عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں. دوسرا حصه

تالیف: محمد رے شہری

دوسرا حصہ

جہل اس حصہ کی فصلیں :

پہلی فصل : مفہوم جہل

دوسری فصل : جہل سے پرہیز

تیسری فصل : جاہلوں کے اقسام

چوتھی فصل : جہل کے علامات

پانچویں فصل : جاہل کے احکام

چھٹی فصل : پہلی جاہلیت

ساتویں فصل : دوسری جاہلیت

آٹھویں فصل : جاہلیت کا خاتمہ

پہلی فصل مفہوم جہل

٨٠٨۔ امام حسن (ع) :نے اپنے والد کے جواب میں جب جہل کی تعریف کے متعلق پوچھا ۔تو فرمایا: فرصت سے فائدہ اٹھانے کی قدرت نہ ہونے کے باوجود اس پر جلدی سے ٹوٹ پڑنا اور جواب دینے سے عاجز رہنا ہے۔

٨٠٩۔ امام علی (ع): محال امور میں تمہاری رغبت کا ہونا نادانی ہے ۔

٨١٠۔ امام علی (ع): دنیا کی فریبکاریوںکو دیکھتے ہوئے اس کی طرف رخ کرنا جہالت ہے ۔

٨١١۔ امام علی (ع): بغیر کوشش و عمل کے رتبہ و مقام کا طلب کرنا نادانی ہے ۔

٨١٢۔ عیسیٰ (ع) : نے اپنے حواریوں سے فرمایا: دیکھو تمہارے اندر جہالت کی دو نشانیاں ہیں: بلا سبب ہنسنا اور شب زندہ داری کے بغیر صبح کو سونا۔

٨١٣۔ امام علی (ع): شب زندہ داری کے بغیر سونا جہالت کی نشانی ہے۔

٨١٤۔ امام صادق(ع): بلا سبب ہنسنا نادانی کی نشانیوں میں سے ہے ۔

٨١٥۔ امام صادق(ع): جہالت تین چیزوں میں ہے: دوست بدلنا،بغیر وضاحت کے علیحدگی، اس چیز کی جستجو کرنا جس میں کوئی فائدہ نہیںہے۔

٨١٦۔ امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آ پ سے منسوب کلام میں ہے ۔ جہالت ایسی صورت ہے جو اولاد آدم میں قرار دی گئی ہے، اسکی طرف رخ کرنا تاریکی اور گریز کرنا روشنی ہے، بندہ اس کے ساتھ ساتھ اس طرح پھرتا ہے جیسے سورج کے ساتھ ساتھ سایہ ، کیا ایسے انسان کو نہیں دیکھتے جو اپنی خصوصیات سے ناواقف ہے لیکن اپنی تعریف کرتاہے حالانکہ اسی عیب کو جب دوسروں میں ملاحظہ کرتا ہے تو اس سے نفرت کرتا ہے ۔ اور کبھی اسے دیکھتے ہو ۔

جو اپنی کچھ ذاتی خصوصیات سے آشنا ہوتاہے اور ان سے نفرت کرتا ہے حالانکہ جب اپنے غیر میںمشاہدہ کرتاہے تو تعریف کرتا ہے پس ایسا انسان عصمت و رسوائی کے درمیان سرگرداں ہے ، اگر عصمت کی طرف رخ کیا تو واقع تک پہنچ جائیگا اور اگر رسوائی کی طرف رخ کیا تو واقع سے دور ہو جائیگا۔

جہالت کی کنجی خوشنودی اور اس پر اعتقاد ہے ، علم کی کنجی توفیق کی موافقت کے ساتھ تبادلہ ہے ، اور جاہل کی پست ترین صفت یہ ہے کہ بغیر لیاقت کے علم کا دعویٰ کرتا ہے اور اس سے بھی بدتر اس کا اپنی جہالت سے ناواقف ہونا ہے اور اسکی بالا ترین صفت جہالت سے انکار ہے جہالت اوردنیاو حرص کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں کہ جس کا اثبات درحقیقت اسکی نفی ہو۔ یہ سب گویا ایک ہیں اور ان میںکا ایک سب کے برابرہے۔

مفہوم جہل کی تحقیق

اسلام نے معرفت شناسی کے جو مختلف ابواب پیش کئے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ دین الہی ایک عظیم معاشرہ بنانے کے لئے ہر چیز سے قبل اور ہر چیز سے بیشتر، فکر و نظر اور آگاہی و معرفت کو اہمیت دی ہے ، اور جہالت کے گڑھے میں گرنے اور فکر کو نظر انداز کرنے سے تنبیہ کی ہے ۔

اسلام کی نگاہ میں جہل ایسی آفت ہے کہ جوانسان کی رونق اور خوبیوں کو پامال کر دیتا ہے اور تمام اجتماعی و فردی برائیوں کا سر چشمہ ہے ، جب تک یہ آفت جڑ سے نہیں اکھاڑی جائیگی اس وقت تک فضیلتیں ابھر کر سامنے نہیں آ سکتیں اور نہ ہی انسانی معاشرہ وجود پذیر ہو سکتا ہے۔

اسلام کی نظر میں جہل تمام برائیوں کا سر چشمہ ، عظیم ترین مصیبت، مہلک و بدترین بیماری اور خطرناک ترین دشمن ہے ۔ جاہل انسان روئے زمین پر چوپائے سے بدتر، بلکہ زندوں کے درمیان ایک لاش ہے ۔

وہ آیات و احادیث جو جہل اور جاہل کی مذمت اور اس کے علامات و احکام اور جہل سے دوری کے متعلق وارد ہوئی ہیں ان کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے ضروری ہیکہ پہلے یہ جانیںکہ جہل کیا ہے ؛ آیا مطلق جہل اسلام کی نظر میں مذموم و خطرناک ہے یا کوئی خاص جہل ہے ؟

اور اگر یہ دوسری صورت درست ہے تو اسکی تعیین کرنا ضروری ہے کہ وہ خاص جہل کون سا ہے۔

کون سا جہل تمام برائیوں کا سرچشمہ ہے ؟

کون سا جہل عظیم ترین مصیبت ہے؟

کون سا جہل بدترین اور سب سے مہلک بیماری ہے ؟

کون سا جہل شدید ترین فقر ہے ؟

کون سا جہل خطرناک ترین دشمن ہے ؟

کون سا جاہل قرآن کی رو سے ، چوپائے سے بدتر۔ہے ، اور کس جہل کو امام علی (ع) نے ۔ زندوںکے درمیان لاش۔ سے تعبیر کیا ہے ۔

مفہوم جہل

مذموم جہل کے چار معنی ہیں :

اول: مطلق جہل

دوم: تمام مفید و کارساز علوم و معارف سے جہالت

سوم: انسان کے لئے ضروری و اہمترین معارف سے جہالت

چہارم : جہل، عقل کے مقابل میں ایک قوت ہے۔

معانی کی وضاحت

١۔ مطلق جہل

گر چہ بادی النظر میں یہ محسوس ہوتا کہ مطلق جہل مضر اور مذموم ہے لیکن غور و فکر کے بعد معلوم ہوتاہے کہ ہر چیز کا نہ جاننا مذموم اور جاننا پسند یدہ نہیں ہے بلکہ اس کے بر خلاف کچھ چیزوں کا جاننا مضر و مہلک اور کچھ چیزوں کا نہ جاننا مفید و کارساز ہے اسلام میں اسی دلیل کی بنا پربعض امور اوربعض پوشیدہ چیزوںکی تحقیق و جستجو کو ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔

اس موضوع کی مزید وضاحت، اس فصل کے باب''احکام جاہل'' اور کتاب ''علم و حکمت قرآ ن و حدیث کو روشنی میں'' کے باب احکام تعلم کے(شق ج۔ جن چیزوں کا سیکھنا حرام ہے) اسی طرح اس کتاب کے ''آداب سوال'' کے ''باب چہارم'' میں مذکورہ احادیث میںکی گئی ہے ۔

٢۔ مفید معارف سے جہالت

بلا شک و شبہ اسلام تمام مفید علوم و معارف کو احترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے سیکھنے کی دعوت بھی دیتاہے ، بلکہ اگر معاشرہ کو ان کی حاجت و ضرورت ہو اور ایسے افراد موجود نہ ہوں جو اس ضرورت کے لئے کافی ہوں تو ان علوم و فنون کو واجب قرار دیاہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہےں کہ ان تمام علوم کے متعلق جہل تمام لوگوں کے لئے مذموم یا خطرناک ہو۔

بعبارت دیگر ، ادبیات، صرف و نحو، منطق و کلام ، فلسفہ،ریاضیات، فیزکس، کیمیا اور دیگر علوم و فنون جو انسان کی خدمت کے لئے ہیں وہ اسلام کی نظر میں قابل احترم اور اہمیت کے حامل ہیں لیکن ان تمام علوم کا نہ جاننا تمام برائیوںکا سر چشمہ ، عظیم ترین مصیبت، بدترین بیماری، خطرناک ترین دشمن ، شدید ترین فقر نہیں ہے ، اور ان علوم میں سے جو بعض یا تمام کو نہیں جانتا ہے اسے روئے زمین پر چو پائے سے بدتر یا زندوںمیں مردہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

٣۔ انسان کی ضروری معارف سے جہالت

وہ معارف و علوم جو انسان کو اسکی ابتداء و انتہاء سے آشنا اور اسکی غرض خلقت کی حکمت کو کشف کرتے ہیں وہ اسکی زندگی کے اہمترین و ضروری معارف میں سے ہیں۔

انسان کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کس طرح وجود میں آیا؟ اور اسکی غرض خلقت کیاہے؟ کون سا عمل انجام دے کہ اپنی غرض خلقت کے فلسفہ تک پہنچ جائے؟ کون سے خطرات اسے ڈراتے ہیں؟

وہ معارف جو ان تمام مسائل کا جواب دیتے ہیںوہ میراث انبیاء ہیں ۔ یہ معارف تمام خیر و برکت کا سرچشمہ، عقل عملی اور جوہر علم کے روشن و بارونق ہونے کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں۔ اور ان معارف سے لاعلمی انسانی معاشرہ کو دشوار ترین مشکلات اور دردناک مصائب میں مبتلا کرتی ہے۔

البتہ تنہا ان معارف کا جاننا ہی کافی نہیں ہے ؛ بلکہ یہ معارف اس وقت کا ر آمد و کارساز ہیںجب عقل کے ذریعہ جہل چوتھے مفہوم کے لحاظ سے مہار کیا جائے ۔

٤۔ عقل کے مقابل میں ایک قوت

اسلامی نصوص میں جہل کا چوتھا مفہوم گذشتہ مفاہیم کے بر خلاف ایک امر وجودی ہے نہ کہ عدمی ، اور عقل کے مقابل مخفی و پوشدہ شعور ہے اور عقل کے مانند مخلوق خدا ہے جس کے کچھ آثار و مقتضیات ہیں کہ جنہیں'' عقل کے سپاہی'' کے مقابل میں''جہل کے سپاہی'' سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس جہل کو قوت سے اس لئے تعبیر کیا ہے تاکہ یہ پوری طور پر عقل کے مقابل قرار پا سکے اس قوت کے لئے دوسرے بھی نام ہیںکہ جن کا بیان خلقت عقل کی بحث میں ہو چکا ہے ۔

جیسا کہ علامات عقل کے باب اول میں ذکر ہو چکا ہے کہ تمام اعتقادی و اخلاقی اورعملی حسن وجمال جیسے خیر، علم ، معرفت ، حکمت ، ایمان ، عدل ، انصاف، الفت، رحمت، مودت، مہربانی ، برکت، قناعت، سخاوت، امانت، شہامت ، حیا، نظافت ،امید، وفا، صداقت، بردباری، صبر، تواضع ،بے نیازی، نشاط وغیرہ کو عقل کے سپاہیوں میںشمار کیاہے ۔

اور ان کے مقابل میں تمام اعتقادی و اخلاقی اورعملی برائیوں جیسے : شر، جہل، حماقت، کفر، ستم ،جدائی، قساوت، قطع رحم ، عداوت، بغض، غضب، بے برکتی، حرص ، بخل ، خیانت، بزدلی ، بے حیائی، آلودگی ، ہتک ، کثافت، نا امیدی ، کذب، سفاہت،بیتابی، تکبر، فقر اور سستی وغیرہ کو جہل کے سپاہیوں میں شمار کیا ہے ۔

انسان ان دونوں قوتوں کے سلسلہ میں صاحب اختیار ہے کہ ان میں سے جس کو چاہے انتخاب کرے اور پروان چڑھائے۔ وہ قادر ہیکہ اپنی قوت عقل کا اتباع کرے اور اس کو زندہ کرکے جہل و شہوت اور نفس امارہ کو فنا کر دے۔ اور عقل کے سپاہی اور اس کے مقتضیات کی تربیت کرکے انسان کے بلند مقصد تک پہنچ جائے اور خدا کا نمائندہ بن جائے ۔ یا قوت جہل کا اتباع اور اس کے سپاہی اور مقتضیات کی تربیت کرکے پست ترین حالت اور قعر مذلت میں گر جائے۔

اس وضاحت کی روشنی میں دو مہم اور قابل غور نکات روشن ہو جاتے ہیں ،وہ یہ ہیں :-

١۔خطرناک ترین جہل

پہلا نکتہ یہ ہے کہ گر چہ اسلام تیسرے معنی کے اعتبار سے مذموم جہل کی شدت سے مخالفت کرتا ہے ؛ لیکن اس مکتب کی نظر میں خطرناک ترین جہل، چوتھے معنی کے اعتبار سے ہے ؛ یعنی ایسی راہ کا انتخاب کہ جس کی طرف قوت جہل انسان کو دعوت دیتی ہے؛ کیوں کہ اگر انسان اس راہ پرگامزن ہو جسے عقل نے معین کیا ہے تو بلا شبہ علم و حکمت اور دیگر عقل کے سپاہی انسان کواس کے مبدأ و مقصد تک پہنچاتے اور تمام مفید و سازگار معارف کی طرف ہدایت کرتے ہیں اور وہ اپنی استعداد اور کوشش کے مطابق اپنی خلقت کے فلسفہ تک پہنچتا ہے۔

لیکن اگر انسان ایسی راہ کا انتخاب کرے جو جہل کا تقاضا تھاتو جہل کے سپاہی مفید معارف اور ایسے بلند حقائق جوانسان کو انسانیت کے بلند مقصد سے آشنا کرتے ہیں کی راہ شناخت کو مسدود کر دیتے ہیں۔ لہذا اس حالت میں اگر کوئی اعلم دوراں بھی ہو جائے تو بھی اس کا علم اسکی ہدایت کے لئے کافی نہ ہوگا اور جہل کی بیماری اسے موت کے گھاٹ اتار دیگی(اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے )

اس بنیاد پر اسلامی روایات میں جب جہل کے متعلق تحقیق کی جاتی ہے تو بحث کا اصلی محور جہل کا چوتھا معنی قرار پاتاہے، البتہ جہل کے بقیہ معنی و مفاہیم بھی ترتیب وار اہمیت کے حامل ہیں۔

٢۔ عقل و جہل کا تقابل

دوسرا مہم نکتہ یہ ہے کہ اسلامی نصوص میں عقل و جہل کے تقابل کا راز کیاہے۔ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ معمولا جہل علم کے مقابل میں پیش کیا جاتا ہے لیکن اسلامی نصوص اور اس کے کے اتباع میں حدیث کی کتابوں میں معمول کے خلاف جہل کو کیو ںعقل کے مقابل قرار دیا گیا ہے؟

جب آپ حدیث کی کتابوں کی طرف رجوع کریں گے تو عنوان ''علم و جہل'' نہیں پا سکیں گے اور اس کے بر خلاف عنوان ''عقل و جہل'' ا کثر یا تفصیلی کتابوںمیں پائیں گے اس کا راز یہ ہے کہ اسلام، جہل کو چوتھے معنی کے لحاظ سے جو کہ امر وجودی ہے اور عقل کے مقابل ہے جہل کے دوسرے اور تیسرے معنی۔ امر عدمی اور علم کے مقابل ہے سے زیادہ خطرناک جانتا ہے ۔

بعبارت دیگر، اسلامی نصوص میں عقل و جہل کا تقابل اس چیز کی علامت ہے کہ اسلام عقل کے مقابل جہل کو علم کے مقابل جہل سے زیادہ خطرناک جانتا ہے اور جب تک اس جہل کی بیخ کنی نہ ہوگی صرف علم کے مقابل جہل کی بیخ کنی سے معاشرہ کے لئے اساسی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتااور یہ نکتہ نہایت ظریف اور دقیق ہے لہذا اسے غنیمت سمجھو !

دوسری فصل جہل سے بچو

٢/١

جہل کی مذمت

قرآن

( بیشک ہم نے امانت کو آسمان ، زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا اور سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور خوف ظاہر کیا بس انسان نے اس بوجھ کواٹھا لیا کہ انسان اپنے حق میں ظالم اور نادان ہے )

الف: عظیم ترین مصائب

حدیث

٨١٧۔ امام علی (ع): عظیم ترین مصائب نادانی ہے ۔

٨١٨۔ امام علی (ع): شدید ترین مصائب میں سے جہل کاغلبہ بھی ہے ۔

٨١٩۔ امام علی (ع): بدترین مصائب جہالت ہے۔

٨٢٠۔ امام صادق(ع): کوئی بھی مصیبت جہل سے بڑھکر نہیں۔

ب: بدترین بیماری

٨٢١۔ امام علی (ع): بدترین بیماری نادانی ہے۔

٨٢٢۔ امام علی (ع): جہالت، بدترین بیماری ہے ۔

٨٢٣۔امام علی (ع): جہالت سے بڑھ کر ناتواں کرنے والی کوئی بیماری نہیں ہے۔

٨٢٤۔امام علی (ع): جہالت بیماری اور سستی ہے۔

٨٢٥۔ امام علی (ع): انسان میں جہالت جذام سے زیادہ مضر ہے ۔

ج: شدید ترین فقر

٨٢٦۔ رسول خدا(ص): اے علی (ع):جہالت سے بدتر کوئی فقرنہیں۔

٨٢٧۔ امام علی (ع): کوئی بے نیازی عقل کے مانند نہیں اور کوئی فقر جہالت کے مثل نہیں۔

٨٢٨۔ امام علی (ع): جاہل کے لئے کوئی بے نیازی نہیں۔

د: خطرناک ترین دشمن

٨٢٩۔ رسول خدا(ص): ہر انسان کا دوست اسکی عقل ہے اور دشمن اسکی جہالت ہے ۔

٨٣٠۔ رسول خدا(ص): وہ شخص کہ جس کا فہم اس کے لئے نفع بخش نہیں ہے تو اسکی نادانی اس کے لئے مضر ہے۔

٨٣١۔ امام علی (ع): کوئی دشمن ، جہل سے زیادہ خطرناک نہیں۔

٨٣٢۔ امام علی (ع): جہل سب سے بڑا دشمن ہے ۔

٨٣٣۔ امام عسکری ؑ : نادانی ، دشمن ہے اور بردباری حکمرانی ہے ۔

ھ: رسوا ترین بے حیائی

٨٣٤۔ امام علی (ع): کوئی بے حیائی نادانی سے بدتر نہیں۔

٨٣٥۔ امام علی (ع): جہالت کی مذمت کے لئے یہی کافی ہے کہ جاہل خود اس سے بیزاری اختیار کرتا ہے ۔

٨٣٦۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ خوبصورت انسان کے لئے کتنا قبیح ہے کہ جاہل ہو وہ اس خوبصورت مکان کی طرح ہے کہ جس کے رہنے والے شریر لوگ ہوں یا ایسے باغ کی مانند ہے کہ جس کو الو ؤںنے آباد کیا ہو، اور یا(بھیڑ بکریوں) کے ریوڑ کے مثل ہے کہ جس کی نگہبانی بھیڑ یاکر رہا ہو۔

٢/٢

جاہل کی مذمت

قرآن

( اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں )

حدیث

٨٣٧۔ رسول خدا(ص): اللہ تعالیٰ نے کسی بندہ کو رسوا و ذلیل نہیں کیا مگر یہ کہ اسے علم و ادب سے محروم رکھا ہو۔

٨٣٨۔ امام علی (ع): جب خدا کسی بندہ کو رسوا کرنا چاہتا ہے تو اسے علم وانش سے محروم کر دیتا ہے ۔

٨٣٩ ۔ رسول خدا(ص): وہ دل جس میں حکمت نہیں ویران گھر کی طرح ہے ؛ لہذا سیکھو اور سکھاؤ؛ علم و فقہ حاصل کرو اور جاہل مت مرو، یقینا خدا جاہل کے عذر کو قبول نہیں کریگا۔

٨٤٠۔ رسول خدا(ص): جاہل زاہد شیطان کا ٹھٹھا ہے ۔

٨٤١۔امام علی (ع): جسم کی بلندی و بزرگی سے کوئی فائدہ نہیں جبکہ دل نقصان میں ہو۔

٨٤٢۔ امام علی (ع): اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین خلائق، جاہل ہے ؛ کیوں کہ خدا نے اس کو اس نعمت سے محروم رکھا ہے کہ جس کے ذریعہ اس نے اپنے تمام بندوں پر احسان کیا ہے ؛ اور وہ عقل ہے ۔

٨٤٣۔ امام علی (ع): جاہل کا عمل وبال ہے اور اس کا علم گمراہی ہے ۔

٨٤٤۔ امام علی (ع): بدبخت ترین انسان ، جاہل ہے ۔

٨٤٥۔ امام علی (ع): جاہل زندوں کے درمیان مردہ ہے ۔

٨٤٦۔ امام علی (ع): جاہل، چھوٹا ہے چاہے بوڑھا ہی ہو اور عالم بزرگ ہے چاہے چھوٹا ہی ہو۔

٨٤٧۔ امام علی (ع): جاہل ایسی چٹان ہے کہ جس سے پانی کے چشمے نہیں پھوٹتے، ایسا درخت ہے کہ جس کی شاخ سر سبز نہیںہوتی اور ایسی زمین ہے کہ جس پر سبزہ نہیںاگتا۔

٨٤٨۔ امام علی (ع): جاہل کے لئے ہر حالت میں خسارہ ہے ۔

٨٤٩۔ امام علی (ع): ہر جاہل فتنہ میں مبتلا ہے ۔

٨٥٠۔ امام علی (ع): جاہل ، حیران و سرگرداں ہے ۔

٨٥١۔ امام علی (ع): جاہل کا تسلط اس کے عیوب کو آشکار کرتا ہے ۔

٨٥٢۔ امام علی (ع): جاہل کے ہاتھ میں نعمت، مزبلہ پر گلزار کے مانند ہے ۔

٨٥٣۔ امام علی (ع):جاہل کی نعمت جتنی حسین ہوتی جائیگی اتنی ہی قبیح ہوتی جائیگی۔

٨٥٤۔ امام علی (ع): جاہل کی حکومت اس مسافر کی سی ہے جو ایک جگہ نہیں ٹھہرتا ۔

٨٥٥۔ امام علی (ع): جو عقل سے محروم ہے ، اس سے امید نہ رکھو۔

٨٥٦۔ امام علی (ع): نیکوکار کی زبان ، جاہلوں کی حماقت سے باز رہتی ہے ۔

٨٥٧۔ امام علی (ع): تلوار کی تیزی کے علاوہ جاہل کو کوئی روک نہیں سکتا۔

٨٥٨۔ امام علی (ع): نے واقعہ جمل کے بعد اہل بصرہ کی مذمت میں فرمایا: تمہاری زمین پانی سے قریب اور آسمان سے دور ہے ، تمہاری عقلیں ہلکی اور تمہاری دانائی احمقانہ ہے ، تم ہر تیرانداز کا نشانہ ، ہر بھوکے کا لقمہ اور ہر شکاری کا شکار ہو۔

٨٥٩۔ امام علی (ع): نادان دوست کی ہمنشینی اختیار مت کرو اور اس سے پرہیز کرو کتنے نادانوں نے دوستی کے سبب بردبار انسانوں کو ہلاکت کے دہانے تک پہنچا دیاہے۔

٨٦٠۔ امام باقر(ع): بیشک وہ دل جس میں ذرا بھی علم نہ ہو، اس کھنڈر کے مانند ہے جس کا کوئی آباد کرنے والا نہ ہو۔

٨٦١۔ امام عسکری ؑ : جاہل کی تربیت اورعادی کو اسکی عادت سے روکنا معجزہ ہے ۔

٨٦٢۔ لقمان : صاحب علم و حکمت کا تمہیں مارنا اور اذیت پہنچانااس سے بہتر ہے کہ جاہل خوشبودار تیل سے تمہاری مالش کرے۔

٢/٣

نادر اقوال

٨٦٣۔ رسول خدا(ص): خدا نے جہل کے سبب کسی کو عزیز نہیں کیا اور بردباری کے سبب کسی کو رسوا نہیں کیا۔

٨٦٤۔ امام علی (ع): فضائل سے ناواقفیت ،بد ترین رذائل ہے۔

٨٦٥۔ امام علی (ع): نادانی و بخل ، برائی اور ضرر ہے ۔

٨٦٦۔ امام علی (ع): نادانی سے بدترکوئی موت نہیں۔

٨٦٧۔ امام علی (ع): جہل وبال ہے ۔

٨٦٨۔ امام علی (ع): جہل کے ساتھ کوئی مذہب ترقی نہیں کر سکتا۔

٨٦٩۔ امام علی (ع): بیشک تم لوگ نادانی کی بدولت نہ کسی مطلوب کو حاصل کر سکتے ہو اور نہ کسی نیکی تک پہنچ سکتے ہو اور نہ ہی کسی مقصد آخرت تک تمہاری رسائی ہو سکتی ہے۔

٨٧٠۔ امام علی (ع): یقینا جہل سے بے رغبتی اتنی ہی ہے کہ جتنی مقدار میں عقلمندی سے رغبت ہے ۔

تیسری فصل جاہلوں کے اقسام

٨٧١۔ امام علی (ع): لوگ چار طرح کے ہوتے ہیں: وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ میں جانتا ہوں۔ ایسا شخص حقیقتاً عالم ہے لہذا اس سے سوال کرو؛ وہ شخص جو نہیں جانتا لیکن یہ جانتا ہے کہ میں نہیں جانتا ہوں راہ ہدایت کا طالب ہے لہذا اسکی ہدایت کرو، وہ شخص جو نہیں جانتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ نہیں جانتا ہوں ، ایسا شخص جاہل ہے اسے چھوڑ دو، اور وہ شخص جو جانتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ میں جانتا ہوں یہ سویا ہوا اہے لہذا سے بیدار کرو۔

٨٧٢۔ امام صادق(ع): لوگ چار طرح کے ہوتے ہیں: وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ بھی جاتاہیکہ میں جانتا ہوں پس یہ شخص عالم ہے لہذا اس سے علم حاصل کرو؛ وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ میں جانتاہوں یہ سویا ہوا ہے اسے بیدار کرو، وہ شخص جو نہیں جانتا اور یہ جانتاہے کہ نہیں جانتا ہوں ایسا شخص جاہل ہے اسے تعلیم دو، اور وہ شخص جو نہیںجانتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ نہیں جانتا ہوں یہ احمق ہے اس سے اجتناب کرو۔

اقسام جہل کی وضاحت

جیسا کہ ان روایات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ حقائق کی معرفت کے اعتبار سے انسان کی چار حالتیں ہیں اور ان حالات میں سے ہر حالت کے لئے فرد اور معاشرہ کے لحاظ سے خاص احکام و تکالیف ہیں، وہ حالات حسب ذیل ہیں۔

١۔ علم

پہلی حالت، علم و آگاہی ہے ؛ جو شخص جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ میں جانتا ہوں اسے عالم کہا جاتا ہے ، ایسا شخص دوسروں کے لئے معلم بننے کا حق رکھتا ہے اور اسلام کی رو سے ایسے شخص کا فریضہ لوگوں کو تعلیم دینا اور لوگوںکافریضہ علم حاصل کرنا ہے ، جیسا کہ ارشاد خدا ہے :

( فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون )

اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے !

٢۔ غفلت

دوسری حالت، غفلت ہے ؛ غافل وہ شخص ہے جو جانتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ میں جانتا ہوں ، یہاں پر بیدار لوگوں پر لازم ہیکہ اسے خواب غفلت سے بیدار کریں (فذاک نائم فأنبھوہ) وہ سویا ہوا ہے اسے بیدار کرو (و ذکر فان الذکریٰ تنفع المؤمنین)اور یاد دہانی کرتے رہو کہ یاد دہانی صاحبان ایمان کے حق میں مفید ہوتی ہے ۔

٣۔ جہل بسیط

تیسری حالت، جہل بسیط ہے ؛ جاہل وہ ہے جوکچھ نہیں جانتا؛ اور چاہے وہ جانتا ہو کہ میں نہیں جانتا ہوں یا نہ جانتا ہو کہ نہیں جانتا ہوں ، ہر حالت میں عالم پر لازم ہے کہ اسے تعلیم دے اور اس پر ضروری ہے کہ سیکھے تاکہ آیت( فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون ) کا مصداق قرار پائے۔

٤۔ جہل مرکب

چوتھی حالت، جہل مرکب ہے ؛ یہ جہل دو جہل سے مرکب ہے ، وہ دو جہل عدم علم اور توہم علم ہےں۔ جاہل مرکب وہ ہے جو نہیںجانتا اور خیال کرتا ہے کہ میں جانتا ہوں ،بظاہر اس فصل کی روایات میں وارد اس جملہ( لا یعلم ولا یعلم انہ لا یعلم) یعنی نہیںجانتا اور یہ بھی نہیں جانتاکہ نہیںجانتا ہوں؛ اور اسی طرح(لا یدری ولا یدری انہ لا یدری)یعنی نہیں جانتا اور یہ بھی نہیں جانتاکہ نہیں جانتا ؛ یہی معنی مراد ہےں لہذا علی علیہ السلام نے ایسے جاہل کے مقابل میں لوگوں کا وظیفہ یہ قرار دیا ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے :- (فذاک جاہل فارفضوہ؛ پس یہ جاہل ہے اسے چھوڑ دو) اور امام صادق(ع) نے لوگوں کو ایسے شخص سے اجتناب کا حکم دیا ہے: (فذاک احمق فاجتنبوہ؛ وہ جاہل ہے اس سے اجتناب کرو )

لا علاج بیماری

اس سلسلہ کی احادیث کے اندر جاہلوں کے اقسام کے حوالہ سے جو ہدایت پیش کی گئی ہے اس کے متعلق اساسی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرہ کے آگاہ افراد پر غافل اور جاہل بسیط کو آگاہ کرنا کیوں لازم ہے؛ لیکن جاہل مرکب کے متعلق نہ فقط یہ کہ کوئی فریضہ نہیں ہے بلکہ فریضہ یہ ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے اور چھوڑ دیا جائے؟

جواب یہ ہے کہ جہل مرکب، خطرناک ترین اقسام جہل ہے اور در حقیقت لا علاج بیماری ہے جو شخص نہیںجانتا اور یہ خیال کرتا ہے کہ جانتا ہے وہ اپنے خیال اور احساس آگاہی کی ایسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہے کہ جو ناقابل علاج ہے۔

اس سلسلہ میں امام صادق - فرماتے ہیں :

'' من اعجب بنفسہ ھلک، ومن اعجب برأیہ ھلک، وان عیسیٰ بن مریم (ع) قال: داویت المرضی فشفیتھم باذن اﷲ، وابرأت الاکمہ والابرص باذن اﷲ، وعالجت الموتیٰ فاحییتھم باذن اﷲ، وعالجت الاحمق فلم اقدر علیٰ اصلاحہ۔ فقیل یا روح اﷲ، وما الاحمق؟ قال: المعجب برأیہ ونفسہ، الذی یریٰ الفضل کلہ لہ لا علیہ، ویوجب الحق کلہ لنفسہ ولا یوجب علیھا حقا، فذاک الاحمق الذی لا حیلۃ فی مداواتہ ''

جو شخص اپنے متعلق خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے تباہ ہو جاتا ہے ، اور جو اپنی رائے و نظر سے خوش ہوتا ہے ہلاک ہو جاتا ہے ، بیشک عیسی ؑ بن مریم فرماتے ہیں( بیماروںکا خدا کے اذن سے علاج کیا شفایاب ہوگئے، نابینا اور کوڑھیوںکو خدا کے اذن سے شفا بخشی ؛ اور مردوں کو باذن الہی زندہ کیا؛ اور احمق کا علاج کیالیکن اسکی اصلاح نہ کرسکا !

پوچھا گیا: اے روح اللہ! احمق کون ہے ؟ فرمایا:( وہ شخص جو خود کواور اپنی رائے ہی کو صحیح سمجھتا ہے)تمام فضیلتوں کو اپنا ہی حق سمجھتاہے ، اپنے کسی عیب کو تسلیم نہیں کرتا اپنے حقوق کوواجب جانتا ہے اور اپنے اوپرکسی کاحق واجب نہیں سمجھتا یہ شخص ایسا احمق و نادان ہے کہ جس کا کوئی علاج نہیںہے۔

اس وضاحت کے لحاظ سے حقیقی احمق و نادان وہ شخص نہیںہے جو دماغی مشکلات میں مبتلا ہو اور جسمی بیماریوںکی وجہ سے مسائل کے سمجھنے پر قادر نہ ہو۔ اس طرح کے مریض اگر طبیعی طور پر قابل علاج نہ ہوں تو معجزہ کے ذریعہ ان کا علاج ممکن ہے ۔ حقیقی احمق وہ ہے کہ جس کا دماغ سالم ہو؛ لیکن خود بینی اور احساس دانائی کی بیماری نے اسکی عقل و فکر کو فاسد کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں عقل عملی کی دعوت کو قبول نہیں کرتا لہذا اسکی عقل کی فنا و موت کازمانہ آپہنچتا ہے ۔ ایسے مردہ کا علاج ممکن نہیں ۔ ایسے مردہ کو حضرت عیسی ؑ بھی زندہ نہیںکر سکتے۔

حضرت عیسیٰ باذن خدا ہر قسم کی جسمی بیماریوں کا طبی آلات کے بغیر علاج کرتے تھے؛ یہاں تک کہ مردوںکو بھی زندہ کرتے تھے؛ لیکن مردہ فکرو عقل کے زندہ کرنے پر قادر نہ تھے، کسی بنی کو اس پر قدرت نہ تھی جیسا کہ قرآن کریم خاتم الانبیاء محمد مصطفی ؐ سے فرماتا ہے :

( انک لا تسمع الموتیٰ ولا تسمع الصم الدعائ )

یقینا آپ اپنی آواز نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ ہی بہروںکو۔

اس قسم کے انسان فقط دنیا کے ظواہر پر نظر رکھتے ہیں اور حقیقت سے غافل ہوتے ہیں :

( یعلمون ظاھرا من الحیاۃ الدنیا و ھم عن الآخرۃ ھم غافلون )

یہ لوگ صرف زندگانی دنیا کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت کی طرف سے بالکل غافل ہیں۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مردہ کو تعلیم دینا بے سود ہے اور جس کی عقل و فکر مردہ ہو چکی ہو وہ خطرناک ترین چوپائے میں تبدیل ہو جاتاہے جیسا کہ قرآن کا ارشادہے :

( ان شر الدواب عند اﷲ الصم البکم الذین لایعقلون )

اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیںجو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں۔

اسی بنا پر، ایسے شخص سے قریب ہونا ہی خطرناک ہے : کیوں کہ عقلی و فکری بیماری متعدی ہوتی ہے ممکن ہے کہ دوسروںمیںسرایت کر جائے لہذا لوگوںکا ریضہ یہ ہے کہ ایسی بیماریوں سے اجتناب کریں اور اس سے دور رہیں؛ جیسا کہ خدا فرماتا ہے :

( فاعرض عن من تولیٰ عن ذکرنا و لو یرد الا الحیاۃ الدنیا )

لہذا جو شخص بھی ہمارے ذکر سے منہ پھیرے اور زندگانی دنیا کے علاوہ کچھ نہ چاہے آپ بھی اس سے کنارہ کش ہو جائیں۔

چوتھی فصل جہل کے علامات

٤/١

آثار جہل

الف : کفر

قرآن مجید

( جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم اس کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ۔ک یا یہ ایسا ہی کریںگے چاہے ان کے باپ دادا بے عقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ ہوں )

( جو لوگ کافر ہو گئے ہیں ان کے پکارنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو جانوروں کو آواز دے اور جانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور نہ سمجھیںیہ کفار بہرے، گونگے اور اندھے ہیں۔ انہیں عقل سے سروکار نہیں ہے )

( اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اس کو مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں اس لئے کہ یہ بالکل بے عقل قوم ہیں )

حدیث

٨٧٣۔ رسول خدا(ص): تمام خوبیاں عقل کے سبب حاصل ہوتی ہیں اور جسکے پاس عقل نہیںہے اسکے پاس دین نہیں۔

٨٧٤۔ رسول خدا(ص): انسان کی اصل اسکی عقل ہے اور جس کے پاس عقل نہیںہے اس کے پاس دین نہیں۔

٨٧٥۔ رسول خدا(ص): انسان کا دین اسکی عقل ہے اور جس کے پاس عقل نہیںہے اس کے پاس دین نہیں۔

٨٧٦۔ امام علی (ع): کوئی شخص کافر نہیں ہو ا مگر یہ کہ جاہل تھا۔

٨٧٧۔ امام علی (ع): کافر ایسا پست حیلہ باز، خیانتکار ، اور مغرور ہے جو اپنی جہالت کے سبب نقصان میں ہے۔

٨٧٨۔ امام علی (ع): کافر، بدکارجاہل ہے ۔

٨٧٩۔ امام علی (ع): جاہل جب بخل سے کام لیتا ہے تو مالدار ہوجاتا ہے اور جب مالدار ہو جاتا ہے توبے دین ہو جاتا ہے۔

٨٨٠۔ امام علی (ع): علی بن اسباط: کسی معصوم ؑ سے نقل کرتے ہیں: خدا کی جانب سے حضرت عیسی ؑ کو کی جانے والی نصیحتوں میں ملتا ہے: اے عیسی! میرے ساتھ کسی چیز کو شریک مت قرار دو....ہر جگہ حق کے ساتھ رہو، خواہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے آگ میں جلا دئے جاؤ۔ پھر بھی میری معرفت کے بعد کفر اختیار نہ کرنا تاکہ جاہلوں میں سے نہ ہوجاؤ۔

ب: برائیاں

٨٨١۔ رسول خدا(ص): جہل تمام برائیوں کا سرغنہ ہے ۔

٨٨٢۔ امام علی (ع): جہالت تمام برائیوں کی جڑہے ۔

٨٨٣۔ امام علی (ع): جہالت ہر کام کی تباہی ہے ۔

٨٨٤۔ امام علی (ع): جہالت کے سبب تمام برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔

٨٨٥۔ امام علی (ع): جہالت برائی کا سرچشمہ ہے ۔

ج: علم اور عالم سے دشمنی

٨٨٦۔ امام علی (ع): لوگ نامعلوم چیزوںکے دشمن ہوتے ہیں۔

٨٨٧۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتا ہے اس کا دشمن ہوتا ہے ۔

٨٨٨۔امام علی (ع): جو شخص کسی چیز سے بے خبر ہوتا ہے اس میں عیب نکالتا ہے ۔

٨٨٩۔ امام علی (ع): جو شخص کسی چیز کی معرفت سے قاصر ہوتا ہے اس میں نقص نکالتا ہے ۔

٨٩٠۔ امام علی (ع): کسی نے بھی جاہلوں کی طرح علماء کی مخالفت نہیںکی۔

٨٩١۔ امام علی (ع): جن چیزوںکو نہیں جانتے ان کے دشمن نہ بنو اس لئے کہ بیشتر علم انہیں چیزوں میں ہے جنہیں تم نہیںجانتے۔

د: روح کی موت

٨٩٢۔ امام علی (ع): جہل، زندوںکو مردہ اور بدبختوں کو دوام بخشتا ہے ۔

٨٩٣۔ امام علی (ع): جہالت موت ہے اور سستی فنا ہے ۔

٨٩٤۔ امام علی (ع): جاہل مردہ ہوتا ہے چاہے زندہ ہی کیوں نہ ہو۔

٨٩٥۔ امام علی (ع): عالم مردوں کے درمیان زندہ اور جاہل زندوں کے درمیان مردہ ہے ۔

٨٩٦۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ فضائل سے ناواقفیت موت کے برابر ہے۔

٨٩٧۔ امام علی (ع): جس شخص میں نیک صفات میں سے کوئی صفت مستحکم ہو جائے تو میں اس کو اس صفت کی وجہ سے تحمل کرونگا اور اس کے علاوہ دیگر صفات کے فقدان پر اسے معاف کر دونگا۔لیکن عقل اور دین کے فقدان پر اسے معاف نہیں کرونگا اس لئے کہ دین سے دوری امن و امان سے دوری ہے ، اور خوف کے عالم میں زندگی خوشگوار نہیں ہوتی، عقل کا فقدان ، حیات کا فقدان ہے جس کو صرف مردوںپر قیاس کیا جاتا ہے ۔

ھ: برے اخلاق

٨٩٨۔ صالح بن مسمار: کا بیان ہیکہ مجھے یہ خبر ملی کہ رسول خدا(ص) نے اس آیت(اے انسان تجھے رب کریم کے بارے میںکس شی نے دھوکا میں رکھا) کی تلاوت کی پھر فرمایا: اسکی جہالت نے۔

٨٩٩۔ امام علی (ع): حرص،برائی اور بخل جہل کانتیجہ ہےں۔

٩٠٠۔ امام علی (ع): نادانی کی بنیاد حماقت ہے ۔

٩٠١۔ امام علی (ع): اپنی دعا میں فرماتے ہیں: میں ناواقف ہوں اور میںنے اپنی ناواقفیت کی بنا پر تیری نافرمانی کی ہے ۔ اپنی نادانی کے سبب گناہوںکا ارتکاب کیا ہے ، میری لا علمی کی وجہ سے دنیا نے مجھے منحرف کیا ہے ، اپنی جہالت کی بدولت تیری یاد سے غافل ہوا اور اپنی بے خبری کے باعث دنیا کی طرف مائل ہوا۔

٩٠٢۔ اما م صادق(ع): نادانی تین چیزوں میں ہے: غرور، زیادہ جھگڑا اور خدا سے بے خبری۔یہی لوگ خسارہ میں ہیں۔

٩٠٣۔ امام علی (ع): جو شخص نیکی کرنے سے بخل کرتا ہے وہ عقلمند نہیں۔

و: اختلاف و جدائی

قرآن

( یہ کبھی تم سے اجتماعی طور پر جنگ نہ کریں گے مگر یہ کہ محفوظ بستیوں میں ہوں یا دیواروںکے پیچھے ہوں ان کی دھاک آپس میں بہت ہے اور تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ سب متحد ہیں ہرگز نہیں ان کے دلوں میں سخت تفرقہ ہے اور یہ اس لئے کہ اس قوم کے پاس عقل نہیں ہے )

حدیث

٩٠٤۔ امام علی (ع): اگر جاہل خاموش رہتے تو لوگوں میں اختلاف نہ ہوتا۔

٩٠٥۔امام علی (ع):نے اہل بصرہ کو مخاطب کرکے۔ فرمایا: اے وہ قوم! جس کے بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب۔ تمہاری خواہشات گوناگوں ہیں اور تمہارے حکام تمہاری بغاوت میں مبتلا ہیں۔ تمہارا امیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور تم اسکی نافرمانی کرتے ہو؛ اور شام کا حاکم اللہ کی معصیت کرتا ہے اور اسکی قوم اسکی اطاعت کرتی ہے !

٩٠٦۔ امام علی (ع): اے وہ لوگ جنکے نفوس مختلف ہیں اور دل متفرق،بدن حاضرہیں اور عقلیں غائب، میں تمہیں مہربانی کے ساتھ حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس طرح فرار کرتے ہو جیسے شیر کی ڈکار سے بکریاں !

ز: لغزش

٩٠٧۔ امام علی (ع): جو شخص اپنے قدم رکھنے کی جگہ کو نہیںدیکھتا وہ پھسلتا ہے ۔

٩٠٨۔ امام علی (ع): جہالت قدم کو متزلزل کر دیتی ہے اور پشیمانی کی باعث ہوتی ہے۔

٩٠٩۔ امام علی (ع): جہل ایسی سرکش سواری ہے کہ جو اس پر سوار ہوگا پھسل جائیگا اور جو اسکی ہمراہی کریگا بھٹک جائیگا۔

٩١٠۔ امام علی (ع): جاہل کی واقع تک رسائی ، عالم کی لغزش کے برابر ہے ۔

٩١١۔امام علی (ع): جاہل کی واقع تک رسائی ، عاقل کی لغزش کے مانند ہے ۔

٩١٢۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے۔جاہلوں کے صحیح ہونے کامعیار،علماء کے اشتباہ جیسا ہے ۔

ح: ذلت

٩١٣۔ امام علی : ؑ جو شخص عقل کو گنوا دیتا ہے ، ذلت اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔

٩١٤۔ امام علی (ع): کتنے ہی معزز افراد کو جہالت نے ذلیل کر دیا ۔

٩١٥۔ امام علی (ع): جہالت کی ذلت، عظیم ترین ذلت ہے ۔

٩١٦۔ امام علی (ع): ذلت و پستی کے لئے نادانی ہی کافی ہے ۔

٩١٧۔ امام علی (ع): جاہل خود کو بلند کرتا ہے لیکن پست ہو جاتا ہے۔

٩١٨۔ امام علی (ع): دولتمند کی نادانی اس کو پست بنا دیتی ہے اور فقیرکی دانائی اس کو بلند کرتی ہے ۔

٩١٩۔ امام صادق(ع): نادانی ، ذلت ہے ۔

ط: افراط و تفریط

٩٢٠۔ امام علی (ع): جاہل ہمیشہ کوتاہی کرتا ہوا پایا جاتا ہے ۔

٩٢١۔ امام علی (ع): جاہل ہمیشہ افراط و تفریط کا شکا ررہتا ہے (یعنی حد سے آگے بڑھ جاتا ہے یا پیچھے رہ جاتا ہے )

ی: دنیا و آخرت کی برائی

٩٢٢۔ رسول خدا(ص): دنیا وآخرت کی برائی جہالت کے سبب ہے ۔

٩٢٣۔ امام علی (ع): نادانی ،آخرت کو تباہ کردیتی ہے ۔

ک: نادر اقوال

٩٢٤۔ رسول خدا(ص): جو شخص کہتا ہے ''میں عالم ہوں'' در حقیقت وہ جاہل ہے ۔

٩٢٥۔ رسول خدا(ص): جہالت، گمراہی ہے ۔

٩٢٦۔ امام علی (ع): حماقت، نادانی کا نتیجہ ہے۔

٩٢٧۔ امام علی (ع): جہل کا ہتھیار، بیوقوفی ہے ۔

٩٢٨۔ امام علی (ع): جو جہالت کی بنا پر جھگڑے کرتا رہتا ہے وہ حق کی طرف سے اندھا ہو جاتا ہے ۔

٩٢٩۔ امام علی (ع): جو شخص جاہل ہوتا ہے ، اسکی پروا نہیںکی جاتی۔

٩٣٠۔ امام علی (ع): نادانی فریب وضرر کوکھینچتی ہے ۔

٩٣١۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی عقل کو ضائع کر دیتا ہے ، اسکی کم عقلی کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔

٩٣٢۔ امام علی (ع): جو شخص کم عقل ہوجاتا ہے ، اسکی باتیں بری ہوتی ہیں۔

٩٣٣۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل کم ہوتی ہے ، مذاق زیادہ کرتا ہے ۔

٩٣٤۔ امام علی (ع): آزمائے بغیر ہر شخص پر اعتماد کرنا، کم عقلی کی نشانی ہے ۔

٩٣٥۔ امام علی (ع): جو شخص نادان و کم عقل سے دوستی کرتا ہے ، خود اسکی کم عقلی کی نشانی ہے ۔

٩٣٦۔ امام علی (ع): جو شخص نیکیوںکو برے اعمال کے ذریعہ طلب کرتا ہے وہ، اپنی عقل و شعور کو تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔

٩٣٧۔ امام علی (ع): عقل ، ہدایت اور نجات دیتی ہے اور جہالت گمراہ و نابود کر دیتی ہے ۔

٩٣٨۔ اما م زین العاب دین (ع): میری نظر میں یقینا ایک محتاج کا دوسرے محتاج سے طلب کرنا، اسکی کوتاہ فکری اور عقلی گمراہی کی نشانی ہے ۔

٩٣٩۔ امام باقر(ع): جوانمردی یہ ہے کہ طمع نہ کرو کہ ذلیل ہو جاؤگے، دست نیاز نہ بڑھاؤ کہ سبک ہو جاؤگے، بخل نہ کرو کہ گالی کھاؤ گے اور جہالت نہ کروکہ دشمن سمجھے جاؤ گے۔

٩٤٠۔ محمد بن خالد: نے امام صادق(ع) کے چاہنے والوں میں سے کسی ایک سے نقل کیاہے کہ؛ امام صادق(ع) نے فرمایا: ایمان اور کفر کے درمیان صرف کم عقلی کا فاصلہ ہے ، پوچھا گیا: اے فرزند رسول یہ کیونکر ممکن ہے ؟ فرمایا: یقینا ایک بندہ اپنی حاجت کو لیکر دوسرے بندہ کے پاس جاتا ہے ، جبکہ اگر خالص نیت سے خدا کو پکارا ہوتا تو نہایت کم مدت میںاپنی مراد پاجاتا۔

٩٤١۔ امام صادق(ع): اے مفضل! جو عقل سے کام نہیںلیتا وہ کامیاب نہیںہوتااور جو علم نہیں رکھتا وہ عقل سے کام بھی نہیںلیتا۔

٩٤٢۔ امام جواد ؑ : جو شخص وارد ہونے کی جگہوں سے ناواقف ہوتاہے نکلتے وقت یہ جگہیں اسکو تھکا دیتی ہےں۔

٤/٢

جاہلوں کے صفات

( اور اس وقت کوبھی یاد کرو جب موسیٰ نے قوم سے کہا خدا کا حکم ہے کہ ایک گائے ذبح کرو تو ان لوگوںنے کہا کہ آپ ہمارامذاق بنا رہے ہیں ،فرمایا پناہ بخدا کہ میںجاہلوںمیں سے ہو جاؤں )

( ارشاد ہوا کہ نوح یہ تمہارے اہل سے نہیںہیں یہ عمل غیر صالح ہے لہذا مجھ سے اس چیز کے بارے میں سوال نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں ہے ۔ میںتمہیں نصیحت کرتا ہوںکہ تمہارا شمار جاہلوںمیں نہ ہو جائے )

( یوسف نے کہا پروردگار یہ قید مجھے اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ دعوت دے رہی ہیں اور اگر تو ان کے مکر کو میری طرف سے موڑ نہ دیگا تو میں ان کی طرف مائل ہو سکتا ہوں اور میرا شمار بھی جاہلوں میںہو سکتا ہے) ملاحظہ کریں: بقرہ:١٧٠و ١٧١، مائدہ:٥٨، حشر:١٤

حدیث

٩٤٣۔ رسول خدا(ص): اپنے رب کی اطاعت کر و تاکہ عقلمند کہے جاؤ اور اسکی نافرمانی نہ کرو کہ جاہل کہے جاؤ۔

٩٤٤۔ رسول خدا(ص): جاہل وہ ہے جو خدا کی نافرمانی کرتا ہے چاہے خوبصوت اوربا حیثیت ہی ہو۔

٩٤٥۔ رسول خدا(ص): نے اس شخص کے جواب میں جس نے جاہل کی نشانیوںکے بارے میں پوچھا تھا۔ فرمایا: اگر اس کی ہمنشینی اختیارکروگے تو تمہیں تھکاڈالیگا، اگر اس سے کنارہ کش رہوگے تو تمہیں گالی دیگا۔اگر کچھ تمہیں عطا کریگا تو تم پر احسان جتا ئیگا اور اگر تم اسے کچھ دوگے تو ناشکری کریگا، اگر رازداں بناؤگے تو خیانت کریگا، اگر وہ تمہیں رازداںبنائے گا تو تم پر الزام لگائےگا، اگر بے نیاز ہو جائیگا تو اترائیگااور نہایت بد اخلاقی و سخت کلامی سے پیش آئیگا، اگر فقیر ہو جائیگا تو بے جھجک خدا کی نعمتوںکا انکار کریگا، اگر خوش ہوگا تو اسراف اور سرکشی کریگا، اگر محزون ہوگا تو ناامید ہوجائیگا، اگرہنسیگا تو قہقہہ لگائیگا، اگر گریہ کریگا تو بیتاب ہو جائیگا اور خود کو ابرار میں شمار کریگا، حالانکہ نہ خدا سے محبت کرتاہے اور نہ ہی خدا سے ڈرتا ہے اور خدا سے نہ حیا کرتاہے اور نہ ہی اسے یاد کرتا ہے،اگر اسے راضی کروگے تو تمہاری تعریف کریگا اور تمہارے اندر جو خوبیاں نہیںپائی جاتی ہیں ان کی بھی تمہاری طرف نسبت دیگا اور اگر تم سے ناراض ہوگا تو تمہاری تعریف نہیں کریگا اور جو برائیاں تمہارے اندر نہیںہیں ان کی بھی تمہاری طرف نسبت دیگا،یہ جاہل کی روش ہے ۔

٩٤٦۔ رسول خدا(ص): دنیا اس شخص کی قیامگاہ ہے جسکے گھر نہیں، اس شخص کی ثروت ہے جسکے پاس ثروت نہیں، اس کےلئے ذخیرہ ہے جو عقلمند نہیں، دنیوی خواہشات کو وہ طلب کرتا ہے جو فہم و ادراک نہیں رکھتا، دنیا کےلئے وہ دشمنی کرتا ہے جو عالم نہیں ۔ دنیا کےلئے وہ حسد کرتا ہے جو شعورنہیںرکھتا۔ اور دنیا کےلئے وہ کوشش کرتاہے جو یقین نہیں رکھتا۔

٩٤٧۔ رسول خدا(ص): جاہل کی صفت یہ ہے کہ جو اس سے گھل مل جاتا ہے اس پر ظلم کرتا ہے ۔اپنے سے کم لوگوںپر تجاوز کرتا ہے، اپنے سے بلند لوگوںکا مقابلہ کرتا ہے ، اسکی گفتگو فکر و تدبر کے بغیر ہوتی ہے ، جب کلام کرتا ہے تو گناہ کامرتکب ہوتا ہے ، جب خاموش رہتا ہے تو غفلت کرتا ہے ، اگر کوئی فتنہ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو اسکی طرف ٹوٹ پڑتا ہے اور اس کے سبب ہلاک ہو جاتاہے ، جب کوئی فضیلت دیکھتا ہے تو اس سے روگردانی اورسستی کرتا ہے ، گذشتہ گناہوں سے نہ خوفزدہ ہو تا ہے اور نہ ہی اپنی باقی عمر میں گناہوں سے پرہیز کرتا ہے ۔ نیک کاموں میں سستی اور اس سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے اور جو اچھائیاں ا س سے ترک یا ضائع ہو گئی ہیں ان پرافسوس نہیں کرتا____یہ دس خصلتیں جاہل کے خصوصیات میں سے ہیں جو عقل کی نعمت سے محروم ہے ۔

٩٤٨۔ رسول خدا(ص): جاہل میںچھہ خصلتیں پائی جاتی ہیں: کسی برائی کے بغیر ناراضگی ، بے فائدہ گفتگو، بے محل عطا و بخشش، راز کا فاش کرنا، ہر شخص پر اعتماد اور اپنے دوست و دشمن کونہ پہچاننا۔

٩٤٩۔ رسول خدا(ص): نادان اپنی بے حیائی کو آشکار کرتا ہے چاہے لوگوںکے درمیان دور اندیش اور اچھا سمجھا جاتا ہو۔

٩٥٠۔ اما م علی (ع): خدا کے مقابل میںسوائے بد بخت جاہل کے کوئی جرئت نہیںکرتا۔

٩٥١۔ امام علی (ع): جاہل وہ ہے جو خدا کی نافرمانی کے لئے اپنے خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔

٩٥٢۔ امام علی (ع): جاہل نہ پشیمان ہوتا ہے اور نہ ہی برے کاموں سے دستبردار ہوتا ہے ۔

٩٥٣۔ امام علی (ع): جاہل وہ ہے جو اپنے خواہشات کے چنگل اور فریب میں آجاتا ہے ۔

٩٥٤۔ امام علی (ع):جاہل وہ ہے جس کو اسکی حاجتیں دھوکا دیتی ہےں۔

٩٥٥۔ امام علی (ع): جاہل وہی ہے جس کو اسکی حاجتیں غلام بنا لیتی ہیں۔

٩٥٦۔ امام علی (ع): جاہل، ناممکن اورباطل چیزوںکے سبب دھوکا کھاتا ہے ۔

٩٥٧۔ اما م علی (ع): عاقل اپنے عمل پر اعتماد کرتاہے اور جاہل اپنی آرزو پر۔

٩٥٨۔ امام علی (ع): جاہل اپنی امیدپر اعتماد کرتا ہے اور عمل میںکوتاہی کرتا ہے ۔

٩٥٩۔ امام علی (ع): جاہل اپنے ہی جیسوں کی طرف جھکتاہے ۔

٩٦٠۔ امام علی (ع): عاقل کمال کا طالب ہوتا ہے اور جاہل مال کا۔

٩٦١۔ امام علی (ع):جاہل ان چیزوں سے وحشت کرتا ہے جن سے حکیم مانوس ہوتا ہے ۔

٩٦٢۔۔ امام علی (ع): زبان ایسا پیمانہ ہے کہ جہل جس کو ہلکااور عقل جس کو سنگین بناتی ہے ۔

٩٦٣۔ امام علی (ع): جاہل وہ ہے جو اپنے خیر خواہ کو دھوکا دیتا ہے۔

٩٦٤۔ امام علی (ع): یقینا وہ جاہل ہے جو اپنے دشمنوں کو خیر خواہ سمجھتا ہے ۔

٩٦٥۔ امام علی (ع): جاہلوںکا اتباع جہالت کی نشانی ہے ۔

٩٦٦۔ امام علی (ع): جاہلوںکی اطاعت اور فضولیات کی کثرت، جہالت کی نشانیاں ہیں۔

٩٦٧۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے۔ جاہل پر برہان قائم کرنا آسان ہے ،لیکن جاہل سے اس کا اعتراف کرانا دشوارہے ۔

٩٦٨۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ جاہل کو اپنے دل میں حماقت کادرد محسوس کرنے سے وہ چیز باز رکھتی ہے جو مست کو کانٹوں میں ہاتھ ڈالنے کے احساس سے باز رکھتی ہے ۔

٩٦٩۔ امام علی (ع): مردوں کے ساتھ نفرت، جاہلوںکی صفت ہے ۔

٩٧٠۔ امام علی (ع): جاہل اپنی کوتاہی کو نہیں جانتا اور اپنے خیر خواہ کی بات قبول نہیں کرتا۔

٩٧١۔ امام علی (ع): جاہل ، عالم کو نہیں پہچانتا، اس لئے کہ وہ اس سے قبل عالم نہیں تھا۔

٩٧٢۔ امام علی (ع): جاہل باز نہیں آتا اور نصیحتوں سے بہرہ مند نہیںہوتا۔

٩٧٣۔ امام علی (ع): جاہل کی فکر گمراہی ہے ۔

٩٧٤۔ امام علی (ع): عالم اپنے دل و دماغ سے دیکھتاہے اور جاہل اپنی آنکھ اور نظر سے۔

٩٧٥۔ امام علی (ع): جاہل کی ناراضگی اس کے قول سے ظاہر ہوتی ہے اور عاقل کی ناراضگی اس کے عمل سے۔

٩٧٦۔ امام علی (ع): جاہل کی فکر و رائے فنا ہو جاتی ہے۔

٩٧٧۔ امام علی (ع): جاہل کی کوئی گمشدہ نہیں ہے۔

٩٧٨۔ امام علی (ع): جو شخص تمہاری طرف رغبت رکھتا ہے اس سے کنارہ کشی کم عقلی ہے اور جو تم سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے اسکی طرف تمہا راراغب ہونا اپنے نفس کو ذلیل کرنا ہے ۔

٨٧٩۔ امام علی (ع): جاہلوںکی ہمنشینی بے عقلی کی نشانی ہے ۔

٩٨٠۔ امام علی (ع): آرزؤں کی کثرت عقل کی بربادی کی علامت ہے ۔

٩٨١۔ امام علی (ع): عاقل اپنے علم کے ذریعہ بے نیاز ہوتاہے اور جاہل اپنے مال کے ذریعہ ۔

٩٨٢۔ امام علی (ع): جاہل کا سرمایہ اس کا مال اور آرزو ہے ۔

٩٨٣۔ امام علی (ع): جاہل اپنی نادانی کے سبب گمراہ کرتا ہے اور اپنی خواہشات کی بنا پر خود فریب کھاتاہے لہذاا سکی بات بے اعتباراور عمل مذموم ہوتاہے ۔

٩٨٤۔ امام علی (ع): بیشک لالچ و طمع جاہلوںکے قلوب کو پریشان کرتی ہے ،امیدیںانہیں گروی بنا لیتی ہیں اور نیرنگیاں انہیں اسیرکر لیتی ہیں۔

٩٨٥۔ امام علی (ع): اے لوگو! یاد رکھو یقینا وہ عقلمند نہیں ہے جو اپنے متعلق نازیبا کلمات کے سبب بپھر جائے ، وہ حکیم و آگاہ نہیںہے جو جاہل کی تعریف سے خوش ہو، لوگ اپنی خوبیوں کے فرزند ہیں اور ہر انسان کی قدرو قیمت اسکی خوبیوں کے مطابق ہے پس علمی باتیں کرو تاکہ تمہاری قدر و منزلت آشکار ہو جائے۔

٩٨٦۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے، جاہل دنیا کی مذمت کرتا ہے اور خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے، سخاو ت کی تعریف کرتاہے اور بخشش سے بخل کرتا ہے، طولانی آرزؤں کے ساتھ توبہ کی تمنا کرتا ہے، موت کے خوف سے توبہ کرنے میں جلدی نہیںکرتا، اس کام کی جزا کی امید رکھتا ہے کہ جسے انجام نہیں دیاہے ، لوگوں سے فرار کرتا ہے تاکہ اسے ڈھونڈیں، خود کو پوشیدہ رکھتا ہے تاکہ مشہور ہو جائے، خود کی ملامت کرتا ہے تاکہ اسکی مدح کی جائے ، لوگوںکو اپنی مدح سرائی سے روکتا ہے جبکہ پسند کرتاہے کہ اسکی مدح و ثنا ہوتی رہے۔

٩٨٧۔ امام صادق(ع): جاہل کے صفات میں سے یہ ہے کہ جاہل(سوال) سننے سے پہلے جواب دیتاہے ، سمجھنے سے پہلے جھگڑنے لگتا ہے اور نامعلوم چیزوںکا فیصلہ کرتا ہے ۔

٩٨٨۔ امام صادق(ع): عاقل در گذر کرتا ہے اور جاہل دھوکا دیتا ہے ۔

٩٨٩۔ امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آپ سے منسوب کلام میںہے ۔جاہل کی ادنیٰ صفت لیاقت کے بغیر علم کا دعویٰ کرنا ہے اور اس سے بڑھ کر اس کا اپنی جہالت سے ناواقف ہونا ہے اور اس سے بھی بڑھکر اس کا اس سے انکار کرنا ہے ۔

٩٩٠۔ امام کاظم (ع):جاہل کو جو عاقل پر تعجب ہوتا ہے وہ عاقل کے جاہل پر تعجب سے زیادہ ہوتا ہے ۔

٩٩١۔ امام ہادی(ع): جاہل اپنی زبان کا اسیر ہوتاہے ۔

٩٩٢۔ امام ہادی(ع): مسخرہ پن بیوقوفوںکا مذاق اور نادانوںکاشعارہے ۔

٩٩٣۔ عیسی(ع):میں تم سے صحیح کہتا ہوں: حکیم ، نادان سے عبرت حاصل کرتا ہے اور نادان اپنے خواہشات نفسانی سے ۔

٤/٣

جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے

الف: خودرائی

٩٩٤۔ رسول خدا(ص): انسا ن کی دانائی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خدا کی بندگی کرے اور نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنی رائے کا شیفتہ ہو۔

٩٩٥۔ امام علی (ع): تمہارے علم کے لئے بس یہی کافی ہے کہ تم خدا سے ڈرو، اور تمہاری نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ تم اپنے علم سے خوش رہو۔

ب: خود کو اچھا سمجھنا

٩٩٦۔ رسول خدا(ص): انسان کے علم و آگاہی کے لئے بس یہی کافی ہے کہ خدا سے ڈرے اور اسکی نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ(ہر حالت میں) خود کو اچھا سمجھتا ہے ۔

٩٩٧۔ امام علی (ع):انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے نفس سے راضی ہو۔

ج: اپنے عیوب سے بے خبری

٩٩٨۔ امام علی (ع): انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے عیوب سے بے خبر ہو اور لوگوں پر ان چیزوں کی وجہ سے طنز کرے کہ جن میں خود بھی ملوث ہو۔

٩٩٩۔ امام علی (ع):انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے عیوب سے بے خبر ہو۔

د: اپنی قدر و منزلت سے ناواقفیت

١٠٠٠۔ رسول خدا(ص): عالم وہ ہے جو اپنی قدر کو جانتا ہو اورانسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر کو نہ پہچانے۔

١٠٠١۔ امام علی (ع): عالم وہ ہے جو اپنی قدر کو جانتا ہواور جاہل وہ ہے جو خود سے بے خبر ہو۔

١٠٠٢۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنے مقام کو پہچانتا ہو اور جاہل وہ ہے جو اپنی حدود کو نہ جانتا ہو،

١٠٠٣۔ امام علی (ع): انسان کی نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی حدود سے ناواقف ہو۔

١٠٠٤۔ امام علی (ع):نے (گورنر کے کاتب کے خصوصیات کے سلسلہ میں ) فرمایا: یہ لوگ معاملات میں اپنے صحیح مقام سے ناواقف نہ ہوں کہ اپنی قدر و منزلت کا نہ پہچاننے والا دوسرے کے مقام و مرتبہ سے یقینا زیادہ ناواقف ہوگا۔

١٠٠٥۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی قدرو منزلت نہیں پہچانتا ، اپنی حدود سے گذر جاتا ہے ....

ھ: علم و عمل میں منافات

١٠٠٦۔ امام علی (ع): عالم کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کا علم اس کے عمل سے منافات رکھتا ہو۔

و:خود را فضیحت دیگراں را نصیحت

١٠٠٧۔ امام علی (ع): انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ دوسروں کے جس فعل کو ناپسند کرتا ہے اسی کو خود انجام دیتا ہے ۔

١٠٠٨۔ لقمان : تمہاری جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ دوسرں کو جن چیزوں سے روکتے ہو ان ہی کاخودارتکاب کرتے ہو۔ تمہاری عقلمندی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ لوگ تمہارے شر سے محفوظ رہیں۔

ز: گناہوںکا ارتکاب

١٠٠٩۔ امام علی (ع): انسان کی نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جس سے منع کرتا ہے اسی کو انجام دیتا ہے ۔

١٠١٠۔ امام کاظم (ع): اے ہشام!...تمہاری جہالت کےلئے اتنا ہی کافی ہے جس سے منع کرتے ہو اسی کو انجام دیتے ہو۔

ح: ہر معلوم چیز کا اظہار

١٠١١۔ رسول خدا(ص): تمہارے جھوٹ کے لئے اتنا ہی کافی ہے جو کچھ سنو زبان پر جاری کرو اور جہالت کی نشانیوںمیں سے ایک یہ ہے کہ جو کچھ جانتے ہو اس کا اظہارکرو۔

١٠١٢۔ امام علی (ع): تمہاری نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جو کچھ جانتے ہو اس کا اظہار کرو۔

ط: ہر سنی چیز کا انکار

١٠١٣۔ امام علی (ع):لوگ جو بھی تم سے بیان کرتے ہیں اسکا انکار نہ کرو کہ تمہاری نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

ی: خدا کو دھوکا دینا

١٠١٤۔ رسول خدا(ص): جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خدا کو دھوکا دیں۔

ک: بے سبب ہنسنا

١٠١٥۔ امام علی (ع): انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ بے سبب ہنسے۔

٤/٤

جاہل ترین انسان

١٠١٦۔ رسول خدا(ص): عقل کے اعتبار سے ناقص ترین انسان وہ ہے جو بادشاہ سے زیادہ خائف ہوتا ہے اور اسکی زیادہ پیروی کرتاہے ۔

١٠١٧۔ رسول خدا(ص): عقل کے لحاظ سے ناقص ترین انسان وہ ہے جو شیطان کی سب سے زیادہ اطاعت کرے اور سب سے زیادہ اس کے حکم کی تعمیل کرے۔

١٠١٨۔ امام صادق: عقل کے اعتبار سے ناقص ترین انسان وہ ہے جو اپنے سے چھوٹے پر ـ ظلم کرتا ہے اور معذرت کرنے والے سے درگزر نہیں کرتا۔

١٠١٩۔ امام علی (ع): بیشک جاہل ترین انسان وہ شخص ہے جو اپنی قدر ومنزلت نہ جانتا ہو اور انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر ومنزلت نہ پہچانے۔

١٠٢٠۔ امام علی (ع): سب سے بڑی نادانی یہ ہے کہ انسان خود سے بے خبر ہو۔

١٠٢١۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ سب سے بڑا جاہل وہ شخص ہے جو ایک پتھر سے دو بار پھسلے۔

١٠٢٢۔ امام علی (ع): سب سے بڑا جاہل گناہوں کی تکرار کرنے والا ہے ۔

١٠٢٣۔ امام علی (ع): جاہل ترین انسان وہ ہے جو چاپلوس اور تعریف کرنے والے کی بات کے فریب میں آجائے، جو قبیح کو اس کے لئے حسن اور خیر خواہ کو دشمن بنا کر پیش کرتاہے ۔

١٠٢٤۔ امام علی (ع): جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ انسان اپنی نادانی پر فخر کرے۔

١٠٢٥۔ امام علی (ع): عظیم ترین جہالت ، قدرتمند سے نفرت ، فاجر سے دوستی اور دغاباز پر اعتماد ہے۔

١٠٢٦۔ امام علی (ع): سب سے بڑی جہالت لوگوںکے ساتھ نفرت و دشمنی کرنا ہے ۔

١٠٢٧۔ امام علی (ع): اس سے بڑی جہالت اور کیا ہوگی کہ ان چیزوںکے سبب خود کوبڑا سمجھنا جو تمہارے لئے باقی رہنے والی نہیں ہیںاور نہ تم ان کے لئے باقی رہوگے۔

١٠٢٨۔ امام علی (ع): جو شخص علم کے بلند درجہ تک پہنچنے کا مدعی ہے گویا اس نے اپنی نادانی کی انتہاء کو آشکار کر دیا ہے۔

١٠٢٩۔ امام علی (ع): جو نادان کو دوست بناتا ہے وہ اپنی کثرت نادانی پر دلیل قائم کرتاہے ۔

١٠٣٠۔ رسول خدا(ص): جو خدا کی نعمتوںکو صرف کھانے ،پینے کی چیزوں میں دیکھتا ہے ، اس کا علم کم اورجہالت زیادہ ہے۔

١٠٣١۔ امام علی (ع): کثرت خطا، کثرت نادانی کا پتہ دیتی ہے۔

١٠٣٢۔ امام علی (ع): نادانی کی انتہاء ظلم و ستم ہے۔

١٠٣٣۔ امام علی (ع): حماقت کا سرمایہ خشونت ہے ۔

پانچویں فصل نادانوں کے فرائض

٥/١

جاہل پر واجب چیزیں

الف: سیکھنا

١٠٣٤۔ رسول خدا(ص): جو تعلم کی ایک ساعت کی رسوائی برداشت نہیںکرتا، وہ ہمیشہ نادانی کی ذلت میں رہیگا۔

١٠٤٥۔ رسول خدا(ص): عالم کے لئے سزاوار نہیںکہ وہ اپنے علم پر سکوت اختیار کرے اور اسی طرح جاہل کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنی جہالت پر خاموش رہے ۔ چنانچہ خدا کا ارشاد ہے(اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے )

١٠٣٦۔ امام علی (ع): ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سی چیز مجھ سے جہالت کی حجت کو دور کرتی ہے ؟ فرمایا: علم ، پھر اس نے کہا: کون سی چیز مجھ سے علم کی حجت کو دور کر سکتی ہے ؟ فرمایا: عمل

١٠٣٧۔ امام علی (ع): اے لوگو! جان لو جو زبان پر قابو نہیںرکھتا، پشیمان ہوتاہے ،جو نہیں سیکھتاوہ جاہل رہتاہے اورجو بردبار ہونے کی کوشش نہیں کرتا وہ بردبارنہیںہو سکتا۔

١٠٣٨۔ امام علی (ع): جو نہیںسیکھتاعالم نہیںہو سکتا

١٠٣٩۔ امام علی (ع): جاہل اگر نہیں جانتا تو اسے سیکھنے سے حیا نہیں کرنی چاہئے۔

١٠٤٠۔ امام علی (ع): جو شخص نہیں جانتا اسے سیکھنے سے گریز نہیںکرنا چاہئے۔

١٠٤١۔ امام علی (ع): جہالت کی بیماری عالم کے سامنے پیش کی جاتی ہے ۔

١٠٤٢۔امام علی (ع): اگر پانچ خصلتیں نہ ہوتیں تو تمام لوگ صالح ہوجاتے: جہالت پر قناعت، حرص دنیا، فراوانی کے باوجود بخل، عمل میں ریاکاری اور خود رائی۔

١٠٤٣۔ ابن جریج: کا بیان ہے کہ جنگ جمل میں محمد بن حنفیہ اپنے باپ (علی ) کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ باپ نے محمد بن حنفیہ میں کچھ سستی دیکھی تو پرچم لے لیا۔ محمد کا بیان ہے : میں والد کی خدمت میں پہنچا اور تقاضا کیا کہ مجھے علم دو بارہ عطا کر دیں انہونے کافی دیر تک دینے سے انکار کیا، پھر دے دیااور فرمایا:۔

لو اور اچھی طرح اٹھاؤ ، اور اپنے ساتھیوں کے بیچ میں آجاؤ اور پرچم کے اوپری حصہ کو جھکنے نہ دو اور اس کو اس طرح بلند کرو کہ تمہارے تمام ساتھی دیکھ سکیں ، محمد کا کہنا ہے کہ جو کچھ مجھ سے کہا تھا میں نے اس پر عمل کیا، تو عمار یاسر نے کہا: اے ابو القاسم! آج کتنے سلیقہ سے پرچم اٹھائے ہوئے ہوامیرالمومنین نے فرمایا:تمہارا مقصد کیا ہے؟ عمار نے کہا: علم سیکھنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔

١٠٤٤۔ اما م زین العاب دین (ع): خدا نے حضرت دانیال پر وحی کی :میرے بندہ دانیال!....بیشک میرے بندوں میںسب سے زیادہ محبوب وہ متقی ہے جو بے پناہ ثواب کا طالب ہوتاہے جو ہمیشہ علماء کے ساتھ رہتا ہے اور حکماء کی پیروی کرتا ہے اور ان کی باتیں قبول کرتاہے ، بیشک میںنے اکثر لوگوں کوجہل سے پیدا کیا ہے ۔

١٠٤٥۔ امام باقر(ع):خطبہ ابو ذر میںہے: اے نادان علم حاصل کر، یقینا وہ دل جس میں علم نہیںہوتاا س کھنڈر کے مانند ہے جس کا کوئی آباد کرنے والا نہیں۔

١٠٤٦۔ منیۃ المرید:میں ہے کہ خدا انجیل کے ستر ہویں سورہ میں فرماتا ہے: حیف ہے اس شخص پر کہ جو علم کو سنتا ہے لیکن اس کا طالب نہیں ہوتا، وہ جاہلوں کے ساتھ کس طرح آگ کی طرف لایاجائیگا؟ علم کی جستجو میں رہو اور اسے سیکھو! اس لئے کہ اگر علم تمہیں سعادتمند نہ بنا سکا تو بدبخت بھی نہیں بنائےگا اگر تمہیں بلند نہ کر سکا تو پست بھی نہیں کریگا، اگر تمہیں غنی نہ بنا سکا تو فقیر بھی نہیں بنائیگا اور اگر فائدہ نہ پہنچا سکا تو ضرر بھی نہیں پہنچائیگا۔

ب :توبہ

١٠٤٧۔ امام علی (ع): جو گناہوں سے باز نہیں رہتا وہ جاہل ہے ۔

١٠٤٨۔ امام زین العاب دین (ع): اپنی دعاء میں فرماتے ہیں : خدایا! محمد و آل محمد پر درود بھیج، ہمیں ایسے لوگوں میں قرار دے جو شہوات کے بجائے تیری یاد میں مشغول ہیں ، اور جنہوںنے واضح و روشن معرفت کی بنا پر غرور و تکبر کے اسباب کی مخالفت کی ہے ، اورآتش شہوت کے پردوں کو آب توبہ کے چھڑکنے سے چاک کر دیا ہے اور جہالت کے ظروف کو زندگی کے آب خالص سے دھوڈالا ہے۔

ج: تقویٰ

١٠٤٩۔ امام باقر ؑ : خدا تقویٰ کے سبب ان چیزوںکو محفوظ رکھتاہے جو بندہ کی عقل سے پوشیدہ ہوتی ہیں اور تقویٰ کے ذریعہ اسکی نابینائی اور نادانی کو دور کرتا ہے ۔

د: شبہ کے وقت احتیاط

١٠٥٠۔ رسول خدا(ص): اے علی : مومن کے صفات میں سے یہ ہے کہ...وہ محرمات سے دوری اور شبہات کے وقت احتیاط کرے۔

١٠٥١۔ امام علی (ع): دور اندیشی کی بنیاد شبہ کے وقت احتیاط ہے ۔

١٠٥٢۔ امام علی (ع):(آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے) سب سے بہتر عبادت خود کو معصیت سے باز رکھنا اور شبہ کے وقت احتیاط ہے ۔

١٠٥٣۔ امام علی (ع): شبہات میں احتیاط جیسی کوئی پر ہیزگاری نہیں ہے ۔

١٠٥٤۔ امام علی (ع): سب سے بڑاحق یہ ہے کہ انسان علم ہونے کے باوجود احتیاط کرے۔

١٠٥٥۔ امام علی (ع): نے انتقال کے وقت اپنے بیٹے امام حسن (ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: بیٹا! میں تمہیں وقت پر نماز ادا کرنے، زکات کو اسکے مستحق تک اسکی جگہ پر پہنچانے اور شبہات کے وقت خاموشی کی وصیت کرتا ہوں۔

١٠٥٦۔ امام علی (ع): اگر بندے لا علمی کے وقت احتیاط کرتے تو کافر ہوتے اور نہ گمراہ۔

١٠٥٧۔ امام صادق(ع): اگر بندے نادانی کے وقت احتیاط کرتے تومنکر ہوتے اور نہ کفراختیار کرتے۔

١٠٥٨۔ امام زین العاب دین (ع):اگر کوئی امر تمہارے لئے واضح ہو جائے تو اس کو قبول کر لو ورنہ خاموش رہو تاکہ محفوظ رہو، اور اس کے علم کو خدا کی طرف پلٹا دو اس لئے کہ تمہارے لئے آسمان و زمین کے فاصلہ سے زیادہ گنجائش ہے۔

١٠٥٩۔ اما م باقر(ع): شبہ کے وقت احتیاط کرنا ہلاکت میں پڑنے سے بہتر ہے اور اس حدیث کا چھوڑ دینا جسے خود تم نے روایت نہیں کیا ہے ، اس حدیث کی روایت کرنے سے بہتر ہے کہ جس پر تمہیں مکمل طور پر دسترسی نہیںہے ۔

١٠٦٠۔ امام باقر(ع): یقینا خدا ئے عز وجل نے کچھ امور کو حلال ، کچھ کو حرام اور کچھ کو واجب قرار دیا ہے اور مثالیں بیان کی ہیں اور کچھ سنتوںکوجاری کیاہے.....اگر خدا کی جانب سے کوئی دلیل ہو، اور اپنے کام پر یقین ہو اور تمہاراموقف آشکار ہو تو (لے لو)ورنہ شبہ ناک امور کے پیچھے مت جاؤ۔

١٠٦١۔ زرارہ بن اعین : میں نے امام باقر(ع) سے دریافت کیا: بندوںپر خدا کا کیا حق ہے ؟ فرمایا: زبان پر وہی چیز یں جاری کریں جنہیں جانتے ہوں اور جنہیں نہیں جانتے ان میں احتیاط کریں ۔

١٠٦٢۔ ہشام بن سالم : میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا: بندوںپر خدا کا کیا حق ہے ؟ فرمایا جو کچھ جانتے ہوں انہیں زبان پر جاری کریں اور جو نہیںجانتے ان سے باز رہیں۔ اگر انہوںنے ایسا کیا تو گویا حق خدا کو ادا کیا۔

١٠٦٣۔ امام صادق(ع): خاموشی اور فراوان خزانہ ،بردبار کی زینت اور جاہل کی پردہ پوشی ہے ۔

ھ: جہالت کا اعتراف

١٠٦٤۔ امام علی (ع): عقلمندی کی انتہاء ، اپنی جہالت کا اعتراف ہے۔

١٠٦٥۔ امام علی (ع): یہ دنیا اسی حالت میںبر قراررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قرار دیا ہے یعنی نعمت ، آزمائش ، آخرت کی جزا یاوہ بات جو تم نہیںجانتے ہو، اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے اپنی جہالت سمجھوکہ تم ابتدا میں جب پیدا ہوئے ہو تو جاہل ہی پیدا ہوئے ہوبعد میں تمہیںعلم دیا گیاہے اور اسی بنا پر مجہولات کی تعداد زیادہ ہے جس میںتمہاری رائے متحیر رہ جاتی ہے اور نگاہ بہک جاتی ہے ، اور بعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے ۔

١٠٦٦۔ امام علی (ع): اور یہ یاد رکھو کہ راسخون فی العلم وہی افراد ہیں جنہیں غیب الہی کے سامنے پڑتے ہوئے پردوں کے اندر درانہ داخل ہونے سے اس امر نے بے نیاز بنا دیاہے کہ وہ اس پوشیدہ غیب کا اجمالی اقرار رکھتے ہیں اور پروردگار نے ان کے اسی جذبہ کی تعریف کی ہے کہ جس چیز کو ان کا علم احاطہ نہیںکر سکتا اس کے بارے میں اپنی عاجزی کا اقرار کر لیتے ہیں اور اسی صفت کو اس نے رسوخ سے تعبیر کیا ہے کہ جس بات کی تحقیق ان کے ذمہ نہیںہے اسکی گہرائیوں میں جانے کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

١٠٦٧۔ امام باقر(ع): جو جانتے ہو بیان کرو اور جو نہیں جانتے کہو(اللہ بہتر جانتا ہے )

و: جہالت پر معذرت

١٠٦٨۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں اپنی نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاہتا ہوں اور اپنے برے اعمال کے لئے تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔

ز: جہالت سے خدا کی پناہ چاہنا

١٠٦٩۔ ام سلمہ: رسول خدا(ص) جب بھی گھر سے بر آمد ہوتے تھے تو فرماتے تھے: خدا کے نام سے، پروردگارا میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ پھسلوں یا گمراہ ہو جاؤں، ستم کروںیا مجھ پرستم کیا جائے، جاہل رہوں یا مجھ پر کوئی چیز مخفی رہے۔

١٠٧٠۔ امام علی (ع):نے جنگ صفین میں یوم الھریر کی دعا میں فرمایا: خدایا! بیشک میں...جہالت ،بیہودگی اور قول و فعل کی برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

١٠٧١۔ امام علی (ع): پروردگارا!...میں تیری پناہ چاہتاہوں اپنی قوت سے، اور تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں اپنی جرأت سے ، اپنی جہالت کے سبب تیری پناہ کاطلبگار ہوں اور اپنے گناہوںکے باعث تیرے اسباب کی رسیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں ۔

١٠٧٢۔ امام علی (ع): پروردگارا! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ علم کے عوض جہالت خریدوں جیسا کہ دوسروںنے کیاہے ، یا یہ کہ بردباری کے بدلہ حماقت خریدوں۔

١٠٧٣۔ امام صادق(ع): صبح و شام کی دعا میں فرماتے ہیں؛ خدایا! ہم تیری مدد سے شام کرتے ہیں اور صبح بھی ، تیری بدولت زندہ رہتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، اور تیری طرف پلٹے ہیں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوںکہ میںکسی کو رسوا کروں یا رسوا کیا جاؤں، گمراہ کروں یا گمراہ ہو جاؤں، ظلم کروںیا مجھ پرظلم کیا جائے، میں جاہل رہوں یا مجھ پر مخفی رہے۔

١٠٧٤۔ عبد الرحمن بن سیابہ: کابیان ہے کہ امام صادق(ع) نے یہ دعا مجھے دی: حمد اس خدا کے لئے جو صاحب حمد اور اس کا اہل ہے ، اسکی نہایت اور اس کا محل ہے ،...میںپناہ چاہتا ہوں کہ علم کے بدلہ جہالت ، بردباری کے عوض بدسلوکی، عدل کے بدلہ ستم ، نیکی کے بدلہ قطع تعلقی اور صبر کے عوض بیتابی کو خریدوں۔

ح: جہالت سے توبہ

١٠٧٥۔ رسول خدا(ص):۔آپ ؐ اس طرح دعا فرماتے تھے۔بار الہا: میری خطا و جہالت، اور اپنے کام میں حد سے تجاوز کرنے اور جسکوتو مجھ سے بہتر جانتا ہے اس سے مجھکو معاف کر دے۔ پروردگارا! میرے مذاق او رسنجیدگی ، میری خطا اور دانستہ طور پر ہو جانے والے کاموں اور بقیہ میرے گناہوں سے مجھکو بخش دے۔

٥/٢

جاہل کے لئے حرام چیزیں

الف: علم کے بغیر لب کشائی

قرآن

( اور اپنے منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تمہیں بھی علم نہیں تھا )

حدیث

١٠٧٦۔رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتوے دیتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ دین کو برباد کرتا ہے ۔

١٠٧٧۔ رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتویٰ دیتاہے وہ ناسخ و منسوخ اورمحکم و متشابہ میں فرق نہیں کر پاتا، لہذا وہ ہلاک ہے اور دوسروں کو ہلاک کردیتا ہے ۔

١٠٧٨۔ رسول خدا(ص): جو بغیر علم کے فتوے دیتاہے اس پر آسمان و زمین کے ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں۔

١٠٧٩۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو بغیر تحقیق کے فتویٰ دیا جاتا ہے اس کا گناہ فتویٰ دینے والے کے سر ہے ۔

١٠٨٠۔ امام علی (ع): جس کے بارے میں آگاہی نہیںرکھتے ہو، اطلاع نہ دو۔

١٠٨١۔ امام علی (ع): جو نہیںجانتے اس کو زبان پر جاری نہ کرو چوں کہ بیشترحق ان چیزوں میں ہے جن کا تم انکار کرتے ہو۔

١٠٨٢۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوں...کہ ظالم کی مدد کروں...یا بغیر علم کے علمی گفتگو کروں۔

١٠٨٣۔ امام باقر(ع): جو علم اور الہی ہدایت کے بغیر فتویٰ دیتا ہے اس پر رحمت اور عذاب کے فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے فتوے پر عمل کرنے والے کا عقاب اسی کو ملیگا۔

ب: نامعلوم چیز کا انکار

قرآن

( در حقیقت ان لوگوںنے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے )

حدیث

١٠٨٤۔ امام علی (ع): نے- اپنے بیٹے امام حسن ؑ : کو وصیت کرتے ہوئے - فرمایا: بیشک نادان وہ ہے جو نامعلوم چیزوں میں خود کو عالم شمار کرتا ہے اور اپنی ہی فکر و رائے پر اکتفا کرتا ہے ، ہمیشہ علماء سے دوری اختیار کرتا ہے اور انہیں برا بھلا کہتا ہے جو اسکی مخالفت کرتاہے اس کو خطا کا ر سمجھتا ہے اور جو شخص کچھ بھی نہیں جانتااسے گمراہ کرتا ہے ، پس جب اس کے سامنے کوئی امرآتا ہے جسے وہ نہیںجانتاتو اس سے انکار کر دیتا ہے اور اسے جھوٹ تصور کرتا ہے اور اپنی جہالت کی بدولت کہتا ہے : میں اس کو نہیں جانتا ہوںاور نہ اس سے پہلے کبھی اس کو دیکھا ہے اور گمان نہیں کرتا کہ بعد میںیہ وجود پذیربھی ہوگا۔ یہ ساری باتیں اس کا اپنی رائے پر اعتماد اور جہالت و کم علمی کے سبب ہیں۔ اور ہر وہ چیز جس کا وہ قائل ہے اور یا عدم علم کی بنیاد پر جس چیز کا غلط معتقد ہے اس سے دستبردار نہیںہوتا، اپنی نادانی سے استفادہ کرتا ہے اور حقیقت کا انکار کرتا ہے ، نیز اپنی جہالت و نادانی میں حیران و سرگرداں ہوتاہے اور تحصیل علم سے باز رہتاہے ۔

١٠٨٥۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتاہے اس کا دشمن ہو جاتا ہے ۔

١٠٨٦۔ اما م علی (ع): میں نے چار چیزیں کہیں کہ جنکی خدا نے اپنی کتاب میں تصدیق کی ، میں نے کہا: انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے جب کلام کرتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے ، پس خدا نے یہ آیت:(اور آپ ان کی گفتگو کے انداز سے انہیں بہر حال پہچان لیں گے)نازل کی، میں نے کہا: جو کسی چیز سے جاہل ہوتاہے اسکاد شمن ہوجاتاہے ، خدا نے فرمایا:( در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیںہے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے) میں نے کہا: ہر شخص کی قدر و قیمت اسکی دانائی کے مطابق ہے ، خدا نے قصہ طالوت میں فرمایا:( انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیاہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے)میں نے کہا: قتل، قتل کو کم کرتاہے ، خدا نے فرمایا:(صاحبان عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے )

١٠٨٧۔ امام علی (ع): جو کچھ میں نے زبان رسول سے سنا ہے اگر تمہارے سامنے بیان کردوں تو تم میرے پاس سے اٹھکر چلے جاؤ گے اور کہوگے ، یقینا علی سب سے بڑا جھوٹا اور سب سے بڑا فاسق ہے ، خدا فرماتا ہے :(بلکہ در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے )

١٠٨٨۔ اما م صادق(ع): خدا نے اپنی کتاب میں دو آیتیں اپنے بندوں سے مخصوص کی ہیں : وہ لوگ جب تک نہیںجانتے لب کشائی نہیںکرتے اور جب تک علم نہیں رکھتے تردید نہیںکرتے ، خدا ارشاد فرماتا ہے :(کیا ان سے کتاب کا عہد نہیںلیا گیا کہ خبردار خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہیں)نیز فرماتا ہے (یقینا ان لوگوں نے اس چیز کو جھٹلایا جس کا مکمل علم بھی نہیں رکھتے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے )

٥/٣

ممدوح جہالت

١٠٨٩۔ امام علی (ع): کتنے جاہلوں کی نجات ان کی جہالت میں ہے ۔

١٠٩٠۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ دو گروہوںپر ہر چیز آسان ہے ؛ وہ عالم جو کام کے انجام سے واقف ہو، اور وہ جاہل جو اپنی حیثیت سے بے خبر ہو۔

١٠٩١۔ اما م علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، اگر عقل کے نو حصے ہوتے تو جہالت کے ایک حصہ کی طرف محتاج ہوتی تاکہ عقلمند اپنے امور پر اسے مقدم کرے ،کیوں کہ عاقل ہمیشہ سہل انگار،نگراں اور خوفزدہ ہوتا ہے ۔

١٠٩٢۔ امام علی (ع): بسا اوقات نادانی ، بردباری سے زیادہ مفید ہوتی ہے ۔

١٠٩٣۔ ابراہیم بن محمد بن عرفہ: احمد بن یحیٰ ثعلب نے مجھے یہ اشعار سنائے اور بتایا کہ یہ اشعار علی (ع) بن ابی طالب کے ہےں :

اگر مجھے بردباری کی ضرورت ہے تو بیشک بعض اوقات مجھے جہالت کی زیادہ ضرورت ہے ۔ میں نادانی کو ندیم و ہمنشیں کے عنوان سے پسند نہیںکرتا لیکن ضرورت کے وقت پسند کرتاہوں میرے پاس بردباری کا مرکب ہے کہ جس کی لجام بھی بردباری ہی ہے ، اور میرے پاس جہالت کا مرکب ہے کہ جس کی زین نادانی ہے ۔

١٠٩٤۔ امام حسین ؑ : اگر لوگ غور و فکر کرتے اور موت کو اسکی صورت میں تصور کرتے تو دنیا ویرانہ ہوجاتی۔

١٠٩٥۔ امام عسکری ؑ : اگر تمام اہل دنیا عقلمند ہوتے تو دنیا ویران ہو جاتی۔

١٠٩٦۔ اما م صادق(ع)ـ: نے ۔ مفضل بن عمر۔ سے فرمایا: اے مفضل ! ان چیزوںکے بارے میں غور وفکر کرو کہ جن میں انسان کو اپنی مدت حیات کے متعلق آگاہی نہیں ہے ؛ اس لئے کہ انسان اگر اپنی عمر کی مقدار سے باخبر ہو جائے اور (بالفرض) اسکی زندگی کم ہو تو موت کے خوف سے کہ جس کا وقت معلوم ہے اسکی زندگی تلخ ہو جائیگی؛ بلکہ اس شخص کے مانند ہوگا کہ جس کا مال تباہ ہو گیا یابرباد ہونے کے قریب ہے ؛ گویا یہ شخص فقر اور مال و ثروت کی بربادی اور خوف فقر کے اندیشہ سے نہایت خوفزدہ رہتا ہے ۔

جبکہ یہ تلخی جو انسان کی فنائے عمرکے تصور سے پیدا ہوتی ہے انسان کے فنائے مال سے کہیں زیادہ تلخ ہے ؛ چونکہ جب کسی شخص کی ثروت کم ہو جاتی ہے تو وہ اسکی جگہ پر ثروت کے آنے کی امید رکھتا ہے ، جس کے سبب اس کو سکون حاصل ہوتا ہے ؛ لیکن جو عمرکی فنا کا یقین رکھتا ہے اس کے لئے صرف مایوسی ہوتی ہے ۔ اور اگر اسکی عمر طولانی ہوتی ہے اور وہ اس سے آگاہ ہو جاتاہے تو بقا کا اعتماد پیدا کرکے لذات اور معصیتوں میں غرق ہو جاتا ہے اور اس خیال سے عمل کرتاہے کہ اپنی لذتوںکو حاصل کرے اور آخیر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ ایسی روش ہے کہ خدا پنے بندوں سے نہ پسند کرتا ہے اورنہ قبول۔

اگر تم کہو! کیا ایسا نہیں ہے کہ انسان ایک عرصے تک گناہ کرتاہے پھر توبہ کرتا ہے اور اسکی توبہ قبول ہوتی ہے۔؟ !

ہم جواب دیں گے : ایسا اس لئے ہے کہ شہوت انسان پر غالب آجاتی ہے تونہ وہ کوئی منصوبہ بناتا ہے اور نہ ہی اس کے مطابق کوئی کام انجام دیتاہے ، لہذا خدا اس سے درگذر کریگا اور مغفرت کے ذریعہ اس پر فضل و احسان کریگا۔

لیکن وہ شخص جس نے اپنی زندگی کی بنا اس بات پر رکھی ہے کہ گناہ کرے گااور آخر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ اس ذات کو دھوکا دینا چاہتاہے کہ جو دھوکا نہیںکھاتا اور کوشش کرتا ہے کہ جلد لذت اندوزہو اور اپنے نفس سے وعدہ کرتا رہتا ہے۔

کہ بعد میں توبہ کر لیگا۔ حالانکہ اپنے وعدہ کو پورا نہیںکرتا؛ اس لئے کہ آسائش اور لذات سے چھٹکاراپانا اور توبہ کرنا، خصوصاً جب بوڑھا اور ناتواںہو جائے، نہایت دشوار کام ہے ، انسان توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرکے امان نہیں پا سکتاچونکہ اسکی موت آپہنچتی ہے اور وہ توبہ کے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے ، اسکی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کی گردن پر قرض ہو کہ جس کی میعاد آئندہ آئیگی اور وہ قرض کی ادائیگی کی قدرت ہونے کے باوجود ٹال مٹول کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اسکی ادائیگی کا وقت آجاتاہے لیکن اب اس کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے اسکی گردن پر قرض باقی رہ جاتاہے۔

لہذاا نسان کے لئے بہتر ہے کہ اپنی عمر کی مقدار سے واقف نہ ہو اور اپنی ساری زندگی موت سے خوفزدہ رہے تاکہ گناہوں سے پرہیز کرے اور نیک عمل بجالاتا رہے۔

اگر تم کہو: ایسے بھی لوگ ہیںجو اپنی زندگی کی مقدار سے با خبر نہیں ہیں اور ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہیں لیکن ہمہ وقت بدکرداری اور محرمات کا ارتکاب کرتے ہیں۔

ہم جواب دیں گے: بیشک اس سلسلہ میں بہترین تدبیر وہ ہے جو اب جاری ہوئی ہے ؛ اگر انسان الہی تدبیر کے باوجود بدکرداری اور گناہوں سے دستبردار نہ ہو تو یہ اسکی عیش و نشاط اور سنگدلی کا نتیجہ ہے نہ کہ تدبیر میں کوتاہی کا، جیسے ڈاکٹر کبھی کوئی مفید دوا بیمار کے لئے تجویز کرتا ہے ؛ لیکن اگر مریض ڈاکٹر کے حکم کی مخالفت کرے اور اسکی پابندیوں پر عمل نہ کرے تو وہ ڈاکٹر کی تجویز سے بہرہ مند نہیں ہوتاا ور اس نقصان کا تعلق ڈاکٹر سے نہیںہے چونکہ اس نے بیماری کی شناخت کر لی ہے لیکن مریض نے اسکی بات قبول نہیںکی۔

اگر انسان ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہونے کے باوجود گناہوںسے دستبردار نہیں ہوتا تو اگر طولانی زندگی کا اطمینان ہو تو کہ بڑے گناہوں کا اور زیادہ ارتکاب کریگا، بہر حال موت کے انتظار میں رہنا، اس کے لئے دنیا میں اطمینان بقا سے بہترہے ، اور اس سے قطع نظر اگر موت کا انتظار ایک گروہ کے لئے مفید نہ ہو اور وہ لہو و لعب میں مصروف ہو اور اس سے نصیحت حاصل نہ کرے تو دوسرا گروہ نصیحت حاصل کریگا اور گناہوں سے گریز کریگااور نیک عمل بجالائیگا۔ اور اپنے اموال و گر انبہا اجناس کو فقراء و مساکین کوصدقہ دینے میںدریغ نہیں کریگا ۔ لہذا یہ انصاف نہیں ہے کہ یہ گروہ اس فضیلت سے بہرہ مند نہ ہوتو دوسرا گروہ بھی بہرہ مندنہ ہو۔

٥/٤

جاہل سے مناسب برتاؤ

الف: گفتگو کے وقت سلام کرنا

قرآن

( اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں )

( اور جب لغویات سنتے ہیں تو کنارہ کشی اختیاکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں ، تم پر ہمارا سلام کہ ہم جاہلوںکی صحبت پسند نہیںکرتے )

حدیث

١٠٩٧۔ نعمان بن مقرِّن : رسول خدا کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو گالیاں دیں، اور اس نے اس کے جواب میں کہا: تم پر سلام ہو! رسول خدا(ص) نے فرمایا: یاد رکھو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو تم سے دفاع کرتا ہے ، جب وہ تم کو گالی دیتا ہے اور کہتا ہے : تم ایسے ہو، تووہ(فرشتہ) اس سے کہتا ہے : بلکہ تم اور تم اس کے زیادہ مستحق ہو اور جب اس کے جواب میںکہتا ہے؛ تم پر سلام ہو! تو وہ (فرشتہ )کہتاہے : نہیں ، بلکہ تم(درود و سلام) کے مستحق ہو۔

١٠٩٨۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے چاہنے والوں کی توصیف میں ۔ فرمایا: اگر تم انہیں دنوں میں دیکھو گے تو ایسی قوم پاؤ گے جو(زمین پر آہستہ چلتے ہیں) اور لوگوں سے اچھی باتیں کرتے ہیں:(اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) اور(اور جب لغو کاموںکے قریب سے گذرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے ہیں )

١٠٩٩۔ امام صادق(ع): نے۔ شیعوں کی توصیف میں۔ فرمایا: جب کوئی جاہل انہیں مخاطب کرتا ہے تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں اور جب کوئی حاجت مند ان کی پناہ میں آتا ہے تو اس پر رحم کرتے ہیں اور موت کے وقت غمگین نہیںہوتے۔

١١٠٠۔ اغانی: خلیفہ عباسی کا بیٹا ابراہیم، علی بن ابی طالب کا شدید دشمن تھا، ایک روز مامون سے کہا کہ میں نے خواب میں علی کو دیکھا ہے اور ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ جواب دیا کہ علی ابن ابی طالب ہوں ، ابراہیم نے کہا: ہم دونوں کچھ دور گئے اور ایک پل نظر آیا انہوںنے چاہا کہ مجھ سے پہلے پل سے گذر جائیں۔ میںنے ان کو ؛پکڑا اور کہا: آپ امیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںجبکہ ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں ، تو انہوںنے ایسا فصیح و بلیغ جواب نہ دیا جیسا کہ ان کی شہرت ہے، مامون نے کہا انہوںنے کیا جواب دیا؟ ابراہیم نے کہا: فقط سلاماً سلاماً کہا ہے۔مامون نے کہا: خدا کی قسم بلیغ ترین جواب تم کو دیا ہے ؛ ابراہیم نے کہا: کس طرح ؟ مامون نے کہا: تم کو یہ سمجھا دیا کہ تم جاہل ہو اور قابل گفتگو نہیںہو، خدا کا ارشاد ہے:(جب ان سے جاہل خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) پس ابراہیم شرمندہ ہوا اور کہا: کاش کہ یہ واقعہ آپ کو نہ سنایا ہوتا۔

ب: جھگڑے کے وقت خاموشی

١١٠١۔ رسول خدا(ص): جناب موسیٰ ؑ نے جناب خضر سے ملاقات کی اور کہا: مجھکو نصیحت کیجئے! جناب خضر نے کہا: اے علم کے طلب کرنے والے.... اے موسیٰ ! اگر علم چاہتے ہو تو خود کو اس کےلئے وقف کر دو؛ اس لئے کہ علم اس شخص کےلئے ہے جو خود کو اس کےلئے وقف کر دیتا ہے...اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اور احمقوںکے مقابل میں بردبار رہو، اس لئے کہ یہ بردباروںکےلئے فضیلت ہے اور علماء کیلئے زینت، اگر جاہل تم کو گالی دے تو تم نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے خاموش ہو جاؤ، اور دور اندیشی کےساتھ اس سے دوری اختیار کرو: چوں کہ تمہارے لئے جو نادانی و گالی باقی ہے وہی زیادہ ہے ۔

١١٠٢۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کے ساتھ جھگڑانہ کرو۔

١١٠٣۔ امام علی (ع): بیوقوفوں سے جھگڑا نہ کرو، اور عورتوں پر فریفتہ نہ ہو اس لئے کہ یہ خصلتیں عاقلوںکوبدنام کرتی ہیں۔

١١٠٤۔ امام باقر(ع): مرد دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو، اور جاہل کو جاہل نہ سمجھو ورنہ اس کے مانند ہو جاؤگے۔

ج: بردباری

١١٠٥۔ رسول خدا(ص): جس میں یہ تین چیزیں نہ ہونگی اسکاکوئی عمل صحیح نہیں ہوگا: پرہیزگاری جو اسے خدا کی نافرمانی سے باز رکھے ، اخلاق کہ جسکے سبب لوگوں کےساتھ مہربانی سے پیش آئے اور بردباری کہ جسکے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دے۔

١١٠٦۔ امام علی (ع): اپنے غیظ و غضب کو دور کروتاکہ رسوائی سے محفوظ رہو، اگر کوئی جاہل تمہارے ساتھ نادانی کرے تو ضروری ہے کہ تمہاری بردباری اس پر حاوی ہو۔

١١٠٧۔ امام علی (ع):نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑ کو وصیت میں۔ فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوںکہ دوسروں کے گناہوںکو بخش دینا، غصہ کو پی جانا، صلہ رحم کرنا اور جاہل کے ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرنا۔

١١٠٨۔ امام علی (ع): جاہل کو برداشت کرنا صدقہ ہے ۔

١١٠٩۔ امام علی (ع): مومن بردبار ہوتا ہے اور نادانی نہیں کرتا اور جب اس کے ساتھ کوئی نادانی کرتا ہے تو وہ بردباری کا ثبوت پیش کرتاہے ۔

١١١٠۔ موسیٰ ؑ بن محمد محاربی : ایک شخص سے نقل کرتے ہیں: مامون نے امام رضا(ع) سے کہا: کیا آپ شعر نقل کرتے ہیں؟ فرمایا: مجھے بہت سارے اشعار یاد ہیں۔ اس نے کہا: بردباری کے متعلق کوئی بہترین شعر مجھے سنائےںامام (ع) نے فرمایا :

میں اپنے سے پست انسان کی جہالت کا شکار ہوں، میں نے اپنے نفس کو روک رکھا ہے کہ اس کا جواب جہالت سے دے، اگر عقلمندی میں اپنے مانند کسی کو پاؤں تو بردباری کاثبوت دوں؛ تاکہ میں اپنے مثل سے بلند ہو جاؤں؛ اور اگر علم و عقل میں ، میں اس سے کمتر ہوں تو اس کے لئے حق تقدم کا قائل ہوں۔

مامون نے کہا: کیا خوب شعر ہے؛ کس نے کہاہے؟! امام رضا(ع) نے فرمایا:ہمارے بعض جوانوں نے۔

د: تعلیم

١١١١۔ امام کاظم (ع): نے ۔ ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو کچھ نہیں جانتے اسے سیکھو؛ اور جو سیکھ لیا ہے اسے جاہل کو سکھاؤ، عالم کو اس کے علم کے سبب عظیم سمجھو اور اس سے جھگڑا نہ کرو اور جاہل کو اسکی نادانی کے سبب چھوٹا سمجھو، اس کو جھڑکو نہیں بلکہ خود سے قریب کرو اور تعلیم دو۔

١١١٢۔ اما م صادق(ع): میںنے علی (ع) کی کتاب میں پڑھا ہے کہ خدا نے جاہلوں سے علم سیکھنے کا عہد و پیمان اس وقت تک نہیں لیا جب تک کہ علماء سے انہیں سکھانے کا عہد نہیں لے لیا، اس لئے کہ علم کا وجود جہالت سے پہلے ہے ۔

ھ: عدم اعتماد

١١١٣۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر اپنے نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔

١١١٤۔ امام علی (ع):جو عاقل نہیں ہے اس کے عہد و پیمان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

و: نافرمانی

١١١٥۔امام علی (ع): جاہل کی نافرمانی کرو تاکہ محفوظ رہو۔

ز: اعراض

قرآن

( آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں )

حدیث

١١١٦۔ رسول خدا(ص): سب سے بڑا حکیم وہ ہے جو جاہل انسانوںسے فرار کرتا ہے ۔

١١١٧۔ رسول خدا(ص):لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو اور جاہل کی ہمنشینی اختیار نہ کرو۔

١١١٨۔ امام علی (ع): نے ۔ امام حسن ؑ سے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: کفر ان نعمت پستی ہے اور جاہل کی ہمنشینی نحوست ہے ۔

١١١٩۔ امام علی (ع): ۔ آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کی قربت اور اسکی ہمسائیگی تم کو اپنے شر سے محفوظ نہیںرکھتی، چوںکہ آگ سے جتنا زیادہ قریب ہوگے جلنے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

١١٢٠۔ اما م علی (ع): جو عقل سے محروم ہے اسکی صحبت اختیار نہ کرو اورجو صاحب حسب و نسب نہیں ہے اس کو اپنا خاص نہ بناؤ کیوں کہ جو عقلمند نہیںہے وہ تم کو اپنے خیال میں فائدہ پہنچانے کے بجائے ضرر پہنچا ئیگا، اور جو صاحب حسب و نسب نہیںہے وہ اس کے ساتھ بھی برائی کرتا ہے جو اس کے ساتھ نیکی کرتا ہے ۔

١١٢١۔ امام علی (ع):جو عقل سے محروم ہے اس سے نیکی کی امید نہ رکھواور جو بے نسب ہے اس پر اعتماد نہ کرو اس لئے کہ جو عقلمند نہیں ہے وہ اپنے خیال میں خیر خواہی کرتا ہے حالانکہ اس سے نقصان پہنچتا ہے اور بے نسب اصلاح کرنے کے بجائے تباہ کرتا ہے ۔

١١٢٢۔ امام علی (ع): بدترین شخص کہ جس کی تم ہمنشینی اختیار کرتے ہو وہ جاہل ہے ۔

١١٢٣۔ امام علی (ع): بدترین دوست جاہل ہے ۔

١١٢٤۔ امام علی (ع): جاہل سے قطع تعلق ہونا عقلمند سے وابستہ ہونے کے برابر ہے ۔

١١٢٥۔ امام علی (ع): عاقل سے بچو جب تم اس کو غضبناک کردو، کریم سے بچو جب تم اسکی اہانت کرو، حقیر و پست سے بچو جب تم اس کا احترام کرو اور جاہل سے بچو جب تم اس کے ہمنشیں ہو جاؤ۔

١١٢٦۔ امام علی (ع): نادان کا دوست معرض ہلاکت میں ہوتا ہے ۔

١١٢٧۔ امام علی (ع): نادان کا دوست تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے ۔

١١٢٨۔ امام عسکری: ؑ نادان کا دوست غمگین رہتا ہے ۔

١١٢٩۔ اما م کاظم (ع): عالم سے مزبلہ پر گفتگو ، جاہل سے گرانبہافرش پر گفتگو کرنے سے بہترہے ۔

١١٣٠۔ امام رضا(ع): نے ۔ محمد بن سنان کو ایک خط میں۔ تحریر فرمایا: خدا نے ہجرت کے بعد بادیہ نشینی کو حرام کر دیا تاکہ کوئی دین سے نہ پھرے ، انبیاء اور پیشواؤں کی نصرت کرنے سے گریز نہ کرے اس لئے کہ یہ (حرمت) تباہی و بربادی اور صاحبان حق کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے ہے نہ اس جہت سے کہ بادیہ نشینی ناروا ہے ، لہذا اگر کوئی شخص دین سے مکمل طور پر آگاہ ہو تو اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ جاہلوںکے درمیان سکونت پذیر ہو اور اس چیز کا بھی خوف ہے کہ وہ کہیں علم کو چھوڑ کر جاہلوںکے جرگے میں پھنس جائے اور اس میں بہت آگے بڑھ جائے۔

چھٹی فصل پہلی جاہلیت

٦/١

مفہوم جاہلیت

قرآن

( اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو )

( اور ہم نے انہیں ایسی کتابیں نہیں عطا کی ہیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ان کی طرف آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا بھیجا ہو )

( اور آپ طور کے کسی جانب اس وقت نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ کو آواز دی لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ آپ اس قوم کو ڈرائیںجسکی طرف آپ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے کہ شاید وہ اس طرح عبرت و نصیحت حاصل کر لیں )

حدیث

١١٣١۔رسول خدا(ص): اعمال میں ضعف اور لوگوں کی جہالت کی بنا پر جاہلیت کہا گیا ہے ...بیشک اہل جاہلیت غیر خدا کی عبادت کرتے تھے ، ان کے لئے آخرت میں ایک مدت ہوتی تھی جہاں تک وہ پہنچتے تھے اور اسکی ایک انتہا ہوتی تھی جہاں تک وہ جاتے تھے اور ان کے عقاب روز قیامت تک ٹال دیا گیا تھا، خدا نے ان کواپنی قدرت و بزرگی اور عزت کی بنا پر مہلت دے دی تھی لہذا قدرتمند ، کمزوروں پر مستلط ہوئے اور بڑے ، چھوٹوں کو اس دوران کھا گئے ۔

١١٣٢۔ جعفر بن ابی طالب نے ۔ اپنی قوم کی حبشہ کے بادشاہ نجاشی سے اسطرح تعریف کی: اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے ، بتوںکی پرستش کرتے تھے مردار کھاتے تھے، برائیوںکا ارتکاب کرتے تھے ، قطع رحم کرتے تھے۔ اور پڑوسیوںکےساتھ بدسلوکی کرتے تھے، ہم میں سے قدرتمند کمزور کو کھاجاتا تھا، ہماری یہی کیفیت تھی کہ اللہ نے ہماری طرف ہمیں میں سے رسول بھیجا کہ ہم جسکے نسب، صداقت، امانت اور پاکدامنی سے واقف ہیں، اس نے ہمیں اللہ کیطرف دعوت دی تاکہ ہم اسکی وحدانیت کے قائل ہو جائیںاور اسکی عبادت کریں، اورجن چیزوںجیسے پتھر اور بت وغیرہ کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پرستش کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں اور ہمیں سچ بولنے، ادائے امانت، صلہ رحم، پڑوسی کےساتھ نیکی، محرمات اور خونریزی سے پرہیز کرنے کا حکم دیا، ہمیں برائیوں، باطل کلام ،یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن پر بہتان لگانے سے منع فرمایا۔ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں، ہمیں نماز و زکات اور روزہ کا حکم دیا...پس ہم نے اسکی تصدیق کی اور اس پر ایمان لے آئے، وہ جو کچھ لیکر آئے تھے ہم نے اسکی اتباع کی، ہم نے صرف خدا کی عبادت کی اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا اور ہم پر جو حرام کیا تھا ہم نے اسے حرام جانا اور جو حلال کیاتھا ہم نے اسے حلال جانا، لہذا ہماری قوم نے ہم پر ستم کیا، ہمیں عذاب دیا اور ہمیں ہمارے دین سے پلٹانے کےلئے شکنجے دئے، تاکہ ہم خدا کی عبادت سے بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں اور جن بری چیزوںکو حلال جانتے تھے انہیں دوبارہ حلال سمجھیں۔

١١٣٣۔ امام علی (ع): اما بعد! اللہ نے حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کو اس دور میں بھیجا ہے جب عرب میں نہ کوئی کتاب پڑھنا جانتا تھا اور نہ نبوت اور وحی کا ادعاء کرنے والا تھا۔

١١٣٤۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اوربد عملی کا دور دورہ تھا اور امتیں غفلت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

١١٣٥۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲکے بندہ اور رسول ہیں۔ انہیںاس وقت بھیجا جب ہدایت کے نشانات مٹ چکے تھے، دین کے راستے بے نشان ہوچکے تھے، انہوںنے جنکا واشگاف اندازسے اظہار کیا، لوگوںکو نصیحت کی ۔

١١٣٦۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت مبعوث کیاجب نہ کوئی نشان ہدایت تھا نہ کوئی منارئہ دین روشن تھا اور نہ کوئی راستہ واضح تھا۔

١١٣٧۔ امام علی (ع): اسکے بعد مالک نے آنحضر ؐ ت کو حق کےساتھ مبعوث کیا جب دنیا فنا کی منزل سے قریب تر ہوگئی اور آخرت سر پر منڈلانے لگی دنیا کا اجالا اندھیروں میں تبدیل ہونے لگا اور وہ اپنے چاہنے والوںکےلئے ایک مصیبت بن گئی، اسکا فرش کھردرا ہوگیا اور وہ فنا کے ہاتھوں میں اپنی مہاردینے کےلئے تیار ہوگئی، اسطرح کہ اسکی مدت خاتمہ کے قریب پہنچ گئی اسکی فنا کے آثار قریب آگئے ،اسکے اہل ختم ہونے لگے اسکے حلقہ ٹوٹنے لگے، اس کے اسباب منتشر ہونے لگے، اسکے نشانات مٹنے لگے ، اسکے عیب کھلنے لگے ، اور اسکے دامن سمٹنے لگے۔

١١٣٨۔ امام علی (ع): اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں متحیر تھے اور فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموںمیں لغزش پیدا کر دی تھی جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیاتھا، اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں میں حیران و سرگرداں تھے ، آ پ نے نصیحت کا حق ادا کر دیا ، سید ھے راستہ پر چلے اور لوگوںکو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔

١١٣٩۔ امام علی (ع): اے لوگو! اللہ نے تمہاری طرف رسول بھیجا اور ان پرحق کےساتھ کتاب نازل کی، حالانکہ اس وقت تم کتاب اور جو کچھ اس نے نازل کیا ہے اور رسول اور اسکے بھیجنے والے سے بیگانہ تھے اس وقت جبکہ ابنیاء کا سلسلہ موقوف تھااور امتیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں، جہالت کا دور دورہ تھا، فتنے چھائے ہوئے تھے، محکم عہد و پیمان توڑے جارہے تھے، لوگ حقیقت سے اندھے تھے، جور و ستم کے سبب منحرف تھے، دینداری زیر پردہ تھی، جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے باغات دنیا کے گلستان پژمردہ ہوگئے تھے، انکے درختوں کی شاخیں خشک ہو چکی تھیں، باغ زندگی کے پتوں پر خزاں تھی، ثمرات حیات سے مایوسی پیدا ہو چکی تھی، پانی بھی تہ نشیںہو چکا تھا، ہدایت کے پرچم بھی سرنگوںہوچکے تھے اور ہلاکت کے نشانات بھی نمایاں تھے۔

یہ دنیا اپنے اہل کو ترش روئی سے دیکھ رہی تھی اور ان کی طرف پیٹھ کئے ہوئے تھی اور منہ بگاڑ کر پیش آرہی تھی اس کا ثمرہ فتنہ تھا اور اسکی غذا مردار ، اس کا اندرونی لباس خوف تھا اور بیرونی لباس تلوار، تم لوگ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے ، اہل دنیا کی آنکھیں اندھی ہو چکی تھیں، ان کی تمام زندگی تاریک ہو چکی تھی، اپنے عزیز و رشتہ دار سے قطع تعلق کر چکے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، اپنی نو زاد بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے، خوشحال زندگی اور عیش و آرام ان کے درمیان سے رخت سفر باندھ چکا تھا نہ خدا سے ثواب کی امید رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے قہر و غضب سے ڈرتے تھے، ان کے زندہ اندھے اور ناپاک تھے، اور مردے آگ کے اندر لڑھک رہے تھے، پھر اس کے بعد رسول خدا اولین کی کتابوں سے ایک نسخہ لیکر آئے اور جو کچھ اس کے پاس حق و حقیقت تھی اسکی تصدیق کی اور حلال و حرام کو اچھی طرح سے جداکیا۔

١١٤٠۔ امام علی (ع): میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندہ اور رسول ہیں، انہیں خدا نے مشہور دین کےساتھ بھیجا...یہ بعثت اسوقت ہوئی ہے جب لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمانِ دین ٹوٹ چکی تھی، یقین کے ستون ہل گئے تھے، اصول میں شدید اختلاف تھا، اور امور میں سخت انتشار، مشکلات سے نکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہو گئے تھے، ہدایت گمنام تھی اور گمراہی برسرعام، رحمن کی معصیت ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت، ایمان یکسر نظر انداز ہو گیا تھا، اسکے ستون گرگئے تھے اور آثارناقابل شناخت ہوگئے تھے، راستے مٹ گئے تھے اور شاہراہیں بے نشان ہوگئی تھیں، لو گ شیطان کی اطاعت میں اسی کے راستے پر چل رہے تھے اور اسی کے چشموںپر وارد ہو رہے تھے۔انہیں کی وجہ سے شیطان کے پرچم لہرا رہے تھے اور اسکے علم سر بلند تھے، یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوںنے انہیں پیروں تلے روند دیا تھا اور سموں سے کچل دیا تھا، اورخود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے تھے، یہ لوگ فتنوں میں حیران و سرگرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے، پروردگار نے انہیں اس گھر( مکہ) میں بھیجا جو بہترین مکان تھا لیکن بدترین ہمسایہ، جنکی نیندیں بیداری تھیں اور جن کا سرمہ آنسو۔ وہ سرزمین جہاں عالم کو لگام لگی ہوئی تھی اور جاہل محترم تھا۔

١١٤١۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے اللہ کے کوئی خدا نہیں اور حضرت محمد(ص) اسکے بندہ اور رسول ہیں، اس کے منتخب و مصطفیٰ ہیں، انکے فضل کا کوئی مقابلہ نہیںکر سکتا ہے، اور نہ انکے فقدان کی تلافی، انکی وجہ سے تمام شہر ضلالت کی تاریکی، جہالت کے غلبہ اور بدسرشتی و بد اخلاقی کی شدت کے بعد جب لوگ حرام کو حلال اور صاحبان حکمت کو ذلیل سمجھ رہے تھے، رسولوں سے خالی دور میں زندگی گذار رہے تھے اور کفر کی حالت میں مر رہے تھے، منور اور روشن ہو گئے۔

١١٤٢۔ امام علی (ع):(خدا وند متعال) نے آنحضر ؐ ت کو مبعوث کیا اور اے گروہ عرب ! تم بدترین حالت میں تھے، تم میں سے بعض کتوں کو اپنی غذا بناتے تھے، اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے ،دوستوں کو غارت کرتے تھے اور جب پلٹے تھے تو دوسرے انہیں غارت کر چکے ہوتے تھے، تم لوگ حنظل و اندرائن کے دانے ، خون اور مردار کھاتے تھے، تمہاری بود و باش نا ہموار پتھروں اور گمراہ کرنے والے بتوں کے درمیان تھی، تم بد ذائقہ کھانا کھاتے اور بد مزہ پانی پیتے تھے آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے اور ایک دوسرے کو اسیر کرتے تھے۔

١١٤٣۔ امام علی (ع): یہ آپکے اس خط کا ایک حصہ ہے جو آپ نے محمد بن ابی بکر کے قتل کے بعد اپنے بعض اصحاب کو لکھا تھا۔ یقینا اللہ نے آنحضر ؐ ت کو عالمین کےلئے عذاب الہی سے ڈرانے والا، تنزیل کا امانتدار اور اس امت کا گواہ بنا کر اسوقت بھیجا ہے، جب تم گروہ عرب ،بدترین دین کے مالک اور بدترین علاقہ کے رہنے والے تھے، نا ہموار پتھروں، زہریلے سانپوں اور خار مغیلاںکے درمیان بود و باش رکھتے تھے بد مزہ پانی پیتے اور بدذائقہ کھانا کھاتے تھے، آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے اور اپنے قرابتداروں سے بے تعلقی رکھتے تھے اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے کھاتے تھے، تمہارے راستے پر خطر تھے، بت تمہارے درمیان نصب تھے( اور گناہ تمہیں گھیرے ہوئے تھے) اور ان میں سے اکثر کا خدا پر ایمان شرک سے مخلوط تھا۔

١١٤٤۔ امام علی (ع): نے ۔گذشتہ امتوں سے عبرت و نصیحت اور مغرور و گنہگار سے بچنے کے متعلق فرمایا: اب تم اولاد اسماعیل اور اولاد اسحاق و اسرائیل(یعقوب) سے عبرت حاصل کرو کہ سب کے حالات کسقدر ملتے ہوئے اور کیفیات کسقدر یکساںہیں، دیکھو انکے انتشار و افتراق کے دور میں انکا کیا عالم تھا کہ قیصر و کسریٰ انکے ارباب بن گئے تھے، اور انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں، عراق کے دریاؤں اور دنیا کی شادابیوں سے نکال کر خار دار جھاڑیوں اور آندھیوں کی بے روک گذر گاہوں اورمعیشت کی دشوار گذار منزلوں تک پہنچ کر اس عالم میں چھوڑ دیاتھا کہ وہ فقیر و نادار، اونٹوں کی پشت پر چلنے والے اور بالوں کے خیموں میں قیام کرنے والے ہو گئے تھے، گھر بار کے اعتبار سے تمام قوموں سے زیادہ ذلیل اور جگہ کے اعتبار سے سب سے زیادہ خشک سالیوں کا شکار تھے، نہ ان کی آواز تھی جنکی پناہ لیکر اپنا تحفظ کر سکیں اور نہ کوئی الفت کا سایہ تھا جس کی طاقت پر بھروسہ کر سکیں ، حالات مضطرب، طاقتیں منتشر، کثرت میں انتشار، بلائیں سخت، جہالت کا دور دورہ، زندہ در گور بیٹیاں، پتھر پر ستش کے قابل، رشتہ داریاں ٹوٹی ہوئی اور چاروں طرف سے حملوں کی یلغار۔

اس کے بعد دیکھو کہ پروردگار نے ان پر کس قدر احسانات کئے جب ان کی طرف ایک رسول بھیج دیا ، جس نے اپنے نظام سے ان کی اطاعت کو پابند بنا یا اور اپنی دعوت پر ان کی الفتوں کو متحد کیا اور اس کے نتیجہ میں نعمتوں نے ان پر کرامت کے بال و پر پھلا دئےے اور راحتوں کے دریا بہا دئےے، شریعت نے انہیں اپنی برکتوں کے بیش قیمت فوائد میں لپیٹ لیا، وہ نعمتوں میں غرق ہو گئے اور زندگی کی شادابیوں میںمزے اڑانے لگے، ایک مضبوط حاکم کے زیر سایہ حالات ساز گار ہوگئے اور حالات نے غلبہ و بزرگی کے پہلو میں جگہ دلوا دی اور ایک مستحکم ملک کی بلندیوں پر دنیا و دین کی سعادتیں انکی طرف جھک پڑیں، و ہ عالمین کے حکام ہو گئے اور اطراف زمین کے بادشاہ شمار ہونے لگے جو کل انکے امور کے مالک تھے آج وہ انکے امور کے مالک ہو گئے اور اپنے احکام ان پر نافذ کرنے لگے جو کل اپنے احکام ان پر نافذ کر رہے تھے کہ اب نہ انکا دم خم نکالا جا سکتا تھا اور نہ انکا زور ہی توڑا جا سکتا تھا دیکھو تم نے اپنے ہاتھوں کو اطاعت کے بندھنوں سے چھڑا لیا ہے اور اللہ کی طرف سے اپنے گرد کھنچے ہوئے حصار میں جاہلیت کے احکام کی بنا پر رخنہ پیدا کر دیا ہے ۔

١١٤٥۔ : فاطمۃ ؑ : نے۔ وفات پیغمبر کے بعد مسلمانوں کو مخاطب کرکے۔ فرمایا: تم لوگ آگ کے گڑھے کے دہانے پر تھے، پینے والوںکے لئے پانی ملا دودھ کا گھونٹ ، حریص کی فرصت اور اس شخص کے مانند تھے جو گھر میں داخل ہو اور صرف آگ لینے تک ٹھہرے، اور دوسروں کے پیروں تلے کچلے جا رہے تھے ، گدلا پانی پیتے تھے اور گوسفند کی کھال تمہاری غذائیں تھیں، ذلیل و پست تھے، اورخوف لا حق رہتا تھا کہ کہیں لوگ اطراف سے تمہیں اچک نہ لے جائیں ۔ پس اللہ نے تمہیں میرے باپ محمد(ص)کے ذریعہ نجات بخشی۔

١١٤٦۔ اما م ہادی ؑ : نے۔ اپنے خطبہ میں فرمایا: حمد اس اللہ کے لئے ہے جو ہر موجود سے آگاہ ہے قبل اس کے کہ اسکی مخلوق میں سے کسی کا اسکی گردن پر قرض ہو... اور بیشک محمد(ص) اس کے بندہ اس کے برگزیدہ رسول اور پسندیدہ دوست ہیں اور ہدایت کے ساتھ مبعوث کئے گئے ہیں۔ اور انہیں رسولوں سے خالی عہد، امتوں کے اختلاف ، راستوں کے انقطاع، حکمت کی بوسیدگی اور نشانات ہدایت و شواہد کے محو ہونے کے زمانہ میں بھیجا ہے ۔ انہوںنے رسالت پروردگار کو پہنچایا۔ اور اس کے حکم کو واضح کیا۔ اور ان پر جوفریضہ تھا اس کو انجام دیا اور جب وفات پائی تو محمود و پسندیدہ تھے۔

جاہلیت کے متعلق کچھ باتیں

قرآن نے ظہور اسلام سے پہلے والے زمانہ کو جاہلیت سے تعبیر کیا ہے ، اس کا سبب یہ ہے کہ اس وقت علم کے بجائے جہالت، حق کے بجائے ہر چیز میں خلاف حق اور احمقانہ رائے کا دور دورہ تھا قرآن نے ان کی خصوصایت کو اس طرح بیان کیا ہے :

( یظنون باﷲ غیر الحق ظن الجاھلیۃ )

وہ لوگ خدا کے متعلق خلاف حق جاہلیت جیسے خیالات رکھتے تھے۔

اور فرمایا(افحکم الجاہلیۃ یبغون )

کیایہ لوگ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں فرمایا:( اذ جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیۃ حمیۃ الجالیۃ )

یہ اس وقت کی بات ہے جب کفار نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسی ضد قرار دے لی تھی۔

نیز فرماتا ہے: (ولا تبر جن تبرج الجاہلیۃ الاولیٰ )

اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو۔

اس وقت عرب معاشرہ کے جنوب میں حبشہ کہ جہاں کے باشندوں کا مذہب نصرانی تھا، اور مغرب میں حکومتِ روم تھی کہ جسکا مذہب نصرانی تھاشمال میں ایران جسکا مذہب مجوسی تھا اور دوسرے اطراف میں ہندوستان اور مصر ایسے بت پرست ممالک واقع تھے۔

خود عرب کے درمیان یہودیوں کے چند گروہ آباد تھے، خود عرب بت پرست تھے، اکثرلوگ قبیلوں میں زندگی بسر کرتے تھے یہ تمام چیزیں اس چیز کی باعث ہوئیں کہ ایک بے بنیادبادیہ نشیں معاشرہ وجود میں آجائے کہ جو یہود و نصاریٰ اور مجوس کے آداب و رسوم سے مخلوط ہو، لوگ جہالت و نادانی اور مکمل بے خبری میں زندگی بسر کر رہے تھے۔خدا انکے بارے میں اس طرح فرمایا :

( ان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اﷲ ان یتبعون الا الظن و ان ھم الا یخرصون )

اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کر لیں گے تو یہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیں گے اور یہ صرف گمان کا اتباع کرتے ہیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ہیں۔

یہ صحرا نورد قبائل بہت پست زندگی گذارتے تھے؛ مسلسل جنگ و غارت گری ، لوٹ مار ایک دوسرے کی ناموس پر تجاوز کرتے تھے، ان میں کسی طرح کا امن و امان ، امانتداری اور صلح و آشتی نہ تھی، اسی کی چودھراہٹ و حکمرانی ہوتی جو ان میں نہایت سرکش و قدرتمند ہوتا تھا۔

ان کے درمیان مردوںکی فضیلت خونریزی، جاہلیت کی ضد، کبر و غرور، ظالموں کا اتباع، مظلوموں کا حق پامال کرنا، آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی، نفسہ نفسی، جوا کھیلنا شرابخوری، زنا کاری، مردار و خون اور کھجوروںکا بیج کھانا، تھی۔

لیکن ان کی عورتیں انسانی حقوق سے محروم تھیں، وہ خود مختار اور صاحب ارادہ نہیں ہوتی تھیں انہیں اپنے کسی کام میںکوئی اختیار نہیںہوتا تھا، یہاں تک کہ وراثت کی بھی مالک نہیںہوتی تھیں اور مرد بغیر کسی قید و بند کے ان سے شادیا ںکرتے تھے جیسا کہ بعض یہودی اور بت پرستوںکی عاد ت تھی۔ در عین حال عورتیں بھی خود کو آراستہ اور بناؤ سنگار کرکے جس کوچاہتی تھیں اپنے پاس بلا لیتی تھیں، زنا و بے حیائی ان میں عام تھی یہاں تک کہ شادی شدہ عورتیں بھی زنا کا ارتکاب کرتی تھیں اور بسا اوقات عریاں حج کے لئے آتی تھیں۔

لیکن ان کی اولاد باپ سے منسوب ہوتی تھی، لیکن بچپن میں وراثت سے محروم ہوتی تھی، صرف بڑی اولاد کو میراث کے تصرف کا حق ہوتا تھا، منجملہ ان کی میراث متوفیٰ کی بیوہ ہوتی تھی، بطور کلی لڑکیاں چاہے چھو ٹی ہوں یا بڑی اور چھوٹے لڑکے میراث کا حق نہیں رکھتے تھے، مگر جب کوئی شخص مرتا اور کوئی کمسن بچہ چھوڑ کر جاتا تو سر غنہ قسم کے افراد زبردستی اس کے اموال کے سر پرست بن کر اس کے اموال کو کھاجاتے تھے، اور اگر یہ یتیم بچی ہوتی تو اس کے ساتھ شادی کرتے اور اس کے اموال کوچٹ کر جانے کے بعد اس کو طلاق دیکرنکال دیتے تھے اس صورت میں اس بچی کے پاس نہ مال ہوتا تھا کہ جس سے زندگی گذار سکے اور نہ ہی کوئی اس سے شادی کے لئے تیار ہوتا تھا کہ اس کے اخراجات کا ذمہ دار بنے۔

ان کے درمیان یتیموں کامال غصب کرنا عظیم ترین حادثہ تھا، تا ہم وہ ہمیشہ جنگ و جدال اور غارت گری میں مبتلا رہا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں قتل و خونریزی زیادہ ہوتی تھی لہذا بے سر پرست یتیموںکے حادثات اور رونما ہوتے تھے۔

ان کی اولاد کی عظیم بدبختی و شقاوت کا سبب یہ تھا کہ وہ بنجر اور نا ہموار زمینوں میں آباد تھے جو بہت جلد قحط کا شکار ہو جایا کرتی تھیں، لہذا فقر و ناداری کے خوف سے وہ اپنے بیٹوں کو قتل اور بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، ان کے لئے سب سے زیادہ ناگوار اور دردناک خبر ان کے یہاں بیٹی کی ولادت ہوتی تھی۔

اگرچہ جزیرہ نما عرب کے اطراف میں کچھ بادشاہ حکومت کرتے تھے اور یہ عرب والے انہیں بادشاہوں میں سے اپنے سے قریب اور طاقتور بادشاہ کی زیر حمایت زندگی گذارتے تھے ۔ جیسے ایران شمال کی سمت میں ، روم مغرب کی سمت میںاور حبشہ مشرق کے اطراف میں آباد تھے مگر یہ کہ مرکزی شہر جیسے مکہ ، یثرت اور طائف وغیرہ ایسی کیفیت میں تھے کہ جو جمہوریت کے مثل تھے لیکن جمہوری نہیں تھے اور قبائل صحراؤں میں اور کبھی کبھار شہروں میں زندگی گذارتے تھے اور رؤساء اور بزرگان قبیلہ کے ذریعہ ان کی کفالت ہوتی تھی اور کبھی یہ کیفیت بادشاہی حکومت میں تبدیل ہو جاتی تھی۔

یہ عجیب ہرج و مرج ان میں سے ہر گروہ میں ایک خاص صورت میں نمایاںتھا، اورجزیرہ نما عرب کی سرزمین کے ہر گوشے کا ہر گروہ عجیب و غریب آداب و رسوم اور باطل عقائد کا پابند تھا، اس سے قطع نظر وہ سب کے سب تعلیم و تعلم کے فقدان کی بلاء میں مبتلا تھے حتیٰ کہ شہر بھی چہ برسد عشائر و قبائل ۔

جو میں نے ان کے تمام حالات و کردار اور عادات و رسومات بیان کئے ہیں یہ ایسے امور ہیں جنہیں قرآن کی آیات اور ان ارشادات سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے جن میں ان کا ذکر موجود ہے ۔

لہذاجوآیات پہلے مکہ میں پھر اسلام کے ظہور کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں کہ جن میں ان کے خصوصیات کا تجزیہ کیا گیا ہے، اسی طرح جن آیات میں ان کی شدید و معمولی سر زنش کی گئی ہے ان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ان مطالب کی سب سے بڑی سند ہے جو ہم نے بیان کئے ہیں نہایت مختصرجملہ جو ان تمام امور کو بخوبی ثابت کرتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن نے اس زمانہ کو دور جاہلیت سے تعبیر کیا ہے ، فقط یہی مختصر سی تعبیر ان تمام معانی کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، یہ تھی اس زمانہ میں عرب کی حالت۔

٦/٢

دین جاہلیت

الف : غیر اللہ کی عبادت

قرآن

( اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر ایسے خدا بنالئے ہیں جو کسی بھی شی کے خالق نہیںہیں بلکہ خود ہی مخلوق ہیں اور خود اپنے بھی کسی نقصان یا نفع کے مالک نہیںہیں اور نہ انکے اختیار میں موت و حیات یا حشر و نشر ہی ہے )

ب: خدا کے لئے بیٹا قرار دینا

( اور ان لوگوں کو ڈراؤ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو اپنا فرزند بنا یا :اس سلسلہ میں نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ انکے باپ دادا کو یہ بہت بڑی بات ہے جو انکے منہ سے نکل رہی ہے کہ یہ جھوٹ کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرتے )

( اور یہ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں جبکہ وہ پاک ہے اور یہ جو کچھ چاہتے ہیں وہ سب انہیں کےلئے ہیں )

( کیا یہ تمہارے رب نے تم لوگوں کےلئے لڑکوں کو پسند کیا ہے اور اپنے لئے ملائکہ میں سے لڑکیاں بنائی ہیں یہ تم بہت بڑی بات کہہ رہے ہو )

( یا خدا کے لئے لڑکیاں اور تمہارے لئے لڑکے ہیں )

( کیا تم لوگوں نے لات و عزی کو دیکھا ہے اور منات جو ان کا تیسرا ہے اسے بھی دیکھا ہے، تو کیاتمہارے لئے لڑکے ہیں اور اس کے لئے لڑکیاں ہیں یہ انتہائی ناانصافی کی تقسیم ہے )

حدیث

١١٤٧۔ رسول خدا(ص): خدا نے فرمایا: فرزند آدم نے میری تکذیب کی، جبکہ اسکو یہ حق نہیں تھا اور مجھ کو گالی دی حالانکہ اس کےلئے یہ مناسب نہیں تھا، لیکن میری تکذیب اس لئے کی تھی کہ اسکا گمان تھا کہ وہ جسطرح دنیا میں ہے میں اسے اسی طرح نہیں پلٹا سکتا ہوں؛ اور اسکا مجھے گالی دینا اس لئے تھا کہ اس نے میرے لئے بیٹا قرار دیا۔ میں اس چیز سے منزہ ہوں کہ میرے لئے زوجہ اور بیٹا ہو۔

١١٤٨۔ مجاہد: کہ کفار قریش کہتے تھے: ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں بڑی پریوںکی بیٹیاں ہیں۔

١١٤٩۔ ابن عباس:نے اس آیت (اور یہ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں) کی تفسیر میںفرمایا:وہ لوگ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے تھے ، اور تم اس بات کو پسند کرتاتے ہو کہ میرے(خدا) یہاں لڑکیاں ہوں لیکن اپنے لئے پسند نہیں کرتے ، اسی لئے دور جاہلیت میں جب کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی تھی تو اسے ذلت و حقارت کے ساتھ باقی رکھتے تھے یا زندہ در گور کر دیتے تھے۔

ج: جنات کو خداکا شریک قرار دینا

( اور انہوں نے جنات کو خداکا شریک بنایا حالانکہ خدا نے انہیںپیدا کیا ہے پھر اس کےلئے بغیر جانے بوجھے بیٹے اور بیٹیاں بھی تیار کر دی ہیں، جبکہ وہ بے نیاز اور انکے بیان کر دہ اوصاف سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے )

( اور جس دن خدا سب کو جمع کریگا اور پھر ملائکہ سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے تو وہ عرض کریں گے کہ تو پاک و بے نیاز اور ہمارا ولی ہے یہ ہمارے کچھ نہیں ہیں اور یہ جنات کی عبادت کرتے تھے اور ان کی اکثریت انہیں پر ایمان رکھتی تھی )

د: خدا اور جنات کا رشتہ

( اور انہوںنے خدا و جنات کے درمیان بھی رشتہ قرار دے دیا حالانکہ جنات کو معلوم ہے کہ انہیں بھی خدا کی بارگاہ میں حاضر کیا جائےگا )

ھ: بعض چوپایوں کو حرام قرار دینا

( آپ کہہ دیجئے کہ خدا نے تمہارے لئے رزق نازل کیاتو تم نے اس میں بھی حلال و حرام بنانا شروع کر دیا تو کیا خدا نے تمہیں اسکی اجازت دی ہے یا تم خدا پر افتراء کر رہے ہو )

( لہذا اب تم اللہ کے دئےے ہوئے رزق حلال و پاکیزہ کو کھاؤ اور اسکی عبادت کرنے والے ہو تو اسکی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رہو اس نے تمہارے لئے صرف مردار، خون ، سور کا گوشت اور جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیا جائے اسے حرام کر دیا ہے اور اس میں بھی اگر کوئی شخص مضطر و مجبور ہو جائے اور نہ بغاوت کرے ، نہ حد سے تجاوز کرے تو خدا بہت بڑا بخشنے والا مہربان ہے اور خبردار جو تمہاری زبانیں غلط بیانی سے کام لیتی ہیں اسکی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اس طرح خدا پر جھوٹا بہتان باندھنے والے ہو جاؤ گے اور جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں ان کے لئے فلاح اور کامیابی نہیں ہے )

( اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جانور اور یہ کھیتی اچھوتی ہے اسے ان کے خیالات کے مطابق وہی کھا سکتے ہیں جنکے بارے میں وہ چاہیں گے اور کچھ چوپائے ہیں جنکی پیٹھ حرام ہے اور کچھ چوپائے ہیںجنکو ؟ذبح کرتے وقت نام خدا بھی نہیںلیا گیا اور سب کی نسبت خدا کی طرف دے رکھی ہے ، عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائیگا اور کہتے ہیں کہ ان چوپایوں کے پیٹ میںجو بچے ہیں وہ صرف ہمارے مردوں کے لئے ہیں اور عورتوں پر حرام ہیں ہاں، اگر مردار ہوں تو سب شریک ہوں گے، عنقریب خدا ان بیانات کا بدلہ دیگا کہ وہ صاحب حکمت بھی ہے اور سب کا جاننے والا بھی ہے )

( اللہ نے بحیرہ ، سائبہ، وصیلہ اور حام کا کوئی قانون نہیں بنایا یہ جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں اور ان میں کے اکثر بے عقل ہیں )

١١٥٠۔ امام صادق(ع): جب اونٹنی بچہ دیتی ہے پھر اس کا بچہ بھی بچہ دے دے تو اس ناقہ کو بحیرہ کہتے ہیں۔

١١٥١۔ امام صادق(ع): نے خدا کے اس قول( اللہ نے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام کا کوئی قانون نہیں بنایا)کے بارے میں فرمایا: دور جاہلیت کے لوگ اس اونٹنی کو جو جوڑواں بچہ دیتی تھی وصیلہ کہتے تھے لہذا اس کا ذبح کرنااور کھانا ناجائز سمجھتے تھے، اور اگر دس بچے پیدا ہو جاتے تھے تو اس اونٹنی کو سائبہ کہتے تھے اس پر سواری کرنا اور اس کے کھانے کو حلال نہیں سمجھتے تھے اور حام وہ نرجانور ہے (جس کے ذریعہ مادہ کو حاملہ کراتے تھے) وہ اسے بھی حلال نہیںسمجھتے تھے، پھر خدا نے آیت نازل کی کہ ان میں سے کسی کو حرام نہیںکیا ہے ۔

وضاحت

اسلام سے قبل عرب کی بدترین جاہلیت کی بدولت ان کے رؤسا اور بزرگان کے استفادہ کے لئے زمین ہموار تھی اور دور جاہلیت کے سرکش و ظالم افراد رسولوں سے خالی دور میں دینی اور اجتماعی آداب و رسومات کے نام پر لوگوں کے پاکیزہ احساسات سے غلط فائدہ اٹھاتے تھے اور اپنے منافع کے لئے کچھ بدعات و خرافت ایجاد کررکھی تھیں، ان میں کا ایک کہ جس کو تاریخ عمروبن لحی کے نام سے جانتی ہے اس نے اس وقت عرب کی اہمترین ثروت یعنی اونٹ کو اپنے اختیار میں لیا اور اس کے لئے کچھ احکام بنا کر مقدس رسم کی صورت میںپیش کیا۔

اس بدعت کے نتیجہ میں ان کی در آمد اونٹ کی چار قسموں ، بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ ، اورحام ، میں منحصرہو گئی تھی اور تفسیروں میں کم و بیش اختلاف کے ساتھ اس سلسلہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ اور تمام تفسیروں کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ ان چاروں اونٹوں کے لئے خود ساختہ احترام کے قائل تھے کہ دودھ، گوشت، اون، ا ن پر سواری کو اکثر کے لئے حرام اور بعض کے لئے منجملہ متولی اور بتوں کے خدمت گذاروںکے لئے حلال سمجھتے تھے۔

یہ بدعت ، عورتوںکے متعلق عرب کے حقارت آمیز نظریہ سے مل کر عورتوںکے لئے اس حکم کے مزید سخت ہونے کا باعث ہوئی؛ وہ یہ کہ عورتیں ان مذکورہ اونٹوں کا گوشت صرف مرنے کے بعد ہی کھا سکتی تھیں۔

اس کے علاوہ اس خیالی حرمت کے نتیجہ میں بتوںکے متولیوں اور خادموں کے لئے چراگاہوں ، پانی کے چشموں اور جزیرۃ العرب کے نایاب کنوؤں سے استفادہ کر ناجائز و مباح تھا۔ نیز اس چیز کابھی باعث ہوئی کہ وہ شکریہ کے طور پر یا اپنی حاجات کے پوری ہونے پر پتھر کے بتوں اور ان کے متولیوںکی خدمت میں نذرانہ پیش کریں۔

قرآن مجید مذکورہ چار آیات کے ذریعہ جاہلیت کے بدعات و خرافات سے برسرپیکار ہوا یعنی بت پرستوں ، اور ان کے خود ساختہ رسومات اور دعووں کو محض افتراء سے تعبیر کیا ہے ، متولیوں ،بت پرستوں، اور بت گروںکو بے نقاب کر دیا اور اعلان کیا کہ چوپایوں کا حرام یا حلا ل قرار دیناصرف خدائے سبحان کے اختیار میں ہے ، اور اس نے ان چار طرح کے حیوانات کو عرب کے عقیدئہ جاہلیت کے بر خلاف حرام نہیںجانا ہے ، فقط مردار اور وہ تمام چیزیں جو بتوں اور غیر خدا سے مربوط ہیں انہیں حرام قرار دیا ہے ۔

و:خدا اور اصنام کے درمیان کھیتی اور چوپایوں کی تقسیم

قرآن

( اور ان لوگوں نے خدا کی پیدا کی ہوئی کھیتی میں اور جانوروںمیں اسکا حصہ بھی لگایا ہے اور یہ اعلان کیاہے کہ یہ انکے خیال کے مطابق خدا کےلئے ہے اور یہ ہمارے شریکوںکےلئے ہے ، اسکے بعد جو شرکاء کا حصہ ہے وہ خدا تک نہیں جاسکتا اور جو خدا کا حصہ ہے وہ انکے شریکوں تک پہنچ سکتاہے کس قدر بدترین فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں )

( اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جانور اور کھیتی اچھوتی ہے اسے انکے خیالات کے مطابق وہی کھا سکتے ہیںجنکے بارے میںوہ چاہیں گے اور کچھ چوپائے ہیں جنکی پیٹھ حرام ہے اور کچھ چوپائے ہیں جنکو ذبح کرتے وقت نام خدا بھی نہیںلیا گیا اور سب کی نسبت خدا کی طر ف دے رکھی ہے عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائیگا )

( اور یہ ہمارے دئےے ہوئے رزق میں سے ان کا بھی حصہ قرار دیتے ہیں جنہیں جانتے بھی نہیں ہیں تو عنقریب تم سے تمہارے افتراء کے بارے میںبھی سوال کیا جائیگا )

وضاحت

عقیدئہ جاہلیت (کہ بتوں کو خدا کا شرکاء قرار دیتے تھے) نے عرب کو اس چیز پر ابھارا کہ وہ اپنے خداؤں اور بتوںکےلئے بتکدہ بنائیں اور ان کے خدمت گذاروں اور متولیوں کے لئے معاش فراہم کریں، انہیں اپنی زندگی ، رزق اور مملکت میں شریک بنائیں اور اپنی عمدہ روت(زراعت و چوپائے) ان کے درمیان تقسیم کریں اور خدا کے حصہ کے ساتھ ان کا بھی حصہ قرار دیں۔ خدا کے حصہ کو عمومی مصارف جیسے مہمانوںکو کھانا کھلانے اور فقراء و مساکین کی مدد کرنے میں خرچ کرتے اور بتوںکے حصہ کو ان کے خدمت گذاروں کو عنایت کرتے تھے۔جب کبھی زراعت پر کوئی آفت آتی یا کم پیدوار ہوتی یا ان کا حصہ خدا کے حصہ سے مخلوط ہو جاتا تو یہ حریص و لالچی خدمت گذار اپنے مفاد کی خاطر دھوکا دھڑی سے کام لیتے اور کہتے (خدا بے نیازہے) لہذا وہ اپنا پورا حصہ بغیر کسی کم و کاست کے لے لےتے تھے اور اپنے حصوں کی کمی کا جبران خدا کے حصہ سے کرتے تھے اور کبھی بھی خدا کے حصہ کا جبران بتوں کے حصہ سے نہیں کرتے تھے محصول میںیہ کمی وزیادتی کبھی کبھار ان کی پہلے کی فریبکاریوںکی بنا پر ہوتی تھی؛ اور وہ یہ کہ جب سینچائی کے وقت خد اکے حصہ کے کھیتوں سے پانی بتوں کے کھیتوں میں جانے لگتا تھا تو وہ اس کو روکتے نہیں تھے، لیکن اس کے بر خلاف خداکے کھیتوں میں بتوںکے کھیتوں سے پانی نہیں جانے دیتے تھے۔ اسی طرح یہ فرسودہ رسم چوپایوںمیں بھی تقسیم و شراکت کے اعتبار سے بر قرار تھی کہ جس کی طرف گذشتہ فصل میں اشارہ ہو چکاہے ۔ملاحظہ کریں:تفسیر مجمع المبیان : ٤/٥٧١، تفسیر قمی: ١/٢١٧، تفسیر طبری : ٥، جزء ٨/٤٠ تفسیر در منثور:٣،٣٦٢، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام:٦ /١٩٣

ز: عریاں طواف

١١٥٢۔ امام صادق(ع): زمانہ جاہلیت میں عرب کے گروہ تھے : حل اور حمس۔ حمس قریش تھے۔ اور حل تمام عرب تھے حل میں سے کوئی فرد ایسی نہیںتھی جو حمس کی پناہ میں نہ ہوتی اور جو حمس کی پناہ میں نہیں ہوتا تھا وہ عریاں طواف کرتاتھا۔

رسول خدا(ص) عیاض بن حمار مجاشعی کو پناہ دیتے تھے ، عیاض عظیم المرتبت انسان تھا اور جاہلیت میں اہل عکاظ کا قاضی تھا، وہ جب بھی مکہ وارد ہوتا ، اپنے گناہ آلود لباس کو اتار دیتا اور چونکہ پیغمبر کا لباس پاک و پاکیزہ ہوتا تھا لہذآنحضرت کا لباس پہن کرطواف کرتا تھا، اور طواف کے بعد آپکا لباس واپس دے دیتا تھا۔جب پیغمبر ؐ مبعوث برسالت ہوئے تو عیاض آپ کے لئے ایک ہدیہ لیکر آیا، لیکن نبی ؐ نے اسے قبول نہ کیا اور فرمایا: اے عیاض! اگر مسلمان ہو جاؤگے تو تمہارا ہدیہ قبول کرونگا؛ یقینا خدا مشرکوں کی داد و دہش کو میرے لئے پسند نہیںکرتا، پھر اس کے بعد عیاض نے اسلام قبول کیا اور اس کا اسلام قابل تحسین ہوا۔ اور رسول خدا کے لئے ہدیہ لیکر آیا اور آپ نے اس کو قبول فرمایا۔

١١٥٣۔ امام صادق(ع): عرب کے درمیان یہ رائج تھا کہ جو بھی مکہ میں وارد ہوتا اور اپنے لباس میں طواف کرتااس کے لئے جائز نہ تھاکہ وہ اپنے لباس کو باقی رکھتا اور اسے دو بارہ پہنتا بلکہ وہ اسے صدقہ دے دیا کرتاتھا۔

؛ لہذا جب وہ لوگ مکہ میں داخل ہوتے تھے تو عاریتاً کسی سے لباس لیکر طواف کرتے پھر واپس کر دیتے تھے، اگر عاریتاً لباس نہیںملتا تھا تو کرایہ پر لیتے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتا اور ان کے پاس فقط ایک ہی لباس ہوتا تھا تو وہ برہنہ طواف کرتے تھے۔

لہذا عرب کی ایک حسین و جمیل عورت وارد مکہ ہوئی لیکن عاریت اور کرایہ پر کوئی لباس نہ مل سکا۔ لوگوں نے اس سے کہا: اگر تونے اپنے اس لباس میں طواف کیا تو اس کو تجھے صدقہ دینا ہوگا، عورت نے کہا: کیونکر صدقہ دوں گی جبکہ میرے پاس اس کے علاوہ دوسرا لبا س نہیںہے؟ !

لہذا اس نے برہنہ طواف کرنا شروع کر دیا اور لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے جس کی وجہ سے اس نے ایک ہاتھ آگے اور دوسرا ہاتھ پیچھے رکھا اور اس طرح رجز خوانی کی :

'' آج شرمگاہ کا کچھ حصہ یا تما م حصہ ظاہر ہے ، اور جو ظاہرہے اس کو جائز نہیں جانتی ''

پھر طواف کے بعد کچھ لوگوں نے اس کے پاس شادی کے لئے پیغا م بھیجا لیکن اس نے کہا میں شادی شدہ ہوں۔

ح: قیامت کا انکار

قرآن

( اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیاتو کیا تمہارے سامنے ہماری آیات کی تلاوت نہیںہو رہی تھی لیکن تم نے اکڑ سے کام لیا اور بیشک تم ایک مجرم قوم تھے اور جب یہ کہا گیا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیںہے تو تم نے کہہ دیا کہ ہم تو قیامت نہیں جانتے ہیںہم اسے ایک خیالی بات سمجھتے ہیں اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیں ہیں اور ان کے لئے ان کے اعمال کی برائیاں ثابت ہو گئیں اور انہیں اس عذاب نے گھیر لیا جس کا وہ مزا ق اڑا یا کرتے تھے اور ان سے کہا گیا کہ ہم تمہیں آج اسی طرح نظر انداز کریں گے جس طرح تم نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیاتھاا ور تم سب کا انجام جہنم ہے اور تمہارا کوئی مدد گار نہیںہے یہ سب اس لئے ہے کہ تم نے آیات الہی کا مذاق بنا یا تھا اور تمہیں زندگانی دنیا نے دھوکا میں رکھا تھا توآج یہ لوگ عذاب سے باہر نہیں نکالے جائیں گے اور انہیں معافی مانگنے کا موقع بھی نہیںدیا جائیگا۔

جاہلیت کے عقائد پر ایک نظر

زمانہ جاہلیت یعنی وحی اور انبیاء سے خالی دور میں عرب وادی ضلالت و گمراہی میں زندگی بسر کر رہے تھے، حیران و سرگرداں اور مذہبی و فکر ی اختلاف کے شکار تھے، درج ذیل مطالب میں عرب کے فرق و مذاہب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے ۔

١۔ خدا اور قیامت کے معتقد نہیں تھے اور ہستی کو اسی دنیا میں محدود و منحصر خیال کرتے تھے اور کہتے تھے

( و ما ھی الاحاتنا الدنیا نموت و نحیٰ و ما یھلکنا الا الدھر )

یہ صرف زندگانی دنیا ہے اسی میں مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہم کو ہلاک کر دیتا ہے ۔

٢۔ قیامت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے، جیسا کہ آیت سے واضح ہے :

( و اذا قیل ان وعد اللہ حق و الساعۃ لا ریب فیھا قلتم ما ندری ما الساعۃ ان نظن الا ظناً وما نحن بمستیقنین )

اور جب یہ کہا گیا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میںکوئی شک نہیں ہے تو تم نے کہہ دیا کہ ہم تو قیامت نہیںجانتے ہیں اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیںہیں۔ نیز ارشاد ہے

( و ضرب لنا مثلا و نسی خلقہ قال من یحیی العظام و ھی رمیم قل یحییھا الذی انشأھا اول مرۃ )

اور وہ ہمارے لئے مثال بیان کرتاہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیاہے وہی زندہ بھی کریگا ۔

اس آیت سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ پہلی خلقت پر اعتقاد رکھتے تھے اور تعبیر حدیث کے مطابق وجود خداکے قائل تھے لیکن:(لا یرجون من اللہ ثواباً ولا یخافون اللہ منہ عقابا )

خدا کے ثواب کی امید نہیںرکھتے تھے اور نہ ہی اس کے عقاب سے ڈرتے تھے۔

٣۔ وہ کبھی ملائکہ و جنات میں سے اور کبھی اصنام و شیاطین میں سے خدا کا شریک قرار دیتے تھے۔ ان شرکاؤ کبھی اصل خلقت میں دخیل قرار دیتے اور کبھی تدبیر امور میں ؛ یا وہ لوگ خدا کو مادی موجودات سے تشبیہ دیتے اور یا انہیںمادی موجودات میں سے کسی ایک کی پروردگار عالم کے عنوان سے پرستش کرتے تھے؛ وہ مادی موجودات جیسے کواکب یا حیوانات اور یا اشجار ہیں، جزیرۃ العرب میں اس عقیدہ کے معتقد افراد( جو گذشتہ بالا عقیدہ کے معتقد افراد سے کچھ چیزوںمیں شبیہ ہیں) کی اکثریت تھی۔

( وما یؤمن باللہ الا وھم مشرکون )

ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے مگر یہ کہ مشرک تھے۔

٤۔ جزیرۃ العرب کے بعض مناطق میں اہل کتاب کے دو گروہ یہود و نصاریٰ آباد تھے جس کے ثبوت کے لئے منجملہ آیہ مباہلہ ہے جو نجران کے ان علماء اور نصاریٰ پر دلالت کرتی ہے جو مدینہ کے جنوب میں زندگی گذارتے تھے، نیز صدر اسلام کی عظیم جنگیں بھی اس چیز پر دلالت کرتی ہیں کہ جن میں یہودیوںکا اساسی کردار تھا، جیسے جنگ احزاب (خندق) اور اس کے بعد بنی قینقاع اور بنی قریظہ کے ساتھ کشمکش یہاں تک کہ جنگ خیبر دلالت کرتی ہے ۔

٥۔ کچھ مجوسی اور صائبہ بھی آباد تھے لیکن قابل اعتنا نہیں تھے۔

٦۔ کچھ لوگ دین حنیف ابراہیم کے معتقد تھے جو نہایت اقلیت میں تھے جنکے اسماء حسب ذیل ہیں :

١۔ ابو طالب (رسول اکرم (ص) کے چچا )

٢۔ ابو قیس صرمہ بن ابی انس

٣۔ ارباب بن رأاب

٤۔ اسعد ابوبکر حمیری

٥۔ امیہ بن ابی صلت

٦۔ بحیرائے راہب

٧۔ خالد بن سنان عبسی

٨۔ زہیر بن ابی سلمی

٩۔ زید بن عمرو بن نفیل عبد العزیٰ

١٠۔ سوید بن عامر مصطلقی

١١۔ سیف بن ذی یزن

١٢۔ عامر بن ضرب عدوانی

١٣۔ عبد الطا نجہ بن ثعلب بن وبرۃ بن قضاعہ

١٤۔ عبد اللہ قضاعی

١٥۔ عبد اللہ (رسول اکرم ؐ کے والد محترم )

١٦۔ عبد المطلب (رسول اکرم ؐ کے دادا )

١٧۔ عبید بن ابرص اسدی

١٨۔ علاف بن شہاب تمیمی

١٩۔ عمیر بن جندب جہنی

٢٠۔ کعب بن لو ئی بن غالب

٢١۔ ملتمس بن امیہ کنانی

٢٢۔ وکیع بن زہیر ایادی

٦/٣

دور جاہلیت کے اوصاف

قرآن

( یہ اس وقت کی بات ہے جب کفار نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسی ضد قرار دے لی تھی )

( کیا تم نے اسکو دیکھا ہے جو قیامت کو جھٹلاتا ہے ، وہی ہے جو یتیم کو جھڑکتا ہے ، اور کسی کو مسکین کے کھلانے کےلئے تیار نہیں کرتا ہے )

حدیث

١١٥٤۔ رسول خدا(ص): جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تعصب ہوگا، خدا اس کو روز قیامت زمانہ جاہلیت کے عربوں کے ساتھ محشور کریگا۔

١١٥٥۔ رسول خدا(ص): جو شخص پرچم گمراہی کے نیچے جنگ کرے اور تعصب کی بنا پر غضبناک ہو یا تعصب کی دعوت دے یا کسی عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیت پر ہوگا۔

١١٥٦۔ رسول خدا(ص): بیشک اللہ نے غرور جاہلیت اور انکے آباء و اجداد کے سبب تکبر کو دور کیا، تم سب کی نسبت آدم و حوا سے ایسی ہے جیسے ترازو کے دو پلڑے، بیشک تم میں سب سے زیادہ مکرم وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ، لہذا جو تمہارے پاس شادی کا پیغام لیکر آئے اگر تم اسکی دینداری و امانتداری سے راضی ہو تو اس کے ساتھ شادی کر دو۔

١١٥٧۔ امام باقر(ع): رسول خدا(ص) فتح مکہ کے روز منبر پر گئے اور فرمایا: اے لوگو! اللہ نے غرور جاہلیت اور آباء و اجداد پر تمہارے فخر کو تم سے دور کیا۔ یاد رکھو! تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے خلق ہوئے ہیں، آگاہ ہو جاؤ! خدا کے بندوں میں سب سے بہتر وہ بندہ ہے جو خدا کا خوف رکھتا ہے بیشک عرب ہونا، عرب باپ کی بنا پر نہیں ہے بلکہ عرب ہونا، ایک تکلم کی زبان ہے ، لہذا جس کا عمل کم ہوگا اس کا حسب و نسب اس کا جبران نہیںکریگا۔

١١٥٨۔ امام علی (ع): تمہارا فرض ہے کہ تمہارے دلوں میں جو عصبیت اور جاہلیت کے کینوں کی آگ بھڑک رہی ہے اسے بجھا دو کہ یہ غرور ایک مسلمان کے اندر شیطانی وسوسوں ، نخوتوں، فتنہ انگیزیوں اور فسوں کاریوں کا نتیجہ ہے ۔

١١٥٩۔ امام علی (ع): حسد اور کینہ سے پرہیز کرو! اس لئے کہ یہ جاہلیت کی خصلتیں ہیں:(اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ وہ یقینا تمہارے اعمال سے باخبر ہے ۔ )

١١٦٠۔ امام علی (ع): خدا را خدا سے ڈرو! تکبر کے غرور اور جاہلیت کے تفاخر کے سلسلہ میں کہ یہ عداوتوں کے پیدا ہونے کی جگہ اور شیطان کی فسوں کاری کی منزل ہے ، اسی کے ذریعہ اس نے گذشتہ قوموں اور اگلی نسلوں کو دھوکا دیا ہے ، یہاں تک کہ وہ لوگ جہالت کے اندھیروں اور ضلالت کے گڑھوں میں گر پڑے، وہ اپنے ہنکانے والے کے مکمل تابع اور کھیچنے والے کے سراپا اطاعت تھے، یہی وہ امر ہے جس میں قلوب سب ایک جیسے ہیں اور نسلیں اسی راہ پر چلتی رہی ہیں اور یہی وہ تکبر ہے جس کی پردہ پوشی سے سینے تنگ ہیں۔

آگاہ ہو جاؤ! اپنے ان بزرگوں اور سرداروں کی اطاعت سے محتاط رہو جنہوںنے اپنے حسب پر غرور کیااور اپنے نسب کی بنیاد پر اونچے بن گئے، بد نما چیزوں کو اللہ کے سر ڈال دیا اور اس کے حسنات کا صریحی انکار کر دیا ہے ، انہوںنے اس کے فیصلہ سے مقابلہ کیاہے اور اسکی نعمتوں پر غلبہ حاصل کر نا چاہا ہے ، یہی وہ لوگ ہیں جو عصبیت کی بنیاد ، فتنوں کے ستون اور جاہلیت کے غرور کی تلوار ہیں۔

١١٦١۔ امام علی (ع): تمہارے چھوٹوں کو چاہئے کہ اپنے بڑوں کی پیروی اور بڑوں کا فرض ہے کہ اپنے چھوٹوں پر مہربانی کریں، اور خبردار تم لوگ جاہلیت کے ان ظالموں جیسے نہ ہو جانا جو نہ دین کا علم حاصل کرتے تھے اور نہ اللہ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھے، انکی مثال ان انڈوں کے چھلکوں جیسی ہے جو شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہوںکہ انکا توڑنا تو جرم ہے لیکن پرورش کرنا بھی سوائے شر کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتاہے ۔

١١٦٢۔ محمد قصری: بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے زکات کے بارے میں سوال کیا: تو فرمایا ؑ : خدا نے جنکو زکات دینے کا حکم دیا ہے انہیں کے درمیان اسے تقسیم کرو لیکن قرضداروںکے حصہ سے ان قرضداروںکا قرض ادا نہیں کیا جاسکتا جو مہر کے مقروض ہیں اور نہ ہی ان افراد کا قرض ادا کیا جائیگا جو جاہلیت کی دعوت دیتے ہیں، میں نے عرض کیا!جاہلیت کی دعوت کیاہے؟فرمایا: وہ شخص جو یہ کہتا ہے : اے فلاں قبیلہ کی اولاد، پھران کے درمیان قتل و خونریزی برپا ہو جاتی ہے انہیںقرضداروںکے حصہ سے نہیں دیا جا سکتا؛ اسی طرح اس حصہ سے اس شخص کو بھی نہیں دیا جا سکتا جو لو گوں کے اموال میں لاپروائی برتتا ہے ۔

١١٦٣۔ جابر: مہاجرین و انصار کے دو غلاموں میں جھگڑا ہو گیا ، مہاجر کے غلام نے فریاد کی اے مہاجرین میری مدد کو آؤ! اور انصار کے غلام نے فریاد کی اے انصار مدد کو پہنچو! رسول خدا(ص) باہر تشریف لائے اور فرمایا: یہ اہل جاہلیت کا دعویٰ کیسا ہے؟ ان لوگوں نے کہا: اے رسول خدا(ص) یہ دعوائے جاہلیت نہیں صرف دو غلاموںنے آپس میں جھگڑا کیا ہے ایک نے دوسرے کو زمین پر پٹخ دیا ہے، رسولخد ؐ ا نے فرمایا: کوئی مضائقہ نہیں، ہر شخص کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی مدد کرے چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم، اگر ظالم ہے تو اسکو اسکے ظلم سے باز رکھے یہی اس کےلئے مدد ہے اور اگر مظلوم ہے تو اسکی مدد کرے۔

١١٦٤۔علی بن ابراہیم : رسولخدا ؐ کے اصحاب ، رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور اپنے حاجات کے پورے ہونے کےلئے خدا سے دعا کرنے کی درخواست کی۔ انکا تقاضا ایسی چیزوں کے سلسلہ میں تھا جو ان کےلئے حلال و مباح نہ تھا، پس خدا نے آیت نازل کی:وہ لوگ گناہ، ظلم اور رسول کی نافرمانی کے ساتھ راز کی باتیں کرتے ہیں۔اور جب وہ لوگ رسولخد ؐ اکے پاس آئے:انعم صباحا وانعم مساء اً کہا جو کہ اہل جاہلیت کا سلام تھا، تو خدا نے آیت نازل فرمائی:اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو اسطرح سلام کرتے ہیں کہ جسطرح خدا نے انہیں نہیں سکھایا ہے پھر رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا: خدا نے ہمارے لئے اسکے عوض میں اس سے بہتر قرار دیا ہے جو کہ اہل جنت کا سلام ہے اور وہ (سلام علیکم) ہے۔

٦/٤

جاہلیت کے جرائم

الف :بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا

قرآن

( اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے ، قوم سے منھ چھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے اب اس کو ذلت سمیت زندہ رکھے یا دفنا دے یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں )

( اور جب زندہ در گور بیٹیوں کے بارے میں سوال کیا جائیگا کہ انہیں کس گناہ میں مارا گیا ہے )

حدیث

١١٦٥۔ رسول خدا(ص) :خدا نے تمہارے لئے ماؤں کی نافرمانی ، بیٹیوں کو زندہ در گور کرنا اور حقوق و واجبات کی عدم ادائیگی کو حرام قرار دیا ہے ۔ وہ تم سے قیل و قال ، کثرت سوال اور مال کے ضائع کرنے کو ناپسند کرتا ہے ۔

١١٦٦۔امام صادق(ع): ایک شخص رسول خدا(ص) کی خدمت میں آیا اور کہا: میرے یہاں بیٹی پیدا ہوئی اور میں نے اسکی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئی پھر اسے لباس پہنایا، آراستہ کیا اور کنویں میں لے جاکر ڈال دیا۔ اسکی جو آخری آواز میں نے سنی وہ یہ تھی کہ اے ابا جان! (اے اللہ کے رسول )اس عمل کا کفارہ کیا ہے ؟ رسول خدا(ص)نے فرمایا کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ کہا: نہیں، فرمایا: ؐ کیا تمہاری خالہ زندہ ہے؟ کہا: ہاں، فرمایا: اس کے ساتھ نیکی کرو کہ خالہ ماں کی جگہ پر ہوتی ہے تمہارے گناہوں کا کفارہ ہو جائیگا۔

ابو خدیجہ کہتا ہے : میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا: یہ کس زمانہ میں پیش آیا تھا؟ فرمایا: جاہلیت میں ، وہ اپنی بیٹیوں کو اسیری کے خوف سے قتل کر دیتے تھے کہ کہیں اسیر ہوگئیں تو دوسری قوموں میں جاکر ان کے شکم سے بچے پیدا ہوں گے۔

ب: اولاد کشی

قرآن

( اور اسی طرح ان شریکوں نے بہت سے مشرکین کےلئے اولاد کے قتل کو بھی آراستہ کر دیا ہے تاکہ انکو تباہ و برباد اور ان پر دین کو مشتبہ کر دیں حالانکہ خدا اسکے خلاف چاہ لیتا تو یہ کچھ نہیں کر سکتے تھے لہذا آپ انکوانکی افتراء پردازی پر چھوڑ دیں اور پریشان نہ ہوں )

( یقینا وہ لوگ خسارہ میں ہیں جنہوںنے حماقت میں بغیر جانے بوجھے اپنی اولاد کو قتل کر دیا اور جو رزق خدا نے انہیں دیا تھا اسے اسی پر بہتان لگا کر اپنے اوپر حرام کر لیا یہ سب بہک گئے ہیں اور ہدایت یافتہ نہیںہیں )

( پیغمبر اگر ایمان لانے والی عورتیں آپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں بنائیں گی اور چوری نہیں کریں گی ، زنا نہیں کریں گی، اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھ پاؤں کے سامنے سے کوئی بہتان (لڑکا) لیکر نہیں آئیں گی، اور کسی نیکی میں آپکی مخالفت نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت لے لیںاور ان کے حق میں استغفار کریں کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے )

( اور خبردار اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرنا ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی بیشک ان کا قتل کر دینا بہت بڑا گناہ ہے )

ج: بد کرداری

( اور یہ کوئی برا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ نے یہی حکم دیا ہے ، آپ فرما دیجئے کہ خدا بری بات کا حکم نہیں دے سکتا کیا تم خدا کے خلاف وہ کہہ رہے ہو جو جانتے بھی نہیں ہو )

( کہدیجئے کہ ہمارے رب نے صرف بدکاریوں کو حرام کیا ہے چاہے وہ ظاہری ہو ں یا باطنی اور گناہ، ناحق ظلم اور بلا دلیل کسی چیز کو خدا کا شریک بنانے اور بلا جانے بوجھے کسی بات کو خدا کی طرف منسوب کرنے کو حرام قرار دیا ہے )

حدیث

١١٦٧۔ امام زین العاب دین (ع): جب ظاہری اور باطنی بدکرداریوں کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا: ظاہری بدکرداری ، باپ کی بیوی کے ساتھ نکاح ہے اور باطنی بدکرداری زنا ہے۔

١١٦٨۔ امام کاظم (ع): نے خدا کے اس قول:(کہدیجئے ہمارے رب نے ظاہری و باطنی بدکرداریوں، گناہ اور ناحق ظلم کو حرام قرار دیا ہے)کے بارے میں فرمایا: ظاہری بد کرداری یعنی کھلی زنا کاری اور پرچم کو نصب کرنا ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں فاحشہ عورتیں بدکرداری و زناکاری کےلئے (اپنے گھروں پر) پرچم نصب کرتی تھیں، اور باطنی بدکرداری یعنی باپ کی بیوی سے نکاح کرنا ہے اس لئے کہ بعثت نبی ؐ سے قبل جب کوئی شخص مر جاتا اور اس کے کوئی بیوی ہوتی تھی تو اس کا بیٹا اگر وہ ماں نہیںہوتی تھی تو اس کے ساتھ نکاح کر لیتا تھا،پس خدا نے اس کو حرام قرار دیا ۔

د: لڑکیوں کو بد کاری پر مجبور کرنا

قرآن

( اور خبردار اپنی کنیزوںکو اگر وہ پاکدامنی کی خواہش مند ہیں تو زنا پر مجبور نہ کرنا کہ ان سے زندگانی دنیا کا فائدہ حاصل کرنا چاہو کہ جو بھی انہیں مجبور کریگا خدا مجبوری کے بعد ان عورتوں کے حق میں بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے )

حدیث

١١٦٩۔ امام باقر(ع): عرب اور قریش کنیزوںکو خریدتے تھے اور ان کے لئے بہت زیادہ مالیت رکھتے تھے، اور کہتے تھے: جاؤ فاحشہ گیری کرو اور پیسے کماؤ؛ پس خدا نے انہیں اس کام سے منع فرمایا۔

ھ: شراب، جوا، بت اور پانسہ

قرآن

( ایمان والو! شراب، جوا، بت ،پانسہ یہ سب شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے بچو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو )

حدیث

١١٧٠۔امام باقر(ع): جب خدا نے رسول خدا(ص) پر نازل کیا:(ایمان والو! شراب میسر،(جوا)، انصاب (بت) اور ازلام (پانسہ) یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو )

تو پوچھا گیا: اے رسول خدا(ص)، میسر کیا ہے؟ فرمایا: ہر وہ چیز جس سے جوا کھیلا جائے حتی کہ نرو کے مہرے اور اخروٹ، پوچھا گیا: انصاب کیا ہے؟ فرمایا: وہ چیزیں جو اپنے معبود وں کےلئے ذبح کرتے ہیں، پھر پوچھا گیا: ازلام کیا ہے؟ فرمایا: وہ پانسہ ہے کہ جس کے ذریعہ تقسیم کرتے تھے۔

١١٧١۔ امام باقر(ع): نے خدا کے اس قول:(ایمان والو! شراب، جوا، بت اور پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کرسکو)کے بارے میں فرمایا:.......انصاب یہ ایسے بت تھے کہ جنکی مشرکین پرستش کرتے تھے اور ازلام ایسے پانسے ہیں کہ زمانہئ جاہلیت میں مشرکین عرب جنکے ذریعہ تقسیم کرتے تھے۔

و: خون مالی

١١٧٢۔اسماء بنت عمیس: (ولادت امام حسن (ع) کے متعلق بیان فرماتی ہیں) نبی اکرم ؐ نے امام حسن (ع) کی ولادت کے ساتویں روز دو سیاہ مینڈھوں سے عقیقہ کیا اور ایک ران اور ایک دینار دایہ کو دیا پھر ان کے سر کو مونڈا ور ان کے بال کے برابر سکہ صدقہ دیا، پھر سرکوخَلوق(ایک قسم کی خوشبو جس کا جزء اعظم زعفران ہوتا ہے) سے دھویا اور فرمایا: اے اسمائ! خون مالی کرنا جاہلیت کا عمل ہے ۔

١١٧٣۔ عاصم کوزی : کابیان ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے سنا ہے کہ وہ اپنے والد سے نقل کرتے تھے کہ رسول خدا(ص) نے امام حسن (ع) ور امام حسین (ع) کاایک ایک مینڈھے سے عقیقہ کیا، دایہ کو ہدیہ دیا اور ان کی ولادت کے ساتویں روز ان کے سروں کو مونڈا اور ان کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق ؑ سے عرض کیا: کیاعقیقہ کے خون سے بچہ کے سر پر مالش کی جا سکتی ہے؟ فرمایا: یہ شرک ہے۔ میں نے کہا: سبحان اللہ! شرک ہے ؟ فرمایا: اگر شرک نہیں ہے تو یقینا زمانہ جاہلیت کا عمل ہے اسلام میں اس سے روکا گیا ہے۔

ز: بد شگونی

١١٧٤۔ ابو حسان : ایک شخص نے عائشہ سے کہا کہ ابو ہریرہ ، پیغمبر اکرم ؐ سے روایت کرتا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: عورت، گھر اور چوپائے باعث بدشگونی ہیں ، عائشہ نہایت ناراض ہوئی گویا ان کا آدھا حصہ آسمان پر چلا گیا اور آدھا زمین پر باقی تھا، پھر کہا: بیشک دور جاہلیت کے افراد ان چیزوںکو بدشگونی سمجھتے تھے۔

١١٧٥۔ عائشہ: رسول خدا(ص) فرماتے تھے: جاہلیت کے افراد کہا کرتے تھے، تین چیزیں بدشگونی کا باعث ہےں، عورت، چوپایہ اور گھر، پھر یہ آیت پڑھی:(زمین میں کوئی بھی مصیبت وارد ہوتی ہے یا تمہارے نفس پر نازل ہوتی ہے تو نفس کے پیدا ہونے سے قبل وہ کتاب الٰہی میں مقدر ہو چکی ہے اور یہ خدا کےلئے بہت آسان ہے )

ح: جنات کی پناہ ڈھونڈنا

قرآن

( اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انہوںنے گرفتاری میں اور اضافہ کر دیا )

حدیث

١١٧٦۔ زرارہ: میں نے امام صادق(ع) سے اس آیت:(اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انہوںنے گرفتاری میں اور اضافہ کر دیا)کی تفسیر کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا: ایک شخص فال کھولنے اورتقدیر کا حال بتانے والے کے پاس گیا کہ شیطان جس سے کانا پھونسی کرتا تھا، اور اس سے کہا: اپنے شیطان سے کہو کہ فلاں نے تمہاری پناہ لی ہے ۔

ط:جنات کے لئے قربانی کرنا

١١٧٧۔ امام علی (ع): بیشک رسول خدا(ص) جنات کےلئے قربانی کرنے سے روکتے تھے ، پوچھا گیا : اے رسولخد ؐ ا: جنات کےلئے قربانی کیاہے ؟ نبی ؐ نے فرمایا: جو لوگ اپنے گھروں میں رہنے والے جنات سے ڈرتے تھے ان کےلئے قربانی کرتے تھے۔

ی: گھونگا پہننا

١١٧٨۔ قاضی نعمان: رسول خدا(ص) نے تمائم اور تَوَل سے منع کیا؛ ''تمائم'' ڈورے میں پروئے ہوئے گھونگے یا نوشتے جسے لوگ اپنے گلے میں آویزاں کرتے ہیں، اور ''تَوَل'' وہ کام ہے جسے عورتیں اپنے شوہروںکی نظر میں محبوب ہونے کےلئے انجام دیتی ہیں؛ جو فال بینی اور قسمت بینی کے مانند ہے نیز پیغمبر نے سحر سے روکا ہے۔

ک: میت پر عورتوںکا بین کرنا

١١٧٩۔رسول خدا(ص): مردوں پر عورتوں کا جمع ہو کر وا ویلا کرنا جاہلیت کا عمل ہے ۔

١١٨٠۔ رسول خدا(ص): جاہلیت کے رسم و رواج میں سے میت پر بین کرنا، انسان کا اپنے بیٹے سے بیزار ہونا اور لوگوںپر فخر کرنا ہے۔

١١٨١۔انس: رسول خدا(ص) نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت ان سے یہ بیعت لی کہ میت پر بین نہیں کرینگی عورتوںنے کہا: اے رسولخدا! دور جاہلیت میں کچھ عورتوں نے میت پر بین کرنے میں ہماری مدد کی تھی کیا ہم انکی مدد کر سکتے ہیں؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: اسلام میں یہ عمل شائستہ نہیں ہے۔

١١٨٢۔ رسول خدا(ص): نے اس آیت:(اور کسی نیکی میں ان کی مخالفت نہیں کریں گی)کی تفسیر میں فرمایا: جمع ہو کر رونے والی عورتیں مراد ہیں۔

ل: غیر خدا کی قسم کھانا

١١٨٣۔ زرارہ : کا بیان ہے کہ میںنے امام با ؑ قر سے اس آیت:(پس خدا کو اسطرح یاد رکھو جسطرح اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ)کی تفسیرکے بارے میں پوچھا تو فرمایا: اہل جاہلیت کا تکیہ کلام یہ تھا: نہیں، تمہارے باپ کی قسم، ہاں، تمہارے باپ کی قسم، پھر اسکے بعد انہیں یہ حکم دیا گیا کہ وہ کہیں: نہیں، خدا کی قسم، ہاں، خدا کی قسم۔

١١٨٤۔ امام صادق(ع): میںمناسب نہیں سمجھتا کہ غیر خدا کی قسم کھائی جائے، کسی کا یہ کہنا: نہیں، تمہارا برا چاہنے والا ایسا ہو جائے۔ اہل جاہلیت کاقول ہے، اگر کوئی شخص یہ یا ایسی ہی کوئی دوسری قسم کھائیگا تو وہ خدا کی قسم سے چشم پوشی کریگا۔ ٦/٥

اسلام کا جاہلیت کے رواج کو مٹا نا

١١٨٥۔ رسول خدا(ص): بیشک اللہ نے مجھے عالمین کےلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور اس لئے بھی تاکہ گانے بجانے کے آلات، بانسری، رواج جاہلیت اور بتوںکو نابود کروں۔

١١٨٦۔ رسول خدا(ص): خدا کے نزدیک مبغوض ترین انسان تین قسم کے ہیں: جو حرم میں بے دینی اختیار کرے ،جو اسلام میں جاہلیت کے رسم و رواج کے پیچھے جائے اور وہ جو کسی کا ناحق خون بہانے کے در پے ہو۔

١١٨٧۔ رسول خدا(ص): نے روز عرفہ کے خطبہ میں فرمایا: یاد رکھو! میں نے جاہلیت کی ہر رسم کو ترک کیا اور اپنے پیروں تلے کچلا ہے ۔ جاہلیت کے خون کا بدلہ بھی ترک کیا جائےگا۔ اور یقینا پہلا خون جسے ترک کرونگا وہ ابن ربیعہ بن حارث کا ہے۔ قبیلہ بنی سعد میں دوران رضاعت کو گذار رہا تھا اور قبیلہ ہذ یل نے اسے قتل کر دیا، اور جاہلیت کا سود بھی لغو ہے ، پہلا سود جو میں لغو کرونگا وہ عباس بن عبد المطلب کا ہے؛ بیشک یہ تمام چیزیںلغو ہیں۔

١١٨٨۔ ابو عبیدہ: جاہلیت میں یَشْکرُ کے نمایاں کاموںمیں سے یہ ہے: فتح مکہ کے روز رسول خدا(ص) نے خطبہ دیا اور فرمایا: آگاہ ہو جاؤ: میںنے سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور کعبہ کی پردہ پوشی کے جاہلیت کی ہر بزرگی کو اپنے پیروں سے کچلا ہے ۔ اس وقت اسود بن ربیعہ بن ابو الاسود بن مالک بن ربیعہ بن جمیل بن ثعلبہ بن عمرو بن عثمان بن حبیب بن یشکر کھڑا ہوا اور کہا: اے رسول خدا! یقینا میرے والد زمانہ جاہلیت میں اپنے اموال کو سفر میں بیچارہ ہوجانے والے کو صدقہ دیتے تھے ، اگر یہ میرے لئے بزرگی ہے تو اسے چھوڑ دوںاور اگر بزرگی و شرافت نہیںہے تو میں سزا وار ہوں کہ اس کو انجام دیتا رہوں؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: یہ تمہارے لئے باعث افتخار ہے لہذا تم اس کو قبول کرو۔

١١٨٩۔ علی بن ابراہیم : رسول خدا(ص) نے دس ہجری میں،حجۃ الوداع انجام دیا؛ سر زمین منا میں حمد و ثنائے الٰہی کے بعد جو ارشاد فرمایا تھا اس کا ایک ٹکڑا یہ ہے :

فرمایا...یاد رکھو! جاہلیت کی تمام خاندانی سر بلندیاںیا بدعت اور تمام خون و مال میرے پیروںکے نیچے ہیں ، کوئی شخص آپس میں ایک دوسرے پر تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت نہیں رکھتا، کیا میں نے پہنچادیا؟: انہوںنے کہا: ہاں! آپ ؐ نے فرمایا: خدایا: گواہ رہنا، پھر فرمایا: خبردار! تمام جاہلیت کے سود لغو ہیں؛ اور پہلا سود جو لغو ہوا وہ عباس بن عبد المطلب کا ہے ، آگاہ ہو کہ تمام جاہلیت کے خون کو لغو کر دیا گیا ہے پہلا خون جو لغو ہوا ہے وہ ربیعہ کا ہے کیا میںنے پہنچادیا؟ لوگوںنے کہا: ہاں، نبی نے فرمایا: خدایا! گواہ رہنا۔

١١٩٠۔ رسول خدا(ص): نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا: جاہلیت کا سودختم کر دیا گیا ہے اور پہلا سود جس سے میں آغاز کرتا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا ہے ، جاہلیت کا خون بھی معاف کر دیاگیا ہے، اور بیشک پہلا خون جس سے ابتدا کرتا ہوںوہ عامر بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا ہے، اور بیشک جاہلیت کے تمام افتخارات کو چھوڑ دیا گیا ہے سوائے کعبہ کی پردہ پوشی اورحاجیوں کو پانی پلانے کے، عمداً قتل کےلئے قصاص ہے اور قتلِ شبہ عمد جو کہ لاٹھی یا پتھر سے قتل ہو تو اس کےلئے سو اونٹ دیت ہے؛ جو اس میں اضافہ کریگا اسکا تعلق جاہلیت سے ہوگا۔

١١٩١۔ امام باقر(ع): فتح مکہ کے دن رسول خدا(ص) منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: اے لوگو! خدا نے تمہاری جاہلیت کے غرور اور آباو اجداد کی جاہلیت کے تفاخر کو دور کیا۔ آگاہ ہو کہ تم سب کے سب آدم سے اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔ دیکھو! سب سے بہتر خدا کا بندہ وہ شخص ہے جو خدا سے زیادہ ڈرے۔ بیشک عرب ہو نا اس باپ کے سبب نہیںہے جس نے تمہیں پیدا کیاہے؛ بلکہ یہ ایک زبان ہے جو بولی جاتی ہے ؛ جس کے عمل میں کو تاہی ہوگی اس کا حسب و نسب اس کا جبران نہیں کریگا۔ جان لو! تمام جاہلیت کے خون یا کینے قیامت تک میرے قدموں کے نیچے ہیں۔

١١٩٢۔ رسول خدا(ص): بیشک اللہ نے جو زمانہ جاہلیت میں با شرف تھے انہیں اسلام کے سبب پست کیا اور جو زمانہ جاہلیت میں پست تھے انہیں اسلام کے باعث شرف عطا کیا، جو دور جاہلیت میں رسوا تھے انہیں اسلام کے سبب عزت عطا کی۔ اور اسلام کے سبب زمانہ جاہلیت کی نخوتوں، قبیلوں کے فخر و مباہات اور اونچے حسب و نسب کو ختم کیا، چنانچہ اب تمام لوگ (کالے ، گورے، قرشی اور عربی و عجمی) آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو خدا نے مٹی سے خلق کیا ہے ۔ اور روز قیامت خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہوگا جو ان میںسب سے زیادہ اطاعت گذار اور سب سے بڑا متقی ہے۔

١١٩٣۔ امام صادق(ع): رسول خدا(ص) رسم جاہلیت کے بر خلاف( مشعر الحرام سے منا کی طرف) نکلے دور جاہلیت میں لوگ مشعر سے گھوڑے اور اونٹوںکے ساتھ تیزی سے نکلتے تھے، لیکن رسول خدا(ص)نہایت سکون و وقار کے ساتھ مشعر سے منا کی طرف چلے۔ لہذا تم بھی ذکر خدا اور استغفار کرتے ہوئے چلو اور اپنی زبان پہ ذکر خدا جاری رکھو، اور جب وادی مُحَسِّریہ جمع اور منا کے درمیان عظیم وادی ہے اور منا سے نزدیک ہے میں پہنچوتو وہاں سے تیزی سے گذر جاؤ۔

١١٩٤۔ امام باقر(ع): رسول خدا(ص) نے علی (ع) سے فرمایا:اے علی (ع)! بنی مصطلق کے طائفہ بنی خزیمہ کے پاس جاؤ اور انہیں ولید بن خالد کے کرتوت سے راضی کرو۔ آگاہ ہو کہ رسول خدا(ص) نے اپنے پیروںکواٹھایا اور فرمایا: اے علی (ع) ، اہل جاہلیت کے فیصلہ کو اپنے پیروںکو نیچے قرار دو۔ پھر علی (ع) ان کے پاس گئے اور حکم خدا کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کیا۔ جب پیغمبرکے پاس پلٹ کر آئے تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اے علی : مجھے بتاؤ تم نے کیاکیا ...

١١٩٥۔ امام باقر(ع): رسول خدا(ص) نے علی (ع) بن ابی طالب ؐ کو بلایا اور فرمایا: اے علی (ع)! اس قوم(بنی خزیمہ) کے پاس جاؤ اور ان کے حالات کا جائزہ لو، اور رسم جاہلیت کو اپنے پیروں کے نیچے قرار دو۔ لہذا علی (ع) نکلے اوران کی طرف روانہ ہوئے اور ان کے پاس رسول خدا(ص) کا بھیجا ہوا کچھ مال تھا، اس کے ذریعہ ان کے خون کی دیت اور تلف شدہ اموال یہاں تک کہ کتے کے پانی پینے کے کاسہ کا بھی خسارہ دیا۔

١١٩٦۔ امام زین العاب دین (ع) : بیشک اللہ نے اسلام کے سبب حقارت و پستی کو دور کیا اور اس کے ذریعہ کمی ونقص کوزائل کیا نیز اسکی بدولت کمینگی کو شرافت میں تبدیل کیا، لہذا مسلمان کے لئے کوئی پستی نہیںہے پستی اور حقارت صرف وہی ہے جو دوران جاہلیت تھی۔

١١٩٧۔ امام صادق(ع): اہل مصیبت کے سامنے کھانا اہل جاہلیت کی صفت ہے ۔ اسلامی سنت یہ ہے کہ اہل عزا و مصیبت کے لئے کھانا بھیجا جائے۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام ؐ نے جب جعفر بن ابی طالب کی خبر موت سنی تو حکم دیا کہ ان کے گھر والوںکے لئے کھانا پہنچایا جائے۔

٦/٦

اچھی سنن کی تائید

١١٩٨۔ رسول خدا(ص): نے معاذ بن جبل کو یمن روانہ کرتے وقت انہیں وصیت کی کہ رسم جاہلیت کو پامال کر دینا سوائے ان رسم و رواج کے کہ جنکی اسلام نے حمایت کی ہے اور اسلام کے تمام چھوٹے بڑے امور کو ظاہر کرنا۔

١١٩٩۔رسول خدا(ص): نے معاذ بن جبل کو یمن روانہ کرتے وقت انہیں وصیت کی کہ: عاداتِ جاہلیت کا خاتمہ کرنا مگر یہ کہ جو نیک ہوں۔

١٢٠٠۔ رسول خدا(ص): بیشک عبد المطلب نے زمانہ جاہلیت میں پانچ سنتیں جاری کی تھیں، جنہیں خدا عز و جل نے اسلام میں جاری و ساری رکھا: باپ کی بیویوں کو اولاد پر حرام کیا تھا، خدا نے آیت نازل کی:(اپنے باپ کی بیویوں کے ساتھ نکاح نہ کرو )

جب کوئی خزانہ پاتے تھے تو اس میں سے خمس نکالتے اور صدقہ دیتے تھے خدا نے آیت نازل کی( آگاہ ہو جاؤ کہ جو چیز تمہیں غنیمت میں ملے اسکا خمس خدا و رسول کے لئے ہے اور.....تا آخر)جب زمزم کنویںکو کھودا تو اس کا نام ''سقایۃ الحاج'' رکھا ، خدا نے آیت نازل کی( کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادی کو اس جیسا سمجھ لیا ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے ....تا آخر) قتل پر سو اونٹوں کی دیت قرار دی تھی، خدا نے اسلام میں اسے بھی جاری رکھا، اور قریش طواف کے لئے خاص عدد کے قائل نہ تھے مگر عبد المطلب نے سات چکر قرار دئےے تھے، اور خدا نے اسلام میں اس کو جاری و ساری رکھا۔

١٢٠١۔ رسول خدا(ص): اسلام میں کوئی عہد و پیمان نہیںہے جو عہد و پیمان زمانہ جاہلیت میں تھا خدا نے اسی کو محکم کیا ہے ۔

١٢٠٢۔عمرو بن شعیب: اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ؐ ، فتح مکہ کے سال کعبہ کے زینے پر بیٹھے ہوئے تھے، پس خدا کی حمد و ثنا کی اور فرمایا: جس کا بھی زمانہ جاہلیت میںکوئی عہد و پیمان تھا اسلام نے اس کو مزید محکم کیا ہے ۔

١٢٠٣۔ جوحصہ بھی زمانہ جاہلیت میں تقسیم ہوا وہ اسی تقسیم پر باقی ہے، اور جو حصہ بھی اسلام نے درک کیا ہے پس وہ اسلام کا حصہ ہوگا۔

١٢٠٤۔ رسول خدا(ص): ہر گھر اور زمین جو جاہلیت میں تقسیم ہوئی وہ اسی جاہلیت کی تقسیم پر ہے اور ہر وہ گھر اور زمین جسے اسلام نے درک کیا ہے لیکن تقسیم نہیں ہوئی تھی وہ اسلام کے حکم پر تقسیم ہوگی۔

١٢٠٥۔ رسول خدا(ص): ہر وہ میراث جو جاہلیت میں تقسیم ہوئی تھی وہ اسی تقسیم پر باقی ہے۔ اور ہر وہ میراث جسے اسلام نے درک کیا وہ اسلام کی رو سے تقسیم ہوگی۔

١٢٠٦۔ ابن عباس:جاہلیت کا جماعتی حلف لوگوں کے درمیان رکاوٹ تھا اور جو بھی قسم صبر کھاتا تھا- یعنی کسی کو اس لئے قید کرتا تاکہ وہ قسم کھائے- ان گناہوں کے سبب کہ جو اس نے انجام دیئے تھے تاکہ اسے خدائی عذاب دکھاکر محارم کو کچلنے سے باز رکھیں، لہذا قسم صبر سے اجتناب کرتے اور اس سے ڈرتے تھے پس جب خدا نے حضرت محمد(ص) کو مبعوث کیاتو اس قسم کو بر قرار رکھا۔

١٢٠٧۔ فُضیل بن عیاض : کا بیان ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے کہا: جاہلیت کے رسم و رواج میں سے کیا کوئی چیز محترم بھی ہے؟ فرمایا: اہل جاہلیت نے ہر وہ چیز جو دین ابراہیم سے تھی اسے تباہ و برباد کر دیا، سوائے ختنہ کرنے اور شادی و حج کے ۔ وہ لوگ ان تین کے پابند رہے اور انہیں ضائع نہیں کیا۔

١٢٠٨۔ عبد اللہ بن عمر:عمر نے رسول خدا سے عرض کیا: اے رسول خدا! زمانہ جاہلیت میں میں نے نذر کیا تھا کہ ایک شب مسجد الرام میں اعتکاف کرونگا، رسول خدا(ص) نے فرمایا: تم اپنی نذر کو پورا کرو۔

١٢٠٩۔ رسول خدا(ص): یاد رکھو! رجب اللہ کا اَصَمّ (بھاری)مہینہ ہے جو نہایت عظیم ہے ۔ رجب کے مہینہ کو ''اصم'' اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ کوئی بھی مہینہ خدا کے نزدیک احترام و فضیلت میں اس کے برابر نہیںہے زمانہ جاہلیت کے افراد اس مہینے کو عظیم سمجھتے تھے اور اسلام کے بعد اسکی عظمت و فضیلت دو بالا ہو گئی۔

١٢١٠۔ مجاہد: سائب بن عبد اللہ نے کہا: فتح مکہ کے روز مجھے پیغمبر اسلام ؐ کی خدمت میں لایا گیا۔ عثمان بن عفان اور زبیر مجھ کو لے آئے تھے ، انہوںنے سائب کی تعریف کی تو پیغمبر ؐ نے ان سے فرمایا: اسکے بارے میں مجھے اطلاع نہ دو، وہ دور جاہلیت میں میرا ہمنشین تھا۔ سائب نے کہا: ہاں ، اے رسولخدا! آپ بہت اچھے ہمنشیں تھے، تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اے سائب! زمانہ جاہلیت میں جو تمہارے عادات و اطوار تھے ان پر نظر کرو اور انہیں اسلام میں محفوظ رکھو، مہمانوں کو کھانا کھلاؤ، یتیموں کا احترام کرو اور پڑوسی کے ساتھ نیکی کرو۔

١٢١١۔ زرارہ: میں نے امام باقر(ع)کی خدمت میں عرض کیا: لوگ نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: زمانہ جاہلیت میںجو تم میں سے زیادہ شریف تھا وہ تم میں اسلام میں بھی زیادہ شریف ہے ؛ امام ؑ نے فرمایا: وہ سچ کہتے ہیں، لیکن نہ اس طرح کہ جیسا کہ وہ گمان کرتے ہیں؛ دور جاہلیت میںسب سے زیادہ باشرف وہ انسان ہے جو ان میں بیشتر سخی، سب سے زیادہ خوش اخلاق اور پڑوسیوںکے ساتھ سب سے زیادہ نیکی کرنے والا اور سب سے کم اذیت پہنچانے والا ہے ۔ انہوںنے جب اسلام قبول کیا تو ان کی خوبیاں دو بالا ہو گئیں۔

١٢١٢۔ علقمہ بن یزید بن سوید ازدی : کا بیان ہے کہ سوید بن حارث نے کہا: میں اپنے قبیلہ کی ساتویں فرد تھا کہ رسول خدا(ص) کی خدمت میں وارد ہوا، رسول خدا(ص): میرے طور طریقہ سے خوش ہوئے اور فرمایا: تم لوگ کیسے ہو؟ ہم نے کہا: ہم مومن ہیں، رسول خد ؐ ا مسکرائے اور فرمایا: ہر قول کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ سوید کہتاہے کہ ہم نے کہا: پندرہ خصلتیں ہیں، پانچ خصلتوں کا آپ کے نمائندوں نے حکم دیا کہ ہم ان پر ایمان لے آئے، اور پانچ خصلتوں کے متعلق حکم دیا کہ ہم ان پر عمل کریں اور پانچ خصلتیں زمانہ جاہلیت میں ہمارے اندر تھیں اب بھی ہم ان پر عمل پیرا ہیں مگر یہ کہ آپ ان میں جس کو ناپسند کریں۔

رسول خدا ؐ نے فرمایا: وہ پانچ خصلتیں کیا ہیں جن پر ایمان لانے کامیرے نمائندوں نے تمہیں حکم دیا ہے؟ ہم نے کہا: یہ کہ ہم خدا پر، اس کے فرشتوں پر، اسکی کتابوںپر، اس کے انبیاء اور مرنے کے بعد زندہ ہونے پر ایمان لے آئےں۔

فرمایا ؐ : پانچ خصلتیں جن پر عمل کرنے کا میرے نمائندوں نے تمہیں حکم دیا ہے؟ ہم نے کہا: لا الٰہ الا اللہ و محمد رسول اللہ؛ ہم نمازقائم کریں ، زکات ادا کریں ، حج خانہ خدا بجالائیں، اور ماہ رمضان کا روزہ رکھیں ؛ اور فرمایا: ؐ وہ پانچ خصلتیں کہ زمانہ جاہلیت میں جن کے عادی ہو چکے تھے وہ کیا ہیں؟ ہم نے کہا: عیش و آرام پر شکر، مصیبت پر صبر، دشمن سے مقابلہ کے وقت صبر (ثابت قدمی)، راضی بقضائے الٰہی اور دشمنوں کی ملامت و سرزنش کے وقت صبر۔ تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: قریب تھا کہ بردبار علماء اپنی صداقت کی بناپر انبیاء ہو جائیں۔

          ساتویں فصل دوسری جاہلیت

٧/١

پیچھے کی طرف پلٹنا

قرآن

( اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں توتم الٹے پیروں پلٹ جاؤگے تو جو بھی ایسا کریگا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیںکریگا اور خدا تو عنقریب شکر گذاروںکو ان کی جزا دیگا )

حدیث

١٢١٣۔ امام باقر(ع): نے اس آیت:(اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگارنہ کرو)کی تفسیر کے سلسلہ میں فرمایا: عنقریب دوسری جاہیت آنے والی ہے۔

١٢١٤۔ رسول خدا(ص): میں دو جاہلیتوں کے درمیان مبعوث ہوا ہوں، دوسری جاہلیت پہلی سے بدتر ہے ۔

١٢١٥۔ رسول خدا(ص): قیامت برپا نہیں ہوگی جب تک کہ علم محدود نہ ہو جائے۔

١٢١٦۔ رسول خدا(ص): آثار قیامت میں سے علم کا کم ہونا اور جہالت کا آشکار ہونا ہے ۔

١٢١٧۔ رسول خدا(ص): قیامت کی نشانیوں میں سے علم کا اٹھ جانا اور جہالت کاراسخ ہونا ہے ۔

١٢١٨۔ رسول خدا(ص): بیشک قیامت سے قبل کچھ ایسے دن آئیں گے جن میں جہالت پھیلیگی اور علم اٹھا لیا جائیگا۔

١٢١٩۔ امام علی (ع): یا درکھو! تم نے اپنے ہاتھوں کو اطاعت کے بندھنوں سے جھاڑ لیا ہے اور اللہ کی طرف سے اپنے گرد کھنچے ہوئے حصار میں جاہلیت کے احکام کی بنا پر رخنہ پیدا کر دیا ہے ۔ اللہ نے اس امت کے اجتماع پر یہ احسان کیا ہے کہ انہیں الفت کی ایسی بندشوں میں گرفتار کر دیا ہے کہ اسی کے زیر سایہ سفر کرتے ہیں اور اسی کے پہلو میں پناہ لیتے ہیں اور یہ وہ نعمت ہیں جس کی قدر و قیمت کو کوئی بھی نہیںسمجھ سکتا ہے اس لئے کہ ہر قیمت سے بڑی قیمت اور شرف و کرامت سے بالاتر کرامت ہے ، اور یاد رکھو! کہ تم ہجرت کے بعد پھر صحرائی بدو ہو گئے ہو اور باہمی دوستی کے بعد پھر گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہو، تمہارا اسلام سے رابطہ صرف نام کارہ گیا ہے اور تم ایمان میں سے صرف علامتوں کو پہچانتے ہو۔

٧/٢

جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب

الف: امام کی عدم معرفت

١٢٢٠۔ رسول خدا(ص): جو شخص امام کے بغیر مرا اسکی موت جاہلیت کی موت ہے۔

١٢٢١۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جو مر جائے اور اس کے اوپر کوئی امام نہ ہو اسکی موت، جاہلیت کی موت ہے۔

١٢٢٢۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جو مر جائے اور اپنے امام کو نہ پہچانتا ہو اسکی موت ،جاہلیت کی موت ہے۔

١٢٢٣۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو اس عالم میں موت آئے کہ اسکی گردن پر کسی(امام )کی بیعت نہ ہو اسکی موت جہالت کی موت ہے۔

١٢٢٤۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو اس حالت میں موت آئے کہ میری اولاد میں سے اس کا کوئی امام نہ ہو اسکی موت جاہلیت کی موت ہے اور جو کچھ جاہلیت اور دوران اسلام کیا ہے اس کا اس سے مؤاخذہ کیا جائیگا۔

١٢٢٥۔ امام علی (ع): مسلمان کو اس شخص کے حکم پرجہاد کے لئے نہیں نکلنا چاہئے کہ جو امانتدار نہیںہے اور مصرف فی ئ(عمومی اموال) میں حکم خدا کو نافذ نہیں کرتا، ورنہ اگر اس راہ میں مرگیاتوہمارے حقوق کو تلف کرنے اور ہمارے خون کو بہانے میں ہمارے دشمنوںکا مددگار ہوگا، اور اسکی موت، جاہلیت کی موت ہوگی۔

ب: نشہ آور اشیاء کا استعمال

١٢٢٦۔رسول خدا(ص): کوئی ایسا نہیںہے کہ جو شراب پئے اور خدا اسکی نماز چالیس روز تک قبول کرے، اگر وہ مر جائے اور اس کے مثانہ میں شراب کے آثار باقی ہوں تو جنت اس پر حرام ہوگی، اور اگر ان چالیس دنوں میںمر یگا تووہ جاہلیت کی موت مریگا۔

١٢٢٧۔ رسول خدا(ص): شراب بدکردار ی اور گناہ کبیرہ کا سرچشمہ ہے ۔

١٢٢٨۔ رسول خدا(ص): شراب، تمام گناہوں کو جمع کرنے والی ، خباثتوں کا سرچشمہ اور برائیوںکی کنجی ہے۔

١٢٢٩۔ رسول خدا(ص) :شراب خور، بت پرست کے مانند خدا سے ملاقات کریگا۔

١٢٣٠۔ رسول خدا(ص):شراب خور، بت پرست کے مانند ہے نیز شراب خور، لات و عزّٰی کی پرستش کرنے والے کے مانند ہے ۔

١٢٣١۔ رسول خدا(ص): جو شخص شب میں شراب پیتا ہے وہ صبح کو مشرک ہوتا ہے، اور جو صبح کو شراب پیتا ہے وہ شام تک مشرک ہوتا ہے۔

١٢٣٢۔ ابو ال حسن (ع): شراب خور کافر ہے ۔

١٢٣٣۔ امام صادق(ع): جو شراب پیتا ہے وہ اپنی عقل کو کھو دیتا اور روح ایمان اس سے نکل جاتی ہے ۔

جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب کی تحقیق

قرآن کریم اور احادیث میں عہد بعثت رسول ؐ کوعقل و علم کی حاکمیت کا زمانہ اورآپکی بعثت سے پہلے والے زمانہ کو عہد جاہلیت سے تعبیر کیا گیا ہے ، اسکی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آنحضرت کی بعثت سے قبل آسمانی ادیان کی تحریف کے سبب لوگوںکے لئے حقائق ہستی کی معرفت اور صحیح زندگی گذارنے کا کوئی صحیح طریقہ نہیںتھا، اور وہ چیز جو دین کے نام پر لوگوں کی گردنوںپر ڈالی جارہی تھی اس میںتوہمات و خرافات کی آمیزش تھی ، تحریف شدہ ادیان کو مفاد پرست، موقع کو غنیمت سمجھنے والے، اور عوام سے جھوٹی ہمدردی کا اظہارکرنے والے افراد نے جو کہ ان کے دکھ درد کو محسوس نہیںکرتے تھے، اپنی حکومت اور منفعت کا وسیلہ قرار دے رکھا تھا۔

رسول خدا(ص) کی بعثت،دورِعلم کا آغاز تھا اور ان کی اہمترین ذمہ داری لوگوںکے لئے حقائق کو روشن کرنا اور انہیں صحیح زندگی کے اسلوب سے روشناس کرنا تھا، اورگذشتہ ادیان کی تحریف اور معاشرہ میں دین کے نام پر جو بدعتیں و خرافات ایحاد کی جا رہی تھیں ان کے مقابل میں نبرد آزما ہونے کا درس دینا تھا۔ رسول خدا خود کو لوگوں کے لئے مہربان و شفیق باپ اور ہمدرد معلم سمجھتے تھے اور فرماتے تھے۔

( أنالکم مثل الوالد أعلمکم )

یقینا میں تمہارے لئے باپ کے مثل ہوں ، تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔

نبی اکرم ؐ خدا وند متعال کی جانب سے لوگوں کی صحیح زندگی کے طور طریقہ کو منظم کرنے کے لئے جو نبوت اور ضابطہ لیکر آئے تھے وہ عقلی میزان اور علمی معیار کے مطابق تھا کہ اگر علماء و دانشور اس کے حقائق کی چھان بین کریں تو مبدأ ہستی سے اس کے ارتباط کی صداقت ان کے لئے روز روشن کی طرح واضح ہو جائیگی :

( و یر ی الذین اوتوا العلم الذی انزل الیک من ربک ھو الحق و یھدی الیٰ صراط العزیز الحمید )

'' اور جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ آپ پر آپ کے پرروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ بالکل حق ہے اور خدا ئے غالب و قابل حمد و ثنا کی طرف ہدایت کرنے والا ''

اس بنیاد پرآنحضرت لوگوںکو ان چیزوں کی پیروی سے شدت سے روکتے تھے کہ جن کے بارے میں وہ نہیں جاتے تھے ، اور ان کے سامنے اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے :

( ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع و البصر و الفؤاد کل اولٰئک کان عنہ مسؤلا )

'' اور جس چیز کا تمہیں علم نہیںہے اس کے پیچھے مت جانا کہ روز قیامت سماعت، بصارت اور قوت قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائیگا ''

قرآن کی تنبیہہ

قرآن نے اسلام کے علمی و ثقافتی پیغامات کے تحفظ و دوام کی تاکیدہے اور مسلمانوں کو جوتنبیہہ کی ہے اس کے ذریعہ انہیں آگاہ کیا ہے کہ کہیں پیغمبر اکرم ؐ کے بعد عہد جاہلیت کی طرف نہ پلٹ جائیں، جیسا کہ ارشاد ہے :

( وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل أفان مات او قتل انقلبتم علیٰ اعقابکم )

'' اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں کہ اگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم الٹے پیروں پلٹ جاؤ گے''۔

یہ اور سورئہ احزاب کی ٣٣ ویںآیت(ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ)''اور وہ پہلی جاہلیت کا بناؤ سنگار نہیں کرینگی۔'' امام محمد باقر -کی تفسیر کے مطابق اس بات کو سمجھا رہی ہے کہ:(لیکون جاہلیۃ اخریٰ) عنقریب دوسری جاہلیت آنے والی ہے ۔

تاریخ اسلام میں جہل کی طرف پلٹنے کا ارشاد موجود ہے: یہاں تک کہ خود آنحضرت نے اس کے متعلق فرمایا ہے :

( بعثت بین جاھلیتین؛ لا خراھما شر من اولاھما )

میں دو جاہلیتوں کے درمیان مبعوث ہوا ہوں، دوسری جاہلیت پہلی سے بدتر ہے۔

پلٹنے کے اسباب

اہمترین مسئلہ، جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب کی شناخت ہے جس کو قرآن نے پیچھے کی طرف پلٹنے سے تعبیر کیا ہے۔ مجموعی طور پر پلٹنے کے اسباب کو دو حصوںمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ فردی اور اجتماعی۔

الف: فردی اسباب

ہر وہ چیز جو کتاب ''علم و حکمت، قرآن و حدیث کی روشنی میں'' کے عنوان ''موانع علم و حکمت'' اور اسی کتاب میںعنوان'' آفات عقل''کے تحت ذکر ہو چکی ہے ، وہ معاشرہ کے افراد کے پہلی جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب میں شمار ہوتی ہے اور پیغمبر نے ان موانع سے مقابلہ کرنے کے لئے حد بندی کی تھی ، اور یہ عقلی آفات و موانع جس مقدار میں بھی کسی شخص میں موجود ہوںگے اسے اتنا ہی جاہلیت کی سرحد سے قریب تر کریں گے ، لیکن پلٹنے کے تمام فردی اسباب میں سے شراب خوری سے متعلق روایات کی طرف نہایت توجہ دی گئی ہے ، اور اس چیز کا سبب بعد کی روایات میں بیان ہوا ہے کہ شراب تمام برائیوں ، بدکرداریوں اور تمام خباثتوں کی کنجی ہے ، در حقیقت نشہ آور اشیاء اور عقل کو زائل کرنے والی چیزوںکی عادت ڈالنا انواع و اقسام کے موانع معرفت کی زمین کو ہموار کرتا ہے ،ا ور انسان کے لئے جاہلیت کے عقائد، اخلاق اور اعمال میں مبتلا ہونے کے باعث ہوتا ہے۔

ب: اجتماعی اسباب

جاہلیت کی طرف الٹے پاؤں پلٹنے کے اجتماعی اسباب و علل وہ آفات ہیں کہ جو اسلامی نظام کےلئے خطرہ بنے ہوئے ہیںاور ان میں نہایت واضح وہ اختلاف ہے کہ جسکے بارے میں پیغمبر فرماتے ہیں :

( ما اختلفت امۃ بعد نبیھا الا ظھر اھل باطلھا علٰی اھل حقھا )

کسی نبی کی امت نے اس کے بعد اختلاف نہیں کیا مگر یہ کہ اہل باطل اہل حق پر کامیاب ہو گئے۔

اور جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب و عوامل میں سے سب سے زیادہ خطرناک گمراہ اماموںکی قیادت تھی جیسا کہ رسول خدا(ص) کا ارشاد گرامی ہے :

( ان اخوف ما اخاف علی امتی الائمۃ المضلون )

سب سے زیادہ خوف جو مجھے اپنی امت کے بارے میں ہے وہ گمراہ کرنے والے پیشواؤں سے ہے۔

حدیث میں ہے کہ عمر بن خطاب نے کعب سے پوچھا :

انی اسئلک عن امر فلا تکتمنی،قال: لا واللہ لا اکتمک شیأا اعلمہ ؛ قال : ما اخوف شیء تخافہ علیٰ امۃ محمد ؐ ؟ قال: ائمۃ مضلین ۔ قال عمر: صدقت قد اسرّ الیّ ذالک و اعلمنیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

میں تم سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتاہوں ، تم اسے چھپا نا نہیں ، کعب نے کہا: خدا کی قسم ، جو کچھ میں جانتا ہوں اسے آپ سے نہیں چھپاؤنگا، عمر نے کہا: امت پیغمبر کے سلسلے میں سب سے زیادہ کس چیز سے ڈرتے ہو؟ کعب نے کہا: گمراہ کرنے والے پیشواؤں سے ، عمر نے کہا: سچ کہتے ہو، رسول خدا(ص) نے مجھ سے مخفیانہ طور پر فرمایا تھا۔

گمراہ پیشواؤں سے اسلام کو عظیم خطرہ لاحق تھا اور یہ مسلمانوں کوعصر جاہلیت کی طرف پلٹانے میں اس قدر مؤثر تھے کہ رسول خدا نے مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ اور معتبر حدیث میں فرمایا :

'' من مات بغیر امام ، مات میتۃ جاھلیۃ ''

جو امام کے بغیر مرا اسکی موت جاہلیت کی ہوگی، اس کے معنی یہ ہیں کہ ائمہ عدل و حق کا وجود عصر علم کے دوام یعنی اسلام حقیقی کی بقا کا ضامن ہے ، اور اس قیادت و رہبری کے نہ ہونے کی صورت میں اسلامی معاشرہ دو بارہ پہلی جاہلیت کی طرف پلٹ جائیگا۔

یہ تلخ حقیقت تاریخ اسلام میں رونما ہوئی جس کے سبب آج نہ فقط اسلامی معاشرے بلکہ پورا عالم علوم تجربی میں تعجب خیز تر قیوں کے باجود دوسری جاہلیت سے دو چار ہے ۔

رسول خدا(ص) نے دنیا کے تمام انسانوں کو یہ خوشخبری دی کہ اس عہد کی بھی ایک انتہا ہے اور یہ اس وقت ہوگا، جب ان کی نسل کا چشم و چراغ ، مہدی آل ؐ محمد ظہور کریگا، اور جب وہ آئیگا تو اسکی ہدایت و رہبری کے سبب دنیا کی جاہلیت کا قصہ تمام ہوگا، بدعات و خرافات کا قلع قمع ہوگا، عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا، فساد و تباہی کا خاتمہ ہوگا، دنیا کے چپہ چپہ پر حقیقی علم ضوفشاں ہوگا، اس کتاب کی آٹھویں فصل کو ہم نے ان ہی بشارتوں سے مخصوص کیاہے ۔ دعا ہے کہ ایران میں حیات اسلام کی تجدید اس بشارت کا پیش خیمہ ہو۔

آٹھویں فصل جاہلیت کا خاتمہ

١٢٣٤۔ رسول خدا(ص): نے ائمہ ٪کے سلسلہ میںفرمایا: ان کا نواں قائم ہے کہ خدا جس کے وسیلہ سے زمین کو ظلمت و تاریکی کے بعد نور سے ، ظلم و جور کے بعد عدل و انصاف سے۔ جہل و نادانی کے بعد علم سے بھر دیگا۔

١٢٣٥۔ امام علی (ع):نے پیشینگوئیوں اور فتنوں کے ذکر کے بعد فرمایا: ایسا ہی ہوگا، یہاں تک کہ زمانہ کی سختیوں اور لوگوں کی نادانیوں کے وقت خدا آخری زمانہ میں ایک ایسے شخص کو بھیجے گا کہ جس کی حمایت اپنے فرشتوںکے ذریعہ کریگا، اس کے یاورو انصار کو محفوظ رکھے گا، اپنی آیات سے اسکی مدد کریگا، اور اسے تمام اہل زمین پر کامیابی عطا کریگا تاکہ لوگ بادل خواستہ یا بادل نخواستہ دیندار ہو جائیں۔ اور وہ زمین کو انصاف و علم اور نورو برہان سے بھردیگا ، زمین اپنی تمام وسعتوں( عرض و طول) کے ساتھ اسکی فرمانبردار ہوگی، کوئی کافر نہ ہوگا مگر یہ کہ ایمان لے آئے کوئی بدکردار نہ ہوگا مگر یہ کہ صالح و نیک ہو جائے۔ درندے اسکی حکومت میں مہربان ہوں گے۔ زمین اپنی روئیدگی کو آشکار کریگی، آسمان اپنی بر کتیں نازل کریگا، خزانے اس کے لئے ظاہر ہوں گے ، اور وہ چالیس سال زمین و آسمان کے درمیان حکومت کریگا، خوشابحال وہ شخص جو اس کے زمانے کو دیکھے گا اور اس کے کلام کو سنے گا۔

١٢٣٦۔ امام علی (ع): نے اس خطبہ میں جس میں زمانہ کے حوادث اور پیشینگوئیوںکی طرف اشارہ کیا ہے فرمایا: ان لوگوں نے گمراہی کے راستوں پر چلنے اور ہدایت کے راستوںکو چھوڑ نے کے لئے داہنے بائیں راستے اختیار کر لئے ہیںمگر تم اس امر میں جلدی نہ کرو جو بہر حال ہونے والا ہے اور جس کا انتظام کیا جا رہا ہے اور اسے دور نہ سمجھو جو کل آنے والا ہے کہ کتنے ہی جلدی کے طلبگار جب مقصد کو پالیتے ہیں تو سوچتے ہیںکاش اسے حاصل نہ کرتے۔ آج کادن کل کے سویرے سے کس قدر قریب ہے ۔ لوگو! یہ ہر وعدہ کے ورود اور ہراس چیز کے ظہور کی قربت کا وقت ہے جسے تم نہیں ۔ پہچانتے ہو۔ لہذا جو شخص بھی ان حالات تک باقی رہ جائے اس کا فرض ہے کہ روشن چراغ کے سہارے قدم آگے بڑھائے اور صالحین کے نقش قدم پر چلے تاکہ ہر گرہ کو کھول سکے اور ہر غلامی سے آزادی حاصل کر سکے ، ہرگروہ کوبوقت ضرورت منتشر کر سکے اور ہر انتشار کو جمع کر سکے اور لوگوں سے یوں مخفی رہے کہ قیافہ شناس بھی اس کے نقش قدم کو تاحد نظر نہ پاسکیں۔ اس کے بعد ایک قوم پر اس طرح صیقل کی جائیگی کہ جس طرح لوہار تلوار کی دھار پر صیقل کرتا ہے ۔ ان لوگوںکی آنکھوں کو قرآن کے ذریعہ روشن کیا جائیگا، اور ان کے کانوں میں تفسیر کو مسلسل پہنچایا جائیگا اور انہیں صبح و شام حکمت کے جاموں سے سیراب کیا جائیگا !

١٢٣٧۔ امام باقر(ع): جب ہمارا قائم ، قیام کریگا تو خدااپنے ہاتھ کو بندوںکے سروں پر رکھیگا جس کے سبب ان کی عقلیں اکٹھا ہو جائیں گی اور ان کی خرد کامل ہو جائے گی۔

١٢٣٨۔ فضیل بن یسار: کا بیان ہے کہ میں نے امام صادق(ع) کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب ہمارا قائم ، قیام کریگا اس کو لوگوں کی جہالت کا سامنا اس سے زیادہ کرنا ہوگا کہ جتنا رسول کو جاہلیت کے جاہلوں کا سامنا کرناپڑا تھا۔ میںنے کہا: وہ کس طرح؟ فرمایا ؑ : بیشک رسول خدا(ص) جب لوگوںکے درمیان تشریف لائے تھے۔

اس وقت وہ لوگ پتھروں، چٹانوں اور تراشی ہوئی لکڑیوں کی پرستش کرتے تھے، لیکن جب ہمارا قائم قیام کریگا اور ان کے پاس آئیگا تو وہ سب کے سب کتاب خدا کی تاویل کریں گے اور اسی کے ذریعہ ان پر احتجاج کریں گے ، پھر فرمایا: لیکن خدا کی قسم، وہ اپنے عدل و انصاف کو ان کے گھروں میں اس طرح داخل کریگا کہ جس طرح ان کے گھروں میں سردی و گرمی داخل ہوتی ہے ۔

١٢٣٩۔ امام صادق(ع): علم ستائیس (٢٧) حروف کے مجموعہ کا نام ہے ۔ وہ تمام علوم جو انبیاء لیکر آئے وہ فقط دو حرف تھے اور لوگ اب تک ان دو حرف کے سوا اور کچھ نہیں جانتے ، لیکن جب قائم قیام کریگا تو دوسرے پچیس حروف کو ظاہر کریگا اور لوگوں کے درمیان ان کی اشاعت کریگا، اور ان دو حروف کو بھی انہیںکے ساتھ ضمیمہ کریگا یہاں تک کہ وہ علم کو ستائیس حروف پر مشتمل کر دیگا۔

١٢٤٠۔ امام صادق(ع) : نے جب کوفہ کا ذکر کیا تو فرمایا: عنقریب کو فہ مومنوں سے خالی ہو جائیگا اور علم وہاں سے ایسے نکل جائیگا جیسے سوراخ سے سانپ نکل جاتا ہے ، پھراس شہر میںظاہر ہوگا جسے قم کہا جاتا ہے ، جو علم و فضیلت کا سر چشمہ ہوگا، روئے زمین پر دین کے اعتبار سے کوئی ناتواں و کمزور باقی نہ ہوگا حتی کہ حجلہ نشین عورتیں بھی ، اورا یسا اس وقت ہوگا جب ہمارے قائم کا ظہور نزدیک ہوگا پھر خدا قم اور اہل قم کو حجت کا جانشین قرار دیگا، اگر ایسا نہ ہوگا تو زمین اپنے اہل کے ساتھ دھنس جائیگی۔

اور زمین پر کوئی حجت باقی نہ رہیگی، پھر علم شہر قم سے مشرق و مغرب کے تمام شہروں میںپھیلیگا تاکہ خلق پر خدا کی حجت تمام ہو جائے اور زمین پر کوئی ایسا باقی نہ رہیگا کہ جس تک دین اور علم نہ پہنچا ہو، اس کے بعد قائم ؑ ظاہر ہوگا اور بندوں پر خدا کی ناراضگی و غضب کاوسیلہ ہوگا، اس لئے کہ خدا اپنے بندوں سے انتقام نہیںلیگا مگر یہ کہ وہ لوگ حجت کے منکر ہو جائیں۔

١٢٤١۔ سید ابن طاؤوس: کا بیان ہیکہ زیارت امام زمانہ - میں ہے: خدایا! محمد اور اہلبیت محمد(ص) پر درود بھیج، اور ہمیں ہمارے سردار، ہمارے آقا، ہمارے امام ، ہمارے مولا صاحب الزمان کا دیدار کرادے، وہ ہی زمانہ کے لوگوں کے لئے پناہگاہ اور ہمارے زمانہ کے افراد کو نجات دینے والے ہیں، ان کی گفتار آشکار اور رہنمائی روشن ہے، وہ ضلالت و گمراہی سے ہدایت دینے والے اور جہالت ونادانی سے نجات دینے والے ہیں۔

خدایا!میں اپنی جہالت و نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاتا ہوں۔

بار الٰہا! میں اپنی نادانی کے باعث تیری پناہ چاہتا ہوں۔

پروردگارا!! میری لغزش ، خطا، میری نادانی اور کاموں میں مجھے میرے اسراف سے بخش دے اور ان چیزوں کو معاف کر دے کہ جن کو تو مجھ سے بہتر جانتا ہے۔

خدایا! محمد و آل محمدپردرود بھیج اور ان کے قائم کے ظہور میں تعجیل فرما، اور ان کے سبب زمین کو اسکی ظلمت و تاریکی کے بعد نور سے اور جہالت کے بعد علم سے بھر دے ، اور ہمیں عقلِ کامل ، عزم محکم، قلب پاکیزہ، علم کثیر اور اچھے ادب کی توفیق عطا فرما اور ان سب کو ہمارے لئے مفید قرار دے اور ہمارے لئے مضر قرار نہ دے۔

بار الٰہا! محمد اور ان کی آل پاک پر درود بھیج ، اور اے برائیوں کو نیکیوںمیں تبدیل کرنے والے اپنے فضل و رحمت کے سبب ہماری اس کوشش کو قبول فرما، اے ارحم الراحمین۔