غریب ،مشکل اور امثالِ قرآن جیسے الفاظ سے مراد وہ اصطلاحات نہیں ہیں کہ جن سے عام طور پر غیر مانوس لغات مراد لی جاتی ہیں قرآن میں ناموس لغات اور غیر مصطلح الفاظ استعمال نہیں ہوئے ہیں کیونکہ ایسے الفاظ کا استعمال اعجاز قرآن کے بلاغت کے پہلو سے مغایرت رکھتاہے ۔
بلکہ غریب سے مُراد مشکل لغات ہیں یا ووہ لغات اور تراکیب جو مختلف افراد اپنی معلومات اور ذہنی سطح کے مطابق تعبیر کرتے ہیں علوم قرآن کے علماء نے مشابہ آیات اور الفاظ کے تقابل اور روایات کی مدد سے الفاظ قرآن کے حقیق معنی کو بیان کرنے کو کوشش کی ہے تا کہ ہر کوئی اپنے سلیقہ کے مطابق خاص معنی استنباط نہ کرے اور الفاظ قرآن کے حقیقی معانی سے جو فہم آیا ت کے لئے مقدمہ ہے سے رو گردانی نہ کرے ۔
قرآن میں مختلف قبائل کے لہجے اور لغات موجود ہیں اور تمام قبائل الفاظ سے یکساں استفادہ نہیں اٹھاتے اور یہ بات مسّلم ہے کہ ہر لغت کا ماہر اپنی اصطلاح کو دوسروں سے صحیح تر استعمال کرتا ہے بنا بریں ایک قبیلہ کی لغت دوسرے قبیلہ کے لئے غریب اور غیرمانوس تصور ہو گی۔
کتب تفسیر کی تدوین سے پہلے مفردات اور لغات قرآن پر توجہ دی جاتی تھی اور قرآن کے الفاظ مغردہ کے معانی کا فہم و ادراک حاصل کیا جاتا تھا ۔
بعض نے قرآن کی معجم لغوی کی تدوین کو فکری لحاظ سے کُتب تفسیر کی تدوین پر مقدم قرار دیا ہے لیکن راقم معتقد ہے کہ غریب القرآن کی تدوین تفسیر کے ساتھ ہی انجام پائی ہے بشرطیکہ جس کوابن عباس (متوفی ۶۸ ہجری ) کی طرف نسبت دی جارہی ہے وہ ابن عباس کو (جیسا کہ محمد حسین ذہبی اورفواد سرکیں ہمارے ساتھ ہم عقیدہ ہیں تفسیر ابن عباس کاایک نسخہ دوسری عالمی جنگ سے قبل برلین میں موجود تھا ۔
ہم گول زہیر اور احمد امین کے قول کو جو اکثر ابن عباس کی جانب سے منسوب روایات کو غلط قرار دیتا تھا رد کرتے ہیں ۔
ابن عباس علوم قرآن کے مختلف ابواب میں صاحبِ نظر تھا غریب القرآن ،لغات فی القرآن ،لغت القرآن اور تفسیر اسکی کتب میں شامل ہیں ۔
سیوطی ابن عباس سے جو نقل کرتے ہیں اس کے مطابق ہمارا یہ دعٰوی ثابت ہو جاتا ہے کہ تفسیر ابن عباس نے تفسیر اور غریب القرآن ایک ہی زمانے میں تدوین کی تھی ابن عباس سے جس چیز کی نسبت دی جاتی ہے اگر اس سے صرفِ نظر کریں تو بلا شک و تردید ابوسعید ابان بن تغلب بن ریاح بکری (متوفی ۱۴۱ ہجری ) کی طرف ہماری نظر اٹھتی ہے (مذکورہ شخصّیت امام سجاد،امام باقراور امام صادق کے عظیم اصحاب میں سے تھی
اور ہمیں اس بات کا پورا اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ تفسیر کی تدوین غریب القرآن کی تدوین پر مقدم ہے کیونکہ ابن عباس کے بعد، ابو عبداللہ سعید بن جبیر اسری کوفی ( ۴۵ تا ۹۵) جوابن عباس کے قابل قدر شاگر ہے ،وہ سب سے پہلے مفسرین میں شامل ہیں عبدالملک مردان (متوفی ۸۶) سعید بن جبیر سے ایک تفسیر لکھنے کا کہا ہے سعید اس کے کہنے پر عمل کرتا ہے
لیکن اگر ہم سعید بن جبیر کی تفسیر میں شک کریں تو مجبوراً تفسیر مجاہدبن جبرمکی ( ۲۱۱۰۴) کو ابن عباس کی روایت کے مطابق ، قبول کرنا پڑے گا
بہرحال تفسیر کی تدوین پہلی صدی کے اواخر سے پہلے پہلے ہی انجام پذیر ہوئی ہے جبکہ ابان بن تغلب کی غریب القرآں دوسری صدی کے نصف اول سے متعلق ہے
بنابریں اگر ابن عباس کی طرف دی گئی ہے نسبت میں شک نہ کریں تو غریب القرآن اور تفسیر قران کی تدوین کا زمانہ ایک ہی ہے اور ابن عباس کے توسط سے اسکی تدوین انجام پائی ہے اور اگر اس میں شک کریں تو غریب القرآن کی تالیف کو تفسیر قران سے موخر مانا جائے گا
ابن ندیم غریب القرآن سے متعلق کتب کے حصے میں ابو عبیدہ معمر بن مثنی (متوفی ، ۲۱۰) سے شروع کرتے ہیں اور ابان بن تغلب کو یاد نہیں کرتے ہیں
معلوم نہیں ہے کہ ابان بن تغلب اور اسکی کتاب کو ابن ندیم نے کیوں یاد نہیں کیا
لیکن شیخ نجاشی اور شیخ طوسی نے ابان بن تغلب کی کتب میں الغریب فی القرآن اور ذکر شواھدہ مِن الشتر کا ذکر کیا ہے
ابن ندیم کے بقول غریب القرآن دوسری صدی کے نصف دوم میں یاتیسری صدی کے اوائل میں تدوین کی گئی
اگر غریب القرآن کے تقابل میں معمر بن مسثنیٰ نے بھی تفسیر میں ایک مدون اور جامع کتاب جو سورتوں کی تفسیر اور تو ضیح میں خاص نظم و ترتیب سے لکھی ہو تو جو کچھ ذکر کیا گیا ہے اُس سے صرفِ نظر کرنی چاہیے اور ابی ذکریا یحییٰ ابن زیاد فرّا (متوفی ، ۲۰۷) کی کتاب کا نام لیا جاتا ہے
اس صورت میں تفسیر اور غریب القرآن کی تدوین کا زمانہ ایک ہی ہے تدوین سے کیا مرا دہے ایک ایسی کتاب کی تالیف جو جامع ہو اور باب باب کر کے لکھی گئی ہو
اسکی مختلف فصول مطالب کی ترتیب کے ساتھ تنظیم ہو اور اُس پر بحث کی گئی ہو
وضاحت:اگر فراء کی معافی القرآن کو تفسیر غریب القرآن کا جُز قرار دیں پھر بھی پہلی تفسیر کے بارے میں تحقیق کرنی چاہیے
بہر حال قرآن کے الفاظ کے معانی کو یاد کرنا تفسیر کی بناء پر قرار پاتا ہے اور لغاتِ قرآن کی طرف توجہ دینا تفسیر کے لئے اساسی وبنیادی کام ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ متقدمین فکری یا تدوین کے لحاظ سے اسے تفسیر پر مقدم کریں یا موخر
راغب اصفہانی اسی عقیدہ کی بنا پر اپنی کتاب کی وجہ تصنیف بیان کرتا ہے اور علوم قرآن کے سفر میں مفردات پر توجہ دینے کو پہلا قدم قراد دیتا ہے
جس طرح اینٹ عمارت کے لئے ضروری ہے اسی طرح علوم قرآن کے لئے الفاظ اور معانی کی سمجھ بوجھ ضروری ہے
راغب معتقد ہے کہ فقہا اور قضات کے لئے قرآن کریم کے الفاظ اور معانی کا صحیح ادراک لازم وواجب ہے
کیونکہ جب وہ مفرداتِ قرآن کو درست سمجھیں گے تو انکی قضاوت اور حکم بھی درست ہو گا اور درست الفاظ کے استعمال سے شعراء اور اوباء میں مہارت کے معیار کا پتہ چلتا ہے اور نظم و نثر بھی اس سے آراستہ و پیراستہ ہوتی ہے
متقدمین کے ہاں تفسیر کی بنیادیں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ان علوم کی تفسیری کا م کے لئے مقدمہ و تدوینکیونکہ تفسیر کی ابتدائی مراحل لغات کی تعریف اور معرفت سے شروع ہوئے اور پھر بتدریج تکامل اختیار کرتے گئےاسی لئے زرکشی اور سیوطی ابو عمرو بن صلاح سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جہاں بھی عبارت ” اصل معانی کہتے ہیں “ نظر آئے سمجھ لو کہ اس سے مُراد معانی قرآن پر کُتب لکھنے والے افراد ہیں مفسرین نے ان کُتب سے استفادہ کیا ہے
بعض ” مجاز“ کی لغت سے یہ مفہوم لیتے ہیں کہ معمر بن مثنیٰ کے کتاب علم بلاغت کے موضوع پر ہے حالانکہ متن کتاب اور مصنف کے انداز تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے الفاظ کے معانی اور لغات کے مفاہم بیان کرنے کی کوشش کی ہے اسکی نظر الفاظ کی تفسیر پر تھی نہ کہ بلاغت وغیرہ کے مسائل بیان کرنے پر سید احمد صفر غریب القرآن ،معافی القرآن اور مجاز القرآن کو ایک دوسرے کے مترادف قرار دیتے ہیں کہ ابو عبیدہ نے کوشش کی ہے کہ شعراء عرب کے اشعار کا حوالہ اورمستعمل لغات سے استشہاد کر کے قرآن کے الفاظ کے معانی بیان کرے
مجاز القران لکھنے کی وجہ پر غور و فکر کرنے پر حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ایک بلاغت کی کتاب نہیں ہے اور اسے ایسا سمجھنے والے غلطی پر ہیں
ابراہیم بن اسماعیل کا تب،فضل بن ربیع کی محفل میں ابو عبیدہ کی موجودگی میں ۱۸۸ ہجری میں آیت ” طَلعُہٰا کَاَنَّہُ رکوُّسُ الشِیاطینِ “ کا معنی غلط بیان کرتے ہیں ابو عبیدہ بصرہ واپسی پر کتاب مجاز القرآن تحریر کرتے ہیں اور الفاظ کے استعمال اور لغات کے معانی کرنے کا طریقہ بیان کرتے ہیں وہ اپنی کتاب کو ابراہیم بن اسماعیل کاتب کی ” امثال “ کے لئے راہنمائی قرار دیتے ہیں
متن کتاب کی پیشِ نظر ہمارے دعویٰ کی تائید ہو جاتی ہے اور کتاب مجاز القرآن کے مقدمہ کے نیچے عیناًنقل کی جاتی ہے تاکہ کتاب کے اندازِ تحریر سے زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل ہو جائے ” القرآن اسم کتاب اللہ خاصتہ، ولایسمی، بہ شئی من سائر الکتاب غیرہ وانمّا سِعیّ قرآناً لا نہ یجمع السور فیضمھا، و تفسیر ذلک فی آیة من القران قاِلَ اللہُ جل ثناؤہ ! اِنَّ عَلَیناَ جمہ وَ قرآنہ “
مجازہ ! تالیف بعضہ الی بعض،ثم قال فَإذٰ اقَر اُناٰہُ فاَتَّبِع قُرآنَہ
مجازہ فاذالفنامنہ شیئاً، فضمناہ الیک فخزبہ،واعل بہ و ضمہ الیک وفی آیة اخریٰ فاذاقرآت القرآن مجازہ! اذاتلوت بعضہ فی اثر بعضِ ، حتّیٰ یحتمع و ینضم بعضہ الی بعض، ومضاہ یصیوالی معنی التالیف والجمع
ترجمہ: قرآن، کتاب اللہ کا خاص نام ہے اور وہ کسی دوسری کتاب پر اطلاق نہیں ہوتا ہے اور اس کتابِ الہی کا قرآن کے نام کے ساتھ موسوم ہونا اس وجہ سے ہے کہ قرآن سورتوں کو باہم جمع کرتا ہے اور انہیں ایک دوسرے میں ضّم کرتا ہے اس مطلب کی تفسیر اور وضاحت ایک آیت میں بیان کی گئی ہے سورہ قیامت کی آیت نمبر 17میں خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” قرآن کا جمع کرنا اور منضم کرنا ہمارا وظیفہ ہے “
پھر ایک دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے ” پس جب ہم نے ان کو باہم جوڑا اور ایک دوسرے سے مربوط کر دیا تو اس وقت اسے لے لو اور اس پر عمل کرو اور اُسے اپنے اختیار میں لے لو سورہ نحل کی آیت ۹۸ میں ارشاد رب العزّت ہے ” جب قرآن کے ایک حصے کو دوسرے حصے کے پیچھے پڑھو اس طرح کہ ایک حصّے کو دوسرے حصے کے ساتھ منّظم کرو “
بنابریں ابو عبیدہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ کسی ایک لغت کا معنی قرآن کی دیگر لغات سے بیان کرتا ہے اور اپنے دعویٰ کے اثبات کے لئے آیات یا آیات کو شاہد کے طور پر پیش کرتا ہے وہ شاہد اور گواہ بیان کرتے وقت اور استشہاد
کے لئے پیش کئے گئے معنی کے اظہار کے وقت کہتا ہے کہ ” مجازہ “ پس کلمہ مجاز ،مصطلح مجاز کے معنی کے طور پر نہیں ہے جو حقیقت و مجاز کے مقابل میں ہے بلکہ اس لفظ کے استعمال سے اسکی مراد متعلقہ لغت کے معنی کا بیان کرنا ہے
جب ایک لفظ مختلف مواقع پر مختلف معانی میں استعمال ہو تو اس کے ہر ایک معنی کو ” وجہ “ اور تمام معانی کو ” وجوہ“ کہتے ہیں مثلاً لفظ ” فتح “ پانچ مختلف مواقع پر پانچ معانی میں استعمال ہوتا ہے لفظ فتح یا اس کے مشتقات کے جو پانچ تعبیریں ہیں انہیں ” وجوہ“ کہتے ہیں چونکہ اکثر الفاظ مختلف معانی میں استعمال ہوتے ہیں لہذا انہیں ” وجوہ القرآن “ کے نام سے یاد کیا کرتے ہیں
۱۔فتح بمعنی ” قیامت کا دن “
قل یَومَ الفتح لاَ ینفع ُ الَّذِینَ کَعَرُو ایمانُہُم
۲۔فتح بمعنی ”انصاف کرنا “
قُل یجمعُ بَینَنَا رَبُّنَاثُمَّ یفتح بُینَنٰا بالحق
۳۔فتح بمعنی”بھیجنا “
حَتّی اِذَا فتحت یَا جُوجُ وَمَا جُوجَ
۴۔فتح بمعنی”کھولنا “
حَتَّی اِذا جٰاُء دَھٰاوَ فتحت بوااَ بُہَا
۵۔فتح بمعنی” مدد کرنا “
فَانِ کَانَ لَکُم فتح مِنَ اللہِ
پس ” وجوہ القرآن“ نے مراد ہے قرآنی الفاظ میں ہر ایک کا مختلف اور انکی مختلف تعابیر وجوہ القرآن پر لکھی جانے والی کتاب (سیوطی اور زرکشی کے بقول) مقاتل بن سلیمان (متوفی، ۱۵۰ ہجری) کی ” الوجوہ والنظائر“ ہے اس کے بعد دوسروں نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تحریر کی ہیں اور بعض نے جیسے زرکشی اور سیوطی نے اُسے اپنی کتاب علوم القرآن ہی کا ایک باب قرار دیا ہے کے سیوطی وجوہ اور نظائر کی معرفت میں ، نوع نمبر ۳۹ میں کہتے ہیں کہ میں نے اس فن میں ایک کتاب بنام ” معترک الاقرآن فی مشترک القرآن “ لکھی ہے
اس فن میں متعدد کتب کے لکھے جانے کی وجہ اور وجو ہ القرآن میں تحقیق کرنے کا اتنا شوق وذوق ادبی پہلو اور قرآن کی اعلیٰ تعلیمات سے تعارف کے علاوہ شاید وہ روایات بھی ہیں جو امام علی اور ابو درداء سے امام علی جب ابن عباس کو خوارج کی طرف بھیجتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ اُن سے سنّت کے ذریعے مجادلہ کرو نہ کہ قرآن کے ذریعے سے کیونکہ قرآن کی مختلف وجوہ ہیں اور تم کسی نتیجہ تک نہ پہنچ گے ” فانہ دروبوہ و لکن خاصمہم بالسنّة “ ابو درداء کہتے ہیں
” انک لن تفقہ کن الفقہ فی تری القرآن وجوھا “
۱۔الاشارہ فی غریب القرآن ابوبکر محمد بن حسن معروف بہ نقاش موصلی وفات ۳۵۱ کشف الظنون ۱/۹۸
۲۔اصلاح الوجوہ والنظائر فی القرآن الحکیم حسن محمد دامغانی دارالعلم بیروت
۳۔الاریب عافی القرآن من الغریبابوالفرج بن جوزی عبدالرحمن بن علی وفات ۵۹۸
۴۔الفیہ فی تفسیر الفاظ القرآن ابن ذرعہ عراقی وفات ۸۰۶ قاہرہ مطبتہ البیة( ۳۲۶ء تا ۳۳۸ء اصل کتاب سے کامل ہو بہو کاپی کر لیں )۔
وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ہذالقرآن مہجوراً (فرقان: ۳۰ )
اور (اس وقت) رسول اللہ (بارگاہ خداوندی میں) عرض کریں گے کہ اے میرے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا۔
اس آیت مبارکہ کے صدر میں ”وقال الرسول“ ہے رسول سے مراد ہمارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ ہیں اور ہجرانِ قرآن کا مطلب، قرآن کو چھوڑ دینا یا ترک کر دینا ہے، ”قَالَ“ فعل ماضی کا صیغہ ہے، یہاں اس کے معنی ”کہا“ بمعنی ماضی کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ”کہے گا“ صحیح ہے کیونکہ قیامت ابھی وقوع پذیر نہیں ہوا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ماضی کا صیغہ کیوں استعمال ہوا؟ اس کی وجہ بعد میں بیان کریں گے۔
آیہ شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ جب اس کائنات کی بساط سمیٹ لی جائے گی۔ قیامت (جو کہ برحق ہے) کا ہولناک واقعہ رونما ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ کی کرسی عدالت لگا دی جائے گی ”لا حکم الا اللہ الواحد القہار“ کی صدا بلند ہو گی، ایسی عدالت جس میں ہر قسم کی دھونس، دھاندلی، جھوٹ، فریب، رشوت، بلیک میلنگة اثرورسوخ کا استعمال اور جھوٹی گواہی کا تصور بھی نہیں گا۔( ۱ )
اس میدان میں نفسا نفسی اور خوف ورجاء کا عجیب منظر ہو گا۔ ا میدان میں کچھ لوگ تو اپنے اعمال صالح اور نیکیوں کی بنا پر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے ہوئے وعدوں کے پیش نظر ”انہ لا تخلف المیعاد“ جنت میں داخل ہونے کی امید سے حاضر ہوں گے اور کچھ لوگو پر اپنے برے اعمال، نافرمانی، عصیان گری کی وجہ سے اپنے خالق کے کہتے ہوئے وعیدوں کی بناء پر غضب الہٰی میں مبتلا ہونے اور جہنم میں داخل ہونے کی صورت میں لرزہ جاری ہو گا۔ اس عدالت میں جہاں تمام مظلوموں کو اپنا حق فوراً ملنے کی مکمل ہوتی ہے، اس لئے ہر شخص اپنا کس دائر کرنا چاہے گا۔ کوئی کہے گا، میرے مالک فلاں شخص نے مجھے اپنی وراثت پدری محروم کیا تھا؟ کوئی کہے گا۔ اس نے مجھے ناحق قتل کیا تھا، کوئی کہے گا کہ فلاں شخص نے میرا گھر بار لوٹا تھا جو پر تو خود شاہد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ۱ ) تمام مخلوقات وہاں جمع ہو جائیں گی۔
انہی استغاثہ دائر کرنے والوں میں ایک نمایاں شخص ایک انوکھا کیس دائر کرے گا اور یہ نمایاں شاکی کوئی عام انسان ہیں بلکہ سید الانبیاء محمد مصطفےٰ کی ذات گرامی ہو گی۔ آپ بھی اس عدالت میں ایک گلہ اور شکوہ لے کر حاضر ہو ں گے، اور قرآن کریم میں آنحضور اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ کو یوں بیان کیا ہے :
وقال الرسول یا رابالخ
اور رسول اللہ فرمائے گا! اے میرے پالنے والے: میری قوم (امت) نے اس قرآن کو واقعی ترک کر دیا تھا۔
جس امت کی خاطر میں نے بہت سے مصائب وآلام برداشت کئے ”مااوذی نبی بما اوذیت“ اس راہ میں جو اذیتیں مجھے ملی ہیں وہ کسی نبی کو نہیں ملیں۔ میرے پالنے والے! میں نے تیرا ایک ایک پیغام ان تک پہنچایا۔ ان پر خود عمل کرکے دکھایا، مگر میرے بعد انہوں نے اسے چھوڑ دیا !!
اہل تشیع کی معتبر کتاب ”وسائل الشیعہ“ میں ایک حدیث ہے۔
قال رسول اللہ انا اول وافد علی عزیز الجبار یوم القیامة وکتابہ واہل بیتی ثم امتی ثم اسئلہم ما فعلتم بکتاب اللہ واہلبیتی۔
” آنحضور نے فرمایا! قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں سب سے پہلے اللہ کی کتاب کو لے کر حاضر ہو جاؤں گا، اس کے بعد میری اہل بیت عصمت اور آخر میں میری امت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوگی پھر میں اپنی امت سے پوچھوں گا کہ تم نے کتاب خدا اور میری اہل بیت کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے؟ “
مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ قیامت کا بپا ہونا برحق ہے اور مستقبل میں ہی وقوع پذیر ہو گی۔ لیکن اس آیہ شریفہ میں ”وقال الرسول“ سے تعبیر کیا ہے یعنی ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے جو کہ گذشتہ زمانے میں واقع ہونے والے امور کے ساتھ مخصوص ہے جب کہ قیامت مستقبل میں واقع ہونے والے ایک عمل ہے اسے ماضی کے ساتھ تعبیر کرنے میں ایک خاص نکتہ مضمر ہے۔
جس کی بنیاد پر مستقبل میں ہونے والے اس واقعے کو فعل ماضی کے صیغے میں بیان کیا ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ عربی زبان کے رسالیب میں سے ایک یہ ہے کہ جس امر کامستقبل میں واقع ہونا۔ یقینی ہو، اسے صیغہ ماضی میں بیان کیا جاتا ہے۔ بنابرایں اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ امر حتمی الوقوع ہے، جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش ہیں ہے۔
آیہ شریفہ میں ”قال“ سے تعبیر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی امت کے خلاف آنحضور کا یہ استغاثہ حتماً دائرہو گا جس کے واقع ہونے کے بارے میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔
اب اس بات کی تحقیق کی ضرورت ہے کہ پیغمبر گرامی اسلام جس قوم کے خلاف گلہ فرمائیں گے، وہ قوم ہم امت اسلامیہ ہیں یا کوئی اور قوم ہے؟ کیا امت اسلامیہ ہی ہے جس نے قرآن کو ترک کیاہے؟ آیہ شریفہ میں ”قوی“ کہہ کر قوم کو آنحضور نے اپنی طرف نسبت دی ہے یعنی ”میری امت“ سے تعبیر کیا ہے۔ اسے معلوم ہوتا کہ وہ قوم جس کے خلاف آنحضور شکوہ لے کر بارگاہ الہٰی میں پہنچیں گے وہ ہم ہی ہیں اور اگر اس گلے اور شکوے کو کسی اور قوم یاامت کی طرف نسبت دینا ممکن نہیں ہے تو یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا ہم نے ہی قرآن کو چھوڑ دیا ہے؟ کیا ہم تارک قرآن ہیں؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ قرآن کریم کو کلام اللہ تسلیم کرتے ہوئے ھی۔ اسے چھوڑ دیں؟ ہم اسے آنحضور کا اعجاز تسلیم نہیں کرتے؟ ہم قرآن کے احترام کے قائل نہیں؟ ہم ہمیشہ وضو اور طہارت کے ساتھ اسے نہیں اٹھاتے؟ اور تعظیم و احترام کی خاطر اسے چومتے نہیں؟ کیا اسے دیگر کتابوں کے مقابل امتیازی حیثیت دے کر نفیس غلاف چڑھا کر نہیں رکھتے؟ کیا اپنی اولاد کو پہلا سبق قرآن سے شروع نہیں کراتے؟ جب کوئی مسلمان اس دارفانی سے بقاء کی خاطر رحلت کر جاتا ہے اس کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی نہیں کرتے؟ کیا ہم قرآن کریم کے حفظ میں کوشاں نہیں رہتے؟ کیا امت اسلامیہ کے اندر ایک معتنایہ تعداد میں حفظانِ قرآن کریم نہیں ہیں؟
متذکرہ بالا وہ امور ہیں جنہیں ہم بخوبی انجام دیتے ہیں اگر امت اسلامیہ کا ہر فرد نہیں تو کم از کم ہر گھر میں ان پر ضرور عمل ہوتا ہے۔ لیکن در اصل سوال یہ ہے کہ ارسال رسل اور انزال کتب کا ہدف اور مقصد یہی ہیں؟ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر انہی امور کی خاطر آئے تھے؟ قران کریم کا مقصد صرف اس کے ذریعے فاتحہ پڑھوانا تھا؟ کیا کتاب اللہ ہم سے صرف یہی چاہتی ہے؟ کیا محمد مصطفےٰ خاتم الانبیاء کا ابدی معجزہ صرف انہی چیزوں کا تقاضا کرتا ہے؟ یا آسمانی کتابوں کے نازل کرنے کا مقصد اور ہدف کچھ اور ہیں؟
اگر قرآن کریم کا مقصد صرف یہی ہیں تو ہم سرخرو ہیں کیونکہ ہم ان اعمال کو بطور احسن انجام دیتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نہیں چھوڑا اور اس کے نتیجے میں ہمارے خلاف آنحضور اللہ کی بارگاہ میں شکایت نہیں فرمائیں گے اور ہم تارک قرآن نہیں ہوں گے۔
لیکن اگر یہ اعمال جنہیں ہم انجا دیتے ہیں قرآن کریم کے مقاصد کو پورا نہیں کرتے۔ قرآنی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ یعنی یہ اعمال یا تو اصلاً قرآنی مقاصد میں شامل نہیں ہیں یا اگر شامل ہیں تو یہ سارے مقاصد نہیں کرتے بلکہ قرآن کریم کے اہداف اور ہیں جنہیں ہم نے چھوڑ دیا ہے مثلاً قرآن یہ چاہتا ہے کہ ہم اسے بنی نوع بشر کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر لاگو کریں۔ اسے راہنما تسلیم کریں اور یقینا ہم ایسا نہیں کر رہے ہیں۔ تو اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ ہم ہی وہ بدنصیب امت ہیں جن کے خلاف اسی امت کا رسول شکوہ لے کر بارگاہ، الہٰی میں پہنچیں گے کیونکہ ہ ہی تو ہیں جو اپنے آپ کو امت اسلامیہ یا امت محمد عربی کے لئے ہیں یا امت قرآن نام رکھتے ہیں۔
اگر ہم ہجرانِ قرآن کے حوالے سے دقیق انداز میں جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ امت قرآن کس قدر خود قرآن سے اجنبی یا قرآن سے دوری کا شکار ہے اور قرآن کریم کس قدر مظلوم واقع ہوا ہے اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ قیامت کے دن بارگاہ الہٰی میں ہمارے رسول قرآن کے مظلوم واقع ہونے کے بارے میں ہمارے خلاف شکایت فرمائیں گے۔
اب ہم اس مسئلے کا دقیق جائزہ لینے کے لئے یہ دیکھیں گے کہ مسلمانوں کے مختلف طبقوں نے قرآن کریم کے ساتھ کیا سلوک رکھا ہے۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں: والد بزرگوار نے میرے بچپن میں مجھ سے قرآن کے بارے ایک بات کی تھی جو میرے لئے ایک ناقابل فراموش درس بن گیا تھا۔ اور وہ با یہ تھی انہوں نے فرمایا بیٹا! ”تم قرآن کو اس طرح پڑھا کرو گویا وحی تمہارے اوپر ہی نازل ہوئی ہو“ حقیقت بھی یہی ہے قرآن کو اسی طرح ہی پڑھنا چاہیے اور عملاً اپنے آپ پر لاگو کرنا چاہیے۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عام لوگوں کا قرآن کے ساتھ جو تعلق اور رابطہ ہے وہ یہ ہے کہ امت اسلامیہ کے بہت کم لوگ ہیں جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور کچھ لوگ تلاوت کرتے بھی ہیں تو سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے اور اگر سمجھتے ہیں تو عمل کے مرحلے میں آکر چند فیصد ہی رہ جاتے ہیں۔
یسمع آیت اللہ تتلی علیہ ثم یصر مستکبراً کان لم سیمعہا فبشرہ بعذاب الیم۔ (الجاثیة: ۸ )
” وہ اللہ کی آیتوں کو جو اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں سن تو لیتا ہے پھر تکبر کے ساتھ ضد کرتا ہے گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں۔ سو اسے درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے “
اگرچہ یہ آیت کفار کے بارے میں ہے لیکن مسلمان بھی اس کے مصداق بن سکتے ہیں جو یا تو قرآن پڑھتے یا سنتے ہی نہیں اور اگر سنتے بھی ہیں تو عمل نہیں کرتے۔
مسلمانو کے ہاتھوں قرآن کریم اس قدر مظلوم واقع ہوا ہے کہ جس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے لوگوں کی زندگی یوں ہی گز جاتی ہے کہ جن کا بھولے سے بھی قرآن کے ساتھ تعلق یا واسطہ نہیں پڑتا۔ قرآن کو صرف اس وقت بڑے اہتمام سے لایا جاتا ہے جب انسان کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو جاتی ہیں جب پانی سر سے گز جاتا ہے یا گویا امتحانی سنٹر سے صاف اور کورا جوابی کاغذ صرف نام نمبر لکھ کر ممتحن کے حوالے کر دیتا ہے تو نصاب کی کتاب کی زیارت کیلئے لاتا ہے۔ جب مسلمان مر جاتا ہے تو اسے قرآن کی اور قرآن کو اس کی زیارت نصیب ہوتی ہے ایک دو دن دوسرے لوگ اس پر فاتحہ پڑھتے ہیں اس کے بعد قرآن کا کام ختم ہو جاتا ہے۔
سب کا خیال یہی ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے لہذا اسے تعویز کے طور پر آفات و بلیات سے بچنے کے لئے اپنے ساتھ یا گھر میں رکھنا ضروری ہے ان کے نذدیک قرآن کا اگر کوئی مقصد ہے تو صرف یہی ہے کہ امیر المومنین نے یوں جہاں فرمایا ہے :
انہ سیئاتی علیکم من بعدی زمان لیس فیہ شیء اخفی من الحق والا اظہر من الباطل والکتاب واہلہ فی ذلک الزمان فی الناس ولیسافیہم ومعہم ولیسامعہم۔ لان انضلالة لا توافق الہدی وان اجتمعا اجتمع القوم علی الفرقة او فترقوا علی الجماعة کانہم ائمة الکتاب ولیس الکتاب امامہم فلم یبق عندہم منہ الا اسمہ ولا یعرفون الا خطہ وزیرہ۔ (نہج البلاغہ خطبہ: ۱۴۷ )
” میرے بعد تم پر ایک ایسا دور آنے والا ہے کہ جس میں حق بہت پوشیدہ اور باطل بہت نمایاں ہو گا اور اللہ و رسول پر افتراء پردازی کا دور دورہ ہوگا ان کے نزدیک قرآن سے بے قیمت کوئی چیز نہ ہو گی جب کہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسے پیش کرنے کا حق ہے اور اس قرآن سے مقبول اور قسمیں کوئی چیزنہیں ہوگی جب اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے اور (ان کے) شہروں میں نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی نہیں ہو گی۔ چنانچہ قرآن کا بار باراٹھانے والے اسے پھینک کر الگ کریں گے اور حفظ کرنے والے اسکی (تعلیم) بھلا بیٹھیں گے قرآن اور قرآن والے (اہل بیت) بے گھروبے در ہوں گے اور ایک راہ میں ایک دوسرے کے ساتھی ہوں گے انہیں پناہ دینے والا کوئی نہ ہوگا وہ بظاہر لوگوں میں ہوں گے مگر ان سے الگ تھلگ ان کے ساتھ ہوں گ۔ مگر بے تعلق اس لئے کہ گمراہی ہدایت سے سازگار نہیں ہو سکتی اگرچہ وہ یکجاہوں۔ لوگوں نے تفرقہ بازی پر اتفاق کر لیا ہے جماعت سے کٹ گئے ہیں گویا ہم وہ قرآن کے پیشوا ہیں اور قرآن ان کی پیشوا نہیں۔ ان کے پاس تو قرآن کا صرف نام باقی رہ گیا ہے اور صرف اس کے خطوط ونقوش کو پہچان سکتے ہیں۔
ہم مسلمان ہیں اور قرآن کریم ہماری اپنی آسمانی کتاب ہونے کے ناطے اس کا سیکھنا ضروری ہے کیونکہ جب تک کسی چیز کے بارے میں مکمل علم نہ ہو اس پر عمل کرنا ناممکن ہے عمل کے لئے علم زینہ ہے اور اس مرحلے سے گزر کر ہی انسان عمل کے مرحلے تک پہنچ سکتا ہے قرآن کریم کی تلاوت، اس کا سمجھنا، اس کی آیات میں تدبر کرنا اہمیت کا حامل ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں مطلوب ہے۔
اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے معصوم کا فرمان ہے :
من مات من اولیا ئنا وشیعتنا لم یحسن القرآن علم فی قبرہ یرفع اللہ فیہ درجتہ فان درجات الجنة علی قدر عدد آیات القرآن فیقال لقاء القرآن اقراء وارق۔
” ہمارے چاہنے والے اور شیعوں میں سے کوئی مر جائے اور اسے قرآن پڑھنا نہ آتا ہو، قبر میں ہی قرآن کی تعلیم دی جائے گی تاکہ اس کے درجات میں اضافہ ہو جائے کیونکہ جنت میں کسی کو اتنے درجات نصیب ہوں گے جتنی اسے آیات قرآن یاد ہوں گے قاری قرآن سے جنت میں کہا جائے گا۔ قرآن پڑھتے جاؤ اور بلند سے بلند تر مقام حاصل کرتے جاؤ۔ “
آنحضور کا فرمان ہے :
خیرکم من تعلم القرآن وعلیہم۔
” تم میں سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی اور دوسروں کو قرآن کی تعلیم دی “
ایک اور مقام پر فرمایا :
اذا احب احدکم ان یحدث ربہ فلیقرأ القرآن۔ (کنز )
” تم میں سے کوئی اپنے رب سے ہم کلام ہونا چاہے تو قرآن کی تلاوت کرے “
ایسا لگتا ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نزدیک قرآن کریم کی جتنی اہمیت ہے اور جتنا ارفع مقام ہے اتنا ہی مسلمان قرآن سے اجنبی یا دور ہیں۔ امیرالمومنین نے آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم کے بارے میں جو پیشین گوئی فرمائی جس کا ذکر پہلے ہو چکا سچ ہو کرسامنے آئی ہے آپ فرماتے ہیں :
الگ زمانہ آئے گا جس میں قرآن مسلمانوں کے درمیان ہو گا لیکن قرآن ان سے بے گانہ ہو گا قرآن ان کا راہنما نہیں ہو گا بلکہ وہ خود قرآن کی راہنمائی کریں گے اور آخرکار ان لوگوں کے ہاں قرآن کا صرف نام اور ظاہری خطوط یعنی زیروزبر کے سوا کچھ نہیں رہے گا“ یقینا یہی حالت قرآن کی آج ہے قرآن کے اصل مقاصد بھولے جا چکے ہیں فقط رسم باقی ہے عمل چھوڑا جا چکا ہے لیکن زبانی جمع خرچ زیادہ ہوتا ہے کچھ لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور ان آیات کی بڑی خوش امتحانی کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے: جھوٹ نہ بولو، ظلم نہ کرو، فساد مت پھیلاؤ، غیبت نہ کرو، شراب نہ پیو، رشوت نہ کھاؤ، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھو، مال حرام مت کھاؤ، دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ مت ڈالو، اور چونکہ یہ قاری قرآن ان تمام مہینات پر اپنی زندگی میں عمل کرتا ہے اور ان واجبات کو ترک کر دیتا ہے جنہیں قرآن نے صراحت کے ساتھ واجب قرار دیا ہے تو قرآن کریم اس پر لعنت بھیجتا ہے قرآن کریم کو زبان حال یہ ہے کہ یہ قاری میرے ساتھ مذاق کرتا ہے، میرے ساتھ مذاق کرتا ہے، میرے احکامات کو پڑھتا ہے مگر عمل اس کے برخلاف کرتا ہے حدیث میں آیا ہے اور یہ حدیث انہیں لوگوں کے بارے میں بتار ہی ہے۔
” رب قال القرآن یلعنہ“ کتنے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے ہوتے ہیں اور قرآن کریم ان پر لعنت بھیجتا ہے۔
اس لعنت کا اصل سبب قرآن کریم کی عملی مخالفت اللہ اور اللہ کے رسول کی مخالفت ہے اور صرف ظاہری طور پر قرآن کی تلاوت کرنا اور عملاً آیات قرآنی کی مخالفت کرنا اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ منافقانہ رویہ اختیار کرنے کی مترادف ہے اور یہ منافقت کی نشانی ہے۔
قرآن کریم نوع بشر کے لئے ہدایت تامہ اور روحانی امراض کے لئے مسیحاء ہے قرآن کریم کا اصل فلسفہ وجود ہی یہی ہے کہ انسان کو اس راستے پر گامزن رکھے جس پر چل کر انسان معنوی، روحانی اور حقیقی تکامل کے مراحل طے کرتے ہوئے اپنے معبود حقیقی سے جا ملے۔
لا ہدی الی الحق والی صراط مستقیم۔
” قرآن وہ کتاب ہے جو حق اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتی ہے “
نوع بشر کو اللہ تعالیٰ نے عقل جیسی باطنی رسول اور نعمت عطا کی ہے، جس کے اندر بے انتہا صلاحیتیں رکھی ہوئی ہیں سائنسی اسرار در نور کے انکشاف کی قدرت اور صلاحیت اس میں موجود ہے اور انہی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سرکش فطرت کو اپنے قبضے میں لے کر اس کے اندر موجود مخفی امکانات کو انسانوں کی مادی فلاح وبہبود کے لئے استعمال کیا ہے اگرچہ قرآن کریم ایک سائنسی کتاب نہیں بلکہ کتاب ہدایت ہے عقل انسانی کو فطرت کے سر بستہ رازوں کے انکشاف کے لئے مامور کیا گیا ہے اور وہی انسان کے لئے کافی ہونا چاہیے تاکہ قرآن کریم نے آج سے ۱۴ سو سال پہلے ایسے سائنسی حقائق اور اسراورموز کی طرف اشارہ کیا جو سائنسی نکتہ نگاہ سے بھی درست ثابت ہوئے ہیں ہم ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کریں گے۔ مندرجہ ذیل آیات پر غوروخوض کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب اور معجزہ ہے کہ جس میں ایسے اسرار ورموز بیان ہوئے جن کے بارے میں آج سے ۱۴ سو سال پہلے علم حاصل کرنا بعید نظر آتا تھا۔ البتہ سائنسی ترقی اور بیش رفت کے ساتھ ساتھ انسانوں نے ان اشیاء کے بارے میں ایسی معلومات حاصل کی ہی جنہیں سائنسدان اپنے کارناموں میں شمار کرتے ہیں وحالانکہ قرآن کریم نے انہی اسرار ورموز کافی عرصہ پہلے جزیرة العرب جیسی فضاء میں کہ جہاں ہر طرف جہالت اور تاریکی پھیلی ہوئی تھی بتادیا تھا۔
۱۔ انہی آیات کریمہ میں سے ایک یہ ہے کہ جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آسمان یعنی بلندی کی طرف ہوا موجود نہیں ہے اگر انسان زیادہ اوپر جائے تو آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے دم گھٹ جاتا ہے اس قسم کے حادثات کے احتمال کے پیش نظر آج کل ہوائی جہازوں میں مصنوعی آکسیجن کا انتظام کیا ہوا ہوتا ہے نزول قرآن کے زمانے میں نہ اس حدتک بلندی پر جانے کا تصور ہو سکتا تھا اور نہ ہی گیس کی اقسام کے بارے علم۔ لیکن آیتہ شریفہ یہ بتاتی ہے۔
” فمن یرو اللہ ان یہدیہ بشرح صدرہ الاسلام ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقاً حرجاً کا نحا یصعد فی السماء “
میں (یہ حقیقت ہے کہ) جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ تنگ گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہو۔ (الانعام:؟ )
س۔ سائنسی اعتبار سے یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ انسان کے جسم پر زخم کی وجہ سے مدد جلن، سردی، گرمی، نرمی، کھردرا پن املائمت کا احساس ان اعصاب میں پایا جاتا ہے جو انسان کے جلد کے اندر ہیں بعبارت دیگر دو دوالم کے احساس کرنے والے اعضاء صرف جلد کے اندر موجود ہیں جلد سے قطع نظر گوشت کے اندر کسی قسم کا احساس موجود نہیں ہے تقریباً ہم سب انجکشن کے تجربے سے گزرے ہیں کہ جب سوئی جلد سے گزرتی ہے تو درد کا احساس ہوتا ہے اور جب گوشت سے گزرتا ہے تو کسی درد کا احساس نہیں ہوتا یہی چیز ہم اس آیہ شریفہ کے ضمن میں سمجھ سکتے ہیں۔
ان الذین کفروا بایا تنا سوف نعلیہم ناراہ کلما نضجت جلووہم بدلنا ہم جلوداً غیرہا لیذوقوالعذاب ان اللہ کان عزیزاً حکیما۔ (النساء: ۵۶ )
” جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا ہے انہیں ہم یقینا آگ میں ڈالیں گے اور ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کریں گے تاکہ ہو عذاب کا مزہ اچھی طرح چکھ سکیں بے شک اللہ بڑی قدرت رکھنے والا ہے اور اپنے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی خوب حکمت جانتا ہے “
گنہگاروں کے لئے یہ عذاب ناقابل تصور حد تک مشکل اور سخت ہے کیونکہ انسان جہنم میں جانے کے بعد نہ شدت درد سے مرجاتا ہے کہ مرکرہی اس عذاب سے نجات مل جائے اور نہ ہی اس ہولناک درد ہی افاقے کا امکان ہے کیونکہ ہر آن جلتا ہے ۔ راکھ بنتا ہے گل سٹر جاتا ہے تو تازہ کھال چڑھایا جاتا ہے تاکہ درد کھلے عروج اورتسلسل میں کوئی خلل نہ آئے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا درد کے تسلسل کو باقی رکھنے کے لئے تازہ کھال چڑھائے جانے کا ذکر ہوا ہے۔
۳۔ درج ذیل آیات کو مجموعاً ملاحظہ کیجئے۔
فانبتنا فیہا من کل زوج کریم (لقمان: ۱۰ )
” پس ہم نے زمین پودوں اور نباتات کے اچھے جوڑے لگائے “
دوسری جگہ فرمایا !
ومن کل الثمرات جعل فیہا زوجین اثنین۔
” اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کئے “
تیسری جگہ فرمایا !
سبحان الذی خلق الازواج کلہا مما تنبت الارض ومن انفسہم وفما لا یعلمون (یٰسین: ۳۶ )
” پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے بنائے خواہ وہ زمین کے نباتات میں سے ہو یا اپنی جنس (نوع انسانی) یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں “
مندرجہ بالا آیتوں سے یہ معلوم ہوا کہ ہر چیز کے جوڑے ہوتے ہیں یعنی نر اور مادہ ہوتے ہیں قرآن مجید نے واضح طورپر بیان کیا ہے کہ نباتات میں بھی نر مادہ ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں نے بڑی تحقیق کے بعد ثابت کیاہے کہ پودوں کے بھی جوڑے ہوتے ہیں بلکہ ایک ہی پودے کے ایک ہی پھول کے اندر دو ڈنڈیاں ہوتی ہیں جن میں سے ایک نر اور دوسری مادہ ہوتی ہے۔ ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا نر مادے کا ہونا کافی ہے؟ یاان میں ملاپ بھی ضروری ہے تاکہ یہ موجود بارآور ہو جائے۔ سائنس نے ثابت کیا ہے کہ نباتات اور درختوں کے بارآور ہونے کیلئے ان کا ملاپ ضروری ہے اور نباتات میں یہ عمل ممکن نہیں ہے اس لئے ان میں ملاپ کے لئے کچھ دیگر ذرائع رکھ دیئے ہیں ان میں سے ایک وہ ہے جسے حضرات بے فائدہ مخلوق سمجھتے ہیں حشرات اور پرندے جیسے مکھی تتلی، بھڑ، اور پرندے پودوں کے پھول کی نر ڈنڈی کے اوپر موجود سفوف ذرات۔۔۔۔۔؟ کو اپنے ساتھ لے کر مادہ ڈنڈی کی طرف جاتے ہیں یوں ان کی ٹانگوں پروں اور جسموں کے ساتھ لگے ہوئے ذرات مادہ تک پہنچ جاتے ہیں اور پودا اسی سے بارآور ہو جاتا ہے۔ گویا یہی ان کا ملاپ ہے ایک اور طریقے کو سائنس نے انکشاف کیا ہے وہ ہوا کی حرکت ہے جب ہوا چلتی ہے تو نر اور مادہ پھول کے اندر موجود ذرات ہوا کے ذریعے ایک دوسرے تک پہنچ جاتے ہیں جس کے نیچے ہی یہ پھول یا پودا بارآور ہو جاتا ہے یہی طریقہ ملاپ ہے اور یوں پودے اور نباتات انہی نسل برقرار رکھتے ہیں حیران کن بات یہ ہے قرآن کریم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
وارسلنا الریاح لواقح (حجر: ۲۲ )
” ہم نے بارآور کر دینے والی ہوائیں چلائیں “
قرآن مجید نے جس راز کو آج سے ۱۴ سو سال پہلے بتا دیا ہے سائنس نے اسے صرف دو سال پہلے کشف کیا ہے۔
۴۔ أیحسب الانسان ان لس مجمع عظامہ بلی قادرین علی ان انسوی بنانہ (قیامة:۲۰۱ )
” کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم (قیامت کے دن) ان کی ہڈیوں کو جوڑنے پر قادر نہیں (ان ہڈیوں کا جوڑنا کوئی مشکل نہیں) بلکہ ہم اس پر (بھی) قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کی پوروں تک درست کریں “
خالق کائنات کی ساری مخلوقات میں سے صرف انگلیوں کے اندر ایک ایسی خصوصیت رکھی ہے جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کردیتی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے منکرین قیامت نیز انسان کی گلی سڑی ہڈیوں کو دوبارہ جمع کرنے پر اللہ سبحانہ کی قدرت کے انکار کرنے والوں کے جواب میں فرمایا ہے۔ ہڈیوں کا جمع کرنا تو کوئی مشکل نہیں ہم تو ان کی انگلیوں کو بھی اسی حالت میں لے آئیں گے جس میں وہ پہلے تھیں۔ انگلی کی خصوصیت کیا ہے جس کی وجہ سے اس کا دوبارہ وجود میں یا اسی حالت میں لے آنا کسی کے لئے مشکل ہو۔
دراصل اسکی خصوصیت وہ لکیریں ہیں جو انگلی کے پوروں میں ہوتی ہیں اور ان لکیروں کے اندر جو حیران کن بات ہے وہ یہ ہے کہ تمام انسانوں کے ہاتھوں کی لکیریں ایک دوسرے سے نہیں ملتیں۔ یعنی ہر ایک دوسرے سے مختلف ہے یہ بات قابل فہم ہے کہ کسی فنکار کے لئے، یا کارخانہ دار کے لئے ایک جیسی چیزیں بنانا آسان ہے، جس طرح سے گاڑیوں کا کارخانہ ایک ہی ماڈل کی گاڑیاں بناتا ہے اور کم از کم ایک سال بعد ماڈل تبدیل کرکے پھر ایک جیسے لاکھوں گاڑیاں بناتا ہے اگر ان سے ہر ضرورت مند ایک خاص ماڈل کا مطالعبہ کرے اور ہر گاڑی کا ماڈل رنگ شکل اور دیگر خصوصیات مختلف ہو تو یہ ان کی قدرت سے باہر ہو گی۔ اسی لئے کسی فنکار یا ہنر مند شخص کیلئے ایک جیسی چیزیں بنانا آسان ہے مگر ہر چیز الگ خصوصیت کی حامل ہو یہ ذرا مشکل کام ہے اس کا ہنر اس کا فن یہاں جواب دے دے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کسی انسان کی انگلی دوسرے کی انگلی سے نہیں ملتی اور ہر انگلی کی خاص خصوصیت ہے لہذا اتنی تعداد میں مختلف اور متنوع چیز بنانا اپنی جگہ مشکل اور عادةً انسان کے لئے محال ہے لیکن یہ کام اللہ کے لئے آسان ہے اور ہماری انگلیوں کی خلقت اس بات کی دلیل ہے۔
آپ کو معلوم ہوگا انگلیوں کے پوروں کا مختلف ہونا جراثیم کی دنیا میں پولیس اور تحقیقاتی اداروں کے لئے نیز دیگر ضروری اسناد کے حوالے سے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے آج کی جراثیم کی دنیا میں (Finger Print) انکشاف جرائم، اسناد، دفتری امور میں اسے استفادہ کیا جاتا ہے اور حتی کہ یہ سننے میں آیا ہے کہ بعض ترقی یافتہ ممالک میں دستخط کی بجائے ضروری اسناد پر انگوٹھا ہی لگوایا جاتا ہے تاکہ اسناد میں کسی قسم کی ہیر پھیر نہ کی جا سکے۔ اگرچہ ہمارے ہاں انگوٹھا لگوانا جہالت کی نشانی ہے اور یقینا انگلی کے اندر موجود خدا کی لازوال قدرت کی نشانی کا علم نہ ہونا یقینا جہالت کی نشانی ہے۔
۵۔ یاایہا الناس ضرب مثل فاستمعوا لہ ان الذین تدعون من دون اللہ لن یخلقواذ بابا ولو اجتمعوا وان یلبہم الذباب شیئاً لا یستنقذوہ منہ ضعف الطالب والمطلوب ما قدر واللہ حق قدرہ ان اللہ لقوی عزیز ۔
” اے لوگو! عجیب بات یہا ں کی جاتی ہے کان لگا کر سن لو(یہ وہ ہے کہ) اس میں کوئی شک نہیں کہ جن کی تم لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ ایک (ادنی) مکھی کو تو پیدا نہیں کر سکتے گو( سب کے سب بھی کیوں نہ) جمع ہو جائیں اور (پیدا کرنا تو بڑی بات ہے وہ اسے عاجز ہیں کہ) اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو اسے چھڑا بھی نہیں سکتے “
تہران میں شائع ہونے والے ایک علمی مجلہ ”یدنیہا“ میں لوگوں سے یہ سوال لکھا گیا تھا کہ وہ کون سا عمل ہے جس کے انجام دینے سے سائنس عاجز ہے؟ جواب میں لکھا گیا تھا کہ سائنس دانوں کے لئے یہ بات یا یہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ایک چھوٹی مخلوق یعنی مکھی کا نظام ہاضمہ ایسا ہے کہ اگر مکھی کسی چیز کو اپنے میں اٹھا لے تو اے دوبارہ اسی حالت میں حاصل کرنا ناممکن ہے کیونکہ اس کا نظام ہاضمہ میں عمل ہضم اس قدر تی ہے کہ حاصل کردہ غذا کو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ہضم کرکے تحلیل کر دیتی ہے۔
قرآن کریم کا مقصد اور نصب العین نوع بشر کی ہدایت اور معنوی تکامل ہے۔ قرآن کوئی سائنسی کتاب نہیں ہے کہ جس میں فزکس، کیمسٹری، فلکیات وغیرہ سے بحث کی جائے یا سائنسی نظریات بیان کئے جائیں تاہم قرآن مجید نے بعض موارد میں اس کائنات اور اس کے اندر موجود اسرار وروموز کی طرف اشارہ بھی کیا ہے ان میں سے چند موارد کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ کہ یہ کائنات اور اس کے اندر موجود ساری موجودات (کتاب تکوین) بھی اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ہیں اور قرآن کریم نے کتاب تکوین کی مطالعے اور غوروفکر کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے کائنات اور تمام مخلوقات کے اندر غوروفکر سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور پیشرفت کا ضامن ہے وہ آیات جن میں مظاہر فطرت کی تحقیق اور مطالعے کی دعوت دی گئی ہے ان میں سے بعض آیات درج ذیل ہیں۔
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقُ (عنکبوت: ۲۰ )
” آپ ان لوگوں سے کہیں کہ تم لوگ زمین پر چلو پھرو اور دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے مخلوق کو کس طرح ابتداء سے خلق کیا “
قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (یونس: ۱۰۱ )
آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو اور دیکھو کیا کیا چیزیں ہیں آسمانوں اور زمینوں میں “
فَلْیَنْظُرِ الاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (طارق: ۵ )
دیکھنا چاہیے کہ انسان کو کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے “
وَاِلَی السَّمَآءِ کَیْفَ رُفِعَتْ o وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ o وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ o فَذَکِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرٌ o لَسْتَ عَلَیْہِمْ ِمُصَیْطِرٍ o اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ o فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ o اِنَّ اِلَیْنَا اِیَابَہُمْ o ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ o ( الغاشیہ: ۱۷،۲۶ )
” کیا اونٹ کو نہں دیکھتے کہ کس طرح عجیب طور پر خلق کیا گیا ہے اور آسمانوں کو نہیں دیکھتے کیونکر بلند کئے گئے اور پہاڑوں کی طرف، کہ وہ کیونکر گاڑے گئے اور زمین کی طرف، کہ اسے کس لئے بچھائی گئی ہے غرض یہ ہے کہ قرآن مجید میں جا بجا مطالعہ فطرت کی دعوت دی جا رہی ہے ایک تحقیق کے مطابق ۷۵۰ سے زیادہ آیات میں کائنات اور مخلوقات خداوندی کے بارے میں غورو فکر کرنے، تحقیق و مطالعہ کی تاکید کی گئی ہے ۔ “
مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ کائنات اور مظاہر فطرت کے بارے میں تحقیق کرنا اور ان تحقیقات کے نتیجے میں مختلف علوم کو پروان چڑھانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ آسمانوں کے مطالعے کی دی گئی ہے اگر اس موضوع پر تحقیق کرتے تو علم نجوم وفلکیات وجود میں آتے، زمین کے مطالعے کی دعوت سے علم الارض وجود میں آتا۔ جانوروں کے مطالعے سے علم الحیوان وجود میں آتا، اسی طرح سے سینکڑوں موضوعات ہیں جن میں تحقیق، غوروفکر کی براہ راست دعوت دی گئی ہے عقل وفکر کو بروئے کار لانے کا حکم دیا ہے۔ بنابریں ان آیات کی روشنی میں مسلمانوں کا یہ فریضہ بنتا تھا کہ وہ خالق کائنات کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس کائنات کی مطالعے میں لگ جاتے اور جس کے نتیجے میں تمام اختراعات ایجادات اور انکشافات کے مالک مسلمان ہوتے۔ جدید سے جدید ترین ٹیکنالوجی مسلمانوں کی طرف سے یورپ میں صادر ہوئے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمان انہی آسمانی کتاب کی تعلیمات سے منہ موڑ لینے کی وجہ سے صورت حال اس کے برعکس ہو گیا ہے۔
غیروں نے اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ترقی وتمدن کا سہرا اپنے سر پر سجا لیا اور مسلمان قرآنی تعلیمات کی طرف سے عدم توجہ کی وجہ سے پسماندگی کا شکار ہوگئے۔ احساس کمتری میں مبتلا ہو گئے۔ سائنسی پیشرفت اور ٹیکنالوجی میں اہل یورپ کے دست نگر بن گئے۔ جس کے نتیجے میں سیاسی اقتصادی دیگر امور می فیصلوں کے حق سے محروم ہو گئے۔ اپنے جائز اور بنیادی حقوق کے لئے ان کے آگے جھولی پھیلانے پر مجبور ہوئے۔ سیاسی، اقتصادی خودمختاری ان سے چھن گئی۔
امیر المومنین نے اس خطرے کی نشاندہی کر دی تھی۔ فرمایا :
اللّٰہ اللّٰہ فی القرآن لا یبقکم بالعمل بہ غیرکم۔ (نہج البلاغہ: ۴۷ )
” قرآن کے بارے میں ڈرتے رہنا ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں “
وکان من آیاتہ فی السموٰت والارض یمرون علیہا وہم عنہا معرضون۔ (یوسف: ۱۰۵ )
” اور بہت سی نشانیاں ہیں آسمانوں میں اور زمین میں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے “
مسلمان آج جس ذلت اور خواری میں مبتلا ہیں اس کا اصل سبب قرآن سے ان کا رشتہ اور تعلق کا ہ ہونا ہے ترقی کی دوڑ میں مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کا اصل سبب ان کے قرآن کے ساتھ ریاکاری ہے کیونکہ مسلمان زبانی طور پر قرآن کو بڑی اہمیت دیتے ہیں لیکن عمل کے میدان میں قرآن کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔
رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای سے اس موضوع کے بارے میں پڑھئیے۔
” ذرا مسلمانوں کی عملی زندگی کی طرف توجہ کیجئے ان کا قرآن کے ساتھ کیا رشتہ ہے کیا آپ کو مسلمانوں کی سیاسی اداروں میں قرآن کی معمولی جھلک نظر آتی ہے؟ کیا مسلمانوں کے اقتصادی اداروں میں اور ان کے اقتصادی مذاہب میں قرآن کی خوشبو ہے؟ کیا مسلمان اپنے بھائیوں کے ساتھ روابط کے حوالے سے قرآن سے رجوع کرتے ہیں؟ اور مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ کیسا رابطہ ہونا چاہیے اس کے بارے میں قرآن سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں؟ کیا ان کی یونیورسٹیوں ، کالجوں اور سکولوں میں قرآن کے لئے کوئی مقام ہے؟ کیا اسلامی ممالک غیر مسلم ممالک کے ساتھ روابط اور دوستی قائم کرتے وقت قرآنی اصولوں کا خیال رکھتے ہیں؟ کیا مسلمان قومی دولت وثروت کو قوم کے مختلف طبقوں میں تقسیم کے طریقہ کار کے بارے میں قرآن سے راہنمائی لیتے ہیں؟ کیا ہمارے حکمران رفتار کردار، اخلاق، رہن سہن، محافل ومجالس میں قرآنی احکام پر کاربند نظر آتے ہیں؟ کیا مسلمان حکمرانوں کی نجی زندگی میں قرآن کا کوئی حص ہے؟ ہمیں اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے کہ جتنا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ نے قرآن سے تمسک کرنے اور قرآنی سانچے میں ڈھلنے کی تاکید فرمائی ہے اتنا ہی مسلمان قرآن سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں “
” آج سے سو سال قبل عظیم مصلح اور مفکر اسلام سید جمال الدین افغانی اس بات پر خون کے آنسو روتے تھے کہ نام نہاد مسلمانوں نے قرآن کے ساتھ کیا کیا ظلم روا رکھا ہے، کیونکہ اسے اصل مقصد سے ہٹا کر گفٹ کے طور پر دینے، لائبریریوں کی زینت بنانے، قبور پر فاتحہ خوانی کے کام میں لایا جاتا ہے اور آخر کار طاق نسیان میں نفیس غلاف چڑھا کر رکھ دیا جاتا ہے “
مفسر کبیر علامہ محمد حسین طباطبائی نے قیل کی طرف نسبت دیتے ہوئے فرمایا :
ان اہل السنة اخذ والکتاب وترکوا العترة وترکوا الکتاب لقول النبی انہما یفترفا وان الشیعہ اخذوا العترة وترکوا الکتاب قال ذلک من ہم الی ترک العترة لقولہ ان ہما لس یفترفا فترکت الامة الکتاب والعترة معاً۔
” اس پیرا گراف کا مفہوم یہ ہے کہ اہل سنت نے قرآن کو اخذ کیا اور عترت رسول کو ترک کر دیا، جس کے نتیجے میں دامن قرآن بھی ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئی کیونکہ آنحضور نے فرمایا تھا کہ یہ دونوں (قرآن وعترت) کبھی جدا نہیں ہوں گے اور شیعہ حضرات نے عترت رسول کو لیا اور قرآن کو چھوڑ دیا اس کے نتیجے میں ان کے ہاتھ سے عترت رسول کا دامن بھی چھوٹ گیا کیونکہ آنحضور نے فرمایا تھا کہ یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے۔ بنابرایں اس طرح سے گویا پوری امت مسلمہ نے قرآن اور عترت دونوں کو چھوڑ دیا ہے “
یہ یاد رہے کہ مندرجہ بالا مطالب کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں نے قرآن وعترت کا انکار کیا کیونکہ نہ ہی اہل سنت مقام وشرف وعظمت اہل بیت اطہار کے منکر ہیں اور نہ شیعہ کلام اللہ مجدی کے (نعوذ باللہ) منکر ہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے۔ بلکہ یہ دونوں جنہیں رسول اللہ نے ثقل اصغر اور ثقل اکبر سے تعبیر کیا تھا اور دونوں کے ساتھ بیک وقت متمسک رہنے کی بہت تاکید فرمائی تھی اسے مسلمانوں نے فراموش کر دیا ہے اور ان دونوں کو مسلمانوں کے نذدیک جو مقام ملنا چاہیے تھا وہ نہیں ملا اور مسلمانوں نے ان کا حق ادا نہیں کیا، شیعہ میں سے بعض حضرات مجالس ومحافل پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور ان سے جو کچھ سننے کو ملتا ہے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ ان کی مثال اس مریض کی سی ہے جو حاذق ڈاکٹر کو تلاش کرنے میں تو کامیاب ہو تے ہیں مگر اس کے نسخوں کو کام میں نہیں لاتے۔ جب تک معصومین کے فرامین پر عمل پیرا نہیں ہوں گے وہ نہ قرآن کا حق ادا کرسکتے ہیں اور نہ اہل بیت اطہار کا اور اہل سنت کی مثال اس مریض کی سی ہے جو طبیب کی تلاش میں دور دور کی مسافت طے کرکے اس طبیب سے رجوع کرتا ہے جو کہ راسخون فی العلم نہیں ہے۔ بنابر ایں دونوں کے مرض میں افاقہ کا امکان نہیں ہے۔
امیرالمومنین امام زمانہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
یحیی میت من الکتاب والسنة۔
” وہ (امام زمانہ) جب ظہور فرمائے گا آپ مردہ قرآن وسنت کی احیاء فرمائیں گے “
رسول اللہ فرماتے ہیں :
انہ شافع مشفع وماحل مصدق
” قرآن شفاعت کرے گا تو اس کی شفاعت قبول کی جائے گی (اس کے بارے میں جو اس پر عمل کرے گا)اور قرآن لوگوں کی برائیوں کے بارے میں بھی بتائے گا تو اس کی تصدیق کی جائے گی “
جان ژاک روسو :
فرانس کے ایک مشہور دانشور کہتے ہیں: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اے قرآن لانے والے، آوٴ ہمارے ہاتھوں کو تھام لو، باغ، چمن، صحرا وبیاباں جہاں تو چاہے لے جاؤ، اگر تو ہمیں بلا اور مصائب کے سمندر میں لے جاؤ تو بھی ہم تیار ہیں کیونکہ تو ہماری زندگی وحیات کے بارے میں خوب جانتا ہے “
پرنس جاپانی بودگیز :
اسٹالب کے ایک موٴرخ لکھتے ہیں :
” جونہی مسلمانوں نے قرآن کی پیروی اس کا مطالعہ اور اس کے قوانین پر عمل پیرا ہونے میں سستی کی ہے سعادت اور خوش بختی جہان بانی اور ریاست کا فرشتہ ان سے دور ہو گیا ہے اور وہ عزت، قدرت، خوشحالی اور عظمت اور بندگی نے لی ہے اور دشمنوں نے ان کے معاشرے کے گرد گھیرا تنگ کیا اور آج اس ناگفتہ بہ حالت میں لا کھڑا کر دیا ہے “
واکسٹن آف اسکاٹ لینڈ :
کافی عرصے سے حقیقت کی تلاش تھی یہاں تک کہ اس حقیقت کو میں نے اسلام کے اندر پایا، پھر قرآن کو پایا اس کا مطالعہ شروع کیا، یہی قرآن ہی تو ہے جس نے میرے ذہب میں ابھرنے والے تمام سوالوں کا جواب دیا قرآن کی خصوصیت یہ ہے کہ انسان کے دل میں خوف خدا جانگزین کرتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ جو کچھ اس میں تحریر ہے وہ صحیح ہے۔
فرانس کے سابق مقتدر بادشاہ ناپلیئون :
کہتے ہیں کہ :
” صرف اور صرف قرآن بشر کی سعادت کا ضامن ہے میں امیدوار ہوں کہ وہ زمانہ دور نہیں کہ میں پوری دنیا کے دانشمندوں کو متحد کروں اور ایک ہم آہنگ نظام قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصولوں پر مبنی نظام دنیا میں رائج کر کے انسانیت کو سعادت اور خوش بختی کی طرف راہنمائی کروں “
ہنری کاربن :
فرانس کے ایک مشہور فلسفی کاکہنا ہے :
اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افکار خرافات ہوتے اور قرآن وحی نہ ہوتی تو بشر کو علم ومعرفت کی دعوت ہر گز نہ دیتے۔ کسی انسان یا کسی مکتب نے محمد اور قرآن کی طرح علم ومعرفت کی طرف دعوت نہیں دی قرآن میں ۹۵۰ مرتبہ علم وفکر وتعقل کے بارے میں گفتگو موجود ہے “
بقول علامہ اقبال :
نقش قرآن در این عالم نشست
نقشہائے کانہاں تاپا شکست
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتاب نیست چیزی دگر است
چوں بجاں رفت جان دگر شود
جان چو دگر شد جہاں دگر شود
۱۔ قرآن مجید
۲۔ نہج البلاغہ
۳۔ بحارالانوار
۴۔ کنزالعمال
۵۔ آشنائی با واژہ ہائے قرآن
۶۔ وسائل الشیعہ