اس میں مندرجہ ذیل سورتیں شامل ہیں
۱ ۔ سورہ حمد ۲ ۔ سورہ بقرہ
سورہ حمد : مکی سورت ہے اور اس کی سات آیات ہیں
سورہ بقرہ : مدنی سورت ہے اور اس کی ۲۸۶ آیات ہیں
یہ سورت قرآن مجید کی دیگر سورتوں کی نسبت بہت سی خصوصیات یک حامل ہے۔ ان امتیازات کا سر چشمہ مندرجہ ذیل خوبیان ہیں :
۱ ۔ لب و لہجہ اور اسلوب بیان : یہ سورت دیگر سورتوں سے اس لحاظ سے واضح امتیاز رکھتی ہے کہ وہ خدا کی گفتگو کے عنوان کی حامل ہیں اور یہ بندوں کی زبان کے طورپر نازل ہوئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس میں خداوندعالم نے بندوں کو خداسے گفتگو اور مناجات کا طریقہ سکھایا ہے۔
سورة کی ابتداء خداوندعالم کی حمد وثنا سے گی گئی ہے۔ خدا شناسی اور قیامت پر ایمان کے اظہار کے ساتھ ساتھ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے بندوں کے تقاضوں، حاجات اور ضروریات پر کلام کو ختم کیا گیا ہے۔
بیدار مغز اور ذی فہم انسان جب اس سورہ کو پڑھتا ہے تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ فرشتوں کے پروں پر سوار ہو کر عالم بالا کی طرف محو پرواز ہے اور عالم روحانیت و معنویت میں لمحہ بہ لمحہ خدا سے زیادہ سے زیادہ قریب ہوتا جارہا ہے۔
یہ نکتہ بڑا جاذب نظر ہے کہ خود ساختہ یاتحریف شدہ مذاہب جو خالق و مخلوق کے درمیان معاملہ میں واسطہ کے قائل ہیں ان کے برخلاف اسلام انسانوں کو یہ دستور دیتا ہے کہ وہ کسی بھئی واسطہ کے بغیر خدا سے اپنا رابطہ برقرار رکھیں۔
خدا و انسان اور خالق و مخلوق کے درمیان اس نزدیکی اور بے واسطہ تعلق کے سلسلے میں یہ سورہ آئینہ کا کام دیتی ہے۔ یہاں انسان صرف خدا کو دیکھتا ہے۔ اسی سے گفتگو کرتا ہے اور فقط اس کا پیغام اپنے کانوں سے سنتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی مرسل یا ملک مقرب بھی درمیان میں واسطہ نہیں بنتا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہی پیوند و ربط جو براہ راست خالق و مخلوق کے درمیان ہے۔ قرآن مجید کا آغاز ہے۔
۲ ۔ اسا س قرآن : نبی اکرم (ص) کے ارشاد کے مطابق سورہ حمد ام الکتاب ہے۔ ایک مرتبہ جابر بن عبداللہ انصاری آنحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ(ص) نے فرمایا :
الا اعلمک افضل سورة انزلھا اللہ فی کتابہ قال فقال لہ جابر بلی بابی انت و امی یا رسول اللہ علمنیھا فعلمہ الحمد ام الکتاب۔
کیا تمہیں سب سے فضیلت والی سورت کی تعلیم دوں جو خدا نے اپنی کتاب میںنازل فرمائی ہے؟ جابر نے عرض کیا جی ہاں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھےاس کی تعلیم دیجئے۔ آنحضرت نے سورہ حمد جو ام الکتاب ہے انہیں تعلیم فرمائی اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ سورہ حمد موت کے علاوہ ہر بیماری کے لئے شفاء ہے [1]
آپ کا یہ بھی ارشاد ہے : والذی نفسی بیدہ ما انزل اللہ فی التوراة ولا فی الزبور و لا فی القرآن مثلہا ھی ام الکتاب۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے خدا وند عالم نے تورات، انجیل، زبور یہاں تک کہ قرآن میں بھی اسی کوئی سورة نازل نیہں فرمائی اور یہ ام الکتاب ہے [2] اس سورت میں غور و فکر کرنے سے اس کی وجہ معلوم ہوتی ہے ۔ حقیقت میں یہ سورہ پورے قرآن کے مضامین کی فہرست ہے۔ اس کا ایک حصہ توحید اور صفات خدا وندی سے متعلق ہے دوسر ا حصہ قیامت و معاد سے گفتگو کرتا ہے اور تیسرا حصہ ہدایت و گمراہی کو بیان کرتا ہے جو مومنین و کفار میں حد فاصل ہے۔
اس سورہ میں پروردگار عالم کی حاکمیت مطلقہ او رمقام ربوبیت کا بیان ہے نیز اس کی لامتناہی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جن کے دو حصے ہیں ایک عمومی اور دوسرا خصوصی (رحمانیت اور رحیمیت) اس میں عبادت و بندگی کی طرف بھی اشارہ ہے جو اسی ذات پاک کے لئے مخصوص ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سورہ میں توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید عبادت سب کو بیان کیاگیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ سورت ایمان کے تینوں مراحل کا احاطہ کرتی ہے :
۱ ۔ دل سے اعتقاد رکھنا۔
۲ ۔ زبان سے اقرار کرنا۔
۳ ۔ اعضاء و جوارح سے عمل کرنا۔
ہم جانتے ہیں کہ ام کا مطلب ہے بنیاد اور جڑ۔ شاید اسی بناء پر عالم اسلام کے مشہور مفسرابن عباس کہتے ہیں :
ان لکل شیء اساسا و اساس القرآن الفاتحہ۔
ہر چیز کی کوئی اساس و بنیاد ہوتی ہے اور قرآن کی اساس سورہ فاتحہ ہے۔
انہی وجود کی بنا پر اس سورہ کی فضیلت کے سلسلے میں رسول اللہ سے منقول ہے :
ایما مسلم قرء فاتحة الکتاب اعطی من الاجر کانما قرء ثلثی القرآن و اعطی من الاجر کانما تصدق علی کل مومن و مومنة۔جو مسلمان سورہ حمد پڑھے اس کا اجر و ثواب اس شخص کے برابر ہے جس نے دو تہائی قرآن کی تلاوت کی ہو (ایک اور حدیث میں پورے قرآن کی تلاوت کے برابر ثواب مذکور ہے) اور اسے اتنا ثواب ملے گا گویا اس نے ہر مومن اور مومنہ کو ہدیہ پیش کیا ہو۔ [3]
سورہ فاتحہ کے ثواب کو دو تہائی قرآن کے تلاوت کے برابر قرار دینے کی وجہ شاید یہ ہو کہ قرآن کے ایک حصے کا تعلق خدا سے ہے، دوسرے کاقیامت سے اور تیسرے کا احکام و قوانین شرعی سے ان میں سے پہلا اور دوسرا حصہ سورہ حمد میں مذکور ہے ۔ دوسری حدیث میں پورے قرآن کے برابر فرمایا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کا خلاصہ ایمان اور عمل ہے اور یہ دونوں چیزیں سورہ حمد میں جمع ہیں۔
۳ ۔ پیغمبر اکرم(ص) کے لئے اعزاز : یہ بات قابل غور ہے کہ قرآنی آیات میں سورہ حمد کا تعارف آنحضرت(ص) کے لئے ایک عظیم انعام کے طور پر کرایا گیا ہے اور اسے پورے قرآن کے مقابلے میں پیش فرمایا گیا ہے جیسےکہ ارشاد الہی ہے :
ولقد اتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم۔
ہم نے آپ کو سات ایتوں پر مشتمل سورہ حمد عطا کیا جودو مرتبہ نازل کیا گیا اور قرآن عظیم بھی عنایت فرمایا گیا (حجر آیہ ۸۷) ۔
قرآن مجید اپنی تمام تر عظمت کے باوجود یہاں سورہ حمد کے برابر قرار پایا۔ اس سورہ کا دو مرتبہ نزول بھی اس کی بہت زیادہ اہمیت کی بناء پر ہے۔ [4]
اسی مضمون کی ایک روایت رسول اللہ سے حضرت امیرالمومنین(ع) نے بیان فرمائی ہے :
ان اللہ تعالی افرد الامتنان علی بفاتحة الکتاب و جعلھا بازاء القرآن العظیم و ان فاتحة الکتاب اشرف ما فی کنوز العرش۔
خدا وند عالم نے مجھے سورہ حمد دے کر خصوصی احسان جتایا ہے اور اسے قرآن کے مقابل قرار دیا ہے عرض کے خزانوں میں سے اشرف ترین سورہ حمد ہے۔
۴ ۔ تلاوت کی تاکید : سورہ حمد کی فضیلتوں کے بیانات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ احادیث اسلامی میں جو شیعہ و سنی کتب میں موجود ہیں۔ اس کی تلاوت کے متعلق اتنی تاکید کیوں کی گئی ہے۔اس کی تلاوت انسان کو روح ایمان بخشتی ہے اور اسے خدا کے نزدیک کرتی ہے۔ اس سے دل کو جلا ملتی ہے اور روحاینت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے انسانی ارادے کو کامیابی میسر آتی ہے۔ اس سورہ کی تلاوت سے خالق و مخلوق کے ما بین انسانی جستجو فزوں تر ہوتی ہے۔ نیز انسان اور گناہ و انحراف کے درمیان رکاوٹ بنتی ہے۔ اسی بناء پر حضرت صادق (ع) نے ارشاد فرمایا ہے :
ان الابلیس اربع رفات اولھن یوم لعن وحین اھبط الی الارض و حین بعث محمد علی حین فترہ من الرسل و حین انزلت ام الکتاب۔
شیطان نے چار دفعہ نالہ و فریاد کیا۔ پہلا وہ موقع تھا جب اسے راندئہ درگاہ کیا گیا۔ دوسرا وہ وقت تھا جب اسے بہشت سے زمین کی طرف اتارا گیا۔ تیسرا وہ لمحہ تھا جب حضرت محمد(ص) کو مبعوث برسالت کیا گیا اور آخری وہ مقام تھا جب سورہ حمد کو نازل کیا گی [5]
اس سورہ کی سات آیات میں سے ہر ایک، ایک اہم مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہے :
بسم اللہ“ ہر کام کی ابتداء کا سرنامہ ہے اور ہر کام کے شروع کرتے وقت ہمیں خدا کی ذات پاک سے مدد طلب کرنے کی تعلیم دیتی ہے۔
الحمد للہ رب العالمین“ یہ اس بات کا درس ہے کہ تمام نعمتوں کی برگشت او رتمام موجودات کی پرورش و تربیت کا تعلق صرف اللہ کے ساتھ ہے۔ یہ امر اس حقیقت سے مربوط ہے کہ تمام عنایات کا سر چشمہ اسی کی ذات پاک ہے۔
الرحمن الرحیم“ یہ اس بات کا تکرار ہے کہ خدا کی خلقت، تربیت او رحاکمیت کی بنیاد رحمت و عطوفت پر ہے اور دنیا کا نظام تربیت اسی قانون پر قائم ہے۔
مالک یوم الدین“ یہ آیت معاد، اعمال کی جزا و سزا اور اس عظیم عدالت میں خدا وند عالم کی حاکمیت کی جانب توجہ دلاتی ہے۔
ایاک نعبد و ایاک نستعین“ یہ توحید عبادی کا بیان ہے اور انسانوں کے لئے اس اکیلے مرکز کا تذکرہ ہے جو سب کا آسرا او رسہارا ہے۔
اھدنا الصراط المستقیم“ یہ آیت بندوں کی احتیاج ہدایت اور اشتیاق ہدایت کو بیان کرتی ہے۔ یہ آیت اس طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ ہر قسم کی ہدایت اسی کی طرف سے ہے۔
سورہ کی آخری آیت اس بات کی واضح اور روشن نشانی ہے کہ صراط مستقیم سے مراد ان لوگوں کی راہ ہے جو نعمات الہیہ سے نوازے گئے ہیں اور یہ راستہ مغضوب اور گمراہوں کے راستے سے جدا ہے۔
ایک لحاظ سے یہ سورہ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ایک حصہ خدا کی حمد وثناء ہے اور دوسرا بندے کی ضروریات وحاجات۔ عیون اخبار الرضا، میں سرکار رسالت(ص) سے اس سلسلے میں ایک حدیث بھی منقول ہے۔ آپ(ص) نے فرمایا :
خدا وندعالم کا ارشاد ہے کہ میں نے سورہ حمد کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کردیا ہے ، لہذا میرا بندہ حق رکھتا ہے کہ وہ جو چاہے مجھ سے مانگے۔ جب بندہ کہتا ہے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ تو خدائے بزرگ و برتر ارشاد فرماتا ہے میرے بندے نے میرے نام سے ابتداء کی ہے مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کے کاموں کو آخر تک پہنچادوں اور اسے ہر حالت میں برکت عطا کروں۔ جب و ہ کہتا ”الحمد للہ رب العالمین“ تو خدا وند تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد وثنا کی ہے۔ اس نے سمجھا ہے کہ جو نعمتیں اس کے پاس ہیں وہ میری عطا کردہ ہیں لہذا میں مصائب کو اس سے دور کئے دیتا ہوں۔ گواہ رہو کہ میں دنیا کی نعمتوں کے علاوہ اسے دار آخرت میں بھی نعمات سے نوازوں گا اور اس جہان کے مصائب سے بھی اسے نجات عطا کروں گا۔ جیسے اس دنیا کی مصیبتوں سے اسے رہائی دی ہے۔ جب وہ کہتا ہے ”الرحمن الرحیم“ تو خدا وند عالم فرماتا ہے میرا بندہ گواہی دے رہا ہے کہ میں رحمن و رحیم ہوں۔ گواہ رہو کہ میں اس کے حصے میں اپنی رحمت و عطیات زیادہ کئے دیتا ہوں۔ جب وہ کہتا ہے ”مالک یوم الدین“ تو خدافرماتا ہے کہ گواہ رہو جس طرح اس نے روز قیامت میری حاکمیت و مالکیت کا اعتراف کیا ہے حساب و کتاب کے دن میں اس کے حساب و کتاب کو آسان کردوں گا۔ اس کی نکیوں کو قبول کرلوں گااور اس کی برائیوں سے در گذر کروں گا۔ جب وہ کہتا ہے ”ایاک نعبد“ تو خداتعالی فرماتا ہے میرا بندہ سچ کہہ رہا ہے وہ صرف میری عبادت کرتاہے۔ میں تمہیں گواہ قرار دیتا ہوں کہ اس خالص عبادت پر میں اسے ایسا ثواب دوں گا کہ وہ لوگ جو اس کے مخالف تھے اس پر رشک کریں گے جب وہ کہتا ہے ”ایاک نستعین“ تو خدا فرماتا ہے میرے بندے نے مجھ سے مدد چاہی ہے اور صرف مجھے سے پناہ مانگی ہے گواہ رہو اس کے کاموں میں ، میں اس کی مددکروں گا۔ سختیوں اور تنگیوں میں اس کی فریاد پہنچوں گا اور پریشانی کے دن اس کی دستگیری کروں گا جب وہ کہتا ہے” اھدنا الصراط المستقیم“ ولا الضالین“ تو خدا وند عالم فرماتا ہے میرے بندے کی یہ خواہش پوری ہوگئی ہے اب جو کچھ وہ چاہتا ہے مجھ سے مانگے میں اس کی دعا قبول کروں گا۔ جس چیز کی امید لگائے بیٹھا ہے وہ اسے عطا کروں گا، اور جس چیز سے خائف ہے اس سے مامون قرار دوںگا [6]
فاتحة الکتاب کا معنی ہے آغاز کتاب(قرآن) کرنے والی۔ مختلف روایات جو نبی اکر سے نقل ہوئی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سورت آنحضرت کے زمانے میں بھی اسی نام سے پہچانی جاتی تھی۔ یہیں سے دنیائے اسلام کے ایک اہم ترین مسئلے کی طرف فکر کا دریچہ کھلتا ہے اور وہ ہے جمع قرآن کے بارے میں۔ ایک گروہ میںیہ بات مشہور ہے کہ قرآن مجید نبی اکرم(ص) کے زمانے میں منتشر و پراگندہ صورت میں تھا اور آپ(ص) کے بعد حضرت ابوبکر،حضرت عمر یا حضرت عثمان کے زمانے میں جمع ہوا لیکن ”فاتحة الکتاب “ سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مجید پیغمب اکرم کے زمانے میں اسی موجودہ صورت مین جمع ہوچکا تھا اور اسی سورہ حمد سے اس کی ابتداء ہوئی تھی۔ ورنہ یہ کوئی سب سے پہلے نازل ہونے والی سورہ تو نہیں جو یہ نام رکھا جائے اور وہ ہی اس سورة کے لئے فاتحة الکتاب نام کے انتخاب کے لئے کوئی دوسری دلیل موجود ہے بہت سے دیگر مدارک بھی ہمارے پیش نظر ہیں جو اس حقیقت کے موید ہیں کہ قرآن مجید بصورت مجموعہ جس طرح ہمارے زمانے میں موجود ہے اسی طر پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں آپ کے حکم کے مطابق جمع ہوچکا تھا۔ ان میں سے چند ایک ہم پیش کرتے ہیں : ۱ ۔ علی بن ابراہیم نے حضرت امام صادق (ع) سے روایت کیا ہے :
رسول اکرم(ص) نے حضرت علی سے فرمایا کہ قرآں ریشم کے ٹکڑوں، کاغذ کے پرزوں اور ایسی دوسری چیزوں میں منتشر ہے اسے جمع کردو۔ اس پر حضرت علی(ع) مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور قرآن کو زرد رنگ کے پارچے میں جمع کیا اور پھر اس پر مہر لگادی۔
انطلق علی فجمعہ فی ثوب اصفر ثم ختم علیہ [7]
۲ ۔ اہل سنت کے مشہور مولف حاکم نے کتاب مستدرک میںزید بن ثابت سے نقل کیا ہے :
ہم پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں قرآن کے پراکندہ ٹکڑوں کوجمع کرتے تھے اور ہر ایک کو نبی اکرم کی راہنمائی کے مطابق اس کے مناسب محل و مقام پر رکھتے تھے لیکن پھر بھی یہ تحریریں متفرق تھیں چنانچہ پیغمبراکرم نے علی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ایک جگہ جمع کریں(اس جمع آوری کے بعد) اب آپ ہمیں اسے ضائع کرنے سے ڈراتے تھے۔
۳ ۔ اہل تشیع کے بہت بڑے عالم سید مرتضی کہتے ہیں :
قرآن رسول اللہ کے زمانے میں اسی حالت مین اسی موجودہ صورت میں جمع ہوچکا تھا [8]
۴ ۔طبرانی اورابن عساکر نے شعبی سے یوں نقل کیا ہے :
انصار میں سے چھ افراد نے قرآن کو پیغمبر(ص) کے زمانے میں جمع کیا تھا [9]
۵ ۔ قتادہ، ناقل ہیں :
میں نے انس سے سوال کیا کہ پیغمبر کے زمانے میں کس شخص نے قرآن جمع کیا تھا۔ اس نے کہا چار فرا د نے جو سب کے سب انصار میں سے تھے۔ ابی بن کعب، معاذ ، زید بن ثابت اور ابوزید۔ [10]
ان کے علاوہ بھی روایات ہیں جن کا ذکر کرنا طول کا باعث ہوگا۔ بہرحال یہ احادیث جو شیعہ وسنی کتب میںموجود ہیں ان سے قطع نظر اس سورہ کے لئے فاتحة الکتاب نام کا انتخاب اس موضوع کے اثبات کا زندہ ثبوت ہے۔
ایک اہم سوال : یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ اس بات کوکیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ قرآن رسول اللہ کے زمانے میں جمع ہوا جب کہ علماء کے ایک گروہ میں مشہور ہے کہ قرآن پیغمبر اکرم(ص) کے بعد جمع ہوا ہے (حضرت علی کے ذریعے یا دیگر اشخاص کے ذریعے)۔
جواب : جو قرآن حضرت علی نے جمع کیا تھا وہ قرآن، تفسیر شان نزول آیات وغیرہ کا مجموعہ تھا باقی رہا حضرت عثمان کا معاملہ تو ہمارے پاس ایسے قرائن موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوںنے اختلاف قرات کو روکنے کے لئے اسے ایک قرآت اور نقطہ گذاری کے ساتھ معین کیا کیونکہ اس وقت تک نقطے لگانا معمولات میں داخل نہیں تھا۔
رہا بعض لوگوں کا یہ اصرار کہ قرآن کسی طرح بھی رسول اللہ کے زمانے میں جمع نہیں ہوا اور یہ اعزاز حضرت عثمان خلیفہ اول یا خلیفہ دوم کو حاصل ہوا ہے۔ شاید اس سے زیادہ تر مقصود فضیلت سازی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر گروہ اس فضیلت کی نسبت خاص شخصیت کیطرف دیتا ہے اوراسی سے متعلق روایت پیش کرتا ہے۔ اصولی اور بنیادی طور پر یہ کس طرح باور کیا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم نے اس اہم ترین کام کو نظر انداز کردیا ہو حالانکہ آپ(ص) تو چھوٹے چھوٹے کاموں کی طرف بھی توجہ دیتے تھے جب کہ قرآن اسلام کا اصول اساسی ہے، تعلیم و تربیت کی عظیم کتاب ہے اور تمام اسلامی پروگراموں اور عقاید کی بنیاد ہے۔ کیا نبی اکرم(ص) کے زمانے میں جمع نہ ہونے سے یہ خطرہ پیدا نہیں ہوسکتا تھا کہ قرآن کا کچھ حصہ ضائع ہو جائے یا مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہوجائیں؟
علاوہ از یں حدیث ثقلین جسے شیعہ و سنی دونوں نے نقل کیا ہے گواہی دیتی ہے کہ قرآن کتابی صورت میں رسول اللہ(ص) کے زمانے میں جمع ہوچکا تھا۔
پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا :
میں تم سے رخصت ہو رہا ہوں اور تم میں دو چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارہا ہوں خدا کی کتاب اور میرا خاندان۔
وہ روایات جودلالت کرتی ہیں کہ آنحضرت کی زیر نگرانی صحابہ نے قران جمع کیا تھا ان میں صحابہ کی تعداد مختلف بیان ہونے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہر روایت نے چند ایک کی نشاندہی کی ہے اس سے کام فقط ان شخصیتوں میں منحصر نہیں ہو جاتا لہذا یہ پہلو باعث اختلاف نظر نہیں ہونا چاہئے۔
۱ ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
۲ ۔ الحمد للہ رب العالمین۔
۳ ۔ الرحمن الرحیم۔
4-مالک یوم الدین
۵ ۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین
۶ ۔ اھدنا الصراط المستقیم
۷ ۔ صراط الذین انعمت علیھم غیرالمغضوب علیہم ولا الضالین۔
۱ ۔ شروع اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔
۲ ۔ حمد مخصوص اس خدا کے لئے جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔
۳ ۔ وہ خدا جو مہربان اور بخشنے والا ہے( جس کی رحمت عام و خاص سب پر محیط ہے)۔
۴ ۔ وہ خدا جو روز جزا کا مالک ہے۔
۵ ۔ پروردگار! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں او رتجھی سے مدد چاہتے ہیں۔
۶ ۔ ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت فرما۔
۷ ۔ ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام فرمایا ان کی راہ نہیں جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ وہ کہ جو گمراہ ہوگئے۔
۱ ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام لوگوں میں یہ رسم ہے کہ ہراہم اور اچھے کام کا آغاز کسی بزرگ کے نام سے کرتے ہیں۔ کسی عظیم عمارت کی پہلی اینٹ اس شخص کے نام پر رکھی جاتی ہے جس ےس بہت زیادہ قلبی لگاؤ ہو یعنی اس کام کو اپنی پسندیدہ شخصیت کے نام منسوب کردیتے ہیں۔ مگر کیا یہ بہتر نہیں کہ کسی پروگرام کودوام بخشنے اور کسی مشن کو برقرار رکھنے کے لئے ایسی ہستی سے منسوب کیا جائے جو پائیدار، ہمیشہ رہنے والی ہو اورجس کی ذات میں فنا کا گزر نہ ہو۔ اس جہاں کی تمام موجودات کہنگی پذیر ہیں اور زوال کی طرف رواں دواں ہیں۔ صرف وہی چیز باقی رہ جائےگی، جو اس ذات لایزال سے وابستہ ہوگی۔
انبیاء و مرسلین کے نام باقی ہیں تو پروردگار عالم سے رشتہ جوڑنے اور عدالت و حقیقت پر قائم رہنے کی وجہ سے اور یہ وہ رشتہ ہے جو زوال آشنا نہیں۔ اگر حاتم کا نام باقی ہے تو سخاوت کے باعث جو زوال پذیر نہیں۔ تمام موجودات میں سے فقط ذات خدا ازلی وابدی ہے ۔ اس لئے چاہئے کہ تمام امور کو سا کے نام سے شروع کیا جائے۔ اس کے سائے میں تمام چیزوں کو قرار دیاجائے اوراسی سے مدد طلب کی جائے۔
اسی لئے قرآن کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے۔ اپنے امورک و برائے نام خدا سے وابستہ نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ حقیقتا اور واقعتا خدا سے رشتہ جوڑنا چاہئے۔ کیونکہ یہ ربط انسان کو صحیح راستہ پر چلائے گا اور ہر قسم کی کجروی سے باز رکھے گا۔ ایسا کام یقینا تکمیل کو پہنچے گا اور باعث برکت ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ کی مشہور حدیث میںہم پڑھتے ہیں :
کل امر ذی بال لم یذکر فیہ اسم اللہ فھو ابرت
جو بھی اہم کام خدا کے نام کے بغیرشروع ہوگا ناکامی سے ہمکنار ہوگا۔ [11]
انسان جس کام کو انجام دینا چاہے چاہئے کہ بسم اللہ کہے اور جو عمل خدا کے نام سے شروع ہو وہ مبارک ہے۔
امام باقر(ع) فرماتے ہیں : جب کوئی کام شروع کرنے لگو، بڑاہو یا چھوٹا بسم للہ کہو، تاکہ وہ بابرکت بھی ہو اور پرا ز امن و سلامتی بھی۔
خلاصہ یہ کہ کسی عمل کی پائیداری و بقا سا کے ربط خدا سے وابستہ ہے۔ اسی مناسبت سے جب خدا وند تعالی نے پیغمبر اکرم(ص) پر پہلی وحی نازل فرمائی تو انہیں حکم دیا کہ تبلیغ اسلام کی عظیم ذمہ داری کو خدا کے نام سے شروع کریں۔
اقرا باسم ربک الذی خلق
ہم دیکھتے ہیں کہ جب تعجب خیز اور نہایت سخت طوفان کے عالم میں حضرت نوح کشتی پر سوار ہوئے۔ پانی کی موجیںپہاڑوں کی طرح بلند تھیں اور ہر لحظہ بے شمار خطرات کا سامنا تھا۔ ایسے میں منزل مقصود تک پہنچنے اور مشکلات پر قابو پانے کے لئے آپ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ کشتی کے چلتے اور رکتے بسم اللہ کہو۔
و قال ارکبوا فیھا بسم اللہ مجرئہا و مرسھا( ہود آیت ۴۱) ۔
چنانچہ ان لوگوں نے اس پر خطر سفر کو توفیق الہی کے ساتھ کامیابی سے طے کرلیا اور امن و سلامتی کے ساتھ کشتی سے اترے۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے :
قیل یا نوح اھبط بسلام منا و برکات علیک و علی امم ممن معک
حکم ہوا اے نوح (کشتی سے) ہماری طرف سے سلامتی او ربرکات کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اتریے (ہود آیت ۴۸ ) ۔
جناب سلیمان نے جب ملکہ سبا کو خط لکھا تو اس کا سرنامہ بسم اللہ ہی کو قرار دیا۔
انہ من سلیمان و انہ بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ (مراسلہ) ہے سلیمان کی طرف سے اور بے شک یہ ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم (نمل آیت ۳۰) ۔
اسی بناء پر قرآن حکیم کی تمام سورتوں کی ابتدا ٴ بسم اللہ سے ہوتی ہے تاکہ نوع بشر کی ہدایت و سعادت کا اصلی مقصد کامیابی سے ہمکنار ہو اور بغیر کسی نقصان کے انجام پذیر ہو۔ صرف سورہ توبہ ایسی سورت ہے جس کی ابتداء میں ہمیں بسم اللہ نظر نہیں آتی کیونکہ اس کا آغاز مکہ کے مجرموں او رمعاہدہ شکنوں سے اعلان جنگ کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ لہذا ایسے موقع پر خدا کی صفات رحمان و رحیم کا ذکر مناسب نہیں۔
یہاں ایک نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے وہ یہ کہ ہر جگہ بسم اللہ کہا جاتا ہے بسم الخالق یا بسم الرزاق وغیرہ نہیں کہا جاتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ اللہ خدا کے تمام اسمآاور صفات کا جامع ہے۔ اس کی تفصیل عنقریب آئے گی۔ اللہ کے علاوہ دوسرے نام بعض کمالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں مثلا خالقیت، رحمت وغیرہ۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ہر کام کی ابتداء میں بسم اللہ کہنا جہاں خدا سے طلب مدد کے لئے ہے وہاں اس کے نام سے شروع کرنے کے لئے بھی ہے۔ اگر چہ ہمارے بزرگ مفسرین نے طلب مدد اور شروع کرنے کو ایک دوسرے سے جدا قرار دیا ہے خلاصہ یہ کہ آغاز کرنا او رمدد چاہنا ہر دو مفہوم یہاں پر لازم و ملزوم ہیں۔
بہرحال جب تمام کام خدا کی قدرت کے بھروسہ پر شروع کئے جائیں تو چونکہ خدا کی قدرت تمام قدرتوں سے بالا تر ہےاس لئے ہم اپنے میں زیادہ قوت و طاقت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ زیاد مطمئن ہو کر کوشش کرتے ہیں۔ بڑی سے بڑی مشکلات کا خوف نہیںرہتا اور مایوسی پیدا نہیں ہوتی اور اس کے ساتھ ساتھ اس سے انسان کی نیت او رعمل زیادہ پاک اور زیادہ خالص رہتا ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں جتنی گفتگو کی جائے کم ہے کیونکہ مشہور ہے کہ حضرت علی(ع) ابتدائے شب سے صبح تک ابن عباس کے سامنے بسم اللہ کی تفسیر بیان فرماتے رہے صبح ہوئی تو آپ بسم کی ”ب“ سے آگے نہیں بڑھے تھے۔ آنحضرت (ع) ہی کے ایک ارشاد سے ہم یہاں اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔ آئندہ مباحث میں اس سلسلے کے دیگر مسائل پرگفتگو ہوگی۔
عبداللہ بن یحیی امیرالمومنین کے محبوں میں سے تھے ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بسم اللہ کہے بغیر اس چارپائی پر بیٹھ گئے جو وہاں پڑی تھی اچانک وہ جھکے اور زمین پر آگرے۔ ان کا سر پھٹ گیا۔ حضرت علی(ع) نے سر پر ہاتھ پھیرا تو ان کا زخم مندمل ہوگیا، آپ نے فرمایا تمہیں معلوم نہیں کہ نبی اکرم نے خدا کی طرف سے یہ حدیث مجھ سے بیان فرمائی ہے کہ جو کام نام خدا کے بغیر شروع کیا جائے بے انجام رہتا ہے (عبداللہ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا : میرے ماںباپ آپ پر قربان میں یہ جانتا ہوں او راب کے بعد پھر اسے ترک نہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا پھر تو تم سعادتوں سے بہرہ ور ہوگئے۔
امام صادق(ع) نے اسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے بعض شیعہ کام کی ابتداء میں بسم اللہ ترک کردیتے ہیں اور خدا انہیں کسی تکلیف میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ بیدار ہوں اور ساتھ ساتھ یہ غلطی بھی ان کے نامہ عمل سے دھو ڈالی جائے۔ [12]
شیعہ علماء و محققین میں اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ بسم اللہ سورہ حمد اور دیگر سورقرآن کا جزء ہیں۔
بسم اللہ کا متن تمام سورتوں کی ابتداء میں ثبت ہونا اصولی طور پر اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ یہ جزو قرآن ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ متن قرآن میں کوئی اضافی چیز نہیں لکھی گئی او ربسم اللہ زمانہ پیغمبر سے لے کر اب تک سورتوں کی ابتداء میں موجوج ہے۔ باقی رہے علمائے اہل سنت توصاحب تفسیر المنار نے ان کے اقوال درج کئے ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے : گذشتہ علمائے اہل مکہ، فقہا قاری حضرات جن میں ابن کثیر بھی شامل ہیں، اہل کوفہ کے قراء میں سے عاصم اور کسائب اور اہل مدینہ میں سے بعض صحابہ اور تابعین اسی طرح شافعی اپنی کتاب جدید میں اور اس کے پیرو کار نیز ثوری اور احمد اپنے قول میں اس بات کے معتقد ہیں کہ بسم اللہ جز سورہ ہے۔ اسی طرح علماء امامیہ اور ن کے اقوال کے مطابق صحابہ میں سے علی، ابن عباس، عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ، تابعین میں سے سعید بن جبیر، عطا، زہری اور ابن مبارک بھی اسی نظرئیے کے حامل تھے۔
اس کے بعد مزید لکھتے ہیں کہ ان کی اہم ترین دلیل یہ ہے کہ صحابہ اور ان کے بعد برسر کار لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ سورہ برآت کے سوا تمام سورتوں کے آغاز میں بسم اللہ مذکور ہے جب کہ وہ بالاتفاق ایک دوسرے کو وصیت کرتے تھے کہ ہر اس چیز سے جو جزو قرآن نہیں قرآن کو پاک رکھا جائے اسی لئے تو آمین، کو انہوں نے سورہٴ فاتحہ کے آخر میں ذکر نہیں کیا۔
اس کے بعد انہوں نے مالک او رابوحنیفہ کے پیروکاروں اور بعض دوسرے لوگوں کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ بسم اللہ کو مستقل آیت سمجھے تھے جو سورتوں ک ی ابتداء کے بیان اور ان کے درمیان حد فاصل کے طور پر نازل ہوئی ہے۔ انہوں نے اہل سنت کے معروف فقیہ اور بعض قارئین کوفہ سے نقل کیا ہے کہ وہ بسم اللہ کو سورہ حمد کاتو جزء سمجھتے تھے لیکن باقی سورتوں کو جزء نہیں سمجھتے تھے ۔ [13]
اس گفتگو سے معلوم ہو اکہ اہل سنت کی یقینی اکثریت بھی بسم اللہ کو سورت کا جزء سمجھتی ہے۔
اب ہم بعض روایات پیش کرتے ہیں جو شیعہ و سنی طرق سے اس سلسلے میں نقل ہوئی ہیں(ہمیں اعتراف ہے کہ اس ضمن کی تمام احادیث کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں اور ان کا تعلق فقہی بحث سے ہے)۔
۱ ۔ معاویہ بن عمار(جوامام صادق(ع) کے محب و ہوالی تھے) کہتے ہیں میں نے امام سے پوچھا کہ جب میں نماز پڑھنے لگوں تو کیا الحمد کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھوں؟ ” آپ نے فرمایا ہاں“۔ [14]
۲ ۔ دار قطنی نے جو علماء اہل سنت میں سے ہیں سند صحیح کے ساتھ حضرت علی سے نقل کیا ہے :
ایک شخص نے آپ سے پوچھا ”سبع مثانی کیا ہے“ ؟ فرمایا : سورہ حمد۔ اس نے عرض کیا سورہ حمد کی تو چھ آیتیں ہیں ، آپ نے فرمایا : بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی اس کی ایک آیت ہے ۔ [15]
۳ ۔ اہل سنت کے مشہور محدث بہیقی سند صحیح کے ساتھ ابن جبیر کے طریق سے اس طرح نقل کرتے ہیں :
استرق الشیطان من الناس اعظم آیة من القرآن بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
شیطان صفت اشخاص نے قرآن کی بہت بڑی آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم کو چرا لیا ہے (یہ اس طرف اشارہ ہے کہ سورتوں کے شروع میں اسے نہیں پڑھا جاتا۔ [16]
ان سب کے علاوہ ہمیشہ مسلمانوں کو یہ سیرت رہی ہے کہ وہ قرآن مجید کی تلاوت کے وقت بسم اللہ ہر سورت کی ابتداء میں پڑھتے رہے ہیں تواتر سے ثابت ہے کہ پیغمبر اکرم بھی اس کی تلاوت فرماتے تھے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو چیز جزو قرآن نہ ہو اسے پیغمبر اور مسلمان ہمیشہ قرآن کے ضمن پڑھتے رہے ہوں اور سدا اس عمل کوجاری رکھا ہو۔
باقی رہابعض کا یہ احتمال کہ بسم اللہ مستقل آیت ہے جو جزو قرآن تو ہے لیکن سورتوں کا حصہ نہیں تو یہ احتمال نہایت ضعیف اور کمزور دکھائی دیتا ہے کیونکہ بسم اللہ کا مفہوم او رمعنی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ ابتداء اور آغاز کے لئے ہے نہ کہ یہ ایک علیحدہ اور مستقل اہمیت کی حامل ہے۔ در اصل یہ فکر جمود اور سخت تعصب کی غماز ہے اور یوں لگتا ہے گویا اپنی بات کو برقرار رکھنے کے لئے ہر احتمال پیش کیا جارہا ہے او ربسم اللہ جیسی آیت کو مستقل اور سابق و لاحق سے الگ ایک آیت قرار دیاجارہا ہے جس کا مضمون پکار پکار کر اپنے سرنامہ اور بعد والی ابحاث کے لئے ابتداء ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔
ایک اعتراض البتہ قابل غور ہے جسے مخالفین اس مقام پر پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں جب قرآن کی سورتوں کی آیات شمار کرتے ہیں(سوائے سورہ حمد کے)تو بسم اللہ کو ایک آیت شمار نہیں کیا جاتا بلکہ پہلی آیت بسم اللہ سے بعد والی آیت کو قرار دیاجاتاہے۔ اس اعتراض کا جواب فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں وضاحت کے ساتھ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں :
کوئی حرج نہیں کہ بسم اللہ سورہٴ حمد میںتو الگ ایک آیت ہو اور دوسری سورتوں میں پہلی آیت کا جزء قرار پائے(اس طرح مثلا سورہ کوثر میں بسم اللہ الرحمن الرحیم انا اعطیناک الکوثر سب ایک آیت شمار ہو )
بہرحال مسئلہ اس قدر واضح ہے کہ کہتے ہیں :
ایک دن معاویہ نے اپنی حکومت کے زمانے میں نماز با جماعت میں بسم اللہ نہ پڑھی تو نماز کے بعد مہاجرین و انصار کے ایک گروہ نے پکار کرکہا ” اسرقت ام نسیت“ یعنی کیا معاویہ نے بسم اللہ کو چرا لیا ہے یا بھول گیا ہے؟۔ [17]
خدا کے ناموں میں سے اللہ، جامع ترین نام ہے
بسم اللہ کی ادائیگی میں ہمارا سامنا سب سے پہلے لفظ اسم سے ہوتا ہے۔ عربی ادب کے علماء کے بقول اس کی اصلی ”سمو“ بر وزن علو ہے جس کے معنی ہیں ارتفاع اور بلندی۔ تمام ناموں کو اسم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ہر چیزکا مفہوم اخفاء سے ظہور و ارتفاع کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے یا اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ، نام ہوجانے کے بعد معنی پیدا کرلیتا ہے۔ مہمل اور بے معنی کی منزل سے نکل آتا ہے اور اس طرح ارتفاع و بلندی حاصل کرلتیا ہے۔
بہرحال کلمہ ”اسم“ کے بعد، ہم کلمہ اللہ تک پہنچتے ہیں جو خدا کے ناموں میں سب سے زیادہ جامع ہے۔ خدا کے ان ناموں کو جو قرآن مجید یا دیگر مصادر اسلامی میں آئے ہیں اگر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ خدا کی کسی ایک صفت کو منعکس کرتے ہیں لیکن وہ نام جو تمام صفات و کمالات الہی کی طرف اشارہ کرتا ہے دوسرے لفظوں میں جو صفات جلال و جمال کا جامع ہے و ہ صرف اللہ ہے یہی وجہ ہے کہ خدا کے دوسرے نام عموما کلمہ اللہ کی صفت کی حیثیت سے کہے جاتے ہیں مثال کے طور پر چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے :
غفور و رحیم : فان اللہ غفور رحیم (بقرہ ۲۲۶) ۔ یہ صفت خدا کی صفت بخشش کی طرف اشارہ ہے : سمیع وعلیم : سمیع اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ خدا تمام سنی جانے والی چیزوں سے آگاہی رکھتا ہے اور علیم اشارہ ہے کہ وہ تمام چیزوں سے باخبر ہے۔
فان اللہ سمیع علیم (بقرہ ، ۲۲۷) ۔
بصیر : یہ لفط بتاتا ہے کہ خدا تمام دیکھی جانے والی چیزوں سے آگاہ ہے : واللہ بصیر بما تعملون (حجرات، ۱۸) ۔
رزاق : یہ صفت اس کے تمام موجودات کو روزی دینے کے پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ذوالقوة اس کی قدرت کو ظاہر کرتی ہے اور متین، اس کے افعال اور پروگرام کی پختگی کا تعارف ہے : ان اللہ ھو الرزاق ذو القوة المتین (زاریات ، ۵۸)
خالق اور باری : اس کی آفرینش اور پیدا کرنے کی صفت کی طرف اشارہ ہے اور مصور اس کی تصویر کشی کی حکایت کرتا ہے : ھو اللہ الخالق الباری المصور لہ الاسماء الحسنی (حشر، ۲۴)
ظاہر ہوا کہ ”اللہ “ ہی خدا کے تمام ناموں میں سے جامع ترین ہے یہی وجہ ہے کہ ایک ہی آیت میںہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے نام ”اللہ“ قرار پائے ہیں :
ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو الملک القدوس السلام المومن المھیمن العزیز الجبار المتکبر۔
اللہ وہ ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ حاکم مطلق ہے، منزا ہے، ہر ظلم و ستم سے پاک ہے، امن بخشنے والا ہے، سب کا نگہبان ہے، توانا ہے کسی سے شکست کھانے والا نہیں اور تمام موجودات پرقاہر وغالب اور باعظمت ہے۔ (حشر ۲۳) ۔
اس نام کی جامعیت کا ایک وضح شاہد یہ ہے کہ ایمان و توحید کا اظہار صرف ” لا الہ الا اللہ“ کے جملے سے ہوسکتا ہے اور جملہ ”لا الہ الا العلیم الا الخالق الا الرزاق اور دیگر اس قسم کے جملے خود سے توحید و اسلام کی دلیل نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ جب مسلمانوں کے معبود کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں تو لفظ اللہ کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ خدا وندعالم کی تعریف و توصیف لفظ اللہ سے مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے۔
مفسرین کے ایک طبقے میں مشہور ہے کہ صفت، رحمان رحمت عالم کی طرف اشارہ ہے۔ یہ وہ رحمت ہے جو دوست و دشمن ، مومن و کافر، نیک و بد ، غرض سب کے لئے ہے۔ کیونکہ اس کی بے حساب رحمت کی بارش سب کو پہنچتی ہے، اور اس کا خوان نعمت ہر کہیں بچھا ہوا ہے۔اس کے بندے زندگی کی گوناگوں رعنائیوں سے بہرہ ور ہیں اپنی روزی اس کے دسترخوان سے حاصل کرتے ہیں جس پربے شمار نعمتیں رکھی ہیں۔ یہ وہی رحمت عمومی ہے جس نے عالم ہستی کا احاطہ کر رکھا ہے اور سب کے سب اس دریائے رحمت میں غوطہ زن ہیں۔
رحیم خداوند عالم کی رحمت خاص کی طرف اشارہ ہے۔ یہ وہ رحمت ہے جو اس کے مطیع، صالح، اور فرمانبردار بندوں کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ انہوں نے ایمان او رعمل صالح کی بناء پر یہ شائستگی حاصل کرلی ہے کہ وہ اس رحمت و احسان خصوصی سے بہرہ مند ہوں جو گنہگاروں اورغارت گروں کے حصے میں نہیں ہے۔
ایک چیز جو ممکن ہے اسی مطلب کی طرف اشارہ ہو یہ ہے کہ لفظ ”رحمان“ قرآن میں ہر جگہ مطلق آیا ہے جو عمومیت کی نشانی ہے جب کہ رحیم کبھی مقید ذکر ہوا ہے مثلا وکان بالمومنین رحیما (خدا، مومنین کے لئے رحیم ہے) ۔ (احزاب ۴۳) ۔ اور کبھی مطلق جیسے کہ سورہ حمد میں ہے ۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت صادق (ع) نے فرمایا :
واللہ الہ کل شیئی الرحمان بجمیع خلقہ الرحیم بالمومنین خاصة( ۱) ۔ ۱ ۔ المیزان بسند کافی، توحید صدوق اور معانی الاخبار۔خدا ہر چیز کا معبود ہے۔ وہ تمام مخلوقات کے لئے رحمان او رمومنین پر خصوصیت کے ساتھ رحیم ہے۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ رحمان صیغہ مبالغہ ہے جوا سکی رحمت کی عمومیت کے لئے خود ایک مستقل دلیل ہے اور رحیم صفت مشبہ ہے جو ثبات و دوام کی علامت ہے اور یہ چیز مومنین کے لئے ہی خاص ہوسکتی ہے۔
ایک اور شاہد یہ ہے کہ رحمان خدا کے مخصوص ناموں میں سے ہے اور اس کے علاوہ کسی کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں کیا جاتا جب کہ رحیم ایسی صفت ہے جو خدا اور بندوں کےلئے استعمال ہوتی ہے جیسے نبی اکرم(ص) کے لئے ارشاد الہی ہے :
عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم باالمومنین روٴف رحیم۔
تمہاری تکلیف و مشقت نبی پر گراں ہے، تمہاری ہدایت اسے بہت پسندیدہ ہے اور وہ مومنین کے لئے مہربان اور رحیم ہے (توبہ ، ۱۲۸) ۔
ایک دوسری حدیث میں امام صادق (ع) سے منقول ہے :
الرحمن اسم خاص بصفة عامة والرحیم اسم عام بصفة خاصة
رحمن اسم خاص ہے لیکن صفت عام اور رحیم اسم عام ہے لیکن صفت خاص ہے۔ [18]
یعنی رحمن ایسا نام ہے جو خدا کے لئے مخصوص ہے لیکن اس میں اس کی رحمت کا مفہوم سب پر محیط ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ رحیم ایک صفت عام کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے البتہ اس میں (صفت خاص کے طور پر استعمال ہونے میں) کوئی مانع نہیںجو فرق بتایا گیا ہے وہ تو اصل لغت کے لحاظ سے ہے لیکن اس میں استثنائی صورت پائی جاتی ہے۔ امام حسین (ع) کی ایک بہترین اور مشہور دعا جو دعائے عرفہ کے نام س معروف ہے کے الفاظ ہیں :
یا رحمان الدنیا والآخرة و رحیما
اے وہ خدا جو دنیا و آخرت کا رحمان اور دونوں ہی کا رحیم ہے۔
اس بحث کو ہم نبی اکرم(ص) کی ایک پرمعنی اور واضح حدیث کے ساتھ ختم کرتے ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے : ان اللہ عزوجل مآة رحمة و انہ انزل منھا واحدة الی الارض فقسھا بین خلقہ بھا یتعاطفون و یتراجعون واخر تسع و تسعین لنفسہ یرحم بھا عبادہ یوم القیامة۔
خدا وندتعالی کی رحمت کے سو باب ہیں جن میں سے اس نے ایک کو زمین پر نازل کیا ہے اور (اس رحمت) کو اپنی مخلوق میں تقسیم کیا ہے۔ لوگوں کے درمیان جو عطوفت، مہربانی اور محبت ہے وہ اسی کا پر تو ہے لیکن نناوے حصے رحمت اس نے اپنے لئے مخصوص رکھی ہے اور قیامت کے دن اپنے بندوں کو اس سے نوازے گا۔ [19]
خدا کی دیگر صفات بسم اللہ میں کیوںمذکور نہیں؟
یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن کی تمام سورتیں(سوائے سورہ برات کے جس کی وجہ بیان ہوچکی ہے)بسم اللہ سے شروع ہوتی ہیں اوربسم اللہ میں مخصوص نام ”اللہ“ کے بعد صرف صفت رحمانیت کا ذکر ہے اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں پر باقی صفات کا ذکر کیوں نہیں ۔
اگر ہم ایک نکتے کی طرف توجہ کریں تو اس سوال کاجواب واضح ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ ہر کام کی ابتداء میں ضروری ہے کہ ایسی صفت سے مدد لی جس کے آثار تمام جہان پر سایہ فگن ہوں، جو تمام موجودات کا احاطہ کئے ہو اورعالم بحران میں مصیبت زدوں کونجات بخشنے والی ہو۔ مناسب ہے کہ اس حقیقت کوقرآن کی زبان سے سنا جائے۔ ارشاد الہی ہے : و رحمتی وسعت کل شئی
میری رحمت تمام چیزوں پر محیط ہے (اعراف ، ۱۵۶)
ایک اور جگہ ہے حاملان عرش کی ایک دعاء خدا وند کریم نے یوں بیان فرمایا ہے :
ربنا وسعت کل شئی رحمة
پروردگار! تو نے اپنا دامن رحمت ہر چیز تک پھیلا رکھا ہے (المومن، ۷) ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کرام نہایت سخت اور طاقت فرسا حوادث اور خطرناک دشمنوں کے چنگل سے نجات کے لئے رحمت خدا کے دامن میں پناہ لیتے ہیں قوم موسی فرعونیوں کے ظلم سے نجات کے لئے پکارتی ہے :
و نجنا برحمتک ۔ خدایا ہمیں (ظلم سے) نجات دلا اور اپنی رحمت (کا سایہ) عطا فرما۔ (یونس ، ۸۶) ۔حضرت ہود (ع) اوران کے پیروکاروں کے سلسلے میں ارشاد ہے :
فانجیناہ والذین معہ برحمة منا۔ ہود(ع) اور ان کے ہمراہیوں کو ہم نے اپنی رحمت کے وسیلے سے نجات دی (اعراف ، ۷۲) ۔
اصول یہ ہے جب ہم خداسے کوئی حاجت طلب کریں تو مناسب ہے کہ اسے ایسی صفات سے یاد کریں جو اس حاجت سے میل اور ربط رکھتی ہوں۔ مثلا حضرت عیسی مائدہ آسمانی (مخصوص غذا) طلب کرتے ہیں تو کہتے ہیں :
اللھم ربنا انزل علینا مائدة من السماء و ارزقنا و انت خیر الرازقین۔
بار الہا ! ہم پر آسمان سے مائدہ نازل فرما اورہمیں روزی عطا فرما اور توبہترین روزی رساں ہے۔(مائدہ، ۱۱۴) ۔
خدا کے عظیم پیغمبر حضرت نوح(ع) بھی ہمیں یہی درس دیتے ہیں۔ وہ جب ایک مناسب جگہ کشتی سے اترنا چاہتے ہیں تو یوں دعا کرتے ہیں :
رب انزلنی منزلا مبارکا و انت خیرالمنزلین۔ پروردگار ! ہمیں منزل مبارک پر اتارکہ تو بہترین اتارنے والا ہے (مومنین، ۲۹) ۔
حضرت زکریا (ع) خدا سے ایسے فرزند کے لئے دعا کرتے ہیں جو ان کاجانشین و وارث ہو اس کی خیر الوارثین سے توصیف کرتے ہیں :
رب لا تذرنی فردا و انت خیر الوارثین۔ خداوند ! تنہا نہ چھوڑ تو توبہترین وارث ہے (انبیاء ، ۸۹) ۔
کسی کام کو شروع کرتے وقت جب خدا کے نام سے شروع کریں تو خدا کی وسیع رحمت کے دامن سے وابستگی ضروری ہے ایسی رحمت جو عام بھی ہو اور خاص بھی۔ کاموں کی پیش رفت او رمشکلات میں کامیابی کے لئے کیا ان صفات سے بہتر کوئی اور صفت ہے؟ قابل توجہ امر یہ ہے کہ و ہ توانائی جو قوت جاذبہ کی طرح عمومیت کی حامل ہے جو دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتی ہے وہ یہی صفت رحمت ہے لہذا مخلوق کااپنے خالق سے رشتہ استوار کرنے کے لئے بھی اسی صفت رحمت سے استفادہ کرنا چاہئے۔ سچے مومن اپنے کاموں کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر تمام جگہوں سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنےدل کو صرف خدا سے وابستہ کرتے ہیںاور اسی سے مدد و نصرت طلب کرتے ہیں وہ خدا جس کی رحمت سب پر چھائی ہوئی ہے اور کوئی موجود ایسا نہیں جو اس سے بہرہ ور نہ ہو۔
بسم اللہ سے واضح طور پر یہ درس حاصل کیا جا سکتا ہے کہ خدا وند عالم کے ہر کام کی بنیاد رحمت پر ہے اور بدلہ یا سزا تو استثنائی صورت ہے جب تک قطعی عوامل پیدا نہ ہوں سزا متحقق نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ ہم دعا میں پڑھتے ہیں :
یا من سبقت رحمتہ غضبہ۔ اے وہ خدا کہ جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت لے گئی ہے- [20]
انسان کو چاہئے کہ وہ زندگی کے پروگرام پر یوں عمل پیرا ہو کہ ہر کام کی بنیاد رحمت و محبت کو قرار دے اور سختی و درشتی کو فقط بوقت ضرورت اختیار کرے۔ قرآن مجید کی ۱۱۴ سورتوں میں سے ۱۱۳ کی ابتداء رحمت سے ہوتی ہے اور فقط ایک سورہٴ توبہ ہے جس کا آغاز بسم اللہ کی بجائے اعلان جنگ اور سختی سے ہوتا ہے۔
۲ ۔ الحمد للہ رب العالمین
حمد وثنا اس خدا کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار و مالک ہے۔
تفسیر
سارا جہاں اس کی رحمت میںڈوبا ہو ا ہے۔
بسم اللہ جو سورت کی ابتداء ہے اس کے بعد بندوں کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عالم وجود کے عظیم مبداء اور اس کی غیر متناہی نعمتوں کو یاد کریں۔ وہ بے شمار نعمتیں جنہوں نے ہمارے پورے وجود کو گھیر رکھا ہے۔ پروردگار عالم کی معرفت کی طرف راہنمائی کرتی ہیں۔ بلکہ اس راستے کا سبب ہی یہی ہے کیونکہ کسی انسان کو جب کوئی نعمت حاصل ہوتی ہے تو وہ فورا چاہتا ہے کہ اس نعمت کے بخشنے والے کو پہچانے اور فرمان فطرت کے مطابق اس کی سپاس گزاری کے لئے کھڑا ہو اور اس کے شکریے کا حق ادا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء علم کلام (عقاید) اس علم کی پہلی بحث میں جب گفتگو معرفت خدا کی علت و سبب کے متعلق ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ فطری و عقلی حکم کے مطابق معرفت خدا اس لئے واجب ہے چونکہ محسن کے احسان کا شکریہ واجب ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ معرفت کی رہنمائی اس کی نعمتوں سے حاصل ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ (مبداء) خدا کو پہچاننے کا بہترین اور جامع ترین راستہ اسرار آفرینش و خلقت کا مطالعہ کرنا ہے ان میں خاص طور پر ان نعمتوں کا وجود ہے جو نوع انسانی کی زندگی کو ایک دوسرے سے مربوط کرتی ہیں۔ ان دو وجوہ کی بناء پر سورہ فاتحہ کتاب ”الحمد للہ رب العالمین“ سے شروع ہوتی ہے، اس جملے کی گہرائی اورعظمت تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ حمد، مدح اور شکر کے درمیان فرق اور اس کے نتائج کی طرف توجہ کی جائے۔
حمد : نیک اختیاری کام یا نیک صفت کی تعریف کو عربی زبان میں حمد کہتے ہیں یعنی جب کوئی سوچ سمجھ کر کوئی اچھا کام انجام دے یا کسی اچھی صفت کو انتخاب کرے جو نیک اختیاری اعمال کاسر چشمہ ہو تو اس پر کی گئی تعریف و توصیف کو حمد و ستائش کہتے ہیں۔
مدح : مدح کا معنی ہے ہر قسم کی تعریف کرنا چاہے وہ کسی اختیاری کام کے مقابلے میں ہو یا غیر اختیاری کام کے مثلا اگر ہم کسی قیمتی موتی کی تعریف کریں تو عرب اسے مدح کہیںگے۔
دوسرے لفظوں میں مدح کا مفہوم عام ہے جب کہ حمد کا مفہوم خاص ہے۔
شکر : شکر کا مفہوم حمد اور مدح دونوں سے زیادہ محدود ہے ۔ شکر فقط انعام و احسان کے مقابلے میں تعریف کو کہتے ہیں انعام و احسان بھی وہ جو کسی دوسرے سے اس کی رضا و رغبت سے ہم تک پہنچے۔ [21]
اب اگر ہم اس نکتے کی طرف توجہ کریں کہ اصطلاحی مفہوم میں ”الحمد“ کا الف اور لام جنس ہے اور یہاں عمومیت کا معنی دیتا ہے تو نتیجہ نکلے گا کہ ہر قسم کی حمد و ثنا مخصوص ہے اس خدا کے لئے جو تمام جہانوں کا مالک و پروردگار ہے یہاں تک کہ جو انسان بھی خیر و برکت کا سرچشمہ ہے، وہ پیغمبر او رخدائی راہنما نور ہدایت سے دلوں کو منور کرتا ہے اور درس دیتا ہے ، جو سخی بھی سخاوت کرتا ہے اور جو کوئی طبیب جان لیوا زخم پر مرہم پٹی لگاتا ہے ان کی تعریف کا مبداء بھی خدا کی تعریف ہے اور ان کی ثنا در اصل اسی کی ثناء ہے بلکہ اگر خورشید نور افشانی کرتا ہے، بادل بارش برساتا ہے اور زمین اپنی برکتیں ہمیں دیتی ہے تو یہ سب کچھ بھی اس کی جانب سے ہے لہذا تمام تعریفوں کی بازگشت اسی ذات با برکات کی طرف ہے دوسرے لفظوں میں ”الحمد للہ رب العالمین“ ، توحید ذات، توحید صفات اور توحید افعال کی طرف اشارہ ہے (اس بات پر خصوص غور کیجئے)۔
یہاں اللہ کی توصیف ”رب العالمین“ سے کی گئی ہے اصولی طور پر یہ مدعی کے ساتھ دلیل پیش کی گئی ہے۔ گویا کوئی سوال کر رہا ہو کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے کیوں مخصوص ہیں تو جواب دیا جارہا ہے کہ چونکہ وہ رب العالمین ہے یعنی تمام جہانوں میں رہنے والوں کا پروردگار ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے : الذی احسن کل شئی خلقہ ۔ یعنی خدا وہ ہے جس نے ہر چیز کی خلقت کو بہترین صورت میں انجام دیا (سجدہ، ۷) ۔
نیز فرمایا : وما من دابة فی الارض الا علی اللہ رزقھا۔ زمین میں چلنے والے ہر کسی کی روزی خدا کے ذمے ہے (ہود، ۶) ۔
کلمہ حمد سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ خدا وند عالم نے یہ تمام عطیات اور نیکیاں اپنے ارادہ و اختیار سے ایجاد کی ہیںاور یہ بات ان لوگوں کے نقطہٴ نظر کے خلاف ہے جو یہ کہتے ہیں کہ خدا بھی سورج کی طرح ایک مبداء مجبور فیض بخش ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حمد صرف ابتدائے کار میں ضروری نہیں بلکہ اختتام کار پر بھی لازم ہے جیسا کہ قرآن ہمیں تعلیم دیتا ہے۔
اہل بہشت کے بارے میں ہے۔
دعواھم فیھا سبحانک اللھم و تحیتھم فیھا سلام و آخر دعواہم ان الحمد للہ رب العالمین۔
پہلے تو وہ کہیںگے کہ اللہ تو ہر عیب و نقص سے منزہ ہے، ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت سلام کہیں گے او رہر بات کے خاتمے پر کہیں گے ”الحمد للہ رب العالمین“ (سورہ یونس ، ۱۰) ۔
کلمہ ”رب “ کے اصلی معنی ہیں کسی چیز کا مالک یا صاحب جو اس کی تربیت و اصلاح کرتا ہو۔ کلمہ ”ربیبہ“ کسی شخص کی بیوی کی اس بیٹی کو کہتے ہیں جو اس کے کسی پہلے شوہر سے ہو، لڑکی اگر چہ دوسرے شوہر سے ہوتی ہے لیکن منہ بولے باپ کی نگرانی میں پرورش پاتی ہے۔
لفظ ”رب“ مطلق اور اکیلا تو صرف خدا کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اگر غیر خدا کے لئے استعمال ہو تو ضروری ہے کہ اضافت بھی ساتھ ہو مثلا ہم کہتے ہیں رب الدار (صاحب خانہ) یا رب السفینة (کشتی والا) ۔ [22]
تفسیر مجمع البیان میں ایک اور معنی بھی ہیں: بڑا شخص جس کے حکم کی اطاعت کی جاتی ہو۔ بعید نہیں کے دونوں معانی کی بازگشت ایک ہی اصل کی طرف ہو ۔ [23]
لفظ ”عالمین“ عالم کی جمع ہے اور عالم کے معنی ہیں مختلف موجودات کا وہ مجموعہ جو مشترکہ صفات کا حامل ہو یاجن کا زمان و مکان مشترک ہو، مثلا ہم کہتے ہیں عالم انسان، عالم حیوان یا عالم گیاہ یا پھر ہم کہتے ہیں عالم مشرق، عالم مغرب، عالم امروز یا عالم دیروز۔ لہذا عالم اکیلا جمعیت کا معنی رکھتا ہے اورجب عالمین کی شکل میںجمع کا صیغہ ہو تو پھر اس سے اس جہان کے تمام مجموعوں کی طرف اشارہ ہوگا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ ” ی اور ن“ والی جمع عموما ذی العقول کے لئے آتی ہے جب کہ اس جہان کے سب عالم تو صاحب عقل نہیں ہیں اسی لئے بعض مفسرین یہاں لفظ عالمین سے صاحبان عقل کے گروہوں اور مجموعوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں۔ مثلا فرشتے، انسان اورجن۔ یہ احتمال بھی ہے کہ یہ جمع تغلیبی ہو(جس کا مقصد مختلف صفات کے حامل مجموعے کو بلند تر صنف کی صفت سے متصف کیا جانا ہے)۔
صاحب تفسیر المنار کہتے ہیں ہمارے جد امام صادق(ان پر اللہ کا رضوان ہو) سے منقول ہے کہ عالمین سے مراد صرف انسان ہیں۔ مزید لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں بھی عالمین اسی معنی کے لئے آیا ہے جیسا کہ لیکون للعالمین نذیرا۔ یعنی خدا وند عالم نے قرآن اپنے بندے پر اتارا تاکہ وہ عالمین کو ڈرائے۔ (فرقان، ۱) ۔
لیکن اگر عالمین کے موارد استعمال قرآن میں دیکھے جائیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ اگر چہ بہت سے مقامات پر لفظ عالمین انسانوں کے معنی میں آیا ہے تاہم بعض موارد میں اس سے وسیع تر مفہوم کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جہاں اس سے انسانوں کے علاوہ دیگر موجودات بھی مراد ہیں۔ مثلا :
فللہ الحمد رب السموات و رب الارض رب العالمین ۔
تعریف و ستائش مخصوص ہے اس خدا کے لئے جو آسمانوں اور زمین کا مالک و پروردگار ہے، جو مالک و پروردگار ہے عالمین کا۔ (الجاثیہ، ۳۶) ۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہے :
قال فرعون و مارب العالمین۔ قال رب السموات والارض و ما بینھما۔
فرعون نے کہا عالمین کا پروردگار کون ہے۔ موسی نے جواب دیا آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان کا پروردگار۔ (شعراء، ۲۴ ، ۲۳) ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایک روایت میں جو شیخ صدوق نے عیون الاخبار میں حضرت علی(ع) سے نقل کی ہے اس میں ہے کہ امام نے الحمد للہ رب العالمین کی تفسیر کے ضمن میں فرمایا :
رب العالمین ھم الجماعات من کل مخلوق من الجمادات والحیوانات۔
رب العالمین سے مراد تمام مخلوقات کا مجموعہ ہے چاہے وہ بے جان ہوں یا جاندار ۔ [24]
یہاں یہ اشتباہ نہیں ہونا چاہئے کہ شاید ان روایات میںکوئی تضاد ہے کیونکہ لفظ عالمین کا مفہوم اگر چہ وسیع ہے لیکن تمام موجودات عالم کا سہرا مہرہ انسان ہے لہذا بعض اوقات اس پر انگشت رکھ دی جاتی ہے اور باقی کائنات کو اس کا تابع اور اس کے زیر سایہ سمجھا جاتا ہے اس لئے اگر امام سجاد(ع) کی روایت میں اس کی تفسیر انسان کی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مجموعہ کائنات کا اصلی ہدف و مقصد انسان ہی ہے۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ بعض نے عالم کی دو حصوں میں تقسیم کی ہے عالم کبیر اور عالم صغیر۔ عالم صغیر سے ان کی مراد انسان کا وجود ہے کیونکہ ایک انسان کا وجود مختلف توانائیوں اور قوی کا مجموعہ ہے اور اس بڑے عالم پر حاکم ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ انسان تمام کائنات میں ایک نمونہ اور ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہم نے عالم سے یہ جو وسیع مفہوم مراد لیا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ لفظ عالمین جملہ الحمد للہ کے بعد آیا ہے ۔ اس جملہ میں تمام تعریف و ستائش کو خدا کے ساتھ مختص قرار دیاگیا ہے اس کے بعد رب العالمین کو بطور دلیل ذکر کیا گیا ہے گویا ہم کہتے ہیں کہ تمام تعریفیں مخصوص ہیں خدا کے لئے کیونکہ ہر کمال، ہر نعمت اور ہر بخشش جو عالم میں وجود رکھتی ہے اس کا مالک و صاحب اور پروردگار وہی ہے۔
۱ ۔ تمام ارباب انواع کی نفی : تاریخ ادیان و مذاہب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح توحید سے منحرف لوگ ہمیشہ اس جہان کے لئے ارباب انواع کے قائل تھے۔ اس غلط فکر کی بنیاد یہ تھی کہ ان کے گمان کے مطابق موجودات کی ہر نوع ایک مستقل رب نوع کی محتاج ہے جو اس نوع کی تربیت و رہبری کرتا ہے گویا وہ خدا کو ان انواع کی تربیت کے لئے کافی نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ وہ عشق، عقل، تجارت اور جنگ جیسے امور کے لئے بھی رب نوعی کے قائل تھے۔ یونانی بارہ بڑے خداؤں کی عبادت کرتے تھے(جن میں سے ہر کوئی رب النوع تھا)۔ یونانیوں کے بقول وہ المپ کی چوٹی، بزم خدائی سجائے بیٹھے تھے ان میں سے ہر ایک انسان کی ایک صفت کا مظہر تھا ۔ [25]
ملک آشور کے پایہ تخت کلاہ میں لوگ پانی کے رب نوع، چاند کے رب نوع، سورج کے رب نوع اور زہرہ کے رب نوع کے قائل تھے۔ انہوں نے ہر ایک کیلئے الگ الگ نام رکھ رکھا تھا اور ان سب کے اوپر ماردوک کو رب الارباب سمجھتے تھے روم میں بھی بہت سے خدا مروج تھے۔ شرک تعدد خدا اور ارباب انواع کا بازار شاید وہاں سب سے زیادہ گرم تھا۔
اہل روم تمام خداؤں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے تھے : گھریلو خدا اور حکومتی خدا۔ خدایان حکومت سے لوگوں کو زیادہ لگاؤ نہ تھا (کیونکہ وہ ان کی حکومت سے خوش نہ تھے)۔ ان خداؤں کی تعداد بہت زیادہ تھی کیونکہ ہر خدا کی ایک خاص پوسٹ (post) تھی اور وہ محدود معاملات میں دخیل ہوتا تھا۔عالم یہ تھا کہ گھر کے دروازے کا ایک مخصوص خدا تھا بلکہ ڈیوڑھی اور صحن خانہ کا بھی الگ الگ رب النوع تھا۔
ایک مورخ کے بقول اس میں تعجب کی بات نہیں کہ رومیوں کے ۳۰ ہزار خدا ہوں ۔ جیسا کہ ان کے ایک بزرگ نے کہا تھا کہ ہمارے ملک کے خداؤں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ گذر گاہوں اور محافل میں وہ افراد قوم سے زیادہ ہیں۔ ان خداؤں میں سے زراعت، باورچی خانہ، غلہ خانہ، گھر، گیس، آگ، میوہ جات، دروازہ، درخت، تاک، جنگل، حریق، شہر روم کے بڑے دروازے اور قومی آتشکدہ کے رب نوع شمار کئے جاسکتے ہیں ۔ [26]
خلاصہ یہ کہ گذشتہ زمانے میں انسان قسم قسم کے خرافات سے دست و گریباں تھا جیسا کہ اب بھی اس زمانے کی یادگار بعض خرافات باقی رہ گئے ہیں۔
نزول قرآن کے زمانے میں بھی بہت سے بتوں کی پوجا اور تعظیم کی جاتی تھی اور شاید وہ سب یا ان میں سے بعض پہلے ارباب انواع کے جانشین بھی ہوں۔
علاوہ از ایں بعض اوقات تو خود انسان کو بھی عملی طور پر رب قرار دیاجاتا رہا ہے ۔ جیسا کہ ان لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے جو احبار(علماء یہود) اور رہبانیوں(تارک الدنیا مرد اور عورتیں) کو اپنا رب سمجھتے تھے قرآن کہتا ہے :
اتخذوا احبارھم و رھبانہم اربابا من دون اللہ۔
انہوں نے خدا کو چھوڑ کر علماء اور راہبوں کو خدا بنا رکھا تھا۔ (توبہ، ۳۱) ۔
بہرحال علاوہ اس کے کہ یہ خرافات انسان کو عقلی پستی کی طرف لے گئے تھے۔ تفرقہ پسندی، گروہ بندی، اور اختلافات کاسبب بھی تھے ۔ پیغمبران خدا بڑی پامردی سے ان کے مقابلے میں کھڑے ہوئے یہاں تک کہ بسم اللہ کے بعد پہلی آیت جو قرآن میں آئی ہے وہ سی سلسلے سے تعلق رکھتی ہے الحمد للہ رب العالمین یعنی تمام تعریفیں مخصوص ہیں اس خدا کے لئے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس طرح قرآن نے تمام ارباب انواع پر خط تنیسیخ کھینچ دیا اور انہیں ان کی اصلی جگہ وادی عدم میں بھیج دیا اور ان کی جگہ توحید و یگانگی اور ہمبستگی و اتحاد کے پھول کھلائے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کی ذمہ ہے کہ وہ روزانہ اپنی شب وروز کی زنمازوں میں کم از کم دس مرتبہ یہ جملہ پڑھیں اور اس اللہ کے سایہ رحمت میں پناہ لیں جو ایک اکیلا خدا ہے جو تمام موجودات کا مالک، رب، سرپرست اور پرورش کرنے والا ہے تاکہ کبھی توحید کو فراموش نہ کریں اور شرک کی پر پیچ راہوں میں سرگرداں نہ ہوں۔
۲ ۔ خدائی پرورش، خدا شناسی کا راستہ : کلمہ ”رب“ در اصل مالک و صاحب کے معنی میں ہے لیکن ہر مالک و صاحب کے لئے نہیں بلکہ وہ جو تربیت و پرورش بھی اپنے ذمہ لے اسی لئے فارسی میں اس کا ترجمہ پروردگار کیاجاتاہے ۔
زندہ موجودات کی سیر تکامل اور بے جان موجودات کا تحول و تغیر نیز موجودات کی پرورش کے لئے حالات کی سازگاری و اہتمام جو ان میں نہاں ہے اس پر غور و فکر کرنا خدا شناسی کے راستوں میں سے ایک بہترین راستہ ہے۔
ہمارے اعضائے بدن میں ایک ہم آہنگی ہے جوزیادہ تر ہماری آگاہی کے بغیر قائم ہے یہ بھی ہماری بات پر ایک زندہ دلیل ہے۔ ہماری زندگی میں جب کوئی اہم حادثہ پیش آتا ہے اور ضروری ہوتا ہے کہ ہم پوری توانائی کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں تو ایک مختصر سے لحظے میں ہمارے تمام اعضاء و ارکان بدن کو ہم آہنگی کا حکم ملتا ہے تو فورادل دھڑکنے لگ جاتا ہے۔ سانس میں شدت پیدا ہوجاتی ہے، بدن کے تمام قوی مجتمع ہوجاتے ہیں،غذا اور آکسیجن خون کے راستے فراوانی سے تمام اعضاء تک پہنچ جاتی ہے، اعصاب آمادہ کار، عضلات اور پٹھے زیادہ حرکت کے لئے تیار ہوجاتے ہیں، انسان میں قوت تحمل بڑھ جاتی ہے۔ درد کااحساس کم ہوجاتا ہے، نیند آنکھوں سے اڑ جاتی ہے اور اعضاء میںسے تکان اور بھوک کا احساس بالکل ختم ہو جاتا ہے۔
کون ہے جو یہ عجیب و غریب ہم آہنگی اس حساس موقع پر اس تیزی کے ساتھ وجود انسانی کے تمام ذرات میں پیدا کردیتا ہے؟ کیایہ پرورش خدائے عالم و قادر کے سوا ممکن ہے۔ اس پرورش و تربیت کے سلسلے میں بہت سی قرآنی آیات ہیں جو انشاء اللہ اپنی اپنی جگہ پر آئیں گی اور ان میں سے ہر ایک معرفت خدا کی واضح دلیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۳ ۔ الرحمن الرحیم
وہ خدا جو مہربان اور بخشنے والا ہے(اس کی عام وخاص رحمت نے سب کو گھیر رکھا ہے)۔
رحمان و رحیم کے معنی و مفہوم کی وسعت اور ان کا فرق ہم اللہ کی تفسیر میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔اب تکرار کی ضرورت نہیں۔
جس نکتے کا یہاں اضافہ ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ دونوں صفات جو اہم ترین اوصاف خدا وندی ہیں ہر روز کی نمازوں میں کم ازکم ۳۰ مرتبہ ذکر ہوتی ہیں(دو مرتبہ سورہ حمد میں اور ایک مرتبہ بعد والی سورت میں)اس طرح ۶۰ مرتبہ ہم خدا کی تعریف صفت رحمت کے ساتھ کرتے ہیں۔
در حقیقت یہ تمام انسانوں کے لئے ایک درس ہے کہ وہ اپنے آپ کو زندگی میں ہر چیز سے زیادہ اس اخلاق خدا وندی کے ساتھ متصف کریں۔ علاوہ ازیںواقعیت کی طرف بھی اشارہ ہے ۔ اگر ہم اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھتے ہیں تو ایسانہ ہو کہ بے رحم مالک اپنے غلاموں سے جوسلکوک روا رکھتے ہیں ہماری نگاہ میں جچنے لگے۔
غلاموں کی تاریخ میں ہے کہ ان کے مالک ان سے عجیب قساوت و بے رحمی سے پیش آتے تھے۔ کہتے ہیں کہ اگر کوئی غلام ان کی خدمات کی انجام دہی میں معمول سی کوتاہی کرتا تو اسے سخت سزا سے دوچار ہونا پڑتا، اسے کوڑے مارے جاتے، بیڑیوں میں جکڑا جاتا، چکی سے باندھا جاتا، کان کنی پر لگایا جاتا، زیر زمین او رتاریک و ہولناک قید خانوں میں رکھا جاتا اور اس کا جرم زیادہ ہوتا تو سولی پر لٹکا دیا جاتا۔ [27]
ایک اور جگہ رکھا ہے کہ محکوم غلاموں کو درندوں کے پنجروں میں پھینک دیا جاتا اگر وہ جان بچا لیتے تو دوسرے درندہ کے پنجرہ میں داخل کردیا جاتا۔
یہ تو تھا نمونہ، مالکوں کے اپنے غلاموں سے سلوک کا لیکن خدا وند عالم بار بار قرآن میںانسانوں کو یہ فکر دیتا ہے کہ اگر میرے بندوں نے میرے قانون کو خلاف عمل کیا ہو اور وہ پشیمان ہوجائیں تو میں انہیں بخش دوں گا، انہیں معاف کردوںگا کہ میںرحیم اور مہربان ہوں۔ ارشاد الہی ہے : قل یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسہم لا تقنطوا من رحمة اللہ ان اللہ یغفرالذنوب جمعیا۔
کہئے کہ اے میرے وہ بندوں جنہوں نے (قانون الہی سے سرکشی کرکے)خود اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ خدا تمام گناہوں سے در گذر فرمائےگا(یعنی توبہ کرو رحمت خدا کے بے پایاں دریا سے بہرہ مند ہوجاؤ)۔ (زمر، ۵۳) ۔
لہذا رب العالمین کے بعد ”الرحمن الرحیم“ کو لانا اس نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم قدرت کے باوجود جو کہ ہماری عین ذات ہے، اپنے بندوں پر مہربانی اور لطف وکرم کرتے ہیں۔ یہ بندہ نوازی اور لطف بندے کو خدا کا ایسا شیفتہ و فریفتہ بنا دیتا ہے کہ وہ انتہائی شغف سے کہتا ہے ”الرحمن الرحیم“۔
یہاں سے انسان اس بات کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ خدا وند عالم کے اپنے بندوں سے اور مالکوں کے اپنے ماتحتوں سے سلوک میں کس قدر فرق ہے۔ خصوصا غلامی کے بد قسمت دور میں۔
۴ ۔ مالک یوم الدین
قیامت پر ایمان دوسری اصل ہے۔
یہاں اسلام کی دوسری اہم اصل یعنی قیامت اور دوبارہ قبروں سے اٹھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اورفرمایا گیا ہے وہ خدا جوجزا کے دن کا مالک ہے(مالک یوم الدین)اس طرح محور اور مبداء و معاد جوہر قسم کی اخلاقی اور معاشرتی اصلاح کی بنیاد ہے، وجود انسانی میں اس کی تکمیل ہوتی ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ یہاں قیامت خدا کی ملکیت سے تعبیر کی گئی ہے اور یہ بات اس دن کے لئے خدا کے انتہائی تسلط اور اشیاء و اشخاص پر اس کے نفوذکو مشخص کرتی ہے وہ دن کہ جب تمام انسان اس بڑے دربار میں حساب کے لئے حاضر ہوں گے۔ لوگ اپنے مالک حقیقی کے سامنے کھڑے ہوںگے۔ اپنی تمام کہی ہوئی باتیں، کیے ہوئے کام یہاں تک کہ سوچے ہوئے افکار کو اپنے موجود پائیں گے۔ حتی کہ سوئی کی نوک کے برابر بھی کوئی بات نابود نہ ہوگی۔اور فراموش نہ کی گئی ہوگی ۔ اب وہ انسان حاضر ہے جسے اپنے تمام اعمال و افعال کی جواب دہی کا بوجھ اپنے کندھے پر اٹھا نا ہوگا۔ نوبت یہ ہوگی کہ جن امور کو وہ خود بجا نہیں لایا بلکہ کسی طریقہ یا پروگرام کا بانی تھا اس میں بھی اسے اپنے حصے کی جواب دہی کا سامنا ہوگا۔
اس میں شک و شبہ نہیں کہ خدا وند عالم کی یہ مالکیت اس طرح سے اعتباری نہیں جس طرح اس دنیا میں چیزیں ہماری ملک ہیں، کیونکہ ہماری مالکیت تو ایک قرار داد کی بناء پر ہے یا اعزازی و اسنادی ہے۔ دوسرے اسناد و اعزاز کے ساتھ یہ مالکیت ختم بھی ہوسکتی ہے لیکن جہان ہستی کے لئے خدا کی مالکیت حقیقی ہے اور موجودات کا خدا کے ساتھ ایک ربط ہے جوایک لحظہ کیلئے منقطع ہوجائے تو نابود ہوجائیں جیسے بجلی کے قمقموں کا رابطہ اپنے بجلی گھر سے ٹوٹ جائے تو اسی لمحہ روشنی ختم ہوجائے۔ دوسرے لفظوں میں اس کی مالکیت خالقیت اورربوبیت کا نتیجہ ہے وہ ذات جس نے موجودات کو خلق کیا، اپنی رحمت کے زیر نظر ان کی پرورش کی اور لمحہ بہ لمحہ انہیں فیض وجود ہستی بخشا وہی موجودات کا حقیقی مالک ہے۔
ایک حقیر سا نمونہ مالکیت حقیقی کا ہم اپنی ذات میں اپنے اعضاء بدن کے بارے میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہم آنکھ، کان، دل اور اپنے اعصاب کے مالک ہیں، اس سے مراد اعتبار ی مالکیت نہیں بلکہ ایک قسم کی حقیقی مالکیت ہے جس کا سرچشمہ ربط، تعلق اور احاطہ ہے۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا اس جہان کا مالک نہیں؟ اگر ہے تو پھر کیوں ہم اسے مالک روز جزا کہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ایک نکتے کی طرف متوجہ ہونے سے واضح ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی مالکیت اگر چہ دونوں جہانوں پر محیط ہے لیکن اس مالکیت کا ظہور قیامت کے دن بہت زیادہ ہوگا۔ کیونکہ اس دن تمام مادی رشتے اوراعتباری ملکیتیں ختم ہوجائیں گی۔ اس دن کسی شخص کی کوئی چیز نہیں ہوکی۔ یہاں تک کہ شفاعت بھی فرمان خدا سے ہوگی۔
یوم لا تملک نفس لنفس شیئا والامر یومئذ للہ۔
وہ دن کے جب کوئی شخص کسی چیز کا مالک نہ ہوگا کہ اس کے ذریہ کسی کی مدد کرسکے اور تمام معاملات خدا کے ہاتھ میں ہوں گے۔ (الانفطار، ۱۹) ۔
دوسرے الفاظ میں اس دنیا میں انسان دوسرے کی مدد کے لئے اٹھ کھڑا ہوتاہے۔ کبھی زبان سے کبھی مال سے، کبھی افرادی قوت سے اور کبھی مختلف کاموں سے دوسرے کو اپنی حمایت و مدد فراہم کرتا ہے لیکن اس دن ان امور میں سے کوئی چیز بھی نہ ہوگی اسی لئے تو جب لوگوں سے سوال ہوگا :
لمن الملک الیوم ؟ آج کس کی حکومت ہے، تو جواب آئے گا : للہ الواحد القھار۔
( صرف خدائے یگانہ، کامیاب و کامران کی حکمرانی ہے) المومن ، ۱۶ ۔
قیامت کے دن پر اور اس بڑی عدالت گاہ پر ایمان کہ جس میں تمام چیزوں کا بڑی باریک بینی سے حساب لیا جائے گا انسان کو غلط اور ناشائستہ اعمال سے روکنے کے لئے بہت موثر ہے۔ نماز کے قبیح اور برے اعمال سے روکنے کی ایک وجہ یہی ہے کہ ایک تو یہ انسان کون مبداء کی یاد دلاتی ہے جو اس کے تمام کاموں سے واقف ہے اوردوسرے عدل خدا کی بڑی عدالت کو بھی یاد دلاتی ہے۔
روز قیامت خدا کی مالکیت پر ایمان کا فائدہ یہ بھی ہے کہ قیامت کا اعتقاد رکھنے والا مشرکین او رمنکرین قیامت کے مقابل قرار پاتا ہے کیونکہ آیات قرآنی سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پر ایمان ایک عمومی عقیدہ تھا یہاں تک کہ زمانہ ٴ جاہلیت کے مشرکین بھی یہ عقیدہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان سے سوال ہوتا تھا کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا کون ہے تو کہتے تھے ” خدا“۔
ولئن سالتھم من خلق السموات والارض لیقولن اللہ۔
اور اگر آپ ان سے دریافت کریں آسمانوں اور زمین کا خالق کون ہے تو ضرور کہیں گے ”اللہ“۔(لقمان، ۲۵) ۔
جب کہ وہ لوگ پیغمبر اکرم(ص) سے قیامت کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ایک عجیب و غریب انکار کرتے اور اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوتے۔ قرآن حکیم میں ہے :
وقال الذین کفروا ہل ندلکم علی رجل ینبئکم اذا مزقتم کل ممزق انکم لفی خلق جدید افتری علی اللہ کذبا ام بہ جنة۔کافر کہتے ہیں کیا تمہیں ایسے شخص سے متعارف کرائیں جو یہ کہتا ہے کہ جب تم خاک ہو کر ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے تو تمہارے ان منتشر اجزاء کو (سمیٹ کر) پھر سے زندہ کیا جائے گا۔ جانے وہ خدا پر جھوٹ باندھتا ہے یا دیوانہ ہے۔ (سبا ، ۸ ، ۷) ۔
ایک حدیث میں امام سجاد(ع) کے بارے میں ہے کہ آپ جب آیت مالک یوم الدین تک پہنچتے تو اس کا اس کرح سے تکرار کرتے کہ یوں لگتا جیسے آپ کی روح ، بدن سے پرواز کرجائےگی۔ حدیث کے الفاظ ہیں :
” کان علی بن الحسین اذا قرء مالک یوم الدین یکودھا حتی یکاد ان یموت [28]
باقی رہالفظ یوم الدینیہ تعبیر قرآن میں جہاں جہاں استعمال ہوئی اس سے مراد قیامت ہے جیسا کہ قرآن مجید میںسورہ انفطار کی آیات ۱۷ ، ۱۸ اور ۱۹ میں وضاحت کے ساتھ اس مفہوم کی طرف اشارہ ہوا ہے(یہ تعبیر قرآن مجید میں دس سے زیادہ مرتبہ اسی معنی میں استعمال ہوئی ہے)۔
اب رہی یہ گفتگو کہ اس دن کو یوم الدین کیوںکہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دن جزا کا دن ہے اوردین لغت میں جزا کے معنی میں ہے اور قیامت کا واضح ترین پروگرام جزا و سزا اور عوض و ثواب ہے۔ اس دن پردے ہٹ جائیں گے اور تمام اعمال کاتمام تر باریک تفصیلات کے ساتھ محاسبہ ہوگا اور ہر شخص اپنے اچھے برے اعمال کی جزا و سزا پالے گا۔
ایک حدیث میں امام صادق (ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :
” یوم الدین سے مراد روز حساب ہے“۔ [29]
اس روایت کے مطابق تو یہاں دین حساب کے ہم معنی ہے۔ شاید یہ تعبیر ذکر علت اور ارادہ معلول کے قبیل میں سے ہو کیونکہ ہمیشہ صاحب جزا کی تمہید اور مقدمہ ہوتا ہے۔
بعض مفسرین کا یہ نظریہ بھی ہے کہ قیامت کے دن کو یوم الدین اس لئے کہا گیا ہے کہ اس دن ہر شخص اپنے دین و آئین کے مطابق جزا و سزا پائےگا لیکن پہلا معنی (حساب و جزا)زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔
۵ ۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین۔
پروردگار ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیںاور تجھی سے مددچاہتے ہیں۔
یہاں سے ابتداء ہوتی ہے انسان کے دربار خدا میں پیش ہو کر حاجات اور تقاضوں کو بیان کرنے کی۔ حقیقت میں گفتگو کا لب و لہجہ یہاں سے بدل جاتا ہے کیونکہ گذشتہ آیات میں خدا کی حمد وثنا اور اس کی ذات پاک پر ایمان کا اظہار نیز قیامت کا اعتراف تھا۔ لیکن یہاں سے گویا بندہ اس محکم عقیدہ اور معرفت پروردگار کی وجہ سے اپنے آپ کو اس کے حضور اور اس کی ذات پاک کے روبرو دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اسے مخاطب کرکے پہلے اپنی عبدیت کا اظہار کرتا ہے اور پھر اس سے طلب امداد کے لئے گفتگو کرتے ہوء کہتا ہے کہ میں صرف تیری پرستش کرتاہو اور تجھی سے مدد چاہتا ہوں(ایاک نعبد و ایاک نستعین)۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ جب گذشتہ آیات کے مفاہیم انسان کی روح میں سرایت کرجاتا ہیں، اس کے وجود کی گہرائیاں اس اللہ کے نور سے روشن ہوجاتی ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور اس کی عمومی و خصوصی رحمت اور روز جزا کی مالکیت کو جان لیتا ہے تو اب عقیدے کے لحاظ سے فرد کامل نظر آنے لگتا ہے۔ توحید کے اس گہرے عقیدے کا پہلا ثمرہ اور نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف انسان خدا کا خالص بندہ بن جاتا ہے، بتوں جباروں اور شہوات و خواہشات کی عبادت کے دائرے سے نکل آتا ہے اور دوسری طرف طلب امداد کے لئے اس کی ذات پاک کی طرف ہاتھ پھیلانے کے قابل ہوجاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ گذشتہ آیات توحید ذات وصفات بیان کررہی ہیںاور یہاں توحید عبادت اور توحید افعال سے متعلق گفتگو ہے۔
توحید عبادت یہ ہے کہ کسی شخص یا چیز کو ذات خدا کے علاوہ پرستش کے لائق نہ سمجھا جائے،صرف اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے۔ صرف اس کے قوانین و احکام کو قبول کیاجائے اور اس کی ذات پاک کے علاوہ کسی کی کسی قسم کی عبادت و بندگی کرنے اور کسی اور کے سامنے سر افکندہ ہونے سے پرہیز کیا جائے۔
توحید افعال یہ ہے کہ سارے جہاں میں موثر حقیقی اسی کو سمجھا جائے (لاموٴثر فی الوجود الا اللہ، یعنی اللہ کے علاوہ کوئی موثر وجود نہیں رکھتا)۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عالم اسباب کا انکار کردیا جائے اور سبب کی تلاش نہ کی جائے بلکہ ہمیں یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ ہر سبب کی یہ تاثیر حکم خدا کے تابع ہے وہی ہے جس نے آگ کو جلانے، سورج کو روشنی دینے اور پانی کو حیات بخشنے کی تاثیر دی ہے۔
اس عقیدے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان صرف اللہ پر بھروسہ کرے گا اور قدرت و عظمت کو اسی سے مربوط سمجھے گا اور اس کا غیر اس کی نظر میں فانی، زوال پذیر اور فاقد قدرت ہوگا۔
صرف خدا کی ذات قابل اعتماد و ستائش ہے اور یہ لیاقت رکھتی ہے کہ انسان اسے تمام چیزوں میں اپنا سہارا قرار دے یہ فکر اور اعتماد انسان کا ناطہ تمام موجودات سے توڑ کر صرف خدا سے جوڑ دے گا۔ یہاں تک کہ اب وہ عالم اسباب کی تلاش بھی حکم خدا کے تحت کرتا ہے یعنی اسباب میں بھی وہ قدرت خدا کا مشاہدہ کرتا ہے کیونکہ خدا ہی مسبب الاسباب ہے۔
۱ ۔ آیت میں حصر کا مفہوم : عربی ادبیات کے قوعد کے مطابق جب مفعول، فاعل پر مقدم ہوجائے تو اس سے حصر کے معنی پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہاں بھی ایاک ، کا نعبد اورنستعین پر مقدم ہونا دلیل حصر ہے۔ اور اس کا نتیجہ وہی توحید عبادت اور توحید افعال ہے جسے ہم پہلے بیان کرآئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندگی اورعبودیت میں بھی ہم اس کی مدد کے محتاج ہیں اور اس کے لئے بھی ہم اسی سے طلب اعانت کرتے ہیں تاکہ کہیں انحراف، خود پسندی، ریاکاری اور ایسے دیگر امور میں گرفتار نہ ہوجائیں کیونکہ یہ چیزیں عبودیت کوریزہ ریزہ کردیتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہاجاسکتا ہے کہ ہم پہلے جملے میں کہتے ہیں کہ ہم صرف تیری پرستش کرتے ہیں اس میں کچھ نہ کچھ استقلال کی بو آتی ہے لہذا فورا ایاک نستعین سے ہم اس کی اصلاح کرلیتے ہیں اس طرح بین الامرین(نہ جبر نہ تفویض) کو اپنی عبادت میں جمع کرلیتے۔ یہ حالت ہمارے تمام کاموں کے لئے ایک نمونہ ہے۔
۲ ۔ نعبد و نستعین اور اسی طرح بعد کی آیات میں جمع کے صیغے آئے ہیں۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عبادت اور خصوصا نماز کی اساس جمع و جماعت پر رکھی گئی ہے یہاں تک کہ جب بندہ خدا کے سامنے راز و نیاز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو جماعت و اجتماع کے ساتھ شمار کرے چہ جائے کہ اس کی زندگی کے دیگر کام۔ اس بناء پر ہر قسم کی انفرادیت علیحدگی، گوشہ نشینی اور اس قسم کی چیزیں قرآن اور اسلام کی نظر میں مردود قرار پاتی ہیں۔
نماز میں اذان و اقامت (جو نماز کے لئے اجتماع کی دعوت ہے)سے لے کر حی علی خیرالصلواة(نماز کی طرف جلدی آوٴ)سے گزرتے ہوئے سورہ الحمد تک جو نماز کی ابتداء اور السلام علیکم تک جو نماز کااختتام ہے، سب اس امر کی دلیل ہے کہ یہ عبادت در اصل اجتماعی پہلو رکھتی ہے یعنی اسے صورت جماعت میںانجام پذیر ہونا چاہئے اگر چہ یہ صحیح ہے کہ نماز فرادی بھی اسلام میں صحیح ہے لیکن عبادت فرادی جنبہ فرعی کی حامل ہے اور ایسی عبادت دوسرے درجے کی عبادت قرار پاتی ہے۔
۳ ۔ طاقتوں کے ٹکراؤ کے وقت استعانت خدا کی طلب : انسان اس جہاںکئی ایک طاقتوں سے نبرد آزما ہے۔ چاہے وہ طاقتیںطبیعی و مادی ہوں یا انسان کے اندر کی طاقتیں۔ تباہ و برباد اور منحرف کرنے والی چیزوں کا مقابلہ کرنے کےلئے انسان کو یارو مددگار کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے جہاںانسان اپنے تئیں پروردگار کے سایہ رحمت کے سپرد کرتا ہے۔ ہر روز انسان بستر خواب سے اٹھتا ہے اور ایاک نعبد و ایاک نستعین کی تکرار سے پروردگار کی عبودیت کا اعتراف کرکے اس کی ذت پاک سے اس بڑے مقابلے میں مدد حاصل کرتا ہے اور شام کے وقت بھی اسی جملے کی تکرار سے سر اپنے بستر پر رکھتا ہے گویا اس کی یاد سے اٹھتا ہے۔ اور اسی کو یاد کرتے ہوئے طلب استعانت کے بعد سوتا ہے۔ ایسا شخص کتنا خوش نصیب ہے ۔ یہی شخص ایمان کے اس درجے پر پہنچ جاتا ہے کہ پھر کسی سرکش و طاقت ور کے سامنے سر نہیں جھکاتا اور مادیات کی کشمش کے مقابلے میں اپنے آپ کو دھوکا نہیں دیتا اور وہ پیغمبر اسلام(ص) کی پیروی میں کہتا ہے : ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین۔
یقینا میری نماز، میری عبادت، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اس خدا کے لئے ہے جو عالمین کا پروردگار ہے۔ (الانعام، ۱۶۲) ۔
۶ ۔ اھدنا الصراط المستقیم
ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت فرما۔
پرور دگار کے سامنے اظہار تسلیم، اس کی ذات کی عبودیت ، اس سے طلب استعانت کے مرحلے تک پہنچ جانے کے بعد بندے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ اسے سیدھی راہ، پاکیزگی و نیکی کی راہ، عدل و داد کی راہ اور ایمان و عمل صالح کی ہدایت نصیب ہو۔ تاکہ خداجس نے اسے تمام نعمتوں سے نوازا ہے ہدایت سے بھی سرفراز فرمائے۔
اگر چہ یہ انسان ان حالات میں مومن ہے اور اپنے خدا کی معرفت رکھتا ہے لیکن یہ امکان ہے کہ کسی لحظے یہ نعمت کچھ عوامل کے باعث اس سے چھن جائے اور یہ صراط مستقیم سے منحرف اور گمراہ ہوجائے لہذا چاہئے کہ شب و روز میں دس مرتبہ اپنے خدا سے خواہش کرے کہ اسے کوئی لغزش و انحراف در پیش نہ ہو۔
یہ صراط مستقیم جو باالفاظ دیگر آئین و دستور حق ہے کے کئی مراتب و درجات ہں تمام افراد ان مدارج کو برابر طے نہیں کرتے انسان جس قدر ان درجات کو طے کرے اس سے بلند تر درجات موجود ہیں۔ پس صاحب ایمان کو چاہئے کہ وہ خدا سے خواہش و دعا کرے کہ وہ اسے ان درجات کی ہدایت کرے۔
یہاں یہ مشہور سوال سامنے آتا ہے کہ ہم ہمیشہ خدا سے صراط مستقیم کی ہدایت کی درخواست کرتے رہتے ہیں، کیا ہم گمراہ ہیں؟ اور اگر بالفرض یہ بات ہمارے لئے درست ہے تو پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ اہل بیت جو انسان کامل کا نمونہ ہیں ان کے لئے کیونکر صحیح ہے؟؟
اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں :
جیسے پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ انسان کے لئے راہ ہدایت میں ہر لمحہ لغزش و کجروی کا خوف ہے لہذا چاہئے کہ اپنے آپ کو پروردگار کے اختیار میں دیدے اور اس سے تقاضا کرے کہ وہ اسے سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھے۔ ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ وجود ہستی اور دیگر تمام نعمات لمحہ بہ لمحہ اس مبداء عظیم ہی سے ہم تک پہنچی ہیں۔ اس سے قبل بھی کہا جا چکا ہے کہ ہماری اور تمام موجودات کی مثال بجلی کے بلب کی سی ہے اگر ہم دیکھیں کہ بلب کی روشنی مسلسل پھیل رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر لحظہ بجلی کے مرکز سے قوت حاصل کر رہی ہے کیونکہ بجلی کے مرکز سے ہر لحظہ نئی روشنی کی تولید جاری ہے اور یہ مربوط تاروں کے ذریعہ اسے بلب تک پہنچاتا ہے ہمارا وجود بھی بلب کی روشنی کی طرح جو بظاہر ایک مستقل پھیلے ہوئے وجود کی طرح ہے لیکن حقیقت میں ہمیں مرکز ہستی، آفریدگار فیاض سے ہر لحظہ ایک نیا وجود ملتا رہتا ہے۔ چونکہ ہمیں ہر لمحہ ایک تازہ وجود میسر آتا ہے اس لئے ہر لمحہ ہم نئی ہدایت کے محتاج ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ خدا اور ہمارے درمیان رابطے کی معنوی تاروںمیںاگر کوئی مانع پیدا ہوجائے مثلا بے راہ روی، ظلم، ناپاکی وغیرہ تو اس سے منبع ہدایت کے ساتھ ہمارا رابطہ منقطع ہوجائے گا اور یوں ہم صراط مستقیم سے منحرف ہوجائیں گے۔ ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں یہ موانع پیش نہ آئیں اور ہم صراط مستقیم پر ثابت قدم رہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہدایت کے معنی ہیں طریق تکامل کو طے کرنا یعنی انسان تدریجا مراحل نقص پیچھے چھوڑتا جائے اور مراحل بلند تک پہنچتا جائے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ راہ کمال، یعنی ایک کمال سے دوسرے کمال تک پہنچنے کا راستہ نامحدود ہے گویا یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔
اس بنا پر کوئی تعجب نہیں کہ انبیاء و آئمہ علیہم السلام بھی خدا سے صراط مستقیم کی ہدایت کا تقاضہ کریں کیونکہ کمال مطلق تو صرف ذات خدا ہے اور باقی سب بلا استثناء سیرتکامل میںہیں لہذا کیا حرج ہے کہ وہ بھی خدا سے بالاتر درجات کی تمنا کریں۔
کیا ہم نبی اکرم (ص( پر درود و سلام نہیں بھیجتے؟ اور کیا درود در اصل محمد و آل محمد پر پروردگار عالم سے نئی رحمت کا تقاضا نہیں؟ ؟ کیارسول اللہ نہیں فرماتے ؟
رب زدنی علما (خدایا میرے علم(اور ہدایت)کو زیادہ فرما۔
کیا قرآن یہ نہیں کہتا : ویزید اللہ الذین اھتدوا ھدی۔ یعنی خدا ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے۔ (مریم، ۷۶) ۔
یہ بھی قرآن میں ہے :
والذین اھتدوا ازادھم ھدی و اتاھم تقواھم
یعنی جو ہدایت یافتہ ہیں خدا ان کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں تقوی عطا کرتا ہے(محمد، ۱۷) ۔
اسی سے نبی اکرم اور آئمہ علیہم السلام پر درود بھیجنے کے متعلق سوال کا جواب مل جاتا ہے۔
ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کی وضاحت کے لئے ذیل کی دو حدیثوں کی طرف توجہ فرمائیں :
۱ ۔ حضرت امیرالمومنین علی(ع) جملہ اھدنا الصراط المستقیم کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں : یعنی آدم لنا توفیقک الذی اطعناک بہ فی ماضی ایامنا حتی نطیعک کذلک فی مستقبل اعمادنا۔
خدا وند ا جو توفیقات تونے ماضی میں ہمیں عنایت کی ہیں ۔ جن کی برکت سے ہم نے تیری اطاعت کی ہے انہیں اسی طرح برقرار رکھ تاکہ ہم آئندہ بھی تیری اطاعت کرتے رہیں ۔ [30]
۲ ۔ حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں : یعنی ارشدنا للزوم الطریق الموٴدی الی محبتک والمبلغ الی جنتک والمانع من ان نتبع اھوائنا فنعطب او ان ناخذ بآرائنا فنھلک۔
خدا وندا ہمیں اس راستہ پر جو تیری محبت اور جنت تک ہے ثابت قدم رکھ کہ یہی راستہ ہلاک کرنے والی خواہشات اورانحرافی و تباہ کرنے والی آراء سے مانع ہے ۔ [31]
صراط مستقیم کیا ہے ؟
آیات قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ صراط مستقیم آئین خدا پرستی، دین حق اور احکام خدا وندی کی پابندی کا نام ہے۔ جیسے سورہ انعام کی آیت ۱۶۱ میں ہے : قل اننی ھدانی ربی الی صراط مستقیم۔ دینا قیما ملة ابراھیم حنیفا۔ و ماکان من المشرکین۔
یعنی کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت کی ہے جو سیدھا دین ہے وہ کہ جو اس ابراہیم کا آئین ہے جس نے کبھی خدا سے شرک نہیں کیا۔
دین ثابت یعنی وہ دین جو اپنی جگہ قائم رہے ، ابراہیم کے آئین توحیدی اور ہرقسم کے شرک کی نفی کا تعارف یہاں پر صراط مستقیم کے عنوان سے ہوا ہے اور یہی بات اس اعتقادی پہلو کو مشخص کرتی ہے۔
سورہ یسن آیت ۶۰ ، ۶۱ میں ہے :
الم اعھد الیکم یبنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان، انہ لکم عدو مبین، و ان اعبدونی ھذا صراط مستقیم۔
اے اولاد آدم! کیا میں نے تم سے یہ عہد و پیمان نہیں لا تھا کہ شیطان کی پرستش نہ کرنا(اس کے احکام پر عمل نہ کرنا)کیونکہ یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا یہی صراط مستقیم ہے۔
یہاں دین حق کے عمل پہلوؤں کیطرف اشارہ ہے جوہر قسم کے شیطانی فعل اور عملی انحراف کی نفی ہے سورہ آل عمراں آیت ۱۰۱ میں قرآن کے مطابق صراط مستقیم تک پہنچنے کا طریقہ خدا سے تعلق اور ربط پیدا کرنا ہے۔
ومن یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم۔ جنہوں نے اللہ کے دامن رحمت کو تھامے رکھا انہی نے صراط مستقیم کی ہدایت پائی۔
اس نکتہ کی طرف بھی نظر ضروری ہے کہ صراط مستقیم صرف ایک ہی راستہ ہے کیونکہ دو نقطوں کے درمیان خط مستقیم صرف ایک ہی ہوسکتا ہے جو نزدیک ترین راستے کو تشکیل دیتا ہے۔
لہذا اگر قرآن کہتا ہے کہ صراط مستقیم در اصل اعتقادی و عملی پہلوؤں سے دین و آئین الہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ دین ہی نزدیک ترین راستہ ہے خدا سے ربط پیدا کرنے کا اور یہی وجہ ہے کہ دین حقیقی و واقعی ہے بھی فقط ایک۔
ان الدین عنداللہ الاسلام۔ دین خدا کے نزدیک اسلام (ہی) ہے۔ (آل عمران ، ۱۹) ۔
انشاء اللہ ہم بعد میں بیان کریں گے کہ اسلام ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور اس میں ہر وہ آئین توحید شامل ہے جو کسی بھی زمانے میں جاری تھا اور کسی نئے آئین سے منسوخ نہیں ہوا۔
یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ مفسرین نے صراط مستقیم کی جو مختلف تفاسیر بیان کی ہیں ان سب کی برگشت ایک ہی حقیقت کی طرف ہے۔
بعض نے اس کے معنی اسلام کئے ہیں بعض نے قرآن، کچھ مفسرین نے اس سے رسول و آئمہ برحق مراد لئے ہیں اور کچھ نے اللہ کا آئین کہ جس کے علاوہ خدا کو کوئی چیز قبول نہیں۔ ان تمام معانی کی برگشت اسی دین و آئین الہی کی طرف ہے تمام تر اعتقادی و عملی پہلوؤں کے ساتھ۔
جو روایات مصادر اسلامی میں اس سلسلے میں وارد ہوئی ہںان میں سے ہر ایک اس مسئلے کے ایک زاویے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سب کی بازگشت ایک ہی اصل کی طرف ہے۔ رسول اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا :
الصراط المستقیم صراط الانبیاء وھم الذین انعم اللہ علیھم
صراط مستقیم انبیاء کا راستہ ہے اور انبیاء وہ ہستیاں ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا۔
امام صادق (ع) کا ارشاد اھدنا الصراط المستقیم کی تفسیر میں یوں ہے :
الطریق و معرفة الامام ۔ اس سے مراد امام کا راستہ اور اس کی معرفت ہے۔ [32]
ایک اور حدیث میں امام صادق ہی سے منقول ہے : واللہ نحن صراط المستقیم۔ بخدا ہم صراط مستقیم ہیں [33]
ایک اور حدیث میں امام صادق (ع) نے فرمایا : صراط مستقیم امیرالمومنین علی(ع) ہیں۔ [34]
یہ مسلم ہے کہ رسول اکرم، امیرالمومنین اور دیگر آئمہ اہل بیت سب کے سب اسی آئین توحید کی دعوت دیتے رہتے ہیں وہ دعوت جس میں اعتقاد بھی ہے اور عمل بھی۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ راغب نے کتاب مفردات میں صراط کے معنی میں کہا ہے کحہ صراط کے معنی ہیںسیدھا راستہ لہذا مستقیم ہونے کا مفہوم خود صراط میں مضمر ہے گویا مستقیم ساتھ بطور صفت ہے جو اس مسئلے پر تاکید کے مفہوم میں ہے۔
۷ ۔ صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم والا الضالین۔
ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا۔ ان کی راہ نہیں جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ وہ کہ جو گمراہ ہوگئے۔
یہ آیت حقیقت میں صراط مستقیم کی واضح تفسیر ہے جسے ہم گذشتہ آیت کے ذیل میں پڑھ چکے ہیں۔ دعا ہے کہ مجھے ان لوگوں کے راستے کی ہدایت فرما جنہیں قسم قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے (نعمت ہدایت و نعمت توفیق، مردان حق کی رہبری کی نعمت، نعمت علم وعمل اور نعمت جہاد و شہادت)۔ ان لوگوں کی راہ نہیں جن کے برے اعمال اور ٹیڑھے عقائد کے باعث تیرا غضب انہیں دامن گیر ہوا اور نہ ہی ان لوگوں کی راہ جو شاہراہ حق کو چھوڑ کر بے راہ روی کے عالم میں ہیں، گمراہ و سرگرداں ہیں صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیہم ولاالضالین۔
حقیقت یہ ہے کہ چونکہ ہم راہ و رسم ہدایت سے پورے طور سے آشنا نہیں لہذا خدا ہمیں دستور ہدایت دے رہا ہے کہ ہم انبیاء ، صالحین اور دیگر وہ لوگ جو نعمت و الطاف الہی سے نوازے گئے ہیں ان کے راستے کی خواہش کریں۔ نیز ہمیں خبردار کیا گیا ہے کہ تمہارے سامنے دو ٹیڑھے خطوط موجود ہیں، خط مغضوب علیھم اور خط ضالین ان دونوں کی تفسیر ہم بہت جلد ذکر کریں گے۔
۱ ۔ الذین انعمت علیھم کون ہیں : سورہ نساء آیت ۶۹ میں اس گروہ کی نشاندہی یوں کی گئی ہے : ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین، وحسن اولئک رفیقا۔
جو لوگ خدا و رسول کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں خداانہیں ان لوگوں کے ساتھ قرار دے گا جنہیں نعمات سے نوازا گیا ہے اور وہ ہیں انبیاء، صدیقین، شہدائے راہ حق اور صالح انسان اور یہ لوگ بہترین ساتھی ہیں۔
جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اس آیت میں شاید اس معنی کی طرف اشارہ ہو کہ ایک صحیح وسالم، ترقی یافتہ اور مومن معاشرے کی تشکیل کے لئے پہلے انبیاء اور رہبران حق کو میدان عمل میں آنا چاہئے، ان کے بعد سچے اور راست باز مبلغ ہوں جن کی گفتار اور کردار میں ہم آہنگی ہو تاکہ وہ اس راستے سے انبیاء کے مقاصد کو تمام اطراف میں پھیلادیں۔ فکری تربیت کے اس پروگرام پر عمل در آمد کے دوران میں بعض گمراہ عناصر راہ حق میں حائل ہونے کی کوشش کریں گے۔ ان کے مقابل ایک گروہ کو قیام کرنا چاہئے۔ ان میں سے کچھ لوگ شہید ہوں گے او راپنے خون مقدس سے شجر توحید کی آبیاری کریں گے۔ چوتھے مرحلے میں ان کوششوں کے نتیجے میں صالح لوگ وجود میں آئیں گے اور یوں ایک پاک و پاکیزہ،شائستہ اور معنویت و روحانیت سے پر معاشرہ وجود میں آجائے گا۔
اس لئے ہم روزانہ صبح وشام سورہ حمد میں پے بہ پے خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہم بھی ان چار گروہوں کے طریق حق کے راہی قرار پائیں حق کا راستہ، انبیاء کا راستہ، صدیقین کا راستہ، شہداء کا راستہ اور صالحین کا راستہ ہے۔
واضح ہے کہ ہر زمانے کو انجام تک پہنچانے کے لئے ہمیں ان میں سے کسی خط کی پیروی میں اپنی ذمہ داری کو انجام دینا ہوگا۔
۲ ۔ مغضوب علیھم اور ضالین کو ن ہیں : ان دونوں کو آیت میں الگ الگ بیان کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کسی خالص گروہ کی طرف اشارہ ہے۔
دونوں میں فرق کے سلسلے میں تین تفسیریں موجود ہیں :
۱ ۔ قرآن مجید میں دونوں الفاظ کے استعمال کے مواقع سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغضوب علیھم کا مرحلہ ضالین سے سخت تر اور بدتر ہے۔ بالفاظ دیگر ضالین سے مراد عام گمراہ لوگ ہیں اور مغضوب علیھم سے مراد لجوج (گمراہی پر مصر) یا منافق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ایک موقعوں پر ایسے لوگوں کے لئے خدا کے غضب اور لعنت کا ذکر ہوا ہے۔
سورہٴ نحل آیت ۱۰۶ میں آیا ہے :
ولکن من شرح بالکفر صدرا فعلیھم غضب من اللہ۔
جنہوں نے کفر کے لئے اپنے سینوں کو کھول رکھا ہے ان پر اللہ کا غضب ہے۔
سورہٴ فتح آیت ۶ میں ہے :
و یعذب المنافقین و المنافقات والمشرکین والمشرکات الظانین باللہ ظن السوء علیھم دائرة السوء وغضب اللہ علیھم و لعنھم و اعدلھم جھنم
منافقین مرد اور عورتیں اور مشرک مرد اور عورتین جو خدا کے بارے میں برے گمان کرتے ہیں خدا ان سب پر عذاب نازل کرے گا۔ ان سب پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے وہ انہیں اپنی رحمت سے دور رکھتا ہے اور انہی کے لئے اس نے جہنم تیار کررکھی ہے۔
بہرحال مغضوب علیھم وہ ہیں جو راہ کفر میں لجاجت و عناد اورحق سے دشمنی رکھنے کے علاوہ رہبران الہی اور انبیاء مرسلین کو ہر ممکن اذیت و آزار پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
سورہ آل عمران آیت ۱۱۲ میں ہے :
وباء و بغضب من اللہ و ضربت علیھم المسکنة ذلک بانھم کانو یکفرون بایت اللہ و یقتلون الانبیاء بغیر حق ذلک بما عصوا وکان یعتدون۔
ان (یہودیوں) پر خدا کا غضب ہو ا اور انہیں رسوائی نصیب ہوئی کیونکہ وہ انبیاء الہی کو ناحق قتل کرتے تھے اور حدود و شریعت سے تجاوز کے مرتکب ہوتے تھے۔
۲ ۔ مفسرین کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ضالین سے منحرف عیسائی اور مغضوب علیھم سے منحرف یہودی مراد ہیں یہ نظریہ ان دونوںگروہوں کے دعوت اسلام کے مقابلے میں ردعمل کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ قرآن جس طرح مختلف آیات میں صراحت کے ساتھ یاد دہانی کراتا ہے کہ یہودی دعوت اسلام کے بارے میں مخصوص کینہ و عداوت کا مظاہرہ کرتے تھے اگر چہ ابتداء میں انہی کے علماء لوگوں کو اسلام کی بشارت دیا کرتے تھے لیکن تھوڑا ہی عرصہ گذرا کہ کئی ایک وجوہ(جن کی تفصیل کا یہ مقام نہیں) کی بناء پر وہ اسلام کے سخت ترین دشمن ہوگئے ان وجوہ میں ایک ان کے مادہی مفادات کا خطرے میں پڑ جانا بھی تھا۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کی پیش رفت روکنے کے لئے ہر ممکن رکاوٹیں کھڑی کرت( آج بھی صیہونیوں کا مسلمانوں کے بارے میں وہی طریق کار ہے)۔
ان حالات میں انہیں مغضوب علیھم سے تعبیر کرنا درست معلوم ہوتا ہے لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ یہ تعبیر حقیقت میں ان کے عمل کے باعث تطبیق کی صورت ہے نہ کہ مغضوب علیھم سے صرف یہودی مراد ہیں۔ رہے نصاری تو اسلام کے بارے میں ان کا موقف اس قدر سخت نہ تھا بلکہ وہ فقط آئین حق کی پہچان میں گمراہ تھے لہذا لفظ ضالین سے عیسائی مراد لئے گئے ہیں اور یہ بھی ایک تطبیق ہے۔
احادیث اسلامی میںبارہا مغضوب علیھم سے یہودی اور ضالین سے عیسائی مراد لئے گئے ہیں۔ اس کی وجہ پہلے ہی بیان کی جا چکی ہے۔ [35]
۳ ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ ضالین سے وہ گمراہ لوگ مراد ہیں جو دوسروں کو گمراہ کرنے پر مصر نہیںجب کہ مغضوب علیھم وہ لوگ ہیں جو خود تو گمراہ ہیں ہی دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اور دوسروںکو اپنا ہم رنگ بنانے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں۔
اس بات کی دلیل وہ آیات ہیں جو ایسے اشخاص کے بارے میں ہیں جو راہ راست کی ہدایت حاصل کرنے کے لئے کوشاں دوسرے لوگوں کے درمیان میں حائل ہوجاتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا گیا ہے :
یصدون عن سبیل اللہ“ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو راہ خدا سے روکتے ہیں۔ (اعراف، ۴۵) ۔
سورہ شوری آیت ۱۶ کے الفاظ ہیں : والذین یحاجون فی اللہ من بعد ما استجیب لہ حجتھم داحضة عند ربھم و علیھم غضب ولھم عذاب شدید۔
وہ لوگ جو مومنین کی طرف سے دعوت اسلام قبول ہونے کے بعد نبی اکرم(ص) سے جھگڑتے اور کج بحثی کرتے ہیں۔ خدا کے ہاںان کی دلیل وحجت بے اساس ہے۔ ان پر اللہ کا غضب ہے اور سخت عذاب ان کا منتظر ہے۔
باوجود اس کے یوں نظر آتا ہے کہ ان تفاسیر میں جامع تر وہی پہلی تفسیر ہے اور وہ ایسی تفسیر ہے جس میں باقی تفسریں بھی مجتمع ہیں۔ حقیقت میںباقی تفاسیر اس کے مصادیق میں شمار ہوتی ہیں لہذا کوئی وجہ نہیں کہ ہم آیت کے وسیع مفہوم کو محدود کردیں۔
والحمد للہ رب العالمین
) تفسیر سورہٴ حمد اختتام کو پہنچی (
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ سورت جو قرآن مجیدکی طویل ترین سورتوں میں سے ہے مسلما تمام کی تمام ایک دم نازل نہیں ہوئی بلکہ مختلف وقفوںسے مدینہ میں اسلامی معاشرے کی گوناگوں ضروریات کے مطابق نازل ہوئی ۔
اس کے باوجود اسلام کے اصول اعتقاد اور بہت سے عملی مسائل کی رو سے (جن میں عبادتی، اجتماعی سیاسی اور اقتصادی مسائل شامل ہیں) اس کی جامعیت ناقابل انکار ہے۔ اس کے موضوعات ایک نظر میں یہ ہیں :
۱ ۔ توحید اور خدا شناسی کے متعلق بحثیں خصوصا وہ جو اسرار افرینش کے موضوع سے متعلق ہیں۔
۲ ۔ قیامت اور موت کے بعد سے متعلق بحثیں بالخصوص حسی مثالیں، جیسے حضرت ابراھیم کا واقعہ، پرندوں کا مرنے کے بعد زندہ ہونا اور حضرت عزیر کا واقعہ۔
۳ ۔ قران کے معجزہ ہونے کی بحثیں اور اس آسمانی کتاب کی اہمیت ۔
۴ ۔ یہودیوں اور منافقین کے بارے میںمفصل اور طویل بحثی۔ اسلام اور قرآن کے بارے میں ان کے مخصوص اعتراضات اوراس سلسلے میں ان کی کارستانیں اور رکاوٹیں۔
۵ ۔ بڑے بڑے انبیاء خصوصا حضرت ابراہیم(ع) اور حضرت موسی(ع) کی تاریخ کے سلسلے کی بحثیں۔
۶ ۔ اسلام کے مختلف احکام سے متعلق ابحاث۔ جن میں نماز، روزہ، جہاد فی سبیل اللہ، حج،تغیر قبلہ، نکاح، طلاق، احکام، تجارت وقرض، سود کے بعض اہم احکام اور بہت سی دیگر مخصوص بحثیں شامل ہیں۔
راہ خدا میں خرچ، مسئلہ قصاص، کئی ایک حرام گوشت، قمار، حرمت شراب، بعض احکام وصیت وغیرہ بھی اس کے موضوعات میں سے ہیں۔
اس کے نام۔ البقرة۔ کی بناء ایک واقعہ ہے جو بنی اسرائیل میں ایک گائے کے سلسلے میں ہے جس کی تفصیل آیت ۶۷ تا ۷۳ میں انشاء اللہ آئے گی۔
اس سورت کی فضیلت سے متعلق کتب اسلامی میں بہت سی روایات موجود ہیں اس سلسلے میں مرحوم طبرسی نے ایک روایت رسول اکرم(ص) سے مجمع البیان میں نقل کی ہے۔
آپ پوچھا گیا :
ای سورة القرآن افضل؟ (قرآن کی کونسی آیت افضل ہے؟)۔
قال البقرة (فرمایا : سورہ بقرہ)۔
قال آیة الکرسی۔ (فرمایا : آیة الکرسی) ۔ [36]
ظاہرا اس سورت کی افضلیت اس کی جامعیت کی وجہ سے ہے اور آیة الکرسی کی افضلیت اس بناء پر ہے کہ اس میں توحید کے بارے میں بعض اہم امور بیان ہوئے ہیں جس کی تفصیل انشاء اللہ اس کی تفسیر میں آئے گی۔
یہ بات اس سے اختلاف نہیں رکھتی کہ قرآن کی بعض دیگر سورتوں کی کئی ایک جہات کی وجہ سے برتری بیان ہوئی ہے کیونکہ ان کی یہ فضیلت دیگر وجوہ کے پیش نظر ہے۔
حضرت علی بن الحسین کی وساطت سے رسول اکرم (ص) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : جو شخص سورہ بقرہ کی پہلی چار آیات، آیة الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں اور اس سورہ کی آخری تین آیات پڑھے وہ کبھی بھی اپنی جان و مال میں ناخوشگواری نہ پائے گا۔ شیطان اس کے نزیک نہیں آئے گا اور وہ قرآن کو نہیں بھولے گا۔ [37]
ہم یہاں اس اہم حقیقت کا تکرار ضروری سمجھتے ہیں کہ تلاوت قرآن یا سورتوں اور مخصوص آیات کے لئے جو ثواب، فضیلتیں اور ہم فائدے بیان ہوئے ہیں ان کا یہ مفہوم ہرگزنہیں کہ انسان انہیں بطور ورد پڑھے اور صرف زبان چلانے پر اکتفاء کرے بلکہ قرآن کا پڑھنا سمجھنے کے لئے اور سمجھنا غور و فکر کے لئے ہے اور غور و فکر عمل کرنے کے لئے ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جو فضیلت کسی سورت یا آیت کے متعلق ذکر ہوئی ہے وہ اس سورت یا آیت کے موضوع سے بہت زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔
مثلا ہم سورة نور کی فضیلت کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ جو اسے پڑھے گا خدا وند عالم اسے اور اس کی اولاد کو زنا کی آلودگی سے محفوظ رکھے گا۔ تو یہ اس بناء پر ہے کہ سورہ نور کے مضامین میں جنسی کجرویوں سے مقابلے کے لئے اہم رہنمائی موجود ہے۔ مجرد اشخاص کو جلد شادی کرنے کا حکم ہے، پردے کا حکم ہے، بری نگاہ اور ہوس رانی کی نگاہ ترک کرنے کا حکم ہے، نارو اور غلط نسبتوں کی ممانعت ہے اور آخر میں زنا کار مردوں اور عورتوں کے لئے حد شرعی کے اجراء کا حکم دیا گیا ہے۔
واضح ہے کہ سورہ نور کے مفاہیم و موضوعات کسی معاشرے یا خاندان میں عملی جامہ پہن لیں تو وہ زنا سے آلودہ نہیں ہوگا۔
اسی طرح سورہ بقرة کی وہ آیات جن کی طرف اوپر اشارہ ہوچکا ہے سب توحید، ایمان بالغیب، خدا شناسی اور شیطانی وسوسوں سے پرہیز کے بارے میں ہیں۔ اب اگر کوئی شخص دل و جان سے ان پر عمل پیرا ہو تو یقینا سب فضائل مذکور اسے حاصل ہوں گے۔
یہ درست ہے کہ قرآن کا پڑھنا بہرحال باعث ثواب ہے لیکن اصلی، اساسی اور آثار چھوڑنے والا ثواب اسی وقت ملے گا جب تلاوت غور و فکر او رعمل کے لئے مقدمہ و تمہید ہو۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الم ( ۱) ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَرَیْبَ فِیہِ ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ ( ۲)
ترجمہ : شروع اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔
۱ ۔ ا ل م
۲ ۔ یہ وہ با عظمت کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ پرہیزگاروںکی ہدایت کی بنیاد ہے۔
انیس سورتوں کی ابتداء میں ہمیں حروف مقطعات دکھائی دیتے ہیں ۔ جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہے یہ حروف ایک دوسرے سے منقطع اور الگ الگ ہیں اور ان سے کوئی ایسا لفظ نہیں بنتا جو سمجھ میں نہ آسکے۔ قرآن کے حروف مقطعات ہمیشہ قرآن کے اسرار آمیز کلمات میں شمار ہوتے رہے ہیں۔ مفسرین نے ان کی کئی ایک تفاسیر بیان کی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور علماء کی جدید تحقیقات سے ان کی نئی تفسیریں سامنے آئیں گی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ہم نے کسی تاریخ میں نہیں دیکھا کہ جہاں عرب اور مشرکین نے قرآن کی کئی ایک سورتوں کی ابتداء میں موجود ان حروف مقطعات کی وجہ سے رسول اکرم پر اعتراض کیا ہو یا ان کے باعث استہزاء و تمسخر کیا ہو۔ یہ امر اس بات کی خبر دیتا ہے کہ گویا وہ لوگ بھی حروف مقطعات کے وجود کے اسرار سے بالکل بے خبر نہ تھے۔
بہرحال تفاسیر مذکورہ میں سے چند ایک ایسی ہیں جو زیادہ اہم اور معتبر لگتی ہیں اور وہ اس سلسلے کی آخری تحقیقات سے ہم آہنگ ہیں ہم چند ایک کو تدریجا اس سورت، آل عمران اور سورہ اعراف کے آغاز میں انشاء اللہ بیان کریں گے۔
اس وقت ان میں سے اہم ترین کا ذکر کیا جا رہا ہے :
یہ حروف اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ یہ آسمانی کتاب اس عظمت و اہمیت کے باوجود کہ اس نے عرب و عجم کے تمام سخنوروں کو حیران کر دیا ہے ۔ اور علماء و محققین کو عاجز کر دیا ہے انہی حروف کا مجموعہ و نمونہ ہے جن کا استعمال سب کے اختیار میں ہے۔
باوجودیکہ قرآن انہی حروف الف با اور عام کلمات سے مرکب ہے لیکن یہ ایسے موزوں کلمات اور عظیم معانی کا حامل ہے جو انسان کے دل وجان کی گہرائیوں میں اترجاتے ہیں انسان کی روح تحیر اور تحسین کی کیفیات سے دوچار ہوجاتی ہے اور ان کے مطالعے سے افکار و عقول ان کی تعظیم و تکریم پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ قرآن کی جملہ بندی مرتب ہے، اس کے کلمات بلند ترین بنیادوں کے حامل ہیں اور اس میں بلند معانی زیبا ترین الفاظ کے قالب میں اس طرح سے ڈھلے ہوئے ہیں جس کی کوئی مثل و نظیر نہیں ملتی۔
قرآن کی فصاحت و بلاغت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ بات صرف دعوی نہیں کیونکہ خالق کائنات، جس نے اس کتاب کو اپنے رسول پرنازل کیا ہے اس نے تمام نسانوں کو اس کی مثل پیش کرنے کی دعوت دی ہے اور ان سے کہا ہے کہ اس جیساقرآن یا اس جیسی ایک سورت ہی لے آو۔ اس نے دعوت دی ہے کہ تمام جہانوں کے باسی(جن و انس)ہم گام و ہم فکر ہو کراس کی نظیر پیش کریں۔ لیکن سب کے سب عاجز و ناتواں رہ گئے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قرآن فکر انسانی کی تخلیق نہیں۔
بالکل اسی طرح جیسے خدا وند عظیم نے اس مٹی سے انسان کو اس تعجب خیز جسم کے ساتھ تخلیق کیا، قسم قسم کے خوبصورت پرندے اورجانور پیدا کئے، طرح طرح کی چیزیں بناتے ہیں۔ ایسے ہی خدا وند تعالی حروف الف باء اور معمولی کلمات سے بلند ترین مطالب و معانی کو خوبصورت الفاظ اور موزوں کلمات کے سانچے میں ڈھالتا ہے اور انہیں ایسا اسلوب دیتا ہے جس سے تمام انگشت بدنداں ہیں۔ بیشک یہی حروف انسانوں کے اختیار میں بھی ہیں لیکن ان میں یہ طاقت نہیں کہ قرآن جیسی تراکیب اور جملہ بندی ایجاد کرسکیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ زمانہ ٴ جاہلیت اور ادبیات کے لحاظ سےایک عہد زریں تھا۔ وہی پا برہنہ اور نیم وحشی بادیہ نشین بدو تمام تر اقتصادی و معاشرتی محرو میوں کے باوجود ادبی ذوق اور سخن سنجی سے سرشار تھے۔یہاں تک کہ آج بھی ان کے اشعار ان کے سنہری زمانے کی یاد دلاتے ہیں۔ ان کے بہترین اور قیمتی اشعار ادبیات عرب کا سرمایہ ہیں اور حقیقی عربی ادب کے متلاشیوں کے لئے ایک گراں بہا ذخیرہ ہیں۔ یہ بات اس وقت کے عربوں کے تفوق ادبی اور ذوق سخن پروری کی بہترین دلیل ہے۔
عربوں کے زمانہ جاہلیت میں ایک سالانہ میلہ لگتا تھا جو بازار عکاظ کے نام سے مشہور تھا۔ یہ ایک ادبی اجتماع کے ساتھ ساتھ سیاسی و عدالتی کانفرنس بھی تھی۔ اسی بازار میں بڑے بڑے اقتصادی سودے بھی ہوتے، شعراء اور سخنور اپنی اپنی تخلیقات اس کانفرنس میں پیش کرتے ان میں سے بہترین کا انتخاب ہوتا۔ جسے شعر سال کا اعزاز حاصل ہوتا۔ ان میں سے سات یا دس قصیدے سبعہ یا عشرہ معلقہ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس عظیم الشان ادبی مقابلے میں کامیابی شاعر اور اس کے قبیلے کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز تصور کی جاتی تھی۔
ایسے زمانے میں قرآن نے اپنی مثل لانے کی دعوت انہی لوگوں کو دی اور سب نے اظہار عجز کیا اور اس کے سامنے سرجھکالئے ۔ اس کی مزید تشریح، اس سورہ کی آیت ۲۳ کے ذیل میں آئے گی جہاں قرآن کے چیلنج اور عرب سخنوروں کے عجز کا تذکرہ ہے۔
حروف مقطعہ کی اس تفسیر کا زندہ ثبوت وہ حدیث ہے جو امام سجاد علی بن الحسین علیہما السلام سے منقول ہے ۔ آپ فرماتے ہیں :
کذب قریش والیہود بالقرآن و قالوا ہذا سحر مبین تقولہ فقال تعالی اللہ : الم۔ ذلک الکتابای یا محمد ھذا الکتاب الذی انزلتہ الیک الحروف المقطعة التی منھا الف و لام و م وہو بلغتکم تاتوا بمثلہ ان کنتم صادقین
قریش اور یہودیوں نے یہ کہہ کر قرآن کی طرف غلط نسبت دی کہ قرآن جادو ہے یہ خود ساختہ ہے اور اسے خدا سے منسوب کردیا گیا ہے۔ خدا نے انہیں خبردار کیا اور فرمایا الم ذلک الکتاب“ یعنی اے محمد جو کتاب ہم نے آپ پر نازل کی ہے وہ انہی حروف مقطعہ (الف، لام، م) وغیرہ پر مشتمل ہے جو تمہارے زیر استعمال ہے اور اگر تم سچے ہو تو اس کی مثل پیش کرو۔ [38]
دوسری شہادت وہ حدیث ہے جو امام علی بن موسی الرضا سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں : ثم قال : ان اللہ تبارک و تعالی انزل ھذا القرآن بھذہ الحروف التی تید اولھا جمیع العرب ثم قال : قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن۔
خدا وند تعالی نے قرآن کو انہی حروف میں نازل فرمایا جنہیں تمام اہل عرب بولتے ہیں۔ پھر فرمایا : ان سے کہئے کہ اگر انس و جن قرآن کی مثل لانے کے لئے مجتمع ہوجائیں تب بھی وہ اس کی مثل نہیں لا سکتے۔ [39]
ایک اور نکتہ جو قرآن کے حروف مقطعہ کے بارے میں اس نظریے کی تائید کرتا ہے یہ ہے کہ قرآن میں ۲۴ مقامات ایسے ہیں جہاں سورتوں کی ابتداء جب ان حروف سے ہوتی ہے تو بلا فاصلہ قرآن اور اس کی عظمت سے متعلق گفتگو شروع ہوجاتی ہے۔ یہ بات خود نشاندہی کرتی ہے کہ حروف مقطعہ اور قرآن میں ربط موجود ہے۔
ایسے چند ایک مقامات یہ ہیں :
۱ ۔ الر، کتاب احکمت آیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر۔
۲ ۔ طس، تلک آیات القرآن و کتاب مبین۔
۳ ۔ الم ، تلک آیات الکتاب الحکیم۔
۴ ۔ المص، کتاب انزل الیک۔
ان موارد میں قرآن
ان موارد میںقرآن کی دیگر سورتوں کے آغاز میں بہت سے مواقع پر حروف مقطعہ کے ذکر کے بعد قرآن سے متعلق بات کی گئی ہے اور اس کی عظمت بیان ہوئی ہے۔
اس سورہ (بقرہ) کے آغاز میں بھی حروق مقطعہ کو بیان کرنے کے بعد آسمانی کتب کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ یہ وہی با عظمت کتاب ہے جس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں۔ (ذالک الکتاب لا ریب فیہ)۔
یہ تعبیر ممکن ہے اس طرف اشارہ ہو کہ خد انے اپنے رسول سے وعدہ کیا ہو کہ وہ انسانوں کی رہنمائی کے لئے اس پر ایسی کتاب نازل کرے گا جو تمام طالبان حق کے لئے باعث ہدایت ہوگی اور حقیقت کے متلاشیوں کے لئے اس میں کوئی شک و شبہ نہ ہوگا۔ اور اب اس نے اپنے اس وعدے کو ایفاء کیا ہو۔
یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں صرف ایک دعوی نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ جو کچھ اس قرآن میں ہے وہ خود اپنی حقانیت پر گواہی دیتا ہے۔ گویا عطار کے صندوقچہ کی طرح ہے،خاموش ہے مگر اپنا کمال دکھا رہا ہے۔
دوسرے لفظوں میں اس طرح سے آثار صدق و عظمت، نظم و استحکام، معانی کی گہرائی، الفاظ و تعبیرات کی مٹھاس اور فصاحت اس میں نمایاں ہے کہ ہر قسم کا وسوسہ اور شک دور ہوتا چلا جاتا ہے اور آنجا کہ عیاں است چہ حاجت بیان است“ کا مصداق ہے۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ رفتار زمانہ نہ فقط اس شگفتگی و تازگی کو کم نہیں کرسکی بلکہ علوم کی پیش رفت اور اسرار کائنات کے آشکارا ہونے سے اس کے حقایق روشن تر ہوتے جارہے ہیں اور علم جتنا مائل بہ کمال ہے اس کی آیات زیادہ واضح ہوتی جارہی ہیں یہ دعوی ہی نہیں بلکہ ایسی حقیقت ہے جس سے ہم انشاء اللہ اسی تفسیر میںآگا ہو ہوں گے۔
۱ ۔ دور کا اشارہ کیوں : ہمیں معلوم ہے کہ فقط ”ذلک “لغت عرب میں دور کے لئے اسم اشارہ ہے۔ اس بناء پر ”ذلک الکتاب“ کا مفہوم ہے وہ کتاب۔ حالانکہ یہاں نزدیک کے اسم اشارہ سے استفادہ کیا جانا چاہئے تھا اور” ھذا الکتاب“ ہونا چاہئے تھاکیونکہ قرآن لوگوں کی دسترس میں تھا۔ یہ اس لئے ہوا کہ کبھی بعید کا اسم اشارہ کسی چیز یا شخص کی عظمت کے پیش نظر استعمال کیا جاتا ہے گویا اس کا مقام اتنا بلند ہے کہ آسمانوں کی بلندی کا حامل ہے۔ فارسی میں بھی ایسی تعبیرات موجود ہیں۔ مثلا کسی عظیم شخصیت کے حضور میں ہم کہتے ہیں :
” اگر آن سرور اجازہ دھند “
یعنی ” اگر وہ سردار اجازت دیں“۔
حالانکہ یہاں ”این سرور“ یعنی یہ سردار کہنا چاہئے۔ یہ صرف بیان عظمت اور مقام بلند کے باعث ہے۔ کئی ایک دوسری آیات میں بھی تلک کا استعمال ہوا ہے اور یہ بھی اشارہ بعید ہے مثلا : تلک آیات الکتاب الحکیم ۔(لقمان، ۲) ۔
۲ ۔ معنی ”کتاب“ : کتاب بمعنی مکتوب ہے یعنی لکھی ہوئی ۔ ا س میں کوئی شک نہیں کہ اس آیت میں کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔
اب یہاں یہ سوال سامنے آئے گا کہ کیا اس وقت تمام قرآن لکھا ہوا تھا۔ اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ تمام قرآن کا لکھا ہونا ضروری نہیں کیونکہ قرآن جس طرح اس پوری کتاب کو کہا جاتا ہے اس کے اجزاء کو بھی کہا جاتا ہے۔ علاوہ از یں لفظ کتاب بعض اوقات اس سے زیادہ وسیع معنی میں بولا جاتا ہے ۔و ہ مطالب جو لکھنے کے قابل ہیں اور جنہیں لکھا جاتا ہے چاہے اس وقت نہ لکھے گئے ہوں۔ سورہ ص آیہ ۲۹ میں ہے :
کتاب انزلناہ الیک مبارک لیدبروا۔
یعنی یہ کتاب جسے ہم نے آپ پر نازل کیا با برکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں تدبر و تفکر کریں۔
یہ احتمال بھی ہے کہ کتاب سے تعبیر کرنا قرآن کے لوح محفوظ میں لکھے ہونے کی طرف اشارہ ہو(لوح محفوظ کے بارے میں بحث (ہم اس کی جگہ پر کریں گے( ۱) ۔ ۱ ۔ ذیل آیت ۳۹ ، سورہ رعد، تفسیر نمونہ۔
۳ ۔ ہدایت کیا ہے ؟ : لفظ ہدایت قرآن میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ اس کی بنیاد دو معانی ہیں :
الف ۔ ہدایت تکوینی۔ جو تمام موجودات عالم میں پائی جاتی ہے( اس سے مراد وہ ہدایت ہے جو تمام موجودات نظام خلقت کے تحت عالم ہستی کے قوانین کی پابندی کے ساتھ پروردگار عالم سے حاصل کرتی ہیں)۔
قرآن مجید اس ضمن میں حضرت موسی(ع) کا قول بیان کرتا ہے :
قال ربنا الذی اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدا۔
حضرت موسی نے کہا : ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کی ہدایت کی۔(طہ، ۵۰) ۔
ب ۔ ہدایت تشریعی : جو انبیاء اور کتب آسمانی کے ذریعے انجام پذیر ہوتی ہے اور نوع انسانی کی تعلیم و تربیت سے ترقی کی راہیں طے کرتی ہے۔ اس کے شواہد بھی قرآن میں بہت سے ہیں۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہے :
و جعلناھم ائمة یھدون بامرنا۔ انہیں ہم نے رہنما قرار دیا تاکہ ہمارے فرمان کے مطابق لوگوں کو ہدایت کریں۔ (انبیاء ۷۳) ۔
۴ ۔ قرآنی ہدایت پرہیزگاروں کے ساتھ کیوں مخصوص ہے؟ : یہ مسلم ہے کہ قرآن تمام دنیا کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے۔ لیکن مندرجہ بالا آیت میں اس کی ہدایت کو پرہیزگاروں کے ساتھ کیوں مخصوص قرار دیا گیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک تقوی کا کچھ حصہ انسان میں موجود نہ ہو اس کے لئے آسمانی کتابوں اورانبیاء کی دعوت سے ہدایت کا حصول محال ہے(تقوی کے کچھ حصے سے مراد یہ ہے کہ انسان عقل و فطرت کی روشنی میں حق کو پہچان سکے اور پھر اس کے سامنے سر تسلیم خم بھی کردے۔
با الفاظ دیگر جن لوگوں کے پاس ایمان نہیں، انہیں دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ ایک وہ جو حق کی تلاش میں ہیں اور اس قدر تقوی ان میں موجود ہے کہ جاں کہیں حق کوپائیں گے اسے قبول کرلیں گے اور دوسرا حصہ وہ جو لجوج، متعصب اور ہوا پرست لوگوںپر مشتمل ہے جو نہ صرف یہ کہ تلاش حق نہیں کرتے بلکہ جہاں کہیں اسے دیکھیں گے اسے ختم کردینے کے در پے ہوں گے اب یہ مسلم ہے کہ قرآن اوردوسر ی کتب صرف پہلے گروہ کے لئے مفید تھیں اور ہیں اور دوسرا گروہ ان کی ہدایت سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا۔ گویا فاعل کی فاعلیت کے علاوہ قبول کرنے والے میں قبولیت کی شرط بھی ہے۔ فرق نہیں کہ ہدایت تکوینی ہو یا ہدایت تشریعی۔
زمین شورہ زار ہرگز سنبل بر نیارد
اگر چہ ہزاران مرتبہ باران بر آن بیارد
یعنی۔ شوردار زمین سے فصل نہیں آگتی چاہے ہزاروں مرتبہ اس پر بارش برسے۔
بلکہ ضروری ہے کہ زمین آمادہو تاکہ وہ بارش کے حیات بخش قطروں سے بہرہ ور ہوسکے۔
وجود انسانی کی سرزمین بھی جب تک ہٹ دھرمی، عناد اور تعصب سے پاک نہ ہو ہدایت کے بیج کو قبول نہیں کرے گی۔ اسی بناء پر ارشاد الہی ہے کہ ۔ قرآن متقی لوگوں کے لئے ہادی و رہنما ہے۔
الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ ( ۳)
وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا آنْزِلَ إِلَیْکَ وَمَا آنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْآخِرَةِ ہُمْ یُوقِنُونَ ( ۴)
آوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِنْ رَبِّہِمْ وَآوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ ( ۵)
۳ ۔ پرہیزگار وہ ہیں جو غیب(جس کا حواس ادارک نہیں کرسکتے) پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور ان نعمتوں اور عطیوں میں سے جو ہم نے انیہں بطور روزی دیے ہیں خرچ کرتے ہیں۔
۴ ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو کچھ آپ(ص) سے قبل (انبیاء گذشتہ پر) نازل ہوچکا ایمان رکھتے ہیں۔
۵ ۔ انہیں خدا نے ہدایت کی ہے اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔
قرآن اس سورہ کی ابتداء میں اسلامی آئین اور پروگرام سے مربوط ہونے کے لحاظ سے لوگوں کو تین مختلف گروہوں میں تقسیم کرتا ہے۔
۱ ۔ متقین(پرہیزگار)۔ جو اسلام کو مکمل طور پر قبول کرتے ہیں۔
۲ ۔ کافرین۔ جو پہلے گروہ کے مد مقابل کھڑے ہیں، اپنے کفر کے معترف ہیں اور اسلام کے مقابلے میں دشمنی کی گفتار و رفتار سے انکاری نہیں ہیں۔
۳ ۔ منافقین۔ جو دو رخ اور دو چہرے رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ظاہرا مسلمان ہیں اور گروہ مخالف کے ساتھ ہوں تو مخالف اسلام۔ البتہ ان کا اصلی چہرہ وہی کفر والا ہے تاہم اسلام کی ظاہری چیزیں بھی اپناتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ گروہ اسلام کے لئے دوسرے گروہ کی نسبت زیادہ خطرناک ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ اسی بناء پر قرآن ان پر بہت زیادہ نکتہ چینی کرتاہے۔
البتہ یہ موضوع اسلام ہی سے مخصوص نہیں بلکہ تمام مکاتب و مذاہب عالم ان تین گروہ سے واسطہ رکھتے ہیں کیونکہ کوئی شخص کسی مکتب کا مومن ہے یا واضح طور پر اس کا مخالف یا پھر منافق جسے اپنے کام سے کام ہے۔ نیز یہ مسئلہ کسی خاص زمانے سے بھی تعلق نہیں رکھتا بلکہ تمام ادوار عالم میں ایسا ہی رہا ہے۔
زیر بحث آیات میں پہلے گروہ کے متعلق گفتگو ہے۔ ان کی خصوصیات کو ایمان و عمل کے لحاظ سے پانچ عنواناتن کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔
۱ ۔ غیب پر ایمان : سب سے پہلے قرآن کہتا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں (الذین یومنون بالغیب) ۔ غیب و شہود ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ عالم شہود عالم محسوسات ہے اور عالم غیب ماورائے حس ہے۔ کیونکہ غیب کے معنی اصل میں پوشیدہ و پنہاں چیز کے ہیں۔ کیونکہ محسوسات سے ماوراء کی دنیا ہماری حس سے پوشیدہ ہے لہذا اسے غیب کہا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے :
عالم الغیب والشھادة، ھو الرحمن الرحیم
وہ خدا جو غیب و شہود سے واقف ہے وہی مہربان (اور ) رحیم ہے۔
غیب پر ایمان رکھنا در اصل وہ پہلا نقطہ ہے جو مومنین کو دوسروں سے جدا کرتاہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جو آسمانی ادیان کے پیروکاروں کو خدا، وحی اور قیامت کے منکروں کے مقابلے میں کھڑا کرتاہے۔ اسی بناء پر پرہیزگاروں کی پہلی خصوصیت کے طور پر ایمان بالغیب کا ذکر کیا گیاہے۔
مومنین سرحد مادہ کو توڑ کر، اس محدود چاردیواری سے نکال لئے گئے ہیں اور وہ اس وسعت فکر و نظر کے باعث ایک بہت بڑے فوق العادہ جہان سے مربوط ہوگئے ہیں جبکہ ان کے مخالف مصر ہیں کہ انسان کو مادہ کی چار دیواری میں جانوروں کی طرح محدود رکھیں اور اس الٹی چال کو وہ تمدن کی پیش رفت اور ترقی کا نام دیتے ہیں۔
ان دونوں نقطہ ہائے نظر کے ادراک و فکر کا مقابلہ کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیںگے کہ غیب پر ایمان رکھنے والے۔ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جہان ہستی اس دنیا سے کہیں وسیع تر ہے جسے ہمارے حواس درک کرتے ہیں۔ اس جہان کے پیدا کرنے والے کا علم اور قدرت بے انتہا ہے اور اس کی عظمت و ادراک کی کوئی حد نہیں۔ وہ ازلی و ابدی ہے ۔ اس نے عالم ایک بہت بڑے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بنایا ہے۔
روح انسانی اور باقی حیوانات میں بہت بڑا فرق ہے ۔ موت کے معنی نابود ہونا اور فنا ہونا نہیں بلکہ یہ انسان کی تکمیل کا ایک مرحلہ و منزل ہے۔ یہ ایک وسیع تر جہان دیکھنے کے لئے ایک دریچہ ہے جب کہ ایک مادی شخص اعتقاد رکھتا ہے کہ جہان ہستی اسی میں محدود ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ جتنا علوم طبیعی نے ہمارے لئے ثابت کیا ہے وہی کچھ کائنات ہے۔ قوانین طبیعت جبری قوانین کا ایک سلسلہ ہے جو بغیر کسی پروگرام یا منصوبے کے ظاہر ہوگیا۔ اس عالم کے پیدا کرنے والی قوت و طاقت ایک چھوٹے سے بچے جتنی عقل و شعور بھی نہیں رکھتی۔ انسان بھی اس طبیعت کا ایک جزء ہے اور موت کے بعد اس کی ہر چیز ختم ہوجائے گی۔اس کا بدن منتشر ہوجائے گا اور اس کے اجزاء دوبارہ طبیعی مواد سے مل جائیںگے۔ انسان کے لئے بقاء نہیں ہے۔ اس کے اور عام حیوانات کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں [40] ۔
کیا انسانوں کا ان دو متضاد طرز فکر ہوتے ہوئے ایک دوسرے پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ آیا معاشرے میں ان کا طرز زندگی اور طریق کار ایک جیسا ہوسکتا ہے۔
پہلا شخص(مومن) حق و عدالت، خیرخواہی اور دوسروں کی مدد سے چشم پوشی نہیں کرسکتا لیکن دوسرے (مادی) شخص کے پاس ان امور کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں مگر جتنا اس کی آج یا کل کی مادی زندگی کا تقاضا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ مومنین کے درمیان سچا بھائی چارہ، پاکیزہ افہام و تفہیم اور تعاون ہوتا ہے جب کہ جہاں پرمادی فکر کے حامل شخص کی حکمرانی ہے وہاں استعمار، استشمار، خونریزی، غارت گری اور تاراجی ہے۔
واضح ہوا کہ قرآن نے تقوی کا پہلا نقطہ ایمان بالغیب کو قرار دیا ہے تو اس کی یہی وجہ ہے جو بیان کی گئی ہے۔
کیا ایمان بالغیب سے مراد صرف ذات پاک پروردگار پر ایمان لانا ہے یا غیب یہاں ایک وسیع معنی رکھتا ہے یعنی وحی، قیامت، فرشتے اور عالم حس سے ماوراء سب کچھ اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ مفسرین کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے لیکن ہم نے ابھی کہا ہے کہ جہاں ماورائے جس پر ایمان رکھنا مومنین اور کافرین میں نقطہ اختلاف اور علیہدگی کا سبب ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ غیب یہاںایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں آیت کی تعبیر بھی مطلق ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی قید موجود نہیں جو اسے کسی خاص معنی میں محدود کردے۔
اب اگر ہم اہلبیت (ع) کی بعض روایات میں دیکھتے ہیں کہ اس آیت میں غیب سے مراد امام غائب حضرت مہدی سلام اللہ علیہ لئے گئے ہیں [41] ۔
تو یہ بات ہماری گذشتہ گفتگو سے اختلاف نہیں رکھتی۔ امام مہدی علیہ السلام ہمارے عقیدے کی بناء پر زندہ و سلامت ہیں اور نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ آیات کی تفسیر کے سلسلے کی روایات جن کے بہت سے نمونے آپ ملاحظہ کریں گے زیادہ تر مخصوص مصادیق کے لئے بیان ہوئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں ان مصادیق میں محدود کردیا گیا ہے بلکہ مذکورہ روایات حقیقت میں ایمان بالغیب کی وسعت اور اس کے امام غائب تک کے شمول کو بیان کرتی ہے یہاں تک کہ کہا جاسکتا ہے کہ ایمان بالغیب ممکن ہے زمانے کے گذرنے کے ساتھ ساتھ نئے مصداق بھی پیدا کرے۔
بسم اللہ لرحمن الرحیم
۲ ۔ خدا سے رابطہ : پرہیز گاروں کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں(ویقیمون الصلواة) ۔ نماز، خدا سے رابطے کی ایک رمز ہے۔
مومنین جو جہان ماورائے طبیعت تک رسائی حاصل کرچکے ہیں نماز ان کا دائمی و ہمیشگی رابطہ مبداء عظیم آفرینش سے برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے۔ وہ صرف خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔وہ فقط جہان ہستی کے خالق کے سامنے جھکتے ہیں لہذا بتوں کے سامنے خضوع کرنا یا جباروں اورستم گروں کے سامنے جھکنا ان کی زندگی میں کیسے حائل ہوسکتا ہے۔
ایسا انسان احساس کرتا ہے کہ میں تمام مخلوقات سے آگے بڑھ کیا ہوں اور مجھے اس مقام تک رسائی حاصل ہوگئی ہے کہ خدا سے گفتگو کروں۔ یہ احساس اس کی تربیت کےلئے بہترین عامل ہے۔
جو شخص روزانہ کم از کم پانچ مرتبہ خدا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور اس سے راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے اس کی کفر ، اس کا عمل اور اس کی گفتار سب خدائی ہوجاتی ہیں، کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس کی خواہش کے برخلاف قدم اٹھائے(لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ درگاہ حق میں اس کاراز و نیاز دل و جان کے ساتھ ہو اور مکمل دلجمعی کے ساتھ اس کی بارگاہ کا رخ کرے [42] ۔
۳ ۔ انسانوں سے رابطہ: مومنین وہ لوگ ہیں جو پروردگار کے ساتھ دائمی رابطے کے علاوہ خلق خدا سے بھی مسلسل رابطہ رکھتے ہیں۔ اسی لئے قرآن ان کی تیسری خصوصیت یہ بیان کرتا ہے کہ ہم نے جو نعمتیں انہیں روزی کے طور پر عطا کی ہیں انہیں خرچ کرتے ہیں (و مما رزقناھم ینفقون)۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن یہ نہیں کہتا کہ ” من اموالھم ینفقون“ ( اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں) بلکہ کہتا ہے مما رزقناھم ۔ جو ہم نے انہیں رزق دیا ہے۔ اس طرح مسئلہ انفاق اور خرچ کرنے کو عمومیت دےدی گئی ہے گویا اس میں خدا کا مادی اور معنوی سب عنایتیں شامل ہیں۔ اس بناء پر پرہیزگار وہ ہیں جو نہ صرف اپنا مال بلکہ علم ، عقل، دانش، جسمانی قوتیں، مقام اور منصب اجتماعی غرض اپنا ہر قسم کا سرمایہ صاحبان حاجت پر خرچ کرتے ہیں اور اس خواہش کے بغیر کہ ان لوگوں سے اس کا کچھ عوض ملے گا۔
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ انفاق اور خرچ کرنا جہان آفرینش کا ایک عمومی قانون ہے یہ قانون خاص طور پر موجودات زندہ میں نظر آتا ہے۔ مثلا انسان کا دل صرف اپنے لئے کام نہیں کرتا بلکہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ بدن کے تمام خلیوں پر خرچ کرتا ہے۔ مغز، جگر اور بدن انسانی کے کارخانے کا ہر جزء اپنے کام کے ماحصل کو ہمیشہ خرچ کرتا ہے۔ اصولی طور پر جو مل جل کر رہتے ہیں، انفاق کے بغیر ان کی زندگی کا کوئی مفہوم نہیں [43] ۔
دوسرے انسانوں سے رابطہ در حقیقت خدا سے ربط و تعلق کا نتیجہ ہے جس انسان کا خدا سے تعلق ہے اور جو و مما رزقناھم کے مطابق روزی کو خدا کی عطا سمجھتا ہے، اسے اپنی پیدا کردہ نہیں سمجھتا بلکہ خدا تعالی کا عطیہ سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ چند دن کے لئے اس کے پاس بطور امانت ہے۔ وہ انفاق و بخشش سے تکلیف نہیں بلکہ راحت محسوس کرے گا کیونکہ اس نے خدا کی عطا خدا کے بندوں کو دی ہے البتہ اس کے مادی و معنوی نتائج و برکات خود حاصل کئے ہیں، یہ طرز فکر روح انسانی کو بخل و حسد سے پاک کردیتا ہے اور تنازعہ کی دنیا کو تعاون کی دنیا میں بدل دیتا ہے۔ ایسی دنیا کہ جس میں ہر شخص اپنے آپ کو مقروض سمجھتے ہوئے وہ نعمات جو اس کے پاس ہیں حاجت مندوں کے سپرد کردیتاہے۔ وہ آفتاب کی طرف نور افشانی کرتا ہے اور کسی عوض کا خواہاں نہیں ہوتا۔
یہ امر قابل غور ہے کہ امام صادق (ع) نے مما رزقناھم کی تفسیر میں ارشاد فرمایا :
ان معناہ و مما علمناھم یبثون
یعنی جن علوم و احکام کی ہم نے انہیں تعلیم دی ہے وہ ان کی نشر واشاعت کرتے ہیں اور جو ان کی احتیاج رکھتے ہیں انہیں تعلیم دیتے ہیں [44] ۔
واضح ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انفاق اور خرچ کرنا علم کے ساتھ مخصوص ہے بلکہ مسئلہ انفاق میںنگاہیں چونکہ مالی انفاق کی طرف متوجہ تھیں لہذا امام نے معنوی انفاق کا ذکر فرماکر اس مفہوم کی وسعت کو روشن کردیا۔
ضمنی طور پر یہاں یہ بھی پورے طور پر واضح ہوگیا کہ زیر بحث آیت میں انفاق اورخرچ کرنے سے مراد فقط زکواة واجب یا واجب و مستحب دونوں نہیں بلکہ اس کا مفہوم وسیع تر ہے جو ہر قسم کی بلا عوض مدد پر محیط ہے۔
۴ ۔ پرہیزگاروں کی ایک اور خصوصیت : متقی انسانوں کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وہ تمام انبیاء اور خدائی پروگراموں پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے وہ ایسے لوگ ہیں کہ جو کچھ آپ(ص) پر اور آپ سے پہلے نازل ہوا ہے اس پرایمان رکھتے ہیں۔ والذین یومنون بما انزل الیک و ما انزل من قبلک۔
اس لحاظ سے قرآن نہ صرف یہ کہ اصول و اساس کی نظر سے دعوت انبیاء میں اختلاف نہیں رکھتا بلکہ انہیں ایک ایسا معلم و مربی سمجھتا ہے جن میں سےہر کوئی جہان انسانیت کی عظیم درسگاہ میں انسانوں کی تکمیل کے لئے قدم بڑھاتا ہے۔ انبیاء نہ صرف یہ کہ ادیان آسمانی کو فرقہ بندی اور نفاق کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ انسانوں کے درمیان ربط و تعلق کے لئے انہیں وسیلہ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ اس فکر و نظر کے حامل ہیں وہ اپنی روح کو تعصب سے پاک کرلیتے ہیں، پیغمبران خدا جو کچھ انسانی ہدایت و تکمیل کے لئے لے کر آئے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں اور راہ توحید کے سب ہادیوں کو قابل احترام سمجھتے ہیں۔
البتہ گذشتہ انبیاء کے دستورات پر ایمان انہیں اپنے فکر و عمل کو آخری نبی(ص) کے آئین سے منطبق کرنے سے نہیں روکتا (کیونکہ آخری نبی کا لایا ہوا آئین تکامل ادیان کے سلسلے کا آخری حلقہ ہے) اگر وہ ایسا نہ کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے مرحلہ تکمیل میں قدم بڑھانے کی بجائے ہٹایا ہے۔
۵ ۔ قیامت پر ایمان : یہ وہ آخری صفت ہے جو پرہیزگاروں کی صفات کے سلسلے میں بیان ہوئی ہے فرمایا گیا ہے کہ وہ آخرت پر یقینا ایمان رکھتے ہیں ( و با الآخرة ھم یوقنون)۔
وہ یقین رکھتے ہیں کہ انسان مہمل، عبث اور بے مقصد پیدا نہیں ہوا ۔ اس کی تخلیق اس کے آگے بڑھنے کے لئے ہے اور اس کا سفر موت کے بعد ختم نہیں ہوجاتا کیونکہ اگر معاملہ یہیں پر ختم ہوجاتا تو یقینا چند دن کی زندگی کے لئے یہ شور و غل فضول اور بیکار تھا۔ وہ اقرار کرتا ہے کہ پروردگار کی عدالت مطلقہ سب کے انتظار میں ہے اور یہ نہیںکہ اس دنیا میں ہمارے اعمال بے حساب اور بغیر جزا و سزا کے رہ جائیں۔
جب وہ اپنی ذمہ داریوں کو انجام دے رہا ہوتا ہے تو قیامت کا اعتقاد اس میں اطمینان کی کیفیت پیدا کردیتا ہے اور کام کا بوجھ اس کے لئے باعث تکلیف نہیں رہتا بلکہ وہ ان ذمہ داریوں کا استقبال کر تا ہے۔ حوادث کے مقابلے میں کوہ گراں کی مانند کھڑا ہوجاتا ہے۔ غیر عادلانہ سلوک کے مقابلے میں سر نہیںجھکاتا ۔ وہ مطمئن ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے نیک و بد کام کی جزا و سزا ہے، موت کے بعد ایک زیادہ وسیع جہان کی طرف منتقل ہونا ہے اور رحمت وسیع اور الطاف پروردگار سے بہرہ ور ہونا ہے۔
آخرت پر ایمان کا مطلب ہے عالم مادہ کی سرحد سے باہر نکل آنا اور ایک بلند تر عالم میں قدم رکھناجو ایسا جہان ہے کہ ہماری دنیا اس کے لئے کھیتی ہے وہاں کی زندگی کے لئے زیادہ آمادہ ہونے کے لئے یہ ایک تربیت گاہ ہے۔ ا س دنیا کی زندگی آخری ہدف اور مقصد نہیں بلکہ یہ حقیقی زندگی کے لئے تمہید کی حیثیت رکھتی ہے ۔ دوسرے جہان کی زندگی کو سازگار بنانے کے لئے اس جہان کی زندگی رحم مادر میں بچے کی زندگی کی طرح ہے۔ انسان کی خلقت کا مقصد کبھی بھی یہ زندگی نہیں رہابلکہ یہ ایک زندگی کے لئے دور تکامل ہے جب تک انسان جنین سے صحیح و سالم اور ہر قسم کے عیب سے پاک متولد نہ ہو بعد والی زندگی میںخوش بخت اور سعادت مند نہیں ہوسکتا۔
قیامت کا عقیدہ رکھنا انسان کی زندگی پر گہرا اثر پیدا کرتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو شہامت و شجاعت بخشتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد پر انسان اس جہان کی زندگی میں افتخار کی بلندیوں تک پہنچتا ہے جو اسے خدا وند عالم کی مقدس راہ میں ”شہادت“ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ شہادت ایک صاحب ایمان انسان کے لئے محبوب ترین چیز ہے کیونکہ یہ در اصل ایک ابدی و جاودانی زندگی کی ابتداء ہے۔
قیامت پر ایمان انسان کو گناہ سے روکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے گناہ خدا اور آخرت پر ایمان سے نسبت معکوسی رکھتے ہیں۔ یہ ایمان جتنا قوی ہوگا گناہ اتنے کم ہوں گے ۔ سورہ ص آیة ۲۶ میں حضرت داؤد سے خطاب الہی ہے :
ولایتبع الھوی فیضلک عن سبیل اللہ ، ان الذین یضلون عن سبیل اللہ لھم عذاب شدید بما نسوا یوم الحساب۔
خواہشات نفس کی پیروی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہیں خدائی راستے سے گمراہ کردیں گی وہ لوگ جو راہ خدا سے گمراہ ہوجاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے کیونکہ انہوں نے روز قیامت کو فراموش کردیا ہے۔
گویا روز جزا کو بھول جانا قسم قسم کی سرکشی ظلم وستم اور گناہوں کا پیش خیمہ ہے اور یہی چیزیں عذاب شدید کا سرچشمہ ہیں۔
زیر نظر آیات میں سے آخری ان لوگوں کے نتیجے اور انجام کار کی خبر دیتی ہے جن کی صفات گذشتہ پانچ آیات میں بیان کی گئی ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں (اولئک علی ھدی من ربھم) اور یہی کامیاب ہیں (و اولئک ھم المفلحون)۔
حقیقت میں ان کی ہدایت اور کامیابی کی ضمانت خدا کی طرف سے ہے۔ ” من ربھم “ کی تعبیر اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ قرآن کہتا ہے ” علی ھدی من ربھم“ یہ ایسے ہے گویا ہدایت خدا وندی ایک رہوار ہے جس پر وہ سوار ہیں اور اس سواری کی مدد سے وہ کامیابی اور سعادت کی طرف رواں دواں ہیں۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ لفظ ” علی“ عموما تسلط علو او رغلبہ کے مفہوم میں استعمال کیاجاتا ہے۔
” ھدی“( بصورت نکرہ)ضمنا اس ہدایت کی عظمت کی طرف اشارہ ہے جو خدا کی طرف سے ان کے شامل حال ہے یعنی وہ بہت عظیم ہدایت پر فائز ہیں۔
ھم المفلحون کی تعبیر علم معانی و بیان کے اصول کے پیش نظر دلیل حصر ہے یعنی کامیابی کا راستہ صرف انہی لوگوں کا راستہ ہے کیونکہ یہ لوگ پانچ مخصوص صفات اپنا کر ہدایت الہی سے سرفراز ہوئے ہیں [45] ۔
۱ ۔ ایمان و عمل کی راہ میں تسلسل : گذشتہ آیات میں تمام جگہوں پر فعل مضارع سے استفادہ کیا گیا ہے جو عموما استمرار و تسلسل کی نشاندہی کرتا ہے ۔ یوٴمنون با لغیب، یقیمون الصلواة، ینفقون، و بالآخرة ھم یوقنون۔ یہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ پرہیز گار اور سچے مومن وہ ہیں جو اپنے پروگرام میں ثبات و استمرار رکھتے ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز ان کی روح فکر پر اثر انداز نہیں ہوتے اور ان سے ان کے انسان ساز پروردگراموں میں خلل پیدا نہیں ہوتا۔
وہ ابتداء ہی سے حق طلبی کی روح رکھتے ہیں جو اس کا باعث بنتی ہے کہ وہ دعوت قرآن کے پیچھے جائیں اور پھر دعوت قرآن ان میں یہ پانچ صفات پیدا کردیتی ہے۔
۲ ۔ حقیقت تقوی کیا ہے : تقوی کا مادہ ہے ”وقایة“ جس کے معنی ہیں نگہداری یا خود داری [46] ۔
دوسرے لفظوں میں نظم و ضبط کی ایک ایسی اندرونی طاقت کا نام تقوی ہے جو سر کشی و شہوت کے مقابلے میں انسان کی حفاظت کرتی ہے حقیقت میں یہ قوت ایک ایسے مضبوط ہینڈل کا کام دیتی ہے جو وجود انسانی کی مسینری کو الٹ جانے کی جگہوں پر محفوظ رکھتا ہے اور خطرناک تیزیوں سے روکتا ہے۔
اسی لئے امیرالمومنین علی(ع) تقوی کو خطرات گناہ کے مقابلے میں ایک مضبوط قلعے کا عنوان دیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں :
اعلموا عباداللہ ان التقوی دار حصن عزیز
اے اللہ کے بندو! جان لو کہ تقوی ایسا مضبوط قلعہ ہے جسے تسخیر نہیں کیا جاسکتا [47] ۔
اسلامی احادیث اور علماء اسلام کے کلمات میں حالت تقوی کے لئے بہت سی تشبیہات بیان ہوئی ہیں۔
امیرالمومنین حضرت علی (ع) فرماتے ہیں :
الا و ان التقوی مطایا ذلل حمل علیھا اھلھا و اعطوا ارمتھا فاوردتھم الجنة۔
تقوی ایسے راہوار کی مانند ہے جس پر اس کا مالک سوار ہو، اس کی باگ ڈور بھی اس کے ہاتھ میں ہو اور وہ اسے بہشت کے اندر پہنچادے [48]
بعض نے تقوی کو اس شخص کی حالت سے تشبیہ دی ہے جو کانٹوں بھری زمین سے گذر رہا ہو اور اس کی کوشش میں ہو کہ اپنادامن بھی سنبھالے رکھے اور قدم بھی احتیاط سے اٹھائے تاکہ کوئی کانٹا اس کے دامن سے نہ الجھ جائے اور نہ ہی کوئی خار اس کے پاؤں میں چبھے۔
عبداللہ معتز نے اس کیفیت کو اپنے اشعار میں یوں بیان کیا ہے :
۱ ۔ خل الذنوب صغیرھا و کبیر ھا فھو التقی
۲ ۔ واضع کماش فوق ار ض الشوک یحذر ما یری
۳ ۔ لا تحقرون صغیرة ان الجبال من الحصی
۱ ۔ سب چھوٹے بڑے گناہوں کو چھوڑ دے کہ حقیقت تقوی یہی ہے۔
۲ ۔ اس شخص کی طرح ہوجا جو خار دار زمین پر انتہائی احتیاط سے قدم اٹھاتا ہے۔
۳ ۔ چھوٹے گناہوں کو چھوٹا نہ سمجھ کہ پہاڑ سنگریزوں ہی سے بنتا ہے [49] ۔
ضمنا اس تشبیہ سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ تقوی یہ نہیں کہ انسان گوشہ نشین ہوجائے اور لوگوں سے میل جول ترک کردے بلکہ معاشرے میں رہتے ہوئے اگر چہ وہ غلیظ معاشرہ ہی کیوں نہ ہو اپنی حفاظت کرے۔
اسلام میں کسی کی شخصیت کے لئے معیار فضیلت و افتخار یہی تقوی ہے اور اسلام کا شعار زندہ ہے : ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم۔
یعنی یقینا خدا کے یہاں تم میں سے زیادہ صاحب عزت و تکریم وہی ہے جو تقوی میں سب سے بڑھ کر ہے (حجرات، ۱۳) ۔
حضرت علی فرماتے ہیں :
ان تقوی اللہ مفتاح سداد و ذخیرة معاد و عتق من کل ملکة ونجاة من کل ھلکة
تقوی او رخوف خدا ہر بند دروازے کی کلید ہے، قیامت کے لئے ذخیرہ ہے، شیطان کی بندگی سے آزادی کا سبب ہے اور ہر ہلاکت سے باعث نجات ہے [50] ۔
ضمنا متوجہ رہئے گا کہ تقوی کی کئی ایک شاخیں اورشعبے ہیں مثلا تقوی مالی، تقوی اقتصادی، تقوی جنسی، تقوی اجتماعی اور تقوی سیاسی وغیرہ۔
إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ آآنذَرْتَہُمْ آمْ لَمْ تُنذِرْہُمْ لاَیُؤْمِنُونَ ( ۶)
خَتَمَ اللهُ عَلَی قُلُوبِہِمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ وَعَلَی آبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ( ۷) ۔
۶ ۔ جو لوگ کافر ہوگئے ہیں ان کے لئے برابر ہے کہ آپ انیہں (عذاب خدا سے) ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
۷ ۔ خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اوران کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ایک بڑا عذاب ان کے انتظار میں ہے۔
یہ گروہ ان پرہیزگار انسانوں کے بالکل برعکس ہے جن کی صفات گذشتہ دو آیات میں پوری و ضاحت سے بیان ہوئی ہیں۔
ان دو آیات میں سے پہلی میں ہے کہ جو کافر ہں(اور ساتھ اپنے کفر و بے ایمانی پر مصر ہیں) ان کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ انہیں عذاب الہی سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں کیونکہ وہ تو ایمان لانے کے نہیں ( ان الذین کفروا سواء علیھم ء انذرتھم ام لم تنذرھم لا یوٴمنون)۔
پہلا گروہ حواس و ادراک کے ساتھ پوری طرح تیار تھا کہ وہ حق کوپہچانے اور پھر اسے قبول کرکے اس کی پیروی کرے۔
لیکن اس گروہ کے افراد اپنی گمراہی میں اتنے کٹر ہیں کہ حق جتنا بھی ان کے سامنے واضح ہوجائے وہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں وہ قرآن جو متقین کے لئے ہادی اور راہنما ہے ان کے لئے بالکل بے اثر ہے۔ کچھ کہیں نہ کہیں، ڈرائیں یا نہ ڈرائیں کوئی بشارت دیں یا نہ دیں ان پر کسی چیز کا کچھ اثر نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ حق کی پیروی اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لئے روحانی طور پر آمادہ ہی نہیں۔
دوسری آیت میں اس تعصب و ڈھٹائی کی دلیل پیش کی گئی ہے اور وہ یہ کہ یہ کفر و عناد میں اس طرح ڈوبے ہوئے ہیں کہ حس شناخت کھو بیٹھے ہیں ”خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے“ ( خَتَمَ اللهُ عَلَی قُلُوبِہِمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ وَعَلَی آبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ)اسی بناء پر ان کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے (وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ )
اس لحاظ سے وہ آنکھ پرہیزگار جس سے آیات خدا کو دیکھتے تھے، وہ کان پرہیزگار جس سے حق کی باتیں سنتے تھے اور وہ دل پرہیزگار جس سے حقائق کا ادراک کرتے تھے کفار کے لئے بے کار ہیں۔ عقل ، آنکھ اور کان ان کے پاس ہیں لیکن سمجھنے، دیکھنے اور سننے کی قوت ان میں نہیں رہی کیونکہ ان کے برے اعمال، ان کا عناد اور ہٹ دھرمی ان کی شناخت کی قوت کے سامنے پردہ بن گئے ہیں۔
یہ مسلم ہے کہ جب تک انسان اس مرحلے تک نہ پہنچے، کتنا ہی گمراہ کیوں نہ ہو قابل ہدایت ہوتا ہے لیکن جب وہ اعمال بد کی وجہ سے حس تشخیص ہی کھو بیٹھتا ہے تو پھر اس کے لئے راہ نجات نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس پہچان کی قوت ہی نہیں لہذا یقینی طور پر عذاب عظیم اس کے انتظار میں ہے۔
۱ ۔ تشخیص کی قدرت کا چھن جانا دلیل جبر نہیں : پہلا سوال جو یہاں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ گذشتہ آیت کے مطابق اگر خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے تو پھر وہ مجبور ہیں کہ کفر پر باقی رہ جائیں تو کیا یہ جبر نہیں؟ قرآن میں اس آیت کی طرح اور بھی ایسی ہی آیات موجود ہیں ان حالات میں انہیں سزا دنے کے کیا معنی ہیں؟
اس سوال کا جواب خود قرآن نے دیا ہے اور وہ یہ کہ حق کے مقابلے میں ان لوگوں کا اصرار اور ہٹ دھرمی، ان کی طرف سے ظلم و ستم اور کفر کا استمرار و دوام ان کی حس شناخت پر پردہ پڑ جانے کا باعث بنتا ہے۔ سورہ نساء آیت ۱۵۵ میں ہے :
بل طبع اللہ علیھا بکفرھم
خدا وند عالم نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔
سورہ مومن، آیت ۳۵ میں ہے :
کذلک یطبع اللہ علی کل قلب متکبر جبار۔
اس طرح خدا ہر متکبر اور ستم گر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔
اسی طرح سورہ جاثیہ، آیت ۲۳ میں ہے :
افرایت من اتخذ الھہ ھواہ و اضلہ اللہ علی علم و ختم علی سمعہ و قلبہ و جعل علی بصرہ غشاوة۔
کیاآپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے ہوائے نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہے لہذا وہ گمراہ ہوگیا ہے اور خدا نے اس کے گوش و دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ انسان کی حس تشخیص کا سلب ہو جانا اور آلات تمیز و معرفت کا بے کار جانا ان آیات میں چند ایک علل کا معلول شمار ہوا ہے۔ کفر ، تکبر، ستم، پیروی ہوا و ہوس سرکش، تعصب اور حق کے مقابلے میں اصرار، حقیقت میں یہ حالت انسان کے اعمال کا عکس العمل اور بازگشت ہے کوئی اور چیز نہیں۔
اصولا یہ ایک فطری امر ہے کہ اگر انسان ایک غلط کام کو مسلسل کرتا رہے تو آہستہ آہستہ اس سے مانوس ہوجاتا ہے پہلے ایک حالت ہے پھر وہ ایک عادت بن جاتی ہے گویا وہ روح انسانی کا جزو ہوجاتی ہے اور کبھی معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ انسان کا پلٹ آنا ممکن نہیں رہتا لیکن اس نے جان بوجھ کر یہ راستہ اختیار کیا تھا لہذا عواقب و انجام کا بھی خود ذمہ داری ہے۔اوراس میں جبر کی کوئی بات نہیں بالکل اس شخص کی طرح جو خود اپنی آنکھ پھوڑے اور کان ضائع کردے کہ دیکھ سکے نہ سن سکے۔
اب اگر آپ دیکھیں کہ ان افعال کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے اس قسم کے افعال میں ایسی خاصیت رکھی ہے (یہ بات خاص طور پر غور طلب ہے)۔
قوانین آفرینش سے اسی مفہوم کی پورے طور پرعکاسی ہوتی ہے۔ جو شخص صحیح اور سچے تقوی اور پاکیزگی کو اپنا پیشہ بنالے خدا وند عالم اس کی حس تمیز کو زیادہ قوی کردیتا ہے اور اسے خاص ادارک نظر اور روشن فکری عطا کرتا ہے۔ جیسے سورہ ٴ انفال آیة ۲۹ میں ہے :
یایھا الذین آمنوا ان تتقواللہ یجعل لکم فرقانا۔
اے ایمان والو ! اکر تم تقوی کو اپنا پیشہ قرار دو تو خدا وند عالم تمہیں فرقان (یعنی وسیلہٴ ادراک حق و باطل) عطا کرے گا۔
اس حقیقت کو ہم نے روز مرہ کی زندکی میں بھی آزمایا ہے۔ بعض ایسے اشخاص ہیں جو غلط کام شروع کرتے ہیں اور ابتداء میں خود معترف بھی ہوتے ہیں کہ سو فی صد غلط کاری او ربرائی کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اسی بناء پر وہ اس کام سے دکھی ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ اس سے مانوس ہوجاتے ہیں تو وہ دکھ ان سے دور ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچتا ہے کہ نہ صرف انہیں اس کام سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ وہ اس پر خوش ہوتے ہیں حتی کہ اسے انسانی یا دینی ذمہ داری سمجھنے لگتے ہیں۔
حجاج ابن یوسف جودنیا کا سب سے بڑا سفاک اور ظالم انسان تھااس کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ اپنے ہولناک مظالم اور سفاکیوں کی توجیہہ میں کہتا تھا :
” یہ لوگ گناہگار ہیں لہذا مجھ جیسا شخص ان پر مسلط رہنا چاہئے تاکہ ان پر ظلم کرے کیونکہ یہ اس کے مستحق ہیں“۔
گویا وہ جس قدر قتل، خونریزی اور ظلم کرتا تھا اس کے لئے اپنے آپ کو خدا کی طرف سے مامور سمجھتا تھا۔
کہتے ہیں چنگیز خاں کے ایک سپاہی نے ایران کے ایک سرحدی شہر میں تقریر کی اور کہنے لگا : کیا تمہارا یہ اعتقاد نہیں کہ خدا گنہگاروں پر عذاب نازل کرتا ہے ۔ ہم وہی عذاب الہی ہیں لہذا کسی قسم کے مقابلے کی کوشش نہ کرنا“۔
۲ ۔ ایسے لوگ قابل ہدایت نہیں تو انبیاء کا تقاضا کیوں : یہ دوسرا سوال ہے جو زیر نظر آیات کے سلسلے میں سامنے آتا ہے ۔ اگر ہم ایک نکتے کی طرف توجہ دیں تو جواب واضح ہوجائے گا۔ وہ یہ کہ سزا اور عذاب الہی ہمیشہ انسان کے اعمال و کردار سے مربوط ہے۔ صرف اس بناء پر کسی شخص کو سزا نہیں دی جاسکتی کہ وہ دلی طور پر برا شخص ہے بلکہ ضروری ہے کہ پہلے اسے حق کی دعوت دی جائے۔ اگر اس نے پیروی نہ کی اور اپنے اندرونی خبائث کو اپنے اعمال و کردار سے ظاہر کیا تو اس وقت وہ سزا و عذاب کا مستحق ہے ورنہ وہ ظلم سے پہلے قصاص کا مصداقر ار پائے گا۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہم اتمام حجت کا نام دیتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جزا اور عمل کا بدلہ یقینا انجام عمل کے بعد ہونا چاہئے صرف ارادہ یا روحانی و فکری آمادگی اس کے لئے کافی نہیں ۔ علاوہ ازیں انبیاء صرف ان کی ہدایت کے لئے نہیں آتے رہے۔ ایسے لوگ اقلیت میں ہیں زیادہ تعداد تو ان گمراہ لوگوں کی ہے جو صحیح تعلیم و تربیت کے تحت قابل ہدایت ہیں۔
۳ ۔ دلوں پر مہر لگانا : زیر بحث آیات اور دیگر بہت سی آیات قرآن مجید میں بعض اشخاص سے حس تمیز اور ادراک واقعی کے چھن جانے کو ”ختم“ سے تعبیر کیا گیا ہے اور بعض اوقات ”طبع“ یا ”رین“ قرار دیا گیا ہے۔ یہ معنی یہاں سے لئے گئے کہ لوگوں میں رسم تھی کہ وہ جب کچھ چیزیں تھیلوں یا مخصوص برتنوں میں رکھتے یاکسی اہم خط کو کسی لفافے میں رکھتے تو اس بناء پر کہ کوئی اسے کھولے نہیں اور اسے ہاتھ نہ لگائے اسے باندھ دیتے اور گرہ لگا دیتے پھر گرہ کے اوپر مہر لگاتے تھے۔ آج بھی یہی معمول ہے۔ جائیدادوں کی رجسٹریوں کو اسی بناء پر خاص قسم کی رسی سے باندھتے ہیں۔ اس کے اوپر لاک (خاص قسم کی دھات) ڈال دی جاتی ہے اور اس کے اوپر مہر لگادیتے ہیں تاکہ اگر اس کے صفحوں میں کوئی کمی بیشی کی جائے تو معلوم ہوجائے۔
تاریخ میں بہت سے شواہد ملتے ہیں کہ سر براہان حکومت درہم و دینار کے توڑوں پر اپنی مہر لگا دیتے تھے اور خاص خاص اشخاص کی طرف بھیجتے تھے۔ یہ اس لئے ہوتا تھا کہ اس میں کسی قسم کا تصرف نہ ہونے پائے اور یونہی اس خاص شخص تک پہنچ جائے کیونکہ اس میں تصرف مہر توڑے بغیر ممکن نہ تھا۔ آج کل بھی ڈاک کے تھیلوں پر مہر کا طریقہ رائج ہے۔
عربی زبان میں اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے لفظ ”ختم“ استعمال کیا جاتا ہے۔ البتہ یہ تعبیر صرف ان اشخاص کے لئے ہے جو بے ایمان اورہٹ دھرم ہیں جو کثرت گناہ کے باعث عوامل ہدایت کا اثر قبول نہیں کرتے اوراہل حق کے مقابلے میں ان کے دلوں میں بغض و عناد اتنا راسخ ہوتا ہے کہ گویااس تھیلے کی طرح ان پر مہر لگ چکی ہے اور اب ان میں کسی قسم کا تصرف نہیں ہوسکتا۔
” طبع“ بھی لغت میں اسی معنی کے لئے آیا ہے اور طابع و خاتم ہر دو کے ایک ہی معنی ہیں یعنی وہ ںچیز جس سے مہر لگاتے ہیں۔
باقی رہا ” رین“ یعنی زنگ، غبار یا سخت قسم کی مٹی جو قیمتی چیزوں سے چپک جائے۔ یہ تعبیر بھی قرآن میں ان اشخاص کے لئے آئی ہے جو کثرت گناہ کی وجہ سے اس عالم کو پہنچ چکے ہیں کہ ان کے دل نفوذ حق کے قابل نہیں رہے۔
کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون۔
ایسا ہرگز نہیں بلکہ جرائم پیشہ ہونے اور مسلسل برے اعمال کرتے رہنے کی وجہ سے ان کے دل زنگ آلود ہوگئے ہیں (مطففین، ۱۴) ۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ انسان ہمیشہ متوجہ رہے اگر خدانخواستہ اس سے کوئی گناہ سر زد ہوجائے تو بہت جلد اسے توبہ کے پانی اور نیک عمل سے دھو ڈالنا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ دل پر زنگ کی شکل اختیار کرجائے اور اس پر مہر لگا دے۔
امام باقر (ع) سے ایک روایت ہے :
ما من عبد مومن الا وفی قلبہ نکتة بضاء فاذا اذنب ذنبا خرج فی تلک النکتة سودا فان تاب ذہب ذلک السواد فان تماری فی الذنوب زادذلک السواد حتی یغطی البیاض فاذا غطی البیاض لم یرجع صاحبہ الی خیر ابدا و ھو قول اللہ عزوجل : کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون۔
کوئی بندہ مومن ایسا نہیں ہے جس کے دل میں ایک وسیع سفید اور چمکدار نقطہ نہ ہو۔ جب اس سے گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو اس نقطہ سفید کے درمیان ایک سیاہ نقطہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اب اگر توبہ کرلے تو وہ سیاہی برطرف ہوجاتی ہے اوراگر مسلسل گناہ کرتا رہے تو سیاہی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ تمام سفیدی پر محیط ہوجاتی ہے اور جب سفیدی بالکل ختم ہوجائے تو پھر ایسے دل والا کبھی بھی خیر وبرکت کی طرف نہیں پلٹ سکتا اور اس ارشاد الہی کا یہی مفہوم ہے جب فرماتا ہے کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون۔ [51] ۔
۴ ۔ قرآن میں قلب سے مراد کیا ہے : قرآن مجید میں ادراک حقائق کی نسبت دل کی طرف کیوں دی گئی ہے جب کہ یہ بات واضح ہے کہ دل ادراکات کا مرکز نہیں وہ تو بدن میں گردش خون کا ایک آلہ ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ لفط قلب قرآن میں کئی معانی کے لئے ہے جن میں سے بعض یہ ہیں :
الف : ادراک وعقل ۔ جیسا کہ سورہ ق، آیہ ۳۷ میں ہے :
ان فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب۔ ان مطالب میں تذکر و یاد دھانی ان لوگوں کے لئے ہے جو عقل و ادراک کی قوت رکھتے ہیں۔
ب : روح و جان۔ جیسا کہ سورہ احزاب،آیہ ۱۰ میں ہے :
و اذ زاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجر۔ جب آنکھیں دھنس گئیں او رمارے دہشت کے روح و جان لبوں تک آپہنچی۔
ج : مرکز عواطف و مہربانی ۔ سورہٴ انفال، آیہ ۱۲ میں ہے :
سالقی فی قلوب الذین کفرون الرعب۔ بہت جلد کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے۔
ایک اور جگہ سورہ آل عمراں ، آیة ۱۵۹ میں ہے :
فبما رحمة من اللہ لنت لھم، و لوکنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک۔
یہ رحمت الہی ہے کہ آپ لوگوں کے لئے نرم خو ہیں اور اگر آپ تند خو اور سنگدل ہوتے تو آپ کے گرد و پیش سے منتشر ہوجاتے۔
اس کی توضیح یہ ہے کہ انسانی وجود میں دو قوی مرکز ہیں جو یہ ہیں :
الف : مرکز عواطف۔ جس سے مراد وہی چلغوزہ نما دل ہے جو سینے کے بائیں حصے میں ہے او رمسائل عواطف (مہربانی و رحم) پہلے پہل اسی مرکز پر اثرا نداز ہوتے ہیں اور پہلی چنگاری دل سے شروع ہوتی ہے۔
ہم وجدانی طور پر جب کسی مصیبت سے دو چار ہوتے ہیں تو اس کا بوجھ اسی دل پر محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح جب کسی سرور انگیز اور مسرت آراء امر کا سامنا کرتے ہیں تو اسی مرکز میں فرحت و انبساط کا احساس کرتے ہیں(یہ بات غورطلب ہے)۔
یہ صحیح ہے کہ سب ادراکات و عواطف کا اصلی مرکز انسان کی روح رواں ہے لیکن ان کا مظاہرہ اور جسمی عکس العمل مختلف ہوتا رہتا ہے۔ ادراک و فہم کا عکس العمل پہلی دفعہ کا ر خانہ مغز میں ظاہر ہوتا ہے لیکن مسائل عواطف مثلا محبت، عداوت، خوف، اطمینان خوشی او رغمی کا عکس العمل انسان کے دل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ان امور کے پیدا ہوتے ہی واضح طور پر ان کا اثر ہم اپنے د ل میں محسوس کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اگر قرآن میں مسائل عواطف کو اسی دل پر کی طرف اور مسائل عقلی کو قلب بمعنی عقل یا مغز کی طرف نسبت دی گئی ہے تو توقف بھی تباہی اور نابودی کا سبب ہے۔ اس بناء پر کیا مضائقہ ہے کہ فکری و عاطفی تحریکوں اور فعالیتوں کو نسبت اس کی طرف دی جائے۔
۵ ۔ قلب و بصر صیغہ جمع اور سمع مفرد میں کیوں : زیر مطالعہ آیت میں اور بہت سی آیات قرآنی کی طرح قلب و بصر صورت جمع(قلوب و ابصار) آئے ہیں جب کہ سمع قرآن میں ہر جگہ مفرد کی صورت میں ذکر ہوا ہے تو اس فرق میں کوئی نکتہ ہونا چاہئے۔
بات یہ ہے کہ لفظ سمع قرآن مجید میں ہر جگہ مفرد آیا ہے اور کہیں بھی جمع (اسماع نہیں آیا لیکن قلب و بصر کبھی جمع کی صورت میں جیسا کہ زیر نظر آیت میں اور کبھی بصورت مفرد جیسے سورہ ٴ جاثیہ آیہ ۲۲ اور سورہ اعراف آیہ ۴۳ میںآی ہے :
و ختم علی سمعہ و قلبہ و جعل علی بصرہ غشاوة (جاثیہ، ۲۳) ۔
عالم بزرگوار مرحوم شیخ طوسی تفسیر تبیان میں ایک مشہور ادیب کے حوالے سے رقمطراز ہیں : ممکن ہے اسمع کے مفرد آنے کی ان دو میں سے ایک وجہ ہو :
۱ ۔ سمع کبھی تو اسم جمع کے عنوان سے استعمال ہوتا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسم جمع میں جمع کے معنی ہوتے ہیں لہذا صیغہ جمع لانے کی ضرورت نہیں۔
۲ ۔ سمع میں یہ گنجائش ہے کہ وہ مصدری معنی رکھتا ہو اور ہم جانتے ہیں کہ مصدر کم یازیادہ ہو دو پر دلالت ہے لہذا جمع لانے کی ضرورت نہیں۔
اس کے علاوہ ایک وجہ ذوق و علم کے اختیار سے بھی بیان کی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ ادراکات قلبی اور مشاہدات چشم ان امور کی نسبت زیادہ ہیں جو سماعت میں آتے ہیں اس اختلاف کی بناء پر قلوب و ابصار جمع کی شکل میں آیا ہے لیکن سمع مفرد کی صورت میں۔
ماڈرن فزکس کے مطابق امواج صوتی جو قابل سماعت ہیں نسبتا تعداد میں محدود ہیں اور وہ چند ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ امواج نور و رنگ جو قابل روئت ہیں کئی ملین سے زیادہ ہیں ( یہ بات غور طلب ہے)۔
وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَمَا ہُمْ بِمُؤْمِنِینَ ( ۸ (
یُخَادِعُونَ اللهَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلاَّ آنفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ ( ۹ (
فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمْ اللهُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ آلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ ( ۱۰ (
وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ لاَتُفْسِدُوا فِی الْآرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ( ۱۱ (
آلاَإِنَّہُمْ ہُمْ الْمُفْسِدُونَ وَلَکِنْ لاَیَشْعُرُونَ ( ۱۲ (
وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ آمِنُوا کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا آنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَہَاءُ آلاَإِنَّہُمْ ہُمْ السُّفَہَاءُ وَلَکِنْ لاَیَعْلَمُونَ ( ۱۳ (
وَإِذَا لَقُوا الَّذِینَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَی شَیَاطِینِہِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَکُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُونَ ( ۱۴ (
اللهُ یَسْتَہْزِءُ بِہِمْ وَیَمُدُّہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ ( ۱۵ (
آوْلَئِکَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْہُدَی فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُوا مُہْتَدِینَ ( ۱۶ (
۸ ۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم خدا اور روز قیامت پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں۔
۹ ۔ وہ چاہتے ہیں کہ خدا اور مومنین کو دھوکہ دیں مگر وہ اس طرح اپنے سوا کسی کو فریب نہیں دیتے لیکن وہ اس کا شعور نہیںرکھتے۔
۱۰ ۔ ان کے دلوں میں ایک میں ایک طرح کی بیماری ہے اور خدا کی طرف سے اس بیمار کو بڑھا دیا جاتا ہے اور ان کی کذب بیانیوں کی وجہ سے درد ناک عذاب ان کے انتظار میں ہے۔
۱۱ ۔ جب ان سے کہا جائے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔
۱۲ ۔ آگاہ رہو یہ سب مفسدین ہیں لیکن اپنے آپ کو مفسدنہیںسمجھتے۔
۱۳ ۔ اور جب ان سے کہا جائے کہ دوسرے لوگوں کی طرح ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کیاہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں۔جان لو کہ یہ یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن جانتے ہیں۔
۱۴ ۔ اور جب ایماندار لوگوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لا چکے ہیں لیکن جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں (ان سے تو) ہم تمسخر کرتے ہیں۔
۱۵ ۔ خدا وند عالم ان سے استہزا کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی میں رکھے ہوئے ہے تاکہ وہ سرگرداں رہیں۔
۱۶ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی ہے حالانکہ یہ تجارت ان کے لئے نفع مند نہیں ہے اور نہ ہی وہ ہدایت یافتہ ہیں۔
زیر نظر آیات منافقین کے سلسلے میں مکمل اور بہت پر مغز تشریح کی حامل ہیں۔ ان میں ان کی روحانی شخصیات اور اعمال کو بیان کیاگیاہے۔ اس کی کچھ وضاحت پیش کی جاتی ہے۔
تاریخ کے ایک خاص موڑ پر اسلام کو ایک ایسے گروہ کا سامنا کرنا پڑا جو ایمان لانے کے لئے جذبہ و خلوص رکھتے تھے نہ صریح مخالفت کی جرآت کرتے تھے۔ قرآن اس گروہ کو ”منافقین“ کے نام سے یاد کرتا ہے ۔ فارسی میں ہم دو رو یا دو چہرہ کہتے ہیں ۔ یہ لوگ حقیقی مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہو چکے تھے۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے لئے بہت بڑا خطرہ شمار ہوتے تھے۔ چونکہ ان کا ظاہر اسلامی تھا لہذا ان کی شناخت مشکل تھی لیکن قرآن ان کی باریک اور زندہ علامت بیان کرتا ہے تاکہ ان کی باطنی کیفیت کو مشخص کردے۔ اس سلسلے میں قرآن ہرزمانے اور قرن کے مسلمانوں کو ایک نمونہ دے رہا ہے۔
پہلے تو نفاق کی تفسیر بیان کی گئی ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدااور قیامت پر ایمان لائے ہیں حالانکہ ان میں ایمان نہیں ہے۔ (ومن الناس من یقول آمنا باللہ و بالیوم الآخر و ماھم بموٴمنین)۔
وہ اپنے اس عمل کو ایک قسم کی چالاکی او رعمدہ تکنیک سمجھتے ہیں او رچاہتے ہیںکہ اپنے اس عمل سے خدا اور مومنین کو دھوکہ دیں (یخدعون اللہ والذین آمنوا)۔
حالانکہ وہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں (و مایخدعون الا انفسھم و ما یشعرون)۔
وہ صحیح راستے اور صراط مستقیم سے ہٹ کر عمر کا ایک حصہ بے راہ و روی میں گذار دیتے ہیں، اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو برباد کردیتے ہیں اور ناکامی و بدنامی اور عذاب الہی کے علاوہ انہیں کچھ نہیں ملتا۔
اس کے بعد اگلی آیت میں قرآن اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نفاق در حقیقت ایک قسم کی بیمار ی ہے کیونکہ صحیح و سالم انسان کا صرف ایک چہرہ ہوتا ہے۔ اس کے جسم و روح میں ہم آہنگی ہوتی ہے کیونکہ ظاہر و باطن، جسم وروح ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں ۔ اگر کوئی مومن ہے تو اس کا پورا و جود ایمان کی صدا بلند کرتاہے اور اگر ایمان سے منحرف ہے تب بھی اس کا ظاہر و باطن انحراف کی نشاندہی کرتا ہے ۔یہ جسم و روح میں دوئی ایک درد نو اور اضافی بیماری ہے یہ ایک طرح کا تضاد، ناہم آہنگی اور ایک دوسرے سے دوری ہے جو وجود انسانی پر حکمران ہے۔
قرآن کہتا ہے ان کے دلوں میں ایک خاص بیماری ہے (و فی قلوبھم مرض)۔
نظام آفرینش میںجوشخص کسی راستے پر چلتا ہے اور اس کے لئے زاد راہ فراہم کئے رکھتا ہے تو وہ یقینا آگے بڑھتا رہتا ہے یا بہ الفاظ دیگر ایک ہی راستے پر چلنے والے انسان کے اعمال و افکار کا ہجوم اس میں زیادہ رنگ بھرتا ہے اور اسے زیادہ راسخ کرتا ہے۔ قرآن مزید کہتا ہے : خدا وند عالم ان کی بیماری میںاضافہ کرتا ہے ( و فزادھم اللہ مرضا)۔
چونکہ منافقین کا اصل سرمایہ جھوٹ ہے لہذا ان کی زندگی میں جو تناقضات رونما ہوتے ہیں وہ ان کی توجیہہ کرتے رہتے ہیں۔ آیت کے آخر میں بتایا گیا ہے : ان کی ان دروغ گوئیوں کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے (ولھم عذاب الیم بما کانوا یکذبون)۔
ا س کے بعد ان کی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے پہلی اصلاح طلبی کا دعوی کرنا ہے حالانکہ حقیقی فسادی وہی ہیں ”جب ان سے کہا جائے کہ روئے زمین پر فساد نہ کرو تو وہ اپنے تئیں مصلح بتاتے ہیں (و اذا قیل لھم لا تفسدوا فی الارض قالوا انما نحن مصلحون) اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمارا تو زندگی میں اصلاح کے علاوہ کوئی مقصد رہا ہے نہ اب ہے۔
اگلی آیت میںقرآن کہتا ہے : جان لو کہ یہ سب مفسد ہیں اور ان کا پروگرام فساد کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن وہ خود بھی شعور سے تہی دامن ہیں (الا انھم ھم المفسدون ولکن لا یشعرون)۔
ان کے اصرار نفاق میں پختگی اور اس باعث ننگ و عار کام کی عادت کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ رفتہ رفتہ وہ گمان کرنے لگے ہیں کہ یہی پروگرام تربیت و اصلاح کے لئے مفید ہے جیسے پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے کہ اگر گناہ ایک حد سے بڑھ جائے تو پھر انسان سے حس تشخیص چھن جاتی ہے بلکہ اس کی تشخیص برعکس ہوجاتی ہے اور ناپاکی و آلودگی اس کی طبیعت ثانوی بن جاتی ہے۔
ایسے لوگوں کی دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو عاقل و ہوشیار او رمومنین کو بیوقوف ،سادہ لوح اورجلد دھوکہ کھانے والے سمجھتے ہیں۔ جیسے قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے کہا جائے کہ ایمان لے آوٴ جس طرح باقی لوگ ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کیا ہم ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں (و اذا قیل لھم آمنوا کما آمن الناس قالوا انوٴ من کما آمن السفھاء)۔
اس طرح وہ ان پاک دل ، حق طلب اور حقیقت کے متلاشی افراد کو حماقت و بیوقوفی سے متہم کرتے ہیں جو دعوت پیغمبر اور ان کی تعلیمات میں آثار حقانیت کامشاہدہ کرکے سرتسلیم خم کرچکے ہیں۔ اپنی شیطنت، دو رخی اور نفاق کو ہوش و عقل اور درایت کی دلیل سمجھتے ہیں گویا ان کی منطق میں عقل نے بے عقلی کی جگہ لے لی ہے اسی لئے قرآن کے جواب میں کہتا ہے : جان لو کہ واقعی بیوقوف یہی لوگ ہیں وہ جانتے نہیں (الا انھم ھم السفھاء ولکن لا یعلمون)۔
کیا یہ بیوقوفی نہیں کہ انسان اپنی زندگی کے مقصد کا تعین نہ کرسکے اور ہر گروہ میں اس گروہ کا رنگ اختیار کرکے داخل ہو اور یکسانیت و شخصی وحدت کی بجائے دو گانگی یاکئی ایک بہروپ قبول کرکے اپنی استعداد اور قوت کو شیطنت ، سازش اور تخریب کا ری کی راہ میں صرف کرے اور اس کے باوجود اپنے آپ کو عقلمند سمجھے۔
ان کی تیسری نشانی یہ ہے کہ ہر روز کسی نئے رنگ میں نکلتے ہیں او رہر گروہ کے ساتھ ہم صدا ہوتے ہیں جس طرح قرآن کہتا ہے : جب وہ اہل ایمان سے ملاقات کرتے ہین تو کہتے ہیں ہم ایمان قبول کرچکے ہیںاور تمہیں غیر نہیں سمجھتے۔
لیکن جب اپنے شیطان صفت دوستوں کی خلوت گاہ میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو آپ کے ساتھ ہیں ( وا ذا دخلوا الی شیاطینھم قالوا انا معکم) اور یہ جو ہم مومنین سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں یہ تو تمسخر و استہزاء ہے (انما نحن مستھزون) ان کے افکار و اعمال پر دل میں تو ہم ہنستے ہیں یہ سب ان سے مذاق ہے ورنہ ہمارے دوست، ہمارے محرم راز اور ہمارا سب کچھ تو آپ لوگ ہیں۔
اس کے بعد قرآن ایک سخت اور دو ٹوک لب ولہجہ کے ساتھ کہتا ہے : خدا ان سے تمسخر کرتا ہے ( اللہ یستھزی بھم) اور خدا انہیں ان کے طغیان و سرکش میںرکھے گاتاکہ وہ کاملا سرگرداں رہیں (و یمدھم فی طغیانھم یعمھون) [52] ۔
مورد بحث آیات میں سے آخری ان کی آخری سر نوشت ہے جو بہت غم انگیز اور تاریک ہے اس میںبیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس تجارت خانہ عالم میں ہدایت کے لئے گمراہی کو خریدلیا ہے۔ (اولئک الذین اشتروا الضلالة بالھدی)۔ اسی وجہ سے ان کی تجارت نفع مند نہیںبلکہ سرمایہ بھی ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں (فما ربحت تجارتھم) اور کبھی بھی انہوں نے ہدایت کا چہرہ نہیں دیکھا (( وما کانوا مھتدین)۔
۱ ۔ نفاق کی پیدائش اور اس کی جڑیں : جب کسی علاقے میں کوئی انقلاب آتاہے خصوصا اسلام جیسا انقلاب جس کی بنیاد حق وعدالت پر ہے تو مسلما غارت گروں، ظالموں او رخود سروں کے منافع کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے تو وہ پہلے تمسخر سے پھر مسلح قوت، اقتصادی دباؤ اور مسلسل اجتماعی پرا پیگنڈہ سے کام لیتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ انقلاب کو درہم و برہم کردیں۔
جب انقلاب کی کامیابی کا پرچم علاقے کی قوتوں کو سربلند نظر آتا ہے تو مخالفین کا ایک گروہ اپنی تکنیک اور روش ظاہری کو بدل دیتا ہے اور ظاہرا انقلاب کے سامنے جھک جاتا ہے لیکن وہ زیر زمین مخالفت کا پروگرام تشکیل دیتا ہے۔
یہ لوگ جو دومختلف چہروں کی وجہ سے منافق کہلاتے ہیں انقلاب کے خطرناک ترین دشمن ہیں(منافق کا مادہ نفق ہے یہ بروزن شفق ہے جس کے معنی زیر زمین نقب او رسرنگ کے ہیں جس سے چھپنے یابھاگنے کا کام لیا جاتا ہے)۔ ان کا موقف پورے طور پر مشخص نہیں ہوتا لہذا انقلابی انہیں پہچان نہیں پاتے کہ خود سے انہیں دور کردیں وہ لوگ پاک باز اور سچے لوگوں میںگھس جاتے ہین یہاں تک کہ کبھی کبھی اہم ترین پوسٹ پر جا پہنچتے ہیں۔
جب تک پیغمبر اسلام (ص) نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی اور مسلمانوں کی حکومت تشکیل نہیں پائی تھی۔ ایسا گروہ سرگرم عمل نہیں ہوا لیکن نبی اکرم (ص) جب مدینہ میں آگئے تو حکومت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی اور جنگ بدر کی کامیابی کے بعد یہ معاملہ زیادہ واضح ہوگیایعنی رسمی طور پر ایک چھوٹی سی حکومت جوقابل رشد تھی، قائم ہوگئی۔
یہ وہ موقع تھا کہ مدینہ کے گدی نشینوں خصوصایہودیوں کے (جو اس زمانے میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے) بہت سے منافع خطرے میں پڑگئے۔
اس زمانے میں یہودیوں کازیادہ احترام اس وجہ سے تھا کہ وہ اہل کتاب او رنسبتا پڑھے لکھے لوگ تھے اورو ہ اقتصادی طور پر بھی آگے تھے حالانکہ یہی لوگ ظہور پیغمبر (ص) سے پہلے اس قسم کے امور کی خوش خبری دیتے تھے۔ مدینہ میں کچھ اور لوگ بھی تھے جن کے سر میں لوگوں کی سرداری کا سودا سمایا ہوا تھا۔ لیکن رسول خدا کی ہجرتسے ان کے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے۔
ظالم سرداروں، سرکشوں اور ان غارت گروں کے حمایتیوں نے دیکھا کہ عوام تیزی سے نبی اکرم (ص) پر ایمان لا رہے ہیں ۔ ان کے عزیز و اقارب بھی ایک عرصے تک مقابلہ کرتے رہے لیکن آخر کار انہیں بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ظاہرا مسلمان ہوجائیں، کیونکہ علم مخالفت بلند کرنے میں جنگی مشکلات اوراقتصادی صدمات کے علاوہ ان کی نابودی کا خطرہ تھا خصوصاعرب کی پوری قوت بھی آپ(ص) کے ساتھ تھی اور ان لوگوں کے قبیلے بھی ان سے جدا ہوچکے تھے۔
اس بناء پر انہوں نے تیسرا راستہ اختیار کیا اور وہیہ کہ ظاہرا مسلمان ہوجائیں اور مخفی طور پر اسلام کو برباد کرنے کا منصوبہ بنائیں، خلاصہ یہ کہ کسی معاشرے میں نفاق کے ظہور کی ان دو وجوہ میں سے ایک ہوتی ہے :
الف : کسی انقلاب کی کامیابی اور معاشرے پر اس کا تسلط
ب : نفسیاتی کمزوری اور سخت حوادث کے مقابلے میں جرآت و ہمت کا فقدان
۲ ۔ ہر معاشرے میں منافقین کی پہچان ضروری ہے : اس میں شک و شبہ نہیں کہ نفاق اور منافق زمانہٴ پیغمبر(ص) سے مخصوص نہ تھے بلکہ ہر معاشرے میں اس گروہ کا وجود ہوتا ہے البتہ ضروری ہے کہ قرآن کے دئیے ہوئے معیار کی بنیاد پر ان کی پہچان کی جائے تاکہ وہ کوئی نقصان یاخطرہ پیدا نہ کرسکیں ۔ زیر مطالعہ آیات کے علاوہ سورہٴ منافقین اور روایات اسلامی میں ان کی مختلف نشانیاں بیان ہوئی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں :
الف : زیادہ شور شرابہ اور بڑے بڑے دعوے۔ باتیں بہت ،عمل کم اور قول و فعل میں تضاد ہونا۔
ب : ہر جگہ کے رنگ کو اپنا لینا اور ہر گروہ کے ساتھ ان کے ذوق کے مطابق گفتگو کرنا۔ مومنین سے ”آمنا“ کہنا اور مخالفین سے ”انامعکم“۔
ج : عوام سے اپنے آپ کو الگ رکھنا ،خفیہ انجمنیں قائم کرنا اور پوشیدہ منصوبے بنانا۔
د : دھوکہ دہی مکرو فریب ، جھوٹ، تملق ، چاپلوسی، پیمان شکنی اور خیانت کی راہ چلنا۔
ھ : اپنے تئیں بڑا سمجھدار گرداننا اور دوسروں کو ناسمجھ، بیوقوف اور نادان قرار دینا۔
خلاصہ یہ کہ دو رخی اور اندرونی تضاد منافقین کی واضح صفت ہے، ان کا انفرادی و اجتماعی چال چلن ایسا ہوتا ہے جس سے انہیں واضح طور پر پہچانا جا سکتا ہے۔
قرآن حکیم کی یہ تعبیر کتنی عمدہ ہے کہ ”ان کے دل بیمار ہیں “ ( فی قلوبھم مرض)۔ کون سی بیماری ظاہر و باطن کے تضاد سے بدتر ہے او رکون سی بیماری اپنے آپ کو بڑا سمجھنے اور سخت حوادث کے مقابلے سے فرار سے بڑھ کرہے۔
جیسے دل کی بیماری جتنی بھی پوشیدہ ہو اسے کاملا مخفی نہیں رکھا جاسکتا بلکہ اس کی علامت انسان کے چہرے اور تمام اعضاء بدن سے آشکار ہوتی ہیں۔ نفاق کی بیماری بھی اسی طرح ہے جو مختلف مظاہر کے ساتھ قابل شناخت ہے اور اندرونی نفاق کی بیماری کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔
تفسیرنمونہ سورہٴ نساء آیت ۱۴۱ تا ۳۴۱ میں بھی صفات منافقین کے بارے میں بحث کی گئی ہے نیز سورہ توبہ آیت ۴۹ تا ۵۷ کے ذیل میں بھی اس سلسلے میں کافی بحث ہے اور سورہ توبہ آیت ۶۲ تا ۸۵ کے ذیل میں بھی ایسی ابحاث موجود ہیں۔
۳ ۔ معنی ٴ نفاق کی وسعت : اگر چہ نفاق اپنے خاص مفہوم کے لحاظ سے ان بے ایمان لوگوں کے لئے ہے جو ظاہرا مسلمانوں کی صف میں داخل ہوں لیکن باطنی طور پر کفر کے دلدادہ ہوں لیکن نفاق کا ایک وسیع مفہوم ہے جو ہر قسم کے ظاہر و باطن اور گفتار و کردار کے تضاد پر محیط ہے چاہے یہ چیز مومن افراد میںپائی جائے جنہیں ہم ” دور گہ ہائے نفاق“ (یعنی ۔ ایسے انسان یا حیوان جن کے ماںباپ مختلف نسل سے ہوں) کہتے ہیں۔
مثلا حدیث میں ہے :
ثلاث من کن فیہ کان منافقا و ان صام و صلی و زعم انہ مسلم من اذا ائتمن خان و اذا حدث کذب و اذا وعدا خلف۔
تین صفات ایسی ہیں کہ جس شخص میں پائی جائیں وہ منافق ہے چاہے وہ روزے رکھے، نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے ( اور وہ صفات یہ ہیں) جب امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرتا ہے، بات کرتے وقت جھوٹ بولتا ہے اور وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے( ۱) ۔ ۱ ۔ سفینة البحار، جلد ۲ ص ۶۰۵ ۔
مسلم ہے کہ ایسے اشخاص اس خاص معنی کے لحاظ سے منافق نہیں تاہم نفاق کی جڑیں ان میں پائی جاتی ہیں، خصوصا ریا کاروں کے بارے میںامام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے :
الریاء شجرة لا تثمر الا الشرک الخفی و اصلھا النفاق۔
یعنی ریا کاری و دکھاوا ایسا (تلخ) درخت ہے جس کا پھل شرک خفی کے علاوہ کچھ نہیں اوراس کی اصل اور جڑ نفاق ہے [53] ۔
یہاں پر ہم آپ کی توجہ امیرالمومنین علی(ع) کے ایک ارشاد کی طرف دلاتے ہیں جو منافقین کے متعلق ہے۔ آپ نے فرمایا :
اے خدا کے بندو ! تمہیں تقوی و پرہیزگاری کی وصیت کرتا ہوں اور منافقین سے ڈراتا ہوں کیونکہ وہ خود گمراہ ہیں اور دوسروں گو گمراہ کرتے ہیں، خود خطا کار ہیں اور دوسروں کو خطا ؤں میںڈالتے ہیں، مختلف رنگ اختیار کرتے ہیں، مختلف چہروں اور زبانوں سے خود نمائی کرتے ہیں، ہر طریقے سے تمہیں پھانسنے اور برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر کمین گاہ میں تمہارے شکار کے لئے بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کا ظاہر اچھا اور باطن خراب ہے۔ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے خفیہ چال چلتے ہیں۔ ان کی گفتگو ظاہرا تو شفا بخش ہے لیکن ان کا کردا ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ لوگوں کی خوش حالی اور آسائش پر حسد کرتے ہیں اور اگر کسی پر مصیبت آن پڑے تو خوش ہوتے ہیں۔ امید رکھنے والوں کو مایوس کردیتے ہیں۔ ہر راستے میں ان کا کوئی نہ کوئی مقتول ہے۔ ہردل میں ان کی راہ ہے اور ہر مصیبت پر ٹسوے بہاتے ہیں۔ مدح و ثنا ایک دوسرے کو بطور قرض دیتے ہیں اور جزا و عوض کے منتظر رہتے ہیں اگر کوئی چیز لینی ہو تو اصرار کرتے ہیں اور اگر کسی کو ملامت کریں تو اس کی پردہ دری کرتے ہیں [54] ۔
۴ ۔ منافقین کی حوصلہ شکنیاں : نہ صرف اسلام بلکہ ہر انقلابی اور ارتقاء پسند آئین و دین کے لئے منافقین خطرناک ترین گروہ ہے۔ وہ مسلمانوں کی صفوں میںگھس جاتے ہین اور حوصلہ شکنی کےلئے ہر موقع غنیمت سمجھتے ہیں ۔ کبھی سچے مومنین کا اس پر بھی تمسخر اڑاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا مختصر سرمایہ راہ خدا میں خرچ کیا ہے جیسے قرآں کہتے ہے :
الذین یلمزون المطوعین من الومنین فی الصدقات والذین لا یجدون الا جھدھم فیسخرون منھم سخر اللہ منھم و لھم عذاب الیم۔
وہ مخلصین مومنین کا تمسخر اڑاتے ہیں کہ انہوں نے (اپنے مختصر سرمایہ کو بے ریا راہ خدا میں) خرچ کیا ۔ خدا ان سے استہزاء کرتاہے اور درد ناک عذاب ان کے انتظار میں ہے (توبہ ۷۹) ۔
کبھی وہ اپنی خفیہ میٹنگوں میں فیصلہ کرتے کہ رسول خدا (ص) کے اصحاب سے مالی امداد کلی طور پر منقطع کردیں اور آپ سے الگ ہوجائیں جیسے سورہ منافقون میں ہے : ھم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول اللہ حتی ینفضوا واللہ خزائن السموات والارض و لکن المنافقین لا یفقھون۔
وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھ جو لوگ ہیںان سے مالی امداد منقطع کر لو تاکہ وہ آپ کے گردو پیش سے منتشر ہوجائیں ۔ جان لو کہ آسمان و زمین کے خزانے خدا کے لئے ہیں لیکن منافق نہیں جانتے (منافقون ۷) ۔
کبھی یہ فیصلہ کرتے تھے کہ جنگ سے مدینہ واپس پہنچنے پر متحد ہو کر مناسب موقع پر مومنین کو مدینہ سے نکال دیں گے اور کہتے تھے :
لئن رجعنا الی المدینة لیخرجن الاعز منھا الاذل۔
اگر ہم مدینہ کی طرف پلٹ گئے تو عزت والے ذلیلوں کو باہر نکال دیں گے۔(منافقون ۸) ۔
کبھی مختلف بہانے بنا کر (مثلا فصل کے محصولات کی جمع آوری کابہانہ) جہاد کے پروگرام میں شریک نہ ہوتے تھے اور سخت مشکلات کے وقت نبی اکرم (ص) کو تنہا چھوڑ دیتے تھے اور ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی ڈر رہتا تھا کہ کہیں ان کا راز فاش نہ ہوجائے مبادا اس طرح انہیں رسوائی کا سامناکرنا پڑے۔
ان کی معاندانہ حوصلہ شکنیوں کی وجہ سے قرآن مجید نے ان پر سخت وار کئے ہیں اور قرآن مجید کی ایک سورت (منافقون) ان کے طور طریقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، توبہ،حشر اوربعض دوسری سورتوں میں بھی انہیں ملامت کی گئی ہے اور اسی سورہ بقرہ کی تیرہ آیات انہی کی صفات اور انجام بد سے متعلق ہیں۔
۵ ۔ وجدان کو دھوکا دینا : مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی مشکل منافقین سے رابطے کے سلسلے میں تھی کیونکہ ایک طرف تو وہ مامور تھے کہ جو شخص اظہار اسلام کرے کشادہ روئی سے استقبال کیا جائے اور ان کے عقائد کے سلسلے میں جستجو اور تفتیش نہ کی جائے اور دوسری طرف منافقین کے منصوبوں کی نگرانی کا کام تھا۔ منافق اپنے تئیں جب حق کا ساتھی اور ایک فرد مسلمان کی حیثیت سے متعارف کرواتا تو ا س کی بات قبول کرنا پڑتی جب کہ باطنی طور پر وہ اسلام کے لئے سد راہ ہوتا اور اس کے خلاف سوگند کھائے ہوئے دشمنوں میں سے ہوتا۔ یہ گروہ اس راہ کو اپنا کر اس زعم میں تھا کہ خدا اور مومنین کو ہمیشہ دھوکہ دے سکے گا۔ حالانکہ یہ لوگ لا شعوری طور پر اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے تھے۔
یخادعون اللہ والذین آمنوا کی تعبیر دقیق معنی دیتی ہے (مخدوعہ کے معنی ہیں دونوں طرف سے دھوکہ دینا)یہ لوک ایک طرف تو کور باطنی کی وجہ سے اعتقاد رکھتے تھے کہ نبی اکرم(ص) دھوکہ باز ہیں اور انہوں نے حکومت کے لئے دین و نبوت کا ڈھونگ رچا رکھا ہے اور سادہ لوح لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے ہیں لہذا ان کا مقابلے میں دھوکا ہی کرنا چاہئے۔ اس بناء پر ان منافقین کا کام ایک طرف تو دھوکا وفریب تھا دوسری طرف نبی اکرم(ص) کے بارے میں اس قسم کا غلط اعتقاد رکھتے تھے لیکن جملہ ”و ما یخدعون الا انفسھم و مایشعرون“ ان کے دونوں ارادوں کو خاک میں ملاتا ہوا نظر آتا ہے یہ جملہ ایک طرف تویہ ثابت کرتا ہے کہ دھوکہ و فریب صرف انہی کی طرف سے ہے ۔ دوسری طرف کہتا ہے کہ اس فریب کی باز گشت بھی انہی کی طرف ہے لیکن وہ سمجھتے نہیں ان کا اصلی سرمایہ جو حصول سعادت کے لئے خدا نے ان کے وجود میں پیداکیا ہے وہ اسے دھوکہ و فریب کی راہ میں برباد کر رہے ہیں اور ہر خیر و نیکی سے تہی دامن اور گناہوں کا بھاری بوجھ اٹھائے دنیا سے جارہے ہیں۔
کوئی شخص بھی خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ ظاہر وباطن سے باخبر ہے اس بناء پر یخادعون اللہ سے تعبیر کرنا اس لحاظ سے ہے کہ رسول خدا (ص) اور مومنین کو دھوکا دینا خدا کو دھوکہ دینے کی طرح ہے (دوسرے مواقع پر بھی قرآن میں ہے کہ خدا وند عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مومنین کی تعظیم کے لئے خود ان کی صف میں بیان کرتا ہے) یاپھر یہ لوگ صفات خدا کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اپنی کوتاہ و ناقص فکر سے واقعا یہ سمجھتے تھے کہ ہوسکتا ہے کوئی چیز خدا سے پوشیدہ ہو ایسی نظیر قرآن مجید کی دیگر آیات میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
بہرحال زیر نظر آیت وجدان کو دھوکا دینے کی طرف واضح اشارہ ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گمراہ اور گناہ سے آلودہ انسان برے اور غلط اعمال کے مقابلے میں وجدان کی سزا و سرزنش سے بچنے کے لئے اسے دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنے تئیں مطمئن کر لیتا ہے کہ نہ صرف اس کا عمل برا اور قبیح نہیں بلکہ باعث اصلاح ہے اور فساد کے مقابلے میں (انما نحن مصلحون) یہ اس لئے کہ وجدان کو دھوکہ دے کرا طمینان سے غلط کام کو جاری رکھ سکے۔
امریکہ کےایک صدر کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب اس سے سوال کیا گیا کہ اس نے جاپان کے دو بڑے شہروں( ہیرو شیما اور ناگا ساکی) کو ایٹم بم سے تباہ کرنے کا حکم کیوں دیا تھا جب کہ اس سے دو لاکھ افراد بچے، بوڑھے اور جوان ہلاک یا ناقص الاعضاء ہوگئے تو اس نے جواب دیا تھا کہ اگر ہم یہ کام نہ کرتے تو جنگ طویل ہوجاتی اور پھر زیادہ افراد کو قتل کرنا پڑتا۔
گویا ہمارے زمانے کے منافق بھی اپنے وجدان یا لوگوں کو دھوکادینے کے لئے ایسی باتیں اور ایسے بہت سے کام کرتے ہیں حالانکہ جنگ جاری رکھنے یا شہر کو ایٹم بم سے اڑانے کے علاوہ تیسری واضح راہ بھی تھی وہ یہ کہ توسیع پسندی سے ہاتھ اٹھالیں اور قوموں کو ان کے ملکوں کے سرمائے کے ساتھ آزادانہ رہنے دیں۔
نفاق حقیقت میں وجدان کو فریب دینے کا وسیلہ ہے کس قدر دکھ کی بات ہے کہ انسان اس اندرونی واعظ ، ہمیشہ بیدار و پہریدار اور خدا کے باطنی نمائندے کا گلا گھونٹ دے یا اس کے چہرے پر اس طرح پردہ ڈال دے کہ اس کی آواز کان تک نہ پہنچے۔
۶ ۔ نقصان زدہ تجارت : اس دنیا میں انسان کی کار گزاریوں کو قرآن مجید میں بار ہا ایک قسم کی تجارت سے تشبیہ دی گئی ہے اور حقیقت میں ہم سب اس جہان میں تاجر ہیں اور خدا نے ہمیں عقل،فطرت، احساسات، مختلف جسمانی قوی، نعمات دنیا طبیعت اور سب سے آخر میں انبیاء کی رہبری کا عظیم سرمایہ عطا فرما کر تجارت کی منڈی میں بھیجا ہے۔ ایک گروہ نفع اٹھاتا ہے اور کامیاب و سعادت مند ہوجاتا ہے جب کہ دوسرا گروہ نہ صرف یہ کہ نفع حاصل نہیں کرتا بلکہ اصل سرمایہ بھی ہاتھ سے دے بیٹھتا ہے اور مکمل دیوالیہ ہوجاتا ہے ۔ پہلے گروہ کا کامل نمونہ مجاہدین راہ خدا ہیں جیسا کہ قرآن ان کے بارے میں کہت ہے :
یا ایھا الذین آمنوا ھل ادلکم علی تجارة تنجیکم من عذاب الیم، تومنون باللہ و رسولہ و تجاہدون فی سبیل اللہ باموالکم و انفسکم۔
اے ایمان والو ! کیا تمہیں ایسی تجارت کی راہنمائی نہ کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے اور سعادت ابدی کا ذریعہ ہو) خدا اور اس کے سول پر ایمان لے آؤ اور اس کی راہ میںمال وجان سے جہاد کرو۔ (صف ، ۱۰،۱۱) ۔
دوسرے گروہ کا واضح نمونہ منافقین ہیں۔ منافقین جو مخرب اور مفسد کام اصلاح و عقل کے لباس میں انجام دیتے تھے۔
قرآن گذشتہ آیات میں ان کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ” وہ ایسے لوگ جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو خرید لیا ہے اور یہ تجارت ان کے لئے نفع بخش ہے نہ ہی باعث ہدایت۔ وہ لوگ ایسی پوزیشن میں تھے کہ بہترین راہ انتخاب کرتے۔ وہ وحی کے خوشگوار او رمیٹھے چشمے کے کنارے موجود تھے اور ایسے ماحول میں رہتے تھے جو صدق و صفا اورایمان سے لبریز تھا۔
بجائے اس کے کہ وہ ا س خاص موقع سے بڑا فائدہ اٹھاتے جو طویل صدیوں میں ایک چھوٹے سے گروہ کو نصیب ہوا، انہوں نے ایسی ہدایت کھو کر گمراہی خرید لی جو ان کی فطرت میں تھی اور وہ ہدایت جو وحی کے ماحول میں موجزن تھی۔ ان تمام سہولتوں کو وہ اس گمان میں ہاتھ سے دے بیٹھے کہ اس سے وہ مسلمانوں کوشکست دے سکیں گے اور خود ان کے گندے دماغوں میں پرورش پانے والے برے خواب شرمندہ تعبیر ہوسکیں گے جبکہ اس معاملے اور غلط انتخاب میں اہیں دو بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا :
الف : ایک یہ کہ ان کا مادی اور معنوی دونوں قسم کا سرمایہ تباہ ہوگیا اور اس سے انہیں کوئی فائدہ بھی نہ پہنچا۔
ب : دوسرا یہ کہ وہ اپنے غلط مطمع نظر کو پا بھی نہ سکے کیونکہ اسلام تیزی کے ساتھ آگے بڑھ گیا اور صفحہ ہستی پر محیط ہوگیا اور یہ منافقین بھی رسوا ہوگئے۔
مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا آضَائَتْ مَا حَوْلَہُ ذَہَبَ اللهُ بِنُورِہِمْ وَتَرَکَہُمْ فِی ظُلُمَاتٍ لاَیُبْصِرُونَ ( ۱۷ (
صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَیَرْجِعُونَ ( ۱۸ (
آوْ کَصَیِّبٍ مِنْ السَّمَاءِ فِیہِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ یَجْعَلُونَ آصَابِعَہُمْ فِی آذَانِہِمْ مِنْ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللهُ مُحِیطٌ بِالْکَافِرِینَ ( ۱۹ (
یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ آبْصَارَہُمْ کُلَّمَا آضَاءَ لَہُمْ مَشَوْا فِیہِ وَإِذَا آظْلَمَ عَلَیْہِمْ قَامُوا وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَذَہَبَ بِسَمْعِہِمْ وَآبْصَارِہِمْ إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیر( ۲۰) ۔
۱۷ ۔ وہ (منافقین) اس شخص کی مثل ہیں جس نے آگ روشن کی ہو (تاکہ تاریک بیابان میں اسے راستہ مل جائے) مگر جب آگ سے سب اطراف روشن ہوگئیں تو خدا وند عالم نے (طوفان بھیج کر) اسے خاموش کردیا اورایسی وحشتناک تاریکی مسلط کی جس میں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
۱۸ ۔ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیںلہذا خطا کاری کے راستے سے پلٹیں گے نہیں۔
۱۹ ۔ یا پھر ان کی مثال ایسی ہے کہ بارش شب تاریک میں گھن گرچ، چمک اور بجلیوں کے ساتھ (رہگذروں کے سروں پر ) برس رہی ہور اور وہ موت کے خوف سے اپنے کانون میں انگلیاں ٹھونس لیں تاکہ بجلی کی آواز سے بچیں اور یہ سب کافر خدا کے احاطہٴ قدرت میں ہیں۔
۲۰ ۔ قریب ہے کہ بجلی کی خیرہ کرنے والی روشنی آنکھوں کو چندھیا دے۔ جب بھی بجلی چمکتی ہے اور(صفحہٴ بیابان کو) ان کے لئے روشن کردیتی ہے تو وہ (چند گام) چل پڑتے ہیں اور جب وہ خاموش ہوجاتی ہے تورک جاتے ہیں اور اگر خدا چاہے تو ان کے کان اور آنکھیں تلف کردے (کیونکہ) یقینا ہر چیز خدا کے قبضہ اقتدار میں ہے۔
منافقین کی صفات و خصوصیات بیان کرنے کے بعد قرآن مجید کی کیفیت کی تصویر کشی کے لئے زیر نظر آیات میں دو واضح مثالیں اور تشبہیں بیان کرتا ہے :
۱ ۔ پہلی مثال میں ہے کہ وہ اس شخص کی مانند ہیں جس نے (سخت تاریک رات میں) آگ روشن کی ہو (تاکہ اس کی روشنی میں سیدھے اور ٹیڑھے راستے کی پہچان کرسکے اور منزل مقصود تک پہنچ جائے)( مثلھم کمثل الذین استوقد نارا) مگر جب آگ کے شعلوں نے گردوں پیش کو روشن کردیا تو خدا وند عالم نے اسے بجھا دیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا اس عالم میں کہ وہ کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتے (فَلَمَّا آضَائَتْ مَا حَوْلَہُ ذَہَبَ اللهُ بِنُورِہِمْ وَتَرَکَہُمْ فِی ظُلُمَاتٍ لاَیُبْصِرُونَ)وہ سمجھتے تھے کہ اس تھوڑی سی آگ اور اس کی روشنی سے تاریکیوں کے ساتھ بر سرپیکار رہ سکیں گے مگر اچانک آندھی اٹھی یا سخت بارش برسی یا ایندھن ختم ہو گیا اور آگ سردی اور خاموشی میں بدل گئی یوں وہ دوبارہ وحشت ناک تاریکی میں سر گرداں ہوگئے اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں اور چونکہ ادراک حقائق کا کوئی وسیلہ ان کے پاس نہیں رہا لہذا وہ اپنے راستے سے پلٹیں گے نہیں (صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَیَرْجِعُونَ) یہ کس قدر باریک اور واضح مثال ہے۔ انسانی زندگی میں ٹیڑھے راستے تو بہت ہیں لیکن خط مستقیم جو منزل مقصود تک پہنچتا ہے وہ ایک سے زیادہ نہیں۔ لیکن ٹیڑھے خط تو بہت ہیں علاوہ از ایں اس راستے میں تاریکیوں کے پردے، وحشتناک طوفان اور قسم قسم کے حوادث ہیں لہذا ایک ایسے روشن چراغ کی ضرورت ہے جو ان حوادث سے محفوظ رہ سکے وہ تاریکی کے پردوں کو چاک کرسکے اور طوفانوں کا مقابلہ کرسکے اور ایسا چراغ سوائے چراغ عقل و ایمان اور خورشید وحی کے کوئی اور نہیں۔
مختصر شعلہ جو انسان وقتی طور پر روشن کرتا ہے وہ اس طویل مسافت میں جس میں طوفان ہی طوفان ہیں کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔
منافقین نفاق کی راہ انتخاب کرکے یہ سمجھتے تھے کہ وہ ہر حال میںاپنی حیثیت و وجاہت کی حفاظت کرسکیں گے اور ہر احتمالی خطرے سے محفوظ رہ سکیں گے اور دونوں طرف سے منافع سمیٹ لیں گے اور جو گروہ بھی غالب ہوگا ہمیں اپنے میں سے سمجھے گا اگر مومن کامیاب ہوئے تو مومنین کی صف میں او راگر کافر غالب رہے تو ان کے ساتھ۔
وہ اپنے آپ کو چالاک اور ہوشیار سمجھتے تھے اور اس کمزور و ناپائیدار شعلے کی روشنی میں اپنی رہ حیات پر ہمیشہ کے لئے چلنا چاہتے تھے تاکہ خوشحالی تک جاپہنچیں لیکن قرآن نے انہیں بے نقاب کردیا اور ان کے جھوٹ کو آشکار کردیا۔ جیسا کہ قرآن میں ہے :
اذا جائک المنافقون قالوا نشھد انک لرسول اللہ و اللہ یعلم انک لرسولہ و اللہ یشھد ان المنافقین لکاذبون۔
جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔ خدا جانتا ہے کہ آپ اسی کے بھیجے ہوئے ہیں مگر خدا جانتا ہے کہ منافق اپنے اظہارات میں جھوٹے ہیں(منافقون ۱) ۔
یہاں تک کہ قرآن کفار کو بھی واضح کرتا ہے کہ یہ لوگ تمہارے ساتھ بھی نہیں ہیں وہ جو بھی وعدے کرتے ہیں اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔
آلَمْ تَری إِلَی الَّذِینَ نَافَقُوا یَقُولُونَ لِإِخْوَانِہِمْ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ آہْلِ الْکِتَابِ لَئِنْ آخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَلاَنُطِیعُ فِیکُمْ آحَدًا آبَدًا وَإِنْ قُوتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّکُمْ وَاللهُ یَشْہَدُ إِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ ( ۱۱) لَئِنْ آخْرِجُوا لاَیَخْرُجُونَ مَعَہُمْ وَلَئِنْ قُوتِلُوا لاَیَنْصُرُونَہُمْ وَلَئِنْ نَصَرُوہُمْ لَیُوَلُّنَّ الْآدْبَارَ ثُمَّ لاَیُنْصَرُونَ ۔
منافق اہل کتاب میں سے اپنے کافر بھائیوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر تمہیں مدینہ سے باہر نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے ۔ لیکن اور تمہارے بارے میں کسی بات پر کان نہیں دھریں گے او راگر تمہارے ساتھ جنگ ہوئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے لیکن خدا گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹ بولتے ہیں اگر انہیں باہر کیا گیا تو یہ ان کے ساتھ باہر نہیں جائیںگے۔ اور اگر ان (کافروں) سے جنگ ہوئی تو یہ ان کی مدد نہیں کریں گے یہ تو (محاذ جنگ سے) بھاگ جائیں گے اور ثابت قدم نہیں رہیں گے (حشر ۱۱ ، ۱۲) ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ قرآن نے جملہ ” استوقد نارا“ سے استفادہ کیا ہے یعنی وہ نور تک پہنچنے کے لئے نار کا سہارا لیں گے و ہ آگ کہ جس میں دھواں، خاکستراور سوزش ہے جب کہ مومنین خالص نور اور ایمان کے روشن و پرفروغ چراغ سے بہرہ ور ہیں۔
منافقین اگر چہ نور ایمان کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کا باطن نار سے پر ہے او راگر نور ہو بھی تو کمزور او رٹھوڑی مدت کا ہے یہ مختصر نور وجدان و فطرت توحیدی کی روشنی کی طرف اشارہ ہے یا ان کے ابتدائی ایمان کی طرف جو بعد میں کورانہ تقلید ، غلط تعصب، ڈھٹائی اور عدوات کے نتیجے میں تاریک پردوں کی اوٹ میں چھپ گیا قرآن کی نظروں میں یہ سیاہ پردے ظلمت نہیں بلکہ ظلمات ہیں۔
یہی چیزیں ہیں جو بالآخر ان سے دیکھنے والی آنکھ، سننے والا کان اور بولنے والی زبان چھین لیتی ہیں کیونکہ (جیسا پہلے بھی کہا جا چکا ہے) غلط راستے پر چلتے رہنا رفتہ رفتہ قوت تشخیص اور ادراک انسانی کو کمزور کردیتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات اسے حقائق الٹ نظر آتے ہیں اس کی نگاہ میں نیک بد ہوجاتا ہے۔ فرشتہ اسے جن نظر آنے لگتا ہے بہرحال یہ تشبیہ در حقیقت نفاق کے سلسلے میں ایک واقعیت کو واضح کرتی ہے اور وہ یہ کہ نفاق و دو رخی طویل مدت کے لئے موثر نہیں ہوسکتی۔ منافق تھوڑی مدت تک اسلام کی خوبیوں اور مومنین کی معنویت و حفاظت سے سرفراز رہیں اور کفار سے پوشیدہ دوستی بھی بہرہ مند ہوں لیکن یہ ایک شعلہ ضعیف کی طرح ہے جو بیابان تاریک اور ظلمانی طوفانوں کی رد میں ہے۔ زیادہ دیر نہیں لگتی کہ ان کا حقیقی چہرہ آشکار ہوجاتا ہے اور کسب مقام و محبوبیت کی بجائے لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں اور انہیں دور پھینک دیتے ہیں اور ان کی حالت اس شخص کی سی ہوتی ہے جو سرگرداں ہو جس نے بیابان میں راستہ کھودیا ہو اور چراغ بھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ہو۔
یہ نکتبہ بھی قابل توجہ ہے کہ آیہ ھو الذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا ( وہ خدا ہے جس نے سورج کو روشنی اور چاند کو نور بخشا ہے) کی تفسیر میں امام باقر(ع) سے اس طرح منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :
اضاء ت الارض بنور محمد کما تضیئی الشمس فضرب اللہ مثل محمد الشمس و مثل الوصی القمر۔
خدا وند عالم نے روئے زمین کو محمد (ص) کے وجود سے روشنی بخشی جس طرح آفتار سے ۔ لہذا محمد(ص) کو آفتاب سے اور ان کے وصی (علی) کو چاند سے تشبیہ دی [55] ۔
یعنی نور ایمان وحی عالمگیر ہے جب کہ نفاق کا کوئی پرتو ہو بھی تو وہ اپنے گرد کے ایک چھوٹے سے دائرے میں اور بہت تھوڑی مدت کے لئے روشنی دیتا ہے (ماحولہ)۔
۲ ۔ دوسری مثال میں قرآن ان کی زندگی کو ایک دوسری شکل میں پیش کرتا ہے :
تاریک و سیاہ اور پرخوف و خطر رات ہے جس میں شدید بارش ہورہی ہے۔ افق کے کناروں سے پرنور بجلی چمکتی ہے بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک اتنی وحشت ناک او رمہیب ہے کہ کانوں کے پردے چاک کئے دیتی ہے۔ وہ انسان جس کی کوئی پناہ گاہ نہیں وسیع و تاریک او رخطرناک دشت و بیابان کے وسط میں حیران و سرگرداں کھڑا ہے موسلا دھار بارش نے اس کی پشت کو تر کردیا ہے نہ کوئی جائے امان ہے اور نہ تاریکی چھٹتی ہے کہ قدم اٹھائے۔
مختصر سی عبارت میں قرآن یسے مسافر کی نقشہ کشی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ منافقین کی حالت یا ایسی ہے جیسے تاریک رات میں سخت باش گرج چمک اور بجلیوں کے ساتھ (رہگذروں کے سروں پر) برس رہی ہو (او کصیب من السماء فیہ ظلمات و رعد و برق) اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ وہ اپنے کانوں میں انگلیاں رکھ لیتے ہیں تاکہ وحشت ناک بجلیوں کی آواز نہ سنیں (یجعلون اصابعھم فی آذانھم من الصواعق حذر الموت)۔
اور آخر میں فرماتا ہے : خدا وند عالم کی قدرت کافروں پر محیط ہے وہ جہاں جائیں اس کے قبضہ ٴ قدرت میں ہیں (واللہ محیط بالکافرین)۔
پے در پے بجلیاں صفحہ ٴ آسمان پر کوندتی ہیں۔ بجلیوں کی روشنی آنکھوں کو یوں خیرہ کئے دیتی ہے کہ قریب ہے کہ آنکھوں کو اچک لے (یکاد البرق یخطف ابصارھم)۔
جب بجلی چمکتی ہے اور صفحہ بیابان روشن ہوجاتا ہے تو مسافر چند قدم چل لیتے ہیں لیکن فورا تاریکی ان پر مسلط ہوجاتی اور وہ اپنی جگہ پر رک جاتے ہیں ( کُلَّمَا آضَاءَ لَہُمْ مَشَوْا فِیہِ وَإِذَا آظْلَمَ عَلَیْہِمْ قَامُوا ۔ )
وہ ہر لحظہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کیونکہ اس وسط بیابان میں کوئی پہاڑ دکھائی دیتا ہے نہ درخت نظر پڑتا ہے جو رعد اور برق و صاعقہ کے خطرے کو روک سکے۔ ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ بجلی ان پر گرے اور وہ فورا خاکستر ہو جائیں۔
ہم جانتے ہیں کہ صواعق (آسمانی بجلیاں)زمین سے ابھر ی ہوئی چیز پر جملہ کرتی ہیں لیکن وسط بیابان میں سوائے ان اشخاص کے کوئی ابھری ہوئی چیز بھی نہیں کہ بجلی اس طرف متوجہ ہو لہذا خطرہ یقینی اور حتمی ہے یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ کوہستانی علاقوں کی نسبت حجاز کے بیابانوں میں آسمانی بجلی کے انسانوں پر گرنے کا خطرہ نسبتا کئی گنا زیادہ ہے اس مثال کی اہمیت اس علاقے کے لوگوں کے لئے زیادہ روشن ہوجاتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ وہ ونہیں جانتے کہ کیا کریں مضطرب و پریشان اور حیران و سرگرداں اپنی جگہ کھرے ہیں۔ بیابان و ریگستان میں نہ راہ سمجھائی دیتی ہے نہ کوئی راہنما نظر آتاہے۔ جس کی راہنمائی میں قدم آگے بڑھا سکیں۔ یہ خطرہ بھی کہ بادلوں کی گرج ان کے کانوں کے پردے پھاڑ دے او رآنکھوں کو خیرہ کردینے والی بجلی بصارت چھین لے جائے او رہاں خدا چاہے تو ان کے کان اور آنکھ کو ختم کردے کیونکہ خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ( وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَذَہَبَ بِسَمْعِہِمْ وَآبْصَارِہِمْ إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیر)۔
منافقین بعینہ ان مسافروں کی طرح ہیں۔ مومنین کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے اور وہ سخت سیلاب او رموسلا دھار بارش کی طرح ہر طرف سے آگے بڑھ رہے ہیں ان کے درمیان منافق موجود ہیں افسوس کہ انہوں نے قابل اطمینان پناہ گاہ ، ایمان، سے پناہ نہیں لی تاکہ عذاب الہی کی فنا کردینے والی بجلیوں سے نجات پاسکیں۔
مسلمانوں کا مسلح جہاد دشمنوں کے مقابلے میں رعد وصاعقہ کی سخت آواز کی طرح ان کی سر پر آپڑتا ہے کبھی کبھی راہ حق پیدا کرنے کے مواقع انہیں نصیب ہوتے ہیں کہ کچھ افکار بیدار ہوں مگر افسوس کہ یہ بیداری آسمانی بجلی کی طرح دیر پانہ رہتی چند ہی قدم چلتے تو بجھ جاتی اور غفلت کی تاریکی پھر توقف و سر گردانی کی جگہ لے لیتی۔
اسلام کی تیز پیش رفت آسمانی بجلی کی طرح ان کی آنکھوں کو خیرہ کر چکی تھی اور آیات قرآنی ان کے پوشیدرازوں سے پردہ اٹھا دیتی تھیں اور بجلیوں کی طرح انہیں اپنا ہدف بناتی تھیں۔ انہیں ہر وقت احتمال ہوتا کہ کہیں کوئی آیت نازل ہو کر ان کے کسی اور راز سے پردہ نہ اٹھا دے اور وہ زیادہ سوا نہ ہوجائیں۔
جیسا کہ قرآن سورہ توبہ، آیت ۶۴ میں فرماتا ہے :
یحذر المنافقون ان تنزل علیھم سورة تنبئھم بما فی قلوبھم قل استھزء و ا ان اللہ مخرج ما تحذرون۔
منافق اس سے ڈرتے ہیں کہ مبادہ کوئی سورہ ان کے برخلاف نازل ہو او رجو کچھ وہ اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں وہ فاش ہوجائے۔ کہیے جتنا چاہتے ہو استہزاء کرلو جس سے ڈرتے ہو خدا اسے ظاہر کر کے رہے گا۔
منافق اس سے بھی ترساں تھے کہ ان کے اسرار ظاہر ہوجانے کے بعد کہیں خدا کی طرف سے ان اندرونی خائن دشمنوں کے خلاف فرمان جنگ جاری نہ ہو جائے اور مسلمان جو اس وقت قوی اور طاقت ور ہو چکے ہیں ان پر حملہ نہ کردیں۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے :
لَئِنْ لَمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِی الْمَدِینَةِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِہِمْ ثُمَّ لاَیُجَاوِرُونَکَ فِیہَا إِلاَّ قَلِیلًا ( ۶۰) مَلْعُونِینَ آیْنَمَا ثُقِفُوا آخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیلًا ( ۶۱)
اگر منافقین اور وہ جن کے دل بیمار ہیں ہیں اور جھوٹی خبریں اڑا کر خوف، دہشت اور مایوسی پیدا کرتے ہیں اپنے برے کردار سے باز نہ آئے تو ہم ضرور ان کے خلاف تمہیں قیام کا حکم دیں گے تاکہ وہ تمہارے پڑوس میں نہ رہ سکیں اور وہ جہاں مل جائیں انہیں قابل نفرت افراد کی طرح گرفتار کر کے قتل کردیا جائے۔ ( احزاب ۶۰ ، ۶۱) ۔
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ منافق مدینہ میں انتہائی وحشت و سرگردانی میں مبتلا تھے۔ سخت لہجہ اور دو ٹوک آیات پے در پے رعد و برق آسمانی کی طرح ان کے خلاف نازل ہوتی تھیں اور انہیںہر وقت احتمال رہتا تھا کہ ان کی سرکوبی یا کم از کم انہیں مدینہ سے نکل جانے کا حکم صادر نہ ہوجائے۔ اگر چہ ان آیات کی شان نزول زمانہٴ پیغمبر کے منافقین سے متعلق ہے لیکن چونکہ منافقین ہر عہد کے سچے اور حقیقی انقلابوں کے مقابلے میں موجود رہتے ہیں اس لئے ہر عصر و قرن کے منافقین کے لئے یہ آیات وسعت رکھتی ہیں۔ ہم اپنی آنکھوں سے ایک ایک کرے یہ تمام نشانیاں سر مو فرق کے بغیر اپنے زمانے کے منافقین میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کی سرگردانی ان کا اضطراب غرضیکہ ان کی بیچارگی، بدبختی اور رسوائی بالکل اس مسافر کی طرح نظر آتی ہے جس کی قرآن نے نہایت وضاحت اور خوبصورتی سے تصویر کشی کی ہے۔
دونوںمثالوں کا فرق : زیر نظر آیات میںپہلی او ردوسری مثال ایک دوسرے سے کیا فرق رکھتی ہے اس سلسلے میں دو تفسیریں موجو د ہیں :
الف : پہلی یہ کہ پہلی آیت (مثلھم کمثل الذی) ان منافقین کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ابتداء میں سچے مومنین کی صف میں داخل ہوئے اور حقیقتا ایمان لائے تھے لیکن یہ ایمان مستقر اور مستحکم نہ تھا لہذا وہ نفاق کی طرف جھک گئے۔
باقی رہی دوسری مثال (او کصیب من السماء) تو وہ ان منافقین کی حالت بیان کرتی ہے جو ابتداء ہی سے منافقین کی صف میں تھے او رایک لحظہ کے لئے بھی ایمان نہیں لا ئے۔
ب : دوسری تفسیر یہ ہے کہ پہلی مثال افراد کی حالت کو واضح کرتی ہے اور دوسری مثال معاشرے کی کیفیت بیان کرتی ہے لہذا پہلی مثال میں ہے ” مثلھم کمثل الذی“ ان لوگوں کی مثال اس شخص جیسی ہے اور دوسری مثال میں ہے ” او کصیب من السماء فیہ ظلمت و رعد و برق“ یا ان کی مثال ایسی ہے کہ موسلا دھار بارش جو آسمان سے برستی ہے اور اس میں تاریکیاں ، رعد اور برق ہے جو وحشت نا ک ہے اور خوف و خطر سے بھر پور ہے کہ جس میں منافق زندگی گذارتے ہیں۔
یَااٴَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ( ۲۱)
الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الْاٴَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَاٴَنْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجَ بِہِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّہِ اٴَندَادًا وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ( ۲۲)
ترجمہ : ۱۲ ۔ اے لوگو ! اپنے پروردگار کی پرستش و عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ اور اللہ کے لئے شریک قرار نہ دو او رتم جانتے ہی ہو۔
۲۲ ۔ وہ ذات جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان ( فضائے زمین ) کو تمہارے سروں پر چھت کی طرح قائم کیا، آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ میوہ جات کی پرورش کی تاکہ وہ تمہاری روزی بن جائیںجیسا کہ تم جانتے ہو ( ان شرکاء اور بتوں میں سے نہ کسی نے تمہیں پیدا کیا اور نہ تمہیں روزی دی لہذا بس اس خدا کی عبادت کرو ) ۔
گذشتہ آیات میں خدا وند عالم نے تین گروہوں ( پرہیز گار، کفار اور منافقین ) کی تفصیل بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ پرہیز گار ہدایت الہی سے نوازے گئے ہیں اور قرآن ان کا راہنما ہے جب کہ کفار کے دلوں پر جہل و نادانی کی مہر لگادی ہے اور ان کے برے اعمال کی وجہ سے ان کی آنکھوں پرغفلت کا پردہ ڈال دیا ہے اور ان سے حس تمیز چھین لی ہے اور منافق ایسے بیمار دل ہیں کہ ان کے برے عمل کے نتیجے میں ان کی بیماری بڑھادی ہے۔
زیر بحث آیات میں تقابل کے بعد سعادت و نجات کی راہ جو پہلے گروہ کے لئے ہے واضح طور پر مشخص کرتے ہوئے فرماتا ہے : اے لوگو ! اپنے پروردگار کی پرستش و عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ ( یَااٴَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون )
۱ ۔ یایھا الناس کا خطاب : اس کا مطلب ہے ” اے لوگو “ اس خطاب کی قرآن میں تقریبا بیس مرتبہ تکرارہے یہ جامع اور عمومی خطاب ہے جو نشاندہی کرتا ہے کہ قرآن کسی قبیلے یا گروہ سے مخصوص نہیں بلکہ اس کی دعوت عام ہے اور یہ سب کو ایک یگانہ خدا کی دعوت دیتا ہے اور ہر قسم کے شرک اور راہ توحید سے انحراف کا مقابلہ کرتا ہے۔
۲ ۔ خلقت انسان نعمت خدا وندی ہے : انسان کے جذبہ ٴ تفکر کو ابھارنے کے لئے اور اسے عبادت پروردگار کی طرف مائل کرنے کے لئے قرآن اپنی گفتگو کا آغاز انسانوں کی خلقت و آفرینش سے کرتا ہے جو ایک اہم ترین نعمت ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو خدا کی قدرت، علم و حکمت اور رحمت خاص و عام کی نشانی ہے کیونکہ انسان جو عالم ہستی کا مکمل نمونہ ہے اس کی خلقت میں خدا کے غیر متناہی علم و قدرت اور اس کی وسیع نعمتیں مکمل طور پر نظر آتی ہیں۔
جو لوگ خدا کے سامنے نہیں جھکتے اور اس کی عبادت نہیں کرتے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی اور اپنے سے پہلے لوگوں کی خلقت میں غور نہیں کرتے وہ نکتے کی طرف متوجہ نہیں ہیں کہ اس عظیم خلقت کو گونگی اور بہری طبیعت کے عوامل سے منسوب نہیں کیا جاسکتا اور ان بے حساب و بینظیر نعمتوں کو جو انسانی جسم و جان میں نمایاں ہیں سوائے اس مبداء کے نہیں سمجھا جاسکتا جس کا علم اور قدرت لامتناہی ہے۔
اس بناء پر ذکر نعمت ایک تو خدا شناسی کے لئے دلیل ہے اور دوسرا شکر گزاری اور عبادت کے لئے محرک ہے۔
۳ ۔ عبادت کا نتیجہ : تقوی و پرہیزگاری ( لعلکم تتقون ) : ہماری عبادتیں اور تسلیمات خدا کے جاہ وجلال میں اضافے کا باعث نہیں اسی طرح ان کا ترک کرنا اس کے مقام کی عظمت میں کمی کا باعث نہیں۔ یہ عبادت تو ” تقوی “ کا سبق حاصل کرنے کے لئے تربیتی کلاسیں ہیں اور تقوی وہی احساس ذمہ داری اور انسان کے جذبہٴ باطن کا نام ہے جو انسان کی قیمت کی قیمت کا معیار اور مقام شخصیت کا میزان و ترازو ہے۔
۳ ۔ الذین من قبلکم : یہ شاید اس طرف اشارہ ہے کہ اگر تم بتوں کی پرستش میں اپنے آباؤ و اجداد کی سنت سے استدلال کرو تو خدا جو تمہیں پیدا کرنے والا ہے وہی تمہارے آباؤ اجداد کا مالک و پروردگار ہے۔ اس بناء پر بتوں کی پرستش تمہاری طرف سے ہو چاہے ان کی طرف سے کجروی کے سوا کچھ نہیں۔
زیر نظر دوسری آیت میں خدا کی عظیم نعمتوں کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ ہے جو ہمارے لئے شکر گزاری کا سبب ہوسکتاہے۔
پہلے زمین کی پیدائش کے بارے میں گفتگو ہے کہتا ہے ” وہی خدا جس نے زمین کو تمہارے لئے آرام دہ بچھونا قرار دیا “ ۔ الذی جعل لکم الارض فراشا۔ یہ رہوار جس نے تمہیں اپنی پشت پر سوار کر رکھا ہے،اس فضا میں بڑی تیزی کے ساتھ اپنی مختلف حرکات جاری رکھے ہوئے ہے جب کہ اس سے تمہارے وجود میں کوئی حرکت و لرزش پیدا نہیں ہوتی۔ یہ اس کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے اس زمین کی کشش ثقل کی وجہ سے تمہیں حرکت اور استراحت، گھر اور آشیانہ،باغ اور کھیتی اور قسم قسم کے وسائل زندگی میسر ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ زمین کی کشش ثقل بھی ایک نعمت ہے اگر یہ نہ ہو تو چشم زدن میں ہم سب اور ہماری زندگی کے سب وسائل زمین کی دورانی حرکت کے نتیجے میں فضا میں جا پڑیں اور سر گرداں پھرتے رہیں۔
زمین بچھونا ہے : زمین کو بستر استراحت سے تعبیر کیا گیا ہے یہ کس قدر خوبصورت تعبیر ہے۔ بستر میں نہ صرف اطمینان، آسودگی خاطر اور استراحت کا مفہوم پنہاں ہے بلکہ گرم و نرم ہونا اور حداعتدال میں زہنے کے معنی بھی اس میں پوشیدہ ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ عالم تشیع کے چوتھے پیشوا امام سجاد علی بن الحسین نے اپنے ایک بہترین بیان میں اس آیت کی تفسیر میں اس حقیقت کی تشریح فرمائی ہے۔
جعلھا ملائمةلطباعکم موافقة لاجساکم و لم یجعلھا شدید الحمی و الحرارة فتحرقکم ولا شدیدة البرد فتحمدکم و لا شدیدة طیب الریح فتصک ہا ما تکم و لا شدیدة النتن فتعتبکم و لا شدیدة اللین کالماء فتغرقکم و لا شدیدة الصلابة فتمنح علیکم فی دورکم و ابنیتکم و قبور موتاکم فلذا جعل الارض فراشا لکم۔
خدا نے زمین کو تمہاری طبیعت اور مزاج کے مطابق بنایا اور تمہارے جسم کی موافقت کے لئے اسے گرم اور جلانے والی نہیں بنایا کہ اس کی حرارت سے تم جل جاؤ اور اسے زیادہ ٹھنڈا بھی پیدا نہیں کیا کہ کہیں تم منجد ہوجاؤ۔ اسے اس قدر معطر اور خوشبو دار پیدا نہیں کیا کہ اس کی تیز خوشبو تمہارے دماغ کو تکلیف پہنچائے اور اسے بد بو دار بھی پیدا نہیں کیا کہ کہیں تمہار ہلاکت کا ہی سبب بن جائے۔ ایسے پانی کی طرح نہیں بنایا کہ تم اس میں غرق ہوجاؤ اور اتنا سخت بھی نہیں بنایا تاکہ تم اس میں گھر اور مکانات بنا سکو اور مردوں کو ( جن سطح زمین پر رہ جانا گونا گوں پریشانیوں کا باعث ہوتا ) اس میں دفن کرسکو۔ ہاں خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے ایسا بستر استراحت قرار دیا ہے [56] ۔
پھر نعمت آسمان کو ایک بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : آسمان کو تمہارے سروں پر چھت جیسا بنایا ہے ( والسماء بناء ) ۔ لفظ ” بناء “ اور لفظ علیکم کی طرف توجہ کریں تو یہ بیان ہوتا ہے کہ آسمان تمہارے سر کے اوپر بالکل چھت کی طرح بنا ہوا ہے یہی معنی زیادہ صراحت کے ساتھ قرآن میں ایک اورجگہ بھی ہے :
و جعلنا السماء سقفا محفوظا
اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا ہے ( انبیاء ۳۲) ۔
شاید تعبیر بعض ایسے افراد کے لئے عجیب و غریب ہو جو آسمان و زمین کی عمارت کی کیفیت کو آج کے علم ہئیت کی نظر سے جانتے ہیں یعنی یہ چھت کیونکر ہے اور کہاں ہے۔ بطلیموس کی فرضی ہئیت جس کے مطابق افلاک ایک دوسرے پر پیاز کے چھلکوں کی طرح ہیں کیا یہ تعبیر اس مفہوم کو تو ہمارے دلوں میں بٹھانا نہیں چاہتی ؟
مندرجہ ذیل توضیح کی طرف توجہ کرنے سے مطلب پورے طور پر واضح ہوجاتا ہے :
لفظ ” سما “ قرآن میں مختلف معانی کے لئے آیا ہے جس میں مشترک قدر وہ چیز ہے جو مندرجہ بالا جہت میں ہے ان میں سے ایک معنی جس کی طرف اس آیت میں ارشاد ہوا ہے وہ وہی فضائے زمین ہے یعنی ہوائے متراکم کا چھلکا اور چمڑا جس نے ہر طرف سے کرہٴ ارض کو چھپایا ہو اہے اور علماء و دانشوروں کے نظریے کے مطابق اس کی ضخامت کئی سو کلو میٹر ہے۔
اب اگر ہم اس ہوا کے قشر ضخیم کے اساسی اور حیاتی نقش کے بارے میں جس نے زمین کو ہر طرف سے گھیرا او راحاطہ کیا ہوا ہے غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ چھت انسانوں کی حفاظت کے لئے کس قدر محکم اور موثر ہے۔ یہ مخصوص ہوائی جلد جو بلوریں چھت کی طرح ہمارے گرد احاطہ کئے ہوئے ہے۔ سورج کی حیات بخش شعاعوں کے پہنچنے سے مانع بھی نہیں اور محکم و مضبوط بھی ہے بلکہ کئی میٹر ضخیم فولادی تہوں سے زیادہ مضبوط ہے۔
اگر یہ چھت نہ ہوتی تو زمین ہمیشہ پراکندہ آسمانی پتھروں کی بارش کی زد میں رہتی اور عملی طور پر لوگوں سے راحت و اطمینان چھن جاتا لیکن یہ سخت جلد جو کئی سو کلو میٹر ہے [57] ۔
تمام آسمانی پتھروں کو زمین کی سطح تک پہنچنے سے پہلے جلا کر نابود کردیتی ہے اور بہت کم مقدار میں ایسے پتھر ہیں جو اس جلد کو عبور کرکے خطرے کی گھنٹی کے عنوان سے گوشہ و کنار میں آگرتے ہیں لیکن یہ قلیل تعداد اہل زمین کے اطمینان میں رخنہ انداز نہیں ہوسکتی۔
منجملہ شواہد کے جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آسمان کے ایک معنی فضائے زمین ہے وہ حدیث ہے جو ہمارے بزرگ پیشوا امام صادق ( ع ) سے آسمان کے رنگ کے بارے میں منقول ہے ۔ آپ ( ع ) فرماتے ہیں :
اے مفضل ! آسمان کے رنگ میں غور و فکر کرو کہ خدا نے اسے نیلے رنگ کا پیدا کیا ہے جو انسانی آنکھ کے لئے سب سے زیادہ موافق ہے یہاں تک کہ اسے دیکھنا بینائی کو تقویت پہنچا تا ہے [58] ۔
آج اس چیز کو ہم سب جانتے ہیں کہ آسمان کا نیلا رنگ در اصل اس متراکم ہوا کا رنگ ہے جو زمین کو گھیرے ہوئے ہے اس بناء پر اس حدیث میں آسمان سے مراد یہی فضائے زمینی ہے۔
سورہ نحل کی آیة ۷۹ میں ہے :
الم یروا الی الطیر مسخرات فی جو ا لسمائ
آیا وہ ان پرندوں کو نہیں دیکھتے جو وسط آسمان میں تسخیر شدہ ہیں۔
آسمان کے دوسرے معانی کے سلسلے میں اس سورت کی آیت ۲۹ میں آپ مزید صراحت سے مطالعہ کریں گے۔
اس کے بعد بارش کی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ” اور آسمان سے پانی نازل کیا ( وانزل من السماء ما ) ۔
کیسا پانی۔ جو حیات بخش، تمام آبادیوں کا سبب اور تمام مادی نعمتوں کا جامع ہے، جملہ ” انزلنا من السماء “ دوبار اس حقیقت کی تاکید کرتا ہے کہ سماء سے مراد یہاں وہی فضائے آسمانی ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بارش بادلوں سے برستی ہے اور بادل فضائے زمین میں موجود بخارات سے پیدا ہوتے ہیں۔
امام سجاد علی بن الحسین اس آیة کے ذیل میں بارش کے آسمان سے نازل ہونے کے بارے میں ایک جاذب نظر بیان میں ارشاد فرماتے ہیں :
” خدا وند عالم بارش کو آسمان سے نازل کرتا ہے تاکہ وہ پہاڑوں کی تمام چوٹیوں، ٹیلوں اورگڑھوں غرض تمام بلند و ہموار جگہوں تک پہنچ جائے ( اور سب بغیر استثناء کے سیراب ہوں ) اور یہ نرم زمین کے اندر چلی جائے۔ اور زمین اس سے سیراب ہو ۔ اسے سیلاب کی صورت میں نہیں بھیجا کہ مبادا زمینوں، درختوں کھیتوں اور تمہارے پھلوں کو بہا لے جائے اور انہیں ویران کردے [59] ۔
اس کے بعد قرآن بارش کی برکت سے پیدا ہونے والے قسم قسم کے پھلوں اور ان روزیوں کی طرف جو انسانوں کا نصیب ہیں اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے ” خدا وند عالم نے بارش کے سبب میوہ جات کو تمہاری روزی کے عنوان سے نکالا ( فاخرج بہ من الثمرات رزقا لکم ) ۔
یہ خدائی پروگرام ایک طرف خدا کی وسیع اور پھیلی ہوئی رحمت کو جو اس کے بندوں پر ہے مشخص کرتا ہے اور دوسری طرف اس کی قدرت کو بیان کرتا ہے اس نے کس طرح بے رنگ پانی سے ہزاروں رنگوں کے میوے جو انسانی غذا کے لئے مختلف خصوصیات کے حامل ہیں اور اسی طرح دوسرے جاندار پیدا کئے جو اس کے وجود کے زندہ ترین دلائل میں سے ہیں لہذابلا فاصلہ مزید کہتا ہے ” جب ایسا ہی ہے تو پھر خدا کے شریک نہ بناؤ، جب کہ تمہیں معلوم ہے ( فلا تجعلوا للہ اندادا وانتم تعلمون ) ۔ تم سب جانتے ہو کہ ان بتوں اور خود ساختہ شرکاء نے تمہیں پیدا نہیں کیا اور نہ یہ روزی دیتے ہیں ۔ تمہارے پاس کوئی کم ترین نعمت بھی ان کی طرف سے نہیں پس کس طرح انہیں خدا کا شبیہ و نظیر قرار دیتے ہو۔
ٰٰٰٰٓٓیہاں اس حقیقت کی طرف متوجہ ہو نا ضرور ی ہے کہ خدا کا شریک قرار دینا یہی نہیںکہ پتھر اورلکڑی کے بت بنالئے جائیں یا اس سے بڑھ کر انسان کو مثلاََمسیح کو تین میں سے ایک خدا سمجھا جائے بلکہ اس کے وسیع تر معنی ہیں جو زیادہ اور پنہاںصورتوںپر بھی مشتمل ہیں کلی قاعدہ یہ ہے کہ زندگی میں جس چیز کوبھی خداکے ساتھ ساتھ سمجھا جائے۔۔وہ ایک قسم کا شرک ہے ۔
اس مو قع پرابن عباس کی ایک عجیب تفسیر ہے وہ کہتے ہیں :
لانداد ھوالشرک الخفی من دبیب النمل علی صفاةسوداء فی ظلمةاللیل وھوان یقول واللہ حیاتک یافلان ِوحیاتی -ویقولولا کلیہ ھذالاتاناللصوص ا لبارحةوقول الرجل لصاحبةماشاء اللہ وشئت ھذا کلہ بہ شرک یعنی ۔۔۔۔انداد وہی شرک ہے کبھی تاریک رات میںسیاہ پتھر پر ایک چیونٹی کی حرکت سے زیادہ مخفی ہوتا ہے ۔انسان کا یہ کہناکہ کی خدا کی قسم اور تیر ی جا ن کی قسم ،یاخداکی قسم اور مجھے میری جان کی قسم (یعنی خدا اور دوست کی جان یا خدااور اپنی جان کو ایک ہی لائن میںقرار دینا)یایو ں کہنا کہ اگر یہ کتیا کل رات نہ ہوتی تو چور آگئے تھے (لہذاچوروںسے نجات دلانے والی یہ کتیا ہے )یاپھر اپنے دوست سے کہے جو کچھ خدا چاہے اور تم پسند کرو ۔۔۔۔ان سب میں شرک کی بو ہے [60]
ایک حدیث میں ہے :
ایک شخص نے نبی اکرم کے سامنے یہ جملہ کہا :
ًًٍٍٍٍٍ (ماشاء اللّہ ہ وشئت ))جو کچھ خدا اور اآپ چاہتے ہیں (
آنحضرت نے فرمایا :
) اجعلنی للّہ نداََ)ِ (کیا تونے مجھے اللہ کا شریک وردیف قرار دیا )۔
عام لوگ روزانہ ایسی بہت سی باتیں کرتے رہتے ہیں مثلاً ((پہلے خدا پھرتم ))باور کیجیے کہ ایک کامل موحد انسان کے لئے یہ تعبیرات بھی مناسب نہیں ہیں۔
سورہ یوسف آیت ۱۰۶
) وما یومن اکثرھم بااللہ الاوھم مشرکون ))کی تفسیرکے ذیل میں امام صادق سے ایک روایت ہے ،آپ نے (شرک ِخفی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )فرمایا :
جیسے ایک انسان دوسرے سے کہتا ہے اگرتونہ ہوتاتو میںنابود ہو جاتا یا میری زندگی تباہ ہوجاتی [61]
اس کی مزید وضاحت اسی تفسیر میں سورہ یوسف ،آیت ۱۰۶ کے ذیل میںملاحظہ کیجئے
۲۳۔وان کنتم فی ریب ممانزلناعلی عبدنافاتوابسورةمن مثلہ ص وادعوا شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صدقین
۲۴فان لم تفعلو ولن تفعلو فاتقو النار التی وقودھا الناس والحجارة ج اعدت للکافرین ہ
۲۳ - اگر تمہیں اس چیز کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے (پیغمبر ) پر نازل کی ہے کوئی شک و شبہ ہے تو (کم از کم ) ایک سورہ اس کی مثل لے آؤ اور خدا کو چھوڑ کر اپنے گواہوں کو بھی اس کام کی دعوت دو ،اگر تم سچے ہو ۔
۲۴ - اگر یہ کام تم نے نہ کیا اور کبھی کر بھی نہ سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسانوں کے بدن اور پتھر ہیں یہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔
گزشتہ آیات کا موضوع سخن کفر ونفاق کبھی نبوت اور اعجاز پیغمبر کے عدم ادراک کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ لہذا زیر بحث آیات میں اسے بیان کیا گیا ہے ، خصوصیت کے ساتھ انگشت قرآن پر رکھ دی گئی ہے جو ہمیشہ رہنے والا معجزہ ہے ،یہ اس لئے کہ رسول اسلام کی رسالت کے بارے میں ہر قسم کا شک و شبہ دور ہوسکے ۔
قرآن کہتا ہے :--؛؛اگر تمہیں اس چیز کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے کوئی شک و شبہ ہے تو ایک سورت ہی اس جیسی لے آو ؛؛(ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتو ا بسورة من مثلہ س) (( ۱) ) مقابلے کی دعوت اور چیلنج کو قطعی ہونا چاہئے اور دشمن کو پوری طرح تحریک پیدا کرنی چا ہیے اور اصطلاحاََ غیرت دلانی چاہیے تاکہ وہ پوری طاقت استعمال کرسکے،اس طرح جب عجز وناتوانی ثابت ہوجائے گی تو وہ مسلم طور پر جان لے گا کہ جس چیز کے وہ مد مقابل ہے وہ کار بشر نہیں بلکہ خدائی کام ہے لہذا بعد والی آیت میں مختلف تعبیروں سے اسے بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے ؛؛ اگر تم اس کام کو انجام نہ دے سکے اور ہرگز نہ دے سکو گے لہذا اس آگ سے ڈرو کہ جس کا ایندھن بے ایمان آدمیوں کے بدن اور پتھر ہیں ( فان لم تفعلو و لن تفعلو فاتقو النار التی وقودھا الناس والحجارة)یعنی آگ ابھی سے کافروں کے لئے تیار ہے اور اس میں تاخیر نہ ہوگی (اعدت للکافرین) ۔
) ۱ ( بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ ضمیر ”مثلہ “رسول اکرمکے بارے میں ہے جنہیںقبل کے جملے میں ((عبدنا))سے یاد کیا گیایعنی اگر اس وحی آسمانی کے حقیقی ہونے میں تمہیں شک ہے تو کوئی شخص محمد جیسا پیش کرو جس نے بالکل تعلم حا صل نہ کی ہو اور نہ خط و کتابت سیکھی ہو جو ایسا کلام پیش کرسکے ۔لیکن یہ بعید نظر آتا ہے کیونکہ قرآن میں دوسری جگہ یوں آیا ہے :
فلیاتو بحدیث مثلہ (طور- ۳۴ (
ایک اور مقام پر ہے
فاتو بسورةمثلہ (یونس ۳۸ (
اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ ”مثلہ “قرآن کے لئے ہے پیغمبر کے لئے نہیں ۔
” وقود “کے معنی ہیں وہ چیز جسے آگ پکڑ لے یعنی وہ مادہ جو جلنے کے قابل ہے جیسے لکڑیا ں ۔اس سے مراد وہ چیز نہیں جس سے آگ نکلے مثلا ماچس یا وہ خاص پتھر جن سے آگ کے شعلے نکلتے ہیں۔
مفسرین کا ایک گروہ کہتا ہے کہ”حجارة“سے وہ بت مراد ہیں جنہیں پتھر سے بنایا گیا تھا اور سورہ انبیا ء کی آیت ۹۸ کو اس کا شاہد قرار دیتا ہے :
انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم
تم اور جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے جہنم کا ایندھن ہیں۔
ایک اور گروہ کہتا ہے کہ ”حجارة“سے مراد گندک کے پتھر ہیں جن کی حرارت دوسرے پتھروں سے زیادہے ۔لیکن بعض مفسرین کا نظر یہ ہے کہ اس تعبیر کا مقصد جہنم کی شدت حرارت کی طرف متوجہ کرنا ہے یعنی اس میں ایسی حرارت و تپش ہو گی جو پتھرو ں اور انسانوں کو بھی شعلہ ور کر دے گی ۔
گذشتہ آیات کے پیش ِنظر جو بات زیا دہ مناسب معلوم ہو تی ہے یہ ہے کہ جہنم کی آگ خود انسانوں اور پتھروں کے اندر سے نکلے گی اور یہ حقیقت آج ثابت ہو چکی ہے کہ جسموں کے اندر ایک عظیم آگ چھپی ہو ئی ہے (دوسرے لفظوں میں ایسی قوتیں موجود ہیں جوآگ میںتبدیل ہو سکتی ہیں)یہ مفہوم سمجھنا مشکل نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ا س جلانے والی آگ کو اس دنیا کی عمومی آگ کی طرح سمجھاجائے ۔
سورہٴ ہمزہ آیہ ۶‘۷ میں ہے :نارللہ الموقدة التی تطلع علی الا فءده
خداکی جلا نے والی ا ٓگ جس کا سرچشمہ دل ہیں اور جو اندر سے باہر کی طرف سرایت کر تی ہے (اس جہان کی آگ کے بر عکس جو باہر سے اندر تک پہنچتی ہے )۔
( ۱ )انبیاء کے لئے معجزے کی ضرورت : ہم جانتے ہیں کہ نبوت ورسالت ایک عظیم تر ین منصب ہے جو پاک لوگوں کے ایک گروہ کو عطا ہواہے کیونکہ دوسرے منصب ومقام جسموںپر حکمرانی کرتے ہیںلیکن نبوت وہ منصب ہے جومعاشرے کی روح اور دل پر حکومت کرتا ہے جھوٹے مدعی اوربہت سے برے افراد ا س کی رفعت وسر بلندی کے ہی پیش نظر اس منصب کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس سے غلط مفاد اٹھاتے ہیں ۔
ۺ لوگ یا تو ہر مدعی کے دعوی کو قبول کرلیں یا سب کی دعوت کو رد کر دیں ۔سب کو قبول کرلیں تو واضح ہے کہ کس قدر ہرج ومرج لازم آئے گا اور دین خدا کی کیا صورت بنے گی اور اگر کسی کو بھی قبول نہ کریں تو اس کا نتیجہ بھی گمراہی اور پسماندگی ہے اس بناء پر جس دلیل کی رو سے انبیاء کا وجود ضروری ہے اسی دلیل کی روشنی میں سچے انبیاء کے پاس ایسی نشانی ہونی چاہیے جو جھوٹے دعویدار وں سے انہیں ممتاز قرار دے اور وہ ان کی حقانیت کی سند ہو ۔
اس ا صل کی بناء پر ضروری ہے کہ نبی معجزہ لے کر آئے جو اسکی رسالت کی صداقت کا شاہد ہو سکے اور جیساکہ لفظ معجزہ سے واضح ہے نبی خارق العادہ اعمال (و ہ کام جو عموماََ نہ ہو ئے ہوں )انجام دینے کی قدرت رکھتاہو جن کی انجام دہی سے دوسرے لوگ عاجز ہوں۔
نبی جو صاحب معجزہ ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو مقابلہ بمثل دعوت دے (یعنی کہے کہ ایسا کام تم بھی کردکھاوٴ)اور اپنی گفتار کی سچائی کی علامت ونشانی کو اپنا معجزہ قرار دے تاکہ اگر دوسرے بھی ویسا کام کرسکتے ہیں تو بجالائیں اس کام کو اصطلاح میں تحدی (چیلنج)کہتے ہیں
جو معجزات اور خار ق عادات پیغمبر اسلام سے صادر ہوئے قرآن ان میںسے آپکی حقانیت کی بلند ترین اورزندہ ترین سند ہے قرآن افکار بشرسے بلند تر کتاب ہے کوئی اب تک ایسی کتاب نہیں لاسکا ۔یہ ایک ایسا عظیم ا ٓ سما نی معجزہ ہے ۔
گزشتہ انبیاء کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے معجزات کے ساتھ ہوں اور ان کے ا عجاز کو ثابت کر نے کے لئے مخالفین کو مقابلہ بمثل کی دعوت دیں۔در حقیقت ان کے معجزات کی اپنی کوئی زبان نہ تھی بلکہ انبیاے کی گفتاران کی تکمیل کرتی تھی ۔یہی بات قرآن کے علاوہ پیغمبر اسلام کے د یگر معجزات پر بھی صادق آتی ہے۔
لیکن قرآن ایک بولنے والا معجزہ ہے و ہ تعار ف کرانے والے کا محتاج نہیں وہ خود اپنی طرف دعوت دیتا ہے اور مخالفین کو مقابلے کے لئے پکارتا ہے -، انہیںمغلوب کرتاہے اور خود میدان مقابلہ سے کامیابی کے ساتھ نکلتا ہے لہذاوفات نبی کو صدیاں بیت گئیں مگر قرآن آپ کے زمانہ ٴحیات کی طرح آج بھی اپنا دعوی پیش کررہاہے ۔قرآن خود دین بھی ہے اور معجزہ بھی ،قانون بھی اور سند قانون بھی ،قرآن زمان ومکان کی سرحد سے مافوق ہے ۔
گذشتہ انبیاء کے معجزات بلکہ قرآن کے علاوہ آنحضرت کے دیگر معجزات بھی معین ومشخص زمان ومکان اور مخصوص افراد کے سامنے ظہور پذیر ہو تے تھے ۔مثلاََ حضرت مریم کے نو مولود بچے کی گفتگو ،مردوںکو زندہ کرنا اور حضرت مسیح کے ایسے دوسرے معجزات مخصوص زمان ومکان اور معین اشخاص کے لئے تھے ۔ہم جانتے ہیں کہ جو امو ر زمان ومکان کے رنگ سے ہم آہنگ ہوں گے وہ اس زمان ومکان سے جتنا دور ہونگے ان کے رنگ روپ میں کمی واقع ہوگی اور یہ چیز امور زمانی کے خواص میںسے ہے
لیکن قرآن کسی خاص زمان ومکان سے وابستہ نہیں۔یہ جس طرح جس حالت میں چودہ سو سال قبل حجازکے تاریک ماحول میں جلوہ گر تھا اسی طرح آج بھی ہم پر ضوفشاں ہے بلکہ رفتار زمانہ اور دانش کی پیش رفت کی وجہ سے ہم میں اس کی استعداد بڑھ گئی ہے کہ دور حاضر کے لوگوں کے لئے اس سے زیادہ استفادہ کرسکیں ۔یہ واضح ہے کہ جس پر اپنے زمان ومکان کا رنگ نہ ہو وہ بعد تک اور سارے جہان تک رسائی حاصل کر سکے گا اور یہ ہے بھی واضح کہ ایک عالمی دین کےلئے ضروری ہے کہ وہ عالمی وابدی سند حقانیت رکھتا ہو ۔
گذشتہ انبیاء سے جو خارق عادت امور ان کی گفتارکے سچے گواہ کے طور پر دیکھنے میں آتے ہیں وہ عموما جسمانی پہلو رکھتے تھے ۔ ناقابل علاج بیماروں کو شفا دینا ، مردوں کو زندہ کرنا ،نوزائیدہ بچے کا گہوارے میں باتیں کرنا وغیرہ سب جسمانی پہلو رکھتے تھے اور انسان کی آنکھ اور کان کو مسخر کرتے تھے لیکن قرآنی الفاظ جو انہی عام حروف و کلمات سے مرکب ہیں انسان کے دل و جان کی گہرایئوں میں اتر جاتے ہیں ، انسان کی روح انہیں عجیب و غریب سمجھتے ہوئے ان کےلئے احساسات تحسین سے معمور ہوجاتی ہے اور افکار وعقول کی تعظیم پر مجبور نظر آتی ہیں ۔یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو صرف اذہان ،افکار اور روح سے سروکار رکھتا ہے جسمانی معجزات پر ایسے معجزے کی برتری کسی وضاحت کی محتا ج نہیں ۔
قرآن نے چند ایک سورتوں میں اپنی مثال لانے کے لئے چیلنج کیا ہے ۔اس کی کچھ مثالیں حسب ذیل ہیں :
( ۱ )سورہ اسراء آیہ ۸۸( یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی ) ہے :
قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتو ا بمثل ھذا القرآن لا یا تون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا
کہیے #کہ اگر تمام انسان اور جن جمع ہوجائیں تاکہ قرآن جیسی کتاب لے آئیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے اگرچہ خوب ہم فکر و ہم کا ر بھی ہوجائیں۔
(!!) سورہ ہود (یہ بھی مکہ میں نازل ہوئی ) کی آیات ۱۳ اور ۱۴ میں یوں ہے :
ام یقولون افتراتہ قل فاتوبعشر سور مثلہ مفتریت ودعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین فالم یستجیبو لکم فاعلموا انما انزل بعلم اللہ
کیا وہ کہتے ہیں کہ یہ آیات خدا پر افتراء ہیں کہ دے کہ اگر تم سچے ہو تو ایسی دس سورتیں گڑھ کے لے آؤ اور بدون خدا جسے مدد کی دعوت دے سکتے ہو دے لو --اور اگر انہوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا تو جان لو کہ یہ آیات خدا کی طرف سے ہیں ۔
(!!!) سورہ یونس ( جو مکہ میں نازل ہوئی ) کی آیت ۳۸ میں اس طرح ہے :
ام یقولون افترانہ قل فاتو بسورة مثلہ و ادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین
کیا وہ کہتے ہیں کہ خدا پر افتراء باندھا گیا ہے آپ کہئے کہ اس جیسی ایک سورت لادکھاؤ اور خدا کے علاوہ ہر کسی کی مدد کے لئے طلب کرلو اگر تم سچے ہو۔
( ۴ )چوتھی مثال یہی زیر بحث آیت ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی۔
جیسا کہ واضح ہے کہ قرآن صراحت اور بے نظیر قاطعیت اور یقین کے ساتھ مقابلے کی دعوت دے رہا ہے ایسی صراحت و قاطعیت جو حقانیت کی زندہ نشانی ہے۔
قرآن نے بہت قاطع اور صریح بیان کے ساتھ تمام جہانوں اور تمام انسانوں کو مقابلہ بمثل کی دعوت دی ہے جو قرآن کے مبداء جہان آفرینش کے ساتھ ربط میں شک رکھتے ہیں ۔صرف دعوت ہی نہیں دی بلکہ مقابلہ کا شوق بھی دلایا ہے اور اس کے لئے تحریک پیدا کی ہے اور ان آیات میں ایسے الفاظ صرف کئے ہیں جو ان کی غیرت کو ابھارتے ہیں ۔مثلا،
ان کنتم صادقین “
اگر تم سچے ہو ۔
فاتو بعشر سور مثلہ مفتریت “
ایسی دس سورتیں گڑھ لاؤ۔
قل فاتوبسورة مثلہ ان کنتم صادقین “
اگر تم سچے ہو تو ایسی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔
ودعوامن استطعتم من دون اللہ “
بدون خداجسے چاہودعوت دو
۔قل لئن اجتمعت الانس والجن “
اگر تم جن و انس بھی ایکا کرلو ۔
” لا یاتون بمثلہ “
اس کی مثل نہیں لا سکتے۔
” فاتقوالنار التی وقودھا الناس والحجارة “
اس آگ سے ڈروجس کا ایندھن (گنہگار)لوگوں کے بدن اور پتھر ہیں ۔
فان لم تفعلوا ولن تفعلو “
اگر اس کی مثل نہ لائے اور نہ ہی تم لاسکتے ہو ۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ صرف ادبی یا مذہبی مقابلہ نہ تھا بلکہ ایک سیاسی اقتصادی اور اجتماعی مقابلہ تھا تمام چیزیں یہاں تک کہ خود ان کے وجود کی بقا کا انحصار بھی اس مقابلے میں کامیابی پر نہ تھا بہ الفاظ دیگر ایک مکمل مقابلہ تھا جو ان کی زندگی اور موت کی راہ اور سرنوشت کو روشن کر دیتا۔ اگر کامیاب ہوجاتے تو سب کچھ ان کے پاس ہوتا اور اگر مغلوب ہوجاتے تو اپنی بھی ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھتے اس سب کے باوجود تحریک و تشویق کا یہ عالم ہے۔
اس کے باوصف اگر ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے قرآن کے مقابلے میں گھٹنے ٹیک د یئے اور اس کا مثل نہ لاسکے تو قرآن کا معجزہ ہونا زیادہ واضح اور روشن تر ہوجاتا ہے۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ یہ آیات کسی خاص زمانے یا جگہ سے مخصوص نہیں بلکہ تمام جہانوں اور تمام علمی مراکز کو مقابلے کی دعوت دے رہی ہیں اور کسی قسم کا استثناء نہیں ہے اور یہ چیلنج آج بھی برقرار ہے۔
یہ کیسے معلوم ہوا کہ قرآن کی مثل نہ لائی جاسکی؟---- تاریخ اسلام پر غور کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے کیونکہ اسلامی ممالک کے اندر رسول اکرم کے زمانے میں اور آپ کے بعد یہاں تک کہ خود مکہ اور مدینہ میں کٹر اور متعصب عیسائی اور یہودی بستے تھے جو مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے ہر موقع کو غنیمت جانتے تھے ۔خود مسلمانوں میں بھی ایک ”مسلمان نما “ گروہ موجود تھا قرآن نے ان کا نام منافق رکھا ہے ان کے ذمہ مسلمانوں کے جاسوس کا رول ادا کرتا تھا جیسے ابو عامر راہب اور مدینہ میں اس کے منافق ساتھی جن کے بادشاہ روم سے مخصوص روابط کا تاریخ میں تذکرہ موجود ہے ۔ مدینہ میں مسجد ضرار انہی لوگوں نے بنائی تھی جہاں سے وہ عجیب سازش وجود پذیر ہوئی جس کا قرآن نے سورہ توبہ میں ذکر کیا ہے یہ طے شدہ بات ہے کہ منافقین کا یہ گروہ اور وہ متعصب اور کٹر دشمن گہری نظر سے مسلمانوں کے حالات کی تاک میں رہتے تھے اور وہ ہر چیز جو مسلمانوں کے نقصان کا باعث ہوتی اسے خوش آمدید کہتے تھے۔
اگر ان لوگوں کو اس قسم کی کتاب مل جاتی تو مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنے کے لئے اس کی ہر ممکن نشر واشاعت کرتے یا کم از کم اسکی حفاظت و نگہداشت کی کوشش کرتے ۔
یہی وجہ ہے کہ وہ ا فراد جن کے متعلق نہایت کم احتمال بھی ہے کہ وہ قرآن کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے ۔تاریخ نے ان کے نام ریکارڑ کئے ہیں ۔ان میں سے بعض یہ ہیں :
عبداللہ بن مفقع: اس نے اسی مقصد کے لئے کتاب الدرةالیتیمة“ تصنیف کی۔ کتاب ابھی موجود ہے اور کئی مرتبہ طبع ہو چکی ہے اس کتاب میں اس بات کا چھوٹے سے چھوٹا بھی اشارہ نہیں کہ یہ قرآن کے مقابلہ میں لکھی گئی ہے ا سکے باوجود ہم نہیں جانتے کہ اس کی طرف نسبت کیوں دی گئی ہے۔
متنبی احمد بن حسین کوفی : یہ شاعر تھا ۔ اس کا نام بھی اس زمرے میں آتا ہے کہ اس نے دعویٰ نبوت کیا تھا جب کہ بہت سے قرائن نشاندہی کرتے ہیں کہ گھریلو ناکامیوں اور جاہ طلبی کی خواہش کے پیش نظر اس نے بلند پردازی کا یہ پروگرام بنایا تھا۔
ابوالعلای معری :اس کا نام بھی اس امر میں داخل ہے اگرچہ اسلام کے بارے میں اس سے منسوب سخت باتیں بیا ن کی گئی ہیں ، لیکن وہ قرآن کے مقابلہ کا ارادہ کبھی بھی نہ رکھتا تھا بلکہ اس نے قرآن کی عظمت کے متعلق بہت عمدہ جملے کہے ہیں جن میں بعض کی طرف اشارہ کیا جائے گا ۔
مسلیمہ کذاب : یہ یمامہ کا رہنے والا تھا اور یقینا ان اشخاص میں سے ہے جو قرآن کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے اور بقول اس کے کچھ آیات لایا جن میں تفریع طبع کا پہلو زیادہ ہے حرج نہیں کہ ان میں سے چند جملے ہم یہاں نقل کردیں :
( ۱ )سورہ الذاریات کے مقابلہ میں اس نے یہ جملے پیش کیے :
والمبذرات بذرا والحاصدات حصدا والذاریات تمحاََوالطاحنات طحنا والعجنات عجنا والخابذات والثاردات ثردا والاقمات لقما اھا لة وسمنا [62]
یعنی قسم ہے کسانوں کی-- قسم ہے بیج ڈالنے والوں کی اور قسم ہے گھاس کو گندم سے جدا کرنے والوں کی اور قسم ہے گندم کو گھاس سے الگ کرنے والوں کی قسم ہے آٹاگوندھنے والیوں کی اور قسم ہے روٹی پکانے والوں کی اور قسم ہے ثرید بنانے والوںکی اور قسم ہے ان کی جو چرب و نرم لقمہ اٹھاتے ہےں ،
( ۱۱ )یاضفدبنت ضفدع نقی ماتنقین نصفک فی الما ء ونصفک فی الطین لا لماء مکدرین ولاالشاربین تمنعین [63]
یعنیای مینڈک!مینڈک کی بیٹی !جتنا چاہتی ہے آواز نکال تیرا آدھا حصہ پانی میں ہے اور آدھا کیچڑمیں ۔پانی کو گدلا کرتی ہے اور نہ کسی کو پینے سے روکتی ہے ۔
یہاں ضروری ہے چند جملے بڑے لوگوں کے یہاں تک کہ جوقرآن کامقابلہ کرنے میں متہم ہیں نقل کئے جائیں تاکہ عظمت قرآن ظاہر ہو :
ابوالعلای مصری :یہ قرآن کا مقابلہ کرنے میں متہم ہے ،کہتا ہے :
” یہ بات تمام لوگوں میں چاہے مسلمان ہویا غیر مسلم مورد اتفاق ہے کہ وہ کتاب جو محمد لے کر آیاہے اس نے اپنے مقابلے میں عقلوںکو مغلوب کردیاہے اور آج تک کوئی ایسی کتاب نہیں لاسکا ۔اس کا طرز اسلو ب عربو ں کے معمول کے اسلوبو ںخطابہ ،رجز ،شعر اور کاہنوںکے مسجع کسی سے بھی مشابہت نہیں رکھتا ۔ کتاب میں اس قدر امتیازاورکشش ہے کہ اگر اس کی ایک آیت کسی دوسرے کلمات میںموجود ہو تو شب تاریک میں چمکے ہوئے ستاروںکی طر ح ر وشن ہو گی “
ولید بن مغیرہ مخزومی :یہ ایسا شخص ہے جو حسن تدبیر کے باعث عربو ں میںشہرت رکھتا تھا زمانہ ٴجاہلیت میں حل مشکلا ت کے لئے اس کے فکروتدبر سے استفادہ کیا جاتا تھا ۔اسی لئے اسے ”ریحانہٴ قریش “(قریش کا گلدستہ )کہا جاتا تھا ۔کہتے ہیں جب اس نے نبی کریم سے سورہ غافر کی چند ابتدائی آیات سنیں تو بنی مخزوم کی ایک محفل میں آیا اورکہنے لگا :
” خدا کی قسم میںنے محمد سے ایسی گفتگو سنی ہے جو کلام انسان سے شباہت رکھتی ہے نہ جنوں کی گفتگو ہے ۔ “
اس نے مزید کہا :
وان لہ لحلاوة ،ان علیہ لطلاوة وان اعلاہ لمثمروان اسفلہ لمغدق ،وانہ یعلو ولایعلٰی علیہ ۔
اس کی گفتگو میں خاص مٹھا س اور حسن ہے ۔اس کا اوپر کا حصہ (بارآور درختوں کی طرح)پھلدار ہے اور نیچے کا حصہ (پرانے درختو ں کی جڑوںکی طر ح)بنیاد پر استوار ہے ۔یہ ایسی گفتگو ہے جو ہر ایک پر غالب ہے اور کوئی اس پر غالب نہیں آسکتا ۔ [64]
کارلائلی: یہ انگلستان کامشہور موٴرخ ا ورمحقق ہے جوقرآن کے بارے میںکہتا ہے :
” اگر اس مقدس کتاب پرنظر ڈالیںتو معلوم ہوتا ہے کہ برجستہ حقائق اور وجود کے اسرار وخصائص نے اس کے جوہر دار مضامین میں ایسے پرورش پائی ہے جس سے قرآن کی عظمت وحقیقت وضاحت سے نمایاں ہوتی ہے یہ خود ایک ایسی خوبی ہے جو صرف قرآن سے مخصوص ہے اور کسی دوسری علمی ،سیاسی اور اقتصادی کتاب میں نہیںدیکھی جاسکتی ۔یقینابعض کتابیں ایسی ہیں جن کامطالعہ ذہن انسانی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے لیکن ان کا قرآن سے کبھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا اس بناء پر کہنا چاہیئے کہ قرآن کی ابتدائی خوبیاں اور بنیادی دستاویزات جن کا تعلق حقیقت ،پاکیزہ احساسا ت ، برجستہ عنوانات اور اس مضامین سے ہے ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے ۔وہ فضائل جو تکمیل انسانیت اورسعادت بشر میں ہیں اس میں ان کی انتہا ہے اور قرآن سے وضاحت ان فضائل کی نشان دہی کر تا ہے “( ۱ )
( ۱ ) ” سازمانہائے تمدن امپرطوری ا سلام “
جاینڈیون پورٹ:یہ کتاب ” عذرتقصیربہ پیش گاہ محمد ی وقرآن “کا مصنف ہے ۔قرآن کے بارے میں لکھتا ہے :
” قرآن نقائص سے اس قدر مبرا ومنزہ ہے کہ چھوٹی سی چھوٹی تصحیح اور اصلاح کا بھی محتاج نہیں ۔ممکن ہے کہ انسان اسے اول سے آخر تک پڑھتا جائے اور معمولی سی ملامت وافسرد گی بھی محسوس نہ کرے “
اس کے بعد مزید لکھتا ہے :
سب اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ قرآن سب سے زیادہ فصیح و بلیغ زبان اور عرب کے سب سے زیادہ نجیب اور ادیب قبیلے قریش کے لب و لہجے میں نازل ہوا اور یہ روشن ترین صورتوں اور محکم ترین تشبیہات سے معمورہے ؛؛ [65]
گوئٹے : یہ المانی شاعر اور عالم ہے ،کہتا ہے :
” قرآن ایسی کتاب ہے کہ ابتدا میں قاری اس کی وزنی عبارت کی وجہ سے رو گردانی کرنے لگتا ہے لیکن اس کے بعد اس کی کشش کا فریفتہ ہو جاتا ہے اور پھر بے اختیار اس کی متعدد خوبیوں کا عاشق ہوجاتا ہے ”۔
یہی گوئٹے ایک جگہ اور لکھتا ہے :
سالہا سال تک خدا سے ناآشنا پوپ ہمیں قرآن اور اس کے لانے والے محمد کی عظمت سے دور رکھے رہے مگر علم و دانش کی شاہراہ پر جتنا ہم نے قدم آگے بڑھایا جہالت و تعصب کے ناروا پردے ہٹتے گئے اور بہت جلد اس کتاب نے جس کی تعریف و توصیف نہیں ہوسکتی دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور اس نے دنیا کے علم ودانش پر گہرا اثر کیا ہے اور آخر کار یہ کتاب دنیا بھر کے لوگوں کے افکار کا محورقرار پائے گی”۔
مزید لکھتا ہے :
ہم ابتدا میں قرآن سے روگردان تھے لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا کہ اس کتاب نے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچ لی اور ہمیں حیران کردیا یہاں تک کہ اس کے اصول اور عظیم علمی قوانین کے سامنے ہم نے سر تسلیم خم کردیا [66]
ول ڈیوران : یہ ایک مشہور مور خ ہے ، لکھتا ہے:”قرآن نے مسلمانوں میں اس طرح کی عزت نفس ،عدالت اور تقوی پیدا کیا ہے جس کی نظیر و مثال دنیا کے دوسرے ممالک میں نہیں ملتی “۔
ز ول لابوم : یہ ایک فرانسیسی مفکر ہے ۔ اپنی کتاب ”تفصیل الآیات “میں کہتا ہے :
” دنیا نے علم و دانش مسلمانون سے لی ہے اور مسلمانوں نے یہ علوم اس قرآن سے لئے ہےں جو علم دانش کا دریا ہے اور اس سے عالم بشریت کے لئے کئی نہریں جاری ہوئی ہیں :“
دینورٹ : یہ ایک اور مستشرق ہے ، لکھتا ہے :
ضروری ہے کہ ہم اعتراف کرلیں کہ علوم طبیعی و فلکی اور فلسفہ و ریاضیات جو یورپ میں رواج پذیر ہیں زیادہ تر تعلیمات قرآن کی برکت سے ہیں ۔ اور ہم مسلمانوں کے مقروض ہیں بلکہ اس لحاظ سے یورپ ایک اسلامی شہر ہے [67]
ڈاکٹر مسز لوراواکیسا گلیری:یہ ناٹل یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں ۔”پیش رفت سریع اسلام “میں لکھتی ہیں :
” اسلام کی کتاب اسمانی اعجاز کا ایک نمونہ ہے ․․ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ، قرآن کے اسلوب اور طرز کا نمونہ گزشتہ ادبیات میں نہیں پایا جاتا اور یہ طرز روح انسانی میں جو تاثیر پیدا کرتی ہے وہ اس کے امتیاز ات اور بلند یوں سے پیدا ہوتی ہے کس طرح ممکن ہے کہ یہ اعجاز آمیز کتاب محمد خود ساختہ ہو جب کہ وہ ایک ایسا عرب تھا جس نے تعلیم حاصل نہیں کی ۔ ہمیں اس کتاب میں علوم کے خزینے اور ذخیرے نظر آتے ہیں جو نہایت ہوش مند اشخاص ، بزرگ ترین فلاسفہ اور قوی ترین سیاست دان اور قانون دان لوگوں کی استعداد اور ظرفیت سے بلند ہیں اسی بنا ء پر قرآن کسی تعلیم یافتہ مفکر وعالم کا کلام ہوسکتا “ [68]
( ۲۵ )وبشر الذین آمنو وعملوا الصالحت ان لہم جنت تجری من تحتہا الانہٰر کلما رزقوا منھا من ثمرةرزقا قالو ھذا الذی رزقنا من قبل و اتوا بہ متشابہا ولہم فیھا ازواج مطھرة وھم فیھا خالدون
ایمان لانے والوں اور نیک عمل بجالانے والوں کو خوشخبری دیجیے کہ ان کے لئے بہشت کے باغات ہیں جہاں درختو ںکے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ جب انہیں ان میں سے پھل دیا جائے گا تو کہیں گے یہ وہی ہے جو پہلے بھی ہمیں دیا گیا تھا ( لیکن یہ اس سے کس قدر بہتر ہے) اور جو پھل ان کو پیش کئے جا ئیں گے (خوبی وزیبائی میں ) یکساں ہیں اور ان کے لئے اس میں پاکیزہ بیویاں ہیں اور وہ ہمیشہ رہیں گے۔
چونکہ گذشتہ بحث کی آخری آیت میں کفار اور منکرین قرآن کو دردناک عذاب کی تہدید کی گئی ہے لہذا زیر نظر آیت میں مومنین کی سر نوشت کا تذکرہ ہے تاکہ قرآن کے روش اور طریقہ کے مطابق دونوں کے مدمقابل ہونے سے حقیقت زیادہ روشن ہو تی رہے۔
پہلے کہتا ہے کہ ان افراد کو جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے اعمال صالح انجام دیئے ہیں بشارت دے دو کہ ان کے لئے بہشت کے باغ ہیں جن کے درختون کے نیچے نہریں جاری ہیں (وبشر الذین امنو اوعملوا الصالحات ان لھم جنات تجری من تحتھا الانھار )۔
ہم جا نتے ہیں کہ و ہ باغا ت جہاں ہمیشہ پانی نہیں ہوتا بلکہ باہر سے پانی لاکر انہیں سیراب کیا جاتا ہے ان میں زیادہ طراوت نہیں ہوتی ۔ ترو تازگی تو اس باغ میں ہو تی ہے جس کے لئے پانی کا اپنا انتظام ہو اور پانی اس سے کبھی منقطع نہ ہوتا ہو ،ایسے باغ کو خشک سالی اور پانی کی کمی کاخطرہ نہیں ہو تا اور بہشت کے باغات اسی طرح کے ہیں ۔
اس کے بعد باغوںکے گوناگوں پھلوںکے بارے میں کہا ہے ہر زمانے میں ان باغوںکے پھل انہیں دیئے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ تو و ہی ہے جو اس سے پہلے دیا گیا ہے (کلما رزقوا منھامن ثمرةرزقاََقالواھذاالذی رزقنامن قبل )۔
مفسرین نے اس جملہ کی کئی تفسیریںبیان کی ہیں۔بعض کہتے ہیں اس کامقصد یہ ہے کہ نعمات ان اعمال کی جزاہیں جنہیں ہم پہلے دنیا میں انجام دیئے چکے ہیں اور موضوع پہلے سے فراہم شدہ ہے ۔
بعض کہتے ہیں کہ جس وقت جنت کے پھل دوبارہ ان کے لیئے لائیں جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی میوہ ہیں جو ہم پہلے کھاچکے ہیں لیکن جب ا سے کھائیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ ان کا ذائقہ نیا اور لذت تازہ ہے ۔مثلاََ سیب اور انگور جو اس دنیا میں کھاتے ہیں ہر دفعہ وہی پہلے والا ذائقہ محسو س کرتے ہیں لیکن جنت کے میوے جس قدربھی ظاہراََ ایک قسم کے ہو ں ہر دفعہ ایک نیا ذائقہ دیں گے اور یہ جہاںکی خصوصیات میں سے ہے ۔
کچھ اور حضرات کے نزدیک اسکا مقصد یہ ہے کہ جنت کے میووں کو دیکھیں گے تو انہیں دنیا کے میووںسے مشابہ پائیں گے تاکہ نامانوسی کا احساس نہ ہو لیکن جب کھائیں گے تو ان میں تازگی اور بہتر ین ذائقہ محسوس کریں گے ۔
بعید نہیں کہ آیت میں ان تمام مفاہیم تفاسیر کی طرف اشارہ ہو کیونکہ قرآ ن کے الفاظ بعض اوقات کئی معنی کے حامل ہو تے ہیں [69]
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے ان کے لئے ایسے پھل پیش کئے جائیں گے جو ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہو گے (واتوابہ متاشابہاََ) یعنی وہ سب خوبی اور زیبا ئی میں ایک جیسے ہو ں گے وہ ایسے اعلی درجہ کے ہو ں گے کہ انہیں ایک دوسرے پر ترجیح نہ دی جاسکے گی ۔یہ اس دنیا کے میووں سے بر عکس بات ہوگی جہاں بعض کچے ہوتے ہیں اور بعض زیادہ پک جاتے ہیں ۔بعض کم رنگ اور کم خو شبو ہو تے ہیں اور بعض خشبو رنگ ،خوشبو دار اور معطر ہو تے ہیں ۔لیکن جنت کے باغات کے میوے ایک سے بڑھ کر ایک خشبو دار ،ایک سے ایک میٹھا اور ایک سے ایک بڑھ کرجاذب نظر اورزیبا ہوگا ۔
اور آخر میں جنت کی جس نعمت کا ذکر کیا گیا ہے وہ پاک پاکیزہ بیویاں ہیں ۔فرمایا :ان کے لئے جنت میں مطہر وپاک بیویاں ہیں (ولہم فیھا ازواج مطھرہ )یہ ان تمام آلا ئشوں سے پاک ہو ں گی جو اس جہان میں ممکن ہے ان میں ہوں ۔گویا روح و دل پر نگاہ کریں تو پاک اور جسم وبدن پر نگاہ ڈالیںتو پاک ۔
دنیا کی نعمات جو مشکلا ت ہیں ان میںسے ایک یہ ہے کہ جس وقت انسان کسی نعمت سے سر فراز ہوتا ہے اس وقت اس کے زوال کی فکر بھی لاحق رہتی ہے اور اس کا دل پریشان ہو جاتا ہے ،اسی بناء پر یہ نعمتیں کبھی بھی اطمینان بخش نہیں رہتیں ۔لیکن جنت کی نعمتیں چونکہ ابدی اور جاودانی ہیں ان کے لئے فنا اور زوال نہیں ہے ۔لھٰذا وہ ہر جہت سے کامل اور اطمینان بخش ہیں اس کے آخر میںفرمایا ؛موٴمنین ہمیشہ ہمیشہ ان باغات بہشت میں رہیں گے ۔(وہم فیہا خلدون )۔
( ۱ )ایمان وعمل :قرآن کی بہت سی آیات میں ایمان اور عمل ِصالح ایک ساتھ بیان کئے گئے ہیں ۔ یہ ایک طرح کی اس بات کی نشان دہی ہے کہ ان میں جدائی نہیں ہوسکتی اور حقیقتاََ ایسا ہی ہے کیونکہ ایمان وعمل صالح ایک دوسر ے کی تکمیل کرتے ہیں اگر ایمان روح کی گہرائیو میں اتر جائے تو یقینا اس کی شعاع انسان کے اعمال کو بھی روشن کرے گی اور اسکے عمل کو عمل ِصالح بنادے گی ۔جیسے کوئی چراغ پر نور کسی کمرے میں جلادیں توروشندان اور دریچو ں سے باہر بھی اس کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں ۔
سورہ طلاق آیت ۱۱ میں ہے
ومن یومن بااللہ ویعمل صالحاید خلہ جنت تجری من تحتھاالانھار خلدین فیھا ابدا
جو خدا پر ایمان لے آئے اور عمل صالح انجام دے اسے خدا باغات بہشت میں داخل کرے گا جہاں درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں اورجہا ں جا نے والے ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔
سورہٴ نور آیت ۵۵ میں ہے
وعداللہ الذین آمنوامنکم وعملوالصالحات لیستخفنہم فی الارض
جو افراد ایمان لے آئیں اور اعمال صالح انجام دیں خدا کا ا ن سے وعدہ ہے کہ وہ انہیں روئے زمین کا خلیفہ بنائے گا ۔
اصلی طور پر ایمان جڑ ہے اورعمل صالح اس کا پھل اور میٹھے پھل کا وجود جڑکی سلامتی کی دلیل ہے اور جڑ کی سلامتی مفید پھل کی پرورش کا سبب ہے ۔
ممکن ہے بے ایمان لوگ کبھی کبھی عمل صالح انجام دیں لیکن یہ مسلم ہے کہ اس میں دوام اور ہمیشگی نہیں ہو گی ۔ایمان جو عمل صالح کا ضامن ہے ایسا ایمان ہے جس کی جڑیں وجود انسانی کی گہرائیوں میں پہنچی ہوئی ہوں اور ان کی وجہ سے انسان میں احساس مسوٴلیت پیداہو ۔
( ۲ )پاکیزہ بیویاں : یہ امر قابل غور ہے کہ جنت کی بیویوں کی اس آیت سے صرف ایک صفت ”مطھرة“ بیان کی گئی ہے ۔ صفت مطہرة (یعنی پاک وپاکیزہ ) کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بیوی کے لئے سب سے پہلی اور اہم ترین شرط پاکیزگی ہے باقی صفات سب اس کے ماتحت ہیں۔
پیغمبر اکرم کی ایک مشہور حدیث اس حقیقت کو روشن کرتی ہے ۔آپ نے فرمایا :
ایاکم وخضراء الدمن ،قیل :یا رسول اللہ وماخضراء الدمن ،قال المرئة الحسناء فی منبت السوء۔
ان سبز یوں سے پرہیز کرو جو کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر اگیں ۔عر ض کیا گیااے اللہ کے رسول آپ کا مقصد اس سبزی سے کیا ہے ۔آپ نے فرمایا : خوبصورت عورت جس نے گندے خاندان میں پرورش پائی ہو [70]
اگر چہ بہت سی آیات قرآنی میں مادی نعمتوں سے متعلق گفتگو ہوئی ہے مثلا باغات جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں ، قصر ومحلات پاکیزہ بیویاں ،رنگ برنگے پھل اور میوے اور ہم مزاج دوست وغیرہ مگر ان کے ساتھ ساتھ اہم ترین معنوی نعمات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جن کی عظمت و رفعت کو ہمارے پیمانوں سے ناپنا ممکن نہیں ۔ مثلا سورہ توبہ آیہ ۷۲ میں ہے :
وعد اللہ المومنین والمومنٰت جنٰت تجری من تحتھا الانھٰر خالدین فیھا ومسٰکن طیبةفی جنٰت عدن ورضوان من اللہ اکبر ذلک ھوالفوز العظیم
خدا وند عالم نے ایماندار مردوں اور عورتوں سے باغات جنت کا وعدہ کیا ہے جن کے درختوں تلے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ وہیں رہیں گے اور ان کے لئے دائمی بہشتوں میں پاکیزہ مکانات ہیں اور اسی طرح پروردگار کی خوشنودی بھی جو ان سب سے بالا تر ہے اور یہ عظیم کامیابی ہے :
سورہ بینہ کی آیہ ۸ میں جنت کی مادی نعمتوں کے تذکرے کے بعد فرمایا گیا ہے؛
رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ
خدا وند عالم ان سے خوش ہے اور وہ بھی خدا سے خوش ہیں ۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر کو ئی شخص اس مقام پرپہنچ جائے کہ اسے احساس ہوکہ خدااس سے راضی ہے اور وہ بھی خدا سے راضی ہے تووہ تمام لذات کو بھلا دیتا ہے صرف اسی سے دل لگالیتا ہے اس کے علاوہ اپنی فکر میں کچھ نہیں لاتا اور یہ ایسی روحانی لذت ہے ۔کسی طرح بھی زبان وبیاں سے ادا نہیں کی جاسکتی ۔
خلاصہٴ کلام یہ کہ چو نکہ قیامت ومعاد میں روحانی پہلو بھی ہے اور جسمانی بھی لہذاجنت کی نعما ت بھی دونوں پہلو رکھتی ہیں تاکہ انہیں جامعیت حاصل ہواورہر شخص اپنی استعداد اور شائستگی کے مطابق بہرور ہوسکے ۔
۲۶ ۔ان اللہ لایستحی ان یضرب مثلاََما بعوضةفما فوقھا فاماالذین آمنوا فیعلمون انہ الحق من ربھم واما الذین کفروا فیقولون ماذااراداللہ بھذا مثلا ً یضل بہ کثیرا لاویھدی بہ کثیرا طوما یضل بہ الاافاسقین
۶۔خدا وندعالم مچھر یا اس سے بڑھ کر کو ئی مثال دینے میں جھجھکتا نہیں (اسلئے کہ ) جو لوگ ایمان لاچکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ پرودگار کی طرف سے حقیقت ہے لیکن جنہوںنے راہ کفر اختیار کی ہے(ا س موضوع کوبہانہ بناکر۔ )
کہتے ہیں کہ خدا کا مقصد اس مثال سے کیا تھاخدااس سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدیت کر تا ہے لیکن گمراہ صرف فاسقو کو کر تا ہے ۔
مندر جہ میںسے پہلی آیت کہتی ہے کہ خداوند عالم اس سے نہیں شرماتا کہ وہ اپنی موجودات میں سے جسے چاہے ظاہراًوہ چھوٹی سی ہوجیسے مچھر یا اس سے بھی بڑھ کر کسی چیز کی مثال دے (اناللہ لایستحی ان یضرب مثلا ًبعوضةفمافوقھا )کیونکہ مثال کے لئے ضروری ہے کہ وہ مقصد کے مطابق ہو بہ الفاظ دیگر مثال حقیقت کی تصویر کشی کاذریعہ ہے ۔
بعض اوقات کہنے والا ہد عیان کی تحقیر اور ان کے کمزور پہلو کو بیان کررہا ہو تو کسی کمزور چیز کو مثال کے لئے منتخب کر تا ہے مثلا ًسورہ حج آیت ۷۳ میں ہے :
ان الذین تدعون من دون اللہ لن یخلقوا ذبابا ولواجتمعو لہ و ان یسلبھم الذباب شیئا لا یستنقذوہ منہ ط ضعف الطالب والمطلوب
خدا کو چھوڑکر جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے چاہے وہ سب مل کر اس کی کوشش کریں بلکہ اگر مکھی کوئی چیز ان سے چھین کر لے جائے تو وہ اس سے واپس لینے کی قدرت نہیں رکھتے ۔ طلب کرنے والا اور جس سے طلب کی جارہی ہے دونوں کمزور ہیں ۔
آپ نے دیکھا کہ یہاں مکھی یا اس جیسی کسی چیز کی مثال سے بہتر کسی چیز کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی جو ان کی کمزوری اور ناتوانی کی تصویر کشی کرے۔
سور ہ عنکبوت میں جب اس نے چاہا کہ بت پرستوں کے سہاروں کی کمزوری کی تصویر کشی کرے تو انہیں مکڑی سے تشبیہ دی جس نے اپنے لئے کمزور سے گھر کا انتخاب کیا ہے کیونکہ دنیا میں کمزور ترین گھر عنکبوت ہی کا ہے :
مثل الذ ی ا تخذومن دون اللہ اولیاء کمثل العنکبوت صلے اتخذت بیتا وان اوھن البیوت لبیت العنکبوت لو کانوا یعلمون (عنکبوت ۴۱ )
یہ بات مسلم ہے کہ اگر ان مواقع پر ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کی مثال کے بجائے عالم خلقت کی بڑی سے بڑی چیزوں مثلاََ ستاروں اور وسیع آسمانوں کی مثال پیش کی جائے تو بہت ہی نامناسب ہوگا اور اصول فصاحت وبلاغت کے بل کل مطابق نہ ہوگا۔
یہی وہ مقام ہے جہاں خداوند عالم فرماتا ہے کہ ہمیں انکار نہیں کہ ہم مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز کی مثال دیں تاکہ حقائق عقلی کو حسی مثالوں کے لباس میں پیش کیا جاسکے اور پھر انہیں بندوں کے اختیار میں دیں ۔
خلاصہ یہ کہ غرض تو مقصد پہنچانا ہے مثالیں ایسی قبا کی مانند ہونا چاہئے جو قامت مطالب پر فٹ آسکیں ۔
” فما فوقہا “ کا مقصود کیا ہے اس کی مفسرین نے دو قسم کی تفسیریں کی ہیں :
ایک گروہ کے مطابق اس سے مراد ”چھوٹے ہونے میں بڑھ کر “ ہے کیونکہ مثال چھوٹے ہونے کا بیان کررہی ہے لہذا اس سے بڑھ کر یا اس سے اوپر ہونا بھی اسی نظر سے ہے ۔یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ہم کسی سے کہیں کہ ایک روپیہ کے لئے کیوں اتنی زحمت اٹھا رہے ہو تمہیں شرم نہیں آتی اور وہ جواب دے کہ میں تو اس سے اوپر کے لئے بھی تکلیف اٹھاتا ہوںیہاں تک کہ ایک آنے کے لئے بھی ۔
بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد اوپر سے بڑے ہونے کے لحاظ سے ہے “یعنی خدا وند عالم چھوٹی چیزوں کی مثالیں بھی دیتا ہے اور بڑی کی بھی ،مقتضائے حا ل کے مطابق
پہلی تفسیر زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے ۔
اس گفتگو کے بعد فرماتا ہے :رہے وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ بات ان کے پروردگار کی طرف سے حق ہے(فاما الذین آمنوا فیعلمون انہ الحق من ربھم) وہ ایمان اور تقوی کی روشنی میں تعصب ، عناد اور حق سے کینہ پروری سے دور ہیں اور وہ حق کے چہرے کو پوری طور سے دیکھ سکتے ہیں اور خدا کی دی ہوئی مثالوں کی منطق کا ادراک کرسکتے ہیں ۔
لیکن جو لوگ کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا کا اس مثال سے کیا مقصد تھا جو تفرقہ اور اختلاف کا سبب بن گئی ایک گروہ کی اس وجہ سے ہدایت کی ہے اور دوسرے کے گمراہ کیا ہے ( و اما الذین کفروا فیقولون ماذا اراد اللہ بھٰذا مثلا یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا ) ان کے نزدیک یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مثالیں خدا کی طرف سے نہیں ہیں کیونکہ خدا کی طرف سے ہوتیں تو سب لوگ اسے قبول کرلیتے ۔
مگر خدا انہیں ایک مختصر اور دو ٹو ک جواب دیتا کہ وہ اس کے ذریعہ صرف فاسقوں اور گنہگاروں کو جو حق کے دشمن ہیں گمراہ کرتا ہے ( وما یضل بہ الاالفاسقین)
اس بناء پر یہ ساری گفتگوخدا کی ہے اور نور وہدایت ہے البتہ چشم بینا کی ضرورت ہے جو استفتاء کرے اب اگر یہ دلوں کے اندھے مخالفت اور ڈھٹائی پر اتر آئے ہیں تو اس میں ان کا اپنا ہی نقصان اور خسارہ ہے ورنہ ان آیات الہی میں کوئی نقص نہیں [71]
( ۱ )حقائق کے بیان کرنے میں مثال کی اہمیت:حقائق واضح کرنے اور مطالب کو دل نشیں بنانے کےلئے مختلف مثالیں پیش کی جاتی ہیں اور ان کی اثر آفرینی ناقابل انکار ہے۔
بعض اوقات ایک مثال کا تذکرہ راستے کو اتنا کم کردیتا ہے کہ زیادہ فلسفیانہ استدلال کی زحمت وتکلیف سے کہنے اور سننے والے دونوں کو نجات مل جاتی ہے۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پیچیدہ علمی مطالب کو عمومی سطح تک عام اور وسیع کرنے کے لئے مناسب مثالوں سے استفادہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں ہے ۔
ڈھٹائی پسند اور حیلہ ساز لوگوں کو خاموش کرنے کے لئے مثال کی تاثیر کا انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ۔
بہرحال معقول کو محسوس سے تشبیہ دینا مسائل علمی عقلی کو سمجھانے کے لئے ایک مو ثر طریقہ ہے ( البتہ جیسا کہ ہم کہ چکے ہیں مثال مناسب ہونی چا ہیے ورنہ گمراہ کن ،اتنی ہی خطرناک اور مقصد سے دور کرنے والی ہوگی ) اسی بنا ء پر قرآن میں ہمیں بہت سی مثالیں ملتی ہیں جن میں سے ہر ایک بہت پر کشش ، بہت میٹھی اور ہت تاثیر ہے کیونکہ تمام انسانوں ، ہر سطح کے افراد اور فکر ومعلومات کے لحاظ سے ہر درجہ کے لوگوں کے لئے یہ کتاب انتہائی فصیح و بلیغ ہے۔ [72]
( ۲ )مچھر کی مثال کیوں :بہانہ سازوں نے اگر چہ مچھر اور مکھی کے چھوٹے پن کو آیات قرآن سے استہزا اور اعتراضات کا ذریعہ بنا لیا ہے لیکن اگر ان میں انصاف ،ادراک اور شعور ہوتااور اس چھوٹے سے جانور کی ساخت اور بناوٹ پر غور وفکر کرتے تو سمجھ لیتے کہ اس کے بنانے میں باریک بینی اور عمدگی کی ایک دنیا صرف ہوئی ہے کہ جس سے عقل حیران رہ جاتی ہے ۔امام جعفر صادق اس چھوٹے سے حیوان کی خلقت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :
خداوند عالم نے مچھر کی مثال دی ہے حالانکہ وہ جسامت کے لحاظ سے بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے جسم میں وہ تمام آلات اور اعضاء وجوارح ہیں جو خشکی کے سب سے بڑے جانور کے جسم میں ہیں ۔ یعنی ہاتھی اور اس کے علاوہ بھی اس کے دو عضو( سینگ اور پر ) ہیں جو ہاتھی کے پاس نہیں ہیں ۔ خدا وند عالم یہ چاہتا ہے کہ مومنین کو اس مثال سے خلقت و آفرینش کی خوبی اور عمدگی بیان کرے ، یہ ظاہر ََا ِِا کمزور سا جانور جسے خدا نے ہاتھی کی طرح پیدا کیا ہے اس میں غور وفکر انسان کو پیدا کرنے والے کی عظمت کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔
خصوصا اس کی سونڈجو ہاتھی کی سونڈ کی طرح ہے اندر سے خالی ہے اور وہ مخصوص قوت سے خون کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔اس کی یہ ٹونٹی دنیا کی عمدہ ترین سرنگ ہے اور اس کے اندرونی سوراخ بہت باریک ہے ۔
خدا نے مچھر کو قوت جذب ودفع اور ہاضمے کی قوت دی ہے ۔ اسی طرح اسے مناسب طور پر ہاتھ، پاؤں اور کان دیئے ہیں ،اسے پر دیئے ہیں تاکہ غذا کی تلاش کرسکے اور پر اس تیزی سے اوپر نیچے حرکت کرتے ہیں کہ آنکھ سے ان کی یہ حرکت دیکھی نہیں جاسکتی ۔ یہ جانور اتنا حساس ہے کہ صرف کسی چیز کے اٹھنے سے خطرہ محسوس کرلیتا ہے اور بڑی تیزی سے اپنے آپ کو خطرے کی جگہ سے دور لے جاتا ہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ انتہائی کمزور ہونے کے باوجود بڑے سے بڑے جانور کو عاجز کردیتا ہے ۔
حضرت امیر المومنین علی کا اس سلسلہ میں ایک عجیب وغریب خطبہ نہج البلاغہ میں ہے۔آپ نے فرمایا :
اگر دنیا جہاں کے سب زندہ موجودات جمع ہوجائیں اور باہم مل کے کوشش کریں کہ ایک مچھر بنالیں تو وہ ہرگز ایسا نہیں کرسکتے بلکہ اس جاندار کی خلقت کے اسرار پر ان کی عقلیں دنگ ر ہ جا ئیں گی۔ ان کے قویٰ عاجز آجائیں گے اور وہ تھک کر انجام کو پہنچ جائیں گے ۔ تلاش بسیار کے بعد با لا ٓخر شکست خوردہ ہوکر اعتراف کریں گے کہ وہ مچھر کی خلقت کے معاملے میں عاجز ہیں اور اپنے عجز کا اقرار کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ اسے نابود کرنے سے بھی عاجز ہے ۔ [73]
( ۳ )خداکی طرف سے ہدایت وگمراہی :
گذشتہ آیت کا ظاہری مفہوم ممکن ہے یہ شک پیدا کرے کہ ہدیت اور گمراہی میں جبر کا پہلو ہے اور اس کا دارومدار خدا کی چاہت پر ہے جب کہ اس آیت کا آخری جملہ اس حقیقت کو آشکا ر کرتا ہے کہ ہدا یت وضلالت کا سرچشمہ ا نسان کے اپنے اعمال ہیں ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ انسان کے اعمال وکردار کے ہمیشہ خاص نتا ئج وثمرات ہو تے ہیں ان میں سے اگر عمل نیک ہو تو اس کا نتیجہ روشن ضمیری ،توفیق الہی،خداکی طرف سے ہدایت اور بہترانجام کارہے ۔
سورہ انفال کی آیت ۲۹ اس بات کی گواہ ہے ۔ارشاد ہے :
یاایھاالذین امنوا ان تتقوااللہ یجعل لکم فرقاناََ
اے ایمان والو !اگر پرہیز گاری کو اپنا لو تو خدا تمہیں تمیز حق وباطل اور روشن ضمیر ی عطاکرے گا۔
اور اگر انسان برے کاموں کے پیچھے لگا رہے تو اس کے دل کی تیر گی اور بڑھ جائے گی اور وہ گناہ کی طرف اس کارجحان زیادہ ہو گا بلکہ بعض اوقات انکار خدا تک پہنچ جائے گا ۔
اس کی شاہد سورہ رو م کی آیت ۱۰ ہے جس میں فرمایا ہے :
ثم کان عاقبةالذین اساٰء والسوایٰ ان اکذب بٰایٰات اللہ وکانوا بھا یستھزؤن ہ
برے انجام دینے والے اس مقام پر جا پہنچے ہیں کہ اب آیات الہی کا مذاق اڑانے لگے ہیں ۔
ایک اور آیت میں ہے۔
فلما زاغو ازاغ اللہ قلوبھم
جب حق سے پھر گئے تو خدا نے بھی ان کے دلوں کو پھیر دیا (صف ۵۰ )
زیر بحث آیت بھی اسی مفہوم کی شاہد ہے کہ جب وہ فرماتا ہے وما یضل بہ الاالفٰسقین یعنی خدا فاسقین ہی کو گمراہ کرتا ہے ۔
اس بنا ء پراچھے یا برے راستے کا انتخاب پہلے ہی سے خود ہمارے اختیار میں ہے ا س حقیقت کو ہر شخص کا وجدان قبول کرتا ہے ۔انتخا ب کے بعد اس کے قہری نتائج کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مختصر یہ کہ قرآن کے مطابق ہدایت وضلالت اچھے یا برے راستے کے جبری اختیار کا نام نہیں بلکہ قرآن کی متعدد آیات شہادت دیتی ہیں کہ ہدایت کے معنی ہیں سعادت کے وسائل فراہم ہونا اور ضلالت کا مطلب ہے مساعد حالات کا ختم ہو جانا ،لیکن اس میں جبر کا پہلونہیں ہے اور یہ اسباب کا فراہم کرنا ( جس کا نام ہمارے نزدیک توفیق ہے ) یا اسباب ختم کردینا (جسے ہم سلب توفیق کہتے ہیں ) انسان کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے ۔
اس حقیقت کو ہم ایک سادہ سی مثال سے پیش کر سکتے ہےں ۔ جب انسان کسی گرنے کی جگہ یا کسی خطرناک بڑی نہر سے گذرتا ہے تو وہ جتنا اپنے آپ کو نہر سے قریب تر کرتا ہے اس کے پاؤں کی جگہ زیادہ پھسلنے والی ہوتی ہے ایسے میں گرنے کا احتما ل زیادہ اور نجات پانے کا کم ہو جاتا ہے اور انسان جتنا اپنے آپ کو اس سے دور رکھے گا اس کے پاؤں رکھنے کی جگہ زیادہ محکم اور اطمینان بخش ہوگی اور گرنے کا احتمال کم ہوگا ، ان میں سے ایک کا نام ہدایت اور دوسرے کا ضلالت ہے ۔ اس گفتگو سے ان لوگوں کی بات کا جواب پورے طور پر واضح ہو جائے گا جو آیات ہدایت و ضلالت پر اعتراض کرتے ہیں ۔
( ۴ )فاسقین:فاسقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو عبودیت وبندگی کے دستور سے پاؤں باہر نکالیں کیونکہ اصل لغت میں فسق گٹھلی کے کھجور سے باہر نکلنے کو کہتے ہیں ۔اس کے معنی کو وسعت دے کر ان لوگوں کے لئے یہ لفظ بولا گیا ہے جو خدا کی بندگی کی شاہراہ سے الگ ہوجاتے ہو جائیں ۔
۲۷۔ الذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ ص و یقطعو ن ما امر اللہ بہٰ ان یو صل و یفسدون فی الارض ط اولٰئک ھم الخٰسرون
۲۷۔ فاسق وہ ہیں جو خدا سے محکم عہد وپیمان کرنے کے بعد اسے توڑ دیتے ہیں وہ تعلق جنہیں خدا نے برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں توڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ۔ یہی لوگ خسارے میں ہیں ۔
گذشتہ آیت کے آخر میں چونکہ فاسقین کے گمراہ ہونے سے متعلق گفتگو تھی لہذا اس آیت مین ان کی تین صفات بیان کرکے انہیں مکمل طور پر مشخص کردیا گیا ہے ۔ ذیل میں ان علامات وصفات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے ۔
( ۱ )فاسق وہ ہیں جوخدا سے محکم عہد وپیمان باند ھ کر توڑ دیتے ہیں( الذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ ا نسانوں نے خدا سے مختلف پیمان باند ھ رکھے ہےں ۔ توحید و خدا شناسی کا پیغام اور شیطان اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے کا پیمان ۔فاسق ان تمام پیمانوں کو توڑ دیتا ہے وہ فرمان حق سے سرتابی کرتا ہے اور شیطان اور خواہشات نفسانی کی پیروی کرتا ہے۔
یہ پیمان کہاں اور کس طرح باندھا گیا تھا :یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ پیمان تو دو طرفہ معاملہ ہے ہمیں بل کل یاد نہیں کہ ہم نے گذشتہ زمانے میں اس سلسلہ میں اپنے پروردگارسے کوئی عہد وپیمان کیا ہو۔
ایک نکتہ کی طرف متوجہ ہونے سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ روح کی گہرائی اور سرشت انسا ن کے باطن میں ایک مخصوس شعور اور کچھ خاص قسم کی قوتیں پا ئی جاتیں ہیں جنکی ہدایت کے ذریعہ انسان سیدھی راہ اختیار کرسکتا ہے اور اسی ذریعہ سے وہ خواہش نفس کی پیروی سے بچتے ہوئے رہبران الہی کی دعوت کا مثبت جواب دے سکتا ہے اور خود کو اس دعوت سے ہم آہنگ کرسکتا ہے ۔
قرآن اس مخصوص فطرت کو عہد وپیمان الہی قرار دیتا ہے حقیقت میں یہ ایک تکوینی پیغام ہے نہ کہ تشریعی و قانونی ۔ قرآن کہتا ہے :الم عھد الیکم یا بنی آدم ان لا تعبدوا الشیطان انہ لکم عدو مبین و ان اعبدونی ھذا صراط مستقیم
اے اولاد آدم ---- ․ کیا ہم نے تم سے یہ عہد و پیمان نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا جو تمہارا واضح دشمن ہے اور میری ہی عبادت کرنا جو سیدھا راستہ ہے (یسین ، ۶۱۰۶۰ )
واضح ہے کہ یہ اسی فطرت توحید و خدا شناسی کی طرف اشارہ ہے اور انسان میں راہ تکامل طے کرنے کا جو عشق ہے اس کی نشاندہی ہے ۔
اس بات کے لئے دوسرا شاہد وہ جملہ ہے جو نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں موجود ہے :
وبعث فیھم رسلہ وواتر الیہ ا نبیائہ یستادوہ میثاق فطرتہ :
خدا وند عالم نے یکے بعد دیگرے لوگوں کی طر ف ا پنے رسول بھیجے تاکہ ان سے یہ خواہش کریں کہ وہ اپنے فطری پیمان پر عمل کریں ۔
مزید واضح الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ خدا نے انسان کو ہر نعمت وافر دی ہے اور اس کے ساتھ عملی طور پر اس سے زبان آفرینش میں عہد وپیمان لیا ہے ۔ اسے آنکھ دی ہے تاکہ اس سے حقائق کو دیکھ سکیں کان دیا تاکہ حق کی آواز سن سکے اور اسی طرح دیگر نعمات ہیں ۔
جب انسان اپنی فطرت کے مطابق عمل پیرا نہ ہو یا خدا داد قوتوں کا غلط استعمال کرے تو گویا اس نے عہد وپیمان خدا کو توڑ دیا ۔فاسق تمام کے تمام یا ان میں سے بعض فطری پیمانوں کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں ۔
( ۲ )اس کے بعد قرآن فاسقین کی دوسری علامت کی نشاندہی یوں فرماتا ہے : جو تعلق خدا سے قائم رکھنے کو کہا ہے وہ انہیں منقطع کردیتے ہیں ( ویقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل )۔ ․
بہت سے مفسرین نے اگرچہ اس آیت کو قطع رحمی اور عزیزداری کے رشتے کو منقطع کرنے سے مخصو ص سمجھا ہے لیکن مفہوم آیت پر گہرا غور نشاندہی کرتا ہے کہ اس کے معنی زیادہ وسعت اور زیادہ عمومیت رکھتے ہےں جس کی بنا پر قطع رحم اس کا ایک مصداق ہے کیونکہ آیت کہتی ہے کہ فاسقین ان رشتوں اور تعلقات کو منقطع کردیتے ہیں جنہیں خدا نے برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے اب یہ پیوند ، رشتہ داری کے ناتے اور دوستی کے ناتے ، معاشرے کے ناتے ، خدائی رہبروں سے ربط و پیوند اور خدا سے رابطہ سب پر محیط ہیں لہذا آیت کو قطع رحمی اور رشتہ داری کے رابطوں کو روند نے کے معنی میں منحصر نہیں کرنا چاہیئے۔
یہی وجہ ہے کہ مفسرین کے نزدیک اس آیت سے مراد انبیاء وموٴمنین سے رابطہ منقطع کرنا ہے،بعض کے نزدیک اس کامفہو م انبیا ء اور اآسمانی کتابوں سے رابطہ قطع کر نا ہے کیونکہ خدانے ان سے رابطہ استوار رکھنے کا حکم دیا ہے واضح ہے کہ یہ تفسیریں بھی آیت کے مفہوم کا جز ہیں
بعض روایت میں”ماامراللہ بہ ان یوصل “کی تفسیر امیرالموٴمنین اور اہلبیت سے مربوط کی گئی ہے ۔ [74]
( ۳ )فاسقین کی ایک اورعلامت زمین میں فساد پیدا کرنا ہے جس کی آخری مرحلے میں نشان دہی کی گئی ہے ۔وہ زمین میں فساد پیدا کر تے ہیں (ویفسدون فی الارض)۔
یہ واضح ہے کہ جنہوں نے خداکو بھلادیا ہے ،اس کی اطاعت سے رخ موڑلیا ہے اور اپنے رشتہ داروں سے رحم اور شفقت کا برتاوٴ نہیں کرتے وہ دوسروں سے کیسا معاملہ کریں گے۔وہ اپنے مقصد براری ،اپنی لذتوں اورذاتی فائدوں کی فکرمیں رہیں گے ۔معاشرے کی حالت کچھ بھی ہو انہیں کوئی فرق ن نہیں پڑتا ان کا ہدف تو یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اور اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی جائے ۔اس ہدف وغرض تک پہونچنے کے لئے وہ کسی بھی غلطی کی پرواہ نہیں کرتے ۔ واضح ہے کہ اس طرز فکروعمل سے معاشرے میں کیسے کیسے فسادات پیدا ہوتے ہیں ہیں ۔
زیرے بحث آیت کے آخر میں ہے کہ یہی لوگ زیاں کار اور خسارہ اٹھانے والے ہیں (اولئک ھم ا لخاسرون)۔واقعاََایسا ہی ہے ۔اس سے تدبیر کیا خسارہ ہو گاکہ وہ تمام مادی اور روحانی سرمایہ جس سے انسان بڑے بڑے اعزاز اور سعادتیںحاصل کرسکتا ہے ۔اسے اپنی فناونابودی ،بدبختی اورسیاہ کاری کی راہ میںخرچ کر دے اور جو لوگ مفہوم فسق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اطاعت کے مرکز سے خارج ہوگئے ہیں ان کی قسمت میں اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے ۔
( ۱ )اسلام میں صلہ رحمی کی اہمیت :گذ شتہ آیت اگرچہ تمام خدائی ناتوں کے احترام کے متعلق گفتگو کرتی ہے لیکن بلا شک وتردد رشتہ داری کاناتا اور تعلق اس کا واضح اور روشن مصداق ہے ۔
اسلام صلہ ٴرحمی ، عزیزوں کی مددو حمایت اور ان سے محبت کر نے کی بہت زیادہ احمیت کا قا ئل ہے او ر قطع رحمی اور رشتہ داروں اور عزیزوں سے رابطہ منقطع کر نے کو سختی سے منع کر تا ہے ۔
صلہ ٴ رحمی کی اتنی اہمیت ہے کہ رسول اکرم فرماتے ہیں۔
صلةالرحم تعمرالدیار وتزیدفی الاعماروان کان اھلھاغیراخیار
رشتہ داروں سے صلہ رحمی شہروں کی آبادی کاباعث ہے اور زندگیاں اس سے بڑھتی ہیں اگر چہ صلہ رحمی کرنے والے لوگ اچھے نہ ہوں۔ [75]
امام صادق کے ارشاد میںسے ہے ؛
صل رحمک ولوبشربةمن ماء وافضل مایوصل بہ الرحم کف الاذی عنھا
رشتہ داری کی گرہ اور نا تے کو مضبوط کرو چاہے پانی کے ایک گھونٹ سے ہوسکے اور ان کی خدمت کابہترین طریقہ یہ ہے کہ (کم ازکم )تم سے انہیںکوئی تکلیف واذیت نہ پہنچے۔ [76]
قطع رحمی کی قباحت اور گناہ اس قدر ہے کہ امام سجاد نے اپنے فرزندکو نصیحت کی کہ وہ پانچ گروہوں کی صحبت سے پرہیز کریں اور ان پانچ گروہوں میںسے ایک قطع رحمی کرنے والے ہیں :
وایاک ومصاحبةالقاطع لرحمہ فانی وجدتہ ملعونافی کتابااللہ
قطع رحمی کر نے والے کی معاشرے سے پر ہیزکرو کیونکہ قرآن نے ا سے ملعون اور خدا کی رحمت سے دور قرار دیا ہے [77]
سورہ محمدآیہ ۲۲،۲۳ میں ارشاد ہے :
فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوافی الارض وتقطعواارحامکم اولئک الذین لعنھم اللہ۔
پس اسکے سوا تم سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ اگر اقتدار تمہا ر ے ہاتھ آجائے تو زمین میں فساد برپا کردو اور قطع رحمی کرو ۔ایسے ہی لوگ خداکی لعنت کے سزاوار ہیں۔
خلاصہ یہ کہ قر آن میں قطع رحمی کرنے والو ں اور رشتے داری کے پیوندکوتوڑنے والوں کے لئے سخت احکامات ہیں اور احادیث اسلامی بھی ان کی شدید مزمت کر تی ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ خدا کی بارگاہ میںسب سے زیادہ مغضو ب کون ساعمل ہے تو آپ نے جواب میں فرمایا خداسے شرک کرناپوچھا ا س کے بعد کون سا عمل زیادہ باعث غضب الہی ہے تو فرمایا:قطع رحمی۔ [78]
(اسلام نے جو رشتہ داری کی اس قدر حفاظت ونگہداری کی تاکید کی ہے اس کی وجہ یہ ہے ایک عظیم معاشر ے کا استحکام ترقی ، تکامل اور اسے عظیم تر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ کام چھوٹی اکائیوں سے شروع کیا جائے یہ عظمت اقتصادی اور فوجی لحاظ سے درکار ہویا روحانی و اخلاق لحاظ سے ،جب چھوٹی سے چھوٹی اکائیوں میں پیش رفت اور --- ․․․ خود بخود اصلاح پزیر ہو جا ئیگا۔
اسلام نے مسلمانو ں کی عظمت کے لئے اس روش سے پورے طور پر فائدہ اٹھایا ہے ۔اس نے اکائیو ں کی اصلاح کاحکم دیا ہے اور عموماََ لوگ ان کی مدد ،اعانت اور انہیں عظمت بخشنے سے روگردانی نہیںکرتے کیونکہ ایسے افراد کی بنیادوں کو تقویت پہنچانے کی نصیحت کرتا ہے جن کا خون ان کے رگ وریشہ میں گردش کررہا ہے اور جو ایک خاندان کے ارکان ہیں۔واضح ہے کہ جب رشتہ داری کے چھوٹے گروپ کامیابی سے ہمکنار ہوئے تو بڑا گروپ بھی عظمت حاصل کر ے گا اور ہر لحاظ سے قوی ہو گا ،وہ حدیث جس میں ہے کہ ”صلہ رحمی شہروں کی آباد ی کا باعث ہے “غالباََ اسی طرف اشارہ کرتی ہے
( ۲ )جوڑنے کے بجائے توڑنا :یہ قابل غور ہے کہ آیت کی تعبیر میں اس طرح ہے کہ خدانے جس چیز کو جوڑ نے کا حکم دیا ہے فاسق اسے توڑتے ہیں ۔یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا قطع کرنا وصل سے پہلے ممکن ہے ؟جواب میں ہم کہتے ہیں کہ وصل سے مقصد ان رو ا بط کو جاری رکھناہے جو خد ا وند عالم نے اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان یا بندوں میں سے ایک دوسرے کے درمیان طبعی طور پرا ور فطری طور پر قائم کئے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں خدا نے حکم دیا ہے کہ ان فطری اور طبعی رابطوں کی محافظت وپاسداری کی جائے لیکن گنہ گار انہیں قطع کردیتے ہیں(اس پر خصوصی غور کیجئے)
۲۸۔ کیف تکفرون باللہ وکنتم اموتاََ فاحیاکم ج ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون
۲۹۔ ھوالذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاََ ق چم استویٰ الی السماء فسوھن سبع سموت ط وھو بکل شیءِِ علیم
۲۸ ۔ تم خداسے کیونکر کفر کرتے ہو حالانکہ تم بے روح جسم تھے اس نے تمہیں زندگی دی پھر وہ تمہیں مارے گا اور دوبارہ تمہیں زندہ کرے گا اس کے بعد اسی کی طرف لوٹ جاوٴگے (اس بناء پر نہ تمہاری زندگی تمہاری طرف سے ہے اور نہ موت جوکچھ تمہارے پاس ہے خداہی کی طرف سے ہے)
۲۹۔ وہ خدا جس نے زمین کی تمام نعمتوں کو تمہارے لئے پیدا کیا ہے ۔پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں سات آسمانو ں کی صورت میں مرتب کیا اور وہ ہر چیز سے آ گا ہے ۔
مندر جہ بالا دو آیا ت میں قر آن نے نعمات الہی کے ایک سلسلے اورتعجب انگیز ․ خلقت کا ذکر کے انسان کوپروردگار اور اس کی عظمت کی طرف متوجہ کر دیا ہے اور خدا شناسی کے سلسلے میں جو دلائل گذشتہ آیات ( ۲۱ و ۲۲) میں بیان کئے گئے ہیں ان کی تکمیل کر رہاہے ۔
قرآن یہاں وجودخداکے اثبات کو ایسے نکتے سے شروع کر رہا ہے جس کاکو ئی انکار نہیں کرسکتااور وہ ہے زندگی کا پر اسرار مسٴلہ ۔
پہلے کہتا ہے تم خداکا کس طرح انکار کرتے ہو حالا نکہ تم بے روح جسم تھے اس نے تمہیںزندہ کیا اور تمہارے بد ن پر زندگی کا لباس پہنایا(کیف تکفرون بااللہ وکنتم امواتاََفاحیاکم)۔
قرآن ہم سب کو یاددہانی کرواتا ہے کہ -اس سے پہلے تم پتھروں،لکڑیوں اور بے جا ن موجودات کی طرح مردہ تھے اور نسیم زندگی کاتمہارے کو چے سے گذر نہ تھا لیکن اب تم نعمت حیات وہستی کے مالک ہو ۔تمہیں اعضاء حواس اور ادراک کے کارخا نہ عطا کئے گئے ہیں۔ یہ وجود حیات تمہیںکس نے عطا کیاہے کیا یہ سب کچھ خود تم نے اپنے آپ کو دیا ہے ۔واضح ہے کہ ہر مصنف مزاج انسان بغیر کسی ترددکے اعتراف کر تا ہے کہ یہ نعمت خود اس کی اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ ایک مبداء اعالم وقادر کی طرف سے اسے ملی ہے جو زندگی کے تمام رموزاور پیچیدہ قوانین سے واقف تھا ، انہیںمنظم کرنے کی قدرت رکھتا تھا یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوںحیات وہستی بخشنے والے خداکاانکاکرتے ہیں۔
آج کے زمانے میںتمام علماء ومحققین پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے پاس اس دنیا میں حیات وہستی سے زیادہ پیچیدہ کو ئی مسٴلہ نہیں ہے کیونکہ تمام تر عجیب وغریب ترقی کے باوجودجو طبعی علوم فنون کے سلسلے میں انسان کو نصیب ہوئی ہے ابھی تک حیات کا معمہ حل نہیں ہوسکا۔یہ مسٴلہ اس قدر اسرار آمیز ہے کہ لاکھو ں علماء افکار اور کوششیں اب تک اس مسٴلے کے ادراک سے عاجز ہوچکی ہیں ۔ہوسکتا ہے کہ انتھک کوششوں کے سائے میں آئندہ تدریجاََانسان رموز حیات سے آگاہ ہوسکے۔
لیکن مسٴلہ یہ ہے کہ کیاکوئی شخص اس معاملے کو جو بہت گہرے غوروفکر کا نتیجہ ہے ،اسرارانگیز ہے اور بہت زیادہ علم وقدرت کا محتاج ہے بے شعور طبیعت کی طرف نسبت دے سکتا ہے ،وہ طبیعت جو خود حیات وزندگی سے عاری ہے ۔
یہ وہ مقام ہے جہاں ہم کہتے ہیں کہ اس جہان طبیعت میں حیات وزندگی کا ظہو ر وجو دخدا کے اثبات کی سب سے بڑی سند ہے اور اس مو ضوع پربہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔
قرآن اوپر والی آیت میں خصوصیت کے ساتھ اسی مسٴلے کاسہارا لیتا ہے ہم سر دست اسی مختصر اشارے سے گذرجاتے ہیں ۔قرآن اس نعمت کی یاد دہانی کے بعد ایک واضح دلیل پیش کرتا ہے اور وہ ہے مسٴلہٴ موت ،قرآن کہتا ہے :پھر خدا تمہیں مارے گا(ثم یحییکم )
ا نسان دیکھتاہے کہ اس کے اعزاء واقربااور دوست و احباب یکے بعد دیگرے مرتے رہتے ہیں اور ان کا بے جان جسم مٹی کے نیچے دفن ہوجاتا ہے ۔یہ مقام بھی غوروفکر کا ہے کہ آخر کس نے ان سے وجود کو چھین لیا ہے اگر ان کی زندگی اپنی طرف سے تھی توہمیشہ رہتی یہ جو لے لی گئی ہے اس کی دلیل ہے کہ کسی دوسرے نے انہیںد ی تھی ۔
زندگی پیدا کرنے والا وہی موت پیدا کرنے والا ہے چنانچہ سورہ ملک کی آیت ۲ میں ہے : الذین خلق الموت والحیٰوة لیبکوکم احسن عملاََ
خداوہ ہے جس نے موت وحیات کو پیدا کیاتاکہ تمہیںحسن عمل کے میدان میں آزمائے
قرآن نے وجود خدا پر ان دو و اضح دلیلوں کو پیش کیا ہے دوسرے مسائل کے لئے روح انسانی کو آمادہ کیا ہے اور بحث سے مسٴلہ معاداور موت کے بعد زندگی کو بیان کیا ہے ۔پھر کہتا ہے :اس کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا (ثم یحییکم )۔البتہ موت کے بعد یہ زندگی کسی طرح تعجب خیز نہیں کیونکہ پہلے بھی انسان اسی طرح تھا پہلی دلیل (یعنی بے جان کو زندگی عطا کرنا)کی طرف متوجہ ہونے کے بعد دوسری مرتبہ اجزاء بدن کے منتشر ہونے کے بعد زندگی ملنے کے مسٴلے کو قبو ل کر نامشکل نہیں بلکہ پہلی دفعہ کی نسبت آسان ہے اگر چہ جس ذات کی قدرت لامتناہی ہو اس کے لئے تسہیل ومشکل کو ئی مفہوم نہیں رکھتا)۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں انسانوں کی زندگی میں شک اور تردد تھا حالانکہ پہلی زندگی جو بے جان مو جو دات سے صورت پذیر ہو ئی ہے اسے جانتے ہیں ۔
یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن آغاز سے اختتام تک دفتر حیات کو انسان کے سامنے کھولتاہے اورایک مختصرسے بیان میں زندگی کی ابتداء وانتہا ا ورمسٴلہ معاد وقیامت کی اس کے سامنے تصویر کشی کرتا ہے ۔
اس آیت کے آخر میں کہتاہے :پھر اس کی طرف تمہاری باز گشت ہوگی (ثم الیہ ترجعون )۔خداکی طرف رجوع کرنے کے معنی وہی خدا کی نعمتو ںکی طرف رجوع کرناہیں یعنی قیامت اور دوبارہ قبروں سے اٹھنے والے دن کی نعمتوں کی طرف رجوع کروگے ۔اسکی شاہد سورہ انعام کی آیت ۳۶ ہے جہاں فرماتاہے ۔
والموتی یبعثھم اللہ ثم الیہ یرجعون
خدامردو ں کو قبروں سے اٹھائے گا اوراسی کی طرف ان کی بازگشت ہوگی ۔
ممکن ہے خداکی طرف رجوع کرنے سے مقصود کو ئی ایسی حقیقت ہو جو اس سے زیادہ دقیق وباریک ہواور وہ یہ کہ تما م مو جودات نے اپنا سفر نقطہٴ عدم جو نقطہٴ صفر ہے سے شروع کیاہے اور تمام موجودات سیرتکامل میں ہیں اور لامتناہی کیطر ف بڑھ رہے ہیں جوذات پروردگار ہے لہذا مرنے سے سیر تکامل کا سلسلہ معطل نہیں ہوتا اوردوسری مرتبہ قیامت میں زندگی کی زیادہ بلند سطح کی طرف یہ تکامل جاری وساری رہے گی۔
نعمت حیات اور مسئلہ مبداء و معاد کے ذکر کے بعد خدا ایک وسیع نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :خدا وہ ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے تمہارے لئے پیدا کیا ہے (ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ) اس تربیت سے انسانوں کی وجودی قدروقیمت اور زمین کے تمام موجودارت پر ان کی سرداری کو مشخص کیا گیا ہے۔اسی سے ہم سمجھتے ہیں کہ خدا نے انسان کو بہت بڑے قیمتی اور عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا ہے ۔ تمام چیزوں کو تو اس کے لئے پیدا کیا ہے ۔اب اسے کس لئے پیدا کیا ہے۔انسان اس صحن عالم میں عالی ترین وجود ہے اور صحن عالم میں سب سے زیادہ قدر وقیمت رکھتا ہے۔
صرف یہی آیت نہیں جس مین انسان بلند ترین مقام کے بیان کیا گیا ہے بلکہ قرآن میں بہت سی ایسی آیات ملتی ہیں جو انسان کا تعارف تمامتر مو جودات کا مقصود ہ اصلی کی حیثیت سے کراتی ہیں جیسا کہ سورہ جاثیہ کی آیہ ۱۳ میں آیا ہے :
وسخرلکم ما فی السمٰوات وما فی الارض
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو تمہارے لئے مسخر قرار دیا ہے۔
دوسری جگہ اس سے زیادہ تفصیل بیان ہوئی ہے :
وسخرلکم الفلک و سخر لکم الانھار ( ۱) وسخر لکم اللیل والنھار ( ۲) وسخر البحر ( ۳) و سخر الشمس والقمر ( ۴ )
کشتیوں کو تمہارے لئے مسخر کیا گیا اور دریاؤں کو تمہارے لئے مسخر کیا ․․ دن اور رات کو تمہارے لئے مسخر کیا اور سمندروں کو مسخر کیا اور آفتاب و ماہتاب کو بھی تمہارا فرماں بردار اور خدمت گذار قرار دیا ۔( ۵ )
دوبارہ توحید کے دلائل کی طرف لوٹتے ہوئے کہتا ہے :پھر خدا وند عالم آسمانوںن کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں سات آسمانون کی صورت میں مرتب کیا اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے (ثم استوی الی السماء فسواھن سبع سمٰوٰت و ھو بکل شیء علیم)۔
لفظ” استوی “مادہ “استواء“سے لیا گیا ہے لغت میں اس کے معنی ہیں احاطہٴ کامل ، تسلط اور خلقت وتدبیر پر مکمل قدرت۔لفظ”ثم“جملہ ” ثم استوی الی السماء “ میں ضروری نہیں کہ تاخیر زمانی کے معنی میں ہو بلکہ ہوسکتا ہے اس کے معنی تاخیر بیان اور حقائق کو ایک دوسرئے کے بعد لانا ہو ۔
اس سلسلہ میں زیادہ تر بحث اسی تفسیر میں سورہ رعد آیہ ۲ اور سورہ ابراہیم آیات ۳۲ اور ۳۳ ،میں کی گئی ہے ۔
اوپر والی آیت ان میں سے ہے جو عقیدہ تناسخ کی صریحا نفی کرتی ہیں کیونکہ تناسخ کا عقیدہ رکھنے والوں کا خیال ہے کہ انسان مرنے کے بعد دوسری دفعہ اسی زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے البتہ ہوتا یہ ہے کہ اس کی روح دوسرے جسم اور دوسرے نطفے میں حلول کرکے نئے سرے سے اسی دنیا میں زندگی کا آگاز کرتی ہے اور ممکن ہے اسی سلسلہ کا بارہا تکرار ہو ۔اس جہان میں اس مکرر زندگی کو تناسخ یا عود ارواح کہتے ہیں ۔ مندرجہ بالا آیت صراحت سے بیان کرتی ہے کہ موت کے بعد ایک سے زیادہ زندگی نہیں ہے معلوم ہے کہ یہ حیات وہی معاد و قیامت کی حیات ہے ۔بہ الفاظ دیگر آیت کہتی ہے کہ مجموعی طور پر تمہاری دو زندگیاں اور دو اموات تھیں اور ہیں پہلے مردہ تھے ( بے جان عالم موجودات میں تھے ) خدا وندے عالم نے تمہیں زندہ کیا پھر وہ مارے گا اور دو بارہ زندہ کرے گا ۔ اگر تناسخ صحیح ہوتا تو انسان کی حیات اور موت کی تعداد دودو سے زیادہ ہوتی ۔
یہی مضمون قرآن کی اور متعدد آیات میں بھی نظر آتا ہے جن کی طرف اپنی اپنی جگہ اشارہ ہوگا۔ [79]
اس بنا ء پر تناسخ کا عقیدہ جسے عود ارواح بھی کہا جاتا ہے قرآن کی نظر میں باطل اور بے اساس ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس روشن عقلی دلیلیں بھی موجود ہیں جو اس عقیدہ کی نفی کرتی ہیں جن سے یہ ایک قسم کا دقیانوسی اور قانون تکامل کی رجعت قہقری کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے ۔ اس کے متعلق اس کی اپنی جگہ گفتگو کی گئی ہے [80]
اس نکتے کا ذکر کرنابھی ضروری ہے کہ شاید بعض لوگ مندرجہ بالاآیت کوبرزخ کی زندگی کی طرف اشارہ قرار دیں حالانکہ آیت اس پرکسی طرح دلالت نہیں کرتی صرف اتنا کہتی ہے کہ پہلے تم بے جا ن جسم تھے خداوندعالم نے تمہیں پیدا کیادوبارہ وہ تمہیں مارے گا جو اشارہ ہے اس دنیا کی زندگی کے اختتام کی طرف پھر تمہیں زندہ کرے گا (یہ حیات آخرت کی طرف اشارہ ہے ) اور اسی کی طرف تم اپنی سیر تکامل جاری رکھوگے۔
( ۲ )سات آسمان:لفظ”سما“لغت میں ”اوپر“کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور ایک جامع مفہوم جس کے مختلف مصادیق ہیں لہذاہم دیکھتے ہیں کہ یہ لفظ قرآن میں گوناگوں موقعوں پر صرف ہوا ہے
( ۱ )کبھی زمین کے پڑوس میں ”اوپر “والی جہت پر بولا جاتا ہے جیسے کہ ارشاد ہے : الم ترکیف ضرب اللہ مثلاََکلمة طیبةکشجرةطیبة اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء
کیا تو نے دیکھانہیںکہ خد اوندعالم نے پاک گفتگوکوکس طرح ایک ایسے پاکیزہ درخت سے تشبیہ دی ہے
جس کی جڑیں مضبوط وثابت ہے اور شاخیں آسمان میں ہیں ۔ ( ابراہیم ۔ ۲۴ )
(اا) کبھی لفظ”سماء “سطح زمین سے بہت دور (بادلو ںکی جگہ )کے لئے بولاجاتا ہے ۔جیسے کہ فرمایا :
ونزلنامن السمآء مآء مبرکا
ہم آسمان سے برکتوں والاپانی ناز ل کر تے ہیں (ق۔ ۹ )
(ااا) کبھی اطراف زمین کی ہوا ئے متراکم کی جلد کو آسمان کہا جاتا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے :
وجعلناالسماء سقفا محفوضا
ہم نے آسمان کو محکم ومضبوط چھت قرار دیاہے (انبیاء ۳۲ )
یہ اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ زمین کی فضا جو چھت کی طرح ہمارے سروں پر بر قرار ہے وہ اتنی مضبو ط ہے کہ کرہ ٴ ارض کو آسمانی پتھروں کے گرنے سے محفوظ رکھتی ہے ۔یہ پتھر جو مسلسل شب وروز کششِ زمین کے مرکزمیں آتے ہیں اور اس کی طرف کھچے آتے ہیں اگر ہوائے متراکم کی جلدنہ ہوتوہمیشہ ان خطرناک پتھروںکی زدمیںرہیںلیکن اس جلدکاوجود اس بات کاسبب بنتاہے کہ یہ پتھر فضائے زمین ہی میں جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں ۔
اور کبھی اوپر کے کروں کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتاہے :
ثم استوی الی السماء وھی دخان
پھروہ آسمان کی طرف متوجہ ہو اجب کہ وہ دھواں اوربخارات تھے پہلی گیس سے کرات کو پیدا کیا ۔(فصلت ،اا)(حم سجدہ)
اب ا صل بات کی طرف لوٹے ہیں کہ سات آسمانوں سے کیا مراد ہے ۔اس سلسلے میںمفسرین اور علماء اسلام کے گوناگوں بیانات اورمختلف تفاسیر ہیں۔
( ۱ )بعض سات آسمانوںسے وہی سبع سیارات (سات ستارے (یعنی عطارد،زہرہ ،مریخ ،مشتری ،زحل ،چاند اور سورج ) مراد لے تے ہیں ۔علماء ہئیت قدیم کے نزدیک چاند اور سورج بھی سیارات میںداخل تھے۔ [81]
(ب)بعض کا نظریہ ہے کہ اس سے مراد زمین کے گرد ہو ائے متراکم کے طبقات ہیں اوروہ مختلف تہیں جو ایک دوسرے کے ا و پر ہیں ۔
) ج)بعض کہتے ہیں یہاں سات کا عدد تعدادی عدد(عدد مخصوص )کے معنی میں نہیں بلکہ عدد تکثیری ہے جس کے معنیٰ ہیں زیادہ اور تعداد فراواں ،کلام عرب اور خود قرآن میںکئی جگہ اس کی نظیریں موجودہیں مثلاََ سورہ لقمان آیت ۲۷ میں ہے :
ولوان ما فی الارض من شجرةاقلام والبحر یمدہ من بعدہ سبعةابحر ما نفدت کلمت اللہ
اگر زمین کے درخت قلمیں بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائیں اور سات سمندر مزید مل جائیں تو بھی کلمات خدا کو لکھا نہیں جاسکتا ۔
بالکل واضح ہے کہ سات آیت میں سات سے مراد عدد مخصوص سات نہیں بلکہ اگر ہزار سمندر بھی سیاہی بن جائیں تو اس سے خدا کے لاماتناہی علم کو نہیں لکھا جاسکتا ۔اس بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ سات آسمانوں سے متعدد آسمان اور عالم بالاکے بہت سے کرات مراد ہیں اوراس سے کو ئی عدد مخصوص مراد نہیں ۔
(د) جو بات زیادہ صحیح دکھا ئی دیتی ہے وہ یہ کہ”سمو ات سبع “سے مرادآسمان ہی ہے جواس کے حقیقی معنی ہیں ۔مختلف آیات ِقرآن میں اس عبارت کاتکرار ظاہر کرتا ہے کہ سات کاعدد یہاں کثرت کے معنی میں نہیں بلکہ کسی خاص عدد کی طرف اشارہ ہے البتہ آیات ِ قرآن سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ تمام کرات ،ثوابت اور سیارات جو ہم دیکھ رہے ہیں پہلے آسمان کا جزء ہیں اور چھ عالم اس کے علاوہ موجود ہیں جو ہماری نگاہ اور آج کے علمی آلات کی دسترس سے باہر ہیں اور مجموعی طور پرسات آسمانوں سے سات عالم تشکیل پذیر ہیں
قرآن اس گفتگوکا شاہدہے :
وزیناالسماء الدنیابمصابیح
ہم نے نچلے آسمان کو ستاروںکے چراغوں سے سجایا۔(فصلت ، ۱۲ )
دوسری جگہ پر یوں ہے۔
انا زیناالسماء الدنیابزینة ن الکواکب
یقناََ ہم نے نچلے آسما ن کو ستاروںسے زینت بخشی(الصفت ۔ ۶ )
ان آیات سے واضح ہو تا ہے کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں ۔جسے ستاروں کی دنیا کہتے ہیں سب آسمان اول ہے اسکے علاوہ چھ آسمان اور موجود ہیں جن کی جزئیات کے متعلق ہمیں کوئی اطلاع نہیں ۔
یہ جو کچھ ہم نے کہاہے کہ چھ اور آسمان ہیں جو ہمارے لئے مجہول ہیں اور ممکن ہے کہ آئند ہ علوم ان سے پر دہ اٹھائیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے ناقص علوم جتنے آ گے بڑھتے ہیں خلقت کے نئے عجائبات تک دسترس حاصل کر تے ہیں مثلاََ علم ہیئت ابھی وہاں تک پہنچا ہے جہاں سے آگے ٹیلی سکوپ telescope) ) دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا ۔
بڑی بڑی رصد گاہو ں کے انکشافات ایک عرب نوری سال کے فاصلے تک پہنچ چکے ہیں اور سائنس دان معترف ہیں کہ یہ تو آغاز عالم ہے اختتام نہیں لہذا اس میں کیا مانع ہے کہ آئندہ علم ہیئت کی ترقی سے مزید آسمان ،کہکشاںئیں اور دوسرے عوالم کا انکشاف ہوجائے ۔بہتر ہے کہ گفتگودنیا کی بہت بڑی رصد گا ہ سے سنی جائے ۔
( ۳ )عظمت کا ئنات:پالو مار کی رصدگاہ نے جہانِ بالا کی اس طرح تو صیف کی ہے :
” جب تک پالو مار کی رصد گاہ کی دور بین نہیں بنی تھی دنیا کی وسعت جو ہمیںنظر آتی تھی پانچ سو نوری سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن اب اس دوربین نے ہماری دنیا کی وسعت ایک عرب نوری سال تک پہنچا دی ہے اس کے نتیجے میں کئی ملین نئی کہکشاؤں کا انکشاف ہوا ہے جن میں سے بعض ہم سے ایک عرب نوری سال کے فاصلہ پرواقع ہیں لیکن ایک عرب نوری سال کے فاصلہ کے بعد ایک عظیم مہیب اور تاریک فضا نظر آتی ہے جس کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی یعنی روشنی وہاں سے عبور نہیں کرسکتی کہ رصدگاہ کی دوربین کے صفحہ عکاسی کو متاثر کرے لیکن بلاشک اس مہیب و تاریک فضا میں کئی سو ملین کہکشائیں موجود ہیں لیکن ہماری دنیا ان کہکشاؤں کی کشش سے محفوظ ہے۔
یہ عظیم دنیا جو نظر آرہی ہے جس میں کئی سو ملین کہکشائیں موجود ہیں ایک عظیم تر جہان کا چھوٹا سا ذرہٴ بے مقدار ہے اور ابھی ہم یقین سے نہیں کہ سکتے کہ اس دوسری دنیا کے اوپر بھی کوئی اور دنیا ہے “ [82]
اس گفتگو سے واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیائے علم آسمانوں کے بارے میں اپنی حیرت انگیز ترقی کے باوجود اپنے انکشافات کو آغاز جہاں سمجھتی ہے نہ کہ اس کا اختتام بلکہ ایک عظیم جہان کے مقابلے میں اسے ایک چھوٹا سا ذرہ خیال کرتی ہے۔
۳۰۔ واذ قال ربک للملائکة انی جاعل فی الار خلیفة ط قا لوااتجعل فیھا ویفسد فیھا ویسفک الدماء ج ونحن نسبح بحمدک و نقدس لک ط قال انی اعلم مالا تعلمون
۳۱۔وعلم آدم الاسماء کلھا ثم عرضھم علی الملائکة فقالا انبئونی باسماء ھٰولاء ان کنتم صٰدقین
قالو ا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا ط انک انت العلیم الحکیم
۳۳۔ قال یاٰدم انبئھم باسمائھم ج فلما انبائھم باسمائھم قال الم اقل لکم انی اعلم غیب السماوات والارض واعلم ما تبدو ن وماکنتم تکتمون
۳۰۔جب آپ کے پروردگار نے فرشتو ں سے کہا کہ میں روئے زمین پرایک جانشین اور حاکم مقرر کر نے لگا ہوں تو فرشتوں نے کہا (پروردگارا ) کیا ایسے شخص کو مقرر کرے گا جو زمین پر فساد اور خونریزی کرے گا ( کیوں آدم سے پہلے زمین کے دوسرے موجودات جو عالم وجود میں آچکے ہیں ان کی طبیعت اور مزاج جہان مادہ کے حکم کا پابند ہے لہذا وہ فساد اور خونریزی کے گناہ ہی میں مبتلا تھے لیکن خلقت انسان کا مقصد اگر عبادت ہے تو ) ہم تیری تسبیح اور حمد بجالا تے ہیں ( اس پر پروردگار عالم نے فرمایا : میں حق کو جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔
۳۱۔ پھر علم اسماء ( علم اسرار خلقت اور موجودات کے نام رکھنے کا علم )سب کا سب آدم کو سکھایا پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا : اگر سچ کہتے ہو تو بتاؤ ان کے نام کیا ہیں ۔
۳۲۔ فرشتوں نے کہا تو پاک و منزہ ہے جو تو نے ہمیں تعلیم دی ہے ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تو حکیم ودانا ہے ۔
۳۳۔ فرمایا : اے آدم -انہیں ان ( موجودات ) کے ناموں اور اسرار ) سے آگاہ کردے جب اس نے انہیں آگاہ کردیا تو خدا نے فرمایا : میں نہ کہتا تھا کہ میں آسمان اور زمین کا غیب جانتا ہوں اور تم جن چیزوں کو ظاہر کرتے اور چھپاتے ہو انہیں بھی جانتا ہوں ۔
گذشتہ آیات میں پڑھ چکے ہیں کہ خدا نے زمین کی تمام نعمتیں انسان کے لئے پیدا کی ہیں اور ان آیات میں رسمی طور پر انسان کی رہبری اور خلا فت کی تشریع کی گئی ہے اور اس روحانی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ان تمام احسانات کے لائق تھا ۔
ان آیات میں آدم ( پہلے انسان ) کی خلقت کی کیفیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،اور آیات کے اس سلسلہ میں جو آیہ ۳۰ سے شروع ہو کر ۳۹ تک پہنچتا ہے تین بنیادی مسائل کو بیان کیا گیا ہے ؛
( ۱ )پروردگار عالم کا فرشتوں کو زمین میں انسان کی خلافت و سرپرستی کے بارے میں خبر دینا اور وہ گفتگو جو فرشتوں نے اس سلسلے میں خدا سے کی ۔
( ۲ )پہلے انسان کے لئے فرشتوں کو خضوع و تعظیم کا حکم جس کا ذکر مختلف مناسبات سے قرآن کی مختلف آیات میں کیا گیا ہے ۔
( ۳ )بہشت میں آدم کی کیفیت اور رہنے کی تشریع ، وہ حوادث جو جنت سے ان کے نکلنے کا سبب بنے ، آدم کا توبہ کرنا اور پھر آدم اور اولاد آدم کا زمین میں آکر آباد ہونا ۔
زیر بحث آیات ان میں سے پہلی منزل کی بات کرتی ہیں ۔ خدا کی خواہش یہ تھی کہ روئے زمین پر ایک ایسا موجود خلق فرمائے جو اس کا نمائندہ ہو، اس کی صفات صفات خداوندی کاپرتو ہوں اور اس کا مرتبہ و مقام فرشتوںسے بالا تر ہو ،۔ خدا کی خو اہش اور ارادہ یہ تھا کہ ساری زمین اور اس کی نعمتیں ، تمام قوتیں سب خزانے ، تمام کانیں اور سارے وسائل بھی اس کے سپرد کردیئے جائیں ۔ ضروری ہے کہ ایسا شخص عقل وشعور ، ادراک کے وافر حصے استعداد کا حامل ہو جس کی بناء پر موجودات ارضی کی رہبری اور پیشوائی کا منصب سنبھال سکے۔
یہ وجہ ہے کہ پہلی آیت کہتی ہے یاد کریں اس وقت کو جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں روئے زمین پر جانشین مقرر کرنے والا ہوں ( واذ قال ربک للملٰکة انی جاعل فی الارض خلیفة )۔
” خلیفة کے معنی ہیں جانشین ۔ لیکن یہاں اس سے کس کا جانشین مراد ہے اور کس چیز میں جانشین ہے ، مفسرین نے اس کی مختلف تفسیریں کی ہیں :
بعض کہتے ہیں انسان یا اور موجودات کا جانشین جو زمین میں پہلے زندگی گذارتے تھے ۔
بعض نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ انسان کی دوسری نسلیں ایک دوسرے کا جانشین ہوں گی ۔
لیکن انصاف یہ ہے جسے بہت سے محققین نے بھی قبول کیا ہے کہ اس سے مراد خلافت الہی اور زمین میں خدا کی نمائندگی ہے کیونکہ اس کے بعد فرشتوں کا سوال اور ان کا کہنا کہ ممکن ہے نسل آدم مبداء فساد و خونریزی ہو جب کہ ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اسی معنی سے مناسبت رکھتا ہے کیونکہ زمیں میں خداکی نمائندگی ان کاموں کے ساتھ سازگار نہیں ۔
اسی طرح آدم کو ”اسماء“ کی تعلیم دینا جس کی تفصیل بعد میں آئے گی اس دعوے پر ایک او رواضح قرینہ ہے اور آدم کے سامنے سجدہ بھی اسی مقصد کا شاہد ہے۔
بہر حال خد ا چاہتا تھا کہ ایسے وجود کو پیدا کرے جو عالم وجود کا گلدستہ ہو اور خلافت الہی کے مقام کی اہلیت رکھتا ہو اور زمین میں اللہ کا نمائندہ ہو ۔
ان آیات کی تفسیر میں ایک حدیث جو امام صادق سے مروی ہے وہ بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ فرشتے مقام آدم پہچاننے کے بعد سمجھ گئے کہ آدم اور ان کی اولاد زیادہ حقدار ہیں کہ وہ روئے زمین میں خلفاء الہی ہوں اور مخلوق پر ان کی حجت ہوں ۔
زیر بحث آیت مزید بیان کرتی ہے کہ فرشتوں نے حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے نہ کہ اعتراض کی غرض سے عرض کیا : کیا زمین میں اسے (جانشین ) قرار دے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا (قالو اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء) جبکہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں ، تیری تسبیح و حمد کرتے ہیں اور جس چیز کی تیری ذات لائق نہیں اس سے تجھے پاک سمجھتے ہیں ( ونحن سبح بحمدک ونقدس لک )۔
مگر یہاں خدا نے انہیں سربستہ و مجمل جواب دیا جس کی وضاحت کے بعد کے مراحل میں آشکار ہوئی فرمایا : میں ایسی چیزوں کو جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے ( قال انی اعلم مالا تعلمون
جیسے کہ ان کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے سمجھ گئے تھے کہ یہ انسان سربراہی نہیں بلکہ فساد کرے گا ، خون بہائے گا اور خرابیاں کرے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آخر وہ کس طرح سمجھے تھے۔
بعض کہتے ہیں خدا نے انسان کے آئندہ حالات بطور اجمال انہیں بتائے تھے جب کہ بعض کا احتمال ہے کہ ملائکہ اس مطلب کو لفظ فی الارض (زمین میں ) سے سمجھ گئے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے انسان مٹی سے پیدا ہوگا اور مادہ اپنی محدودیت کی وجہ سے طبعا مرکز نزاع و تزاحم ہے کیونکہ محدود مادی زمانہ انسانوں کی طبعیت کو سیر و سیراب نہیں کرسکتا جو زیادہ کی طلب رکھتی ہے یہاں تک کہ اگر ساری دنیا ایک فرد کو دے دی جائے تو ممکن ہے وہ پھر بھی سیر نہ ہو اگر کافی احساس ذمہ داری نہ ہو تو یہ کیفیت فساد اور خونریزی کا سبب بنتی ہے۔
بعض دوسر ے مفسرین معتقد ہیں کہ فرشتوں کی پیشین گوئی اس وجہ سے تھی ک آدم روئے زمین کی پہلی مخلوق نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی دیگر مخلوقات تھیں جنہوں نے نزاع ، جھگڑا اور خونریزی کی تھی ۔ان سے پہلے کی مخلوق کی بری فائل نسل آدم کے بارے میں فرشتوں کی بد گمانی کا باعث بنی۔
یہ تین تفاسیر ایک دوسرے سے کچھ ز یاد ہ اختلاف نہیں رکھتیں یعنی ممکن ہے یہ تمام امور فرشتوں کی اس توجہ کا سبب بنے ہوں اور در اصل یہ ایک حقیقت بھی تھی جسے انہوں نے بیان کیا تھا یہ وجہ ہے کہ خدا نے جواب میں کہیں بھی اس کا انکار نہیں کیا بلکہ اس حقیقت کے ساتھ ساتھ ایسی مزید حقیقتیں انسان اوراس کے مقام کے بارے میں موجود ہیں جن سے فرشتے آگاہ نہیں تھے
۔فرشتے سمھتے تھے اگر مقصد عبودیت اوربندگی ہے تو ہم اس کے مصداق کامل ہیں ہمیشہ عبادت میں ڈوبے رہتے ہیں لہٰذاسب سے زیادہ ہم خلافت کے لائق ہیں لیکن وہ اس سے بے خبر تھے کہ ان کے وجود میں شہوت و غضب اور قسم قسم کی خواہشات موجود نہیں جب کہ انسان کو میلانات و شہوات نے گھیر رکھا ہے اور شیطان ہر طرف سے اسے وسوسے ڈالتا رہتا ہے لہذا ان کی عبادت انسان کی عبادت سے بہت زیادہ تفاوت رکھتی ہے ۔ کہاں اطاعت اور فرمانبرداری ایک طوفان زدہ کی اور کہاں عبادت ان ساحل نشینوں کی جو مطمئن ، خالی ہاتھ اور سبک بار ہیں ۔
انہیں کب معلوم تھا کہ آدم کی نسل سے محمد ، ابراہیم ،نوح ، موسیٰ اور عیسی ٰ علیھم السلام جیسے انبیاء اور ائمہ اہل بیت جیسے امام اور صالح بندے اور جانباز شہید مرد اور عورتیں عرصہ وجود میں قدم رکھیں گے جو پروانہ وار اپنے آپ کو خدا کی راہ میںپیش کریں گے ۔ ایسے افراد جن کے غور و فکر کی ایک گھڑی فرشتون کی سالہا سال کی عبادت کے برابر ہے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ فرشتوں نے اپنی صفات کے بارے میں تین چیزوں کا سہارا لیا تسبیح ، حمد اور تقدیس ۔ اس میں شک نہیں کہ تسبیح اور حمد کے معنی ہیں خدا کو ہر قسم کے نقس سے پاک اور ہر قسم کے کمال کا اہل سمجھنا لیکن کہ تقدیس سے کیا مقصود ہے۔
بعض نے تقدیس کے معنی ” پروردگار کو ہر قسم کے نقصان سے پاک شمار کرنا “ بیان کئے ہیں جو کہ در اصل تسبیح کے معنی کی تاکید ہے ۔
لیکن بعض معتقد ہیں کہ تقدیس مادہ ” قدس “ سے ہے جس کے معنی ہیں روئے زمین کو فاسد اور مفسد لوگوں سے پاک کرنا یا اپنے آپ کو ہر قسم کی بری اور مزموم صفات سے پاک کرنا اور جسم وجان کو خدا کے لئے پاک کرنا لفظ” لک “کو جملہ”نقدس لک “ میں اس مقصود کے لئے شاہد قرار دیتے ہیں کیونکہ فرشتوں نے یہ نہیں کہا کہ ”نقدسک “ یعنی ہم تجھے پاک سمجھیں گے بلکہ انہوں نے کہا ”نقدس لک “ یعنی تیرے لئے معاشرے کو پاک کریں گے ۔
در حقیقت وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ہدف اور غرض ، اطاعت اور بندگی ہے تو ہم فرمانبردار ہیں اور اگر عبادت ہے تو ہم ہر وقت اس میں مشغول ہیں اور اگر اپنے آپ کو پاک رکھنا یا صفحہ ارضی کو پاک رکھنا ہے تو ہم ایسا کریں گے جب کہ یہ مادی انسان خود بھی فاسد ہے اور روئے زمین کو بھی فاسد کردے گا ۔
حقائق کو تفصیل سے ان کے سامنے واضح کرنے کے لئے خدا وندے عالم نے ان کی آزمائش کے لئے اقدام کیا تاکہ وہ خود اعتراف کریں کہ ان کے اور اولاد آدم کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے ۔
پروردگار کے لطف و کرم سے آدم حقائق عالم کے ادراک کی کافی استعداد رکھتے تھے خدا نے ان کی اس استعداد کو فعلیت کے درجہ تک پہنچایا اور قرآن کے ارشاد کے مطابق آدم کو تمام اسماء ( عالم وجود کے حقائق و اسرار ) کی تعلیم دی ( وعلم اٰدم الاسماء کلھا )۔
مفسرین نے اگر چہ --”علم اسماء “کی تفسیر میں قسم قسم کے بیانات دیئے ہیں لیکن مسلم ہے کہ آدم کو کلمات و اسماء کی تعلیم بغیر معنی کے نہیں دی تھی کیونکہ یہ کوئی قابل فخر بات نہیں بلکہ مقصد یہ تھاکہ ان اسماء کے معنی و مفاہیم اور جن چیزوں کے وہ نام تھے ان سب کی تعلیم ہو ۔ البتہ جہان خلقت اور عالم ہستی کے مختلف موجودات کے اسماء وخواص سے مربوط علوم سے باخبر وآگاہ کیا جانا حضرت آدم کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا ۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت امام جعفر صادق سے اس آیت کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا :
الارضین والجبال والشعاب والاودیہ ثم نظر الی بساط تحتہ فقال وھذا ابساط مماعلمہ۔
اسماء سے مراد زمینیں ، پہاڑ ،درے ،وادیاں (غرض یہ کہ تمام موجودات )تھے اس کے بعد امام نے اس فرش کی طرف نگاہ کی جو آپ کے نیچے بچھا ہو تھا اور فر ما یا یہا ں تک کہ یہ فرش بھی ان امو ر میں سے ہے کہ خد انے جن کی آدم کو تعلیم دی [83]
اس سے ظاہر ہو کہ علم اسما ء علم لغت کے مشابہ نہ تھا بلکہ اس کا تعلق فلسفہ ،اسرار اور کیفیا ت وخو اص کا تھا ۔خداوند عالم نے آدم کو اس علم کی تعلیم دی تاکہ وہ اپنی سیر تکامل میں اس جہان کی مادی اور روحانی نعمتوں سے بہرہ ور ہو سکیں ۔اسی طرح چیزوں کے نام رکھنے کی استعداد بھی انہیں دی تاکہ و ہ چیزوں کے نام رکھ سکیں اور ضرورت کے وقت ان کا نام لے کر انہیں بلا سکیں یا منگوا سکیں اور یہ ضروری نہ ہو کہ اس کے لئے ویسی چیز دکھا نی پڑے ۔یہ خود ایک بہت بڑ ی نعمت ہے ۔اس مو ضو ع کی اہمیت ہم اس وقت سمجھتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ انسان کے پاس اس وقت جو کچھ ہے کتاب اور لکھنے کی وجہ سے ہے اور گذ رے ہوئے لوگو ں کے سب علمی ذخائر ان کی تحریروں میں جمع ہیں اور یہ سب کچھ چیزوں کے نام رکھنے کے اور ان کے خواص کی وجہ سے ہے و ر نہ کبھی بھی ممکن نہ تھا کہ ہم گذشتہ لوگو ں کے علوم آنے والوںتک منتقل کر سکتے ۔
پھر خداوند عالم نے فرشتوں سے فرمایا ۔اگر سچ کہتے ہوتو ان اشیاء اورموجودات کے نام بتاوٴجنہیں دیکھ رہے ہو اور ان کے اسرار وکیفیات کو بیان کرو (ثم عرضھم علی الملائکةفقال انبئو نی باسماء ھوٴلاء ان کنتم صدقین )لیکن فرشتے جو اتنا علم نہ رکھتے تھے اس امتحا ن میں رہ گئے ؛لہذا جواب میں کہنے لگے خداوندا!تو منزہ ہے تونے ہمیں جو تعلیم دی ہے ہم ا س کے علاوہ کچھ نہیں جانتے (قالو اسبحنک لاعلم لناالاما علمتنا ) توخود ہی علیم وحکیم ہے (انک انت العلیم الحکیم ) ۔اگر ہم نے اس سلسلے میں سوال کیا ہے تو یہ، ہماری نا آگاہی کی بناء پر تھا ہم نے یہ مطلب نہیں پڑھاتھااور آدم کی اس عجیب استعداداور قدرت سے بے خبر تھے جو ہمارے مقابلے میں اسکا بہت بڑا امتیاز ہے۔بے شک وہ تیری خلافت وجانشینی کی اہلیت رکھتا ہے جہان ہستی کی سر زمین اس کے وجود کے بغیر نا قص تھی۔
اب آدم کی باری آ ئی کہ ملائکہ کے سامنے موجودات کا نام لیں اور ان کے اسرار بیان کریں۔ خدا وندے عالم نے فرمایا : اے آدم !فرشتوں کو ان موجودات کے ناموں سے آگاہ کرو ( قال یا آدم انبئھم باسمائھم قال الم اقل لکم انی اعلم غیب السماوات والارض واعلم ماتبدون وماکنتم تکتمون
اس مقام پر ملائکہ نے اس انسان کی وسیع معلومات اور فراواں حکمت ودانائی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور ان پر واضح ہوگیا کہ صرف یہی زمین پر خلافت کی اہلیت رکھتا ہے۔
جملہ ”ماکنتم تکتمون “ ( جو کچھ تم اپنے اندر چھپائے ہوئے ہو ) اس بات کی نشاندہی ہے کہ فرشتوں نے جو کچھ ظاہر کیا تھا اس کے علاوہ کچھ دل میں چھپائے ہوئے تھے ۔ بعض کہتے ہیں یہ ابلیس کے غرور و تکبر کی طرف اشارہ ہے جو ان دنوں ملائکہ کی صف میں رہتا رہتا تھا لہذا وہ بھی ساتھ ہی مخاطب تھا ۔اس نے دل میں پختہ ارادہ کر رکھا تھا کہ وہ آدم کے سامنے ہر گز نہیں جھکے گا ۔
یہ بھی احتمال ہے فرشتے در حقیقت اپنے آپ کو روئے زمین پر خلافت الہی کے لئے ہرکس وناکس سے زیادہ اہل سمجھتے تھے اگرچہ اس مطلب کی طرف اشارہ تو کرچکے تھے لیکن صراحت سے یہ بیان نہ کیا تھا۔
دوسوال اس موقع پر باقی رہ جاتے ہیں پہلا یہ کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم کو کس طرح ان علوم کی تعلیم دی تھی اور دوسرا یہ کہ اگر ان علوم کی فرشتوں کو بھی تعلیم دے دیتا تو وہ بھی آدم والی فضیلت حاصل کرلیتے یہ آدم کے لئے کون سا افتخار و اعزاز ہے جو فرشتوں کے لئے نہیں ۔
پہلے سوال کے جواب میں اس نکتے کی طرف توجہ کرنی چاہیئے کہ یہاں تعلیم جنبئہ تکوینی رکھتی ہے یعنی خدا نے یہ آگاہی آدم کی طبیعت و سرشت میں قرار دی تھی اور تھوڑی سی مدت میں اسے بار آور کردیا تھا ۔
لفظ تعلیم کا اطلاق تعلیم تکوینی پر قرآن میں ایک جگہ اور بھی آیا ہے ۔ سورہ رحمٰن آیہ ۴ میں ہے :
علمہ البیان
خدا وندے عالم نے انسان کو بیان کی تعلیم دی ہے
واضح ہے کہ یہ تعلیم خدا وند عالم نے انسان کو مکتب آفرینش و خلقت میں دی ہے اور اس سے مراد وہی استعداد و خصوصیت فطری ہے جو انسانوں کے مزاج میں رکھ دی گئی ہے تاکہ وہ بات کرسکیں ۔
دوسرے سوال کے جواب میں اس طرف توجہ رکھنی چا ہئیے کہ ملائکہ کی خلقت ایک خاص قسم کی ہے جس میں یہ تمام علو م حاصل کر نے کی اس تعداد نہیں ہے وہ ایک اور مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اس مقصد کے لئے ان کی تخلیق نہیں ہو ئی ۔یہی وجہ ہے کہ اس امتحان کے بعد ملائکہ حقیقت حال سمجھ گئے اور انہوں نے قبول کرلیا ۔پہلے شاید وہ سو نچتے تھے کہ اس مقصد کی اہلیت بھی ان میں ہے مگر خدا نے علم اسماء کے امتحان سے آدم اوران کی استعداد کا فرق واضح کر دیا ۔
یہاں ایک اور سوال بھی سامنے آتا ہے کہ اگرمقصود علم اسرار خلقت اور تمام موجودات کے خواص جاننا تھا تو پھر ضمیر ”ھم “ لفظ ”اسمائھم اور لفظ ھٰؤلاء “ کیوں استعمال ہوئے جو عموما افراد عاقل کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا نہیں کہ ضمیر ”ھم اور لفظ ھٰولاء صرف ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات عاقل اور غیر عاقل کے مجموعے پر یا یہاں تک کہ افراد غیر عاقل کے مجموعے کے لئے بھی بولے جاتے ہیں جیسے حضرت یوسف ستاروں ، سورج اور چاند کے بارے میں کہتے ہیں ۔ قرآن میں :
میں نے خواب میں دیکھا یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں ۔(یوسف ۔ ۴ )
۳۴۔واذقلنا للملائکة اسجدو لاٰدم فسجدو الا ابلیس ط ابی واستکبر وکان من الکافرین
۳۵۔ وقلنا یا ٰدم اسکن انت وزوجک الجنة و کلا منھا رغدا حیث شئتما ولا تقربا ھذہ الشجرة فتکونا من الظالمین
۳۶۔ فازلھما الشیطان عنھا فاخرجھما مما کانا فیہ و قلنا اھبطو بعضکم لبعض عدو ولکم فی الارض مستقر ومتاع الی حین
۳۴۔ اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کے لئے سجدہ وخضوع کرو تو شیطان کے علاوہ سب نے سجدہ کیا ۔ اس نے انکار کر دیا اور تکبر کر کے ( نافرمانی کی وجہ سے ) کافروں میں سے ہو گیا ۔
۳۵۔ اور ہم نے کہا اے آدم ! تم اپنی بیوی کے ساتھ جنت میں سکونت اختیار کرلو اور ( اس کی نعمتوں میں سے ) جو چاہو کھاؤ (لیکن ) اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ ستمگاروں میں سے ہوجاؤ گے ۔
۳۶۔ پس شیطان ان کی لغزش کا سبب بنا اور جس (بہشت ) میں وہ رہتے تھے انہیں وہاں سے نکال دیا اور ( اس وقت ) ہم نے ان سے کہا سب کے سب ( زمین کی طرف ) چلے جاؤ اس حالت میں کہ تم میں سے بعض دوسروں کے دشمن ہو گے زمین تمہاری ایک مدت معین کے لئے قرار گاہ ہے اور فائدہ اٹھانے کا وسیلہ ہے
گذشتہ بحثیں جو انسان کے مقام و عظمت کے بارے میں تھیں ان کے ساتھ قرآن نے ایک اور فصل بیان کی ہے ۔ پہلے کہتا ہے : یاد کرو وہ وقت جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کے لئے سجدہ وخضوع کرو ( و اذ قلنا للمائکة اسجدو الادم ) ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جس نے انکار کیا اور تکبر اختیار کیا ( فسجدو الا ابلیس ابی واستکبر ) اس نے تکبر کیا اور اسی تکبر ونافرمانی کی وجہ سے کافروں میں داخل ہو گیا ( وکان من الکافرین)
پہلے پہل یوں لگتا ہے کہ آدم کو سجدہ کرنے کا مرحلہ فرشتوں کے امتحان اور تعلیم اسماء کے بعد آیا لیکن قرآن کی دوسری آیات میں غور کرنے سے یہ موضوع آفرینش انسان اور اس کی خلقت کی تکمیل کے ساتھ ہے اور ملائکہ کے امتحان سے پہلے در پیش ہوا۔
سورہ حجریہ ۲۹ میں ہے :
فاذاسویتہ ونفخت فیہ من روحی فقعو الہ سجدین
جب خلقت آدم کو منظم کرلوں اور اپنی روح میں سے (ایک شائستہ روح جومیری مخلو ق ہے )اس میں پھونک دوں تو اس کے لئے سجدہ کرو
یہی مفہوم سورہ ص آیہ ۷۲ میں بھی ہے [84]
اس موضوع کی شاہد یہ بات بھی ہے کہ اگرسجدہ کا حکم مقام ِآدم کے واضح ہونے کے بعد ہوتاتو ملائکہ کے لئے زیادہ افتخار کاباعث نہ ہوتا چو نکہ اس وقت تو آ دم کاافتخار سب پر واضح ہوچکاتھا ۔
بہر حال مندرجہ بالاآیت انسانی شرافت اور ا سکی عظمت مقام کی زندہ اور واضح گواہ ہے کہ اسکی تکمیل خلقت کے بعدتمام ملائکہ کوحکم ملتا ہے کہ اس عظیم مخلولق کے سامنے سر تسلیم خم کرو ۔ واقعا وہ شخص جو مقام خلافت الہٰی اور زمین پر خدا کی نمائندگی کا منصب حاصل کرے ،تمام تر تکامل وکمال پر فائز ہو اور بلند مرتبہ فرزندوںکی پرورش کاذمہ دار ہو جن میں انبیاء اور خصوصاََپیامبر اسلام اور ان کے جانشین شامل ہوں ،ایسا انسان ہر قسم کے احترام کے لائق ہے ۔
ہم اس انسان کا کتنا احترام کر تے ہیں اور اس کے سامنے جھکتے ہیں جو علم کے چند فارمولے جانتا ہو ۔تو پھر وہ پہلا انسان جو جہان ہستی کی بھر پور معلومات رکھتا تھا اس کے ساتھ کیا کچھ ہونا چا ہیے تھا ۔
( ۱ )ابلیس نے مخالفت کیوں کی : ہم جانتے ہیں کہ لفظ ”شیطان “ اسم جنس ہے جس میں پہلا شیطان اور دیگر تمام شیطان شامل ہیں لیکن ابلیس مخصوص نام ہے اور یہ اسی شیطان کی طرف اشارہ ہے جس نے آدم کو ورغلایا تھا وہ صریح آیات قرآن کے مطابق ملائکہ کی نوع سے نہیں تھا صرف ان کی صفوں میں رہتا تھا وہ گروہ جن میں سے تھا جو ایک مادی مخلوق ہے ۔
سورہ کہف آیہ ۵۰ میں ہے :
فسجدو الا ابلیس ط کان من الجن
ابلیس کے سوا سب سجدے میں گرپڑے (اور ) یہ گروہ جن میں سے تھا ۔
اس مخالفت کا سبب کبر وغرور اور خاص تعصب تھا جو اس کی فکر پر مسلط تھا ۔وہ یہ سوچتا تھا کہ میں آدم سے بہتر ہوں لہٰذا اسے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم نہیں دیا جانا چاہیئے بلکہ آدم کو سجدہ کرنا چاہیئے او ر اسے مسجود ہونا چاہیئے تھا ۔ اس تفصیل سورہ اعراف کی آیہ ۱۲ کے ذیل میں آئے گی - [85]
شیطان کے کفر کی علت بھی یہی تھی کہ اس نے خدا وندے عالم کے حکیمانہ حکم کو نارواسمجھا ۔ نہ صرف یہ کہ عملی طور پر اس نے نافرمانی کی بلکہ اعتقادکی نظر سے بھی معترض ہوا اور خود بینی و خود خواہی نے یوں ایک عمر کے ایمان و عبادت کے ماحصل کو برباد کردیا اور اس کے خرمن ہستی میں آگ لگا دی ۔ کبر و غرور کے آثار بداس سے بھی زیادہ ہیں ۔
کان من الکافرین کی تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ وہ پہلے ہی میرِ ملائکہ اور فرمان خدا کی اطاعت سے اپنا حساب الگ کرچکا تھا اور اس کے سر میں استکبار کی فکر پرورش پارہی تھی اور شاید وہ خود سے کہتا تھا کہ اگر مجھے آدم کو سجدہ اور خضوع کرنے کا حکم دیا گیا تو میں قطعاََ اطاعت نہیں کروں گا ۔ ممکن ہے جملہ ماکنتم تکتمون (جو کچھ تم چھپاتے تھے ) اسی طرف اشارہ ہو ۔ تفسیر قمی میں جو حدیث امام حسن عسکری سے روایت کی گئی ہے اس میں بھی یہی معنی بیان ہوا ہے [86]
( ۲ )سجدہ خدا کے لئے تھا یا آدم کے لئے : اس میں کوئی شک نہیں کہ ”سجدہ “ جس کا معنی عبادت وپرستش ہے صرف خدا کے لئے ہے کیونکہ عالم میں خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور توحید عبادت کے معنی یہی ہیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں لہذا اس میں شک و شبہ نہیں کہ ملائکہ نے آدم کے لئے سجدہٴ عبادت نہیں کیا بلکہ یہ سجدہ خدا کے لئے تھا لیکن اس عجیب وغریب مخلوق کی وجہ سے یا یہ کہ سجدہ آدم کے لئے تھا لیکن وہ خضوع و تعظیم کا سجدہ تھا نہ کہ عبادت و پرستش کا ۔
کتاب عیون الاخبار میں امام علی بن موسیٰ الرضا سے اسی طرح روایت ہے :
کان سجودھم للہ تعالی عبودیة ولادم اکرام و طاعة لکوننا فی صلبہ ۔
فرشتوں کا سجدہ ایک طرف سے خدا کی عبادت تھا اور دوسری طرف آدم کا اکرام و احترام ۔ کیونکہ ہم صلب آدم میں موجود تھے [87]
بہر حال اس واقعہ اور فرشتوں کے امتحا ن کے بعد آدم اور اس کی بیوی کو حکم دیا گیا کہ وہ بہشت میں سکونت اختیار کریں ۔
چنانچہ قرآن کہتا ہے : ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور اس کی فراواں نعمتون میں سے جو چاہو کھاؤ ( وقلنا یا آ ٰدم اسکن انت وزوجک الجنة وکلا منھا رغدا َحیث شئتما [88]
لیکن اس مخصوص درخت کے نزدیک نہ جانا ۔ ورنہ ظالمون میں سے ہو جاؤ گی ( ولا تقربا ھٰذہ الشجرة فتکونا من الظالمین)
آیات قرآنی سے ظاہر ہوتا ہے کہ آدم زندگی گزارنے کے لئے اسی عام زمین پر پیدا ہوئے تھے لیکن ابتدا میں خدا وندے عالم نے انہیں بہشت میں سکونت دی جو اسی جہان کا ایک سر سبز وشاداب اور نعمتوں سے مالا مال باغ تھا ۔ وہ ایسی جگہ تھی جہاں آدم نے کسی قسم کی تکلیف نہیں دیکھی ۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ آدم زمین میں زندگی گزارنے سے آشنائی نہیں رکھتے تھے اور بغیر کسی تمہید کے زحمات و تکالیف اٹھانا ان کے لئے مشکل تھا اور زمین میں زندگی گزارنے کے لئے یہاں کے کردار رفتار کی کیفیت سے آگاہی ضروری تھی لہذا مختصر مدت کے لئے بہشت کے اندر ضروری تعلیمات حاصل کرلیں کیونکہ زمین کی زندگی پروگراموں تکلیفوں اور ذمہ داریوں سے معمور ہے جس کا انجام صحیح سعادت ،تکامل اور بقائے نعمت کا سبب ہے اور ان سے رو گردانی کرنا رنج و مصیبت کا باعث ہے اور یہ پہچان لیں کہ اگر چہ انہیں آزاد پیدا کیا گیا ہے لیکن یہ مطلق و لا محدود آزادی نہیں ہے کہ جو کچھ چاہیں انجام دیں بلکہ انہیں چاہئے کہ زمین کی کچھ چیزوں سے چشم پوشی کریں ۔ نیز یہ جان لینا بھی تھا کہ اگر خطا و لغزش دامن گیر ہو تو ایسا نہیں کہ سعادت و خوش بختی کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہوجائیں گے بلکہ انہیں پلٹ کر دوبارہ عہد وپیمان کرنا چاہیئے کہ وہ حکم خدا کے خلاف کوئی کام انجام نہیں دیں گے تاکہ دوبارہ نعمات الہٰی سے مستفید ہو سکیں ۔ یہ بھی تھا کہ وہ اس ماحول میں رہ کر کچھ پختہ ہوجائیں اور اپنے دوست اور دشمن کو پہچان لیں اور زمین میں زندگی گزارنے کی کیفیت سے آشنا ہوجائیں ۔ یقینایہ سلسلہء تعلیمات ضروری تھا تاکہ وہ اسے یاد رکھیں اور اس تیاری کے ساتھ روئے زمین پر قدم رکھیں ۔
یہ ایسے مطالب تھے کہ حضرت آدم اور ان کی اولاد آئندہ زندگی میں ان کی محتاج تھی لہذا باوجودیکہ آدم کو زمین کی خلافت کے لئے پیدا کیا گیا تھا ایک مدت تک بہشت میں قیام کرتے رہے اور انہیں کئی ایک حکم دیے جاتے ہیں شاید یہ سب تمرین و تعلیم کے پہلو سے تھا ۔
اس مقام پر آدم نے اس فرمان الٰہی کو دیکھا جس میں آپ کو ایک درخت کے بارے میں منع کیا گیا تھا ۔ ادھر شیطان نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ آدم اور اولاد آدم کو گمراہ کرنے سے باز نہ آئے گا ۔ وہ وسوسے پیدا کرنے میں مشغول ہوگیا۔ جیسا کہ باقی آیات قرآنی سے ظاہر ہوتا ہے اس نے آدم کو اطمینان دلایا کہ اگر اس درخت سے کچھ کھالیں تو وہ اور ان کی بیوی فرشتے بن جائیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہیں گے یہاں تک کہ اس نے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں [89]
بالآ خر شیطان نے ان دونوں کو پھسلا دیا اور جس بہشت میں وہ رہتے تھے اس سے باہر نکال دیا ۔ قرآن کے الفاظ میں :
فازلھما الشیطٰن عنھا فاخرجھما مما کانا فیہ [90]
اس بہشت سے جو اطمینان و آسائش کا مرکز تھی اور رنج و غم سے دور تھی شیطان کے دھوکے میں آکر نکالے گئے ۔
جیسا کہ قرآن کہتا ہے : وقلنا اھبطو بعضکم لبعض عدو
اور ہم نے انہیں حکم دیا کہ زمین پر اتر آؤ جہاں تم ایک دوسرے کے دشمن ہوجاؤ گے ( آدم و حوا ایک طرف اور شیطان ایک طرف )۔
مزید فرمایا گیا کہ تمہارے لئے ایک مدت معین تک زمین میں قرار گاہ ہے جہاں سے تم نفع اندوز ہوسکتے ہو ( ولکم فی الارض مستقر ومتاع الی حین ) یہ وہ مقام تھا کہ آدم متوجہ ہوئے کہ انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور بہشت کے آرام دہ اور نعمتوں سے مالا مال ماحول سے وسوسے کے سامنے سر جھکانے کے نتیجے میں باہر نکالے جا رہے ہیں اور اب زحمت و مشقت کے ماحول میں جا کر رہیں گے ۔یہ صحیح ہے کہ آدم نبی تھے اور گناہ سے معصوم تھے لیکن جیسا کہ ہم آئندہ چل کر بتائیں گے کہ کسی پیغمبر سے جب ترک اولی سرزد ہوجاتا ہے تو خدا وندے عالم اس سے اس طرح سخت گیری کرتا ہے جیسے کسی عام انسان سے گناہ سرزد ہو ۔
( ۱ )ٓدم کس جنت میں تھے : اس سوال کے جواب میں اس نکتے کی طرف متوجہ رہنا چاہیئے کہ اگر چہ بعض نے کہا ہے کہ یہ وہی جنت تھی جو نیک اور پاک لوگوں کی وعدہ گاہ ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ وہ بہشت نہ تھی بلکہ زمین سر سبز علاقوں میں نعمات سے مالا مال ایک روح پرور مقام تھا ۔
اول تو وہ بہشت جس کا وعدہ قیامت کے ساتھ ہے وہ ہمیشگی اور جاودانی نعمت ہے جس کے دوام کی نشاندہی بہت سی آیات میں کی گئی ہے اور اس سے باہر نکلنا ممکن نہیں ۔
دوم یہ کہ غلط اور بے ایمان ابلیس کے لئے اس بہشت میں جانے کی کوئی راہ نہ تھی ۔ وہاں نہ وسوسہ شیطانی ہے اور نہ خدا کی نافرمانی ۔
سوم یہ کہ اہل بیت سے منقول روایات میں یہ موضوع صراحت سے نقل ہوا ہے ۔
ایک راوی کہتا ہے : میں نے امام صادق سے آدم کی بہشت کے متعلق سوال کیا ۔ امام نے جواب میں فرمایا :
جنة من جنات الدنیا یطلع فیھا الشمس والقمر ولو کان من جنان ا لاٰخرة ماخرج منھا ابداَ
دنیا کے باغوں میں سے ایک باغ تھا جس پر آفتاب و ماہتاب کی روشنی پڑتی تھی اگر آخرت کی جنتوں میں سے ہوتی تو کبھی بھی اس سے باہر نہ نکالے جاتے [91]
یہاں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ آدم کے ہبوط و نزول سے مراد نزول مقام ہے نہ کہ نزول مکان یعنی اپنے اس بلند مقام اور سر سبز جنت سے نیچے آئے ۔
بعض لوگوں کے نزدیک یہ احتمال بھی ہے کہ یہ جنت کسی آسمانی کرہ میں تھی اگرچہ وہ ابدی جنت نہ تھی بعض اسلامی رو ایات میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ یہ جنت آسمان میں تھی لیکن ممکن ہے لفظ ”سماء “ (آسمان ) ان روایات میں مقام بلند کی طرف اشارہ ہو ۔
تاہم بے شمار شواہد نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ جنت آخرت والی جنت نہ تھی کیو نکہ وہ تو انسان کی سیر تکامل کی آخری منزل ہے اور یہ اس کے سفر کی ابتدا تھی اور اس کے اعمال اور پروگرام کی ابتدا تھی اور وہ جنتا ا س کے اعمال اور پروگرام کا نتیجہ ہے ۔
( ۲ )آدم کا گناہ کیا تھا :واضح ہے کہ آدم اس مقام کے علاوہ جو خدا نے گذشتہ آیات میں ان کے لئے بیان کیا ہے معرفت و تقوی کے لحاظ سے بھی بلند مقام پر فائز تھے ۔ وہ زمین میں خدا کے نمائندہ تھے ، وہ فرشتوں کے معلم تھے وہ عظیم ملائکہ الٰہی کے مسجود تھے اوریہ مسلم ہے کہ آدم ان امتیازات و خصوصیات کے ہوتے ہوئے گناہ نہیں کر سکتے تھے علاوہ ازیں ہمیں معلوم ہے کہ وہ پیغمبر تھے اور ہر پیغمبر معصوم ہوتا ہے ۔ لہذا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدم سے جو کچھ سرزد ہوا وہ کیا تھا ۔ یہاں تین تفاسیر موجود ہیں ۔
( ۱ )آدم سے جو کچھ سرزد ہوا ترک اولی تھا ۔ دوسرے لفظوں میں ان کی حیثیت اور نسبت سے وہ گناہ تھا لیکن گناہ مطلق نہ تھا ۔ گناہ مطلق وہ گناہ ہوتا ہے جو کسی سے سرزد ہو اور اس کے لئے سزا ہے ( مثلا َشرک، کفر ،ظلم اور تجاوز وغیرہ ) اور نسبت کے اعتبار سے گناہ کا مفہوم یہ ہے کہ بعض اوقات بعض مباح اعمال بلکہ مستحب بھی بڑے لوگوں کے مقام کے لحاظ سے مناسب نہیں ۔ انہیں چاہیئے کہ وہ ان اعمال سے گریز کریں اور اہم کام بجالائیں ورنہ کہا جائے گا کہ کہ انہوں نے ترک اولی کیا ہے ۔ مثلاَ ہم جو نماز پڑھتے ہیں اس کا کچھ حصہ حضور قلب سے ہوتا ہے اور کچھ بغیر اس کے ۔ یہ امر ہمارے مقام کے لئے تو مناسب ہے لیکن حضرت رسولخدا اور حضرت علی کے شایان شان نہیں ان کی ساری نمازخدا کے حضور میں ہونی چاہیئے اور اگر اس کے علاوہ کچھ ہو تو کسی فعل حرام کا ارتکاب تو نہیں تاہم ترک اولی ہے ۔
(!!) خدا کی نہی یہاں ”نہی ارشاد ی “ ہے جیسے ڈاکٹر کہتا ہے فلاں غذا کھاؤ ۔ورنہ بیمار پڑجاؤ گے ۔ خدا نے بھی آدم سے فرمایا کہ اگر اس درخت ممنوع سے کچھ کھالیا تو بہشت سے باہر جانا پڑے گا اور رنج و تکالیف میں مبتلا ہونا پڑے گا لہذا آدم نے حکم خدا کی مخالفت نہیں کی بلکہ ”نہی ارشادی “ کی مخالفت کی ہے ۔
(!!!) جنت بنیادی طور پر جائے تکلیف نہ تھی بلکہ وہ آدم کے زمین کی طرف آنے کے لئے ایک آزمائش اور تیاری کا زمانہ تھا اور نہی صرف آزمائش کا پہلو رکھتی تھی [92]
( ۳ )تورات سے معارف قرآن کا مقابلہ :مندرجہ بالا آیات کے مطابق وجود آدم میں سب سے بڑا افتخار اور نقطہ قوت جس کی وجہ سے وہ مخلوق میں منتخب ہے اور جس کی وجہ سے وہ مسجود ملائکہ ہے وہی ” علم الاسماء “ سے آگاہی اور حقائق اسرار خلقت و جہان ہستی سے واقفیت ہے ۔ یہ واضح ہے کہ آدم انہی علوم کے لئے پیدا کیے گئے تھے اور اولاد آدم اگر کمال حاصل کرنا چاہے تو اسے چاہیئے کہ وہ علوم سے زیادہ استفادہ کرے ۔ اولاد آدم میں سے ہر ایک کا کمال و تکامل اسرار خلقت کی آگاہی سے سیدھی نسبت رکھتا ہے ۔ قرآن پوری صراحت سے آدم کے مقام کی عظمت ان چیزوں میں سمجھتا ہے لیکن توریت میں آدم کے بہشت سے باہر نکالے جانے کا جواز اور بہت بڑا گناہ بیان کیا گیا ہے وہ ان کی علم ودانش کی طرف توجہ اور نیک و بد جاننے کی خواہش ہے۔
” پس خدا وندے عالم نے آدم کو خاک ِ زمین سے صورت دی اور تسلیم حیات اس کے دماغ میں پھونکی اور آدم زندہ جان ہوگیا اور خدا وند خدا نے ہر خوشنما درخت اور جو کھانے کے لئے اچھا تھا زمین سے اُگایا نیز شجر حیات کو وسط ِ باغ میں لگایا اور نیک و بد جاننے کے درخت کو اور خدا وند نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ باگ کے تمام درختوں سے تمہیں کھانے کا اختیار ہے لیکن” نیک و بد جاننے “کے درخت سے نہ کھانا جس دن تو اسے کھائے گا موت کا مستحق ہو جائے گا “
فصل سوم میں یوں آیا ہے :
” اور خدا وندکی آواز کو سناجو دن کو نسیم کے وقت باغ میں خراماں خر اماں چلتا تھا آدم اور اس کی بیوی اپنے آپ کو خداوند کے حضور سے باغ کے درختوں کے در میان چھپاتے تھے “
” اور خدا وند نے آدم کو آواز دی ۔اُسے کہا کہ تو کہا ں ہے ۔ “
” اس نے جواب میں کہاکہ میں نے تیری آواز سنی اور میں ڈر گیا کیونکہ میں برہنہ ہوں اس وجہ سے چھپا بیٹھا ہو ں “
” خدا نے اس سے کہا :تجھے کس نے کہا کہ تو برہنہ ہے کیا جس درخت سے تمہیں نہ کھانے کے لئے کہا تھا تم نے کچھ کھایا “
” آدم نے کہا جو عورت تو نے مجھے میرے ساتھ رہنے کے لئے دی ہے اس نے اس د رخت سے مجھے دیا ہے جسے میں نے کھالیا ہے “۔
” اور خدا وند نے کہا آ دم تم تو ”نیک وبد جاننے “کی وجہ سے چونکہ ہم میں سے ایک ہوگیا ہے لہٰذا اب ایسا نہ ہو کہ اپنا ہاتھ دراز کرے اور ” درخت حیات “سے بھی کچھ لے لے اور کھا لے اور کھا کر ہمیشہ کے لئے زندہ رہے “۔
پس اس سبب سے خداوند نے با غ عدن سے نکال دیاتاکہ اس زمین میں جواس سے لے لی گئے تھی زراعت کرے “
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا یہ تکلیف وہ افسانہ جو آج تورات میں ایک تاریخی حیثیت سے موجود ہے اس کے مطابق آدم کو بہشت سے نکلنے اور ان کے عظیم گناہ کی اصلی علت وسبب علم دانش کی طرف ان کی توجہ اور نیک وبد سے آگاہی کے لئے ا ن کی تمنا ہے۔ چنانچہ ’ ’ شجرہٴ نیک وبد “کی طرف ہاتھ نہ پھیلاتے تو ابد تک جہالت میں باقی رہ جاتے یہاں تک وہ یہ بھی نہ جا نتے کہ برہنہ ہو ناقبیح اور ناپسندیدہ فعل ہے اور ہمیشہ کے لئے بہشت میں باقی ر ہ جاتی ۔
اس لحاظ سے تو آدم کو اپنے کام پر پشیمان نہیں ہونا چاہیئے تھا کیونکہ ایسی جنت کو ہاتھ سے دینا جہاں رہنے کی شرط نیک وبد سے عدم آگاہی ہو ،اس کے مقابلے میں علم ودانش حاصل کرنا نفع مند تجارت ہے اس تجارت کے بعد آدم کیو ں حیران وپریشان ہوں۔
اس بنا ء پر تورا ت کایہ افسانہ ٹھیک قرآن کے مد مقابل قر ار پایا ہے جس کے نزدیک انسان کا مقام عظمت اور اس کی خلقت کا راز علم الاسماء سے آگاہ ہے ۔
اس کے علاوہ مذکورہ افسانے میں خداوند عالم اور مخلوقات کے بارے میں عجیب وغریب باتیں بیان کی گئیں ہیں ۔مثلاََ
( ۱ )خداکی طرف جھوٹ کی نسبت ۔۔۔ جیسے فصل دوم کا جملہ ۱۷ :
” خدا وندخدانے کہا کہ اس درخت سے مت کھانا ورنہ مرجاوٴگے-۔ “
حالانکہ انہوںنے مرنا نہیں تھا بلکہ داناوعقلمند ہوناتھا۔
( ۱۱ )خداوندعالم کی طرف بخل کی نسبت۔ جیسے فصل سوم کاجملہ ۲۲ جس کے مطابق خدانہیں چاہتا تھاکہ آدم وحواعلم وحیات کے درخت سے کھائیں اور داناوعقل مند ہوجائیں نیز ابدی زندگی حاصل کریں۔
( ۱۱۱ )خدا وند عالم کے لئے شریک کے وجود کا امکان ۔۔۔۔جیسے یہ جملہ :
آدم شجرِنیک وبد کھا نے کے بعد ہم(خداوٴں )میںسے ایک کی طرح ہوگیا ہے۔ “
خدا کی طرف حسد کی نسبت ۔۔جیسے اس جملہ سے ظاہر ہے :
” خدا وند عالم نے ا س و علم ودانش کی وجہ سے جو آدم میں پیدا ہو گئی تھی اس پر رشک وحسد کیا ۔ “
خد ا وند عالم کی طرف جسم کی نسبت ۔۔جیسے فصل سوم میں ہے ۔
” خدا وند صبح کے وقت بہشت کی سڑکوں پر خراماں خراماں چل رہاتھا “
خداوند عالم کی ان حوادث سے بے خبری جو اس کے قریب واقع ہوتے ہیں ۔۔جیسے جملہ ۹ میں ہے :
آواز دی اے آدم!کہاں ہو۔انہوں نے درختوں کے درمیان اپنے آپ کوخداوند کی آنکھ سے چھپارکھاتھا۔“ [93]
یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ یہ جھوٹے افسانے پہلے تورات میں نہ تھے بعد میںملادیئے گئے (
( ۴ )قرآن میں شیطان سے کیا مراد ہے :لفط ”شیطان “مادہ ”شطن “سے ہے اور” شاطن “کے معنی ہیں ”خبیث وپست “اور شیطا ن وجود سرکش و متمرد کو کہاجاتا ہے چاہے وہ انسان ہو یاجن یاکوئی اور حرکت کر نے والی چیز۔رو ح شریر اور حق سے دور کو بھی شیطان کہتے ہیں جو حقیقت میں ایک قدر مشترک رکھتے ہیں یہ بھی جاننا چاہیئے کہ شیطان اسم عام (اسم جنس )ہے جب کہ ابلیس اسم خاص (علم )ہے
دوسرے لفظوں میں شیطان ہر موذی ،گمراہ ،باغی اور سرکش کو کہتے ہیں وہ ا نسان ہو یاغیر انسان لیکن ابلیس اس شیطان کانام ہے جس نے آدم کو ورغلایاتھا اور اس وقت بھی وہ اپنے لاوٴ لشکرکے ساتھ اولاد آدم کے شکار کے لئے کمین گاہ میں ہے ۔
قرآن میں اس لفظ کے استعمال کے مواقع سے معلو م ہو جاتا ہے کہ شیطان موذی و مضر چیز کو کہتے ہیں ۔جو راہ راست سے ہٹ چکاہو،جو دوسروں کو آزار پہنچانے کے درپے ہو ،اختلا ف اور تفرقہ پیدا کرنا جس کی کو شش ہو اور جو اختلاف وفساد کو ہوا دیتا ہو ،جیسا قرآن میں ہے :
انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوةوالبغضاء
شیطا ن چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان دشمنی ، بغض اورکینہ پیدا کرے ۔ (مائدہ، ۹۱ )
اگر ہم دیکھیں گے کہ لفظ ”یرید “فعل مضارع کا صیغہ ہے اور استمرار اورتسلسل پر دلالت کرتا ہے تواس سے یہ معنی بھی پیدا ہوتے ہیں کہ یہ شیطان کاہمیشہ کاارادہ ہے۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں لفظ شیطان کسی خاص موجود کے لئے نہیں بولا گیا بلکہ مفسد اور شریر انسانوں تک کو شیطان کہا گیا ہے جیسے :وکذٰلک جعلنا لکل نبی ِِعدواََشیٰطین الانس والجن
اسی طرح ہر نبی کےلئے ہم نے انسانو ں اور جنوں میں سے شیطانوں کو دشمن قرار دیا ہے ۔(انعام ، ۱۱۲ )
یہ جو ابلیس کو بھی شیطان کہا گیا ہے وہ اس کی شرارت اورفساد کے با عث ہے ۔
اس کے علاوہ بعض اوقات لفظ شیطان جراثیم کے لئے بھی استعمال کیا جا تا ہے مثلاَ۔ حضر ت امیرالموٴمنین فرماتے ہیں
لاتشرب الماء من ثلمةالاناء ولامن عروتہ فان الشیطان یعقد علی العروةوالثلمة۔
برتن کے ٹوٹے ہوئے حصے اور دستے کی جگہ سے پانی نہ پیو کیونکہ دستے کی جگہ اور ٹوٹے ہوئے حصے پر شیطان بیٹھا ہوتا ہے [94]
نیز امام صادق فرماتے ہیں :
ولایشرب من اذن الکوزولامن کسرہ فان کان فیہ فانہ مشرب الشیاطین۔
دستے اور کوزے کے ٹوٹے ہو ئے مقام سے پانی نہ پیو کیو نکہ یہ شیطان کے پینے کی جگہ ہے ۔ [95]
رسول اسلام کا ارشاد ہے :
مونچھو ں کے بال بڑے نہ رکھو کیونکہ شیطان اسے اپنی زندگی کے لئے جائے امن سمجھتا ہے اور اس میں چھپ کر بیٹھتا ہے۔ [96]
اس سے ظاہر ہوا کہ شیطان کے ایک معنی نقصان دہ اور مضر جراثیم بھی ہیں لیکن واضح ہے کہ مقصد یہ نہیں لفظ شیطان تمام مقامات پر اس معنی میں ہو بلکہ غرض یہ ہے کہ شیطان کے مختلف معانی ہیں ۔ان روشن وواضح مصادیق میں سے ایک ابلیس ،اس کا لشکر اور اس کے اعوان ومددگا ر بھی ہیں اور اس کا دوسرا مصداق مفسد ،حق سے منحر ف کر نے و الے انسا ن ہیں اور بعض اوقات اذیت دینے والے جراثیم کے لئے بھی یہ لفظ آیا ہے (اس میں خوب غور کیجئے)
( ۵ )خدا نے شیطان کو کیو ںپیدا کیا ہے : بہت سے لوگ پو چھتے ہیں کہ شیطان جس کا کا م ہی گمرا ہی کر نا ہے آخر اسے کیو ں پیدا کیا گیا اور اس کے وجود کا فلسفہ کیاہے ۔اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں ۔
اول تو خدانے شیطان کو شیطان نہیںپیدا کیا یہی وجہ ہے سالہاسال تک وہ ملائکہ کا ہم نشین رہا اور پاک فطرت پر رہا لیکن پھر اس نے اپنی آز اد ی سے غلط فائد ہ اٹھا یااور بغاوت وسرکشی کی بنیا د ر کھی لہٰذ ا وہ ابتداء میں پاک وپاکیزہ پیدا کیاگیا اس کی کجروی اس کی اپنی خواہش پر ہوئی ۔
دوم یہ کہ نظام خلقت کو دیکھتے ہوئے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صاحبان ایمان اور وہ لوگ جو راہ حق پر گامزن رہنا چاہتے ہیں ان کے لئے نہ صرف یہ کہ شیطان کا وجود مضر اور نقصان دہ نہیں بلکہ ان کی پیش رفت اور تکامل کاذریعہ ہے ۔کیو نکہ ترقی اور کمال ہمیشہ متضاد چیزوں کے درمیان ہی صورت پذیر ہو تے ہیں ۔
زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب تک انسا ن طاقت ور دشمن کے مقابلے میں کھڑا نہ ہوکبھی بھی اپنی قوت واستعداد اور مہارت کو پیش نہیں کرسکتا اور نہ اسے کا م میںلا سکتا ہے یہی طا قت ور دشمن کا وجود انسان کے زیادہ تحرک اور جنبش کا سبب بنتا ہے اوراس کے نتیجے میں اسے ترقی اور کمال نصیب ہو تا ہے
معاصرین میںسے ایک بہت بڑا فلسفی “ٹو آئن بی “کہتاہے
” دنیا میںکو ئی رو شن تمدن اس وقت تک پیدانہیں ہوا جب تک کو ئی ملت کسی خارجی طاقت کے حملے کا شکار نہیں ہوئی ۔اس حملے اور یلغا ر کے مقابلے میں وہ اپنی مہارت اور ااستعداد کو بروئے کار لائی اور پھر کسی درخشاں تمدن کی د ا غ بیل پڑی ۔ “
۳۷۔فتلقی یاٰآدم من ربہ کلمٰت فتاب علیہ ط انہ ھواتواب الرحیم
۳۶۔قلنااھبطوامنھاجمیعاََ فاما یا تینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون
۳۹۔والذین کفرو اوکذبواباٰیاٰتنااولٰئک اصحٰب النار جہم فیھا خٰلدون
۳۷۔پھر آدم نے اپنے پر ودگا ر سے کچھ کلمات حا صل کئے اور (ان کے ذریعہ)توبہ کی اور خدا وندعالم نے ان توبہ قبو ل کرلی ،خداوند عالم تواب اور رحیم ہے ۔
۳۸۔ہم نے کہا سب کے سب(زمین کی طرف )اتر جاوٴ ۔جس وقت میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے گی اس وقت جولوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے لئے نہ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے ۔
۳۹۔اورجو لوگ کافر ہو جائیں گے اور ہمار ی آیات کی تکذیب کریں وہ اہل دوزخ ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔
وسوسہ ٴ ابلیس اور آدم کے جنت سے نکلنے کے حکم جیسے و اقعات کے بعدآدم متوجہ ہوئے کہ واقعاََ انہوںنے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اس اطمینان بخش اور نعمتوں سے مالامال جنت سے شیطانی فریب کی وجہ سے نکلنا پڑ ااور اب زحمت اور مشقت سے بھری ہوئی زمین میں رہیں گے ۔اس وقت آدم اپنی غلطی کی تلافی کی فکر میں پڑے اور مکمل جا ن ودل سے پروردگار کی طرف متوجہ ہوئے ا یسی توجہ جو ندامت وحسرت کاایک پہاڑ ساتھ لئے ہوئے تھی ۔اس وقت خداکا لطف وکرم بھی ان کی مدد کے لئے آگے بڑھا اور جیسا کہ قرآن مندرجہ بالا آیات میں کہتا ہے : آدم نے اپنے پرور دگار سے کچھ کلمات حاصل کئے جو بہت موٴ ثر اور انقلاب خیز ان کے ساتھ توبہ کی اور خدا نے بھی ان کی توبہ قبول کرلی(فتلقیٰ آدم من ربہ کلمات فتاب علیہ ) کیونکہ وہ تواب اور رحیم ہے
” توبہ“کے اصلی معنی ہیں ”باز گشت “اور قر آن کی زبان میں گناہ سے واپسی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔یہ اس صورت میں ہے جب توبہ کا لفظ کسی شخص گنہگار کے لئے استعمال کیا جائے لیکن کبھی کبھی یہ لفظ اللہ کی طرف بھی منسوب ہوتاہے وہاں اس کا مفہو م ہے رحمت کی طرف بازگشت ،یعنی وہ رحمت جو ارتکاب گناہ کی وجہ سے بندے سے سلب کرلی گئی تھی ۔اب اطاعت وبندگی کے راستے کی طرف اس کی واپسی کی وجہ سے اسے لوٹا دی جاتی ہے ا سی لئے خدا کے لئے تواب (بہت زیادہ رحمت کی طرف لوٹنے والا )کا لفظ استعمال کیا جا تا ہے ۔
بہ الفاط دیگر توبہ خدا اور بندے کے درمیان ایک لفظ مشترک ہے ۔جب یہ صفت بندوں کے لئے ہو تو اس کامفہو م ہوتا ہے کہ وہ خدا کی طرف پلٹتے ہیں کیونکہ ہر گنا ہ کرنے والا در اصل اپنے پر وردگار سے بھا گتا ہے اور پھر جب وہ توبہ کرتا ہے تو اس کی طرف لوٹ آتا ہے ۔گناہ کے وقت خدا بھی ان سے منہ موڑ لیتا ہے اور جب یہ صفت خد اکے لئے استعمال ہو تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ وہ ا پنے لطف ، ورحمت اور محبت کی نظر ان کی طرف لوٹادیتا ہے [97]
یہ صحیح ہے کہ حضرت آدم نے حقیقت میں کوئی فعل حرا انجام نہیں دیاتھا لیکن یہی ترک ِاولی ٰان کے لئے نافرمانی شمار ہوتا ہے ۔وہ حضرت فوراََاپنی کیفیت وحالت کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے پروردگار کی طرف پلٹے ۔
” کلمات“سے کیا مراد ہے ،اس کے بارے میں اس بحث کے اختتام پر گفتگو کریں گے۔
بہر حال جو کچھ نہیں ہونا چاہیئے تھا وہ ہوا اور با وجودیکہ آدم کی تو بہ قبو ل ہوگئی لیکن اس کا اثر وضعی یعنی زمین کی طرف اتر نایہ متغیر نہ ہوا ۔جیسا کہ مندر جہ بالا آیا ت کہتی ہیں :ہم نے ان سے کہا کہ تم سب (آدم وحوا )زمین کی طرف اتر جاوٴ ۔جب تمہیں ہماری طرف سے ہدایت پہنچے اس وقت جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے لئے خوف ہے نہ وہ غمگین ہو ں گے (وقلنا اھبطوامنھا جمیعاِِ فاما یا تینکم منی ھدی فمن اتبع ھدای ولا خوف علیھم فلا ھم یحزنون )۔
لیکن جو لوگ کافر ہو گئے اور انہونے ہماری آیات کی تکذیب کی وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ میں رہیں گے (والذین کفرواوکذبوا باٰیاٰتنااولٰئک اصحاب النارھم فیھا خٰلدون)
( ۱ )خدانے جو کلما ت آدم پر القا کئے وہ کیا تھے :توبہ کے لئے جو کلمات خدا نے آدم کو تعلیم فرمائے تھے اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان ا ختلا ف ہے
مشہور ہے کہ وہ جملے یہ تھے جو سورہ اعراف آیہ ۲۳ میں ہیں :
قالا ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنالنکونن من الخاسرین
ان دونو ں نے کہا خدایا!ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے ا گر تو نے ہمیںنہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم زیاکاروں اور خسارے میں رہنے والو ں میں سے ہو جائیں گے ۔
بعض کہتے ہیں کلمات سے مراد یہ دعا وزاری تھی :
اللھم لاالٰہ الا انت سبحٰنک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فاغفر لی انک خیر الغافرین
اللہم لاالٰہ الا انت سبحٰنک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیرالراحمین
اللہم لاالٰہ الا انت سبحنک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم ۔
پرور دگارا !تیرے سوا کوئی معبود نہیں ،تو پاک ومنزہ ہے میںتیری تعریف کرتا ہوں میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے مجھے بخش دے کہ تو بہترین بخشنے والا ہے
خدایا !تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ، توپاک ومنزہ ہے ،میں تیری تعریف کر تا ہوں ،میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے ،تو مجھ پر رحم فرما کہ تو بہترین رحم کر نے والاہے
بارالٰہا !تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ومنزہ ہے میں تیری حمد کرتا ہوں ،میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اپنی رحمت کو میرے شامل حال قرار دے اور میری توبہ قبول کرلے کہ تواب ورحیم ہے ۔
امام محمد باقر سے منقول ایک روایت میں بھی یہ موضوع اسی طر ح وارد ہو اہے،
اسی قسم کی تعبیرات قرآن کی دوسری آیات میں حضرت یونس وموسی کے بارے میں بھی ہیں :
حضرت یونس خدا سے بخشش کی درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں
سبحٰنک انی کنت من الظالمین
خدایا !تو پاک ہے ،میں ان میںسے ہوں جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے ۔(انبیاء ۔ ۸۷ )
حضرت موسٰی کے بارے میں ہے :
قال رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی فغفرلہ
انہو ں (حضرت موسٰی) نے عرض کیا :پروردگارا!میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے مجھے بخش دے اور خدا نے انہیں بخش دیا (القصص۔ ۱۶ )
کئی ایک روایا ت جو طرق اہل بیت سے منقول ہیں میں ہے کہ کلمات سے مراد خداکی بہترین مخلوق کے ناموں کی تعلیم تھی (یعنی محمد ،علی فاطمہ ،حسن ،حسین علیھم السلام اور آدم نے ان کلمات کے وسیلے سے درسگاہ الٰہی سے بخشش چاہی اور خدانے انہیں بخش دیا
یہ تین قسم کی تفاسیر ایک دوسرے سے اختلاف نہیں رکھتیں کیونکہ ممکن ہے کہ حضرت آدم کو ان سب کلمات کی تعلیم دی گئی ہو تاکہ ان کلمات کی حقیقت اور باطنی گہر ائی پر غو ر کر نے سے آدم میں مکمل طور پر انقلاب روحانی پیدا ہو اور خدا انہیں اپنے لطف وہدایت سے نوازے ۔
( ۲ )لفظ ”اھبتوا“ کاتکرار کیوں: زیر بحث اور ان سے پہلی آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ توبہ سے پہلے اوربعد بھی حضرت آدم اور ان کی زوجہ حوا کو خطاب ہوا کہ زمین کی طرف اتر جاوٴ ۔یہ تکرار آیا تا کید کے لئے ہے یا کسی اور مقصد کی طرف اشارہ ہے ۔اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے
لیکن ظاہر ہے کہ دوسری مرتبہ یہ لفظ اس واقعیت وحقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کہیں آدم یہ گمان نہ کریں کہ ان کی توبہ قبول ہو جانے کے بعد زمین کی طرف اتر نے کا حکم بھی واپس لے لیا گیا ہے بلکہ انہیں اس راستے کی طرف ہر حال میں جانا ہے یا اس لحاظ سے کہ در اصل وہ پیدا ہی اس مقصد کے لئے ہوئے تھے یاپھر اس نظر سے کہ یہ اترنااس عمل کا وضعی ہے اور یہ توبہ سے نہیںبدلا۔
( ۳ ) ” اھبتوا“ میں کون مخاطب ہیں ”اھبتوا“صیغہ جمع کے ساتھ آیا ہے جب کہ آدم وحوا جو اس گفتگو کے اصلی مخاطب ہیں وہ دو سے زیادہ نہیں ہیں لہٰذا انکے لئے تثنیہ کا صیغہ آنا چاہیئے تھا لیکن اس بناء پر جمع کا صیغہ آیا کہ آدم وحواکے زمین پر اتر نے کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی نسل کو بھی زمین میں رہنا تھا لہٰذا جمع کا صیغہ لایا گیا ہے۔
۴۰۔یٰبنی اسرائیل اذکروانعمتی التی انعمت علیکم واوفوابعھدی اوف بعھدکم وایای فارھبون
ترجمہ
۴۰۔اے اولاد اسرئیل !جو نعمتیں میں نے تمہیں عطا کی ہیں انہیں یا درکھو اور میرے ساتھ جو تم نے عہد وپیما ن با ندھا ہے ۔اسے پورا کرو تاکہ میں بھی تمہارے ساتھ کئے ہو ئے عہد و پیما ن کو پو را کروں (اور ذمہ داری کی انجام دہی نیز عہد وپیمان کی پابندی میں )صرف مجھ سے ڈراکرو۔
تفسیر
خدا کی نعمتوں کو یاد کرو
زمین پر خلافت آدم کی داستان ۔ملائکہ کی طرف سے ان کی تعظیم کا واقعہ ،آدم کا عہدوپیما ن الٰہی کو بھول جانے کا ذکر اور پھر ان کی توبہ کا تذکرہ یہ سب کچھ ہم گذشتہ آیا ت میں پڑھ چکے ہیں ۔
اس و اقعے سے یہ حقیقت و اضح ہوئی کہ اس دنیا میں ہمیشہ دو مختلف طاقتیں ،حق و باطل ایک دوسرے سے بر سر پیکا ر ہیں جس شخص نے شیطان کی پیروی کی اس نے باطل کی راہ کو انتخاب کیا جس کا انجام ہے جنت اور جہنم سے دوری اور رنج وتکلیف میں مبتلا ہو نااوراس کے بعد پشیمانی ہے ۔اس کے خلاف جو فرمان خداوندی کی راہ پر چلتا رہا اور اس نے شیاطین اور باطل پرستوں کے وسوسوں کی پرواہ نہ کی وہ پا ک وپاکیزہ اور رنج وغم سے آسودہ زندگی بسرکرے گا ۔
بنی اسرئیل نے فر عونیوں کے چنگل سے نجات پائی ، زمین میں خلیفہ ہوئے پھر پیمان الٰہی کو بھو ل گئے اور دوبارہ رنج وبد بختی میں پھنس گئے چونکہ یہ واقعہ حضر ت آدم کے واقعے سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا ہے اسی اصل کی ایک فرع شمار ہو تا ہے لہٰذ اخداوند عالم زیر بحث اور اسکے بعد دسویں آیت میں بنی اسرائل کے مختلف نشیب وفراز اور ان کی سر نوشت بیان کرتا ہے تاکہ وہ ترتیبی درس جو سر نوشت آدم سے شروع ہو اتھاان مباحث میں مکمل ہوجائے ۔
بنی اسرایل کی طرف ا س طرح ر وئے سخن ہے :اے بنی اسرائیل !ہماری ان نعمتون کو یاد کروجو ہم نے تمہیں بخشی ہیں اورمجھ سے کیا ہوا عہد پورا کرو تاکہ میں بھی تم سے کئے ہوئے عہد سے وفا کروں اور صرف مجھ سے ڈرو(یابنی اسرائیل اذکروانعمتی التی انعمت علیکم واوفوبعہدی اوف بعہدکم وایای فارھبون)۔
در حقیقت یہ تین دستور او راحکا م کی (خداکی عظیم نعمتوں کو یاد کرنا ،عہد پرور دگار کو پورا کرنااور اس کی نافرمانی سے ڈرنا )خدا کے تمام پروگر ا موں کی تشکیل کرتے ہیں ۔
اس کی نعمتوں کو یاد کرنا ۔انسا ن کو اس کی معرفت کی دعوت دیتا ہے اور انسان میں شکر گزاری کا احساس ابھار تا ہے اس کے بعد اس نکتے کی طرف توجہ کی یہ نعمتیں بغیر کسی شر ط و قید کے نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ خدانے عہد وپیمان لیا ہے یہ انسا ن اس کی الٰہی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتاہے اور اس کا انجام یہ ہے کہ انسان ذمہ داری کی راہ میں کسی شخص یا ہستی سے نہ ڈرے ۔یہ سبب بنتا ہے کہ انسان اس راستے کی تمام رکا وٹوں کو دور کر دے اور اپنی ذمہ داریوں اور عہد وپیمان کو پوراکرے کیونکہ اس راستے کی اہم رکاوٹوں میں سے ایک بلا وجہ اِس سے اور اس سے ڈرنا ہے خصوصا بنی سرئیل جو سالہاسال تک فرعون کے زیر تسلط رہے تھے ۔خوف ان کے بدن کا جزء بن چکا تھا۔
( ۱ )یہودی مدینہ میں :یہ بات قابل غور ہے کہ بعض مئورخین ِ قرآن کی تصریح یہ ہے کہ سورہ بقرہ پہلی سورت ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی ۔ اس کا اہم حصہ یہودیوں کے بارے میں ہے کیونکہ اہل کتا ب کے پیروکاروں کی زیادہ مشہور جماعت وہاں پر یہودیوں ہی کی تھی ۔ وہ ظہور پیغمبر سے پہلے اپنی مذہبی کتب کی روشنی میں اس قسم کے ظہور کے منتظر تھے اور دوسرں کو بھی اس کی بشارت دیتے تھے ۔ اقتصادی حالت بھی ان کی بہت ااچھی تھی خلاصہ یہ کہ مدینہ میں ان کا گہرا اثر ورسوخ تھا ۔
جب اسلام کا ظہور ہوا تو اسلام ان کے غیر شرعی منافع کے راستون کو بند کرتا تھا اور ان کے غلط رویوں او ر خود سری کو روکتا تھا ۔ان میں اکثر نے نہ صرف یہ اکہ اسلا م کی دعوت کو قبول کیا بلکہ علی الاعلان اور پوشیدہ طور پر اس کے خلا ف صف آراء ہوگئے ۔چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اسلام سے ان کا یہ مقابلہ ابھی تک جاری ہے ۔
مندرجہ بالا اور اس کے بعد کی آیات نازل ہوئیں اورسخت ترین سر زنشوں کے تیر یہودیو ں پر چلائے گئے اور ان کی تاریخ کے حساس حصو ں کو اس باریکی کے ساتھ ذکر کیا گیا کہ جس نے ان کو ہلاکررکھ دیا ان میںسے جو بھی تھو ڑی سی حق جوئی کی روح رکھتا تھا وہ بیدار ہو کر اسلام کی طرف آگیا علاوہ ازیں مسلمانوں کے لئے بھی یہ ایک ترتیبی درس تھا ۔
انشاء اللہ آنے والی آیات میں آپ بنی اسرائیل کے نشیب وفرازپڑھیں گے جس میں ان کافرعون کے چنگل سے نجات پانا ،دریا کا شق ہونا،فرعون اور فرعونیون کا غرق ہو نا ،کوہِ طور حضرت موسی ٰکی وعدہ گاہ ،حضرت موسیٰ کی غیبت کے زمانے میںبنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی ،خونی توبہ کاحکم ،خداکی مخصوص نعمتو ں کاان پر نزول اور اس کے دیگر واقعات جن میں سے ہرایک واقعہ اپنے اندر ایک یا کئی عبر تناک درس لئے ہو ئے ہے ۔
( ۲ )یہودیوں سے خدا کے بارہ معاہدے: جس طرح آیات قر آنی سے ظاہرہوتا ہے :وہ معاہد ے یہ تھے :ایک اکیلئے خدا کی عبادت کرنا،ماں باپ ،عزیز واقارب ،یتیموں اور مدد طلب کرنے والوں سے نیکی کر نا ،لوگو ں سے اچھا سلوک کرنا ،نماز قائم کرنا ،زکوٰةدینا اور اذ یت وآزاری اور خون ریزی سے دور رہنا ۔
اس با ت کی شاہد اسی سورہ کی آیت ۸۳ اور ۸۴ ہے ۔
واذاخذنامیثاق بنی اسرائیل لاتعبدون الااللہ وباالٰولدین احسان وذی القربی ٰوالیتٰمی ٰوالمساکین وقولوا للناس حسناواقیموالصلٰوة واٰتوالزکٰوة۔۔۔واذااخذنامیثا قکم لا تسفکون دماء کم ولاتخرجون انفسکم من دیارکم ثم اقرتم وانتم تشہدون
در اصل یہ دو آیات د س معاہدو ں کی نشان دہی کرتی ہیں جو خدا نے یہودیوں سے کئے تھے اورسو رہ مائدہ کی آیت ۱۲ جو یہ ہے :
ولقد اخذاللہ میثاق بنی اسرائیل ۔۔۔۔۔وقال اللہ انی معکم ط لئن اقمتم الصلٰوة واٰتیتم الزکٰوةواٰمنتم برسلی وعزرتموھم۔
اس میںسے دوسرے عہد وپیمان جن میں انبیاء پر ایمان لانا اور انہیں تقویت پہنچانا شامل ہیں ظاہر ہو تے ہیں ۔
اس سے واضح ہو تا ہے کہ انہو ں نے خدا کی بڑی بڑ ی نعمتیں کچھ معاہدو ں کی بنیا د پر حاصل کی تھیں اور ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر ان معاہدوں کے وفادار ہوگے تو تمہیں جنت کے با غوں میں بھی جگہ دی جا ئے گی جس کی نہریں اس کے قصروں اور درختوں کے نیچے جا ری ہوں گی :
لادخلنکم جنا ت تجری من تحتھا الانھٰر
بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے آخر کار یہ عہد وپیمان پاؤں تلے روند ڈالے اور اب اس زمانے میں بھی اپنی پیمان شکنی جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں وہ منتشر و پرو گندہ ہیں اور در در کی ٹھوکریں کھا تے پھرتے ہیں اور جب تک ان کی یہ پیمان شکنیاں جاری رہیں گی ، ان کی یہ کیفیت بھی جاری رہے گی یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ دوسروں کی پناہ میں نشو نما پارہے ہیں تو یہ ہرگز ان کی کامیابی کی دلیل نہیں اور ہم اچھی طرح سے دیکھ رہے ہیں کہ جس دن اسلام کے غیور بیٹے اور قومی رجحانات و میلانات سے دور ہو کر صرف قرآن کے سائے میں اٹھ کھڑاے ہوئے وہ اس شور اور ہنگامے کو ختم کرکے رکھ دیں گے۔
( ۴ )خدا بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا : خدا کی نعمتیں کبھی قید اور شرط کے بغیر نہیں ہوتیں اور ہر نعمت کے پہلو میں ایک ذمہ دار ی اور شرط پنہاں ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں :
اوف بعھدکم سے مراد یہ ہے کہ اپنے عہد کو پورا کروں گا اور تمہیں جنت میں لے جاؤں گا ۔
اس حدیث کے ایک حصے میں ولایت علی پر ایمان لانا بھی اس عہد کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ بنی اسرائیل کے عہد وپیمان کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ وہ انبیاء خدا کی رسالت پر ایمان لائیں گے اور ان کو تقویت پہنچائیں گے ۔
ہم جانتے ہیں کہ ان کے جانشینوں کو بھی ماننا اسی مسئلہ رہبری و ولایت کا ضمیمہ ہے جو ہر زمانے میں اس کی مناسبت سے تحقیق پذیر ہوتا رہا ہے ۔ حضرت مو سیٰ کے زمانے میں اس منصب پر فائز خود حضرت موسیٰ تھے ۔ اور نبی اکرم کے زمانے میں خود آنحضرت ہی تھے اور بعد والے زمانے میں حضرت علی ۔
ضمنی طور پر جملہ ایای فارھبون ( صرف میری سزا سے ڈرو ) اس امر کی تاکید ہے کہ خدا سے ایفائے عہد اور اطاعت ِ احکام کی راہ میں میں کسی چیز اور کسی شخص سے خوف و وحشت نہیں ہونی چاہیئے ۔ لفظ ایای فارھبون سے مقدم ہے سے یہ مطلب حاصل ہوتا ہے۔
( ۵ )حضرت یعقوب کی اولاد کو بنی اسرائیل کیوں کہتے ہیں : حضرت یعقوب جو حضرت یوسف کے والد تھے ان کا ایک نام ” اسرائیل “ بھی ہے ۔حضرت یعقوب نے اپنا یہ نام کیوں رکھا تھا ۔ اس سلسلہ میں غیر مسلم مئورخین نے ایسی باتیں لکھی ہیں جو خرافات کا پلندہ ہیں جیسے ” کتاب مقدس “ میں لکھا ہے :
اسرائیل کا معنی وہ شخص ہے جو خدا پر غالب اور کامیاب ہو گیا ہو “
وہ مزید لکھتا ہے :
” یہ لفط یعقوب بن اسحاق کا لقب ہے جنہیں خدا کے فرشتوں نے کشتی لڑتے وقت یہ لقب ملا تھا “
اسی کتاب میں یہ لفظ یعقوب کے نیچے لکھا ہے :
” جب انہوں نے اپنے اثبات و استقا مت ایمان کو ظاہر کیا تو خدا وند نے اس کا نام بدل کر اسرائیل رکھ دیا اور وعدہ کیا کہ وہ عوام کے گروہوں کے باپ ہوں گے ۔ خلاصہ یہ کہ وہ انتہائی کمال کے ساتھ اس دنیا سے گئے اور دنیا کے کسی بادشاہ کی طرح دفن نہ ہوئے اور اسم یعقوب و اسرائیل ان کی پوری قوم کے لئے بولا جاتا ہے “
لفظ ”اسرائیل “ کے ذیل میں لکھتاہے :
اس نام کے بہت سے موارد ہیں چنانچہ کبھی اس سے مراد نسل اسرائیل و نسل یعقوب بھی ہوتی ہے۔ [98]
علماء اسلام اس سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں مثلاََ مشہور طبرسی مجمع البیان میں لکھتے ہیں :
” اسرائیل وہی فرزند اسحاق بن ابراہیم ہیں “
وہ لکھتے ہیں :’
’ اس ، کے معنی عبد ، اور ئیل ، کے معنی ، اللہ ، لہذا ، اسرائیل ، کے معنی ، عبداللہ ، یعنی اللہ کا بندہ “
واضح ہے کہ اسرائیل کی فرشتوں سے کشتی لڑنے کی داستان جیسے کہ تحر یف شدہ تورات میں اب بھی موجود ہے ایک خود ساختہ اور بچگانہ کہانی ہے جو آسمانی کتاب کی شان سے بعید ہے اور یہی داستان موجودہ تورات کے تحریف شدہ ہونے کی دلیل و مدرک ہے۔
۴۱۔وآمنو ابما انزلت مصد قا لما معکم ولاتکو نوآاول کافر بہ ولاتشترواباٰیٰتی ثمناقلیلاوایای فاتقون
۴۲۔ ولاتلبسواالحق باالباطل وتکتمواالحق وانتم تعلمون
۴۳۔ واقیموا الصلاةواتوالزکٰوةوارکعوا مع الرٰکعین
۴۱ ۔وآمنو ابما انزلت مصد قا لما معکم ولاتکو نوا اول کافر بہ ولاتشترواباٰیٰتی ثمناقلیلاوایای فاتقون
42- ولاتلبسواالحق باالباطل وتکتمواالحق وانتم تعلمون
43- واقیموا الصلاةواتوالزکٰوةوارکعوا مع الرٰکعین
ترجمہ
۴۱۔جو کچھ میں نے نازل کیا ہے (قرآن)اس پر ایما ن لے آوٴ جب کہ اس کی پیش کر دہ نشانیاںجو کچھ تمہاری کتابوںمیں ہے اس سے مکمل مطابقت رکھتی ہیں اور اب تم اس کے پہلے منکر نہ بنو اور میری آیا ت کو کم قیمت پر فروخت نہ کرو ،تھوڑ ی سی آمدنی کے لئے ان نشانیوں کو مت چھپاوٴ(جو قرآن اور پیغمبر اسلام کے متعلق تمہاری کتابوں میں مو جود ہیں ) اور (لوگوں سے ڈرنے کے بجائے )صرف مجھ سے (میرے احکام کی نافرمانی کرتے ہوئے )ڈرو ۔
۴۲۔اور حق کو باطل سے نہ ملاوٴ اور حقیقت جاننے کے باجود نہ چھپاوٴ۔
۴۳۔اور نماز قائم کرو زکٰوة ادا کرو اور رکوع کرنے والوں ساتھ رکوع کرو( یعنی نماز جماعت کے ساتھ پڑھو )۔
زیرنظرآیات میںسے شروع کی آیتوں کے بارے میں بعض بزرگ مفسرین نے امام محمدباقرسے یوںنقل کیا ہے :
حی بن احطب ، کعب بن اشرف اوور یہودیوں کی ایک جماعت کے لئے یہودیوں کی طرف سے ہر سال ایک زرق برق دعوت کا احتمام کیا جاتا تھا ۔ یہ لوگ خوف زدہ تھے کہ کہیں رسول اسلام کے قیام کی وجہ سے یہ چھوٹا سا فائدہ جاتا نہ رہے اس وجہ سے او ر کچھ دیگر وجوہ کی بنا ء پر ) انہوں نے تورات کی ان آیات میں تحریف کردی جو اوصاف پیغمبر کے بارے میں تھیں یہ وہی ”ثمن قلیل “ اور کم قیمت ہے جس کی طرف قرآن نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے [99]
خدا نے یہودیوں سے جو پیمان لئے تھے ان میں انبیاء الٰہی پر ایمان لانا اور ان کے فرامین کی اطاعت کرنا بھی شامل تھا ۔
زیر نظر تین آیات میں ان احکام و قوانین کے نو حصوںکی نشاندہی کی گئی ہے جو یہودیوں کو دیئے گئے تھے ۔
پہلا یہ کہ ان آیات پر ایمان لاؤ جو پیغمبر اسلام پر نازل ہوئی ہیں جب کہ یہ آیات ان اوصاف سے ہم آہنگ ہیں جو تمہاری توریت میں موجود ہیں ( وآمنو بما انذلت مصدقالما معکم)۔
قرآن اس کتاب کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس موجود ہے یعنی وہی بشارتیں جو تورات اور گذشتہ انبیاء نے اپنے پیروکار کو دی ہیں اور بتایا ہے کہ ان اوصاف کا نبی ظہور کرے گا اور اس کی آسمانی کتاب ان خصوصیات کی حامل ہوگی ۔ اب تم دیکھ رہے ہو کہ اس پیغمبر کی صفات اور قرآن پاک کی خصوصیات ان بشارتوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں جو تمہاری کتب میں موجود ہیں ۔ اس ہر قسم کی مطابقت کے بعد اب تم کیوں اس پر ایمان نہیں لاتے ۔
پھر کہا گیا ہے کہ تم آسمانی کتاب کا انکار کرنے والوں میں پہل نہ کرو( ولا تکونو اول کافر بہ)۔
اگر مشرک اور عرب کے بت پرست کافر ہوجائیں تو زیادہ تعجب کی بات نہیں تعجب تو تمہارے کفر و انکار پر ہے اور مخالفت میں پہل کے لحاظ سے تم پیش پیش بھی ہو جب کہ تم ان کی زیادہ اطلاعات رکھتے ہو اور اہل کتاب بھی ہو ۔اس قسم کے پیغمبر کے بارے میں تمہاری آسمانی کتب میں سب بشار تیں دی جاچکی ہیں ۔ اسی بناء پر تو تم ان کے ظہور سے پہلے ان کے بارے میں منادی کیا کرتے تھے ۔ اب کیا ہو گیا ہے کہ بجائے اس کے کہ ان کے ظہور کے بعد تم ان پر ایمان لانے والوں میں پہل کرتے تم نے کفر میں پہل کی ہے ۔ بہت سے یہودی اصولی طور پر لیچڑ قسم کے تھے اور اگر ان میں یہ ضدی پن نہ ہوتا تو بظاہر انہیں دوسروں کی نسبت پہلے ایمان لانا چاہیئے تھا ۔
تیسری بات یہ ہے کہ تم میری آیات کو کم قیمت پر فروخت نہ کرو اور ایک سالانہ دعوت سے اس کا تقابل نہ کرو ( ولا تشتروا با ٰیتیٰ ثمنا قلیلا)۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا کی آیات کو کسی قیمت پر بھی نہیں بیچنا چاہیئے چاہے کم ہو یا زیادہ لیکن یہ جملہ حقیقت میں ان یہودیوں کی کم ظرفی کی نشاندہی کرتا ہے جنہوں نے چھوٹے چھوٹ منافع کے لئے ہر چیز کو بھلا دیا اور وہ لوگ جو پیغمبر اسلام کے قیام اور ان کی آسمانی کتا ب کے بارے میں بشارت دیا کرتا تھے جب اپنے منافع کو خطرے میں دیکھا تو سب بشارتوں کا انکار کرنے لگے اور آیات تورات میں تحریف کردی کیونکہ وہ سمجھنے لگے تھے کہ اگر لوگوں کو حقیقت حال کا علم ہوگیا تو ان کی سرداری کا محل زمین بوس ہوجائے گا ۔
اصولا یہ پوری دنیا بھی اگر کسی کو ایک آیت الہٰی کے انکار کے بدلے دے دی جائے تو واقعا یہ قیمت بہت تھوڑی ہے ۔
کیونکہ یہ زندگی تو بہر حال نابود ہونے والی ہے اور آخرت ابدی اور دائمی ہے لہذا ایک انسان کس طرح ان آیات الہٰی کو حقیر فوائد پر قربان کردے۔
چوتھا حکم ہے کہ صرف مجھ سے ڈرو ( و ایای فاتقون )۔
اس بات سے نہ ڈرو کہ تمہاری روزی منقطع ہوجائے گی اور اس سے بھی نہ ڈرو کہ یہودیوںکی متعصب جماعت تم سرداروں کے خلاف قیام کرے گی بلکہ صرف مجھ سے یعنی میرے حکم کی مخالفت سے ڈرو ۔
پانچواں حکم ہے کہ حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو تاکہ کہیں لوگ اشتباہ میں نہ پڑ جائیں ( ولاتلبسو الحق بالباطل )۔
چھٹے فرمان میں حق کو چھپانے سے منع کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حق کو نہ چھپاؤ جب کہ تم اسے جانتے اور اس سے آگاہ ہو ( وتکتمو ا الحق و انتم تعلمون )۔
جس طرح حق کو چھپانا جرم اور گناہ ہے اسی طرح حق کو باطل سے ملانا اور ایک دوسرے سے مخلوط کرنا بھی حرام اور گناہ ہے کیونکہ نتیجے کے اعتبار سے دونوں عمل برابر ہیں ۔ حق بات کرو چاہے تمہارے لئے نقصان دہ ہو اور باطل کو حق سے نہ ملاؤ چاہے تمہارے جلد ضائع ہوجانے والے منافع خطرے میں پڑ جائیں ۔
آخر میں ساتویں ، آٹھویں اور نویں حکم کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے : نماز قائم کرو ، زکوٰة ادا کرو اور خصوصاََ اجتماعی عبادت کو فراموش نہ کرتے ہوئے رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو (وا اقیمو ا الصلوٰة و آتو الذکوٰة وارکعو ا مع الراکعین )۔
آخری حکم اگرچہ با جماعت نماز کے بارے میں ہے لیکن نماز کے تمام افعال میں سے صرف رکوع کو بیان کرتے ہوئے کہنا کہ رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ ، شاید اس بناء پر کہ یہودیوں کی نماز میں رکوع بالکل نہیں یہ صرف مسلمانوں کی نماز ہے جس کے بنیادی ارکان میں رکوع شامل ہے ۔
یہ بات قابل غور ہے کہ یہ نہیں کہا گیا کہ نماز پڑھو بلکہ : اقیموا لصلوٰة( نماز قائم کرو ) یعنی فقط یہ نہ ہو کہ تم نماز پڑھتے رہو بلکہ ایسا کرو کہ آئین نماز معاشرے میں قائم ہوجائے اور لوگ عشق و وارفتگی کے ساتھ اس کی طرف جائیں ۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ” اقیموا “اس طرف اشارہ ہے کہ تمہاری نماز صرف اذکار و اوراد ہی نہ ہو بلکہ اسے پورے طور پر قائم کرو جس میں سے سب سے اہم قلبی توجہ ، دل کا بارگاہ خدا میں حاضر ہونا اور نماز کا انسان کی روح اور جان پر اثر انداز ہونا ہے [100]
در حقیقت ان آخری تین احکام کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ پہلا فرد کا خالق سے رشتہ بیان کرتا ہے ، ( یعنی نماز ) دوسرا مخلوق کا مخلوق سے ناتا قائم کرتا ہے ( یعنی زکٰوة )اور تیسرا سب لوگوں کا خدا سے تعلق ظاہر کرتا ہے ۔
) ۱ ( کیا قرآن تورات اور انجیل کے مندرجات کی تصدیق کرتا ہے : قرآن مجید کی متعدد آیات میں یہ بات نظر سے گزرتی ہے کہ قرآن گذشتہ کتب کے مندرجات کی تصدیق کرتا ہے محل بحث آیات میں ہے ”مصدقا لما معکم “اور سورہ کی آیات ۸۹ اور ۱۰۱ میں ہے :
مصدق لما معھم
نیز سورہ مائدہ کی آیت ۴۸ میں ہے :
و انزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب
ہم نے آپ پر حق کے ساتھ کتاب نازل کی یہ کتاب اپنے سے پہلے والی آسمانی کتب کی تصدیق کرتی ہے ۔
ان آیات کو علماء یہود و نصاریٰ کی ایک جماعت تورات اور انجیل کے عدم تحریف کی سند قرار دیتی ہے ۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے زمانے کی تورات اور انجیل میں اور موجودہ تورات اور انجیل میں مسلماََ کوئی فرق نہیں اگر تورات اور انجیل میں تحریف ہوئی ہوتی تو یہ زمانہ پیغمبر سے پہلے کی بات ہوتی لیکن قرآن نے چونکہ اس تورات اور انجیل کے صحیح ہونے کی تصدیق کی ہے جو آنحضرت کے زمانے میں موجود تھی لہذا ہمیں چاہیئے کہ ان کتب کو غیر محرف آسمانی کتب کی حیثیت سے رسمی طور پر قبول کر لیں ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کی مختلف آیات گواہی دیتی ہیں کہ انہی تحریف شدہ کتابوں میں جو اس وقت یہود و نصاریٰ کے پاس تھیں پیغمبر اسلام اور ان کے دین کے متعلق نشانیاں موجود تھیں ۔ یہ مسلم ہے کہ ان آسمانی کتب میں تحریف کا مطلب یہ نہیں کہ موجودہ کتب پوری کی پوری باطل اور خلاف واقع ہیں بلکہ یقینی طور پر ان سب میں حقیقی تورات اور انجیل کاکچھ حصہ موجود تھا اور موجود ہے اور پیغمبر اسلام کے بارے میں انہی یا دیگر مذہبی کتب میں نشانیاں موجود تھیں جو یہود و نصاریٰ کے پاس تھیں ( آج بھی ان میں کچھ ایسے ارشادات موجود ہیں ) اس لحاظ سے پیغمبر کا قیام ، آپ کی دعوت اور آپ کی آسمانی کتاب عملی طور ان تمام نشانیوں کی تصدیق کرتے تھے کیونکہ ان کے مطابق تھے ۔
لہذا قرآن کی تورات اور انجیل کی تصدیق کرنا ان معنی میں ہے کہ نبی اکرم کی نشانیاں ، آپ کی دعوت اور آپ کا قیام جو قرآن میں موجود ہے ان نشانیوں کے مطابق ہے جو تورات اور انجیل میں ہیں ۔
تصدیق مطابقت کے معنی میں قرآن مجید کے دیگر مقامات پر بھی استعمال ہوا ہے ۔
مثلاََ سورہ الصٰفٰت ، آیہ ۱۰۵ میں ابراہیم سے فرمایا گیا ہے :
قدصدقت الرء یا
آپ نے خواب کی تصدیق کردی
یعنی آپ کا عمل اس خواب کے مطابق ہے جو آپ نے دیکھا تھا ۔
سورہ اعراف ، آیہ ۱۵۷ میں ہے :
الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عند ھم فی التوراة والانجییل ․․․․․․
یہاں یہ حقیقت صراحت سے بیان ہوئی ہے یعنی ”جو اوصاف وہ دیکھ رہے ہیں وہ اس کے مطابق ہیں جو انہوں نے تورات انجیل میں پائے ہیں ․․․․ “
دوسری آیات میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت کی نشانیاں ان گذشتہ کتب میں دیکھی گئی ہیں اور زیر بحث آیت جس کی تفسیر ہم پڑھ چکے ہیں یہ بھی اس حقیقت کی شاہد ہے اور وہاں ہم بتا چکے ہیں کہ تھوڑی سی چیز کی خاطر یہاں تک کہ ایک دعوت کے لئے انہوں نے صفات پیغمبر کے بارے میں تحریف کردی ۔
بہر حال مندرجہ بالا آیات میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ قرآن اور رسول نے عملی طور پر اپنی حقانیت کی ان نشانیوں کی تصدیق کی جو گذشتہ کتب میں موجود تھیں اور اس کے لئے کوئی معمولی سی دلیل بھی موجود نہیں کہ ان آیات نے تورات اور انجیل کے تمام مندرجات کی تصدیق کر دی ہے جبکہ اس کے بر خلاف قرآن مجید کی کئی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ان لوگوں نے تورات اور انجیل میں تحریف کردی تھی اور یہ خود ہماری گذشتہ گفتگو کا ایک زندہ شاہد ہے ۔
۱ ) فخر الاسلام جو کتاب انیس الاعلام کے موٴلف ہیں علماء نصاریٰ میں سے تھے ۔ انہوں نے اپنی تعلیم عیسائی پادریوں اور علماء ہی میں مکمل کی تھی اور ان کے ہاں ایک بلند مقام پیدا کیا تھا وہ اس کتا ب کے مقدمے میں اپنے مسلمان ہونے کے عجیب و غریب واقعے کو اس طرح بیان کرتے ہیں :
بڑی جستجو ، زحمتوں اور کئی ایک شہر وں میں گردش کے بعد میں ایک عظیم پادری کے پاس پہنچا جو زہد و تقویٰ میں ممتاز تھا ۔ کیتھولک فرقے کے بادشاہ وغیرہ اپنے مسائل کے لئے اس سے رجوع کرتے تھے ۔ ایک مدت تک میں اس کے پاس نصاری کے مختلف مذاہب کی تعلیم حاصل کرتا رہا ۔ اس کے بہت سے شاگرد تھے لیکن اتفاقا مجھ سے اسے خاص ہی لگاؤ تھا ۔ اس کے گھر کی سب چابیاں میرے ہاتھ میں تھیں صرف ایک صندوق خانے کی چابی اس کے اپنے پاس ہوا کرتی تھی ․․․․․․ اس دوران میں ایک دن اس پادری کو کوئی بیماری پیش آئی تو مجھ سے کہا کہ شاگردوں سے جاکر کہدو کہ آج میں درس نہیں دے سکتا ۔ جب میں طالب علموں کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ بحث مباحثہ میں مصروف ہیں یہ بحث سریانی کے لفظ ” فار قلیطا “ اور یونانی زبان کے لفظ ” ہریکلتوس “ کے معنی تک جا پہنچی اور وہ کافی دیر تک جھگڑتے رہے ۔ ہر کسی کی الگ رائے تھی ۔ واپس آنے پر استاد نے مجھ سے پوچھا آج کیا مباحثہ کرتے رہے ہو تو میں نے لفظ فارقلیطا کا اختلاف اس کے سامنے بیان کیا وہ کہنے لگا : تو نے ان میں کس قول کا انتخاب کیا ہے ۔ مین نے کہا فلاں مفسر کے قول کا جس نے اس کا معنی ” مختار “ بیان کیا ہے میں نے پسند کیا ۔
استاد پادری کہنے لگا تو نے کوتاہی تو نہیں کی لیکن حق اور واقعہ ان تمام کے خلاف ہے کیونکہ اس کی حقیقت کو راسخون فی العلم کے علاوہ دوسرے لوگ نہیں جانتے اور ان میں سے بھی بہت کم اس حقیقت سے آشنا ہیں ۔ میں نے اصرار کیا کہ اس کے معنی مجھے بتلائیے ۔ وہ بہت رویا اور کہنے لگا : میں کوئی چیز تم سے نہیں چھپاتا ۔لیکن اس نام کے معنی معلوم ہونے کا نتیجہ تو بہت سخت ہوگا کیونکہ اس کے معلوم ہونے کے ساتھ ہی مجھے اور تمہیں قتل کردیا جائے گا ۔ اب اگر تم وعدہ کرو کہ کسی سے نہیں کہو گے تو میں اسے ظاہر کردیتا ہوں ۔ میں نے تمام مقدسات مذہبی کی قسم کھائی کہ اسے فاش نہیں کروں گا تو اس نے کہا کہ مسلمانوں کے پیغمبر کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور اس کے معنی ”احمد “اور محمد “ ہیں اس کے بعد اس نے اس چھوٹے کمرے کی چابی مجھے دے دی اور کہا کہ فلاں کا دروازہ کھولو اور فلاں فلاں کتاب لے آؤ ۔ میں کتابیں اس کے پاس لے آیا ۔ یہ دونوں کتابیں رسول اسلام کے ظہور سے پہلے کی تھیں اور چمڑے پر لکھی ہوئی تھیں ۔دونوں کتب میں ”فارقلیطا “ کا ترجمہ ”احمد “ اور محمد “ کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد استاد نے مزید کہا کہ آنحضرت کے ظہور سے پہلے علماء نصاریٰ میں کوئی اختلاف نہ تھا کہ فارقلیطا کے معنی احمد اور محمد ہیں لیکن ظہورمحمد کے بعد اپنی سرداری اور مادی فوائد کی بقا کے لئے اس کی تاویل کردی اور اس کے لئے دوسرے معنی گھڑ لئے حالانکہ وہ معنی یقینا صاحب انجیل کی مراد نہیں ۔ میں نے سوال کیا کہ دین نصاریٰ کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ۔ اس نے کہا دین اسلام کے آ نے سے منسوخ ہو گیا ہے اس جملے کا اس نے تین مرتبہ تکرار کیا ۔
پس میں نے کہا کہ اس زمانے میں طریق نجات اور صراط مستقیم ․․․․․․․ کون سا ہے ۔ اس نے کہا منحصر ہے محمد کی پیروی و اتباع میں ۔ میں نے کہا کیا اس کی پیروی کرنے والے اہل نجات ہیں ۔ اس نے کہا ہاں خدا کی قسم ( اور تین مرتبہ قسم کھائی ) پھر استاد نے گریہ کیا اور میں بھی بہت رویا اور اس نے کہا آخرت اور نجات چاہتے ہو تو ضرور دین حق قبول کر لو ․․․․․․ میں ہمیشہ تمہارے لئے دعا کروں گا اس شرط کے ساتھ کہ قیامت کے دن گواہی دو کہ کہ میں باطن میں مسلمان اور حضرت محمد کا پیرو کار ہوں اور علماء نصاریٰ کے ایک گروہ کی باطن میں مجھ جیسی حالت ہے اور میری طرح ظاہراََ اپنے دنیاوی مقام سے دست کش نہیں ہو سکتے ورنہ کوئی شک وشبہ نہیں کہ اس وقت روئے زمین پر دین خدا دین اسلام ہی ہے [101]
آپ دیکھیں گے کہ علماء اہل کتاب نے پیغمبر اسلام کے ظہور کے بعد اپنے شخصی منافع کی خاطر آنحضرت کے نام اور نشانیوں کی اور توجیہات کر دی ہیں ۔ “
( ۴۴ )۔ اتامرون الناس بالبر و تنسون انفسکم و انتم تتلون الکتا ب افلا تعقلون
( ۴۵ )۔ واستعینو ا بالصبر والصلوٰة ط و انھا لکبیرة الا علی الخاشعین
( ۴۶ ( ۔الذین یظنون انھم ملقو ا ربھم و انھم الیہ راجعون
( ۴۴ )۔کیا تم لوگوں کو نیکی کی اور اس پیغمبر پر جس کی صفات واضح طور پر تورات میں آئی ہیں ایمان لانے کی دعوت دیتے ہو لیکن اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ ( آسمانی کتاب پڑھتے ہو ۔ کیا تم عقل و فکر سے کام نہیں لیتے۔
( ۴۵ )۔ صبر اور نماز سے استعانت حاصل کرو ( استقامت اور اندرونی خواہشات پر کنٹرول کرکے پروردگار کی طرف توجہ سے قوت حاصل کرو اور خشوع کرنے والوں کے علاوہ دوسروں پر یہ کام گراں ہے ۔
( ۴۶ ( ۔ وہ جو ایمان رکھتے ہیں کہ خدا سے ملاقات کریں گے اور اسی کی جانب لوٹ جائیں گے
تفسیر
اگرچہ مندرجہ بالا آیات اسی طرح گذشتہ اور آئندہ آیات میں روئے سخن بن اسرائیل کی طرف ہے لیکن مسلماََ اس کا مفہوم وسعت کے اعتبار سے دوسروں کے بھی شامل حال ہے۔
مشہور مفسر ۔ صاحب مجمع البیان ، طبرسی کے بقول یہود کے علماء و فضلاء حضرت محمد کی بعثت سے پہلے آپ پر ایمان لانے کی دعوت اور آپ کے ظہور کی بشارت دیا کرتے تھے لیکن خود انہی نے آنحضرت کے ظہور کے وقت ایمان لانے سے انکار کردیا ۔یہی عظیم مفسر نقل کرتے ہیں کہ علماء یہود اپنے ان وابستگان کو جو اسلام لاچکے تھے نصیحت کیا کرتے تھے کہ اپنے ایمان پر باقی اور ثابت قدم رہنا لیکن خود ایمان نہ لاتے تھے ۔
یہ وجہ ہے کہ زیر بحث آیات میں سے پہلی آیت میں ان کے اس طرز عمل کی مذمت کی گئی ہے کہا گیا ہے :کیا تم لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہو اور اپنے نفسوں کو بھول جاتے ہو ( اتا مرون الناس بالبر وتنسون انفسکم)
باوجود یکہ آسمانی کتاب ( تورات ) کا مطالعہ کرتے ہو لیکن کیا کچھ بھی عقل و فکر سے کام نہیں لیتے ہو ( و انتم تتلون الکتاب افلا تعقلون )۔
اسی طرح قرآن انہیں سرزنش کرتا ہے دوسروں کو ایمان کی وصیت کیوں کرتے ہو جب خود ایمان نہیں لاتے ہو حالانکہ پیغمبر کی نشانیاں اور خوصوصیات توریت میں پڑھ چکے ہو ۔
علماء مبلغین اور راہ حق کی طرف دعوت دینے والون کے لئے خاص طور پر یہ بنیادی بات ہے کہ وہ باقی لوگوں کی نسبت زیادہ تر اپنے عمل سے تبلیغ کریں جیسے کہ حضرت ا،مام صادق سے ایک مشہور روایت ہے :
کونو ا دعاة الناس باعمالکم ولا تکونو ا دعاة بالسنتکم
لوگوں کو عمل سے دعوت دو نہ کہ زبان سے ۔ [102]
عملی دعوت کی گہری تاثیر کا سر چشمہ یہ ہے کہ اگر سننے والے کو معلوم ہوجائے کہ کہنے والا دل سے بات کر رہا ہے اور خود اپنے قول پر سو فی صد ایمان رکھتا ہے ، اس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ خود اس پر دوسروں سے پہلے عمل کرتا ہے جیسے کہ حضرت علی فرماتے ہیں :
ایھا الناس انی واللہ ما احثکم علی طاعة الا و اسبقکم الیھا ولا انھا کم عن معصیتہ الا و اتنھا ھا قبلکم عنھا ۔
اے لوگوں ----!خدا کی قسم میں تمہیں کسی اطاعت کا شوق نہیں دلاتا جب تک پہلے خود اسے انجام نہ دے لوں اور کسی غلط کام سے تمہیں منع نہیں کرتا مگر یہ کہ پہلے خود اس سے روکتا ہوں ۔
امام صادق سے ایک روایت میں ہے :
من اشد الناس عذابا یوم القیامة من وصف عدلا و عمل بغیرہ
وہ لوگ جن پر قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا ان میں سے ایک وہ ہوگا جو حق اور عدل کی بات کرتا ہے لیکن خود اس کے خلاف عمل کرتا ہے ۔ [103]
یہودی علماء اس بات سے ڈرتے تھے کہ اگر پیغمبر اسلام کی رسالت کا اعتراف کرلیں گے تو ان کی مادی امداد منقطع ہو جائے گی اور یہودی عوام ان کی پرواہ نہیں کریں گے لہذا تورات میں پیغمبر اسلام کی جو صفات آئی تھیں انہوں نے ان میں رد و بدل کردیا ۔
اس مقصد کے لئے کہ وہ اپنے دلی میلان کی طرف قدم بڑھا ئیں اور سر براہی و سرداری کو دماغ سے نکال دیں قرآن کہتا ہے :
صبر اور نماز سے استعانت حاصل کرو یعنی استقامت اور اپنی نفسانی خواہشات پر کنٹرول کے ذریعہ کامیابی حاصل کرو ( واستعینو بالصبر والصلوٰة)۔اس کے بعد کہتا ہے کہ یہ ک [104] ام خاشعین کے علاوہ دوسروں پر گراں ہے ( و انھا لکبیرة الا علی الخاشعین )۔
زیر بحث آیات میں سے آخری آیت خاشعین کا یوں تعارف کراتا ہے ( الذین یظنون انھم ملٰقو ا ربھم و انھم الیہ را جعون 6 راغب نے مفردات میں کہا ہے ”ظن “ نام ہے اس اعتقاد کا جو دلیل اور قرینہ سے حاصل ہو یہ اعتقاد کبھی قوی ہوتا ہے اور درجہ یقین تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی کمزور ہوتا ہے جو گمان کی حد سے آگے نہیں بڑھتا۔’ ’ یظنون “جس کا مادہ ” ظن “ ہے کبھی ”گمان “اور کبھی یقین کے معنی میں آتا ہے ۔اس مقام پر یقینا ایمان اور قطعی یقین کے معنی میں ہے کیونکہ لقاء اللہ اور اس کی طرف باز گشت پر ایمان رکھناانسان کے دل میں خشوع ، خدا ترسی اور ذمہ داری کا احساس زندہ کردیتا ہے اور یہ ایک ایسے معاد پر ایمان رکھنے کا نتیجہ ہے جو تربیت اور نشو ونما کا باعث ہے جو ہر جگہ انسان کے سامنے اس بڑی عدالت کے دربار کی تصویر کشی کرتا ہے اور یہ ذ مہ داریوں کو ادا کرنے اور حق و عدالت کی راہ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔
یہ بھی احتمال ہے کہ یہاں ”ظن “ گمان کے معنی میں ہو اور در حقیقت ایک قسم کا مبالغہ اور تاکید ہو کہ اگر بالفرض انسان اس عدالت عظمٰی پر ایمان نہیں رکھتا اور صرف اس کے ہونے کا گمان رکھتا ہے تو بھی اس کے لئے کافی ہے کہ ہر قسم کی غلط کاری سے پرہیز کرے ۔ در حقیقت یہ علماء یہود کو ایک قسم کی سرزنش ہے کہ تمہارا ایمان صرف ظن و گمان کے درجہ تک بھی ہو پھر بھی تمہیں ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس قسم کی تحریف سے دست کش ہوجانا چاہیئے ۔
چند اہم نکات
لقاء اللہ سے کیا مراد ہے :لقاء اللہ کی تعبیر قرآن میں متعدد بار آئی ہے اور ہر بار اس سے مراد صحن ِقیامت کی حاضری ہے یہ تو واضح ہے کہ خدا سے ملاقات اس طرح سے حسی تو نہیں جیسے افراد بشر ایک دوسرے سے ملتے ہیں کیونکہ خدا جسم ہے نہ رنگ و مکان رکھتا ہے کہ ظاہری آنکھ سے اسے دیکھا جا سکے بلکہ مقصود میدان ِ قیامت میں آثار قدرت ، جزا و سزا ، نعمات اور عذاب الٰہی کا مشاہدہ ہے جیسا کہ مفسرین کی ایک جماعت نے کہا ہے یا اس کا معنی ایک قسم کا شہود باطنی و قلبی ہے کیونکہ انسان بعض اوقات ایسے مقام و مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ خدا کو دل کی آنکھ سے اپنے سا منے دیکھتا ہے ا س طرح کہ کوئی شک و تردد باقی نہیں رہتا [105]
دوسری آیت میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ ہے مثلاََ
فمن کان یرجو لقاء ربہ فلیعمل عملاَ صالحاَ ۔کہف ۔ ۱۱۰ ، البلاغہ ، خطبہ ۱۷۹
پاکیزگی ، تقویٰ ، عبادت اور تہذیب نفس کے نتیجے میں یہ حالت اس دنیا میں بھی بعض لوگوں کے لئے ممکن ہے جیسا کہ نہج البلاغہ میں ہے کہ ذعلب یمانی نے جو حضرت علی کے دوستوں میں سے ایک دانشمند تھے آپ سے پوچھا :
ھل رائیت ربک
کیا آپ نے اپنے خدا کو دیکھا ہے ۔
امام نے فرمایا :
افاعبد مالا اری
کیا میں اس کی عبادت کروں گا جسے میں نے دیکھا ہی نہیں ۔اس نے وضاحت چاہی تو امام نے مزید فرمایا : لا تدرکہ العیون بمشاہدہ ولکن تدرکہ القلوب بحقائق الایمان ۔
ظاہری آنکھیں تو اسے دیکھ نہیں سکتیں البتہ دل نور ِ ایمان کے وسیلے سے اس کو ادراک کرسکتے ہیں۔
باطنی شہود کی طاقت قیامت کے دن سب کو میسر ہوگی کیونکہ خدا کی عظمت و قدرت کے آثار اور نشانیاں اس وقت اس قدر عیاں ہوں گی کہ دل کا اندھا بھی اس پر قطعی ایمان لے آئے گا ۔
۲ ) مشکلات میں کامیابی کا راستہ :ترقی کرنے اور مشکلات پر قابو پانے کے لئے دو بنیادی ارکان کی ضرورت ہے ایک طاقت ور اور مضبوط اندرونی قلعہ اور دوسرا بیرونی محکم سہارا ، مندرجہ بالا آیات میں ان دونوں اساسی ارکان کو صبر اور صلوٰة سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
صبر ، استقامت اور بردباری کے ساتھ مشکلات کے محاظ پر ڈٹ جانے کا نام ہے اور نماز خدا سے رابطے اور تعلق کا وسیلہ ہے جو ا یک محکم اور مضبوط سہارا ہے ۔
بہت سے مفسرین نے اگرچہ صبر سے روزہ مراد لیا ہے لیکن مسلم ہے کہ صبر روزے ہی میں منحصر نہیں بلکہ یہاں روزے کا ذکر ایک واضح اور روشن مصداق کی حیثیت سے ہے کیونکہ یہ وہ عبادت ہے جس کے نتیجے میں انسان کے اندر قوی ارادہ اور پختہ ایمان پیدا ہوتا ہے اور ہو سرانیوں پر اس کی عقل کی حاکمیت مسلم ہو جاتی ہے۔لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ مفسرین اس آیت کے ذیل میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام جب کسی ایسی مشکل سے دو چار ہوتے جو آپ کو بے آرام کردے تو آپ رونے سے مدد لیتے ۔
امام صادق سے ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :
جب دنیا کے غموں میں سے کسی کا سامنا کرو تو وضو کرو اور مسجد میں جاکر نماز پڑھو اور پھر دعا کرو کیونکہ خدا نے خود ہی حکم دیا ہے : واستعینو بالصبر والصلوٰة [106]
نماز کی طرف توجہ اور پروردگار سے راز و نیاز انسان میں نئی قوت پیدا کردیتا ہے ۔
کتاب کافی میں امام صادق سے روایت ہے :
کان علی اذا اھالہ امر فزع قام الی الصلوٰةثم تلامذہ الآیةواستعینو بالصبر والصلوٰة۔
جب حضرت علی کو کوئی سخت مشکل در پیش ہوتی تو نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور پھر اس آیت کی تلاوت فرماتے : واستعینو بالصبر والصلوٰة۔
واقعاََ نماز انسان کو قدرت لایزال سے مر بوط کردیتی ہے جس کے ہاں مشکلات سہل و آسان ہیں اور یہی احساس باعث بنتا ہے کہ انسان حوادث کے مقابلے میں طاقتور اور مضبوط ہوجاتا ہے۔
. [1] مجمع البیان ، نورالثقلین آغاز سورہ حمد
. [2] مجمع البیان ، نورالثقلین آغاز سورہ حمد۔
. [3] مجمع البیان ، آغاز سورہ حمد
. [4] سبعا من المثانی،قرار دینے کی وجہ اور سورہ حمد کی کچھ مزید خوبیاں اسی تفسیر(نمونہ) میں سورہ حجر کی آیت ۸۷ کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیے۔
. [5] نور الثقلین جلد اول ص ۴ ۔
. [6] المیزان ج اول ص ۳۷ بحوالہ عیون اخبار الرضا۔
. [7] اریخ القرآن، ابوعبداللہ زنجانی ص ۴۴ ۔
. [8] مجمع البیان، جلد اول ص ۱۵ ۔
. [9] منتخب کنزالعمال جلد دوم ص ۵۲ ۔
. [10] صحیح بخاری جلد ۶ ص ۱۰۳ ۔
[11] . تفسیر البیان جلد اول ص ۴۶۱ بحوالہ بحار جلد ۶ باب ۵۸ ۔
[12] . سفینة البحار، جلد اول ص ۶۳۳ ۔
[13] . تفسیر المنار جلد اول ص ۳۹ ، ۴۰ ۔
[14] . کافی جلد ۳ ص ۳۱۲ ۔
[15] . الاتفاق جلد اول ص ۱۳۶ ۔
[16] . بیہقی جلد ۲ ص ۵۰ ۔
[17] . بیہقی جزء دوم ص ۴۹ ۔ حاکم نے مستدرک جزء اول ص ۲۳۳ میں اس روایت کو درج کرکے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
[18] . مجمع البیان جلد ۱ ، ص ۲۱ ۔
[19] . مجمع البیان ج ۱ ۔
[20] . دعائے جوشن کبیر۔
[21] . البتہ ایک جہت سے شکر میں عمومیت بھی کیونکہ شکریہ زبان و عمل دونوں سے ہوتا ہے۔ جب کہ حمد ومدح عموما فقط زبان سے ہوتی ہے۔
[22] . قاموس اللغات، مفردات راغب، تفسیر مجمع البیان، تفسیر البیان۔
[23] . یاد رہے کہ رب کا مادہ ”رب ب“ ہے نہ کہ ”رب“ یعنی یہ مضاعف ہے ناقص نہیں لیکن رب کے اصلی معنی میں پرورش اور تربیت ہے اسی لئے فارسی میں عموما اس کا ترجمہ پروردگار کرتے ہیں۔
[24] . تفسیر الثقلین، جلد ۱ ص ۱۷ ۔
[25] . اعلام القرآن، ص ۲۰۲ ۔
[26] . تاریخ آلبر مالہ، ج ۱ فصل ۴ ، تاریخ زم۔
[27] . تاریخ آلبر مالہ تاریخ رم جلد ۱ ص ۱۵ ۔
[28] . تفسیر نور الثقلین ج ۱ ص ۱۹ ۔
[29] . مجمع البیان ، ذیل آیہ مذکور۔
[30] . تفسیر صافی (آیہ مذکورہ) بحوالہ معانی الاخبار و تفسیر امام حسن عسکری۔
[31] . ۲ ۔ ایضا۔
[32] . تفسیر نور الثقلین، ج ۱ ص ۲۱ ، ۲۰ ۔
[33] . ۲ ۔ ایضا۔
[34] . ۳ ۔ ایضا۔
[35] . تفسیر نور الثقلین ج ۱ ص ۲۴ ، ۲۳ ۔
[36] . نور الثقلین، ج ۱ ص ۲۶ و مجمع البیان ج ۱ ص ۳۲ ۔
[37] . نورالثقلین، ج ۱ ص ۲۶ بحوالہ کتاب، ثواب الاعمال۔
[38] . تفسیر برہان ، جلد اول، ص ۵۴ ۔
[39] . توحید صدوق، ص ۱۶۲ ، طبع ۱۳۷۵ ھ۔
[40] . اقتباس از قرآن و آخرین پیامبر۔
[41] . نور الثقلین جلد اول ص ۳۱ ۔
[42] . اہمیت نماز اور اس کے بے شمار تربیتی آثار کے متعلق اسی تفسیر میں سورہ ہود کی آیة ۱۱۴ کے ذیل میں بحث کی گئی ہے۔
[43] . انفاق، اس کی اہمیت اور اس کے اثرات کی بحث اسی تفسیر کی جلد ۲ ص ۱۸۱ تا ۲۰۸ آیات ۲۶۱ تا ۲۷۴ پر ملاحظہ فرمائیں۔
[44] . نور الثقلین و مجمع البیان ذیل آیہ مذکورہ۔
[45] . صاحب تفسیر المنار مصر ہیں کہ اولئک دو گروہوں کی طرف اشارہ ہے۔ پہلا وہ جس میں ایمان بالغیب،قیام نماز اور انفاق کی صفات پائی جاتی ہیں اور دوسراوہ جو آسمانی وحی اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن یہ تفسیر بہت بعید نظر آتی ہے کیونکہ یہ پانچ صفات ایک گروہ سے مخصوص ہیں اور ایک دوسرے سے متصل ہیں اور اس کے دو حصے کرنا درست نہیں۔
[46] . راغب نے ”مفردات“ میں لکھا ہے ”وقایہ“ کے معنی ہیں چیزوں کو ان امور سے محفوظ کرنا جو انہیں نقصان یا تکلیف پہنچائیں اور تقوی کے معنی ہیں ”خطرات سے بچا کر روح کو ایک حفاظتی پردے میں رکھنا“ تقوی کے معنی کبھی خوف بھی کئے جاتے ہیں حالانکہ خوف تو تقوی کا سبب ہے۔ عرف شریعت میں تقوی کا مطلب ہے اپنے آپ کو گناہوں سے بچا کر رکھنا اور کمال تقوی یہ ہے کہ مشتبہ چیزوں سے بھی اجتناب
کیا جائے۔
[47] . نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۷ ۔
[48] . نہج البلاغہ ، خبطہ ۱۶ ۔
[49] . تفسیر ابوالفتوح رازی، جلد اول ص ۶۲ ۔
[50] . نہج البلاغہ، خطبہ ۲۳۰ ۔
[51] . اصول کافی ، جلد ۲ ، باب الذنوب، حدیث ۲۰ ، ص ۲۰۹ ۔
[52] . یعمھون مادہ ”عمہ“ سے ہے (بروزن ہمہ) جو تردد یا کسی کام میں متحیر ہونے کے لئے استعمال ہوتا ہے او رکور دلی، تاریکی بصیرت کے معنی میںبھی مستعمل ہے جس کا اثر سرگردانی ہے۔ مفردات راغب، تفسیر منار اور قاموس اللغة کیطرف رجوع کیا جائے۔
[53] . سفینة البحار جلد ۱ مادہ رئی۔
[54] . نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۴ ۔
[55] . نور الثقلین، جلد اول ص ۳۶ ۔
[56] . نور الثقلین، ج ۱ ص ۴۱ ۔
[57] . بہت سی کتب میں اس ہوائی جلد کی ضخامت ایک سو کلو میٹر لکھی ہوئی ہے لیکن بظاہر ان کا مقصود وہ جگہ ہے جہاں ہوا کے سالمے ( Molecules ) نسبتا زیادہ نزدیک ہیں لیکن موجودہ سائنس نے ثابت کیا ہے کہ چند سو کلو میٹر کی ضخامت میں ہوا کے سالمے پراکندہ حالت میں موجود ہیں۔
[58] . توحید مفضل۔
[59] . تفسیر نور الثقلین جلد اول ص ۲۱ کے مطابق حدیث کی عبارت اس طرح ہے : ینزلہ من اعلی لیبلغ قلل جبالکم و تلالکم و ھضابکم و اوھادکم ثم فرقة رذاذا و ابلا وھطلا لتنسشفہ ارضوکم و لم یجعل ذلک المطرتازلا قطعة و احدة نیفسد ارضیکم و اشجارکم و زروعکم و ثمارکم۔
. [60] فی ضلال سید قطب ،جلد اول ص ۵۳ ۔
. [61] سفینةالبحار ،جلد اول ،ص ۶۹۷
[62] . اعجازلقرآن رافعی
[63] . قرآن و آخرین پیامبر
[64] . مجمع البیان ،جلد ۱۰ ،سورہٴ مدثر
[65] . مقدمہ کتاب”عذرتقصیربہ پیش گاہمحمد و قرآن --“(یہ اصل کتاب کے فارسی ترجمہ کا حوالہ ہے ۔مترجم
[66] . عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمد و قرآن “
[67] . قرآن برفراز اعصار بحوالہ المعجزہ الخالدة۔
[68] . پیش رفت سریع اسلام ۔( یہ بھی اصل کتاب کے فارسی ترجمے کا حوالہ ہے ۔مترجم
[69] . لفظ کے ایک سے زیادہ معانی میں استعمال کی بحث میں ہم نے ثابت کیا ہے
[70] . وسائل الشیعہ ، جلد ۱ ،ص ۱۹ ۔
[71] . بعض مفسرین کہتے ہیں کہ جملہ یضل بہ کثیرا ․ خدا کا کلام ہے نہ کہ کفار کا ۔اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ان مثالوں کا کیا مقصد ہے ان کے جواب میں خدا فرماتا ہے کہ مقصد یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو ہدایت کرے اور بہت سوں کو گمراہ کردے فاسقین کے علاوہ کوئی گمراہ نہیں ہوتا (لیکن پہلی تفسیر صحیح معلوم ہوتی ہے)
[72] . انسانی زندگی میں مثال کی تاثیر کس قدر ہے اس سلسلے میں سورہ رعد کی اایہ ۱۷ میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے جسے تفسیر نمونہ کی جلد دہم میں ماحظہ کیجیئے ۔
[73] . نہج البلاغہ ۱۸۶
[74] . نورالثقلین ،جلد ، ۵۴( مزید توضیح کے سلسلے میں نیز انروایات کے لئے جو ان ہیوندوںکے مفہوم کی وسعت سے متعلق ہیں اسی تفسیر (نمونہ)میں سورہٴرعد کی آیہ ۲۱ کے ذیلمیںملاحظہ کیجئے)
[75] . سفینةالبحار،جلد ۱ ،ص ۵۱۴
[76] . سفینة البحار ،جلد ۱ ،ص ۵۱۴
[77] . سفینة البحار ،جلد ۱ ص ۵۱۶ ( مادہ رحم)
[78] . سفینة البحار ،جلد ۱ ص ۵۱۶ ( مادہ رحم)
[79] . موضوع رجعت کی وجہ سے اس مسٴلے پر کو ئی اعتر ا ض نہیں ہو سکتا رجعت اول تو ایک مخصوص طبقہ کے لئے ہے اس میں عمومیت نہیں ہے جب کہ زیر نظرآیت ایک حکم کلی بیان کررہی ہے پھر نتائج میں اجسام اور ان کے اجزاء الگ الگ ہوتے ہیں جب کہ رجعت میں ایسا نہیں ہے ۔
[80] . کتاب ”عود ارواح و ارتباط ارواح“کیطرف رجوع فرمائیں
[81] . بعض علماء نے نظام شمسی کے دس کرات (نو سیارے مشہور ہیں ایک اورسیارہ بھی ہے جو مریخ اور مشتری کے درمیان تھا لیکن وہ منتشر ہوگیا اس کا کچھ حصہ اسی طرح اسی مدار زمیں محو گر دش ہے)کو دو حصوں تقسیم کیا ہے ایک گروہ وہ ہے جو مدار زمین میں گردش کر ر ہے ہیں(جن میں عطارد اور زہرہ شامل ہیں )اور ایک گروہ مدار زمین سے باہر اور اس کے اوپر کی طرف ہے ۔شاید اسی تفسیر سے یہی باہر کے سات سیارے مراد ہیں۔
[82] . مجلہ فضا ”شمارہ فروردین ۲۳۵۱ ہجریشمسی
[83] . مجمع البیان ،زیر نظر آیات کے ضمن میں ۔
[84] . آلوسی نے روح العانی میں اور رازی نے تفسیر کبیر میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ کیا ہے
[85] . تفسیر نمونہ ،سورہٴاعراف کیآیہ ۱۲ کی تفسیر سے رجوع کیجئے
[86] . تفسیرالمیزان ، ج ۱ ، ص ۱۲۶ ۔
[87] . نور الثقلین ، جلد ۱ ، ص ۵۸
[88] . رغد ”بروزن ”صمد“ ہے جس کے معنی ہیں فراواں ، وسیع اور گوارا ”حیث شئتما “اشارہ ہے ہر جگہ اور ہر قسم کے میوے کی طرف۔
[89] . سورہ اعراف آیہ ۲۰ ، ۲۱
[90] . ضمیر” عنہا“ کے مرجع میں دو احتمال ہیں ! یہ جنت کے لئے ہو اس صورت میں ”مما کانا فیہ “ کا جملہ و مرتبہ کے لئے ہو تو معنی یہ ہوگا کہ شیطان نے ان کے دلوں کو جنت میں پھسلایا اور جس مقام کے وہ حامل تھے اس سے باہر نکالا ۲ یہ مرجع ” شجرہ “ ہو یعنی شیطان نے اس درخت ممنوع کی وجہ سے انہیں پھسلایا اور جس بہشت میں وہ تھے اس سے باہر نکالا ۔
[91] . نور الثقلین جلد ۱ ، ص ۶۲ بحوالہ کتاب کافی
[92] . مزید وضاحت کے لئے جلد ۴ ،سورہ اعراف ۱۹ تا ۲۲ اور جلد ۷ آیات ۱۲۱ اور اس کے بعد کی طرف رجوع کریں ۔
[93] . کتاب“قرآنوآخرین پیامبر“ ص ۱۲۷ تا ۱۳۲
[94] . کافی جلد ۶ ،کتاب الاطعمہ والاشربہ با ب لاولی۔
[95] . کافی جلد ۶ ،کتاب الاطعمہ والاشربہ با ب لاولی۔
[96] . کافی جلد ۶ ،کتاب الاطعمہ والاشربہ با ب لاولی۔
[97] . یہی وجہ ہے کہ لفظ توبہ جب بندے کی طرف منسوب ہوتو لفظ ”الی “آتا ہے اور خدا کی طرف منسو ب ہو تو ”علی “آتا ہے ۔پہلی صورت میں ” تاب الیہ“اور دوسری صورت
میں ”تاب علیہ “کہا جا تا ہے (تفسیر کبیر اور تفسیر صافی زیر نظر آیت کے ذیل میں)
[98] . قاموس کتاب مقدس ص ۵۳ ، و ۹۵۷
[99] . مجمع البیان زیر بحث آیات کے سلسلے میں
[100] . المنار ج، ۲ ص ۲۹۳ و مفردات ِ راغب ، مادہ ” قوم “
[101] . اقتباس و اختصار از ہدایت ِ دوم مقدمہ ”انیس الاعلام “
[102] سفینہ ، مادہ ” عمل “ ۔(۲)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۵۷
[103] . تفسیر نور الثقلین ، ج ۱ ، ص ۷۵
[104] . راغب نے مفردات میں کہا ہے ”ظن “ نام ہے اس اعتقاد کا جو دلیل اور قرینہ سے حاصل ہو یہ اعتقاد کبھی قوی ہوتا ہے اور درجہ یقین تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی کمزور ہوتا ہے جو گمان کی حد سے آگے نہیں بڑھتا۔
[105] . المنار ، جلد ۱ ، ص ۳۰۲ ۔ المیزان جلد ۱ ، ص ۱۵۴ ۔روح المعانی ، جلد ۱ ، ص ۲۲۸
[106] . مجمع البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔