشمام) دیگر حرکات کے کاموں کو مکمل کیا۔(١ )
لہذا قراأات مختلف ہونے کے وجوہات کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین محترم مفصل کتابوں کی طرف رجوع کریں تاکہ حقیقت کی عکاسی ہو اور نماز جیسی عبادات میں ہر قرائت کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں نماز اور عبادات کی صحت یا عدم صحت کو بیان کرسکیں۔
اقسام قراأات :
سیوطی مرحوم نے ابن الجزری سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ قرائت قرآن کے کئی اقسام ہیں، جیسے: متواتر، مشہور، آحاد، شاذ، موضوع ،و مدرج(٢ )
لیکن قراأات قرآن کواس طرح تقسیم کرنا تقسیمات منطقی کے اصول و ضوابط سے دور نظر آتا ہے کیونکہ علوم قرآن کے مباحث میں قرائت سبعہ یا قرائت عشرہ یا قرائت
.............................
( ١ ) وفیات الاعیان) (٢)اتقان
اربعہ عشرہ متواترہ ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں محققین کے درمیان اختلاف ہے بعض محققین کا عقیدہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ متواتر ہے بعض کاعقیدہ یہ ہے قرأت مشہورہ ہے متواترہ نہیں ہے لہذا دیگر اقسام کی طرف تقسیم کرکے ہر قرائت کواس مباحث میں شامل کرنا صحیح نہیں ہے یعنی قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچی ہے یا قرائت سبعہ فقط مشہور ہے، تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہے ۔
اس مسئلہ کے بارے میں چنانچہ پہلے بھی اشارہ کیاگیا کہ مرحوم آیۃاللہ خوئی کہ جس کے بارئے میں ہمارئے استاد محترم حضرت ایت اللہ العظمی وحید حفظہ اللہ کی تعبیر یہ ہے کہ ۤایت اللہ الخوی فحل الفوحل عصرہے، اور دیگر اکثر علماء تشیع اور بعض علماء اہل تسنن کا عقیدہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ ہم تک با تواتر نہیں پہونچی ہے بلکہ فقط مشہور ہے جس کی دلیل کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے، لیکن اس نظریہ کے مقابل میں اہل تسنن کے اکثر علماء تواتر کے قائل ہیںجبکہ ہمارے مذہب کے برجستہ علماء میں سے مرحوم سید محمد طباطبائی صاحب مفاتیح الاصول نے اپنی کتاب میں فرمایا قرائت سبعہ کے بارے میں تین نظریے ہیں :
الف:قرائت سبعہ عین وہی قرائت ہے جو حضرت جبرئیل نے حضرت پیغمبر اکر ؐ م کو پیش کیا تھا یہ قرائت ہم تک با تواتر پہونچی ہے،جس کے قائلین افراد ذیل ہیں :
ابن مطہر، ابن فہد محقق ثانی، شہید ثانی، حر عاملی، نیز فخر رازی نے بھی کہا ہے کہ اکثر علماء و مجتہدین اسی نظریہ کے قائل ہیں،جس کو ہم نے پہلے مفصل طور پر بیان کئے ہیں۔
ب: بعض محققین نے تفصیل دی ہے قرائت سبعہ میں سے کچھ متواترہ ہے جیسے ملک و مالک ، جبکہ مد اور تخفیف امالہ اور ہأات لفظ متواترہ نہیں ہے، اس نظریہ کو شیخ بہائی ، عضدی اور ابن حاجب وغیرہ نے بھی پسند کیا ہے ۔
ج: قرائت سبعہ چاہے ہیأت لفظ سے مربوط ہو یا جوہر لفظ، کوئی بھی قرائت متواترہ نہیں ہے. جس کے قائلین افراد ذیل ہیں :
شیخ طوسی، نجم الائمہ، جمال الدین خوانساری، سید نعمت اللہ جزائری، شیخ یوسف بحرانی، سید صدر الدین، ابن طاووس، حرفوشی، زمخشری، رازی، آیت اللہ خوئی، کے علاوہ بہت سارے دیگر علماء بھی اسی نظریہ کو پسند کئے ہیں۔(١ )
لیکن چنانچہ ہم نے پہلے بھی مفصل بحث کر چکے ہیں کہ پہلے نظریے اور دوسرے نظریے کی صحت پر کوئی ٹھوس دلیل عقلی اور نقلی نہ ہونے کی وجہ سے تیسرے نظریے کو قبول کرنے پر مجبور ہیں جسکی صحت پر پہلے کئی روایات نبوی ؐ اور معصومین ؑ کی طرف اشارہ کرنے کے باوجود حضرت آیت اللہ العظمی خوئی و فخر رازی وغیرہ نے دلیل عقلی بھی قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔
البتہ قرائت سبعہ متواترہ نہ ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ نماز میں قرائت سبعہ کی
................................
( ١ ) تبیان ج١، سعد السعود ص١٨١، شناخت قرآن ص ١٧٤ )
تلاوت جائز نہیں ہے کیونکہ طرفین کے علماء اورمجتہدین نے فتوے دیے ہیں کہ قرائت سبعہ میں سے کوئی بھی ہو نماز میں مجزی اور جائز ہے،جس کی ٹھوس دلیل آئمہ اطہار کی تائید بتایا جاتا ہے یعنی معصومین کے زمان میں قرائت سبعہ میں سے ہر ایک قرائت کے ساتھ اصحاب پیغمبر اکرم (ص) اور تابعین نماز پڑھتے تھے، معصومین بھی بخوبی اس سلسلہ سے اگاہ تھے، لیکن منع نہیں کیا، لہذا ہمارے زمانے میں قرائت سبعہ میں سے جس کی قرائت نماز میں انجام دے تو نماز صحیح ہے اور جائزہے ۔
شأن نزول کی وضاحت :
قرآن کی آیات کو سبب نزول کے حوالے سے تین قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں :
الف: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی حادثہ اور سبب ظاہری کے بغیر اللہ ہی نے مصالح و مفاسد کی بنا پر نازل کیا ہے جیسے سورہ اقراء کہ سب سے پہلے نازل شدہ سورہ اور آیت بتایا جاتا ہے جس کے نزول کےلئے سوی مصالح اور مفاسد باطنی کوئی سبب خارجی نظر نہیں آتا ۔
ب: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی حادثہ اور سبب ظاہری کی وجہ سے نازل کی گئی ہےں جیسے سورہ برأۃ سورہ منافقون اور وہ آیات جو اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔
ج: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی سوال و جواب کی وجہ سے نازل ہوئی ہیں۔
اسباب نزول کی معرفت اور شناخت حاصل کرنا علوم قرآن کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن کے مہم مسائل میں سے ایک شان نزول کی معرفت بتائی جاتی ہے ، لہذا بہت سے محققین نے اسباب نزول کی معرفت کی اہمیت کے بارے میں تاکید کی ہے جیسے:واحدی نے کہا آیت کی تفسیر، شأن نزول کی معرفت حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
جناب ابن دقیق العبد نے کہا، شأن نزول کی معرفت اور شناخت حاصل کرنا فہم قرآن اور افہام و تفہیم قرآن کیلئے بہت ضروری ہے ۔
ابن تیمیہ نے کہا: شان نزول کی معرفت اور شناخت فہم معانی قرآن کےلئے سبب ہے اس کے بغیر فہم معانی قرآن ناممکن ہے ،کیونکہ سبب کے بغیر مسبب کا حاصل ہونا محال ہے ۔
لہذا شان نزول کی شناخت حاصل کرنے میں در جہ ذیل افادیت پوشیدہ ہے :
الف: فہم معانی قرآن کا سبب بنتا ہے ۔
ب: جن افراد کی شان میں آیات نازل ہوئی ہیں چاہے ان کی مذمت اور عقاب کے بارے میں ہو ںیا مدح و ثناء کے بارے میں ان کی شناخت اور معرفت حاصل ہوتی ہے، جو نئی نسلوں کےلئے بہترین عبرت ہے ۔
ج: نیز آیات اور سورے جن افراد اور اسباب کی وجہ سے نازل ہوئے ہیں وہ انہیں کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلکہ جن افراد میں وہ مزیت اور اسباب موجو ہیںچاہے زمان حال میں ہو یا زمان آیندہ یا گذشتہ ہر ایک ان آیات کا مصداق بن سکتا ہے،یعنی علم اصول میںمکمل ایک بحث ہے ،کیا سبب نزول آیت اورحکم کی تخصیص کا سبب بن سکتا ہے یا نہ ،جس میںاکثر علماء اصولین کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ تخصیصی حکم او رآیت کا سبب نہیں بن سکتا ۔
چنانچہ شیخ طوسی نے سورہ آل عمران، آیت نمبر ١٩٩ کی شان نزول کو نجاشی ذکر کرنے کے بعد فرمایا: اگرچہ اس آیت کا سبب نزول نجاشی ہی ہے لیکن آیت اس کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اہل کتاب میں سے جو بھی ایمان لایا وہ آیت کا مصداق ہے، کیونکہ شان نزول مخصوص ایک فرد یاایک طبقہ ہونے سے ،آیت کو اس کے ساتھ مخصوص کرنا لازم نہیں ہوسکتا ۔(١)نیز ابو القاسم ، ابو مسلم اور قاضی نے کہا آیت کا کسی خاص سبب کی وجہ نازل ہونا اس کے ساتھ مخصوص ہونے کا سبب نہیں بن سکتا بلکہ آیت کو عام پر حمل کرکے ہر وہ افراد مراد لے سکتے ہیں کہ جن میں اس کی خاصیت پائی جاتی ہے ۔(٢ )
حضرت آیت اللہ بجنوردی نے قاعدہ احسان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: جب جنگ تبوک میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے مقرن کے تین فرزندوں نے جوتے مانگے توآنحضرت ؐ کے پاس جوتے نہیں تھے اس وقت یہ آیت ان کی شان میں نازل ہوئی:'' قل لااجدما احملکم علیہ''آیت انہیں تین بندوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ہر ایک
...............................
( ١ ) تبیان ج٢ )
( ٢ ) شناخت قرآن ص١٩٠
کے لئے ہر زمانے میں عبرت ہے، کیونکہ بہت ساری آیات کسی خاص مورد، اور فرد میں نازل ہوئی ہیں ، لیکن ہمارے مجتہدین اور فقہانے اس سے عموم اور شمول پر استدلال کئے ہیں۔(١ )
سیوطی نے کتاب اتقان میں ابن تیمیہ کی بات کو نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ ابن تیمیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ جو بھی آیات کسی خاص دور اور شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہیںوہ انہیں کے ساتھ مخصوص نہیں کرسکتے ہیں(٢ )
ابن تیمیہ اور اس جیسے دیگر افراد کا نام لینے کا مقصدیہ نہیں ہے کہ ان کا عقیدہ مذہب حقہ کے نزدیک بھی صحیح ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ علوم قرآن کے مسائل میں سے بعض ،کسی خاص مذہب کے عقید ہ، اور اصول و ضوابط میں سے امامیہ، یا اہل حدیث ہونے کی حیثیت سے کوئی دخالت نہیں ہے بلکہ بحیثیت مسلمان ان سے بحث کی ہے ۔
لہذا آیت کی شان نزول، طرفین کی نظر میں آیت کی تخصیص اور حکم کو اسی مورد کے ساتھ مخصوص کرنے کے لئے سبب نہیں بن سکتا ۔
.............................
( ١ ) قواعد الفقہیہ ،ج٤،،ص٧٠ )
( ٢ ) اتقان،ج١،ص١١