منافقين كي نفسياتي خصائص
1) تكبر اور خود بينى
قرآن مجيد وہ نكات جو منافقين كي نفسياتي شناخت كے سلسلہ ميں، روحي و نفسياتي خصائص كے عنوان سے بيان كر رھا ھے، پھلي خصوصيت تكبر و خود محوري ھے۔
كبر كے معني اپنے كو بلند اور دوسروں كو پست تصور كرنا، تكبر پرستي ايك اھم نفسياتي مرض ھے جس كي بنا پر بھت زيادہ ھي اخلاقي انحرافات پيش آتے ھيں امير المومنين حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں۔
(( اياك والكبر فانہ اعظم الذنوب والئم العيوب)) 171تكبر سے پرھيز كرو اس لئے كہ عظيم ترين معصيت اور پست ترين عيب ھے۔
كبر، اعظم الذنوب ھے يعني عظيم ترين معصيت ھے كيونكہ تكبر ھي كے ذريعہ كفر نشو و نما پاتا ھے، ابليس كا كفر اسي كبر سے وجود ميں آيا تھا، جس وقت اسے آدم (ع) كے سجدہ كا حكم ديا گيا، اس نے خود كو آدم عليہ السلام سے بزرگ و برتر تصور كرتے ھوئے سجدہ كرنے سے انكار كرديا اور اس فعل كي بنا پر كفر كے راستہ پر چل پڑا۔
( ابيٰ واستكبر و كان من الكافرين) 172
اس نے انكار و غرور سے كام ليا اور كافرين ميں ھوگيا۔
انبياء حضرات كے مخالفين، تكبر فطرت ھونے ھي كي بنا پر پيامبروں كے مقابلہ ميں قد علم كرتے تھے، اور انبياء حضرات كي تحقير و تكفير كرتے ھوئے آزار و اذيت ديا كرتے تھے، جب ان كو ايمان كے لئے دعوت دي جاتي تھي وہ اپني تكبري فكر و فطرت كي بنا پر انكار كرتے ھوئے كھتے تھے۔
( قالوا ما انتم اِلّا بشر مثلنا) 173
ان لوگوں نے كھا تم سب ھمارے ھي جيسے بشر ھو۔
كبر، الئم العيوب، ھے يعني تكبر پست ترين عيب ھے اس لئے كہ متكبر فرد كي نفسياتي حقارت و پستي كي نشان دھي ھوتي ھے، وہ فرد جو خود كو بزرگ تصور كرتا ھے وہ احساس كمتري كا شكار رھتا ھے، لھذا چاھتا ھے كہ تكبر كے ذريعہ اس كمي كا مداوا كرسكے۔
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ھيں :
(( مامن رجل تكبّر او تجبّر اِلا لذلّۃ و جدھا في نفسہ)) 174
كوئي فرد نھيں، جو تكبر يا ظالمانہ گفتگو كرتا ھو، اور پست طبيعت و حقير نفس كا حامل نہ ھو۔
احاديث و روايات كے مطابق تكبر ميں دو اھم بنيادي عنصر پائے جاتے ھيں، افراد كو پست و حقير سمجھنا اور حق كے مقابلہ ميں سر تسليم خم نہ كرنا۔
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں :
(( الكبر ان تغمص الناس و تسفہ الحق)) 175
تكبر يہ ھے كہ لوگوں كي تحقير كرو اور حق كو بے مقدار تصور كرو۔
اسلامي اخلاق كے پيش نظر تكبر كے دونوں عنصر شديد مذموم ھيں اس لئے كہ اشخاص كي تحقير كرنا خواہ وہ ظاھراً كسي جرم كے مرتكب بھي ھوئے ھوں محرمات ميں شمار ھوتا ھے، امير المومنين حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں :
(( ان اللہ تبارك و تعالي ……اخفي وليہ في عبادہ فلا تستصغرون عبدا من عبيد اللہ فربما يكون وليہ وانت لا تعلم)) 176
خداوند عالم نے اپنے خاص افراد كو اپنے بندوں كے درميان پھيلا ركھا ھے، بندگان خدا ميں كسي كي تحقير و بے احترامي نہ كرو، شايد وہ اللہ كے دوستوں ميں سے ھوں اور تمھيں علم نہ ھو۔
ايك دوسري روايت ميں حضرت امام صادق عليہ السلام سے نقل كيا گيا ھے كہ خدا فرماتا ھے :
(( ليأذن بحرب مني من اذلّ عبدي المؤمن)) 177
جو بھي كسي بندۂ مومن كي تحقير و تذليل كرے ھم سے جنگ كے لئے آمادہ ھوجائے۔
جمھوري اسلامي ايران كے باني حضرت امام خميني (رح) كتاب تحرير الوسيلہ كے امر بالمعروف والے باب ميں تحرير فرماتے ھيں۔
معروف كے حكم دينے اور برائي سے روكنے والے خود كو مرتكب گناہ فرد سے برتر و بغير عيب كے نہ جانيں، شايد ھوسكتا ھے كہ مرتكب گناہ (خواہ كبيرہ) اچھے صفات كا حامل ھو اور خدا اس كو دوست بھي ركھتا ھو ليكن تكبر و خود بيني كے گناہ كي وجہ سے امر بالمعروف كرنے والا سقوط كرجائے اور شايد ھوسكتا ھے كہ آمر معروف و ناھي منكر ايسے برے صفات كے حامل ھوں كہ خداوند متعال كي نگاہ ميں مبغوض ھوں چاھے خود انسان اپنے اس برے صفت كا علم نہ ركھتا ھو۔
ليكن اس بات كو عرض كرنے كا مطلب يہ نھيں كہ امر بالمعروف اور حدود الھي كا اجرا ترك كرديا جائے بلكہ انسان و اشخاص كي كرامت و حرمت اور ايماني منزلت كو حفظ كرتے ھوئے امر بالمعروف اور حدود كا اجرا كرنا چاھيے۔
پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم فرماتے ھيں :
(( اذا زنت خادم احدكم فليجلدھا الحدو لا يعيرھا)) 178
اگر تمھاري كسي كنيز نے زنا كا ارتكاب كيا ھے تو اس پر زنا كي حد جاري كرو مگر اس كي عيب جوئي و طعنہ زني كا تم كو حق نھيں۔
اسي بنا پر بارھا ديكھا گيا كہ رسول اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور امير المومنين نے زناء محصنہ كے مرتكب افراد پر حد جاري كرنے كے بعد خود با احترام اس كے جنازہ پر نماز ميت پڑھي ھے اور ان كي حرمت و آبرو كو حفظ كيا ھے 179
اكثر روايات اور احاديث ميں حق كو قبول نہ كرنے كي وجہ سے، نزاع اور جدال غير احسن كے عنوان سے اس كي مذمت كي گئي ھے۔
حضرت امام صادق عليہ السلام كا قول ھے :
(( ما الجدال الذي بغير التي ھي احسن ان تجادل مبطلا فيورد عليك مبطلا فلا تردّہ بحجۃ قد نصبھا اللہ ولكن تحجد قولہ او تحجد حقا يريد ذالك المبطل ان يعين بہ باطلہ فتجحد ذلك الحق مخافۃ ان يكون عليك فيہ حجۃ)) 180
جدال غير احسن يہ ھے كہ كسي ايسے فرد سے بحث كيا جائے جا ناحق ھے اور اس كے ساتھ حجت و منطق نيز شرعي دليل كے ذريعہ وارد بحث نہ ھوا جائے اور اس كے قول يا اس كے حق كو انكار كرديا جائے اس خوف كي بنا پر كہ خدا ناخواستہ (حق) كے ذريعہ اپنے باطل كے لئے مدد لے۔
قرآن و روايات ميں تسليم حق كے سلسلہ ميں زيادہ تاكيد كي گئي ھے حق پذيري بندگان خدا اور مومنين كے صفات ميں بيان كيا گيا ھے۔
( فبشّر عباد الذين يستمعون القول فيتّبعون احسنہ،) 181
اے پيغمبر! آپ ميرے بندوں كو بشارت دے ديجئے جو باتوں كو سنتے ھيں اور جو بات اچھي ھوتي ھيں اس كا اتباع كرتے ھيں،
حق كے مقابلہ سر تسليم خم كرنا مومنين كے صفات و خصائص ميں سے ھے اور كبر كا نكتۂ مقابل ھے۔
( طلبت الخضوع فما وجدت الا بقبول الحق، اقبلوا الحق فان قبول الحق يبعد من الكبر) 182
ميں نے خضوع كو طلب كيا اور اس كو صرف تسليم حق ميں پايا حق كے مقابل تسليم پزير رھو كہ يہ حالت تم كو كبر سے دور ركھتي ھے۔
آيات قرآن كي بنا پر تكبر منافقين كي صفات ميں سے ھے۔
( و اذا قيل لھم تعالوا يستغفر لكم رسول اللہ لوّوا رئوسھم ورايتھم يصدون وھم مستكبرون) 183
اور جب ان سے كھا جاتا ھے كہ آؤ رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم تمھارے حق ميں استغفار كريں گے تو يہ سر پھرا ليتے ھيں اور تم ديكھو گے كہ استكبار كي بنا پر منھ بھي موڑ ليتے ھيں۔
( و اذا قيل لہ اتّق اللہ اخذتہ العزّۃ بالاثم) 184
جب ان سے كھا جاتا ھے كہ تقوائے الھي اختيار كرو تو وہ تكبر كے ذريعہ گناہ پر اتر آتے ھيں۔
( و اذا قيل لھم لا تفسدوا في الارض قالوا انّما نحن مصلحون) 185
جب ان سے كھا جاتا ھے كہ زمين ميں فساد برپا نہ كرو تو كھتے ھيں كہ ھم تو صرف اصلاح كرنے والے ھيں۔
قرآن كريم منافقين كے سلسلہ ميں دونوں مناظر (تحقير افراد اور عدم تسليم حق) كي تصريح كررھا ھے كہ وہ خود كو اھل فھم و فراست اور ديگر افراد كو سفيہ (احمق) سمجھتے ھيں اور اس وسيلہ سے اشخاص كي تحقير كرتے ھيں۔
( و اذا قيل لھم آمنو كما آمن الناس قالوا أنؤمن كما آمن السفھاء) 186
جب ان سے كھا جاتا ھے كہ دوسرے مومنين كي طرح ايمان لے آؤ تو كھتے ھيں كہ كيا ھم بے وقوفوں كي طرح ايمان اختيار كرليں؟
منافقين كے بارے ميں عدم تسليم حق كي تصوير كشي كرتے ھوئے خدا ان كو خشك لكڑيوں سے تشبيہ دے رھا ھے۔
( كأنّھم خشب مسنّدۃ) 187
گويا سوكھي لكڑياں ھيں جو ديوار سے لگادي گئي ھيں۔
2) خوف و ھراس
قرآن كريم منافقين كي نفسياتي خصوصيت كے سلسلہ ميں دوسري صفت خوف و ھراس كو بتا رھا ھے، قرآن ان كو بے حد درجہ ھراساں و خوف زدہ بيان كررھا ھے، اصول كي بنا پر شجاعت و شھامت، خوف وحشت كا ريشہ ايمان ھوتا ھے، جھاں ايمان كا وجود ھے دليري و شجاعت كا بھي وجود ھے۔
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ھيں :
(( لايكون المومن جبانا)) 188
مومن بزدل و خائف نھيں ھوتا ھے۔
قرآن مومنين كي تعريف و توصيف كرتے ھوئے ان كي شجاعت اور مادي قدرت و قوت سے خوف زدہ نہ ھونے كي تصريح كر رھا ھے۔
(…… وانّ اللہ لا يضيع اجر المؤمنين الذين استجابوا لِلّٰہ والرسول من بعد مَا اصابھم القرح للّذين احسنوا منھم واتقوا اجر عظيم الذين قال لھم النّاس ان النّاس قد جمعوا لكم فاخشوھم فزادھم ايمانا و قالوا حسبنا للہ و نعم الوكيل) 189
خداوند عالم صاحبان ايمان كے اجر كو ضائع نھيں كرتا (خواہ شھيدوں كے اجر كو اور نہ ھي مجاھدوں كے اجر كو جو شھيد نھيں ھوئے ھيں) يہ صاحبان ايمان ھيں جنھوں نے زخمي ھونے كے بعد بھي خدا اور رسول كي دعوت پر لبيك كھا (ميدان احد كے زخم بھبود بھي نہ ھونے پائے تھے كہ حمراء الاسد ميدان كي طرف حركت كرنے لگے) ان كے نيك كردار اور متقي افراد كے لئے نھايت درجہ عظيم اجر ھے، يہ وہ ايمان والے ھيں كہ جب ان سے بعض لوگوں نے كھا كہ لوگوں نے تمھارے لئے عظيم لشكر جمع كرليا ھے لھذا ان سے ڈرو تو ان كے ايمان ميں اور اضافہ ھوگيا اور انھوں نے كھا كہ ھمارے لئے خدا كافي ھے اور وھي ھمارا ذمہ دار ھے۔
حقيقي صاحبان ايمان كي صفت شجاعت ھے ليكن چونكہ منافقين ايمان سے بالكل بے بھرہ مند ھيں، ان كے نزديك خدا كي قوت لايزال وبي حساب پر اعتماد و توكل كوئي مفھوم و معنا نھيں ركھتا ھے لھذا ھميشہ موجودہ قدرت سے خائف و ھراساں ھيں خصوصاً ميدان جنگ كہ جھاں شھامت، سرفروشى، ايثار ھي والوں كا گذر ھے، وھاں سے ھميشہ فرار اور دور ھي سے جنگ كا نظارہ كرتے ھيں اور نتيجہ كے منتظر ھوتے ھيں۔
( فاذا جاء الخوف رأيتھم ينظرون اليك تدور أعينھم كا الذي يغشي عليہ من الموت) 190 جب خوف سامنے آجائے گا تو آپ ديكھيں گے كہ آپ كي طرف اس طرح ديكھيں گے جيسے ان كي آنكھيں يوں پھر رھي جيسے موت كي غشي طاري ھو۔
سورہ احزاب كي آٹھويں آيت سے پينتيسويں آيت، جنگ خندق كے سخت حالات و مسائل سے مخصوص ھے، ان آيات كے ضمن ميں چھ مرتبہ صداقت كا ذكر كيا گيا ھے اور اسي كے ساتھ بعض افراد كے خوف و ھراس كو بھي بيان كيا گيا ھے، جنگ احزاب اپنے خاص شرائط (زماني و مكاني) كي بنا پر مومنين كي ايماني صداقت اور منافقين كے جھوٹے دعوے كو پركھنے كے لئے بھترين كسوٹي و محك ھے۔
ايمان ميں صادق افراد كا ذكر آيت نمبر تئيس اور چوبيس ميں ھورھا ھے :
( من المؤمنين رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ عليہ فمنھم من قضي نحبہ و منھم من ينتظرو ما بدّلوا تبديلا ليجزي اللہ الصادقين بصدقھم و يعذب المنافقين ان شاء او يتوب عليھم ان اللہ كان غفورا رحيما) 191
مومنين ميں ايسے بھي مرد ميدان ھے جنھوں نے اللہ سے كئے وعدہ كو سچ كر ديكھايا ھے ان ميں بعض اپنا وقت پورا كرچكے ھيں اور بعض اپنے وقت كا انتظار كررھے ھيں اور ان لوگوں نے اپني بات ميں كوئي تبديلي نھيں كي ھے تا كہ خدا صادقين كو ان كي صداقت كا بدلہ دے اور منافقين كو چاھے تو ان پر عذاب نازل كرے يا ان كي توبہ قبول كرے اللہ يقيناً بھت بخشنے والا اور مھربان ھے۔
ان آيات سے استفادہ ھوتا ھے كہ ايمان ميں صادق سے مراد دين كي راہ ميں جھاد و شھادت ھے بعض افراد نے شھادت كے رفيع مقام كو حاصل كرليا ھے اور بعض اگر چہ ابھي اس عظيم مرتبہ پر فائز نھيں ھوئے ھيں ليكن شجاعت و شھامت كے ساتھ ويسے ھي منتظر و آمادہ ھيں، اسي سورہ كي آيت نمبر بيس ميں خوبصورتي كے ساتھ منافقين كے اضطراب و خوف كو ميدان جنگ كے سلسلہ ميں بيان كيا گيا ھے، آيت اور اس كا ترجمہ اس سے قبل پيش كيا جاچكا ھے۔
3) تشويش و اضطراب
منافقين كي نفسياتي خصوصيت ميں سے، تشويش و اضطراب بھي ھے چونكہ ان كا باطن ظاھر كے بر خلاف ھے لھذا ھميشہ اضطراب كي حالت ميں رھتے ھيں كھيں ان كے باطن كے اسرار افشانہ ھوجائيں اور اصل چھرہ كي شناسائي نہ ھوجائے جس شخص نے بھي خيانت كي ھے يا خلافِ امر شي كا مرتكب ھوا ھے اس كے افشا سے ڈرتا ھے اور تشويش و اضطراب ميں رھتا ھے عربي كي مثل مشھور ھے "الخائن خائف" خائن خوف زدہ رھتا ھے، دوسرے يہ كہ منافقين نعمت ايمان سے محروم ھونے كي بنا پر مستقبل كے سلسلہ ميں كبھي بھي اميد واري و در خشندگي كا اعتقاد نھيں ركھتے ھيں اور اپنے انجام كار سے خائف اور ھراساں رھتے ھيں اس كے برخلاف صاحبان ايمان ياد الھي اور اپنے ايمان كي بنا پر اطمينان و سكون سے ھمكنار رھتے ھيں۔
( ألا بذكر اللہ تطمئن القلوب) 192
آگاہ ھوجاؤ كہ ذكر خدا ھي سے دلوں كو سكون ملتا ھے۔
منافقين اپني خيانت كارانہ حركات كي وجہ سے اضطراب و تشويش كي وادي ميں پڑے رھتے ھيں لھذا ھر قسم كي افشا گري و تھديد كي آواز كو اپنے خلاف ھي تصور كرتے ھيں۔
( يحسبون كل صيحۃ عليھم) 193
يہ ھر فرياد كو اپنے خلاف ھي گمان كرتے ھيں۔
منافقين كي دائمي كوشش يہ رھتي ھے كہ جس طرح سے بھي ھو خود كو مومنين كي صفوں ميں داخل كريں اور صاحبان ايمان كو مطمئن كراديں كہ ھم بھي ايمان والے ھيں ليكن ھميشہ پريشان خيال رھتے ھيں كہ كھيں رسوا و ذليل نہ ھوجائيں۔
( و يحلفون باللہ انھم لمنكم و ماھم منكم و لكنھم قوم يفرقون) 194
اور يہ اللہ كي قسم كھاتے ھيں كہ يہ تم ھي ميں سے ھيں حالانكہ يہ تم ميں سے نھيں ھيں يہ لوگ بزدل ھيں۔
ان كے ھراسان و پريشان رھنے كي كيفيت يہ ھے كہ جب بھي كوئي جديد آيت كا نزول ھوتا ھے تو ڈرتے ھيں كہ كھيں وحي كے ذريعہ ھمارے اسرار فاش نہ ھوجائيں، اس نكتہ كو قرآن كريم صراحت سے بيان كررھا ھے اور تاكيد كررھا ھے كہ راہ نفاق كا انجام خير نھيں ھوسكتا، اگر چہ چند روز اپنے باطن كو چھپانے ميں كامياب ھوجائيں ليكن سر انجام رسوا و ذليل ھوكر رھيں گے۔
( يحذر المنافقون ان تنزل عليھم سورۃ تنبّئھم بما في قلوبھم قل استھزئوا ان اللہ مخرج ما تحذرون) 195
منافقين كو يہ خوف بھي ھے كہ كھيں كوئي سورہ نازل ھوكر مسلمانوں كو ان كے دل كے حالات سے باخبر نہ كردے تو آپ كہہ ديجئے كہ تم اور مزاق اڑاؤ اللہ بھر حال اس چيز كو منظر عام پر لے آئے گا جس كا تمھيں خطرہ ھے۔
سورہ بقرہ كي آيات نمبر سترہ سے بيس تك ميں منافقين كي كشمكش، ترس و اضطراب كي حالت، كو دو معني خيز تشبيھوں كے ذريعہ بيان كيا گيا ھے۔
4) لجاجت گرى
منافقين كي چوتھي نفسياتي خصوصيت لجاجت گري ھے لجاجت ايك روحي و نفساني مرض ھے جو صحيح معرفت كے حصول ميں اساسي مانع ھے معرفت شناسي ميں اس نكتہ كو بيان كيا گيا ھے كہ بعض اخلاقي رذائل سبب ھوتے ھيں كہ انسان حقيقت تك نہ پھونچ سكے، جيسے بيھودہ تعصب، بغير دليل خاص، نظريہ پر اصرار، غلط آرزو اور خواھشات وغيرہ…… 196
امير المومنين حضرت علي عليہ السلام دو حديث ميں اس مطلب كو صراحتاً بيان فرما رھے ھيں :
(( اللجاجۃ تسل الراي)) 197
لجاجت صحيح و مستحكم راي كو فنا كرديتي ھے۔
(( اللجوج لا راي لہ)) 198
لجاجت گر فرد صحيح فكر و نظر كا مالك نھيں ھوتا۔
جو فرد لجاجت گري كي وادي ميں سر گردان ھو وہ صاحب راي و نظر نھيں ھوسكتا ھے كيوں كہ لجاجت اس كي بينائي و دانائي پر ايك ضخيم پردہ ڈال ديتي ھے جس كي بنا پر لجاجت گر فرد تمام حقائق كو اپني خاص نظر سے ديكھتا ھے لھذا ايسا فرد حق شناسي كے وسائل و نور حق كو اختيار ميں ركھتے ھوئے بھي حقيقت تك نھيں پھونچ سكتا ھے چونكہ منافقين كا بنيادي منشا اپني آمال و خواھشات كي تكميل اور باطل راہ ميں قدم ركھنا ھے لھذا كبھي بھي حق كو حاصل نھيں كرسكتا ھے، امير المومنين حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں :
(( من كان غرضہ الباطل لم يدرك الحق ولو كان اشھر من الشمس)) 199
جس كا بنيادي ھدف باطل ھو كبھي بھي حق كو درك نھيں كرسكتا ھے خواہ حق آفتاب سے روشن ترھي كيوں نہ ھو
قرآن مجيد منافقين كي حالت لجاجت كو بيان كرتے ھوئے ان كي يوں توصيف كر ركھا ھے :
( صم بكم عمي فھم لا يرجعون) 200
يہ سب بہرے، گونگے اور اندھے ھوگئے ھيں اور پلٹ كر آنے والے نھيں ھيں۔
منافقين كي لجاجت سبب بن گئي كہ وہ نہ سن سكے جو سننا چاھئے تھا، نہ ديكھ سكے جو ديكھنا چاھئے تھا، نہ كہہ سكے جو كھنا چاھئے تھا، باوجوديكہ آنكھ، كان، زبان جو ايك انسانِ بااعتدال كے لئے صحيح ادراك كے وسائل ھيں، يہ بھي اختيار ميں ركھتے ھيں ليكن ان كي لجاجت گري سبب ھوئي كہ عظيم نعمات سے محروم، اور جھالت كي وادي ميں سر گرداں ھيں۔
منافقين كا بھرہ، اندھا، گونگا ھونا آخرت سے مخصوص نھيں بلكہ اس دنيا ميں بھي ايسے ھي ھيں، ان كا قيامت ميں بھرہ، اندھا، گونگا ھونا ان كے حالات سے اسي دنيا ميں مجسم ھے۔
( لھم قلوب لا يفقھون بھا ولھم اعين لا يبصرون بھا ولھم آذان لا يسمعون بھا) 201
ان كے پاس دل ھے مگر سمجھتے نھيں ھيں، آنكھيں ھيں مگر ديكھتے نھيں ھيں، كان ھيں مگر سنتے نھيں۔
مذكورہ آيت سے استناد كرتے ھوئے كھا جاسكتا ھے منافقين اسي دنيا ميں اپني لجاجت كي بنا پر صحيح سماعت و بصارت، زبان گويا، حق كو درك اور بيان كرنے كے لئے نھيں ركھتے ھيں، اور مدام باطل كے گرداب ميں غوطہ زن ھيں۔
ماحصل يہ ھے كہ منافقين كے فھم و شعور كے منافذ و مسلمات لجاجت پسندي كي بنا پر بند ھوچكے ھيں۔
قرآن مجيد نفاق كي اس حالت كو (طبع قلوب) سے ياد كررھا ھے۔
( طبع اللہ علي قلوبھم فھم لا يعلمون) 202
خدا نے ان كے دلوں پر مھر لگادي ھے اور اب وہ لوگ كچھ جاننے والے نھيں۔
( فطبع علي قلوبھم فھم لا يفقھون) 203
ان كے دلوں پر مھر لگادي گئي ھے تو اب كچھ نھيں سمجھ رھے ھيں۔
جو مھر ان كے دلوں پر لگائي گئي ھے اس كا سبب يہ ھوگا كہ حق كي گفتگو سماعت نہ كرسكيں اور حق كي عدم قبوليت ان كي ھميشہ كي روش بن جائے، البتہ يہ بات واضح ھے كہ طبع قلوب (دلوں پر مھر لگانا) كے اسباب خود انھوں نے فراھم كئے ھيں اور ان كے دلوں پر مھر لگنا خود ان كے افعال و كردار كا نتيجہ ھے۔
5) ضعف معنويت
منافقين كي پانچويں نفسياتي و نفساني صفت جسے قرآن مجيد بيان كررھا ھے معنويت ميں ضعف و سستي كا وجود ھے، يہ گروہ ضعف بصارت كي بنا پر خدا سے زيادہ عوام اور لوگوں كے لئے حرمت و عزت كا قائل ھے۔
منافقين محكم و راسخ ايمان نہ ركھنے كي وجہ سے غيبي و معنوي قدرت پر بھي محكم و كامل ايمان نھيں ركھتے، ان كي ساري غيرت اور خوف فقط ظاھري ھے، عوام سے حيا كرتے ھيں، ليكن خدا كے محضر ميں بے حيا ھيں چونكہ خود كو الھي محضر ميں سمجھتے ھي نھيں اور خدا كو فراموش كر بيٹھے ھيں۔
( يستخفون من الناس ولا يستخفون من اللہ وھو معھم اذ يبيتون مالا يرضي من القول وكان اللہ بما يعلمون محيطاً) 204
يہ لوگ انسانوں كي نظروں سے اپنے كو چھپاتے ھيں اور خدا سے نھيں چھپ سكتے ھيں جب كہ وہ اس وقت بھي ان كے ساتھ رھتا ھے جب وہ ناپسنديدہ باتوں كي سازش كرتے ھيں اور خدا ان كے تمام اعمال كا احاطہ كئے ھوئے ھے۔
اگر ظاھر ميں ايك عبادت انجام ديں يا ظواھر اسلامي كي رعايت كريں تو صرف عوام نيز لوگوں كي توجہ و اعتماد كو حاصل كرنے كے لئے ھوتي ھے ورنہ ان كي عبادتيں ھر قسم كے مفھوم اور معنويت سے خالي ھيں۔
( ان المنافقين… اذا قاموا الي الصلوٰۃ قاموا كساليٰ يرائون الناس ولا يذكرون اللہ الا قليلا) 205
منافقين… جب نماز كے لئے اٹھتے بھي ھيں تو سستي كے ساتھ، لوگوں كو دكھانے كے لئے عمل كرتے ھيں، اور اللہ كو بھت كم ياد كرتے ھيں۔
( ولا يأتون الصلوٰۃ الا وھم كساليٰ) 206
اور يہ نماز بھي سستي اور تساھلي كے ساتھ بجالاتے ھيں۔
اگر چہ مذكورہ دونوں آيات ميں منافقين كي ريا و كسالت (سستي) نماز كے موقع كے لئے بيان كي گئي ھے، ليكن علامہ طباطبائي (رح) تفسير الميزان ميں فرماتے ھيں نماز، قرآن ميں تمام معنويت كا محور و مركز ھے لھذا اس نكتہ پر توجہ كرتے ھوئے دونوں آيت كا مفھوم يہ ھے كے منافقين تمام عبادت و معنويت ميں بے حال و سست ھيں اور صاحبان ايمان كے جيسي نشاط و فرحت، سرور و شادماني نھيں ركھتے ھيں۔
البتہ قرآن مجيد كي بعض دوسري آيات ميں بھي منافقين كي عبادات كو بے معنويت اور سستي سے تعبير كيا گيا ھے۔
( ولا ينفقون الا وھم كارھون) 207
اور راہ خدا ميں كراھت و ناگواري كے ساتھ خرچ كرتے ھيں۔
يہ آيت صراحتاً بيان كررھي ھے كہ ان كے انفاق كي بنا اخلاص و خلوص پر نھيں ھے، سورہ انفال ميں بھي مسلمانوں كے مبارزہ و جھاد كي صف ميں ان كي حركات كو ريا سے تعبير كيا گيا ھے اور مسلمانوں كو اس منافقانہ عمل سے دور رھنے كے لئے كھا گيا ھے :
( ولا تكونوا كالذين خرجوا من ديارھم بطرا و رئاء الناس) 208
اور ان لوگوں كے جيسے نہ ھوجاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ھوئے اور لوگوں كو دكھانے كے لئے نكلتے ھيں۔
بھر حال جن اشخاص نے دين كے اظھار كو قدرت طلبى، شيطاني خواھشات كے حصول كے لئے وسيلہ قرار ديا ھے، ان كي رفتار و گفتار ميں دين داري كي حقيقي روح نھيں ملتي ھے وہ عبادت كو خود نمائي كے لئے اور سستي سے انجام ديتے ھيں۔
6) خواھشات نفس كي پيروى
منافقين كي چھٹي نفسياتي خصوصيت، خواھشات نفساني كي پيروي اور اطاعت ھے، منافقين حق كے سامنے سر تسليم خم كرنے اور عقل و نقل كي پيروي اور اطاعت كرنے كے بجائے، اميال و خواھشات نفساني كے تابع و پيروكار ھيں، صعيف اعتقاد نيز باطل اور نحس مقاصد كي بنا پر خدا پرستي و حق محوري ان كے لئے كوئي مفھوم و معني نھيں ركھتا ھے وہ خواھشات نفساني كے مطيع و خود محوري كے تابع ھيں۔
( اولئك الذين طبع اللہ علي قلوبھم واتبعوا اھوائھم) 209
يھي وہ لوگ ھيں جن كے دلوں پر خدا نے مھر لگادي ھے اور انھوں نے اپني خواھشات كا اتباع كرليا ھے۔
تكبر اور برتر بيني خواھشات نفساني كي نمائش و علامت ميں سے ايك ھے، خواھشات نفساني كے دو آشكار نمونے، رياست و منصب كي طلب اور دنيا پرستي ھے جو منافقين ميں پائي جاتي ھے، مال و منصب كي محبت، نفاق كي جڑوں كو دلوں ميں رشد اور مستحكم كرنے كے عوامل ميں سے ھيں۔
پيامبر عظيم الشان فرماتے ھيں :
(( حب الجاہ و المال ينبتان النفاق كما ينبت الماء البقل)) 210
مال دنيا اور مقام و منصب كي محبت، نفاق كو دل ميں يوں رشد ديتي ھے جيسے پاني سبزے كو نشو نما ديتا ھے۔
ظاھر ھے كہ وہ رياست و منصب قابل مذمت ھے جس كا مقصد و ھدف انسان ھو يہ وھي مقام پرستي ھے جو لوگوں كے دين كے لئے بھت بڑا خطرہ ھے۔
نقل كيا جاتا ھے كہ حضرت امام رضا عليہ السلام كے محضر ميں كسي كا نام ليتے ھوئے كھا گيا وہ منصب و مقام پرست ھے، آپ نے فرمايا :
(( ما ذئبان ضاريان في غنم قد تفرق رعاؤھابأ ضرّ في دين المسلم من الرياسۃ)) 211
دو خونخوار بھيڑيوں كا خطرہ ايسے گلہ كے لئے جو بغير چوپان كے ھو اس خطرہ سے زيادہ نھيں، جو خطرہ مسلمان كے دين كو رياست طلبي و مقام پرستي سے ھے۔
ليكن وہ مال و مقام جو اپني اور اپنے خانوادے كي زندگي كي بھتري نيز مخلوق خدا كي خدمت اور پرچم حق كو بلند و قائم كرنے اور باطل كو ختم كرنے كے لئے ھو، وہ قابل مذمت نھيں ھے بلكہ عين آخرت اور حق كي راہ ميں قدم بڑھانا ھے، شايد كبھي واجب بھي ھوسكتا ھے۔
امير المومنين حضرت علي عليہ السلام اپني پيوند زدہ اور بے قيمتي نعلين كي طرف اشارہ كرتے ھوئے ابن عباس كو خطاب كركے فرماتے ھيں :
(( واللہ لھي احب الي من امرتكم الا ان اقيم حقا او ادفع باطل)) 212
خدا كي قسم! يہ بي قيمت نعلين مجھے تمھارے اوپر حكومت سے زيادہ عزيز ھے مگر يہ كہ حكومت كے ذريعہ كسي حق كو قائم كرسكوں يا كسي باطل كو دفع كرسكوں۔
اس بنا پر اسلام ميں اپنے اور خانوادے كي معاشي زندگي كے لئے كوشش و تلاش كو راہ خدا ميں جھاد سے تعبير كيا گيا ھے۔
(( الكاد علي عيالہ كالمجاھد في سبيل اللہ)) 213
جو فرد بھي اپنے خانوادے كي امرار معاش كے لئے كوشش وسعي كرتا ھے وہ مجاھد راہ خدا ھے
دوسرے افراد كي خدمت گذاري كو بھي بھترين افعال ميں شمار كيا گيا ھے۔
(( خير الناس انفعھم للناس)) 214
بھترين فرد وہ ھے جس سے بيشتر فائدہ لوگوں كو پھنچتا ھے۔
ليكن منافقين كے اھداف فقط دنيا كے اموال، مناصب و اقتدار پر قبضہ كرنا ھے، دوسروں كي خدمت مدنظر نھيں ھے، اور اپنے اس پست و حقير مقصد كے حصول كي خاطر تمام اسلامي و انساني اقدار كو پامال كرنے كے لئے حاضر ھيں۔
مدينہ كے منافقين كا سرغنہ، عبد اللہ ابن ابي كا باطني مرض يہ تھا كہ جب اس نے اپني رياست كے دست و بازو قطع ھوتے ديكھے تو تمام خيانت كاري و پست فطرتي كا مظاھرہ پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم و مسلمانوں پر كرنے لگا كہ شايد ھاتھ سے جاچكا مقام و منصب دوبارہ حاصل ھوجائے۔
منافقين كي دنيا طلبي كي شديد خواھش كي كيفيت كو قرآني آيات نے بخوبي بيان كيا ھے، قرآن كريم اكثر موارد پر اس نكتہ كو بيان كررھا ھے كہ منافقين اگر چہ ميدان جنگ ميں كوئي فعال كردار ادا نھيں كرتے ليكن جنگ ختم ھوتے ھي غنائم كي تقسيم كے وقت ميدان ميں حاضر ھوجاتے ھيں، اور اپنے سھم كا مطالبہ كرنے لگتے ھيں اس موضوع سے مربوط بعض آيات كو منافقين كي موقع پرستي كي بحث ميں بيان كيا جاچكا ھے۔
7) گناہ كي تاويل گرى
منافقين كي نفسياتي خصوصيت كي ساتويں كڑى، گناہ كي توجيہ و تاويل گري ھے اس سے قبل اشارہ كيا گيا ھے كہ منافقين كي تمام سعي لا حاصل يہ ھے كہ اپنے باطن اور پليد نيت كو مخفي كركے، اور جھوٹي قسميں كھاكر، ظواھر كي آراستگي كرتے ھوئے خود كو صاحبان ايمان واقعي كي صفوف ميں شامل كرليں۔
اگر چہ صدر اسلام ميں ايسا ممكن ھوسكا ھے ليكن ھميشہ كے لئے اپنے باطن كو مخفي نھيں ركھ سكتے چونكہ ان سے بعض اوقات ايسے افعال و اعمال صادر ھوجاتے ھيں كہ جس كي وجہ سے مومنين ان كے ايمان ميں شك كرنے لگتے ھيں لھذا منافقين، اس لئے كہ مسلمانوں كي نظروں سے نہ گر جائيں، نيز مسلمانوں كا اعتماد ان سے سلب نہ ھوجائے اپنے كردار اور برے افعال كي عام پسند توجيہ و تاويل كرنے لگتے ھيں۔
( فكيف اذا اصابتھم مصيبۃ بما قدمت ايديھم ثم جاؤوك يحلفون باللہ ان اردنا الا احسانا و توفيقا اولئك الذين يعلم اللہ ما في قلوبھم فأعرض عنھم و عظھم و قل لھم في انفسھم قولا بليغا) 215
پس اس وقت كيا ھوگا جب ان پر ان كے اعمال كي بنا پر مصيبت نازل ھوگي وہ آپ كے پاس آكر خدا كي قسم كھائيں گے كہ ھمارا مقصد صرف نيكي كرنا اور اتحاد پيدا كرنا تھا يھي وہ لوگ ھيں جن كے دل كا حال خدا خوب جانتا ھے لھذا آپ ان سے كنارہ كش رھيں انھيں نصيحت كريں اور ان كے دل پر اثر كرنے والي موقع و محل سے مربوط بات كريں۔
جھاد و معركہ كا ميدان ان مقامات ميں سے ھے جھاں منافقين حاضر ھوتے ھوئے بے حد درجہ خائف و ھراساں رھتے ھيں لھذا جھاد ميں شريك نہ ھونے كي خاطر (جھاد ميں عدم شركت عظيم گناہ ھے) عذر تراشي كرتے ھوئے تاويل و توجيہ كيا كرتے تھے ذيل كي آيت ميں ايك منافق كي جنگ تبوك ميں عدم شركت كي عذر تراشي اور تاويل كو بيان كيا گيا ھے۔
( ومنھم من يقول ائذن لي ولا تفتني الا في الفتنۃ سقطوا وان جھنم لمحيطۃ بالكافرين) 216
ان ميں وہ لوگ بھي ھيں جو كھتے ھيں كہ ھم كو اجازت دے ديجئے اور فتنہ ميں نہ ڈاليے تو آگاہ ھوجاؤ كہ يہ واقعاً فتنہ ميں گر چكے ھيں اور جھنم تو كافرين كو ھر طرف سے احاطہ كئے ھوئے ھے۔
اس آيت كي شان نزول كے لئے بيان كيا گيا ھے كسي قبيلہ كا ايك بزرگ جو منافقين كے اركان ميں تھا رسول اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے اجازت چاھي كہ جنگ تبوك ميں شركت نہ كرے اور عدم شركت كي وجہ اور دليل يہ بيان كي كہ اگر اس كي نطريں رومي عورتوں پر پڑے گي تو ان پر فريفتہ اور گناھوں ميں مبتلا ھوجائے گا، پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اجازت فرمادي كہ وہ مدينہ ھي ميں رھے، اس واقعہ كے بعد يہ آيت نازل ھوئي جس نے اس كے باطن كو افشا كر كے ركھ ديا اور خداوند عالم نے اسے جنگ ميں عدم شركت كي بنا پر عصيان گر اور فتنہ ميں غريق فرد سے تعبير كيا ھے 217، منافقين كے دوسرے وہ افراد جو جنگ احزاب ميں شريك نھيں ھوئے تھے ان كا عذر يہ تھا كہ وہ اپنے گھر اور مال و دولت كے تحفظ سے مطمئن نھيں ھيں، ذيل كي آيت ان كي پليد فكر كو فاش كرتے ھوئے ان كي عدم شركت كے اصل مقصد كو جنگ سے فرار بيان كيا ھے۔
( ويستاذن فريق منھم النبي يقولون ان بيوتنا عورة وما ھي بعورة ان يريدون الا فرارا) 218
اور ان ميں سے ايك گروہ نبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگ رھا تھا كہ ھمارے گھر خالي پڑے ھوئے ھيں حالانكہ وہ گھر خالي نھيں تھے بلكہ يہ لوگ صرف بھاگنے كا ارادہ كررھے تھے۔
بھر حال گناہ كي تاويل و توجيہ خود عظيم گناہ ھے جس كے منافق مرتكب ھوتے رھتے تھے بسا اوقات ممكن ھے منافقين سيدھے، سادے و زور باور و مومنين كو فريب ديديں، ليكن وہ اس سے غافل ھيں كہ خدا ھر اس شي سے جو وہ اپنے قلب كے اندر مخفي كئے ھوئے ھيں آگاہ ھے ان كو اس دنيا ميں ذليل و رسوا كرے گا اور آخرت ميں بھي دوزخ كے عذاب سے ان كا استقبال كيا جائے گا، يہ نكتہ بھي قابل ذكر ھے كہ منافقين كي تاويل و توجيہ كا سلسلہ صرف فردي مسائل سے مختص نھيں بلكہ اجتماعي و معاشرتى، ثقافتي اور سياسي مسائل ميں بھي تاويل و توجيہ كرتے رھتے ھيں كہ اس موضوع پر بھي بحث ھوگي۔
--------------------------------------------------------------------------------
171. تصنيف الغرر الحكم، ص309۔
172. سورہ بقرہ/34۔
173. سورہ يس/15۔
174. اصول كافى، ج2، ص312۔
175. ميزان الحكمۃ، ج8، ص305، بحارالانوار، ج73، ص217۔
176. بحار الانوار، ج90، ص263۔
177. بحار الانوار، ج75، ص145۔
178. مجموعہ ورام، ج1، ص57۔
179. سفينۃ البحار، ج1، ص512، وسائل الشيعہ، ج18، ص375، بحار الانوار، ج28 ص12۔
180. تفسير نور الثقلين، ج2، ص163۔
181. سورہ زمر/17، 18۔
182. بحار الانوار، ج69، ص399۔
183. سورہ منافقون/5۔
184. سورہ بقر/ 206۔
185. سورہ بقر/11۔
186. سورہ بقرہ/13۔
187. سورہ منافقون/4۔
188. بحار الانوار، ج67، ص364۔
189. سورہ آل عمران/ 173، 171۔
190. سورہ احزاب/19۔
191. سورہ احزاب 32، 24۔
192. سورہ رعد/28۔
193. سورہ منافقون/4۔
194. سورہ توبہ/56۔
195. سورہ توبہ/64۔
196. نظريۃ المعرفہ، ص319۔
197. نھج البلاغہ، حكمت، 179۔
198. ميزان الحكمۃ، ج8، ص484۔
199. غرر الحكم، نمبر 8853۔
200. سورہ بقرہ/18۔
201. سورہ اعراف/179۔
202. سورہ توبہ/93۔
203. سورہ منافقون/3۔
204. سورہ نساء/108۔
205. سورہ نساء/142۔
206. سورہ توبہ/54۔
207. سورہ توبہ/54۔
208. سورہ انفال/47۔
209. سورہ محمد/16۔
210. المحجۃ البيضاء، ج،6، ص، 112۔
211. بحار الانوار، ج73، ص145۔
212. بھج البلاغہ، خطبہ33۔
213. بحار الانوار، ج96، ص324۔
214. مستدرك الوسايل، ج12،ص391۔
215. سورہ نساء/ 62، 63۔
216. سورہ توبہ/49۔
217. مجمع البيان، ج3، ص36۔
218. سورہ احزاب/13۔
1 ۔ خودي اور اپنائيت كا اظھار
2 ۔ ديني يقينيات كي تضعيف
خودي اور اپنائيت كا اظھار
منافقين كو اپني تخريبي اقدامات جاري ركھنے كے لئے تاكہ صاحب ايمان حضرات كي اعتقادي اور ثقافتي اعتبار سے تخريب كاري كرسكيں، انھيں ھر چيز سے اشد ضرورت مسلمانوں كے اعتماد و اعتبار كي ھے تاكہ مسلمان منافقين كو اپنوں ميں سے تصور كريں اور ان كي اپنائيت ميں شك سے كام نہ ليں، اس لئے كہ منافقين كے انحرافي القائات معاشرے ميں اثر گذار ھوں اور ان كے منحوس مقاصد كي تكميل ھوسكے۔
ان كي تمام سعي و كوشش يہ ھے كہ خود معاشرے ميں اپنائيت كي جلوہ نمائي كرائيں، اس لئے كہ وہ جانتے ھيں اگر ان كے باطن كا افشا، اور ان كے اسرار آشكار ھوگئے تو كوئي شخص بھي منافقين كي باتوں كو قبول نھيں كريگا اور ان كي سازشيں جلد ھي ناكام ھوجائيں گى، ان كے راز افشا ھونے كي بنا پر اسلام كے خلاف ھر قسم كي تبليغي فعاليت، نيز سياسي سر گرمي سے ھاتھ دھو بيٹھيں گے، لھذا منافقين كا بنيادي اور ثقافتي ھدف اپنے خير خواہ ھونے كي جلوہ نمائي اور عمومي مسلمانوں كے اعتماد كو كسب كرنا ھے اور يہ بھت عظيم خطرہ ھے كہ افراد و اشخاص، بيگانے اور اجنبي شخص كو اپنوں ميں شمار كرنے لگيں، اور معاشرہ ميں خواص كي نگاہ سے ديكھا جانے لگے، ثقافتي حادثہ اس وقت وجود ميں آتا ھے كہ جب مسلمين منافقين كي ثقافتي روش طرز سے آشنائي نہ ركھتے ھوں اور ان كو اپنا دوست بھي تصور كريں، امير المومنين حضرت علي عليہ السلام مختلف افراد كے ظواھر پر اعتماد كرنے كے خطرات اور اشخاص كي اھميت پر توجہ كرنے كي ضرورت كے متعلق فرماتے ھيں۔
(( انما اتا كبا لحديث اربعۃ رجال ليس لھم خامس رجل منافق مظھر للايمان متصنع بالاسلام لا يتأثم ولا يتحرج يكذب علي رسول اللہ متعمدا فلو علم الناس انہ منافق كاذب لم يقبلوا منہ ولم يصدقوا قولہ ولكنھم قالوا صاحب رسول اللہ رآہ وسمع منہ و لقف عنہ فياخذون بقولہ) 219
ياد ركھو كہ حديث كے بيان كرنے والے چار طرح كے افراد ھوتے ھيں جن كي پانچويں كوئي قسم نھيں ايك وہ منافق ھے جو ايمان كا اظھار كرتا ھے اسلام كي وضع و قطع اختيار كرتا ھے ليكن گناہ كرنے اور افترا ميں پڑنے سے پرھيز نھيں كرتا ھے اور رسول اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے خلاف قصداً جھوٹي روايتيں تيار كرتا ھے كہ اگر لوگوں كو معلوم ھوجائے كہ يہ منافق اور جھوٹا ھے تو يقيناً اس كے بيان كي تصديق نھيں كريں گے ليكن مشكل يہ ھے كہ وہ سمجھتے ھيں كہ يہ صحابي ھيں انھوں نے حضور كو ديكھا ھے ان كے ارشاد كو سنا ھے اور ان سے حاصل كيا ھے اور اسي طرح اس كے بيان كو قبول كرليتے ھے۔
اظھار اپنائيت كے لئے منافقين كي راہ و روش
منافقين اظھار اپنائيت كے لئے مختلف روش و طريقے سے استفادہ كرتے ھيں، چونكہ يہ مبدا و معاد پر ايمان ھي نھيں ركھتے ھيں، لھذا راہ و روش كي مشروعيت يا عدم جواز ان كے لئے كوئي معني نھيں ركھتا، اور ان كے نزديك قابل بحث بھي نھيں ھے ان كي منطق ميں ھدف كي تحصيل و تكميل كے لئے، ھر وسائل سے استفادہ كيا جاسكتا ھے خواہ وسائل ضد انساني ھي كيوں نہ ھوں يھاں منافقين كي اظھار اپنائيت كے سلسلہ ميں فقط پانچ طريقوں كي جانب اشارہ كيا جارھا ھے۔
1) كذب و رياكاري كے ذريعہ اظھار كرنا
جيسا كہ پھلے اشارہ كيا گيا ھے نفاق كا اصلي جو ھر كذب اور اظھار كا ذبانہ ھے منافقين اظھار اپنائيت كے لئے وسيع پيمانہ پر حربۂ كذب سے استفادہ كرتے ھيں كبھي اجتماعي اور گروھي شكل ميں پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے پاس آتے ھيں اور آپ كي رسالت كا اقرار كرتے ھيں، خداوند عالم با صراحت ان كو اس اقرار ميں كاذب تعارف كراتا ھے اور پيامبر عظيم الشان سے فرماتا ھے، اگر چہ تم واقعاً فرستادہ الھي ھو ليكن وہ اس اقرار ميں كاذب ھيں اور دل سے تمھاري رسالت پر ايمان نھيں ركھتے ھيں۔
( اذا جاءك المنافقون قالوا نشھد انك لرسول اللہ واللہ يعلم انك لرسولہ واللہ يشھد ان المنافقون لكاذبون) 220
پيامبر! يہ منافقين آپ كے پاس آتے ھيں تو كھتے ھيں كہ ھم گواھي ديتے ھيں كہ آپ اللہ كے رسول ھيں اور اللہ بھي جانتا ھے كہ آپ اس كے رسول ھيں ليكن اللہ گواھي ديتا ھے كہ يہ منافقين اپنے دعوے ميں جھوٹے ھيں۔
جس وقت مومنين، منافقين كو ايجاد فساد و تباھي سے منع كرتے ھيں، خود كو تاكيد كے ساتھ مصلح و آباد گر كھتے ھيں خداوند عالم ان كي گفتار كي تكذيب كرتے ھوئے ان كے مفسد ھونے كا اعلان كررھا ھے۔
( واذا قيل لھم لا تفسدوا في الارض قالوا انما نحن مصلحون الا انھم ھم المفسدون ولكن لا يشعرون) 221
جب ان سے كھا جاتا ھے كہ زمين ميں فساد نہ برپا كرو تو كھتے ھيں كہ ھم تو صرف اصلاح كرنے والے ھيں حالانكہ يہ سب مفسد ھيں اور اپنے فساد كو سمجھتے بھي نھيں ھيں۔
منافقين اپني كذب بياني سے، پہلے كھي گئي بات كو آساني سے انكار بھي كرديتے ھيں، تاريخي شواھد كے مطابق كسي مودر ميں جب يہ كوئي بات كرتے تھے اور اس كي خبر رسول اسلا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو ھوجاتي تھي تو يہ سرے ھي سے اس كا انكار اور شدت سے اس خبر كي تكذيب كرديتے تھے۔
نقل كيا گيا ھے كہ"جلاس" نام كا منافق جنگ تبوك كے زمانہ ميں پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بعض خطبے كو سننے كے بعد اس كا انكار كرتے ھوئے پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي تكذيب بھي كى، حضور كي مدينہ واپسي كے بعد عامر ابن قياس نے پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي خدمت ميں جلاس كي حركات كو بيان كيا، جب جلاس حضور كے خدمت ميں پھونچا تو عامر بن قيس كي گزارش كو انكار كر بيٹھا، آپ نے دونوں كو حكم ديا كہ مسجد نبوي ميں منبر كے نزديك قسم كھائيں كہ جھوٹ نھيں بول رھے ھيں دونوں نے قسم كھائى، عامر نے قسم ميں اضافہ كيا خدايا! اپنے پيامبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر آيت نازل كركے جو صادق ھے اس كا تعارف كرادے، حضور اور مومنين نے آمين كھى، جبرئيل نازل ھوئے اور اس آيت كو پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي خدمت ميں پيش كيا۔
( يحلفون باللہ ما قالوا ولقد قالوا كلمۃ الكفر وكفروا بعد اسلامھم) 222
يہ اپني باتوں پر اللہ كي قسم كھاتے ھيں كہ ايسا نھيں كھا حالانكہ انھوں نے كلمہ كفر كھا اور اپنے اسلام كے بعد كافر ھوگئے ھيں۔
يہ اور مذكورہ آيات سے استفادہ ھوتا ھے كہ كذب اور تكذيب، منافقين كا ايك طرۂ امتياز ھے تاكہ مومنين كي صفوف ميں نفوذ كركے اپنائيت كا اظھار كرسكيں۔
منافقين پيامبر عظيم الشان (ص) كے دور ميں تصور كرتے تھے كہ كذب و تكذيب كے ذريعہ آپ كو فريب دے سكتے ھيں تاكہ اپنے باطن كو مخفي كرسكيں خداوند عالم منافقين كي اس روش كو افشا كرتے ھوئے تاكيد كررھا ھے كہ ايسا نھيں ھے كہ پيامبر گرامي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم تمھارے احوال و اوضاع سے بے خبر ھيں يا خوش خيالي كي بنا پر تمھاري باتوں پر اطمينان كرليتے ھيں۔
نقل كيا جاتا ھے كہ جماعت نفاق كے افراد آپس ميں بيٹھے ھوئے پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو ناسزا الفاظ سے ياد كررھے تھے، ان ميں سے ايك نے كھا: ايسا نہ كرو، ڈرتا ھوں كہ يہ بات (حضرت) محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے كانوں تك پہنچ جائے اور وہ ھم كو برا بھلا كھيں اور افراد كو ھمارے خلاف ورغلائيں، ان ميں سے ايك نے كھا: كوئي اھم بات نھيں، جو ھمارا دل چاھے گا كھيں گے، اگر يہ بات ان كے كانوں تك پہنچ بھي جائے، تو ان كے پاس جاكر انكار كرديں گے چونكہ (حضرت) محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم خوش خيال و منھ ديكھے ھيں، كوئي جو كچھ بھي كھتا ھے قبول كرليتے ھيں اس موقع پر سورہ توبہ كي ذيل آيت نازل ھوئي اور ان كے اس غلط تصور و فكر كا سختي سے جواب ديا۔
( منھم الذين يوذون النبي ويقولون ھو اذن) 223
ان (منافقين) ميں سے جو پيامبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو اذيت ديتے ھيں اور كھتے ھيں وہ تو صرف كان (سادہ لوح و خوش باور) ھيں۔
2) باطل قسميں ياد كرنا
دوسري وہ روش جس كو استعمال كرتے ھوئے منافقين مومنين كے حلقہ ميں نفوذ كرتے ھيں، باطل قسميں كھانا ھے، وہ ھميشہ شديد قسموں كے ذريعہ سعي كرتے ھيں تاكہ اپنے باطن كو افشا ھونے سے بچا سكيں اور اسي كے سايہ ميں تخريبي حركتيں انجام ديتے ھيں۔
( اتخذوا ايمانھم جنۃً فصدوا عن سبيل اللہ) 224
انھوں نے اپني قسموں كو سپر بنا ليا ھے اور لوگوں كو راہ خدا سے روك رھے ھيں۔ منافقين باطل اور جھوٹي قسموں كے ذريعہ كوشش كرتے ھيں كہ خود كو مومنين كا خير خواہ ثابت كريں، اور صاحب ايمان كے حلقہ ميں اپنا ايك مقام بناليں۔
( ويحلفون باللہ انھم لمنكم وما ھم منكم و لكنھم قوم يفرقون) 225
اور يہ اللہ كي قسم كھاتے ھيں اس بات پر كہ يہ تمھيں ميں سے ھيں حالانكہ يہ تم ميں سے نھيں ھيں يہ بزدل لوگ ھيں۔
منافقين چونكہ واقعي ايمان كے حامل نھيں، رضائے الھي كا حصول ان كے لئے اھميت نھيں ركھتا ھے اور معاشرے ميں اپني ساكھ اور اعتبار بھي بنائے ركھنا چاھتے ھيں اور معاشرہ كے افراد كي توجہ كي حصول كے لئے زيادہ اھتمام بھي كرتے ھيں لھذا مختلف ميدان ميں جھوٹي قسميں كھاكر مومنين حضرات كي رضايت و خشنودي كو حاصل كرتے ھيں۔
خدا قرآن ميں تصريح كررھا ھے كہ منافقين كا بنيادي مقصد مومنين كي رضايت كو حاصل كرنا ھے حالانكہ رضايت الھي كا حصول اھميت كا حامل ھے جب تك خدا راضي نہ ھو بندگان خدا كي رضايت منافقين كے لئے سودمند ھو ھي نھيں سكتي ھے شايد مومنين كي رضايت سے سوء استفادہ كرتے ھوئے مزيد كچھ دن تخريبي كاروائي انجام دے سكيں۔
( يحلفون باللہ لكم ليرضوكم واللہ ورسولہ احق ان يرضوہ ان كانوا مومنين) 226
يہ لوگ تم لوگوں كو راضي كرنے كے لئے خدا كي قسم كھاتے ھيں حالانكہ خدا و رسول اس بات كے زيادہ حق دار تھے اگر يہ صاحبان ايمان تھے تو واقعاً انھيں اپنے اعمال و كردار سے راضي كرتے۔
( يحلفون لكم لترضوا عنھم فان ترضوا عنھم فان اللہ لا يرضي عن القوم الفاسقين)227 يہ تمھارے سامنے قسم كھاتے ھيں كہ تم ان سے راضي ھوجاؤ اگر تم راضي بھي ھوجاؤ تو بھي خدا فاسق قوم سے راضي ھونے والا نھيں۔
3) غلط اقدامات كي توجيہ كرنا
منافقين صاحبان ايمان كي تحصيل رضايت اور حسن نيت كي اثبات كے لئے اپنے غلط اقدامات و حركات كي توجيہ كرتے ھيں كہ اپنائيت كا اظھار كرتے ھوئے فائدہ حاصل كرسكيں منافقين كي نفسياتي خصوصيت ميں يہ نكتہ مورد بحث قرار ديا گيا ھے اور تصريح كيا گيا ھے كہ منافقين تاويل و توجيہ كے ھتكنڈے كو تمام ھي موارد ميں استعمال كرتے ھيں۔
منافقين عمومي افكار اور اعتماد كو ھاتھ سے جانے دينا نھيں چاھتے لھذا اظھار اپنائيت كرتے ھوئے اپنے غلط اقدامات و حركات كي توجيہ كرتے ھيں اور اپنے باطل مقاصد كو حق كے لباس اور قالب ميں پيش كرتے ھيں۔
امير المومنين حضرت علي عليہ السلام اھل نفاق كي توصيف كرتے ھوئے فرماتے ھيں :
(( يقولون فيشبھون ويصفون فيموھون)) 228
جب بات كرتے ھيں تو مشتبہ انداز ميں اور جب تعريف كرتے ھيں تو باطل كو حق كا رنگ دے كر، كرتے ھيں۔
قرآن مجيد نے منافقين كے مختلف عذر اور غلط اقدامات كا ذكر كيا ھے اور ان كي تكذيب بھي كي ھے، بطور مثال جنگ تبوك ميں اپنے عدم حضور كي توجيہ، ناتواني و عدم قدرت كي شكل ميں پيش كرنا چاھتے تھے كہ خداوند عالم ان سے قبل ان كي اس توجيہ كي تكذيب كرتے ھوئے فرماتا ھے :
( لو كان عرضاً قريباً و سفرا قاصدا لا تبعونك ولكن بعدت عليھم الشقّہ وسيحلفون باللہ لو استطعنا لخرجنا معكم يھلكون انفسھم واللہ يعلم انھم لكاذبون) 229
پيامبر! اگر كوئي فوري فائدہ يا آسان سفر ھوتا تو تمھارا اتباع كرتے ليكن ان كے لئے دور كا سفر مشكل بن گيا ھے اور عنقريب يہ خدا كي قسميں كھائيں گے اس بات پر كہ اگر ممكن ھوتا تو ھم ضرور آپ كے ساتھ چل پڑتے، يہ اپنے نفس كو ھلاك كررھے ھيں اور خدا خوب جانتا ھے كہ يہ جھوٹے ھيں۔
منافقين كے غلط اقدام كي توجيہ كا ايك اور موقع يہ ھے كہ، تقريباً منافقين ميں سے ايك سو اسّي افراد نے غزوہ تبوك ميں شركت نھيں كى، جب رسول اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور مسلمان وھاں سے واپس آئے تو منافقين مختلف توجيہ كرنے لگے۔
ذيل كي آيت منافقين كي اس غلط حركات كي سرزنش كے لئے نازل ھوئي ھے خداوند عالم بطور واضح بيان كررھا ھے كہ ان كے جھوٹے عذر خدا كے لئے پوشيدہ نھيں ھيں ان كے حالات سے مومنين كو باخبر كركے منافقين كے اسرار سے پردہ اٹھا رھا ھے۔
( يعتذرون اليكم اذا رجعتم اليھم قل لا تعتذروا لن نؤمن لكم قد نبّأنا اللہ من اخباركم و سيري اللہ عملكم ورسولہ ثم تردون الي عالم الغيب و الشھادۃ فينبئكم بما كنتم تعملون) 230
يہ تخلف كرنے والے منافقين تم لوگوں كي واپسي پر طرح طرح كے عذر بيان كريں گے تو آپ كہہ ديجئے كہ تم لوگ عذر نہ بيان كرو ھم تصديق كرنے والے نھيں ھيں اللہ نے ھميں تمھارے حالات بتاديئے ھيں وہ يقيناً تمھارے اعمال كو ديكھ رھا ھے اور رسول بھي ديكھ رھا ھے اس كے بعد تم حاضر و غائب كے عالم (خدا) كي بارگاہ ميں واپس كئے جاؤ گے اور وہ تمھيں تمھارے حال سے باخبر كرے گا۔
4) ظاھر سازي كرنا
ظواھر ديني كي شديد رعايت، خوش نما و اشخاص پسند گفتگو، اصلاح طلب نظريات و افكار كا اظھار، منافقين كے حربہ ھيں تاكہ طرف كے مقابل كو اپنا ھمنوا بناكر خودي ھونے كا القاء كرسكيں۔
امير المومنين حضرت امام علي عليہ السلام كے ھم عصر بعض منافقين ظاھر ميں عبّاد و زہاّد دھر تھے نماز شب، قرآن كي تلاوت، ان سے طولاني ترين سجدے ترك نھيں ھوتے تھے، ان كي ظاھر سازي سے اكثر مومنين فريب كے شكار ھوجاتے تھے، بھت كم ھي تھے جو ان كے دين و ايمان ميں شك ركھتے ھوں۔
منافقين كي ظاھر سازي كچھ اس نوعيت كي تھي كہ بقول قرآن، خود پيامبر عظيم الشان (ص) كے لئے بھي باعث حيرت و تعجب خيز تھي۔
( واذا رأيتھم تعجبك اجسامھم ان يقولوا تسمع لقولھم) 231
اور جب آپ انھيں ديكھيں گے تو ان كے جسم بھت اچھے لگيں گے اور بات كريں گے تو اس طرح كہ آپ سننے لگيں گے۔
منافقين كي ظواھر سازى، رفتار و كردار سے اختصاص نھيں ركھتي بلكہ ان كي گفتار بھي فريب و جاذبيت سے لبريز ھے۔
( ومن الناس من يعجبك قولہ في الحيوة الدنيا و يشھد اللہ علي ما في قلبہ وھو الدّ الخصام) 232
انسانوں ميں ايسے لوگ بھي ھيں جن كي باتيں زندگاني دنيا ميں بھلي لگتي ھيں اور وہ اپنے دل كي باتوں پر خدا كو گواہ بتاتے ھيں حالانكہ وہ بدترين دشمن ھيں۔
5) جھوٹے عھد و پيمان كرنا
خودي ظاھر كرنے كے لئے منافقين كا ايك اور وطيرہ وعدہ اور اس كي خلاف ورزي ھے بسا اوقات منافقين سے عادتاً ايسي خطائيں سرزد ھوتي تھيں كہ جس كي كوئي توجيہ و تاويل ممكن نھيں تھي يا مومنين كے لئے قابل قبول نھيں ھوتي تھي ايسے مقام پر وہ توبہ كو وسيلہ بناتے تھے اور عھد كرتے تھے اب ايسي خطائيں نھيں كريں گے اور صحيح راستہ پر مستحكم و ثابت قدم رھيں گے ليكن چونكہ دين اور دين كے اعتبارات كے لئے منافقين كے قلب ميں كوئي جگہ تھي ھي نھيں جو اپنے عھد و پيمان پر باقي رھتے، تخلف وعدہ ايسے ھي تھا جيسے ان كے لئے كذب وغيرہ…… جنگ احزاب ميں منافقين كي وعدہ خلافي كي بنا پر ذيل كي آيت كا نزول ھوا :
( ولقد كانوا عاھدوا اللہ من قبل لا يولون الأدبار وكان عھد اللہ مسئولا) 233
اور ان لوگوں نے اللہ سے يقيني عھد كيا تھا كہ ھرگز پشت نھيں دكھائيں گے، اور اللہ كے عھد كے بارے ميں بھر حال سوال كيا جائے گا۔
خداوند عالم "ثعلبہ بن حاطب" كي عھد گزاري نيز پيمان شكني كے واقعہ كو ياد دھاني كے طور پر پيش كررھا ھے، ثعلبہ بن حاطب ايك فقير مسلمان تھا اس نے پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے دعا كرنے كي خواھش كي تاكہ وہ صاحب ثروت ھوجائے حضرت نے فرمايا: وہ تھوڑا مال جس كا تم شكر ادا كرسكتے ھو اس زيادہ اموال سے بھتر ھے جس كي شكر گزاري نھيں كرسكتے ھو، ثعلبہ نے كھا: اگر خدا عطا كرے تو اس كے تمام واجب حقوق كو ادا كرتا رھوں گا۔
پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي دعا سے اموال ميں اضافہ ھونے لگا، يھاں تك كہ اس كے لئے مدينہ ميں قيام، نماز جماعت نيز جمعہ ميں شركت كرنا مشكل ھوگيا اطراف مدينہ ميں منتقل ھوگيا، جب زكوٰۃ لينے والے گئے تو يہ كہہ كر واپس كرديا كہ مسلمان اس لئے ھوئے ھيں تاكہ جزيہ و خراج نہ دينا پڑے، اگر چہ بعد ميں ثعلبہ پشيمان تو ھوا ليكن رسول اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اس كي تنبيہ اور دوسروں كي عبرت كے لئے زكوٰۃ لينے سے انكار كرديا، ذيل كي آيت اسي واقعہ كو بيان كررھي ھے۔
( ومنھم من عاھد اللہ لئن آتانا من فضلہ لنصدقن و لنكونن من الصالحين فلما آتيھم من فضلہ بخلوا بہ وتولوا وھم معرضون فاعقبھم نفاقاً في قلوبھم الي يوم يلقونہ) 234
ان ميں سے وہ بھي ھيں جنھوں نے خدا سے عھد كيا اگر وہ اپنے فضل و كرم سے عطا كرے گا، تو اس كي راہ ميں صدقہ ديں گے اور نيك بندوں ميں شامل ھوجائيں گے، اس كے بعد جب خدا نے اپنے فضل سے عطا كرديا تو بخل سے كام ليا، اور كنارہ كش ھوكر پلٹ گئے تو ان كے بكل نے ان كے دلوں ميں نفاق راسخ كرديا، اس دن تك كے لئے جب يہ خدا سے ملاقات كريں گے اس لئے كہ انھوں نے خدا سے كئے ھوئے وعدہ كي مخالفت كي ھے اور جھوٹ بولتے ھيں۔
پيمان گزاري و پيمان شكنى، وعدہ اور وعدہ كي خلاف ورزى، آئندہ صالح ھونے كا پيمان اور اس سے روگرداني وغيرہ……، يہ وہ طريقے ھيں جس سے منافقين استفادہ كرتے ھوئے مومنين كے حلقہ و ديني معاشرے ميں خود كو مخفى؛ كئے رھتے ھيں اور عوام فريبي كے لئے زمين ھموار كرتے ھيں۔
ديني يقينيات و مسلّمات كي تضعيف
منافقين كي ثقافتي رفتار و كردار كي دوسري خصوصيت ديني و مذھبي يقينيات و مسلّمات كي تضعيف ھے يقيناً جب تك انسان كا عقيدہ تحريف، تزلزل، ضعف سے دوچار نہ ھوا ھو۔ كوئي بھي طاقت اس كے عقيدہ كے خلاف زور آزمائي نھيں كرسكتي قدرت كا اقتدار، حكومت كي حاكميت اجسام و ابدان پر تو ھوسكتي ھے دل ميں نفوذ و قلوب پر مسلط نھيں ھوسكتي سر انجام انسان كي رسائي اس شي تك ھو ھي جا تي ھے جسے دل اور قلب پسند كرتا ھے اسلام كا اھم ترين اثر مسلمانوں پر، بلكہ تمام ھي اديان كا اپنے پيروكاروں پر يہ رھا ھے كہ فرضي و خرافاتي رسم و رواج كو ختم كرتے ھوئے منطقي و محكم اعتقاد كي بنياد ڈاليں، پہلے تو اسلام نے انسانوں كے اندروني تحول و انقلاب كے لئے كام كيا ھے پھر اسلامي حكومت كے استقرار كي كوشش كي ھے تاكہ ايسا سماج و معاشرہ وجود ميں آئے جو اسلام كے نظريہ كے مطابق اور مورد تاييد ھو۔
پيامبر عظيم الشان (ص) پہلے مكہ ميں تيرہ سال تك انسان سازي اور ان كے اخلاقى، فكرى، اعتقادي ستون كو محكم مضبوط كرنے ميں مصروف رھے اس كے بعد مدينہ ميں اسلام كي سياسي نظريات كي تابع ايك حكومت تشكيل دي منافقين جانتے تھے كہ جب تك مسلمان پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي انسان ساز تعليمات پر گامزن اور خالص اسلامي عقيدہ پر استوار و ثابت قدم رھيں گے، ان پر نہ تو حكومت كي جاسكتي ھے اور نہ ھي وہ تسليم ھوسكتے ھيں، لھذا ان كي طرف سے ھميشہ يہ كوشش رھي ھے كہ مومنين عقائد، ديني و مذھبي تعلميات كے حوالہ سے ھميشہ شك و شبہ ميں مبتلا رھيں جيسا كہ آج بھي اغيار كے ثقافتي يلغار و حملہ كا اھم ترين ھدف يھي ھے۔
منافقين كے اھداف يہ ھيں كہ اھل اسلام سے روح اسلام اور ايمان كو سلب كرليں، منافقين كي تمام تر سعى، دين كے راسخ عقائد اس كے اھداف و نتائج، مذھب كي حقانيت و مسلمات سے مسلمانوں كو دور كردينا ھے تاكہ شايد اس كے ذريعہ اسلامي حكومت كي عنان اپنے ھاتھ ميں لے سكيں اور مسلمانوں پر تسلط و قبضہ كرسكيں لھذا منافقين كا اپنے باطل مقاصد كے تكميل كے لئے بھترين طريقۂ كار يہ ھوتا ھے كہ لوگوں كے دلوں ميں طرح طرح كے شكوك پيدا كريں، اور انواع و اقسام كے شبھات كے ذريعہ مسلمانوں كو ديني مسلّمات كے سلسلہ ميں وادي ترديد ميں ڈال دينے كي كوشش كرتے ھيں، تاريخي شواھد اور وہ آيات جو منافقين كي اس روش كو اجاگر كرتي ھيں، بيان كرنے سے قبل، ايك مختصر وضاحت سوال اور ايجاد شبہ كے سلسلہ ميں عرض كرنا لازم ھے، اس ميں كوئي شك نھيں كہ سوال اور جستجو كي فكر ايك مستحسن اور مثبت پہلو ھے، تمام علوم و معارف انھيں سوالات كے رھين منت ھيں جو بشر كے لئے پيش آئے ھيں اور جس كے نتيجہ ميں اس نے جوابات فراھم كئے ھيں، اگر انسان كے اندر جستجو و تلاش كا جذبہ نہ ھوتا جو اس كي فطرت كا تقاضا ھے نيز ان سوالات كا حل تلاش كرنے كي فكر دامن گير نہ ھوتي تو يقيناً موجودہ علوم و دانش كي يہ ترقي كسي صورت سے حاصل نہ ھوتي۔
ان سوالات كے حل كے لئے جو انسان كے لئے پيش آتے ھيں دين اسلام ميں فراوان تاكيد كي گئي ھے، يہ كھا جاسكتا ھے جس قدر علم و تحصيل كي تشويق و ترغيب كي گئي ھے اسي طرح سوالات اور اس كے حل پر بھي زور ديا گيا ھے، قرآن مجيد صريح حكم دے رھا ھے اگر كسي چيز كو نھيں جانتے ھو تو اس علم كے علماء اور دانشمندوں سے سوال كرو۔
( فاسئلوا اھل الذكر ان كنتم لا تعلمون) 235
اگر نھيں جانتے ھو تو اھل ذكر (علماء) سے سوال كرو۔
دوسرا وہ مطلب جو اسلام ميں جواب و سوال كي اھميت كو ظاھر كرتا ھے وہ جوابات ھيں جو خداوند عالم نے قرآن ميں بيان كئے ھيں يہ سوالات پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے كئے جاتے تھے خدا نے قرآن ميں "يسئلونك" سے بات آغاز كرتے ھوئے ان كے جوابات دئے ھيں236
پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے جب روح، ھلال، انفال شراب و قمار كے بارے ميں سوال كيا گيا تو آپ سوال اور فكر سوال كي تشويق و تمجيد كرتے ھوئے فرماتے ھيں :
(( العلم خزائن و مفاتيحھا السوال فاسئلوا يرحمكم اللہ فانہ يوجر فيہ اربعۃ السائل والعالم و المستمع والمحب لھم)) 237
علم خزانہ ھے اور اس كي كنجياں سوال كرنا ھے، سوال كرو، (جس چيز كو نھيں جانتے ھو) خداوند متعال تم كو اپني خاص رحمت سے نوازے گا ھر سوال ميں چار فرد كو فائدہ نفع حاصل ھوتا ھے سوال كرنے والے، جواب دينے والے، سننے والے اور اس فرد كو جو ان كو دوست ركھتا ھے۔
ائمہ حضرات كے بھت سارے دلائل، بحث و مباحثات نيز مختلف افراد كے سوالات كا جواب دينا، حتي دشمنوں اور كافرين كے مسائل كا حل پيش كرنا اس بات كي دليل ھے كہ سوال ايك امر پسنديدہ و مطلوب شي ھے، ائمہ حضرات كي سيرت ميں اس امر كا اھتمام كافي حد تك مشھور ھے 238
ظاھر ھے كہ وہ سوالات جو درك و فھم اور استفادہ كے لئے كيا جائے، وہ مفيد ھے اور فھم و كمال كو بلندي عطا كرتا ھے، ليكن وہ سوالات جو دوسروں كي اذيت، آزمايش يا ايسے علم كے حصول كے لئے ھو جو انسان كے لئے فائدہ مند نھيں ھے، صرف يھي نھيں كہ ايسے سوالات بے قدر و قيمت ھيں بلكہ ممنوع قرار دئے گئے ھيں۔
امير المومنين حضرت امام علي عليہ السلام نے ايك پيچيدہ اور بي فائدہ سوال كے جواب ميں فرمايا :
(( سل تفقھا ولا تسأل تعنتا)) 239
سمجھنے كے لئے دريافت كرو الجھنے كے لئے نھيں۔
قرآن مجيد ميں بھي پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے كئے گئے بعض سوالوں كے جواب كے لحن و طرز سے اندازہ ھوتا ھے كہ ايسے سوالات نھيں كرنا چاھئے جن كے جوابات ثمر بخش نھيں ھيں۔
بعض مسلمانوں نے ھلال (ماہ) كے سلسلہ ميں سوالات كئے كہ ماہ كيا ھے، وہ كيوں تدريجاً كامل ھوتا ھے، پھر كيوں پہلي حالت پر پلٹ آتا ھے240
اللہ اس سوال كے جواب ميں پيامبر عظيم الشان كو حكم ديتا ھے كہ ھلال كے تغييرات كے آثار و فوائد كو بيان كريں، ھلال كے متعلق اس جواب كا مفھوم يہ ھے كہ وہ چيز جو سوال كرنے و جاننے كے قابل ھے وہ ھلال كي تغييرات كي بنا پر اس كے آثار و فوائد ھيں نہ يہ كہ، كيوں ماہ تغيير كرتا ھے اور اس كي علت كيا ھے (علت شناسي زيادہ اھميت كي حامل نھيں) ۔
سوال اور شبہ كا اساسي و بنيادي فرق يہ ھے كہ شبہ القا كرنے والے كا ھدف، جواب كا حاصل كرنا نھيں ھے بلكہ شبہ كا موجد اپنے باطل مطلب كو حق كے لباس ميں ان افراد كے سامنے پيش كرتا ھے، جو حق و باطل ميں تشخيص دينے كي صلاحيت نھيں ركھتے ھيں امير المونين حضرت علي عليہ السلام شبہ كي اسم گزاري كے سلسلہ ميں فرماتے ھيں :
(( وانما سميت الشبھۃ شبھۃ لانھا تشبہ الحق)) 241
شبہ كو اس لئے شبہ كا نام ديا گيا كہ حق سے شباھت ركھتا ھے۔
اگر شبہ ايجاد كرنے والے كو علم ھوجائے كہ كسي مقام پر ھمارا مغالطہ كشف ھوجائے گا اور اس كا باطن ھونا آشكار ھوجائے گا تو ايسي صورت ميں وہ اس مقام يا فرد كے پاس اصلاً شبہ كو طرح و پيش ھي نھيں كرتا بلكہ وہاں پيش كرنے سے گريز كرتے ھيں سعي و كوشش يہ ھوتي ھے كہ شبہ كے احتمالي جواب كو بھي مخدوش كركے پيش كرے۔
ايسے افراد كے اھداف بعض اشخاص كو اپنے ميں جذب اور ان كے مباني و اصول ميں تزلزل پيدا كرنا ھوتا ھے، تاكہ حق كو دور و جدا كرسكيں، شبہ كرنے والے حضرات اپنے باطل كو حق ميں اس طرح آميزش كرديتے ھيں كہ وہ افراد جو تفريق و تميز كي صلاحيت نھيں ركھتے ھيں وہ فريب كا شكار ھوجائيں۔
شبھات ھميشہ حق كے لباس ميں پيش كئے جاتے ھيں اور آساني سے سادہ لوح افراد مجذوب ھوجاتے ھيں، شبہ خالص باطل نھيں ھے اس لئے كہ باطل محض اور خالص آساني سے ظاھر ھوجاتا ھے۔
حضرت امير المومنين علي عليہ السلام فتنہ كا سر چشمہ حق و باطل كي آميزش كو بيان كرتے ھيں، آپ مزيد فرماتے ھيں كہ اگر حق و باطل ايك دوسرے سے جدا كردئے جائيں تو راستہ كي تشخيص بھت ھي آسان اور سھل ھوجاتي ھے۔
(( انما بدء وقوع الفتن اھواء تتبع و احكام تبتدع يحلاف فيھا كتاب اللہ ويتولي عليھا رجال رجالا علي غير دين اللہ فلو ان الباطل خلص من مزاج الحق لم يخف علي المرتادين ولو ان الحق خلص من لبس الباطل انقطعت عنہ السن المعاندين ولكن يوخذ من ھذا ضغث و من ھذا ضغث فيمز جان)) 242
فتنہ كي ابتدا ان خواھشات سے ھوتي ھے جن كا اتباع كيا جاتا ھے اور ان جديد ترين احكام سے ھوتي ھے جو گڑھ لئے جاتے ھيں اور سراسر كتاب خدا كے خلاف ھوتے ھيں اس ميں كچھ لوگ دوسرے لوگوں كے ساتھ ھوجاتے ھيں اور دين خدا سے الگ ھوجاتے ھيں كہ اگر باطل حق كي آميزش سے الگ رھتا تو حق كے طلبگاروں پر مخفي نھيں رہ سكتا تھا اور اگر حق باطل كي ملاوٹ سے الگ رھتا تو دشمنوں كي زبانيں كھل نھيں سكتي تھيں، ليكن ايك حصہ اس ميں سے ليا جاتا ھے اور ايك اس ميں سے، اور پھر دونوں كو ملا ديا جاتا ھے۔
تحقيقي اور تخصصي مسائل كو علمي ظاھر كرتے ھوئے، غير علمي حلقے و ماحول ميں پيش كرنا ايجاد كرنے كا روشن ترين مصداق ھے۔
شبہ كا القا
ديني و اعتقادي مسلّمات كو ضعيف و كمزور كرنے كے لئے منافقين كي اھم ترين روش، القا شبہ ھے جس كے ذريعہ دين و ايمان كي روح و فكر كو خدشہ دار كرديتے ھيں۔
منافقين سخت اور حساس مواقع پر خصوصاً جنگ و معركہ كے ايام ميں شبہ اندازي كركے مومنين كي مشكلات ميں اضافہ اور مجاھدين كي فكر و حوصلہ كو تباہ اور برباد كر ديتے ھيں تاكہ ميدان جنگ و نبرد كے حساس مواقع پر شركت كرنے سے روك
سكيں۔
اس مقام پر منافقين كي طرف سے پيش كئے گئے دو شبہ قرآن مجيد كے حوالہ سے پيش كئے جارھے ھيں۔
1) دين كے لئے فريب كي نسبت دينا
منافقين جنگ بدر كے موقع پر خداوند عالم كي نصرت و مدد اور مسلمين كي كاميابي و فتح يابي كے وعدے كي تكذيب كرتے ھوئے، ان كے وعدے كو فريب و خوش خيالي قرار دے رھے تھے، قصد يہ تھا كہ ايجاد اضطراب كے ذريعہ وعدہ الھي كے سلسلہ ميں مسلمانوں كے اعتقاد و ايمان ميں ضعف و تزلزل پيدا كرديں، تاكہ وہ ميدان جنگ ميں حاضر نہ ھوسكيں۔
خداوند عالم اس مسئلہ كي ياد دھاني كرتے ھوئے مسلمانوں كے لئے تصريح كرتا ھے كہ خدا كا وعدہ يقيني ھے اگر توكل و اعتماد ركھو گے تو كامياب و كامران ھوجاؤ گے۔
( واذ يقول المنافقون والذين في قلوبھم مرض غرّ ھولاء دينھم ومن يتوكل علي اللہ فان اللہ عزيز حكيم) 243
جب منافقين اور جن كے دل ميں كھوٹ تھا كہہ رھے تھے كہ ان لوگوں (مسلمان) كو ان كے دين نے دھوكہ ديا ھے حالانكہ جو شخص اللہ پر اعتماد كرتا ھے تو خدا ھر شي پر غالب آنے والا اور بڑي حكمت والا ھے۔
منافقين نے اسي سازش كو جنگ احزاب (خندق) ميں بھي استعمال كيا۔
( واذ يقول المنافقون والذين في قلوبھم مرض ما وعدنا اللہ ورسولہ الا غرورا) 244
اور جب منافقين اور جن كے دلوں ميں مرض تھا يہ كہہ رھے تھے كہ خدا و رسول نے ھم سے صرف دھوكہ دينے والا وعدہ كيا ھے۔
آيت فوق كي شان نزول يہ ھے كہ مسلمان خندق كھودتے وقت ايك بڑے پتھر سے ٹكرائے، سعي فراوان كے بعد بھي پتھر كو نہ توڑ سكے، رسول اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے مدد كے لئے درخواست كى، آپ نے الھي طاقت كا مظاھرہ كرتے ھوئے تين وار اور ضرب سے پتھر كو توڑ ڈالا، اور آپ نے فرمايا: يھاں سے حيرہ، مدائن، كسريٰ و روم كے قصر و محل ميرے لئے واضح و آشكار ھيں، فرشتۂ وحي نے مجھے خبر دي ھے كہ ميري امت ان پر كامياب اور فتحياب ھوگي نيز ان كے تمام قصر و محل زير تصرف ھوں گے پھر آپ نے فرمايا: خوش خبري اور مبارك ھو تم مسلمانوں پر اور اس خدا كا شكر ھے كہ اس محاصرہ و مشكلات كے بعد فتح و ظفر ھے۔
اس موقع پر ايك منافق نے بعض مسلمانوں كو مخاطب كرتے ھوئے كھا: تم محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي بات پر تعجب نھيں كرتے ھو، كس طريقہ سے تم كو بے بنياد وعدوں كے ذريعہ خوش كرتے ھيں اور كھتے ھيں كہ يھاں سے روم و حيرہ و مدائن كے قصر كو ديكھ رھا ھوں اور جلد ھي فتح نصيب ھوگى، يہ اس حال ميں تم كو وعدہ دے رھے ھيں كہ تم دشمن سے مقابلہ كرنے ميں خوف و ھراس كے شكار ھو 245
2) حق پر نہ ھونے كا شبہ ايجاد كرنا
دوسرا وہ القاء شبہ جسے ھميشہ منافقين خصوصاً ميدان جنگ اور معركہ ميں ايجاد كرتے تھے حق پر نہ ھونے كا شبہ تھا، جب جنگوں ميں مسلمان خسارہ اور نقصان ميں ھوتے تھے يا بعض مجاھدين درجہ شھادت پر فائز ھوتے تھے، يا اھل اسلام شكست سے دوچار ھوتے تھے تو منافقين اس كا بھانہ لے كر طرح طرح كے شبہ ايجاد كرتے تھے كہ اگر حق پر ھوتے تو شكست نھيں ھوتى، يا قتل نھيں كئے جاتے، اور اس طرح سے مسلمانوں كو شك اور تزلزل ميں ڈال ديتے تھے۔
قرآن مجيد سے استفادہ ھوتا ھے كہ منافقين نے جنگ احد اور اس كے بعد سے اس انحرافي فكر كو القا كرنے ميں اپني سعي تيز تر كردي تھي۔
( ويقولون لو كان لنا من الأمر شيء ما قتلنا ھھنا) 246
اور كھتے ھيں كہ اگر اختيار ھمارے ھاتھ ميں ھوتا ھم يھاں نہ مارے جاتے۔
منافقين ميدان جنگ ميں شكست كو نبوت پيامبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور ان كے آئين كي نا درست و ناسالم ھونے كي علامت سمجھتے تھے اور يہ شبہ ايجاد كرتے تھے اگر يہ (شھدا) ميدان جنگ ميں نہ جاتے تو شھيد نہ ھوتے۔
( الذين قالوا لأخوانھم و قعدوا لو اطاعونا ما قتلوا) 247
يھي (منافقين) وہ ھيں جنھوں نے اپنے مقتول بھائيوں كے بارے ميں يہ كھنا شروع كرديا كہ وہ ھماري اطاعت كرتے تو ھرگز قتل نہ ھوتے۔
خداوند عالم ان كے اس شبہ (جنگ ميں شركت قتل كئے جانے كا سبب ھے) كا جواب بيان كررھا ھے، موت ايك الھي تقدير و سر نوشت ھے موت سے فرار ميسر نھيں، اور معركہ احد ميں قتل كيا جانا نبوت و پيامبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے نا سالم ھونے اور ان كے نادرست اقدام كي علامت نھيں، جن افراد نے اس جنگ ميں شركت نھيں كي ھے موت سے گريز و فرار نھيں كرسكتے ھيں يا اس كو موخر كرنے كي قدرت و توانائي نہيں ركھتے ھيں۔
( قل لو كانوا في بيوتكم لبرز الذين كتب عليھم القتل الي مضاجعھم) 248
تو آپ كہہ ديجئے كہ اگر تم گھروں ميں بھي رہ جاتے تو جن كے لئے شھادت لكھ دي گئي ھے وہ اپنے مقتل تك بہر حال جاتے۔
قرآن موت و حيات كو خدا كے اختيار ميں بتاتا ھے معركہ و جنگ كے ميدان ميں جانا موت كے آنے يا تاخير سے آنے ميں مؤثر نھيں ھے۔
( واللہ يحيي و يميت واللہ بما تعملون بصير) 249
موت و حيات خدا كے ھاتھ ميں ھے اور وہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ھے اس مطلب كي تاكيد كي كہ موت و حيات انسان كے اختيار ميں نھيں ھے منافقين كے لئے اعلان كيا جارھا ھے كہ اگر تمھارا عقيدہ يہ ھے كہ موت و حيات تمھارے اختيار ميں ھے تو جب فرشتۂ مرگ نازل ھو تو اس كو اپنے سے دور كردينا اور اس سے نجات حاصل كرلينا۔
( قل فادرئوا عن انفسكم الموت ان كنتم صادقين) 250
پيامبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ان سے كہہ ديجئے كہ اگر اپنے دعوے ميں سچے ھو تو اب اپني ھي موت كو ٹال دو۔
مسلمانوں كو اپنے مذھب و عقيدہ ميں شك سے دوچار كرنے كے لئے منافقين ھميشہ يہ نعرہ بلند كيا كرتے تھے، اگر ھم حق پر تھے تو كيوں قتل ھوئے اور كيوں اس قدر ھميں قرباني ديني پڑى، ھميں جو جنگ احد ميں ضربات و شكست سے دوچار ھونا پڑا ھے اس كا مطلب يہ ھے كہ ھمارا دين اور آئين حق پر نھيں ھے۔
قرآن كے كچھ جوابات اس شبہ كے سلسلہ ميں گزر چكے ھيں، اساسي و مركزي مطلب اس شبہ كو باطل كرنے كے لئے مورد توجہ ھونا چاھئے وہ يہ كہ ظاھري شكست حق پر نہ ھونے كي علامت نھيں ھے جس طريقہ سے ظاھري كاميابي بھي حقانيت كي دليل نھيں ھے۔
بھت سے انبياء حضرات كہ جو يقيناً حق پر تھے، اپنے پروگرام كو جاري كرنے ميں كاميابي سے ھم كنار نھيں ھوسكے، بني اسرائيل نے بين الطلوعين ايك روز ميں ستر انبياء كو شھيد كر ڈالا اور اس كے بعد اپنے كاموں ميں مشغول ھوگئے جيسے كچھ ھوا ھي نھيں، كوئي حادثہ وجود ميں آيا ھي نھيں، تو كيا ان پيامبران الھي كا شھيد و مغلوب ھونا ان كے باطل ھونے كي دليل ھے؟ اور بني اسرائيل كا غالب ھوجانا ان كي حقانيت كي علامت ھے؟ يقيناً اس كا جواب نھيں ميں ھے، دين كے سلسلہ ميں فريب كي نسبت دينا اور حق پر نہ ھونے كے لئے شبہ پيدا كرنا، منافقين كے القاء شبھات كے دو نمونہ تھے جسے منافقين پيش كرتے تھے ليكن ان كے شبھات كي ايجاد ان دو قسموں پر منحصر و محصور نھيں ھے۔
دين كو اجتماع و معاشرت كے ميدان سے جدا كركے صرف آخرت كے لئے متعارف كرانا، دين كے تقدس كے بھانے دين و سياست كي جدائي كا نعرہ بلند كرنا، تمام اديان و مذاھب كے لئے حقانيت كا نظريہ پيش كرنا، صاحب ولايت كا تمام انسانوں كے برابر ھونا، صاحب ولايت كي درايت ميں ترديد اور اس كے اوامر ميں مصلحت سنجي كے نظريہ كو پيش كرنا، احكام الھي كے اجرا ھونے كي ضرورت ميں تشكيك وجود ميں لانا، خدا محوري كے بجائے انسان محوري كي ترويج كرنا، اس قبيل كے ھزاروں شبھات ھيں جن كو منافقين ترويج كرتے تھے اور كررھے ھيں، تا كہ ان شبھات كے ذريعہ دين كے حقايق و مسلّمات كو ضعيف اور اسلامي معاشرہ سے روح ايمان كو خالي كرديں اور اپنے باطل و بيھودہ مقاصد كو حاصل كرليں۔
البتہ يہ بات ظاھر و عياں ھے كہ منافقين مسلمانوں كے اعتقادي و مذھبي يقينيات و مسلّمات ميں القاء شبھات كے لئے اس نوع كے مسائل كا انتخاب كرتے ھيں جو اسلامي حكومت و معاشرے كي تشكيل ميں مركزي نقش ركھتے ھيں اور ان كے تسلط و قدرت كے لئے موانع ثابت ھوتے ھيں، اسي بنا پر منافقين كے القاء شبھات كے لئے زيادہ تر سعي و كوشش دين كے سياسي و اجتماعي مباني نيز دين و سياست كي جدائي اور دين كو فردي مسائل سے مخصوص كردينے كے لئے ھوتي ھيں۔
--------------------------------------------------------------------------------
219. نھج البلاغہ، خطبہ 210۔
220. سورہ منافقون/1۔
221. سورہ بقرہ/11، 12۔
222. سورہ توبہ/74۔
223. سورہ توبہ/61۔
224. سورہ منافقون/2۔
225. سورہ توبہ/56۔
226. سورہ توبہ/62۔
227. نھج البلاغہ، خطبہ194۔
228. نھج البلاغہ، خطبہ 194۔
229. سورہ توبہ/42۔
230. سورہ توبہ/94۔
231. سورہ منافقون/2۔
232. سورہ بقرہ/204۔
233. سورہ احزاب/15۔
234. سورہ توبہ/75/77۔
235. سورہ نحل/42 و سورہ انبياء/7۔
236. رجوع كريں بقرہ/89 /215 /217 /219۔
237. ميزان الحكمۃ ج4، ص330۔
238. بعض مطالب كو كتاب الاحتجاج، مرحوم طبرسى، ج1، 2 ميں حاصل كيا جاسكتا ھے۔
239. نھج البلاغہ، حكمت320۔
240. سورہ بقرہ/189۔
241. نھج البلاغہ، خطبہ38۔
242. نھج البلاغہ، خطبہ50۔
243. سورہ انفال/49۔
244. سورہ احزاب/12۔
245. سيرۃ ابن ھشام، ج2، ص219، منشور جاويد، ص74، 75۔
246. سورہ آل عمران/154۔
247. سورہ آل عمران/168۔
248. سورہ آل عمران/154۔
249. سورہ آل عمران/156۔
250. سورہ آل عمران/168۔
1) اھل ايمان و اصلاح ھونے كي تشھير
منافقين ھميشہ سماج اور معاشرہ ميں ظاھراً ايمان اور اصلاح كا نعرہ بلند كرتے ھوئے قد علم كرتے ھيں، دين اور اسلامي نظام سے و معركہ آرائي كي صريح گفتگو نھيں كرتے اسي طرح منافقين كبھي بھي فساد كا دعويٰ نھيں كرتے بلكہ شدت سے انكار كرتے ھوئے، بلكہ خود كو اصلاح كي دعوت دينے والا اور دينداري كا علمبردار پيش كرتے ھيں۔
اس سے قبل منافقين كي فردي رفتار كي خصوصيت كے ذيل ميں بعض آيات جو منافقين كے كردار كي عكاسي كرتي ھيں، پيش كي گئي ھيں، جس ميں عرض كيا گيا كہ منافقين اس طرح خوبصورت اور دلچسپ انداز ميں گفتگو كرتے ھيں كہ پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے لئے بھي تعجب خيز ھوتا ھے، پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم بعض منافقين كو پہچانتے بھي تھے، ليكن اس كے باوجود ديكھتے تھے كہ وہ اچھائي اور بھتري كا نعرہ لگاتے ھيں، دل موہ لينے والي گفتگو كرتے ھيں، ان كي گفتگو ميں خير و صلاح كي نمائش بھي ھوتي ھے، منافقين كي يہ فردي خصوصيات ان كي اجتماعى رفتار ميں بھي مشاھدہ كي جاسكتي ھے۔
( ويقولون آمنّا باللہ و بالرسول و اطعنا ثم يتولّيٰ فريق منھم من بعد ذلك وما اولئك بالمومنين) 251
اور يہ لوگ كھتے ھيں كہ ھم اللہ اور رسول پر ايمان لے آئے اور ھم نے ان كي اطاعت كي اور اس كے بعد ان ميں سے ايك فريق منھ پھير ليتا ھے اور يہ واقعاً صاحبان ايمان نھيں ھيں۔
مسجد ضرار كي سازش ميں منافقين كا نعرہ مريض، بيمار افراد كي مساعدت اور ايك مقدس ھدف كا اظھار تھا، قرآن صريحي اعلان كررھا ھے كہ ان لوگوں نے مسجد، اسلام و مسلمانوں كو ضرر اور نقصان پھونچانے اور كفر كي تقويت دينے كے لئے بنائي تھى، مسجد كا ھدف صاحبان ايمان كے مابين تفرقہ و اختلاف كي ايجاد اور دشمنان اسلام كے لئے سازشي مركز تيار كرنا تھا حالانكہ وہ قسم كھاتے تھے كہ ھمارا ارادہ خدمت خلق اور نيكي كے علاوہ كچھ بھي نھيں ھے۔
( وليحلفن ان اراد الّا الحسني) 252
اور يہ قسم كھاتے ھيں كے ھم نے صرف نيكي كے لئے مسجد بنائي ھے۔
ايك دوسرے مقام پر قرآن منافقين كو اس طرح بيان كررھا ھے كہ منافقين پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے حضور ميں ان كے دستور و آئين كي فرماں فرداري اور مطيع محض ھونے كا اظھار كرتے ھيں ليكن جب خصوصي جلسہ تشكيل ديتے ھيں تو پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے خلاف سازش كا پروگرام بناتے ھيں253
ظواھر كا آراستہ ھونا اور اچھے اچھے نعرے لگانا، منافقين كے دونوں گروہ، يعني منافق خوف، اور منافق طمع، كي اجتماعى خصوصيات ميں سے ھے، منافقين، اسلامي و ايماني معاشرے ميں پليد افعال انجام دينے كے لئے ايمان كے نعرے بلند كرتے ھيں اور دين داري و اصلاح طلبي كا اظھار كرتے ھيں۔
2) معروف كي نھي و منكر كا حكم
منافقين كي دوسري اجتماعى خصوصيت معروف كي نھي اور منكر كا حكم دينا ھے كلمہ (معروف و منكر) وسيع مفھوم كے حامل ھيں، تمام فردى، اجتماعى، سياسى، نظامي ثقافتي اور معاشرتي اقدار و ضد اقدار كو شامل ھوتے ھيں جماعت نفاق كا نشانہ اور ھدف انواع منكرات كي اشاعت اور اسلامي اقدار و شائستگي كو محو كرنا ھے، لھذا اپنے منافقانہ كردار و رفتار كے ذريعہ شوم مقاصد كو حاصل كرنا چاھتے ھيں۔
( المنافقون والمنافقات بعضھم من بعض يامرون باالمنكر وينھون عن المعروف) 254
منافق مرد اور منافق عورتيں آپس ميں سب ايك دوسرے سے مربوط ھيں سب برائيوں كا حكم ديتے ھيں اور نيكيوں سے روكتے ھيں۔
مذكورہ آيت ميں جيسا كہ اس كے شان نزول سے استفادہ ھوتا ھے منكر كا مصداق سياسى اقدار كي خلاف ورزي ھے، منافقين افراد كو پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي ھمراھي نہ كرنے كي دعوت ديتے تھے جو اسلامي نظام كي علامت اور باني تھے، صاحبان ايمان حضرات كو ولايت كے فرامين سے عدول اور نافرماني كي ترغيب دلاتے تھے، ظاھرا ھے كہ اس منكر سياسى كا خطرہ، فردي منكرات سے كھيں زيادہ ھے۔
ليكن كبھي خطا سرزد ھوجاتي ھے اور معروف كي جگہ منكر اور منكر كي جگہ معروف انجام ھوجاتا ھے قصد تخريب نھيں ھوتا ھے، لھذا اس قسم كے موراد قابل گذشت ھيں ليكن اس كے مقابل بعض افراد معروف كي شناخت ركھتے ھوئے اس كے برخلاف دعوت عمل دينے كے پابند ھيں منكر سے آگاہ ھوتے ھوئے بھي لوگوں كو اس كے انجام كے لئے ورغلاتے ھيں۔
ابو حنيفہ كي يہ كوشش رھتي تھي كہ وہ بعض موارد ميں حضرت امام صادق عليہ السلام كے خلاف فتويٰ دے، چنانچہ وہ سجدے كے مسئلہ ميں حضرت امام صادق عليہ السلام كے فتوے كو نھيں جانتا تھا كہ اس حالت ميں آپ كا فتويٰ آنكھ بند كرنے كا ھے يا كھلي ركھنے كا لھذا اس نے فتويٰ ديا كہ ايك آنكھ كھلي اور ايك بند ركھي جائے تاكہ ھر حال ميں حضرت امام صادق عليہ السلام كے فتوے كي مخالفت ھوسكے۔
منافقين، اسلامي معاشرے ميں معروف و منكر كي عميق شناخت ركھتے ھوئے منكر كا حكم اور معروف سے نھي كرتے تھے ليكن انتھائي زير كي اور فريب كاري كے ساتھ كہ كھيں ان كے راز فاش نہ ھوجائيں اور ان كے حربے ناكام ھوجائيں۔
3) بخل صفت ھونا
منافقين كي اجتماعى رفتاركي دوسري خصوصيت بخيل ھونا ھے وہ سماج و معاشرے كي تعمير اور اصلاح كے لئے مال صرف كرنے سے گريز كرتے ھيں۔
( يقبضون ايديھم) 255
اور (منافقين وہ لوگ ھيں جو) اپنے ھاتھوں كو (نفاق و بخشش سے) روكے رھتے ھيں۔
سورہ احزاب ميں بھي منافقين كي توصيف كرتے ھوئے ان كي اس معاشرتي فكر كي طرف اشارہ كيا گيا ھے۔
( اشحۃ عليكم) 256
وہ (منافقين) تمام چيزوں ميں، تمھارے حق ميں بخيل ھيں۔
منافقين نہ صرف يہ كہ خود بخيل، كوتاہ دست، نيز محرومين و فقراء كي مدد و مساعدت نھيں كرتے بلكہ دوسروں كو بھي اس صفت كا عادي بنانا چاھتے ھيں اور انفاق كرنے سے روكتے ھيں۔
( ھم الذين يقولون لا تنفقوا علي من عند رسول اللہ حتي ينفضّوا وللہ خزائن السماوات والارض ولكن المنافقين لا يفقھون) 257
يھي وہ لوگ ھيں جو كھتے ھيں كہ رسول اللہ كے ساتھيوں پر كچھ خرچ نہ كرو تاكہ يہ لوگ منتشر ھوجائيں حالانكہ آسمان و زمين كے سارے خزانے اللہ ھي كے ھيں اور يہ منافقين اس بات كو نھيں سمجھ رھے ھيں۔
مذكورہ آيت كي شان نزول كے بارے ميں كھا جاتا ھے كہ غزوہ بني المصطلق كے بعد مسلمانوں كے دو فرد كا كنويں سے پاني لينے كے سلسلہ ميں جھگڑا ھوگيا ان ميں ايك انصار اور دوسرا مھاجرين كے گروہ سے تعلق ركھتے تھے دونوں نے اپنے اپنے گروھوں كو مدد كے لئے آوازدى، عبداللہ ابن ابي جو منافقين كے اركان ميں سے تھا، گروہ انصار كي طرف داري كرتے ھوئے ميدان ميں اتر آيا دونوں گروہ ميں لفظي جنگ شروع ھوگئي۔
عبد اللہ ابن ابي نے كھا: ھم نے مھاجرين جماعت كو پناہ دى، اور ان كي مدد كي ليكن ھماري مدد و مساعدت اس معروف مثل كے مانند ھوگئي جس ميں كھا جاتا ھے "ثمن كلبك يأكلك" اپنے كتے كو كھلا پلا كر فربہ كرو تاكہ وہ تم كو كھا جائے يہ ھم انصار كي مدد و نصرت كا نتيجہ ھے جو ھم نے مھاجرين ھمارے ساتھ كررھے ھيں ھم نے اس گروہ (مھاجر) كو اپنے شھر ميں جگہ دي اپنے اموال كو ان كے درميان تقسيم كئے، اگر اپني باقي ماندہ غذا كو ان مھاجرين كو نہ ديتے تو آج ھم انصار كي يہ نوبت نہ آتي كہ مھاجر ھماري گردنوں پر سوار ھوتے بلكہ ھماري مدد نہ كرنے كي صورت ميں اس شھر سے چلے جاتے اور اپنے قبائل سے ملحق ھوجاتے۔
قرآن عبداللہ ابن ابي كي توھين آميز گفتگو اور اس كي تاكيد كہ انصار مھاجرين كي مدد كرنا ترك كرديں، كا ذكر كرتے ھوئے اضافہ كررھا ھے كہ آسمان و زمين كے خزائن خدا كے ھاتھوں ميں ھے منافقين كے بخل كرنے اور انفاق سے ھاتھ روك لينے سے، كچھ بدلنے والا نھيں ھے۔
4) صاحبان ايمان كي عيب جوئي اور استھزا
منافقين كي اجتماعى خصائص ميں سے ايك خصوصيت صاحب ايمان كا استھزا، عيب جوئي اور تمسخر ھے، منافقين سے ايسے افعال كا صدور ان كي ناسالم طبيعت اور روحاني مريض ھونے كي غمازي كررھا ھے، تمسخر اور عيب جوئي ايك قسم كا ظلم شخصيت پر دست درازي اور انساني حيثيت كي بے حرمتي ھے، حالانكہ انسان كے لئے اس كي شخصيت و حرمت اور آبرو ھرشي سے عزيز تر ھوتي ھے۔
اشخاص كي تمسخر و عيب جوئي كے ذريعہ رسوائي اور بے حرمتي كرنا، فرد مقابل كے مريض، كينہ پرستي سے لبريز قلب اور پست فطرتي كي علامت ھے، منافقين بھي اس مرض ميں مبتلا ھيں۔
( واذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا واذا خلوا الي شياطينھم قالوا انا معكم انما نحن مستھزون) 258
جب صاحبان ايمان سے ملتے ھيں تو كھتے ھيں كہ ھم اھل ايمان ھيں، اور جب اپنے شياطين كے ساتھ خلوت اختيار كرتے ھيں تو كھتے ھيں كہ ھم تمھارے ساتھ ھيں، ھم تو صرف صاحبان ايمان كا مذاق اڑاتے ھيں۔
منافقين جنگوں ميں ھر زاويہ سے مومنين پر اعتراض كرتے تھے جو جنگ ميں زيادہ حصہ ليتے تھے اور اچھي كاركردگي كا مظاھرہ كرتے تھے ان كو ريا كاري كا عنوان ديديتے تھے اور جن كي بضاعت كم تھي اور مختصر مساعدت كرتے تھے، تو ان كا استھزا كرتے ھوئے كھتے تھے لشكر اسلام كو اس كي كيا ضرورت ھے؟ !
نقل كيا جاتا ھے ابو عقيل انصاري نے شب و روز كام كركے دومن خرمے حاصل كئے ايك من اپنے اھل و عيال كے لئے ركھے اور ايك من پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي خدمت ميں پيش كيا، منافقين ابو عقيل انصاري كے اس عمل پر تمسخر و استھزا ميں مشغول ھوگئے، اس وقت ذيل كي آيت كا نزول ھوا۔
( الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون الا جھدھم فيسخرون منھم سخر اللہ منھم ولھم عذاب اليم) 259
جو لوگ صدقات ميں فراخ دلي سے حصہ لينے والے مومنين اور ان غريبوں پر جن كے پاس ان كي محنت كے علاوہ كچھ نھيں ھے الزام لگاتے ھيں اور پھر ان كا مذاق اڑاتے ھيں خدا ان كا بھي مذاق بنادے گا اور اس كے پاس بڑا درد ناك عذاب ھے۔
آيت فوق سے استفادہ ھوتا ھے كہ منافقين ايك گروہ كي عيب جوئي كرتے تھے اور ايك گروہ كا استھزا و مسخرہ كرتے تھے ان كا استھزا ان افراد كے لئے تھا جو لشكر اسلام كے لئے مختصر اور ناچيز مساعدت كرتے تھے اور عيب جوئي ان اشخاص كے لئے تھي جو وافر مقدار ميں نصرت و مدد كرتے تھے پہلي قسم كے افراد كو استھزا كرتے ھوئے بے مقدار و ناچيز مدد كرنے والے القاب سے نوازتے تھے اور دوسري قسم كے اشخاص كو ريا كار سے تعارف كراتے تھے۔
5) تضحيك و خندہ زنى
منافقين كي ايك دوسري اجتماعى رفتار كي خصوصيت تضحيك اور خندہ زني ھے يعني جب بھي صاحب ايمان سختي و عسرت ميں ھوتے تھے تو منافقين خوشحال ھوتے اور ھنستے تھے اور مومنين كي سرزنش كيا كرتے تھے ليكن جب صاحبان ايمان كو آرام اور آسائش ميں ديكھتے تھے تو ناراض اور غمزدہ ھوتے تھے، قرآن مجيد چند آيات كے ذريعہ منافقين كي اس كيفيت كو بيان كر رھا ھے۔
( ان تمسسكم حسنۃ تسؤھم وان تصبكم سيئۃ يفرحوا بھا) 260
تمھيں ذرا بھي نيكي پہنچتي ھے تو وہ ناراض ھوتے ھيں اور تمھيں تكليف پھنچتي ھے تو وہ خوش ھوتے ھيں۔
( وان اصابتكم مصيبۃ قال قد انعم اللہ علي اذالم اكن معھم شھيداً) 261
اور اگر تم پر كوئي مصيبت آگئي تو كھيں گے خدا نے ھم پر احسان كيا كہ ھم ان كے ساتھ حاضر نھيں تھے۔
( ان تصبك حسنۃ تسؤھم وان تصبك مصيبۃ يقولوا قد اخذنا امرنا من قبل ويتولوا وھم فرحون) 262
ان كا حال يہ ھے كہ جب آپ تك نيكي آتي ھے تو انھين بري لگتي اور جب كوئي مصيبت آجاتي ھے تو كھتے ھيں كہ ھم نے اپنا كام پھلے ھي ٹھيك كرليا تھا اور خوش و خرم واپس چلے جاتے ھيں۔
منافقين عداوت و دشمني كي بنا پر جو مسلمانوں كے لئے ركھتے ھيں ان كي خوش حالي اور آسائش كو ديكھنا پسند نہيں كرتے ھيں ليكن جب صاحب ايمان مصيبت يا جنگ ميں گرفتار ھوتے ھيں تو بھت شادمان اور خوش نظر آتے ھيں۔
جب مسلمان سختي و عسرت ميں ھوتے ھيں تو ان كي سرزنش كرتے ھيں اور اپنے موقف كو ان سے جدا كر ليتے ھے، اور شكر خدا بھي كرتے ھيں كہ ھم مومنين كے ساتھ (گرفتار) نھيں ھوئے۔
6) كينہ توزى
منافقين، مومنين و اسلامي نظام كي نسبت شديد عداوت و كينہ ركھتے ھيں، كينہ و عداوت كے شعلے ھميشہ ان كے دل و قلب ميں افروختہ ھيں جو كچھ بھي دل ميں ھوتا ھے وہ ان كي زبان و عمل سے ظاھر ھو ھي جاتا ھے خواہ وہ اظھار خفيف ھي كيوں نہ ھو۔
امير المومنين حضرت امام علي عليہ السلام اپني گران قدر گفتگو ميں صراحت كے ساتھ اس باريكي كو انسانوں كے لئے بيان فرماتے ھيں۔
(( ما اضمر احد شيئا الا ظھر في قلتات لسانہ و صفحات وجھہ)) 263
انسان جس بات كو دل ميں چھپانا چاھتا ھے وہ اس كي زبان كے بے ساختہ كلمات اور چھرہ كے آثار سے نماياں ھوجاتي ھے۔
مذكورہ كلام كي بنياد پر منافقين جو شديد كينہ و عداوت صاحب ايمان سے ركھتے ھيں اس كا مختصر حصہ ھي منافقين كي رفتار و گفتار ميں جلوہ گر ھوتا ھے۔
قرآن مجيد نے اس باريك مطلب كي طرف اشارہ كرتے ھوئے وضاحت كي ھے كہ منافقين نے اپنے دلوں ميں جو مخفي كر ركھا ھے وہ اس سے كھيں زيادہ ھے جو ان كي رفتار و گفتار ميں ديكھا جاتا ھے۔
( قد بدت البغضاء من افواھھم وما تخفي صدورھم اكبر) 264
ان كي عداوت زبان سے بھي ظاھر ھے اور جو دل ميں چھپا ركھا ھے وہ تو اس سے بھي زيادہ ھے۔
لھذا منافقين كي رفتار و گفتار كے ظواھر سے اسلامي نظام اور صاحبان ايمان سے عداوت و كينہ كے كچھ بخش و حصہ كي شناخت كي جاسكتي ھے اور يہ آگاھي و شناخت مقدمہ ھے كہ ان سے مبارزہ كيا جاسكے اور اس نوعيت كے دشمنوں كو اسلامي معاشرے سے جدا اور اخراج كيا جاسكے۔
--------------------------------------------------------------------------------
251. سورہ نور/47۔
252. سورہ توبہ/107۔
253. سورہ نساء/ 81۔
254. سورہ توبہ/67۔
255. سورہ توبہ /67۔
256. سورہ احزاب 19، اشحۃ، شيح كي جمع ھے اس كے معني شديد بخل حرص كے ساتھ، كرنا ھے۔
257. سورہ منافقون/7۔
258. سورہ بقرہ/14۔
259. سورہ توبہ/79۔
260. سورہ آل عمران/120۔
261. سورہ نساء/72۔
262. سورہ توبہ/50۔
263. نھج البلاغہ، حكمت26۔
264. سورہ آل عمران/118۔
روشن فكري و افشا گرى
منافقين سے مقابلہ و مبارزہ كرنے كي راہ و روش ايك مفصل اور طولاني بحث ھے، يھاں بطور اجمال اشارہ كيا جارھا ھے، منافقين سے مقابلہ كے طريقوں ميں زيادہ وہ طريقے قابل بحث ھيں جو منافقين كے سياسي و ثقافتي فعاليت كو مسدود كرسكيں اور ان كے شوم اھداف كے حصول كو ناكام بناسكيں۔
منافقين سے مقابلہ اور مبارزہ كے سلسلہ ميں پھلا مطلب يہ ھے كہ تحريك نفاق، ان كے اھداف نيز ان كے طور طريقہ اور روش كے سلسلہ ميں روشن فكر ھونا چاھئے، نفاق كے چھروں كا تعارف نيز ان كے اعمال و افعال كا افشا كرنا نفاق و منافقين سے مقابلے و مبارزہ كے سلسلہ ميں ايك مؤثر قدم ھوسكتا ھے۔
بطور مقدمہ اس مطلب كي ياد دھاني بھي ضروري ھے كہ دوسروں كے گناہ، اسرار كا افشا اور عيب جوئي كو اسلام ميں شدت سے منع كيا گيا ھے۔
بعض روايات و احاديث ميں دوسروں كي معصيت و گناہ كو فاش كرنے كا گناہ، اسي معصيت و گناہ كے مطابق ھے، صاحبان ايمان كو نصيحت كي گئي ھے اگر تم چاھتے ھوكہ خداوند عالم قيامت ميں تمھارے عيوب پر پردہ ڈالے رھے تو دنيا ميں دوسروں كے عيوب كي پردہ پوشي كرتے رھو۔
رسول اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ايك سوال كے جواب ميں، جس نے سوال كيا تھا ھم كون سا فعل انجام ديں كہ اللہ قيامت ميں ھمارے عيوب كو ظاھر نہ كرے، آپ فرماتے ھيں :
(( استر عيوب اخوانك يستر اللہ عليك عيوبك)) 265
اپنے (ديني) برادران كے عيوب كو پوشيدہ ركھو تاكہ اللہ بھي تمھارے عيوب كو پوشيدہ اور چھپائے ركھے۔
امير المومنين حضرت علي نھج البلاغہ ميں فرماتے ھيں :
جو لوگ گناھوں سے محفوظ ھيں اور خدا نے ان كو گناھوں كي آلودگي سے پاك ركھا ھے ان كے شايان شان يھي ھے كہ گناھگاروں اور خطا كاروں پر رحم كريں اور اس حوالے سے خدا كي بارگاہ ميں شكر گزار ھوں كيوں كہ ان كا شكر كرنا ھي ان كو عيب جوئي سے محفوظ ركھ سكتا ھے، چہ جائيكہ انسان خود عيب دار ھو اور اپنے بھائي كا عيب بيان كرے اور اس كے عيب كي بنا پر اس كي سرزنش بھي كرے، يہ شخص يہ كيوں نھيں فكر كرتا ھے كہ پروردگار نے اس كے جن عيوب كو چھپاكر ركھا ھے وہ اس سے بڑے ھيں جن پر يہ سرزنش كر رھا ھے اور اس عيب پر كس طرح مذمت كررھا ھے جس كا خود مرتكب ھوتا ھے اور اگر بعينہ اس گناہ كا مرتكب نھيں ھوا ھے تو اس كے علاوہ دوسرے گناہ كرتا ھے جو اس سے بھي عظيم تر ھيں اور خدا كي قسم! اگر اس سے عظيم تر نھيں بھي ھيں تو كمتر تو ضرور ھي ھيں اور ايسي صورت ميں برائي كرنے اور سرزنش كرنے كي جرأت بھر حال اس سے بھي عظيم تر ھے۔
اے بندہ خدا! دوسرے كے عيب بيان كرنے ميں جلد بازي سے كام نہ لے خدا نے اسے معاف كرديا ھو اور اپنے نفس كو معمولي گناہ كے بارے ميں محفوظ تصور نہ كر شايد كہ خداوند عالم اسي پر عذاب كردے ھر شخص كو چاھئے كہ دوسرے كے عيب بيان كرنے سے پرھيز كرے كيونكہ اسے اپنا عيب بھي معلوم ھے اور اگر عيب سے محفوظ ھے تو اس سلامتي كے شكريہ ھي ميں مشغول رھے266
حضرت علي عليہ السلام كي فرمايش كے مطابق نہ صرف يہ كہ افراد كو چاھئے كہ اپنے ديني اور انساني برادران كے اسرار كو فاش نہ كريں اور ان كي بے حرمتي نہ كريں بلكہ حضرت كي فرمايش و نصيحت يہ ھے كہ اگر حكومت بھى، سماج و معاشرہ كے جن افراد كے اسرار و عيوب كو جانتي ھے تو اس كو چاھئے، ان كے عيوب كو پوشيدہ ركھے ان كي خطاؤں سے جھاں تك ممكن ھے چشم پوشي كرے، حضرت ايك نامہ كے ذريعہ مالك اشتر كو لكھتے ھيں :
(( وليكن ابعد رعيتك منك واشنأھم عندك اطلبھم لمعائب الناس فان في الناس عيوبا الوالي احق من سترھا فلا تكشفنّ عما غاب عنك منھا فانّما عليك تطھير ما ظھر لك واللہ يحكم علي ما غاب عنك فاستر العورة ما استطعت يستر اللہ منك ما تحبّ سترہ من رعيتك)) 267
رعايا ميں سب سے زيادہ دور اور تمھارے نزديك مبغوض وہ شخص ھونا چاھئے جو زيادہ سے زيادہ لوگوں كے عيوب كو تلاش كرنے والا ھو اس لئے كہ لوگوں ميں بھر حال كمزورياں پائي جاتي ھيں ان كي پردہ پوشي كي سب سے بڑي ذمہ دارى، والي پر ھے لھذا خبردار جو عيب تمھارے سامنے نھيں ھے اس كا انكشاف نہ كرنا تمھاري ذمہ داري صرف عيوب كي اصلاح كرنا ھے اور غائبات كا فيصلہ كرنے والا پروردگار ھے جھاں تك ممكن ھو لوگوں كے ان تمام عيوب كي پردہ پوشي كرتے رھو كہ جن كے سلسلہ ميں اپنے عيوب كي پردہ پوشي كي پروردگار سے تمنا كرتے ھو۔
البتہ گناہ و معصيت كو پوشيدہ ركھنے اور فاش نہ كرنے كا حكم اور دستور وھاں تك ھے جب تك گناہ فردي و شخصي ھو اور سماج و معاشرے يا اسلامي نظام كے مصالح كے لئے ضرر و زيان كا باعث نہ ھو ليكن اگر كسي فرد نے بيت المال ميں خيانت كي ھے، عمومي اموال و افراد كے حقوق ضائع كئے ھيں يا اسلامي نظام كے خلاف سازش اور فعاليت انجام دي ھے، تو اس كے افعال و رفتار كي خبر ديني چاھئے اور اس كو بيت المال كي خيانت و افراد كے حقوق ضائع كرنے كي بنا پر محاكمہ اور سزا ديني چاھئے۔
امير المومنين حضرت علي عليہ السلام اپنے تعيين كردہ امراء اور كارندوں كے افعال و رفتار كي تحقيق و نظارت كے لئے بھت سے مقام پر اپنے تفتيش كرنے والوں كو بھيجا كرتے تھے، اور جب كبھي ان كار گزاروں كي طرف سے خطا و نافرماني كي خبر ملتي تھي ان كو حاضر كر كے شديد توبيخ كرتے اور سزا ديتے تھے۔
امير المومنين حضرت علي عليہ السلام بيت المال كے خيانت كاروں اور اموال عمومي كو ضائع كرنے والوں سے قاطعانہ طور پر باز پرس كرتے تھے آپ كے دوران خلافت و حكومت ميں يہ مسئلہ بطور كامل مشھود ھے۔
منافقين كے عيوب و معصيت كے لئے يہ دونوں طريقے يقيني طور پر قابل اجرا ھيں، اگر ان كے گناہ، فسق و فجور فردي ھيں تو چشم پوشي سے كام لينا چاھئے ليكن اگر ان كي سرگرمي و فعاليت دشمن اسلام كے مانند ھو ان كا ھدف اسلام اور اسلامي نظام كي بنياد كو اكھاڑ پھينكنا ھو تو ايسي صورت ميں ان كي حركت كو فاش كرنا چاھئے ان كے افراد و اركان كا تعارف كرانا چاھئے تاكہ امنيت كا فائدہ اٹھاتے ھوئے تخريبي حركتيں انجام نہ ديں، جيسا كہ اس سے قبل عرض كيا گيا قرآن مجيد نے تين سو آيات كے ذريعہ منافقين كي افشا گري كرتے ھوئے ان كي تخريبي فعاليت كي نشاندھي كي ھے اور ان كي صفات كو بطور دقيق بيان كيا گيا ھے، نفاق كي تحريك اور منافقين جماعت كي افشا گري چند بنيادي فوائد ركھتے ھيں۔
1 ۔ منافق جماعت كے ذريعہ فريب كے شكار ھوئے افراد خواب غفلت سے بيدار ھوكر حق كے دامن ميں واپس آجائيں گے۔
2 ۔ دوسرے وہ افراد جو تحريك نفاق سے آشنائي نھيں ركھتے وہ ھوشيار ھوجائيں گے اور اس كے خلاف موقف اختيار كريں گے ان كے موقف كي بنا پر حزب نفاق كے افراد كنارہ كش اور خلوت نشين ھوجائيں گے۔
3 ۔ تيسرے منافقين كي جاني امنيت اور مالي حيثيت، افشا گري كي بنا پر خطرہ سے مواجہ ھوجائيں گي اور ان كي فعاليت ميں خاصي كمي واقع ھوجائے گي۔
نفاق كے وسائل سے مقابلہ
منافقين سے مقابلہ كے سلسلہ ميں دوسرا نكتہ يہ ھے كہ نفاق كے وسايل و حربے نيز ان كي راہ و روش كي شناخت ھے، پھلے منافقين كي تخريبي فعاليت كے وسايل اور اھداف كي شناخت ھونا چاھئے پھر ان سے مقابلہ كرنا چاھئے۔
نفاق كي شناخت كے لئے ضروري ترين امر، ان كي سياسي و ثقافتي فعاليت كي روش اور طريقہ كي شناسائي ھے، يہ شناخت نفاق ستيزي كے لئے بنيادي ركن كي حيثيت ركھتي ھے، اس لئے كہ جب تك دشمن اور اس كے وسايل و حربے شناختہ شدہ نہ ھوں تو مبارزہ و مقابلہ كي بساط كھيں كي نھيں ھوتي ھے۔
يھاں پر وسائل نفاق سے مقابلہ و مبارزہ كے لئے چند اساسي و بنيادي طريقہ كو بيان كيا جارھا ھے ، البتہ دشمن كے ھجومي اور ھر قسم كے تخريبي حملے سے مقابلہ كے لئے كچھ خاص طريقۂ كار كي ضرورت ھے كہ جس كا يھاں احصا ممكن نھيں۔
1) صحيح اطلاع فراھم كرنا
اس سے قبل اشارہ كيا جاچكا ھے كہ منافقين كا ايك اور حربہ و وسيلہ افواہ كي ايجاد ھے، اس حربہ سے مقابلہ كے لئے بھترين طريقۂ كار صحيح اور موقع سے اطلاع كا فراھم كرنا ھے، افواہ پھيلانے والے افراد، نظام اطلاعات كے خلاء سے فائدہ اٹھاتے ھوئے افواھوں كا بازار گرم كرتے ھيں، اگر اخبار و اطلاعات بہ موقع، صحيح اور دقيق، افراد و اشخاص اور معاشرے كے حوالہ كي جائے تو اس ميں كوئي شك نھيں كہ افواہ و شايعات اپنے اثرات كھو بيٹھيں گے۔
اميرالمومنين حضرت علي عليہ االسلام نھج البلاغہ ميں حاكموں پر عوام كے حقوق ميں سے ايك حق، ملك كے حالات سے عوام كو آگاہ كرنا بتاتے ھيں، آپ فرماتےھيں :
(( ألا و انّ لكم عندي ان لا احتجز دونكم سراً الا في حرب)) 268
ياد ركھو! مجھ پر تمھارا ايك حق يہ بھي ھے كہ جنگ كے علاوہ كسي بھي موقع پر كسي راز كو تم سے چھپاكر نہ ركھوں۔
مذكورہ كلام ميں جنگ كے مسائل و فوجي و نظامي اسرار كا ذكر كسي خصوصيت كا حامل نھيں، صرف ايك نمونہ كا ذكر ھے، نظامي اسرار اور اطلاعات كے سلسلہ ميں عدم افشا كا معيار معاشرہ اور حكومت كے لئے ايك مصلحت تصور كرنا چاھئے، لھذا اسي اصل پر توجہ كرتے ھوئے اور اموي مشيزي كي افواہ سازي كے حربہ كو ناكام بنانے كے لئے آپ نے جنگ صفين كے اتمام كے بعد مختلف شھروں ميں خطوط بھيجے اور ان خطوط ميں جنگ صفين كے تمام تفصيلات بيان كئے، معاويہ اور اس كے افراد كي جنگ طلبي كي وجہ اور علت كو تحرير فرمايا اور دونوں گروہ كے مذاكرات كي تفصيل بھي مرقوم فرمائى269
امام عليہ السلام كے خطوط بھيجنے كي اصل وجہ يہ تھي كہ امام پيش بيني كر رھے تھے كہ معاويہ اور اس كے افراد افواھوں كا بازار گرم كريں گے مسلمانوں كے درميان مسموم تبليغ كے ذريعہ، عمومي افكار كي تخريب كرتے ھوئے علوي حكومت كے خلاف عوام كو ورغلائيں گے لھذا امام نے پھل كرتے ھوئے سريع اور صحيح اطلاعات فراھم كرتے ھوئے لوگوں كے افكار اور قضيہ كے ابھامات روشن كرديئے۔
مذكورہ مقام كے علاوہ بھت سے ايسے موارد نھج البلاغہ ميں پائے جاتے ھيں كہ جس ميں حضرت نے مختلف مواقع پر حكومتي امور كي گزارش عوام كے سامنے پيش كي ھے، اور اس عمل كے ذريعہ بھت سي افواہ و شايعات كو وجود ميں آنے سے روك ديا ھے۔
2) شبھات كي جواب دھي اور سياسي و ديني بصيرت كي افزائش
شبہ كا القا ايك دوسري روش ھے جس كے ذريعہ منافقين سوء استفادہ كرتے ھيں، منافقين كے شبھات كا منطقي اور بر محل جواب دے كر ان كو خلع سلاح كرتے ھوئے اثرات كو زائل كيا جاسكتا ھے۔
شبھات كے جواب ميں منطقي استدلال پيش كرنا ايك، مكتب فكر كے قدرت مند اور مستحكم ھونے كي اھم ترين علامت ھے، بحمداللہ اسلام كے حيات بخش آئين كو عقل قوي اور فطرت كي پشت پناھي حاصل ھے، اھل نفاق كے اس حربہ سے مقابلہ كرنے كے لئے لازم ھے كہ اسلامي مكتب فكر سے عميق آشنائي ركھتے ھوئے ايجاد كردہ شبھات كي شناسائي اور ان كے شبھات كو حل كرتے ھوئے ان كو گندے عزائم كي تكميل و تحصيل سے روكنا چاھئے۔
انسان حق پزير فطرت و خصلت كے حامل ھيں اگر ھم حق كي صورت كو شفاف پيش كرنے كي كوشش كريں تو وہ حق كے مقابل تسليم ھوسكتے ھيں، خصوصاً نوجوان افراد جن كے يھاں شناخت كے موانع كمتر اور حقيقت پيدا كرنے كي خواھش شديد تر ھے، وہ حق كو جلد ھي درك كر ليتے ھيں اور حق كے مقابل خاضع ھوجاتے ھيں روايات ميں جواني كے زمانہ كو باليدگي فكر اور بلند ھمتي كا زمانہ كھا گيا ھے اور تاريخي شواھد بھي اس كي تائيد كرتے ھيں۔
حضرت موسي عليہ السلام پر ايمان لانے والے افراد بني اسرائيل سے جوان ھي تھے پيامبر عظيم الشان نے بعثت كے آغاز ميں، مكہ كے سخت شرائط ميں اكثر جوانوں كو ھي اسلام كي طرف جذب كيا تھا۔
دوسرا اصول اور بنيادي طريقہ جو شبہ كے انعقاد كو روكنے ميں مفيد ھے سماج و معاشرہ كي سياسي و ديني بصيرت كو زيادہ سے زيادہ ارتقاء ديا جائے، اگر تمام افراد اچھي طرح سے دين كي شناخت و پھچان ركھتے ھوں اور ان كے اندر شبھات كي تنقيد و تحقيق كي صلاحيت بھي ھو تو منافقين كبھي بھي القا شبہ كے ذريعہ اھل اسلام كو شك ميں نھيں ڈال سكتے ھيں، اور ان كي سازش ابتدائي ھي منزل پر ناكام ھوكر رہ جائے گي۔
اگر معاشرے كے تمام افراد سياسي بصيرت كے حامل ھوں اور سياسي حوادث كي تحقيق و تحليل كي توانائي بھي ركھتے ھيں تو منافق كبھي بھي اپني سازش و فتنہ گري كے ذريعہ لوگوں كو فريب دينے ميں كامياب نھيں ھوسكتے ھيں،
اگر امير المومنين حضرت علي عليہ السلام كے ساتھ معركہ صفين ميں جنگ كرنے والے سياسي بصيرت كے حامل ھوتے تو قرآن كو نيزہ پر بلند كئے جانے والے حيلہ اور حربے سے شك و شبہ ميں مبتلاء نھيں ھوسكتے تھے اور معاويہ كي فوج نفاق كے ذريعہ جنگ كو متوقف نھيں كرسكتي تھي۔
معاشرے كے افراد كي ديني و سياسي بصيرت كي ارتقاء، نفاق اور اس كے مختلف وسايل سے مبارزہ اور مقابلہ كے لئے سب سے بنيادي طريقہ ھے معاشرے ميں اگر كافي مقدار ميں صاحبان بصيرت كا وجود ھوتو، منافقين كے مختلف حيلہ و مكر كو خنثي اور ناكام بنايا جاسكتا ھے۔
3) اتحاد و وحدت كا تحفظ
مسلمانوں كے درميان تفرقہ و چند احزاب و گروہ كي ايجاد، منافق جماعت كا اصلي حربہ ھے، اس تحريك نفاق سے مقابلہ كرنے كا طريقہ اسلامي معاشرت كي حريم اور اس كي وحدت كي حفاظت كرنا ھے، اگر اھل اسلام خدا محوري كي بنياد پر حركت كريں، خود محوري كو ترك كرديں، يقيناً منافقين كا تفرقہ اندازي كا حربہ اپنا اثر كھو بيٹھے گا اسلام كا دستور حبل خدا كو مضبوطي سے تھامنے اور تفرقہ سے جدا رھنے كا ھے۔
دين اور احكام اسلامي كي حاكميت كو دل و جان سے قبول كرنا، اسلامي اخلاق و آداب سے خود كو آراستہ كرنا اور خواھشات نفساني كي پيروي سے پرھيز كرنا وغيرہ ايسے اسباب ھيں كہ جس كي وجہ سے ايك متحد سماج اور منظّم معاشرہ عالم ظھور ميں آسكتا ھے، جب تك اسلامي معاشرے و سماج ميں اتحاد وحدت كي ضوفشاني رھے گي ھرگز اسلام كے مخالفين حتي منافقين اپنے اھداف و مقاصد ميں ظفر ياب نھيں ھوسكتے ھيں۔
وحدت و اتحاد كي حفاظت، اختلاف كو ختم كرنے كي جد و جھد قابل قدر و اھميت كي حامل ھيں، لھذا ھر فرد كا وظيفہ بنتا ھے كہ اپني توانائي كے اعتبار سے اس كي كاميابي كے لئے سعي و كوشش كرے۔
پيامبر عظيم الشان اكثر موارد ميں خود حاضر ھوكر افراد اور قبائل كے مابين اختلاف اور ان كي آپسي دشمني كو حل و فصل كراتے تھے ان كو دوستي مساوات اور اسلامي اقدار پر گامزن رھنے كے لئے نصيحت فرمايا كرتے تھے۔
منافقين سے قاطعانہ برتاؤ
منافقين سے مقابلہ كا ايك اور طريقہ ان كے ساتھ قاطعانہ برتاؤ اور غير مصلحت آميز سلوك ھے، جب تك منافقين كي جد وجھد قيل و قال كے مرحلہ ميں ھے اسلامي نظام كو روشن فكري كے ذريعہ سے مقابلہ كرنا چاھئے ليكن جب منافقين تخريبي اعمال و حركات انجام دينے لگيں تو شدت و قوت سے مقابلہ ھونا چاھئے۔
خداوند عالم آخرت ميں منافقين سے قاطعانہ برتاؤ كا اعلان كرتے ھوئے صاحبان ايمان كو بھي ويسے ھي برتاؤ كرنے كا سبق سكھاتا ھے۔
( ان المنافقين في الدرك الا سفل من النار) 270
بے شك منافقين جھنم كے سب سے نچلے طبقہ ميں ھوں گے۔
اسي بنا خداودند متعال قرآن ميں رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو خطاب كرتے ھوئے فرما رھا ھے :
( يا ايھا النبي جاھد الكفار والمنافقين واغلظ عليھم) 271
پيامبر! آپ كفار اور منافقين سے جھاد كريں اور ان پر سختي كريں۔
كفار كے مقابلہ ميں جھاد كا طريقۂ كار آشكار ھے، يہ جھاد ھر زاويے سے ھے بالخصوص مسلحانہ ھے، ليكن منافقين سے جھاد كا طور و طريقہ مورد بحث ھے اس لئے كہ يہ بات مسلم ھے كہ پيامبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے منافقين سے مسلحانہ جنگ نھيں كي تھي۔
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں :
(( ان الرسول اللہ لم يقاتل منافقاً)) 272
رسول خدا نے منافق سے جنگ نھيں كي تھي۔
منافقين سے جھاد نہ كرنے كي دليل بھي واضح ھے اس لئے كہ منافقين ظواھر اسلام كا اظھار كرتے تھے لھذا تمام اسلامي آثار و فوائد كے مستحق تھے، گر چہ باطن ميں وہ اسلامي آئين كي خلاف ورزي كرتے تھے اسلام كے اظھار كرنے والے سے، كسي كو غير اسلامي رفتار كرنے كا حق نھيں يعني منافق كے ساتھ وہ سلوك نھيں ھونا چاھئے جو غير اسلام (كافر) سے كيا جاتا ھے۔
پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے زمانہ ميں كسي منافق نے علي الاعلان اسلام كي مخالفت ميں پرچم بلند نھيں كيا تھا لھذا پيامبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے بھي مسلحانہ جنگ انجام نھيں دي تھي۔
لھذا قرآن ميں منافق سے جھاد كے دستور كے معني و مفھوم كو جنگ و جھاد كي دوسري اشكال سے تعبير كرنا ھوگا جو غير مسلحانہ ھو، جيسے ان كي سرزنش و توبيخ كرنا مذمت و تھديد سے پيش آنا، رسوا اور ذليل كرنا وغيرہ شايد "واغلظ عليھم" كا مفھوم بھي ان ھي قسم كے برتاؤ پر صادق آتا ھے۔
البتہ يہ احتمال بھي ھوسكتا ھے كہ جب تك منافين كے اندروني اسرار اور خفيہ پروگرام آشكار نہ ھوں نيز ان كي تخريبي حركات سامنے نہ آئے تب تك وہ اسلامي احكام كے تابع ھيں ليكن جب ان كے باطني اسرار فاش ھوں اور يہ واضح ھوجائے كہ اسلام و اسلامي نظام كے سلسلہ ميں تخريبي اعمال انجام دينا چاھتے ھيں تو ان كو سر كوب كرنا ضروري ھے خواہ مسلحانہ طريقہ ھي كيوں نہ اپنانا پڑے۔
بھر حال بني اميہ كي منافق جماعت كے اركان اور اس كے سرغنہ معاويہ سے امير المومنين حضرت علي عليہ السلام كا برتاؤ اور رويہ مذكورہ آيت كا بھترين مصداق ھے۔
جب تك منافقين كا طرز عمل سخن و گفتگو تك محدود تھا آپ نے كوئي فوجي كاروائي نھيں كي بلكہ صرف گفت و شنود اور مذاكرات كے ذريعہ مسئلہ كا حل تلاش كرتے رھے ليكن جب نفاق حرف و كلام سے آگے بڑھ گيا اور حرب و جنگ كي نوبت آگئي تو آپ قاطعانہ و قھر آميز برتاؤ سے پيش آئے۔
آپ نے اپني گفتگو و خطبات كے ذريعہ ان كے افكار و نظريات كو مسمار اور مسلحانہ اقدام كے ذريعہ ان كو ھميشہ كے لئے ذيل و رسوا كركے ركھ ديا۔
( و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمين الھم صل علي محمد وآلہ الطاھرين۔
1 ۔ قرآن كريم
2 ۔ نھج البلاغہ
3 ۔ الاحتجاج: مرحوم طبرسى
4 ۔ اسدا الغاب: ابن اثير
5 ۔ الاصابۃ:ابن حجر عسقلاني
6 ۔ اصول كافى: مرحوم كلينى
7 ۔ اعلام الورى: طبرسى
8 ۔ الامام الصادق والمذاھب الاربعۃ: اسد حيدر
9 ۔ بحار الانوار: علامہ مجلسى
10 ۔ تاريخ الامم والرسل: طبرسى
11 ۔ تفسير قرآن: قرطبى
12 ۔ تفسير نمونہ: مكارم شيرازي و ھمكاران
13 ۔ تفسير سورہ توبہ و منافقون: جعفر سبحانى
14 ۔ تفسير المنير: دكتر و ھبۃ زحيلى
15 ۔ تصنيف غررالحكم: دفتر تبليغات اسلامي قم
16 ۔ جاذبہ و دافعہ امام علي عليہ السلام: شھيد مطھرى
17 ۔ حديث الافك: سيد جعفر مرتضيٰ
18 ۔ خصال: شيخ صدوق
19 ۔ الدرالمنثور: جلال الدين سيوطى
20 ۔ رسالت خواص و عبرتھاي عاشورا: سيد احمد خاتمى
21 ۔ سفينۃ البحار: شيخ عباس قمى
22 ۔ سيرۂ: ابن ھشام
23 ۔ شرح نھج البلاغہ: ابن ابي الحديد
24 ۔ شرح نھج البلاغہ: مرحوم خوئى
25 ۔ شيخ فضل اللہ نوري و مشروطيت: رويارويي دو انديشہ: مھدي انصارى
26 ۔ العقد الفريد: ابن عبدر بہ اندلسى
27 ۔ الغارات: ابو اسحاق ابراھيم بن محمد
28 ۔ غرر الحكم
29 ۔ فتوح البلدان: بلاذرى
30 ۔ فروغ ابديت: جعفر سبحانى
31 ۔ قاموس الرجال: تسترى
32 ۔ كلمات قصار، پندھا و حكمتھا، گزيدہ سخنان امام خميني (رح )
33 ۔ لسان العرب: ابن منظور
34 ۔ مجمع البيان: طبرسى
35 ۔ مجموعہ ورام
36 ۔ المحجۃ البيضاء: فيض كاشانى
37 ۔ مروج الذھب: مسعودى
38 ۔ مسالہ نفاق: شھيد مطھرى
39 ۔ مستدرك الوسائل: محدث نورى
40 ۔ المصباح المنير: فيومى
41 ۔ ملل و نحل: شھرستاتى
42 ۔ منشور جاويد قرآن؛ جعفر سبحانى
43 ۔ مواھب الرحمان: سيد عبد الاعلي سبزوارى
44 ۔ ميزان الحكمہ: محمد ري شھرى
45 ۔نظريہ المعرفۃ: جعفر سبحانى
46 ۔ النھايۃ: ابن اثير
47 ۔ نھضتھاي اسلامي در صد سال اخير: شھيد مطھرى
48 ۔ نور الثقلين: جمعۃ العروسي الحويزى
49 ۔ وسايل الشيعہ: شيخ حر عاملى
--------------------------------------------------------------------------------
265. ميزان الحكمۃ، ج7، ص145۔
266. نھج، البالغہ، خطبہ140، خطبہ طولاني ھونے كي بنا پر عربي عبارت نقل كرنے سے صرف نظر كيا گيا۔
267. نھج البلاغہ، نامہ53۔
268. نھج البلاغہ، نامہ50۔
269. نھج البلاغہ، نامہ58۔
270. سورہ نساء/145۔
271. سورہ توبہ/73، سورہ تحريم/9۔
272. مجمع البيان، ج10، ص319۔