عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

تالیف: محمد رے شہری

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

مقدمہ

الحمد ﷲ رب العالمین والصلاۃ علیٰ عبدہ المصطفیٰ محمد وآلہ الطاہرین و خیارصحابتہ اجمعین۔

ہم کتاب ''علم و حکمت قرآن و حدیث کی روشنی میں ' کے مقدمہ میں اشارہ کر چکے ہیں کہ اس کتاب کے مباحث کی تکمیل کے لئے کتاب ''عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں '' کا مطالعہ کرنا ضروری ہے اور یہ اس سلسلہ کی پانچویں کتاب ہے جو خدا کے فضل سے پہلی کتاب کی اشاعت کے تھوڑے ہی وقفہ کے بعد شائع ہو رہی ہے ۔

یہ کتاب آیات و روایات کی مدد سے معرفت کے موضوع پر نئے نکات پیش کرتی ہے امید ہے کہ ارباب علم و حکمت کے نزدیک مقبولیت کا درجہ حاصل کر ے گی ۔

اس بات کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ اس کتاب کا پہلا حصہ حجۃ الاسلام جناب شیخ رضا برنجکار کے تعاون سے اور دوسرا حصہ حجۃ الاسلام جناب عبد الھادی مسعودی کی مدد سے مکمل ہوا۔لہذاہم ان دونوں اور ان تمام حضرات کا شکر یہ ادا کرتے ہیںکہ جنہوںنے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے ، صحیح روایات ڈھونڈ نے اور اس سے متعلق دیگر امور میں ہمارا تعاون کیا ہے،اور خدا کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ خدا انہیں آثار اہلبیت کو مزید نشر کرنے کی توفیق عطا کرے اور جزائے خیر سے نوازے۔

آخر میں اختصار کے ساتھ اپنی تحقیق کا اسلوب بیان کرتے ہیں :

١۔ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ایک موضوع سے مربوط شیعی اور سنی روایات کو جدید وسائل تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے جامع ترین ، موثق ترین اور قدیم ترین مصادر سے اخذ کیا جائے۔

٢۔ کوشش کی گئی ہے کہ درج ذیل حالات کے علاوہ تکرار روایات سے اجتناب کیا جائے :

الف: روایت کے مصادر مختلف ہوں اور روایات میں واضح فرق ہو۔

ب: الفاظ اور اصطلاحات کے اختلاف میں کوئی خاص نکتہ مخفی ہو۔

ج: شیعہ اور سنی روایات کے الفاظ میں اختلاف ہو۔

د: متن روایت ایک سطر سے زیادہ نہ ہو لیکن دو بابوں سے مربوط ہو۔

٣۔ اور جہاں ایک موضوع سے متعلق چند نصوص ہیں جن میں سے ایک نبی (ص) سے منقول ہو اور باقی ائمہ٪ سے تو اس صورت میں حدیث نبی (ص)کو متن میں اور بقیہ معصومین کی روایات کو حاشہ پر ذکر کیاہے ۔

٤۔ہر موضوع سے متعلق آیات کے ذکر کے بعد معصومین(ع) کی روایات کو رسول خدا(ص) سے امام زمانہ (عج) تک بالترتیب نقل کیا جائیگا۔ مگر ان روایات کو جو آیات کی تفسیر کے لئے وارد ہوئی ہیں تمام روایات پر مقدم کیا گیا ہے اور بعض حالات میں مذکورہ ترتیب کا لحاظ نہیں کیا گیا ہے ۔

٥۔ روایات کے شروع میں صرف معصوم (ص) کا نام ذکر کیا جائیگا لیکن اگر راوی نے فعلِ معلوم کو نقل کیا ہے یا ان سے مکالمہ کیا ہے یا راوی نے متن حدیث میں کوئی ایسی بات ذکر کی ہے جو معصوم )ع( سے مروی نہیںہے اس میں معصوم کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔

٦۔ حاشیہ پر متعدد روایات کے مصادر کواعتبارکے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے ۔

٧۔ اگر بنیادی منابع تک دسترسی ہو تو حدیث بلا واسطہ انہیں منابع سے نقل کی جاتی ہے ''بہار الانوار'' اور ''کنزالعمال'' اور اس لحاظ سے کہ یہ دونوں احادیث کا جامع منبع ہیں لہذا منابع کے آخر میں انکا بھی ذکر کر دیا گیا ہے ۔

٨۔ منابع کے ذکر کے بعد کہیں پر بعض دوسرے منابع کی طرف ''ملاحظہ کریں'' کے ذریعہ اشارہ کیا ہے ان موارد میں نقل شدہ متن اس متن سے جسکا حوالہ دیا گیا ہے کافی مختلف ہے ۔

٩ ۔ اس کتاب میں دوسرے ابواب کا حوالہ اس وقت دیا گیا ہے جہاں روایات میں مناسبت ہے ۔

١٠۔ کتاب کا مقدمہ اور بعض فصول و ابواب کے آخر میں بیان ہونے والے توضیحات و نتائج اس کتاب یا اس باب کی روایات کا ایک کلی جائزہ ہے اور بعض روایات میں جو دشواریاں ہیں انہیں حل کیا گیا ہے ۔

١١۔ اہمترین نکتہ یہ ہے کہ ہم نے حتی الامکان ہر باب میں معصوم سے صادر ہونے والی حدیث کی توثیق کےلئے عقلی و نقلی قرائن کا سہارا لیا ہے ۔

محمد رے شہری

٨ صفر ١٤١٩ق ھ     

پیش لفظ

 تفکر و تعقل اسلام کا ستون ہے اور عقائد و اخلاق اور اعمال میں اس کا مرکز ہے لیکن یہ آسمانی شریعت انسان کو اس بات کی ا جازت نہیں دیتی ہے کہ وہ ہر اس چیز کو تسلیم کرے جس کو عقل صحیح نہیں سمجھتی اور نہ ہی ان صفات سے متصف ہونے کا اذن دیتی ہے جس کو عقل برا جانتی ہے۔ اور نہ ان اعمال کو بجالانے کا حق دیتی ہے کہ جن کو عقل اچھا نہیںسمجھتی ہے ۔

لہذا آیات قرآن ، احادیث رسول اور احادیث اہلبیت)ع( غور و فکر اور سوچنے سمجھنے کی دعوت دیتی جیسے تفکر، تذکر، تدبر، تعقل، تعلم، تفقہ، ذکر اور عقل و خرد ہیں یہی تمام چیزیں بنیاد ہیں اور دوسری چیزوں کی نسبت ان کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے ۔ قرآن کریم میں کلمہ علم اور اس کے مشتقات ٧٧٩ بار، ذکر ٢٧٤ بار، عقل ٤٩ بار ، فقہ ٢٠ بار ، فکر ١٨ بار، خرد ٦١ بار اور تدبر ٤ بار آیا ہے ۔

اسلام کی نظر میں عقل انسان کی بنیاد، اسکی قدر و قیمت کا معیار، درجات کمال اور اعمال کے پر کھنے کی کسوٹی ، میزان جزا اور خداکی حجتِ باطنی ہے ۔

عقل انسان کے لئے گرانقدر ہدیہئ الٰہی ، اسلام کی پہلی بنیاد ، زندگی کا اساسی نقطہ اور انسان کا بہترین زیور ہے ۔

عقل بے بہا ثروت ، بہترین دوست و راہنمااور اہل ایمان کا بہترین مرکز ہے اسلام کے نقطئہ نظر سے علم عقل کا محتاج ہے لہذا علم عقل کے بغیر مضر ہے ۔ چنانچہ جسکا علم اسکی عقل سے زیادہ ہو جاتا ہے اس کےلئے وبال جان ہو جاتا ہے ۔

مختصر یہ کہ اسلام کی نظر میں مادی و معنوی ارتقائ، زندگانی ئدنیا و آخرت کی تعمیر، بلند انسانی سماج تک رسائی اور انسانیت کی اعلیٰ غرض و غایت کی تحقیق صحیح فکر کرنے سے ہی ممکن ہے اور انسان کی تمام مشکلات غلط فکر اور جہل کا نتیجہ ہے لہذا دنیا میں قیامت کے بعد باطل عقائد کے حامل افراد حساب کے وقت اپنے برے اعمال اور برے اخلاق کی وجہ سے مشکلات میں مبتلا ہوںگے تو کہیں گے :

وقالوا لوکنا نسمع اونعقل ما کنا فی اصحاب السعیر، فاعترفوا بذنبھم فسحقا لاصحاب السعیر۔

اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنم والوں میں نہ ہوتے؛ تو انہوںنے خود اپنے گناہ کا اقرار کر لیا تو اب جہنم والوںکے لئے تو رحمت خدا سے دوری ہی دوری ہے ۔

عقل کے لغوی معنی

لغت میں عقل کے معنی منع کرنا، باز رکھنا، روکنا، اور حبس کرنے کے ہیں۔ جیسے اونٹ کو رسی سے باندھنا تاکہ کہیں جانہ سکے ، انسان کے اندر ایک قوت ہوتی ہے جسے عقل کہا جاتا ہے جو اسے فکری جہالت سے بچاتی ہے اور عملی لغزش سے باز رکھتی ہے لہذا رسول خدا)ص( فرماتے ہیں :

العقل عقال من الجہل۔

عقل جہالت سے باز رکھتی ہے ۔

عقل اسلامی روایات میں

محدث کبیر شیخ حر عاملی بابِ ''وجوب طاعۃ العقل و مخالفۃ الجہل'' کے آخر میں معانی عقل کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :

علماء کے کلام میں عقل کئی معنی میں استعمال ہوئی ہے احادیث میں جستجو کے بعد عقل کے تین معنی دستیاب ہوتے ہیں :

١۔ وہ قوت ہے کہ جس سے اچھائیوں اور برائیوں کا ادراک، ان دونوں میں امتیاز اور تمام امورکے اسباب کی معرفت وغیرہ حاصل کی جائے اور یہی شرعی تکلیف کا معیار ہے ۔

٢۔ ایسی حالت و ملکہ کہ جو خیر و منافع کے انتخاب اور برائی و نقصانات سے اجتناب کی دعوت دیتا ہے ۔

٣۔ تعقل علم کے معنی میں ہے کیوںکہ یہ جہل کے مقابل میں آتا ہے نہ کہ جنون کے اور اس موضوع کی تمام احادیث میں عقل دوسرے اور تیسرے معنی میں زیادہ استعمال ہوئی ہے ۔واللہ اعلم۔

جن موارد میں کلمئہ عقل اور اس کے مترادف کلمات اسلامی نصوص میں استعمال ہوئے ہیں ان میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمہ کبھی انسان کے سرچشمئہ ادراکات اور کبھی اس کے ادراکات سے حاصل شدہ نتیجہ میں استعمال ہوتا ہے اورکبھی دونوں مختلف معنی میں استعمال ہوتے ہیں جو درج ذیل ہیں :

الف: عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ

١۔ تمام معارفِ انسانی کا سرچشمہ

جن احادیث جن میں حقیقتِ عقل کو نور سے تعبیر کیا گیا ہے یا نور کو وجود عقل کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے یا عقل کو الہی ہدیہ اور انسان کی اصل قرار دیا گیا ہے ،وہ انہیں معنی کیطرف اشارہ کرتی ہیں۔

ان احادیث کے مطابق انسان اپنے وجود میں ایک نورانی طاقت رکھتا ہے جو اسکی روح کی حیات ہے اگر یہ طاقت نشو ونما پائے اور سنور جائے تو انسان اسکی روشنی میں وجود کے حقائق کا ادراک، محسوس وغیر محسوس حقائق میں تمیز، حق و باطل میں امتیاز، خیر و شر اور اچھے و برے میں فرق قائم کر سکتا ہے ۔

اگر اس نورانی طاقت اور باطنی شعور کی تقویت کی جائے تو انسان کسبی ادراکات سے بلند ہو کر سوچے گا یہاں تک کہ تمام غیب کو غیبی بصیرت سے دیکھیگا اورہ رغیب اس کے لئے شہود ہو جائیگا۔ اسلامی نصوص میں اس رتبئہ عقل کو یقین سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

٢۔ فکر کا سرچشمہ

اسلامی متون میں عقل کو فکر و نظر کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے ۔ ان موارد میں عقل ہوشیاری، فہم اور حفظ کے معنی میں استعمال ہوئی ہے جس کا مرکز دماغ ہے ۔

وہ آیات و احادیث جن میں انسان کو تعقل اور غور و فکر کی طرف ابھارا گیا ہے اسی طرح وہ احادیث جن میں عقل تجربی اور عقل تعلمی کو فطری و موہوبی عقل کے ساتھ بیان کیا ہے یہ ایسے نمونے ہیںجن میں لفظ عقل منبعِ فکر میں استعمال ہوا ہے ۔

٣۔الہام کا سرچشمہ

اخلاقی وجدان ایک ایسی طاقت ہے جو انسان کے باطن میں اخلاقی فضائل کی طرف دعوت اور رذائل سے روکتا ہے بعبارت دیگر اخلاقی فضائل کی طرف فطری کشش اور رذائل کی طرف سے فطری نفرت کا احساس ہے ۔

اگر انسان خود کو تمام عقائد و سنن اور مذہبی و اجتماعی آداب سے جدا فرض کرکے مفہوم عدل و ظلم، خیر و شر، صدق و کذب، وفا ئے عہد اور عہد شکنی کے بارے میں غور کریگا تو اسکی فطرت یہ فیصلہ کریگی کہ عدل، خیر ، صدق اور وفائے عہد اچھی چیز ہے جبکہ ظلم ، شر ، جھوٹ اور عہد شکنی بری بات ہے ۔

فضائل کی طرف میلان اور رذائل کی طرف سے نفرت کے احساس کو قرآن نے الہی الہام سے تعبیر کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے :

ونفس وما سواھا فالھمھا فجورھا وتقواھا۔

قسم ہے نفس اور اسکی جس نے اسے سنوارا۔

یہ احساس اور یہ الہام انسان کےلئے خدا کی معرفت کا سنگ بنیاد ہے اسکا سرچشمہ یعنی نہفتہ احساس جو انسان کے اندر اخلاقی اقدار کا شعور پیدا کرتا ہے اسی منبع اسلام کو اسلامی متون میں عقل کہا گیا ہے اور تمام اخلاقی فضائل کوعقل کا لشکر اور تمام رذائل کو جہالت کا لشکر کہا گیا ہے ۔

نکتہ

بعض فلسفہ کی کتابوں میں اما م علی )ع( سے عقل کی تفسیر کے بارے میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جس کی تطبیق فلسفہ میں معانی عقل میں سے کسی ایک معنی پر کی جاتی ہے اور وہ حدیث یہ ہے :

قال السائل: یا مولای وما العقل؟ قالں: العقل جوھر درّاک، محیط بالاشیاء من جمیع جہاتھا عارف بالشی قبل کونہ فھو علۃ الموجودات ونہایۃ المطالب۔

سائل نے کہا: مولا! عقل کیاہے؟ فرمایا: عقل درک کرنے والا جوہر ہے جو حقائق پر تمام جہات سے محیط ہے۔ اشیاء کو انکی خلقت سے قبل پہچان لیتا ہے یہ جوہر سبب موجودات اور امیدوں کی انتہا ہے ۔

حدیث کے مصادر میں تلاشِ بسیار کے باوجود مذکورہ حدیث کا کوئی مدرک نہیں مل سکا۔

ب: عقل کا استعمال اورنتیجہ ادراکات

حقائق کی شناخت

لفظ عقل مدرِک کے ادراکات کے شعور میں تو استعمال ہوتا ہی ہے۔ مزید بر آن اسلامی متون میں عقلی مدرکات اور مبدا و معاد سے متعلق حقائق کی معرفت میں استعمال ہوتا ہے ۔

اور اسکی بہترین مثال وہ احادیث ہیںجو عقل کو انبیاء کا ہم پلہ اور خدا کی باطنی حجت قرار دیتی ہیں اسی طرح وہ احادیث جو عقل کو تہذیب وتربیت کے قابل سمجھتی ہیں اور اسی کو فضائلِ انسان کا معیار قرار دیتی ہیں کہ جس کے ذریعہ اعمال کی سزا و جزا دی جائیگی۔ یا عقل کو ''فطری''، ''تجربی''، ''مطبوع'' اور''مسموع'' میں تقسیم کرتی ہیں۔ عقل سے مراد شناخت و آگاہی ہے۔

عقل کے مطابق عمل

کبھی لفظ عقل کا استعمال قوت عاقلہ کے مطابق عمل کرنے کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ عقل کی تعریب کے بارے میں رسول خدا)ص( سے مروی ہے '' العمل بطاعۃ اﷲ و ان العمال بطاعۃ اﷲ ھم العقلائ'' عقل خدا کے احکام کی پیروی کرنے کو کہتے ہیں یقینا عاقل وہ لوگ ہیں جو خدا کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں۔

یا حضرت علی )ع( سے مروی ہے:'' العقل ان تقول ما تعرف و تعمل بما تنطق بہ'' عقل یہ ہے کہ جس کے بارے میں جانتے ہو وہ کہو اور جو کچھ کہتے ہو اس پر عمل کرو۔

لفظ جہل کا استعمال بھی لفظ عقل کے استعمال کی مانند طبیعت جہل کے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنے کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ دعا میں وارد ہو اہے'' وکل جہل عملتہ...''اور ہر جہالت کو انجام دیا ......

عقل کی حیات

عقل روح کی حیات ہے لیکن اسلامی نصوص کے مطابق اسکی بھی موت و حیات ہوتی ہے ، انسان کا مادی و معنوی تکامل اسی کی حیات کا رہینِ منت ہے ۔ بشر کی حیاتِ عقلی کا اصلی راز قوت عاقلہ (جو کہ اخلاقی وجدان ہے ) کا زندہ ہونا ہے الہی انبیاء کی بعثت کے اغراض میں سے ایک اساسی غرض یہ بھی ہے۔

حضرت علی -نے اپنے اس جملہ ''ھو یثیر والھم وفائن العقول'' (اور ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں) کے ذریعہ بعثت انبیاء کے فلسفہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اسرار کائنات کو کشف کرنے کےلئے فکر کو زندہ کرنا انسان کےلئے ممکن ہے ؛ لیکن کمال مطلق کی معرفت کےلئے عقل کو زندہ کرنا اور اعلیٰ مقصد انسانیت پر چلنے کےلئے منصوبہ سازی صرف خدا کے انبیاء ہی کےلئے ممکن ہے۔

قرآن و حدیث میں جو کچھ عقل و جہل اور عقل کے صفات و خصائص اور اس کے آثار و احکام کے بارے میں ذکر ہوا ہے وہ سب ہی عقل کے اسی معنی سے مخصوص ہے ۔

جب انسان انبیاء کی تعلیمات کی روشنی میں حیات عقلی کے بلند ترین مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو اس میں ایسی نورانیت و معرفت پیدا ہو جاتی ہے کہ جس کے نتیجہ میں نہ فقط یہ کہ عقل خطا سے دو چار نہیں ہوتی بلکہ انسانیت کے اعلیٰ مقاصد تک پہنچنے کےلئے مدد گار بھی ہے ۔

چنانچہ علی - فرماتے ہیں :

ایسے شخص نے اپنی عقل کو زندہ رکھا ہے ، اور اپنے نفس کو مردہ بنا دیا تھا۔ اسکا جسم باریک ہو گیا ہے اور اس کا بھاری بھرکم جسد ہلکا ہو گیا ہے اس کے لئے بہترین ضو فشاں نور ہدایت چمک اٹھا ہے اور اس نے راستے کو واضح کر کے اسی پر چلا دیا ہے ۔ تمام در وازوں نے اسے سلامتی کے دروازہ اور ہمیشگی کے گھر تک پہنچا دیا ہے اور اس کے قدم طمانینتِ بدن کے ساتھ امن و راحت کی منزل میں ثابت ہو گئے ہیں کہ اس نے اپنے دل کو استعمال کیا ہے اور اپنے رب کو راضی کر لیا ہے ۔

بنا بر ایں اور حقیقی علم و حکمت کی اس تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے جو ہم نے کتاب'' علم و حکمت قرآن و حدیث کی رونشی میں'' بیان کی ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی نصوص نے انسان کے وجود میں باطنی نورانی قوت کو بیان کرنے کےلئے تین اصطلاحیں ، علم، حکمت اور عقل پیش کی ہیںاور یہ نورانی قوت، انسان کو مادی و معنوی تکامل کی طرف ہدایت کرتی ہے لہذا اسکو نور علم سے اور چونکہ اس قوت میں استحکام پایا جاتا ہے اور خطا کا امکان نہیں ہوتا لہذا حقیقی حکمت سے اور یہی قوت انسان کو نیک اعمال کے انتخاب پر ابھارتی ہے اور اسے فکری و عملی لغزشوں سے باز رکھتی ہے لہذا اسے عقل سے تعبیر کرتے ہیں۔ علم و حکمت اور عقل کے سرچشمے، اسباب آثار اور آفات و موانع کی تحقیق سے یہ مدعا اچھی طرح ثابت ہو جاتا ہے۔

عقل نظری اور عقل عملی

عقل نظری و عقل عملی کے سلسلہ میں دو نظریہ موجود ہیں :

پہلا نظریہ یہ ہے کہ عقل، ادراک کا سرچشمہ ہے ، یہاں پر عقل نظری و عقل عملی میں کوئی فرق نہیں ہے ؛ بلکہ فرق مقصد میں ہے۔ اگر کسی چیز کے ادراک کا مقصد معرفت ہو تو اس کے چشمہئ ادراک کو عقل نظری کہتے ہیں؛ جیسے حقائقِ وجودکا ادراک اور اگرکسی چیز کے ادراک کا مقصد عمل ہو تو اس کے سر چشمہ ادراک کو عقل عملی کہتے ہیں؛ جیسے عدل کے حسن، ظلم کے قبیح، صبر کے پسندیدہ اور اور بیتابی کے مذموم ہونے کی معرفت وغیرہ....اس نظریہ کی نسبت مشہور فلاسفہ کی طرف دی گئی ہے اور اس نظریہ کی بناء پر عقل عملی ، ادراک کا سر چشمہ ہے نہ کہ تحریک کا۔

دوسرا نظریہ ، یہ ہے کہ عقل عملی و عقل نظری میں بنیادی فرق ہے ، یعنی ان دونوں کے سرچشمہئ ادراک میں فرق ہے ، عقل نظری، سر چشمہ ادراک ہے چاہے ادراک کا مقصد معرفت ہو یا عمل؛ اور عقل عملی عمل پر ابھارے کا سر چشمہ ہے نہ کہ ادراک کا۔عقل عملی کا فریضہ، عقل نظری کے مدرکات کا جاری کرنا ہے ۔

سب سے پہلے جس نے اس نظریہ کو مشہور کے مقابل میں اختیار کیا ہے وہ ابن سینا ہیں ان کے بعد صاحب محاکمات قطب الدین رازی اور آخر میں صاحب جامع السعادات محقق نراقی ہیں۔

پہلا نظریہ، لفظ عقل کے مفہوم سے زیادہ قریب ہے اور اس سے زیادہ صحیح یہ ہے کہ عقل عملی کی مبدأِ ادراک و تحریک سے تفسیر کی جائے کیونکہ جو شعور اخلاقی اور عملی اقدار کو مقصد قرار دیتا ہے وہ مبدأِ ادراک بھی اور عین اسی وقت مبدأ تحریک بھی ہے اور یہ قوت ادراک وہی چیز ہے کہ جس کو پہلے وجدان اخلاقی کے نام سے یاد کیا جا چکا ہے ۔ اور نصوص اسلامی میںجسے عقل فطری کا نام دیا گیا ہے ، اس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔

عقل فطری اور عقل تجربی

اسلامی نصوص میں عقل کی عملی و نظری تقسیم کے بجائے دوسری بھی تقسیم ہے اور وہ عقل فطری اور عقل تجربی یا عقل مطبوع اور عقل مسموع ہے ، امام علی - فرماتے ہیں :

العقل عقلان: عقل الطبع و عقل التجربہ، و کلاھما یؤدی المنفعۃ۔

عقل کی دو قسمیںہیں: فطری اور تجربی اور یہ دونوں منفعت بخش ہیں۔

نیز فرماتے ہیں :

رأیت العقل عقلین

فمطبوع و مسموع

ولا ینفع مسموع

اذا لم یک مطبوع

کما تنفع الشمس

و ضوء العین ممنوع

میں نے عقل کی دو قسمیں دیکھیں۔ فطری اور اکتسابی، اگر عقل فطری نہ ہو تو عقل اکتسابی نفع بخش نہیں ہو سکتی، جیسا کہ آنکھ میں روشنی نہ ہو تو سورج کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

ملحوظ خاطر رہے کہ علم کی بھی یہی تقسیم آپ سے منقول ہے :

العلم علمان: مطبوع و مسموع ولا ینفع المسموع اذا لم یکن المطبوع۔

علم کی دو قسمیں ہیں: فطری اور اکتسابی ، اگر فطری علم نہ ہو تو اکتسابی علم فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

سوال یہ ہے کہ فطری عقل و علم کیا ہیں اور اکتسابی عقل و علم میں کیا فرق ہے ؟ اور فطری عقل و علم نہ ہونے کی صورت میں عقل تجربی اور علم اکتسابی فائدہ کیوں نہیں پہنچا سکتے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بظاہر فطری عقل و علم سے مقصود ایسے معارف ہیںکہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوںکی فطرت میں ودیعت کیا ہے تاکہ اپنی راہ کمال پا سکیںاور اپنی غرض خلقت کی انتہا کو پہنچ سکیں۔ قرآن نے اس فطری معارف کو فسق و فجور اور تقویٰ کے الہام سے تعبیر کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے :

ونفس وما سواھا فالھمھا فجورھا و تقواھا۔

قسم ہے نفس اور اسکی جس نے اسے سنوارا ہے۔

اسی کو دور حاضر میں وجدان اخلاقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

عقل فطری یا وجدان اخلاقی ادراک کا سر چشمہ اور تحریک عمل کا منبع بھی ہے۔

اور اگر اسے انبیاء کی تعلیمات کی بنیاد پر زندہ کیا جائے اور رشد دیا جائے تو انسان وہ تمام معارف جو کسب و تجربہ کے راستوں سے حاصل کرتا ہے ان سے فیضیاب ہو سکتا ہے اور اسے انسانیت کی پاکیزہ زندگی میسر آجائےگی۔اگر عقل فطری خواہشات نفسانی کی پیروی اور شیطانی وسوسوں کے سبب مردہ ہو جائے تو انسان کو کوئی بھی معرفت اسکی مطلوب ومقصود زندگی تک نہیںپہنچا سکتی اور نہ ہی اس کے لئے مفید ہو سکتی ہے؛جیسا کہ امیر المومنین )ع( کے حسین کلام میں موجود ہے کہ: عقل فطری کی مثال آنکھ کی سی ہے اور عقل تجربی کی مثال سورج کی سی ہے ، جیسا کہ سورج کی روشنی نابینا کو پھسلنے سے نہیں روک سکتی اسی طرح عقل تجربی بھی پھسلنے اور انحطاط سے ان لوگوں کو نہیں روک سکتی کہ جنکی عقل فطری اور وجدان اخلاقی مردہ ہو چکے ہیں۔

عاقل و عالم کا فرق

ہم کتاب'' علم و حکمت ، قرآن و حدیث کی روشنی میں'' کے پیش گفتار میں وضاحت کر چکے ہیں کہ لفظ علم اسلامی نصوص میں دو معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ، ایک جوہر و حقیقت علم اور دوسرے سطحی و ظاہری علم، پہلے معنیٰ میں عقل اور علم میں تلازم پایا جاتا ہے ، جیسا کہ امیر المومنین )ع( فرماتے ہیں :

العقل و العلم مقروناِ فی قرن لا یفترقان ولا یتباینان۔

عقل اور علم دونوں ایک ساتھ ہیںجو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے اور نہ آپس میں ٹکراتے ہیں۔

اس بنیاد پر عالم و عاقل مینکوئی فرق نہیں ہے ۔ عاقل ہی عالم ہے اور عالم ہی عاقل ہے نیز ارشاد پروردگار ہے :

تلک الامثال نضربھا للناس وما یعقلھا الا العالمون۔

یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔

لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے؛ عاقل اور عالم میں فرق ہے ، علم کو عقل کی ضرورت ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کوئی عالم ہو لیکن عاقل نہ ہو۔ اگر علم ، عقل کے ساتھ ہو تو عالم اور کائنات دونوںکےلئے مفید ہے اور اگر علم ، عقل کے بغیر ہو تو نہ فقط یہ کہ مفید نہیںہے بلکہ مضر اور خطرناک ہے۔

عقل کے بغیر علم کا خطرہ

امام علی )ع( کا ارشاد ہے العقل لم یجن علیٰ صاحبہ قط و العلم من غیر عقل یجنی علیٰ صاحبہ'' عقل، صاحب عقل کو کبھی تکلیف نہیں پہنچاتی لیکن عقل کے بغیر علم، صاحب علم کو نقصان پہنچاتا ہے ۔

دورحاضر میں علم کافی ترقی کر چکا ہے لیکن عقل کم ہو گئی ہے ، آج کا معاشرہ مولائے کائنات کے اس قول کا مصداق بنا ہوا ہے :

من زاد علمہ علیٰ عقلہ کان وبالا علیہ۔

جس شخص کا علم اسکی عقل سے زیادہ ہو تا ہے وہ اس کےلئے وبال ہو جاتا ہے ۔

نیز اس شعر کا مصداق ہے ۔

پہلا حصہ

عقل اس حصہ کی فصلیں :

پہلی فصل: معرفت عقل

دوسری فصل: عقل کی قیمت

تیسری فصل: تعقل

چوتھی فصل: عقل کے رشد کے اسباب

پانچویں فصل : عقل کی نشانیاں

چھٹی فصل : عقل کی آفتیں

ساتویں فصل : عقل کے احکام

پہلی فصل معرفت عقل

حقیقت عقل

١۔ رسول خدا)ص(: عقل ایک نور ہے جسے خدا نے انسان کے لئے پیدا کیا ہے ، اور اسے دل کے لئے روشنی قرار دیا ہے تاکہ دکھائی دینے والی اور دکھائی نہ دینے والی چیزوں میں فرق محسوس کر سکے۔

٢۔ رسول خدا)ص(: عقل دل میں ایک نور ہے جس سے دل حق و باطل میں فرق کرتا ہے ۔

٣۔رسول خدا)ص(: عقل دل میں اس چراغ کی طرح ہے جو گھر کے اندر ہوتا ہے ۔

٤۔ امام علی )ع(: سے منسوب کلمات قصار میں ہے روح بدن کی زندگی اور عقل روح کی حیات ہے ۔

٥۔ امام صادق)ص(: خدا نے عقل کو چار چیزوں علم، قدرت، نور اورمشیت امر سے پیدا کیا ہے پس عقل کو علم سے قائم کیا ہے اور اسے ملکوت میں جاوداں قرار دیاہے ۔

٦۔ امام صادق)ص(: انسان کی بنیاد و بقاء چار چیزوں آگ، نور، ہوا اور پانی سے ہے آگ سے کھاتااور پیتا ہے ، نور سے دیکھتا اور سوچتا ہے ...، اگر انسان کی آنکھوں میں نور نہ ہوتا تو اس میں دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیت نہ ہوتی۔

٧۔ امام کاظم )ع(: عقل روح کا نورہے ۔

١/٢

عقل و جہل کی خلقت

قرآن

نفس اور اس ذات کی قسم جس نے اسے سنوارا، پھر اس پر فسق و فجور اور تقویٰ و پرہیزگاری کا الہام کیا۔

اور برائیوں پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں۔

اور میں اپنے نفس کو بری نہیں قرار دیتا کیوں کہ نفس یقینا برائیوں کا حکم دینے والا ہے مگر یہ کہ کسی پر میرا پروردگار رحم کرے کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

حدیث

٨۔ رسول خدا)ص(: خدا ئے تبارک و تعالیٰ نے عقل کو اس ذخیرہئ نور سے پیدا کیا ہے جو اس کے علم سابق میں مخفی تھا کہ جس کی کسی نبی مرسل اور ملک مقرب کو اطلاع نہ تھی۔

٩۔ رسول خدا)ص(: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے عقل کو خلق کیا ہے ۔

١٠۔ رسول خدا)ص(: خدا نے عقل کو پیدا کیا پھر اس سے ہمکلام ہوا اس نے جواب دیا، تو خدا نے فرمایا: میری عزت و جال کی قسم میں نے ایسی کوئی مخلوق نہیں پیدا کی ہے جو میرے نزدیک تجھ سے زیادہ محبوب ہو، تیرے واسطے لیتا ہوں اور تیرے واسطے عطا کرتا ہوں۔ میری عزت کی قسم جسے میں دوست رکھتا ہوں اس میں تجھے کامل کر دیتا ہوں، اور جسے ناپسند کرتا ہوں اس میں تجھے ناقص قرار دیتا ہوں۔

١١۔ امام علی )ع(: خدائے عز و جل نے فرشتوں میں عقل شہوت نہیں، جانوروں میں شہوت عقل نہیں اور انسانوں میں عقل و شہوت دونوں کو رکھا ہے ، لہذا جس کی عقل شہوت پر غالب آگئی وہ فرشتوں سے بہتر اور جس کی شہوت اسکی عقل پر غالب آگئی وہ چوپایوں سے بدتر ہے ۔

١٢۔ امام صادق)ص(: خدا نے عقل کو پیدا کیا ہے اور یہ عرش کی دائیں جانب کی روحانی مخلوق میں سے پہلی مخلوق ہے جسے خدا نے اپنے نور سے پیدا کیا ہے ، پھر اس سے کہا: پیچھے ہٹو وہ پیچھے ہٹ گئی، پھر کہا آگے آؤ آگے آگئی، اس کے بعد خدائے تبارک و تعالیٰ نے کہا: میں نے تجھے عظیم مخلوق بنایا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوق پر عزت دی ہے ۔

پھر خدا نے جہل کو کھارے اور تاریک دریا سے پیدا کیا۔ پھر اس سے کہا: پیچھے ہٹ، پیچھے ہٹ گیا، پھر کہا: آگے آ لیکن آگے نہیں آیا، اس سے کہا: تم نے غرور کیا، تو اس پر لعنت کی۔

١٣۔ امام صادق)ص(: خدا نے''فألھمھا فجورھا و تقواھا'' کے ذریعہ نفس کی ہدایت کی ہے کہ نفس کس چیز کو انجام دے اور کس کو انجام نہ دے۔

١٤۔ امام صادق)ص(: نے اس آیت ''و نفس و ما سواھا'' کی تفسیر میں فرمایا: خدا نے نفس کو پیدا کیا اور سنوارا ہے اور آیت (فالھمھا فجورھا و تقواھا) کے سلسلہ میں فرمایا(خدا نے ) نفس کی برائیوں اور اچھائیوں کی طرف ہدایت کی ہے پھر اسے اختیار دے کر مختار بنادیا۔

خلقت عقل اور جہل پر ایک طائرانہ نظر

خلقت عقل و جہل اور ان دو متضاد عناصر کے مرکب ہونے کی کیفیت اور انسان میں ان کے مرکب ہونے کا فلسفہ اسلامی نقطہ نظر سے انسان شناسی کے اساسی ترین مسائل اور الٰہی آئین کے اہم ترین تربیتی اسباب میں سے ہے ۔ لہذا اس باب کی احادیث کی روشنی میں ان مسائل کے سلسلہ میں مختصر توضیح ذیل میں پیش کی جا رتی ہے۔

١۔خلقت عقل

احادیث کی روشنی میں ذکر ہو چکا ہے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ خلقت عقل کا مقصد پوشیدہ شعور کو بیدار کرنا ہے کہ جس کی حقیقت کو صرف خدا جانتا ہے ۔ لہذا یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ علمی تحقیقات عناصر عقل کی حقیقت کشف کر سکیں گے لیکن خصوصیات و آثار کے لحاظ سے عقل کی تعریف کی جاسکتی ہے ۔ اہم ترین خصوصیات حسب ذیل ہیں۔

الف۔پہلی مخلوق

یہ خصوصیت متعدد حدیثوں میں قابل غور ہے ممکن ہے کہ اس چیز کی طرف بھی اشارہ کیا جائے کہ انسان کی حقیقی ماہیت صرف عقل ہے، وہ چیزجو صراحت کے ساتھ دوسری روایات میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ خلقت کے اعتبار سے انسان کی حقیقت و ماہیت عقل ہے بقیہ چیزیں اس میں عقل کی بدولت پیدا کی گئی ہیں۔

ب۔ نور سے خلقت

عقل کا اساسی کام روشن کرنا، حقائق نمائی، مستقبل بینی اور انسان کو عقائد ، اخلاق اور نیک اعمال کے راستے پر لگانا ہے مختصر یہ کہ عقل کمال تک پہنچانے کا وسیلہ ہے ۔

ج۔صرف حق کی طرف میلان

اگر عقل کے ساتھ جہل کی آمیزش نہ ہو تو عقل صرف حق کی پرستار ، اور صرف حق کی تابع ہوتی ہے اور حق کے سوا کسی اور چیز کو قبول نہیں کرتی ہے ۔

خدا نے عقل سے کہا: پیچھے ہٹو وہ پیچھے ہٹی پھر فرمایا: آگے آؤ وہ آگے آگئی۔

٢۔ جہل کی خلقت

بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جہل کاپیدا کرنا بے معنی ہے ، چونکہ جہل کے معنیٰ عدم علم کے ہیں اور عدم کو خلق نہیں کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے وہ احادیث جو جہل کی خلقت پر دلالت کرتی ہیں ان کی توجیہ بیان کی جائے۔ لیکن غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہل کی خلقت کا مقصد پوشیدہ شعور کو بیدار کرنا ہے جو عقل کے مقابل میں ناشائستہ کاموں کی طرف ابھارتا ہے جہالت و حماقت اسے برائیوں پر اکساتے ہیں نفس امارہ جو کہ برے کاموں کو خوبصورت و دلکش بنا کر پیش کرتا ہے اسے ، شہوت کہتے ہیں جس کے خصوصیات درج ذیل ہیں :

الف۔ عقل کے بعد

اس خصوصیت سے اس چیز کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جہل کا وجود عقل کی طرح اصلی نہیں ہے بلکہ عقل کے خاص فلسفہ و حکمت کی خلقت کے بعد انسان کے اندرپیدا ہو جاتا ہے ۔

ب۔ کدورت و ظلمت

قوائے عقل نور سے اور قوائے جہل کدورت و ظلمت سے پیدا ہوئے ہیں اس سے اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ قوائے جہل کے تقاضوں کی بنا پر انسان اوہام ، برے اخلاق اورناشائستہ اعمال کا مرتکب ہوتا ہے جس کا نتیجہ ضلالت و گمراہی اور حسرت و ناکامی ہے ۔

ج۔محض باطل پرستی

عقل کے بر خلاف جہل صرف باطل کے سامنے تسلیم ہوتا ہے اگرمحض جہل ہو تو کبھی حق کا تابع نہیں ہوگا۔

خدا نے جہل سے کہا : پیچھے ہٹ، پیچھے ہٹ گیا پھر کہا آگے توآگے نہیں آیا۔

٣۔عقل و جہل کا امتزاج

عقل و جہل کے اہم ترین قابل غور نکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ دونوں انسان میں یک جا ہو گئے حضرت علی )ع( نے اسکی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :

خدا نے ملائکہ میں عقل شہوت نہیں، جانوروں میں شہوت عقل نہیں اور بنی آدم میں دونوں کو قرار دیا ہے ۔جہل کو امام ؑ نے شہوت سے تعبیر کیا ہے ، فرشتوں میں صرف عقل ہے اور چوپایوں میں فقط شہوت ہے ، فرشتے عقل محض، چوپائے جہل محض اور انسان میں عقل و جہل یا عقل و شہوت یا عقل و نفس امارہ دونوں کا اختلاط ہے ۔

٤۔ عقل و جہل سے مرکب ہونے کا فلسفہ

عقل و جہل کی خلقت میں اہم نکتہ ان د د متضاد چیزوںکا آپس میں مرکب ہونا ہے ، خدائے حکیم نے انسان میں نفس امارہ کیوں رکھا ہے؟ اسے شہوت کیوں دی ہے کہ وہ جہالت کی طرف بڑھے ؟ انسان کو فرشتوں کی طرح بغیر شہوت کے عقل کیوں نہیں عطاکی ہے کہ وہ برائیوں کی طرف نہ بڑھے؟ !

اس کا جواب یہ ہے کہ خدا ایک صاحب اختیار موجود کو خلق کرنا چاہتا تھااور انسان کے اندر عقل و جہل کے اس امتزاج کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ وہ آزاد و مختار رہے۔

فرشتوں میں چونکہ شہوت نہیںہوتی لہذا ناشائستہ اعمال انجام نہیں دے سکتے وہ صرف عقل کے تابع ہوتے ہیں کوئی دوسرا راستہ نہیں اختیار کر سکتے ، چوپائے چونکہ عقل نہیں رکھتے ہیں لہذا وہ صرف شہوت کے تابع ہوتے ہیں لیکن انسان میں عقل و شہوت دونوں ہیں اس لئے وہ صاحب اختیار ہے جس کو چاہے اختیار کرے۔

لیکن چونکہ انسان عقل و شہوت سے مرکب ہے لہذا وہ آزاد ہے اور صاحب اختیار بھی ہے اور اسی چیز کے باعث وہ تمام مخلوقات سے افضل و برتر ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ خدا نے انسان کی خلقت کے وقت اپنی ذات پر فخرکیاہے ارشاد ہے''لقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین...الیٰ ۔فتبارک اللہ احسن الخالقین'' اور ہم نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے....تو کس قدر با برکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے۔

اور نیز پیغمبر اسلام)ص( کا ارشاد ہے :

ما من شیء اکرم علٰی اﷲ من ابن آدم، قیل : یا رسول اﷲ! ولا الملائکۃ؟ قال: الملائکۃ مجبورون بمنزلۃ الشمس و القمر۔

خدا کے نزدیک بنی آدم سے زیادہ محترم کوئی چیز نہیں ہے پوچھا گیا: حتی فرشتے بھی؟ فرمایا: فرشتے سورج اور چاند کی طرح مجبور ہیں ۔

البتہ اس میں موجود یہ فضیلت اس وقت ظہور پذیر ہوگی جبکہ وہ اپنی اس آزادی سے صحیح طور پر فائدہ اٹھائے لیکن اگر اس آزادی سے غلط فائدہ اٹھایا تو اسکی عقل مغلوب اور اسکی نعمت آزادی عذاب میں تبدیل ہو جائیگی جیسا کہ امام علی -کا ارشاد ہے جو پہلے ذکر ہو چکا ہے ۔

فمن غلب عقلہ شھوتہ ھو خیر من الملائکۃ و من غلب شہوتہ عقلہ فھو شر من البھائم۔

جس کی عقل اسکی شہوت پر غالب آگئی وہ فرشتوں سے بہتر اور جس کی شہوت اسکی عقل پر غالب آگئی وہ چوپایوں سے بدتر ہے ۔

مرکز عقل

١٥۔ اما م علی )ع(: عقل دل میں ہوتی ہے ۔

١٦۔ امام علی )ع(: دل اعضاء و جوارح کا حاکم ہے جس سے وہ سوچتے و سمجھتے ہیں اور جس کے حکم کے مطابق حرکت میں آتے ہیں۔

١٧۔ امام صادق(ع): عقل کا مرکزدل ہے ۔

١٨۔ اما صادق ؑ :(طبیب ہندی سے مناظرہ) طبیب نے کہا: مجھے یہ بتائےے کہ آپ اپنے جس پروردگارکی قدرت و ربوبیت کی توصیف کرتے ہیں اس کی معرفت پر کس طرح استدلال کرتے ہیں حالانکہ دل تمام چیزوں کو حواس خمسہ کے ذریعہ جانتا ہے جس کو میں بیان کر چکا ہوں؟

امام صادق ؑ نے فرمایا: میں خدا کی معرفت اس عقل سے حاصل کرتا ہوں جو میرے دل میں ہے اور اسی دلیل سے اسکی معرفت پر حجت قائم کرتا ہوں۔

١٩۔ امام صادق)ص(: عقل کی جگہ دماغ ہے ،کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ کم عقل انسان سے یہ کہا جاتا ہے کہ تم دماغ کے کتنے ہلکے ہو؟ !

٢٠۔ ابن عباس: خدائے تبارک و تعالیٰ نے جناب داؤد ؐ پر وحی کی...اپنے بیٹے کو دیکھو اور اس سے چودہ چیزوں کے بارے میں سوال کرو، اگر جواب دے دیا تو علم و نبوت میں اسے وارث قرار دو.... لہذا جناب داؤد ؑ نے جناب سلیمان ؑ سے کہا، بیٹا ! مجھے یہ بتاؤ عقل کی جگہ کہاں ہے ؟ جناب سلیمان نے کہا: دماغ .....

٢١۔ وہب بن منبِّہ : جناب آدم کی پیدائش کے متعلق توریت میں اس طرح آیاہے ...انکی عقل کو ان کے دماغ میں رکھا گیا۔

وضاحت

آپ ملاحظہ کر چکے ہیں کہ اس باب کی بعض احادیث میں عقل و ادراک کا مرکز دل کوقرار دیا گیا ہے جبکہ اسی باب کی بعض دوسری احادیث میں دماغ کو قرار دیا گیا ہے ،توکیا یہ روایات آپس میں ٹکرا رہی ہیں؟ یا انسانی ادراکات کے دومرکزہیں یعنی دل اور دماغ جو عرضی مرکز شناخت ہیں؟ یا دونوں ترتیب وار مرکزِ شناخت ہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ان روایات میںکوئی تعارض نہیں ہے بلکہ اسلامی نصوص و روایات میں قلب چار معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

١۔ خون کا تصفیہ کرنے والا

٢۔ عقل

٣۔ شہودی شناخت کا مرکز

٤۔ روح

قلب چوتھے معنی کے اعتبارسے انسانی تمام ادراکات کا اصلی سر چشمہ ہے اور وہ روایات جن میں عقل کا مرکز دل کوقرار دیا گیا ہے ان میں ان معنی کی طرف اشارہ موجود ہے کہ دماغ جس کا تعلق حواس خمسہ سے ہے ، قلب کے تحت ہوتا ہے مقابل میں نہیں ۔

لہذا یہ کہا جا سکتا ہے عقل کا مرکزدماغ ہے کیونکہ انسانی ادراکات دماغ کے راستے سے روح تک پہنچتے ہیں اور عقل کی جگہ دل کو بھی بتا یا جا سکتا ہے کیوں کہ دل جب روح کے معنی میں ہوگا تو اس صورت میں تمام حسی ، عقلی اور شہودی ادراکات کا سر چشمہ قرار پائیگا۔

١/٤

عقل کی اقسام

٢٢۔ امام علی )ع(: عقل کی دو قسمیںہیںفطری اورتجربی اور یہ دونوں فائدہ مند ہیں۔

٢٣۔ امام علی )ع (:

عقل کی دوقسمیں ہیں فطری اور اکتسابی ،

عقل اکتسابی بغیر عقل فطری کے مفید نہیں ہے ۔

جیساکہ آنکھ کی بینائی کے بغیر سورج کی روشنی بے سود ہے ۔

١/٥

ادوار حیات میں عقل کا کم وزیادہ ہونا

٢٤۔ امام علی )ع(: جب عقلمند بوڑھا ہوتا ہے تو اسکی عقل جوا ن ہوتی ہے اور جب جاہل بوڑھا ہوتا ہے تو اسکی جہالت جوان ہوتی ہے۔

٢٥۔ امام علی )ع(: انسان میں عقل اور نادانی کا غلبہ اٹھارہ برس تک ہوتا ہے جب پورے اٹھارہ سال کا ہو جاتا ہے تو ان دونوں میں جو چیز زیادہ ہوتی ہے وہی اس پر غالب رہتی ہے ۔

٢٦۔ امام علی )ع(: بچے سات سال کی عمر میں کمسنی سے چھٹکارا پاتے ہیںنو سال کی عمر میں انہیں نماز کاحکم دیا جاتا ہے ، دس سال کی عمر میں ان کا سونے کا بستر جدا کر دیا جاتا ہے چودہ سال کی عمر میں بالغ ہوجاتے ہیںاور اکیس سال کی عمر تک قد بڑھتا ہے اور اٹھائیس سال کی عمر تک عقل بلا کسی تجربہ کے رشد کرتی ہے ۔

٢٧۔ امام علی )ع(: بچے سات سال کی عمر میں بچپنے کی منزل سے نکلتے ہیں ، چودہ سال کی عمر میں بالغ ہوتے ہیں اور چوبیس سال کی عمر تک قد بڑھتا ہے اور اٹھائیس سال تک عقل کامل ہوتی ہے اورجو کمال و رشد اس کے بعد آتا ہے وہ تجربہ کی بدولت ہے ۔

٢٨۔ امام علی )ع(: بچے سات سال میں پرورش پاتے ہیں، سات سال میں تربیت پاتے ہیں، سات سال میں ان سے کام لیا جاتاہے اورتیئیس سال تک قد بڑھتا ہے ...، اور عقل کی رشد پینتیس سال تک ہوتی ہے اس کے بعد جو (عقلی رشد) ہوتا ہے وہ تجربات کی دین ہے ۔

٢٩۔ امام باقر ؑ : جب انسان بڑا ہو جاتا ہے تو اس کے دونوں اطراف کا شر ختم ہو جاتا ہے جبکہ دونوںکی خوبی و نیکی باقی رہتی ہے ۔ اسکی عقل ثابت اور رائے پختہ ہو جاتی ہے اور جہالت کم ہوجاتی ہے۔

٣٠۔ امام صادق)ص(: انسان کی عقل چالیس سال سے پچاس ساٹھ سال تک بڑھتی ہے پھر اس کے بعد گھٹنے لگتی ہے ۔

عقل کے گھٹنے اور بڑھنے کا زمانہ

تعلیم و تربیت کے اہم ترین مسائل میں سے ان دونوںکے اوقات کالحاظ رکھنا ہے چونکہ جو بے وقت تعلیم و تربیت شروع کرتا ہے وہ یقیناکامیاب نہیں ہوتا۔ لہذا یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ انسان میں کس عمر تک عقل بڑھتی ہے اور کب متوقف ہوتی ہے تاکہ تربیت کے لئے مناسب وقت کاانتخاب کیا جاسکے، اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے متعلق احادیث پیش کی گئی ہیں۔

اس باب کی احادیث میں یہ اہمیت دی گئی ہے کہ کس عمر میں انسان کی زندگی میں کامیابی اور کس عمر میں عقلی رشد متوقف ہو جاتا ہے اور کب سے عقل کی فرسودگی کا آغاز ہوتا ہے اور فکر کس طرح ہمیشہ زندہ و پائندہ رہ سکتی ہے ۔

الف۔ تقدیر ساز موڑ

پچیسویں حدیث میں انسان کی زندگی میںکامیابی اٹھارہ سال تک بیان کی گئی ہے ان اوقات میں تربیتی لحاظ سے اسکی ترقی کی سمتیں معلوم ہو جاتی ہیں یااسے عقلی قویٰ تسخیر کر لیتی ہیں۔یابوالھوسی و شہوت پرستی کا شکار ہو جاتا ہے پھر اس کے بعد انسان کے لئے اپنی راہ زندگی کا بدلنا دشوار ہو جاتا ہے ۔

ب۔رشد عقلی کا توقف

چھبیسویں اور ستائیسویںاحادیث کے مطابق انسان کی فطری عقل کا رشد اٹھائیس سال کی عمر میں ٹھہر جاتا ہے اور اٹھائیسویں حدیث کے مطابق فطری عقل کا رشد پینتیس سال میں رک جاتا ہے پھر اس کے بعد عقلی قوی کا رشد تجربات کے ذریعہ ہوتا ہے ۔

ج۔ عقلی فرسودگی کا آغاز

تیسویں حدیث کے مطابق انسان میں عقلی قوی کا رشد ساٹھ سال تک ممکن ہے پھر اس کے بعد عقل کی فرسودگی کا آغاز ہوتا ہے قرآن مجید نے بھی عقلی فرسودگی کے آغاز کے وقت کو دقیق طور پر ذکر کئے بغیر دو آیتوں میں بڑھاپے کے عالم میں انسانی قوائے ادراک کے مضمحل ہونے کا ذکر کیا ہے ۔

د۔ بڑھاپے میں عقل کا شباب

انیسویں اور چوبیسویں حدیث میں بڑھاپے میں عقل کے قوی و جوان ہونے کو مد نظر رکھا گیا ہے عقلمند کی عقل بڑھاپے کی حالت میںگھٹنے اور فرسودہ ہونے کے بجائے مزیدقوی اور جوان ہوتی ہے لہذا دوسری روایت میں علی )ع( سے منقول ہے :

رأی الشیخ أحبُّ الی ّ من جلد الغلام۔

ایک بوڑھے کی رائے میرے نزدیک جوان کی ہمت سے زیادہ محبوب ہے ۔

دوسری حدیث میں اس طرح نقل ہواہے :

رأی الشیخ احب الیّ من حیلۃ الشاب۔

بوڑھے کی رائے میرے لئے جوان کی تدبیر سے زیادہ محبوب ہے ۔

لیکن جاہل کی نادانی بڑھاپے میںکم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے لہذا بڑھاپے میں ان کی عقل فرسودہ ہوتی ہے کہ جنہوں نے جوانی میں عقل کی تقویت کے اسباب مہیا نہیں کئےے تھے۔

آخر میں اس موضوع کی ترتیب وار روایات کی وضاحت کے متعلق چند نکات اہمیت کے حامل ہیں :

١۔ مفہوم عقل کی طرف توجہ

ان روایات میں غور خوض کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ان تمام روایات میں عقل کا مقصد یکساں نہیںہے ۔ بلکہ ''الف''اور ''دال''میں عقل سے مراد عقل عملی اور ''ب'' و ''ج'' میں معانی عقل میں سے پہلے معنی یعنی معرفت و آگاہی کی استعداد مقصود ہے ۔

٢۔ روایات''ب'' کا اختلاف

عقل فطری کا رشد اکیسویں اور بائیسویں روایات میں اٹھائیس سال بعد اور تیئیسویں روایت میں پینتیس سال بعد موقوف ہوتا ہے ۔ ان روایات کے صحیح ہونے کی صورت میں اختلاف روایات کو راوی کے مختلف ہونے کی وجہ سے فرض کیا جائیگا۔

٣۔ تحقیق کی ضرورت

اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اس باب کی روایات کا سند کے لحاظ سے معتبر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ معصوم سے ان کے صدور کے اثبات کے لئے قرائن و شواہد کے اعتبار سے تحقیق ضروری ہے تاکہ روایات کے اختلاف کو اشخاص کے اختلاف پر حمل کیا جا سکے، امید ہے کہ مرکز تحقیقات دار الحدیث اس تحقیق کے مقدمات کو فراہم کریگا۔

٤۔ عقلی رشد کی کمی و بیشی کے اسباب

زندگی کے مختلف پہلووئں میں سے ایک عقل کی کمی و بیشی یا رشد عقلی ہے نیز اس سلسلہ کے دوسرے عوامل پانچویں فصل میں ''تقویت عقل کے اسباب'' کے عنوان سے موجود ہیں اور چھٹی فصل میں '' عقل کے آفات'' کے عنوان سے ذکر کئے جائیں گے۔

پہلا حصہ

عقل

          دوسری فصل عقل کی قیمت

٢/١

خدا کا تحفہ

٣١۔ رسول خدا(ص): عقل خدا کا تحفہ ہے ۔

٣٢۔ امام علی(ع(: عقلیں عطایا ہیں ، آداب کسبی ہیں۔

٣٣۔ امام علی(ع(: عقل فطری چیز ہے اور علم کسبی ہے ۔

٣٤۔ امام علی(ع(: جب خدا اپنے بندہ کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے پائدار عقل اور صحیح کردار سے نوازتا ہے ۔

٣٥۔ امام علی(ع(: جب خدا کسی انسان کو پائدار عقل اور صحیح کردار عطا کرتا ہے تو اس پر اپنی نعمتوں کو فراوان اور اپنے احسان کو زیادہ کرتا ہے ۔

٣٦۔ ابو ہاشم جعفری: میں امام رضا - کی خدمت میں حاضر تھا۔ عقل کا ذکر چھڑ گیاتو آپ ؑ نے فرمایا: اے ابو ہاشم! عقل خدا کا عطیہ ہے ...جو شخص زحمت سے خود کو عقلمند بنانا چاہتا ہے اس کے اندر جہالت کے سوا اور کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔

٣٧۔ سنن ادریس ؑ میں ہے جب خدا اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہے تو انہیں عقل سے سر فراز کرتا ہے اور اپنے انبیاء و اولیاء کو روح القدس سے مخصوص کیا ہے ۔

٢/٢

بہترین عطیہ

٣٨۔ رسول خدا(ص): خدا نے بندوں کے درمیان کوئی چیز عقل سے افضل تقسیم نہیںکی ہے ۔لہذا عقلمند کا سونا جاہل کے جاگنے سے بہتر ہے ، عاقل کا کھڑا رہنا جاہل کے چلنے سے افضل ہے خدا نے کسی نبی یا رسول کو اس وقت بھیجا جب ان کی عقل کامل اور تمام امت(والوں) کی عقلوں سے بہتر ہو گئی، جو کچھ نبی اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے وہ کوشش کرنے والوںکی کوششوں سے افضل ہے اور بندہ الٰہی فرائض کو اس وقت انجام دیتا ہے جب انہیں سمجھ لیتا ہے ۔ سارے عبادتگذار اپنی کثرت عبادت کے سبب عقلمند کے مرتبہ کو نہیں پاسکتے عقلاء ہی اولو الالباب (صاحبان عقل) ہیں۔ خدا نے ان کے بارے میں فرمایا ہے (وما یذکر الا اولو الالباب) صرف صاحبان عقل ہی وعظ و نصیحت کو قبول کرتے ہیں۔

٣٩۔ رسول خدا(ص): بابرکت ہے وہ (ذات) جس نے اپنے بندوںکے درمیان عقل کو مختلف پیرا یوںمیں تقسیم کیا ہے ۔ کبھی دو انسانوںکے کردار، نیکیوں ، روزوں اور نمازوں کے لحاظ سے برابر ہو جاتے ہیں لیکن عقل کے اعتبار سے دونوں میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتناذرہ اور کوہِ احد میں ہے۔ خدا نے اپنی مخلوق کے درمیان عقل سے بہتر کوئی حصہ تقسیم نہیںکیاہے۔

٤٠۔ تاریخ یعقوبی: رسول خدا(ص) سے پوچھا گیا: بندہ کو سب سے بہتر کون سی چیز عطا کی گی ئ ہے ؟ فرمایا: عقل فطری جو پیدا ئشی ہوتی ہے ۔ پھر پوچھا گیا۔ اگر کوئی اس سے بہرہ مند نہ ہو؟ فرمایا: عقل کسب کرے۔

٤١۔ جامع الاحادیث: امیر المومنین ؑ سے پوچھا گیا کہ ا نسان کو سب سے افضل جو چیز عطا کی گئی ہے وہ کیا ہے ؟فرمایا: عقل فطری پوچھا گیا: اگر عقل فطری نہ ہو؟ فرمایا:وہ بھائی ہے کہ جس سے مشورہ کیا جائے۔

پھر پوچھاگیا: اگر یہ بھی نہ ہو؟ فرمایا: بزم میں خاموش رہے پوچھا گیا: اگر یہ بھی نہ ہو؟ فرمایا :موت سر پہ ہے۔

٤٢۔ امام علی(ع(: بہترین عطیہ عقل ہے ۔

٤٣۔ امام علی(ع(: کامل نعمتوںکی نشانی عقل کی فراوانی ہے ۔

٤٤۔ امام علی(ع(: سب سے افضل نعمت عقل ہے ۔

٤٥۔ امام علی(ع(: انسان کا سب سے بہترین حصہ اسکی عقل ہے ۔ اگر اسکی رسوائی ہوتی ہے تو عقل اسے عزت بخشتی ہے اگر وہ پستی کی طرف جاتا ہے تو عقل اسے رفعت عطا کرتی ہے اور اگر گمراہ ہوتا ہے تو عقل اسکی ہدایت کرتی ہے اور اگر کچھہ کہتا ہے تو عقل اسکی حفاظت کرتی ہے ۔

٤٦۔ امام علی(ع(: عقل سے بہتر کوئی نعمت نہیں۔

٤٧۔ امام حسن (ع): عقل بندوںکے لئے خدا کا بہترین عطیہ ہے کیوں کہ یہ دنیوی آفات سے نجات اور آخرت میں عذاب دوزخ سے سلامتی کا باعث ہے ۔

٤٨۔ امام علی(ع(: آپ سے منسوب دیوان میں ہے : خدا کی طرف سے انسان کے لئے بہترین حصہ اسکی عقل ہے نیکیوں میں سے کوئی بھی نیکی اس کے مرتبہ کو نہیںپہنچ سکتی ۔ جب رحمن انسان کی عقل کو کامل کرتا ہے تو اسکی بصیرت و اخلاق بھی کامل ہو جاتے ہیں۔

٢/٣

انسان کی اصل

٤٩۔ رسول خدا(ص): اے گروہ قریش! انسان کا حسب اس کا دین ہے ، اسکی جوانمردی اس کا اخلاق ہے اور اسکی عقل اسکی اصل ہے ۔

٥٠۔ امام علی(ع(: انسان کی اصل اسکی عقل ہے ، اسکی عقل اس کا دین ہے اور ہر ایک کی جوانمردی یہ ہے کہ وہ خود کو کہاں قراردیتاہے ۔

٥١۔ امام علی(ع(: ہوشیار انسان کی اصل اسکی عقل ہے۔ اسکی جوانمردی اسکا اخلاق ہے۔ اور اسکا دین اسکا حسب ہے ۔

٥٢۔ امام صادق ؑ : انسان کی اصل اسکی عقل ہے ، اسکی شرافت دین اورعظمت تقوے سے ہے تمام انسان آدم کی اولاد کے ہونے اعتبار سے برابر ہےں۔

٥٣۔ امام علی(ع(: انسان عقل و صورت کا مجموعہ ہے ، بے عقل شخص جو صرف انسان کی صورت رکھتا ہے کامل نہیں ہے اور بے جان مخلوق کی طرح ہے جو تجربی عقل کی جستجو کرتا ہے اسے چاہئے کہ اصول اور فصول (حواشی) کو بھی جانے ، کتنے لوگ ایسے ہیں جو فصول کی تلاش میں ہیں اور اصول کو نظر انداز کرتے ہیں، جس نے اصول کو حاصل کر لیا وہ فضول چیزوں سے بے نیاز ہو گیا۔

٥٤۔ امام علی(ع(: انسان کی عقل اس کا نظام ہے ، ادب اس کا استحکام ہے صداقت اس کا پیشوا ہے اور شکر اس کا کمال ہے ۔

٥٥۔ امام صادق(ع): عقل انسان کا پشت پناہ ہے عقل سے ہوشیاری، فہم ،حفظ اور علم حاصل ہوتا ہے عقل سے انسان کمال تک پہنچتا ہے عقل ہی انسان کا راہنما، بصیرت دینے والی اور اسکے ہر کام کی کنجی ہے ۔

٢/٤

انسان کی قیمت

٥٦۔ ابن عباس رسول خدا(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: انسانوں میں سب سے افضل سب سے زیادہ عقلمند انسان ہے ، ابن عباس نے کہا اور وہ آپکا نبی ہے ۔

٥٧۔ امام علی(ع(: ہر انسان کی قیمت اسکی عقل کے مطابق ہے ۔

٥٨۔ امام علی(ع(: ہر انسان کی قیمت کا اندازہ اس کے علم و عقل سے ہوتا ہے ۔

٥٩۔ امام علی(ع(: انسان اپنی عقل کا رہین منت ہے۔

٦٠۔ امام علی(ع(: انسان کی فضیلت کا عنوان عقل اور اس کا حسن اخلاق ہے ۔

٦١۔ امام علی(ع(: انسان کی فضیلت عقل سے ہے ۔

٦٢۔ امام علی(ع(: انسان کی دو فضیلتیں ہیں: عقل اورزبان، عقل سے فائدہ حاصل کرتا ہے اورزبان سے فائدہ پہنچاتا ہے ۔

٦٣۔ امام علی(ع(:، فضائل کی انتہا عقل ہے ۔

٦٤۔ امام علی(ع(: اعلیٰ ترین رتبہ عقل ہے۔

٦٥۔ امام علی(ع(: بزرگی و شرافت عقل و ادب سے ہے نہ کہ مال اور حسب سے ۔

٦٦۔ امام علی(ع(: انسان کا امتیاز اسکی عقل کی بدولت ہے اور حسن و جمال اسکی دلیری ہے ۔

٢/٥

اسلام کا پہلا پایہ

٦٧۔ امام علی(ع(ـ:اسلام کے سات ستون ہیں: پہلا ستون عقل جس پر صبر کا دار و مدار ہے، دوسرا ستون، آبرو مندی اور صداقت ہے ، تیسرا ستون،رائج طریقہ کے مطابق تلاوت قرآن، چوتھا ستون ، دوستی و دشمنی خدا کے لئے ہو ، پانچواں ستون، آل محمد کی ولایت کی معرفت اور ان کے حقوق کی رعایت، چھٹا ستون : دوستوں اور بھائیوں کی حمایت اور ان کے حقوق کی رعایت۔ ساتواں ستون: لوگوںکے ساتھ حسن سلوک۔

٢/٦

انسان کا دوست

٦٨۔ امام علی(ع(: اپنے فرزند امام حسن سے وصیت میں فرمایا: بیٹا! عقل انسان کا دوست ہے ۔

٦٩۔ امام علی(ع(: انسان اپنی معلومات کا دوست ہے ۔

٧٠۔ امام علی(ع(: عقل ایسا دوست ہے جس سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے اور خواہشات ایسا دشمن ہے کہ جس کی پیروی کی جاتی ہے ۔

٧١۔امام علی(ع(: عقل قابل تعریف دوست ہے ۔

٧٢۔ امام علی(ع(: عقل بہترین ساتھی ہے ۔

٧٣۔ امام رضا(ع): ہر انسان کا دوست اسکی عقل ہے اور اس کا دشمن اسکی جہالت ہے ۔

٢/٧

مومن کا دوست اور رہنما

٧٤۔ رسول خدا(ص): علم مومن کا دوست، عقل اس کا رہنما، عمل اس کا سر پرست، بردباری اس کا وزیر، صبر اس کے لشکر کا امیر، مہربانی اس کا باپ، اور نرمی اس کا بھائی ہے ۔

٧٥۔ امام علی(ع(: عقل مومن کا دوست ہے ۔

٧٦۔ امام علی(ع(: حسن عقل بہترین رہبرہے ۔

٧٧۔ امام صادق(ع): عقل، مومن کا رہنما ہے ۔

٢/٨

مومن کا پشت پناہ

٧٨۔ رسول خدا(ص): ہر چیزکے لئے ایک پشت پناہ ہے اور مومن کا پشت پناہ اسکی عقل ہے لہذا مومن اپنی عقل کے مطابق اپنے پروردگار کی عبادت کرتاہے ۔

٧٩۔ رسول خدا(ص): گھر کا دار و مداراسکی بنیادپر ہے ، دین کا ستون خدا وند متعال کی معرفت ، اسکی وحدانیت کایقین اور عقل قامع ہے ۔ لوگوں نے پوچھااے رسول خدا! قامع کیا ہے ؟ فرمایا: گناہوں سے پرہیز، اطاعت خدا کا شوق اور اس کے تمام احسانات و نعمات اور نیک آزمائش پر شکر کرنا ہے ۔

٨٠۔ رسول خدا(ص): ہر چیز کے لئے اوزار اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اور مومن کا اوزار طاقت وعقل ہے ہر تاجر کا ایک سرمایہ ہوتا ہے اور مجتہدین کا سرمایہ عقل ہے ہر ویرانہ کے لئے آبادی ہے اور آخرت کی آبادی عقل ہے ۔ ہر سفر میں پناہ کےلئے خیمہ نصب کیا جاتا ہے اور مسلمانوںکا خیمہ عقل ہے ۔

٨١۔ امام علی(ع(: مومن ہشیار و عقلمند ہوتا ہے ۔

٢/٩

بہترین زینت

٨٢۔ امام علی(ع(: بہترین زینت عقل ہے اور بلدترین رتبہ علم ہے ۔

٨٣۔ امام علی(ع(: عقل سے زیادہ خوبصورت کوئی جمال نہیں۔

٨٤۔ امام علی(ع(: سب سے اچھازیور عقل ہے ۔

٨٥۔امام علی(ع(: مرد کی زینت اسکی عقل ہے ۔

٨٦۔ امام علی(ع(: عقل زینت ہے جہالت رسوائی ہے ۔

٨٧۔ امام علی(ع(: عقلمند کی زینت عقل ہے ۔

٨٨۔ امام علی(ع(: عقل ایسا نیا لباس ہے جو کہنہ نہیں ہوتا۔

٨٩۔ امام علی(ع(: انسان کا حسب اس کا علم ہے اور اس کا جمال اسکی عقل ہے ۔

٩٠۔ امام علی(ع(: حسن عقل ظاہر اور باطن کی زینت ہے ۔

٩١۔ امام علی(ع(: وہ شخص کامیاب نہیںہو سکتا کہ جس کو اسکی عقل نہ سنوار سکے۔

٩٢۔ امام علی(ع(: دین کی زینت عقل ہے ۔

٩٣۔ امام عسکری(ع): چہرے کا حسن ، ظاہری جمال ہے اور عقل کا حسن ، باطنی جمال ہے ۔

٩٤۔ اما م علی ؑ : آپ سے منسوب دیوان میںہے۔

جوان لوگوں کے درمیان عقل کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اس کا علم اور تجربہ عقل کے مطابق ہوتا ہے۔

صحیح عقل جوان کو لوگوںکے درمیان زینت عطا کرتی ہے، چاہے اس کا کار و بار بے رونق ہو۔

اور کم عقلی جوان کو لوگوں کے درمیان رسوا کرتی ہے چاہے اس کا خاندان کا منصب کتنا ہی بلند کیوںنہ ہو۔

٢/١٠

سب سے بڑی بے نیازی

٩٥۔رسول خدا(ص): جہالت سے بڑھکر کوئی فقر نہیں اور عقل سے زیادہ منفعت بخش کوئی سرمایہ نہیں ہے۔

٩٦۔ امام علی(ع(: عظیم ترین بے نیازی عقل ہے ۔

٩٧۔ امام علی(ع(: سب سے عظیم بے نیازی عقل ہے جو دنیا وآخرت میں سب سے بلند رتبہ شمار ہوتی ہے ۔

٩٨۔ امام علی(ع(: سب سے بڑی بے نیازی عقل ہے ۔

٩٩۔ امام علی(ع(: عقل سے زیادہ نفع بخش کوئی سرمایہ نہیںہے۔

١٠٠۔ امام علی(ع(: عقل کی بے نیازی کافی ہے ۔

١٠١۔ امام علی(ع(: عقل جیسی کوئی بے نیازی نہیںہے۔

١٠٢۔ امام علی(ع(: کوئی عقلمند نادارنہیں۔

١٠٣۔ امام علی(ع(: آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے : سب سے زیادہ گرانبہا سرمایہ ایسی عقل ہے جو سعادت سے نزدیک ہو ۔

١٠٤۔ امام صادق(ع): کوئی بے نیازی عقل سے بہتر نہیں ، کوئی فقر بیوقوفی سے بدتر نہیںہے۔

٢/١١

علم محتاجِ عقل ہے

١٠٥۔ امام علی(ع(: آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ عقل صاحب عقل کے لئے ہر گز ضرر رساں نہیں اور عقل کے بغیر علم کے صاحب علم کے لئے نقصاندہ ہے ۔

١٠٦۔ اما م علی(ع(: ہر وہ علم جس کی حمایت عقل نہ کرے گمراہی ہے ۔

١٠٧۔ امام علی(ع(: ہر وہ شخص جس کا علم اسکی عقل سے زیادہ ہوتاہے وہ علم اس کے لئے وبال ہوجاتاہے۔

١٠٨۔ امام علی(ع(: بندوں پر خدا کی سب سے بڑی بخشش علم ، عقل ،بادشاہت، اور عدل ہے ۔

١٠٩۔ امام علی(ع(: کوئی چیز اس عقل سے بہتر نہیںجو علم کے ہمراہ ہو، اس علم سے افضل نہیں جو حلم کے ساتھ ہو اور اس حلم سے برترنہیں جو قدرت کے ساتھ ہو۔

١١٠۔ امام علی(ع(: آپ ؑ سے منسوب دیوان میں ہے ۔

اگر تم صاحب علم ہو اور صاحب عقل نہیں ہو تو اس شخص کے مانند ہو کہ جسکے پاس جوتیاں ہوںلیکن پیر نہ ہوں

اگر عقلمند ہو اورعلم سے عاری ہوتو اس شخص کی طرح ہو کہ جس کے پیر ہوںلیکن جوتے نہ ہوں

دیکھو! ایسا انسان اپنی عقل کا نیام ہے اور تیر کے بغیر ترکش بے سود ہوتاہے ۔

٢/١٢

نادر اقوال

١١١۔ رسول خدا(ص): اللہ نے عقل کو اپنے اس ذخیرئہ نور سے پیدا کیا ہے جو اس کے علم سابق میں مخفی تھا کہ جس کی کسی نبی مرسل اور ملک مقرب کو اطلاع نہ تھی۔ پھر علم کو عقل کا نفس، فہم کو اسکی روح، زہد کو اس کا سر، حیاء کو اسکی آنکھیں، حکمت کو اسکی زبان، مہربانی کو اس کا منہ، اور رحمت کو اس کا دل قرار دیا۔ اس کے بعد عقل کی ان دس چیزوں یقین، ایمان، صداقت، سکون، اخلاص، مہربانی ،عطیہ، قناعت، تسلیم اور شکر کے ذریعہ اس کی تقویت کی۔

١١٢۔ امام علی(ع(: عقلیں ذخیرہ اور اعمال خزانے ہیں۔

١١٣۔ امام علی(ع(: عقل قوی ترین بنیاد ہے ۔

١١٤۔ امام علی(ع(: عقل تقرب کا باعث اور جہالت دوری کا سبب ہے ۔

١١٥۔ امام علی(ع(: عقل بہترین امید ہے ۔

١١٦۔ امام علی(ع(: عقل اچھی فکر کا باعث ہے ۔

١١٧۔ امام علی(ع(: عقل گرانقدر شرف ہے جو نابود نہیں ہوتا۔

١١٨۔ امام علی(ع(: انسان کارشد اسکی عقل سے ہے ۔

١١٩۔ امام علی(ع(: خدا وند سبحان کے نزدیک آگاہ عقل اور (آلودگیوں) سے پاک نفس سے زیادہ کوئی چیز سر خرو نہ ہوگی۔

١٢٠۔ امام علی(ع(: انسان کا حسب اسکی عقل ہے اور اسکی جوانمردی اس کا اخلاق ہے ۔

١٢١۔ امام علی(ع(: انسان کے کمال کی انتہاء اسکی صحیح عقل ہے ۔

١٢٢۔ امام علی(ع(: ہر چیز کی ایک انتہاء ہوتی ہے اور انسان کی انتہاء اسکی عقل ہے ۔

١٢٣۔ امام علی(ع(: خدا وند سبحان پائدار عقل اور صحیح کام کو پسند کرتا ہے ۔

١٢٤۔ امام علی(ع(: عقل دھوکا نہیں کھاتی۔

١٢٥۔امام علی(ع(: عقل شفاء ہے ۔

١٢٦۔ امام علی(ع(:عقل شمشیر براں ہے ۔

١٢٧۔ امام علی(ع(: کوئی بھی عدم، عدم عقل سے بدتر نہیں۔

١٢٨۔ امام علی(ع(: عقل کے بغیر دین کی اصلاح نہیں ہو سکتی ۔

١٢٩۔ امام علی(ع(: عقل کا فوت ہونا بد بختی ہے ۔

١٣٠۔ اما م علی(ع(: کوئی بھی بیماری کم عقلی سے زیادہ تکلیف دہ نہیںہے۔

١٣١۔ امام علی(ع(: ادب جب تک عقل کے ساتھ نہ ہو مفید نہیںہے۔

١٣٢۔ اما م حسن (ع): آگاہ ہو جاؤ! عقل پناہگاہ ہے اور بردباری زینت ہے۔

١٣٣۔ اما م کاظم (ع):نے ہشام بن حکم سے فرمایا اے ہشام! لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا۔ اے فرزند! دنیا ایسا گہرا سمندر ہے کہ جس میں بے شمار مخلوق غرق ہو چکی ہے۔ لہذا کوشش کرو کہ اس میں تمہاری کشتی ، تقوائے الٰہی، اس کا ساحل ایمان، بادبان(خدا پر) توکل، ناخدا عقل ،رہنما علم اورسوار صبرہو۔

تیسری فصل تعقل

٣/١

تعقل کی تاکید

قرآن

( اسی طرح پروردگار اپنی آیات کو بیان کرتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے۔ )

( وہی وہ ہے جو حیات و موت کا دینے والا ہے اور اسی کے اختیار میں دن و رات کی آمد و رفت ہے تم عقل کو کیوںنہیں استعمال کرتے ہو۔ )

( خدا اسی طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیںاپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے۔ )

( بیشک ہم نے تمہاری طرف وہ کتاب نازل کی ہے جسمیں خو د تمہارا بھی ذکر ہے تو کیا تم اتنی بھی عقل نہیںرکھتے ہو۔ )

ملاحظہ کریں: بقرہ : ١٦٤، انعام : ٣٢،١٥١، اعراف: ١٦٩، ھود: ٥١، یوسف :٢،١٠٩، رعد: ٤،نحل : ١٢، ٦٧ حج: ٤٦، نور: ٦١، قصص:٦٠، عنکبوت: ٣٥، روم:٢٤و ٢٨، یۤس ۤ٦٢، ٦٨، ص ۤ:٢٩، غافر:٦٧و٧٠، زخرف: ٣، جاثیہ ٥و١٣، حدید: ١٧۔

حدیث

١٣٤۔ رسول خدا(ص): عقل سے راہنمائی حاصل کرو تاکہ ہدایت یافتہ ہو جاؤ، عقل کی نافرمانی نہ کرو ورنہ پشیمان ہوگے۔

١٣٥۔ رسول خدا(ص): بہترین چیز جس سے خدا کی عبادت و بندگی ہوتی ہے وہ عقل ہے ۔

١٣٦۔ رسول خدا(ص): دنیا و آخرت میںتمام اعمال کا پیشوا عقل ہے ۔

١٣٧۔ ابن عمر رسول خدا سے نقل کرنے ہیں کہ آپ ؐ نے آیت(تبارک الذی بیدہ الملک) کو (ایکم احسن عملا) تک پڑھا، پھر فرمایا: تم میں سب سے بہترین عمل والا وہ شخص ہے جس کی عقل سب سے بہتر ہے اور سب سے زیادہ محرمات خدا سے پرہیز کرنے والا اور طاعت خدا میںسب سے زیادہ جلدی کرنے والا ہے ۔

١٣٨۔ رسول خدا(ص): نے اپنی وصیت میں ابن مسعود سے فرمایا: اے ابن مسعود! جب بھی کوئی کام انجام دو تو علم و عقل کے معیار پر انجام دو اور تدبر و علم کے بغیر کام انجام نہ دو اس لئے کہ خدا وند متعال کا ارشاد ہے(اس عورت کے مانند نہ ہو جاؤ کہ جس نے اپنے دھاگوںکو مضبوط و محکم بنانے کے بعد خود ہی توڑ ڈالا ہو )

١٣٩۔ رسول خدا(ص) :دور جاہلیت کے تمہارے بہترین افراد، اسلام میں بھی تمہارے بہترین افراد ہیں اگر غور و فکر سے کام لیں۔

١٤٠۔ رسول خدا(ص): رسولوں کے بعد اہل جنت کا سردارسب سے زیادہ عقلمند شخص ہوگا۔ اور لوگوں میں سب سے افضل انسان وہ ہے جوان میں زیادہ عقلمند ہے ۔

١٤١۔ رسول خدا(ص): اے علی ! جب لوگ نیک اعمال کے ذریعہ خدا سے تقرب حاصل کریں تو تم عقلمندی کو اپنا شعار بنا لیناکہ اس کے ذریعہ تم خدا کا تقرب اور دنیوی و اخروی درجات کو پا لوگے۔

١٤٢۔ عطا: ابن عباس عائشہ کے پاس گئے اور کہا اے ام المومنین، ایک شخص معمولی شب زندہ داری کرتا ہے اور زیادہ سوتا ہے دوسرا شخص بیشتر شب زندہ داری کرتا ہے اور کم سوتا ہے آپکی نظر میں کون زیادہ محبوب ہے ؟! عائشہ نے کہا:(میں نے یہی سوال رسول خدا(ص) سے پوچھا) تو آپ ؐ نے فرمایا: جسکی عقل زیادہ بہتر ہو، میں نے کہا: یا رسول اللہ ؐ میں آپ سے ان دونوں کی عبادت کے متعلق سوال کررہی ہوں؟ تو آنحضرت نے فرمایا : اے عائشہ ان دونوں سے انکی عقل کے مطابق سوال کیا جائیگا، جو زیادہ عقل مند ہے وہی دنیا و آخرت میں افضل ہے ۔

١٤٣۔ ابو ایوب انصاری رسول خدا(ص) سے نقل کرتے ہیںکہ آپ ؐ نے فرمایا: دو شخص وارد مسجد ہوئے دونوں نے نماز پڑھی جب وہ پلٹے تو ایک کی نما ز کا وزن کوہ احد کے سے زیادہ تھا جبکہ دوسرے کی نمازکا وزن ایک ذرہ کے برابر بھی نہیںتھا ، ابو حمید ساعدی نے پوچھا: اے رسول خدا(ص)!ایسا کیوںہے ؟ فرمایا:ایسا اس وقت ہوتا ہے جبکہ ان دونوں میں سے ایک محرمات الٰہی سے زیادہ پرہیز کرتا ہو اور کار خیر کی طرف جلدی کرنے میں زیادہ دلچسپی ہو اور چاہے مستحبات میں دوسرے سے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔

١٤٤۔ خدا ئے تبارک و تعالیٰ: حدیث معراج میں فرماتا ہے ، اے احمد! عقل کے زائل ہونے سے پہلے اسے استعمال کرو، جو عقل سے کام لیتاہے وہ نہ خطا کرتا ہے اور نہ سرکشی ۔

١٤٥۔ امام علی(ع(: بیشتر تفکر اور غور خوض کثرت تکرار اور تحصیل علم سے زیادہ مفید ہے ۔

١٤٦۔ امام علی(ع(: عقل سے راہنمائی حاصل کرو اور خواہشات کی مخالفت کرو کامیاب ہوجاؤگے۔

١٤٧۔ امام علی(ع(: عقل بلند ہستیوں تک پہنچنے کا زینہ ہے ۔

١٤٨۔ امام علی(ع(: انسان کا رتبہ اسکی عقل کے مطابق ہے ۔

١٤٩۔ امام علی(ع(: انسان کا کمال اسکی عقل کی وجہ سے ہے اور اسکی قیمت اسکی فضیلت کی بنا پر ہے ۔

١٥٠۔ امام علی(ع(: انسان کا کمال عقل سے ہے ۔

١٥١۔ امام علی(ع(: خوبصورتی کا تعلق زبان سے اور کمال کا تعلق عقل سے ہے ۔

١٥٢۔ امام علی(ع(: لوگ ایک دوسرے پرعلم و عقل کے ذریعہ فضیلت رکھتے ہیں نہ کہ اموال و حسب کے ذریعہ۔

١٥٣۔ امام علی(ع(: جہالت سے اتنی ہی بے رغبتی ہوتی ہے جتنی عقل سے رغبت ہوتی ہے ۔

١٥٤۔ امام علی(ع(: جو شخص عقل سے نصیحت لیتا ہے اسے یہ دھوکا نہیں دیتی۔

١٥٥۔ امام علی(ع(: جو شخص عقل سے مدد چاہتا ہے اسکی یہ مدد کرتی ہے ۔

١٥٦۔ امام علی(ع(ــ: جو شخص عقل سے راہنمائی حاصل کرتا ہے اسکی یہ راہنمائی کرتی ہے ۔

١٥٧۔ امام علی(ع(: جو شخص اپنی عقل سے عبرت حاصل کرتا ہے راستہ پا جاتا ہے ۔

١٥٨۔ امام علی(ع(: جو اپنی عقل کا مالک ہو جاتا ہے وہ حکیم ہے ۔

١٥٩۔ امام علی(ع(: عقل عیوب کا پردہ ہے۔

١٦٠۔ امام کاظم (ع):نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صاحبان عقل و فہم کو بشارت دی ہے پس فرمایا: (میرے ان بندوںکو بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اسکی اتباع کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیںخدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہےں جو صاحبان عقل ہیں )

اے ہشام! خدا وند عالم نے لوگوں پر اپنی دلیلوں کو عقل کے ذریعہ مکمل کیا ہے ، (قوتِ ) بیان کے ذریعہ انبیاء کی مدد اور برہان کے ذریعہ اپنی ربوبیت کی طرف انکی راہنمائی کی ہے۔ فرمایا: (تمہارا معبود ایک معبود ہے نہیں کوئی معبود مگر اس رحمن و رحیم کے، بیشک زمین و آسمان کی خلقت، روز و شب کی رفت و آمد، ان کشتیوں میں جو دریاؤں میں لوگوں کے فائدہ کےلئے چلتی ہیں، اور اس پانی میں جسے خدانے آسمان سے نازل کرکے اسکے ذریعہ مردہ زمینوں کو زندہ کر دیا ہے اور اس میں طرح طرح کے چوپائے پھیلا دئیے ہیں اور ہواؤں کے چلنے میں اور آسمان و زمین کے درمیان مسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبان عقل کےلئے اللہ کی نشانیاں پائی جاتی ہیں )

اے ہشام! خدا نے بعنوان مدبراپنی معرفت کےلئے ان چیزوں کو نشانی قرار دیا ہے (اور اس نے تمہارے لئے رات و دن اور آفتاب و ماہتاب سب کو تمہارا تابع کر دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے تابع ہیں بیشک اس میں بھی صاحبان عقل کےلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں)اور فرمایا:(وہی خدا ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے پھر علقہ سے پھر تم کو بچہ بنا کر باہر لاتا ہے پھر زندہ رکھتا ہے کہ توانائیوں کو پہنچو پھر بوڑھے ہو جائے اور تم میں سے بعض کو پہلے ہی اٹھا لیا جاتا ہے اور تم کو اس لئے زندہ رکھتا ہے کہ اپنی مقررہ مدت کو پہنچ جاؤ اور شاہد تمہیں عقل بھی آجائے)خدا فرماتا ہے (اور رات و دن کی رفت و آمد میں اور جو رزق خدا نے آسمان سے نازل کیا ہے جسکے ذریعہ مردہ زمینوں کو زندہ کر دیا ہے اور ہواؤںکو چلانے میں اور آسمان و زمین کے درمیان مسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبان عقل کےلئے اللہ کی نشانیاں ہیں) خدا فرماتا ہے (خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ہے اور ہم نے تمام نشانیوںکو واضح کر کے بیان کر دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لے سکو) نیز فرماتا ہے (اور انگور کے باغات ہیں اور زراعت ہے اور کھجوریںہیں جن میں بعض دو شاخ کی ہیں اور بعض ایک شاخ کی ہیں اور سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں اور ہم بعض کو بعض پر کھانے میں ترجیح دیتے ہیں اور اس میں بھی صاحبان عقل کےلئے نشانیاں پائی جاتی ہیں) خدا کاارشاد ہے (اور اسکی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بجلی کو خوف اور امید کا مرکز بنا کر دکھلاتا ہے اور آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اسکے ذریعہ مردہ زمینوںکو زندہ بناتا ہے بیشک اس میں بھی عقل رکھنے والی قوم کےلئے بہت سی نشانیاں ہیں) اور فرمایا( کہہ دیجئے کہ آؤ ہم تمہیں بتائیںکہ تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے کیا کیا حرام کیا ہے خبردار کسی کو اسکا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کےساتھ اچھا برتاؤ کرنا اپنی اولاد کو غربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں اور انہیں بھی اور بدکاریوں کے قریب نہ جانا وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور کسی ایسے نفس کو جسے خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر یہ کہ تمہارا کوئی حق ہو یہ وہ باتیں ہیں جنکی خدا نے نصیحت کی ہے تاکہ تمہیں عقل آجائے) پروردگار کا ارشاد ہے (کیا اس میں تمہارے مملوک غلام و کنیز میںکوئی تمہارا شریک ہے کہ تم سب برابر ہو جاؤ اور تمہیں انکا خوف اسی طرح ہو جس طرح اپنے نفوس کے بارے میں خوف ہوتا ہے ۔ بیشک ہم اپنی نشاینوںکو صاحبان عقل کےلئے اسی طرح واضح کرکے بیان کرتے ہیں )

اے ہشام! خدا نے اپنے انبیاء و رسل کو اپنے بندوںکی طرف اس لئے بھیجا ہے تاکہ وہ خدا کی معرفت حاصل کریں ۔ انبیاء کی دعوت پر اچھی طرح سے لبیک کہنے والے وہ افراد ہیں جنہوںنے خدا کو اچھی طرح سے پہچانا ہے ۔ امر خدا کے متعلق لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والا وہ شخص ہے جس کی عقل سب سے بہتر ہے ۔ اور جو سب سے زیادہ کامل العقل ہے دنیا و آخرت میں اس کا درجہ سب سے بلند ہے ۔

١٦١۔ جابر بن عبد اللہ: رسول خدا(ص) نے اس آیت( اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں اور علماء کے علاوہ انہیں کوئی نہیں سمجھتاہے ) کی تلاوت کی اور فرمایا: عالم وہ ہے جو خدا کی معرفت رکھتا ہے اور اس کے حکم کی طاعت اور اس کے غضب سے دوری اختیار کرتا ہے۔

١٦٢۔ رسول خدا(ص)ــ: اللہ تعالیٰ نے عقل کو تین حصوں (خدا کی اچھی طرح معرفت، اسکی بہترین طاعت اور اس کے حکم کے سامنے مناسب ثابت قدمی) میں تقسیم کیا ہے ، جس کے اندر یہ حصے ہوں گے اسکی عقل کامل ہے اور جس میں یہ نہیں ہوں گے وہ عاقل نہیں ہے ۔

١٦٣۔ رسول خدا(ص): بہت سے عقلمند ایسے ہیں جنہوںنے امر خدا کو سمجھ لیا ہے لیکن لوگوں کی نظروں میں حقیر اورکریہہ المنظر شمار ہوتے ہیں جبکہ کل یہی نجات پائیں گے اور بہت سے افرادلوگوں کی نظروں میں شستہ زبان اور حسین منظر شمار ہوتے ہیں جبکہ کل قیامت میں یہی ہلاک ہوں گے۔

١٦٤۔ رسول خدا(ص): انسان کا دین اس وقت تک ہرگز مکمل نہیںہو سکتا جب تک کہ اسکی عقل مکمل نہ ہو جائے۔

١٦٥۔ رسول خدا(ص): ملائکہ نے عقل ہی کے ذریعہ طاعت خدا کے لئے جد و جہد کی اوربنی آدم میں سے مومنین نے بھی اپنی عقل کے مطابق طاعت خدا کے سلسلہ میں سعی و کوشش کی ۔ خدا کی سب سے زیادہ اطاعت کرنے والے وہی لوگ ہیں جو زیادہ عقل رکھتے ہیں۔

١٦٦۔ ابن عباس:رسول خدا(ص) سے روایت کرتے ہیں : لوگوں میںسے زیادہ با فضل انسان وہ ہے جوان میں سب سے زیادہ عقلمند ہے ، ابن عباس نے کہا: اور وہ تمہارانبی ہے ۔

١٦٧۔ امام صادق(ع): تمہیں کیا ہو گیا ہے جو ایک دوسرے سے الگ رہتے ہو! ، مومنین میں سے بعض بعض سے افضل ہیں، بعض کی نمازیں دوسروں سے زیادہ ہیںاور بعض کی نگاہیںبعض سے زیادہ گہری ہیںیہی درجات ہیں۔

نوٹ: یہ تمام آیات و روایات جو لوگوں کو تفکر، تدبر، تذکر، تفقہ اور بصیرت کی دعوت دے رہی ہیں ،ان میں معرفت اور زندگی کے صحیح راستوں کے انتخاب کی تاکید کی گئی ہے ۔

٣/٢

ہمیشہ غور و فکر سے کام لو

قرآن

( اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں، یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میںغافل ہیں )

( اور وہ ان لوگوں پر خباثت کو لازم قرار دیتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں )

( جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت میں بھی اندھا اور بھٹکا ہوا رہیگا )

( حیف ہے تمہارے اوپر اور تمہارے ان خداؤں پر جنہیں تم نے خدا ئے برحق کو چھوڑ کر اختیار کیاہے کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ہے )

( اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنم والوں میں نہ ہوتے )

( اور وہ لوگوں جو کافر ہیںا ان کےلئے آتش جہنم ہے اور نہ انکی قضا آئیگی کہ مر جائیں اور نہ عذاب میں کمی کی جائیگی ہم ہر کافر کو سزا دیںگےں اور یہ وہاں فریاد کرینگے کہ پروردگار ہمیں نکال لے ہم اب نیک عمل کریںگے اسکے بر خلاف جو پہلے کیا کرتے تھے تو کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جسمیں عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کر سکتے تھے اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تھا لہذا اب عذاب کا مزہ چکھو کہ ظالمین کا کوئی مدد گار نہیں ہے )

( کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ ان کی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہر گز نہیں یہ سب جانوروںجیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گمراہ ہیں )

ملاحظہ فرمائیںـ:٤٤و٧٦۔آل عمران: ٦٥، یونس ١٦، عنکبوت: ٣٥،٤٣۔ صافات ١٣٨۔ فاطر:٣٧۔ جاثیہ: ٢٣۔ احقاف:٢٦

حدیث

١٦٨۔ رسول خدا(ص): عقل سے رہنمائی حاصل کروتا کہ ہدایت پا جاؤ اور عقل کی نافرمانی مت کرو کہ پشیمان ہوگے۔

١٦٩۔ امام علی(ع(: جو شخص عقل کے استعمال سے عاجز ہے وہ اس کے حاصل کرنے سے زیادہ عاجز ہے۔

١٧٠۔ امام علی(ع(: عقلمند ادب سے نصیحت حاصل کرتے ہیں اور چوپائے مار کھائے بغیر قابو میں نہیں آتے ۔

١٧١۔ امام علی(ع(: جہالت سے اتنی ہی بے رغبتی ہوتی ہے جتنی عقل سے رغبت ہوتی ہے ۔

١٧٢۔ امام علی(ع(: جو شخص عقل میں جتنا پیچھے ہوتا ہے وہ جہالت میں اتنا ہی آگے ہوتا ہے ۔

١٧٣۔ امام علی(ع(: ہم خدا کی پناہ چاہتے ہیں عقل کے خواب غفلت سے اور لغزشوں کی برائیوں سے ۔

١٧٤۔ امام علی(ع(: جو شخص غور و فکر نہیں کرتا وہ بے وقعت ہو جاتا ہے اور جو بے وقعت ہو جاتا ہے اسکی کوئی عزت نہیں ہوتی۔

١٧٥۔ امام علی(ع(: اے لوگو! جن کے نفس مختلف اور دل متفرق ہیں، بدن حاضر اور عقلیں غائب ہیں، میں تمہیں مہربانی کے ساتھ حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس سے اس طرح فرار کر رہے ہو جیسے شیر کی ڈکار سے بکریاں۔

١٧٦۔ امام علی(ع(:نے اپنے اصحاب کومخاطب کرکے فرمایا: اے وہ قوم جسکے بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب تمہارے خواہشات گوناگوں ہیں اور تمہارے حکام تمہاری بغاوت میں مبتلا ہیں، تمہارا امیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور تم اسکی نافرمانی کرتے ہو اور شام کا حاکم اللہ کی معصیت کرتا ہے اور اسکی قوم اسکی اطاعت کرتی ہے ۔

١٧٧۔ امام صادق(ع): جب خداا پنے کسی بندہ سے نعمت سلب کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اسکی عقل کو بدل دیتا ہے ۔

١٧٨۔ امام کاظم (ع)نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل کے ذریعہ لوگوں پر اپنی حجتیں تمام کی ہیں....پھر صاحبان عقل کو وعظ و نصیحت کی اور انہیں آخرت کی ترغیب دلائی اور فرمایا( اور یہ زندگانی دنیا صرف کھیل تماشہ ہے اور دار آخرت صاحبان تقویٰ کے لئے سب سے بہتر ہے ۔ کیا تمہاری عقل میں یہ بات نہیں آرہی ہے )

اے ہشام! پھر وہ لوگ جو فکر کرنے والے نہیں ہیں خدا نے انہیں اپنے عقاب سے ڈرایا اورفرمایا (پھر ہم نے سب کو تباہ و برباد بھی کر دیا، تم ان کی طرف سے برابر صبح کو گذرتے ہو ، اور رات کے وقت بھی تو کیا تمہیں عقل نہیں آرہی ہے ) اور فرمایا( ہم اس بستی پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں کہ یہ لوگ بڑی بدکاری کر رہے ہیں، اور ہم نے اس بستی میں سے صاحبان عقل و ہوش کےلئے کھلی ہوئی نشانی باقی رکھی ہے )

اے ہشام! عقل علم کے ساتھ ہے جیسا کہ خدا کا ارشاد ہے (اور یہ مثالیں ہم تمام عالمِ انسانیت کےلئے بیان کررہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے )

اے ہشام! پھر خدا نے غور وخوض نہ کرنے والوںکی مذمت کی اور فرمایا( جب ان سے کہا جاتا ہے جو کچھ خد انے نازل کیا ہے اسکی اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم اسکی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، کیا یہ ایسا ہی کرینگے چاہے انکے باپ دادا بے عقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہے ہوں) اور فرمایا( جو لوگ کافر ہو گئے ہیں انکو پکارنے والے کی مثال اس شخص کی ہے جو جانوروں کو آواز دے اور جانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور سمجھیں یہ کفار بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں، انہیں عقل سے سروکار نہیں ہے ) اور فرمایا( اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو بظاہر کان لگا کر سنتے بھی ہیں لیکن کیا آپ بہروںکو بات سنانا چاہتے ہیں جبکہ وہ سمجھتے بھی نہیںہیں) اور فرمایا( کیا آپکا خیال یہ ہے کہ انکی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہرگز نہیں یہ سب چوپایوںجیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گمراہیں) اور فرمایا( یہ کبھی تم سے اجتماعی طور پر جنگ نہیںکرینگے مگر یہ کہ محفوظ بستیوں میںہوں یا دیواروںکے پیچھے ہوں انکی دھاک آپس میں بہت ہے اور تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ سب متحد ہیںہر گز نہیں انکے دلوں میں سخت تفرقہ ہے اور یہ اس لئے کہ اس قوم کے پاس عقل نہیں ہے)۔اور فرمایا:( اور تم اپنے نفسوں کو بھلا بیٹھے جبکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ہے )

اے ہشام! خدا وند عالم نے اکثریت کی مذمت کی اور فرمایا( اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کرینگے تو یہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دینگے ) اور فرمایا( اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے تو کہیں گے کہ اللہ تو پھر کہئے کہ ساری حمد اللہ کےلئے ہے اور انکی اکثریت بالکل جاہل ہے ) اور فرمایا( اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کیا ہے تو یہ کہیں گے کہ اللہ، تو پھر کہہ دیجئے کہ ساری حمد اسی کےلئے ہے اور انکی اکثریت عقل کا استعمال نہیں کر رہی ہے )

اے ہشام! پھر اللہ تعالیٰ نے اقلیت کی مدح کی اور فرمایا( اور ہمارے بندوں میں شکر گذار بندے کم ہیں) اور فرمایا( اور وہ بہت کم ہیں) اور فرمایا( اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ اس شخص کو صرف اس بات پر قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے ) اور فرمایا( اور صاحبان ایمان کو بھی لے لو اور ان کے ساتھ ایمان والے بہت ہی کم ہیں) اور فرمایا( لیکن ان کی اکثریت اس بات کو نہیں جانتی) اور فرمایا( او رانکی اکثریت اس بات کو نہیںسمجھتی ۔ )

١٧٩۔ا مام رضا(ع): بے عقل دینداروں کی طرف توجہ نہیں کی جائیگی۔

١٨٠۔ اسحاق بن عمار: میں نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں عرض کیا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں! میرا پڑوسی بہت زیادہ نمازیں پڑھتا ہے ، بے پناہ صدقہ دیتا ہے، کثرت سے حج کرتا ہے اور نہایت معقول انسان ہے ، امام نے فرمایا: اے اسحاق! اس کی عقل کیسی ہے ؟ میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر فدا ہو جائے ، عقل سے کو را ہے ، پھر آپ ؑ نے فرمایا: اس کے اعمال اسی وجہ سے قابل قبول نہیں ہیں۔

٣/٣

عقل کا حجت ہونا

١٨١۔ رسول خدا(ص): حق جہاں بھی ہو اس کے ساتھ رہو، جو چیزیں تم پر مشتبہ ہو جائیں انہیں اپنی عقل کے ذریعہ جدا کرو ، کیوں کہ عقل تم پر خدا کی حجت اور تمہارے پاس اسکی امانت اور برکت ہے ۔

١٨٢۔ امام علی(ع(: عقل حق کا رسول ہے ۔

١٨٣۔ امام علی(ع(: عقل ، باطنی شریعت اور شریعت، ظاہری عقل ہے ۔

١٨٤۔ اما م صادق(ع): نبی بندوں پر خدا کی حجت ہے اور عقل بندوں اور خدا کے درمیان حجت ہے ۔

١٨٥۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! خدا کی لوگوںپر دو حجتیں ہیں: حجت ظاہری اور حجت باطنی، حجت ظاہری انبیاء و مرسلین،اور ائمہ ہیں لیکن حجت باطنی عقل ہے۔

١٨٦۔ امام کاظم (ع): نے نیز ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں پر عقل کے ذریعہ حجتیں تمام کی ہیں، (قوت) بیان کے ذریعہ انبیاء کی مدد کی ہے اور براہین کے ذریعہ انہیں اپنی ربوبیت سے آشنا کیاہے ۔

١٨٧۔ ابویعقوب بغدادی : ابن سکیت نے امام رضاکی خدمت میں عرض کیا.....خدا کی قسم میں نے آپ کے مثل کسی کو نہیں دیکھا، آج خلق پر خدا کی حجت کون ہے ؟ فرمایا ؑ : عقل ہے کہ جس کے ذریعہ خدا کے متعلق سچ بولنے والوں کی پہچان اور ان کی تصدیق ہوتی ہے ، خدا پرجھوٹ باندھنے والوں کی شناخت اور ان تکذیب کی ہوتی ہے، ابو یعقوب کہتے ہیںکہ ابن سکیت نے کہا: خدا کی قسم ، یہی( واقعی) جواب ہے ۔

٣/٤

اعمال کے حساب میں عقل کا دخل

١٨٨۔ امام علی(ع(: خدا نے دنیا میں بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لیگا۔

١٨٩۔ امام باقر(ع): خدا نے جو چیزیں موسیٰ بن عمران پر نازل کی ہیں ان میں سے بعض کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جب موسیٰ پر وحی نازل ہوی....تو اس وقت خدا نے فرمایا: میں نے اپنے بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لونگا۔

١٩٠۔ امام باقر(ع): خدا نے دنیا میں بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق روز قیامت دقیق حساب لیگا۔

١٩١۔ امام باقر(ع): میں نے علی(ع( کی کتاب پر نظر ڈالی تو مجھے یہ بات ملی کہ: ہر انسان کی قیمت اور اسکی قدر و منزلت اسکی معرفت کے مطابق ہے اور خدا نے دنیا میں بندوںکو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق اسکا حساب لیگا۔

٣/٥

اعمال کی جزا میں عقل کااثر

١٩٢۔ رسول خدا(ص): اگر تمہارے پاس کسی شخص کے نیک چال چلن کے متعلق خبر پہنچے تو تم اس کے حسن عقل کو دیکھو، کیونکہ جزاعقل کے اعتبارسے دی جاتی ہے ۔

١٩٣۔رسول خد ؐ ا: اگر کسی کوبہت زیادہ نماز گذار اور زیادہ روزہ دار پاؤ تواس پر فخر و ماہات نہ کرو جب تک کہ اسکی عقل کو پرکھ نہ لو۔

١٩٤۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جونمازی، زکات دینے والاحج و عمرہ بجالانے والا اور مجاہدہے اسے روز قیامت اسکی عقل کے مطابق جزا دی جائیگی۔

١٩٥۔ رسول خدا(ص): جنت کے سو درجے ہیں، نناوے درجے صاحبان عقل کے لئے ہیں اور ایک درجہ بقیہ تمام افراد کے لئے ہے ۔

١٩٦۔ رسول خدا(ص): ایک شخص پہاڑ کی بلندی پر ایک گرجا گھرمیں عبادت کیا کرتا تھا، آسمان سے بارش ہوئی زمین سر سبز ہو گئی جب اس نے گدھے کو چرتے دیکھا تو کہا: پروردگارا!! اگر تیرا بھی گدھا ہوتا تو میں اپنے گدھے کے ساتھ اسے بھی چراتا، چنانچہ جب یہ خبر بنی سرائیل کے انبیاء میں سے کسی نبی کو ملی تو انہوںنے اس عابد کے لئے بد دعا کرنی چاہی تو خدا وند عالم نے اس نبی پر وحی نازل کی ، '' میں بندوںکو ان کی عقل کے مطابق جزا دونگا''۔

١٩٧۔ تحف العقول: ایک گروہ نے پیغمبر اسلام ؐ کی خدمت میںایک شخص کی تعریف کی اور اسکی تمام خوبیوں کو بیان کیا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اس شخص کی عقل کیسی ہے؟ انہوںنے کہا: اے رسولخد ؐ ا! ہم آپکو عبادت میں اسکی کوشش و جانفشانی اور اسکی دوسری خوبیوں کی خبر دے رہے ہیں اور آپ ہم سے اسکی عقل کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟! آپ ؐ نے فرمایا: احمق اپنی حماقت کے سبب گنہگار سے زیادہ فسق و فجور کا مرتکب ہوتا ہے ، یقینا بندے روز قیامت اپنی عقل کے مطابق بلند درجات پر فائز ہونگے اور اپنے پروردگار کا تقرب حاصل کرینگے ۔

١٩٨۔ رسول خدا(ص):( لوگوںنے جب آپکے سامنے کسی شخص کی بہترین عبادت کی تعریف کی) تو آپ نے فرمایا: اسکی عقل کو دیکھو؛ اس لئے کہ روز قیامت بندوں کو انکی عقل کے مطابق جزا دی جائیگی۔

١٩٩۔ امام باقر(ع): موسیٰ بن عمران ؑ نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کاا یک شخص طولانی سجدے کر تا ہے اور گھنٹوںخاموش رہتا ہے۔جہاں بھی موسیٰ ؑ جاتے تھے وہ بھی ساتھ ہو لیتا تھا ایک روز جناب موسیٰ کسی کام کے تحت ایک ہری بھری اور سبزوادی سے گذرے تو اس مرد عبادت گذار نے ایک سرد آہ بھری ، جناب موسیٰ نے اس سے کہا: کیوں آہ بھر رہے ہو؟! اس نے کہا: مجھے اس چیز کی تمنا ہے کہ کاش میرے پروردگار کاکوئی گدھا ہوتا تو میں اسے یہاںچراتا ، جناب موسیٰ ؑ اسکی اس بات سے اس قدر غمگین ہوئے کہ کافی دیر تک اپنی نظروں کو زمین کی طرف جھکائے رکھا، اتنے میں جناب موسیٰ پر وحی نازل ہوئی کہ اے موسیٰ میرے بندہ کی بات تم پر اتنی گراں کیوں گذری ؟!میں نے اپنے بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لونگا۔

٢٠٠۔ سلیمان دیلمی( کابیان ہے کہ) میں نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں ایک شخص کی عبادت، دینداری اور فضیلتوں کا تذکرہ کیا تو آپ ؑ نے فرمایا: اسکی عقل کیسی ہے ؟! میںنے کہا: مجھے نہیں معلوم، فرمایا: ثواب عقل کے مطابق دیا جائیگا اس لئے کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص سر سبز و شاداب، درختوں اور پانی سے لبریز جزیرہ میں خدا کی عبادت کیا کرتا تھا۔ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ اس کے قریب سے گذرا تو اس نے کہا پروردگارا! اپنے اس بندہ کا ثواب مجھے دکھا دے ، پس خدا وند نے اسے اپنے اس بندہ کا ثواب دکھایا لیکن فرشتہ کی نظر میں وہ ثواب بہت معمولی تھا تو خدا نے فرشتہ پر وحی کی کہ اس کے ہمراہ ہو جاؤ، فرشتہ انسانی شکل میں اس کے پاس آیا اور عابد نے اس سے پوچھا تم کون ہو؟ کہا: میں ایک عبادت گذار شخص ہوں مجھے تمہاری اس جگہ عبادت کی اطلاع ملی تو میں تمہارے پاس آیا ہوں تاکہ میں بھی تمہارے ساتھ خد اکی عبادت کروں، لہذا پورے دن وہ فرشتہ اس عابد کے ساتھ رہا، دوسرے روز فرشتہ نے اس سے کہا تمہاری جگہ پاک و پاکیزہ ہے صرف عبادت کے لئے موزوں ہے ، مرد عابد نے کہا: ہماری اس جگہ میں ایک عیب ہے ، فرشتہ نے پوچھا : وہ عیب کیاہے ؟ کہا: ہمارے پروردگارکے پاس کوئی چوپایہ نہیںہے ، اگر خدا کے پاس ایک گدھا ہوتا تو ہم یہاں پر اسے چراتے اس لئے کہ یہ گھاس تلف ہو رہی ہے ، فرشتہ نے اس سے کہا: تمہارا پروردگار گدھا کیا کریگا؟ مرد عابد نے کہا: اگر خدا کے پاس گدھا ہوتا تو یہ گھاس برباد نہ ہوتی ، پس خدا نے فرشتہ پر وحی نازل کی ، کہ میں اس کو اسکی عقل کے مطابق ثواب دونگا۔                                   

چوتھی فصل عقل کے رشد کے اسباب

٤/١

عقل کی تقویت کے عوامل

الف۔ وحی

( اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان آچکاہے اور ہم نے تم پر روشن نور بھی نازل کر دیا ہے )

( اللہ صاحبان ایمان کا ولی ہے وہ تاریکیوں سے نکا لکر روشنی میں لے آتا ہے اور کفار کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھروں میں لے جاتے ہیں۔ یہی تو جہنمی ہیں اور وہاں ہمیشہ رہنے والے ہیں )

( بیشک ہم نے تمہاری طرف وہ کتاب نازل کی ہے جس میں خود تمہارا بھی ذکر ہے تو کیا تم اتنی بھی عقل نہیں رکھتے ہو )

ملاحظہ کریں:بقرہ :٢٤٢، نور: ٦١، یوسف:٢، زخرف:٣

حدیث

٢٠١۔ امام علی (ع): پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے ، انبیاء کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائیںاور انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کو یاد دلائیں، تبلیغ کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔

٢٠٢۔ امام علی (ع)نے رسولخدا ؐ کی بعثت کی توصیف میں فرمایا: خدا نے انہیں حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ خدا کی طرف راہنمائی اور ہدایت کریں، خدا نے انکے ذریعہ ہمیں گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکالا ہے۔

٢٠٣۔ امام علی (ع): خدا وند متعال نے اسلام کو بنایا اور اسکے راستوں کو اس پر چلنے والوں کےلئے آسان کیا ، اسکے ارکان کو دشمنوںکے مقابل میں پائدار کیا، اسلام کو اسکے اطاعت گذاروں کےلئے باعث عزت اور اس میں داخل ہونے والوں کےلئے سبب صلح و آشتی ...ذہین و ہوشیار انسان کےلئے فہم اور عقلمند کے لئے یقین قرار دیاہے۔

٢٠٤۔ امام علی (ع): یہاں تک کہ خدا وند سبحان نے اپنے وعدے کو پورا کرنے اور اپنی نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمد کو بھیج دیا جنکے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جا چکا تھا اورجنکی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود تھی، اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب، منتشر خواہشات اور مختلف راستوں پر گامزن تھے، کوئی خدا کو مخلوقات کے شبیہ بنا رہا تھا، کوئی اس کے ناموں کو بگاڑ رہا تھا، کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا، مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکال لیا۔

ب۔ علم

قرآن

اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں اور انہیں کوئی نہیں سمجھ سکتا مگر صاحبان علم ہے ۔

حدیث

٢٠٥۔ رسول خدا(ص): علم جہالت کی نسبت دلوںکی زندگی، تاریکی سے چھٹکارا پانے کے لئے آنکھوںکی روشنی، اور کمزوری سے نجات پانے کے لئے بدن کی طاقت ہے ۔

٢٠٦۔ امام علی (ع): تم عقل کے ذریعہ تولے جاؤگے لہذا علم کے ذریعہ اسے بڑھاؤ۔

٢٠٧۔ امام علی (ع): عقل کے رشد کے لئے بہترین چیز تعلیم ہے ۔

٢٠٨۔ امام علی (ع): عقل ایسی فطرت ہے جو علم اور تجربہ سے بڑھتی ہے ۔

٢٠٩۔ امام علی (ع): علم، عقلمند کی عقل میں اضافہ کرتاہے ۔

٢١٠۔ امام صادق(ع): حکمت کے متعلق زیادہ غور وخوض عقل کو نتیجہ خیز بناتاہے ۔

٢١١۔ امام صادق(ع): علم کی موشگافیاں کرنے سے عقل کے دریچے کھلتے ہیں۔

٢١٢۔ امام رضا(ع): جو شخص سوچتا ہے سمجھ لیتا ہے جوسمجھ لیتا ہے عقلمند ہو جاتا ہے ۔

ج۔ ادب

٢١٣۔ رسول خدا(ص): حسن ادب عقل کی زینت ہے ۔

٢١٤۔ امام علی (ع): ہر چیز عقل کی محتاج ہے لیکن عقل ادب کی محتاج ہے۔

٢١٥۔ امام علی (ع): صاحبان عقل کو ادب کی اس طرح ضرورت ہے کہ جس طرح زراعت کوبارش کی ضرورت ہے ۔

٢١٦۔ امام علی (ع): عقل کا بہترین ہمنشیں ادب ہے ۔

٢١٧۔ امام علی (ع): ادب عقل کی صورت ہے ۔

٢١٨۔ امام علی (ع): عقل کی بھلائی ادب ہے ۔

٢١٩۔ امام علی (ع): ادب عقل کے لئے نتیجہ خیز اور دل کی ذکاوت ہے ۔

٢٢٠۔ امام علی (ع): جس کے پاس ادب نہیںہے وہ عقلمند نہیں۔

٢٢١۔ امام علی (ع): جس طرح آگ کو لکڑی کے ذریعہ شعلہ ور کرتے ہو اسی طرح عقل کو ادب کے ذریعہ رشد عطا کرو۔

٢٢٢۔ امام زین العاب دین (ع): علماء کا ادب عقل کی فراوانی کا سبب ہے ۔

د۔ تجربہ

٢٢٣۔ امام علی (ع): عقل ایسی فطرت ہے جو علم اور تجربات سے بڑھتی ہے ۔

٢٢٤۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ،عقل ایسی فطرت ہے جو تجربات سے پروان چڑھتی ہے ۔

٢٢٥۔ امام علی (ع): فطرت کا بہترین مددگار ادب اور عقل کا بہترین معاون تجربہ ہے ۔

٢٢٦۔ امام علی (ع): تجربات ختم نہیں ہوتے عاقل انہیں کے ذریعہ ترقی کرتا ہے۔

٢٢٧۔ امام حسین (ع): طویل تجربہ عقل کی افزائش کا سبب ہے ۔

ھ۔ زمین میں سیر

قرآن

( کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ انکے پاس ایسے دل ہوتے جو سمجھ سکتے اور ایسے کان ہوتے جو سن سکتے اس لئے کہ در حقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں )

( آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ زمین میں سیر کرو اور دیکھو کہ خدا نے کس طرح خلقت کا آغاز کیا ہے اس کے بعد وہی آخرت میں ایجاد کریگا، بیشک وہی ہر شی پر قدرت رکھنے والا ہے )

( اور ہم نے اس بستی میں سے صاحبان عقل و ہوش کے لئے کھلی ہوئی نشانی باقی رکھی ہے )

( پس آج ہم تیرے بد ن کو بچا لیتے ہیں تاکہ تو اپنے بعد والوںکے لئے نشانی بن جائے ، اگر چہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتے ہیں )

حدیث

٢٢٨۔ ابن دینار : خدا نے حضرت موسی ؑ کو وحی کی کہ لوہے کی نعلین پہن کر اور عصا لیکر زمین میں گردش کرو اور (گذشتگان کی) عبرت و آثارڈھونڈھو ، یہاں تک کہ نعلین گھس جائے اور عصا ٹوٹ جائے۔

٢٢٩۔ داؤد(ع): علماء سے کہہ دیجئے کہ آہنی عصا لیکر اور آہنی نعلین پہن کر علم کی تلاش میں نکلیں، یہاں تک کہ عصا ٹوٹ جائے اور نعلین پھٹ جائے ۔

و۔مشورہ

٢٣٠۔ امام علی (ع): جو صاحبان عقل سے مشورہ لیتاہے وہ عقل کی روشنی سے مالا مال ہو جاتا ہے۔

ز۔ تقویٰ

٢٣١۔ سید ابن طاؤس : مجھے ایک کتاب دستیاب ہوئی...... جس پر( سنن ادریس)مرقوم تھا ، اس میں لکھا تھا یاد رکھو اور یقین کرو کہ تقوائے الٰہی بہترین حکمت اور عظیم ترین نعمت ہے اور ایسا وسیلہ ہے جو خیر کی طرف دعوت دیتا ہے اور نیکی ،فہم اور عقل کے دروازوں کو کھول دیتا ہے۔

ح۔ جہاد بالنفس

٢٣٢۔ امام علی (ع): اپنی شہوت کا مقابلہ کرو، اپنے غصہ پر قابو رکھو اور اپنی بری عادتوں کی مخالفت کرو تاکہ تمہاری روح پاک اور تمہاری عقل کامل ہو جائے اور اپنے پروردگار کا ثواب اچھی طرح حاصل کر سکو۔

٢٢٣۔ امام صادق(ع): امیر المومنین ؑ : نے اپنے کسی صحابی کے پاس خط لکھ کر اس طرح نصیحت کی ، تمہیں اور خود اپنے نفس کو اس خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ جس کی نافرمانی مناسب نہیں ، اس کے سوا کوئی امید نہیں اور اس کے علاوہ کوئی بے نیازی نہیں، جو خوف خدا رکھتا ہے جلیل و عزیز، قوی اور سیر و سیراب ہوجاتا ہے خوف خدا اسکی عقل کو اہل دنیا سے باز رکھتا ہے ، اس کا بدن اہل دنیا کے ساتھ ہوتاہے لیکن اس کا دل اور عقل آخرت کا نظارہ کرتی ہے آنکھیں جن چیزوں کو حب دنیا سے لبریز دیکھتی ہیں نور دل کے ذریعہ انہیں بجھا دیتاہے ، حرام دنیا سے چشم پوشی اور شبہات سے پرہیز کرتا ہے خدا کی قسم حلال و مباح سے بھی اجتناب کرتا ہے صر ف ان ٹکڑوں پر گذاراکرتا ہے کہ جن سے اپنی حیات باقی رکھ سکے اور کھردرے و سخت لباس کے ذریعہ اپنی شرمگاہوں کو چھپاتا ہے۔ اپنی حاجتوں میں کسی پر اعتماد اور کسی سے امید نہیں رکھتا تاکہ اعتماد و امید صرف خالق کائنات سے ہو۔ کوشش و جانفشانی کرتا ہے کہ اپنے بدن کو اس قدر زحمت میں ڈالے کہ ان کی پسلیاں دکھائی پڑنے لگیں اور آنکھیں گہرائی میں چلی جائیں پھر خدا اس کے عوض بدن میں طاقت اور عقل کو قوت عطا کرتا ہے اور آخرت کے لئے جو ذخیرہ کرتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے ۔

ط۔ ذکر خدا

٢٣٤۔ امام علی (ع): ذکر خدا عقل کا نور، روح کی زندگی اور سینوںکی جلاء ہے ۔

٢٣٥۔ امام علی (ع): جو شخص زیادہ ذکر خدا کرتا ہے اسکی عقل منور ہو جاتی ہے ۔

٢٣٦۔ امام علی (ع): جو شخص خدائے سبحان کو یاد کرتا ہے خداا سکے دل کو زندہ رکھتا ہے اور اسکی عقل و خرد کو منور کر دیتا ہے۔

٢٣٧۔ امام علی (ع): ذکر خدا عقل کو انس اور دل کو روشنی عطا کرتا ہے اوررحمت خدا کو کھینچتا ہے۔

٢٣٨۔ امام علی (ع): یاد خدا عقل کو ہدایت اور روح کو بصیرت عطا کرتا ہے۔

ی۔ دنیا سے بے رغبتی

٢٣٩۔ امام علی (ع): جو شخص خود کو دنیا کی بخشش و عطا سے بے نیاز رکھتا ہے اس نے عقل کو کامل کر لیاہے۔

ک: حق کا اتباع

٢٤٠۔ رسول خدا(ص): ناصح کا اتباع عقل و خرد کی افزائش اور کمال کا سرچشمہ ہے ۔

٢٤١۔ اعلام الدین : جب معاویہ کے سامنے عقل کا تذکرہ آیا تو امام حسین (ع) نے فرمایا: عقل اتباع حق کے بغیر کامل نہیںہو سکتی، معاویہ نے کہا: آپ حضرات کے سینوںمیں صرف ایک چیز ہے ۔

٢٤٢۔ امام کاظم (ع): جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا: حق کے سامنے جھک جاؤ تاکہ لوگوں میں سب سے بڑے عقلمند قرار پاؤ۔

ل۔ حکماء کی ہمنشینی

٢٤٣۔ امام علی (ع): حکماء کی ہمنشینی اختیار کرو تاکہ تماری عقل کامل ہو، نفس کو شرف ملے اور جہالت کا خاتمہ ہو جائے۔

٢٤٤۔ امام علی (ع): حکماء کی ہمنشینی دلوںکی حیات اور روح کی شفاء ہے ۔

م۔ جاہلوں پر رحم

٢٤٥۔ امام علی (ع): محکم ترین عقل کی نشانیوںمیں سے جاہلوں پر رحم کرنا ہے ۔

ن۔ خدا سے مدد چاہنا

٢٤٦۔ امام زین العاب دین (ع):خدایا! مجھے کامل عقل ، عزم مصمم، ممتاز تدبیر، تربیت یافتہ دل، بے شمار علم اور بہترین ادب عنایت فرما، ان تمام چیزوںکو میرے لئے مفید قرار دے اے ارحم الراحمین تیر رحمت کا واسطہ انہیں میرے لئے ضرر رساں قرار نہ دے۔

٢٤٧۔ ان مناجات میں مرقوم ہے جو جبریل امین رسول خدا کے پاس لائے تھے، بار الٰہا! میرے گناہوںکو توبہ کے ذریعہ مٹا دے میری توبہ کی قبولیت کے ذریعہ میرے عیوب کو دھو دے اور انہیں میرے دل کے زنگ کے لئے صیقل اور عقل کی تیز بینی کا سبب قرار دے۔

٢٤٨۔ امام مہدی ؑ : نے اس دعا میں فرمایا جو محمد بن علی علوی مصری کو تعلیم دی ہے ، خدایا! میں تیری بارگاہ میںسوال کرتا ہوں.... کہ محمد و آل محمد پر درود بھیج، میرے دل کی رہنمائی کر اور میری عقل کو میرے لئے سازگار بنا۔

٤/٢

مقویات دماغ

الف: تیل

٢٤٩۔۔ امام علی (ع): تیل جلد کو ملائم اور دماغ کو پڑھاتاہے ۔

٢٥٠۔ امام صادق(ع): بنفشہ کا تیل دماغ کو تقویت عطا کرتا ہے ۔

ب: کدو

٢٥١۔ رسول خدا(ص):نے علی (ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اے علی (ع)! تم کدو ضرور کھایا کرو کیوں کہ یہ دماغ اور عقل کوبڑھاتاہے۔

٢٥٢۔ انس: رسول خدا(ص) کدو زیادہ کھاتے تھے، میںنے کہا: اے رسول خدا! آپ کدو پسند کرتے ہیں! فرمایا: کدو دماغ کو بڑھاتا اور عقل کو قوی کرتا ہے ۔

٢٥٣۔ رسول خدا(ص): کدو(کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے اس لئے کہ عقل کو زیادہ اور دماغ کو بڑھاتا ہے ۔

٢٥٤۔ رسول خدا(ص): میٹھا کدوکھایا کرو،خدا کے علم میں اس سے زیادہ سبک کوئی درخت ہوتا تو اسے برادرم یونس کے لئے اگاتا، تم میں سے جو بھی شوربا بنائے اسے چاہئے کہ اس میںکدو زیادہ ڈالے اس لئے کہ وہ دماغ اور عقل کو بڑھاتا ہے ۔

ج:بہی

٢٥٥۔ امام رضا(ع): بہی (کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے کہ اس سے عقل بڑھتی ہے۔

د:کرفس(خراسانی اجوائن )

٢٥٦۔ رسول خدا(ص): کرفس (کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے کیوں کہ اگر کوئی چیز عقل کو بڑھاتی ہے تو وہ یہی ہے ۔

ھ: گوشت

٢٥٧۔ امام صادق ؑ : گوشت، گوشت بڑھاتا ہے اور عقل میں اضافہ کرتا ہے جو شخص چند دنوں گوشت نہیں کھاتا اس عقل خراب ہو جاتی ہے ۔

٢٥٨۔ امام صادق(ع): جو شخص چالیس دن گوشت نہیںکھاتا بد اخلاق ہو جاتا ہے اور اسکی عقل خراب ہو جاتی ہے اور جو بد اخلا ق ہو جائے اس کے کان میں آوازسے اذان دی جائے۔

و: دودھ

٢٥٩۔ رسول خدا(ص): تمہارے لئے دودھ پینا ضروری ہے کیوں کہ دودھ حرارت قلب کو اس طرح دور کرتا ہے کہ جس طرح انگلی پیشانی سے پسینہ کو صاف کرتی ہے ، اور کمر کو مضبوط، عقل کو زیادہ اور ذہن کو تیز کرتا ہے ، آنکھوںکو جلاء بخشتا ہے اور نسیان کو دور کرتا ہے ۔

٢٦٠۔ رسول خدا(ص):اپنی حاملہ عورتوں کو دودھ پلاؤ کیوں کہ شکم مادر میں جب بچہ کی غذا ددھ ہوگی تو اس کا دل قوی اور دماغ اضافہ ہوگا۔

ز: سرکہ

٢٦١۔ امام صادق(ع): سرکہ عقل کو قوی بناتا ہے ۔

٢٦٢۔ محمد بن علی ہمدانی : خراسان میں ایک شخص امام رضا(ع) کی خدمت میں تھا آپ ؑ کے سامنے دسترخوان بچھایا گیا کہ جس پر سرکہ اور نمک تھا، امام ؑ نے کھانے کا آغا ز سرکہ سے کیا، اس شخص نے کہا : میں آپ پر فدا ہو جاؤں! ہمیں آپ نے نمک سے آغاز کرنے کا حکم دیا ہے ؟ فرمایا ؑ : یہ بھی ایسا ہی ہے ، سرکہ ذہن کو قوی بناتاہے اور عقل کو بڑھاتاہے ۔

ح: سداب( کالا دانہ )

٢٦٣۔ امام رضا(ع): سداب عقل کو بڑھاتاہے ۔

ط: شہد

٢٦٤۔ امام کاظم ؑ : شہد ہرمرض کےلئے شفاء ہے جو ناشتہ میں ایک انگلی شہد کندر کےساتھ کھائے اسکا بلغم زائل ہو جائیگا، صفراء کو زائل کرتا ہے اور سودا میں تلخی نہیں پیدا ہونے دیتا،ذہن کو صاف و شفاف اور حافظہ کو قوی بناتا ہے ۔

ی: انار کو اس کے باریک چھلکوں کے ساتھ کھانا

٢٦٥۔ امام صادق(ع): انار کو اس کے باریک جھلکوںکے ساتھ کھاؤ کہ معدہ کو صاف اور ذہن کو بڑھاتا ہے ۔

ک: پانی

٢٦٦۔ ابو طیفور متطبِّب: کا بیان ہیکہ میں امام کاظم (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اورانہیں پانی پینے سے منع کیا، امام ؑ نے فرمایا: پانی سے کیا نقصان ہے بلکہ کھانے کو معدہ میں گھماتا ہے ، غصہ کو ختم کرتا ہے ، دماغ کو بڑھاتا ہے اورتلخی کو دور کرتاہے ۔

ل: حجامت(فصد کھلوانا )

٢٦٧۔ رسول خدا(ص): حجامت (فصد کھلوانا)عقل کو بڑھاتی اور حافظہ کو قوی کرتی ہے ۔

٢٦٨۔ رسول خدا(ص): ناشتہ کے وقت حجامت زیادہ مفید ہے کہ اس سے عقل بڑھتی ہے،حافظہ قوی اور حافظ کے حافظہ میں اضافہ ہوتاہے ۔

م: خرفہ

٢٦٩۔ رسول خدا(ص): تمہارے لئے خرفہ کھانا ضروری ہے کیوں کہ اس سے زیر کی بڑھتی ہے بیشک اگر کوئی چیز عقل کو بڑھاتی ہے تو وہ یہی ہے ۔

ن: لیمو

٢٧٠۔ رسول خدا(ص): لیمو کھاؤ اس لئے کہ یہ دل کو روشنی عطا کرتا اور دماغ کوقوی کرتاہے ۔

س: باقلا

٢٧١۔امام صادق(ع): باقلا کھانے سے پنڈلیاں گودے دار ہوتی ہیں اور دماغ بڑھتا ہے ۔

پانچویں فصل عقل کی نشانیاں

٥/١

عقل و جہل کے سپاہی

٢٧٢۔ سماعہ بن مہران: میںامام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر تھا اور وہاںآپ کے کچھ چاہنے والے بھی موجود تھے عقل اور جہل کاتذکرہ آیا تو امام صادق(ع) نے فرمایا: عقل اور جہل اور ان دونوں کے سپاہیوںکو پہچا

نو تاکہ ہدایت پا جاؤ۔ سماعہ کہتا ہے کہ ؛ میںنے عرض کیا، میری جان آپ پر فدا ہو جائے! ہم کچھ نہیں جانتے سوائے یہ کہ جو آپ نے سکھایا ہے ، امام صادق(ع) نے فرمایا: عقل خدا کی پہلی روحانی مخلوق ہے جسے عرش کے دائیں طرف کے اپنے نور سے خلق کیا، پھر اس سے کہا : پیچھے ہٹو وہ پیچھے ہٹ گئی ، پھر کہا:آگے آؤ، آگے آگئی، اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تجھے عظیم مخلوق بنا کر پیدا کیا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر عزت عطا کی ہے ۔

فرمایا: پھر خدا نے جہل کو شور اور تاریک سمندر سے پیدا کیا، اس کے بعد اس سے کہا: پیچھے ہٹ جا وہ ہٹ گیا، پھر کیا: آگے آ، لیکن آگے نہیں آیا، پھر خدا نے اس سے کہا: تونے خود کوبڑا سمجھ لیا ہے پھر خدا نے اس پر لعنت کی ۔

اس کے بعد عقل کے لئے پچھتر سپاہی قرار دئیے، خدا نے عقل کوجو عزت و احترام عطا کیا ہے جب جہل نے اسے دیکھا تو اس کے دل میں کینہ پیدا ہوا اور کہا: اے پروردگار یہ بھی مخلوق میری ہی طرح ہے، تونے اسے پیدا کرکے عزت بخشی ،قوی بنایااور میں اس کے بر خلاف ہوں مجھ میں کوئی طاقت نہیں ہے ، مجھے بھی عقل کی طرح سپاہی عطا کر، خدا نے قبول فرمایا اور کہا: اگر تونے اس کے بعد نافرمانی کی تو میں تجھے اور تیرے سپاہیوںکو اپنی رحمت سے خارج کر دونگا، جہل راضی ہوا، خدا نے اسے پچھتر(٧٥) سپاہی عطا کئے ۔ وہ ٧٥ سپاہی جو خدا نے عقل کو عطا کئےے ہیں(درج ذیل ہیں ) :

خیر جو کہ عقل کا وزیر ہے اور اسکی ضد شر ہے جو کہ جہل کا وزیر ہے ، ایمان کہ جس کی ضد کفر ہے ، تصدیق کہ جس کی ضد انکار ہے ، امید کہ جس کی ضد ناامیدی ہے ، عدل کہ جس کی ضد ستم ہے ،خوشنودی کہ جس کی ضد ناراضگی ہے ، شکر کہ جس کی ضد ناشکری ہے ، طمع کہ جس کی ضد مایوسی ہے ، توکل کہ جس کی ضد حرص ہے ، مہربانی کہ جس کی ضد سنگدلی ہے ، رحمت کہ جس کی ضد غضب ہے ،علم کہ جس کی ضد جہل ہے ، فہم کہ جس کی ضد حماقت ہے ، عفت کہ جس کی ضد بدکرداری ہے ، زہد کہ جس کی ضد رغبت ہے ، نرمی کہ جس کی ضد سختی و تندی ہے ، خوف و ہراس کہ جس کی ضد جرئت مندی اور بیباکی ہے ، تواضع کہ جس کی ضد تکبر ہے، آہستگی کہ جس کی ضد جلد بازی ہے ،بردباری کہ جس کی ضد بیتابی ہے، خاموشی کہ جس کی ضد بکواس ہے ،تابع کہ جس کی ضد سرکشی ہے ، تسلیم کہ جس کی ضد شک ہے ، صبر کہ جس کی ضدگھبراہٹ ہے، چشم پوشی کہ جس کی ضد انتقام ہے ، غنی کہ جس کی ضد فقر ہے ، یاد دہانی کہ جس کی ضد بے خبری ہے ، یاد رکھنا کہ جس کی ضد فراموشی ہے ، عطوفت کہ جس کی ضد جدائی ہے ، قناعت کہ جس کی ضد حرص و لالچ ہے ، ہمدردی کہ جس کی ضد دریغ ہے، دوستی کہ جس کی ضد عداوت ہے، وفا کہ جس کی ضد بے وفائی ہے ، طاعت کہ جس کی ضد معصیت ہے ، خضوع کہ جس کی ضد غرور ہے ، سلامتی کہ جس کی ضد گرفتاری ہے ، محبت کہ جس کی ضد بغض و کینہ ہے ، صداقت کہ جس کی ضد جھوٹ ہے ، حق کہ جس کی ضد باطل ہے امانت کہ جس کی ضد خیانت ہے ، اخلاص کہ جس کی ضد ملاوٹ ہے ، دلیری کہ جس کی ضد بزدلی ہے ، فہم کہ جس کی ضد کند ذہنی ہے ، معرفت کہ جس کی ضد انکار ہے ، رازداری کہ جس کی ضد فاش کرنا ہے ، یک رنگی کہ جس کی ضد دوروئی ہے ، پردہ پوشی کہ جس کی ضد افشاء ہے ، نمازگذاری کہ جس کی ضد ضائع کرنا ہے ، روزہ رکھنا کہ جس کی ضد کھانا ہے ، جہاد کہ جس کی ضد جنگ سے فرار ہے ، حج کہ جس کی ضد پیمان شکنی ہے ، بات کو ہضم کرنا کہ جس کی ضد چغلخوری ہے ۔

والدین کے ساتھ نیکی کہ جس کی ضد اذیت رسانی ہے، حقیقت کہ جس کی ضد ریاکاری ہے ، نیکی کہ جس کی ضد برائی ہے، پوشیدگی کہ جس کی ضد خودنمائی ہے ، تقیہ کہ جس کی ضد لاپروائی ہے، انصاف کہ جس کی ضد جانبداری ہے ، پائداری کہ جس کی ضد تجاوز ہے ، پاکیزگی کہ جس کی ضد آلودگی ہے ، حیاء کہ جس کی ضد بے حیائی ہے ، میانہ روی کہ جس کی ضد حد سے بڑھ جانا ہے ۔، آسودگی و راحت کہ جس کی ضد تھکن ہے ، آسانی کہ جس کی ضد سختی ہے ، برکت کہ جس کی ضد بے برکتی ہے ، عافیت کہ جس کی ضد بلاء ہے اعتدال کہ جس کی ضد افراط ہے ، حکمت کہ جس کی ضد ہوی و ہوس ہے، وقار کہ جس کی ضد خفت ہے ، سعادت کہ جس کی ضد بد بختی ہے۔

توبہ کہ جس کی ضد اصرار گناہ ہے ، استغفار کہ جس کی ضد بیہودگی ہے، محافظت کہ جس کی ضد حقیر و پست سمجھنا ہے، دعا کہ جس کی ضد دعا سے باز رہنا ہے ، نشاط و فرحت کہ جس کی ضد کاہلی ہے ، خوشی کہ جس کی ضد حزن ہے ، الفت کہ جس کی ضد فراق ہے سخاوت کہ جس کی ضد بخل ہے ۔

عقل کے یہ تمام سپاہی صرف بنی یا وصی نبی اور ا س مومن میں جمع ہو تے ہیں جس کے دل کا امتحان اللہ نے ایمان کے ذریعہ لیا ہے، لیکن ہمارے دیگر محبین عقل کے سپاہیوں میں سے بعض کے حامل ہو جائیں کہ جن کے سبب درجہ کمال تک پہنچ جائیں اور جہالت کے سپاہیوں سے پاک ہو جائیں تو اس صورت میں انبیاء و اوصیاء کے ساتھ بلند درجہ میں ہوں گے، اس مقام تک رسائی عقل اور اس کے سپاہیوں کی معرفت اور جہل اور اس کے سپاہیوں سے علٰحدگی کے سبب ہو سکتی ہے۔ خدا وند ہمیں اور آپکو اپنی اطاعت و خوشنودی کی توفیق عطا فرمائے۔

٥/٢

عقل کے آثار

الف۔ علم و حکمت

قرآن

( وہ جس کو بھی چاہتا ہے حکمت عطا کر دیتا ہے اور جسے حکمت عطا کر دی جائے اسے گویا خیر کثیر عطا کر دیا گیا اور اس بات کو صاحبان عقل کے سوا کوئی نہیں سمجھتا ہے )

( اس واقعہ میں نصیحت کا سامان موجود ہے اس انسان کے لئے جس کے پاس دل ہو یا جو حضور قلب کے ساتھ بات سنتا ہو )

ملاحظہ کریں:آل عمران: ٧،رعد:١٩، ابراہیم ٥٢، سورہ ص:٢٩اور ٤٣ زمر: ٩ اور ٢١، غافر:٥٤۔

حدیث

٢٧٣۔ سلیمان بن خالد: میں نے امام صادق(ع) سے اس قول خدا( جسے حکمت عطا کی گئی گویا اسے خیر کثیر عطا کیا گیا) کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ حکمت سے معرفت اور دین میں تفقہ مراد ہے ، لہذاتم میں سے جو شخص فقیہ ہو گیا وہ حکیم ہو گیا۔

٢٧٤۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔ اے ہشام اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے (اس واقعہ میں نصیحت کا سامان موجود ہے اس انسان کے لئے جس کے پاس دل ہو) قلب سے عقل مراد ہے ، نیز فرماتا ہے (یقینا ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی ) امام نے فرمایا : فہم و عقل مراد ہے ....

اے ہشام! خدا نے اپنے انبیاء ومرسلین کوا پنے بندوں کی طرف نہیں بھیجا ہے مگر یہ کہ وہ خدا کے بارے میں غور و خوض کریں۔ اور انبیاء کی دعوت کو سب سے اچھی طرح اس شخص نے قبول کیا ہے جو سب سے بہتر معرفت رکھتا ہے اورامر خدا کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا وہ شخص ہے جس کی عقل سب سے بہتر ہے اور ان میں جس کی عقل زیادہ کامل ہے دنیا و آخرت میں اس کا درجہ زیادہ بلند ہے...اے ہشام ! تمہارا عمل اللہ کے نزدیک کیوں کر پاک ہو سکتا ہے جبکہ تمہارا دل امر پروردگار سے منحرف ہے اور اپنی خواہشات کی پیروی کرکے انہیں اپنی عقل پر غالب کر لیا ہے ؟!....اے ہشام ! حق کی بنیاد طاعت خدا پر ہے ، اور بغیر طاعت کے نجات نہیں مل سکتی ، طاعت علم سے حاصل ہوتی ہے اور علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے اور سیکھنے کا تعلق عقل سے ہے ، البتہ علم ، خدا رسیدہ عالم کے بغیر حاصل نہیںہو سکتا اور علم کی معرفت کا دارومدار عقل پر ہے ....بیشک وہ شخص خدا کا خوف نہیں رکھتا جو خدا کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا ، اور جو خدا کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا اس کا دل مستحکم معرفت کا گروی نہیں ہو سکتا کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے دل میں حقیقت معرفت کو درک اور محسوس کر سکے، اور ایسی معرفت کا حامل وہی ہو سکتا ہے کہ جس کا قول اس کے کردار کی تصدیق کرتا ہے اور اسکاباطن اس کے ظاہر سے ہم آہنگ ہوتاہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل کے ظاہر کو اس کے باطن کی علامت اور اس کا غماز قرار دیا ہے۔

٢٧٥۔ امام کا ظم ؑ : اے ہشام! بیشک عقل علم کے ساتھ ہے ، چنانچہ ارشا د ہے :'' اور مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کے لئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحب علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ''

٢٧٦۔ امام علی (ع): عقل اور علم دونوں ایک دوسرے سے اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ نہ کبھی جدا ہوں گے اور نہ ہی آپس میں ٹکرائیں گے ۔

٢٧٧۔ رسول خدا(ص): عقل جہالت سے باز رکھتی ہے اور نفس نہایت سر کش چوپایہ کی طرح ہے کہ اگر بے مہار چھوڑ دیا جائے تو سر گرداںرہتا ہے ، پس جہالت کی مہار عقل ہے ۔

٢٧٨۔ امام علی (ع): جس نے غورکیا وہ سمجھ گیا۔

٢٧٩۔ امام علی (ع): عقل علم کا ستون اور فہم کی طرف دعوت دینے والی ہے ۔

٢٨٠۔ امام علی (ع): عقلوں کے ذریعہ علوم کی بلندیوںتک رسائی ہوتی ہے ۔

٢٨١۔ امام علی (ع): علم کا مرکب عقل اور حلم کا مرکب علم ہے ۔

٢٨٢۔ امام علی (ع): علم، عقل کا عنوان ہے ۔

٢٨٣۔ امام علی (ع): علم ، عقل پر دلالت کرتا ہے لہذا جس نے جان لیا عقلمند ہے ۔

٢٨٤۔ امام علی (ع): عقل کے ذریعہ حقیقت حکمت حاصل ہوتی ہے اور حکمت کے ذریعہ حقیقت عقل ۔

٢٨٥۔ امام علی (ع): حکمت عقلمندوں کا باغ اور فضلاء کی تفریحگاہ ہے ۔

٢٨٦۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل اس کے قابو میں ہے وہ حکیم ہے۔

٢٨٧۔ امام صادق ؑ : انسان کا پشت پناہ عقل ہے اور زیرکی، فہم، حفظ اور علم کا سرچشمہ عقل ہے ، عقل کے ذریعہ انسان کمال تک پہنچتا ہے ، عقل انسان کا رہنما ہے ، اسے بصیرت و بینائی عطا کرنے والی اور اس کے کاموں کی کنجی ہے ، اگر انسان کی عقل کی تائیدنور سے ہو تو وہ عالم ، حافظ،ذاکر، زیرک اور صاحب فہم ہے اس کے ذریعہ ''کس طرح ، کیوں اور کہاں'' کے جواب سے بھی واقف ہو جائیگا، نیز اپنے خیر خواہ اور دھوکا دینے والے کو پہچان لیگا۔ اگر وہ انہیں جان لیگا تو ان کے موقع و محل سے بھی واقف ہو جائیگا اور خدا کی وحدانیت کو خالص کر لیگااور اسکی طاعت کا اقرار کریگا، اگر ایسا ہو جائے تو چھوٹ جانے والی چیزوں کو پالیگااور آئندہ کے لئے محتاط رہیگا، اور وہ اپنے متعلق سمجھ لیگا کہ اس دنیا میں اسکی زندگی گذارنے کا مقصد کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے اور کہاں پلٹ کر جائیگا، یہ تمام عقل کی تائید و حمایت سے ہےں۔

٢٨٨۔ امام صادق ؑ : نے عقل و جہل کے سپاہیوں کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا: حکمت اور اسکی ضد خواہشات نفسانی ہے۔

ب۔ معرفت خدا

٢٨٩۔رسول خدا(ص): اللہ تعالیٰ نے عقل کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ،جس شخص میں یہ حصے ہیںاسکی عقل کامل ہے اور جس میں یہ نہیں ہیںوہ عقل سے بے بہرہ ہے : خدا کی بہترین معرفت،اسکی بہترین طاعت اور امرپروردگارپر اچھی طرح صابررہنا۔

٢٩٠۔ تحف العقول۔ اہل نجران سے ایک نصرانی مدینہ آیا، وہ سخنور، با وقار اور با ھیبت تھا، پوچھا گیا: کہ اے رسول خدا ؐ ! کس چیز نے اس نصرانی کو عقلمند بنایا ہے ؟!رسول خدا ؐ نے قائل کو ڈانٹا اور فرمایا: خاموش ہو جاؤ! عقلمند وہ شخص ہے جو خدا کی وحدانیت کا قائل اور اس کا مطیع ہو۔

٢٩١۔امام علی -: مخلوقات کے ذریعہ خدا پر استدلال کیا جاتا ہے ، اور عقل کے وسیلہ سے خدا کی معرفت مستحکم ہوتی ہے اور فکر کے ذریعہ اسکی حجتیں ثابت ہوتی ہیں۔

٢٩٢۔ امام علی -: ساری تعریف اللہ کے لئے ہے...وہ خدا جو پوشیدہ امور سے نہاں ہے اور عقلوں میں آشکار ان چیزوں کے سبب ہے جنہیں اپنی مخلوق میں تدبیر کی نشانیاں قرار دیاہے وہ خدا کہ جس کے بارے میں جب انبیاء سے پوچھا گیا تو وہ اسکی توصیف نہ حد کے ذریعہ کر سکے اور نہ ہی جزء کے ذریعہ ، بلکہ اسکی توصیف اس کے افعال کے ذریعہ کی ، اور اسکی طرف اسکی آیات کے ذریعہ راہنمائی کی ۔ غور و خوض کرنے والوں کی عقلیں خدا کا انکار نہیں کر سکتی ہیں۔ کیوں کہ جو آسمان و زمین کا خالق اور ان کے درمیان تمام چیزوںکا صانع ہے ، اسکی قدرت کا انکار ممکن نہیں ہے ۔

٢٩٣۔ امام صادق -: ہر کام کا آغاز اور اسکی ابتدا اور استحکام و آباد کاری ، کہ جس سے ہر منفعت کا تعلق ہے ، عقل ہے ؛ کہ جس کو اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے زینت اورنور قرار دیا ہے ، عقل کے ذریعہ بندوں نے اپنے خالق کو پہچانا اور خود کو مخلوق جانا، اور اس کو اپنا مدبر اور خود کو اسکی تدبیر کے ما تحت سمجھا اور اس کے باقی اور خود کے فانی ہونے کا علم ہوا جو کچھ اسکی مخلوق (آسمان و زمین ، سورج و چاند اور شب و روز) میں دیکھتے ہیںاپنی عقلوں کے ذریعہ اس پر دلیل قائم کرتے ہیں کہ ان چیزوںکااور خودہماراایک خالق وکار ساز ہے جو ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہیگا، اور عقل کے وسیلہ سے حسن کو قبیح سے جدا کرتے ہیں اور اس سے بھی واقف ہوتے ہیں کہ جہالت میںتاریکی ہے اور علم میںنور ہے یہ ہیں وہ چیزیں جن کی طرف عقل رہنمائی کرتی ہے ۔

پوچھا گیا: کیا بندے صرف عقل پر اکتفا کریں؟! فرمایا: عقلمند اپنی عقل کے ذریعہ (جسے اللہ نے اس کے لئے ستون ، زینت اور ہدایت قرار دیا ہے) جانتا ہے کہ خداہی حق ہے ، وہ اس کا پروردگار ہے ، اوریہ بھی جان لیتاہے کہ اس کے خالق کی کچھ پسند اور کچھ نا پسند ہے کچھ طاعت اور کچھ معصیت ہے ، فقط عقل ہی کے ذریعہ ان چیزوں کو نہیں حاصل کر سکتا، وہ جانتا ہے کہ ان چیزوں تک رسائی علم اور تحصیل علم کے بغیر ممکن نہیں ہے ، وہ اپنی عقل سے بہرہ مند نہ ہوتا اگر وہ اپنے علم کے ذریعہ ان چیزوں تک نہ پہنچتا، پس عاقل پر اس علم و ادب کا سیکھنا واجب ہے کہ جس کے بغیر اسکی کوئی حیثیت نہ ہو۔

٢٩٤۔ امام کاظم (ع): نے ہشام سے اپنی وصیت میں فرمایا: اے ہشام: بدن کا نور آنکھوں میں ہے ۔ اگرآنکھیںروشن ہیں تو بدن بھی نورانی ہوگا۔ اور روح کی روشنی عقل ہے لہذا اگر بندہ عقلمند ہو تو اپنے پروردگار سے آگاہ ہوگا اور جو اپنے پروردگار سے آگاہ ہوگا وہ اپنے دین میں صاحب بصیرت ہوگا۔ اور اگر بندہ اپنے پروردگار سے نا آشنا ہو تو اس کا دین پائیدار نہیں ہوگا۔ اور جس طرح زندہ روح کے بغیر جسم قائم نہیں رہ سکتا اسی طرح سچی نیت کے بغیر دین بھی قائم نہیں رہ سکتا اور عقل کے بغیر سچی نیت ثابت نہیںرہ سکتی۔

٢٩٥۔ امام رضا(ع): عقل کے ذریعہ خدا کی تصدیق کی جاتی ہے ۔

ج۔دین

٢٩٦۔ رسول خدا(ص): جس کے پاس عقل نہیں اس کے پاس دین نہیں ہے ۔

٢٩٧۔ امام علی (ع): جبریل ؑ حضرت آدم ؑ پر نازل ہوئے اور فرمایا: اے آدم! مجھے حکم دیا گیاکہ تمہیں تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار دوں لہذا ، ایک لے لو اور دو چھوڑ دو، حضرت آدم نے کہا: اے جبریل ! وہ تین (چیزیں) کیا ہیں؟! کہا: عقل ، حیا اور دین ، پس حضرت آدم نے کہا: میں نے عقل کوانتخاب کیا، اس وقت جبریل نے حیا اور دین کی طرف رخ کرکے کہا: تم دونوں جاؤ اور عقل کا ساتھ چھوڑ دو، تو ان دونوں نے کہا: اے جبریل! ہم مامور ہیں کہ ہمیشہ عقل کے ساتھ رہیں ، جبریل نے کہا: تم خود جانو اور اوپر پرواز کر گئے۔

٢٩٨۔ امام علی (ع): مومن ایمان نہیں لاتا یہاں تک کہ عقلمند ہو جائے۔

٢٩٩۔ امام علی (ع): دین اور ادب عقل کا نتیجہ ہیں۔

٣٠٠۔ امام صادق(ع): جو شخص عقلمند ہے وہی دیندار ہے اور جو دیندار ہے وہ داخل بہشت ہوگا۔

٣٠١۔ ارشاد القلوب: توریت موسی ؑ میں ہے ، کوئی عقل دینداری کے مانند نہیں۔

د۔ کمال دین

٣٠٢۔ رسول خدا(ص): انسان کا دین ہر گز کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسکی عقل کامل نہ ہو۔

٣٠٣۔ رسول خدا(ص): کسی شخص کا اسلام تمہیں خوش نہ کرے جب تک کہ تم اسکی عقلمندی نہ دیکھ لو۔

٣٠٤۔ رسول خدا(ص): کسی شخص کا اسلام تمہیں فریفتہ نہ کرے مگر یہ کہ تم اسکی عقل کی گہرائی کو جان لو۔

٣٠٥۔ امام علی (ع): جس میں یہ تین خصلتیں ، عقل ، حلم اور علم ، ہوں اس کا ایمان کامل ہے ۔

٣٠٦۔ امام علی (ع): دین، عقل کے مطابق ہوتا ہے اور قوت یقین ، دین کے مطابق ہے ۔

٣٠٧۔ امام کاظم (ع): جس طرح جسم، زندہ روح کے بغیر قائم نہیں رہتا اسی طرح دین بھی سچی نیت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا اور سچی نیت کا دار و مدار عقل پر ہے ۔

ھ۔ مکارم اخلاق

٣٠٨۔ رسول خدا(ص): نے اس شخص کے جواب میں''کہ جس نے پوچھا عقل کیاہے؟ اور اسکی کیفیت کیا ہے؟ عقل سے کون سی چیزیں پیدا ہوتی ہیں اورکون سی چیزیں پیدا نہیںہوتیں اور اقسام عقل کیا ہیں؟'' فرمایا: عقل، جہالت کی نکیل ہے، روح شریر ترین چوپائے کے مانند ہے کہ اگر اسے مہار نہ کیا جائے تو سر گرداںرہتا ہے، پس عقل ، جہالت کی مہار ہے ، اللہ نے عقل کو خلق کیا اور اس سے کہا: آگے آؤ وہ آگے آگئی، پھر کہا: پیچھے ہٹو ، پیچھے ہٹ گئی ، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میری عزت و جلال کی قسم ، میں نے تجھ سے زیادہ عظیم اور اطاعت گذار مخلوق نہیں پیدا کی، میں تیرے ہی سبب آغاز کرتا ہوں اور تیرے ہی ذریعہ پلٹاؤنگا، تیرے ہی سبب جزا و سزادوںگا ، پس حلم کا سر چشمہ عقل، علم کامنبع حلم، رشد کا مرکزعلم، پاکدامنی کا سرچشمہ رشد، تحفظ کا منبع پاکدامنی ، حیا کا سرچشمہ تحفظ، متانت کا مرکزحیا، نیکیوں پر دوام کامنبع متانت، برائیوں سے پرہیز کا سرچشمہ نیکیوں پر دوام اور ناصح کی اطاعت کا سرچشمہ برائیوں سے پرہیز ہے ۔

٣٠٩۔رسول خدا(ص): لوگوں کے ساتھ مہربانی نصف عقل ہے ۔

٣١٠۔ رسول خدا(ص): حسن ادب ، عقل کے صحیح ہونے کی دلیل ہے ۔

٣١١۔ امام علی (ع): بیوقوفوں کی ہمنشینی سے اخلاق تباہ ہو جاتے ہیں اور عاقلوںکی ہمنشینی سے اخلاق سنور جاتے ہیں۔

٣١٢۔ امام علی (ع): انسان میں ادب ایسا درخت ہے جس کی جڑ عقل ہے ۔

٣١٣۔ امام علی (ع): ادب، عقل کی دلیل اور علم، دل کی دلیل ہے ۔

٣١٤۔ امام علی (ع): بہترین عقل، ادب ہے ۔

٣١٥۔ امام علی (ع): عقلمندی کی حد عاقبت اندیشی اور قضائے الہی پر راضی رہناہے ۔

٣١٦۔ امام علی (ع): دور اندیش انسان اپنی عقل کی بنا پر ہر پستی سے باز رہتا ہے ۔

٣١٧۔ امام علی (ع): اچھی فکر والا ذلیل نہیں ہوگا۔

٣١٨۔ امام علی (ع): نفس کے کمال کا انحصار عقل پر ہے۔

٣١٩۔ امام علی (ع): پسندیدہ اخلاق، عقل کا ثمرہ ہے ۔

٣٢٠۔ امام علی (ع): عقل کے مانند کوئی چیز فضیلتوں کو نہیں سنوارتی۔

٣٢١۔ امام علی (ع): خوف خدا رکھنے والاعقلمند ہے ۔

٣٢٢۔ امام علی (ع): عقل درخت کے مانند ہے کہ جس کا میوہ سخاوت اور حیا ہے ....

٣٢٣۔ امام علی (ع): عقل ایسا درخت ہے کہ جس کی جڑ تقویٰ ِ شاخیں حیا اور پھل ورع ہے تقویٰ تین خصلتوں ، فہم دین ، دنیا سے بے رغبتی اور خدا سے لو لگانے کی دعوت دیتا ہے ، اور حیا، تین خصلتوں ، یقین ، حسن خلق اور تواضع کی دعوت دیتی ہے اور ورع، تین خصلتوں ، صداقت ، نیکیوںکی طرف بڑھنے اور ترک شبہات کی دعوت دیتا ہے۔

٣٢٤۔ امام علی (ع): عقل کا نتیجہ عبرت و پشتپناہی اور جہل کانتیجہ غفلت و خود پسندی ہے۔

٣٢٥۔ امام علی (ع): انسان کی عقل کی شناخت اسکی پاکدامنی اور قناعت کی آراستگی سے ہوتی ہے ۔

٣٢٦۔ امام علی (ع): تمہارے لئے سخاوت ضروری ہے؛ اس لئے کہ یہ عقل کا ثمر ہے ۔

٣٢٧۔امام علی (ع): عقلمند کے لئے یہی کافی ہے کہ اپنے خواہشات کو کم رکھے۔

٣٢٨۔ امام علی (ع): عقلمندی کی علامت حسن سلوک ہے ۔

٣٢٩۔ امام علی (ع): عقلمندی کی علامت لوگوں سے نیک برتاؤ ہے۔

٣٣٠۔ امام علی (ع): کوئی عقلمندی تجاہل کے مثل نہیں۔

٣٣١۔ امام علی (ع): عقلمندی ہر جگہ انس و الفت کے ساتھ ہوتی ہے ۔

٣٣٢۔ امام علی (ع): بردباری عقلمندی کی دلیل اور فضیلت کی علامت ہے ۔

٣٣٣۔ امام علی (ع): عقلمند پہچانا نہیں جاتا مگر یہ کہ بردباری ، تقاضوں کی کمی اور نیکیوں کے ذریعہ۔

٣٣٤۔ امام علی (ع): ہر چیز کی زکات ہوتی ہے اور عقلمندی کی زکات جاہلوں کو برداشت کرنا ہے ۔

٣٣٥۔ امام علی (ع): انسان کی جوانمردی اسکی عقل کے مطابق ہوتی ہے ۔

٣٣٦۔ امام علی (ع):علم کے ذریعہ نفس کا جہادعقل کی نشانی ہے ۔

٣٣٧۔ امام علی (ع): عقلمندی، گناہوں سے دوری ،عاقبت اندیشی اور احتیاط ہے ۔

٣٣٨۔ امام علی (ع): عقل، ہوشیاری کا سبب ہے ۔

٣٣٩۔ امام علی (ع):...مومن کی عقلمندی کی نشانی خود کے ساتھ انصاف ، اپنی مخالفت کے وقت غیظ و غضب کا ترک کرنا اور جب حق اس کے لئے روشن ہو جائے تو اس کا قبول کرنا ہے ۔

٣٤٠۔ امام علی (ع): بردباری ایسا نور ہے کہ جس کی اساس عقلمندی ہے ۔

٣٤١۔ امام علی (ع): عقلمندی سے بردباری میں اضافہ ہوتا ہے ۔

٣٤٢۔ امام علی (ع): عقل کی فراوانی سے بردباری میں اضافہ ہوتا ہے۔

٣٤٣۔ امام علی (ع): عقلمندی یہ ہے کہ میانہ روی اختیار کرو اور اسراف نہ کرو ،وعدہ کرو تو اسکی خلاف ورزی نہ کرو اور جب غصہ آجائے تو بردباری کا مظاہرہ کرو۔

٣٤٤۔ امام علی (ع): سکون عقلمندی کی نشانی ہے۔

٣٤٥۔ امام علی (ع):عقلمندی کا نتیجہ حق کاپابند ہونا ہے ۔

٣٤٦۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ صداقت ہے ۔

٣٤٧۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ دنیا سے بیزاری اور خواہشات کی پامالی ہے ۔

٣٤٨۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ پائداری ہے۔

٣٤٩۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہوگا فیاض ہوجائےگا۔

٣٥٠۔ امام علی (ع): عقلمندی کی جڑ پاکدامنی ہے اور اس کا نتیجہ گناہوں سے بچناہے ۔

٣٥١۔ امام علی (ع):جو عقلمند ہوگا سمجھے گااور جو عقلمند ہوگا پاکدامن ہو جائیگا۔

٣٥٢۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ کسی کی گفتگو سے خوش نہ ہو جب تک کہ اس کے کردار سے راضی نہ ہو جاؤ، اور اس کے کردار کو اس وقت تک پسند نہ کروجب تک کہ اسکی عقلمندی سے راضی نہ ہو جاؤ اور اسکی عقلمندی سے اس وقت تک راضی نہ ہو جب تک کہ اسکی حیا سے راضی نہ ہو جاؤ، کیوں کہ انسان بزرگی و پستی سے مرکب ہے لہذا جب اسکی حیا قوی ہوگی تو اسکی عظمت بھی مستحکم ہو جائیگی اور اگر حیا کم ہوگی تو اسکی پستی مستحکم ہو جائیگی۔

٣٥٣۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ، عقل اور مکارم اخلاق کا معیار، آبرو مندی ، واجبات کی جزا، انجام مستحبات، عہد و پیمان کی پابندی اور وعدوں کی وفا ہے ۔

٣٥٤۔ اما م حسن (ع): جس شخص کے پاس عقل نہیں اس کے پاس ادب نہیں۔

٣٥٥۔ امام حسن (ع): جب آپ ؑ سے عقل کے متعلق پوچھا گیا، تو فرمایا غم و غصہ کو گھونٹ گھونٹ کر کے پینا ہے ، یہاں تک کہ موقع ہاتھ آجا ئے۔

٣٥٦۔ اما م حسین (ع): جب آپ ؑ سے عقل کے بارے میں پوچھا گیا، تو فرمایا: غم و غصہ کو گھونٹ گھونٹ کر کے پی جانا اور دشمنوں کے ساتھ مہربانی کرنا ہے ۔

٣٥٧۔ امام صادق(ع): لوگوں کے ساتھ نیک برتاؤسے پیش آنا ایک تہائی عقلمند ی ہے ۔

٣٥٨۔ امام صادق(ع): عقلمند ، عقلمند نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں یہ تین چیزیں کامل نہ ہوجائیں: خوشی و ناراضگی دونوں حالتوں میں حق اداکرنا، جو چیز اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی لوگوں کے لئے بھی پسند کرنا اور دوسروں کی لغزش کے وقت بردباری کا مظاہرہ کرنا۔

٣٥٩۔ امام صادق(ع): بندوں کے درمیان پانچ سے کم خصلتیں تقسیم نہیںہوئی ہیں:یقین، قناعت، صبر، شکر اور عقل جو ان تمام کو کامل کرنے والی ہے ۔

و۔ نیک اعمال

قرآن

( کیا وہ شخص جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا سب بر حق ہے وہ اس کے جیسا ہو سکتا ہے جو بالکل اندھا ہے( ہرگز نہیں) اس بات کو صرف صاحبان عقل ہی سمجھ سکتے ہیں )

( جو عہد خدا کو پورا کرتے ہیں اور عہد شکنی نہیں کرتے ہیں )

( اور جو ان تعلقات کو قائم رکھتے ہیں جنہیں خدا نے قائم رکھنے کا حکم دیا اور اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں اور بدترین حساب سے خوفزدہ رہتے ہیں )

حدیث

٣٦٠۔ رسول خدا(ص): طاعت پروردگار کے سلسلہ میں فرشتوں نے عقل کے ذریعہ جد و جہد اور کوشش کی ، اور مؤمنین نے اپنی عقل کے مطابق طاعت خدا میںسعی و کوشش کی ، پس وہ لوگ جو بیشتر عقل کے مالک ہیں وہ بیشتر خدا کی پیروی کرتے ہیں۔

٣٦١۔ رسول خدا(ص): جب آپ سے عقل کے متعلق سوال کیا گیا، تو فرمایا: حکم خدا کی تعمیل کرنا ہے ، اور بیشک حکم خدا کی تعمیل کرنے والے عقلاء ہی ہیں۔

٣٦٢۔ جابر بن عبد اللہ : نبی نے اس آیت (اور مثالیں ہم عالم انسانیت کے لئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحب علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتاہے)کی تلاوت کی اور فرمایا: عالم و ہ شخص ہے جو خدا کے بارے میں آگاہی رکھتا ہے اور اسکی پیروی کرتا اور اس کے غضب سے پرہیز کرتا ہے ۔

٣٦٣۔ سوید بن غفلہ: کا بیان ہے ایک روز ابو بکر نکلے ، رسول خدا نے ان کا خیر مقدم کیاتو ابو بکر نے پوچھا، اے رسول خدا! آپ کس چیز کی بدولت مبعوث ہوئے؟ فرمایا: عقل کے سبب ، ابو بکر نے عرض کیا: عقل تک ہماری رسائی کیسے ہو سکتی ہے؟ رسول خدا نے فرمایا: عقل کی کوئی حد نہیں جو حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام سمجھے اسے عقلمند کہا جاتا ہے ۔ لہذا جو اس کے علاوہ سعی و کوشش کر یگا وہ عابد کہا جائیگا اور اگر اس سے زیادہ کوشش کریگا تو سخی کہا جائیگا اور جو عبادت میں جد و جہد اور نیکیوں کی مشکلات کو برداشت کرتا ہے لیکن ایسی عقل کا حامل نہیں ہے جو اسے حکم خدا کی پیروی اور اسکی نواہی سے پرہیز کی طرف ہدایت کرے، یہی لوگ اپنے کام کے اعتبار سے خسارہ میں ہیں اور ان کی سعی و کوشش زندگانی دنیا میں تباہ و برباد ہوگئی در حالانکہ وہ اپنے گمان کے مطابق نیک کام انجام دے رہے ہیں۔

٣٦٤۔ امام علی (ع): عقلیں افکار کی پیشوا اور افکار دلوںکے پیشوا ہیں ، قلوب حواس کے پیشوا اور حواس اعضا کے پیشوا ہیں۔

٣٦٥۔ امام علی (ع): اطاعت ، عقل کے مطابق ہوتی ہے ۔

٣٦٦۔ امام علی (ع): جس کی عقل کامل ہوتی ہے اسکاکام نیک ہو تا ہے ۔

٣٦٧۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی عقل کو خواہشات پر مقدم رکھتا ہے اسکی سعی مشکور ہوتی ہے ۔

٣٦٨۔ امام علی (ع): عقلمندی کی نشانیوں میں سے عادلانہ رویہ اختیار کرنا ہے ۔

٣٦٩۔ امام علی (ع): عنصر عقل( انسان ) کو عدالت سے کام لینے پر ابھارتا ہے ۔

٣٧٠۔ امام علی (ع): عقلمندی یہ ہیکہ جو جانتے ہو وہی کہو اور جو کہتے ہو اس پر عمل کرو۔

٣٧١۔ امام علی (ع):جو شخص اپنی زبان کوصحیح رکھتا ہے اسکی عقل سنورجاتی ہے ۔

٣٧٢۔ امام علی (ع): معذرت، عقلمندی کی نشانی ہے ۔

٣٧٣۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ نیکو کاروںکی ہمنشینی ہے ۔

٣٧٤۔ امام صادق(ع): عقلمندی کی بہترین سرشت، عبادت ہے ، اس کے لئے محکم ترین سخن علم ہے ؛ اسکی عظیم ترین بہرہ مندی حکمت اور اس کا عظیم ترین ذخیرہ نیکیاںہیں۔

ز۔ ہر شی کو اسکی جگہ پر رکھنا

٣٧٥۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو ہر شی کو اسکی جگہ پر رکھتا ہے اور جاہل اس کے بر خلاف ہوتا ہے ۔

٣٧٦۔امام علی (ع):آپ سے گذارش کی گئی کہ عاقل کی توصیف فرمائیں ۔ تو فرمایاکہ عاقل وہ ہے جو ہر شی کو اسکی جگہ پر رکھتا ہے! عرض کیاگیا، پھر جاہل کی تعریف کیا ہے ۔ فرمایایہ تو میں بیان کر چکا ۔

٣٧٧۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو اپنے کام کو بحسن وخوبی انجام دیتا ہے اورموقع و محل کے اعتبار سے کوشش کرتا ہے۔

٣٧٨۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے مناسب نہیںکہ حدود سے تجاوز کرے ، بلکہ ہر چیز کو اسکی جگہ پر قرار دے۔

فائدہ

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں آثار عقل میں سے ہر چیز کو اسکی جگہ پر قرار دیناہے اور دوسری جانب ، یہی معنیٰ عدل کی تعریف میں گذر چکے ہےں ۔ لہذا ان دونوں احادیث کے موازنہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آثار عقل میں سے عدل کی رعایت بھی ہے اور عاقل ، عدل کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اور اس نتیجہ کی بعض احادیث میں وضاحت کی گئی ہے ۔

ح۔ بہتر کا انتخاب

٣٧٩۔ امام علی (ع): عقل تمہیں زیادہ نفع بخش کا حکم دیتی ہے اور جوانمردی زیادہ حسن و جمال کا۔

٣٨٠۔ امام علی (ع): جو شخص خیر کو شر سے جدا نہیں کر سکتاوہ چوپایوں کے مثل ہے ۔

٣٨١۔ امام علی (ع): عاقل وہ نہیں ہے کہ جو خوبی کو بدی سے پہچانے، بلکہ عاقل وہ ہے جو دوبرائیوں کے درمیان زیادہ مناسب کی تشخیص کرے۔

ط۔ عمر کو غنیمت سمجھنا

٣٨٢۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو غیر مفید کاموں میں خود کو ضائع نہیں کرتا اور وہ چیز جو اس کے ساتھ ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے اسے ذخیرہ نہیں کرتا۔

٣٨٣۔ امام علی (ع): اگر عقل سالم ہو تو ہر انسان اپنی فرصت کو غنیمت سمجھتا ہے ۔

ی۔ صحیح بات

٣٨٤۔ امام علی (ع): عقل کی نشانیوں میں سے صحیح بات کہنا ہے ۔

٣٨٥۔ امام علی (ع): اچھی گفتگو فراوانی عقل کی نشانی ہے ۔

٣٨٦۔ امام علی (ع): انسان کی عقل کا اندازہ اسکی اچھی گفتگو سے اور اس کے نسب کی پاکیزگی کا اندازہ اس کے بہترین افعال سے ہوتا ہے ۔

٣٨٧۔ امام صادق(ع): انسان تین طرح کے ہوتے ہیں ، عاقل ، احمق اور فاجر، عاقل وہ ہے جب اس سے کلام کیا جاتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے ، جب وہ خود بولتا ہے تو سچ بولتا ہے اور جب سنتا ہے توسمجھتا ہے ، اور احمق وہ ہے جب کلام کرتا ہے تو جلد بازی کرتا ہے جب گفتگو کرتا ہے تو حیران ہوتا ہے اور جب برائیوں کی طرف ابھارا جاتا ہے تو اسے کر بیٹھتا ہے اور فاجر وہ ہے اگر اسے امانتدار سمجھوگے تو وہ خیانت کریگا اور اگر اس سے گفتگو کروگے تو تمہیں متھم کر دیگا۔

ک۔ تجربات کا تحفظ

٣٨٨۔امام علی (ع): عقلمندی ، تجربات کا تحفظ ہے اور بہترین تجربہ وہی ہے جس سے تمہیں نصیحت حاصل ہو۔

٣٨٩۔امام علی (ع): تجربات کا تحفظ عقلمندی کا سرمایہ ہے ۔

٣٩٠۔ امام حسن (ع): جب آپ سے آپ کے پدر بزرگوار نے عقل کے متعلق دریافت کیا۔ تو فرمایا: (عقلمندی) یہ ہے کہ جو کچھ دل کے سپرد کیا ہے وہ اسے محفوظ رکھے !

٣٩١۔ امام علی (ع): عاقل وہ شخص ہے جو اپنے تجربات سے نصیحت حاصل کرے۔

ل۔ حسن تدبیر

٣٩٢۔ رسول خدا(ص): نے حضرت علی (ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔ کوئی عقل تدبیر کی مانند نہیں۔

٣٩٣۔ امام علی (ع): عقل کی فراوانی کی بہترین دلیل حسن تدبیر ہے ۔

٣٩٤۔ امام علی (ع): عقلمندی کی نشانی بیہودگی سے اجتناب اور حسن تدبیر ہے ۔

م۔صحیح گمان

٣٩٥۔ امام علی (ع): عاقل کا گمان پیشینگوئی ہے ۔

٣٩٦۔ امام علی (ع): صحیح گمان صاحبان عقل کی روش ہے ۔

٣٩٧۔ امام علی (ع): عقلمند کا گمان ، جاہل کے یقین سے زیادہ درست ہوتا ہے۔

٣٩٨۔ امام علی (ع): صاحبان عقل و خرد کا گمان ، حقیقت سے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔

٣٩٩۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔عقل ، صحیح گمان اور ماضی کی بنیاد پر مستقبل کی معرفت ہے ۔

ن ۔دنیا سے بے رغبتی

٤٠٠۔ امام علی (ع): عقل کی حد ناپائدار و فانی سے گریز اور پائدار و باقی سے لگاؤ ہے ۔

٤٠١۔ امام علی (ع): عقل کی فضیلت دنیا سے بے رغبتی ہے ۔

٤٠٢۔ امام علی (ع): نفس کو دنیا کے زرق و برق سے جدا رکھنا عقل کا نتیجہ ہے ۔

٤٠٣۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہوتا ہے قناعت کرتاہے ۔

٤٠٤۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو پست و ناپائدار دنیا سے دل نہیں لگاتا اور خوبصورت و جاوداں اور بلند مرتبہ جنت سے رغبت رکھتا ہو۔

س۔ فضول باتوں کا ترک کرنا

٤٠٥۔ امام کاظم (ع):عاقلوںنے دنیا کی بیہودہ باتوں کو ترک کر دیا، چہ جائیکہ گناہ، ترک دنیا مستحب ہے اور ترک گناہ واجب ۔

٤٠٦۔ اما م علی (ع): جب عقلیں کم ہوجاتی ہیں تو فضول باتیں زیادہ ہو جاتی ہےں۔

٤٠٧۔ امام علی (ع): جو خود کو فضول باتوں سے باز رکھتا ہے ، عقلیں اسکی رائے کو درست بنا دیتی ہیں۔

٤٠٨۔ امام علی (ع): عاقل وہی ہے جو باطل کو ٹھکرادے۔

ع۔آخرت کا زاد راہ

٤٠٩۔ رسول خدا(ص): نے جمعہ کے کسی خطبہ میں۔ فرمایا: آگاہ ہو جاؤ! عقل کی علامتوں میں سے دار غرور (دنیا ) سے بے رغبتی اور دائمی ٹھکانہ کی طرف میلان پیدا کرنا ہے اور قبر وںکے لئے توشہ فراہم کرنا اور روز قیامت کے لئے آمادہ ہونا ہے ۔

٣٤١۔ امام علی (ع): عقل کی نشانی روز قیامت کے لئے توشہ مہیا کرنا ہے ۔

٤١١۔ امام علی (ع): جو اپنی دائمی قیامگاہ کو آباد کرتاہے وہ عقلمند ہے ۔

٤١٢۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جس نے اپنی شہوت کو بالائے طاق رکھ دیاہے اور دنیا کو آخرت کے عوض بیچ دیا۔

٤١٣۔ امام علی (ع): عقلمند نہیں ہے ، مگر یہ کہ خدا کی معرفت رکھتا ہو اور دار آخرت کے لئے عمل کرتا ہو۔

٤١٤۔ امام علی (ع): عاقل وہی ہے جو اپنی خواہشات پر غالب ہو اور اپنی آخرت کو دنیا کے بدلے فروخت نہ کیا ہو۔

٤١٥۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہے وہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر سفر کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے اور اپنی قیامگاہ کو آباد کرتا ہے ۔

٤١٦۔ امام کاظم (ع): عاقل دنیا سے کنارہ کش اور آخرت کی طرف مائل ہوتے ہیں چونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا طالب و مطلوب ہے، اور آخرت بھی چاہتی ہے اور چاہی جاتی ہے ، لہذا جو آخرت کا طلبگار ہو جائیگا دنیا خود اس کے پیچھے آئیگی یہاں تک کہ اس کے رزق کو پورا کریگی، لیکن جو دنیا کا طلبگار ہے اس سے آخرت اپنے حق کا مطالبہ کریگی، یہاں تک کہ اسے موت آجائیگی اور اسکی دنیا و آخرت کوتباہ کر دیگی۔

٤١٧۔ امام کاظم (ع): عقلمند نے دنیا اور دنیا کی چیزوںپر نظر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ دنیا بغیر مشقت کے حاصل نہیں ہوتی ہے اور آخرت پر نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ آخرت بھی بغیر مشقت کے حاصل نہیں ہو سکتی ہے ۔ لہذا اس نے ان دونوں میں سے مشقت سے اس کو حاصل کیا جو باقی رہنے والی ہے ۔

٤١٨۔ سوید بن غفلہ: کا بیان ہیکہ امیر المومنین ؑ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد میں آپکی خدمت میں حاضرہوا، آپ ایک چھوٹی سی چٹائی پر تشریف فرماتھے کہ جس کے علاوہ آپ کے گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ میں نے عرض کیا: اے امیر المومنین ؑ ! بیت المال آپ کے اختیار میں ہے لیکن میں آپ کے گھر میں گھر کے اسباب نہیں دیکھ رہا ہوں! فرمایا: اے ابن غفلہ ! عقلمند چھوٹ جانے والے مکان کے لئے اثاثہ جمع نہیں کرتا ، ہمارے لئے پر امن گھر ہے ہم نے اپنا بہترین سرمایہ وہاں منتقل کر دیا ہے ۔ اور عنقریب ہم بھی ادھر ہی سفر کرنے والے ہیں۔

ف۔نجات

٤١٩۔ رسول خدا(ص): خدا نے کسی کو عقل ودیعت نہیں کی مگر یہ کہ اس کے ذریعہ اسے ایک دن نجات دیگا۔

٤٢٠۔ تاریخ کبیر: قرہ بن ہبیرہ رسول خدا کی خدمت میں آیا اور کہا: ہمارے کچھ ارباب تھے خدا کے بجائے جنکی عبادت کی کی جاتی تھی ، خدا نے آپ کو مبعوث کیا، تو اس کے بعد ہم نے انہیں لاکھ پکارا مگرانہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور ہم نے ان سے طلب کیا لیکن کچھ عطا نہ کیا، اور ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے خدا نے ہماری ہدایت کی، رسول خدا(ص) نے فرمایا: یقینا وہ کامیاب ہو گیا جسکوعقل عطا ہوئی ہے ۔ قرہ نے کہا: اے رسول خدا! مجھے دو لباس پہنا دیجئے جنہیں آپ پہن چکے ہیں، آپ ؐ نے ایسا ہی کیا، پس جب وہ موقف عرفات میں تھا تو رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا: تو اپنی بات کی تکرار کر، اس نے تکرار کی ، اس وقت رسول خدا نے فرمایا: کامیاب ہے وہ شخص جس کوعقل سے نوازاگیا ہے۔

٤٢١۔ امام علی (ع): عقل ہدایت اورنجات دیتی ہے اور جہالت ،گمراہ اور پست کرتی ہے۔

٤٢٢۔ امام علی (ع): فراوانی عقل ، نجات عطا کرتی ہے ۔

٤٢٣۔ امام علی (ع): عقلمندی کا تقاضانجات کے لئے عمل کرنا ہے ۔

٤٢٤۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ اگر زمام عقل کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور خواہشات نفس،دینی رسم یا عصبیت ماسلف کی شکار نہ ہوتواپنے حامل کو نجات سے ہمکنار کریگی۔

٤٢٥۔ امام علی (ع): عقلمند کی رائے نجات دیتی ہے ۔

٤٢٦۔ امام علی (ع): عقل کی جڑ فکر و نظر ہے اور اس کا پھل سلامتی ہے ۔

ص۔ جنت پر اختتام

٤٢٧۔ رسول خدا(ص): نے علی (ع) سے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: عقل وہ ہے جس سے جنت کا اکتساب اور خوشنودی پروردگار حاصل ہو۔

٤٢٨۔ رسول خدا(ص): بہت سے عقلمند ایسے ہیں جو امر خدا کی معرفت رکھتے ہیں ، اگر چہ لوگوں کی نظروں میں حقیر اور کریہہ المنظرہوں لیکن آئندہ نجات یافتہ ہیں ، اور بہت سے خوش بیان اور حسین صورت ہیںلیکن روز قیامت ہلاک ہونے والے ہیں۔

٤٢٩۔ انس: سوال کیا گیا، اے رسول خدا!کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص حسن عقل کا مالک ہو اور کثرت سے گناہ بھی کرتا ہو؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: کوئی شخص ایسا نہیںہے جو گناہوں اور خطاؤں کا مرتکب نہ ہو، پس ہر وہ شخص جس کی فطرت عقلمندی اور طبیعت یقین ہوتو گناہ اسے ضرر نہیں پہنچا سکتے، کہا گیا: اے رسول خدا(ص)! یہ کیسے ممکن ہے؟ فرمایا: چوں کہ (عقلمند) جب خطا کا مرتکب ہوتا ہے تو توبہ و پشیمانی کے ذریعہ اسکی تلافی کرتا ہے ۔لہذا اس کے سارے گناہ محو ہو جاتے ہیں فقط نیکیاں باقی رہ جاتی ہیں جس کی بدولت وہ وارد بہتشت ہوگا۔

٤٣٠۔ امام علی (ع):کچھ گروہ بہشت بریں کی طرف (دوسروں پر) سبقت لے جائینگے کہ جو دوسروں کی نسبت نہ زیادہ نماز و روزہ کے پابند اور نہ ہی حج و عمرہ بجالائے ہوں گے لیکن انہوںنے مواعظ الٰہی کو سمجھ لیا تھا۔

٤٣١۔ امام صادق(ع): جو عقلمند ہوگا انشاء اللہ اس کا خاتمہ جنت پر ہوگا۔

٤٣٢۔ محمد بن عبد الجبار: نے امام جعفر صادق(ع) کے شاگردوں میں سے کسی ایک سے نقل کیا ہے کہ میں نے آپکی خدمت میں عرض کیا: عقل کیاہے؟ فرمایا: جس سے خدا کی عبادت کیجائے اور جنت حاصل کیجائے، میںنے کہا: وہ چیز جو معاویہ میں تھی؟ فرمایا: وہ چالاکی اور شیطنت ہے، جو عقل کی شبیہ ہوتی ہے لیکن عقل نہیں ہے۔

ق۔ ہر کام میں بھلائی

٤٣٣۔ امام علی (ع): عقل کے ذریعہ ہر کام کی بھلائی ہے ۔

٤٣٤۔ امام علی (ع): عقل ہر کام کی اصلاح کرتی ہے ۔

ر۔ دنیا و آخرت کی بھلائی

٤٣٥۔ امام علی (ع): عقل نیکیوں کا سرچشمہ ہے ۔

٤٣٦۔ امام علی (ع): عقل کے سبب نیکیاںحاصل ہوتی ہیں۔

٤٣٧۔ امام علی (ع): ہر دلیری کو عقل کی ضرورت ہے ۔

٤٣٨۔ امام علی (ع): عقل نفع بخش ہے ،علم سر فرازی ہے اور صبر دفاع کرنے والا ہے ۔

٤٣٩۔ امام علی (ع): عقلمندی سے کام لو تاکہ( منزل مقصود ) تک پہنچ جاؤ۔

٤٤٠۔ امام حسن (ع): عقل کے ذریعہ دنیا و آخرت حاصل ہوتی ہے اور جو عقل سے محروم ہوگا وہ آخرت سے بھی محروم ہوگا۔

٤٤١۔ امام زین العاب دین (ع): عقل نیکیوںکی رہبر ہے ۔

٤٤٢۔ عبد اللہ بن عجلان سکونی: کا بیان ہے میں کہ نے امام محمد باقر(ع) کی خدمت میں عرض کیا: جب میں چاہتا ہوں کہ مال کو صلہ رحم کے عنوان سے اپنے دوستوں کو عطا کروں، تو انہیں کس طرح عطا کروں؟ فرمایا: دین کی راہ میں ہجرت اور عقل وفہم کی بنیاد پر انہیں عطا کرو۔

٤٤٣۔ اما م صادق(ع): کام کا آغاز اور اسکی ابتدا اور اس کا استحکام و آبادکاری عقل کے باعث ہے وہ عقل کہ جسے خدا نے بندوںکی زینت اور ان کے لئے نورانیت کا سبب قرار دیا ہے ۔

٤٤٤۔ امام کاظم (ع): اے ہشام! وہ شخص جو مال کے بغیربے نیازی ، حسد سے دل کی حفاظت اور دین میں سلامتی چاہتا ہے اسے چاہئے کہ بارگاہ احدیت میں گڑ گڑائے اور اس سے عقل کے کامل ہونے کی دعا کرے، اس لئے کہ جو عقلمند ہو جاتا ہے جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر قناعت کرتا ہے اور جوقناعت کرتا ہے وہ بے نیاز ہے ۔

٥/٣

وہ اشیاء جن سے عقل آزمائی جاتی ہے

الف: عمل

٤٤٥۔ امام علی (ع): عمل کی کیفیت سے عقل کی مقدار کا اندازہ ہوتا ہے ، لہذا اس کے لئے بہترین عمل کا انتخاب کرو اور اسے قوی و محکم بناؤ۔

٤٤٦۔ امام علی (ع): اچھی گفتگو اور اچھے عمل کے مالک بنو چونکہ انسان کی گفتگو اسکی فضیلت کی نشانی ہے اور اس کا عمل اسکی عقلمندی کی دلیل ہے ۔

٤٤٧۔ امام علی (ع): جو شخص اپنے کاموں کو بحسن وخوبی انجام دیتا ہے اپنی فراوانی عقل کا پتہ دیتاہے ۔

٤٤٨۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جس کے افعال اس کے اقوال کی تصدیق کریں۔

ب: کلام

٤٤٩۔ امام علی (ع): انسان کا کلام اسکی عقل کی کسوٹی ہے ۔

٤٥٠۔ امام علی (ع): فی البدیہ گفتگو کے وقت انسان کی عقل کی آزمائی جاتی ہے ۔

٤٥١۔ امام علی (ع): انسان جو کچھ اپنی زبان پر جاری کرتا ہے اس سے اسکی عقل کا اندازہ ہوتا ہے ۔

٤٥٢۔ امام علی (ع): ہر شخص کی زبان اسکی عقلمندی کا پتہ دیتی ہے اور اس کا بیان اسکی فضیلت پر دلالت کرتا ہے ۔

٤٥٣۔ امام علی (ع): زبان ایسی میزان ہے جسے عقل سنگین اور نادانی سبک بناتی ہے ۔

٤٥٤۔ امام علی (ع): ایسے کلام سے اجتناب کرو کہ جس کی روش سے ناواقف اور حقیقت سے ناآشنا ہو۔ کیوں کہ تمہاری گفتگو تمہاری عقل کی نشانی اور تمہاری باتیں تمہاری میزان معرفت کا پتہ دیتی ہےں۔

٤٥٥۔ امام علی (ع): انسان جو کچھ اپنی زبان پر جاری کرتا ہے اس کے ذریعہ اسکی عقل پر دلیل قائم کی جاتی ہے ۔

٤٥٦۔ امام علی (ع): انسان کی گفتگو اسکی عقل کی نشانی ہے اور انسان کے نسب کی دلیل اس کا عمل ہے ۔

٤٥٧۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی زبان پر قابو نہیں رکھتاوہ اپنی کم عقلی کو آشکار کرتا ہے ۔

٤٥٨۔ رسول خدا(ص): خدا نے جناب موسیٰ پر وحی کی : کہ بہت زیادہ باتیںکرکے بکواس کرنے والے نہ بنو، کیونکہ زیادہ باتیں علماء کے لئے باعث بدنامی ہیں اور کم عقلوں کی برائیوں کو آشکار کرتی ہیں ، لہذا میانہ روی سے کام لو؛ چونکہ میانہ روی کا سرچشمہ توفیق و درستی ہے ۔

ج: خاموشی

٤٥٩۔ امام علی (ع): خاموشی ،شرافت و نجابت کی نشانی اور عقل کا ثمرہ ہے ۔

٤٦٠۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہو جاتا ہے وہ خاموش رہتا ہے ۔

٤٦١۔ امام علی (ع): جو شخص خود کو فضول باتوں سے باز رکھتا ہے با عظمت افراد اسکی عقلمندی کی گواہی دیتے ہیں۔

٤٦٢۔ امام علی (ع): انسان کی عقلمندی کی علامت یہ ہے کہ ہر وہ چیز جسے جانتا ہے زبان پر جاری نہ کرے۔

٤٦٣۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنی زبان کوصرف ذکر خدامیں مصروف رکھتا ہے۔

٤٦٤۔امام علی (ع): عقلمند زبان نہیںکھولتا مگر یہ کہ ضرورت کے وقت یا دلیل و برہان کےلئے۔

د: رائے

٤٦٥۔ امام علی (ع): انسان کی رائے اسکی عقل کی میزان ہے ۔

٤٦٦۔ امام علی (ع): انسان کا گمان اسکی عقل کی میزان اور اس کا عمل اسکی اصل کا بہترین گواہ ہے ۔

٤٦٧۔ امام علی (ع): انسان کا گمان اسکی عقل کے مطابق ہوتا ہے ۔

٤٦٨۔ امام علی (ع): یقینا عقلمند اپنی عقل کے سبب رشد و ہدایت پر ہے اور اپنی رائے و نظر کے باعث ترقی پر ہے ، لہذااسکی رائے درست اور عمل قابل تعریف ہے ۔

ھ: قاصد

٤٦٩۔ امام علی (ع): تمہارا قاصد تمہاری عقل کا ترجمان ہوتا ہے اور تمہارا خط تمہارا بہترین ترجمان ہوتا ہے ۔

٤٧٠۔ امام علی (ع): تمہارا قاصد تمہاری عقل کا ترجمان اور تمہارا تحمل تمہاری بردباری کی دلیل ہے۔

٤٧١۔ امام علی (ع): قاصد کی عقل اور اس کے ادب سے بھیجنے والے کی عقل پر دلیل قائم کی جاتی ہے ۔

و: لکھنا

٤٧٢۔ امام علی (ع): انسان کا خط اسکی عقلمندی کی نشانی اور اسکی فضیلت کی دلیل ہے ۔

٤٧٣۔ امام علی (ع):جب تم خط لکھو، اس پر مہر لگانے سے پہلے اسکی نظر ثانی کرلو: کیوں کہ اپنی عقل پر مہر لگا رہے ہو۔

٤٧٤۔ امام صادق(ع): انسان کے خط سے اسکی عقل و بصیرت پر برہان قائم کی جاتی ہے اور اس کے قاصد سے اسکی فہم و زیرگی کا اندازہ ہوتا ہے ۔

ز: تصدیق اور انکار

٤٧٥۔ امام صادق(ع): اگر کسی بزم میں کسی شخص کی عقل کو آزمانا چاہتے ہو تو اپنی گفتگو کے دوران کسی محال چیز کا تذکرہ کرو اگر وہ اس سے انکار کرے تو وہ عاقل اور اگر تصدیق کرے تو احمق ہے۔

ح: دوست

٤٧٦۔ امام علی (ع): انسان کا دوست اسکی عقل کی دلیل ہے اور اس کا کلام اسکی فضیلت کی نشانی ہے ۔

٥/٤

عقل کا معیار

٤٧٧۔ رسول خدا(ص): سات چیزیں صاحبان عقل کی عقلمندی پر دلالت کرتی ہین: مال سے مالدار کی عقل کااندازہ ہوتا ہے، حاجت حاجتمند کی عقل پر دلالت کرتی ہے ؛ مصیبت مصیبت زدہ کی عقل پر دلالت کرتی ہے ، غضب غضبناک ہونے والے کی عقل پر دلالت کرتا ہے ، خط صاحب خط کی عقل پر دلالت کرتا ہے ، قاصد بھیجنے والے کی عقل پر دلالت کرتا ہے ۔ہدیہ ہدیہ دینے والے کی عقل پر دلالت کرتا ہے ۔

٤٧٨۔ رسول خدا(ص): انسان کی عقل کو تین چیزوں سے آزماؤ! اسکی داڑھی کی لمبائی ، اسکی کنیت اور اسکی انگوٹھی کے نگینہ کے نقش سے۔

٤٧٩۔ امام علی (ع): چھ چیزوں کے ذریعہ مردوں کی عقل آزمائی جاتی ہے، ہمنشینی، معاملات،منصب و مقام سے کنارہ کشی، غنیٰ اور فقر۔

٤٨٠۔ امام علی (ع): چھہ چیزوں سے لوگوںکی عقلوں کو آزمایا جاتا ہے، غضب کے وقت بردباری ، خوف کے موقع پر صبر، خواہشات میںاعتدال، تمام حالات میں تقوائے الٰہی، لوگوں کےساتھ نیک برتاؤاور کم جنگ و جدال ۔

٤٨١۔ امام علی (ع): تین چیزوں سے مردوں کی عقلیں آزمائی جاتی ہیں، مال، منصب اور مصیبت ۔

٤٨٢۔ امام علی (ع): انسان تین جگہوں پر بدل جاتا ہے ، بادشاہوں کی قربت ، منصب اور فقر سے نجات کے بعد، جو شخص ان تین حالات میں تبدیل نہ ہو وہ عقل سلیم اور بہترین اخلاق کا مالک ہے ۔

٤٨٣۔ امام علی (ع): تین چیزیں ارباب عقل پر دلالت کرتی ہیں، قاصد، خط اور ہدیہ۔

٤٨٤۔ امام علی (ع): عقلمند کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس میں تین خصلتیں موجود ہوں: جب اس سے سوال کیا جائے تو وہ جواب دے، جب لوگ کلام کرنے سے عاجز ہو جائیں تو وہ زبان کھولے ، اور ایسی رائے کا اظہار کرتا ہے کہ جس میں اس کے اہل کے لئے بھلائی ہوتی ہے ، پس جس شخص میں ان تین خصلتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو وہ احمق ہے۔

٤٨٥۔ امام علی (ع): بے پناہ وقار اور نہایت صبر و تحمل کے ذریعہ انسان کی عقلمندی اور اچھے کردار سے اس کے نسب کی شرافت پر استدلال ہوتا ہے ۔

٤٨٦۔ امام علی (ع): لالچ اور آرزئیں جب فریب دیتی ہیں تو جاہلوںکی عقلیں دھوکا کھا جاتی ہیں اور مردوں کی عقلیں آزمائی جاتی ہیں۔

٤٨٧۔ امام علی (ع): عقل کی سنجیدگی خوشی و غم کے وقت جانچی جاتی ہے۔

٤٨٨۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے: عقل معاملات کے ذریعہ آشکار ہوتی ہے اور مردوںکی خصلت کا اندازہ ان کے منصب سے ہوتا ہے ۔

٥/٥

عاقلوںکے صفات

٤٨٩۔ رسول خدا(ص): عاقل کی صفت یہ ہے کہ وہ نادانوںکی حماقت کو برداشت کرتا ہے ، جو اس پر ظلم کرتا ہے تو اس سے در گذر کرتاہے ، اپنے ما تحت لوگوں کے سا تھ تواضع سے پیش آتا ہے ، نیکیوں کے حصول میں اپنے سے بلند لوگوں پر سبقت لے جاتا ہے، جب کلام کرنا چاہتا ہے تو پہلے فکر کرتا ہے ۔ اگر کوئی خوبی ہوتی ہے تو زبان کھولتا ہے اور اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور اگر بدی ہوتی ہے تو خاموشی اختیار کرتا ہے ۔اور محفوظ رہتاہے ، جب اس کے سامنے کوئی فتنہ آتا ہے تو ایسے موقع پر اللہ سے سلامتی چاہتا ہے اور اپنے ہاتھ اور زبان کوروکے رکھتا ہے ،اگر کوئی فضیلت دیکھتا ہے تو اسے حاصل کرنے کے لئے تیزی سے بڑھتا ہے ، شرم و حیا کو خود سے جدا نہیں کرتا اور حرص اس سے ظاہر نہیں ہوتی ان دس صفات کے ذریعہ عقلمند پہچانا جاتا ہے ۔

٤٩٠۔ رسول خدا(ص): نے(ان چیزوںکے متعلق کہ جن کا سر چشمہ عقل ہے) فرمایا: لیکن سنجیدگی ومتانت جن چیزوں کا سرچشمہ ہے ، وہ مہربانی ، دور اندیشی ، ادائے امانت ، ترک خیانت، صداقت، پاکدامنی ، ثروت، دشمن کے مقابلہ میں آمادگی ، برائیوں سے باز رہنا اور بیوقوفی کو ترک کرنا ہے یہ وہ صفات ہیں جو سنجیدگی و متانت کے سبب عقلمند کو نصیب ہوتی ہیں، پس خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جو صاحب و قار ہے اور لا ابالی اور نادان نہیں ہے اور جس کا شعار عفو و بخشش اور نظر انداز کرنا ہے ۔

٤٩١۔ رسول خدا(ص): عقلمند وہی ہے جو خدا کے امر و نہی کوسمجھ لیتا ہے۔

٤٩٢۔ رسول خدا(ص): عاقل تنہائی میں اپنی عقل کے سبب خوش ہوتا ہے اور نادان ، خودہی سے وحشت کرتا ہے؛ اس لئے کہ ہر شخص کا دوست اسکی عقل اور اس کا دشمن اسکی نادانی ہے ۔

٤٩٣۔ رسول خدا(ص): عاقل، ہمیشہ خوبیوںکو کشف کرتا ہے اگر چہ لوگوں کے درمیان رسوا کن عیب ہو۔

٤٩٤۔ رسول خدا(ص): عقلمند نہایت خوفزدہ ہوتا ہے اور اسکی امیدیں اور آرزوئیں کم ہوتی ہےں۔

٤٩٥۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ عاقل جب کلام کرتا ہے تو اس کا کلام حکمت آمیز اور ضرب المثل کے ساتھ ہوتا ہے اور احمق جب کلام کرتا ہے تو قسم کے ساتھ ہوتا ہے ۔

٤٩٦۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، عاقل صالحین سے رشک کرتا ہے تاکہ ان سے ملحق ہو جائے اور انہیں دوست رکھتا ہے تاکہ انکی دوستی کے سبب انکا شریک ہو جائے اگر چہ عمل میں انکے مانند نہ ہو۔

٤٩٧۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، عاقل ، بیوقوفوں کی عیش و آرام کی زندگی کی نسبت عقلمندوں کی سخت زندگی سے زیادہ مانوس ہوتا ہے۔

٤٩٨۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو دوسروں میں عبرت ڈھونڈتا ہے ۔

٤٩٩۔ امام علی (ع): عقلمند ، کمال کی جستجو میں ہوتا ہے اور جاہل ، مال کی تلاش میں ۔

٥٠٠۔ امام علی (ع): عقلمندوہ ہے جو علم ہوتے ہی ٹھہر جاتا ہے ۔

٥٠١۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جب علم ہوتا ہے تو عمل کرتا ہے، جب عمل کرتا ہے توخلوص کےساتھ اور جب خلوص اختیار کرتاہے تو کنارہ کش ہو جاتا ہے ۔

٥٠٢۔امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو اپنی رائے پر شک کرے اور اسکا نفس جو کچھ اس کےلئے مزین کرتا ہے اس پر اعتماد نہ کرے۔

٥٠٣۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو ناراضگی اور رغبت و خوف کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے ۔

٥٠٤۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنی زبان کو غیبت سے محفوظ رکھتا ہے ۔

٥٠٥۔ امام علی (ع): عاقل جب خاموش ہوتا ہے تو سوچتا ہے، جب زبان کھولتا ہے تو ذکر خد اکرتا ہے اور جب دیکھتاہے تو عبرت حاصل کرتا ہے ۔

٥٠٦۔ امام علی (ع): عقلمند اپنی لذت کا دشمن اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے ۔

٥٠٧۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو اپنی شہوت کو کچل دیتا ہے۔

٥٠٨۔ امام علی (ع): عقلمند خواہشات نفسانی کے اسباب پر غالب ہوتا ہے ۔

٥٠٩۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو عقل کے ذریعہ اپنی خواشات نفسانی کا گلا گھونٹ دیتا ہے ۔

٥١٠۔ امام علی (ع): عاقل اپنے عمل پر اعتماد کرتا ہے اور جاہل اپنی آرزوپر۔

٥١١۔ امام علی (ع): عاقل ، عاقل سے الفت پیدا کرتا ہے اور جاہل ، جاہل سے۔

٥١٢۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے کہ جن چیزوں سے جاہل رغبت رکھتا ہے وہ ان سے بیزار رہتا ہے۔

٥١٣۔ امام علی (ع): سختی عقلمند کو افراط پرنہیں ابھارتی اور ناتوانی اسے کام سے نہیں روکتی۔

٥١٤۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنے کام کو محکم رکھتا ہے۔

٥١٥۔ امام علی (ع): عاقل اپنے کام میں سعی و کوشش کرتا ہے اور اپنی آرزؤوں کا دامن کوتاہ رکھتا ہے ۔

٥١٦۔امام علی (ع): عاقل پر جو چیزیں و اجب ہیں ان کے متعلق اپنے نفس سے باز پرس کرتا ہے اور جو چیزیں اس کے لئے منفعت بخش ہیں ان کے متعلق خود کو زحمت میں نہیں ڈالتا۔

٥١٧۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو مغفرت کے ذریعہ گناہوںکی پر دہ پوشی کرتا ہے ۔

٥١٨۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو قضائے (الہی) کے سامنے سراپا تسلیم ہوتا ہے اور دور اندیشی سے کام لیتا ہے۔

٥١٩۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو سخاوت کرتاہے ۔

٥٢٠۔ امام علی (ع): عقلمند خود کو ناچیز شمار کرتا ہے لہذا بلند ہو جاتا ہے ۔

٥٢١۔ امام علی (ع): عقلمند تہذیب و ادب کے ذریعہ نصیحت حاصل کرتا ہے اور چو پائے مارکے ذریعہ ۔

٥٢٢۔ امام علی (ع): یقینا عقلمند وہ ہے کہ جس کی نظر مستقبل پر ہوتی ہے ۔ اور اپنی نجات کے لئے کوشش کرتا ہے اور جس چیز سے چھٹکارا نہیں ہے اس کو انجام دیتا ہے ۔

٥٢٣۔ امام علی (ع): عقلمند لالچ کافریفتہ نہیں ہوتا۔

٥٢٤۔ امام علی (ع): ہر عقلمند محزون ہوتا ہے ۔

٥٢٥۔ امام علی (ع): عقلمند مہموم و مغموم ہوتا ہے ۔

٥٢٦۔ امام علی (ع): ہر عاقل مغموم ہوتا ہے ۔

٥٢٧۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہرکام میں نیکی ہے اور جاہل ہمیشہ نقصان میں ہے ۔

٥٢٨۔ امام علی (ع): ہوا و ہوس کا ترک کرناعاقلوںکی عادت ہے ۔

٥٢٩۔ امام علی (ع): عقلمندوںکی پہچان یہ ہے کہ ان میں شہوت و غفلت کم ہوتی ہے۔

٥٣٠۔ امام علی (ع): عاقل کا سرمایہ اس کے علم و عمل میں ہے اور جاہل کا سرمایہ اس کے مال و آرزو میں ہے ۔

٥٣١۔ امام علی (ع): حکمت ، عاقل کی گمشدہ ہے ، لہذا حکمت جہاں بھی وہ عاقل کا حق ہے۔

٥٣٢۔ امام علی (ع): عاقل کوحکمت سے شغف ہوتاہے اور جاہل کوحماقت سے۔

٥٣٣۔ امام علی (ع): عاقل اپنی حکمت کے باعث بے نیاز اور اپنی قناعت کے سبب معزز ہوتا ہے۔

٥٣٤۔ امام علی (ع): عاقل اپنے علم کے باعث بے نیاز ہوتا ہے۔

٥٣٥۔ امام علی (ع): عاقل کا سینہ اس کے اسرار کا صندوق ہے ۔

٥٣٦۔ امام علی (ع): عاقل کی زبان اس کے قلب کے پیچھے ہوتی ہے اور احمق کا قلب اسکی زبان کے پیچھے ہوتا ہے۔

٥٣٧۔ امام علی (ع): احمق کا قلب اس کے دہن میں ہوتا ہے اور عاقل کی زبان اس کے قلب میں ۔

٥٣٨۔ امام علی (ع): عاقل کا کلام غذا ہے اور جاہل کا جواب خاموشی ہے ۔

٥٣٩۔ امام علی (ع): جاہل کی ناراضگی اس کے کلام سے اور عاقل کی ناراضگی اس کے عمل سے آشکار ہوتی ہے۔

٥٤٠۔ امام علی (ع): عاقل اس وقت تم سے قطع تعلق ہوتا ہے جب تمہارے اندر حیلہ گری پیدا ہو جاتی ہے۔

٥٤١۔ امام علی (ع): عاقل کی جوانمردی اس کا دین ہے اور اس کا حسب اس کا ادب ہے ۔

٥٤٢۔ امام علی (ع): عاقل کی سلطنت اسکی خوبیوں کو نشر کرتی ہے ۔

٥٤٣۔ امام علی (ع): عاقل کے علاوہ بیوقوفوں سے کوئی در گذرنہیں کرتا۔

٥٤٤۔ امام علی (ع): عاقل کا نصف تحمل اور دوسرا نصف تغافل ہے۔

٥٤٥۔ امام علی (ع): جو کچھ تمہارے اورپر گذرے اسے برداشت کرو کیوں کہ برداشت کرنے سے عیوب چھپے رہتے ہیں اور بیشک عاقل کا نصف تحمل اور دوسرا نصف تغافل ہے۔

٥٤٦۔ امام علی (ع): عاقل کے سوا کوئی خود کو حقیر نہیں سمجھتا ، صاحب کمال کے علاوہ کوئی خود کو ناقص نہیں شمار کرتا اور جاہل کے سوا اپنی رائے سے کوئی خوش نہیں ہوتا۔

٥٤٧۔ امام علی (ع): نادان کو سرزنش نہ کرو کہ وہ تمہارا دشمن ہو جائیگا اور عقلمند کو سرزنش کرو کہ وہ تم سے محبت کریگا۔

٥٤٨۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔

٥٤٩۔ امام علی (ع): عقلمند کی دشمنی ، نادان کی دوستی سے بہتر ہے ۔

٥٥٠۔ امام علی (ع): مہربان عاقل سب سے زیادہ لوگوںکی حاجت کو محسوس کرتا ہے ۔

٥٥١۔ امام علی (ع): تم پر صبر لازم ہے چونکہ عاقل اسے اختیارکرتا ہے اورجاہل گریز کرتا ہے ۔

٥٥٢۔ امام علی (ع): عاقل کی دردناک سرزنش اسکی لغزشوں کی طرف اشارہ کرنا ہے ۔

٥٥٣۔ امام علی (ع): اگر تم نے عاقل سے کنایہ میںکوئی بات کہی تو گویا دردناک صورت میں اسکی سرزنش کی ۔

٥٥٤۔ امام علی (ع): عاقلوں کی سزا، کنایہ ہے ۔

٥٥٥۔ امام علی (ع): عاقل سے تعریض کی صورت میں کوئی بات کہنا، اسکی بدترین سر زنش ہے ۔

٥٥٦۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے۔ عاقل کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ایسی باتیں زبان پر نہیں لاتا کہ جن کی وجہ سے اس کو جھٹلایا جا سکے۔

٥٥٧۔ امام علی (ع):عاقل دنیا میں گرانبار ہے اور احمق سبکدوش ہے۔

٥٥٨۔ امام علی (ع): مرد تین طرح کے ہوتے ہیں: عاقل، احمق اور فاجر، عاقل کا مذہب دینداری ہے اسکی سرشت بردباری اور فکر و رائے اسکی فطرت ہے، جب اس سے سوال کیا جاتا ہے تو جواب دیتا ہے جب کلام کرتا ہے تو درست ہوتاہے اور جب سنتا ہے تو اسے قبول کرتا ہے، جب گفتگو کرتا ہے تو سچ بولتا ہے اور جب کوئی اس پر اعتماد کرتا ہے تو وفا کرتا ہے ۔احمق، جب کسی اچھے کام سے آگاہ ہوتا ہے تو غفلت برتتا ہے، جب اسے کسی اچھے مقام سے نیچے لایاجاتا ہے تو وہ نیچے آجاتا ہے، جب اسے نادانی کی طرف ابھارا جاتا ہے تو وہ نادانی پر اتر آتا ہے، جب گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب اسے سمجھایا جاتا ہے تو وہ آگاہ نہیں ہوتا وہ کچھ نہیں سمجھتا ہے۔ فاجر ،کو جب امانتداربناؤ گے تو وہ تم سے خیانت کریگا ، اگر اسکی ہمنشینی اختیار کروگے تو وہ تمہیں رسو اکریگا اور اگر اس پر اعتماد کروگے تو وہ تمہارا خیر خواہ نہیں ہوگا۔

٥٥٩۔ امام حسن (ع): عقلمند سے جو نصیحت چاہتا ہے وہ اسے دھوکا نہیں دیتا۔

٥٦٠۔ امام حسن (ع): میں تمہیں خبر دیتا ہوں ایسے بھائی کے بارے میں جو میری نظر میں لوگوں میں سب سے افضل تھااور وہ چیز کہ جس کے سبب میری نظر میں افضل تھا وہ دنیا کا اسکی نظر میں ہیچ ہونا ہے......وہ جہالت کے تسلط سے خارج تھا اور اپنے ہاتھ اطمینان بخش منفعت ہی کے لئے بڑھاتا تھا۔

٥٦١۔ اما م حسین (ع): جب عاقل پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ دور اندیشی کے سبب اندوہ کو دور کرتاہے اور عقل کو چارہ سازی کی طرف ابھارتا ہے ۔

٥٦٢۔ امام صادق(ع): عقلمند بخشنے والا اور جاہل فریبکار ہے ۔

٥٦٣۔ امام صادق(ع): صاحب فہم و عقل ، درد مند، محزون اور شب زندہ دار ہوتا ہے ۔

٥٦٤۔ اما م صادق(ع): عقلمند ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔

٥٦٥۔امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آپ سے منسوب کلام میں ہے ، عقلمند حق کو قبول کرنے میںمنکسر، قول میں منصف اور باطل کے مقابل سرکش ہوتاہے اور اپنے کلام سے حجت قائم کرتا ہے ، دنیا کو ترک کر دیتا ہے اور اپنے دین سے دستبردار نہیں ہوتا۔

٥٦٦۔ امام صادق(ع): عقلمند کسی کو سبک نہیں شمار کرتا ۔

٥٦٧۔ امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آپ سے منسوب کلام میں ہے ، عاقل ایسی باتیں نہیں کرتاکہ عقلیں جن کا انکار کریں، تہمت کی جگہوں پر نہیںجاتااور جس شخص کے سبب گرفتار ہے اس کے ساتھ بھی نرمی کو نظر انداز نہیں کرتا۔

٥٦٨۔ امام کاظم (ع):نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! عاقل، حکمت کے ہوتے ہوئے دنیا کی تھوڑی پونجی پر بھی راضی رہتا ہے لیکن تھوڑی حکمت کے ساتھ دنیا کو قبول نہیں کرتالہذا سکی تجارت نفع بخش ہے ۔

اے ہشام! عقلاء نے دنیا کی فضیلتوں کو ٹھکرادیا ہے چہ جائیکہ گناہوںکو ! حالانکہ ترک دنیا مستحب اور ترک گناہ واجب ہے ....اے ہشام ! عقلمند جھوٹ کی خواہش کے باوجود جھوٹ نہیں بولتا ہے ......۔

اے ہشام! عاقل اس شخص سے کلام نہیں کرتا کہ جس سے اپنی تکذیب کا خوف ہوتا ہے اور اس شخص سے کوئی حاجت طلب نہیںکرتا کہ جس سے یہ ڈر ہوتا ہے کہ منع کر دیگا، جو اسکی قدرت میں نہیں ہے اس کا وعدہ نہیں کرتا، جس چیز کی آرزو کے سبب اسکی سرزنش ہوتی ہے اسکی تمنا نہیں کرتا اور اپنی عجز و ناتوانی کے باعث جس چیز کے چھوٹنے کا ڈر ہوتا ہے اس کا اقدام نہیںکرتا۔

٥٦٩۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم سے، فرمایا: اے ہشام ! ہر چیز کی ایک علامت ہے اور عقلمند کی علامت تفکر ہے ، اور تفکر کی علامت خاموشی ہے، ہر شی کے لئے ایک سواری ہوتی ہے اور عاقل کی سواری تواضع ہے ، تمہاری جہالت کے لئے یہی کافی ہے کہ جس سے تمہیں روکا گیا ہے اس کو انجام دیتے ہو۔

اے ہشام ! اگر تمہارے ہاتھ میں اخروٹ ہو اور لوگ اسے موتی کہیں توتمہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جبکہ تمہیں اخروٹ کا علم ہے ، اور اگر تمہارے ہاتھ میں موتی ہواور لوگ اسے اخروٹ کہیں تواس سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچیگا جبکہ تمہیں موتی ہونے کا علم ہے ۔

اے ہشام! خدا نے اپنے انبیاء و مرسلین کو لوگوں کی طرف نہیں بھیجا مگر یہ کہ خدا کی معرفت حاصل کریں، لوگو ں میں خدا کی اچھی معرفت رکھنے والا انبیاء و مرسلین کو سب سے بہتر طریقہ پر قبول کرتا ہے، اور سب سے اچھی عقل رکھنے والا احکام الہی کا سب سے بڑا عالم ہے اور سب سے بڑ ے عقلمند کادنیا و آخرت میں سب سے بلند مرتبہ کا ہوگا۔

اے ہشام! ہر بندہ کی پیشانی کو ایک فرشتہ پکڑے ہوئے ہے جو بھی ان میں سے خاکساری کرتا ہے خدا اسے بلند کردیتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے خدا اسے پست کر دیتا ہے ۔

اے ہشام! لوگوں پر خدا کی دو حجتیں ہیں! ظاہری حجت اور باطنی حجت ، حجت ظاہری انبیاء و مرسلین اور ائمہ ہیں اورحجت باطنی، عقلیں ہیں۔

اے ہشام ! عاقل وہ ہے کہ جسے حلال کام شکر گذاری سے روگرداں نہیں کرتا اور حرام اس کے صبر پر غالب نہیں ہوتا۔

اے ہشام ! جس نے تین چیزوں کو تین چیزوں پر مسلط کیا گویا اس نے عقل کی نابودی کےلئے خواہشات نفس کی مدد کی جس نے اپنی فکر کی روشنی کو طولانی آرزؤں کے ذریعہ تاریک، اپنی فضول کلامی کے سبب حکمت کی خوبیوںکو محو اور خواہشات نفسانی کے باعث اپنے نور عبرت کو خاموش کر دیا ہے، ایسے شخص نے گویا اپنی عقل کی تباہی کےلئے اپنی ہوا و ہوس کی مدد کی اور جس نے اپنی عقل کو تباہ کر دیاگویا اس نے اپنے دین و دنیا کو برباد کردیا۔

اے ہشام! کس طرح تمہارا عمل خدا کی بارگاہ میں شائستہ قرار پا سکتا ہے حالانکہ تم نے اپنی عقل کو امر پروردگار سے منحرف کر رکھا ہے اور اپنی عقل پر خواہشات کو غالب کرنے میں اسکی پیروی کی ہے ؟ !

اے ہشام ! تنہائی پرصبرکرنا، عقل کی توانائی کی علامت ہے ، پس جو بھی خدائے تبارک و تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہے وہ دنیا پرست اور اہل دنیا سے کنارہ کش ہوجاتا ہے ، اور خدا کے پاس جو کچھ ہے اسکی طرف مائل ہوتا ہے خدا و حشت میں اس کا مونس، تنہائی میں ساتھی ، تنگدستی میں بے نیازی اور حسب و نسب نہ ہونے کے باوجود اسے عزت دینے والا ہے ۔

اے ہشام! مخلوق، خدا کی اطاعت کےلئے پیدا کی گئی ہے ، اور طاعت کے بغیرنجات نہیں ہے اور طاعت علم کے سبب، علم ، تحصیل کے باعث اور تحصیل کا تعلق عقل سے ہے۔علم، خدا رسیدہ عالم کے بغیر حاصل نہیںہو سکتا اور خدا رسیدہ عالم کے لئے معرفت عقل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

اے ہشام! عاقل کا کم عمل قابل قبول اور کئی گنا ہے ، لیکن نفس پرست اور جاہل کا کثیر عمل قابل قبول نہیںہے ۔

٥/٦

ارباب عقل کے صفات

قرآن

( اس نے تمہارے لئے زمین کو گہوارہ بنایا ہے اور اس نے تمہارے لئے راستے بنائیں ہیں اور آسمان سے پانی برسایا ہے جس کے ذریعہ ہم نے مختلف قسم کے نباتات کا جوڑا پیدا کیاہے ، کہ تم خود بھی کھاؤ اور اپنے جانوروںکو بھی چراؤ، بیشک اس میں صاحبان عقل کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہےں )

( کیا انہیں اس بات نے رہنمائی نہیں دی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی نسلوںکو ہلاک کر دیا جو اپنے علاقہ میں نہایت اطمینان سے چل پھر رہے تھے بیشک اس میں صاحبان عقل کے لئے بڑی نشانیاں ہیں )

حدیث

٥٧٠۔ امام باقر ؑ : رسول خدا(ص) نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر ارباب عقل ہیں ، دریافت کیا گیا: اے رسول خدا! ارباب عقل کون ہیں؟ فرمایا: وہ حسن اخلاق کے مالک ، باوقاربردبار ، صلہ رحم، والدین کے ساتھ نیکی ، فقرائ، پڑوسیوں اور یتیموںکی دیکھ بھال کرتے ہیں ، کھانا کھلاتے ہیں ، دنیا میں سلامتی پھیلاتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں جب کہ لوگ خواب غفلت میں ہوتے ہیں ۔

٥٧١۔ رسول خدا(ص): تم میں سب سے بہتر صاحبان عقل ہیں ، پوچھا گیا: اے رسول خدا! صاحبان عقل کون ہیں؟ فرمایا: صاحبان عقل ، سچے بردبار ِ، خوش اخلاق ، کھانا کھلانے والے،سلامتی پھیلانے والے اور شب زندہ داری میں مصروف ہوتے ہیں، جبکہ لوگ سوئے ہوتے ہیں۔

٥٧٢۔ امام علی (ع): حوادث کی تبدیلیوں میں صاحبان عقل و خرد کے لئے عبرت و نصیحت ہے۔

٥٧٣۔ امام علی (ع): صاحبان عقل و نظر کی صفت یہ ہے کہ دار بقا کی طرف متوجہ ، دار فنا سے روگرداں اور جنتِ مأوٰی کے دلدادہ ہوتے ہیں۔

٥٧٤۔ امام علی (ع):حُب علم ، حسن حلم اور ثواب کا در پے ہونا صاحبان عقل و خرد کی فضیلتوں میں سے ہے۔

٥٧٥۔ امام علی (ع): عاقل اعمال کو خالص کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

٥٧٦۔ امام علی (ع): صاحبان عقل و خرد کے لئے مثالیں پیش کی جاتی ہےں۔

٥٧٧۔امام علی (ع):جو شخص صاحبان عقل و خرد سے مشورہ کرتا ہے وہ دور اندیشی اوردرستی سے ہمکنار ہوتا ہے ۔

٥٧٨۔امام علی (ع): جو شخص صاحبان عقل و خرد سے مشورہ کرتا ہے صحیح معنیٰ میں وہی سر فراز ہوتا ہے ۔

٥/٧

صاحبان عقل کے صفات

قرآن

( بیشک زمیں و آسمان کی خلقت ، لیل و نہار کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لئے ، قدرت خدا کی نشانیاں ہیں ، جو لوگ اٹھتے ، بیٹھتے لیٹتے خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں ، کہ خدایا تونے یہ سب بیکار نہیںپیدا کیا ہے ، تو پاک و بے نیاز ہے ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ رکھ )

( جو باتوں کوغورسے سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی اور یہی وہ لوگ ہیں جو صاحبان عقل ہیں )

( یقینا ان کے واقعات میں صاحبان عقل کے لئے سامان عبرت ہے )

حدیث

٥٧٩۔ رسول خدا(ص): عقلمند وہ ہے جو اپنے دین میں انہماک کے سبب دوسری چیزوں سے روگرداںہوتا ہے ۔

٥٨٠۔ امام علی (ع): نرمی، صواب و درستی کی کنجی اور صاحبان عقل کی صفت ہے ۔

٥٨١۔ امام علی (ع): عقلمند سے زیادہ کوئی شجاع نہیںہے۔

٥٨٢۔ امام علی (ع):مروت عقلمند ہی کے لئے کامل ہوتی ہے۔

٥٨٣۔ امام علی (ع): عقلمند کے دل کی بصیرت اپنے انجام کو دیکھتی ہے اور اس کے نشیب و فراز سے واقف ہوتی ہے ۔

٥٨٤۔ امام علی (ع): جو صاحبان عقل سے کمک لیتا ہے وہ راہ رشد و ہدایت کو پاجاتا ہے ۔

٥٨٥۔ امام علی (ع): آگاہ ہو جاؤ! عقلمند وہ ہے جو درست فکر کے ذریعہ گونا گوں آراء کا استقبال کرتاہے اور عواقب پر نظر رکھتا ہے ۔

٥٨٦۔ امام علی (ع): عقلمند وہی ہے جو کینہ کو آسانی سے نکال پھینکتا ہے ۔

٥٨٧۔ امام علی (ع): مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو بے پناہ دوستوںکی تلاش میں ہوتا ہے؛ لیکن عقلمند اور پرہیزگار علماء کی ہمنشینی اختیار نہیں کرتا؛ کہ جنکی فضیلتوں سے بہرہ مند ہو اور جنکے علوم اسکی ہدایت کریں اور جنکی ہمنشینی اسے آراستہ کرے۔

٥٨٨۔ امام علی (ع): عقلمند دوست کی ہمنشینی روح کی زندگی ہے ۔

٥٨٩۔ امام باقر(ع): اے جابر....دنیا کو اس منزل کی طرح سمجھو کہ جسمیں جاکر ٹھہرتے ہو اور پھر وہاں سے کوچ کر جاتے ہو؛ چونکہ دنیا عقلمند اور خدا کی معرفت رکھنے والے افراد کے نزدیک گذرنے والے سایہ کے مانند ہے ۔

٥٩٠۔ امام صادق(ع): صاحبان عقل وہی لوگ ہیں جنہوںنے غور و فکر سے کا م لیا اور اس کے سبب محبت خدا کو حاصل کر لیا۔

٥٩١۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! آگاہ عقلمند وہ ہے جو جس چیز کی طاقت نہیں رکھتا اسے چھوڑ دیتاہے ۔

٥/٨

کامل عقل کے علامات

٥٩٢۔ رسول خدا(ص): اللہ نے عقل کو تین چیزوں میں تقسیم کیا ہے ، جس شخص میں یہ چیزیں پائی جائیں گی اسکی عقل کامل ہے اور جس میں یہ چیزیںنہیںہوں گی وہ عقلمند نہیںہے : خدا کی حسن معرفت ، خدا کی حسن طاعت اور امر خدا پر حسن صبر۔

٥٩٣۔ رسول خدا(ص):خدا کی عبادت عقل سے بہتر کسی اور چیز کے ذریعہ نہیںہوئی اور مومن عقلمند نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں یہ دس چیزیں جمع نہ جائیں!اس سے نیکی کی امید ہوتی ہے اور برائی کی توقع نہیں ہوتی ، دوسروںکی کم خوبیوںکو زیادہ اور اپنی زیادہ خوبیوںکو کم سمجھتاہے ؛ ساری زندگی تحصیل علم سے نہیںتھکتا ہے، حاجت مندوںکی آمد و رفت سے ملول و پریشان نہیںہوتا؛ خاکساری اس کے نزدیک عزت سے زیادہ محبوب ہے، فقر اس کے نزدیک بے نیازی سے زیادہ پسندیدہ ہے ، دنیا سے اس کا حصہ فقط معمولی غذا ہے ؛ لیکن دسواں اور دسواں کیا ہے ؟ کسی کو دیکھتا ہے توکہتاہے : یہ مجھ سے زیادہ پرہیزگار ہے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ شخص جو اس (مومن) سے بہتر اور اس سے زیادہ پرہیزگار ہوتا ہے ؛ دوسرا وہ شخص جو اس سے بدتر اور پست ہوتا ہے ۔ لہذا جو شخص اس سے بہتر اور اس سے زیادہ پرہیزگار ہے اس کے ساتھ انکساری سے پیش آتاہے تاکہ اس سے ملحق ہو جائے۔ اور جو اس سے بدتر اور پست ہے جب اس سے ملاقات کرتا ہے تو کہتاہے : شاید اسکی خوبی پوشیدہ ہو اور برائی آشکار اور شاید اس کا انجام بخیرہو، جب ایسا کر تا ہے تو اسکی عظمت بڑھتی ہے اور اپنے زمانہ والوںکا سردار قرار پاتا ہے۔

٥٩٤۔ امام علی (ع): اللہ کی عبادت عقل سے بہتر کسی اور چیز کے ذریعہ نہیں ہو ئی؛ کسی انسان کی عقل کامل نہیں ہوتی جب تک کہ اس میں چند خصال نہ ہوں : کفر و شر سے محفوظ ہو، رشد و خیر کی اس سے توقع ہو، اپنے اضافی مال کو بخشتا ہو، فضول کلامی سے گریز کرتا ہو؛ دنیا سے اس کا حصہ معمولی غذا ہو؛ پوری زندگی علم سے سیر نہ ہو، خدا کی بارگاہ میں خاکساری کو دو سروں کے ساتھ سر بلندی سے پیش آنے سے زیادہ پسند کرتا ہے ، تواضع اسکی نظر میں شرف سے زیادہ محبوب ہے؛دوسروں کی کم خوبیوںکو زیادہ اور اپنی زیادہ خوبیوں کو کم سمجھتا ہے ؛ تمام لوگوںکو خود سے بہتر اور خود کو سب سے بدتر سمجھتا ہے ، اور یہ اہم ترین خصلت ہے ۔

٥٩٥۔ امام علی (ع): تمہاری عقل کا کمال یہ ہے کہ تم اپنی عقل کے ذریعہ خود کو استوار کرو۔

٥٩٦۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل قوی ہوگی وہ زیادہ عبرت حاصل کریگا۔

٥٩٧۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل کامل ہو جاتی ہے دین میں اس کے اعمال و افکار اچھے ہو جاتے ہیں۔

٥٩٨۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میںہے ، عقلمند انسان کی مثال سخت و موٹے جسم کی سی ہے جو دیر میں گرم ہوتا ہے اور اسکی گرمی کافی دیر بعد ختم ہوتی ہے ۔

٥٩٩۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل کامل ہوتی ہے وہ اپنی شہوتوں کوسبک سمجھتا ہے ۔

٦٠٠۔ امام علی (ع): جب عقل کامل ہو تی ہے تو شہوت گھٹ جاتی ہے ۔

٦٠١۔ امام علی (ع): جب عقل کامل ہوتی ہے تو کلام کم ہوجاتاہے ۔

٦٠٢۔ امام علی (ع): کامل عقل بری فطرت پر غالب ہوتی ہے ۔

٦٠٣۔ امام علی (ع): جتنی انسان کی عقل بڑھتی ہے اتنا ہی قضا و قدرپراسکا اعتقاد قوی ہو جاتا ہے اور حوادث زمانہ کوہلکا سمجھتا ہے۔

٦٠٤۔امام علی (ع): انسان کا خود کو کم سمجھنا متانت و سنجیدگی کی علامت اور فراوانی فضیلت کی نشانی ہے ۔

٦٠٥۔ امام علی (ع): عقلمندی کی انتہاجہالت کا اعتراف ہے ۔

٦٠٦۔ امام علی (ع) :عقل اس وقت کامل ہوتی ے جبکہ ہمیشہ اسکی تکمیل کے لئے کوشاں رہے۔

٦٠٧۔ امام علی (ع): بے فائدہ کاموںکو ترک کرنے سے تمہاری عقل کامل ہوتی ہے ۔

٦٠٨۔ امام علی (ع):۔سالک الی اللہ کی توصیف میں ۔ فرمایا: اس نے اپنی عقل کو زندہ رکھا ہے اور اپنے نفس کو مار ڈالا ہے اس کا جسم نحیف ہو گیا ہے اور اسکابھاری بھرکم بدن ہلکا ہو گیا ہے اس کے لئے بہترین ضوء پاش نور ہدایت چمک اٹھا ہے اور اس نے راستے کو واضح کرکے اسی پر اسے گامزن کردیا ہے تمام دروازوں نے اسے سلامتی کے دروازہ اور ہمیشگی کے گھر تک پہنچا دیاہے اور اس کے قدم طمانینتِ بدن کے ساتھ امن وراحت کی منزل میں ثابت ہو گئے ہیں کہ اس نے اپنے دل کو استعمال کیا ہے اور اپنے رب کو راضی کر لیا ہے ۔

٦٠٩۔ امام زین العاب دین (ع):کمال عقل کی نشانی آزار رسانی سے بچناہے ۔

٦١٠۔ اما م صادق(ع): عقل کا کمال تین چیزوںکے باعث ہے : خدا کے لئے تواضع، حسن یقین اور نیک کاموںکے علاوہ خاموش رہنا۔

٦١١۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! تنہائی میں صبر عقل کی قدر تمندی کی نشانی ہے جو شخص خدا کی معرفت رکھتا ہے وہ دنیا اور دنیا پرستوں سے کنارہ کش ہوجاتا ہے اور جو کچھ خدا کے پاس ہے اسکی طرف مائل ہوتا ہے ، وحشت میں خدا اس کا مونس، تنہائی میں اس کا ساتھی ، تنگدستی میں اس کےلئے بے نیازی اور حسب و نسب نہ ہونے کی صورت میں اسے عزت بخشنے والا ہے ۔

٥/٩

عقلمند ترین انسان

٦١٢۔ رسول خدا(ص): کامل ترین انسان عاقل ہے جوخدا کا بڑااطاعت گذار وبڑا حکم کی تعمیل کرنے والاہے ۔

٦١٣۔ رسول خدا(ص): کامل ترین انسان عاقل جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا اور اسکی اطاعت کرنے والا ہے ۔

٦١٤۔ رسول خدا(ص): تم میں سے عاقل ترین وہ ہے جو محرمات خدا سے پرہیز اور احکام الہی کا جاننے والا ہے۔

٦١٥۔ رسول خدا(ص): خدا کے کچھ برگزیدہ بندے ہیں جنہیںوہ جنت کے بلند و بالا مقام میں جگہ دیگا کیونکہ وہ دنیا میں سب سے بڑے عقلمند تھے ،پوچھا گیاوہ لوگ کس طرح کے تھے؟ فرمایا: ان کی ساری کوشش ان چیزوںکے لئے ہوتی تھی کہ جس سے خوشنودی خدا حاصل ہو سکے، دنیا ان کی نظروں میں حقیر ہوگئی تھی اور وہ کثرت دنیا کی طرف مائل نہ تھے ، انہوںنے مختصر مدت کے لئے دنیا میں صبر و تحمل سے کام لیا اور طولانی راحت و چین حاصل کر لیا۔

٦١٦۔ رسول خدا(ص): آگاہ ہو جاؤ!عقلمند ترین انسان وہ بندہ ہے جو اپنے رب کو پہچانتا ہے اور اسکی طاعت کرتا ہے ، خدا کے دشمن کو پہچانتا ہے اور اسکی نافرمانی کرتا ہے، اپنی قیامگاہ کو پہچانتا ہے اور اسے سنوارتاہے ،اوراسے معلوم ہے کہ عنقریب رخت سفر باندھناہے لہذا اس کے لئے زاد راہ مہیا کرلیا ہے ۔

٦١٧۔ رسول خدا(ص): عاقل ترین انسان خائف ونیکو کار ہے اور نادان ترین انسان بدکار امان دینے والا ہے ۔

٦١٨۔ رسول خدا(ص): عقلمند ترین انسان وہ ہے جو لوگوں پرزیادہ مہربان ہوتاہے ۔

٦١٩۔ امام علی (ع): لوگوں میں سب سے بڑا عقلمند وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ با حیا ہے ۔

٦٢٠۔ امام علی (ع): لوگوںمیں سب سے برا عقلمند وہ ہے جو ان میں خدا کا سب سے بڑامطیع ہے ۔

٦٢١۔ امام علی (ع): تم میں سب سے بڑا عقلمند وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اطاعت گذار ہے ۔

٦٢٢۔ امام علی (ع):تم میں سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو عاقلوںکا اتباع کرتا ہے ۔

٦٢٣۔ امام علی (ع): لوگوںمیں سب سے بڑا عقلمند وہ ہے جو ان میں خدا سے سب سے زیادہ قربت رکھتا ہے ۔

٦٢٤۔ امام علی (ع): عقلمندترین انسان وہ ہے جو حق کے سامنے سراپا تسلیم ہواور اس کے حق کو ادا کرے اور حق کے سبب باعزت قرار پائے؛ لہذاحق پر قائم رہنے اور اس پر اچھی طرح عمل کرنے کو بے وقعت نہیںسمجھتا۔

٦٢٥۔ امام علی (ع): عقلمندترین انسان وہ ہے ، جو ہر قسم کی پستی سے بہت دور رہتا ہے۔

٦٢٦۔ امام علی (ع): عقلمند ترین انسان وہ ہے جس کی سنجیدگی اسکی بیہودگی پر غالب ہو اور عقل کی مدد سے خواہشات نفسانی پر کامیاب ہو۔

٦٢٧۔ امام علی (ع): عقلمند ترین انسان وہ ہے جو جاہلوں کو سزا دینے میں صرف خاموشی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

٦٢٨۔ امام علی (ع): عقلمند ترین انسان وہ ہے جو کاموںکے انجام پرسب سے زیادہ نظر رکھتاہے ۔

٦٢٩۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنے عیوب پر نظر رکھتا ہے اور دوسروںکے عیوب سے چشم پوشی کرتا۔

٦٣٠۔ امام علی (ع): عقلمند ترین انسان وہ ہے جو لوگوںکی معذرت کوسب سے زیادہ قبول کرتا ہے۔

٦٣١۔ امام علی (ع): سب سے بہتر عقلمندی حق کو حق سے پہچاننا ہے ۔

٦٣٢۔ امام علی (ع): سب سے بہتر عقلمندی بیہودگی سے اجتناب ہے ۔

٦٣٣۔ امام علی (ع): عقلمندی کے لحاظ سے لوگوںمیں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے کسب معاش کے لئے بہترین تدبیرکرے ، اور آخرت کی اصلاح کے لئے سب سے زیادہ اہتمام کرے۔

٦٣٤۔ امام علی (ع): سب سے بہتر عقلمندی رشد و ہدایت ہے ۔

٦٣٥۔ امام علی (ع): سب سے بہتر عقلمندی انسان کا اپنے آپ کو پہچاننا ہے ؛ جس نے خود کو پہچان لیا عقلمند ہے اور جس نے خود کو نہ پہچانا وہ گمراہ ہے ۔

٦٣٦۔ امام علی (ع): سب سے بڑی عقلمندی نصیحت آموزی ہے ، سب سے بہتر دور اندیشی مدد چاہنا ہے ، اور سب سے بڑی حماقت غرورہے ۔

٦٣٧۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیںہے ، عقلمندی کے لحاظ سے مناسب ترین انسان اور فضائل کے اعتبار سے کامل ترین انسان وہ ہے جو زمانے کی ہمراہی دشمنی کو چھوڑ کر صلح سے کرتا ہے ، دوستوں کے ساتھ مسالمت آمیز زندگی بسر کرتا ہے ، اور زمانہ کی عفو و بخشش کو قبول کرتا ہے ۔

٦٣٨۔ امام صادق(ع):عقلمندی میں سب سے کامل انسان وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ با اخلاق ہے ۔

٦٣٩۔ امام صادق(ع): سب سے بہتر فطرتِ عقل ، عبادت ہے ، اس کے لئے سب سے محکم چیز علم ہے ، سب سے اچھی بہرہ مندی حکمت ہے اور سب سے عمدہ ذخیرہ نیکیاں ہیں۔

٦٤٠۔ وہب بن منبِّہ: لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا: بیٹا! خداکی معرفت حاصل کرو اس لئے کہ جو شخص خدا کے بارے میں بیشتر معرفت رکھتا ہے وہ عقلمندترین انسان ہے اور شیطان عقلمند سے فرار کرتا ہے اور اسے فریب نہیں دے سکتا۔

چھٹی فصل عقل کی آفتیں

٦/١

خواہشاتِ نفسانی

قرآن

( کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہے اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیاہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اسکی آنکھ پر پردے ڈال دئےے ہیں اور خدا کے بعدکون ہدایت کر سکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے ہو )

حدیث

٦٤١۔ امام علی (ع): عقل کی آفت بو الہوسی ہے ۔

٦٤٢۔ ہوا و ہوس عقل کی آفت ہے ۔

٦٤٣۔ امام علی (ع): معمولی سی خواہش نفس عقل کو تباہ کردیتی ہے۔

٦٤٤۔ امام علی (ع): خواہش نفس کی پیروی عقل کو برباد کر دیتی ہے۔

٦٤٥۔ امام علی (ع): خواہش نفس کا غلبہ دین اور عقل کو تباہ کر دیتاہے ۔

٦٤٦۔ امام علی (ع): ہوا و ہوس، عقل کی دشمن ہے ۔

٦٤٧۔ امام علی (ع): ہوا و ہوس کے مانند کوئی چیز عقل کی دشمن نہیں۔

٦٤٨۔ امام علی (ع): عقل خواہشات نفسانی کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔

٦٤٩۔ امام علی (ع): عقل کا تحفظ خواہشات کی مخالفت اور دنیا سے دوری کے سبب ہے ۔

٦٥٠۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی شہوت پر غالب آجاتا ہے اسکی عقل آشکار ہو جاتی ہے ۔

٦٥١۔ امام علی (ع): جس شخص کی خواہشات نفسانی عقل پر غالب آجاتی ہے ذلیل ہو جاتا ہے ۔

٦٥٢۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی خواہشات نفسانی کو عقل پرمسلط کر لیتا ہے اسکی رسوائیاں آشکار ہوجاتی ہیں۔

٦٥٣۔ امام علی (ع): شہوت کا ہمنشیں، بیمار نفس اور معیوب عقل کا مالک ہوتا ہے ۔

٦٥٤۔ امام علی (ع): کتنی ہی عقلیں ہیں جو خواہشاتِ نفسانی، کی غلام ہیں۔

٦٥٥۔ امام علی (ع): اپنی جلد بازی کو سنجیدگی سے، اپنی سطوت کو مہربانی سے اور اپنی برائیوںکو اپنی نیکیوںسے جوڑ دو، اور اپنی عقل کو خواہشات پر مسلط کردوتاکہ عقل کے مالک ہو جاؤ ۔

٦٥٦۔ امام علی (ع): عقل لشکر خدا کی امیر ہے، ہوا و ہوس لشکر شیطان کی سر براہ ہے، نفس دونوں کی طرف کھنچتا ہے لہذ اجو بھی غالب آ جاتا ہے اسی کا ہو جاتا ہے۔

٦٥٧۔ امام علی (ع): عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں ، عقل کی حمایت کرنے والا علم ہے شہوت کو آراستہ کرنے والی ہوا و ہوس ہے نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش کے عالم میں ہوتاہے لہذا جو بھی غالب ہو گاا سی کی طرف مائل ہو جائیگا۔

٦٥٨۔ امام علی (ع): ہر وہ عقل جوشہوت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اس کے لئے حکمت سے بہرہ مند ہونا حرام ہے ۔

٦٥٩۔ امام علی (ع): جو خواہشات نفس سے دوری اختیار کرتا ہے اسکی عقل صحیح ہو جاتی ہے ۔

٦٦٠۔ امام علی (ع): جب آپ کو خبر ملی کہ آپ کے قاضی شریح بن حارث نے اسی دینار کا ایک مکان خریدا ہے اور اس کے لئے بیعنامہ بھی لکھا ہے اور اس پر گواہی بھی لے لی ہے تو اپنے ایک خط میں سرزنش و ملامت کرنے کے بعد تحریر فرمایا: میری ان باتوں کی گواہی وہ عقل دیگی جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگی سے محفوظ ہے ۔

٦٦١۔ امام علی (ع): جو شخص کسی چیز کاعاشق ہو جاتا ہے وہ اسے اندھا بنا دیتی ہے اور اس کے دل کو بیمار کر دیتی ہے : وہ دیکھتا بھی ہے توغیرسالم آنکھوںسے اور سنتا بھی ہے تو نہ سننے والے کانوںسے ، خواہشات نے ان کی عقلوں کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور دنیا نے ان کے دلوںکو مردہ بنا دیا ہے ۔

٦٦٢۔ امام علی (ع): عقل چھپانے والا پردہ ہے اور فضیلت ظاہری جمال ، لہذا اپنے اخلاق کے نقائص کو اپنی فضیلت کے ذریعہ چھپاؤ، اور اپنی خواہشات کو عقل کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دو تاکہ تمہاری دوستی سالم اور محبت آشکار ہو جائے۔

٦٦٣۔ امام علی (ع): خواہشات نفس اور شہوت سے عقل برباد ہو جاتی ہے۔

٦٦٤۔ امام علی (ع): عقل اور شہوت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی ہیں۔

٦٦٥۔ امام علی (ع): شہوت کے ساتھ عقل نہیں ہو سکتی۔

٦٦٩۔ امام علی (ع): جو اپنی شہوت کامالک نہیں ہے وہ اپنی عقل کابھی مالک نہیںہے۔

٦٦٧۔ امام علی (ع): خواہشات کی مخالفت کے مانند کوئی عقلمندی نہیں۔

٦٦٨۔ امام علی (ع): خواہشات نفسانی بیدار ہے اور عقل سوئی ہوئی ہے ۔

٦/٢

گناہ

٦٦٩۔ رسول خدا(ص): جو شخص گناہ کا مرتکب ہوتا ہے ، عقل اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے پھر اسکی طرف کبھی نہیں پلٹتی۔

٦/٣

دل پر مہرلگنا

قرآن

( جو لوگ آیات الہی میں بحث کرتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس خدا کی طرف سے کوئی دلیل آئے وہ اللہ اور صاحبان ایمان کے نزدیک سخت نفرت کے حقدار ہیں اور اسی طرح ہر مغروروسرکش انسان کے دل پر مہر لگا دیتا ہے )

( اسکے بعد ہم نے مختلف رسول انکی قوم کی طرف بھیجے اور وہ انکے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لیکر آئے لیکن وہ لوگ پہلے کے انکار کرنے کی بنا پر انکی تصدیق نہ کر سکے اور ہم اسی طرح ظالموں کے دل پر مہر لگا دیتے ہیں )

( بیشک اسی طرح خدا ن لوگوں کے دلوںپر مہر لگا دیتا ہے جو علم رکھنے والے نہیں ہیں )

( یہ وہ بستیاں ہیں جنکی خبریں ہم آپ سے بیان کر رہے ہیں کہ ہمارے پیغمبر انکے پاس معجزات لیکر آئے، مگر پہلے سے تکذیب کرنے کی بنا پر یہ ایمان نہ لا سکے ہم اسی طرح کا فروںکے دلوں پر مہر لگا دیا کرتے ہیں )

حدیث

٦٧٠۔ رسول خدا(ص): مہر ستون عرش پر آویزاں ہے ، لہذا جب ہتک حرمت کی جاتی ہے ، گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے اور خدا کے متعلق لا پروائی رواج پاتی ہے تو خدا مہر کو ابھارتا ہے اور اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے پھر اس کے بعد وہ کوئی چیزنہیں سمجھتا ہے ۔

٦٧١۔ رسول خدا(ص): طمع کو اپنا شعار قرار دینے سے پرہیز کرو چونکہ طمع دل کو شدید حرص سے مخلوط اور حب دنیا کی مہر دلوں پر لگادیتی ہے ۔

٦٧٢۔ امام حسین (ع): جب عمر ابن سعد نے اپنے سپاہیوں کو امام حسین (ع) سے جنگ کےلئے آمادہ کیا اور حضرت کو ہر جانب سے حلقہ کی صورت میں گھیر لیا!توامام حسین (ع) خیمہ سے بر آمد ہوئے اور لوگوں کے سامنے آئے، انہیں خاموش ہونے کو کہا لیکن وہ چپ نہ ہوئے تو فرمایا:وائے ہوتم پر! اگر تم خاموش ہو کر میری باتوں کو سنو تو تمہارا کیا نقصان ہے! میں تمہیں راہ ہدایت کی دعوت دیتا ہوں......تم سب میری نافرمانی کر رہے ہو اور میری بات نہیں سنتے؛ یقینا تمہارے پیٹ حرام سے پر ہیں اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے ۔

٦٧٣۔ امام باقر(ع): نے خدا کے قول( ان کے پاس ایسے دل ہیںکہ جنکے ذریعہ نہیں سمجھتے) کی تفسیر کے متعلق فرمایا: خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے لہذا کچھ نہیں سمجھتے۔

٦/٤

آرزو

٦٧٤۔ امام علی (ع): یاد رکھو! کہ آرزو عقل کو فراموشی سے دو چار اور یاد خدا سے غافل بنا دیتی ہے ۔

٦٧٥۔امام علی (ع): بیشک آرزو عقل کو برباد اور وعدوں کی تکذیب کرتی ہے ، نیز غفلت پر ابھارتی اور حسرت کا باعث ہوتی ہے ۔

٦٧٦۔ امام علی (ع): جس کی آرزو طولانی ہے وہ عقلمند نہیں۔

٦/٥

تکبر

٦٧٧۔ امام علی (ع): عقل کی بدترین آفت تکبر ہے ۔

٦٧٨۔ امام باقر(ع): تکبر کسی شخص کے دل میں پیدا نہیں ہو سکتا مگر یہ کہ تکبر کے تناسب سے اسکی عقل گھٹ جاتی ہے چاہے کم ہو یا زیادہ۔

٦/٦

فریب

٦٧٩۔ امام علی (ع):کسی کے فریب میں آنا ہے عقل کی بربادی

٦٨٠۔ امام علی (ع): عقلمند فریب میں نہیں آتا۔

٦٨١۔ امام علی (ع): اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو کہ جس طرح وہ صاحب عقل ڈرتاہے جس کے دل کو فکر آخرت نے مشغول کر لیاہو.....اور فریب کے بھندوں میں نہ پھنسا ہو۔

٦/٧

غیظ و غضب

٦٨٢۔ امام علی (ع): غیظ و غضب عقل کو تباہ اور حقیقت سے دور کرتا ہے ۔

٦٨٣۔ امام علی (ع): وہ شخص جوغضب و شہوت سے مغلوب ہے اسے عاقل تصور کرنا مناسب نہیں ہے۔

٦٨٤۔ امام علی (ع): تعصب نفس، غیظ و غضب کی شدت، ہاتھ سے حملہ اور زبان کی تیزی پر قابو رکھو۔ ان تمام کا تحفظ تیزی میںتاخیر اور حملہ سے پرہیز کے ذریعہ کرو تاکہ تمہارا غضب کم ہو جائے اور تمہاری عقل تمہاری طرف پلٹ آئے۔

٦٨٥۔ امام علی (ع): غیظ و غضب اور شہوت کے سبب بیمار ہونے والی عقل حکمت سے فیضیاب نہیں ہوتی۔

٦٨٦۔ امام علی (ع): جو شخص اپنے غیظ و غضب پر قابو نہیںرکھتا وہ اپنی عقل کا مالک نہیں ہے۔

٦/٨

حرص و طمع

٦٨٧۔ امام علی (ع): عقلوں کی تباہی کی بیشتر منزلیں حرص و طمع کی چمک دمک کے ماتحت ہیں۔

٦٨٨۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! حرص و طمع سے پرہیز کرو، جو کچھ لوگوںکے پاس ہے اس سے نا امید رہو، اور ان کی طرف سے لالچ کو ختم کر دو کیونکہ لالچ ذلت کی کنجی ، عقل کی تباہی، دلیری کا زوال، آبرو کی آلودگی اور علم کی پامالی ہے ......

٦/٩

خود پسندی

٦٨٩۔ امام علی (ع): انسان کا خودپسندی میں مبتلا ہو جانا خود اپنی عقل سے حسد کرنا ہے ۔

٦٩٠۔ امام علی (ع): انسان کی خود بینی ، عقل کی کمزوری کی دلیل ہے ۔

٦٩١۔ امام علی (ع): انسان کی خودبینی کم عقلی کی دلیل او ر ضعف عقل کی نشانی ہے ۔

٦٩٢۔ امام علی (ع): خود بینی عقل کو تباہ کر دیتی ہے ۔

٦٩٣۔ امام علی (ع): عقل کی آفت خود بینی ہے ۔

٦٩٤۔ امام علی (ع): خود بینی صواب و درستی کی ضد اور عقلوں کی آفت ہے ۔

٦٩٥۔ امام علی (ع):خود پسندعقل نہیں رکھتا۔

٦٩٦۔ امام علی (ع): انسان کا خود پسند ہونا اسکی سبک عقلی کی دلیل ہے ۔

٦٩٧۔ امام علی (ع): جو شخص اپنے کام سے خوش ہوتا ہے اسکی عقل بیمارہے ۔

٦٩٨۔ امام علی (ع):جس شخص کو اپنی ہی بات بھلی لگتی ہے اس کا عقل سے واسطہ نہیں ہوتا۔

٦٩٩۔ امام علی (ع): خود پسند ہونا، عقل کی تباہی کی نشانی ہے ۔

٦/١٠

عقل سے بے نیاز ہونا

٧٠٠۔ امام علی (ع): نے اپنے بیٹے امام حسین کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: جواپنی عقل سے بے نیازہوا وہ گمراہ ہو گیا۔

٧٠١۔ امام علی (ع): اپنی عقل کو متہم قرار دو ، چونکہ اس پر اعتماد خطاء کا سرچشمہ ہے ۔

٦/١١

حب دنیا

٧٠٢۔ امام علی (ع): عقل کی تباہی کا سبب حب دنیا ہے ۔

٧٠٣۔ امام علی (ع): حب دنیا، عقل کو تباہ اور دل کو حکمت سننے سے تھکادیتی ہے اور درد ناک عذاب کا باعث ہوتی ہے ۔

٧٠٤۔ امام علی (ع): دنیا کی زیبائی ، کمزور عقلوںکو تباہ کر دیتی ہے ۔

٧٠٥۔ امام علی (ع): دنیا عقلوںکی بربادی کی منزل ہے ۔

٧٠٦۔ امام علی (ع): دنیا سے گریز کرو اور اپنے دلوںکو اس سے بازرکھو، اس لئے کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اس میں اس کا حصہ کم ہے مومن کی عقل اس کے سبب علیل اور اس میں اس کی نگاہ کمزور ہے ۔

٧٠٧۔ امام علی (ع):نے اہل دنیا کی توصیف میںفرمایا: یہ سب چوپائے ہیں جن میں سے بعض بندھے ہوئے ہیں اور بعض آوارہ ۔ جنہوںنے اپنی عقلیں گم کر دی ہیں اور نا معلوم راستہ پر چل پڑے ہیں۔

٧٠٨۔ امام علی (ع): نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے فرمایا: حیف ہے تمہارے حال پر، میں تمہیں ملامت کرتے کرتے تھک گیا، کیا تم لوگ واقعا آخرت کے عوض زندگانی دنیا پر راضی ہو گئے اور تم نے ذلت کو عزت کا بدل سمجھ لیا ہے ؟ جب میں تمہیں دشمن سے جہاد کی دعوت دیتا ہوں تو تم آنکھیں پھیر نے لگتے ہو، جیسے موت کی بیہوشی طاری ہو اور غفلت کے نشہ میں مبتلا ہو، تم پر جیسے میری گفتگو کے دروازے بند ہو گئے ہیں کہ تم گمراہ ہوتے جا رہے ہو اور تمہارے دلوں پر دیوانگی کا اثر ہو گیا ہے کہ تمہاری سمجھ ہی میں کچھ نہیں آرہا ہے ۔

٧٠٩۔ عبد اللہ بن سلام: خدا وند توریت میں فرماتا ہے: بیشک قلوب حب دنیا سے وابستہ ہیں اور عقلوں پر میرے لئے پردہ پڑا ہوا ہے ۔

٧١٠۔ الاختصاص: خدا نے جناب داؤد سے فرمایا: اے داؤد! شہوات دنیا سے وابستہ دلوں سے بچو کہ ان کی عقلوں پر میرے لئے پردہ پڑا ہوا ہے ۔

٦/١٢

مے کشی

٧١١۔ امام علی (ع): خدا نے شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کے لئے واجب کیا ہے ۔

٧١٢۔ امام علی (ع): خدا نے شراب کو حرام کیا ہے ، اس لئے کہ اس میں تباہی ہے، اور شراب خوروںکی عقلوںکو تبدیل کر دیتی ہے ، نیز انکار خداا ور اللہ اور اس کے رسولوںپربہتان، دوسری تباہیوں اور قتل کا موجب ہے ۔

٦/١٣

پانچ چیزوں کی مستی

٧١٣۔ امام علی (ع): مناسب ہیکہ عقلمند خود کو مال کی مستی ، قدرت کی مستی ، علم کی مستی ، مدح و تعریف کی مستی اور جوانی کی مستی سے محفوظ رکھے؛ کیوں کہ یہ سب ناپاک بدبودار ہوائیںہیں کہ عقل کو سلب کرتی اور وقار کو سبک بناتی ہیں۔

٦/١٤

زیادہ لہوو لعب

٧١٤۔ امام علی (ع): جو زیادہ لہو و لعب میں مبتلا ہوتا ہے اسکی عقل کم ہو جاتی ہے ۔

٧١٥۔ امام علی (ع): جو شخص کھیل کا عاشق اور عیش و نشاط کا شیدائی ہوتا ہے ، عقلمند نہیں ہے ۔

٧١٦۔ امام علی (ع): عقل کھیل کو د سے نتیجہ خیز نہیں ہوتی ہے۔

٧١٧۔ امام علی (ع): جس شخص پر ہنسی مذاق کا غلبہ ہوتا ہے اسکی عقل تباہ ہو جاتی ہے ۔

٧١٨۔ امام علی (ع): جو شخص زیادہ ہنسی مذاق میں مبتلا رہتا ہے اسکی بیہودگی بڑھ جاتی ہے ۔

٦/١٥

بیکاری

٧١٩۔ امام صادق(ع): ترک تجارت عقل کو کم کر دیتا ہے ۔

٧٢٠۔ امام صادق(ع): ترک تجارت عقل کو زائل کر دیتا ہے ۔

٧٢١۔ فضیل اعور : کا بیان ہے کہ ، میں نے دیکھا کہ معاذ بن کثیر نے امام صادق(ع) سے عرض کیا: میں مالدار ہو چکا ہوں لہذا تجارت کو چھوڑنا چاہتا ہوں! امام نے فرمایا: اگر تم نے ایسا کیا تو تمہاری عقل کم ہو جائیگی۔( یا اس کے مانند امام نے کوئی جملہ کہا ہے )

٧٢٢۔ کپڑے فروش معاذ: کا بیان ہے کہ امام صادق(ع) نے مجھ سے فرمایا: اے معاذ! کیا تجارت کرنے کی توانائی نہیں رکھتے یا اس سے بے رغبت ہو گئے ہو؟! میں نے عرض کیا نہ ناتواں ہو ا ہوں اور نہ ہی اس سے اکتایا ہوںفرمایا: پھرکیا وجہ ہے ؟ میں نے عرض کیا: آپ کے حکم کا منتظر تھا، جب ولید قتل ہوا اس وقت میرے پاس کافی مال تھا اور کسی کی کوئی چیز میرے پاس نہیں تھی ، اور گمان کرتا ہوں کہ تا زندگی کھاؤ نگا اور ختم نہیںہوگا، پس فرمایاتجارت نہ چھوڑوکیونکہ بیکاری عقل کو زائل کر دیتی ہے ، اپنے اہل و عیال کے لئے کوشش کرو؛ ایسا نہ کرو کہ وہ تمہاری بد گوئی کریں۔

٧٢٣۔ اسباط بن سالم(ہندوستانی کپڑے بیچنے والے) کا بیان ہے کہ ایک روز امام صادق ؑ نے کھدر کے کپڑے فروخت کرنے والے معاذ کے متعلق سوال کیا اور میں بھی وہاں موجود تھا، کہا گیا: کہ معاذ نے تجارت چھوڑ دی ہے ، امام نے فرمایا! شیطان کا عمل ہے؛ شیطان کا عمل ہے ؛ یقینا جو شخص تجارت کو چھوڑ دیتا ہے اسکی دو تہائی عقل زائل ہو جاتی ہے ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ جب شام سے قافلہ پہنچا تو رسول خدا(ص) نے ان سے خریداری کی اور ان سے تجارت کی اور فائدہ حاصل کیا اور اپنے قرض کو ادا فرمایا۔

٦/١٦

زیادہ طلبی

٧٢٤۔ امام علی (ع):ضرورت سے زیادہ طلب کرنے کے سبب عقلیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

٦/١٧

نادان کی ہمنشینی

٧٢٥۔ امام علی (ع): جو شخص نادان کی ہمنشینی اختیار کرتا ہے اسکی عقل کم ہو جاتی ہے ۔

٧٢٦۔ امام علی (ع): عقل کی نابودی کا سبب نادانوں کی ہمنشینی ہے ۔

٦/١٨

حد سے تجاوز کرنا

٧٢٧۔ امام علی (ع): جو اپنی حد اور حیثیت سے تجاوز کرتاہے عقلمند نہیں ہے ۔

٧٢٨۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی بساط سے زیادہ قدم اٹھاتاہے عقلمند نہیںہے ۔

٦/١٩

بیوقوفوں سے مجادلہ

٧٢٩۔ امام علی (ع): جو شخص بیوقوفوں سے مجادلہ کرتا ہے عقلمند نہیں ہے ۔

٦/٢٠

عاقل کی بات پر کان نہ دھرنا

٧٣٠۔ امام علی (ع): جو شخص صاحبان عقل کی باتیں نہیں سنتا اسکی عقل مردہ ہو جاتی ہے ۔

٧٣١۔ امام کاظم (ع): نے ۔ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو شخص تین چیزوں کو تین چیزوں پر مسلط کریگا، گویا اس نے اپنی عقل کی پامالی میںمدد کی ہے: جس نے طولانی آرزو کے سبب اپنے چراغ فکر کو بجھا دیا، جس نے حکمت کی خوبیوں کو فضول کلامی کے باعث محو کر دےا، اور جس نے اپنی شہوات نفسانی کے ذریعہ عبرت آموزی کے نور کو خاموش کر دےا ، تو گویا اس نے اپنی عقل کی تباہی میں اپنی ہوا و ہوس کی مدد کی اور جس نے اپنی عقل تباہی کی اسکی دنیاو دین دونوں برباد ہو جائیں گے ۔

٦/٢١

جنگلی جانور اور گائے کا گوشت

٧٣٢۔ امام رضا(ع): جنگلی جانوراور گائے کا گوشت زیادہ کھانے کے سبب عقل میں تبدیلی ، فہم میں حیرانی ، کند ذہنی اور بیشتر فراموشی پیدا ہو تی ہے ۔

ساتویں فصل عاقل کے فرائض

٧/١

عاقل کے واجبات

قرآن

( اے صاحبان عقل اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تم اس طرح کامیاب ہو جاؤ )

( اے ایمان والو! اور عقل والو اللہ سے ڈرو کہ اس نے تمہاری طرف اپنے ذکر کو نازل کیا ہے )

حدیث

٧٣٣۔ رسول خدا(ص): چار چیزیں میری امت کے ہر عاقل و خرد مند پر واجب ہیں۔ دریافت کیا گیا، اے رسول خدا وہ چار چیزیں کیا ہیں: فرمایا: علم کا سننا، اس کا محفوظ رکھنا، نشر کرنا اور اس پر عمل کرنا۔

٧٣٤۔ رسول خدا(ص): عاقل وہ ہے جو خدا کی اطاعت کرتا ہے گرچہ بد صورت اور پست مقام رکھتا ہو۔

٧٣٥۔ رسول خدا(ص): جب عقل کے بارے میں پوچھا گیا۔ تو فرمایا: (عقل) طاعت خدا پر عمل ہے اور یقینا خدا کے احکام پر عمل کرنے والے ہی عقلمند ہوتے ہیں۔

٧٣٦۔ رسول خدا(ص): اپنے رب کی اطاعت کرو عقلمند کہے جاؤ گے اور معصیت نہ کرو کہ جاہل کہے جاؤ گے ۔

٧٣٧۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنے پروردگار کی اطاعت کی خاطر اپنی خواہشات نفس کی مخالفت کرتا ہے ۔

٧٣٨۔ امام علی (ع): اگر خدائے سبحان نے اپنی طاعت کی ترغیب نہ بھی کی ہوتی تو بھی وہ مستحق تھا کہ اسکی رحمت کی امید سے اسکی طاعت کی جائے ۔

٧٣٩۔ امام علی (ع)؛ آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ عقلمند پر لازم ہے کہ حکمت کے ذریعہ عقل کو زندہ کرنے کےلئے زیادہ کوشاں رہے ان غذاؤں کی نسبت کہ جن سے اپنے جسم کو زندہ رکھتا ہے ۔

٧٤٠۔ امام علی (ع): اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! اسطرح جسطرح وہ صاحب عقل ڈرتا ہے جسکے دل کو فکر آخرت نے مشغول کر لیا ہو اور اسکا بدن خوفِ خدا سے خستہ حال ہے اور شب داری نے اسکی بچی کھچی نیند کو بھی شب بیداری میں بدل دیا ہو اور امیدوںنے اسکے دل کی تپش کو پیاس میں گذار دیا ہو ۔اور زہد نے اسکے خواہشات کو پیروں تلے روند دیا ہو اور ذکر خدا اسکی زبان پر تیزی سے دوڑ رہا ہو اور اس نے قیامت کے امن و امان کےلئے یہی خوف کا راستہ اختیار کر لیاہو اور سیدھی راہ پر چلنے کےلئے ٹیڑھی راہوں سے کترا کر چلا ہو اور مطلوب راستے تک پہنچنے کےلئے درمیانی راستہ اختیار کیا ہو،۔ نہ خوش فریبیوں نے اس میں اضطراب پیدا کیا ہو اور نہ مشتبہ امور نے اسکی آنکھوںپر پردہ ڈالا ہو، بشارت کی مسرت اور نعمتوںکی راحت بہترین نیند اور پر امن ترین دن میں حاصل کر لی ہو۔

دنیا کی گذر گاہ سے قابل تعریف انداز سے گذر جائے اور آخرت کا زاد راہ نیک بختی کے ساتھ آگے بھیج دے وہاںکے خطرات کے پیش نظر عمل میں سبقت کی اور مہلت کے اوقات میں تیز رفتاری سے قدم بڑھایا، طلب آخرت میں رغبت کےساتھ آگے بڑھا اور برائیوں سے مسلسل فرار کرتا رہا۔ آج کے دن کل پر نگاہ رکھی، اور ہمیشہ اگلی منزلوںکو دیکھتا رہا۔

لہذا یقینا ثواب و عطا کےلئے جنت اور عذاب و وبال کےلئے جہنم سے بالا تر کیا ہے اور پھر خدا سے بہتر مدد کرنے والا اور انتقام لینے والا کون ہے اور قرآن کے علاوہ حجت اور سند کیا ہے ۔

٧/٢

عاقل کے لئے حرام اشیائ

قرآن

( کہدیجئے کہ آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا کیا حرام کیا ہے ، خبردار کسی کو اسکا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کےساتھ اچھا برتاؤ کرنا اپنی اولاد کو غربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں اور انہیں بھی، اور بدکاریوں کے قریب نہ جانا وہ ظاہرہوں یا چھپی ہوئی اور کسی ایسے نفس کو جسے خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر یہ کہ تمہارا کوئی حق ہو، یہ وہ باتیں ہیں جنکی خدا نے تمہیں نصیحت کی ہے تاکہ تمہیں عقل آجائے )

حدیث

٧٤١۔ امام علی (ع): اگر خدا نے محرمات سے روکا نہ بھی ہوتا تو بھی وہ مستحق تھا کہ عقلمند ان سے اجتناب کرے۔

٧٤٢۔ امام علی (ع): اگر خدا نے اپنی نافرمانی پر عتاب کا وعدہ نہ بھی کیا ہوتا تو بھی وہ مستحق تھا کہ شکر نعمت کے عنوان سے اسکی نافرمانی نہ کی جائے ۔

٧٤٣۔ امام علی (ع): منعم کم از کم جس چیز کا استحقاق رکھتا ہے وہ یہ ہےکہ اسکی نعمتوں کے سبب اسکی نافرمانی نہ کی جائے۔

٧٤٤۔ امام علی (ع): گناہوں سے پرہیزعقلمندوںکی صفت اور بزرگواروںکی عادت ہے ۔

٧٤٥۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو گناہوںسے دور اور لغزشوں سے پاک ہوتاہے ۔

٧٤٦۔ امام علی (ع): عقلمند کی کوشش گناہوں کے ترک اور عیوب کی اصلاح کے لئے ہوتی ہے ۔

٧٤٧۔ امام علی (ع): عقل برائیوں سے پاک کرتی ہے اور نیکیوں کا حکم دیتی ہے۔

٧٤٨۔ امام علی (ع): عاقل جھوٹ نہیں بولتا اور مومن زنا کا ارتکاب نہیں کرتا۔

٧٤٩۔ امام علی (ع): فطرت عقل برے کاموں سے روکتی ہے ۔

٧٥٠۔ امام علی (ع): عقلمندی کی نشانی اسراف سے اجتناب اور اچھی تدبیرہے ۔

٧٥١۔ امام علی (ع): دور اندیشی کے لئے اسکی عقل کی بدولت پستیوں سے ایک باز رکھنے والا ہوتا ہے ۔

٧٥٢۔ امام علی (ع): عقل کی اساس، پاکدامنی اور اس کا پھل گناہوں سے بیزاری ہے ۔

٧٥٣۔ امام علی (ع): دلوں کے لئے برے خیالات ہیں لیکن عقلیں دلوں کوان سے باز رکھتی ہیں۔

٧٥٤۔ امام علی (ع): نفوس آزاد ہیں لیکن عقلیں انہیں آلودگیوں سے باز رکھتی ہیں۔

٧٥٥۔ امام علی (ع): عقلمند جھوٹ نہیں بولتا چاہے اس کے فائدہ ہی میں ہو۔

٧/٣

عاقل کے لئے مناسب اشیائ

٧٥٦۔ رسول خدا(ص): عاقل اگر عاقل ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے دن کے اوقات کو چار حصوں میں تقسیم کرے: ایک حصہ میں ، اپنے پروردگار سے مناجات کرے، ایک حصہ میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے، ایک حصہ میںایسے صاحبان علم کے پاس جائے جو اسے دین سے آشنا اور نصیحت کریں اور ایک حصہ کو اپنے نفس اور دنیا کی حلال و حسین لذتوںکے لئے مخصوص کرے۔

٧٥٧۔ ابو ذر غفاری: میں نے پوچھا اے رسول خدا: صحف ابراہیم میں کیا تھا؟ فرمایا: اس میں امثال اور عبرتیں تھیں: اگر عقلمند کی عقل مغلوب نہیں ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کرے ، اپنے زمانہ سے واقفیت رکھے اور اپنے کام کی طرف متوجہ رہے ، یقینا ہر وہ شخص جس کا کلام اس کے عمل کے مطابق ہوتاہے تو وہ کم سخن ہو جاتاہے مگر یہ کہ جو اس سے مربوط ہو۔

٧٥٨۔ رسول خدا(ص): مناسب ہے کہ عاقل تین چیزوںکے علاوہ گھر سے باہر قدم نہ نکالے: کسب معاش کےلئے، یا آخرت کے لئے یا غیر حرام سے لذت کے لئے۔

٧٥٩۔ رسول خدا(ص):نے علی (ع): کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:اے علی ! مناسب نہیں ہے کہ عاقل تین چیزوںکے علاوہ گھر سے قدم نکالے : کسب معاش کے لئے ، قیامت کے لئے زادراہ مہیا کرنے کے لئے اورغیر حرام سے لذت اندوزی کے لئے ۔

٧٦٠۔ رسول خدا(ص): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے زمانہ سے آگاہی رکھتا ہو۔

٧٦١۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑ ۔ کو وصیت کرتے ہوئے ۔ فرمایا: بیٹا! عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے موقع کی نزاکت کو دیکھے۔ اپنی زبان کی حفاظت کرے اور اہل زمانہ کو پہچانے۔

٧٦٢۔ امام صادق(ع): فرماتے ہیں کہ حکمت آل داؤدمیں ہے عقلمند کےلئے لازم ہےکہ وہ اپنے زمانہ سے واقف ہو، اپنی حیثیت کی طرف متوجہ ہو اور اپنی زبان پر قابو رکھے۔

٧٦٣۔ رسول خدا(ص): خدا پر ایمان کے بعدعقل کا سرمایہ ، حیا اور حسن اخلاق ہے ۔

٧٦٤۔ رسول خدا(ص):خدا پر ایمان کے بعد عقل کا سرمایہ لوگوںسے اظہار محبت ہے ۔

٧٦٥۔ رسول خدا(ص): دین کے بعد عقل کاسرمایہ لوگوںکے ساتھ اظہار محبت اور ہر اچھے اور برے کے ساتھ نیکی کرنا ہے ۔

٧٦٦۔ رسول خدا(ص): عقل کی اساس مہربانی کرنا ہے ۔

٧٦٧۔ رسول خدا(ص): خدا پر ایمان کے بعد عقل کا سرمایہ لوگوںکے ساتھ مہربانی کرنا ہے مگر یہ کہ کوئی حق ضائع نہ ہو۔

٧٦٨۔ امام علی (ع): عقل کا سرمایہ کاموں میں اطمینان ہے اور حماقت کا سرمایہ عجلت پسندی ہے ۔

٧٦٩۔ اما م حسن ؑ : عقل کا سرمایہ لوگوںکے ساتھ حسن ِ معاشرت ہے ۔

٧٧٠۔ امام علی (ع): عقل کا سرمایہ خواہشات نفسانی سے جہاد ہے ۔

٧٧١۔ امام علی (ع): عقل کے ذریعہ خواہشات نفسانی کا مقابلہ کرو۔

٧٧٢۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل اسکی خواہشات پر غالب آگئی وہ کامیاب ہو گیا۔

٧٧٣۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل اسکی شہوت پراور بردباری اس کے غیظ و غضب پر غالب آجائے تو وہ حسن سیرت کا مستحق ہے ۔

٧٧٤۔ امام علی (ع): غیظ و غضب کا خاموشی کے سبب اور شہوت کا عقل کے ذریعہ علاج کرو۔

٧٧٥۔ امام علی (ع): خواہشات نفسانی کو اپنی عقل کے ذریعہ قتل کر دو تاکہ ہدایت یافتہ ہو جاؤ۔

٧٧٦۔ امام علی (ع): بردباری چھپانے والا پردہ ہے اورعقل شمشیر براں ہے ، لہذا اپنے اخلاق کی کمیوںکو بردباری سے چھپاؤ اور خواہشات کو عقل کے ذریعہ قتل کردو۔

٧٧٧۔ امام علی (ع): خبردار، خبردار، اے سننے والو!کوشش، کوشش، اے عقلمندو! آگاہ شخص کے مانند تمہیں کوئی خبر نہیںدے سکتا۔

٧٧٨۔ امام علی (ع): لہو و لعب میں مبتلا عاقل ہدایت تک نہیں پہنچتا لیکن کوشش اور جد و جہد کرنے والا پہنچتا ہے ۔

٧٧٩۔ امام علی (ع): ضروری ہے کہ عاقل قیامت کے لئے کوشش کرے اور زیادہ سے زیادہ توشہ فراہم کرے۔

٧٨٠۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ ہمیشہ رہنمائی کا خواہاں ہو اور خود رائی ترک کر دے۔

٧٨١۔ امام علی (ع): مناسب ہے کہ عاقل کسی بھی حالت میں اطاعت پروردگار اور جہاد بالنفس سے دستبردار نہ ہو۔

٧٨٢۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے مال کے سبب تعریف حاصل کرے اور خود کو سوال سے محفوظ رکھے۔

٧٨٣۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ علماء اور ابرار کی ہمنشینی زیادہ سے زیادہ اختیار کرے ، اور اشرار و فجار کی ہمنشینی سے پرہیز کرے۔

٧٨٤۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب تعلیم دے تو سختی سے پیش نہ آئے اور جب تحصیل کرے تو لاپروائی نہ کرے۔

٧٨٥۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب جاہل کو خطاب کرے تو اس طرح کرے جیسے طبیب، مریض سے کرتاہے ۔

٧٨٦۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے چہرے کو آئینہ میں دیکھے اگر حسین ہے تو اس کے ساتھ قبیح عمل کو مخلوط نہ کرے کہ حسن و قبیح یک جا ہو جائیں ، اور اگر قبیح ہو ، تو بھی قبیح عمل انجام نہ دے کہ دو قبیح یک جا ہو جائیں گے۔

٧٨٧۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو صبرکرے یہاں تک کہ اس کا وقت گذر جائے، چونکہ اس کا وقت گذرنے سے قبل اس کے دور کرنے کی کوشش مزید رنج کا باعث ہوگی ۔

٧٨٨۔ امام علی (ع): ضروری ہے کہ انسان کا علم اس کے نطق سے زیادہ ہو اور اسکی عقل اسکی زبان پر غالب ہو۔

٧٨٩۔ امام علی (ع): آ پ سے منسوب کلمات قصارمیںہے ، عاقل کے لئے ضروری ہے کہ ضرورت کے وقت نرمی سے پیش آئے اور ہر زہ سرائی سے پرہیز کرے۔

٧٩٠۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیںہے ۔ عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ غذا کی لذت کے وقت دوا کی تلخی کو یاد کرے۔

٧٩١۔امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنی نیکی و خوبی کو جاہل، پست اور بیوقوفوں کے سپرد نہ کرے، اس لئے کہ جاہل خوبی کو نہیں پہچانتا اور نہ ہی اس کا شکر کرتا ہے ۔

٧٩٢۔امام صادق(ع): عاقل کے لئے ضروری ہیکہ سچا ہو تاکہ اس کے قول پر اعتماد کیا جائے اور شکر گذار ہو تاکہ شکر فراوانی (نعمت) کا موجب ہو۔

٧٩٣۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کام میں نیکی ہے اور جاہل کے لئے ہر حالت میں خسارہ ہے ۔

٧٩٤۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کام میں ریاضت ہے ۔

٧٩٥۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کلمہ میں شرافت و فضیلت ہے ۔

٧٩٦۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ دین ، رائے ، اخلاق اور ادب میں اپنی برائیوںکو شمار کرے اور انہیں اپنے سینہ یا ڈائری میں لکھے پھر ان کے ازالہ کی کوشش کرے۔

٧٩٧۔ امام صادق(ع): عاقل کے لئے علم و ادب کا سیکھنا ضروری ہے کیوں کہ اسی پر اس کا دار و مدار ہے۔

٧٩٨۔ امام صادق(ع): زیارت امام حسین (ع) میں ۔ فرماتے ہیں: بار الٰہا: بیشک میںگواہی دیتا ہوںکہ یہ قبر تیرے حبیب اور خلق میں تیرے برگزیدہ کے فرزند کی ہے ، وہ تیری کرامت کے سبب کامیاب ہیں ، تونے ان کواپنی کتاب کے ذریعہ مکرم کیا ہے ، تونے ان کو اپنی وحی کا امین شمار کیا ہے اور ان کو اس سے مخصوص کیا ہے ، تونے ان کو انبیاء کی میراث عطا کی ہے، اور ان کو اپنی مخلوق پر حجت قرار دیا ہے تو انہوںہے بھی اتمام حجت میں امت سے تمام عذر کو دور کر دیا اور تیری راہ میں اپنا خون بہایا تاکہ تیرے بندوں کو گمراہی و جہالت ، تاریکی اور شک و تردید سے نجات دیں اور تباہی و پستی سے ہدایات و روشنی کی طرف رہنمائی کریں۔

٧٩٩۔ امام صادق(ع): روز اربعین زیارت امام حسین (ع) میں۔ فرماتے ہیں: خدایا! میں گواہی دیتا ہوںکہ وہ تیرے دوست اور تیرے ولی کے فرزند اور تیرے برگزیدہ اور گزیدہ کے فرزند ہیں۔ تیری کرامت پر فائز ہیں، تونے انکو شہادت کے ذریعہ مکرم کیا ہے، اور انکو سعادت سے مخصوص کیا ہے ، انکو پاکیزگی ولادت کے ساتھ منتخب کیاہے، اور انکو سرداروں میں سے سردار بنا یا ہے، اور قائدوں میںسے قائد بنایا ہے ، اور اسلام سے دفاع کرنے والوں میں ایک بڑا دفاع کرنے والا بنایا ہے اور تونے انکو انبیاء کی میراث عطا کی ہے ، اور اپنے اوصیاء میں سے انکو اپنی مخلوق پر حجت قرار دیا ہے تو انہوںنے بھی اتمام حجت میں امت سے تمام عذر کو دور کر دیا اور امت کی نصیحت کو انجام دیا اور تیری راہ میں اپنا خون بہایا تاکہ تیرے بندوں کو جہالت اور گمراہی کی حیرانی سے نجات دیں۔

٨٠٠۔ امام کاظم (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ۔ جب کوئی کام انجام دے تو خدا سے شرم کرے اور جب نعمتوں سے سرشار ہو تو اپنے ساتھ اپنے علاوہ کسی اور کو شریک کرے۔

٨٠١۔امام رضا(ع): جو خدا کی معرفت رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کو قضا و قدر میں متہم قرار نہ دے اور رزق دینے میں اس کو سست شمار نہ کرے۔

٧/٤

عاقل کے لئے نامناسب اشیائ

٨٠٢۔امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ امید کی بنا پر خوشی کا اظہار کرے؛ کیوں کہ امید دھوکا ہے ۔

٨٠٣۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ عاقل کے لئے مناسب نہیں ہے کہ دوسروں سے اپنی اطاعت کرائے جبکہ خوداسکا نفس اس کا مطیع نہ ہو۔

٨٠٤۔ امام علی (ع): عاقل کےلئے سزاوار نہیں ہے کہ جب راہ امن حاصل ہو جائے تو وہ خوف سے گوشہ نشینی اختیار کرے۔

٨٠٥۔ اما م علی (ع): تعجب ہے کہ عقلمند شہوت پر کس طرح نظر ڈالتا ہے کہ بعد میں اس کےلئے حسرت و ندامت کا باعث ہوتی ہے۔

٨٠٦۔ امام علی (ع): شریح بن حارث کے نام اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں۔ میںنے سنا ہے کہ تم نے اسّی دینار کا مکان خریدا ہے اور اس کے لئے بیعنامہ بھی لکھا ہے اور اس پر گواہی بھی لی ہے؟

اے شریح!عنقریب تیرے پاس وہ شخص آنے والا ہے جو نہ اس تحریر کو دیکھے گا اور نہ تجھ سے گواہوں کے بارے میں سوال کریگا بلکہ تجھے اس گھر سے نکال کر تنِ تنہا قبر کے حوالے کر دیگا۔اگر تم نے یہ مکان دوسرے کے مال سے خریدا ہے اور غیر حلال سے قیمت اداکی ہے تو تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں خسارہ ہوا ہے ۔یاد رکھو! اگر تم اس مکان کو خریدتے وقت میرے پاس آتے اور مجھ سے دستاویز لکھواتے تو ایک درہم میں بھی خریدنے کے لئے تیار نہ ہوتے۔ اسی دینار تو بہت بڑی بات ہے ، میں اسکی دستاویز اس طرح لکھتا: یہ وہ مکان ہے جسے ایک بندہ ذلیل نے اس مرنے والے سے خرید ا ہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کر دیا گیا ہے ، یہ مکان دنیائے پر فریب میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کا علاقہ ہے ۔ اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہےں؛ ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اور دوسری اسباب مصائب سے ملتی ہے ۔ تیسری حد ہلاک کر دینے والی خواہشات کی طرف ہے اور چوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف اس گھر کا دروازہ کھلتا ہے ۔ اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے ، جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب و خواہش کی ذلت میں داخل ہو گیا ہے ۔ اب اگر اس خریدار کو اس سو دے میں کوئی خسارہ ہوا تو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموںکا تہہ و بالا کرنے والا ۔ جابروںکی جان نکال لینے والا۔ فرعونوں کی سلطنت کو تباہ کر دینے والا، کسریٰ، قیصر، تبع اور حِمیر اورزیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں ، مستحکم عمارتیں بنا کر انہیں سجانے والوں ، ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیر بنانے والوںکو فنا کے گھاٹ اتار دینے والا ہے۔ کہ ان سب کو قیامت موقف حساب اور منز ل ثواب عذاب میں حاضر کر دے جب حق و باطل کا حتمی فیصلہ ہوگا'' اور اہل باطل یقینا خسارہ میںہوں گے'' میری ان باتوں کی گواہی اس عقل نے دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے''۔

٨٠٧۔ امام صادق(ع): تین چیزیں ایسی ہیں کہ عاقل کو انہیں ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہئے :

دنیا کی بے ثباتی، حالات کی تبدیلی اور وہ آفات کہ جن سے اماں نہیں۔