زبان قرآن کی شناخت

آیة اللہ محمد ہادی معرفت

قرآن میں قول

لغت میں ”قول“ وہ بات اور گفتار ہے جو ظاھراً تلفظ ہو یعنی زبان پر جاری ہونے والے کچھ الفاظ جیسے قَالَ، تکلّم، نَطَقَ۔ ”لسان العرب“ میں ہے :

القول:الکلام علیٰ الترتیب، وھوعند المحققین کلُّ لفظٍ قال بہ اللسان تاما کان او ناقصا

قول ترتیب (تالیف)شدہ کلام ہے اور محققین کے نزدیک زبان سے جاری ہونے والا ہر وہ لفظ ہے جو چاہے مکمل(مفید)ہو یا نامکمل (غیر مفید)سیبویہ کہتا ہے :

بسا اوقات اعتقاد اور رائے کو ”قول“کہاجاتا ہے جب کہ وہ مجازی مفہوم ہے اس لیے کہ عقائد اور رائے میں مخفی امر یا قول کی جگہ لینے والی چیز کو قول و لفظ کے ذریعے سے ہی معلوم کیا جاتا ہے، گویا وہ مخفی رائے اور عقیدہ قول کا سبب ہے اور قول اس کی دلیل چنانچہ یہی تعلق (سبب ہونا اور مدلول پر دلالت کا سبب بننا)ہی عقیدے اور رائے پر قول کے اطلاق کا موجب بنتا ہے ۔

اگر کہا جائے کہ جس طرح قول کو عقیدہ سے” کنایة“اخذ کیا گیا ہے اسی طرح کلام کو بھی عقیدے کی علامت قرار دیا جاتا مگر کبھی بھی کلام کو قول کی جگہ عقیدے اور رائے کے مفہوم میں استعمال نہیں کیا گیا آخر کیوں؟

توجواباًکہاجائے گاکہ اس بنا پرہے کہ قول کلام کی نسبت عقیدے سے زیادہ نزدیک ہے اس لیے کہ اس ناقص اورغیرمستقل کلام پربھی ”قول“کااطلاق ہوتاہے جومفید(کلام)ہونے کیلئے اپنے تکملہ کا محتاج ہوتا ہے جیسے وہ جملے ہیں جو اپنے بقیہ(جملوں)کے محتاج ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر قول کا اطلاق درست ہے جبکہ ان پر کلام کا اطلاق صحیح نہیں اسی طرح عقیدہ وہ ہے جو کہ اپنی افادیت ظاہر کرنے کے لیے اس عبارت اور الفاظ کا محتاج ہوتا ہے جو اسے نمایاں کر سکیں ۔

مختصر یہ کہ قول میں اظہار عقیدہ کا پہلو ہوتا ہے جو کہ عقیدے اور رائے کی جگہ بروئے کار لایا جاسکتا ہے اور محض تلفظ،نطق اور سخن کا مفہوم نہیں لیکن کلام صرف اور صرف سخن (گفتگو)ہے یہی وجہ ہے کہ”قول“غیر انسان کے لیے بھی استعمال ہو سکتاہے جیساکہ شاعر نے کہا ہے ۔

قالت لہ الطیّرتقدم راشداً

انَّک لا ترجع الّٰا حامداً

ایک اور شاعر نے کہا :

قالت لہ العینان سمعاً وطاعة

وحدرتا کالدر لما یثقب

ایک اورقول ہے :

اِمْتَلَاَءَ الحَوْضَ وقال قَطْنی

مذکورہ بالا ان تمام مثالوں میں زبان حال مراد لی گئی ہے نہ کہ زبان مقال۔

راغب اصفہانی کہتا ہے اگرچہ”قول“ کو کئی طرح سے بروئے کار لایاجاتا ہے تاہم ان میں سے نمایاں ترین قول وہ لفظ ہے جو حروف کا مرکب ہو اور نطق کے ذریعے انجام پائے چاہے وہ مفرد ہو یاجملے کی صورت میں ہو(دیگر مواقع جہاں قول کو بروئے کار لایا جاتا ہے درج ذیل ہیں )

۲ لفظوں میں اظہار سے قبل ذہن میں متصور (قول)جیسا کہ اس آیت میں ہے کہ

وَیَقُوْلُوْنَ فِیْ اَنْفُسِھِمْ لَوْلَا یُعَذِّ بُنَا اللّٰہُ۔ (سورہ مجادلہآیت ۸ )

” اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اگر وہ واقعی رسول ہے تو پھر اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا “

یہاں لوگوں نے اپنے دلوں میں جو گمان رکھا اس کے تصور کو قول کا نام دیا گیا ہے

۳ صرَفِ اعتقاد: چنانچہ کہا جاتا ہے کہ فلان شخص نے حضرت ابو حنیفہ کے قول کو اپنا یا یعنی ان کی رائے کو پسند کر کے ان کا ہم عقیدہ بن گیا ہے

۴ مطلق دلالت: مطلق دلالت کو بھی قول کہتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ :

امتلاء الحوض وقال قطنی

یعنی حوض بھرا ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ میرے لیے کافی ہے

۵ کسی ایسی چیز سے لگاو جو راسخ عقیدے تک پہنچا دےجیسے یہ کہا جائے کہ فلان شخص اس طرح کے قول کا حامل ہے یا جیسے” فلان یقول کذا“ یعنی فلان شخص یوں کہتا ہے اس لیے کہ یہ انقصاص ہی اسے اس قول تک پہنچاتا ہے ۔

۶ اہل میزان علمائے منطق کی اصطلاح بھی قول کہلاتی ہے جیسے قول جوھر،قول عرض ہے جنہیں مقولات یعنی موضوعات میں شمار کیا جاتا ہے ۔

۷ قول الہام کے معنوں میں بھی آیا ہے جیسے اس آیت میں آیا ہے کہ :

قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّا اَنْ تُعَذِّبَ وَاِمَّا اَنْ تَتَّخِذَ فِیْھِمْ حُسْنًا۔

( سورہ کہف :آیت ۸۶ )

ہم نے کہا اے ذوالقرنین تمہیں اختیار ہے چاہے انہیں سزا دو اور چاہے ان سے حسن سلوک اختیار کرو۔

اس لیے کہ یہ گفتگو خطاب کی صورت میں نہیں بلکہ الہام اور القائے باطنی تھااسی طرح یہ آیت ہے کہ

ذٰلِکَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ۔ (سورہ مریم:آیت ۳۴ )

یہ ہے مریم کے بیٹے عیسٰی کا سچا قصہ جس میں یہ لوگ خواہ مخواہ شک کرتے ہیں ۔

اس آیت میں عیسیٰ( ۴) کو قول حق کا نام دیا گیا ہے اسی طرح ایک اور آیت میں انہیں کلمہ سے تعبیر کیا گیا

کَلِمَتُہ اَلْقٰہَآ اِلٰی مَرْیَمَ۔ (سورہ نساء:آیت ۱۷۱ )

یہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف کہ

اِنَ مَثَلَ عِیْسَی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنَ۔ (سورہ آل عمران :آیت ۵۹ )

قرآن میں بھی ”قول“ کی اصطلاح کا غیر انسانوں کے لیے استعمال ہوا ہے قطع نظر اس امر کے کہ انہیں مخاطب قرار دیا گیا ہے یا ان سے قول کو نقل کیا گیا ہے ۔

ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآءِ وَھِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَاطَوْعًا اَوْکَرْھًا قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ۔ (سورہ فصّلت:آیت ۱۱ )

پھر اس نے آسمان کی طرف قصد کیا درآنحا لیکہ وہ دھواں تھا پس اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں معرض وجود میں آؤ خوشی یا کراہت سے ۔ دونوں نے کہا ہم اپنی خوشی سے بات ماننے والے ہو کر آئے ہیں ۔

یہاں زمین و آسمان سے کہنے اور زمین و آسمان کے کہنے سے کیا مراد ہے ؟

علامہ طباطبائی قدس سرّہ نے لکھا ہے کہ یہاں وہی مقصود ہے جو سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۷ میں بیان ہوا کہ

” بَدِیْعُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاِرْضِ وِاِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ۔ "

وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا طے کر لیتا ہے تو وہ صرف کن(ہوجا)فرماد یتا ہے اور وہ(کام)ہو جاتا ہے ۔

اسی طرح سورہ یٰسیں کی آیت ۸۲ میں ارشاد ہوا ہے کہ :

” اِنَّمَا اَمْرُہ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ۔

بتحقیق اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے کہ اس کے لیے کن ہو جا فرما دیتا ہے اور وہ کام ہوجاتا ہے ۔

ان دونوں آیات کریمہ میں باطنی ارادے اور خواہش کے اظہار کو بطور کنایہ قول سے تعبیر کیا گیا ہے چاہے وہ جس طرح سے بھی ہو لہذا قول(کہنا)لفظ سے نہیںیہاں کسی قسم کی گفتگو (طرفین میں)نہیں تھی سوائے اس کے کہ یہ گفتگو باطنی ارادہ و خواہش کے اظہار اور بیان کرنے والی ہے اس لیے ہر وہ گفتگو جو ارادے اور خواہش کے اظہار کا باعث بنے اسے قول کہا جاتا ہے اس کا لازمہ وہ مقصود ہوتا ہے جس سے اظہار مراد ہو۔

” یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَھَنَّمَ ھَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ۔ (سورہ ق:آیت ۳۰ )

اس دن جب ہم دوزخ سے کہیں گے کیا تو بھر چکی ہے اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟

یہاں بھی سخن وگفتار کا کوئی وجود نہیں بلکہ جو کہا گیا وہ زبان حال ہے دوزخ میں موجود گنجائش کے اندازہ کی طرف اشارہ ہے ۔ جس قدر بھی اس میں ڈالا جائے گا اس میں اضافہ نہیں ہو گا اور یہ قول ان لوگوں کے رد میں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کیا جہنم میں اتنی گنجائش ہے کہ یہ سارے کفار اس میں ڈالے جا سکیں

” وَقِیْلَ یٰاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَ کِ وَیٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقُوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔

( سورہ ھود:آیت ۴۴ )

” اور کہا گیا اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان تو تھم جا اور پانی زمین میں جذب ہو گیا اور معاملے کا فیصلہ کردیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور کہہ دیا گیا کہ ظالموں کی قوم کے لیے ہلاکت ہو۔ "

اس قول میں خدا کے ارادے اور خواہش کا اظہار کیا گیا ہے ۔

اسی طرح یہ آیت ہے کہ :

” قُلْنَا یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلیٰ اِبْرٰہِیْمَ۔ (سورہ الانبیاء:آیت ۶۹ )

یہاں بھی صرف اور صرف ارادہ پروردگار کا اظہار ہے چنانچہ اس آیت کا مفہوم اس طرح ہے کہ ہم نے چاہا کہ آگ ٹھنڈی رہے اور سلامتی کا باعث رہے چنانچہ ایساہی ہوا یہاں لفظ ”کونی“(ہو کر رہے) کو بروئے کا رنہیں لایا گیا

اسی طرح

” اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَالْمَوْتِ فَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاھُمْ۔ (سورہ بقرہ :آیت ۲۴۳ )

” کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلتے تھے اور وہ کئی ہزار تھے بس اللہ تعالیٰ نے ان کو فرمایا کہ مر جاو پھر انہیں زندہ کیا گیا۔ "

اس آیت میں بھی قول صرف ان کی موت سے متعلق ارادہ پروردگار سے عبارت ہے اور

” قال لھم موتوا “

ان سے کہا مر جاو۔

اور ”واحیاھم“(اور انہیں دوبارہ زند ہ کیا )کے درمیان کو ئی فرق نہیں یعنی ایسانہیں کہ

” اما تھم ثم احیاھم “

یعنی پہلے انہیں موت دی پھر زندہ کیا۔

یا پھر یہ کہ

” قال لھم موتوا ثم قال لھم احیوا

یعنی پہلے انہیں کہا مر جاو پھر کہا کہ زندہ ہو جاو۔

بلکہ ارادہ پروردگار ان کے مرنے کے بعد انہیں زندہ کرنے سے بھی متعلق تھا اور اسی کا اظہار کیا گیا ہے ۔

قرآن میں حیوانات کی طرف قول کی نسبت بھی اسی بنیاد پر ہے یعنی باطنی خواہش کا اظہار چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے ہواگرچہ کوئی ایسی دلیل موجود نہیں کہ وہ اظہار کسی لفظ یا صدا یعنی موت سے انجام پذیر ہوا ہو

چیونٹی کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ :

” قَالَتْ نَمْلَةٌ یٰاَیُّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لاَ یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہ وَھُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ۔ (سورہ نمل:آیت ۱۸ )

” ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیواپنے اپنے بلوں میں گھس جاو ایسانہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں روند ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔ "

ظاہر ہے کہ اس طرح کی گفتگو انسانوں میں ہوتی ہے حیوانات میں بنیادی طور پر ایسی گفتگو نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے پیغامات ہوا کی لہروں سے لیتے اور دیتے ہیں اور ان(حیوانات) سے الفاظ یا آواز وغیرہ ظاہر نہیں ہوتی

یہی صورت حال حضرت سلیمان کے لیے پیغام لانے والے ”ھد ھد“ کے بارے میں ہے چنانچہ یہ ارشاد ہوا کہ :

” فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَاٍ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ o اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِکُھُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیِءٍ وَّلَھَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ o وَجَدْ تُّھَا وَقَوْمَھَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ۔

( سورہ نمل :آیت ۲۲ تا ۲۴ )

” پھر زیادہ دیر نہ ہوئی کہ وہ آگیا پھر کہنے لگا میں نے ایسی بات معلوم کی جو تمہیں معلوم نہیں اور میں (ملک) سبا سے تمہارے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں میں نے ایک عورت کو پایا جو ان پر حکومت کرتی ہے اور اسے ہر چیز سے حصہ دیا گیا ہے اور اس کے لیے بڑا شاہی تخت ہے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کی بجائے سورج کی پرستش کرتے پایا۔ "

کیا یہ کلام بالمشافہ، لفظی یا تکلم کے ذریعے تھا۔ ہرگز ایسا نہیں اس لیے کہ حضرت سلیمان نے خود فرمایا کہ :

” وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاودَ وَقَالَ یٰاَیُّھَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ۔ (سورہ نمل:آیت ۱۶ )

” اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا اس نے کہا:اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا اور یقینا یہ کھلم کھلا فضیلت ہے ۔ "

یہ حضرت سلیمان پر اللہ تعالیٰ کی عنایت تھی کہ وہ حضرت داؤد کے وارث قرار پائے اور انہیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی یعنی انہیں اس بات پر قدرت عنایت ہوئی کہ وہ پرندوں کے پیغامات کو جان سکیںایساہر گز نہیں کہ پرندے انسانوں کی طرح باتیں کرتے ہوں ۔ لہذا وہ چیز جو کسی کا پیغام یاکسی کی خواہش دوسرے تک پہنچانے کا ذریعہ بنے اسے قول کہا جاتا ہے اور پیغام کا وصول کرنا ویسے ہی ہے جیسے کسی کی گفتگو سننا۔

ملائکہ اور شیاطین سے منسوب قول بھی اسی نوعیت کا ہے جیسے کوئی پیغام بھیجنا یا موصول کرنا ہے اور اس ضمن میں ہر گز یہ خیال نہیں کرنا چا ہیے کہ وہ (قول)انسانوں کے قول کی مانند ہو گا اس لیے کہ یہ قیاس مع الفارق ہے اور یہ امرلازمی ہے کہ مجردات کا مادیات پر قیاس نہ کیا جائے اور حیوانات کے بولنے کو انسانوں کی گفتگو جیسانہ سمجھا جائے ۔

انسان کے پاس اپنے باطنی پیغام کو بھیجنے اور وصول کرنے کے مخصوص وسائل ہیں جبکہ دیگر مخلوقات کے پاس بھی اپنے مخصوص وسائل ہیں اس لیے ضروری ہے کہ مخلوقات و موجودات کی مختلف انواع کو جو ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں یکساں خیال نہ کیا جائے یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ انسان ہر چیز کا اپنی ذات پر ہی قیاس کرے اور سب کو اپنے جیساسمجھے شاید اس طرح کی سوچ کا سرچشمہ خود پسندی اور خود خواہی ہوتی ہے اور آدمی تمام اشیاء کو پرکھنے کا معیار اپنی ذات کو قرار دینے لگتا ہے ۔

مثلاً خداوند عالم نے ملائکہ سے جو گفتگو فرمائی ہے اور انہیں پیغام دیا ہے یا ملائکہ نے اللہ کے جواب میں جو کچھ کہا ہے اسے انسان کے کلام سے نہیں سمجھنا چاہیے اور یہی صورتحال ابلیس کے متعلق بھی ہے ۔ آپ قرآن کریم کی سورت بقرہ کی آیات ۳۰ تا ۳۴ کا مطالعہ فرمائیے، سورة اعراف کی آیت ۱۱ تا ۱۸ کو دیکھئے نیز سورہ ص آیت ۷۱ تا ۸۴ کو پڑھئے جہاں فرشتوں اور خالق کائنات کے مابین طویل مکالمہ نظر آتا ہے ۔

اس طرح کے طولانی گفت وشنید کو اگر ہم زبان حال نہ کہیں تب بھی ہمیں یہی کہنا پڑے گا کہ انسانوں جیسی ”زبان مقال“ نہیں ہے اس لیے کہ یہ ایک فاقدالوجہ قیاس ہے(ایک ایسا قیاس جس کا کوئی سبب اور موجب ہی نہ ہو )

خاص طور پر اس جگہ جہاں شیطان نے انسانوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے ان سے جو باتیں کی ہیں وہ انسانی ذہن میں فطوراور وسوسے پیدا کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں

” کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْ ءٌ مِّنْکَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔ (سورہ حشر:آیت ۱۶ )

کبھی بھی ابلیس اور انسان کی بالمشافہ بات چیت نہیں ہوئی کہ وہ اسے حکم دے کہ وہ کا فر ہو جائے بلکہ یہ صرف وسوسہ اور باطنی تحریک ہے جو کہ ابلیس کے ذریعے انجام پذیر ہوتی ہے اور جو اس کی زبان حال ہے پھر جب وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو انسانوں کا مذاق اڑاتا ہے کہ کس طرح دھوکا کھا کر انہوں نے اس کے بے وقعت وسوسوں کو قبول کر لیا اور اپنی عقل و فطرت کے پیغام توحید کو ذرّہ بھر اہمیت نہ دی ۔

قرآن کریم میں قیامت کے دن کے حوالے سے ابلیس کی جو گفتگو نقل ہوئی ہے وہ بھی اسی نوعیت کی ہے ۔

” وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَمَاکَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلآَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْا اَنْفُسَکُمْ مَا اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَآاَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ۔

( سورہ ابراہیم:آیت ۲۲ )

” اور جب سب امور کا فیصلہ ہو جائے گا تو شیطان کہے گا یقینا اللہ تعالیٰ نے تم سے سچا وعدہ کہا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا پھر میں نے تم سے وعدہ خلافی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہ تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میرا کہنا مان لیا پس تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرو نہ میں تمہارا فریاد رس ہوں اور نہ تم میرے فریاد رس ہوجس کا تم نے مجھے شریک بنایا تھا میں تو اس کا پہلے ہی سے منکر تھا۔ "

یہ گفتگو اپنے استدلال کے ساتھ مکمل طور پر واقعات کے واضح ہونے کی حکایت کرتی ہے اس دن سب پر حقیقت واضح اور آشکار ہو جائے گی کہ انسانوں کے مقابلے میں ابلیس کی حالت اور کیفیت یہ ہو گی کہ وہ انسانوں پر حیرت کا اظہار کرے گا کہ انہوں نے اس کی بے وقعت باتوں کو کس طرح قبول کرلیا جبکہ انسان شیطان کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہوں گےدر حقیقت انہیں یقین نہیں تھا مگر پھر بھی ان لوگوں نے بے حقیقت وعدوں پر اعتبار کر کے اپنے دلوں کو خو ش رکھا

” بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہ بَصِیْرَةٌ o وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہ۔

( سورہ قیامت:آیات ۱۳ تا ۱۴ )

بلکہ انسان اپنے نفس کا برا دیکھنے والا ہے اگرچہ وہ اپنے عذر پیش کیا کرے ۔

اور اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین سے یہ گفتگو بھی قرآن کریم میں منقول ہے کہ :

” وَاِذْ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّیْ جَارٌلَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآءَ تِ الْفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَقَالَ اِنِّیْ بَرِیءٌْ مِّنْکُمْ اِنِیْ اَرٰی مَالَا تَرَوْنَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ۔"(سورہ انفال:آیت ۴۸ )

” اور جب شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے آراستہ کر دیا اور اس نے کہا کہ آج کے دن تمہارے آدمیوں پر کوئی بھی غالب نہیں آئے گا اور میں یقینا تمہارا مددگار ہوں پھر جب دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کو دیکھایعنی ایک دوسرے سے لڑنا شروع کیا تو شیطان اپنی ایڑیوں پر پلٹ گیا اور کہنے لگا یقینا میں تم سے بری ہوں اور بے شک میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں تو یقینا اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں ۔ "

یہاں یہ جملہ کہ :وقال:لاٰ غالب لکم درحقیقت ان (مشرکین)کے اس کردار کو سراہنا ہے کہ مشرکین اپنے دم،خم اور اسلحے کی بناء پر یہ خیال کر رہے تھے کہ کوئی بھی ان کے سامنے مقاومت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا اور ان کی طاقت کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹھہر پائے گا۔

لہذا یہ گفتگو سوائے اس بے وقعت گھمنڈ کی تحریک اور القا کے کچھ بھی نہیں جس کا منبع و سرچشمہ خود ان مشرکین کاغیر دانشمندانہ کردار اور طرز عمل تھا۔

مختصر یہ کہ ان مذکورہ تمام آیات میں سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کہ باطنی خواہش کے اظہار کو قول سے تعبیر کیا گیا ہے مگر اس طرح سے نہیں جیسے انسان ظاہر کرتے ہیں اور ضروری ہے کہ اس طرح کا قیاس نہ کیا جائےاس لیے کہ ہر موجود اپنے باطن کے اظہار کے لیے مخصوص وسائل رکھتی ہے جو کہ اس کی حیثیت اور کیفیت کے متناسب ہوتے ہیں ۔

قرآن کریم نے اپنی خصوصیت کی طرف خود اشارہ کیا ہے :

” ھوالذی انزل الیک الکتاب منہ آیات محکمات ہن ام الکتاب واخر متشابھات فاماالذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتٰغاء الفنة وابتغاء تاویلہ ومایعلم تاویلہ الااللہ والراسخونفی العلم یقولون آمنابہ کل من عندربناومایذکرالا آولو الالباب“(آل عمران )

وہی ہے جس نے اُتاری تم پر کتاب جس میں سے کچھ آیات محکمات ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور دوسری متشابہات ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ قرآن کی متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں فتنہ پیدا کرنے کے لئے اور اس کی اصل ماہیت دریافت کرنے کے لئے حالانکہ اس کی ماہیت نہیں معلوم ہے مگر اللہ کو اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم ان پر ایمان لائے سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نہیں سمجھتے ہیں مگر وہ جو عقل والے ہیں ۔

اس کے بعد مولانانے بتایا کہ قرآن کریم میں دو طرح کی آیات ہیں محکم اور متشابہہ اور اس کے بعد اس پر اظہار خیال کیا ہے کہ قرآن پڑھنے والوں کی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ حضرات جو صرف طلب رشد وہدایت کے لئے پڑھتے ہیںچنانچہ آیات محکمات ان کے لئے طمانیت اور ذہنی آسودگی کا سبب بن جاتی ہیںاورجب کبھی وہ ذہنی وساوس اور خلجان میں مبتلا ہوتے ہیں تو ان کی زبان پر یہ دعا جاری ہوجاتی ہے ۔( ۱۰ )

” ربنا لاتزع قلوبنا بعدازھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمةانک انت الوھاب“ (سورہ آل عمران: ۸ )

اے ہمارے رب ہم کوہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کوڈانوا ڈول نہ کر، اپنے پاس سے ہم کو رحمت بخش تو بڑا بخشنے والاہے ۔

دوسری جماعت ان لوگوں کی ہے جو اپنے اغراض و خواہشات کی تکمیل کے لئے قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیںمولانا فرماتے ہیں کہ ان کا مقصود و طلب رشدوہدایت سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے کسی قرار داد، مسلک کی تائید کے لئے اس میں دلیلیں تلاش کریںیا جن سے ان کو اختلاف ہے ان کو چپ کرانے کے لئے اس میں سے اعتراضات کج بحثیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں ۔( ۱۱ )

جبکہ قرآن کریم تطہیر قلب اور روح کے تزکیہ کے لئے نازل کیا گیا ہےیہ دماغی عیاشیوں اور کج بخثی؟ کے لئے نہیں نازل کیا گیاہےقرآن کریم میں ارشاد ہے ۔

” ان فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب آوالقی السمع وھو شہید“ (سورہ ق: ۳۷ )

اس کے اندر اس شخص کے لئے یاددہانی ہے جس کے پاس بیدار دل ہو یا وہ کان لگائے متوجہ ہوکر۔

یعنی قرآن کریم ان لوگوں کے لئے صحیفہ ہدایت ہے جو

” الامن الی اللہ بقلب سلیم “

مگر جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے ۔

اور اسی طرح سورہ ق میں آیا ہے کہ”وجاء بقلب منیب“(جو متوجہ ہونے والا دل لے کر آئے)جو لوگ قلب سلیم اور قلب منیب کے بغیر قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے لئے یہ کتاب کتاب ہدایت ثابت نہیں ہو سکتی ۔( ۱۲ )

قرآن کریم میں ارشاد ہے :

” الذین یجادلون فی آیات اللہ بغیر سلطان اتاھم کبر مقتا عندالّذین آمنواکذالک یطبع اللہ علی کل قلب متکبر جبّار“ (سورہ غافر: ۳۵ )

قرآن کریم کانزول اس لیے ہو ا ہے کہ وہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر اجالوں کی طرف لے آئے لیکن یہ ہدایت اور ضلالت قرآن کریم کے قانون اور ضابطے کے مطابق ہوتی ہے اللہ قانون حکمت کے مطابق جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ضلالت دیتا ہے وہ اہل ایمان کو ہدایت دیتا ہے او اہل کفر جن کے اولیاء طاغوت ہیں انہیں ضلالت سے ہم کنار کرتا ہے مولانا نے سورہ بقرہ کی آیات ۲۵۸ سے ۲۶۰ تک نقل کی ہیں جن سے تین ایسے لوگوں کی مثالیں پیش کی ہیںجنہیں تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے یا ان کو تاریکی میں چھوڑدیتا ہے ایک تو وہ ہے جو اپنی دولت و حکومت اور سلطنت و عظمت کے نشہ میں مخبوط ہے وہ حضرت ابراہیم کی پیش کردہ روشنی سے اعراض کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص ہے جو یقین و بصیرت کا طلبگار ہے طلب ہدایت اور حصول رشد کے لئے مضطرب ہے مولانا ایسے حیرت زدہ شخص کے لئے لکھتے ہیں” وہ بستیوں کے ہجوم سے بھاگتا اور شہروں کے اژدھام سے گھبراتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی مقام عبرت و موعظت کا کوئی خلوت کدہ میسر آجائے تو اپنے سوالوں کو لے کر بیٹھ جائے جن کے جواب کے لئے وہ ہمہ وقت تشنہ و بیقرار ہے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی تمام الجھنوں کو دورکر دیتا ہے اور وہ یقین کامل کی روشنی سے معمور ہو کر پکار اٹھتا ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے :

” فلما تبین لہ قال اعلم ان اللہ علیٰ کل شیئی قدیر“(سورہ البقرة: ۲۵۹ )

اس کے بعد تیسرے شخص حضرت ابراہیم کی مثال ہے جو اللہ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ مجھے مردوں کو زندہ کرتے ہوئے دکھا دے ،مجھے پورا یقین ہے کہ تو ہر چیز پر قادر ہے لیکن یہ مطالبہ صرف شرح صدر کے لئے ہے یعنی یہ تیسرا شخص نہ تو پہلے کی طرح متکبر ہے اور نہ ہی دوسرے کی طرح متشکک۔ اسی طرح کی ایک مثال سورہ مجادلہ میں ذکر ہے ایک عورت ہے جو دینی معاملات میں اللہ سے مجادلہ اور رسول سے شکوہ کرتی ہے یہ مجادلہ اور شکوہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے شکوک اور اضطرابات کو دور کرے اور اس کے بعدایک منافق کی مثال دی گئی ہے جو اس گھات میں رہتا ہے کہ دین اسلام میں کوئی ایسی اعتراض اور نکتہ چینی کی بات پائیں اور اس کو لے اڑیں ۔( ۱۳) ان کے متعلق قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے :

” ان الذین یجادون اللہ ورسولہ کبتو اکماکبت الذین من قبلھم وقد انزلنا آیات بینات وللکافرین عذاب مھین“ (سورہ المجادلة : ۵ )

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جھگڑا کرتے ہیں وہ لوگ ذلیل کردیئے گئے ہیں جس طرح وہ لوگ ذلیل کر دئیے گئے جو ان سے پہلے تھے اور ہم نے کھلی کھلی آیتیں اتار دی ہیں اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔

اوپر جو ایک عورت اور ایک منافق کا ذکر آیا ہے اصلاًیہ دو جماعتوں کا ذکر ہے اور اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ خدا اور رسول کے ساتھ معاملہ کرنے کا طریقہ عرض ومعروض اور شکوہ و التجا ہے نہ کہ محارّہ اور مشاقہ۔ پش خدا کے دین یا اس کی کتاب میں اگر کوئی مشکل پیش آجائے تو اس کی راہ صرف یہی ہے کہ اس کو خدا ہی کے سامنے پیش کرے اور اسی سے تسلی و تشفی اور فتح باب کا متمنی ہو یہ نہ کرے کہ جھٹ اس کو ذریعہ اعتراض و نکتہ چینی بنا کر ایک نیا دین کھڑا کر دے ۔( ۱۴ )

تدبر قرآن کی ایک بنیادی شرط تقویٰ اور عمل ہے

سورہ بقرہ کی پہلی ہی آیت میں مذکورہے :

” ذلک الکتاب لاریب فیہ مھدی للمتقین “

اور سورہ لقمان میں ہے :

” تلک آیات الکتاب الحکیم ھدی و رحمة للمحسنین “

یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ کیوں صرف متقین اور محسنین ہی کے لیے صحیفہ ہدایت ہے ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی درجہ بدرجہ ہدایت دی ہے ہدایت کا پہلا زینہ ہدایت جبلت ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں یوں ہوا ہے :

” الذی قَدرّ فھَدیٰ امر فالھمھا فجورھاوتقواھا “

یہ دراصل ادراک وتعقل اور ذوق وجدان کی ہدایت ہے جس میں تمام نبی نوع انسان یکساں طور پر شامل ہیںاور اس کی مدد سے وہ اپنے کاموں میں نظم و ترتیب پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی ذاتی قوت فیصلہ سے شر کو چھوڑ کر خیر کو اختیار کرسکتے ہیں ۔ اس کے بعد ہدایت کا دوسرا درجہ انبیاء ورسل کی بعثت سے ظہور میں آیاچنانچہ انبیاء ورسل کی کدوکاوش سے شریعت کا وجود ہوا اور اس شریعت کی تکمیل بھی بتدریج ہوئی آخر میں آنحضور نے اس شریعت کی تکمیل فرمائی جسے دین اسلام کے نام سے دنیا جانتی ہے ۔

قرآن کریم نے براہ راست تین جماعتوں کو مخاطب کیا ہے عرب ،یہود اور نصاری،عربوں میں کچھ ایسے تھے جو دین ابراہیمی کی سادگی پر قائم تھےاسی طرح یہود کی ایک چھوٹی سی جماعت حق پر قائم تھیاور نصاری میں سے کچھ لوگ بھی صحیح دین مسیح پر باقی تھےقرآن نے سب سے پہلے عربوں کو مخاطب کیا چنانچہ ان میں جو دین ابراہیمی کی فطری سادگی پر قائم تھے انہوں نے جب قرآن کی آواز سنی تو ان کو محسوس ہوا کہ گویا اپنے ہی دل کی آواز سن رہے ہیںانہوں نے دعوت قرآن کو بغیر معجزہ کے مطالبہ کے قبول کر لیاسورہ نور میں انہی لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیاکہ

” یکادزیتھا یضیی ولوھم تمسہ نارنورعلی نوریھدی اللہ لنورہ من یشاء “

اس آیت میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے محسنین اور متقین مراد ہیںاحادیث میں بھی احسان کا یہی مفہوم بیان کیا گیاہےمولانا کا بھی یہی خیال ہے کہ قرآن مجیدنے اسی مفہوم کے اعتبار سے اہل مکہ یا اہل کتاب کی ان جماعتوں کے لئے اس کو استعمال کیا ہے جنہوں نے فطرت اور وحی کی روشنی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ،قرآن میں جگہ جگہ وارد ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر رکھتا ہےان کے عمل کو ضائع نہیں کرتا،ایسے ہی لوگوں کے لئے یہ کتاب الہی ہدایت و رحمت ہے ۔( ۱۵ )

ان کے علاوہ جو دوسرے حضرات ہیں انہوں نے اپنی فطری صلاحیتوں کو برباد کرڈالا تھااوروہ غیر فطری معتقدات و اوہام کے شکار ہوگئے تھےمولانا نے ان لوگوں پر اس طرح روشنی ڈالی ہے ”چنانچہ جب آنحضرت نے ان کے سامنے قرآن مجید پیش کیا تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیںاس کے سننے اور سمجھنے سے انکار کردیااور ان کا یہ انکار درحقیقت ان کے بہت سے سابق انکاروں کا لازمی نتیجہ تھا۔ انہوں نے ہدایت کے ابتدائی مراحل میں اس کو قبول کرنے سے اعراض کیا اس لئے بعد کے مرحلوں میں بھی اس کا ساتھ نہ دے سکے اور ایسا ہونا قدرتی تھا۔( ۱۶ )

اس کے بعد مولانا نے اس پہلو کو لیاہے کہ شریعت الہی عمل کے لئے نازل ہوئی ہے اسی لئے یہاں علم کے ساتھ ساتھ عمل بھی ضروری ہے اگر علم بغیر عمل کے ہے تو یہ علم ناقابل اعتبار ہے اور اس علم سے مزید علم و عمل کے دروازے نہیں کھلا کرتےایسے علم کو علم نہیں بلکہ جہل کہیں گےیہود کی اکثریت کا معاملہ بھی ایسا ہی تھاانہوں نے اپنے تمام انبیاء کی تعلیمات کو جھٹلا دیااور قرآن مجید کا بھی انکار کردیا

مولانا آگے لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ابتداء ہی میں یہ اصولی بات ذکر کردی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سے امتحانوں سے گزرنے کے بعد کہا کہ”انی جاعل لٰلناس اماما“اسی طرح حضرت موسی نے جب اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لئے دعا کی ۔( ۱۷ )

تو اللہ نے فرمایا :

” عذابی اصیب بہ من اشاء ورحمتی وسعت کل شیئی فاً کتبھا للذین یتقون(سورہ الاعراف: ۱۵۶ )

میرا عذاب تو میں جس پر چاہتا ہوں (یعنی جو اس کا مستحق ہوتا ہے) اس پر نازل کرتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز کو عام ہے پس میں اس کو لکھ رکھوں گاان لوگوں کے لیے جوتقوی پر قائم رہیں گےیعنی جو اللہ کے عہد پر قائم رہیں گے اور اس کے حدود کا پاس و لحاظ رکھیں گے ۔

انہیں کے لیے یہ کتاب باعث ہدایت ثابت ہو گیمولانا فرماتے ہیں،اس کو وہی لوگ قبول کریں گے جو متقی ہیں جنہوں نے اپنے عہدو پیمان کو قائم رکھا ہے جنہوں نے خدا کی نعمت کی قدر کی ہے ۔جنہوں نے اپنے انبیاء کی تعلیمات کو یاد رکھا ہے اور جن لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دیا ہے اس کے رشتوں پرمقراض چلا چکے ہیںوہ ہرگز قرآن کریم کو بطور صحیفہ ہدایت کے قبول نہیں کریں گےقرآن کریم میں ارشاد ہے ۔

” یُضل بہ کٰتیرا ویھدی بہ کثیراومایضل بہ الاالفاسقین الذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ و یقطعون ماامراللہ بہ ان یوصل و یفسدون فی الارضاولئک ھم الخاسرُن(سورہ البقرہ: ۲۶۲۷ )

اللہ تعالیٰ اس حقیر مثال سے گمراہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس مثال کی وجہ سے بہتوں کو اور ہدایت کرتے ہیں اس کی وجہ سے بہتوں کو الگ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ اس مثال سے کسی کو مگر صرف بے حکمی کرنے والوں کو جو کہ توڑتے رہتے ہیں اس معاہدے کو جو اللہ تعالیٰ سے کرچکے تھے اس کے استحکام کے بعد اور قطع کرتے رہتے ہیں ان تعلقات کوکہ حکم دیا ہے اللہ نے ان کو وابستہ رکھنے کا اور فساد کرتے رہتے ہیںزمین میں پس یہ لوگ پورے خسارے میں پڑنے والے ہیں ۔

آگے مولانا فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے چونکہ اللہ کے وعدوں اور اس کی نعمتوں کی قدر نہیں کی اسی لئے وہ قرآن عظیم جیسی نعمت اور رحمت سے محروم ہے ۔ ٹھیک یہی حال نصاری کے ایک بڑے حصے کا بھی تھاجو تعلیمات قرآن کو اپنے افکار وخیالات کے برعکس تصور کرتا تھاچنانچہ یہ حضرات قرآن کریم کی ہدایت سے محروم رہے لیکن ان میں سے ایک ایسا صالح العقیدہ طبقہ تھا جس نے قرآن کریم کی آواز پر بڑھ کر لبیک کہاقرآن کریم نے انہیں محسنین کے لقب سے یاد کیا قرآن کریم میں ارشاد ہے

” فاثا بھم اللہ بماقالوا جنّات تجری من تحتھا الانھارالانھارخالدین فیھا و ذلک جزاء المحسنین“ (سورہ المائدہ : ۸۵ )

پس ان کے اس قول کے صلہ میں اللہ نے ان کو ایسے باغ دیئے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے اوریہ بدلہ محسنین کا۔

مولانا فرماتے ہیں کہ اس تفصیل کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن مجید کے متعلق جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ہدایت ہے متقین کے لئے ،یہ ہدایت ہے محسنین کے لئے تو اس کا مفہوم اس سے کس قدر وسیع ہے جو ہم عام طور پرسمجھتے ہیںاس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس وجہ سے اس کا فہم و تدبر صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہےجو اس نعمت پر اللہ کے شکر گزار ہوں اور اس کی شکر گزاری یہ ہے کہ یہ جس مقصد کے لئے ان کو دی گئی ہے اس مقصد کو پورا کریںاس کو دینے کا مقصد یہ ہے کہ اپنی عملی و اعتقادی زندگی پر اس کو پوری طرح طاری کریںجوں جوں وہ اس نعمت کے قدر و احترام میں بڑھتے جائیں گے اس قدر اس کی برکتیں ان کے لئے بڑھتی جائیں گی ۔( ۱۹ )

اس کے بعد مولانا نے تدبر قرآن کے داخلی اور خارجی وسائل سے بحث کی ہے لیکن مولانا نے خود بتایا کہ یہاں پہلے سوال کے ایک حصہ اور دوسرے سوال کے بعض ضروری پہلوؤں کی طرف بالاجمال اشارہ کیا گیا ہے ۔

پہلے سوال کے ایک حصہ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا نے بتایا کہ قرآن مجید کے فہم و تدبر کے لئے سب سے پہلی چیز خود قرآن کریم ہےسلف کا یہ مذہب رہا ہے کہ وہ تمام مشکلات میں پہلے قرآن کریم ہی کی طرف رجوع کرتے کیونکہ القرآن یفسربعضہ بعضا“اور قرآن نے خود اپنی صفت بتا ئی ہے مفرد الفاظ کے علاوہ اسالیب کلام و نحوی تالیف وغیرہ کے باب میں بھی قرآن مجید کا یہی حال ہےمولانا کہتے ہیں کہ ارباب نحو قرآن مجید کی جن ترکیبوں میں نہایت الجھے ہیں اور کسی طرح اس کو نہیں سلجھا سکے ہیں خود قرآن مجید میں ان کی مثالیں ڈھونڈ لیں تو ایک سے زیادہ مل جائیں گی اور پیش و عقب کے ایسے دلائل و قرائن کے ساتھ مل جائیں گی کہ ان کے بارے میں ہمارے اطمینان کو کوئی چیز مجروح نہیں کر سکتی اس کے علاوہ قرآن مجید کی تعلیمات ،اس کے تاریخی اشہارات اور اس کی مخفی تعلیمات کے سلسلے میں تمام مفسرین نے اعتراف کیا ہے کہ قرآن کریم نے دوسرے مقامات پر اس تفسیر اور تصریح بیان کی ہے ۔

قرآن کریم کی تفسیر کے سلسلے میں مولانا کا خیال ہے ہے تفاسیر کو ہرگز مقدم نہ رکھا جائےتفاسیر دو طرح کی ملتی ہیںایک تو کسی مکتب فکر کی نمائندگی کرتی ہیں یاتو روایات اور اقوال سلف کے تمام رطب ویابس کا مجموعہ ہیںمولانا کا خیال ہے کہ قرآن کریم کا طالب علم ہرگز ان تمام تفاسیر کے چکر میں نہ پڑیںورنہ اس کی تحقیق اور جستجو کا سلسلہ منقطع ہو جائے گاپہلے کسی نتیجہ تک پہنچنے کے بعد ان تفاسیر کا رخ کرے،انشاء اللہ روایات سے ضرور اس کی تائید ہو گیاگر روایات سے تائید نہ ہو رہی ہو تو دوبارہ اپنے خیال اور روایات کو سامنے رکھ کر غور کرے،انشاء اللہ یاتوآپ کی رائے کی کمزوری کا پہلو واضح ہو جائے گایا حدیث کا صنعف منظر عام پر آجائے گالیکن ان مقامات پر عجلت کی نہیں بلکہ توقف کی ضرورت ہے اس طرح دھیرے دھیرے ضرور وہ حکمتوں اور معارف کے خزینوں کو پالے گا۔

مولانا نے فہم قرآن کے متعلق یہ بھی بتایا کہ طالب قرآن کے لئے ضروری ہے کو وہ عید نزول قرآن،قدیم عرب اور ان سے متعلقہ اقوام کی تاریخ سے واقف ہو کیونکہ قرآن کریم بے شمارآیات انہی موضوعات سے متعلق ہیںکیونکہ ان کے بغیر قرآن کریم کی تاثیر پورے طور سے منظر عام پر نہیں آسکتی( ۲۰) مولانا فرماتے ہیں اس عہد کی تمدنی حالت ،اس عہد کے سیاسی رجحانات،اس زمانے کے مذہبی عقائد و تصورات اور اخلاقی معیارات وغیرہ،نیز زمانہ نزول میں مختلف قوموں کے تعلقات کی رعیت،ان کے دستورومراسم کی کیفیات،ان کے اصنام کی خصوصیات اور تمدن وسیاست پر ان کے اثرات وغیرہ( ۲۱) پر قرآن کریم پر غور کرنے والی کی نظر ہونا بہت ضروری ہےایسی کوئی تفسیر ہے جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کر سکے؟اس کے علاوہ عرب کی جو تاریخ موجود ہیںوہ ناقابل اعتبار ہیں اس لئے اس باب میں جو کچھ قرآن میں موجود ہے اسی پر اعتماد کیا جائے اس سلسلے میں مولانا نے اپنے استاذگرامی کا حوالہ دیا ہے کہ اس باب میں ان کی تفسیر سورہ فیل!( ۲۲) ایک اعلیٰ نمود کا درجہ رکھتی ہے مولانا لکھتے ہیں ”اس معاملہ میں استاذ امام مولانا حمید الدین صاحب قراہی کے طریق فکر ونظر کا اندازہ کرنے کے لئے سورہ فیل کی تفسیر پڑھنی چاہیے اس سے معلوم ہو گا کہ ان کا اصلی اعتماد ،قرآن مجید کے اشارات اور کلام عرب پر ہوتا ہے،اور تاریخ کی روایات کو وہ ہمیشہ انہی دونوں کسوٹیوں پر پرکھ کر قبول کرتے ہیں اور حق یہ ہے کہ اس باب میں ان دوچیزوں کے سوا کسی تیسری چیز سے مشکل ہی سے مدد ملتی ہے ۔( ۲۳ )

آگے مولانافرماتے ہیں قرآن مجید کی زبان اور اس کے اسالیب کی مشکلات حل کرنے میں تین چیزیں کتاب لغت اور کلام عرب،کتب نحو اور کتب بلاغت معاون ثابت ہو سکتی ہیں ۔

کتب لغت میں سب سے زیادہ اہم مولانا نے ”لسان العرب“ کو قرار دیا ہے یہ لغت قرآن مجید کے سلسلے میں ارباب تاویل کے اقوال نقل کردیتا ہے ،اس سے بچنے کی ضرورت ہے،کیونکہ اس سے لغت کا مفہوم فوت جاتا ہےاس کے بعد مولانا نے امام راغب کی مفردات القرآن کا ذکر کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ لغت بھی قرآن کے سلسلے میں زیادہ حقیر نہیں ہے بلکہ یہ صرف مبتدیوں کے لئے ہے کیونکہ اس میں نہ تو سارے الفاظ ملتے ہیں اور نہ ہی کلام عرب سے استشہاد پیش کیا گیا ہےمولانا کہتے ہیں کہ ایسا کوئی لغت نہیں ہے جس میں بہ صراحت ہو کہ بہ لفظ خالص عربی ہے ،یامولداس کے معنی کیا ہیں اور اس کے معانی میں سے کس پر اس کا اطلاق حقیقتہً ہے اور کن پر اطلاق مجاز( ۲۴) صرف ” صحاح جویری“( ۲۵) میں کہیں کہیں یہ چیز ملتی ہے مگر بہت کم لفظوں کے حقائق کااندازہ صرف کلام عرب اور اسالیب کلام سے لگایا جاسکتا ہے اور انہی دونوں چیزوں کے ذریعہ الفاظ کے معروف اور شاذ معانی کا پتہ لگایا جاسکتا ہے اور نہ وہی ہوگاکہ”تمنی“ کے معنی تلاوت کرنے کے اور”نحر“ کے معنی سینہ پر ہاتھ باندھنے کے لئے جائیں گےمولانا قراہی کا انس سلسلے میں تمام تر انحصار کلام عرب تھاوہ اگر کسی لفظ کے باب میں متردد ہوتے تو کلام عرب اور قرآن مجید میں اس کا حل تلاش کرتے ۔( ۲۶) اس سلسلے میں مولانا کی دو کتابیں ” اسالیب القرآن“ ( ۲۷) اور ”مفردات القرآن“ ( ۲۸) بڑی عظمت کی حامل ہیں ۔

قرآن کریم کی نحوی مشکلات کے سلسلے میں مولانا نے بتایا کو اس سلسلے میں کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس کی طرف اشارہ کیا جاسکےارباب تفسیر میں تنہاز مُحشری ہیں جنہوں نے اپنی تفسیرمیں نحوی مسائل سے بحث کی ہے مولانا نے اس باب میں ایک گرانقدر بات یہ کہی ہے کہ قرآن کریم کے طلبہ کو چاہیے کہ وہ کلام عرب پر اعتماد کریں اسی طرح مولانا نے یہ بھی بتایا کہ میری نظر میں ایسی کوئی کتاب نہیں جس میں قرآنی بلاغت سے بحث کی گئی ہو( ۲۹) البتہ اس موضوع پر امام باقلانی ( ۳۰) کی خدمات قابل قدر ہیں اسی طرح ابن تیمہ امداد بن قیم کی تصانیف میں بھی کچھ ہوجواہر ریزے مل جاتے ہیں اور مولانا کی کتاب پر ”جمیرةالبلاغہ“( ۳۱) اس سلسلہ کی آخری اور سب سے زیادہ اہم چیز ہے ( ۳۲) یہ کتاب قرآنی بلاغت کو سمجھنے میں حد درجہ معاون ہے ۔

اس مقالہ کے آخر میں مولانا نے بتایا کہ قرآن کریم کے طالب علم کو دیگر آسمانی کتب کا مطالعہ بھی ضرور ی ہے تاکہ قرآن کریم کی ایک آخری آسمانی کتاب کی حیثیت سے عظمت منظر عام پر اس کے نیز اہل کتاب کے اعتراضات کا علمی اور مُسکت جواب اسی وقت ممکن ہے جب کسی کو توریت اور انجیل پرگہری نظر ہوان کتابوں کے مطالعہ سے ایک دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اہل کتاب کے باب میں جو اشارات اور تلمیحات ہیں انہیں بخوبی سمجھنے میں آسانی ہو گیخود قرآن کریم کی بہت سی آیات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ان آسمانی صحیفوں کا مطالعہ کیا جائے مثلاً ارشاد باقی ہے :

” وھذا کتبنا فی الزبورمِنْ بعدَالذکر انّ الارض یرثھاعبادی الصالحون“ (سورہ الانبیاء: ۲۵ )

ہم نے زبور کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث صالح بندے ہوں گے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :

” ان ھذا لفی الصحف الاولی صحف ابراہیم و موسی“ (سورہ الاعلیٰ: ۱۸ )

بیشک یہ بات پہلی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے ابراہیم اور موسی کی کتابوں میں ۔

کتب سابقہ سے ایک قرآن کا طالب علم متعدد فوائد حاصل کر سکتا ہے لیکن ان کتابوں کے باب میں اصل معیار اور کوئی قرآن کریم ہی کو بتایا جائے گامولانا حمید الدین قراہی نے ایک طرف جہاں ان کتابوں سے فائدہ اٹھایا وہیں قرآن کی روشنی میں ان کی تحریف کی طرف اشارہ کرتے ہیں( ۳۳) اس سلسلے میں مولانا کی کتاب ”الذبیح“( ۳۴) بطور مثال ملاحظہ کی جاسکتی ہے اسی طرح علامہ ابن تیمہ کے یہاں بھی ان کتابوں کا ذکر ملتا ہے ۔

اس کتاب کا تیسراباب تیسیرالقرآن ہے ،آغاز بحث میں مولانا نے فرمایا کہ قرآن نے خود مختلف جگہوں پر اپنی تعریف بیان کر دی ہے کہ وہ لوگوں کے لئے ہدایت ہے اللہ نے اسے آسان بنایا ہےوہ پیچیدگیوں سے پاک ہےاور ہر چیزکو وضاحت سے بیان کرتی ہے قرآن کی اس تعریف کی روشنی میں یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن میں کوئی چیز گنجلگ نہیں ہے تمام لوگوں کے لئے کتاب ہدایت ہے اسی لئے محتاج تفسیر تاویل نہیں اس کا انداز اتنا شگفتہ ہے کہ وہ اپنے سوا کسی چیز کا محتاج نہیںقرآن دانی کے لیے عربی زبان دانی کافی ہے اور وہ تفسیر آیات میں احادیث،شان نزول اور لغت عرب کا محتاج نہیں ہےیعنی وہ بالکل واضح ہے تفسیر آیات کے لئے صرف عربی زبان کا جاننا کافی ہے مذکورہ خیال کی روشنی میں تین چیزیں سامنے آتی ہیں ۔

ایک تو یہ کہ چونکہ تمام طبقوں کے لئے صحیفہ ہدایت ہے اس لئے قرآنی تعلیم دعوت کا معیار عام عقل انسانی کے معیار کے مطابق ہے اس کے اسرار و رموز کی وضاحت کے لئے خواص کی ضرورت نہیںدوسرے یہ کہ قرآن کریم کی ہر بات چونکہ قطعیت کا درجہ رکھتی ہے اس لئے اس کی وضاحت کے لئے تفسیر و تاویل کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا انحصارظنیات یعنی روایات و احادیث پر ہوتا ہے اور تیسرے یہ چیز سامنے آتی ہے کہ قرآن کریم اپنے زبان وبیان کے لحاظ سے اس قدر شگفتہ ہے کہ ایک عجمی کے لئے صرف عربی زبان کے علم کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیںمولانا کا خیال ہے کہ ان آراء کے پیچھے بہت سی غلطیاں پوشیدہ ہیں جن کو آگے چل کر واضح کریں گے ۔

اس سلسلے میں مولانا سب سے پہلے تفسیر کے مختلف ادوار کی طرف اشارہ کیااور بتایا کہ قرآن کریم کا سب سے مبارک دور دوراول تھالیکن بعد میں جب دائرہ اسلام کشادہ ہوا اور مختلف بدعات وخطرات سے قرآنی تعلیم دوچار ہوئی تو اہل سنت اور اہل حق نے یہ طے کیا کہ تفسیر قرآن کے باب میں یہ تمام قیل وقال سے قطع نظرصرف احادیث رسول اور افوال و آثار صحابہ پر اعتماد کیا جائے گااس اصول کے پیش نظر سب سے پہلے جو تفسیر منظر عام پر آئی وہ علامہ ابن جریر کی تفسیر ہے ایک آیت کی تفسیر کے لیے تمام روایات نقل کر دی گئی ہیںلیکن روایات کے سلسلے میں کوئی تنقید نہیں ہے جس کی وجہ سے ان میں جو جواہر ریزے ہیں وہ منکر اور ضعیف روایات کے انبار میں گم ہیںلیکن پھر بھی مولف کی یہ بہت بڑی خدمت ہے ۔

اس کے بعد سب سے زیادہ مقبول اور مشہور تفسیر ابن کثیر کی ہے جو تفسیر ابن جریر کا خلاصہ ہے اس میں ایک اضافہ ہے کہ محدثانہ طریق پر اس میں روایات کی تنقید کی گئی ہے اس کے بعد تفسیر کی بنیادی کتاب امام رازی کی ہے جوحکیمانہ طرز پر لکھی گئی ہے اصلاًیہ تفسیراشعریت کی تائید و توثیق کے لئے لکھی گئی ہے جس کی وجہ سے مفید کی بجائے مضر ثابت ہوئی اس کے بعد تفسیر کی چوتھی اہم کتاب علامہ زمحشری کی تفسیر کشاف ہے یہ تمام مذکورہ تفاسیر سے جداگانہ ہے یہ اپنا محور عبارت قرآن کو بتاتے ہیں یہ پہلے لغت اعراب اور ربط کلام سے بحث کرتے ہیں اور نہایت احتیاط کے ساتھ روایات بھی لاتے ہیںیہ تفسیر قرآن کریم کے طلبہ کے لئے مفید ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ جس طرح امام رازی اشعریت کے ممدو معاون ہیں اسی طرح علامہ زمحشری مذہب اعتدال کے وکیل ہیںقرآن کریم کے ساتھ یہ حددرجہ نا انصافی ہے کہ اس کے پیچھے چلنے کے بجائے آدمی اس بات کی کوشش کرے کہ اس کو خود اپنے کسی فکر وخیال کے پیچھے چلائے ۔

تفسیر کی یہی بنیادی کتابیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دور اول کے بعد تفسیر قرآن کی راہ میں جوہ پہلا قدم اٹھایاگیا وہی غلط تھااس کے سدباب کے لئے روایات و آثار کاسہارا لیاگیالیکن اس درجہ انہماک ہو ا کہ صحیح اور ضعیف کا امتیاز مٹ گیااور روایات کے ساتھ ساتھ قصوں اور اسرائیلیات کا ایک بڑا حصہ تفاسیر میں داخل کر دیا گیا۔( ۳۵) اس کے متعلق مولانا کا خیال ہے ظاہر ہے کہ تفسیر میں صرف روایات ہی پر پورا پورا اعتماد کر لینا قرآن مجید کی قطعیت کو نقصان پہنچانا ہے اس صورت میں خود قرآن مجید کے الفاظ کا فیصلہ باطل ہو جاتا ہے( ۳۶) مذکورہ گفتگو سے دو چیزیں منظر عام پر آتی ہیں ایک تو یہ کہ تفاسیر کا تمام تر انحصار صدر اول کے بعد روایت و آثار پر ہو گیا اور دوسرے یہ کہ علم کلام کے علو م نے قرآن مجید کی قطعیت کو حد درجہ متاثر کیا یعنی قرآن کریم کے الفاظ پر اعتماد کرنے کے بجائے متکلمین کی برہانیات پر اعتماد شروع ہو گیا۔( ۳۷ )

اس کے بعد مولانا نے کلام کے مشکل اور آسان ہونے کے تین پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے اس پہلو سے بحث کی ہے کہ قرآن کریم کے نزول کا مقصد کیا ہے چونکہ روز اول ہی سے بنی نوع انسان کو شیطان کے مکرو فریب کا سامنا کرنا پڑا اس لئے شیطان کی جعل سازیوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مستقل اپنے انبیاء ورسل کے ذریعہ ہدایات بھیجنے کا انتظام کیا اور خاتم الرسول حضرت محمد مصطفی کو آخری صحیفہ ہدایت قرآن کریم عطا کیا گیا قرآن کریم کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان ہدایت کے راستوں پر گامزن ہوجائےاللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو شیطان کی چالوں سے بچنے کے لئے اس طرح تسلی دی ۔

” فامایا تینکم منی ھدی فمن تیع ھدای فلاخوف علیھم و لاھم یخرنون“ (سورہ بقرہ: ۳۸ )

اگر میری جانب سے کوئی ہدایت آئے تو تم اس کی پیروی کرنا جس نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کے لئے نہ خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں ۔

اس کے بعد مولانا نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے کہ جن و بشر میں سے جو بھی ہدایتکے راستہ سے لوگوں کو دور کرے وہ شیطان ہے یعنی یہ شیاطین انسانوں میں بھی پائے جاتے ہیںقرآن کریم کی اصطلاح میں شیطان کا مفہوم بہت وسیع ہے انسانی شیاطین کی طرف قرآن کریم نے خود اشارہ کیا ہے

” الذی یوسوس فی صدورالناس من الجنة والناس“ (سورہ الناس: ۵،۶ )

جو لوگوں میں وسوسہ ڈالتا ہے جنوں میں سے اور انسانوں میں سے ۔

سورہ بقرہ میں ارشاد ہے :

” واذالقوالذین امنوا قالوااٰمنا واذاخلواالیٰ شیاطینھم قالواانامعکم“ (سورہ البقرة: ۱۴ )

جب وہ مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں(سرداروں)کے پاس ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔

مولانا لکھتے ہیں کہ ایک ضمنی بحث تھی اصلاً بتانا یہ ہے کہ قرآن کا نزول کن مقاصد کے پیش نظر ہوا ہے قرآن کریم میں یہ چیز صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ نبی کو اس دنیا میں تین چیزوں کے لئے مبعوث کیا گیا۔

۱ تلاوت آیات ۲ تزکیہ ۳ تعلیم کتاب

تلاوت آیات: آیت کے مختلف مفاہم قرآن کریم میں موجود ہیں جس کا ایک مفہوم دلیل او حجت بھی ہے یہاں پر آیات سے مراد قرآن مجید کا وہ حصہ ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے دلائل و براہین پر مشتمل ہے قرآن کی جو آیات ابتداء میں نازل ہوئیںفقہی احکامات سے بالکل خالی ہیں اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے تھاابتداء میں صرف دین اسلام کے اساسی مسائل سے بحث ہےجس سے اسلام کا پورا نظام سامنے آجاتا ہے بعد میں دین اسلام کی تمام جزئیات مدلل طریقہ سے بیان کی گئی ہیں ۔

تلاوت آیات کے بعد جب انسانی قلوب سے بدعات و خرافات اور باطل خیالات خارج ہو جاتے ہیں تو تزکیہ کی نوبت آتی ہے یعنی انسان کے دل میں صحیح خیالات و عقائد اپنی جگہ بتانا شروع کر دیتے ہیں تلاوت آیات کے بعد ہی انسان کے اندر جو فطری روشنی موجود ہے اس کے ذریعہ وہ سیاہ و سفید میں تمیز کرنے لگتا ہے اس روشنی کا ذکر قرآن میں اس طرح ہوا ہے ۔

” یل الانسان علی تفسہ بصیرة“ (سورہ القیامة : ۱۴ )

بلکہ انسان اپنے نفس پر خود بصیرت رکھتا ہے ۔

یہی چیز دوسرے مقام پر اس طرح مذکور ہے :

” فالھمھا فجورھا وتقواھا“ (سورہ الشمس: ۸ )

پس اُس کوالہام کی گئیں اس کی بدیاں اور اس کی نیکیاں ۔

آگے مولانا فرماتے ہیں کہ جو لوگ دنیاوی لذت اور شہوات میں منھمک ہو کر اپنی اس فطری قوت اور فطری روشنی کو کھو دیتے ہیں تو قرآنی آیات اور پیغمبرانہ ارشادات اس کے لئے لاحاصل ہوتے ہیں کیونکہ وہ روحانی اعتبار سے مردہ ہو چکا ہوتا ہے ۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے :

” انک لاتسمع الموتی ولاتسمع الصم الدعاء الاولواتدبِرین “ (سورہ نمل: ۸ )

آپ مردوں کو نہیں ستا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چل دیں

جن کے دلوں میں یہ روشنی ہوتی ہے خواہ وہ کتنی ہی دھندلی ہو پیغمبر تلاوت آیات سے اسے روشن تر کردیتا ہےیعنی پیغمبر تزکیہ فطرت کے مطابق کرتا ہے مولانا کا خیال ہے کہ تزکیہ صرف مفرد اور سادہ عمل کا نام نہیں ہے بلکہ یہ کئی اجزاء کا مرکب ہے اس کا موضوع نفس انسانی ہے جو دوچیزوں یعنی علم اور عمل کا مجموعہ ہے اس لئے تزکیہ کے بھی دو پہلوہیں تزکیہ علم اور تزکیہ عملتزکیہ علم کامطلب یہ ہے کہ وہ تمام کثافتوں اور آلودگیوں سے اتنا دور ہو کہ شیاطین کی فتنہ انگیزیاں اس پر اپنا اثر نہ رکھاسکیں اور کبھی وہ خواہشات نفس کا شکارہو جائے تو تنبیہ ہوتے ہی اس سے باز آجائے اور تو یہ دانابت سے اس کی تلافی کرے ایسے لوگوں کے قرآن کریم میں آیا ہے

” ان الذین ین القوا ادامسھم طائف من الشیطن تذکرّوا فاذاھم مبصرون“ (سورہ اعراف: ۲۰۱ )

جو ڈر رکھتے ہیں اگر ان کو بھی شیطان کی چھوٹ لگ جاتی ہے تو وہ فوراً متنبہ ہوتے ہیں اور پھر دفعتہً ان کو نظر آنے لگتی ہے ۔

آگے مولانا یہ فرماتے ہیں کہ ایک صالح علم کے لئے مستقل اللہ سے دعا مانگنی چاہیے خود پیغمبر جس کی فطرت علم وعمل کی مافوق العادت قوتوں اور قابلیتوں کا خزانہ ہوتی ہے وہ بھی ان آیات کا تزکیہ کے لئے محتاج ہوتا ہے یہ آیات اس کے دلوں کو کھول دیتی ہیںاور وہ عشق آیات میں بیتاب ہو کر ”رب زدنی علما“ کا ورد کرنے لگتا ہے اس کی بے خودی اور عجلت کا یہ حال ہوتا ہے کہ معلم غیب کی زبان سے اس کو ”لاتعجل بالقرآن“ کا محبت امیز عتاب سننا پڑتا ہے ۔

جس قرآن عظیم کا یہ رتبہ ہو اس کے متعلق یہ بد گمانی مناسب نہیں کہ وہ صرف چند قوانین ،وعظوں اور قصوں کا ایک منتشر مجموعہ ہے اور جس کو سمجھنے کے لئے تفکر وتدبر کی ضرورت نہیں ہے مولانا تعلیم آیات کے سلسلے میں نتیجہ یہ پیش کرتے ہیں”اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ پیغمبر پہلے تلاوت آیات کے ذریعے نفوس کا تزکیہ کرتا ہے ۔ فطرت کے مدفون خزانوں کو ابھارتا ہے الٹے ہوئے چشموں کو جاری کرتاہےدبی ہوئی صلاحیتوں کو نمایاں کرتا ہے چونکہ فساو علم کی جڑ شرک اور فساو علم کی جڑ انکار حصار ہے اس لئے سب سے پہلے توحید وحصار کی تعلیم کو دلوں میں راسخ کرتا ہے اور جب ان سے فارغ ہو چکتا ہے تو تعلیم کتاب کا باب شروع کردیتا ہے ( ۳۹ )

اس کے بعد مولانا نے تعلیم کتاب پر روشنی ڈالی ہے اور یہ بتایا ہے کہ تعلیم کتاب سے قرآن مجید مراد ہے لیکن اس سے پورا قرآن مقصود نہیں ہے کیونکہ آگے حکمت کی بحث آرہی ہے تعلیم کتاب سے وہ حصہ مراد ہے جو احکام و قوانین سے متعلق ہے ۔ کتاب کا متعدد مفہوم قرآن کریم میں پایا جاتا ہے ۔ مثلاً آسمانی کتاب،اللہ کا قرار دادہ فیصلہ،شرائع وقوانین ،اللہ کے قرار دادہ فیصلوں کا دفتر اور اعمال نامے وغیرہلیکن یہاں تعلیم کتاب سے مراد قرآنی احکام و قوانین ہیں ۔ اس مفہوم میں قرآن کریم کی متعدد آیات موجود ہیں مثلاً

” کتب علیکم القصَاصولاتعزلواعقَدةالنکاح حتی یبلغ الکتاب اجلہواولواالاحام بعضھم اولیٰ بعض فی کتاب اللہ “

اس کے بعد مولانا نے فرمایا کہ تعلیم الہیٰ حکمتوں پر مبنی ہوتی ہے پہلے اس نے فطرت کے تقاضوں کے مطابق دلائل کے ذریعہ سے ہم کو غیر فطری آلودگیوں سے پاک نہ کرلیا اس وقت تک قوانین کی اطاعت کی ذمہ داری ہم پر نہیں ڈالی ۔( ۴۰ )

تعلیم کتاب پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا نے بتایا کہ ”تمام شریعت کا سرچشمہ فطرت کے چند بنیادی حقائق ہیںجس طرح ایک سے سو اور ہزار وجود میں آتے ہیںاسی طرح چند بنیادی حقائق کے لوازم و نتائج کے طور پر دین کا سارا عملی واعتقادی نظام وجود میں آتا ہے اسی وجہ سے دین اسلام کو دین فطرت کہا گیا ہے ۔( ۴۱) اور آگے ایک دوسری چیز یہ بتائی کہ ”دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ شرائع و احکام حقیقت میں تزکیہ کے جزئیات ہیں یہ تزکیہ کو کامل اور روشن کرتے ہیںاللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت سے ایمان پیدا ہوتا ہے اور عمل کے ذریعہ سے بندہ اس ایمان کو بڑھاتا ہے ۔( ۴۲ )

قرآن کریم میں ارشاد ہے :

” ان الصلوةتنھی اعن الفحشاء والمنکر “

نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ۔

قربانی کی بابت قرآن کریم میں ارشاد ہے :

” لن ینال اللہ لحمومھاولاودماء ھاولکن ینالہ التقوی منکم“(سورہ الحج: ۳۷ )

خدا کو قربانی گوشت اور خون نہیں پہنچے گابلکہ تمہار تقوی ٰپہنچے گا۔

اس کے بعد مولانا نے ”حکمت“ سے بحث کی ہے کہ آیت میں حکمت سے مراد حکمت قرآن ہے یاحدیثمولانا نے دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہاس سے مراد حدیث نہیں بلکہ حکمت قرآن مراد ہے کیونکہ متعدد آیات میں حکمت کے لئے یُتْلیٰاُنْزِل اور اٰوحیِ کے الفاظ آئے ہیں جس کا استعمال حدیث کے لئے قرآن میں کہیں نہیں ہوا ہے مثلاً

” انزل اللہ علیک الکتاب والحکمة وعلمک مالم تکن تعلم“ (سورہ النساء: ۱۱۳ )

اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور وہ باتیں سکھائیں جو تم نہیں جانتے تھے ۔

دوسری جگہ ہے :

” وذاکرن مایتلی فی بیوتکن من آیات اللہ والحکمة“ (سورہ الاحزاب: ۳۴ )

تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور حکمت پڑھی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو۔

ایک تیسری جگہ ارشاد ہے :

” ذلک ممااوحی الیک ربک من الحکمة“ (سورہ الاسراء: ۳۹ )

تمہارے رب نے تمہارے پاس جو حکمت وحی کی ہے یہ اس میں سے ہے ۔

اس کے علاوہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کے دلائل و براہین کو حکمت بالغہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور خود قرآن حکیم اور کتاب حکیم وغیرہ کہا گیا ہے مثلاً

” حکمة بالغة فماتغن النذرویٰسیں والقرآن الحکیم “

حضرت عیسی کی متعلق فرمایا گیا :

” واذعلمتک الکتاب والحکمة والتورة والانجیل“ (سورہ المائدہ: ۱۱۰ )

یاد کرو جب ہم نے تم کو کتاب حکمت تورات اور انجیل کی تعلیم دی ۔

یہاں پر ہر کتاب اور حکمت کے بعد تورات اور انجیل بطور تشریح کے آئے ہیں کتاب کا لفظ تورات کے لئے اس لئے آیا ہے کہ یہ احکام و قوانین پر مشتمل ہے اور حکمت کا لفظ انجیل کے لئے اس لئے آیا ہے کہ یہ دلائل ونصائح پر چلتی ہے ۔( ۴۳ )

مذکورہ وجود کی بنا پر حکمت سے حدیث مراد لینا مناسب نہیں ہے آگے مولانا نے مولانا قراہی کتاب ”حکمت قرآن“ سے ایک طویل اقتباس کے ذریعہ لفظ حکمت کی لغوی تحقیق پیش کی ہے ۔( ۴۵ )

مذکورہ بالا بحث کے بعد مولانا اس پہلو پر آتے ہیں کہ وہ احکام و قوانین کا مجموعہ ہی نہیںاس کے متعلق یہ خیال درست نہیں کہ بغیر تفکر وتدبر کے اس کی حکمتوں تک پہنچا جاسکتا ہے اور اسے سمجھنے کے لئے صرف زبان عربی کا جاننا ہی کا فی ہے یہ بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ احکام وقوانین کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اندر ایک عمبق فلسفہ اور گہری حکمت بھی رکھتاہے جس تک رسائی کے لئے صرف تیرنا ہی کافی نہیں بلکہ ڈوبنے کی بھی شدید ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ایک ایک سورہ اور ایک ایک آیت پر سالوں سال اور گھنٹے صرف کرتےاورقرآن پر غوروخوض کے لئے وہ مجلسیں قائم کرتےخود سرورکائنات اس طرح کی مجلسوں کے قیام کے لئے صحابہ کرام کو شوق دلاتے( ۴۵) ابو داود میں ذکر ہے ۔

” مااجتمع قوم فی بیت من بیوت اللہ یتلون کتاب اللہ ویتارسونہ بینھم الانزلت علیھم السکینة وغشیتھم الرحمة وحقتھم الملائکة وذکرھم اللہ فیمن عندہ“ ( ۴۶ )

جو لوگ کسی جگہ متہد ہو کر اللہ کی کتاب پڑھنے اور باہم درس و مذاکرہ قرآن کی مجلسیں قائم کرتے ہیںان پر اللہ کی طرف سے تسکین اور رحمت کی بارش ہوتی ہے اور ملائکہ ان کو ہر طرف سے گھیرے کھڑے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے حلقہ میں ان کا ذکر فرماتا ہے ۔

اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر کے بارے میں آتا ہے :

” عبداللہ بن عمر مکث علی سورة البقرة ثمانی سنین یتعلمھا“ ( ۴۷ )

حضرت عبداللہ بن عمر مسلسل آٹھ برس تک سورہ بقرہ پر تدبر فرماتے رہے ۔

اس کے علاوہ خود قرآن کی بیشتر سورتوں میں مختلف انداز سے تفکر تدبر کی دعوت دی گئی ہےکہیں

لعلکم تعقلون،کہیں لعلکم تفکرون

اور کہیں لعلکم تذکرون آیا ہے فہم قرآن مجید کے لئے ایک ضروری شرط کی طرف یوں اشارہ کیاگیاہے ۔

” ان فی ذالک لذکری لمن کان لہ قلب آوالقی السمع وھوشہید“ (ق: ۳۷ )

بیشک اس میں یاددہانی ہے اس شخص کے لئے جس کے پاس دل ہو بامتوجہ ہو کر بات پر کان دھر لے ۔

مولانا فرماتے ہیں کہ فہم قرآن کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ انسان کے پا س بیدار دل ہو اور سننے والا کان ہو بغیر اس کے قرآنی حکمتوں سے فیضیاب ہونا ممکن نہیں ہے ۔( ۴۸) مولانا فرماتے ہیں کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کا ہونا لازمی ہے یاتو آدمی کے سینہ کے دروازے کھلے ہوئے ہوں اور فہم وادراک کی روشنی اس کے اندر زندہ ہو یایہ کہ اپنے کانوں کو وہ اس کے لئے کھول دے اورطبیعت کی آمادگی کے ساتھ اس کا خیر مقدم کرےجو حضرات دونوں باتوں سے محروم ہیں وہ قرآن مجید کے فیض سے محروم ہیںان لوگوں کی تصویر سورہ محمد میں ان الفاظ میں کھینچی گئی ہے ۔( ۴۹ )

” اٰفلا یتد برون القرآن ام علی قلوب اقفالھا “

کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں ۔

اسی بحث کو مولانا نے آگے بڑھاتے ہوئے ”ولقدیسّرنا القرآن کی صحیح تاویل“ پیش کی ہے کہ قرآن کریم ایک سیدھی سادی کتاب ہے یہ احکام و قوانین اورپندو موعظت پر مشتمل ہے اس کی ایک ایک سورہ پر آٹھ آٹھ برس سر کھپانے کی کیا ضرورت ہے ؟اس کے لئے روایات ،تفاسیر اور شان نزول کی کوئی حاجت نہیںمولانا فرماتے ہیں کہ اگر اس آیت پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا تو ہرگز ایسا نہ کہا جاتا بالعموم اس آیت کا مفہوم یہ بتایاجاتا ہے کہ حصول نصیحت کی غرض سے یہ کتاب آسان ہے جو ایک مناسب خیال ہے لیکن یہ بات ہرگز درست نہیں کہ حفظ کے نقطہ نظر سے آسان ہے ۔( ۵۰ )

مولانا اس پر روشنی ڈالتے ہوئے”یسرنا“ اور ”للذکر“پر لغوی بحث کی ہے مجاہد نے ”یسرنا“ کا معلوم ”ھوناہ“ بتایا ہے اور ابن زید نے اس کا مفہوم ”بیناہ “قرار دیا ہے اس سے ایک حد تک مفہوم تو ادا ہو گیا لیکن اس کی جامعیت کا حق نہ اداہو سکا”یسر“کے معنی لغت میں نرمی اور فرمانبرداری کے ہیںاسی سے تیسیر ہے جس کے معنی ہیں کسی شی کو کسی مقصد کے لئے موزوں،صالح ،موافق اور سازگار بنا لینامثلاً کہیں گے ۔”یسرالفرس“ یعنی اس نے گھوڑے کو زین،رکاب اور لگام سے آراستہ کر کے سواری کے لئے بالکل تیار کر لیا۔

” یَسًرنا قتہ للسفراذارحلھاویسرالفرس للسفراذااسرجہ والجمہ“( ۵۳ )

اعرج معنی کا شعر ہے ۔

” قمت الیہ باللجام یسرًامضالک یحبترینی الذی کنت اضع“ ( ۵۴ )

میں اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا تو حال یہ تھا کہ وہ لگام کے ساتھ بالکل تیار کھڑا تھا ایسے ہی وقتوں میں وہ میرے احسانا ت کا حق اداکرتا ہے یہیں سے اس میں اہل اور لائق بتانے کا مفہوم بھی پیدا ہو گیامضرس بن ربعی کا شعر ہے ۔

” نعین فاعلنا علی ماتابہحتی نیسرہ لفعل السید“ ( ۵۵ )

ہمارے سردار کو جو مشکلیں پیش آتی ہیں ہم اس میں اس کی مدد کرتے ہیںیہاں تک کہ اس کو سرداری کے کام کا اہل بنا دیتے ہیں”للذکر“ کا ترجمہ بعض مفسرین نے نصیحت کرنے کے لئے کیاہے اور بعض نے سمجھنے کے لئے کیا ہے مولانا کے نزدیک یہی درست ہے اگرچہ پھر بھی پوری حقیقت منظر عام پر نہیں آرہی ہے ذکر کے اصل معنی یاد کرنے اور بیان کرنے کے ہیںذکر آسمانی کتابوں کے لئے بھی آتا ہے مثلاً”فاسئلوا اہل الذکر“اسی طرح قرآن مجید میں بھی آیا ہے ۔

” وھذاذکرمبارک انزلناہ “

اور یہ لفظ قرآن کریم میں اس کی صفت کے طور پر بھی آیا ہے مثلاً”والقرآن ذی الذکر“اسی طرح انبیائے کرام کو”مذکر“ اور ان کی تعلیمات کو تزکیہ اور ذکری کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے

” فذکران نفعت الذکریٰ “

اس طرح قرآن کو ”تذکرہ“ اور ”نور “کہاگیا ہے ان دونوں لفظوں سے اس کی پوری حقیقت منظر عام پر آجاتی ہے اور یہ چیز نہایت صراحت کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ قرآنی تعلیمات فطرت انسانی کے مطابق ہیںایک مذکر صرف اس لئے آتا ہے کہ انسان کو اس کا بھولا بسرا ہوا سبق یاد دلا سکے( ۵۶) مولانا فرماتے ہیں کہ ”پس قرآن مجید کے سہل ہونے کے معنی صرف یہ ہیں کہااگر کوئی طالب علم اس کی رہنمائی میں حقیقت تک پہنچنا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مدد ہو گی کیونکہ اس نے وہ راہ اختیار کر لی ہے جواللہ کی کھولی ہو ئی راہ ہے اورجس سے سیدھی اور کھولی ہوئی کوئی دوسری راہ نہیں( ۵۷) حضرت فتادہ نے”ھل من مدکر“کی تاویل فرماتے ہوئے مندرجہ ذیل الفاظ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے ” ھل من طالب علم فیعان علیہ“ہے کوئی طالب علم جس کی مدد کی جائے ۔

اسی حقیقت کی طرف صاحب کشاف نے بھی اشارہ کیا ہے :

” یجوز ان یکون المعنی و لقد ھیاناہ للذکرمن یسر ناقتہ للسفراذارحلھا ویسرفرسہ للسفراذا اسرجہ والجمعة“ ( ۵۹ )

یعنی اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ہم نے ذکر یعنی حصول علم کے لئے قرآن مجید کو تیار کیا ہے جیسا کہ محاورہ ہے کہ اس نے اونٹنی کو سفر کے لیے اور گھوڑے کو میدان جنگ کے لئے تیار کیا ہےاس بحث کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ تفسیر کا جو مفہوم بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ایک عام فہم کتاب ہے اس کے لئے تفکر و تدبر کی ضرورت نہیں اور اس کو جاننے کے لیے صرف عربی جاننا ہی کافی ہے مناسب نہیں ہے مولانا فرماتے ہیں”اگر وہ ایمان لانا چاہتے ہیں اور یہ وعدہ محض مذاق و شرارت نہیں ہے بلکہ سچائی کے ساتھ ان کے دل کا اقرار ہے تو پھر علم کی راہ اختیار کریں،علم کے حصول کے لئے ہم نے قرآن مجید کو نہایت مکمل اور موزوں بتا دیا ہے اس میں ہر سوال کا جواب ہے ہر شبہہ کا ازالہ ہے ہر خلش کے لے تشقی ہےبس اس کو اختیار کرلیں وہ ہر منزل میں رہنمائی کر ے گا اور ہر عقدہ کو حل کریگا۔( ۶۰ )

اس کے بعد مولانا نے تفسیر کے مختلف پہلوؤں سے بحث کی ہے تفسیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن کا نزول عربی مبین میں ہواقرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اس خصوصیت کا ذکر ہے ( ۶۱) مثلاًانا انزلناہ قرآنا عربیآ(سورہ یوسف: ۲) دوسری جگہ ارشاد ہے ”کتابُ فصلت آیاتہ قرآنا عریبا(سورہ قصلت: ۳) اور تیسری جگہ ارشاد ہے وھذ السان عربی مبین“(سورہ نحل: ۱۰۳) مولانا فرماتے ہیںاس لئے قرآن مجید عربی میں نازل ہواپھر عربی بھی وہ عربی جو عربی مبین ہے بالکل واضح اور صاف ،مغلق اور پیچیدہ نہیں جس کو ہر طبقہ بآسانی نہ سمجھ سکے،محدود اور تنگ نہیںجس کے اسالیب و قواعد اور الفاظ و محاورات قبیلوں اور جماعتوں کے ساتھ مخصوص ہوںبلکہ وہ عربی جو مصمائے عرب کی بولی تھیجس کو سب سمجھتے تھے اور جس کی وضاحت پر سب کا اتفاق و اجماع تھاپس عربی زبان میں قرآن مجید کا اترنا عربوں کے لحاظ سے نہایت کھلی ہوئی تیسیر تھی چنانچہ بعض آیات میں اس کی تصریح بھی ہے( ۶۲ )

” قانْما یسرناہ بلسا نک لتبشربہ المتقین وتذربہ قوماً لدا“ (سورہ مریم : ۹۷ )

ہم نے اس کو موزوں بتایا تھاتمہاری زبان میں تاکہ تم اس کے ذریعہ سے خدا ترسوں کو خوشخبری اور ہٹ دھرموں کو آگآہ کرو

اور دوسری جگہ ارشاد ہے :

” قاعایسَّرناہ بلسانک لعلھم یتذکروں“ (سورہ ھاثیہ: ۵۸ )

اور علم نے اسکو استوار کیا تمہاری زبان میں تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں ۔

قرآن کی تیسیر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ تھوڑا نازل ہوا ہےتاکہ قرآن کی تعلیمات دلوں میں واضح ہو جائیںوہ آہستہ آہستہ حالات کے تقاضے اور ضروریات کے مطابق نازل ہوتا رہا،جب کفارنے یہ اعتراض کیا کہ یہ کیوں نہیں تورات کی طرح ایک ساتھ نازل ہو جاتا جستہ جستہ کیوں اترتا ہے تو ان کے جواب میں اللہ فرماتا ہے :

” کذالک لنثبت بہ فوادک ورتلناہ ترتیلا“(سو رہ الفرقان: ۳۲ )

ایسا اس لئے ہے کہ اس طرح ہم تمہارے دل کو مضبوط کریں اور ہم نے قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر اتارا ہے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :

” لتقراہ علی الناس علیٰ مکث “

بنی اسرائیل: ۱۰۶) تاکہ تو اس کو لوگوں کو وقفہ وقفہ کے ساتھ سنائے ۔

تیسیر کا تیسرا پہلو سورہ ہود کے آغاز میں مذکور ہے :

” کتاب احکمت اٰیاتہ تم فصلت من لدن حکیم خیر “

سورہ یہود! ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں پھر ایک حِکم کی طرف سے ان کی تفصیل کی گئی ۔

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مکی سورتوں میں دین کی تمام اصولی تعلیمات توحید،رسالت اور معاد وغیرہ نہایت مختصر اور جامع لفظوں میں بیان ہوئی ہیںاور بعد میں ان کی تفصیلات اور جزئیات مدنی سورتوں میں بیان کی گئیںقرآن کریم کے اجمال و تفصیل کا یہ طریقہ فطرت انسانی کے نقطہ نظر سے نہایت مناسب ہے

تیسیرکا چوتھا پہلو تعریف آیات ہے یعنی قرآن کریم مخاطب کے ذہن میں اچھی طرح بات کو ذہن نشین کرانے کے لئے ایک ہی بات کو مختلف انداز سے پیش کرتا ہے( ۶۳) قرآن کریم میں ارشاد ہے :

” انظر کیف نصرف الآیات تم ھم یصدفون“(سورہ انعام: ۶۴ )

دیکھو‘کیسے ہم پھیر پھیر کر اپنے دلائل بیان کرتے ہیںپھر بھی وہ منہ موڑتے ہیں ۔

” انظر کیف نصرف الآیات لعلھم یفقھون“(سورہ انعام: ۶۵ )

دیکھو‘کیسے ہم اپنی دلیلیں پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں ۔

مولانا فرماتے کہ تصریف آیات کا لفظ تصریف ریاح سے لیاگیاہےیعنی ہوا ایک ہی ہے لیکن اس کے تصرفات میں تنوع او ر گونا گونی ہے یعنی وہ رحمت بھی اور نعمت بھیمولانا کا خیال ہے کہ اس کا بہر بھیس اس کا ئنات کی زندگی اور نشوونما کے لئے ضروری ہوتا ہے وہ کبھی گرم ہوتی ہے کبھی سرد کبھی خشک ہوتی ہے کبھی تر کبھی آندھی کی ہولناکی بن کر نمودار ہوتی ہے کبھی نسیم صبح کی جان توازی اور عطربہتری بن کر اللہ تعالیٰ نے اس تصریف ریاح کا مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے سورہ ذاریات اور مرسلات میں اسکے عجائب تصرفات کی قسم بھی کھائی گئی ہے ۔( ۶۴ )

بارش کی ایک مثال سے اللہ تعالیٰ نے تین حقائق کو پیش کیا ہے ایک تو یہ کبھی مدتوں بارش نہیں ہوتی ہے ایسے میں بندہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے لگتا ہے لیکن اچانک کو ئی ابر کا ٹکڑا اٹھتا ہے اور دلوری سرزمین کو جل تھل کر دیتا ہے چنانچہ بندے کی مایوسیاں امیدمیں بدل جاتی ہیں اسی لئے مناسب یہ ہے کہ خوف اورطمع ہر حال میں اللہ ہی کو پکارا جائے ۔

” وادعوہ خوفاً وطمعًا ان رحمةاللہ قریب من المحسنین“(سورہ الاعراف: ۵۶ )

پس امید ہو یا بہم ہر حال میں اسی کو پکارو اللہ کی رحمت سے اس اچھے بندوں سے قریب ہے ۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ منکرین کو اس پر حیرت ہے کہ ہم گل سڑ جانے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ ہو جائیں گے؟اللہ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی استعجاب نہیں کیونکہ زمین جل جاتی ہے اور سطح زمین پر گھاس کا ایک تنکا بھی نظر نہیں آتالیکن بارش ہوتے ہی چند دنوں کے بعد سطح زمین پر سبزہ کی بارات بچھ جاتی ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے

” سقناہ لبلدٍ میت فائزلنا بہ الماء فاخر جنابہ من کل الثمرات کذالک مخرج الموتی“(سورہ الاعراف: ۵۷ )

ہم نے ان بادلوں کو کسی سو کبھی زمین کی طرف پانک کر لے جاتے ہیںاور وہاں پانی برسا دیتے ہیںپھر اس سے پیدا کر دیتے ہیں ہرقسم کے پھل اسی طرح مُردوں کو بھی اٹھا کر کھڑے کریں گے ۔

ایک تیسری حقیقت یوں ہے کہ بارش زمین کے ہر حصہ پر ہوتی ہے لیکن اس کے اثرات و نتائج مختلف حصوں میں مختلف ہوتے ہیں زرخیز زمین لہلہا اٹھتی ہیں اور لوگوں کے لئے سبب رزق بن جاتی ہیں لیکن تھور زمینیں ویسی کی ویسی ہی پڑی رہتی ہیںاگر اس میں کچھ اُگا بھی تو وہ انسانوں کے لئے راس نہیںیہی حال آسمان کی روحانی بارش کا ہے جو تمام لوگوں کے لئے عام ہوتی ہے لیکن ہر انسان بقدر استعداد اس سے فیضیاب ہوتا ہے فطرت صالحہ اس سے خیروبرکت حاصل کرتی ہے اور فطرت فاسدہ اس سے اضطراب کا شکار ہو جاتی ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔

” والبلد الطیب یخرج نباتہ باذن ربہ والذی خبث لایخرح الانکداً“ (سورہ الاعراف: ۵۷ )

جو زمین زرخیر ہوتی ہے اس کی نباتات خدا کے حکم سے خوب اُگتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے وہ بہت کم اُگاتی ہے ۔

تصریف آیات کا مقصد یہ ہے کہ ”کذالک تصرف الآیات لقوم یشکرون“مولانا کہتے ہیں کہ تصریف آیات کا تعلیم اور تیسیر میں اس قدر دخل واضح کہ اس پر کسی بحث کی ضرورت نہیں اس تصریف کا مقصد خود قرآن مجید کی تصریحات کے مطابق یہ ہے کہ لوگ یاد دہانی حاصل کریں اور سمجھیں

” ولقدصرفنافی ھذاالقرآن لیذکروا ومایز ید ھم الاکفورا “

اور ہم نے اس قرآن میں اپنے دلائل پھیر پھیر کر بیان کئے کہ لوگ یاددہانی حاصل کریںلیکن یہ چیز ان کی نفرت ہی بڑھاتی ہے ۔

اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح سامنے آگئی کہ تیسیر کا وہ مفہوم درست نہیں ہے جو عام طور سے سمجھا جاتا ہے اس کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ یہ حصول علم اور یاددہانی کے نہایت آسان ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علم دین فکرو تدبر کی تمام کا وشوں سے مستعنی ہو گیا ہے ۔( ۶۵ )

اس کے بعد قرآن مجید کی مشکلات بااعتبار مخاطب پر روشنی ڈالی گئی ہےاور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ دور اول میں صحابہ کرام قرآن کی امتثال ،اسالیب،اصطلاحات،تلمیحات،احوال عرب اور اپنی قوم کے عقائد ورسومات سے پوری طرح واقف تھےجہاں قرآن کریم نے ا شارہ کیا سمجھ گئے جہاں لسان غیب سے کوئی نقطہ تراوش ہوا وہ بے تکلف اس کا مطلب سمجھ گئےاس کی مثا ل یہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں ابولہب کی نسبت نہایت لطیف تصریحات ہیں جن کی تہہ تک پہنچنا صحابہ کرام کے لئے دشورا گزار نہ تھالیکن آج کے عہد میں ان تصریحات کا سمجھنا اور قرآنی اسالیب کا بآسانی پکڑنا مشکل ہے ،بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں ہلکے سے اشارات ہیں ان کا سمجھنا ہم لوگوں کے لئے ایک مسئلہ ہے لیکن صحابہ کرام اشارہ پاتے ہی پوری داستان کو سمجھ جاتے تھےاس سلسلے کی دو مثالیں یہاں پیش کی جارہی ہیںایک میں اہل مکہ کی نماز کا ذکر ہے ۔

” وماکان صلوتھم عندالبیت الامکاءً ولتصدیةً “

نہیں تھی ان کی نماز خانہ کعبہ کے پاس مگر تالی بجانا اور صحیح بجانا

آج اہل مکہ کی اس عبادت کا پورا تصور منظر عام پر لانا ہمارے لیے کس قدر مشکل ہے لیکن عہد نزول قرآن کے لوگوں کے سامنے اس کی پوری تصویر موجود تھیکیونکہ ظہور اسلام سے قبل خود اسی طرز پر اپنی نمازیں اداکرتے تھے ۔( ۶۶ )

اسی طرح سورہ اعراف میں ذکر ہے :

” واذا فعلوافاحشة قالواوجدناعلیھا آباء ناواللہّٰ امرنا بھاء قل ان اللہ لایامربالفحشاء اتقولوٴن علی اللہ مالاتعلمون“(سورہ اعراف: ۲۸ )

اور جب کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں توکہتے یں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو یہ کام کرتے ہوئے پایا ہے اور اللہ نے ہم کو اس کا حکم دیا ہے کہدو اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتاکیا تم اللہ پر ایسی بات کا الزام دھرتے ہوجس کا تمہیں علم نہیں ۔

اس آیت میں اہل مکہ کے ننگے طواف کرنے کا ذکر ہوا ہے جبکہ بالفاظ اس کا ذکر نہیں ہے بلکہ ایک لطیف سا اشارہ ہےکیونکہ اہل مکہ اس کے سیاق وسباق سے پوری طرح واقف تھےلیکن آج ہمارے لئے اس آیت کے پس منظر پوری طرح گرفت میں لے لینا آسان نہیں ہے اسی ننگے پنے کی صورت طواف کرنے کا ذکر دوسری جگہ اس طرح ہے ۔

” یٰبنی آدم خذوذینتکم عند کل مسجدوکلواواشربواولاتسرفواانہ لایحب المسرفین قل من حرم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزق“ (سورہ اعراف: ۳۱ ، ۳۲ )

ہر مسجد کے پاس لباس وغیرہ سے اپنے تئیس آراستہ کر لیا کرو اور کھاؤپیو اور فضول خرچیاں نہ کروکیونکہ خدا فضول خرچیاں کرنے والوں کو پسندنہیں کرتاان لوگوں سے کہ کس نے حرام کی اللہ تعالیٰ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی اور پاک روزیاں(جو اس نے اپنے بندوں کو بخشیں ۔

اسی طرح کی بہت سے واقعات اور اہل مکہ کے عقائد و رسومات متعدد آیات میں ذکر کئے گئے ہیں جن سے صحابہ کرام پوری طرح باخبر تھےلیکن موجودہ عہد میں ان تمام چیزوں سے آگاہ ہونے کے لئے بہت چیزوں کا سہارا لینا پڑے گا۔

جن کی طرف مولانا فراہی نے ان لفظوں میں اشارہ کیا ہے ”ہم کو لازم ہے کہ زمانہ نزول کی پوری حالت تمدن سے ہم واقف ہوں “

۱۔ہم کو اس وقت کے یہود ونصاری ،مشرکین،صابیئین وغیرہ کے مذہب و معتقدات سے واقف ہونا چاہیے

۲۔ہم کو عرب کے عام توہمات کو دریافت کرنا چاہیے ۔

۳۔ہم کو جاننا چاہیے کہ نزول قرآن کی مدت میں کیا کیا واقعات نئے پیدا ہوئے اور ان سے عرب کی مختلف جماعتوں میں کیا کیا مختلف باتیں زیر بحث آگئیںکیا کیا ملکی و تمدنی جھگڑے چھڑ گئے اور تمام عرب میں کیا شورش پیدا ہو گئی ۔

۴۔ہم کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ عرب کا مذاق سخن کیاتھا کس قسم کے کلام سننے اور بولنے کے وہ عادی تھے بزم میں ان کا خطیب کس روش پر چلتا تھاایجاز اور اطناب ،ترصیع وترکیب،دیگر اسالیب خطابت کو وہ کیونکر استعمال کرتے تھے ۔

۶۔اور بالآخر ہم کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ عرب کے ذہن میں اخلاق کے مدارج نیک وبد کیاتھے ۔(۶۷ )

اس کے بعد مولانا نے سلف کے طریقہ تفسیر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایاکہ پہلے وہ آیات کی تفسیر کے لئے دوسری آیات سے مددلیتے تھےاس کے بعد احادیث رسول کے ذریعہ قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے اور تیسرے مرحلہ میں صحابہ کرام کے آثار و اقوال سے مدد لیتے تھے ۔( ۶۸) جس کی طرف علامہ سیوطی نے خود اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے ( ۶۹) اور وہیں پر علامہ سیوطی نے یہ بات بھی بڑے شدومد کے ساتھ کہی ہے کہ تفسیر

کے وقت اس کا ضرور خیال رہے کہ موضوع اور ضعیف احادیث سے احتراز کیاجائے ۔( ۷۰ )

شان نزول کے سلسلے میں مولانا فرماتے ہیں کہ تفاسیر کو دیکھا جائے تو تقریباًہر آیت سے متعلق کوئی نہ کوئی واقعہ موجود ہے اور کبھی کبھی ایک ہی آیت کی شان نزول میں اتنے واقعات درج ہیں کہ ان میں تضاد پایاجاتا ہے اس سلسلے میں مولاناکاخیال ہے کہ ان میں سے اکثر واقعات کا آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ہر آیت سے متعلق کوئی واقعہ یا چند واقعات تسلیم کر لیے جائیں توقرآن میں نظم و تسلسل کی تلاش بے معنی ہو کر رہ جائے گی ہر آیت کو کسی واقعہ سے جوڑنا تسلسل کے منافی ہے ۔( ۷۱) جیساکہ امام رازی نے

” واذا جاء ک الذین یومنون باٰیٰتینا “

کی تفسیر کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ میرے سامنے یہاں ایک سخت اشکال ہے وہ یہ کہ لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ پوری سورہ بیک دفعہ نازل ہوئی جب معاملہ یوں ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سورہ کی ہر آیت کی نسبت یہ کہا جائے کہ اس کے نزل کا سبب فلاں واقعہ ہے ۔( ۷۲ )

اسی کی مزید وضاحت علامہ سیوطی نے ان لفظوں میں کی ہے کہ زرکشی نے برہان میں لکھا ہے کہ صحابہ کرام وتابعین عظام کا یہ طریقہ عام ہے کہ ان میں سے جب کوئی شخص یہ کہتا ہے یہ آیت فلاں بارے میں نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ یہ بات اور پتہ اس کے نزول کا سبب ہے گویا یہ بس آیت سے اس معاملہ پر ایک استدلال ہوتا ہے کہ نقل واقعہ( ۷۳) ٹھیک یہی تحقیق شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی ”الفوزالکبیر میں پیش کی ہے ( ۷۴) اسی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا کا خیال ہے کہ صرف ان قصص و واقعات کو جاننا ضروری ہے جن کی طرف آیات ضروراشارہ کررہی ہوں کیونکہ بغیر اس کے پوری طرح سے آیات کی تفسیر ممکن نہیں ہے ( ۷۵) اس پہلو کی طرف خود شاہ صاحب نے بھی اشارہ کیاہے ۔( ۷۶ )

آخر میں مولانا نے خلاصہ بحث پیش کرتے ہوئے بتایا کہ

۱۔قرآن مجید بعض پہلوؤں سے آسان ہے اور بعض پہلوؤں دقیق اور مشکلاس لئے یہ کہنا کہ وہ ایک سپاٹ کتاب ہے مناسب نہیں ہے ۔

۲۔اس کے متعلق یہ نظریہ بھی درست نہیں کہ وہ محض احکام و قوانین کا مجموعہ اور حرام وحلال کے معلوم کرنے کا ایک خشک اور سیدھا سادہ ضابطہ ہے بلکہ یہ کتاب الہی تین اجزاء پر مشتمل ہے ۔

۱ آیات اللہ یعنی دلائل وبراہین

۲ کتاب یعنی قوانین و احکام

۳ اور حکمت یعنی روح شریعت اور جوہر دین پہلا حصہ دین کی منطق،دوسرا حصہ دین کا نظام اور تیسرا حصہ دین کا فلسفہ ہے

۴ قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس سے یہ تقاضا ہو کہ وہ ایک سپاٹ کتاب ہے کیونکہ اس میں بیشمار ایسی آیات ہیں جن سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اس پر تفکر و تدبر کرنا چاہیے ۔

۵ جو لوگ قرآن مجید کی تفسیر کے باب میں صرف روایات ہی پر اعتماد کرتے ہیں یقینا وہ غلو کرتے ہیں،کیونکہ یہ بات محققین کے مذہب کے برعکس ہے ۔

۶ شان نزول سے بھی قرآن مجید کی وضعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے محققین کے نزدیک یہ استنباط کی ایک قسم ہے یعنی صحابہ کرام جو یہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت فلاں و اقعہ پر اتری یا فلاں بارے میں نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس آیت کے نزول کے سبب بعینہ وہی واقعہ ہے بلکہ اس کا مطلب بالعموم یہ ہوتا ہے کہ وہ آیت فلاں حکم پر مشتمل ہے ۔(۷۷ )

اس کتاب کا آخری باب ”تفسیر کا اصول “ ہے اس کے آغاز میں مولانا نے مفسرین کے چار مکاتب کا ذکر کیا ہے جن میں سے تین مکاتب محدثین اور اہل روایت کا طریقہ (اس طرز پر تفسیر ابن جرید اور تفسیر ابن کثیر لکھی گئی )متکلمین کا طریقہ(اس طرز پر زمخشری ی تفسیر کشاف اور رازی کی تفسیر کبیر منظر عام پر آئی)اور مقلدین کا طریقہ(یعنی مذکورہ تفاسیر کے بعد بقیہ تمام تفاسیر گزشتہ تفاسیر کے خطوط پر تصنیف کی گئیں)کا ذکر باب ”تیسیر قرآن“میں آچکا ہے ( ۷۸) اور چوتھا مکتب فکرو متجددین کا طریقہ یہ ہے یہ وہ حضرات ہیں جو مغربی افکار و نظریات سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ اس کی تائیدقرآنی آیات سے کرنا شروع کر دیااس طریقہ تفسیر کی طرح سر سید مرحوم نے ڈالی اور پھر یہ فتنہ بڑھتا ہی گیامولانا نے ان چاروں مکاتب پر تنقید کی ہے ان میں سے تین مکاتب پر باب ”تیسیر قرآن“ میں تنقید آچکی ہے چوتھے مکتب فکر متجد دین کے باب میں مولانا کا خیال ہے کہ جس طرح متکلمین نے اپنے نظریات کی تائید کے لئے قرآن کو توڑ مروڑ کر پیش کیااسی طرح انہوں نے بھی اپنے خیالات کو امت مسلمہ کے مابین مقبول بنانے کے لیے قرآن مجید پر ہاتھ صاف کیا اس سلسلے میں مصر کے علامہ طنطاوی اور ہندوستان کے سرسید کی تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ انہوں نے دین کی تمام حدیں مسمار کر دی ہیںاس طرح کی تفاسیر کو تفسیر قرآن کی بجائے تحریف قرآن کہنا زیادہ صحیح ہو گا۔

مولانا نے تفسیر کے صحیح اصول کے متعلق بتایا کہ وہ دو ۲ ہیں ایک قطع اور دوسرے ظنی،قطع اصول چارہیںایک تو عربی زبان،دوسرا قرآن مجید کے الفاظ واسالیب،تیسرا قرآن مجید کی نحو اور چوتھا قرآن مجید کی بلاغت و صحافت ان تمام چیزوں پر مولانا نے اسی کتاب میں تدبر قرآن کے داخلی اور خارجی وسائل کے تحت روشنی ڈالی ہے ۔( ۷۹) اس باب کے آخر میں مولانا نے نظم قرآن سے بحث کی ہے جس پر ان کا ایک مقالہ بھی ہے ۔( ۸۰) آپ کے استاذ گرامی مولانا قراہی کی اس موضوع پر ایک مستقل کتاب بھی ہے ۔( ۸۱) اور استاذ گرامی دونوں حضرات نے نظریہ نظم قرآن کو اپنی اپنی ( ۸۲)(۸۳) تفاسیر میں عملی جامہ پہنایا ہے نظم قرآن کے متعلق مولانا کا خیال ہے کہ یہ صحیح تاویل کے تعین میں ایک فیصلہ کن عامل ہے نظم کا مطلب یہ ہے کہ ہر سورہ کا ایک عمود یا موضوع ہوتا ہے اور سورہ کی تمام آیات نہایت ترتیب اور مناسبت کے ساتھ اپنے موضوع سے جڑی ہوئی ہوتی ہیںیعنی بہ متفرق آیات ایک حسین وحدت کی صورت اختیار کر جاتی ہیںاس کے بغیر سورہ کی اصل حیثیت اور آیات کی صحیح تاویلات منظر عام پر نہیں آ سکتیںلیکن چونکہ نظم قرآن ایک مشکل عمل ہے اس لئے مفسرین نے اس کی طرف توجہ کم دی ہےاگر کسی نے دی بھی ہے تو بڑے سر سری انداز میں اور کچھ لوگوں نے نظم قرآن کو کا ر غبت قرار دیا ہے ۔( ۸۴ )

اس کے بعد مولانا نے یہ واضح کیا کہ نظم قرآن آج کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔ ( ۸۵) بلکہ پہلے کے لوگوں نے بھی اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے علامہ ابو جعفر بن زبیر شیخ ابوحیان کے استاذ نے اس موضوع پر ”البرہان فی مناسبة ترتیب سورا القرآن“کے عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی ۔( ۸۶) اور شیخ برہان الدین بقاعی (المتوفی: ۱۴۸۰ ء) کی تفسیر نظم ”الدروفی تناسب الای السور“( ۸۷) بھی اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی علامہ سیوطی نے بھی نظم قرآن پر اپنی تصنیف کا ذکر کیا۔( ۸۸) اما م رازی نے بھی اپنی تفسیر میں نظم قرآن پر خصوصی توجہ دی ہے ۔( ۸۹) لیکن مولانا نے ان کی اس خدمت کو زیادہ مفید نہیں بتایا ہے اسی سلسلہ کی ایک کوشش علامہ مخدوم مہایمی کی تفسیر”تبصیر الرحمان وتیسیر المنان“ ہے ۔( ۹۰) جس میں انہوں نے اپنی کوشش کو حد تک آیات قرآن کا نظم بیان کرنے کی کوشش کی ہے اس مسلک کے ایک اور بزرگ علامہ ولی الدین علوی ہیں جن کا نظم قرآن کے متعلق ارشاد ہے ”جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن مجید کا نزول چونکہ حالات کے تقاضے کے مطابق تھوڑا تھوڑا کر کے ہوا ہے اس وجہ سے اس میں نظم نہیں تلاش کرنا چاہیےان کو سخت دھوکا ہوا ہے قرآن مجید کا نزول بلا شبہ حسب حالات جستہ جستہ ہوا ہے لیکن جس طرح اس کو ترتیب دیا گیا ہے اس میں نہایت گہری حکمت ملحوظ ہے ۔( ۹۱ )

اس باب کے آخر میں مولانا فرماتے ہیں کہ مذکورہ گفتگو کی روشنی میں یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی کہ مولانا قراہی اور ان کے اساتذہ سے قبل بھی نہ صرف یہ کہ اس نظریہ کے قائلین رہے ہیں بلکہ اس پر تصانیف منظر عام پر آئیں اور اسی کی روشنی میں تفاسیر بھی ترتیب دی گئیں( ۹۲ )

حواشی

۱۔”مبادی تدبر قرآن“ کی پہلی اشاعت اپریل ۱۹۵۱ءء میں تدبر قرآن کے عنوان سے ہوئی تھیجس میں صرف دو باب”تدبر قرآن ”اور ”تیسیر قرآن“ شامل تھے”تدبر قرآن“ ہی کے عنوان سے مئی ۱۹۵۲ءء میں جب اس کی دوسری اشاعت زیر عمل آئی تو اس میں دواورباب کے اضافے کئے گئے جن کے عناوین ”فہم قرآن کے لئے چند ابتدائی شرطیں“ اور ”تفسیر کے اصول“ تھےاس کا عنوان ”مبادی تدبر قرآن“ کر دیا گیا۔

۲۔اس سلسلے میں دیکھیے؛مولانا حمید الدین قراہی اور علم حدیثمولانا امین احسن اصلاحی مرحوممجلہ الفرقان لکھنو جلد ۶۶،شمارہ ۰۹،دفتر ماہنامہ الفرقان۳۱/۱۴ اظہر آباد،لکھنو ستمبر ۱۹۹۸ء ،ص۱۴۱۸۔

۳۔تدبر قرآن امین احسن اصلاحیمکتبہ چراغ راہلوٹیا بلڈنگ آرام باغ روڈ کراچی باردوم مئی ۱۹۵۶ء ص۲۴۲۵

۴۔ایضاًص۲۷۲۸

۵ ۔ایضاًص ۲۹ نمبر

۶ ۔ایضاً وضاحت کے لئے دیکھئے۳۲۳۴

۷۔ایضاً ص۳۴۳۵

۸۔ایضاً ص۴۱۴۲

۹۔ایضاً ص۴۲۴۳

۱۰۔وضاحت کے لئے دیکھیےص۴۴۴۶

۱۱۔ایضاً ص۴۷

۱۲۔ایضاً ص۱۲

۱۳۔ایضاً وضاحت کے لئے دیکھیے ص۵۳۶۴

۱۴۔ایضاًص۶۴

۱۵۔وضاحت کے لئے ص۶۵۷۱

۱۶۔ایضاً ص۷۱

۱۷۔ایضاً۷۳۷۴

۱۸۔ایضاً ص۷۵

۱۹۔ایضاً ص۷۹۸۰

۲۰۔وضاحت کے لیے دیکھیےص۸۴۹۰

۲۱۔ایضاً ص۹۰

۲۲۔مولانا کی یہ تفسیر جزوی طور پر اور دیگر تفسیری اجزاء کے ساتھ شائع ہو چکی ہے دیکھیے تفسیر نظام القرآن حمید الدین قراہی (ترجمہ از امین احسن اصلاحی) دائرہ حمیدیہ مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم ۱۹۹۰ء ء ص۳۶۳۴۱۰

مولانا کی یہ تفسیر اہل علم کے نزدیک ہمیشہ معرض بحث بنی رہی اس سلسلے میں دیکھیے مولانا فراہی فیل پر اعتراضات کا جائزہمولانا نسیم ظہیر اصلاحی مجلہ تحقیقات اسلامی علی گڑھ ۶ /۲ ، اپریل جون ۱۹۷۸ ء ص ۲۸۱۹۶

۲۳۔تدبر قرآن ص۹۱

۲۴ایضاً ص۹۱۹۲

۲۵صحاج جوہری بحوالہ تدبر قرآن ص۹۱۹۲

۲۶مبادی تدبر قرآنمولانا امین احسن اصلاحی مرکزی انجمن خدام القرآنلاہورباب چہارم ۱۹۸۰ء ص۶۰

۲۷ ” اسالیب القرآن“پر دیکھیے قرآن مجید کے بعض اسالیب سے متعلق مولانا فراہی کی توصیحاتایک مطالعہ مولانا تعلیم الدین اصلاحی (علامہ حمید الدین فراہی ،حیات و افکار، ۱۹۹۲ء انجمن طلبہ قدیم مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم گڑھیوپی انڈیاص۳۸۷۴۰۱

۲۸مفردات پر خاکسار کامضمون دیکھیے

۲۹۔تدبر قرآن ص۹۵۹۶

۳۰۔وضاحت کے لیے دیکھیے ”اعجاز القرآن الباقلانی ابوبکر محمد بن الطیب(تحقیق،السید احمد صفر) دارالمعارف مصر(بدون تاریخ) ص۷۲

۳۱وضاحت کے لیے دیکھیےجمرة البلاغہالمعلم عبدالحمید القراہیالدائرة الحمدیہ،اعظم گڑھ،الہند ۱۳۶۰ئھ ص۱۸۸

۳۲۔”جمرة البلاغہ“ پر دیکھیے؛ مولانا فراہی کے تنقیدی نظریاتجمرة البلاغہ کی روشنی میں پروفیسر محمد راشد ندویص۵۳۳۵۷۶(علامہ حمید الدین فراہی ؛حیات افکار) نیز دیکھیےمولانا فراہی اور شعریات مشرق،ڈاکٹر عبدالباریص۵۴۷۵۶۱(علامہ حمید الدین فراہی حیات وافکار )

۳۳۔وضاحت کے لیے دیکھیےتدبر قرآنص۹۶۱۰۰

۳۴۔ذبیح کون ہے حمید الدین فراہی(ترجمہ امین احسن اصلاحی) طبع اول دائرہ حمیدیہ مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ(بدول تاریخ)ص۱۱۸۵

۳۵۔وضاحت کے لیے دیکھیےتدبر قرآنص۱۰۳۱۱۲

۳۶۔ایضاً ص۱۱۲

۳۷۔ایضاً ص۱۱۹

۳۸۔وضاحت کے لیے دیکھیےایضاًص۱۲۶۱۴۲

۳۹۔ایضاً ص۱۴۳

۴۰۔ایضاً ص۱۴۳۱۴۶

۴۱ایضاً ص۱۴۶

۴۲۔ایضاًص۱۴۷

۴۳۔ایضاًوضاحت کے لیے دیکھیےص۱۴۹۱۵۶”حکمت قرآن“ کا اردو ترجمہ شائع ہو چکا ہے (ترجمہ از خالد مسعود)طبع اول قاران فاونڈیشنلاہور ۱۹۹۵ء

۴۴۔ص۱۱۴۱

۴۵۔حکمت قرآن امام حمید الدین فراہی(اردو ترجمہ) ص۱۴

۴۶۔بنابر قولص۱۶۰۱۶۱

۴۷۔ابو داؤد بخاری اور مسلم دونوں میں یہ روایت موجود ہے

۴۸۔تدبر قرآنص۱۶۴۱۶۵

۴۹۔ایضاًص۱۶۵

۵۰۔ایضاًص۱۷۱۱۷۲

۵۱۔اس کے لیے لسان العرب دیکھیے

۵۲۔یہ مفہوم لسان العرب اور متجد دونوں میں موجود ہے

۵۳۔یہ مفہوم میں متجد میں موجود ہے

۵۴۔بحوالہ مبادی تدبر القرآنص۱۶۸

۵۵۔دیوان الحماسة (بحواشی محمد اعزاز علی ) المکتبہ الرحیمیہدیو بند یوپی ہند(بدون تاریخ)ص۳۰۷

۵۶۔تدبر قرآن وضاحت کے لیےص۱۷۴۱۷۸

۵۷۔ایضاً ص۱۷۹

۵۸۔بحوالہ مبادی تدبر القرآنص۱۲۲

۵۹۔تفسیر الکشاف بحوالہ مبادی تدبر القرآن ص۱۲۲۱۲۳

۶۰۔تدبر قرآن ص۱۸۱

۶۱۔ایضاً ص۱۸۱

۶۲۔ایضاً ص۱۸۲

۶۳۔ایضاً وضاحت کے لیے دیکھیےص۱۸۲۱۸۶

۶۴۔ایضاً ص۱۸۷

۶۵۔ایضاً ص۱۸۷۱۹۱

۶۶۔ایضاً وضاحت کے لیے دیکھیےص۱۹۶۲۱۰

۶۷۔قرآنی مقالات(ترتیب و پیشکش ادارہ علوم القرآن علی گڑھ) طبع اول ناشر ادارہ علوم القرآن علی گڑھ ۱۹۹۱ء ص۱۴

۶۸۔تدبر قرآنص۲۱۱

۶۹۔ الاتقان فی علوم القرآنسیوطی(ترجمہ از مولانا محمد حلیم انصاری) نور محمد اصح المطابع کا رخانہ تجارت کتب،آرام باغ

۷۰۔الاتقان فی علوم القرآن (اردو ترجمہ) ۲/۵۶۵ کراچی (بدول تاریخ) ۲/۵۵۶۵۶۰

۷۱۔تدبر قرآنص۲۱۸

۷۲۔تفسیر رازیبحوالہ مبادی تدبر قرآنص۱۵۱

۷۳۔الاتقان(اردو ترجمہ) ۱/۷۶

۷۴۔الفوز الکبیر فی اصول التفسیر(اردو)شاہ ولی اللہ(مترجم:مولوی رشید احمد صاحب انصاری مرحوم) فاروق پریس دہلی(بدول تاریخ)ص۵

۷۵۔تدبر قرآنص۲۲۵

۷۶۔الفوز الکبیر فی اصول التفسیر(اردو)ص۵

۷۷۔تدبر قرآن،وضاحت کے لیے دیکھیےص۲۳۲۲۳۳

۷۸۔ایضاً ص۱۰۶۱۱۹

۷۹ایضاً ص۸۶۹۶

۸۰۔قرآنی مقالات(نظم قرآن مولانا امین احسن اصلاحی)طبع اول ۱۹۹۱ء ص۱۶۲۲

۸۱۔رسائل الامام الفراہی فی علوم القرآنالامام عبدالحمید فراہی الطبقہ الثانیہالدائرہ الحمیدیہ مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ(الہند) ۱۹۹۱ء ص۷۱۳۹

۸۲۔مولانا اصلاحی کی تفسیر تدبر قرآن کے عنوان سے آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے یہ پاکستان میں انجمن خدام القرآن لاہور سے اور ہندوستان میں سے شائع ہوتی ہے

۸۳۔تفسیر نظام القرآنحمید الدین فراہی (ترجمہ ازامین احسن اصلاحی )دائرہ حمیدیہ مدرسة الاصلاحی سرائے میر اعظم گڑھ( ۱۹۹۰ء ص۱ )

۸۴۔تدبر قرآن وضاحت کے لیے دیکھیےص۲۵۲۲۵۴

۸۵۔نظم قرآن ہی کے موضوع پر دیکھیےالبریان فی نظام القرآنمحمد عنایت اللہ اسد سبحانی الطبقہ الاولیٰ دارالکتب پشاور پاکستان ۱۹۹۴ء ص۱۶۲۸

۸۶۔الاتقان(اردو) ص۳۲۵

۸۷۔ ”نظم الدررفی تناسب الایات والسور“بائیس جلدوں پر مشتمل ہے جو حیدر آباد دکن ہند کے مطبع ”مجلس دائرة المعارف العثمانیہ“ سے شائع ہوئی ہے صاحب تفسیر امام بقاعی نے نظم قرآن کے متعلق مقدمہ میں فرمایا ہے ”الحمد للہ الذی انزل الکتاب متنا سباسورہ وآیانہ ومتنسابھا فواصلہ وغایاتہ “

۸۸۔علامہ سیوطی نے نظم قرآن پر جو کتاب تالیف کی ہے اس کا عنوان ”اسرارالتفسرین“ ہے جس کے متعلق ان کا خیال ہے کہ وہ بھی سورتوں اور آیتوں کی باہمی مناسبتوں کی جامع ہے الاتقان(اردو) ص۳۲۵

۸۹۔اس کے لیے دیکھیے تصنیف،نظم قرآن،جو دائرةالحمیدیہ،مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ سے ۱۹۹۲ ء میں شائع ہوتی ہے اس میں نظم قرآن کے متعدد قائلین کا ذکر ہے

۹۰۔نظم قرآن کے موضوع پر ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی کی کتاب ۱۹۹۸ء میں شعبہ اسلامیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ انڈیا سے شائع ہوئی ہےجس میں مہائمی کی نظریہ نظم قرآن سے بحث کی گئی ہے

۹۱۔بحوالہ مبادی تدبر قرآنص۱۷۶

۹۲۔تدبر قرآن ص۲۵۶