حریم قرآن کا دفاع

مؤلف .......................جواد فاضل لنکرانی

مترجم ..........................محمد باقر مقدسی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انا نحن نذلنا الذکر و انا لہ لحافظون

ترجمہ

ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے حفاظت کرنے والے ہیں۔

حرف آغاز

عظیم پروردگار کا شکر گزار ہوںاور وہی حمد و ثنا کا مستحق ہے جس نے ہم پر احسان کیا اور ایک عظیم امانت کو اٹھانے کے لائق سمجھا ،وہی امانت جو اللہ کی طرف سے آخری اور ابدی معجزہ ہے ،وہ معجزہ جو ایک وسیع دسترخوان کی مانند پورے عالم کے حقائق سے بھرا ہوا ہے اور ہمیشہ کے لئے بھیجا گیا ،یعنی قرآن کریم کی شکل میں کریم مطلق ،کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تا کہ انسانوں کی سعادت کا ذریعہ بنے ،ایک ایسا بیکران سمندر ہے جس کی چھوٹی بڑی تمام امواج بہت ہی عمیق اور عظیم اسرار پر مشتمل ہیں ،وہی بہترین ہدایت اور سعادت کا راستہ ہے ،کتاب جو ہمیشہ پوری بشریت اور ہر معاشرے کے لئے زمان و مکان میںچراغ ہدایت ہے ،اور قیامت تک گمراہی اور ضلالت کی تاریکیوں میں مبتلا ء افراد کی رہنمائی کرتی رہے گی ،یہ کتاب ہر زمانے میں نور اور ہر مرحلہ میں بہترین رہنما اور ہر خشک و تر کا ذکر اس میں موجود ہے ،انسانی زندگی کے تمام پہلؤں اور کائنات کی ہر شیء کا اس میںکھلا بیان ہے ۔یہ وہ کتاب ہے جس کی ہر وقت اور ہمیشہ کسی بھی قسم کی تبدیلی سے حفاظت کرنے کا خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے،اور ایسا وعدہ کہ جس سے تخلف کرنا محال ہے ،جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :''انّ وعد اللہ حق'' اس مختصر کتابچہ میں جو مطالب بیان کئے گئے ہیں وہ قرآن میں تحریف نہ ہونے سے مربوط ہیںجسے علوم قرآن کے مباحث میں سے بنیادی اور اہم مسئلہ سمجھا جاتا ہے ۔اور یہ مسئلہ تمام محققین،مفسرین او ر اس کتاب کے بارے میں غور و خوض کرنے والوںکی نظر

میںبہت اہمیت کا حامل ہے ۔اس لئے اس کے تمام پہلوؤں پر گفتگو اور وضاحت

ضروری ہے ۔

اس مسئلہ کے بارے میںباریکی کے ساتھ غور کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریف قرآن کا مسئلہ اسلامی فرقوںمیںسے کسی کی طرف نسبت دینا بجائے خود ایک نمایاںتحریف ہے ،خصوصاً کسی ایسے مذہب کی طرف جس کے اعتقادات کی بنیاد عدم تحریف پر ہو تحریف کی تہمت دینا سراسر جھوٹ اور بہتان ہے ۔عنقریب ان اہم مطالب کی توضیح اور تشریح کے دوران اس مسئلے پر مختلف پہلوؤں سے تحقےق کرکے ےہ ثابت کریں گے کہ شیعہ امامیہ نہ صرف تحریف قرآن کے معتقد نہیں ہیں بلکہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر وہ تحریف کے قائل ہو ہی نہیں سکتے ۔کیونکہ اگر وہ تحریف

کے قائل ہو جائیں تو ان کے اعتقادات کی بنیاد ڈھ جائے گی ۔

آئیے اس عظیم اجتماع(١) میں جہاں بڑے بڑے دانشور ،علماء اور مذہبی

......................................

١۔اس تحریر کو سب سے پہلے ایک علمی کانفرس میں پیش کیا گیا تھا (اس عظیم اجتماع) سے مراد یہی کانفرنس ہے ۔

شخصیات موجود ہیںہم ایک'' عالمی اعلان ''شایع کریں۔تمام مذاہب ،طبقات ،ملل،اقوام ،اور ادیان کو یہ بتائیں کہ قرآن کریم حضور اکرم ؐ پر نزول کے زمانے سے لے کر آج تک کسی بھی قسم کی تحریف سے محفوظ رہا اور قیامت تک کوئی بھی اس میںتحریف نہیںکرسکتا۔ایسا نہیں ہے کہ ہم اس مسئلہ کو ایک قضیہ خارجیہ کے طور پر پیش کر کے کہیں کہ اب تک قرآن کی تحریف نہیں ہوئی ہے بلکہ ہم اس مسئلہ کو ایک ''قضیہ حقیقیہ ''کے طور پر بیان کریںیعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی قطعی سنت قرآن کے بارے میں یہ ہے کہ اس میںتحریف ہونا محال ہے کوئی شخص یا گروہ آیات الٰہی میںسے کسی ایک آیت میں بھی تحریف کرنے پر قادر نہیں ہے یہ ایک ایسی مقدس کتاب اور ابدی معجزہ ہے جو خود ہر زمان و مکان میںتحریف سے محفوظ ہونے کی مدّعی ہے اور اس کی مانند لانے کو چیلنج کیا ہے ۔ اس مختصر کتابچہ میں مسئلہ تحریف کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی اس مسئلہ کے بارے میں تفصیلی بحث کرنا چاہے تو کئی جلدوں پر مشتمل ایک کتاب بن جائے گی ہم اس کے اہم نکات میںسے چند ایک کا جائزہ لینا چاہتے ہیںجو مختصراً بیان

ہوئے ہیںتا کہ اس بحث کے چند نمایاںپہلوؤںکو واضح کیا جاسکے۔

پہلا مطلب

لفظ تحریف کی تحقیق

تحریف باب '' تفعیل'' کا مصدر ہے جو لفظ ''حرف'' سے مشتق ہے جس کے لغوی معنیٰ کسی چیز کے کنارہ اور طرف کے ہیں۔یا کسی چیز کے کنارے اور طرف سے کچھ حصہ کے ضائع کرنے یا ہونے کو کہا جاتا ہے ۔ لہٰذا تحریف کے معنیٰ کسی چیز میں تبدیلی لانے اور اس کے اطراف اور گوشہ سے کچھ کم یا ضائع کرنے کو

کہتے ہیں ۔خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :

'' و من النّاس من یعبد اللہ علیٰ حرفٍ''۔(١ )

یعنی لوگوں میںسے بعض ایسے بھی ہیں جو کنارے ہو کر خدا کی عبادت کرتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کو اپنے دین پر یقین نہیں ،ایسے لوگ ان افراد کی مانند ہیں جو جنگ کے دوران کسی کنارے میں کھڑے ہو کر لشکروں کے ما بین ہونے والی جنگ کو دیکھ رہے ہوں ،اگر اپنی اطراف کامیابی نظر آئے تو مال غنیمت

کی خاطر جا کر شامل ہوتے ہیںورنہ راہ فرار اختیار کرتے ہیں ۔(٢ )

پس تحریف لغت کے اعتبار سے ہر چیز کی تبدیلی اور جا بجا ہونے کو کہا

................................

١۔حج/٢٢،١١

٢۔کشاف ج٢ص١٢٦

جاتا ہے ۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہی کہ تحریف سے ہمیشہ تحریف لفظی سمجھ میں آتا ہے لیکن قرآن کریم میں ایک قرینہ کے موجود ہونے کی بنا پر تحریف کا ایک ثانوی ظہور یعنی تحریف معنوی کا مفہوم بھی نظر آتا ہے ۔جیسا کہ یہودی علماء کی مذمت میں ارشاد

ہوا :

'' ویحرفون الکلم عن مواضعہ''(١ )

یعنی تورات میں کلام حق کو اس کے محل و معانی اور مقاصد الٰہی سے تبدیل کرتے ہیں اور کلام حق کو اس کے ظاہری معنوں پر محمول نہیں کرتے ۔

اس آیت کریمہ میں لفظ ''عن مواضعہ ''تحریف معنوی ہونے پر واضح قرینہ اور دلیل ہے لہٰذا راغب اصفہانی نے صرف تحریف نہیں بلکہ تحریف الکلام کے بارے میںیوں لکھا ہے ۔

تحریف الکلام ،ان تجعلہ علیٰ حرفٍ من الاحتمال یمکن حملہ علیٰ الوجھین(٢) یعنی کلام میںاس طرح تبدیلی لانا کہ جس سے اس کلام میں دو احتمال ہو سکتے ہوں ۔یہاں واضح ہے کہ راغب کا مقصد تحریف سے اس کے لغوی معنیٰ کی وضاحت کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد تحریف معنوی کو سمجھانا ہے جس کا

............................

١ٍ۔نسائ/٤،٤٦

٢۔مفردات ص ١١٢

ذکرآیت شریفہ میں ہوا ہے۔

فخر رازی نے اس آیت کریمہ کی تفسیر اور وضاحت میں کئی احتمالات پیش کئے ہیں ان میںسے بعض تحریف لفظی کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔لیکن آخر کسی

آیت کی تفسیر میں تحریف معنوی کو صحیح قوک قرار دیا ہے اور یوں کہتا ہے :

'' ان المراد بالتحریف القاء الشبہ الباطلۃ والتأویلات الفاسدۃ و صرف اللفظ عن معناہ الحق الیٰ معنی باطلٍ بوجوہ الحیل اللفظیۃ کما یفعلہ اہل البدعۃ''(١)بے شک تحریف سے مراد باطل شبہات اور فاسد تاویلات کے ذریعے لفظ کو ان کے حقیقی معنوں سے بدل کر مختلف لفظی حیلوں کے

ذریعے باطل معنی کی طر ف لے جانا ہے جیسا کہ اہل بدعت کرتے رہتے ہیں ۔

.............................

١۔تفسیر کبیر ج١٠ ص١١٧ طبع قدیم

دوسرا مطلب

تحریف کی قسمیں اور ان کے استعمال کے موارد

ہمارے بزرگ علمائے کرام کی عبارات میںجیسے محقق خوئی نے دعوا کیا ہے کہ لفظ تحریف چھ معانی میںبطور ''مشترک لفظی '' استعمال ہوا ہے ۔جن میں سے بعض معانی قرآن کریم میںپائے جاتے ہیںجن پر سارے مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے جبکہ بعض موجود تو ہیںمگر ان کے بارے میں اجماع واقع نہیں ہوا کہ اور بعض کے بارے میںاختلاف ہے۔ہم یہاں مرحوم خوئی نے تحریف کے اصطلاحی معانی کے بارے میںجو مطالب بیان کئے ہیںاس کا ذکر کر کے تبصرہ کرتے ہوئے

اپنا نظریہ بھی بیان کریںگے انہوںنے فرمایا :

تحریف کا لفظ کئی معانی میںاستعمال ہوا ہے ان میںسے پہلے معنی کسی چیز کواس کے معانی اور محل سے منتقل کر کے تبدیل کرناہے ۔اس آیہ شریفہ میں اسی کی طرف

اشارہ ہے ۔

'' ومن الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ''(١ )

یہودیوں میںسے کچھ لوگ ایسے بھی ہیںجو کلام کو اس کے محل سے بدل ڈالتے ہیں اس قسم کی تحریف کو تفسیر بالرائے یا تحریف معنوی کہا جاتا ہے اس قسم کی تحریف قرآن

............................

١۔البیان ص٢١٥

مجید میںواقع ہونے پر تمام مسلمانوںکا اجماع ہے کیونکہ کچھ مفسرین قرآن نے

آیات کی اس طرح کی تفسیر کی ہیں کہ جو قرآن کے الفاظ کے حقیقی اور واقعی معنیٰ نہیں ہیںبلکہ اپنی خواہشات اور آراء کے مطابق انہوں نے آیات کی تحریف کی ہے اور اہل بیت علیہم السلام سے منقول روایات میں اس کی مذمت ہوئی ہے چناچہ امام محمد

باقر علیہ السلام نے ایک خط میں سعد الخیر سے فرمایا :

'' و کان من نبذہم الکتاب ان اقاموا حروفہ و حرفوا حدودہ فھم یرونہ ولا یرعونہ''(١ )۔اور ان میںسے بعض کتاب (قرآن) کی عبارات اور حروف کے پابند ہیں جبکہ اس کے حدود میںتحریف کرتے ہیں ،ایسے لوگ اس

کتاب کے راوی ہیںلیکن محافظ نہیں۔

تحریف کے دوسراے معنیٰ

تحریف کے دوسرے معنیٰ یہ ہیں کہ کوئی حرف یا حرکت اجمالی طور پر کم زیادہ ہوئی ہو لیکن خود قرآن محفوظ ہو ۔اس طرح کی تحریف بھی قرآن کریم میں ثابت ہے جسے ہم اس کی اپنی جگہ ثابت کر چکے ہیںکہ قرآن کریم کی موجودہ قرائتوں میںسے کوئی بھی متواتر نہیں(٢)لہٰذا ان تمام میں سے صرف ایک قرآن

............................

١۔نسآء ٤/٤٦

٢۔ کافی ج ٨ ص٥٣ و الوافی فی آخر الصلوٰۃ

واقعی کے مطابق ہے اور دوسری قرآنوںمیںسے بعض میںاضافہ یا بعض میںکمی

ہے ۔

تحریف کے تیسرے معنی

قرآن کریم میں ایک لفظ یا اس سے زیادہ کو کم یا زیادہ کرنا،حالانکہ خود قرآن کریم محفوظ ہے ۔ان معنوں میںتحریف صدر اسلام اور اصحاب کرام کے زمانے میںیقینا واقع ہوئی ہے لیکن اس کی شدت سے مخالفت ہوئی ہے اس کی دلیل اجماع مسلمین ہے ۔یعنی جناب عثمان کے دور میںمصاحف میںسے کچھ صحیفوں کو جمع کر کے آگ لگا دی گئی اور اپنے حکمرانوں کو دستور دیا کہ میرے قرآن کے علاوہ دوسروں کو جلا دو ،اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ عثمان کا قرآن دوسرے قرآنوں سے الگ تھا اور محققین و علماء کی ایک جماعت جس میںسے ایک ابی داؤد سجستانی ہے انہوں نے اس وقت کے نسخوں کے جن موارد میں اختلاف تھا ان کو جمع کیا ہے یعنی عثمان نے جن نسخوں کوآگ لگانے کا حکم دیا تھا ان میں اجمالی طور پر تحریف ہوئی تھی لیکن عثمان نے جس قرآن کو جمع کر کے رائج کیا وہ یہی قرآن کریم ہے جو آج تک کسی تحریف کے بغیر ہم تک پہنچا ہے ۔لہٰذا عثمان کے دور حکومت سے پہلے جو نسخے معاشرے میںرائج تھے ان میں سے ایسی تحریف واقع ہونے کو قبول کرنا چاہیے لیکن جو قرآن دور حاضر میںہمارے پاس موجود ہے وہ عثمانی نسخہ

کے مطابق ہے جس میںکوئی کمی یا بیشی نہیں ہے ۔

چوتھے معنی

تحریف کا چوتھا معنیٰ یہ ہے کہ قرآن میںایک آیت کا اضافہ یا ان میںسے ایک آیت کم ہو جائے ،اگرچہ نازل شدہ قرآن کریم محفوظ اور مصون ہے لیکن ایسی تحریف سوائے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے کسی دوسری آیت میںنہیںہوئی ہے۔یعنی مسلمانوںکا اجماع ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (سورہ توبہ کے علاوہ ) ہر سورہ کی تلاوت سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت فرماتے تھے ۔لیکن اس بارے میں اہل سنت کے نظریے میں اختلاف ہے کہ بسم اللہ قرآن میںشامل ہے یا نہیںبعض قائل ہیں کہ شامل ہے بعض کہتے ہیںکہ شامل نہیں ہے۔لیکن شیعہ امامیہ کے تمام علماء قائل ہیںکہ بسم اللہ آیات قرآنی میں سے ایک آیت ہے اور ان کا اجماع ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورہ کا

جزہے ۔

پانچویں معنی

جو قرآن کریم آج مسلمانوں کے ہاتھوں میںموجود ہے اس کی کچھ آیات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ قرآن کریم میںنہیںتھیں آج اضافی ہیں ۔ایسی تحریف کے مسلمانوں میںسے صرف دو گروہ قائل ہوئے ہیں

الف:عجاردہ ،وہ لوگ جو عبدالکریم عجر د(جو خوارج کے بزرگوںمیںسے ایک ہے) کی پیروی کرنے والے ہیں ،جن کا عقیدہ یہ ہے کہ سورہ مبارکہ یوسف قرآن

کریم کا جزء نہیں ہے۔

ب:ابن مسعود کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ وہ سورہ مبارکہ ''قل اعوذ برب النّاس '' اور ''قل اعوذ برب الفلق'' (معوذتین) کو قرآن کا جزء نہیںسمجھتے ہیں ۔اور ان دو گروہ کے علاوہ دوسرے تمام مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے کہ ایسی تحریف قرآن میں نہیں ہوئی ہے اور ایسی تحریف کا نظریہ رکھنے والوں کا عقیدہ

غلط اور باطل ہونا بھی ایک امر لازمی ہے ۔

چھٹے معنی

یعنی جو قرآن ہمارے درمیان موجود ہے اس میں پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ قرآن کی چند آیات آج کے قرآن میںموجود نہیں ہیں ۔قرآن میں ایسی تحریف

کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اختلاف ہے ۔

نتیجہ

نتیجہ یہ نکلا کہ ان چھ معنوںمیںسے پہلے چار معنوں میںقطعی طور پر تحریف واقع ہوئی ہے پانچویںمعنے میںاجماع واقع نہیںہوا ہے اور چھٹے معنے پر

علماء کو اختلاف ہے۔

اس عظیم محقق (جناب مرحوم خوئی )کے بیان پر دو اعتراض ہو سکتے ہیں ۔

پہلا اعتراض

ہماری تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ مذکورہ تمام معانی اس عنوان میںنہیںہیںکہ لفظ تحریف اس میںاستعمال ہو جس کی وجہ سے مشترک لفظی کہلائے بلکہ تحریف کے صرف ایک معنی ہیںجو معانی مذکورہ میںسے پہلے معنی ہےں ۔تحریف یعنی ''نقل الشیء عن مواضعہ'' کسی چیز کو اس کے محل سے ہٹا دینا ،لیکن دوسرے سارے معانی اس کے مصادیق ہیں یا دوسرے لفظوں میںیوں کہا جائے کہ مذکورہ تمام معانی میںنقل الشیء عن موضعہ کے معنی پائے جاتے ہیں۔لیکن کبھی نقل معنیٰ میں جس کو تحریف معنوی کہتے ہیں اور کبھی نقل ،لفظ میں جس کو تحریف لفظی کہتے ہیں اور خود اس کی دو قسمیں ہیں ١۔یا تو نقل لفظ تفصیلی ہے ٢۔یا اجمالی۔یا

دوسرے لفظوں میںیوںکہا جائے کہ کمی و بیشی معین طور پر ہوتی ہے یا بطور اجمال واقع ہوتی ہے ۔لہٰذا اس مختصر تحقیق کی بنا پر یہ کہہ سکتے ہیںکہ اس عظیم محقق کے کلام میںجو معانی تحریف کے لئے ذکر ہوئے ہیںوہ اس کے مصادیق ہیں،یعنی لفظ تحریف مشترک معنوی ہے ایسا نہیںہے کہ تحریف معانی کے لئے مختلف موضوع لہ

ہوں اور تحریف''مشترک لفظی'' کے طور پر ان میںاستعمال ہو۔

دوسرا عتراض

اس تقسیم کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تحریف کے تمام اقسام میںباطل کا عنوان موجود نہ ہو اگران اقسام میںسے کوئی اس عنوان میں داخل ہو جائے تو اس آیہ شریفہ ''ولا یأتیہ الباطل من بین یدیہ '' کے خلاف ہے کیونکہ اس آیہ شریفہ کی ظاہری دلالت یہ ہے کہ قرآن شریف میںکسی قسم کے باطل کے آنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ لہٰذا جن موارد میں فرمایا ہے کہ بنا پر اجماع مسلمین تحریف واقع ہوئی ہے ان موارد میںتحریف کا عنوان صدق روک دیتا ہے اگرچہ یہ مطلب تحریف

معنوی میں مشکل نظر آتا ہے ۔

لفظ تحریف کے معانی کی وضاحت اور تحقیق کے بعد ہم اس کی اقسام بیان کریں گے جیسا کہ اہل فن اور علماء کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریف کی

چھ قسمیں ہیں :

١۔تحریف لفظی ،یعنی الفاظ اور جملوںمیںکمی اور زیادتی یا تبدیلی کرنا ۔

٢۔تحریف معنوی ،کسی کلام یا جملے کی اس طرح تفسیر کرنا کہ وہ اس پر دلالت نہ کرے اس کو تحریف معنوی یا تفسیر بالرائے کہتے ہیں ، روایات میں شدت کے ساتھ اس کی مذمت کی گئی ہے ۔چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :من فسر القرآن برأیہ فلیتبوء مقعدہ من النّار'' (١)جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے کی بنا پر کرے تو اس نے اپنا

ٹھکانہ جہنم میںبنایا۔

٣۔تحریف موضعی ،یعنی کسی ایک آیت یا سورہ کو نزول کی ترتیب کے خلاف مرتب کرنے کو تحریف موضعی کہتے ہیں ۔ایسی تحریف آیات میںبہت نادر ہے کیونکہ تمام آیات کو نزول کی ترتیب سے مرتب اور جمع کیا گیا ہے ،لیکن سورتوں کی نسبت یہ کہہ

.................................

١۔١عوالی اللأالی ج٤ ص ١٠٤

سکتے ہیں کہ ساری سورتیں نزول کی ترتیب کے خلاف پیغمبر اکرم (ص) کے حکم کے مطابق

ترتیب دی گئی ہیں۔

٤۔قرأت میں تحریف ،کسی لفظ کو جمہور مسلمین کے یہاں جس قرائت کے ساتھ رائج ہے اس کے خلاف پڑھنے کو قرأت کی تحریف کہا جاتا ہے ۔جیسے اکثر قرّاء اپنے اجتہاد اور نظریہ کی بنا پر قرائت کرتے ہیں جو جمہور مسلمین کی قرائت کے

خلاف ہے ۔

٥۔لہجے کی تحریف، اقوام و قبائل کے درمیان لہجے کا اختلاف بھی سبب بنتا ہے کہ تلاوت ہر قبیلہ کے یہاں مخصوص لہجے کے ساتھ ہوتی ہے اس کو لہجے کی تحریف کہتے

ہیں ۔

٦۔تحریف تبدیلی ،کسی ایک لفظ کو دوسرے لفظ میںتبدیل کرنا ،چاہے دونوں ہم معنی ٰ ہوںیا نہ ہوں ،ابن مسعود نے ایسی تحریف کو ہم معنیٰ (مترادف) الفاظ میںجائز سمجھا ہے ۔چنانچہ فرمایاہے :''لفظ ''علیم'' کی جگہ ''حکیم '' رکھا جا سکتا ہے ''۔

تیسرا مطلب

اجمالی اور تفصیلی تحریف

ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ تحریف کی دو قسمیں ہیں ۔تحریف یا تفصیلی ہے یا اجمالی ،ان دو قسموںمیں سے جو مورد بحث ہے وہ تحریف تفصیلی ہے ،یعنی کمی و بیشی جو معین طور پر واقع ہو جائے یہی مورد بحث اور محل اختلاف ہے ۔لیکن تحریف اجمالی یعنی اجمالی طور پر کوئی چیز کم یا زیادہ ہو وہ ہماری بحث سے خارج ہے ۔مثال کے طور پر قرائت کے بارے میں یا بسم اللہ کے بارے میں اختلاف ہے ،کیا بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن کی آیات میںسے ایک آیت ہے یا نہیں؟جس کو ہم پہلے بھی تحریف اجمالی کے نام سے یاد کیا ہے ہماری بحث سے خارج ہے ،کیونکہ وہ تحریف کہ جس میں جھگڑہ ہے چاہے کمی کی صورت میںہو یا اضافہ کی،دونوں صورتوں میں معیار اور ملاک یہ ہے کہ کلام الٰہی کی حقیقت بدلنے کا سبب نہیںبنے جیسے قرائت کا اختلاف کہ جس میں شک اور شبہہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ان قرآئتوںمیںسے کوئی ایک قرائت یقینا قرآن حقیقی کی قرائت ہے یا بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بارے میں کوئی شک و شبہہ نہیںہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ہر سورہ کے آغاز میں تلاوت فرماتے تھے ،لیکن مسلمانوں کا آپس میںاختلاف ہے کہ بسم اللہ قرآن اور سورہ کاجزء ہے یا نہیں۔ بعض مسلمانوںکا عقیدہ ہے کہ بسم اللہ اسی سورہ کا جزء اور حقیقی قرآن ہے جس

سورے کے آغاز میں بسم اللہ ہو۔لیکن دوسرے بعض مسلمانوں کانظریہ ہے کہ بسم اللہ اس کا جزء نہیںہے اس لئے کہ حقیقی قرآن نہیں ہے یہ دونوں گروہ میں سے ہر ایک اپنے نظریے کو واقع کے مطابق سمجھتا ہے اور اپنی بات کو حقیقت اور واقع کے خلاف ہونے کا احتمال تک نہیں دیتا ۔اور دونوں کا اجماع ہے کہ بسم اللہ کلام الٰہی

میں یقینا تھا اور کلام بشر اس میںداخل نہیں ہوا ہے اور اختلاف قرّاء کے مسئلہ میں

بھی یہی ہے۔

لہٰذا اسی بنا پر جن موارد میں تحریف اجمالی ہوئی ہے اگرچہ حقیقی کلام اور حقیقی قرائت کی تشخیص ایک مشکل امر ہے لیکن ہماری بحث سے خارج ہے ۔کیونکہ ہماری بحث ایسی تحریف کے بارے میں ہے کہ قرآن سے کسی چیز کو حذف کیا گیا

ہے یا قرآن میںکسی چیز کا اضافہ کیاگیا ہے ۔

چوتھا مطلب

تحریف کے قائل ہونے کے لئے خبر واحد کافی نہیں ہے

یعنی جس طرح قرآنی آیات کے اثبات کے لئے قطعی اور علمی دلیل کی ضرورت ہے اور صرف خبر واحد کے ذریعہ کسی آیت قرآنی کو ثابت نہیںکر سکتے اسی طرح جو لوگ تحریف کے قائل ہیں انہیںچاہیے کہ تحریف کے اثبات پر بھی قطعی دلیل اور علمی برہان پیش کریں یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ جب ہم خبر واحد اوراس جیسی دوسری ادلّہ ظنّیہ (یعنی وہ دلائل جو یقینی اور قطعی نہیں ہیں ) کو اعتقادی مسائل ثابت کرنے میںکافی نہیں سمجھتے ہیں تو قرآن سے متعلق مسائل کو بھی خبر واحد سے ثابت نہیںکر سکتے ۔کیونکہ قرآن ہمارے مدارک میںسے اہم ترین مدرک ہے ،اس کے کسی مسئلہ کی نفی یا اثبات کو خبر واحد کے ذریعہ ثابت کرنا

بہت بڑی غلطی ہے۔

لہٰذا مرحوم شیخ طوسی نے اپنی گرانبہا تفسیر ''تبیان '' کے مقدمہ اور تمہید میںفرمایا ہے کہ جتنی روایتیں تحریف پر دلالت کرتی ہیں وہ سب خبر واحد ہیں اور کیونکہ خبر واحد سے یقین اور علم حاصل نہیں ہوتا لہٰذا مسئلہ تحریف میںبھی ایسی روایتیں کفایت نہیںکرتی ہیں۔ مرحوم شیخ طوسی کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مسئلہ تحریف ان مسائل میں سے ہے کہ جس کے اثبات اور نفی کے لئے یقین اور علم

ضروری ہے صرف کسی حدیث یا روایت کا پایا جانا کافی نہیں ہے ۔

پانچواںمطلب

قرآن میں تحریف نہ ہونے پر علماء شیعہ کا نظریہ

امامیہ مذہب کے عظیم علماء اور محققین اس بات کے معتقد ہیںکہ قرآن مجید میں کوئی تحریف نہیںہوئی ہے ۔یعنی اس طرح کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو قرآن کریم آج ہمارے پاس موجود ہے یہ وہی قرآن ہے جسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قلب مطہر پر اتارا گیا تھا جس میںکسی قسم کی کمی بیشی واقع نہیں ہوئی ہے ۔یہاںہم علمائے امامیہ میںسے ان حضرات کے نظریے جو مذہب تشیع کے ستون سمجھے جاتے ہیںاختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیںکیونکہ انہیں حضرات کی کتابوںکو مذہب تشیع کے اعتقادی اور علمی مسائل کا مدار شمار کیا جاتا ہے لیکن ان حضرات کے نظریے کو ذکر کرنے سے پہلے دو مطالب کی طرف قارئین کی

توجہ کو مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔

ؒ الف:علوم قرآن سے متعلق لکھی گئی کچھ کتابوں میںقرآن میںتحریف ہونے والے نظریہ کو شیعہ امامیہ کے علماء میںسے جو اخباری ہیں ،اور اہل سنت میںسے جو حشویہ ہیں ،ان کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔غور طلب بات یہ ہے کہ اخباری علماء کے بعض بزرگوں نے جیسے جناب حر عاملی ؒ صاحب وسائل الشیعہ ،قرآن کریم میںتحریف نہ ہونے کے قائل ہیں ،اور اسی موضوع پر مستقل ایک کتابچہ تحریر فرمایا ہے ۔لہٰذا کسی کا

اخباری ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ تحریف کا قائل ہے

ب:اس میں شک نہیں کہ شیعہ امامیہ کے علماء قرآن میںتحریف یعنی کسی شی کا اضافہ نہ ہونے پر اجماع رکھتے ہیں ،لیکن تحریف یعنی قرآن میںکمی واقع ہونے کا مسئلہ اختلافی ہے ،اگرچہ اس میںبھی بعض علماء جیسے مرحوم مقدس بغدادی اپنی کتاب ''شرح وافیہ'' (١)میںمرحوم شیخ کاشف الغطاء اپنی گرانبہا کتاب کشف الغطاء میں

قرآن کریم میںکمی واقع نہ ہونے پر بھی تمام علماء امامیہ کا اتفاق و اجماع ہونے کا

دعویٰ کرتے ہیں۔

علمائے امامیہ کے عظیم علماء کے نظریات اس بارے میںیوں ہیں۔

١۔فضل ابن شاذان جو شیعہ امامیہ قرن سوم ہجری کے مصنفین میںسے ایک ہیں ، انہوں نے قرآن میںتحریف یعنی کمی واقع ہونے سے انکار اور اس نظریہ کے قائلین کو رد کرنے کے بعد ''کتاب ایضاح ''میںان روایات کو جو تحریف پر دلالت کرتی ہیںدوسرے مذاہب کی طرف نسبت دی ہے۔

٢۔جناب شیخ جعفر کے فرزند محمد بن علی ابن بابویہ قمی شیخ صدوق کے لقب سے معروف و مشہور ہیںاور جہاںتشیع میںچوتھی صدی کے عظیم اور نامور عالم ہیں،

انہوں نے اپنے ''رسالہ اعتقادات ''میںیوں تحریر فرمایا ہے :

'' قرآن کے بارے میںہمارا (شیعہ امامیہ عقیدہ یہ ہے کہ جو قرآن آج ہمارے

................................

١۔آلاء الرحمن بلاغی ص ٢٦

پاس موجود ہے ،ہو بہو وہی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوا تھا ،جس میں کوئی اضافہ یاکمی نہیں ہوئی ہے ۔ لہذا جو لوگ قرآن میں کمی واقع ہونے والے نظرئےے کو ہم سے منسوب کرتے ہیں جھوٹے ہیں ۔

جناب مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمہ جو علم حدیث اور علم تاریخ اوردیگر متعدد علوم میں ماہر اور عظیم علمائے امامیہ میں سے ایک ہیں ۔ وہ تحریف کے نظرئےے کو امامیہ مذہب سے منسوب کرنے کو جھوٹ اور بہتان سے تعبیر کرتے ہیں ۔

٣۔ جناب مرحوم علی ابن حسین موسوی نے جو سید مرتضی علم الہدیٰ کے لقب سے معروف ومشہور ہیں ، اورشیعہ امامیہ کے عظیم مجتہدین اور اصولی علماء میں سے ایک ہیں طرابلسیات کے سوالات کے جواب میں فرماتے ہیں :

'' جس طرح دنیا میں شہروں کے وجود اورعظیم واقعات وحادثات کے رونما ہونے پر یقین وعلم حاصل ہے اسی طرح قرآن کے ہم تک بغیر کسی کمی یابیشی کے پہنچنے پر بھی یقین وعلم حاصل ہے ۔ کیونکہ مسلمانوں نے مختلف عوامل اورانگیزوں کے ساتھ قرآن کریم کی حفاظت کی تھی یعنی قرآن کریم میں کسی قسم کی کمی یابیشی واقع ہونے نہ دینے کے لئے بڑا اہتمام کیاتھا اوران کی کوشش یہی رہی ہے کہ جو قرآن پیغمبر اسلام ؐ کے دور میں مخصوص نظم وضبط کے ساتھ ایک کتاب کی شکل میں جمع کیا گیا تھا وہی ہم تک پہنچا ہے جس پر واضح دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ نے ایک جماعت کو قرآن کی حفاظت کے لئے مقرر فرمایا تھا ، اورایک جماعت جیسے عبداللہ ابن مسعود اور ابیّ ابن کعب وغیرہ نے کئی دفعہ خود پیغمبر اسلام ؐ کے حضور میں پورے قرآن کریم کی تلاوت کی تھی ، جو حقیقت میں قرآن کی صحیح حفاظت ہونے یانہ ہونے کی تصدیق کروانا چاہتے تھے۔ لہذا مرحوم سید مرتضٰی نے اپنی گفتگو اوربحث کے آخر میں فرمایا کہ جو لوگ امامیہ مذہب سے منسلک ہیں ان میں سے چند نفر اور مذہب اہل سنت میں سے حشویہ اس نظریہ کے مخالف ہیں ۔ لیکن ان کے نظرئےے کاکوئی اعتبار نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے کچھ ضعیف روایات بیان کی ہیں اور انہوں نے گمان کیا ہے کہ یہ روایات صحیح ہیں ۔(١ )

٤۔ مرحوم شیخ طوسی جو شیخ الطائفہ کے لقب سے مشہور ہیں اورابو جعفر محمدبن حسن کے نام سے موسوم ہیں اس بارے میں فرماتے ہیں :

'' قرآن کریم میں کمی وبیشی واقع ہونے کا تصور کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم میں کسی چیز کے اضافہ نہ ہونے پر اجماع ہے جبکہ قرآن سے کسی چیز کے حذف یاکم ہونے کو سارے مسلمان غلط اورباطل سمجھتے ہیں اور امامیہ مذہب سے منسلک علماء کاصحیح نظریہ بھی یہی ہے ۔ یہ وہ نظریہ ہے جس پربہت ساری صحیح السند روایات کی دلالت موجود ہے ، لہذا جو روایات اہل تشیع اوراہل سنت کے طریق سے نقل کی گئی ہوں ، اور وہ آیات میںسے بعض کے حذف یاکم ہونے پر

.................................

١۔مجمع البیان ،ج١،ص١٥

دلالت کرتی ہوں وہ خبرواحد ہیں جن سے علم ویقین حاصل نہیں ہوتاہے لہذا ان کو نظر انداز کرنا چاہئےے ۔( ١ )

٥۔فضل ابن حسن طبرسی جن کی کنیت ابوعلی ہے اورعظیم مفسر قرآن ، صاحب مجمع البیان ہیں ، انہوں نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں یوں لکھا ہے :

'' قرآن میں کسی آیت کے اضافہ ہونے کا عقیدہ رکھنا غلط اورباطل ہونے پر امامیہ مذہب کا اجماع ہے اگرچہ کم اورحذف ہونے کے قائل علمائے امامیہ میں سے بعض اخباری علماء اورسنی مذہب میں حشویہ کی طرف نسبت دی گئی ہے لیکن اکثر علمائے امامیہ کے نزدیک یہ نظریہ صحیح نہیں ہے ۔''(٢ )

٦۔ مرحوم سید ابن طاؤوس نے فرمایاہے :

'' مذہب امامیہ قرآن میں تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں۔ ( ٣)ایک اور جگہ فرمایاکہ مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ جو قرآن آج ہمارے پاس موجود ہے وہی قرآن ہے جو پیغمبراکرم (ص) پرنازل ہواہے اور پیغمبر اکرم (ص) نے ہی اس کو جمع کرنے کا حکم دیا ، اس کے باوجود آیات میں اہل مدینہ اور مکہ

.............................

١۔مقدمہ تفسیر تبیان

٢۔ مجمع البیان ١/١٥۔

٣۔سعد السعود ،ص١٤٤

یااہل کوفہ وبصرہ کے مابین اختلاف ہونے کو نقل کرکے آخر میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن اور سورہ کاجزء نہیں ہے ۔ یہ بہت ہی تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف سے قرآن میں کسی قسم کی کمی وبیشی نہ ہونے کے قائل ہیں کہ جس کی تائید دلیل عقلی اورنقلی بھی کرتی ہیں اس کے باوجود بسم اللہ کو قرآن کی آیات میں سے ایک آیت اور سورہ کاجز نہ ہونے کو کیسے قبول کرسکتے ہیں ؟ (١ )

٧۔ جناب ملامحسن جو فیض کاشانی کے لقب سے مشہور ہیں فرماتے ہیں :

'' جوروایات قرآن میں تحریف ہونے پر دلالت کرتی ہیں وہ کتاب الہٰی کے مخالف ہیں لہذا ان کو ردکرنا چاہئےے یااس کی توجیہ اور تفسیر اس طرح کریں کتاب الہٰی کے مخالف نہ ہو۔(٢ )

٨۔ جناب مرحوم محمد بہاء الدین عاملی جو شیخ بہائی کے لقب سے معروف ہیں یوں فرماتے ہیں :

'' صحیح اور درست نظریہ یہ ہے کہ قرآن کریم ہر قسم کی کمی اوربیشی سے محفوظ ہے یعنی قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی ہے اورجو چیز لوگوں کے

مابین مشہورہے وہ علمائے امامیہ کی نظر میں صحیح نہیں ہے یعنی لوگوں کے درمیان

...............................

١۔ سعدا لسعود ص ١٩٣

٢۔تفسیر صافی ، ج١ص٥١

مشہور ہے کہ کچھ آیات میں حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کانام آیا تھا اس کو حذف کردیا گیا ہے ، مثال کے طور پر آیت '' یاایھا الرسول بلغ...'' کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آیت یوں تھی '' یاایھا الرسول بلغ ماانزل الیک فی علی ... میں سے حضرت علی علیہ السلام کانام تھا اسے حذف کیا گیا ہے ۔ ایسا عقیدہ علمائے امامیہ کے نزدیک غلط ہے کیونکہ قرآن تحریف سے محفوظ ہے ۔''(١ )

٩۔ شیخ محمد ابن حسن حرعاملی جو ہماری کتب احادیث میں سے اہم کتاب وسائل الشیعہ کے مصنف ہیں ایک کتابچہ میں قرآن کریم میں تحریف نہ ہونے کو ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

'' جو لوگ تاریخ اورائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول روایات کی تحقیق کریں توانہیں یقین اور علم حاصل ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم ہم تک انتہائی تواتر کے ساتھ اور ہزاروں اصحاب سے نقل ہوتے ہوئے پہنچا ہے ۔ اوراسی سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم کی پیغمبر ؐ کے دور میں ہی ایک کتاب کی شکل میں تدوین کی گئی تھی ۔'' (٢ )

...........................

١۔الاء الرحمن ، ص٢٦

٢۔اظہار الحق ،ج٢ص١٢٩

١٠۔جناب شیخ جعفر کاشف الغطا جو امامیہ مذہب کے ایسے مجتہدین میں سے جن کی مثال بہت کم ملتی ہے ، اپنی گرانبہا کتاب '' کشف الغطاء '' میں فرماتے ہیں :

'' قرآن کریم میں کسی چیز کے اضافہ نہ ہونے پر سارے مسلمانوں کااجماع ہے اوریہ نظریہ ایسا ہے جو ہرمذہب اور دین کی ضرورت کاتقاضا ہونے کے ساتھ خود قرآن کی صراحت اور علماء کااجماع بھی ہے ۔ یعنی قرآن ہر زمانے میں کمی وبیشی سے محفوظ اور مصون ہے لیکن ایک چھوٹے گروہ نے اس نظرئےے کے مخالف ہے جن کے قول کا کوئی اعتبار نہیں۔( ١ )

ہم نے نمونہ کے طور پر جو کہ شیعہ علمائے کرام چاہے اصولی علماء ہوں یااخباری کے نظریات ذکر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان تمام سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن میں تحریف ہونے کا نظریہ غلط اوربے بنیاد ہے جس کا باطل ہونا بھی واضح ہے ۔ اوربہت ہی کم تعداد پر مشتمل ایک گروہ نے کچھ روایات کو جوضعیف السند ہونے کے علاوہ خبر واحدبھی ہیںکواپنی کتابوں میں ذکر کرکے تحریف قرآن کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اوریہ نظریہ علمائے امامیہ کی نظر میں قابل اعتماد نہیں ہے ، لہذا قرآن میں تحریف کا نظریہ علمائے امامیہ کی طرف کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے ؟ کیا ایسی نسبت واضح بہتان اورجھوٹ نہیں ہے ؟ کہ جس کی حرمت سارے

...............................

١۔کشف الغطاء ، ص٢٩٩۔

مسلمانوں کے یہاں مسلم ہے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس فرقے کے تمام مسائل اعتقادی اور تمام افکار وتصورات کا سرچشمہ قرآن کریم ہو لوگ ان کو قرآن کریم میں تحریف کے قائل قرار دیں ؟

چھٹا مطلب

قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتب میں فرق

آج کل کے اہم ترین سوالات میں سے یہ ہے کہ قرآن اوردیگر آسمانی کتابوں میں کیا فرق ہے ؟۔ کیونکہ شیعہ امامیہ قرآن میں تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں جبکہ دوسری تمام آسمانی کتابوں میں تحریف ہونے پر اجماع ہے ۔ لہذا جو لوگ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں انہیں میں سے بعض نے تحریف پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ گذشتہ ساری کتب آسمانی میں تحریف ہوئی ہے ، قرآن بھی آسمانی کتابوں میں سے ایک ہے اس میں بھی تحریف واقع ہوئی ہے کیونکہ بہت ساری روایات جو سنی اور شیعہ دونوں کے یہاں متواترہسمجھی جاتی ہیں وارد ہوئی ہیں جو حادثہ اور واقعہ سابقہ امتوں میں رونما ہواہے ایسا حادثہ اس امت میں بھی رونما ہوگا، چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :

'' کل ماکان فی الامم السالفۃ فانّہ یکون فی ہذہ الامۃ مثلہ حذوا النعل بالنعل والقَذّۃ بالقَذّۃ''. (١)، یعنی جوبھی حادثہ سابقہ امتوں میں رونما ہوا ہے ہوبہو اس امت میں بھی رونما ہوگا۔اس روایت کی رو سے ضروری ہے کہ قرآن میں بھی تحریف واقع ہوجائے ۔

............................

١۔ بحار الانوار باب افتراق الامۃ بعد النبی (ص) ، ج٨ ، ص ٤۔

لیکن ہم اس قسم کی روایات اور جو لوگ تحریف قرآن کی اشتباہ میں مبتلاء ہیںکاجواب بعد میں دینگے ( ١) مگرجو مطلب یہاں پیش کرنا ضروری ہے اورجس کی تلاش میں ہم ہیں وہ قرآن اور دیگر کتب آسمانی کے مابین فرق کی وضاحت کرنا ہے اس کے بارے میں بعض محققین نے یوں کہاہے :

'' سابقہ آسمانی کتب میں جوتحریف واقع ہوئی ہے اس سے مراد تحریف معنوی یاتفسیر بالرائے ہے کہ جس کے وقوع اورثبوت پر قرآن کریم صریحاً دلالت کرتا ہے ۔ لیکن وہ تحریف جس سے کمی بیشی مراد لی جاتی ہے اس کاکتب سابقہ میں ہونے پر قرآن مجید میں کوئی اشارہ نہیں ملتا ، اورعلماء کی عبارات اور روایات میں بھی کوئی قرینہ اور شاہد نہیں پایا جاتا۔ ( ٢)بلکہ ایسی تحریف سے تورات یاانجیل اور دیگر کتب آسمانی ان کے علماء کے یہاں محفوظ ہونے کو قرآن صراحتاً بیان کرتا ہے ، چنانچہ ارشاد ہوتاہے :

'' ولو انّہم اقامو التورٰۃ والانجیل وماانزل الیہم من ربہم لاکلوا من فوقہم ومن تحت ارجلہم ...''

اوراگر وہ لوگ تورات اورانجیل اورجو صحیفے ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف

................................

١۔ البیان ، ص٢٢١۔

٢۔صیانۃ القرآن علی التحریف ، ص٩٤

سے نازل کئے گئے تھے ان کے احکام پر قائم رہتے تو ضروران کے پروردگار کی طرف سے ان پر اوپر سے رزق برس پڑتا اورپاؤں کے نیچے سے بھی ابل آتا۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے ابدی معجزہ بن کر آیا ہے اس لئے ضروری ہے ہرقسم کی تحریف اورکمی وبیشی اورتبدیلی وغیرہ سے محفوظ رہے ، جبکہ دوسری آسمانی کتب اللہ کی طرف سے ابدی معجزہ کے طور پر نہیں آئی ہےں۔

ساتواں مطلب

قرآن کے مراحل اور درجات

اہم نکات میں سے ایک یہ ہے کہ کس قرآن یا دوسرے لفظوںمیںموجودہ قرآن کے کس مرحلے نزاع و اختلاف ہے؟ جیسا کہ واضح ہے اور خود قرآن کریم سے بھی استفادہ ہوتا ہے کہ اس مقدس کتاب کے کئی ایک مراحل اور درجات ہیں۔

پہلا مرحلہ : لوح محفوظ ہے ، کہ اس مرحلہ میں واضح اور روشن ہے کہ قرآن قابل تحریف نہیں ہے اس مرحلہ میں کسی بشر اورانسان کی رسائی ممکن نہیںبلکہ قرآن کریم اللہ کے ہاںہرقسم کی آفت اور آسیب سے محفوظ ہے ۔

دوسرا مرحلہ : جبرئیل کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہونا ، اس مرحلہ میں بھی قرآن میں تحریف کا تصور نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جبرئیل اللہ کے فرشتوں میں سے ایک مقرب فرشتہ ہے جو عصمت کامالک ہے اورہر قسم کی خطااور اشتباہ وغیرہ سے پاک وپاکیزہ ہے ۔

تیسرا مرحلہ : قرآن کریم کاپیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ سے لوگوں تک پہنچنا یعنی جس قرآن کریم کو جبرئیل نے قلب مطہر رسول اسلام (ص) پر نازل کیا تھا پیغمبر اسلام (ص) نے بغیر کسی کمی وبیشی کے لوگوں تک پہنچایا۔ واضح ہے کہ اس مرحلہ میںبھی کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے کیونکہ قرآن خود پیغمبر اسلام کے زمانے میں ایک کتاب کی شکل میں جمع کیا جا چکا تھا اوربہت سارے اصحاب کرام حافظ قرآن تھے اور انہوںنے ہی آنے والے لوگوں کے لئے سینہ بہ سینہ اسی قرآن کوتواتر کی شکل میں منتقل کیا ہے ۔

چوتھا مرحلہ : جس قرآن کا تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچنے کا دعوا کرتے ہیں یادوسرے لفظوں میں جو قرآن آج ایک کتاب کی شکل میں مخطوط یا مطبوعہ موجود ہے وہ قرآن کے نام سے اللہ کی طرف سے نازل شدہ ایک حقیقت ہے اوربدیہی ہے کہاس میں تحریف یعنی قرأت کی اختلاف وغیرہ کے بارے میں اختلاف رائے ہے ، ایسی تحریف قرآن مجید کے مراحل میں سے چوتھے مرحلہ میں قابل تصور اورممکن ہے ، نیز تحریف یعنی کمی وبیشی کاامکان اور تصور بھی اس مرحلہ میں ناممکن نہیںہے۔ اور جس قرآن کے تحریف ہونے یانہ ہونے کے بارے میں اختلاف اور جھگڑا ہے وہ ایک حقیقت ہے جو وحی منزل اورکلام حق کی صورت میں ہم تک تواتر کے ساتھ پہنچا ہے جس کی حفاظت کے بارے میں خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایاہے :

'' وانّا لہ لحافظون '' اورہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ یہاں کلمہ '' لہ'' کی ضمیر''نازل شدہ ''کی طرف لوٹتی ہے جوقرآن اور ایک حقیقت ہونے کوبیان کرتی ہے ۔ جبکہ قرآنوں کا تصور تحریف کو بیان کرتا ہے اور اس میںشک نہیںکہ متعدد ہونے کی صورت میںان میںتحریف کا امکان ہے۔

اس بیان کی روشنی میںبعض محدثین ( ١)نے کہا ہے کہ قرآن کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنی کتاب کا محافظ ہے اس سے مراد نزول کا مرحلہ ہے جس طرح لوح محفوظ کے مرحلہ میں قرآن ہر آفت اورآسیب وتحریف سے محفوظ ہے اسی طرح اس مرحلہ ( مرحلہ نزول) میں بھی اللہ اس کامحافظ ہے ، نہ یہ کہ اللہ تدوین شدہ قرآن اور صحف کامحافظ ہے ۔

یہ ایک باطل توجیہ ہے کیونکہ اس توجیہ پر کوئی دلیل اور شاہد موجود نہیں ہے بلکہ قرآن معجزہ ہونے کے حوالے سے اس کی نفی کرتا ہے ، چونکہ جس مرحلہ میں تحریف اورکمی وبیشی عقل کی رو سے ممکن نہیں ہے اس میں اللہ کی طرف سے قرآن کی حفاظت کرنا اعجاز نہیں کہلاتا ہے ۔

...........................

١۔فصل الخطاب ،ص٣٦٠

آٹھواں مطلب

عقل کی رو سے تحریف کا امکان اورعملی طور پر واقع نہ ہونا

آیہ شریفہ '' حفظ'' سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم میں تحریف عقلی اعتبار سے محال نہیں ہے لیکن اللہ نے ہی قرآن کو اس کے امکان اور تصور سے بچانے کا وعدہ فرمایا ہے کیونکہ اگر عقل کی روشنی میں تحریف بالکل محال اور ناممکن ہوتی تو اللہ کے محافظ ہونے کا تصور ہی غلط ہوجاتا ۔ لہذا قرآن میں تحریف کا ہونا عقلاً ممکن ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس امکان محض سے بچانے کا قطعی وعدہ کیا ہے اس لئے عملی طور پر قرآن کریم ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے اور خداوند عالم نے قرآن میںتحریف کے وقوعی اور عملی امکان کو بھی رد کیا ہے۔

نواں مطلب

کیا قرآن میں تحریف نہ ہونے پر قرآن سے دلیل لانے سے دور لازم آتا ہے ؟

بہت سارے بزرگ علماء نے قرآن میں تحریف نہ ہونے پر آیات قرآن سے استدلال کیا ہے ؛ لیکن ہم یہاں جس چیز پر تحقیق کریں گے یہ ہے کہ کیا نظریہ تحریف کو غلط اورباطل قرار دینے کے لئے آیات قرآن سے استدلال کرنے سے دور لازم نہیں آتا (جوعقلاًمحال ہے) بعض کا نظریہ ہے کہ تحریف کے نہ ہونے پر آیات سے استدلال کرنا'' دور '' ہے جس کے لئے انہوں نے دو قسم کے استدلال بیان کیا ہے۔

١۔ پہلی دلیل: کتاب میںتحریف کا نہ ہونا ان آیات کے حجت ہونے پر موقوف ہے جبکہ ان آیات کی حجیت تحریف نہ ہونے پر موقوف اس بنا پر تحریف کا نہ ہونا خود تحریف نہ ہونے پر موقوف ہے جو دور ہے۔

٢۔ دوسری دلیل: یہ ہے کہ نفی تحریف پرجن آیات سے استدلال کیا ہے ان کی حجیت قرآن میں تحریف نہ ہونے پر مبنی اورموقوف ہے جب کہ دوسری طرف سے نفی تحریف خود ان آیات کی حجیت پر موقوف ہے نتیجتاً آیات کریمہ کی حجیت خود آیات کی حجیت پر موقوف ہے یہ ایسا ناممکن کام ہے کہ جس کو علیت میں دور سے تعبیر کیا جاتا ہے جو محال ہے ۔اس شبہہ اور اعتراض کے کئی جوابات دئے گئے ہیں ۔ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں۔

پہلا جواب :

مرحوم محقق خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی گرانبہا کتاب البیان میں اس کا جواب یوں دیا ہے :

'' جولوگ ائمہ معصومین علیہم السلام کی خلافت اور ولایت کو قبول نہیں کرتے وہ اس شبہہ اور اعتراض کاجواب دینے سے عاجز ہیں لیکن جو لوگ ان بزرگواروں کی خلافت اورولایت کے معتقدہیں اوران حضرات کو قرآن کریم کے واقعی اور حقیقی مفسر اور قرآن کے قرین سمجھتے ہیں وہ ایسے شبہہ کا جواب بہت ہی آسان طریقہ سے دے سکتے ہیں ، کیونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے موجودہ قرآن کی آیات سے استدلال کیا ہے اور اصحاب کرام نے جن آیات سے استدلال کیا تھا ان کی تائید اور تصدیق فرمائی ہے ۔ پس اگرچہ قرآن کی تحریف ہوئی ہو پھر بھی اس کی حجیت باقی ہے کیونکہ جہاں کہیں ائمہ معصومین علیہم السلام نے آیات سے استدلال کیا ہے ان کی حجیت ثابت اور واجب العمل ہے ، اور ان سے ہم بھی تمسک کرسکتے ہیں ۔

لیکن یہ جواب اشکال سے خالی نہیں کیونکہ اول آپ کایہ جواب ان کے لئے ہے جو اہل بیت عصمت علیہم السلام کے معتقد اور شیعہ امامیہ ہوں لیکن ایسے اعتراض کے لئے اس طرح کا جواب دینا صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا جواب در کار ہے جوسب کے لئے قابل قبول اور مفید ہو۔

دوسرایہ کہ: یہ جواب دینا در حقیقت شبہہ اور اشکال کو قبول کرنا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس بنا پر تحریف کی نفی پر دلالت کرنے والی آیات سے ہم عدم تحریف کو ثابت نہیں کرسکتے بلکہ نفی تحریف پر ہم نے آیات قرآنی اور معصومین علیہم السلام کی تائیدکوایک دوسرے کے ساتھ ضمیمہ کرکے استدلال کیاہے اس طرح استدلال کرنا اور جواب دینا مدعاکے خلاف ہونے کے ساتھ حدیث ثقلین کے ظاہرکے بھی خلاف ہے جس سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ قرآن کریم '' ثقل اکبر''کی حیثیت سے کسی چیز کے ضمیمہ کئے بغیر خود ایک مستقل دلیل اور حجت ہے ۔

دوسرا جواب

جولوگ قرآن میں تحریف کے دعویدار ہیں وہ تحریف کے دائرہ کو محدود سمجھتے ہیں یعنی تحریف صرف ان آیات میں واقع ہوئی ہے جن کی طرف کچھ روایات میں اشارہ کیا گیا ہے لیکن جن آیات سے تحریف نہ ہونے پر استدلال کیا جارہا ہے وہ ان تحریف شدہ آیات میں سے نہیں ہیںدوسرے الفاظ میںتحریف کے دعویدار ان آیات میں تحریف نہ ہونے پر اعتقاد رکھتے ہیں ، لہذا ان سے استدلال کرنے سے دور لازم نہیں آتا ۔

یہ جواب بھی اشکال اور اعتراض سے خالی نہیں ہے کیونکہ تحریف کے بارے میں دو نظرئےے پائے جاتے ہیں :

پہلا نظریہ :یہ ہے کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق چند معین موارد میں آیات کریمہ میں تحریف واقع ہوئی ہے اس نظرئےے کے مطابق جواب درست ہے ۔

دوسرانظریہ : یہ ہے کہ کچھ لوگ قرآن میں تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں قطع نظر اس کے کہ روایات کی روشنی میں تحریف کے قائل ہون اور علم اجمالی جس کا دائرہ وسیع ہے جن آیات سے عدم تحریف پر استدلال کیا گیا ہے وہ بھی اس میں شامل ہوسکتی ہیں ، لہذا اس نظریہ کی بنا پر یہ دوسرا جواب صحیح نہیں ہے۔

تیسرا جواب :

بعض محققین اس اعتراض کاجواب یوں دیتے ہیں :

'' جن آیات سے قرآن میں تحریف نہ ہونے پر استدلال ہوا ہے ان میں تحریف نہ ہونے پر اجماع قائم ہے ''۔(١ )

مگریہ جواب بھی بحث طلب ہے کیونکہ جو لوگ قرآن میں تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں اس میں وہ آیات بھی شامل ہیں کہ جن سے نفی تحریف اور عدم تحریف پر استدلال کرچکے ہیں یادوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ وہ آیات

اجماع کے اندر داخل نہیں ہوسکتیں ورنہ ان کے نظریے کی موجودگی میں اس کالازمہ

...............................

١۔اکذوبۃ تحریف القرآن ،ص٤۔

اس کا عدم ہے جومحال ہے ۔

چوتھا جواب :

ہمارے والد گرامی محقق فقیہ معظم (آیۃ اللہ العظمی فاضل لنکرانی) نے اس مشکل کو یوں حل فرمایاہے (١ )کہ جن آیات سے قرآن میں تحریف نہ ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ان کے بارے میں یہ دیکھنا چاہئےے کہ ہم آیات سے کن کے مقابلے میں استدلال کررہے ہیں ، اگرہم آیات سے ان لوگوں کے مقابل میں استدلال کررہے ہیں جو قرآن میں تحریف کے قائل ہیں جس پر روایات دلالت کرنے کے دعویدار ہیں اس صورت میں آیات سے عدم تحریف استدلال کرنے کا لازمہ دور نہیں ہے کیونکہ ایسی آیات یقینا تحریف کے موضوع سے خارج ہیں ۔

لیکن اگر ہم آیات سے ان لوگوں کے مقابلے میں استدلال کررہے ہیں جو قرآن میں تحریف کے قائل ہیں اور اس کی دلیل علم اجمالی سمجھتے ہیں تو اس کے دو مفروضے ہیں :

پہلا مفروضہ: یہ ہے کہ تحریف کا قائل ظواہر کتاب کوحجت مانتاہے چاہے تحریف شدہ ہو ایسی صورت میں دو ر کا اشکال نہیں ہوسکتا کیونکہ آیات اپنی ظاہری حجیت پر باقی ہیں اور تحریف کی مذکورہ قسم ظاہری حجت کے لئے کوئی مانع نہیں اس کانتیجہ یہ ہے

.............................

١۔مدخل التفسیر ، ص٢٠٢

کہ آیات سے استدلال کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ۔

دوسرا مفروضہ: یہ ہے کہ تحریف کا قائل تحریف کو کتاب کی ظاہر حجیت کے لئے مانع جانتا ہے اس صورت میں یاعلم اجمالی کے ذریعے کتاب میں تحریف کو واقع سمجھتا ہے یا اجمالی یقین کا مسئلہ نہ ہو بلکہ تحریف کا احتمال پیدا ہوجائے تو پہلی صورت میںآیات سے استدلال نہیںکیا جاسکتا چاہے تحریف کے مفروضے میں حجیت پر باقی کیوں نہ ہو ۔ کیونکہ علم اصول میں یہ ثابت ہے کہ ایسے ظواہر جو شرعی نشانیوں کی وجہ سے ظنی ہیں وہ اس صورت میں معتبر ہیں کہ اس کے خلاف یقین نہ ہو ۔ اس بنا پر ایسے مفروضے کی صورت میں آیات شریفہ قابل استدلال نہیں رہتی دوسری صورت یعنی یقین کے بغیر صرف احتمال تحریف آیات کی حجیت کے لئے مانع نہیں ہوسکتی اور آیات کے ذریعے استدلال کرنا اشکال سے خالی ہے ۔

اس جواب میں بھی تحریف کے علم اجمالی کی صورت میں آیات سے استدلال کرنا کمزوری ہے۔

پانچواں جواب

جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے یہ ہے کہ جس طرح دیگر حوادث کچھ علل واسباب کا نتیجہ ہوتے ہیں اسی طرح تحریف بھی بغیر علت اور سبب کے نہیں ہوسکتی ہے ۔ چونکہ تحریف قرآن کے اسباب وعوامل بہت زیادہ ہیں لہذا اگران آیات میں تحریف ہوتی کہ جن سے عدم تحریف پر استدلال کرتے ہیں تو اس طرح تحریف واقع ہونی چاہئیے کہ ان میں کمی اور نقص واقع ہوجائے کہ پھر ان سے عدم تحریف پر استدلال کرنا ساقط ہوجائے مثال کے طور پر آیت'' حفظ '' وانا لہ لحافظون '' کے جملے یاکم از کم کلمہ '' لہ'' جو کہ قرآن میں تحریف نہ ہونے پر واضح دلیل ہے ، کو حذف کردینا چاہئیے تھا جبکہ ایسے جملے اور الفاظ آیات میں موجود ہیں جس سے ہمیں قرآن میں تحریف نہ ہونے کایقین یاکم از کم اطمینان حاصل ہوتا ہے اور ایسے موارد میں جہاں قرآن کی کسی اور آیت یاجملہ میں تحریف ہونے کا علم اجمالی ہو جیسے کہ ان آیات میں ہم عمومی یقین اس کے برخلاف رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں ایسے موارد علم اجمالی کے دائرے سے خارج ہوتے ہیں ۔

دسواں مطل

تحریف کے بارے میں دو دعوے

گذشتہ مطالب سے بخوبی روشن ہوا کہ تحریف کے بارے میں دو دعوے پائے جاتے ہیں :

پہلا : کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ تحریف کا دائرہ محدود ہے یعنی تحریف صرف ان آیات میں ہوئی ہے کہ جن کے بارے میں روایات وارد ہوئی ہیں لہذا جن آیات کے بارے میں روایات وارد نہیں ہوئی ہیں وہ ہر قسم کی تحریف ، تبدیلی اورکمی وبیشی سے محفوظ ہیں۔ جس کو ثابت کرنے کے لئے انہوں نے ظواہر کتاب سے استدلال کیا ہے عام طور پر یہ دعویٰ وہ لوگ کرتے ہیں جوتحریف قرآن میںان روایات کو سند کے طور پر پیش کرتے ہیںجو بعض حدیث کی کتب میںموجود ہیں۔

دوسرا : کچھ لوگ قرآن میں اجمالی طور پر تحریف واقع ہونے کے معتقد ہیں دوسرے الفاظ میںیہ لوگ قرآن میں تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں ۔ جولوگ اس نظرئےے کے قائل ہیں انہوں نے تحریف کے سلسلے میں دلیل اور سند کے طور پر دلیل اعتبار اور اس کی مثالیںپیش کی ہیں۔(١ )

............................

١۔اس دلیل کی وضاحت کے لئے مراجعہ کریں ، مدخل التفسیر ،ص٢٩٢

گیارہواں مطلب

تحریف نہ ہونے پر عقلی اور عقلائی دلیل کا تجزیہ

بعض صاحب نظر افراد کی عبارات سے استفادہ ہوتا ہے کہ تحریف کے بطلان پر انہوں نے عقلی دلیل اور سیرت عقلاء سے تمسک کیا ہے ، مرحوم سیدابن طاؤوس نے کتاب سعد السعود میں صراحت کی ہے کہ قرآن میں تحریف نہ ہونے پردلیل عقلی ہے جبکہ دوسرے بعض محققین اس مسئلہ پر سیرت عقلاء (١)سے استدلال کرتے ہیں۔

دلیل عقلی کی وضاحت

عقلی دلیل کو بیان کرنے کے دوصورتیںہیں : پہلا بیان : جناب مرحوم خوئی (رح) (٢) کی عبارات میں عقلی دلیل کو ایک غیر مستقل دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے۔ اس کا خلاصہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں ۔ تحریف کا احتمال تین صورتوں سے خالی نہیں ، کسی پہلی صورت چوتھی صورت کا تصور عقل کی رو سے محال اور نا ممکن ہے قرآن کی تحریف عثمان کے دور خلافت سے پہلے جناب ابوبکر اورعمر کے دور میں ان کے ہاتھوں ہوئی ہو ، یہ صورت یقینا باطل ہے

..........................

١۔ گفتار آسان درنفی تحریف

٢۔ البیان صفحہ ٢١٥

کیونکہ یہ صورت تین احتمالات میں سے کسی ایک سے خالی نہیں :

پہلا احتمال : تحریف جوہوئی ہے وہ لاشعوری تھی یعنی حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد جناب ابو بکر اورجناب عمر نے قرآن کی جمع آوری کاکام شروع کیا ، لیکن پورے قرآن پر احاطہ نہ ہونے کی وجہ سے یاپورے قرآن کریم کے دستیاب نہ ہونے کی بنا پر کچھ آیات یاجملے رہ گئے ہیں جس کا نتیجہ تحریف قرآن کی صورت میں نکلا۔

دوسرا احتمال : قرآن میں تحریف اور تبدیلی ان کی طرف سے جان بوجھ کر واقع ہوئی ہے اوروہ بھی ایسی آیات میں جوان کی حکومت اورخلافت کے لئے کوئی ٹکراؤ یاضرر پہنچانے کا باعث نہیںتھیں۔

تیسرا احتمال : تحریف عمداً اور جان بوجھ کرواقع کی گئی ہے اوروہ بھی ان آیات میں جوان کی حکومت اورخلافت کے ساتھ ٹکراتی تھیں ۔ چنانچہ تحریف کے قائلین میں سے بعض اسی احتمال پر بھروسہ کرتے ہیں ۔

لیکن یہ تینوں احتمالات غلط اورباطل ہیں کیونکہ ان تینوںمیں سے پہلا احتمال دو صورتوں سے باطل ہے ۔

١۔ یہ بات مسلمانوں کے یہاں مسلم اوربدیہی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے رحلت سے پہلے قرآن کی حفاظت اس کی قرائت اور ترتیل قرآن کے ساتھ تلاوت کرنے کا مخصوص اہتمام فرمایاتھا اورصحابہ کرام نے بھی اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہتمام کے ساتھ انجام دیا لہذا یقینی ہے کہ قرآن کریم ان دونوں کے دور میں ہرقسم کے نقص اور زیادتی سے محفوظ تھا۔ اگرچہ قرآن کی جمع آوری دونوں کے دور میں ہوئی تھی یاجمع آوری کے بغیر متفرق شکل میں مکمل طور پر موجود تھا یالوگوں کے سینوں یاکاغذوں پر کسی قسم کی کمی وبیشی کے بغیر موجود تھا ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں عرب جاہلیت کے اشعار کو یاد اورحفظ کرنے کو اتنی اہمیت دیں لیکن پیغمبر اکرم (ص) اور قرآن کے معتقد ہونے کے باوجود اس کی حفاظت نہ کریں!۔

٢۔ حدیث ثقلین سے بھی اس احتمال کاغلط اور باطل ہونا واضح ہے کیونکہ اس حدیث کامضمون یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے لوگوں کواپنے زمانے میں ہی کتاب الہیٰ سے تمسک کرنے کا حکم دیا ہے اگر فرض کریں کہ چند آیات ان سے ضائع ہوگئی ہوں تو اس کتاب مدوّن اور آیات کے مجموعہ سے تمسک ممکن نہیں رہتا۔

دوسرا احتمال بھی غلط اورباطل ہے کیونکہ جہاں تحریف عمدی ہوتو وہ بغیر سبب اورانگیزہ کے نہیں ہوسکتی ، اگرتحریف ان آیات میں جان بوجھ کرکی گئی ہو جن سے جناب ابوبکر اور عمر کی حکومت اور خلافت کے لئے کوئی ضرر نہیں پہنچتا تھا تو ایسی آیات میں تحریف کرنے کا سبب کیاہے ؟ لہذا یہ احتمال بھی صحیح نہیں ہے ۔ نیز تیسرا احتمال بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر اس طرح تحریف ہوتی تو دوسرے لوگ جو ابوبکر اور عمر کی حکومت اور خلافت کے مخالف ہیں جن میں سرفہرست حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور حضرت صدیقہ ئ زہرا سلام اللہ علیہا اور دیگر بارہ افراد جو انصار ومہاجرین کے تھے اس مسئلہ کو ابوبکر اورعمر کی خامیوں اوران پر ہونے والے اعتراضات میں ذکر کرتے ، ان کے خلاف کے گئے احتجاجات میں اس کاتذکرہ ہوتا جبکہ ان کے کلمات اور احتجاجات میں ایسانظر نہیں آتا، لہذا اس بحث کانتیجہ یہ ہے کہ ابوبکر اور عمر کے دور خلافت میں تحریف ہونے کا قائل ہونا مردود اور باطل ہے ۔

دوسری صورت

عثمان کے دور خلافت میں تحریف ہوئی ہے ، یہ نظریہ گذشتہ نظریے کی نسبت بہت زیادہ ضعیف اور کمزورہے کیونکہ :

١۔ عثمان کے دور میں اسلام کی نشر واشاعت اس قدر ہوئی تھی کہ کسی کو قرآن کی کسی آیت کو مٹانا یاکسی آیت کااضافہ کرنا ممکن نہیں تھا ۔

٢۔ اگرعثمان کے دور میں تحریف ان آیات میں ہوئی ہو جو اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی ولایت اور خلافت سے مربوط نہیں ہیں تو ان میں تحریف کرنے کاسبب اورہدف قابل تصور نہیں ہے ، نیز ولایت ائمہ علیہم السلام سے متعلق آیات میںبھی ان کے زمانے میں تحریف نہ ہونے کایقین ہے ، کیونکہ اگر قرآن کی کوئی آیت صریحاً حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی خلافت اور ولایت ثابت کرنے کے لئے ہوتی تو وہ آیت لوگوں میں شائع ہوتی اور عثمان تک خلافت نہ پہنچتی ۔

٣۔ اگر عثمان قرآن میں تحریف کرتا تو عثمان کے مخالفین کے لئے یہ مسئلہ ان کے خلاف قیام کرنے کا بہترین بہانہ اور عذر تھا جبکہ ان کی طرف سے کوئی ایسی چیز احتجاج کی شکل میں نظر نہیں آتی ۔

٤۔اگر تحریف عثمان کے دور خلافت اور عثمان کے ہاتھوں ہوئی ہوتی تو حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام عثمان کے بعد مسلمانوں کاخلیفہ اور حاکم ہونے کی حیثیت سے قرآن کو اسی طرح ترتیب دینا چاہئےے تھاجس طرح پیغمبر اکرم (ص)پرنازل ہوا تھا جبکہ ایسی کوئی بات تاریخ میں نہیں ملتی ، پس یہ صورت بھی باطل اور غلط ہے ۔

تیسری صورت

قرآن میں تحریف عثمان کے دور خلافت کے بعد نبی امیہ کے خلفاء یاان کے ایجنٹوں کے ہاتھوں ہوئی ہے ۔ یہ ایسی صورت ہے جس کاسابقہ صورتوں کی طرح کسی محقق یامورخ نے دعویٰ نہیں کیا ہے ۔ اور چوتھی صورت بھی عقلاً ممکن نہیں ہے ۔ لہذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن میں تحریف ہونے کانظریہ سرے سے ہی غلط اور باطل ہے ،چونکہ عقلی اعتبار سے کوئی چوتھی صورت موجود نہیں لہذا ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عقلی اور تاریخی اعتبار سے تحریف قرآن کامسئلہ باطل اور مردود ہے ۔ یہاں یہ بھی یادرہے کہ یہ دلیل صرف عقلی حکم سے ثابت نہیں بلکہ تاریخی تجزیہ بھی ساتھ ہے

دلیل عقلی کا دوسرا بیان

اس بیان کی وضاحت کے لئے دو مقدموں کی ضرورت ہے :

پہلامقدمہ : شریعت اسلام ادیان الہیٰ میں سے کامل ترین دین ہے اور لوگوں کے لئے قیامت تک رہنے والا آئین ہے ۔

دوسرا مقدمہ : ایسے دین اورآئین کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی دائمی سند اور دستور العمل بھی اس کے ساتھ ہو ، تاکہ لوگ اس کے مطابق عمل کرسکیں۔

جب ان دو مقدموں کو ایک دوسرے سے ملائیں تو نتیجہ نکلتا ہے کہ شارع کو چاہئےے کہ اپنی کتاب کو ہر قسم کی تحریف اور کمی بیشی سے محفوظ رکھے ۔لہذا عقل کی رو سے شارع (اللہ ) پر لازم ہے کہ قرآن کو تحریف جیسی ظلمت سے محفوظ رکھے۔

یہ دلیل عقلی بھی شک سے خالی نہیں ہے کیونکہ عقل قضیہ شرطیہ کے طور پر حکم دیتی ہے کہ قرآن تمام عالم انسانیت کے لئے قیامت تک ان کی زندگی کے تمام مراحل میں رہنمائی اور ہدایت کے لئے ہے تو تحریف سے محفوظ ہونا چاہئےے لیکن یہ مقدار محل بحث کے لئے مفید نہیںہے کیونکہ ہمارا محل بحث تحریف کا واقع ہونایا نہ ہونا ہے اور عقل اس مسئلے میںمستقل طور پر دخالت نہیںکرسکتی ۔

سیرت اوربناء عقلاء :

بعض علماء نے قرآن کریم میں تحریف نہ ہونے پر بنا عقلاء اور ان کی سیر ت سے استدلال کیا ہے ا ور اس کی ضاحت یوں کرتے ہیں :

'' ہر کتاب میں لکھی ہوئی بات اور کلام میں تبدیلی اور تحریف عادت اور فطرت کے خلاف ہے ، پس ایسی تبدیلی اجباری اورغیر عادی ہے ۔ لہذا عقلاء کی سیر ت یہ ہے کہ ایسی تحریف اور تغییر کا اعتنا نہیں کرتے ۔ اس نظرئےے کی بنا پر قرآن کا تحریف سے محفوظ رہنا ایک امر طبیعی ہے جبکہ تحریف کا احتمال خلاف طبیعت ہے ۔ لہذا یہی اصل اور قانون اوّلیہ کاتقاضا ہے جو بدیہی ہے اورسب کے پاس مسلم

ہے ۔(١ )

لیکن یہ دلیل ان کتابوں کے بارے میں مفید ہے جن میں تحریف ہونے کے مختلف انگیزے اور اغراض نہ پائے جاتے ہوں لیکن قرآن جیسی کتاب میں کفار او رملحدین کی طرف سے تحریف کے مختلف انگیزے پائے جاتے ہیں اس میں تحریف نہ ہونا اس دلیل میںشامل نہیںہیں ۔

...........................

١۔ گفتار آسان در نفی تحریف قرآن ص١٢

بارہواں مطلب

تحریف کے نہ ہونے پر واضح ترین آیت شریفہ

محققین کے ایک گروہ نے دعویٰ کیا ہے کہ قرآن میںتحریف نہ ہونے پر

دلالت کرنے والی آیات میں سے واضح ترین آیت یہ ہے :

'' و انّہ لکتاب عزیز لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ و لا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید''(١ )

'' اور یہ قرآن تویقینی ایک عالی مرتبہ کتاب ہے جس میںسامنے یا پیچھے کسی بھی طرف سے باطل نہیںآسکتا ہے کہ یہ خوبیوںوالے حکیم کی طرف سے

نازل کی ہوئی کتاب ہے''۔

بعض مفسرین نے دعوا کیا ہے کہ اس آیت شریفہ کے عدم تحریف پر واضح ترین دلیل ہونے پر سارے مفسرین کا اجماع ہے۔(٢ )

لہٰذا اس آیت شریفہ سے نفی تحریف پر کئی طریقوں سے استدلال کیا گیا ہے :

پہلا طریقہ:یہ بات واضح ہے کہ اللہ نے اپنی کتاب کی صفت کو لفظ عزت

سے متصف کیا ہے ۔ عزت کا تصور لغت کے حوالے سے وہاںصحیح ہے جہاں ہر قسم

..........................

١۔فصلت /٤١،٤٢

٢۔صیانۃ القرآن عن التحریف ص٣٣

کی تبدیلی اور کمی بیشی سے تحفظ حاصل ہو۔(١ )

دوسرا طریقہ:اس آیت شریفہ میںایک طرف سے طبیعت اور باطل کی نفی ہو رہی ہے اور قاعدے کے مطابق ایسے موارد میں عموم کا فائدہ دیتی ہے دوسرے الفاظ میںیوں کہا جاسکتا ہے کہ آیت شریفہ قرآن سے ہر قسم کے باطل کی نفی کرتی ہے اور ہر وہ چیز جو خراب یا فاسد ہو یا کچھ حصہ اس سے ضائع ہوا ہو اس کو عربی زبان میں باطل کہا جاتاہے ۔پس مسلّم اور بدیہی ہے کہ کلمہئ تحریف ،باطل کے مصادیق

میںسے واضح ترین مصداق ہے۔

تیسرا طریقہ:اس آیت میں اللہ نے ''لایاتیہ الباطل ''یعنی ہر قسم کے باطل کی گنجائش قرآن میںنہیںہے ۔اس کی علت کو ا س طرح ذکر کیا ہے کہ کیونکہ یہ کتاب ایسی ہستی کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو حکیم اور حمید ہے یہ جملہ واضح کرتا ہے کہ ایسی کتاب جو کسی حکیم و حمید کی طرف سے آئی ہے اس میں کسی قسم کی تحریف اور تبدیلی کا

آنا حکمت کی صفت کے ساتھ مناسب ہے ۔مرحوم حاجی نوری (٢)نے فرمایا :

'' اگرچہ قرآن میںکسی قسم کی تبدیلی یا تغیر کا قائل ہونا باطل کے مصداق میںسے ایک مصداق ہے لیکن یہاں آیت شریفہ میں ہر باطل مراد نہیںہے بلکہ ایک خاص

..............................

١۔البیان ص٢١١

٢۔فصل الخطاب ص ٣٦١

باطل مراد ہے جو قرآن میںظاہری طور پر کچھ احکام اور اخبار میں تناقض کی وجہ سے حاصل ہوجائے اللہ اس کی نفی کرنا چاہتاہے''۔

بعض محققین نے جناب محدث نوری کو یوںجواب دیا ہے :

'' آیت شریفہ میںصرف احکام اور اخبارمیںتناقض کی نفی مراد لینا لفظ عزت کے ساتھ مناسب نہیں ہے۔ (١) دوسرے لفظوںمیںیوںکہا جائے کہ اس صفت کے ذکر کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کتاب ہر قسم کے باطل سے دور اور محفوظ ہے۔

اس جواب کی وضاحت اور تکمےل کی ضرورت ہے ۔ وہ ےہ ہے کہ اس آیت شرےفہ کا ظاہری معنیٰ جو ہر خاص و عام کے ذہن میں آجاتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کتاب کو کسی قید اور محدودیت کے بغیر بطور مطلق ''کتاب عزیز'' فرمایا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آیت شریفہ میں کلمہ باطل سے صرف تناقض احکام اور اخبار کا ارادہ کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر کتاب الٰہی صرف تناقض احکام کے حوالہ سے عزیز اور باطل سے مصون ہو تولفظ''عزیز'' کو کسی محدودیت کے بغیر کتاب کی صفت قرار دینا

خلاف ظاہر ہے ۔

......................

١۔ البیان ص٢١١

اشکالات

لیکن آیت شریفہ پر کئے گئے اعتراضات میںسے اہم ترین اعتراض یہ ہے کہ آیت کے ذکر شدہ معنیٰ اس تفسیر کے مخالف ہیں جو شیعہ اور سنی کے مفسرین میںسے عظیم ترین مفسرین نے کی ہیں۔یعنی اس آیت کی کسی بھی مفسر نے اس طرح تفسیر نہیں کی ہے کہ جس سے نفی تحریف کا احتمال دیے سکیں ۔مثال کے طور پر

مرحوم شیخ طوسی(رح) نے تفسیر تبیان میںآیت شریفہ کی تفسیر میںپانچ احتمال دیے ہیں :

الف:لایاتیہ الباطل سے مراد قرآن میںکسی قسم کے شبہہ اور تناقض کی گنجائش نہیں

ہے بلکہ قرآن خالص حق ہے ۔

ؓ ب:قتادہ اور سدّی نے فرمایا ہے :اس آیت شریفہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ شیطان قرآن سے حق بات کو مٹانے اور کسی باطل کے اضافہ کرنے پر قادر

نہیں ہے ۔

ج:قرآن سے پہلے اور اس کے بعد اسے باطل کرنے والی کسی چیز کا نہ ہونا مراد ہے۔

د:حسن نے فرمایا :اس آیت سے قرآن کی ابتداء اور آخر میںکسی باطل کی گنجائش نہ

ہونا مراد ہے ۔

ہ:قرآن نے گذشتہ اور آیندہ کے حوالے سے جو خبریںدی ہیں اس میںباطل کی کوئی گنجائش نہیںہے ۔

جناب سید مرتضیٰ فرماتے ہیں :اس آیت کے بارے میںبہترین تفسیر جو کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی کلام یا کوئی کتاب قرآن کی مانند اور مشابہ نہیںہو سکتی

ہے ،قرآن وہ واحد کتاب ہے جو اپنے بعد کی کتب سے مشابہت نہیںرکھتی اسی طرح اپنے سے پہلے والی کتب سے متصل بھی نہیںیعنی قرآن کریم ہر حوالے سے بے مثال اور مستقل کلام ہے ،کسی بھی کلام کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو فصاحت

و بلاغت کے اعتبار سے بہتر اور برتر ہے ۔

اس شبہے کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے ۔

پہلا جواب:مذکورہ تفاسیر اور معانی میںسے کچھ جیسے جناب قتادہ اور سدّی سے نقل

کیا گیا ہے ،آیت کے ذریعہ قرآن سے تحریف کی نفی کرنے میںمناسب ہے۔

دوسرا جواب:اگر کسی بھی مفسر نے آیت میںکوئی ایسے معنیٰ کی طرف اشارہ نہ بھی کیا ہو جو نفی تحریف کے اثبات کے لئے مناسب ہو ،پھر بھی آیت کے ذریعہ نفی تحریف پر استدلال کرنا صحیح ہے کیونکہ کسی آیت اور کلام کی تفسیر کرنے کے اصول و ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ کلام اور آیت کے ظاہری معنیٰ کو مدنظر رکھیںاور آیت کا ظاہر ی معنیٰ کسی شک کے بغیر ہمارے مطلب پر دلالت کرتا ہے اگر ہم غور کریںتو معلوم

ہو جاتا ہے کہ مفسرین نے مذکورہ معانی پر کوئی معتبر دلیل ذکر نہیںکی تھی لہٰذا ان کا ہر نظریہ اور تفسیر قابل قبول نہیں ہے لیکن اس وقت جب ان کی تفسیر پر معصوم سے

منقول کوئی روایت ہو ۔

تیسرا جواب:وہ روایات جو لفظ باطل کی وضاحت اور تفسیر میں آئی ہیں وہ آیت

شریفہ کو اسی میں منحصر کرنے کے درپے نہیںبلکہ آیت کریمہ کے مصادیق کو بیان

کرتی ہیں ۔

تیرہواںمطلب

کیا تحریف کے قائل ہونے سے ظواہر کتاب کا حجیت سے ساقط ہونا لازم آتا ہے ؟

کیا تحریف کے قائل ہونے کے بعد ہم کتاب کے ظواہر سے استدلال نہیںکر سکتے ہیں ؟یہ سوال اس وقت صحیح ہے اگر تحریف کا دعویٰ کرنے والا علم اجمالی

کی رو سے تحریف کا قائل ہو۔

بعضوں نے کہا ہے کہ'' ایسے مفروضے کی صورت میںجس کسی آیت

کی تحریف کا احتمال ہو اسے اہم عقلائی اصل سے وابستگی اختیار کرنی چاہیے جو ''عدم قرینہ '' ہے اور ظاہراً آیت سے استدلال کیا جائے دوسرے الفاظ میںتحریف شدہ کتاب کی حجیت کے لئے ہمیں معصومین علیہم السلام کی تایید کی ضرورت نہیںبلکہ ہم

اس عقلائی اصل کی روشنی میںان کے ظواہر سے استدلال کرسکتے ہیں''۔

یہ بیان اور جواب اس صورت میں صحیح ہے اگر عقلاء کسی کلام میں قرینہ متصلہ یعنی متکلم کے کلام کےساتھ کوئی قرینہ ہونے کا احتمال دیں پھر اصل عدم قرینہ سے تمسک اور استدلال کرنے کو صحیح سمجھے جبکہ عقلائی تحقیق کے مطابق جہاں کہیںکسی کلام میں مخاطب اور سامع کوئی قرینہ منفصلہ '' یعنی متکلم کے کلام سے الگ کوئی قرینہ '' ہونے کا احتمال دے وہاں قرینہ کی نفی کے لئے عقلاء عدم قرینہ سے تمسک کرنا صحیح سمجھتے ہیں لیکن اگر کسی کلا م میں قرینہ متصلہ ہونے کا احتمال ہو وہاں اصل عدم قرینہ سے استدلال کر کے اس احتمال کی نفی کرنا صحیح نہیں ہے اور مسئلہ تحریف پر علم اجمالی کے بعد احتمال کیا ہے کہ شاید کوئی قرینہ ہے جو تحریف کے نتیجہ

میں حذف کیاگیا ہے

لہٰذا تحریف کے بارے میں علم اجمالی کے مفروضے کی صورت میں ظواہر کتاب سے تمسک کے لئے حضرات معصومین علیہم السلام کی تایید کے علاوہ

اور کوئی چارہ نظر نہیںآتا اور یہ مطلب حدیث ثقلین کے ظاہر کے خلاف ہے۔

چودہواں مطلب

تحریف نہ ہونے پر حدیث ثقلین کی دلالت

تحریف کی نفی پر دلالت کرنے والی روایات میںسے اہم ترین روایت حدیث ثقلین ہے جو متواتر ہے ،یعنی اصحاب رسول ؐ میںسے ٣٣ ہزار افراد نے جو عظیم شخصیت کے مالک تھے ،پیغمبر اسلام ؐ سے نقل کیا ہے ۔جیسے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، ابوذر ، عبداللہ بن عباس ،جناب عبداللہ بن عمر ، جناب حذیفہ ،جناب ابو ایوب انصاری (١)اور اہل سنت کے علماء میں سے دو سو عظیم علماء نے اپنی کتابوں میںتحریر کیاہے ۔اس حدیث کا متن اس کی اسناد میںسے ایک متن کے

مطابق یوں ہے :

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

'' انّی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی و فیہ الھدی والنور فتمسکوا بکتاب اللہ و خذوا بہ و اہل بیتی ،اذکرکم اللہ فی اہل

بیتی (ثلاث مرّات)''(٢ )

'' تحقیق میںتمہارے درمیان دوگراں بہا چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،ایک اللہ کی

........................

١۔آلاء الرحمن ص٤٤

٢۔سنن دارمی ج٢ص٤٣١

کتاب اور دوسری میری عترت (اہلبیت)ہے ،اسی میں ہدایت اور نور ہے ۔پس تم اللہ کی کتاب اور میرے اہلبیت سے تمسک رکھو ،میرے اہلبیت کے بارے میںاللہ

کی یاد دلاتا ہوں ''۔(یہ جملہ تین دفعہ فرمایا )

اس حدیث سے قرآن کریم میںتحریف نہ ہونے پر دو طریقوں سے استدلال کیا جا

سکتا ہے ۔

پہلا طریقہ

پہلا طریقہ چھ نکات پر مشتمل ہے :

ۤالف:یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ ہم قیامت تک کتاب سے تمسک رکھ سکتے ہیں

ب:اس کتاب میں تحریف ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ ہم اس سے تمسک نہیں

رکھ سکتے۔

ج:قرآن سے تمسک رکھنے کا مطلب اس کے تمام پہلوؤں سے تمسک رکھنا ہے جن کا ذکر قرآن نے کیاہے اور تمسک کے خصوصی معنی جیسے کہ ''آیات احکام''نہیں ہےں۔دوسرے الفاظ میںقرآن صرف واجبات و محرمات بیان کرنے کے لئے نہیں آیاہے بلکہ قرآن اس لئے آیا ہے کہ انسان کو ظلمت کی تاریکی سے نکال کر ہدایت

اور نور کی طرف لے جائے ۔

د:تحریف کا مقصد یعنی حقائق کو چھپانا اور کتاب کے بعض انوار پر پردہ ڈالنا ہو تو ایسی تحریف پر مشتمل کتاب انسان کے تمام پہلوؤںسے نور اور ہادی نہیںبن سکتی ۔جبکہ قرآن کریم کا ہدف یہ ہے کہ لوگوں کو ہر ظلمت اور تاریکی سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لے جائے تا کہ انسان مادی و معنوی امور میں انسان کامل کے مرحلہ پر

فائز ہو جائے ۔یہ مقصد اور ہدف ایسی ہی کتاب کے

ساتھ تمسک سے حاصل ہوتا ہے ۔

ہ:قرآن کریم سے استدلال اور تمسک رکھنا بر خلاف تمسک عترت اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم قرآن تک پہنچیں وہ بھی وہی قرآن جو لوگو ںکے پاس موجود ہے نہ وہ قرآن جو اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے پاس محفوظ ہے ،دوسرے

انسانوںکی رسائی سے دور ہے ۔

حدیث شریف سے استفادہ ہوتا ہے کہ کتاب سے تمسک رکھنا صرف یہ نہیں کہ تمسک ممکن ہے بلکہ واجب ہے اور انشاء کے مقام پر جملہ خبریہ حکم تکلیفی کا حامل ہے علم اصول کے مباحث میںیہ واضح ہے کہ تکلیف شرعی میں لازم ہے کہ مکلفین کی قدرت میں ہو ۔اس لئے اگر قرآن تحریف کا شکار ہو چکا ہے تو اس

سے تمسک نہیں رکھ سکتے ۔

دوسرا طریقہ

اس حدیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ ان دوگراںبہا چیزوں میںسے ہر ایک دوسری دلیل کے ساتھ مستقل دلیل اور حجت ہے یعنی کتاب الٰہی عترت اور اہلبیت سے قطع نظر مستقل طور پر واجب العمل اور حجت ہے ،نیز عترت بھی کتاب سے قطع نظرمستقل دلیل اور حجت ہے ۔البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر ایک اکیلا مطلوب کے حصول اور گمراہی و ظلمت سے نجات پانے کے لئے کافی ہو ،یعنی قرآن اہلبیت کے بغیر یا اہل بیت قرآن کے بغیر ہماری نجات کا ذریعہ بنے، بلکہ گمراہی اور ظلمت سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لے جانے میںدونوں کی ضرورت ہے ۔لہٰذا گر قرآن کی تحریف ہوئی ہوتو اس کے ظواہر واجب العمل اور حجت ہونے سے ساقط ہو جاتے ،اور جو لوگ تحریف کے معتقد ہیں ان کے لئے کتاب کی طرف رجوع کرنے میںتصدیق معصومین اور تائید کی ضرورت ہے ۔جو حدیـث ثقلین کے ظاہر ی معنیٰ کے مخالف ہے ۔کیونکہ حدیث ثقلین کے ظاہری معنیٰ یہ ہیں کہ کتاب و عترت میںسے ہر ایک مستقل یعنی ایک دوسرے سے ضمیمہ کئے بغیر واجب العمل اور حجت ہیں۔لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو چیز ثقل اکبر ہو اس کی حجیت اس چیز پر موقوف ہو جو ثقل اصغر ہے ۔پس ان دو طریقوں سے درج ذیل

نتائج روشن ہو جاتے ہیں :

١۔قرآن سے تمسک اور استدلال کرنا نہ صرف ممکن ہے بلکہ اس سے تمسک کرنا

ضروری ہے ۔

٢۔قرآن کو ایک مستقل دلیل اور حجت کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے لہٰذا بدیہی

ہے اگر کوئی تحریف کا قائل ہو تو اس کا یہ نظریہ مذکورہ مطلب سے میل نہیں کھاتا ۔

پندرہواں مطلب

تلاوت کا مٹ جانا اور باطل قرار پانا

سنی علماء کی عبارات میںنسخ تلاوت او رانساء کی دو اصطلاحیںنظر آتی ہیں اور جواز نسخ تلاوت کو بطور اجمال ذکر کر کے اس پر انہوں (١)نے عقلی اور نقلی دلیل ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔اس کی طرف اشارہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم غور کریںکہ کیا یہ دو اصطلاح اور لفظ تحریف دو الگ الگ چیزیں ہیںیا ان دو اصطلاحوںکے قائل ہونے کا لازمہ تحریف ہے ؟احادیث اور روایات کی کتابوںمیںکچھ ایسی احادیث پائی جاتی ہیںجس کی توجیہ کے نتیجہ میںاہل تسنن کے بزرگ علماء نے ان میں نسخ تلاوت کو قرار دیا ہے ،انہیں روایات میںسے ایک وہ ہے جو مسئلہ رجم سے مربوط ہے ۔چنانچہ ابن عباس نے عمر سے روایت کی ہے کہ عمر نے کہا :پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ آیات میںسے ایک آیت رجم ہے ،''الشیخ و الشیخۃ اذا زنیا فارجموھما...'' اگر کوئی عمر رسیدہ مرد اور عورت آپس میںزنا کریںتو ان کو سنگسار کریںاور پیغمبر اکرم (ص)نے اپنے دور میں اس پر عمل کیا ہے،ان کے بعد ہم بھی

اس پر عمل کرتے رہیں ہیں۔(٢ )

.........................

١۔الاحکام فی اصول الاحکام جزء سوم ص١٥٤

٢۔مسند احمد ابن حنبل ١/٤٧

زید بن ثابت فرماتے ہیں:میںنے پیغمبر اکرم (ص) سے سنا کہ ''اگر کوئی شادی شدہ مرد یا عورت زنا کرے تو ان کو سنگسار کرنا چاہیئے ۔اس بحث میں غور کی بات یہ ہے کہ زید بن ثابت نے نہیں کہا پیغمبر کا یہ کلام وحی اور آیات قرآنی میں سے ایک ہے لیکن عمر نے خیال کیا کہ یہ وحی منزل اور آیات قرآنی میںسے ایک ہے جبکہ عمرنے پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا کیا اس کو کتاب میںلکھوں،تو پیغمبر اکرم (ص) نے کوئی جواب نہیں دیا (١ )

اہل تسنن بھی ان کی اتباع کرتے ہوئے خیال کرنے لگے کہ پیغمبر اکرم (ص) کا یہ کلام اور حکم قرآن کی ایک آیت تھی لیکن اس کی تلاوت اور قرائت نسخ اور ختم ہو چکی ہے ،اگرچہ اس کا حکم اب بھی باقی ہے ۔

اس نظریے پر کئی اہم اعتراضات ہوئے ہیںجو یوں ہیں :

١۔پہلا اعتراض یہ ہے کہ نسخ جس طرح کا ہو وہ ناسخ کے بغیر نہیںہو سکتا ،لیکن یہاں

کوئی ناسخ نظر نہیںآتا ۔

٢۔دوسرا اعتراض یہ ہے کہ بحث نسخ میںیہ ثابت ہے کہ نسخ صرف احکام شرعی کے حدود میں واقع ہوا ہے لیکن تلاوت کا عنوان شرعی احکام سے مربوط نہیں اگرچہ اس

اعتراض کا جواب اہل سنت کے علماء میںسے بعض نے اس طرح دیا ہے (٢ )

...............................

١۔محلی ابن حزم ج١ص٢٣٥

٢۔الاحکام آمدی ٣/١٥٥

کہ تلاوت قرآن سے اس کا وجود خارجی مراد نہیں ہے بلکہ تلاوت قرآن کا جواز

مراد ہے جو احکام شرعیہ میںسے ایک ہے ۔

٣۔تیسرا عتراض یہ ہے کہ اس جیسے نسخ کا کیا فائدہ ؟یعنی یوںکہا جائے کہ آیت کی تلاوت نسخ ہو چکی ہے لیکن اس کا اصل حکم باقی رہے جو اس آیت کا مدلول ہے باقی

رہے ۔

٤۔چوتھا اعتراض :اہم ترین اعتراض ہے جسے مرحوم محقق خوئی نے کہا ہے انہوں نے فرمایا کہ اگر نسخ تلاوت کی یہ صورت حضور اکرم (ص) کے زمانے میںآپ کے حکم سے واقع ہوئی ہے چاہے اس کا لازمہ تحریف نہ بھی ہو ،لیکن ایسی روایتیں جو مطلب پر دلالت کرتی ہیںیا اس نظریے پر محمول ہو خبر واحد کی حیثیت سے ہیںاس لئے اعتماد کے لئے کافی نہیںاس پر اضافہ یہ کہنا کہ اس قسم کا نسخ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے کے بعد واقع ہواہے اور اگر اس قسم کا نسخ حضور اکرم (ص) کے زمانے کے بعد علماء اور حکمرانوں کے ذریعے واقع ہوا ہے تو یہ قول عین تحریف کو قبول کرنا ہے ۔(١) لیکن جو کچھ مسئلہ رجم کے متعلق بیان ہوا ہے اس کا بطلان بہت واضح ہے کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے قرآن کریم کے آیات کو تحریر کرنے میںبڑی باریکی کے ساتھ نگرانی فرمائی

ہے اور بڑے اہتمام کے ساتھ کاتبوںکو اس امر پر مامور فرمایا تھا اس صورت

.............................

١۔البیان ص ٢٠٦

میں کہ آیت رجم اگر آیات قرآن میںسے ہوئی تو آپ نے اسے قرآن میں

لکھنے کا حکم کیوںنہیںدیا اور عمر کے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا ۔

لہٰذا نسخ تلاوت ایک ایسا مطلب ہے جس کا باطل ہونا بدیہی طور پر واضح

ہے یہاںتک کہ بعض اہلسنت(١) کے معاصرین نے کہا ہے کہ عقلاً تو ایسا ہونا جائز ہے مگر اللہ کی کتاب میںایسا کوئی نسخ واقع نہیںہوا ہے ۔ابن حزم اندلسی نے پہلے نسخ تلاوت کو قبول کرنے کے بعد اپنے کلام کے آخر میںایسی توجیہ کی جیسے نسخ

تلاوت وحی الٰہی سے مربوط ہی نہیںہے۔

.........................

١۔فتح المنان فی نسخ القرآن ص٢٢٤

سولہواں مطلب

شیعہ امامیہ تحریف قرآن کے قائل نہیںہوسکتے

شیعہ امامیہ نہ صرف تحریف قرآن کے معتقد نہیںہیںبلکہ اصولاً ایسے عقیدے اور نظریے کے قائل نہیںہو سکتے ۔کیونکہ شیعہ امامیہ کے اصول اور اعتقادی مسائل کو تشکیل دینے والی اہم ترین دلیلوں میںسے ایک آیت تطہیر ہے :

'' انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرّجس اھل البیت و یطھّر کم

تطھیراً''۔(١ )

'' بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت ! کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے ،اور اس طرح

پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''۔

اعتقادی مسائل سے مربوط کتابوںمیںثابت کیا گیا ہے کہ یہ آیت شریفہ اہلبیت علیہم السلام کی عصمت پر واضح ترین دلیل ہے اور وہ بھی ایسی عصمت جو مسلمانوںکے پیشوا اور خلیفہ ئوقت کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ضروری ہے ،یعنی اس عصمت کو بیان کرنے والی آیات میںسے واضح اور روشن

آیت ،آیت تطہیر ہے ۔لہٰذا جو لوگ قرآن میںتحریف کے قائل ہیںوہ اس آیت سے عصمت پر استدلال نہیںکر سکتے ،یعنی جب ہم قرآن کو ایک منظم کتاب سمجھیں

...........................

١۔احزاب/٣٣

کہ جس کا آغاز سورہ مبارکہ حمد اور اختتام سورہ والنّاس ہے ،جس کی تدوین اور جمع آوری خود پیغمبر اکرم (ص) کے زما نہ میںمکمل ہوئی تھی آنحضرت ؐ کے بعد کسی قسم کی کمی بیشی نہیںہوئی اور اس کی ہر آیت کو اپنی مخصوص مناسبت کے ساتھ اس طرح رکھا گیا ہے اگر کوئی ایک آیت کو اس کی مخصوص جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرے تو اس کا الٰہی مقصد حاصل نہیںہوتا ۔کیونکہ اس آیت کو اس مخصوص جگہ میںترتیب دینے کا ہدف مقصد یہ ہے کہ اللہ پیغمبر اکرم (ص) کی ازواج کی ذمے داریوں کو بیان کرتے وقت اہلِ بیت (ع) عصمت کی چند خاص ذمے داریوںکو بیان کرے اگر اس جیسی آیات میں

تحریف کا احتمال دیا جائے تو شیعہ امامیہ کے اعتقادات کے لئے کوئی پناہ باقی نہیں

رہے گی ۔(١ )

......................

١۔مزید توضیح کے لیے رجوع کریںکتاب'' اہل البیت یا چہرہ ہای درخشان ''

سترہواںمطلب

تحریف کی روایات کا اجمالی جائزہ

تحریف کے قائلین کے پاس اہم ترین دلیل وہ روایات ہیں جو سنی اور شیعہ کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں،ان روایات کی تعداد بعض محققین نے ایک ہزار ایک سو بائیس (١١٢٢) بتائی ہے ،بعض بزرگ علماء نے ان روایات کے تواتر اجمالی کو قبول کر لیا ہے اگرچہ مذکورہ روایات میںسے اکثر کی سند ضعیف ہے لیکن اس کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ جن میںسے بعض کا معصوم علیہ السلام سے صادر ہونے پر ہمیں یقین حاصل ہو جاتا ہے ۔لہٰذا ان تمام کے جھوٹ ہونے کا احتمال نہیںہے اس لئے جو لو گ تحریف کے قائل ہیںوہ ان روایات سے تحریف

قرآن پر استدلال کرتے ہیں ۔

لیکن ہمارے علماء میں سے بعض نے ان روایات پر دو اعتراضات کر

کے جواب دیا ہے ۔

پہلا طریقہ :جن کتابوںمیںان روایات کو جمع کیا ہے وہ معتبر نہیں ہیں۔

دوسرا طریقہ :ان روایات کے مضمون قابل اعتراض ہیںان دونوں جہتوں کی

وضاحت اور تفصیل کی ضرورت ہے ۔

پہلی جہت کی وضاحت

ان روایات میں سے اکثر روایات کے سلسلہ سند میں''احمد بن محمد سیاری'' ہے جن کے بارے میںعلم رجال کے ماہرین کی تعبیر میں'' فاسد المذہب'' او''ر ضعیف الحدیث'' اور نجاشی (١)نے اس کو غالی ہونے سے متہم کیا ہے جبکہ ابن غضائری نے اس کوگمراہ اور ہلاک کرنے والا قرار دیا ہے (٢)اس سلسلہ سند میں جتنے افراد ہیں ان میں سے دوسرا شخص یونس بن ظبیان ہے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ضعیف ہے اور ان کی کتابیں غلطیوں سے بھری ہوئی ہیںاور ابن غضائری نے اس کو کذاب ،غالی اور جعلی حدیثیں گھڑنے والا قرار دیا ہے ۔(٣)اسی طرح سلسلہ سند میںتیسرا جو شخص '' علی ابن احمد کوفی ''ہے ،اس کو علم رجال کے محققین اور مؤلفین نے ضعیف اور فاسد الرّوایۃ یہاں تک کہ غالی اور گمراہ سے تعبیر کیا ہے ۔(٤ )

لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر جو لوگ ان روایات کے قائل ہیںوہ قابل اعتماد افراد نہیں

...................................

١۔رجال نجاشی ص ٥٨

٢۔قاموس الرجال ج١ ص٤٠٣

٣۔خلاصۃ الرجال ص٢٦٦

٤۔دراسات فی الحدیث والمحدثین ص١٩٨

ہیں۔پس ان روایات پر اعتماد نہیںکیا جاسکتا ہے ۔نیز جن کتابوںمیں ان روایات

کو جمع کیا گیا ہے وہ معتبر کتابیںنہیںہیں؛

الف:مثال کے طور پر بعض روایات سعد بن عبد اللہ اشعری سے منسوب کتاب سے لی گئی ہیں،اور اس کتاب کی جناب نعمانی اور سید مرتضیٰ کی طرف نسبت دی گئی ہے لہٰذا اس بنا پرکتاب کامؤلف و مصنف معلوم نہیں،نیزعلم رجال میںسے کسی

نے اس کو معتبر شمار نہیںکیا ہے۔

ب:اسی طرح بعض روایات کو سُلَیم بن قیس ہلالی کی کتاب سے نقل کیا گیا ہے جن کے بارے میںمرحوم شیخ مفید نے فرمایا:''ان کی کتاب میںسے کوئی بات نہیںہے کہ اسے موثق قرار دیا جائے اور اس پر عمل کرنا بہت سارے موارد میںجائز نہیں ہے اور اس کتاب کے اندر غلطیوں اورفریب کے مواد بھرے ہوئے ہیں پس جو لوگ پرہیز گار و متدین ہیں وہ اس پر عمل کرنے سے اجتناب کریں'' (١ )

ج:تیسری کتاب ،کتاب التنزیل و التحریف یا کتاب قرائت ہے کہ جس کا مؤلف احمد بن محمد سیّاری ہے اور پہلے بیان ہوا کہ علم رجال کے ماہرین نے اس شخص

کو ضعیف قرار دیا ہے ۔

د:ان روایات میںسے بعض کو تفسیر ابی الجارود سے نقل کیا گیا ہے اور یہ ایسا شخص ہے

................................

١۔تصحیح الاعتقاد ص٧٢

جو امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف سے لعنت کا مستحق ہوا ہے ،اس کے علاوہ اس

تفسیر کے سلسلہ سند میں''کثیر بن عیاش ''ہے جو خود ضعیف ہے ۔

ھ:ان کتابوںمیںسے ایک علی ابن ابراہیم قمی کی تفسیر ہے ۔یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جو ان کے شاگردابوالفضل العباس بن محمد علوی کو املاء لکھوایا تھا اور اسی طرح

تفسیر ابی الجارود کے ساتھ مخلوظ ہے ۔

و:ان روایات کے مدارک میںسے ایک مدرک کتاب استغاثہ ہے جو'' علی ابن احمدالکوفی ''کی ہے ،ابن غضائری نے'' علی احمد الکوفی ''کو کذاب ،جھوٹا اور غالی ہونے سے متہم کیا ہے ۔

ز:ان روایات میںسے بعض کو'' احتجاج طبرسی ''سے نقل کیا گیا ہے اس کتاب میںموجوداکثرروایتیں مرسلہ ہیںاور ایک کتاب روائی کے عنوان سے اس سے

استدلال نہیںکیا جا سکتا۔

ح:ان روایات میںسے اکثر کافی میںموجود ہیں،لیکن صرف کسی کتاب میںکسی روایت کے ہونے کا معنیٰ یہ نہیںہے کہ اس کی صحت اور جواز عمل ثابت ہوجائے لہٰذا بعض علماء نے فرمایا :١٦١٩٩ ،احادیث اصول کافی میں موجود ہیںلیکن ان میں سے صرف ٥١٧٢ احادیث صحیح السند ،١٤٤،احادیث کو حَسنہ ،٢١٢٨ ،احادیث معتبر اور ٣٠٢،احادیث کو قوی قرار دیا ہے جبکہ ٧٤٨٠،احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے

روایات کا صرف اصول کافی میں ہونا دلیل نہیںہے کہ ان تمام پر عمل بھی جائز

ہو۔(١)

دوسری جہت کی وضاحت

یہ روایات دلالت کے اعتبار سے ایک نہیںہے ،بلکہ کئی دستوںپر تقسیم

ہوتی ہیں۔

پہلا دستہ :بعض روایات ،تحریف معنوی سے مربوط ہیںجو کہ محل نزاع سے خارج

ہیں ۔

دوسرا دستہ:روایات اس طرح کی ہیںکہ وہ قرآن کی قرائت مختلف ہونے پر دلالت کرتی ہیں،جو ہماری بحث سے خارج ہےں۔

تیسرا دستہ :کسی آیت کریمہ کی تفسیر میںوارد ہوئی ہیںجس سے بعض محققین نے یہ خیال کیا ہے کہ روایت کا مضمون ہی قرآن کی آیت تھی ،جیسے وہ روایت جو مرحوم کلینی ؒ نے اپنی سند کے ساتھ موسی بن جعفر علیہما السلام سے اس روایت کے بارے میںکہ:''أولٰئک الذین یعلم اللہ ما فی قلوبھم فاعرض عنھم و

عظھم و مثل لھم فی انفسھم قولاً بلیغاً''۔

انّہ علیہ السلام تلاھذہ الایۃ الیٰ قولہ :''فاعرض عنھم ''و

................................

١۔دراسات الحدیث و المحدثین ص١٣٧

أضاف:'' فقد سبقت علیہم کلمۃ الشفاء و سبق لھم العذاب ''۔ و تلابقیۃ الایۃ ۔(١)یعنی امام علیہ السلام نے آیت ''فاعرض عنھم '' تک کی تلاوت فرمائی ،پھر آپ نے اضافہ کیا ،شقا اور عذاب کی بات ک وپہلے ذکر کیا گیا تھا ،پھر آیت کے دوسرے جملے کی تلاوت فرمائی ۔جس سے بعض محققین جیسے محدث نوری وغیرہ نے فرمایا کہ اس حدیث کی ظاہر ی ہم آہنگی اور سیاق یہ بتاتا ہے کہ یہ آیت کی تفسیر نہیںہے بلکہ موجودہ آیت پر ایک اضافہئ جملہ ہے جو آیت کا حصہ

تھا۔(٢ )

لیکن مرحوم علامہ مجلسی اور دیگر مفسرین نے صاف صاف بتایا ہے کہ یہ

آیت کی تفسیر ہے ۔

چوتھا دستہ:روایات اس طرح کی ہیں کہ وہ دلالت کرتی ہیںکہ کچھ آیات میں حضرت علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارک تھے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی روایات کی توضیح اور تاویل کرتی ہیںنہ یہ کہ حضرت علی اور دیگر ائمہ (ع) کے اسماء مبارکہ آیت کا جزء اور حصہ ہونے پر دلالت کریں۔

پانچواںدستہ :یہ وہ روایات ہیںجو قرآن کریم میںقریش کے لوگوںمیںسے چند

...............................

١۔روضہ کافی ٨/١٨٤

٢۔فصل الخطاب ص ٢٧٥

کے نام موجود ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔تحریف کرنے والوںنے اس کو ہٹایا اور

صرف ابو لہب کا نام باقی رکھا ہے ۔

لیکن ان روایات پر دو اعتراض ہیں۔

پہلا اعتراض :یہ ہے کہ ایسا مطلب بیان کرنے والی روایات خود آپس میںتناقض اور تضاد رکھتی ہیںکیونکہ چند روایات میںسات لوگوں کے نام حذف ہونے کا ذکر

ہے اور چند میں ستر لوگوںکے نام مٹانے کا ذکر ہے۔

دوسرا اعتراض :یہ ہے کہ اگر غور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی روایات کے مضامین ہی ان کے جھوٹ ہونے پر بہترین دلیل ہیں،کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ قریش کے دوسرے ناموںکو حذف کر کے صرف ابی لہب کے نام کو باقی رکھیں؟

چھٹا دستہ :روایات اس طرح کی ہیں کہ جو دلالت کرتی ہیںکہ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد الفاظ میںتبدیلی لائی گئی ہے یا کچھ الفاظ کو جا بجا کیا گیا ہے ،یعنی ایسی

احادیث قرآن میںتحریف ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی احادیث اجماع کے خلاف ہیںکیونکہ سارے مسلمانوں

کا اجماع ہے کہ قرآن میں ایک لفظ بھی زیادہ یا کم نہیں ہوا ہے۔

ساتواںدستہ:احادیث حضرت حجت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی شان میں وارد ہوئی ہیںوہ روایات حضرت حجت کے ظہور کے بعد وہ قرآن جو حضرت علی علیہ السلام سے منسوب ہے آپ کے پاس محفوظ ہے ،لوگوںکو اس پر عمل کرنے پر مجبور

کریں گے پر دلالت کرتی ہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ ایسی روایات حضرت علی علیہ السلام کے مصحف اور موجودہ مصحف میں فرق ہونے پر دلالت کرتی ہیںلیکن حقیقت میںمتن قرآن میںاختلاف ہونے کو بیان نہیںکرتیں بلکہ از نظر نظم

و ضبط اور بعض آیات کی تفسیر و توضیح میںاختلاف ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

آٹھواںدستہ :بعض احادیث قرآن میں کمی ہونے پر دلالت کرتی ہیں،ایسی

روایات اور احادیث کی خود تین قسمیں ہیں :

١۔بعض روایات اور احادیث دلالت کرتی ہیںکہ قرآنی آیات کی تعداد موجودہ

تعداد سے کئی گنازیادہ تھی ۔

٢۔کچھ روایات بیان کرتی ہیں کہ بعض سوروںکی آیات کی تعداد واقعی تعداد سے کم ہے ۔

٣۔بعض احادیث بیان کرتی ہیں کہ کوئی ایک لفظ کسی آیت سے یا کوئی ایک آیت

قرآن سے کم ہوئی ہے ۔

اس کے کئی جوابات ہیں ـ :

پہلا جواب یہ ہے کہ ان احادیث میںسے کچھ احادیث ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارکہ کے حذف اور مٹا دینے پر دلالت کرتی ہیںاور چنانچہ پہلے بھی بیان ہوا وہ آیت کے جزء ہونے کو بیان نہیںکرتی ہیں انہیںتاویل و تفسیر پر محمول کرنا چاہئیے یا مصداق آیہ پر محمول کیا جائے۔

والحمد للہ رب العالمین

منابع کتاب

١۔القرآن الکریم

٢۔کتاب کشّاف

٣۔مفردات راغب

٤۔تفسیر کبیر

٥۔البیان

٦۔اصول کافی

٧۔عوالی اللأالی

٨۔آلاء الرحمن بلاغی

٩۔مجمع البیان

١٠۔تفسیر تبیان

١١۔سعد السعود

١٢۔تفسیر صافی

١٣۔اظہار الحق

١٤۔کشف الغطائ

١٥۔بحار الانوار

١٦۔صیانۃ القرآن عن التحریف

١٧۔فصل الخطاب

١٨۔اکذوبۃ تحریف القرآن

١٩۔مدخل التفسیر

٢٠۔گفتار آسان در نفی تحریف قرآن

٢١۔سنن دارمی

٢٢۔الاحکام فی اصول الاحکام

٢٣۔مسند احمد ابن حنبل

٢٤۔محلی ابن حزم

٢٥۔الاحکام آمدی

٢٦۔فتح المنان

٢٧۔ چہرہ ہای درخشان

٢٨۔اہل بیت

٢٩۔رجال نجاشی

٣٠۔قاموس الرجال

٣١۔خلاصۃ الرجال

٣٢۔دراسات فی الحدیث والمحدثین

٣٣۔تصحیح الاعتقاد

٣٤۔روضہ کافی