تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب

آیة اللّٰہ العظمی الخوئی

جب فضیلتِ قرآن کی بات آئے تو بہتر هے کہ انسان توقف اختیار کرے، اپنے آپ کو قرآن کے مقابلے میں حقیر تصور کرے اور اپنی عاجز ی اورناتوانی کا اعتراف کرے، اس لیے کہ بعض اوقات کسی کی مدح میں کچھ کہنے یا لکھنے کی بجائے اپنی عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کر لینا بہتر هوتا هے جو انسان عظمت قرآن کے بارے میں لب کشائی کرنا چاهے بھلا وہ کیا کہہ سکتا هے ؟ یہ کیسے هو سکتا هے کہ انسان (جو ایک ممکن اور محدود چیز هے) لامتناہی ذات کے کلام کی حقیقت کا ادراک کر سکے اور اپنے مختصر اورمحدود ذہن میں اسے جگہ دے سکے ۔

انسان میں وہ کون سی طاقت هے جس کی بدولت وہ اپنے محدود اور ناقص ذہن میں قرآن کی حقیقی قدروقیمت، منزلت اور حیثیت بٹھا سکے اور پھر بیان کر پائے ۔ ایک اہل قلم چاهے کتنا ہی مضبوط هو فضیلت قرآن کے سلسلہ میں لکھ ہی کیا سکتا هے اور ایک خطیب چاهے وہ کتنا ہی شعلہ بیاں هو، زبان سے کیا ادا کر سکتا هے ۔ ایک محدود انسان محدود چیز کے علاوہ کسی لامحدود ہستی کی توصیف کیونکرکر سکتا هے؟

قرآن کی عظمت کے لیے اتنا کافی هے کہ یہ خالق متعال کا کلام هے ۔ اس کے مقام و منزلت کے لیے اتنا کافی هے کہ یہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ هے اور اس کی آیات انسانیت کی ہدایت اور سعادت کی ضمانت دیتی ہیں ۔ قرآن ہر زمانے میں زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی راہنمائی کرتا هے اور سعادت کی ضمانت دیتا هے ۔ اس حقیقت کو قرآن ہی کی زبان سے سن سکتے ہیں ۔ ارشاد هوتا هے :

اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِيْلِِِِِِِِلَّتِی ھِيَاَقْوَمُ۔ (سورہ بنی اسرائیل : ۹ )

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا هے جو سب سے زیادہ سیدھی هے ۔

الٓرٰ کِتَابٌ اَنزَلنٰاہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُُمَاتِ اِلیَ النُّورِ بِاِذْنِِِِِِِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیْدِ o ( سورہ ابراہیم: ۱ )

( اے رسول یہ قرآن وہ) کتاب هے جس کو ہم نے تمہارے پاس اس لیے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (کفر کی) تاریکی سے (ایمان کی) روشنی میں نکال لاؤ۔ غرض اسکی راہ پر لاؤ جو غالب اور سزا وارِ حمد هے۔ "

ھَذٰا بَیانٌ لّلِنَّاسِ وَھُدیً وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِینَ۔ (سورہ آلعمران: ۱۳۸ )

یہ (جو ہم نے کہا) عام لوگوں کے لیے تو صرف بیان(واقعہ ) هے (مگر) اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت هے ۔

اس سلسلے میں رسول اکرم سے بھی روایت منقول هے جس میں آپ فرماتے ہیں :

کلام خدا کو دوسروں کے کلام پر وہی فوقیت اور فضیلت حاصل هے جو خود ذات باری تعالیٰ کو باقی مخلوقات پر هے ۔ ( ۱ )

یہاں پر اس حقیقت کا راز کھل کر سامنے آجاتا هے جس کاہم نے آغاز کلام میں ہی اعتراف کر لیا تھا، یعنی مناسب یہی هے کہ انسان قرآن کی عظمت اور اس کی فضیلت میں لب کشائی کی جسارت نہ کرے اور اسے ان ہستیوں کے سپرد کر دے جو قرآن کے ہم پلہ اور علوم قرآن میں راسخ اور ماہر ہیں ۔ کیونکہ یہ حضرات سب سے زیادہ قرآن کی عظمت اور اس کی حقیقت سے آشنا اور آگاہ ہیں ۔ یہی ہستیاں ہیں جو قرآن کی ارزش (قدرومنزلت) اور صحیح حقیقت کی طرف لوگوں کی راہنمائی فرماتی ہیں ۔ یہی ہستیاں فضیلت میں قرآن کی ہمدوش اور ہم پلہ ہیں اور ہدایت و راہبری میں قرآن کی شریک اور معاون و مددگار ہیں ۔ ان حضرات کے جدا مجد وہی رسول اکرم ہیں ۔ جنهوں نے قرآن کو انسانیت کے سامنے پیش کیا اور اس کے احکام کی طرف دعوت دی وہی رسول اکرم جو قرآنی تعلیمات اور اس کے حقائق کے ناشر ہیں، آپ قرآن سے ان حضرات کا تعلق یوں بیان فرماتے ہیں :

اِنِّیِ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کَتَابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتِي أَھْلَ بَیتِي وَاَنّھُما لَن تَضِلُّویَفتَرِقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَيَّ الحَوْض( ۲ )

میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا هوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت و اہل بیت اوریہ ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہ هونگے حتیٰ کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے ۔

پس اہل بیت اور عترف پیغمبر ہی ہیں جو قرآن کے راہنما اور اس کی فضیلتوں سے مکمل آگاہ ہیں ۔ اس لیے ضرور ی هے کہ ہم انہی کے اقوال پر اکتفاء کریں اور انہی کے ارشادات سے مستفیض هوں ۔ قرآن کی فضیلت میں بہت سی احادیث ائمہ اطہار(ع) سے منقول ہیں، جنہیں مجلسی مرحوم نے کتاب بحار الانوار کی ج ۱۶ میں یکجا فرمایا هے ۔ البتہ ہم صرف چند احادیث پر اکتفا کرتے ہیں ۔

حارث ہمدانی فرماتے ہیں :

میں مسجد میں داخل هوا اور دیکھا کہ کچھ لوگ بعض (بے فائدہ) باتوں میں الجھے هوئے ہیں ۔ چنانچہ میں امیر المومنین کی خدمت میں حاضر هوا اور یہ واقعہ آپ کے سامنے بیان کردیا آپ نے فرمایا: واقعاً ایسا ہی هے؟ میں نے عرض کیا ہاں یا مولا ۔ آپ نے فرمایا: اے حارث! میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے هوئے سنا هے: عنقریب فتنے برپا هوں گے ۔ میں نے عرض کیا مولا! ان فتنوں سے نجات حاصل کرنے کا کیا طریقہ هے؟ آپ نے فرمایا: راہِ نجات کتاب الہی هے ۔ وہی کتاب جس میں گزشتہ اور آنے والی نسلوں کے واقعات اور خبریں اور تم لوگوں کے اختلافی مسائل کے فیصلے موجود ہیں ۔ وہی کتاب جو حق کو باطل سے بٓاسانی تمیز دے سکتی هے ۔ اس میں مذاق اور شوخی کا کوئی پہلو نہیں ۔ وہی کتاب جس کو اگر جابر و ظالم بادشاہ بھی ترک اور نظر انداز کرے، خدا اس کی کمر توڑ دیتا هے ۔ جو شخص غیرِقرآن سے ہدایت حاصل کرنا چاهے، خالق اسے گمراہ کر دیتا هے ۔ یہ (قرآن ) خدا کی مضبوط رسی اور حکمت آمیزذکر هے ۔ یہ صراط مستقیم هے ۔ یہ وہ کتاب هے جسے هوا و هوس اور خواہشات نفسانی منحرف نہیں کر سکتیں ۔ قرآن کی بدولت زبانیں التباس اور غلطیوں سے محفوظ رہی ہیں ۔ علماء اور دانشور اسے پڑھنے اور اس میں فکر کرنے سے سیر نہیں هوتے ۔ زمانے کے گزرنے کے ساتھ یہ پرانی اور فرسودہ نہیں هوتی اور نہ اس کے عجائبات ختم هونے میں آتے ہیں ۔ یہ وہ کتاب هے جسے سن کر جن یہ کهے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب و غریب قرآن سنا هے ۔ یہ وہ کتاب هے کہ جو بھی اس کی زبان میں بولے، صادق ہی هوگا اور جو قرآن کی روشنی میں فیصلے کرے گا، یقینا عادل هو گا ۔ جو قرآن پر عمل کرے، وہ ماجور هو گا، جو قرآن (احکام قرآن) کی طرف دعوت دے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کرتا هے اس کے بعد امیر المومنین نے حارث ہمدانی سے فرمایا: حارث! اس حدیث کو لے لو اور یاد رکھو۔ ( ۳ )

اس حدیث شریف میں چند غیر معمولی نکتے ہیں جن میں سے اہم نکتوں کی ہم وضاحت کرتے ہیں ۔ رسول اکرم فرماتے ہیں :

فیہ نباء من کان قبلکم و خبر معادکم

قرآن میں گزشتہ اور آئندہ کی خبریں موجود ہیں ۔

اس جملے کے بارے میں چند احتمال دےئے جا سکتے ہیں ۔

۱ اس کا اشارہ عالمِ برزخ اور روزِ محشر کی خبروں کی طرف هو، جس میں نیک اور برُے اعمال کا محاسبہ هو گا، شائد یہ احتمال باقی احتمالات سے زیادہ قوی هو۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید امیر المومنین کے اس خطبے سے بھی هوتی هے، جس میں آپ فرماتے ہیں ۔

اس قرآن میں گزشتگان کی خبریں، تمہارے باہمی اختلافات کے فیصلے اور قیامت کی خبریں موجود ہیں ۔ ( ۴ )

۲ ان غیبی خبروں کی طرف اشارہ هو جن کی قرآن نے خبر دی هے اور آئندہ نسلوں میں بھی رونما هوں گے ۔

۳ ان سے مراد گزشتہ امتوں میں رونما هونے والے واقعات هوں جوبعینہ اس امت میں بھی رونما هوں گے ۔

گویایہ حدیث اس آئیہ شریفہ کے ہم معنی هے ۔

لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبقٍ o ( سورہ انشقاق : ۱۹ )

تم لوگ ضرور ایک سختی کے بعد دوسری سختی میں پھنسو گے ۔

یا اس حدیث کی ہم معنی هے جو آنحضرت سے منقول هے آپ فرماتے ہیں :

” لَتَرْکَبَنَّ سُنَنٌ مِنْ قَبْلِکُمْ۔

تم بھی گزشتہ لوگوں کی غلط اورگمراہ کن سنتیں اور طریقے اپناؤ گے ۔

پیغمبر اکرم نے فرمایا :

مَنْ تَرَکَہُ مِنْ جَبّٰارٍ قَصَمَةُ اللّٰہُ

جو ظالم اور جابر بھی قرآن کو ترک کرے گا اور اسے پسِ پشت ڈالے گا خدا تعالیٰ اس کی کمر توڑ ڈالے گا ۔

شاید اس جملے میں رسول اکرم اس بات کی ضمانت دے رهے ہیں کہ خدا قرآن کو جابروں اور ظالموں کے ہاتھ اس طرح کھلونا نہیں بننے دے گا جس سے اس کی تلاوت اور اس پر عمل ترک هو جائے اور یہ لوگوں کے ہاتھوں سے لے لیا جائے جس طرح دوسری آسمانی کتابوں کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا هے ۔ گویا یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ هے کہ قرآن ہمیشہ تحریف سے محفوظ رهے گا ۔

حدیث کے اس جملے کا مطلب بھی یہی هے لاتزیغ بہ الاھواء۔ ” خواہشات اسے کج، زنگ آلودہ نہیں کر سکتیں" یعنی اس کی اصل حقیقت میں تغیر و تبدل نہیں هو سکتا ۔ قرآن کی اصل حقیقت کے تحفظ کی ضمانت اس لیے دی جارہی هے کہ قرآن کے، خود ساختہ اور اپنی خواہشات کے مطابق معانی بیان کیے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ حدیث شریف میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ هے کہ اگر لوگ آپس کے اختلافات اور عقائد و اعمال کی مشکلات میں قرآن کی طرف رجوع کریں تو ان سب کا حل قرآن میں مل جائیگا اور لوگ اسے ایک عادل حاکم اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا پائیں گے ۔

ہاں! اگر مسلمانوں میں احکام اور حدودِ قرآن کا نفاذ هوتا اور اسکے اشارات اور ارشادات کی پیروی کی جاتی تو حق اور اہل حق پہچانے جاتے اور عترت ِ پیغمبر کی معرفت بھی حاصل هو جاتی جنہیں رسول اکرم نے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا هے ۔ ( ۵) اور یہی وہ ہستیاں ہیں جو آنحضرت کے بعد قرآن کی طرح آپکا جانشین قرار پائیں، اور اگر مسلمان قرآنی علوم کی روشنی سے نور حاصل کرتے تو ذلت میں مبتلا نہ هوتے، ان پر ذلالت و گمراہی کی تاریکیاں نہ چھا جاتیں ۔ احکام خدا میں سے کوئی حکم بھی اپنے حقیقی ہدف سے منحرف نہ هوتا، نہ کوئی شخص راہِ راست سے بھٹکتانہ کسی کے پائے استقلال میں لغزش آتی، لیکن مسلمانوں نے قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا اور زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے خواہشات ِ نفساتی کی پیروی اور باطل کے جھنڈے تلے پناہ اختیار کی بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافرگرداننے لگے اور مسلمان کے قتل، اس کی ہتک حرمت اور اس کے مال کو حلال قرار دینے کو قرب خدا وندی کا وسیلہ سمجھنے لگے ۔ قرآن کے متروک هونے کی دلیل اس اختلاف و انتشار سے بڑھ کر اور کیا هو سکتی هے ۔ امیر المومنین قرآن کی تعریف میں یوں فرماتے ہیں :

پھر آپ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو (سراپا) نور هے جس کی قندیلیں گل نہیں هوتیں، ایسا چراغ هے جس کی لو خاموش نہیں هوتی، ایسا دریا هے جس کی گہرائی تک کسی کی رسائی نہیں اور ایسی راہ هے جس میں راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن هے جس کی پھوٹ مدہم نہیں پڑتی، وہ (حق و باطل میں ) ایسا امتیاز کرنے والی هے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی، ایسا کھول کر بیان کرنے والی هے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جاسکتے، وہ سراسر شفا هے کہ جس کے هوتے هوئے، روحانی بیماریوں کا کھٹکا نہیں وہ سرتا سر عزت و غلبہ هے ۔ جس کے یارو مددگار شکست نہیں کھاتے،وہ سراپا حق هے، جس کے معین و معاون بے سہارا نہیں چھوڑے جاتے، وہ ایمان کا معدن اور مرکز هے اس سے علم کے چشمے پھوٹنے اور دریا بہتے ہیں، اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں، وہ اسلام کا سنگ بنیاد اور اس کی اساس هے حق کی وادی اور اس کاہموار میدان هے ایسا دریا هے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے وہ ایسا گھاٹ هے کہ اس میں اترنے والوں سے اس کا پانی گھٹ نہیں سکتا وہ ایسی منزل هے جس کی راہ میں کوئی راہ رو بھٹکتا نہیں وہ ایسا نشان هے کہ چلنے والے کی نظر سے اوجھل نہیں هوتا، وہ ایسا ٹیلہ هے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے، اللہ نے اسے علماء کی تشنگی کے لیے سیرابی، فقہاء کے دلوں کے لیے بہار اور نیکیوں کی راہ گز رکے لیے شاہراہ قرار دیا هے ۔ ( ۶) یہ ایسی دوا هے جس سے کوئی مرض نہیں رہتا، ایسا نور هے جس میں تیرگی کا گزر نہیں، ایسی رسی جس کے حلقے مضبوط ہیں، ایسی چوٹی هے جس کی پناہ گاہ محفوظ هے، جو اس سے وابستہ رهے اس کے لیے پیغام صلح و امن هے، جو اس کی پیروی کرے اس کے لیے ہدایت هے، جو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کیلئے حجت هے جو اس کی رو سے بات کرے اس کے لیے دلیل و برہان هے، جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کیلئے گواہ هے جو اسے حجت بنا کر پیش کرے اس کے لیے فتح و کامرانی هے، جو اس کا بار اٹھائے یہ اس کا بوجھ بٹانے والا هے جو اسے اپنا دستور العمل بنائے اس کے لیے مرکب(تیز گام) هے، یہ حقیقت شناس کے لیے ایک واضح نشان هے، (ضلالت سے ٹکرانے کے لیے) جو مسلح هو اس کے لیے سپر هے، جو اس کی ہدایت کو گرہ میں باند ھ لے اس کے لیے علم ودانش هے، بیان کرنے والے کے لیے بہترین کلام اور فیصلہ کرنے والے کے لیے قطعی حکم هے ۔

یہ خطبہ بہت سے اہم نکات پر مشتمل هے ان سے آگاہی اور ان میں غور و خوض لازمی هے ۔

امیر المومنین کے ارشاد لایخبوتوقدہ ”قرآن ایسا چراغ هے جس کی لو خاموش نہیں هوتی“ اور خطبے میں اس قسم کے دوسرے جملوں کا مطلب یہ هے کہ قرآن کے معانی لامتناہی اور ابدی ہیں ۔

مثال کے طور پر ایک آیہ کریمہ کسی خاص مقام شخص یا قوم کے بارے میں نازل هوئی مگر وہ آیہ اس مقام شخص اور قوم سے ہی مختص نہیں رہتی بلکہ اس کے معانی عام هوتے ہیں اور یہ ہر جگہ ہر شخص اور ہر قوم پر منطبق هوتی هے ۔ عیاشی نے اپنی سند سے امام محمد باقر سے آیہ ”وَلِکُلِّ قومٍ ھادٍ" ( ۱۳ :۷) ” ہر قوم کے لیے ایک ہادی هوا کرتا هے“ کی تفسیر کے بارے میں روایت کی هے ۔ آپ نے فرمایا :

عَلِیٌ :الھادي، ومنا الہادی فقلت فانت جعلت فِدٰاک اَلْھٰادِي؟ قَالَ صَدَّقْتَ اَنَّ الْقُرآن حَيٌ لاٰیَمُوتُ وَالاَیةُ حَیَّةً لاٰتَمُوتُ، فَلَوْ کاٰنَتْ الآِیةُ اِذٰا نَزَلَتْ فِیْ اِلاَقْوٰامِ وَمٰاتُوا اِمَاتَتْ الاَیةُ لَمٰاتَ الْقُرآن وَلٰکِنَّ ھِیَ جاٰرِیَةٌ ِ فِيْ الْبٰاقینَ کَمٰا جَرَتْ في المٰاضینَ۔

اس آیہ شریفہ میں ہادی سے مراد امیر المومنین علی بن ابی طالب ہیں اور ہادی ہم ہی میں سے هوا کرے گا ۔ راوی کہتا هے میں نے کہا: میں آ پ پر نثار هوں کیا آپ بھی ہادی اور اس آیہ شریفہ کے مصداق ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں میں بھی اس کا مصداق هوں ۔ قرآن ہمیشہ زندہ رهے گا، اسے موت نہیں آئے گی اور یہ آیہ وَلکلً قَومٍ ھادٍ بھی زندہ هے اسے موت نہیں آسکتی، اگر ایک قوم پر اترنے والی آیت قوم کے مرنے سے مرجائے تو اس کا مطلب یہ هوا کہ قرآن کو بھی موت آگئی حالانکہ ایسا نہیں هوسکتا بلکہ قرآن جس طرح گزشتہ اقوام پرمنطبق هوتا تھا اسی طرح آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی منطبق هو گا ۔

امام جعفر صادق فرماتے ہیں :

اِنَّ الْقُرآن حيٌلَمْ یُمُتْ، وَاِنَّہُ یَجْْري کَمٰا یَجْري اللَّیْلُ وَالنَّھٰارُ، وَکَمٰاتَجْري الشَّمْسُ، وَیَجْري عَلَیٌ آخِرِنٰا کَمٰا یَجْري عَلَیٰ اَوَّلِنٰا ۔

قرآن زندہ و جاوید هے، اسے موت نہیں آسکتی، دن اور رات کی طرح یہ بھی چلتا رهے گا اورسورج اور چاند کی طرح ہر دور میں ضوفشانی کرتا رهے گا ۔ "

اصول کافی میں هے جب عمر بن یزید نے امام جعفر صادق سے آیت کریمہ:وَ الذیِنَ یَصِلونَ مَا امَرَ اللّٰہ ُ بِہ اَن یُّوْصَلَ (سورہ ۱۳: آیت ۲۱) کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا :

ھٰذِہ نَزَلَتْ فیْ رَحِمِ آلِ مُحَمَّد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلہِ وَقَدْ تَکُوْنُ فی قَرٰابَتِکَ، فَلٰاَ تَکُوَنَنَّ مِمَّنْ یَقُوْلُ لِلشَّیٍ اِنَّہُ فی شَيْءٍ وٰاحِد۔

یہ آیت کریمہ ہم آل محمد کے بارے میں نازل هوئی هے، لیکن یہی آیہ شریفہ تمہارے قریبی رشتہ داروں پر منطبق هو سکتی هے، تم ان لوگوں میں سے نہ بنو جو ایک خاص مقام اور چیز پر نازل شدہ آیت کو اس مقام اور چیز سے مختص کر دیتے ہیں ۔

تفسیر فرات میں هے :

و لوان الآیة اذا نزلت فی قوم ثم مات اولئک ماتت الآیة لمابقي من القرآن شيء ولکن القرآن یجري اولہ علی آخرہ مادامت السماوات والارض ولکل قومٍ آیة یتلوھاہم منہا من خیراواشر۔

اگر کسی قوم پر کوئی آیت نازل هو پھرو ہ قوم مر جائے اور اس قوم کے ساتھ آیت بھی مر جائے تو قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہ جائے مگر ایسا نہیں جب تک آسمان اور زمین موجود ہیں گزشتہ لوگوں کی طرح آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اس کی ہدایت کا سلسلہ جاری رهے گا ۔ اور قرآن میں ہر قوم و ملت کے بارے میں ایک آیت موجود هے جس میں ان کی اچھی یا برُی سر نوشت وتقدیر اور انجام کا ذکر هے ۔

اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات منقول ہیں ۔ ( ۷) یہاں پر ہم امیرالمومنین کے کلام کے عربی متن کے بعض جملوں کی مختصر وضاحت کریں گے ۔

ومنھا جا لایضل نجہ

قرآن وہ سیدھا راستہ هے جو اپنے راہرو کو گمراہ نہیں کرتا ۔ اسے خالق نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا هے ۔ قرآن ہر اس شخص کو گمراہی سے بچاتا هے جو اس کی پیروی کرے ۔

وتبیاناً لا تھدم ارکانہ۔ اس جملے میں دو احتمال ہیں :

ا ۔ پہلا احتمال یہ هے کہ علوم و معارف اور دیگر قرآنی حقائق جن ستونوں پر استوار ہیں وہ مضبوط اور مستحکم ہیں ان میں انہدام اور تزلزل کا سوال تک پیدا نہیں هوتا ۔

ب۔ دوسرا احتمال یہ هے کہ قرآن کے الفاظ میں کسی قسم کا خلل اور نقص نہیں هو سکتا هے ۔ اس احتمال کے مطابق اس جملے میں امیر المومنین اس بات کی طرف اشارہ فرما رهے ہیں کہ قرآن کریم تحریف سے محفوظ هے ۔

وریاض العدل وغدرانہ

اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں ۔

اس جملے کا مطلب یہ هے کہ عدالت چاهے عقیدہ کے اعتبار سے هو یا عمل کے اعتبار سے یا اخلاق کے اعتبار اس کے تمام پہلو قرآن میں موجود ہیں ۔ پس قرآن عدالت کا محور اور اس کی مختلف جہات کا سنگم هے ۔

وَاَثَّافی اْلاِسْلاٰمِ۔ ( ۸ )

اسلام کا سنگ بنیاد اور اساس هے

اس جملے کا مطلب یہ هے کہ اسلام کو جو استحکام اور ثبات حاصل هوا هے وہ قرآن ہی کی بدولت هے جس طرح دیگ کو استحکام ان پایوں کی وجہ سے حاصل هوتا هے جو اس کے نیچے رکھے هوتے ہیں ۔

واودیة الحق و غیطانہ۔

حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان هے

اس جملے کا مطلب یہ هے کہ قرآن حق کا سرچشمہ هے اس جملے میں قرآن کو وسیع اور پُرسکون زرخیز سرزمین سے تشبیہ دی گئی هے اور حق کو ان نباتات سے تشبیہ دی گئی هے جواس سرزمین پر اگی هوں کیونکہ قرآن کے علاوہ کہیں اورسے حق نہیں مل سکتا ۔

وبحر لاینزفہ المنتزفون

وہ ایسا دریاهے جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے

اس جملے اور اس کے بعد والے جملوں کا مطلب یہ هے کہ جو معانی قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے وہ اس کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا ۔ کیونکہ قرآن کے معانی لامتناہی ہیں بلکہ اس جملے میں اس حقیت کی طرف بھی اشارہ هے کہ قرآن میں کبھی کمی واقع هوہی نہیں سکتی، جس طرح چشمے سے پانی نکالنے، پینے یا برتن بھرنے سے پانی کم نہیں هوتا ۔

وآکامٌّ لاٰیَحوز عنھا القاصدون۔

وہ ایسا ٹیلہ هے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے نہیں گزر سکتے ۔

اس کا مطلب یہ هے کہ جو محققین اور مفکرین قرآن کی بلندیوں کوسمجھنا چاہتے ہیں و ہ کبھی بھی اس کے معانی کی بلندیوں اور چوٹیوں سے تجاوز نہیں کر سکتے ۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ هے کہ قرآن کریم ایسے سربستہ رازوں پر مشتمل هے جن تک صاحبان فہم کی رسائی نہیں هو سکتی۔

اس جملے سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا هے کہ جب قرآن کے متلاشی اس کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں پہنچ کر رک جاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے اس لیے کہ انہیں مکمل طور پر اپنی مراد مل جاتی هے اور وہ منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں ۔

تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب :

قرآن وہ آسمانی قانون اور ناموس الہیٰ هے جو لوگوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ضمانت دیتا هے ۔ قرآن کی ہر آیت ہدایت کا سرچشمہ اور رحمت و راہنمائی کی کان هے ۔ جو بھی ابدی سعادت اور دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کا آرزو مند هے اسے چاہیے کہ شب و روز قرآن کریم سے عہد و پیمان باندھے، اس کی آیات کریمہ کو اپنے حافظہ میں جگہ دے اور انہیں اپنی فکر اور مزاج میں شامل کرے تاکہ ہمیشہ کی کامیابی اور ختم نہ هونے والی تجارت کی طرف قدم بڑھاسکے ۔

قرآن کی فضیلت میں ائمہ علیہم السلام اور ان کے جدا مجد سے بہت سی روایات منقول ہیں، امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

قاَلَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من قٰرأ عَشَرَ آیاتٍ فی لَیْلَةٍ لَمْ یَکْتُب مِنَ الْغٰافلین وَمَنْ قَرأَ خَمْسْینَ آیَةً کُتِبَ مِنَ الذّٰکِرینَ وَمَنْ قَرأَمِاَئةَ آیةًکُتِبَ مِنَ القٰانِتینَ وَمَنْ قَرءَ مَائَتَیْ آیةً کُتِبَ مِنَ الخٰاشِعین ومن قرأ ثَلٰثَمِائَةَ آیةً کُتِبَ من الفٰائِزینَ وَمَنْ قَرأَ خَمْسَمِائَةُ آیةً کُتِبَ مِنَ المُجْتَھدِینَ وَمَنْ قَرأَ اَلَفَ آیةً کُتِبَ لَہُ قِنْطٰارٌ مِنْ تَبَرٍ۔

پیغمبر اکرم نے فرمایا، جو شخص رات کو دس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام غافلین (جو یاد خدا سے بے بہرہ رہتے ہیں) میں نہیں لکھا جائے گااور جو شخص پچاس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام ذاکرین (جو خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ حرام و حلال کا خیال رکھتے ہیں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام قانتین(عبادت گزاروں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص دو سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام خاشعین (جو خدا کے سامنے متواضع هوں) میں لکھا جائے گا اور جوشخص تین سو آتیوں کی تلاوت کرے اس کا نام سعادت مندوں میں لکھا جائے گا، جو شخص پانچ سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام عبادت اور پرستش خدا کی کوشش کرنے والوں میں لکھا جائیگا اور جو شخص ہزار آیتوں کی تلاوت کرے، وہ ایسا هے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہِ خدا میں دے دیا هو

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

اَلْقُرٰانُ عَھْدُ اللّٰہ اِلٰی خَلْقِہ، فَقَدْ یَنْبغَيلْلِمَرءِ المُسْلِمِ اَنْ یَنْظُرَ فی عَھْدِہِ، وَاَنْ یَقْرأمِنْہُ فی کُلِّ یَوْمٍ خَمْسینَ آیةً۔

قرآن خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک عہدو میثا ق هے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنا عہد نامہ غور سے پڑھے اور روزانہ پچاس آیات کی تلاوت کرے

آپ نے مزید فرمایا :

مٰایَمْنَع التّٰاجِر مِنْکُمْ الَمَشْغُولُ فی سُوْقِہِ اِذٰا رَجَعَ اِلیٰ مَنْزِلِہِ اَنْ لاٰ یَنٰامُ حَتّٰی یَقْرَأَ سورةً مِنَ الْقُرآنِ فَیُکْتَبُ لَہُ مکانَ کُلِّ آیةٍ یَقْرَأھٰا عشر حسنات ویمحی عنہ عَشَرَ سَےِّئٰات؟

جب تمہارے تاجر اپنی تجارت اور کاروبار سے فارغ هو کر گھرواپس لوٹتے ہیں تو سونے سے پہلے ایک سورة کی تلاوت سے کونسی چیز ان کے لیے مانع اور رکاوٹ بنتی هے (کیوں تلاوت نہیں کرتے ) تاکہ ہر آیت کے بدلے اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں اور اس کے نامہ اعمال میں سے دس برائیاں مٹا دی جائیں ۔

اس کے بعد آپ نے فرمایا :

عَلَیْکُمْ بِتِلٰاِوَةِ القُرْآن، فَاِنَّ دَرَجٰاتُ الجَنَّةِ عَلٰی عَدَدِ آیاتِ القُرْآن، فَاِذٰاکٰانَ یَوْمَ القِیٰامَةِ یُقٰالُ لِقٰارِی الْقُرآنَ اِقْرَأْوَاِرْقِ، فَکُلَّمٰا قَرَأَ آیَةً رَقَیٰ دَرَجَةً۔

قرآن کی تلاوت ضرورکیاکرو (اس لیے کہ) آیات قرآن کی تعداد کے مطابق جنت کے درجات هوں گے ۔ جب قیامت کا دن هو گا تو قاری قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاؤ اور اپنے درجات بلند کرتے جاؤ۔ پھر وہ جیسے جیسے آیات کی تلاوت کرے گا، اس کے درجات بلند هوتے چلیں جائیں گے ۔

حدیث کی کتابوں میں علماء کرام نے اس مضمون کی بہت سی روایا ت کو یکجا کر دیا هے شائقین ان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں اور بحار الانور کی انیسویں جلد میں اس مضمون کی کافی روایات موجود ہیں ان میں بعض روایات کے مطابق قرآن دیکھ کر تلاوت کرنا زبانی اور ازبرتلاوت کرنے سے بہتر هے ۔

ان میں سے ایک حدیث یہ هے :

اسحاق بن عمار نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی :

جُعْلتُ فِدٰاکَ اِنّي اَحْفَظُ الْقُرْآنَ عَنْ ظَھْرِ قَلْبي فَاْقرأُہُ عَنْ ظَھْرَ قَلْبِي اَفْضَلُ اَوْ اُنْظُرُ فی الْمُصْحَفِ قٰاَل: فَقٰالَ لِي لَاٰ بَلْ اقرأَہُ وَانْظُر فی الْمُصْحَفِ فَھُوَ افْضَلُ اَمٰا عَلِمْتَ اِنَ النَّظُرَ فی الْمُصْحَفِ عِبٰادَةٌ۔ مِنْ قراالقُرْآنَ فی المُصْحَفِ مَتَّعَ بِبَصَرِہِ وَخَفَّفَ عَنْ وٰالِدَیْہِ وَاِنَ کٰانا کافِرین۔ ( ۹ )

میری جان آپ پر نثار هو میں نے قرآن حفظ کر لیا هے ۔ اور زبانی ہی اس کی تلاوت کرتا هوں یہی بہتر هے یا یہ کہ قرآن دیکھ کے تلاوت کروں؟ آپ نے فرمایا: قرآن دیکھ کے تلاوت کیا کرو یہ بہتر هے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ قرآن میں دیکھنا عبادت هے جو شخص قرآن میں دیکھ کے اس کی تلاوت کرے اس کی آنکھ مستفید اور مستفیض هوتی هے اور اس کے والدین کے عذاب میں کمی کردی جاتی هے ۔ اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ هوں ۔

۱۔ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید و تشویق میں چند اہم نکات ہیں جن کی طرف توجہ ضروری هے ۔ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید اس لیے کی هے تاکہ نسخوں کی کثرت کی وجہ سے قرآن ضیاع سے محفوظ رہ سکے کیوں کہ جب قرآن کی زبانی تلاوت پر اکتفاء کیا جائے گا تو قرآن کے نسخے متروک هو جائیں گے اور آہستہ آہستہ کم یاب هو جائیں گے بلکہ بعید نہیں کہ بتدریج اس کے آثار تک باقی نہ رہیں ۔

۲۔ دوسری وجہ یہ هے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کے بہت سے آثار ہیں جن کی روایات میں تصریح کی گئی هے مثلاً معصوم نے فرمایا : ”مَتَّعَ بِبَصَرِہِ" یعنی۔ ۔ ۔ یہ بڑا جامع کلمہ هے اس کا مطلب یہ هے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنا اس بات کا سبب بنتا هے کہ انسان نابینائی اور آشوب چشم سے محفوظ رهے یا یہ مراد هو سکتی هے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے سے انسان قرآنی رموز اور اس کے دقیق اور باریک نکات سے باخبر هو جاتا هے ۔ کیوں کہ جب انسان کی نظر ایسی چیز پر پڑے جو اسے پسند هو تو اس کانفس خوشحال هو جاتا هے اوروہ اپنی بصارت اور بصیرت میں روشنی محسوس کرتا هے ۔ قرآن کے الفاظ پر جب بھی قاری کی نظر پڑتی هے اور وہ اسکے علوم و معانی میں فکرکرتا هے تو علم و آگاہی کی لذت محسوس کرتا هے اور اس کی روح ہشاش بشاش هو جاتی هے ۔

۳۔ بعض روایات میں گھر کے اندر قرآن کی تلاوت کی فضیلت بیان کی گئی هے اس کا راز قرآن کی تبلیغ و ترویج اور تلاوتِ قرآن کا چرچا هے کیونکہ جب انسان اپنے گھر کے اندر قرآن کی تلاوت کرے تو اس کے بیوی بچے بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اس سے یہ عمل عام هو جاتا هے لیکن اگرقرآن کی تلاوت کسی خاص مقام پر کی جائے تو اس کا ہر شخص، ہر جگہ شرف حاصل نہیں کر سکتا اور یہ تبلیغ اسلام کا بہت بڑا سبب هے ۔

شاید گھروں میں تلاوت کی ایک وجہ یہ بھی هو کہ اس سے شعائر ِ الہیٰ قائم هو جاتے ہیں کیونکہ جب صبح و شام گھروں سے تلاوت قرآن کی آواز بلند هو گی تو سننے والوں کی نظر میں اسلام کی اہمیت بڑھے گی اس لیے کہ جب شہر کے کونے کونے سے تلاوت قرآن کی آواز سنائی دے گی تو سننے والوں پر ایک قسم کا رعب اور ہیبت طاری هو جائے گا ۔

گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکور ہیں :

اِنَّ الْبَیْتَ الَّذي یُقْرَأ فِیہ الْقُرْآنُ وَیُذْکَرُ اللّٰہُ تَعٰالی فیْہ تَکْثُرُ بَرَکَتُہُ وَتَحْضُرُہُ الْمَلاٰئِکَةِ، وَتَھْجُرُہْ الشِّیاطینَ وَیُضِيٴُ لِاَھْلِ السَّمٰاءِ کَمٰا یُضِيٴُ الْکَوْکَبُ الدُّري لِاَھْلِ الْاَرْضِ وَانَّ الْبَیْتَ الَّذي لٰاَ یَقُرأُ فِیہِ الْقُرْآنُ وَلٰایُذْکِرُ اللّٰہُ تَعٰالٰی فِیہِ تَقِلُّ بَرَکَتہُ وَتَھْجُرُہُ اْلمَلاٰئِکَةِ وَتَحْضُرو الشَیٰاطین۔

وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت کی اور ذکرِ خدا کیا جاتا هو اس کی برکتوں میں اضافہ هوتا هے اس میں فرشتوں کا نزول هوتا هے شیاطین اس گھر کو ترک کر دیتے ہیں اور یہ گھر آسمان والوں کو روشن نظر آتے ہیں جس طرح آسمان کے ستارے اہل زمین کو نور بخشتے ہیں اور وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں هوتی اور ذکر خدا نہیں هوتا اس میں برکت کم هوتی هے فرشتے اسے ترک کر دیتے ہیں اور ان میں شیاطین بس جاتے ہیں ۔ "

قرآن کی فضیلت اور وہ عزت و تکریم جن سے خداوند قاری قرآن کو نوازتا هے روایات میں اتنی هے کہ جس سے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں رسول اکرم نے فرمایا :

مَنْ قَرَء َحَرْفاً مِنْ کِتٰابِ اللّٰہِ تَعٰالیٰ فَلَہُ حَسَنَةً وَالْحَسَنَةُ بِعَشَرِ اَمُثٰالِھٰا لا اَقُولُ ”الم“ حَرَفٌ وَلٰکِنْ اَلِفْ حَرْفٌ وَلاٰمُ حَرْفٌ وَمیمُ حَرْفٌ۔

” جو شخص کتاب الہی کے ایک حرف کی تلاوت کرے اس کے اعمال میں ایک حسنہ اور نیکی لکھی جاتی هے اور ہر حسنہ کا دس گنا ثواب ملتا هے (اس کے بعد آپ نے فرمایا) میں یہ نہیں کہتا کہ الم یہ ایک حرف هے بلکہ ’الف‘ ایک حرف هے ’ل‘ دوسرا حرف هے اور ’م‘ تیسرا حرف هے ۔

اس حدیث کو اہل سنت کے راویوں نے بھی نقل کیا هے ۔ چنانچہ قرطبی نے اپنی تفسیر ۱ میں ترمذی سے اور اس نے ابن مسعود سے نقل کیا هے، کلینی رحمة اللہ علیہ نے بھی تقریباً اسی مضمون کی حدیث امام جعفر صادق سے نقل فرمائی هے ۔ اس میدان میں کچھ جھوٹے راوی بھی ہیں جن کی نظر میں شاید فضیلت قرآن کی یہ تمام روایات کم تھیں اس لیے انهوں نے اپنی طرف سے فضیلت قرآن میں کچھ روایات گھڑ لیں جن کی نہ تو وحی نازل هوئی هے اور نہ ان کا سنت نبوی میں کوئی ذکر هے ۔ ان جھوٹے راویوں میں ابو عصتمہ فرج بن ابی مریم مروزی، محمد بن عکاشہ کرمانی اور احمد بن عبداللہ جویباری شامل ہیں ۔ ابو عصتمہ نے خود اس جعل سازی کا اعتراف کیا هے ۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تونے کس طرح عکرمہ کے واسطے سے ابن عباس سے قرآن کے ایک ایک سورے کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں تو اس (ابو عصتمہ) نے جواب دیا ۔

اِنِیّٰ رَاَیْتُ النّٰاسَ قَدْاِعْرَضُوا عَنِ الْقُرْآنَ وَاشْتَغَلُوا بِفِقْہِ اِبی حَنِیْفَةِ وَمَغٰازي مُحَمَّد ِبنْ اِسْحٰقَ فَوَضَعْتُ ہٰذَا الْحدیثُ حسبةً۔

جب میں نے دیکھا کہ لوگ قرآن سے منحرف هو گئے ہیں اور ابو حنیفہ اور مغازی محمد بن اسحاق کی فقہ میں مصروف ہیں تو میں نے قرآن کی فضیلت میں یہ احادیث قربة الی اللہ گھڑ لیں ۔

ابو عمرعثمان بن صلاح، اس حدیث کے بارے میں جواُبی بن کعب کے واسطے سے پیغمبر اکرم سے منقول هے لکھتا هے :

قَدْ بَحَثَ بٰاحِثٌ عَنْ مَخْرَجِہِ حَتّٰی اِنْتَھٰی اِلٰی مَنْ اِعْتَرَفَ بِاَنَّہُ وَجَمٰاعَةٌ وَضَعُوْہُ۔ وَقَدْ اَخْطَا الوٰاحِدي وَجَمٰاعَةٌ مِنْ الْمُفَسَّرِینَ حَیْثُ اَوْدَعُوْہُ فی تَفٰاسِیْرِھِمْ۔ ( ۱۱ )

اس حدیث کے بارے میں جوقرآن کے ہر سورہ کے فضائل میں نقل کی گئی هے جوتحقیق کی گئی وہ اس نیتجہ پر پہنچی هے کہ اس حدیث کے گھڑنے والے نے اس کے جعلی هونے کا اعتراف کر لیا هے(میں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے مل کر اسے گھڑا هے)۔

واحدی اور دیگر مفسرین اپنی تفسیروں میں اس حدیث کو ذکر کر کے غلطی کا شکار هوئے ہیں ۔

دیکھئے! ان لوگوں نے کتنی بڑی جرات کی هے کہ رسولِ خدا کی طرف حدیث کی جھوٹی نسبت دی هے اور ستم یہ کہ اس افتراء اور تہمت کو قرب ِ الہیٰ کا سبب قرار دیتے ہیں ۔

کَذَلِکَ زَیَنَّ لِلْمُسّرِفِیْنَ مَاکَانَُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ ( ۱۰:۱۲ )

جو لوگ زیادتی کرتے ہیں انکی کارستانیاں یوں ہی انہیں اچھی کر دکھائی گئی ہیں ۔

قرآن میں غور و فکر اور اسکی تفسیر :

قرآن مجید اور صحیح روایات میں معانی ٴقرآن کے سمجھنے اور اس کے مقاصد و اہداف میں فکر کی سخت تاکید کی گئی هے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد هے :

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا ( ۴۷:۲۴ )

تو کیا یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (انکے دلوں پر تالے (لگے هوئے) ہیں ۔

اس آیہ کریمہ میں قرآن میں غور نہ کرنے کی سخت مذمت کی گئی هے ۔ ابن عباس نے رسول اکرم سے نقل کیا هے، آنحضرت نے فرمایا :

اِعْرَبُوا الْقُرْآن اِلْتَمِسُوا غَراٰئِبَہ

قرآن کو بلند آواز سے پڑھا کرو اور اس کے عجائبات اور باریکیوں میں غور و خوض کیا کرو۔

ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں :

حَدَّثَنٰا مَنْ کٰانَ یَقْرَئُنٰامِنَ الصَّحٰابَةِ اِنَّھُمْ کٰانُواَ یاْخُذُوْنَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ عَشَرَآیٰاتٍ فَلاٰ یَأْخُذُونَ فی الْعَشَرِ اْلاُخْریٰ یَعْلَمُوْا مٰافي ھٰذِہِ مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلْ۔

صحابہ کرام جو ہمیں قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے فرماتے تھے ہم رسول خدا سے قرآن کو دس دس آیتوں کی صورت میں لیتے تھے، جب تک ہم پہلی دس آیتوں کے علمی اور عملی نکات کو حفظ نہیں کر لیتے ۔ دوسری دس آیتیں ہمیں نہیں ملتی تھیں ۔ ۱

عثمان ابن مسعود اور اُبیّ کہتے ہیں :

اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ کٰانَ یَقْرَئُھُمُ العَشَرَ فَلاٰ یُجٰاوِزُوَنْھٰا اِلٰی عَشَرٍ اُخْریٰ حَتّٰی یَتَعَّلَمُوْا مٰا ِفیھٰا مِنَ الْعَمَلِ فَیَعُلَمَھُمُ القُرْآنْ وَالْعَمَلُ جمیعا ۔ ( ۱۲ )

رسول خدا قرآن کی دس آیتوں کی تعلیم دیتے تھے، ان دس آیتوں سے اس وقت تک تجاوز نہ فرماتے تھے جب تک ان کو سمجھ کر عمل نہ کیا جائے پس علم قرآن اور عمل بہ قرآن کی تعلیم ایک ساتھ دیتے ہیں ۔

ایک دن امیرالمومنین نے لوگوں کے سامنے جابر بن عبداللہ انصاری کی تعریف کی توکسی نے کہا: مولا! آپ (باب علم هونے کے باوجود ) جابر کی تعریف کر رهے ہیں؟ آپ نے فرمایا :

تمہیں معلوم نہیں جابر بن عبد اللہ انصاری آیہ کریمہ:اِنََّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدَّکَ اِلٰی مَعَادٍ ( ۲۸:۸۰) کی تفسیر سمجھتے تھے ۔ ( ۱۳ )

قرآن کریم میں فکر اور تدبر کرنے کی فضیلت میں بہت سی روایات موجود ہیں ۔ چنانچہ بحا ر الانوار کی ۱۹ جلدوں میں اس مضمون کی بے شمار احادیث موجود ہیں ۔ لیکن یہ ایسی حقیقت هے جس کے لیے اخبارو روایات میں تتبع اور جستجو کی ضرورت نہیں هے ۔ کیوں کہ قرآن ایسی کتاب هے جسے خدا نے لوگوں کے لیے دنیا ہی میں ایک مکمل ضابطہ حیات بناکر بھیجا هے ۔ جس سے آخرت کی راہ، نور اور روشنی حاصل کر سکتے ہیں اور یہ کام اس وقت تک نہیں هو سکتا جب تک قرآن کے معانی میں تدبر اور فکر نہ کیا جائے ۔ یہ ایسی حقیقت هے جس کا فیصلہ عقل کرتی هے ۔ روایات اور احادیث میں جتنی تاکید هے وہ اسی حکم عقل کی تائید اور اسی کی طرف راہنمائی هے ۔

زہری نے امام زین العابدین سے روایت کی هے، آپ نے فرمایا :

آیٰاتُ الْقُرْآنِ خَزٰائِنٌ فَکُلَّمٰا فُتِحَتْ خَزینَةٌ ینَبْغَي لَکَ اَنْ تَنْظُرَ مٰا فِیھٰا ۔ ( ۱۳ )

قرآن کی آیات خزانے ہیں جب بھی کوئی خزانہ کھولا جائے اس میں موجود موتیوں اور جواہرات کو ضرور دیکھا کرو (تلاش کیا کرو )

حواشی

( 0 )    بحارالانوار ج ۱۹ ، ص۔ صحیح ترمذی ابن عربی ج ۱۱ ۔ ص ۴۷ ۔ ابواب فضائل۔

( ۲ ) ترمذی ۱۳ /۲۰۰ ۔ ۲۰۱ مناقب اہل بیت۔

( ۳ ) سنن وارمی۔ ج ۲ ۔ ص ۴۳۵ ، کتاب فضائل القرآن میں بھی اس طرح موجود هے ۔ صحیح ترمذی، ج ۱۱ ، ۳۰ ، باب فضائل قرآن میں بھی معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ موجود هے ۔ بحار۔ ج ۹ ، ص ۷ میں تفسیر عیاشی سے منقول هے ۔

( ۴ ) بحار الانوار، ج ۱۹ ، ص ۶ ۔

( ۵ ) حدیث ثقلین کا حوالہ میں ۱۸ میں ذکر کیا گیا ۔ بعض روایات میں واضح طور پر کہا گیا هے: قرآن اور عترت، رسول کے دو جانشین ہیں ۔

( ۶ ) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۹۶ ۔

( ۷ ) مراة الانور، ص ۳ ۔ ۴ ۔

( ۸ ) ریاض روضہ کی جمع هے یہ اس سرسبز زمین کو کہتے ہیں جس میں سبزہ هو۔ غدران جمع هے غدیر کی، اس کا معنی سیلاب کا جمع شدہ پانی هے ۔

( ۹ ) ثانی جو امانی کے وزن پر هے، اثفیہ کی جمع هے ۔ اثفیہ اس پتھر کو کہا جاتا هے جس پر دیگچی رکھی جاتی هے ۔

( ۱۰ اصول کافی۔ کتاب فضل القرآن۔ وسائل طبة عین الدولہ۔ ج ۱ ، ص ۳۷۰ ۔

( ۱۱ ) اصول کافی کتاب فضل القرآن۔

( ۱۲ ) تفسیر قرطبی، ج، ص ۷ ، وفی الکافی کتاب فضل القرآن۔

( ۱۳ ) تفسیر قرطبی، ج، ۱ ،ص ۷۸ ۔ ۷۹ ، وفی الکافی کتاب فضل القرآن۔

( ۱۴ ) تفسیر القرطبی ج ۱ ص ۲۶ ۔

( ۱۵ ) اصول الکافی، کتاب فضل القرآن۔

( 1 )    قرآن مجید کے ناموں کی معنویت

( 2 )    ڈاکٹر محمود احمد غازی

( 3 )    دنیا میں ہر کتاب کا کوئی نام هوتا هے جس سے وہ جانی پہچانی جاتی هے ۔ قرآن پاک کا بھی ایک معروف نام ”القران“ هے جس کے حوالے سے یہ کتاب دنیا بھر میں جانی جاتی هے لیکن خود قرآن پاک میں اس کتاب کے کئی اور نام بھی دئیے گئے ہیں ۔ ان میں سے چار نام ایسے نمایا ں ہیں جن کا ذکر مختلف سورتوں اور مختلف آیات میں ملتا هے ۔ قرآن پاک کے بہت سے ناموں میں خاص طور پر یہ چار نمایاں نام اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتے ہیں ۔ یہ معنویت اتنی غیر معمولی اہمیت رکھتی هے کہ خود اس سے قرآن پاک کے معجزہ هونے کے شواہد اور مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں ۔

یوں تو دنیا کا ہر مصنف اپنی کتاب کا کوئی نہ کوئی نام رکھ ہی دیتا هے، لیکن دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں هے کہ جس کا نام اس کتاب پر اتنا مکمل طور پر صادق آتا هو کہ یہ کہا جا سکے کہ اس کتاب کے نام سے زیادہ کوئی نام اس کتاب پر صادق نہیں آسکتا ۔ یہ بات قرآن مجید کے علاوہ کسی کتاب کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ مثال کے طورپر مشهور کتاب ” داس کپیٹال“ کارل مارکس کی لکھی هوئی ایک معروف اور اہم کتاب هے جس کا موضوع سرمایہ هے ۔ سب جانتے ہیں کہ سرمایہ کے موضوع پر دنیا میں ہزاروں کتابیں موجود هوں گی۔ ممکن هے ان میں سے بعض کتابیں کارل مارکس کی کتاب سے اچھی هوں، اور فرض کریں اگر یہ سب کتابیں کارل مارکس کی کتاب سے اچھی نہ بھی هوں بلکہ فرض کر لیں کہ ساری کتابیں اس سے کم درجہ ہی کی هوں تب بھی ان میں سے ہر کتا ب کو سرمایہ کے نام سے موسوم کیا جا سکتا هے ۔ جو کتاب بھی سرمائے کے موضوع پر هے تو آپ اسے داس کپیٹال کہہ سکتے ہیں اور کوئی شخص اس نام پر نہ اعتراض کر سکتا هے نہ اس نام کو غلط قرار دے سکتا هے ۔ اس لیے اس نام میں کوئی ایسی خصوصی معنویت نہیں هے جو کارل مارکس کی داس کپیٹال کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہ پائی جاتی هو اور اس کی وجہ سے یہ نام اس موضوع کی کسی اور کتاب کے لئے آپ استعمال نہ کر سکیں ۔

” دیوان غالب“ کو لیجئے جو اردو ادب تو کیا عالمی ادب کا ایک اعلیٰ نمونہ هے ۔ لیکن لفظ ” دیوان غالب“ میں کیا معنویت هے، کچھ نہیں ۔ ہر وہ شاعر جس کا تخلص غالب هو اپنے مجموعہ کلام کو دیوان غالب کے نام سے موسوم کر سکتا هے ۔ اس لیے کہ ہرصاحب دیوان شاعر کا دیوان هوتا هے جو اس کے نام سے معروف هوجاتا هے ۔ اس میں نہ کوئی خاص بات هے اور نہ کوئی منفرد انداز کی معنویت۔ دنیا میں ہزاروں لاکھوں شاعر هوئے ۔ ہر شاعر کے مجموعہ کلام کو آپ اس کا دیوان کہہ سکتے ہیں ۔ اس طرح سے آپ دیکھتے جائیں تو دنیا میں جتنی کتابیں ہیں ان کے نام کے بارے میں آپ یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نام اس کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب پر صادق نہیں آتا ۔ کسی کتاب کے بارے میں ایسا دعویٰ کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن هے ۔ صرف ”قرآن“ ایسا نام هے جو صرف ایک ہی کتاب پر صادق آتا هے اور اس کے علاوہ کسی بھی کتاب پر اس مفهوم میں اس منفرد نام کا اطلاق نہیں هو سکتا ۔

القرآن کے لغوی معنی ہیں وہ تحریر جسے باربار پڑھا جائے ۔ لہذا باربار پڑھی جانے والی کتاب کو عربی زبان میں قرآن کہا جائے گا ۔ پھر جب اس میں حرف تخصیص یعنی الف لام لگتا هے تو اس میں مزید تخصیص پیدا هوجاتی هے، یعنی القرآن۔ اس اضافہ سے اس میں یہ مفهوم پیدا هوتا هے کہ وہ واحد چیز جو باربار کثرت اور تسلسل کے ساتھ پڑھی جارہی هے اور اس کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں هے جو اتنے تواتر اور تسلسل سے پڑھی جارہی هو۔ القرآن کا یہ لفظی مفهوم ذہن میں رکھیں ۔

اس مفهوم کے بعد میں آپ کے سامنے ایک دعویٰ پیش کرتا هوں اور اس دعویٰ کی ایک دلیل بھی آپ کے سامنے پیش کرتا هوں ۔ دعویٰ یہ هے کہ قرآن پاک دنیا کی تاریخ میں واحد کتاب هے جو گذشتہ چودہ سو سال سے روئے زمین پر اتنے تسلسل سے پڑھی جارہی هے اور ہر وقت، ایک ایک وقت میں، بلکہ ایک ایک لمحہ میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں آدمی اس کو مسلسل اور تواتر سے اس طرح پڑھ رهے ہیں کہ اس تلاوت میں ایک سیکنڈ کے ایک ہزارویں حصہ کا بھی وقفہ نہیں آتا ۔ روئے زمین کا اگر نقشہ ہمارے سامنے هو اوراس کو سامنے رکھ کر اس دعویٰ پر غور کیا جائے کہ چودہ سو برس سے لے کر اس لمحہ تک اور آئندہ جب تک یہ دنیا موجود هے ایک سیکنڈ کا وقفہ اس روئے زمین پر ایسا نہیں آیا کہ اس وقفہ میں لاکھوں آدمی کہیں نہ کہیں قرآن پاک کی تلاوت نہ کر رهے هوں تو ذرا سا غور کرنے سے یہ حقیقت واضح اور مبرہن هو جاتی هے، اور یہ صاف سمجھ میں آجاتا هے کہ دنیا میں ایک لمحہ کے لئے بھی کہیں ایسا نہیں هوتا ۔ یہ محض دعویٰ نہیں هے، بلکہ اس کی دلیل خود آپ کے سامنے موجود هے ۔ روئے زمین پر ایک ارب بیس کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں ۔ دنیا کے نقشے پر نظر ڈال کر دیکھا جائے تو پتا چلتا هے کہ روئے زمین کے جنوب مشرقی کونے میں فجی اورآاسٹریلیا کے علاقے شامل ہیں ۔ فجی میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان رہتے ہیں ۔ اسی طرح آسٹریلیا میں چار لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں، جو اکثر وبیشترآسٹریلیا کے بالکل جنوب مشرق کے علاقہ نیو ساؤتھ ویلز میں رہتے ہیں ۔ جب فجی اورآسٹریلیا میں صبح کی نماز کا وقت هوتا هے اور یہ یاد رهے کہ دنیا میں صبح سب سے پہلے فجی اورآسٹریلیا ہی میں هوتی هے تو وہاں کے مسلمان کیا کرتے هوں گے؟ آپ مان لیجئے کہ نماز پڑھنے والوں کا اوسط مسلمانوں میں بہت کم رہ گیا هے ۔ فرض کر لیں کہ مسلمان قوم میں بہت سے لوگ لا مذہب اور بے دین هو گئے ہیں اور ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں رہ گیا هے ۔ کوئی مخالف زیادہ سے زیادہ یہی فرض کر سکتا هے ۔ لیکن اس بات سے کوئی بڑے سے بڑا مخالف اسلام بھی اختلاف نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد میں سے ایک چوتھائی یعنی پچیس فی صد لوگ ضرور نماز پڑھتے هوں گے ۔ اگر پچیس فیصد لوگ نماز پڑھتے هوں تو گویا کم از کم ایک لاکھ مسلمان اس علاقے میں ایسے ضرور ہیں جو روزانہ علی الصباح فجر کی نماز کے لئے کھڑے هوتے ہیں، اور کھڑے هو کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں ۔ مسلمانوں میں ہمیشہ سے یہ طریقہ چلا آرہا هے کہ وہ فجر کی نماز کے بعد بقدر توفیق قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں ۔ مان لیجئے کہ اس وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے ان دس فیصد میں بھی دس فیصد ہیں تو پھر بھی کئی ہزار مسلمان وہ ہیں جو قرآن پاک کھول کر تلاوت کر رهے هوں گے، اور جو باقاعدہ تلاوت نہیں کرتے وہ بھی کم از کم نماز میں سورةفاتحہ اور سورة اخلاص وغیرہ کی تلاوت ضرور کرتے ہیں ۔ اول تو یہ تعداد لاکھوں میں هے ۔ لیکن بڑے سے بڑا مخالف بھی چند ہزار کا اعتراف ضرور کرے گا اور نہیں کرتا تو آپ اسے فجی اور آسٹریلیا لے جا کر دکھا دیجئے ۔

اس کے بعد جب آسٹریلیا میں فجر کی نماز کا وقت ختم هونے لگتا هے تو انڈونیشیا میں فجر کی نماز کا وقت شروع هو جاتا هے ۔ انڈونیشیا میں بیس کروڑسے زائد مسلمان بستے ہیں ۔ پورے ملک میں ساڑھے پانچ ہزار جزائر ہیں جو تین ہزار میل کے رقبے میں پھیلے هوئے ہیں ۔ مشرق سے لے کر مغرب تک جزائر کا ایک لمبا سلسلہ آپ نقشہ پر دیکھ لیجئے ۔ ان بیس کروڑ کی آباد ی میں اگر دس فیصد بھی نماز پڑھتے هوں تو پہلے مشرقی علاقہ میں فجر کا وقت شروع هو جاتا هے پہلے مشرقی جزائر میں فجر کی نمازوں سے سلسلہ کا آغاز هوتا هے، پھر وسطی جزائر میں پھر آخر میں مغربی جزائر میں ۔ یاد رهے کہ انڈونیشیا کے مغربی جزائر ملائیشیا کے ساتھ ایک ہی عرض بلد پر واقع ہیں ۔ یوں فجر کا وقت ملائیشیا اور انڈونیشیا میں بیک وقت شروع هو جاتا هے، اور جونہی وہاں یہ سلسلہ ختم هوتا هے تو بنگلہ دیش میں شروع هو جاتا هے ۔ بنگلہ دیش میں ختم هوتے ہی بھارت میں شروع هو جاتا هے جہاں بیس کروڑ کے لگ بھگ مسلمان رہتے ہیں ۔

ابھی بھارت کے مسلمان نماز پڑھ ہی رهے هوتے ہیں کہ فجی میں ظہر کا وقت داخل هو جاتا هے وہ سلسلہ دوبارہ شروع هوجاتا هے ۔ اب گویا دو سلسلے هوگئے ۔ اس روئے زمین پر تلاوت قرآن پاک کی دو لہریں چل رہی ہیں، یہ دو لہریں یا سلسلے یا دو (Waves) جو مشرق سے شروع هو کر مغرب کو جار ہی ہیں ۔ ہندوستان میں ابھی یہ لہر ختم نہیں هوتی کہ پاکستان میں شروع هوجاتی هے اور پاکستان کے بعد پورا سنٹرل ایشیا، پورا افغانستان، پورا چین جہاں کروڑوں مسلمان آباد ہیں اس لہر میں شامل هو جاتے ہیں،اور یوں اس وسیع وعریض خطہ میں تلاوت قرآن کا سلسلہ شروع هو جاتا هے پاکستان کے چودہ کروڑ میں سے اگر بیس مسلمان بھی قرآن پڑھتے هوں تو کم وبیش ستر اسی لاکھ مسلمان پاکستان بھر میں فجر کے وقت تلاوت اور نماز میں مشغول هوتے ہیں اگرچہ یہاں تلاوت قرآن کرنے والوں کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ هے ۔ جب نماز فجر کا یہ سلسلہ مصر تک پہنچتا هے تو فجی میں عصر کا وقت داخل هو چکا هوتا هے ۔ اس طرح بیک وقت تین سلسلے شروع هو جاتے ہیں، اور جب یہ سلسلہ آگے پہنچتا هے اور مراکش میں داخل هوتا هے تو پیچھے فجی میں مغرب کا وقت داخل هو جاتا هے ۔ اب چار سلسلے هو گئے اور جب امریکہ میں جہاں نوے لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں فجرکا وقت داخل هو چکا هوتا هے اور وہ فجر کی نماز پڑھنا شروع کرتے ہیں تو فجی میں عشاء کا وقت شر وع هوجاتا هے، یوں روئے زمین پر نمازوتلاوت کے پانچ سلسلے ایسے چلتے رہتے ہیں کہ جن میں چاروں طرف سے تسلسل قائم رہتا هے ۔ اس میں کبھی وقفہ نہیں هوتا ۔ اگر کسی کو شک هوں تو وہ ٹیلیفون کرکے معلوم کر سکتا هے کہ دنیا میں کہاں کہاں اس وقت کون کونسی نمازیں ادا کی جارہی ہیں اور کہاں کہاں تلاوتیں هو رہی ہیں ۔ یوں بھی دنیا کا نقشہ سامنے هو، نمازوں کے اوقات اور دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کا علم هو اور سورج کی حرکت کا اندازہ هو تو ٹیلی فون کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ نقشہ سے ہی پتہ چل جائے گا کہ چوبیس گھنٹے میں نمازو تلاوت کی ہر وقت یہ پانچ روئیں مسلسل اور متواتر چلتی رہتی ہیں، اور روئے زمین پر کہیں نہ کہیں ہزاروں، لاکھوں مسلمان قرآن پاک کی تلاوت یا قرآن پاک کے کسی ایک حصہ کی تلاوت یا سماعت کر رهے هوتے ہیں ۔

اس اعتبار سے اگر ہم یہ کہتے ہیں تو درست کہتے ہیں کہ القرآن وہ واحد کتاب هے جس پر یہ لفظ اس کمال اور بھر پور طریقہ سے صادق آتا هے کہ کسی اور کتاب پر صادق نہیں آتا اور دنیا میں کوئی بھی کتاب ایسی نہیں هے جو اتنے تسلسل کے ساتھ اور اتنی کثرت کے ساتھ پڑھی جار ہی هو کہ اس میں چودہ سو سال سے کوئی وقفہ ہی نہ آیا هو۔ وقفہ آہی کیسے سکتا هے، اس تسلسل میں ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا وقفہ بھی اس لیے نہیں آ سکتا کہ پانچ روئیں متواتر چل رہی ہیں ۔ لہذا القرآن ایسا نام هے کہ یہ کسی اور کتاب پر پورا اتر ہی نہیں سکتا ۔ اس لیے اللہ رب العزت نے اپنی کتاب کے لئے نام بھی ایسا رکھا هے کہ اس ایک کتاب کے علاوہ کوئی کتاب ایسی نہیں هے جو القرآن تو کیا قرآن بھی کہلا سکے ۔ یہ نام 26مرتبہ قرآن پاک میں استعمال هوا هے ۔

دوسرا نام اس کتاب کا ”الکتاب“ هے ۔ وہ بھی بڑی اہمیت اور معنویت رکھتا هے اللہ رب العزت کی جو مجموعی اسکیم هے انبیاء کی اور نبوت کے سلسلہ کی کتابیں بھیجے جانے اور شریعتیں اتارے جانے کی، اس ساری اسکیم سے اس نام کا بڑا گہرا تعلق هے ۔

قرآن مجید کو باربا ر الکتاب کہا گیا هے ۔ آغاز میں ہی ارشاد باری هے :

ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ۔

یہ وہ کتاب هے جس میں کوئی شک نہیں ۔

ایک اور جگہ ارشاد هے :

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِی اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتَابُ۔

سب تعریفیں اس اللہ کی جس نے اپنے بند ہ پر الکتاب اتاری۔

الکتاب کے معنی ہیں (The Book) دی بک۔ جب انگریزی میں دی (The) اور عربی میں ال، تخصیص کے حرف کے طور پر لگایا جاتا هے تو اس کے معنی هوتے ہیں صرف وہ متعین چیز جس کا تذکرہ هے ۔ یعنی وہ متعین کتاب جس کا اس سیاق وسباق میں تذکرہ هو رہا هے ۔ لیکن اس کے باوجود کہ قرآن پاک نے باربار خود کو الکتاب کہا هے اس کے ساتھ ساتھ قرآن پاک میں جیسا کہ ہر مسلمان جانتا هے پچھلی کتابوں کا تذکرہ بھی هے، تورات کا بھی ذکر هے اور انجیل اور زبور کا بھی ذکر هے ۔ ان تین کتابوں کے نام تو لئے گئے ہیں ۔ بقیہ کتابوں کے نام نہیں لئے گئے ۔ بقیہ کتابوں کا ذکر عمومی انداز میں هے ۔ مثال کے طورپر سورة اعلیٰ میں صحف ابراہیم وموسیٰ کا ذکر هے ۔ ارشاد هے :

اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِبَرَاہیْمَ وَمُوْسٰی۔

یعنی یہی پیغام پرانے صحیفو ں میں بھی هے ۔ ابراہیم کے صحیفوں میں بھی اور موسیٰ کے صحیفوں میں بھی۔

اب جہاں تک حضرت موسیٰ کے صحیفوں کا تعلق هے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سے خامس خمس یعنی عہد نامہ قدیم کی پہلی پانچ کتابیں مراد ہیں جن کو تورات کہا جاتا هے ۔ اگرچہ تورات کو کہیں بھی قرآن میں صحیفے نہیں کہا گیا ۔ اس لیے قطعی طورپر ہم نہیں کہہ سکتے کہ صحیفے جو یہاں کہاگیا هے ان سے مراد تورات ہی هے یا کوئی اور صحیفے مراد ہیں ۔ غالب خیال البتہ یہی هے کہ اس سے تورات مراد هو۔ لیکن حضرت ابراہیم کے صحیفے، جن کا یہاں ذکر کیا گیا هے اس سے پتہ چلتا هے کہ حضرت ابراہیم پر بھی صحیفے یا کتابچے الگ الگ اجزاء، سورتوں یا پمفلٹوں کی شکل میں اتارے گئے تھے ۔ جن کا قرآن پاک کی ان آیات میں ذکر هے ۔ یقیناً یہ صحیفے ان تین مشهور کتابوں کے علاوہ ہیں ۔

قرآن مجید میں ایک جگہ پرانی کتابوں کا عمومی انداز سے ذکر کیاگیا هے :

وَاِنَّہ‘ لَفِی زُبُرِالْاَوَّلِیْن۔

اور یہی پیغام پہلے لوگوں کی (پرانی) کتابوں میں بھی بیان کیا گیا تھا ۔ گویا کچھ اور قدیم اور پرانی کتابیں بھی ایسی تھیں جو اللہ نے پہلے اتاری تھیں جن کے ناموں اور مندرجات کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں هے ۔ اس اجمال کی مزید وضاحت ایک روایت سے هوتی هے جو مسند امام احمد بن حنبل میں بیان هوئی هے ۔ اس روایت میں یہ بیان کیا گیا هے کہ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے اور ان میں سے 315صاحب کتاب تھے ۔ اس طرح گویا کتابوں کی تعداد 315کے لگ بھگ تھی۔ لگ بھگ اس لیے کہا گیا کہ بعض کتابیں ایسی بھی ہیں کہ وہ ایک سے زائد پیغمبروں کو دی گئیں ۔ اس اعتبار سے کتابوں کی تعداد بہرحال سینکڑوں میں ضرور هو گی۔ کتنی هو گی یہ ہم قطعیت سے نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن پاک میں کئی جگہ ان کتابوں کا اجمالی ذکر آیا هے، اور ایک صاحب ایمان کے لئے ا ن سب کتابوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا هے ۔ یہ ایمان رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں اتاری ہیں چاهے ان کے نام ہمارے علم میں هوں یا نہ هوں، چاهے ان کی تفصیلات ہمارے علم میں هوں یا نہ هوں ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں ۔ یہ بات اسلامی عقیدہ کا جزو هے جس کو ماننا مسلمان هونے کے لئے ضروری هے ۔

ان کتابوں کے لئے قرآن پاک میں دو الفاظ استعمال هوئے اور ان دونوں کی بڑی اہمیت هے ۔ قرآن پاک کے اس نام ” الکتاب“ سے اس کا بڑا گہرا تعلق هے ۔ ان سب کتابوں کے لئے جن کی تعداد تین سو پندرہ کے لگ بھگ هے قرآن میں کئی جگہ کتب (کتابیں) کا لفظ بصیغہ جمع استعمال کیا گیا هے ۔ سورہ بقرہ کی آخری آیات میں ارشاد هوا هے :

کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَأئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ۔

یعنی رسول اللہ اور سب اہل ایمان اللہ، اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں اور اس کے رسالوں پر ایمان لائے ہیں ۔

یہاں کتب (کتابوں، بصیغہ جمع) سے مراد وہ ساری کتابیں ہیں جو اللہ نے اتاریں، بشمول قرآن مجید۔ یہاں اللہ رب العزت نے کتب کا لفظ استعال کیا هے جو جمع کے لئے هے یعنی بہت ساری کتابیں، لیکن ایک دوسری جگہ پہلی تمام کتابوں کے لئے ” الکتاب“ کا لفظ (بصیغہ واحد) استعمال کیا گیا هے ۔ سورة مائدہ کی آیت 48میں جہاں قرآن مجید کا تعارف کرایا گیا هے وہاں فرمایا :

مُصَدِّقًالِّمٰا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ۔

کہ قرآن اپنے سے پہلے آنے والی ” الکتاب“ کی تصدیق کرتا هے اور اس کا محافظ اور اس پر حاوی هے ۔

یہاں بھی دونوں صیغے مفرد کے ہیں ۔ اگرچہ کتابیں جن کی طرف اشارہ مقصود هے بہت سی ہیں، لیکن الکتاب کا لفظ اور علیہ کی ضمیر دونوں صیغہ واحد میں استعمال هوئے ہیں ۔ حالانکہ خود قرآن نے بہت سی کتابوں کا ذکر کیا هے جن کی تعداد جیسا کہ ہم نے دیکھا سینکٹروں میں هے ۔ پھر الکتاب اور علیہ دونوں کے لئے صیغہ مفرد کیوں استعمال کیا گیا ۔ اس میں کیا حکمت پوشیدہ هے ۔ یہ ایک سوال هے کہ قرآن کو بھی الکتاب کہا گیا اور پچھلی ساری کتابوں کو بھی مجموعی طور پر الکتاب کہا گیا؟آخر کیوں؟ اس کا جواب یہ هے کہ ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں هے اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ صیغہ جمع میں الکتب کا لفظ هو یا صیغہ واحد میں الکتاب کا لفظ هو درست ہیں ۔

ان میں نہ کوئی تعارض هے نہ کوئی تضاد، بلکہ اس اسلوب بیان سے ایک چیز کے دو پہلوؤں کی طرف توجہ دلانا مقصود هے ۔ اللہ رب العزت جو خالق کائنات هے اس کا ارشاد هے کہ مَایُبَدِّلَالْقَوْلَ لُدَی (میرے ہاں بات بدلتی نہیں هے)جو بات اس نے پہلے دن کہہ دی تھی وہی بات اس نے بعد میں بھی کہی۔ جو تعلیم اس نے حضرت موسیٰ کو دی تھی وہی تعلیم حضرت عیسیٰ کو بھی دی، اور جو تعلیم حضرت عیسٰی کو دی وہی ہمارے نبی کو بھی دی۔ لہذااللہ کی تعلیم میں کبھی کوئی فرق نہیں هوسکتا ۔ اس نے پہلے دن بھی توحید کی تعلیم دی تھی، رسالت پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا تھااور آخرت پر ایمان کا سبق دیا تھا،مکارم اخلاق کی اور برے کردار سے بچنے کی تعلیم پہلے بھی دی تھی اور انہی چیزوں کی تعلیم آج بھی دی۔ تفصیلات میں جو فرق نظر آتا هے وہ لوگوں کے اپنے حالات بدلنے کی وجہ سے هے ۔ جو ں جوں انسانی تمدن نے ترقی کی اسی لحاظ سے تعلیم کی تفصیلات میں اضافہ هوتا رہا ۔ لیکن دین کی جو بنیادی تعلیم روز اول تھی وہ ہر زمانے میں ایک ہی رہی هے ۔ اس اعتبار سے اللہ نے جتنی کتابیں اتاریں ان سب کو آپ ایک کتاب کہہ سکتے ہیں ۔ اس اعتبار سے کہ ان کا مصنف ایک، ان کا بنیادی پیغام ایک، ان کا مقصد ایک، کہ لوگ اچھے انسان بن جائیں، آخرت میں ان کو فلاح حاصل هو اور وہ جہنم سے نجات پاکر جنت میں داخل هو جائیں ۔ یہی مقصد وحید تھا ان سب کتابوں کے اتارے جانے کا ۔ ان میں سے ہر کتاب کا سبق یہ تھا کہ انسان اللہ سے اپنا تعلق جوڑے، ایمان اختیار کرے، تقویٰ کا رویہ اپنائے، اور اعمال صالحہ پر کاربند هو۔ اس اعتبار سے ان سب کتابوں کو ” ایک کتاب“ کہا جا سکتا هے ۔

اس کی مثال یوں سمجھئے کہ مثلاً ایک مصنف آج اردو میں ایک کتاب لکھتا هے جس میں وہ یہ بتاتا هے کہ پاکستان کے باشندے اچھے انسان کس طرح بنیں، اچھا اخلاق ان میں کیسے آجائے، کردار کی تعمیر کیسے هو، وغیرہ وغیرہ۔ اس کتاب میں دلائل دیئے جاتے ہیں، مثالیں دی جاتی ہیں اور تعمیر کردار کا پیغام دیا جاتا هے ۔ فرض کیجئے وہ کتاب بہت مقبول هوتی هے ۔ یہاں تک کہ بیرون ملک مثلاً بنگلہ دیش کے مسلمان مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کا ایک ایڈیشن ان کے لئے بھی تیار کر دیا جائے ۔ اب یہ مصنف جو اتفاق سے بنگالی زبان بھی جانتا هے اس کتاب کے مضامین کو بنگالی زبان میں بھی شائع کراتا هے ۔ لیکن بنگالی ایڈیشن میں وہ مصنف ان مقامی حوالوں اور مثالوں کو بدل دیتا هے جن کا تعلق صرف پاکستانی معاشرہ سے تھا، اور پاکستانی لوگ ہی ان مثالوں کو سمجھ سکتے ہیں مثلاً پاکستانی ایڈیشن میں کسی سیاق وسباق میں تربیلہ ڈیم کا ذکر هو سکتا هے، لیکن بنگالی ایڈیشن میں اس سیاق وسباق میں تربیلہ ڈیم کے بجائے فرخاڈیم کا حوالہ لکھا جاتا هے، جس سے وہ لوگ نسبتاً زیادہ مانوس ہیں ۔ یہاں بلوچستان کے حوالے سے اگر اونٹوں کا ذکر هے تو بنگالی ایڈیشن میں کشتیوں کی مثال دی جائے گی۔ اسی طرح یہاں کی مشهور شخصیتوں کے حوالوں کی جگہ بنگلہ دیش کی شخصیتوں کا حوالہ دیا جائے گا جسے وہ لوگ بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں ۔

اسی طرح اب یہ کتاب ترکی کے لوگوں کے علم میں آئی اور انهوں نے مطالبہ کیا کہ اس کا ایک ایڈیشن ان کیلئے بھی شائع کر دیا جائے، اب اس مصنف نے ترکی کے حوالے، شخصیتیں اور مقامات کا ذکر کرکے وہ کتاب ترکی کے لئے تیار کر دی۔ اب دیکھاجائے تو کتاب کا بنیادی پیغام کہ انسانوں کو کس طرح بہتر انسان بنایا جائے وہ تو ایک ہی هے، خواہ وہ پاکستانی هوں، بنگالی هوں، یا ترکی هوں ۔ بنیادی اخلاقی تعلیمات سب کے لئے ایک ہی ہیں ۔ صرف مثالیں، حوالے وغیرہ مختلف ہیں ۔ اب چونکہ مصنف بھی ایک ہی هے، کتاب بھی ایک ہی هے، پیغام بھی ایک هے، اس لئے کہا جاسکتا هے کہ اس مصنف نے ایک کتاب لکھی۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا هے کہ اس نے تین کتابیں لکھی ہیں اس لئے کہ وہ تین مختلف علاقوں اور تین مختلف زبانوں میں لکھی گئیں ۔

قریب قریب یہی معاملہ بلا تشبیہ کتب سماویہ کا بھی سمجھنا چاہیے ۔ اس اعتبار سے قرآن مجید نے ان ساری کتابوں کو کتابیں بھی قرار دیا، اور ایک الکتاب بھی قرار دیا هے ۔ الکتاب وہ سب اس اعتبار سے ہیں کہ ان کا بھیجنے والا ایک، ان کا پہنچانے والا ایک، ان کا بنیادی پیغام ایک، ان کا مقصد ایک، اور ان سے بالآخر جو نتیجہ نکلنے والا هے وہ ایک، اسی طرح ان کو الگ الگ کتابیں بھی قرار دیا گیا، اس اعتبار سے کہ وہ مختلف انبیاء پر اتاری گئیں، مختلف زبانوں میں ان کو اتارا گیا، مختلف علاقوں میں ان کو اتارا گیا، مختلف اوقات میں ان کو اتارا گیا، ان اسباب کی بنیاد پر ان کو جداگانہ کتابیں بھی کہا جا سکتا هے ۔

اب آپ دیکھئے کہ قران مجید یہاں جب اپنے آپ کو الکتاب کہتا هے تو وہ گویا دو باتیں کہتا هے ۔ ایک تو وہ اپنی ایک بنیادی صفت کا تذکرہ کرتا هے کہ اس وقت یہ اسی طرح کی الکتاب (دی بک) هے جس طرح ایک زمانہ میں تورات الکتاب تھی یا انجیل الکتاب تھی۔ یعنی اللہ کی مرضی کی واحد ترجمان اور اس کے قانون اور نظام کا واحد اور قطعی ماخذ۔ دوسری بات جو اس پہلی بات سے آپ نکلتی هے وہ یہ هے کہ اب رہتی دنیا تک کے لئے یہی الکتاب هے ۔ اس لیے کہ اس کو لانے والا خاتم الانبیاء هے اور جس امت پر یہ اتاری گئی و ہ خاتم الامم هے،لہذا لا محالہ اس کو بھی خاتم الکتب هونا چاہیے ۔

دوسری جگہ جہاں الکتب (کتابوں) کا ذکرکرتا هے وہاں ایک تو اشارہ پچھلی کتابوں کی طرف هے، قرآن ان سب کی تصدیق کرتا هے کہ ان کا سارا پیغام درست تھا ۔ اس لیے کہ ہم ہی نے ان کو بھی اتار ا تھا، ہم اس پہلی بات کی آج تصدیق کرتے ہیں اور کنفرم کرتے ہیں کہ وہ صحیح بات تھی اورآج بھی وہی بات کہتے ہیں جو پہلے کہی تھی۔ گویا مصنف خود یہ کہہ رہا هے ۔ اس آیت مبارکہ میں اگلی صفت یہ بتائی کہ قرآن ان کتابوں کی تصدیق کے ساتھ ساتھ مہیمنا علیہ بھی هے، یعنی یہ اس سابقہ کتاب(یا کتابوں) پر اس طرح حاوی هے کہ اس کے جو بنیادی عناصر ہیں یہ ان سب کو اپنے اندر سموئے هوئے هے اور گویا اپنے احاطے میں لیے هوئے هے ۔

عربی زبان میں بڑے جامع قسم کے الفاظ پائے جاتے ہیں جو مفهوم کو اس طرح اداکرتے ہیں کہ اور کسی زبان میں وہ مفهوم اس جامعیت کے ساتھاادا نہیں هوتا ۔ ”مہیمن“ کہتے ہیں اس طرح حاوی هو جانے کو جس طرح وہ مرغی کہ جب کوئی چیل یا کوا اس کے بچوں پر جھپٹنے لگے تو وہ پر پھیلا کر اپنے سارے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ کر ایسے بیٹھ جاتی هے کہ کوئی بچہ اس کا باہر نہیں رہتا، اور یوں وہ اپنے سب چوزوں کو اپنی حفاظت میں لے لیتی هے ۔ اس کیفیت کو ”مہیمن“ کے لفظ سے ادا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی قرآن میں ”مہیمن“ آتی هے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ پوری کائنات کو اس طرح اپنے قبضہ اور حفاظت میں لیے هوئے هے کہ کوئی قوت ایسی نہیں هے کہ اس کی کائنات میں دخل اندازی کر سکے یا خالق کائنات کے کام میں مداخلت کر سکے ۔ قرآن پاک کیلئے بھی یہی لفظ استعمال هوا هے، جس کا صاف مفهوم یہ هے کہ قرآن پاک پچھلی آسمانی کتابوں میں دی گئی تعلیمات کا اس طرح محافظ هے اور ان کے عطر اور جوہر کو اس نے اس طرح اپنے قبضے میں لیا هوا هے کہ کوئی اس میں دخل اندازی کرکے اس کو مٹا نہیں سکتا ۔

لوگوں نے تورات کو مٹا دیا، انجیل کو مٹا دیا، دیگر کتابوں میں ملاوٹیں کر دیں ۔ لیکن تورات میں کیا تھا آج ہمیں معلوم هے، اس لیے کہ حضرت موسیٰ نے جو کچھ کہا وہ قرآن میں لکھا هوا هے ۔ زبور میں جو پیغام دیا گیا تھا وہ قرآن میں لکھا هوا هے کہ حضرت داؤد کی تعلیم کیا تھی اور چونکہ قرآن میں لکھا هوا هے کہ حضرت داؤد کی تعلیم کیا تھی اور چونکہ قرآن مجید محفوظ هے لہذا ساری کتابوں کی بنیادی تعلیم بھی محفوظ هے اور یوں ہر نبی نے جو تعلیم دی وہ قرآن میں محفوظ کر دی گئی هے ۔

قرآن میں یہ جو باربار کہا گیا کہ فلاں نبی کا ذکر کرو، فلاں نبی کا ذکر کرو، یہ اس لیے نہیں هے کہ بلاوجہ قصے سنانے مقصود ہیں ۔ بلکہ یہ ذہن نشین کرانا مقصود هے کہ ہر علاقہ میں، ہر زمانہ میں، ہر نبی نے یہی بنیادی تعلیم دی هے کہ اللہ ایک هے اور وہی عبادت کے لائق هے ۔ اسی طرح آخرت، رسالت اور مکارم اخلاق کے متعلق ایک جیسی تعلیم دی گئی۔ اس لیے الکتاب کا لفظ قرآن پاک کے لئے بھی استعمال هوا اور پہلی تمام آسمانی کتابوں کے لئے بھی استعمال هوا هے ۔ جس میں یہ بتا یا گیا هے کہ یہ کتاب وہ واحد کتا ب هے جو پچھلی تمام آسمانی کتابوں کے خلاصہ کی حیثیت رکھتی هے ۔ اب ان پرانی کتابوں کی ہمیں کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ جو کچھ هے وہ اب اس کتاب میں موجود هے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اب یہی واحد کتاب هے جو ان ساری کتابوں کی قائم مقام کی حیثیت رکھتی هے ۔ اب ان کتابوں کے صرف نام اور حقیقت پر ہم ایمان رکھتے ہیں کہ جب وہ اتاری گئی تھیں،تو وہ صحیح تھیں، اور جس زمانے کے لئے وہ اتاری تھیں اس وقت تک کے لئے صحیح تھیں ۔ ان سب کی تعلیم اور خلاصہ کے طور پر اب اس کتاب یعنی قرآن مجید میں موجود هے ۔ یہ هے مفهوم الکتاب کا جو قرآن پاک کے نام کے طورپر کئی مقام پر آیا هے ۔

اس کتاب کا تیسرا اہم اور معنی خیز نام الفرقان هے ۔ سورة فرقان کا آغاز ہی اس اعلان سے هوتا هے کہ وہ ذات انتہائی بابرکت هے جس نے اپنے بندے پر الفرقان نازل فرمائی۔ عربی زبان میں فرقان مصدر کا وزن هے اور عربیت کے قاعدہ سے اگر مصدر کے وزن کو کسی صفت کے مفهوم میں استعمال کیا جائے تو اس میں دوام اور تسلسل کا مفهوم پیدا هو جاتا هے ۔ لغوی اعتبار سے فارق اور فاروق سے مراد وہ چیز یا وہ فرد هے جو کوئی سی دو چیزوں کے درمیان فرق کرتا هو۔ فاروق میں مبالغہ کا مفهوم بھی موجود هے اور اصطلاحاً فاروق سے مراد وہ ہستی یا شخصیت هے جو حق وباطل کے درمیان فرق کردے ۔ جو جھوٹے اور سچے کو الگ الگ کر دے، جو کھرے اور کھوٹے کو جداجدا کر دے ۔ فرقا ن کا بھی یہی مفهوم هے ۔ لیکن اس میں مبالغہ کے ساتھ ساتھ دوام اور تسلسل کا مفهوم بھی پایا جاتا هے ۔ لہذا فرقان کے معنی ہیں وہ چیز جو حق وباطل میں دائمی طورپر تمیز کر سکے اور کھرے کھوٹے کو الگ الگ کرکے یہ بتا سکے کہ صحیح کیا هے اور غلط کیا هے ۔ گویا فرقان سے مراد وہ دائمی کسوٹی هے جو پرکھ کر یہ بتا سکے کہ سونا کھرا هے کہ کھوٹا ۔

قرآن مجید نہ صرف فرقان هے بلکہ ”الفرقان“ هے، یعنی وہ واحد اور مخصوص کسوٹی جو اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے هے ۔ الفرقان کے آجانے کے بعد اب کسی فارق یا کسی اور فرقان کی ضرورت نہیں رہی۔ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حق وباطل کی واحد کسوٹی یہی الفرقان هے ۔ اب یہی الفرقان وہ ”المیزان“ هے جس پر تول کر دیکھا جائے گا کہ کون اس پر پورا اترتا هے اور کون ہلکا ثابت هوتا هے ۔ اب جو کچھ اس دائمی کسوٹی کی پرکھ پر پورا اترتا هے وہ صحیح اور قابل قبول هے، اور جو پورا نہیں اترتا وہ غلط اور ناقابل قبول هے ۔ یہ ایک فولادی چوکھٹا هے جس سے کسی بھی چیز کا صحیح اور مکمل هونا جانچا جائے گا، جو جتنا پورا هے اتنا مکمل هے، اور جو جتنا جھوٹا هے اتنا کھوٹا هے ۔ یہ سارے مفاہیم الفرقان کے لفظ میں شامل ہیں ۔

اس کتاب کا چوتھا نام” الذکر“ هے ۔ ذکرکے معنی یاددہانی کے ہیں ۔ قرآن پاک میں کئی آیات میں قرآن مجید کو” الذکر“کے لفظ سے یاد کیا گیا هے ۔ سورة حجر کی آیت 9میں جہاں قرآن پاک کی حفاظت کا ذکر هے وہاں الذکر ہی کا نام استعمال فرمایا گیا هے ۔ ارشاد هوتا هے :

نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِناّٰ لَہ‘ لَحَافِظُونَ۔

کہ ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا هے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

یاد دہانی کالفظ اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا هے ۔ اگر آپ پہلی مرتبہ کسی کو کوئی خط لکھیں یا پہلی مرتبہ کسی سے کوئی سوال، مطالبہ یا درخواست کریں تو آپ اس کو یاددہانی کے لفظ سے تعبیر نہیں کرتے ۔ یاددہانی اس صورت میں هوتی هے جب آپ وہ بات پہلے کہہ چکے هوں ۔ کوئی بات، تحریر یا خط اگر ایک بار بھیجا جا چکا هو اور اس پر عمل نہ هوا هو، یا اس کو غلط سمجھا گیا هو یا اس میں کسی نے ردوبدل کر دی هو یا وہ سابقہ تحریر سرے سے گم هو گئی هو تو پھر یاد دہانی کی ضرورت پیش آتی هے ۔

قرآن مجیداس اعتبار سے ایک یا ددہانی کی حیثیت رکھتا هے کہ وہ پچھلی تمام کتابوں کی آخری، حتمی، قطعی اور مکمل یاد دہانی هے ۔ قرآن مجید چونکہ دوسری تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا هے اور قرآنی وحی کو سابقہ کتابوں کی وحی کا ہی

تسلسل قرار دیتا هے اس لیے اس کی نوعیت دین کی بنیادی تعلیمات کے لئے ایک یاددہانی ہی کی هونی چاہیے ۔

پہلے کہا جا چکا هے کہ قرآن مجید پچھلی تمام آسمانی کتابوں کے بنیادی اور اساسی پیغام پر حاوی هے ۔ قرآن کا یہ حاوی هونا خود ایک مسلسل یاد دہانی کی حیثیت رکھتا هے ۔

ذکر کے معنی یاد دہانی کے علاوہ کسی چیز کو زبانی یاد کرنے کے بھی آتے ہیں ۔ قرآن مجید اس اعتبار سے بھی ”الذکر“ هے کہ دیگر آسمانی کتابوں کے برعکس یہ واحد کتاب هے جس کو حفاظت کی خاطر کروڑوں انسانوں نے کاغذی سفینوں کے ساتھ ساتھ سینوں میں بھی محفوظ رکھا ۔ قرآن مجید کے علاوہ دنیا کی تاریخ میں کوئی اور ایسی کتاب نہیں هے جس کو اس محبت، عقیدت، احترام، اہتمام اور انتظام سے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں نے اپنے سینوں میں محفوظ کیا هو۔ اس مفهوم کے اعتبار سے بھی اگر کسی کتاب پر” الذکر“ کالقب صادق آسکتا هے تو وہ یہی کتاب حکیم هے ۔

یہ چار تو وہ نام ہیں جو قرآن میں جا بجا آئے ہیں اور اس کتاب کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بہت سے صفاتی نام بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً قرآن پاک میں استعمال هوئے ہیں اور اس کتاب کی مختلف حیثیتوں کو اور مختلف صفتوں کو اجاگر کرتے ہیں ۔ جن کا اندازہ سینکٹروں میں هے ۔ یہ ساری قرآن کی صفتیں ہیں یعنی یہ وہ کتاب هے جو سراپا حکمت ودانائی هے، جو عظیم الشان هے، جو بزرگی اور برتری والی هے ۔ اس طرح دیگر صفات قرآن مجید کی مختلف حیثیتوں اور اوصاف کو بیان کرتی ہیں ۔