علوم قرآن کا اجمالی پس منظر – دوسرا حصه

شیعہ امامیہ تحریف قرآن کے قائل نہیں ہو سکتے

تحریف قرآن کی وضاحت کرتے ہوئے علماء اور محققین اور مکاتب فکر حضرات نے کہاہے کہ تحریف قرآن کے مسئلہ کو علوم قرآن کے مسائل میں مرکزیت حاصل ہے، لہذا تحریف قرآن کے موضوع پر ہی مکمل کتابیں تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں ،لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریف قرآن کے اقسام اور اس کے بارے میں مکاتب فکر کے نظریات کی طرف فقط اشارہ کرنے پر اکتفاء کروں گا۔

تحریف قرآن کو علماء اورمکاتب فکر نے تین قسمون میں تقسیم کیاہے :

١۔ تحریف زیادی۔

٢۔ تحریف کمی۔

٣۔ تحریف تبدیلی۔

الف: تحریف اضافی و زیادی: یعنی جو قرآن آج مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجود ہے اس کی کچھ آیات پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ قرآن کریم میں سے نہیں ہیں بلکہ بعد میں اضافہ کیا گیاہے، ایسی تحریف کے مسلمانوں میں سے فقط دو گروہ قائل ہوئے ہیں۔

١۔عجاردہ: یعنی وہ لوگ جو عبدالکریم عجرد کی پیروکار ہیں جن کا عقیدہ یہ ہے کہ سورہ مبارکہ یوسف قرآن کا جزء نہ تھا بلکہ بعد میں اضافہ کیا گیا ہے ۔

٢۔ابن مسعود کی طرف بھی اس تحریف کی نسبت دی گئی ہے کہ وہ معتقد ہے کہ سورہ معوذتین کو قرآن کا جزء نہیں سمجھتے ہیں۔

ایسے نظریے کو تمام مسلمان باالاتفاق باطل سمجھتے ہیں اور صحیح نہ ہونے کو ضروریات دین اسلام میں سے قرار دیتے ہیں۔

ب: تحریف کمی: یعنی جو قرآن ہمارے درمیان موجود ہے اس میں کچھ آیات یا کچھ الفاظ اس قرآن سے حذف اورکم کئے گئے ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کی گئی تھی۔

ایسی تحریف کے اہل تسنن کے کچھ علما ء قائل ہوئے ہیں جبکہ ہمارئے علماء کاموقف من البدوی الی الان یہ رہا ہے کہ ایسی تحریف قرآن میں واقع نہیں ہوئی ہے ۔

چنانچہ فضل بن شاذان کو امامیہ کے قرن سوم کے مصنفین اور علماء میں سے شمار کیا جاتاہے فرمایا قرآن کی کسی ایات اور الفاظ مین کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ موجودہ قرآن عین وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کیا گیا ہے ۔

استاد محترم الحاج دکتر محمدی کی دو جلد کتابیں تحریف قرآن کے بارے میں اور الحاج حضرت آیت اللہ جواد فاضل لنکرانی کا ایک تحقیقی مقالہ جس کا ترجمہ راقم الحروف کے ہاتھوں اردو میں ہو چکا ہے اور شناخت قرآن ص ٧٧ جیسی گرانبہا کتابیں مزید معلوما ت کیلئے بہت زیادہ مناسب ہیں رجوع کیجیے ۔

ج: تحریف جابجائی:یعنی کسی کلمہ اور لفظ میں یا ترکیبات اور اعراب میں تبدیل کا لانا ،ایسی تبدیلی واقع ہونے کے قائلین بہت ہیں، اور جن روایات سے بظاہر ایسی تحریف واقع ہونا سمجھ میں آتا ہے ان کو امامیہ کے مخالف دیگر فرق مسلمین سے منسوب کئے ہےں۔

٣۔محمد بن علی بن بابویہ قمی جو شیخ صدوق کے لقب سے معروف و مشہور ہیں اور جہان تشیع میں چوتھی صدی کے عظیم اورنامور عالم سمجھے جاتے ہیں، اپنی رسالہ الاعتقادات میں فرمایاہے ۔

قرآن کے بارے میں شیعہ امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ جو قر آن آج ہمارے پاس موجود ہے ، یہ ہو بہو وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) پرنازل کیا گیا تھا ، جس میں کوئی کمی اور اضافہ نہیں ہوا ہے،لہذاجو لوگ قرآن میں کمی اور پیشی واقع ہونے کا نظریہ ،امامیہ مذہب سے منسوب کرتے ہیں وہ جھوٹ ہے ۔

٤۔ مرحوم علی بن الحسین موسوی جو سید مرتضی علم الہدی کے لقب سے معروف ہیں ،شیعہ امامیہ کے عظیم علماء و مجتہدین میں ایک ہیں ،انہوں نے فرمایا: جس طرح کائنات میں موجودات اورواقعات و حوادث کا رونما ہونا یقینی ہے اسی طرح قرآن مجید بھی ہم تک کسی قسم کی کمی اور بیشی کے بغیر پہونچنے پر یقینی ہے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے قرآن کی حفاظت کے لئے مسلمانوں اور اصحاب کیلئے شدت کے ساتھ تاکید کے علاوہ بہت بڑا اہتمام بھی کیا تھا اور سید مرتضی نے اپنی گفتگو کے آخر میں فرمایا ہے کہ جو لوگ امامیہ مذہب سے منسلک ہیں اور جولوگ مذہب اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں ان میںسے فقط حشویہ ایسی تحریف کے قائل ہوئے ہیں جن کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ جتنی روایات سے ایسی تحریف کے ہونے پر استدلال کیا گیا ہے وہ تمام ضعیف السند ہیں۔ (١ )

٥۔ مرحوم شیخ الطائفہ نے فرمایا: قرآن میں ایسی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے، اور جتنی روایات ایسی تحریف واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے و ہ تمام ضعیف السند ہے جس سے تحریف قرآن کو ثابت کرنا لا علمی کا نتیجہ ہے لہذا ہل تشیع کی نظر میں صحیح نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی کمی اور پیشی واقع نہیں ہے ۔ (٢ )

٦۔ مرحوم الحاج طبرسی عظیم مفسر قرآن نے فرمایا: قرآ ن میں اضافہ نہ ہونے پر امامیہ کا اجماع ہے لیکن کمی واقع ہونے پر اجماع تو نہیں ہے مگر صحیح نظریہ یہ ہے کہ جس طرح قرآ ن میں اضافہ نہیں ہوا ہے اسی طرح کمی بھی نہیں ہوئی ہے ۔(٣ )

٧۔ ابن طاووس نے کہا : شیعہ امامیہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں لہذا ان لوگوں پر تعجب ہے کہ جن کا عقیدہ یہ ہو کہ موجودہ قرآن وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے ہی جمع آوری کا حکم دیا ہے اس کے باوجود آیات کی بارے میں اہل مکہ و بصرہ و کوفہ و مدینہ کے مابین اختلاف ہونے کو نقل کریں اورکہتے ہیںکہ کچھ کی نظر میں بسم اللہ آیات میں سے ایک آیت نہیں ہے کسی کی نظر میں آیات میں سے ایک ہے جبکہ دوسری

.......................................

( ١ ) مجمع لبیان ج١ ص١٥

( ٢ ) مقدمہ تفسیر تبیان

( ٣ ) مجمع البیان ج١ ص١٥

طرف سے تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں، یہ دو باتیں تضاد ہیں قابل جمع نہیں ہیں! (١ )

٨۔ مرحوم ملا محسن فیض کاشانی نے کہا جو روایات اور احادیث تحریف پر دلالت کرتی ہیں وہ در حقیقت کتاب الہی کے مخالف ہے ۔(٢ )

٩۔ مرحوم شیخ بہائی نے کہا کہ ہمارے نزدیک صحیح نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے، لہذا جو لوگ آیت مبلّغ وغیرہ میں کچھ کلمات حذف ہونے کے قائل ہے و ہ نظریہ ہمارئے نزدیک صحیح نہیں ہے ۔(٣ )

١٠۔ مرحوم شیخ محمد بن حسن صاحب و سایل الشیعہ نے کہا جو لوگ آئمہ معصومین (ع) سے منقول روایات اور احادیث کی تحقیق کرینگے تو اس کو علم حاصل ہوجاتا ہے کہ قرآن ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچا ہے جس میں کسی قسم کی تحریف کا احتمال دینا غلط ہے ۔( ٤ )

١١۔ کاشف الغطاء کتاب اصل الشیعہ میں فرمایا قرآن میں کسی قسم کی تحریف اور کمی و بیشی واقع نہیں ہوئی ہے لہذا ایسا نظریہ جو تحریف واقع ہونے پر مشتمل ہے، اہل تشیع سے نسبت دینا بہتان اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔(٥ )

....................................

( ١ ) سعد السعود ص ١٤٤

( ٢ ) تفسیر صافی،ج١ ص٥١

( ٣ ) الاء الرحمن ص٢٦

( ٤ ) اظہار الحق،ج٢،ص١٢٩(٥)کشف الغطائ،ص٢٩٩

مرحوم علامہ طباطبائی نے سورہ حجر کے آیہ ٩ کی تفسیر میں فرمایا:(قرآن زندہ و حیات جاویدانی کا حامل ہے اس میں موت او ر فراموشی اضافہ اور کمی یا کسی قسم کی تبدیلی کی راہ ہی نہیں ہے )

ان کے علاوہ شیخ مفید کوجو قرن سوم ہجری کے علماء میں سے شمار کئے جاتے ہیں قاضی نوراللہ شوشتری، شہشہانی بلاغی ، شیخ انصاری دیگر اکثر علماء امامیہ ایسی تحریف نہ ہونے کے قائل ہو ئے ہیں کیونکہ شیعہ امامیہ کے عقیدے کی بنا پر ہرگز ایسی تحریف کے قائل نہیں ہو سکتے ، کیونکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن اور عترت اہلبیت دو ایسے مرجع اور ماوی ہیں جو اللہ کی طرف سے بشر کی نجات کا ذریعہ ہیں اگر قرآن جیسے مرجع و مأوی میں کمی اور اضافے ہونے کے قائل ہو جائیں تو'' انی تارک فی الثقلین کتاب اللہ و عتری ''کا عقیدہ غلط ہو جاتا ہے،و ہ قرآن انسان کی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے؟ جس میں کمی اور اضافے کا احتمال دیا جاسکتاہے ۔

لہذا سورہ حجر آیت ٩ سورہ فصلت آیہ ٤١،١٢ سورہ بقرہ آیت ٢ ،سورہ سجدہ ایت ٣٢ ، حدیث ثقلین اور دیگر روایات متواترہ کے علاوہ عقل کی رو سے تحریف کمی و زیادی کے قائل نہیں ہو سکتے رجوع کیجئے ۔(١ )

.......................................

( ١ ) شناخت قرآن ص٧٨، حریم قرآن کا دفاع ص١٩، سعد السعود ص١٩٣، سلامت القرآن من التحریف،ج١ ص٢٨، الذخیرہ فی علم الکتاب ص٣٦١ )

البتہ ہم نے گذشتہ مباحث میں علماء اور محققین کے کلام کو نقل کرتے ہوئے تحریف کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے :

١۔ تحریف کمی

٢۔ تحریف زیادی

٣۔ تحریف تبدیلی

جبکہ یہ تینوں قسمیں تحریف لفظی کے اقسام ہیں لہذا تحریف کو ابتدائی مرحلہ میں اس طرح تقسیم کرنا چاہیے کہ ایک تحریف معنوی دوسری تحریف لفظی اس کے اقسام کمی ،زیادتی ،تبدیلی ہیں۔

تحریف لفظی میں سے تحریف کمی و زیادی کے بارئے میں دلیل عقلی اور نقلی کی روشنی میں واضح ہواکہ اس کے قائل نہیں ہو سکتے ، لیکن تحریف تبدیلی یعنی آیات کے الفاظ اورسورے جابجا قرار دینا یا مختلف اعراب سے اس کی قرائت کرنا یہ یقینا واقع ہو ئی ہے ،لیکن یہ حقیقت میں تحریف نہیں ہے کیونکہ آئمہ معصومین نے ایسی قرائت کی تائید کی ہے اور ایسی تبدیلی میں فلسفہ نزول قرآن کے ساتھ کوئی ٹکراو بھی نہیں ہے ۔

لہذا تحریف قرآن سے فقط تحریف کمی اور زیادی سمجھ میں آتی ہے کچھ علماء اور محققین نے تحقیق کے بغیر ایسی تحریف کو امامیہ مذہب سے منسوب کرنا سوای بہتان اور جھوٹ کے کچھ نہیں ہے،کیونکہ ہمارے تمام علماء کا( چاہے متقدمین میں سے ہوں، یا متاخرین میں سے) عقیدہ یہ ہے کہ ایسی تحریف کے ہرگز قائل نہیں ہو سکتے ۔

چنانچہ بہت سے علماء کانام پہلے ذکر کیاگیا ان کے علاوہ افراد ذیل نے صاف لفظوں میں تحریف کے نظریہ کو باطل قرار دیاہے ، ابن ادریس ،کما ل الدین ،الکاشفی ،شیخ ابو الفیض، شیخ الاسلام ،محمد بن الحسین ، صدر الدین ، محمد بن ابراہیم الشیرازی، علامہ ، نورالدین محمد بن مرتضی ، محمد بن محمد رضا مشہدی، شیخ عبداللہ شبر، سیدحسین الکوہ کمری، محقق تبریزی، سید محمد مہدی میر محمدی، شیخ حسن زین الدین، حضرت امام خمینی رحمۃاللہ کے علاوہ اس دور کے علوم قرآن کے تمام محققین قرآن میں تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں رجوع کیجئے ۔(١ )

لیکن جو لوگ قرآ ن میں کمی واقع ہونے کے قائل ہیں ان کے کچھ استدلال ہیں جس کا خاکہ درجہ ذیل ہے :

١۔ اگر قرآن میں تحریف نہ ہوتی تو ابن مسعود اور ابی بن کعب کے مصحف میں اختلاف نہیں ہوناچاہیے تھا جبکہ ان کے مصاحف کے ساٹھ موارد میں اختلاف ہے ۔

٢۔ اگر کسی چیز کے اجزاء متفرق اورمختلف ہوں اور اس کی جمع آوری ابو بکر کے زمان میں وقع ہوئی تو اسکا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی جزء اور حصے میں کمی اور تبدیلی آچکی ہوگی۔

٣۔ حضرت علی (ع) کا قوم سے بایکاٹ کرکے قرآن کی جمع آوری کیلئے سینہ بہ تن ہونا اس بات

..........................................

( ١ ) سلامت القران من التحریف ج١ ص٣٠، تہذیب الاصول ج٢ ص١٥٦٢، معالم الاصول ص ١٤٧، الفصول المہمہ ، ص١٦٦ )

کی دلیل ہے کہ قرآ ن میں تحریف ہوئی ہے ۔

٤۔ بہت ساری روایات کامضمون ایسا ہے کہ گذشتہ امتوں کے ہو بہو وقائع اور حوادث اس امت میں بھی رونماہوگئے ، یہ تحریف واقع ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

٥۔ احادیث اور روایات اہل سنت او رشیعہ امامیہ کے اسناد سے کثیر تعداد میں نقل کیا گیا ہے،جن سے تحریف قرآن سمجھ میںآتا ہے ۔

حتی بعض محدثین نے ایک ہزار ایک سو بائیس احادیث بتائی ہیں، جس کا مضمون قرآن میں کمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے اسی لئے بعض علماء ،تحریف پر دلالت کرنے والی احادیث میں تواتر اجمالی کے قائل ہوئے ہیں۔

لیکن تواتر اجمالی کا دعوی ایسا دعوی ہے جس پر کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے شاید تواتر اجمالی کا دعوی احادیث کی تعداد زیادہ نظر آنے کی وجہ سے کی ہو جبکہ ان روایات کے سند سے چشم پوشی کرکے مضمون کو کڑی نظر سے غور کریں تو ان کا مضمون مطالب ذیل پر مشتمل ہوتے ہوئے نظر آتا ہے ۔

الف: کچھ روایات قرآن میں لحن اور دیگر لہجے کے حوالے سے مختلف اور متعدد ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔

ب: کچھ دستہ روایات قرآن میں کوئی کلمہ اضافہ یا حذف یاتبدیل ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

ج: بعضی روایات موجودہ قرآن میں کچھ سورتیں اور آیات اضافہ ہونے کی خبر دیتی ہیں۔

د: کچھ روایات قرآن کی بعض آیات شیطان(نعوذ باللہ) کے القاأات میں ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

ر: کچھ روایات قرآن میں تحریف اورکمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

ھ: کچھ روایات بعض کلمات اور الفاظ قرآن میں، زمانے کے حکمرانوں نے تبدیل لانے کی خبر دیتی ہے ۔

جبکہ محققین نے تواتر کو فقط دو قسموں میں تقسیم کیا ہے :

١۔ لفظی۔

٢۔معنوی۔

صرف مرحوم آخوند خراسانی اور ان کے بعد والے محققین نے تواتر کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے:(١) تواتر لفظی

( ٢ ) تواتر معنوی

( ٣ ) تواتر اجمالی

اور مرحوم آقای نائینی نے مرحوم آخوند خراسانی کو جواب دیتے ہوئے فرمایا :

....................................

( ١ ) فضائل قرآن،ص١٦١، تذکرہ الحفاظ ص٤١٧

تواتر کو تین قسموں میں تقسیم کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ تواتر اجمالی وہی تواتر معنوی ہے اس کے مقابل کوئی تیسری قسم نہیں ہے، لہذا پہلا جواب یہ ہے کہ تواتر اجمالی کا نظریہ علماء متاخرین کے ایک گروہ کا نظریہ ہے ۔

ثانیا: اگر تواتر اجمالی کا نظریہ قبول بھی کریںتو روایات کے مضامین ایک مطلب کی طرف اشارہ نہیں کرتی ہیں بلکہ روایات کچھ مختلف ومتباین مطالب کی طرف اشارہ کرتی ہیں جبکہ تواتر اجمالی اس کو کہا جاتاہے جو بہت ساری رویات الفاظ اور تعابیر کے حوالے سے مختلف ہوں، لیکن تمام کے تمام ایک ہی مطلب کی طرف اشارہ کریں۔

لہذا ایسی روایات میں تواتر کا دعوی کرنا نا انصافی کے سوا کچھ نہیں ہے، جب ہم نے تواتر کے دعوے کو باطل قرار دیا تو ایسی روایات خبر احاد بن جاتی ہیں جس کو کسی مسئلہ پر دلیل قرار دینے میں شرایط ذیل لازم ہیں :

١ ۔ سند کے حوالے سے تمام روات موثق ہوں۔

٢۔ صدور کے حوالے سے تقیہ وغیرہ کا احتمال نہ ہو۔

٣۔ مضمون کے حوالے سے کوئی اشکال اورخلاف عقل وقرآن نہ ہو۔

جبکہ مذکورہ روایات میں سے کسی ایک کی سند علم رجال کے اصول و ضوابط کے مطابق معتبر نہ ہونے کے باوجود مضمون کے حوالے سے روایات صحیح السند اور نص قرآن کریم اور عقل کے مخالف ہے ۔

لہذا ایسی روایات کو معصومین کے دستور کے مطابق دور پھینکنا چاہیے اور ایسی روایات کی بنا پر تحریف قرآن کے قائلین کو چاہیے علم اصول علم الرجال ،فقہ الحدیث، فقہ اللغۃ، اور دیگر بنیادی تعلیمات اسلامی کو بخوبی یاد کریں، فقط ایک دو اصطلاح یاد کرکے پورے مسلمانوں کے ضمیر کو مجروح کرنا دور حاضر کی تحقیقات کے منافی ہونے کے علاوہ بہت ہی نا انصافی ہے،اور انکے باقی ادلے قابل جواب نہیں ہے لہذا ہزاروں شیعہ امامیہ اور اہل سنت کے محققین عربی ، فارسی ، انگلش، اردو ،اور دیگر زبانوں پر قرآن میں تحریف نہ ہونے کے موضوع پر تحقیقی مقالات اور کتابیں لکھی ہیںرجوع کریں۔ (١ )

تحریف معنوی کا اجمالی خاکہ :

چنانچہ ذکر کیاگیا کہ تحریف کو محققین نے دو قسموں میں تقسیم کیاہے :

الف۔ تحریف لفظی :کہ اس کی وضاحت سے ہم فارغ ہوگئے ۔

ب۔ تحریف معنوی :

یعنی کسی لفظ اور آیت سے ایسا معنی ارادہ کرنا جو اہل زبان اور عربی دان کی نظر میں معمول اور رائج نہیں ہے،چاہے اس کا سبب کمی ہو، یا اضافی ، یا مخصوص جگے کا

تبادلہ اور دیگر عوامل اور اسباب ہوں۔

.........................................

( ١ ) فضائل القرآن ص١٦١، سلامت القرآن من التحریف،ج١ص١٠٣، تذکرۃ الحفاظ،ص٤١٧، محاضرات الادباء ،ج٢،ص٤٣٥، البیان فی تفسیر القرآن،ج١،ص٢١١ )

تحریف معنوی کی ایسی تعریف میں ہر وہ تفاسیر بھی شامل ہیں جو بظاہر کلام کے ظہور سے ہماہنگ نہیں ہے ۔

لہذا علوم قرآن کے ماہرین نے تفاسیر قرآن کو دو قسموں میں تقسیم کیاہے :

الف: تفسیر بالرّای ب: تفسیر غیر بالراّی

تفسیر بالرای

یعنی آیات کو مفسر اپنے آرای حدسیہ کے مطابق تفسیر کرنا چاہے تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط کے ہماہنگ اور موافق ہو یا مخالف جیسے اس دور میں بہت سے لوگ کسی اصول و ضوابط کے بغیر سامعین کو قائل کرنے کی خاطریا مقالہ نویسی مقالے کی تزین کے واسطے آیات کا ایک ٹکڑا یاایک جملہ جو آیت کے ابتدا اور انتہا سے ہٹ کر فقط ایسے جملے کو بیان کرتا ہے جوبظاہر خطیب اور مقالہ نویس کے اہداف کے مطابق نظر آتا ہے ،جبکہ اس جملے کے آغاز اورانتہاء کو لایاجائے توآیت کا معنی اور مفہوم کچھ اورنظر آتاہے لہذا آیات قرآنی کو تفسیر کرنے کیلئے پوری آیات پر احاطہ علمی ہونے کے علاوہ شان نزول اور اس کی تفسیر کے بارے میں آئمہ سے منقول روایات اور صاحب نظر حضرات کی تفسیر کامطالعہ کرنے کے بعد تفسیرکرنا چاہیے ۔

تفسیر بالرای کو حکم شرعی کی رو سے دو قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں :

( ١ ) تفسیر بالراّی جایز

( ٢ ) تفسیر بالراّی غیر جائز

اگر کوئی شخص برسوں سال آیات عظام کے سامنے زانو ے ادب تہہ کرتے ہوئے حوزہ میں تعلیمات اسلامی کے حصول کیلئے پوری ایک عمر تلمذ کرتے ہوئے تفسیر کے ماہرین سے تفسیر کے اصول و ضوابط لے چکے ہو ںتو اس کی روشنی میں آیات کی تفسیر اپنے آرای حدسیہ کے مطابق بیان کریں، تو ایسی تفسیر بلا اشکال جائز ہے،جیسے علامہ طباطبائی، طبرسی، آیت اللہ خوئی، صدر المتالہین، حضرت استاد محترم عارف زمان زہد و تقوی کا مجسم مفسر قرآن آیۃاللہ جوادی آملی ،فیض کاشانی،عبد اللہ شبر،حضرت استاد آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ، حضرت حجۃالاسلام قرائتی صاحب تفسیر الفرقان کہ انہیں حضرات نے سالوں سال حضرات آیات عظام کی شاگردی اور تلمذ کرنے کے بعد اپنے آرای حدسیہ اور اجتہاد کے مطابق تفسیر کرنے کو تفسیر بالراّی کہا جاتا ہے، لیکن ایسی تفسیر ان روایات اور احادیث کے دائرہ سے خارج ہے جو تفسیر بالرای کی حرمت اور مذمت پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ یہ لوگ صاحب نظر ہیں تمام تعلیمات اسلامی کے اصول و ضوابط سے آگاہ ہیں، فقہ اللغہ، فقہ الحدیث ، فلسفہ اور منطق علم اصول اور فقہ کے قواعد و ضوابط روایات اور آیات کی روشنی میں اپنا نظریہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ایسے مفسرین کی نہ فقط مذمت نہیں کی گئی ہے بلکہ ان کی اخلاقی اور دینی فرائض میں سے اہم ترین فریضہ ہے کہ قرآن کریم جو اللہ کی طرف سے بشر کی ہدایت کے لئے آیا ہے، اس کی اس طرح تفسیر کریں تا کہ لوگ قرآن کو سمجھیں اور ہدایت پائیں، کیونکہ قرآن ہدایت کی خاطر آیا ہے، اس کا افہام اور تفہیم کرنا ہر دور میں فرض ہے،جو تفسیر کے بغیر ناممکن ہے ۔

تفسیر بالرّای غیر مجاز: یعنی قرآن کے الفاظ اور آیات کی اس طرح تفسیر کرنا جو اپنے خیالات اور گما ن کے مطابق ہے، جس پر کوئی دلیل عقلی اور نقلی موجود نہیں ہے خود اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے صاحب نظر بھی نہیں ہے، ایسی تفسیر کے جواز اور حرمت کے بارے میں دو نظریے ہیں۔

١۔ ایسی تفسیر حرام ہے کیونکہ سورہ اعراف آیت ٢٣ اور سورہ بقرہ آیت ١٦٩ اور سورہ اسراء آیت ٣٦ کی روشنی میں کسی بات اور نظریہ کو علم و یقین اور دلیل کے بغیر فقط خیالات اور گمانوں کی بناء پر پیش کرناحرام ہے کہ جس کی مذمت اور حرمت آیات قرآنی کے علاوہ روایات صحیح السند اور معتبرہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے . رجوع کیجئے ۔(١)''لہذا من فسر القرآن برایہ فلیتبواء مقعدہ فی النار'' سے مراد ایسی تفسیر ہے ۔

اور ہمارے دور میں بغیر پڑھے اور دینی مراکز میں تربیت علمی اور اخلاقی پائے بغیر فقط اسکولز اور کالج یا یونیورسٹی یا بغیر پڑھے لکھے مقررین کی کیسٹوں سے یاد کرکے تفسیر کرنے والے مقررین اور مقالہ نویس حضرات کی تفسیر جو معمولا بغیر اصول وضوابط کی تفسیرہوتی ہے، اس تفسیر کے زمرے میں داخل ہے ایسی تفسیرنہ فقط مذہب تشیع کی توہین کا

.......................................

( ١ ) اصول کافی ،باب الاالرّی والمقاییس ، اصول کی مفصل کتابیں جیسے رسائل شیخ بحث ظواہر وغیرہ۔

باعث اور شریعت میں حرام ہے بلکہ سیدھا سادہ ایمان رکھنے والے مسلمانوں کو لوٹنے کا ذریعہ بھی ہے، تاریخ اسلام میں ایسے مفسرین کا نام بھرا ہوا ہے ۔

چنانچہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے ایسے مفسرین کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا :

'' من فسّر القرآن برأیہ ان اصاب لم یؤجر و ان اخطاء فلیتبوا مقعدہ من النار ''

'' اگر کوئی شخص اپنے خیال کے مطابق قرآن کی تفسیر کرے اگرچہ واقع کے مطابق بھی ہو پھر بھی کوئی ثواب نہیں دیا جاتا ہے لیکن اگر واقع کے خلاف آئے تو اس کو جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے ۔(١ )

کیونکہ شیعہ امامیہ کے مفسرین نے ہر دور میں تفسیر قرآن کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت امام صادق کے علاوہ دیگر آئمہ کے کلام کی رو سے کیاہے ،نہ اپنا خیال اور گمان چونکہ آئمہ نے بارہا فرمایا:'' نحن مفسروا القرآن'''' ہم سے ہی قرآن کے بارے میں سوال کرو،ہم ہی قرآن کے مفسر ہیں،نیز دور حاضر میں کچھ لوگ خطیب زمان مثالی مقرر کی حیثیت سے یاپروفیسرز یا ڈاکٹر ز یا ماسٹرز اور ٹیچرز کی سند لیکر دینی مراکز اور حوزہ علمیہ میں تربیت پائے بغیر اور تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط یاد کئے بغیر قرآن کی تفسیر میں سرگرم

...........................................

( ١ ) بحار الانوار،ج٩٢،ص١١ )

ہیں ایسے لوگوں کی دو قسمیں ہیں :

١۔ ایسے لوگوں میں کچھ اس طرح کے ہیں کہ وہ دوسرے مفسرین کے نظریے کو نقل کرتے ہیں نہ اپنا خیال اور گمان ، اس میں نہ کوئی مذمت ہے اور نہ حرام ، کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ تربیت یافتہ مفسرین اور مجتہدین کے نظریہ کو نقل کرنا تفسیر بالرّای نہیں ہے ۔

٢۔ ایسے لوگوں میں کچھ اس طر ح کے ہیں کہ وہ دوسرے مفسرین کے نظریہ سے ہٹ کر اپنے خیال کے مطابق آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایسے لوگ نہ فقط مفسر نہیں ہیں بلکہ مذہب اورکتاب و سنت کی توہین کے مترادف ہے، بیشک وہ پڑھے لکھے ہونے کی حیثیت سے قابل احترام ہیں،لیکن تفسیر قرآن کرنا ان کا کام نہیں ہے ، لہذا جو لوگ تعلیمات اسلامی کے بنیادی اصول و ضوابط کو سکھائے بغیرفقط پڑھے اور لکھے ہونے کی حیثیت سے قرآن کی تفسیر کریں تو کتاب و سنت کی توہین کا باعث ہے ، جسکی سزا ہماری فقہی کتابوں میں بحث حدود و التعزیرات میں مجتہدین نے مفصل بیان کی ہے، رجوع کیجئے ۔(١ )

نیز ایسی تفسیر کی مذمت اور حرمت پر اہل السنت کے محدثین اور محققین نے اپنی کتابوں میں حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے متعدد روایات کو نقل کی ہے، رجوع کیجئے.(٢ )

..........................................

( ١ ) شرایع الاسلام ج٢کتاب حدود و التعزیرات، مسالک ج٧ کتاب حدود و التعزیرات، وسائل الشیعہ ج١٨، مراجع وقت کے رسالہ عملیہ وغیرہ )

( ٢ ) سنن ترمذی، سنن بیہقی، صحیح بخاری، صحیح مسلم )

٢۔ تفسیر بالراّی کے بارے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قرآن کی ہر تفسیر جایز ہے چاہے تفسیر کے بنیادی اصول و ضوابط اور شرایط کے مطابق ہویا نہ ہو بلکہ اپنے خیالات اور رأی حدسیہ و اجتہاد کے مطابق ہو،پھر بھی جائز ہے ، کیونکہ اللہ نے سورہ محمد آیت ٢٤ میں سورہ ص آیت ٢٩ میں قرآن کے بارے میں تدبیر و تفکر کرنے کا حکم دیا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اپنے اجتہاد اور خیالات کے مطابق بھی قرآن کی تفسیر کرنا چاہئے ۔

لیکن اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے قرآن کو انسان کی ہدایت اور نجات کےلئے نازل کیا۔ جو سیکھنے کی صورت میں ہر انسان چاہے ذہن کے حوالہ سے ذہین ہو یا نہ ہو سمجھ سکتے ہیں،نیز ہر اہل زبان آیات محکم کو بخوبی سمجھ سکتا ہے جس کو سمجھنے کے لئے اجتہاد اور اخبار حدسیہ خیالات پردازی کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ پورے قرآن میں تین مطلب کی اشارہ کیا گیا ہے :

( الف)اخلاقیات (ب)اعتقادات (ج) احکامات۔

انہی میں سے فقط ان آیات میں اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے جو احکام شریعہ کو بیان کرتی ہیں، وہ بھی قرآن میں بہت محدود ہیں کہ جن پر مجتہدین نے آیات الاحکام کے نام پر کتابیں لکھی ہیں جس میں فقط پانچ سو آیات بیا ن ہوئی ہیں ان میں بیشک اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسا اجتہاد ساٹھ سال اسلامی تعلیمات حاصل کرنے، سولہ موضوعات پر صاحب نظر ہونے کے بعد دلیل شرعی اور عقلی کی روشنی میں ہوتاہے نہ گمان اور خیالات اور استحسان و قیاس کی رو سے ایسا اجتہاد نہ فقط جائز ہے ،بلکہ بہت سے مجتہدین کی نظر میں ایسا اجتہاد واجب کفائی ہے، کچھ دیگر مجتہدین کی نظر میں واجب عینی ہے،چنانچہ حضرت آیت اللہ مرحوم نائینی کی نظر میں احکامات میں قدرت اور استطاعت کی صورت میں اجتہاد کرنا واجب عینی ہے، نیز جن آیات میں قرآن کے متعلق تدبر اور تفکر کرنے کا حکم دیا ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے خیالات اور گمان کے مطابق قرآن کی تفسیر کریں . اور جو بھی اچھا سمجھیں اللہ سے منسوب کریں بلکہ آیات قرآنی میں تدبر اور تفکر کا مقصد یہ ہے کہ قرآن دیگر کتب کی مانند نہیں ہے، جو ظاہری عبارات اور الفاظ کو پڑھیں اور فورا حکم کریں ، لہذا حقیقت میں کڑی نظر سے غور کریں تو آیات تدبر و تفکر سے تفسیر بالرّای کا جائز نہ ہونا سمجھا جاتا ہے نہ جائزہونا۔

( ٢ ) ان کی دوسری دلیل :یہ ہے کہ اگر تفسیر بالرّای جائز نہ ہوتو احکام کو تعطیل کرنا لازم آتا ہے کیونکہ آیات کی تفسیر نہ کرنے کی صورت میں احکام مجہول رہ جاتے ہیں جس سے انسان احکام الہی کو انجام نہیں دے سکتا لیکن اس دلیل کا جواب علوم قرآن کے ماہرین نے اس طرح دیا ہے کہ تمام علما اور بہت سے مجتہدین کا عقیدہ یہ ہے کہ باب اجتہاد زمان غیبت میں مفتوح ہے مجتہدین کا نظریہ زمان غیبت میں مقلدین پر حجت اور واجب العمل ہے، چاہے ان کا نظریہ واقع کے مطابق آئے یا نہ آئے واقع کے مطابق آنے کی صورت میں دو ثواب دیا جاتا ہے جبکہ خطا اور اشتباہ کی صورت میں اس پر عقاب نہیں کیا جاتا ہے لہذا احکام پر عمل کرنے کیلئے تفسیر بالرای کرنے کی ضرورت غلط ہے کیونکہ احکام کو انجام دینے میں مجتہدین کے فتوی کی ضرورت ہے نہ اینکہ خیالات اور گمان کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کی ضرورت (١ )

٣ ) تیسری دلیل :

ایسی تفسیر کے قائلین نے بہت سی احادیث اور روایات کو نقل کیاہے جوآیات کی تفسیر میں اصحاب کے درمیان اختلاف ہونے کو بیان کرتی ہے ، جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اصحاب قرآن کی تفسیر اپنے اجتہاد اور آراء حدسیہ کے مطابق کرتے تھے ورنہ اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا ، لہذا اصحاب میں سے کوئی ناروا تفسیر کرتا تو دوسرے اصحاب اس کو شدت سے منع کرتے تھے، نیز ہم جانتے ہیں کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے پورے قرآن کی تفسیر نہیں کی تھی(٢ )

لیکن اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ ایسی دلیل دو مطلب پر مشتمل ہے :

١ ) اصحاب تفسیر کرتے تھے اور اس میں اختلاف بھی ہو چکا تھا۔

٢ ) حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے پورے قرآن کی تفسیر نہیں کی تھی۔

اصحاب کا تفسیر کرنا اور اس میں اختلاف ہونے کا لازمہ تفسیر بارای کا جواز نہیں ہے ،کیونکہ

.............................................

( ١ ) شناخت قرآن،ص٢٠٦

( ٢ ) شناخت قرآن، ص٢٠٧

ان کا اختلاف دو قسم کا ہے :

الف: اختلاف عملی ۔

ب: اختلاف استعماری۔

بسا اوقات علماء کے درمیان اختلاف ہونے کا سبب زمانے کے ظالم حکمرانی کی پالیسی ہے جس کی بنا اگر کوئی تفسیر کرے یا کوئی بات اسلام سے منسوب کرے تو وہ یقینا قابل مذمت اور ممنوع ہے ۔

لیکن بسا اوقات اختلاف کا سبب محققین اور مفسرین کا فہم و درک ہے اس کے بارئے میں چنانچہ پہلے بھی بیان کیا گیا اگر کوئی شخص اپنے اجتہاد کے مطابق علمی اصول و ضوابط کی روشنی میں برسوں سال مجتہدین کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد تفسیر کرے تو اس کے جواز میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کیونکہ یہ تفسیر بالرای جائز ہے، ایسی تفسیر تفسیربالرای غیر مجاز میں شامل نہیں ہے، لیکن اگر کسی نے تفسیر اپنے بالرای اور اجتہاد کی روشنی میں بغیر کسی اصول و ضوابط اور حوزہ علمیہ میں سالوں سال تلمذ کئے بغیر حزبی اور سیاسی اورمادی اہداف کے حصول کی خاطر خیالات اور گمان کی بنا پر تفسیر کی توایسی تفسیر غیر مجاز ہے، اور تفسیر بالرای حرام ہے لہذا شاید اصحاب کی تفسیر میں اختلاف ہونے کا سبب علمی اصول و ضوابط ہو نہ خیالات اور سست!۔

اور ان کے دوسرے مطلب کا جواب یہ ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)نے ٹھیک ہے تمام قرآن کی تفسیر نہیںکی ، لیکن تفسیر کرنے کے اصول و ضوابط کو یقینا بیان کیاہے، اور جو لوگ مکتب جعفری سے منسلک ہیں ان کی نظر میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی تفسیر اور امام جعفر صادق کی تفسیر میں ان کے عقیدہ کی بنا پر کوئی فرق نہیں ہے، لہذا جو اہل بیت کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کا جانشین نہیں مانتے ان کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی تفسیر نہ کرنے کی صورت میں اصحاب کی تفسیر اور نظریہ کی توجیہ اور توضیح کرنی پڑتی ہے ۔

چوتھی دلیل :

حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے کچھ اصحاب کے حق میں دعا کی ہے:'' اللہم فقّہ فی الدین و علمہ التاویل'' (١ )

'' پالنے والے ابن عباس کو دین میں سمجھ دار بنائے اور تاویل کو سمجھائے ''

حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے اس جملہ دعائیہ میں تأویل سے مراد اپنے نظریہ کے مطابق تفسیر کرنااور توضیح دیناہے لہذا تفسیر بالرای جائز ہے ۔ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس جملے کوکسی ایسے اصحاب کی شان اور حق میں فرماتے جو تفسیر کے اصول و ضوابط سے واقف نہ تھے یا حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں زانوے تلمذ نہ کرنے والے اصحاب ہوتے تو ایسا احتمال دیا جاسکتا تھا۔

...........................................................................................

( ١ ) شناخت قرآن ص٢٠٧

جبکہ ابن عباس تاریخ اسلام میں مفسر اور قاری قرآن کے لقب سے معروف ہیں، ثانیا جملہ دعائیہ سے اس مطلب کو ثابت کرنا نا انصافی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے اللہ سے دعا کی پالنے والے ان کو تاویل قرآن سے نوازے، تاویل قرآن اور تفسیر قرآن میں زمین و آسمان کا فرق ہے انشاء اللہ بعد میں ان کا فرق بھی بیان کرینگے، لغۃ اور اصطلاح کے حوالے سے دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہیں ، ان کے درمیان عام و خاص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے لہذا اسے تفسیر بالرای کا جواز ثابت کرنا اسلامی تعلیمات کے اصول و ضوابط سے آگاہ نہ ہونے کا مترادف ہے ۔

پانچویں دلیل :

ابی جحیفہ سے بخاری نے صحیح بخاری باب جہل میں روایت کی ہے کہ ابی جحیفہ نے کہا میں نے حضرت علی (ع) سے پوچھا کیا قرآن کے علاوہ کوئی وحی ہے ؟ اما م علی (ع) نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شکافت کیا اور نطفہ سے انسان بنایا، ہم سوی قرآن جو اللہ نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کیا نہیں جانتے ، اس روایت کا جواب یہ ہے کہ تفسیر بالرای کے قائلین نے اس روایت کے کس جملے سے استدلال کیاہے، معلوم نہیں ہے کیا قرآن کے علاوہ کوئی وحی نہ ہونے کا لازمہ قرآن میںتفسیر بالرّای کا جواز ہے؟ کیا امام علی جیسے اصحاب کے فہم و درک کو تفسیر بالراّی کہا جاتا ہے؟ اگر اس کو تفسیر بالرای کہا جائے تو اول و دوم کے فہم و دردک کو کیا کہناچاہیے؟ جو قیاس اور استحسان کو رواج دینے میں پیشا پیش تھے، انہیں لوگوں نے اپنی بات کی تائید کے لئے غزالی کی بات کو نقل کیاہے، غزالی نے کہا، تاویل قرآن میں سماع کی شرط قرار دینا غلط ہے بلکہ ہر ایک کو اپنے فہم و درک کے اعتبار سے قرآن سے استنباط کرنا چاہیے. (١ )

لیکن اس تائید کا جواب یہ ہے کہ غزالی کی کیا حیثیت ہے کہ اس کی بات کو تفسیر بالرای کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے تائید قرار دیں کیا وہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے جانشین ہیں کیا وہ صحابی رسول (ص)خدا ہیں ،کیا وہ تابعین میں سے ہیں، ایسے افراد تاریخ میں بہت ہیں جو اجتہاد درمقابل نص کے شکار ہوئے ہیںکہ جس کو تمام مسلمانوں کے عقیدہ کی بنا پر حرام سمجھا جاتا ہے رجوع کیجئے ۔(٢ )

لہذا کوئی ٹھوس دلیل نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ تفسیر بالرای جو کسی اصول وضوابط کے بغیر خطیب یا مفکر کی حیثیت سے بغیر کسی تحقیق اور تحصیل علوم دینی کے فقط مادی اہداف اوراغراض ومقاصد کی بنا پر کرنا حرام ہے جس کو شریعت اسلام میں شدت سے منع کیا گیا ہے''من فسّر القرآن برأیہ فیتبوا مقعدہ فی النار''(٣ )

'' اگر کوئی بغیر کسی اصول و ضوابط کے اپنے خیالات کے مطابق قرآن کی تفسیر کرے تو اس کی جایگاہ کو آگ میں ڈالا جاتا ہے ''

......................................

( ١ ) احیاء العلوم،ص١٨١ )

( ٢ ) مقدمہ مرأۃ العقول ج١ علامہ عسکری )

( ٣ ) شناخت قرآن ص٢٠٩ا

تفسیر قرآن کرنے کے لئے برسوں سال تعلیمات اسلامی کی تحصیل کرنے کی ضرورت ہے ، آئمہ معصومین (ع) نے آیات کی کیسی تفسیر کی ہے اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔

علامہ طباطبائی، صدر المتالہین، مرحوم حضرت ایت اللہ خوئی، فیض کاشانی، وغیرہ جیسے افراد کی نظر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، یعنی تفسیر قرآن کرنے کے لئے ،سولہ موضوعات پر صاحب نظر ہونے کی ضرورت ہے ایک دو کیسٹوں یا روزناموں کا مطالعہ کرنے سے مفسر قرآن نہیں بن سکتا ہے ، ایسی تفسیر سننا اور کرنا دونوں حرام ہے ۔

اگرچہ حکم واقعی اور مقصود الہی کے مطابق بھی آئے کیونکہ ایسی تفسیر خیالات اور قیاس و گمان اور استحسان کی روشنی میں کی گئی ہے کہ جس کو شریعت میں منع کیا گیا ہے، چاہے ڈاکٹر اور پروفیسر ہوں یا نہ، چنانچہ ہمارے دور میں اسلام اور کتاب و سنت کی نابودی کے لئے ایسے مفسرین کو استعمار کی مدد اور تعاون سے ذرائع ابلاغ اور جریدوں میں مشہور کیا جارہا ہے تاکہ اپنے اہداف کے حصول کے وقت کام آئے ۔

مأخذ تفسیر کی وضاحت :

زمانے کی تیز رفتاری اور حالات کی تبدیلی کے پیش نظر ضروری ہے کہ قرآن کریم کو ہر زمانے کے لوگوں کے فہم و درک کے مطابق تفسیر کریں، تاکہ قرآن کے فیوضات اور کلام الہی سے ہر ایک بہرہ مند ہو سکے لیکن تفسیر قرآن کے لئے چنانچہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے مکمل ایک اصول و ضوابط کا ہونا ضروری ہے ،جس کے بغیر کی ہوئی تفسیر کو تفسیر بالرای کہا جاتا ہے،جس کو شریعت اسلام میں ممنوع قرار دیا ہے، لہذا تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط میں سے اہم ترین اصول و ضوابط تفسیر کا مأخذ اور مصادر کہا جاتا ہے جن سے آگاہ ہونا لازم اور ضروری ہے اس کا خلاصہ درجہ ذیل ہے ۔

١ ) قرآن کی تفسیر قرآن کی رو سے ۔

٢ ) قرآن کی تفسیر سنت کی رو سے ۔

٣ ) قرآن کی تفسیر عقل کی رو سے ۔

اگر کوئی عالم با عمل قرآن کی تفسیر کرنا چاہے تو اسے چاہیے آیات کی تفسیر کا سرچشمہ قرآن اور عقل و سنت قرار دے اور ان تینوں کی روشنی میں تفسیر کرنا بھی فلسفہ، منطق اور ادبیات کے علاوہ دیگر مقدماتی علوم کوصحیح طریقے سے سیکھنے اوریاد کرنے پر متوقف ہے یعنی قرآن کی تفسیر کے لئے ان علوم کو سیکھنے کی ضرورت ہے جو ایک مجتہد کے لئے سیکھنا لازم ہے، اور انشاء اللہ بعد میں ان علوم کا نام بھی ذکر کرینگے ۔

لہذا دور حاضر میں حوزہ علمیہ کے حالات اور دینی مدارس اور طالب علموں کے حالات کے پیش نظر مفسر قرآن اور مجتہد اعلم کا پیدا کرنا بہت مشکل ہے جب کہ ہر دور میں علماء اورمحققین نے زمانے کے تمام خرافات اور اعتراضات سے اسلام کی حفاظت کرتے ہوئے آئے ہیں،شاید اس کی وجہ ہماری کوتاہی اور سستی کے علاوہ کچھ نہ ہو لہذا قارئین محترم سے بیداری غفلت اور کو تاہی سے دوری کی درخواست کرتا ہے، تاکہ مذہب اور اسلام پر آنے والے بے بنیاد اعتراضات اور خرافات سے مذہب اور اسلام کو بچا سکے، چنانچہ مرحوم علامہ طباطبائی جیسے علماء بھی تاریخ تشیع میں ناشناختہ گذرے ہیں کہ برسوں سال فکر اور زحمت اٹھانے کے بعد تفسیر قرآن لکھنا سب سے زیادہ اہم قرار دیا،اور فرمایا ہر سال قرآن کی جدید سے جدید تفسیر کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ لوگ قرآن کو سمجھیں اور خرافات و توہمات سے عقائداسلام اورمذہب کی حفاظت کر سکیں۔

شرایط تفسیر قرآن :

قرآن واحد کتاب ہے جو اہل زبان بھی عام و عادی کلام کی طرح سنتے ہیں لیکن نہیں سمجھ سکتے ہیں اسی سے تفسیر قرآن کی اہمیت کا اندازہ بخوبی کرسکتے ہیں تفسیر قرآن کرنے کے لئے اس کو سمجھنے کی خاطرکئی علوم پر مہارت حاصل کرنے کے علاوہ تفسیر کرنے کی مخصوص نہج اور روش سے بھی بخوبی اگاہ ہونے کی ضرورت ہے لہذا وہ علوم جو مفسر قرآن کے لئے سیکھنااوریاد کرنالازم ہے وہ درجہ ذیل ہیں :

١ ) علم لغت

٢ ) علم صرف

٣ ) علم اشتقاق

٤ ) علم نحو و اعراب

٥ ) علم معانی بیان

٦ ) علم قرائت

٧ ) علم کلام و اصول عقائد

٨ ) علم اصول الفقہ

٩ ) علم اسباب نزول

١٠ ) علم روایات

١١ ) علم تاریخ

١٢ ) فقہی مسائل کہ جن کاتذکرہ قرآن میں ہوا ہے اس پر بھی علم ہونا چاہے ، ان تما م علوم کو سیکھنے کے بعد تفسیر قرآن کے لئے اہم ترین شرط خلوص نیت ہے ، خلوص نیت کے بغیر تفسیرقرآن ناقص رہے گی، کیونکہ ہر وہ کام جو خلوص نیت سے انجام پاتا ہے وہ یقینا اللہ تبارک و تعالی کی نظر میں قابل قبول ہے ۔

تاریخ تفسیر قرآن کی وضاحت :

ہم تفسیر قران کے حوالے سے زمانے کو تین قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں :

١ ) زمان معصومین ۔

٢ ) زمان اصحاب۔

٣ ) زمان تابعین و ما بعد الی زماننا ہذا۔

معصومین کے دور میں قرآن کے متعلق دو بنیادی کا م انجام پائے تھے :

الف) قرآن کریم کو جس طرح اللہ کی طرف سے نازل ہوا تھا اسی طرح عین وہی الفاظ اور کلمات کسی قسم کی کمی کے بغیر لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنا۔

ب) اس زمانے کے لوگوں کے فہم و درک کی حیثیت سے لوگوں کو حقائق قرآ ن سے با خبر کرنا

لہذا خود قرآن کریم صاف لفظوں میں بیان کرتا ہے . کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) قرآن کریم کے سب سے پہلے مفسر ہیں''سورہ نحل آیت ٤٤ میں اس طرح کی تفسیر موجود ہے ''و النزلنا الیک الذکر لتبین للناس''اس مطلب کو ثابت کرنے کی خاطر قرآن کریم کے ماہرین اور محققین نے اپنی گرانبہا کتابوں میں بہت ساری احادیث اور آیات کی طرف اشارہ فرمایا ہے رجوع کرسکتے ہیں۔(١ )

ابن خلدون کا کہنا ہے کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس کی فصاحت و بلاغت اور مفردات کے معانی لغوی سے ہر اہل زبان با خبر تھے لیکن جملے اور حقایق قرآن اور ناسخ و منسوخ اوردیگر مسائل کے حوالے سے قرآن ہر کس و ناکس کے فہم و درک سے بالاتر تھا لہذا حضرت پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کو ایسے مطالب اور آیت کی حقیقت کی تفسیر کرتے تھے ۔

عین اسی طرح کی باتیںا بو الفتوح رازی سیوطی وغیرہ نے بھی کی ہیں،رجوع کریں۔

......................................

( ١ ) روض الجنان،ج١،ابو الفتوح رازی، الاتقان ج٢، جلال الدین سیوطی، ابن خلدون مقدمہ، طبرسی مجمع البیان،ج١۔

حتی بعضی احادیث میں اس طرح کے الفاظ موجود ہیں کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے نہ فقط لوگوں کو قرآن کی تفسیر سے آگاہ فرمایا بلکہ ہر آیت کی تفسیر کرنے کے ساتھ ساتھ تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط اور نہج و روش کی طرف بھی لوگوں کے ذہنوں کومبذول فرمایا تاکہ لوگوں کو تفسیر بالرای سے بچا سکیں،رجوع کریں۔(١)نیز از نظر عقل بھی پہلا مفسر حضرت پیغمبر اکرم (ص) ہی کوہونا چاہیے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی ذمہ داری ہی یہی تھی کہ لوگوں کو معارف اسلامی اوراحکام الہی سے باخبر کریں اس کا لازمی نتیجہ قرآن کی تفسیر اور توضیح ہے کیونکہ ہر انسان کی ذہانت اورفہم و درک یکسان نہ ہونے کے باوجود ہر کلیات اور جزئیات، کنایات اور اشارات کو بغیر کسی تفسیر کے درک نہیں کرسکتے ہیں۔

دوسرے مفسر قرآن :

حضرت علی علیہ السلام ہیں، جو ہر وقت معارف اسلامی اور دستور الہی کے محافظ کی حیثیت سے آغاز وحی سے اختتام وحی تک حضرت پیغمبر اکرم کے شانہ بہ شانہ قرآن کی تفسیر اور حفاظت کرتے رہے ہیں اہل سنت بھی آپ کو مفسر قرآن اور برجستہ اصحاب رسول میں سے شمار کرتے ہیں۔عطا بن ابی ریاح نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا''أکان فی اصحاب محمد (ص)العلم من علی قال لا واللہ لا اعلمہ .''

.....................................

( ١ ) الاتقان ج٢ ص٢٩٦و روض الجنان ج١ص٥٣

کیا حضرت رسول ؐ کے اصحاب میں حضرت علی (ع) سے عالم تر کوئی ہے آپ نے فرمایا خدا کی قسم اس سے عالم تر کوئی نہیں ہے ۔(١ )

یا دوسری حدیث میں آنحضرت نے فرمایا:'' علی مع القرآن و القرآن مع علی''(٢ )

'' علی (ع)قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی (ع) کے ساتھ ہے ''

نیز ابن مسعود سے روایت کی گئی ہے :

ان القرآن أنزل علی سبعۃ احرف ما منہا حرف الا و لہ ظہر و بطن وا ن علی بن ابی طالب عندہ منہ الظاہر والباطن.(٣ )

تحقیق قرآن کو سات حروف پر نازل کیا گیا ہے انہیں حروف میں سے ہر ایک کا ظاہر و باطن بھی ہوا کرتا ہے اور حضرت علی (ع) ہی اس کے باطن اور ظاہر سے آگاہ ہیں۔

جناب ذہبی نے اپنی گرانبہا التفسیر میں فرمایا: کان علی رضی اللہ عنہ بحری فی العلم..''حضرت علی (ع)علم کے در یاتھے'' (٤ )

.........................................

( ١ ) ذہبی التفسیر ج١ ص٧٩

( ٢ ) کنز العمال ج٢ص ٢٠١

( ٣ ) الاتقان ج٢ ص١٨٧

( ٤ ) التفسیر التفسیر ج١ص٨٩

نیز ابن عباس نے کہا'' ما اخذت من تفسیر القرآن فعن علی ابن ابی طالب''(١)'جو کچھ میں نے قرآن کی تفسیر کی ہے وہ حضرت علی (ع) سے دریافت کی ہے'' لہذا تفسیر قرآن ،تاویل قرآن، ناسخ و منسوخ ،عام و خاص ، مطلق و مقید ، محکمات و متشابہات اور حروف مقطعات یعنی حقائق قرآن من البدوی الی ختم حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد حضرت علی (ع) ہی جانتے تھے انہیں سے ہی تفسیر کے اصول و ضوابط کو لینا چاہیے ان کے اصول و ضوابط سے ہٹ کر،کی ہوئی تفسیر جتنے اچھے الفاظ اور حسن سلوک پر مشتمل ہو تفسیربالرای کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

ان کے بعد مرحلہ سوم میں مفسرین قرآن آئمہ معصومین علیہم السلام شمار کئے جاتے ہیں، اگر چہ نزول قرآن کے وقت یا حیات طیبہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کو درک نہ بھی کیا ہو، کیونکہ یہ حضرات جس طرح حضرت پیغمبر اکرم (ص)حجت خدا اور اللہ کی طرف سے رسول اور نبی تھے، اس طرح وہ ان کے جانشین اور وصی ہیں، وصی عین موصی کی ذمہ داری اور تکالیف کو انجام دینے کے لئے ہی منصوب کئے گئے ہیں چنانچہ حضرت امام محمد باقر یا امام جعفر صادق سے منقول احادیث اور روایات سے بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ آئمہ معصومین (ع) ہر دور میں زمانے کے ظالم حکمرانوں سے سینہ بہ تن ہو کر قرآن کی تفسیر اور وضاحت کرتے رہے لہذا آج جب

..........................................

( ١ ) التفسیر التفسیر ج١ص٨٩ )

علماء اور محققین در منثور یا المنار جیسی تفاسیر کی طرف رجوع کرتے ہیں تو بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آئمہ معصومین نے قرآن کی تفسیر کرنے میں کتنی سنگین اور مشکل دشواریوں سے مقابلہ کیا ہے ،رجوع کیجئے ۔(١ )

اصحاب میں سے جو مفسر قرآن تھے :

اصحاب میں سے جو مفسر قرآن ہے ان کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں :

الف) اصحاب رسول میں سے مفسر قرآن۔

ب) دیگر آئمہ معصومین (ع) کے اصحاب میں سے جو مفسر قرآن ہیں۔

١ ) عبداللہ ابن عباس: حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے چچا ذاد بھائی تھے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے وقت ان کی عمر ١٣ سال بتا ئی جاتی ہے آپ بچپنے سے ہی حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ہوتے تھے لہذا اصحاب رسول (ص) میں سے شمار کیا جاتا ہے ، حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے آپ کے بارے میں فرمایا:''اللہم علّمہ الحکمۃ''(٢)''پروردگارا اس کو دین میں فقیہ بنا ئے اور اس کو تاویل یعنی تفسیر قرآن سے نوازے''حضرت پیغمبر اکرم (ص)نے آپ کو اپنی آغوش میں لیاتھا اور فرمایا کرتے تھے : ''اللہم فقہہ فی الدین و انتشر منہ'' (٣)''پروردگارا اس کو دین میں فقیہ بنا اور دین کی نشر و اشاعت کرنے کی توفیق عطا فرما ''

.......................................

( ١ ) در منثور، المنار، صافی

( ٢ ) التفسیر التفسیر ج١ ص٦٨

( ٣ ) سفینۃ البحار ج٢ ص ١٥٤

لہذا علوم قرآن میں آپ کی شخصیت اور مقام و منزلت کا اندازہ ایسے القاب سے بخوبی ہوسکتاہے کہ ابن عباس کو ترجمان القرآن ،فارس القرآ ن ، احبر الامۃ، بحر الامۃ، رئیس المفسرین ، شیخ المفسرین سے یاد کیاجاتاہے ۔(١ )

اگر چہ بہت سارے محققین اور مفکرین نے آپ کو حضرت امام علی (ع) کے شاگردوں اور اصحاب میں سے شمار کیاہے ۔

لہذا جناب ذہبی نے اپنی گرانبہا کتاب میں نقل کیا ہے:ما اخذت من تفسیر القرآن فعن علی ابن ابی طالب''(٢ )

'' جو کچھ میں نے تفسیر قران کی ہے وہ حضرت علی ابن ابی طالب سے دریافت کی ہے، اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی (ع) نے ہی ان کو تفسیر کے اصول و ضوابط سے آگاہ کرایا تھا۔

لیکن ابن عباس کا اصحاب رسول ؐ میں سے ہو جانا اور حضرت علی (ع) کے شاگردوں میں سے شمار کئے جانے میں کوئی تضاد اور ٹکراو نہیں پایا جاتا ہے ،ہم اس کو اصحاب رسول (ص) کے مفسر ین میںسے شمار کرسکتے ہیں۔

٢۔ عبدا للہ ابن مسعود :آپ سے تفسیر قرآن کے بارئے میں بہت زیادہ احادیث منقول

.......................................

( ١ ) مقدمہ تفسیر مال مراغی )

( ٢ ) التفسیر التفسیر ج١ ص٨٩

ہیں آپ حافظ قرآن تھے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے خاص الخاص اصحاب میںسے شمار کیا جاتا ہے حتی بعض محققین نے اپنی کتابوںمیںلکھا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) عبد اللہ ابن مسعود کی زبان سے قرآن کی تلاوت کی سماعت کو پسند کرتے تھے ۔(١)١

مفکرین اورمحققین ان کو ان گیارہ افراد میں سے قرار دیتے ہیں جو خاندان اہل بیت سے دوستی اور محبت کر نے میں معروف اور مشہور تھے ،آپ تفسیر قرآن اور علم قرائت میںبہت زیادہ معلومات کے حامل تھے ،حتی کچھ محققین آپ کو اسلامی مفسرین میں سے اہم مفسر سمجھتے ہیں،اور تابعین کے زمانے میں کوفہ کے مفسرین کے اصول وضوابط اور پایہ گذاری ،تفسیر ابن مسعود بتا یا گیا ہے ۔

٣۔ ابی ابن کعب: آپ احباریہود میںسے تھے جب آپ مسلمان ہوئے تو کاتبین وحی قرار پایا ، آپ اصحاب کے دور میں مشہور ومعروف مفسر قرآن سے یاد کرتے تھے آپ قدیم یہودی کتابوںسے آگاہ تھے ،لہذا آپکی عظمت اوراہمیت دوسرئے مفسرین کی بہ نسبت زیادہ ہے ،جناب طبرسی علیہ الرحمۃ جیسے مفسر قرآن نے اپنی تفسیر میںہر مطلب پر ابی ابن کعب کے نظریے اوراحادیث سے استدلال کیا ہے ۔

.......................................

( ١ ) سفینۃ البحار ج ٢ ،ص ٣٧

٤۔ جابر بن عبد اللہ انصاری : اصحاب کے دور میں مشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک جابربن عبد ا للہ انصاری ہیں ،جناب ابی الخیر نے اپنی کتاب طبقات المفسرین میں اس کو مفسرین کے پہلے طبقہ میںشمار کیا ہے ،آپ نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ١٨ جنگوں میں شرکت کی اور جنگ صفین میں آپ نے اصحاب علی (ع) کی حیثیت سے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا آپ پیغمبر اکرم (ص) کے طویل العمر اصحاب میںسے تھے امام محمد باقر کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کا سلام عرض کیا ، جناب عطیہ تابعین کے مفسرین میں سے تھے ،روایت کی ہے جب امام حسین کی شہادت کے بعد جابر نے حضرت کی زیارت کوآنا چاہا تو عطیہ بھی آپکے ہمراہ تھے آپکی شخصیت رجال اوردرایہ جیسے موضوعات پر لکھی ہوئی کتابوں میںواضح الفاظ میں بیان ہوئی ہے آپ ٩٤سال کی عمر میں دنیا سے رخصت کر گئے ۔(١ )

٥۔زیدبن ثابت :اصحاب کے دور میںمشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک تھے آپ پیغمبر ؐ کے دور میں کاتبین وحی میں سے ایک تھے ، آپ مدینہ منورہ میں قضاوت اور فتوی وعلم قرائت سے لوگوں کو سیراب کرتے رہے جب ابو بکر کا دور شروع ہوا تو زیدبن ثابت کوقرآن کی جمع آوری کا حکم دیا ،نیز دور عثمانی میں عثمان بھی قرآن کو زیدبن ثابت کی قرآت کے مطابق قرأت کرنے کی تائید کی ۔

.......................................

( ١ ) اسد الغابۃ ج ١ ص ٢٥٨

حتی ابن عباس علوم قرآن اور مفسر قرآن کے ماہر ہونے کے باوجود زید بن ثابت کے دولت سرا جاتے تھے تاکہ مزید علم قرآن سے فیضیاب ہوسکیں۔

٦۔میثم تمار :جبیر وغیرہ کو بھی اصحاب رسول (ص) کے مفسرین میں سے قرار دیا ہے لہذا اختصار کے پیش نظر انہی چند مفسرین کے نام لینے پر اکتفاء کروں گا ۔

تابعین کے دور میںمعروف مفسرین :

١۔ سعید بن جبیر :تابعین کے مشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی تفسیر کے اصول وضوابط کو جناب ابن عباس سے لیا تھا ،ابن خلکان نے اس کی تفسیر کے اصول وضوابط ابن عباس سے لینے کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا وہ تابعین کے دور میں بہت ہی معروف اوربر جستہ مفسرشمار ہوتے تھے ۔(١ )

سبحان ثوری کے کہنے کے مطابق تفسیر قرآن کوچار ہستیوں سے لینا چاہیے ،سعید بن جبیر ، مجاہد ،مکرمہ ،ضحاک ۔(٢)جناب سعید بن جبیر حجاج بن یوسف کی اذیت اورسختی میںشہادت پر فائز ہوئے ۔

٢۔مجاہد بن جبر مکی : آپکی کنیت ابو الجاج تھی ابن عباس کے شاگردوں میںسے ممتاز شاگرد تھے اپنی تفسیر کے اصول وضوابط کو حضرت علی -اور ابن عباس سے لیتے تھے اہل سنت کے مفسرین بھی آپکی خاص اہمیت کے قائل ہیں ۔(٣ )

( ١ ) وقیات الاعیان ج ١ص٣٦٣ (٢)الاتقان ج ٢ص ٣٢٣(٣)ذھبی التفسیرالتفسیر ج ١ ص١٠٦

٣۔عکرمہ:تابعین کے مشہور ومعروف مفسرین میںسے ایک عکرمہ کوبتایا جاتا ہے ،جنہوں نے اپنی تفسیر کے اصول اورنہج کو حضرت علی (ع) اورجناب ابن عباس سے لیا تھا مرحوم محدث قمی نے لکھا ہے کہ عکرمہ شیعہ امامیہ کے مفسرین میںسے نہیںہیں(١ )

حتی بعض محققین کے نظریے کی بناء پر وہ خوارج میںسے تھے ،(٢ )

اس بات کی تائید کے طور پر امام محمدباقر سے یہ روایت ہے ،ایک دن آپکی خدمت میں عکرمہ کے احتضار اور موت کی حالت کاتذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا اس تک میری رسائی ہوتی تو میں اس کو جہنم کی آگ سے نجات دیتا ۔(٣ )

٤۔عطا بن ابی ربح مکی :آپ مکہ کے نامور ومشہور مفسرین میں سے ایک تھے چنانچہ خود نے کہا ہے کہ میں نے اصحاب میں سے ستر نفر کو درک کیا ہے ، قنادہ نے کہا کہ عطاء بن ابی رباح اپنے دور میں معارف اسلامی اوردینی معلومات کے حوالے سے بے مثال تھے چنانچہ ذھبی نے لکھا ہے کہ جب لوگ دینی مسائل اورمعارف اسلامی کے متعلق رجوع کرتے تھے

..................................

( ١ ) سفینۃ البحار ج٢،ص ٢١٦ )

( ٢ ) مذاہب التفسیر الاسلامی ص٩٦ )

( ٣ ) سفینۃ البحار ج ٢ ص ٢١٦

تو ابن عباس نے کہا اہل مکہ عطاء بن رباح کے ہوتے ہوئے مجھ سے کیوںرجوع کرتے ہیں ؟(١ )

آپ کو تفسیر کے موضوع پر قدیم ترین مصنفین میںسے شمار کیاجاتا ہے ، اورانہوں نے اپنے تفسیر کے اصول اور قواعد کو ابن عباس سے لیا تھے ۔

٥۔ طاووس بن کیسان یمانی :شیخ طوسی اورصاحب روضات نے اس کو اصحاب امام سجاد میںسے قراردیاہے ،اوربعض محققین اس کوشیعہ امامیہ مانتے ہیں جبکہ دیگر مفکرین اورمحققین نے انہیں اہل سنت کے مفسرین میںسے قرار دیا ہے، اور آپ نے اصحاب رسول (ص) میںسے پچاس نفر کو درک کیا تھا ،آپ کی سب سے زیادہ ابن عباس سے آمد ورفت تھی ، لہذا انہوں نے تفسیر کے طرزاورقواعد کو ابن عباس سے لیا ہے ۔

صفحات کے دامن میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے ہر ایک دور کے مفسرین کی تفصیلی گفتگو سے پر ہیز کرتے ہوئے فقط فہرست وار خلاصہ کو بیان کریں گے تاکہ قارئین محترم کو آسانی ہو جائے ۔

...................................

( ١ ) ذھبی التفسیر التفسیر ج ١ص ١١٣ )

اصحاب کے دورمیں مشہور مفسرین :

عبدا للہ ابن عباس

عبدا اللہ ابن مسعود

ابی بن کعب

زید بن ثابت

جابر بن عبد اللہ انصاری

جن کے بارئے میں اجمالی گفتگو ہوچکی ہے مزید معلومات اورآگاہی کی خاطر کتب ذیل کی طرف رجوع کرسکتے ہیں (١ )

تابعین کے دور میںمعروف مفسرین :

الف : مکہ کے مفسرین :

سعید بن جبیر

مجاہد

عکرمہ

عطا بن ابی رباح ،طاووس بن کیسان

.............................

.. ( ١ ) التفسیر التفسیر ج١ذہبی)مذاہب التفسیر الاسلامی ،الاتقان ج٢ ،طبقات ابن سعد )

ب :مدینہ کے مفسرین :

ابو العالیہ رفیع بن مہران ریاحی

زید بن اسلم

محمد بن کعب

ج۔عراقی مفسرین :

ابو سعید حسن بصری

قتادہ بن دعامہ سدوسی

ابو صالح باذان بصری

مرۃ ہمدانی کوفی

علقمہ بن قیس کوفی

مسروق بن اجدع کوفی

عامر شعبی کوفی

جابربن یزید جعفی

اسماعیل بن عبد الرحمن

متفرقہ مفسرین کے اسامی گرامی :

١۔ عطا بن ابی سلمہ خراسانی

٢۔ محمد بن سائب کلبی

٣۔ علی بن ابی طلحۃ

٤۔ قیس بن مسلم

٥۔ سلمان بن مہران

٦۔مقاتل بن سلیمان اذدی خراسانی

٧۔صحاک بن مزاحم ہلالی

٨۔عطیہ بن سعید عوضی جدلی خراسانی

ان کے علاوہ دیگر مفسرین کا نام نہ لینے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ مفسرین قرآن نہیں تھے بلکہ اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے محققین سے درخواست ہے کہ بر جستہ محققین اور مؤلفین کے گرانبہا مفصل آثار کی طرف رجوع کیجیے ۔

لہذا ہم یہاںپر فقط چند تفاسیرکی معرفی کرینگے ۔

الف : اہل سنت کی مشہور ومعروف تفاسیر :

جامع القرآن فی تفسیر القرآن -- ابن جرید طبری

تفسیر بحر العلوم -- ابن لیث سمر قندی

الکشف والبیان عن تفسیر القرآن -- ابی اسحاق تعلیمی

معالم التنزیل -- ابی محمد حسین بغوی

المحر ر فی تفسیر الکتاب العزیز -- ابن عطیہ اندلسی

تفسیر القرآن العظیم -- ابی القداالحافظ ابن کثیر

الجواہر الحسان فی التفسیر القرآن -- عبد الرحمن الثعالبی

الدرالمنثور فی تفسیر الماثور -- جلال الدین سیوطی

ان تمام تفاسیر میںآیات کی توضیح اورتفسیر روایات اورسنت نبوی کی روشنی میں کی گئی ہے ۔

لہذا شیعہ امامیہ کی کچھ تفاسیر روائی کی طرف اشارہ کرنا ضرور ی سمجھتا ہوں ۔

تفسیر قمی -- علی بن ابراہیم

تفسیر نور الثقلین -- عبد العلی حویزی

تفسیرالبرہان -- سید ہاشم بحرانی

تفسیر صافی -- ملا محسن فیض کاشانی

تفسیر الائمۃ لہدا یۃ الامۃ-- ،میرزا محمد رضا

تفسیر عیاشی -- محمد بن سعود

التفسیر با الماثور -- مولی علی اصغر قائنی

ان کے علاوہ دیگرتفاسیر قرآن ،قرآن کی روسے یا عقل اوردیگر ادبی روسے کی گئی ہیں ،فریقین کے محققین نے کافی زحمت کی ہے،جنکی تعداد بہت زیادہ ہے ۔

اعجاز قرآن کا اجمالی تعارف :

علوم قرآن کے مباحث میں سے کچھ بہت مشکل اورپیچیدہ ہیں جسکی بناء پر اسلامی مکاتب فکر اورمحققین نے ہزاروں زحمتیں اٹھا کر فہم قرآن کی خاطر شب وروز ان مسائل کی شرح اورتوضیح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں انہی مسائل میںسے ایک اعجاز قرآن کا مسئلہ ہے جس کے بارئے میںعلماء اورعلوم قرآن کے ماہرین نے مفصل بہت بڑئے حجم کی کتابیں اور تحقیقی مقالات ہر دور میںپیش کئے ہیں تاکہ قرآن پر ہونے والے اشکالات اورشبہات کا ازالہ ہو سکے ۔

لہذا اعجاز قرآن پر جتنے بھی اشکالات وارد ہوئے ہیں سب کا جواب ہر دور میں بہت ہی مستدل اور اچھے طریقے پر دیاگیاہے ،رجوع کے لئے بہترین کتاب استاد محترم حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی اعلی اللہ مقامہ ،المد خل التفسیر،المیزان ج١۔البیان فی تفسیر القرآن کافی ہے ۔

لیکن کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اتنے سارئے مقالات اورکتب کے باوجود اس موضوع پر قلم اٹھانا مفید نہیں ہے !کیونکہ ہمارا مقصد علوم قرآن کا اجمالی تعارف اردو زبان میں بیان کرنا ہے تاکہ اس وقت کے مفسرین جان لیں کہ تفسیر بالرای شریعت اسلام میںممنوع ہے اورتفسیر قرآن لکھنے کے لئے فقط پیسے اوراثر ورسوخ کا فی نہیں ہے بلکہ علوم قرآن کو سیکھنے کے بعد علوم قرآن کے نتائج کی حیثیت سے تفسیر قرآن پیش کریں لہذا اعجاز قرآن کا اجمالی تعارف کرانا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے جس کوذکر کررہے ہیں ۔

اعجاز قرآن کے بارے میں تین نظریے قابل تصور ہیں :

الف : قرآن معجزہ نہیں ہے یعنی قرآن کی مانند اورمثل لانا ناممکن نہیں ہے !

اس نظریے کو برسوں سال پہلے خود قرآن کریم نے ہی بہت ہی زیبا اورادبی الفاظ میں جواب دیاہے جیساکہ : فأتو ابمثلہ ،''اور کبھی یوں ارشاد فرمایا ''اس کی مانند دس سورئے لاسکتے ہو تو لاؤ!اور کبھی فرمایا ''جن وانس مل کر اس قرآن کی مانند پر اتفاق کریں تو بھی نہیں لاسکیں گے ''ان جیسی اور بھی بہت سی آیات موجود ہیں ، جیسے سورہ انعام ،نحل،بقرہ ،بنی اسرائل ،کی بعض آیات تحدی کا ضرور مطالعہ کیجیے ،مرحوم علامہ طباطبائی المیزان ج ١ میںمعجزہ کی حقیقت اورکمیت و کیفیت کو بہت ہی اچھے انداز میںبیان فرمایا ہے اورتمام شبہات واعتراضات کا منہ توڑ جواب دیاہے ۔

ب: جو لوگ قرآن کو معجزہ یعنی قرآن کی مانند اورمثل لانے کو ناممکن نہیں سمجھتے ہیں ان میں سے کچھ نظریہ صرف کے قائل ہیں یعنی قرآن کی مانند اورمثل لانا عقل کی روسے ناممکن نہیں ہے لیکن جب بھی انسان قرآن کی مانند لانا چاہتا ہے تو اللہ اس کی قدرت کو سلب کرتا ہے ،لہذا عقلا اس کی مانند لانا ممکن سمجھتے ہیںلیکن عملا نہیں لاسکتے چونکہ اللہ اس کی قدرت کو سلب کرتا ہے ۔ !

اس نظریے کے قائلین بھی اسلامی مکاتب فکر میںکم نہیں ہیں ،جناب استاد محترم ڈاکٹر رجبی دام عزہ اپنے لیکچر میںسات نفر کا نام لیا تھاکہ یہ لوگ اعجاز قرآن کے بارئے میں صرف کے قائل ہیں۔

ذراسا توجہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ نظریہ آیات تحدی کے ظہور اوردلیل عقل کے ساتھ ساز گار نہیں ہے کیونکہ ایک طرف سے اس کی مانند لانے کوممکن سمجھنا تودوسری طرف سے عملا لاکر دکھانے میںقاصر کے قائل ہوجانا !یہ دو باتیں اعجاز قرآن کے بارئے میں آئی ہوئی ادلۃ کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں ۔ !

ج : قرآن معجزہ ہے ، جسکی حقیقت اورکمیت وکیفیت کو سمجھنے کے لئے رجوع کیجیے ۔(ا )

اور تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن معجزہ ہے تاقیامت کوئی قرآن کی مانند اورمثل نہ اب تک لاسکا ہے اورنہ ہی لاسکے گا ، لہذا نزول قرآن کے دور میں ہی تمام فصحاوبلغا جمع ہوگئے ۔سب نے اعتراف کیا کہ اس سے فصیح اور بلیغ کوئی کلام نہیں ہوسکتا

جب یہودیوں کا دور شروع ہوا تو سورہ کوثر ،سورہ حمد ، سورہ عادیات ، سورہ انشقاق

.............................

( ١ ) ١لمیزان ج١بحث اعجاز قرآن بہت ہی مفصل اورمفیدہے ، مدخل التفسیر ابحاث حول اعجاز القرآن ، حضرت استاد محترم فاضل لنکرانی اعلی اللہ مقامہ )

کی مانند سورتوں کو بنا کر قرآن میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ، خوش قسمتی سے نہ فقط خود ساختہ سورتوں کو قرآن میں شامل نہیں کیاجاسکا ،بلکہ اپنی نادانی اورجہالت کااعتراف بھی کرنا پڑا ،اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے جملات جو آج کاغذوں پر ثبت ہیں ان کی ملامت کرتے ہیں ۔

مرحوم علامہ طباطبائی نے المیزان جلد اول میں اعجاز قرآن کی بحث میںاعجاز قرآن کے مسئلہ کو بہت ہی مفصل اورعلمی،فلسفی اورعقلی اصول وقواعد کی روشنی میں بیان کیا ہے ۔

لہذا قارئین محترم کو حقیقت اعجاز پر کئے ہوئے علمی اورعقلی اشکالات کا بہت ہی اچھے طریقے سے جواب دیا گیاہے مزید اس موضوع کے بارئے میں قارئین سے وقت لینا مناسب نہیںسمجھتا لہذا اختصار کے طور پر علامہ مرحوم طباطبائی کے تحقیقاتی اور علمی مطالب میںسے کچھ ذکرکرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔

علامہ فرماتے ہیں کہ قرآن من جمیع الجہات جو قابل تصور اورتعقل ہے معجزہ ہے ، یعنی یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن فقط فصاحت وبلاغت کے حوالے سے معجزہ ہے ،یا نظم وضبط اورترکیب وتحلیل کے حوالے سے معجزہ ہے ،یا ادبی نکات اوراصول وضوابط کے حوالے سے معجزہ ہے ،بلکہ قرآن تمام جہات کے اعتبار سے معجزہ ہے ،علمی ،سیاسی ،ثقافتی ،اجتماعی ،انفرادی،اقتصادی ،تربیتی ،اخلاقی ،ادبی ،فقہی ،عقلی ،فصاحت وبلاغت ،نظم وضبط وغیرہ کے حوالے سے معجزہ ہے کوئی بھی مادی انسان مادی نظام کی روشنی میں اپنی گفتگو چاہے اقتصادی اورمعاشیات کے ماہر ہوں یا سیاسی اورعلمی ثقافتی اوراجتماعی اورادبی بلاغت وفصاحت نظم وضبط تحلیل وتفسیر کے جس مرحلے پر فائز ہوں قرآن کی مانند اورمثل نہیں لاسکتے

لہذاوہ آیات جس میں اللہ نے بشر کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قرآن کی مانند اورمثل انسان اورجن باہم مل کر لانا چاہیں تو بھی نہیں لاسکیں گے ایسی آیات ہر جہات سے چیلنج کرتی ہیں ،کہ تاقیامت کوئی اس کی مانند ایک سورہ ،یا ایک آیت کی بات تو دور کی بات ہے ،ایک جملہ بھی نہیںلاسکتے اور یہی قیامت تک کے لئے سب سے بڑا معجزہ ہے (١ )

جسکو ثابت کر نے کے لئے مرحوم طباطبائی نے آیات کے علاوہ علمی وعقلی برہانوں سے استدلال کیاہے ،یعنی قرآن کریم میںجو علمی اوراخلاقی اورتربیتی یا دیگر مسائل کو جس انداز میں اللہ نے بیان کیاہے اس انداز میںکوئی انسان پیش نہیں کرسکتا اوریہ قرآن کی عظمت اوراعجاز کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

تبھی تواسلام کے ساتھ صدر اسلام سے اب تک اتنی عداوت اوربغض کے باوجود کبھی بھی قرآن کو نہیں مٹا سکے ، یہ اللہ کی بڑی منت ہے کہ جس نے قرآن کو ایسے مطالب اورالفاظ پر ناز ل فرمایا کہ جس کی دنیاکی کوئی بھی طاقت مقابلہ نہیں کرسکتی۔

.............................

( ١ ) المیزان ج١بحث قرآن ،طباطبائی )

لہذا شاید'' انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون ''کا اشارہ ایسے مطالب کی طرف ہو تبھی تو سورہ کوثر کے مقابلہ میں'' انااعطینا ک الجواہر فصل لربک وجاہر ولا تعتمد قول ساحر۔!یا سورہ حمد کے مقابلے میں'' الحمد لرحمن رب الاکوان ملک الادیان لک العبادۃ وبک المستعان اہدنا صراط الایمان ''!!!

یا دیگر سورتوں کو بنانے والے کے جملات ہی ان کی ملامت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں انہیں جملات اورکلمات سے ہی ان کی علمی صلاحیت اورفہم ودرک اورقرآن کے ساتھ عداوت کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں آپ غور کیجیے ایسے افراد کتنی جہالت اورتاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ سورہ کوثر میں'' انا ''''اوراعطیناک ''کو عین قرآن کے الفاظ میں تکرار کیا ہے جبکہ اسکا دعوی ہے کہ ہم اس کا مثل لائینگے ،اسی طرح ''کوثر ''کی جگہ ''جواہر'' کاکلمۃلایا ہے ''جواہر'' اور''کوثر ''کے معنی میں زمین آسمان کا فرق ہے ،کلمہ'' اعطا ''کے متعلق ''جواہر'' کو قرار دینے اور''کو ثر'' کو قرار دینے میں ادبی اورفصاحت وبلاغت کے نقطہ نظر سے بہت بڑا فرق ہے ، پھر'' فصل لربک'' کی جگہ عین الفاظ قرآن کو تکرار کیا ہے جبکہ اس کی پوری کوشش اس کی مانند لانا ہی ہے ،''والنحر''کی جگہ ''جاہر'' ،''انا شانئک ہو الابتر'' کی جگہ ''ولاتعتمد قول ساحر ''لانے سے فقط اپنی ضمیر کی عکاسی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،کیونکہ ان دوجملوں کے الفاظ اورمعانی فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے اور ادبی حوالے سے ان دونوں کے درمیان مقائسہ کرنا ہی غلط ہے ۔ !

نیز سورہ حمد کے مقابلے میں خود ساختہ سورہ کو سورہ حمد سے مقایسہ کیجیے کہ کلمہ'' الحمد'' عین وہی لفظ ہے جو قرآن میں آیاہے جبکہ اس کا ہدف اس کی مانند اور مثل لاکر اللہ کے عجز کوثابت کرنا ہے ،''للہ'' کی جگہ'' للرحمن'' لا یا جبکہ'' للرحمن'' اولا قرآن کے ہی الفاظ میں سے ایک ہے ،ثانیا اللہ کا لفظ علم ہے اور لفظ رحمن اس کی صفت ہے کلمہ الحمد کے ساتھ للرحمن لانے اورالحمد کے ساتھ للہ لانے میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ اگرکسی کو معلوم نہ ہو تو اس صورت میں اس شخص کو عالم کہلانے کے بجائے اس کا علاج کروانا چاہیے ۔

اسی طرح کلمہ'' رب ''کو عین قرآن ہی کا ایک لفظ ہے تکرار کیا ہے اوررب کے بعد عالمین کی جگہ'' اکوان'' کو لا یا ہے'' اکوان'' کلمۃ''کون ''کا جمع ہے ۔

جبکہ' ' عالمین ''کے بارئے میں اختلاف ہے ، یہ کسی مفرد کی جمع نہیں ہے کیونکہ عالم متعدد نہیں ہیں ،البتہ کچھ مفسرین نے فرمایا ہے کہ کلمہ ''عالمین'' ''عالم ''کی جمع ہے'' عالم'' اس کا مفرد ہے اس نظریے کی بناء پر بھی'' اکوان'' اور''عالمین ''کے معنی لغوی اوراصطلاحی میں فرق پایاجاتا ہے ''کون'' افعال عموم میں سے ایک ہے جبکہ ''عالم'' افعال مخصوص میں سے ان کے متعلقات اورقیودات کے اعتبار سے قابل جمع نہیں ہے کیونکہ یہ دو لفظ مترادف نہیںہیں۔

ثانیا'' اکوان'' جمع مکسر ہے جبکہ عالمین جمع سالم ہے ان کے معانی اور فصاحت اور بلاغت کے اعتبار سے بھی قابل جمع نہیں ہے ۔

قرآن کے مثل لانے کے دعویدار کو چاہیے کہ وہ وہی کمیت اور کیفیت کے ساتھ الفاظ کو لا ئیں جو سورۃ حمد میںموجود ہیں ،اگر کو ئی جمع سالم کی جگہ جمع مکسر کو استعمال کرے یا مفرد کے بدلے میں جمع استعمال کرے یا جمع کی جگہ تثنیہ کو استعمال کرے تو یہ اسکی جہالت کی علامت سمجھا جائےگا ۔

مالک یوم الدین کی جگہ ملک الادیان کو لا یا گیا ہے اگر ان دوجملوں کو باہم معنی اورنظم وضبط اورفصاحت وبلاغت کے حوالے سے مقائیسہ کریں تو بخوبی ایسے افراد کی جہالت اور کم علمی کے ساتھ بے انتھا ئی پستی کا بھی انداز ہ کیا جاسکتا ہے ۔

مزید ہمیںان باتوںکی تحلیل وتفسیر کرتے ہوئے اپنے قیمتی اوقات کو ضائع نہیں کرناچاہیے ۔

تلاوت کلام پاک کی عظمت :

تلاوت کلام پاک کا عنوان علوم قرآن کے مسائل میں نتیجہ اور ثمرہ کی حیثیت رکھتا ہے جب ہم علوم قرآن کے مسائل سے فارغ ہوئے تو ا ن کے نتائج کی طرف بھی اجمالی اشارہ کرتے ہیں تاکہ علوم قرآن کی اہمیت کا پتہ چلے ،اورقرآن کے متین مطالب کو صحیح معنوں میں درک کرنے میں دشواری نہ ہو اور معاشرے کو نورانیت قرآن کے ذریعے منور کرسکیں، لہذا خاتمہ کے طور پر علوم قرآن کے عناوین سے باخبر ہونے کے ساتھ کلام پاک کی تلاوت کرنے کی اہمیت سے بھی واقف ہوناضروری ہے کیونکہ ہر پڑھے لکھے مسلمان بہن بھائیوں کی سیرت اس طرح کی ہے کہ کم از کم ٢٤گھنٹوں میں سے ایک وقت ضرور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور شریعت میں بھی کلام پاک کی تلاوت کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے ،لیکن اگر ہم تلاوت کے طور و طریقے اور اصول وضوابط سے کما حقہ آشنائی نہ رکھتے ہوں تو یقینا تلاوت کلام پاک کا جو خاص اثر ہے اس سے محروم رہ جاینگے ،لہذا بہتر ہے کہ درجہ ذیل عناوین کی روسے تلاوت کلام پاک کے قواعد اور اہمیت کو اپنے محترم قارئین کے لئے پیش کریں :

الف : تلاوت قرآن قرآن کی رو سے ۔

ب: سنت کی روسے ۔

ان عناوین کی وضاحت سے پہلے تلاوت کلام پاک کے فارمولوں کو بیا ن کروں تاکہ لوگ ثواب اور فوائد تلاوت کلام پاک سے زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہوسکیں ۔

١۔ تلاوت کلام پاک ہمیشہ باوضو کرنا چاہیے ۔

٢۔ ہر نماز کے بعد تلاوت کرنا چاہیے ۔

٣۔پاک وپاکیزہ جگہ جیسے مساجد اماکن متبرکہ جیسے روضات آئیمہ معصومین (ع) وغیرہ میں کرنا چاہیے ۔

٤۔قرآن کے حروف کو بغیر وضو کے چھونا حرام ہے ،لہذا باوضو قرآن کی تلاوت کرنا چاہیے

٥۔تلاوت سے پہلے اور تلاوت کے بعد محمد وآل محمد (ص) پردرود بھیجنا چاہیے ۔

٦۔تلاوت سے پہلے جو دعائیں آئمہ معصومین (ع) سے ہم تک پہنچی ہیں ان کی قرأت کرنا چاہیے

٧۔ تلاوت کے وقت روبہ قبلہ ہوناچاہیے ۔

٨۔تلاوت کے دوران عام اور عادی حالت کی طرح گفتگو سے پر ہیز، دیگر کتب کی طرح ہاتھ میں قرآن رکھ کر مذاق یا کھیل وکود سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

٩۔ قرآن کی تلاوت کے وقت تفکر اور تدبر کرنے کی سفارش کی گئی ہے لہذا اس کا خیال رکھنا چاہیے ۔

١٠۔ ترجمہ شدہ قرآن کی تلاوت کی صورت میں غور وخوص کے ساتھ ترجمہ کو درک کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔

١١۔تلاوت کے وقت قصد قربت اور تلاوت کے بعد والدین اور دیگر مومنین کے حق میں دعا کرنا چاہیے ۔

١٣۔تلاوت کے دوران جن آیات میںعذاب کا ذکر ہو ا ہے اللہ سے نجات کی درخواست اور آیات رحمت کی تلاوت کے وقت اضافۃ رحمت کی دعا مانگنا چاہیے ۔

١٤۔الفاظ قرآنی جو مخصوص مخارج کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں لہذا حسین آواز کے ساتھ صحیح مخارج سے ادا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔

١٥۔ آیات کو ترتیل (ٹھہر ،ٹھہر )کے ساتھ پڑھنا چاہیے ۔

١٦۔تلاوت سے پہلے شیطان کے شر سے محفوظ رکھنے کی خدا وند عالم سے دعا کرنا چاہیے (اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم )

١٧۔ قرآن ایک باعظمت اور نہایت درجہ کی حامل کتاب ہے لہذا ان تمام مکانات میں جہاں اس کی بے احترامی ہوتی ہو وہاں اجتناب کرنا چاہیے ۔جیسے گلی کوچوں میں ۔

١٨۔غسل جنابت ،یاغسل حیض یا نفاس واستحاضہ کے ہوتے ہوئے تلاوت کرنا اگر چہ جائز ہے لیکن سات آیات سے زیادہ کی تلاوت کرنا مکروہ ہے واضح رہے کہ جن سورتوں میںواجب سجدے ہیں کہ جنہیں سورہ عزائم بھی کہا جاتا ہے مذکورہ غسلوں کے ساتھ ان کی تلاوت کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔

١٩۔ قرآن کی تلاوت کے وقت وضو کے علاوہ بدن ولباس وغیرہ کا بھی پاک وپاکیزہ ہونا ،بہتر سمجھا جاتا ہے ۔

٢٠۔ تلاوت کلام پاک کے وقت خشوع وخضوع کا ہونا زیادہ مناسب ہے ۔

٢١۔ ایسے حرکات اور سکنات کا انجام دینا جن سے قرآن کی بے حرمتی اور توہین کا باعث ہے ان سے پر ہیز کرنا چاہیے ۔

٢٢۔ قاری قرآن جیسے انداز میںتلاوت کرنا ادا ب تلاوت سمجھا جاتا ہے ، اچھی آوازمیںاور اوقاف وصل کے جگھوںسمیت تجوید قرآن کے قوانین کی روشنی میں تلاوت کرنا بہترہے ۔

٢٣۔ یوںتوتلاوت کلام پاک کے لئے کوئی مخصوص وقت نہیںہے اور کسی بھی وقت میںتلاوت مستحب اورایک نیک عمل ہے لیکن کچھ احادیث میں تاکید کے ساتھ نماز فجر کے بعد تلاوت کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔

٢٤۔ اصحاب رسول (ص) کی سیرت یہ تھی کہ ہر ہفتے میں مکمل قرآن کی تلاوت کرتے تھے ۔اور مہینے میں کم از کم پانچ یا چار مرتبہ پورے قرآن کی تلاوت کرتے تھے اس بنا پر اگر ہم ہر ہفتے میںپورے قرآن کی ایک دفعہ تلاوت نہ کرسکیں تو ہر مہینے میں ایک دفعہ قرآن کی مکمل تلاوت کرنا چاہیے ۔

٢٥۔ ماہ مبارک رمضان جس کو بہار قرآن سے تعبیر کیا ہے ،کم سے کم ہر روز ایک جز قرآن کی تلاوت کرنے کی تاکید کی گئی ہے اورماہ مبارک رمضان سب سے افضل اوربہتر عبادت اور قرآن کی تلاوت کا مہینا قرار دیاگیاہے ۔

٢٦۔ تلاوت کے وقت قرآن کو ہر قسم کی گندہ گی اور بے احترامی سے محفوظ رکھنا چاہیے ۔

٢٧۔قرآن کے کچھ سوروں کو اپنی ذاتی خصوصیات کی بناپر ان سورتوں کو کچھ خاص اوقات میں تلاوت کرنے کی سفارش کی گئی ہے جیسے کہ شب جمعہ کے لئے مخصوص کچھ سورتوں کی تلاوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،اسی طرح ہرروز سونے سے پہلے کچھ سورتوں کا نام لیاگیا ہے جن کی تلاوت کی تاکید کی گئی ہے، مفاتیح الجنان اورثواب الاعمال وعقابہا اورسنن ترمذی جیسی کتابوں کی طرف مراجعہ فرما سکتے ہیں ۔

٢٨۔ اگر کوئی بچہ جو احترام قرآن سے نا آشنا ہو اور تلاوت قرآن کرنا چاہے تو اس کو پہلے سے ہی آداب اوراحترام قرآن سے آگاہ کرنا چاہیے ۔

٢٩۔ کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ تلاوت قرآن فقط مردوں کے ساتھ مخصوص ہے جیساکہ کسی زمانے میںخواتین کا قرآن سیکھنا عیب سمجھا جاتا تھا لیکن اس دور میں انقلاب جمہوری اسلامی ایران کی بر کت سے ایسے اوہام اورخام خیالی کا خاتمہ ہو چکا ہے اورالحمد للہ خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ قرآن سے فیضیاب ہورہی ہیں لہذا خواتین کوبھی تلاوت کے وقت صفائی اوروضواورطہارت کاخاص خیال رکھنا چاہیے ۔

٣١۔ اہل بیت ؑ اطہار ،اصحاب وتابعین سمیت علماء ومجتہدین کی سیرت یہ رہی ہے کہ جب بھی کوئی موقع ملا توقرآن کی تلاوت کرتے تھے ۔یہ عمل قرآن کی تلاوت کی اہمیت اورعظمت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

٣٢۔ اگر کسی بے حرمتی کی جگہ قرآن یا قرآن کا کوئی حصہ یا کوئی جملہ پڑا ہواہو تو اس کو فورا کسی پاک اورپاکیزہ جگہ پر رکھنا چاہیے ۔

٣٣۔ پورے عالم بشریت کاضابطہ حیات کا نام قرآن ہے لہذا زیادہ سے زیادہ اس کی تلاوت اور مفاہیم کو درک کرنے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ دنیا وآخرت کے حقائق سے قرآن کی روشنی میںآگاہی حاصل کرسکیں ،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا ضابطہ حیات انسانی کو اس دور میںہم فقط اموات کی فاتحہ خوانی تک محدود رکھے ہوئے ہیں۔ !

مذکورہ تمام نکات اورمطالب اصول کافی جیسی گرانبہا کتابوںمیںآئی ہوئی احادیث کا نچوڑ اورخلاصہ ہے ،مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں (١ )

الف: تلاوت کلام پاک کی اہمیت قرآن کی روشنی میں :

حضرت پیامبر گرامی کے مبعوث ہونے کا فلسفہ ہی قرآن کی تعبیر میں''یتلوعلیہم آیاتنا ویزکیھم ''ہے جس سے تلاوت کلام پاک کی اہمیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔ (٢ )

نیز کچھ آیات کی تفسیر اس طرح کی ہے ''ان الذین یتلون کتاب اللہ ''

'' یعنی جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں وہ اللہ کے فضل وکرم کے امید وار ہیں

'' یا رسول من اللہ یتلو صحفا مطہرۃ ''خداکے رسول (ص) جو پاک اوراق پڑھتے ہیں '' (٣ )

قرآن کی تلاوت کے بارے میں قرآن کریم میں بہت سی آیات موجود ہیں ان

.............................

( ١ ) اصول کافی ج٢ باب فضل القرآن ،بحارالانوار کتاب القرآن

( ٢ ) سورہ جمعہ (٣)سورہ بینہ

سے نہ صرف اہمیت وعظمت واضح ہوجاتی ہے بلکہ قرآن کی تلاوت کے فوائد اورنتائج سے دنیا اورآخرت میں مستفیض ہونے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔

ب: تلاوت کلام پاک سنت کی روشنی میں :

ہماری گفتگو زیادہ تھکا دینے والی اور لمبی نہ ہو جائے اس لئے صرف چند ایک روایات اوراحادیث کی طرف فقط اشارہ کرنے پر اکتفاکروںگا اگر کوئی تفصیلی معلومات کے خواہاں کا تو کتب ذیل کی طرف رجوع کرسکتاہے ۔( ١ )

حضرت امام جعفر صادق -نے فرما یا :

'' علیکم تلاوۃ القرآن فان درجات الجنۃ علی عدد آیات القرآن فاذاکان یوم القیامۃ یقال لقاری القرآن وأقراء وارق فکما قرأآیۃ رقی درجۃ ''''تم قرآن کی تلاوت کرو کیونکہ جنت کے درجات قرآنی آیات کی تعداد کے برابر ہیں جب قیامت بر پا ہوگی تو کلام پاک کی تلاوت کرنے والے سے کہا جائے گا پڑھو اوراپنے درجات میں اضافہ کرتے جاؤ لہذاجب وہ ایک آیت کی تلاوت کرتا ہے تو اسکا ایک درجہ بلند ہوتا ہے ۔!(٢ )

.............................

( ١ ) بحارالانوار کتاب قرآن ،اوراصول کافی ج ٢باب فضل القرآن

( ٢ ) البیان ص ٣٤

نیز حضرت پیامبر اکرم (ص) نے فرمایا :

'' من قرأ من کتاب اللہ تعالی فلہ حسنۃ والحسنۃ عشر امثالہا لا اقول'' الم ''حرف ولیکن الف حرف لام حرف ومیم حرف ''''اگر کوئی کتاب اللہ کی ایک حرف کی تلاوت کرے تو اسے ایک نیکی کاثواب دیا جاتا ہے اورنیکی کا دس ثواب ہواکرتا ہے ،میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اورمیم ایک حرف ہے ۔(١)۔

تفسیر وتحلیل :

قلت وقت کی وجہ سے قارئین محترم کی توجہ کو تلاوت کی اہمیت پر دلالت کرنے والی آیات اوراحادیث کے بارئے میںمفصل کتابوں کی طرف مبذول کرتا ہوںرجوع کیجیے ،تاکہ تلاوت کلام پاک کی اہمیت اورعظمت سے آگاہ ہوسکیں ۔

مذید روایات کے متعلق تفسیر درمنثور،تفسیر قرطبی کی طرف رجوع کریں مذکورہ روایات کا مقصد قرآن کی تلاوت کی عظمت کو بیان کرنا ہے ،حتی بعض روایات میںصاف لفظوں میںبیان ہوا ہے کہ جب قاری قرآن کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو نکیر ومنکر جو اللہ کی طرف سے میت کو قبر میں رکھنے کے بعد سولات کے لئے مامور ہیںپوچھنے کے لئے آتے

.............................

( ١ ) اصول کافی ج ٢باب فضل القرآن

ہیں اورسولات کے وقت سختی سے پیش آئیںگے اس وقت یہی قرآن ہے جس کی اس نے تلاوت کی تھی نکیر ومنکر سے سفارش کرتا ہے اورکہتا ہے کہ تم اس پر سختی نہ کرو یہ وہی شخص ہے جس نے میری تلاوت کی ہے (١ )

لہذاقرآن قبر میں ہمارئے شفیع قیامت کے ہولناک سختیوں کے وقت نور کی شکل میں ہماری سفارش کے لئے آنی والی واحد کتاب ہے جسکی ہر وقت تلاوت کرنا چاہیے تبھی تو احادیث معصومین میں اس شخص کی مذمت کی گئی ہے کہ جس کے گھر میںقرآن ہو لیکن اس کی تلاوت نہ ہوتی ہو ۔

قرآن فہمی کے لئے درج ذیل علوم کی ضرورت ہے :

الف : علم تجوید : علم تجوید وہ علم ہے جس میں ایسے قوانین اورقاعدہ کلیہ سے بحث کی گئی ہے کہ جس سے قرآن کے الفاظ کے صحیح تلفظ اورصحیح مخارج کی ادائی گی کی مدد ملتی ہے ،اس کے علاوہ آواز کی خوبصورتی کی مشق بھی کرائی جاتی ہے تاکہ قرآن کی تلاوت کو خوبصورت آواز میںتلاوت کرسکے ۔

ب: علم اللغۃ : جس میںقرآن کے ہر الفاظ کے لغوی اور اصطلاحی معانی سے اگاہ کیاجاتا ہے تاکہ ہم قرآن کو سمجھ سکیں ۔

.............................

( ١ ) ثواب الاعمال وعقابہا

ج : علم الادب : جس میں نحو وصرف کے قوانین اورفارمولوں سے آگاہ کیاجاتاہے تاکہ قرآن جس پاک اوربلند اہداف اورمقاصدکے لئے نازل ہوا ہے وہ آسانی سے معاشرے میں پیش کرسکیں ۔

د: تفسیر : جس میں آیات اورروایات عقل اوردیگر علوم کے اصول وقوانین کے آیات کی شان نزول اور الفاظ کے ظاہری اورباطنی معانی کی وضاحت کی جاتی ہے تاکہ قرآن کے حقائق سے ہر ایک فیضیاب ہوسکے ۔

اوراسی طرح ایسے علوم کو بھی فہم قرآن کے لئے سیکھنا چاہیے کہ جن کو علوم آلی یاخادم العلوم سے تعبیرکیا گیا ہے جیسے ، المنطق ،یاحکمت وغیرہ۔

یہ علوم قرآن فہمی کی راہ میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ،لہذامدارس دینیہ اورحوزات میںجسطرح ایسے علوم کو بنیادی طورپریادکیا جاتا ہے اس طرح دیگرتمام اسلامی مراکز میں بھی ترویج کرناچاہیے تاکہ قرآن کے پیغام سے تمام مسلمان حضرات معاشرتی اور انفرادی زندگی میں فیضیاب ہوسکیں ۔

عظمت قرآن نظم کی صورت میں :

قرآن رب کی خاص عنایت کا نام ہے

قرآن نظم وضبط شریعت کا نام ہے

قرآن ایک زندہ حقیقت کا نام ہے

قرآن زندگی کی ضرورت کا نام ہے

قرآن اک کتاب الہی جہاں میں ہے

قرآن کے بغیر تباہی جہاں میںہے

قرآن کردگار کی رحمت کا نام ہے

قرآن ذوالجلال کی عظمت کا نام ہے

قرآن اہل بیت رسالت کا نام ہے

قرآن ہی تو مقصدبعثت کا نام ہے

نازل کیا ہے اس کو خدائے جلیل نے

پہنچایاہے رسول تلک جبرئیل نے

قرآن انبیاء کی کہانی کا نام ہے

قرآن لامکاںکی نشانی کانام ہے

قرآن دین حق کی روانی کانام ہے

قرآن مصطفی کی جوانی کا نام ہے

قرآن کے علم کی نہیںحد بے پناہ ہے

قرآن اک کتاب نہیںدرسگاہ ہے

قرآن ہے نبی کی نبوت کامعجزہ

قرآن ہے خدا کی صداقت کا معجزہ

قرآن ہے رموز کی کثرت کا معجزہ

قرآن آج بھی ہے بلاغت کا معجزہ

ایسی کوئی کتاب نہیںکائنات میں

قرآن کا جواب نہیںکائنات میں

تعظیم اس کتاب کی حق کے ولی نے کی

کعبے میںسب سے پہلے نبی کے وصی نے کی

قبل نزول اس کی تلاوت علی (ع)نے کی

تصدیق اس کلام کی میرے نبی نے کی

قرآن وا ہلبیت کا یہ اتصال ہے

قرآن ہو علی (ع)کے بنا یہ محال ہے

قرآن کو گروہ میں بٹ کر نہ دیکھئے

لفظ ومعانی اس کے الٹ کر نہ دیکھئے

اوراق اس کے صرف پلٹ کر نہ دیکھئے

قرآن کو اہلبیت سے ہٹ نہ دیکھئے

قرآن دن حق کی ضرورت کا نام ہے

قرآن اہلبیت کی سیرت کا نام ہے

ہے ذکر نوح کا کہیں آدم کا تذکرہ

عیسی کا ذکر ہے کہیں مریم کا تذکرہ

ہے جابجا رسول مکرم کا تذکرہ

اور ہے کہیں پہ خلقت عالم کا تذکرہ

ہجرت کا تذکرہ کہیں ذکر غدیر ہے

ہے ذکر فاطمہ کہیں ذکرامیر ہے

حالات کے لحاظ سے آتی ہیں آیتیں

گھرمیںکبھی جہاد میں اتری ہیں آیتیں

ان میں جو بیشتر ہیں وہ مکی ہیں آیتیں

مطلب کے اعتبار سے گہری ہیں آیتیں

چھوٹی بھی درمیانی کڑی بھی ہیں آیتیں

بعض ان میں نرم بعض کڑی بھی ہیں آیتیں

قرآن کیا ہے خالق اکبر سے پوچھئے

اس کی گرانی قلب پیمبر سے پوچھئے

یاپھر رسول (ص) ہی کے برادر سے پوچھئے

جس گھر کی بات ہے یہ اس گھر سے پوچھئے

قرآن اہلبیت نبی کے سوانہیں

قرآن اہلبیت سے ہرگز جدا نہیں

اس کے بغیر صاحب ایمان نہیں کوئی

اس کے بغیر اعلم دوراں نہیں کوئی

اس کے بغیر دین کا سلطان نہیںکوئی

حد ہے بغیر اس کے مسلمان نہیں کوئی

اس کے بغیر جہل ہے سب شش حیات میں

اس کے بغیر کچھ بھی نہیںکائنات میں

خالق کی لمحہ بھر ہی اطاعت رکی نہیں

خنجر تلے بھی رب کی عبادت رکی نہیں

تبلیغ دین حق کی اشاعت رکی نہیں

نیزے پہ سر تھا پھر بھی تلاوت رکی نہیں

قرآن اہلبیت سے کتنا قریب ہے

قرآن واہل بیت کا رشتہ عجیب ہے

قرآں اگر قمر ہے تنویر ہے رسول (ص )

قرآں اگر ہے لوح تو تحریر ہے رسول (ص )

قرآں اگر ہے لفظ تو تعبیر ہے رسول (ص )

قرآں اگر ہے قول تو تفسیر ہے رسول (ص )

قرآن معجزہ ہے تو معجزنما رسول (ص )

قرآن راہ روہے تو ہے راہنما رسول (ص )

قرآں اگر ہے علم تو پیکر رسول (ص)ہے

قرآں ہے گر سفینہ تو لنگر رسول (ص)ہے

قرآں ہے گر طریق تو رہبر رسول (ص) ہے

قرآن فیصلہ ہے تو داور رسول (ص) ہے

قرآں اگر ہے نور تو پرتورسول (ص)ہے

قرآںہے گر چراغ تو پھر لورسول ؐ ہے

تحریر کیا ہواس کے فضائل کے باب میں

ہیںکتنے ترجمے یہ نہیںہے حساب میں

پھربھی چھپے ہیںمعانی حجاب میں

ضیغم یہی دعاہے خداکی جناب میں

جب تک کہ اس جہاںمیںمیری زندگی رہے

قرآن واہل بیت سے وابستگی رہے

( بہار قرآن )

خالق کا ہے کلام یہ مخلوق کا نہیں

پھر کیسے کوئی عیب ہوایسے کلام میں

ہر چیز کی بہار ہے موسم ہر اک کا ہے

قرآن کی بہار ہے ماہ صیام میں

( نتیجہ فکر سید ضیغم عباس نقوی ضیغم بارہ بنکوی )

فضیلت قرآن :

اس عنوان کو مندرجہ ذیل عناوین میںتقسیم کرسکتے ہیں :

١۔ قرآن کی عظمت قرآن کی روشنی میں

٢۔ قرآن کی عظمت سنت کی روشنی میں

٣۔ قرآن کی عظمت عقل کی روشنی میں

٤۔ قرآن کی عظمت اجنبی کی زبان سے

ان عناوین کی مفصل بحث کے لئے مکمل ایک جلد کتاب درکار ہے لہذاہماری اس مختصر گفتگو میں ان سے مفصل لب کشائی کی گنجائش نہیں ہے بلکہ فقط اشارہ کر کے اپنے اغراض کوخاتمہ کی طرف سمیٹ لوں گا ۔

الف : قرآن کی عظمت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ''ذالک الکتاب لاریب فیہ ''اس کتاب میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ''یا فرما یا ہے کہ قرآن نور ہے قرآن ذکر ہے قرآن ہدایت کنندہ کتاب ہے قرآن حق ہے ،ان جیسے الفاظ سے قرآن کی فضیلت قرآ ن کی رو سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔لیکن قرآن کی فضیلت کو قرآن کی روسے ثابت کرنا اشکال اوردورجیسے اعتراض سے دوچار ہے لہذا اس کی تفسیر اورتحلیل سے اجتناب کروں گا ۔

ب: فضیلت قرآن سنت کی روشنی میں ثابت کرنے کے لئے کتب ذیل کی طرف رجوع

کرسکتے ہیں (١ )

حضرت پیامبر اکرم (ص) نے فرمایا قرآن حبل المتین ہے یعنی مضبوط رسی ہے عروۃ الوثقی ہے یعنی مضبوط وسیلہ ہے ''ان ہذاالقرآن ہو النور المبین ''''یعنی بتحقیق یہ کتاب واضح روشنی ہے ''ومن اشتشفی بہ شفا ء اللہ ''''اگرکوئی شخص قرآن سے شفا مانگے تو خدا وند اسے شفا عطا فرماتا ہیں ''

مولی امیر المومنین کی زبان سے عظمت قرآن کو ثابت کر نا چاہیں تو نہج البلاغہ میں کئی خطبوں اورکچھ ناموںمیںاشارہ فرمایا ہے رجوع کیجیے ۔ (٢ )

آپ نے فرمایا اللہ نے قرآن کو مجتہدین اورصاحب نظر علماء کے دلوں کے لئے بہار باطنی تشنگی کے لئے سیرابی قرار دیا ہے قرآن ایسا چراغ ہے کہ جس کی لوکبھی خاموش نہیںہوتی، قرآن ہر امراض کے لئے باعث شفا ہے ۔

نیز دیگر أئمہ معصومین کی زبان قرآن کی عظمت سے مطلع ہونے کے لئے اصول کافی جلد دوم کتاب فضل القرآن میںبیسوں صحیح السند احادیث موجود ہیں رجوع فرمائیں

.................................................

( ١ ) بحار الانوار کتاب فضل القرآن ، اور اصول کافی ٢فضل القرآن )

( ٢ ) نہج البلاغہ

نیز تفاسیر کی کتابوں میںقرآن کی فضیلت اورعظمت پر دلالت کرنے والی بہت سی احادیث اورروایات کو نقل کیاہے ۔ (١ )

ج: عقل کی روسے قرآن کی عظمت کو ثابت کرنے میں مندرجہ ذیل نکات کافی ہیں ،کہ عقل ہر چیز کی خوبی اوربدی اورکائنات کے حقائق کو درک کرنے کی صلاحیت اورطاقت کا نام ہے جس کی نظرمیںقرآن ایک ایسا بحر بیکراں ہے جس کی تہہ تک کوئی غواص نہیں پہنچ سکتا ہر غواص اس علم کے دریاسے کسب فیض حاصل کرسکتا ہے کیونکہ عقل کی نظر میں قرآن تمام کتب آسمانی کا نچوڑ اورخلاصہ ہونے کے علاوہ کائناتی تمام علوم کا مجموعہ بھی ہے لہذا ہر بشر قرآن سے مستفید ہوسکتا ہے مسلمان ہو یانہ ہو ماہر اخلاقیات ہویانہ ہو ،معاشیات کا ماہر ہویا نہ ہو عالم ہو یا جاہل ،فقیہ ہو یا نہ ہو سائسدان ہو یانہ ہو فزیک دان ہو یا نہ ہو ہرایک اپنی صلاحیت کی حیثیت سے قرآن سے استفادہ کرسکتا ہے کیونکہ اس کائنات کو خلق کرنے کے بعد اللہ نے ہی بشر کو علم سے فیضیاب کیا ہے ورنہ انسان ذاتی حوالے سے جاہل محض ہے اللہ نے ہی پیامبروں کے ذریعے علم وحلم اوردیگر فنوں اورہنروں سے مالامال فرمایا ہے لہذاآج اگر انسان کسی فیلڈمیںپڑھے لکھے یا ہنر مند سمجھا جاتا ہے تو یہ اللہ کی مرہون منت ہے کہ جس نے ہر دور میں بشر کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے ہدایت یافتہ ،ہنر مند ہستیوں کو مبعوث فرمانے

..................................

( ١ ) تفسیر بیضاوی ، تفسیردر منثور ،تفسیر صافی والمنار

کے ساتھ ایسا دستور العمل بھی بھیجاکہ جو اپنے دور کے تمام علوم کا مجموعۃتھا ، ان باتوں کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کائناتی تمام علوم کاسر چشمہ ذات باری تعالی ہے لیکن ہردور

کے ملحدین اورغاصبین اللہ کی بھیجی ہوئی کتابوں سے فنون اورہنروں کے اصول وضوابط کو ہڑب کرتے تھے اوراس کو اپنی ذاتی کوشش اورصلاحیت کا نتیجہ سمجھتے تھے اورکہا کرتے تھے کہ ہم نے علم فزیک سائنس اورٹیکنالوجی کے قوانین ریاضی کے فارمولوں کو ایجاد کیاہے،اور ہم نے ہی کہکشانوں کی خاصیت زمین وآسمان، سورج اورچاند اورستاروں کے چھوٹے وبڑئے تمام اسرار کو انکشاف کیاہے جو اس مادی زندگی کی فلاح وبہبود کے لئے بہت ہی ضروری ہے ۔

لہذا وہ لوگ ادیان الہی کو بدنام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دین یعنی خشک تقدس اورترک دنیا وتقوی کا مجموعۃ ہے جس میں نہ کوئی فن اورہنر کے اصول وضوابط کا ذکرملتا ہے نہ کوئی لوازمات زندگی کے انکشافات کے فرمولے موجود ہیں نہ کوئی سائنسی تحقیقات اورایجادات کی تفسیراور وضاحت ہے لہذاان کی نظر میں دین اور مذہب تمام چیزوں سے محروم فقط کچھ رسومات کو انجام دینے کا نام ہے ،جبکہ آدم سے قائم تک کے ادیان الہی کابغور مطالعہ کریں تو بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ ہر دور میںنظام الہی ہی بشر کے تمام احتیاجات پر مشتمل اصول وضوابط کا مجموعہ رہا ہے لہذا ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ تم کوئی ایسا فرمولہ پیش کروجو کسی کتب آسمانی سے نہ لیاگیا ہو !فقط کتب آسمانی کے علوم کو ھڑب کر کے اپنے نام

پر ثبت کر نے سے خالق اورایجاد کنندہ نہیں بن سکتے ۔

اور قرآن کریم تمام کتب آسمانی جو ایک سوچودہ کتابیں بتائی جاتی ہیں ان تمام علو م کا ایک سمندر ہے جس سے ہر بشر اپنی نیاز مندی اوراحتیاجات کو دور کرسکتاہے ،فلاسفر کے لئے فلسفی اورعقلی فارمولے،ماہرین اقتصاد ومعایشات کے لئے اقتصادی فارمولے ریاضی دان کے لئے ریاضی کے فارمولے فیزیک والوں کے لئے کیماوی اورفیزیک کے نکات سائنسدان کے لئے سائنسی ایجادات اورانکشافات کے قاعدہ وقوانین ،مفکرین کے لئے فکری اورتدبیری ،نکات فقیہ ومجتھدین کے لئے فقہی دستورات ،ادیبوںکے لئے ادبی نکات ،فصاحت وبلاغت والوں کے لئے اپنے رشتے کے حوالے سے جواہر ات سے بھری ہوئی کتاب کانام قرآن ہے ۔

البتہ قرآن میںہر ایک فارمولے اورنکات کا نام جو A یا B کی شکل میںتمام جزیات کا بیان نہیں ہواہے لیکن جزیات کی تشریح اورتفسیر نہ کرنے کا مطلب ہر گزیہ نہیں ہے کہ اس کا قرآن میں سرے سے کوئی تذکرہ نہیںہے، بلکہ ہم خود علوم قرآن سے دورہیں !لہذا ہر دور میں باالخصوص اس دورکے جتنے انکشافات اورایجادات ہیں سب کاتذکرہ قرآن میںموجود ہے لیکن ہماری اپنی کوتاہی اورجہالت اورکم علمی کی وجہ سے ان نکات اورفارمولوںتک رسائی حاصل نہیں ہوپاتی ، کیونکہ ہم نے قرآن فہمی کی کلاسوں میں کبھی شرکت نہیں کی ۔

قرآن کے بارئے میںتدبر اور تفکر کاحکم ،کفار ومشرکین سے لڑنے کا حکم ،عمل صالح کی اتنی اہمیت اورتاکید گذشتہ اقوام اورامتوں کے حالات سے عبرت لینے کی سفارش، آبادی اور نابودی سعادتمندی اورشقاوتمندی کے اسباب وعلل وغیرہ کی طرف اشارہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی رحمت اورقدرت پوری کائنات پرحاکم ہے نیز اللہ نے بارہا صبر وتحمل سے زندگی گذار نے کی تلقین کی ا سے ذراساتوجہ اورگہری نظروں سے غور کریں تو معلوم ہوجا تاہے کہ قرآن ایک ایسا بحربیکراں ہے جس کی تہہ تک بشر کی رسائی نہیں ہو سکتی اس کا مقصد یہ نہیںہے کہ قرآن میںکائناتی علوم کی طرف اشارہ نہیںہوا ہے ، بلکہ ہم نے قرآن کے قیمتی مطالب اورنکات سے استفادہ کرنے کی بجائے اس دور کے ہر حوالے سے محدود افراد کے توہمات اورخرافات سے بھری ہوئی کتابوں سے استفادہ کرنا اپنا مقدر سمجھتے ہیں۔

والسلام

محمد باقر مقدسی ہلال آباد

٢٠ صفرالمظفر ١٤٢٨بوقت ١١شب حوزہ علمیہ قم المقدس

جمہوری اسلامی ایران

منابع وماخذ

١۔ قرآن کریم

٢۔ البرہان --- علی احمد حرائی

٣۔ البرہان فی مشکلات قرآن --- ابو المعالی

٤۔ مجمع البیان ج١ --- شیخ طوسی

٥۔ مناہل العرفان ج ١ص ٣٣٧ --- سبکی

٦۔ اتقان ج ١ ص ١٠٤،١٠٥ --- سیوطی

٧۔صحیح بخاری --- امام بخاری

٩۔ شناخت قرآن --- علی کمالی

١٠۔ تفسیر التبیان --- طوسی

١١۔ کشاف ج١ --- ذمخشری

١٢۔ در منثور --- سیوطی

١٣۔ سنن نسائی --- نسائی

١٤۔ سنن ترمذی ج ٣ ص٩ --- ترمذی

١٥۔ کتاب قیس بن قیس ص ٨١ --- مسلم بن قیس

١٦۔ بحا ر الانوار ج ٤ ج٩٢ --- مجلسی دوم

١٧ ۔ طبقات ج ٣ ص١٣٧ --- ابن سعد

١٨۔ التفسیر التفسیر ج١،ج٢ --- ذہبی

١٩۔ المنارج٢

٢٠۔ سفینۃ البحار ج ٢ ص ١٥٤

٢١۔ اسد الغا بۃ ج١ ص ٢٥٨

٢٢۔ مذاہب التفسیر الاسلامی

٢٣۔ المیزان --- علامہ طباطبائی

٢٤۔ مدخل التفسیر --- آیت اللہ فاضل لنکرانی رحمۃ اللہ علیہ

٢٥۔ ثواب الاعمال وعقابھا --- صدوق

٢٦۔ نہج البلاغۃ --- سید رضی

٢٧۔ تفسیر بیضاوی --- بیضاوی

٢٨۔ الاالرحمن --- بلاغی

٢٩۔ حدائق ج٨ص٩٥ --- بحرانی

٣٠۔ تفسیر طبری ج١ ص٩ --- طبری

٣١۔ خصال ج ٢ ص١١ --- صدوق

٣٢۔ الوافی ج ٥باب اختلاف القرأت

٣٣۔ البیان ج ١ --- خوئی رحمۃ اللہ علیہ

٣٤۔کتاب الفاظ والحروف --- فارابی

٣٥۔ تاریخ عرب قبل الاسلام ج ٨ ص١٨٦

٣٦۔ وفیات الاعیان

٣٧۔ سعد السعود ص١٨١

٣٨۔ قواعد الفقہ ج ٤ ص٧٠ --- بجنوردی

٣٩۔ تفسیر صافی ج ١ ص٥١ --- فیض کاشانی

٤٠۔ احقاق الحق ج ٢ ص١٢٩

٤١۔ کشف الغطاء --- کاشف الغطائ

٤٢۔ حریم قرآن کا دفاع --- جواد فاضل لنکرانی

٤٣۔ سلامت القرآن من التحریف ج ١وج٢ --- محمدی

٤٤۔ الذخیرہ فی علم الکتاب ص٣٦١

٤٥۔ تہذیب الاصول ج ٢ --- تقریرات امام خمینی ؓ

٤٦۔ معالم الاصول ص١٤٧ --- فرزند شہید ثانی

٤٧۔ الفصول المہمہ --- ابن صباغ مالکی

٤٨۔ فضائل قرآن

٤٩۔ تذکرۃ الحفاظ

٥٠۔ محاضرا ت الادباء

٥١۔ اصول کافی --- مرحوم کلینی

٥٢۔ شرائع الاسلام ج ٢ --- محقق

٥٣۔ مسالک ج ٧ --- شہید ثانی

٥٤۔وسائل ج ١٨ --- حر آملی

٥٥۔ سنن بہیقی --- بہیقی

٥٦۔ صحیح مسلم --- امام مسلم

٥٧۔ احیاء العلوم مقدمہ مرأۃ العقول ج ١ --- علامہ عسکری ؓ

٥٨۔ روض الجنان ج١ --- رازی

٥٩۔ مقدمہ ابن خلدون --- ابن خلدون

٦٠۔کنز العمال ج١ --- متقی ہندی