ترمذی نے اپنی صحیح میں زید بن ارقم سے روایت کی ھے کہ حضرت علی علیہ السلام نے سب سے پھلے اسلام قبول کیا۔[1]
حضرت رسول اکرم (ص)نے فرمایا:
اٴولکم واردا عليَّ الحوض، اٴولکم اسلاماً، علی بن ابی طالب۔
تم میں سے سب سے پھلے میرے پاس حوض کوثر پر وہ پھنچے گا جو تم میں سب سے پھلے اسلام لایا ھو اور وہ حضرت علی ابن ابی طالب ھیں۔[2]
سعد بن ابی وقاص ایک گروہ کے پاس کھڑے تھے ان میں سے ایک شخص حضرت علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کر رھاتھا اس وقت سعد نے کھااے شخص تو علی ابن ابی طالب کو برا بھلا کیوں کہہ رھاھے؟۔
کیا وہ سب سے پھلے مسلمان نہ تھے؟
کیا انھوں نے سب سے پھلے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز کیا وہ سب سے زیادہ زاھدنہ تھے؟
کیا وہ سب سے زیادہ عالم نہ تھے؟
کیا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کا عقد ان سے نھیں پڑھا ؟
کیا وھی جنگوںاور اسلامی معرکوں میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمبردار نہ تھے؟
اس کے بعد سعدروبقبلہ ھو کر دونوں ہاتھ کو بلند کر کے کھنے لگے :
اے اللہ جس نے تیرے اولیاء میں سے اس ولی پر سب و شتم کیا ھے وہ تیری قدرت کا نظارہ دیکھے بغیر اس جگہ سے نہ جانے پائے (اس روایت کے راوی)متین بن حازم کھتے ھیں۔
خدا کی قسم ھم اس سے جدا ھوئے ھی تھے کہ اس کے سر پر کھجور کے دانے کے برابر پتھر آکرلگا اور اس کا بھےجاٹکڑے ٹکڑے ھوگیا۔[3]
ابن حجر،لےلی غفاریہ کی سند سے روایت کرتے ھیں وہ کھتی ھیں کہ میں حضرت نبی اکرم( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ھمراہ کسی غزوہ میں شرےک تھی، اس غزوہ میں میری ذمہ داری زخمیوں کو مرھم پٹی کرنے کے ساتھ ساتھ بیماروں کی تیمار داری کرنا تھی ،جب حضرت علی علیہ السلام بصرہ کی طرف روانہ ھوئے تو میں بھی ان کے ساتھ چل دی میں نے وہاں حضرت عائشہ کو دیکھاتو اس کے پاس گئی اور اس سے پوچھا:
کیا تم نے حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کوئی فضیلت سنی ھے؟۔
نھیں پڑھی ؟
حضرت عائشہ کھنے لگی:
ہاں ایک دن حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس آئے اور وہ (حضرت علی علیہ السلام) بھی ھمارے ساتھ تھے،حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاص قسم کی چادر اوڑھ رکھی تھی اورعلی (ع) ھمارے سامنے آ کر بیٹھ گئے۔
میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کھاکہ آپ کو اس سے بڑا مکان نھیں مل سکتا جہاں ھم سب آسانی سے رہ سکیں تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا:
” یا عائشہ دعی لی اخی فانہ اول الناس اسلاماً ، وآخر الناس لی عھداً واٴول الناس بي لقیا یوم القیامہ“
اے عائشہ! میرے بھائی کو میرے پاس بلا کر لے آؤ۔وہ لوگوں میں سب سے پھلے اسلام لانے والے ، آخر تک میرے عھد پر قائم رھنے والے اور قیامت کے دن سب سے پھلے مجھ سے ملاقات کرنے والے ھیں۔[4]
حضرت عمر ابن خطاب سے مروی ھے کہ تم میں سے کوئی بھی علی علیہ السلام کا مقام و عظمت حاصل نھیں کر سکتا کیونکہ میں نے حضرت رسول اکرم(ص)کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے کہ ان میں تین خصوصیات ایسی ھیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی میرے پاس ھو تی تووہ مجھے کائنات کی ھرچیز سے زیادہ محبوب تھی ۔
حضرت عمر کھتے ھیں:میںحضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھا ھمارے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت ابو عبیدہ بن الحراج اور صحابہ کرام کی ایک جماعت بھی تھی حضرت رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:
”اٴنت اٴول الناس اسلاماً، و اٴول الناس ایماناً، واٴنت منی بمنزلةِ ھارونَ مِن موسیٰ۔“
آپ (ع)ھی سب سے پھلے اسلام لانے والے ، سب سے پھلے ایمان لانے والے ھیں ،آپ(ع) کی مجھ سے وھی نسبت ھے جو حضرت ہارون(ع) کو حضرت موسیٰ (ع) سے تھی۔[5]
ایک دوسری سند کے ساتھ ابن عباس سے اس طرح مروی ھے کہ عمر ابن خطاب نے کھاکہ کوئی بھی علی(ع) ابن ابی طالب(ع) کی برابری نھیں کر سکتا کیونکہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سناھے کہ حضرت علی علیہ السلام کے اندر تین خصلتیں ایسی ھیںجنھیں کوئی بھی نھیں پا سکتا مندرجہ بالا حدیث کا سیاق بھی گزشتہ حدیث کی طرح ھے ۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ھیں:
انّ الملائکہ صلت عليَّ وعلیٰ عليٍ سبع سنےن قبل اٴن ےسلم بشر۔
تمام لوگوں کے اسلام قبول کرنے سے سات سال پھلے ملائکہ مجھ پر اور علی(علیہ السلام) پردرود و سلام بھیجتے تھے۔[6]
محمد ابن اسحاق سے روایت ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرسب سے پھلے ایمان لانے والے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے اور جو کچھ آپ اللہ کی طرف سے لائے اس کی تصدیق کرنے والے بھی حضرت علی علیہ السلام ھی تھے، اس و قت آپکی عمر ۱۰ سال تھی اور آپ پر اللہ کا یہ خصوصی اکرام ھے کہ آپ کی پرورش حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش میں ھوئی ۔[7]
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! تین اشخاص نے سبقت حاصل کی ھے ،حضرت موسی ٰکی طرف یوشع بن نون ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف صاحب ےٰسےن نے اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طر ف حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے سبقت حاصل کی۔[8]
عبد اللہ ابن مسعود کھتے ھیں:حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں سب سے پھلی چیز کا جب مجھے علم ھواتو میں اپنی پھوپھی کے ھمراہ مکہ میں آیا وہاں ھمیں عباس بن عبدالمطلب کے پا س بھیجا گیا ھم نے ان کو زمزم کے پاس بیٹھے ھوئے دیکھا۔
ھم بھی ان کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔ اس وقت ھم نے ایک شخص کو باب صفا سے داخل ھوتے دیکھا۔ جس کارنگ سرخ ، لمبے بال، خوبصورت اورلمبی ناک،سفید دانت ،آنکھیں اور ابرو ملی ھوئی ھیں، گھنی داڑھی ،مضبوط بازو،اور خوبصورت چھرہ ھے۔
ایک عورت ان کے پاس آکر کھڑی ھوئی جو پردے میں تھی یہ سب لوگ حجر اسود کی طرف بڑھے اور سب سے پھلے اس شخص نے سلام کیا اس کے بعد اس نوجوان نے اور آخر میں اس خاتون نے سلام کیا پھر اس ھستی نے بیت اللہ کا سات بار طواف کیا اور اس کی اتباع میں اس نوجوان(حضرت علی علیہ السلام) اور اس خاتون نے بھی طواف کیا۔
اس وقت ھم نے پوچھا اے اباالفضل اس دین کو ھم نھیں پہچانتے ،کیا یہ کوئی نیا مذھب ھے؟ ۔اس نے جواب دیا یہ میرے بھائی کے فرزندحضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھیں اور یہ نوجوان حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور یہ خاتون خدیجہ بنت خویلد ھیں ،اس کرہ ارض پر ان تینوں کے علاوہ کوئی بھی اللہ تعالی کی اس طرح عبادت نھیں کرتا۔[9]
شرح نھج البلاغہ میں ابن ابی الحدید کھتے ھیں: جان لیجئے ھمارے علماء متکلمین ا س با ت پر متفق ھیں کہ لوگوں میں سب سے پھلے اسلام لانے والے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ھیں۔[10]
اس کے بعد ابن ابی الحدید کھتے ھیں۔ مذکورہ تمام چیزیں ا س بات کی دلیل ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام سب سے پھلے اسلام لائے اور اگر کوئی اس کا مخالف ھے تو اس کی مخالفت شاذ ونادر ھے۔
اور شاذو نادر کا اعتبار نھیں کیا جاتا ۔
عمر بن خطاب کھتے ھیں کہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے متعلق ارشاد فرمایا:
”انّک اٴوّل المؤمنین معي ایماناً واٴعلمھم بآیات اللہِ واٴوفاھم بعھد اللّہ واٴراٴفھم بالرعیہ واٴقسمھم بالسویہ و اٴعظمَھم عند اللّہ مزیہ[11]
بیشک آپ مومنین میں سب سے پھلے مجھ پر ایمان لانے والے ،سب سے زیادہ اللہ کی آیات جاننے والے،سب سے زیادہ بھتر انداز میں اللہ کے عھد کو نبھانے والے،سب سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مھربان ھیں اور برابر سے تقسیم کرنے میں سب سے زیادہ بھتر ھیں آپ کا مرتبہ اللہ تبارک تعالی کے نزدیک عظیم ھے۔
ترمذی نے روایت کی ھے کہ راوی نے کھامیں نے حضرت علی علیہ السلام کو یہ کھتے ھوئے سنا ھے:
”اٴناعبد اللّہ واٴخو رسولہ واٴنا الصدیّق الاٴکبر لا یقولھا بعدي الاَّ کاذب مفتر ، صلےت مع رسول اللہ قبل الناس بسبع سنین۔
میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بھائی ھوں۔ میں صدیق اکبر ھوں اور میرے بعد یہ دعوی کرنے والا جھوٹا بھتان باندھنے والا ھے اورسب سے پھلے میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ سات سال کی عمر میں نماز پڑھی۔[12]
شیخ مفید اعلی اللہ مقامہ نے خدیجہ بن ثابت انصاری ،صاحب ذی الشھادتین رضی اللہ عنہ سے یہ اشعار نقل کیے ھیں ۔
ما کنت احسب ھذا الاٴمر منصرفاً
عن ھاشم ثم منھا عن اٴبي حسن
اٴلیس اٴول من صلّیٰ لقبلتھم
واٴعرفُ النّاسِ بالآثار والسننِ
وآخرُ الناسِ عھداً بالنبي و مَن
جبریل عونٌ لہ فی الغسلِ والکفنِ
من فیہ ما فیھم لا یمترون بہ
ولیس فی القومِ ما فیہِ من الحسنِ
ما ذا الذي ردّکم عنہ فنعلمہ
ھا ان بیعتکم من اٴغبن الغبن
میں یہ سوچ بھی نھیں سکتا کہ امر خلافت کو بنی ھاشم میں حضرت ابو الحسن علیہ السلام سے دور رکھا جائے گا ۔میں کبھی بھی جناب ہاشم اور پھر ان کی اولاد سے منہ موڑنے والوں کو دوست نھیں رکھتا، میں حضرت ابوالحسن علیہ السلام کی اس فضیلت کو نظر انداز نھیں کر سکتا ۔ کہ وہ پھلی شخصیت ھیں جنھوں نے تمہار ے ساتھ قبلہ کی طرف نماز پڑھی اور وہ سنن نبی(ص) کے سب سے زیادہ عارف ھیں اور آخر دم تک عھد نبی(ص) پر قائم رھے حضرت نبی(ص) کو غسل و کفن دینے میں جبرئیل انھیں کے مددگار تھے اس میں کوئی شک نھیں ھے ۔قوم کی تمام خوبیاں ان میں بدرجہ کامل تھیںاور پوری قوم میں ان جیسی خوبیاں نھیں ھیں۔ کیا چیز ھے جس نے تمھیں ان سے ہٹادیا ھے تاکہ ھم بھی اسے جان لےں خبردار تمہاری بےعت دھوکوں میں سب سے بڑا دھوکا ھے[13]
ابن حجر اپنی کتاب الاصابہ میں ابی لیلہ غفاری سے روایت بیان کرتے ھوئے کھتے ھیں کہ ابی لیلہ غفاری نے کھاکہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا:
ستکون من بعدی فتنة فاذا کان ذلک فآلزموا علی بن اٴبي طالب فانہ اٴول من آمن بی واٴولُ من ےُصافحنی یوم القیامہ وھو الصدیق الاکبر وھو فاروق ھذہ الامة وھو ےعسوب المؤمنین والمالُ یعسوبُ المنافقین۔
عنقریب میرے بعد فتنے اٹھیں ھوں گے ا س وقت تم حضرت علی (ع)کے دامن کو تھام لینا کیونکہ وہ پھلے شخص ھیں جو مجھ پر ایمان لائے وہ پھلے شخص ھوں گے جو قیامت کے دن مجھ سے مصافحہ کریں گے وہ اس امت کے صدیق اکبر اور فاروق اعظم ھیں اور وہ مومنین کے رھنما ھیں جبکہ مال منافقین کا رھنما ھے۔[14]
قرآن کریم میں ارشاد ھو تا ھے:
< اِنَّماَ وَلِیُّکُمُ اللهُ وَ رسُولُہ وَ الَّذِین آمَنُوا الّذِینَ یُقیمُونَ الصَّلوٰة ویُؤتُون الزَّکَاةَ وَہُمْ راکعونَ>[15]
بےشک اللہ اور اس کا رسول اور اس کے بعد وہ تمہاراولی ھے جو ایمان لایا اورنماز قائم کی اور رکوع کی حالت میں زکات ادا کی۔
زمخشری اپنی کتاب کشاف میں بیان کرتے ھیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اس وقت نازل ھوئی جب آپ نے نما ز پڑھتے وقت حالت رکوع میں سائل کو اپنی انگوٹھی عطا کی۔ زمخشری مزید کھتے ھیں کہ اگر کوئی شخص اعتراض کرے کہ اس آیت میں تو جمع کا لفظ آیا ھے اور یہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لئے کس طرح درست ھو سکتا ھے۔
اس کا جواب یہ ھے کہ جب کسی کام کا سبب فقط ایک ھی شخص ھو تو وہاں اس کے لئے جمع کا لفظ استعمال ھو سکتا ھے تا کہ لوگ اس فعل کی شبیہ بجا لانے میں رغبت حاصل کرےں اور ان کی خواھش ھو کہ ھم بھی اس جیسا ثواب حاصل کرلےں۔[16]
نیزاللہ تعالی کا ارشاد ھے:
< اٴَفَمَنْ کَانَ عَلیٰ بینةٍ مِنْ رَبّہِ وَ ےَتْلُوْہُ شَاھِد مِنْہُ۔>[17]
کیا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی دلےل پر قائم ھے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ ھے جواسی سے ھے۔
سیوطی درمنثور میں کھتے ھیں کہ اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام ھیں اور مزیدکھتے ھیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اٴفمن کان علیٰ بینةٍ من ربہِ و ےتلوہ شاھدٌ منہ۔
وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے واضح دلےل پر قائم ھے وہ میں ھوں اور اس کے پےچھے پےچھے ایک گواہ بھی ھے جو اسی سے ھے اوروہ حضرت علی علیہ السلام ھیں۔[18]
نیزاور اللہ کا یہ ارشاد ھے :
< اٴَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُون>َ [19]
کیا ایمان لانے والا اس شخص کے برابر ھے جو بد کاری کرتا ھے ؟یہ دونوں برابر نھیں ھیں۔
واحدی نے مذکورہ آیات کے اسباب نزول کے بارے میں ابن عباس سے روایت کی ھے کہ ولےد بن عقبہ بن ابی محےط نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے کہا۔
میں آپ سے عمر میں زیادہ ،زبان میںگویا تر اور زیادہ لکھنا جانتا ھوں۔ حضرت علی علیہ السلا م نے اس سے کھاکہ خاموش ھو جاؤ تم تو فاسق ھو اور اس وقت یہ آیت نازل ھوئی :
< اٴَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُونَ ۔>
کیا ایمان لانے والا شخص اس کے برابر ھے جو کھلی بدکاری کرتا ھے؟ یہ دونوں برابر نھیں ھو سکتے ۔
ابن عباس کھتے ھیں اس سے معلوم ھوا کہ حضرت علی علیہ السلام مومن ھیں اور ولےد بن عقبہ فاسق ھے ۔[20]
<إِنْ تَتُوْبَا إِلَی اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَ إِنْ تَظَاھَرَا عَلَیْہِ فَاِنَّ اللهَ ھُوَ مَوْلٰیہ وَجِبْرَےْلُ وَصَالِحُ الْمؤمنین وَالمَلٰا ئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَھِےْرٌ۔>
( اے نبی کی ازواج ) اگر تم اللہ کے حضور توبہ کر لو (تو بھتر ھے ) کیونکہ تمہارے دل کج ھو گئے ھیں اگر تم دونوں نبی کے خلاف کمر بستہ ھو گئےں توبےشک اللہ ،جبرئےل اور صالح مومنین اس کے مدد گار ھیں اور ان کے بعد ملائکہ کے بعد ملائکہ ان کی پشت پر ھیں ۔[21]
ابن حجر کھتے ھیں طبری نے مجاھد کے حوالہ سے نقل کیا ھے صالح المومنین حضرت علی علیہ السلام ‘ ابن عباس ، حضرت امام محمد بن علی ا لباقر اور ان کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام ھیں ۔ ایک دوسری روایت میں مروی ھے کہ صالح المومنین سے مراد حضرت علی علیہ السلام ھیں[22]
اسی طرح خداوندعالم کا یہ ارشاد :
< لِنَجْعَلَہَا لَکُمْ تَذْکِرَةً وَتَعِیَہَا اٴُذُنٌ وَاعِیَةٌ > [23]
اس واقعہ کو تمہارے لیئے یادگار بنا دیں تاکہ یاد رکھنے والے کان اس کو یا د رکھیں۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی اس آیت وتعیھااٴُذن واعیہ کی تلاوت فرمائی اور پھر حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ھو کر فرمایا:
اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کے کانوں کو ان خصوصیات کا مالک بنا دے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں کہ میں رسول اکرم سے جس چیز کو بھی سنتا تھااسے فراموش نھیں کرتا تھا۔[24]
حضرت علی کے متعلق اللہ تعالی کا ایک اور یہ فرمان ھے:
< اٴَنْتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ>[25]
آپ تو محض ڈرانے والے ھیں اور ھر قوم میں ایک نہ ایک ھدایت کرنے والا ھوتا ھے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ھیں: اٴنا المنذر وعلي الہادي وبک یا علی ےھتدی المھتدون من بعدی۔ میں ڈرانے والا اور حضرت علی علیہ السلام ہادی ھیں ،اس کے بعداسی جگہ فرمایا:اے علی(علیہ السلام) میرے بعد ھدایت چا ھنے والے تیرے ذریعے ھدایت پائیں گے[26]
اسی طرح خداوند متعال کا ایک اور فرمان ھے:
<الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَةً فَلَہُمْ اٴَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُونَ >
وہ لوگ جو دن اور رات میں اپنا مال پوشیدہ اور آشکار طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میںخرچ کرتے ھیں ،ان کے رب کے پاس ان کا اجر ھے اور انھیں کسی قسم کا خوف و غم نھیں ھے۔[27]
ابن عباس کھتے ھیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب کی شان میں نازل ھوئی آپ کے پاس چار درھم تھے آپ نے ایک درھم رات میں، ایک درھم دن میں، ایک درھم چھپا کر اور ایک درھم علانیہ اللہ کی راہ میں خرچ کیاتو یہ آیت نازل ھوئی۔[28]
نیزاللہ کا فرمان ھے:<إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمْ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۔>[29]
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کئے عنقریب خدائے رحمن ان کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں پیدا کرے گا ۔
حضرت علی علیہ السلام کے فضل و کمال کے سلسلہ میں نازل ھونے والی آیات میں خداوندمتعال کاارشاد سیجعل لھم الرحمن ودا خصوصی طور پر آپ کی بابرکت شان کی عکاسی کرتا ھے ۔اسی کے بارے میں ابوحنفیہ کھتے ھیں کہ کوئی مومن نھیں ھے جس کے دل میں حضرت علی علیہ السلام اور ان کے اھلبیت کی محبت قائم نہ ھو۔[30]
نیز اللہ تعالی کا ارشاد ھے:
<إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ۔>[31]
جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کئے یھی لوگ مخلوقات میں سب سے بھتر ھیں۔
ابن عباس کھتے ھیں کہ جب یہ آیت نازل ھوئی تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
یا علي تاتي اٴنت و شےعتک یوم القیامة راضےن مرضےن و یاٴتي عدوک غضا باً مقمَّحےن۔
(اے علی (ع))وہ خیر البریہ آپ اور آپ کے شیعہ ھیں آپ اور آپ کے شیعہ قیامت کے دن خوشی و مسرت کی حالت میں آئیں گے اور آپ کے دشمن رنج و غضب کی حالت میں آئیں گے۔
قال: ومن عدوی؟
حضرت علی نے کہایا رسول اللہ میرا دشمن کون ھے ؟
قال:من تبراٴ منک ولعنک
آپ نے فرمایا:
جو آپ سے دوری اختیار کرے اور آپ کو برا بھلا کھے وہ آپ کا دشمن ھے۔[32]
اسی طرح خداوندمتعال کا ایک اور فرمان ھے :
< یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ۔>[33]
اے مومنین ! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ھو جاؤ ۔
سورہ تو بہ کی اس آیہ شریفہ کے ذیل میں جناب سیوطی کھتے ھیں: ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت بیان کی ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالی کا یہ فرمان :
< اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ >[34]
اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ھو جاؤ۔[35]
اس میں سچوں کے ساتھ ھونے کا مطلب یہ ھے کہ حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ھو جاؤ۔
نیزاللہ کا فرمان ھے:< اٴَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَجَاہَدَ فِی سَبِیلِ اللهِ لاَیَسْتَوُونَ عِنْدَ اللهِ وَاللهُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ۔>[36]
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کو آبادکرنے کے کام کو اس شخص کی خدمت کے برابر سمجھ لیا ھے جو اللہ تعالی اور روز قیامت پر ایمان لا چکا ھے اور اللہ کی راہ میں جہاد بھی کر چکا ھے یہ دونوں خدا کے نزدیک برابر نھیں ھو سکتے اور خدا ظالموں کو سیدھے راستہ کی ھدایت نھیں کرتا۔
السدي کھتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام ،جناب عباس اور شبیر بن عثمان آپس میں فخر کیا کرتے تھے ،حضرت عباس کھتے تھے میںآپ سب سے افضل ھوں کیونکہ میں بیت اللہ کے حاجیوں کو پانی پلاتا ھوں ،جناب شبیر کھتے تھے کہ میں نے مسجد خدا کی تعمیر کی ۔حضرت علی علیہ السلام کھتے ھیں: میں نے حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم ) کے ساتھ ھجرت کی اور ان کے ساتھ مل کر اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو خدا نے یہ آیت نازل فرمائی:
< الَّذِینَ آمَنُوا وَہَاجَرُوا وَجَاہَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ بِاٴَمْوَالِہِمْ وَاٴَنفُسِہِمْ اٴَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْفَائِزُونَ ۔ یُبَشِّرُہُمْ رَبُّہُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْہُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَہُمْ فِیہَا نَعِیمٌ مُقِیمٌ >۔[37]
وہ لوگ جو ایمان لائے اور ھجرت کی اور اللہ تعالی کی راہ میں جان ومال کے ذریعہ جہاد کیا اللہ تعالی کے نزدیک انکا بھت بڑا مقام ھے ،یھی لوگ کا میاب ھیں اللہ تعالی نے انھیں اپنی رحمت کی بشارت دی ھے باغات اور جنت انھیں کے لیئے ھیں اور وہ ھمیشہ وہاںرھیں گے۔
نیز اللہ تعالی یوں ارشاد فرماتا ھے:
< وَقِفُوْھُمْ اِنّھُمْ مَسْؤلُون۔>[38]
انھیں روکو-، ان سے سوٴال کیاجائے گا۔
ابن حجر کھتے ھیں کہ دیلمی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ھے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجےد کی اس آیت سے مراد یہ ھے کہ انھیںروکو،کیونکہ ان سے ولایت علی (ع)ابن ابی طالب علیہ السلام سے متعلق سوال کیاجائے گا۔
اسی مطلب کو واحدی نے بھی بیان کیا ھے کہ اللہ تبارک وتعالی کے فرمان وقفوھم انھم مسئولون ۔کہ انھیں ٹھھراؤ یہ لوگ ذ مہ دار ھیں اس سے مراد یہ ھے کہ یہ لوگ حضرت علی علیہ السلام اور اھل بیت کی ولایت کے سلسلے میں جواب دہ ھیں کیونکہ اللہ تبارک تعالی نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ھے کہ لوگوں کو بتاؤ کہ میں تم سے تبلیغ رسالت کا فقط یھی اجر مانگتا ھوں کہ میرے قرابت داروں سے محبت رکھو۔
کیا ان لوگوں نے(حضرت) علی علیہ السلام اور اولاد علی (ع) سے اسی طرح محبت کی جس طرح رسول اللہ(ص)نے حکم دیا تھا یا انھوں نے ان سے محبت کرنے کا اھتمام نھیں کیا اور اسے اھمیت نھیں دی لہٰذا اس سلسلہ میں ان لوگوں سے پوچھا جائے گا۔[39]
< یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِہِ فَسَوْفَ یَاٴْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ اٴَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ اٴَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافِرِینَ یُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَیَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ >۔[40]
اے ایمان والو! تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے عنقریب اللہ ایسے لوگوں کو ان کی جگہ پر لے آئے گا جنھیں اللہ دوست رکھتا ھے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ھونگے ،مومنین کے ساتھ نرم اور کافروں کے ساتھ سخت ھونگے اور وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کے ملامت سے نھیں ڈریں گے،یہ خدا کی مھربانی ھے ،جسے چاھے عطا فرمائے اور خدا صاحب وسعت اور جاننے والا ھے۔
فخر الدین رازی اور علماء کا ایک گروہ اس آیہ مبارکہ کی تفسیر کرتے ھوئے کھتے ھیں :
یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ،اور اس پر دو چیزیں دلالت کرتی ھیں پھلی یہ کہ جب حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غدیر کے دن فرمایا:
لاٴدفعن الرایہ غداً الیٰ رجلٍ یحب اللہ ورسولہ ویحبہ اللہ ورسولہ۔
کل میں یہ پرچم اس شخص کے حوالے کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول کومحبوب رکھتا ھے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ھیں۔اس کے بعد پرچم حضرت علی علیہ السلام کے حوالے کیا لہٰذا یہ وہ صفت ھے جو آیت میں بیان ھوئی ھے ۔
دوسری یہ کہ ا للہ نے اس آیت کے بعد مندرجہ ذیل آیت بھی حضرت علی علیہ السلام کے حق میںبیان فرمائی:
< إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ>
تمہارا حاکم اور سردار فقط اللہ،اس کا رسول،اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور پابندی سے نماز پڑھتے ھیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ھیں ۔
ابن جریر کھتے ھیں:
اگریہ آیت یقینا حضرت علی علیہ السلام کے حق میں نازل ھوئی ھے تو اس سے پھلی والی آیت کا حضرت علی کے حق میں نازل ھونا اولی ھے۔ [41]
نیزاللہ تعالی کا یہ فرمان :
< فَاسْاٴَلُوا اٴَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ>[42]
اگر تم نھیں جانتے تو اھل ذکر سے سوال کرو۔
جابر جعفی کھتے ھیں کہ جب یہ آیت ”فاُسئلوا اٴھل الذکر ان کنتم لا تعلمون“نازل ھوئی تو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے تھے ھم اھل ذکر ھیں۔[43]
اللہ تبارک وتعالی فرماتا ھے:
< اٴَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَہُ لِلْإِسْلاَمِ فَہُوَ عَلَی نُورٍ مِنْ رَبِّہِ فَوَیْلٌ لِلْقَاسِیَةِ قُلُوبُہُمْ مِنْ ذِکْرِ اللهِ اٴُوْلَئِکَ فِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ >
کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیئے کھول دیا ھے اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نور(ھدایت)پر ھے اس کے برابر ھو سکتا ھے جو کفر کی تاریکیوں میں پڑا رھے پس افسوس ھے ان لوگوں پر جن کے دل یاد خدا کے سلسلے میں سخت ھو گئے ھیں وھی لوگ کھلی گمراھی میں ھیں ۔[44]
یہ آیت بھی حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو بیان کرتی ھے کیونکہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام ،حضرت حمزہ علیہ السلام ‘ابو لھب اور اس کی اولاد کے متعلق نازل ھوئی حضرت علی علیہ السلام اور حضرت حمزہ وہ ھیں جن کے سینوں کو اللہ تبارک تعالی نے اسلام کے لیئے کھول دیا ھے اور ابولھب اور اس کی اولاد وہ ھے جن کے دل سخت ھیں۔[45]
< مِنْ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللهَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا>[46]
مومنین میں سے بعض ایسے بھی ھیں جنھوں نے خدا سے کیا ھوا عھد سچ کر دکھایا ان میں سے بعض ایسے ھیں جو اپنی ذمہ داری پوری کر چکے ھیں اور بعض (شہادت) کے منتظر ھیں اور انھوں نے( ذرا سی بھی)تبدیلی اختیار نھیں کی ۔
حضرت علی علیہ السلام کوفہ میں منبر پر خطبہ دے رھے تھے وہاں آپ سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
یہ آیت میرے چچا حمزہ اور میرے چچا زاد بھائی عبیدہ بن الحارث بن عبد المطلب اور میری شان میں نازل ھوئی ھے۔ عبیدہ اپنی ذمہ داری بدر کے دن شھید ھو کر پوری کرگئے اور حمزہ احد کے دن درجہ شہادت پر فائز ھو کر اپنی حیات مکمل کر گئے ۔اور میں اس کا منتظر و مشتاق ھوں۔ پھر اپنی ریش مبارک اور سر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ وہ عھد ھے جو مجھ سے میرے حبیب حضرت ابوالقاسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لیاھے ۔[47]
<وَالَّذِی جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُتَّقُونَ >[48]
اور جو سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یھی لوگ( تو) پرھیز گار ھیں۔
ابو ھریرہ کھتا ھے کہ صدق کو لانے والے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی تصدیق کرنے والے حضرت علی علیہ السلام ھیں[49]
ایضاً اللہ ارشاد فرماتا ھے:
< مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لاَیَبْغِیَان فَبِاٴَیِّ اٰ لآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان>۔[50]
اس نے آپس میں ملے ھوئے دو دریا بھادئیے ھیں اور دونوں کے درمیان ایک پردہ ھے جو ایک دوسرے پر زیادتی نھیں کرتا پھر تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوںکو جھٹلاؤ گے ان دونوں سے موتی اور مونگے ( لو لو اور مرجان) نکلتے ھیں۔
ابن مردویہ نے ابن عباس سے مرج البحرین یلتقیان کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا ان سے مراد حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ (ع) ھیں اور برزخ لا یبغیان سے مراد حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھیں اور یخرج منھما اللؤلؤ و المرجان سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام ھیں۔[51]
< اٴَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ اٴَنْ نَجْعَلَہُمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ >
جو لوگ برے کاموں کے مرتکب ھوتے رھتے ھیں کیا انھوں نے یہ خیال کر رکھا ھے کہ ھم ان کو ان لوگوں کی مانند قرار دیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رھے کیا ان کا جینا و مرنا مساوی ھے یہ لوگ (کیسے کےسے )برے حکم لگایا کرتے ھیں۔[52]
کلبی کھتے ھیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ،حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ اور تین مشرکین عتبہ ،شیبہ اور ولید بن شیبہ کے بارے میں نازل ھوئی ھے ۔
یہ تینوں مومنین سے کھتے تھے کہ تم کچھ بھی نھیں ھو اگر ھم حق کہہ دیں تو ھمارا حال قیامت والے دن تم سے بھتر ھو گا۔ جیسا کہ دنیا میں ھماری حالت تم سے بھتر ھے۔لیکن اللہ تبارک و تعالی نے اپنے اس فرمان کے ساتھ ان کی نفی کی ھے کہ یہ واضح ھے کہ ایک فرمانبردار مومن کا مرتبہ و مقام ایک نا فرمان کافر کے برابر ھرگزنھیں ھو سکتا ۔[53]
ایضاً اللہ تعالی ارشاد فرماتا ھے :
<وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنْ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِہْرًا وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیرًا >
اور وھی قادر مطلق ھے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس کو بیٹا اور داماد بنا دیا (اور)پروردگار ھر چیز پر قادر ھے ۔[54]
محمد بن سرین اس آیت کی تفسیر میں کھتا ھے کہ یہ آیت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و االہ و سلم اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں نازل ھوئی ھے جو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و االہ و سلم) کے چچا زاد اور آنحضرت کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا کے شوھر ھیں گویا ”نسباً“اور” صھراً “کی تفسیرےھی ھستی ھے۔[55]
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ ۔ إِلاَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ [56]
زمانے کی قسم بےشک انسان خسارے میں ھے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے اور باھم ایک دوسرے کو حق کی وصیت اور صبر کی تلقین کرتے ھیں۔
سیوطی کھتے ھیں کہ ابن مردویہ نے ابن عباس سے یہ قول نقل کیا ھے کہ وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ،سے مراد ابوجھل بن ھشام ھے اور”إِلاَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ“ سے مرادحضرت علی علیہ السلام اور حضرت سلمان ھیں۔[57]
ایضاًاللہ تعالی کا ارشاد ھوتا ھے :
<ٌ وَعَلَی الْاٴَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ کُلًّا بِسِیمَاہُمْ ۔>[58]
اعراف پر کچھ ایسے لوگ (بھی )ھوں گے جولوگوں کی پیشانیاں دیکھ کر انھیں پہچان لیں گے ۔
ثعلبی نے ابن عباس سے روایت بیان کی ھے کہ ابن عباس کھتے ھیں پل صراط کی ایک بلند جگہ کا نام اعراف ھے اور اس مقام پر حضرت عباس ، حضرت حمزہ اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام موجود ھوں گے وہاں سے دو گروہ گزریں گے یہ لوگ اپنے محبوں کو سفید اور روشن چھروںاور اپنے دشمنوں کو سیاہ چھروں کے ذریعے پہچان لیں گے ۔[59]
قارئین کرام !تھی یہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان اور فضیلت میں نازل ھونے والی آیات کی یہ ایک جھلک ھے کیونکہ آپ کی شان میں نازل شدہ تمام آیات کو اس مقام پر بیان کرنا مشکل ھے۔بھرحال خطیب بغدادی ابن عباس سے روایت کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت اور شان میں تین سو سے زیادہ آیات نازل ھوئی ھیں ۔[60]
ابن حجر اور شبلنجی ابن عامر اور ابن عباس سے روایت کرتے ھیں کہ کسی کے متعلق بھی اس قدر آیات نازل نھیں ھوئیں جتنی آیات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق نازل ھوئی ھیں ۔[61]
ھم حضرت علی علیہ السلام کی بلند و بالا اور اعلیٰ وارفع شان اور آپ کی فضیلت اور اللہ کے نزدیک آپ کی عظیم منزلت کے متعلق نازل ھونے والی آیات کریمہ کا آنے والے ابواب میں تذکرہ کریں گے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ھے :
<إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا ۔>[62]
اے اھلبیت رسول! خدا کا فقط یھی ارادہ ھے کہ وہ ھر قسم کی گندگی اور رجس کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسا پاک و پاکیزہ رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ھے۔
حضرت ام سلمیٰ ارشاد فرماتی ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام حضرت حسن علیہ السلام، حضرت حسین علیہ السلام،اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام کو اپنی چادر کے نیچے بلا کر فرمایا:
اللھم ھؤلاء اٴھل بیتي وخاصتي اٴذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیرا۔
پروردگارا ! یھی میرے اھلبیت اور خاص لوگ ھیں ان سے ھر قسم کی گندگی کو دور فرما اور انھیں پاک و پاکیزہ رکھ جیسا پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ھے۔
اس مقام پر حضرت ام سلمی نے کھااے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں بھی آپ کے ساتھ ھوں آپ(ص)نے فرمایا تم خیر پر ھو ۔[63]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ھے:
< فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ کَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَاءَ نَا وَاٴَبْنَاءَ کُمْ وَنِسَاءَ نَا وَنِسَاءَ کُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ> [64]
جو شخص آپ سے (حضرت عیسی کے بارے میں) خواہ مخواہ الجھ پڑے اس کے بعد کہ تمھیں علم ھو چکا ھو تو (صاف صاف) کہہ دیں آؤ ھم اپنے بیٹوں کو بلائیںتم اپنے بیٹوں کو بلاؤ ھم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو بلاؤ،ھم اپنی جانوں کو بلائیں تم اپنی جانوں کو بلاؤ۔اور پھر ھم آپس میں مباھلہ کریںاور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں۔
معاویہ بن ابی سفیان‘ سعد بن ابی وقاص سے کھتا ھے کہ تمھیں کس چیز نے ابو تراب پر لعن و طعن کرنے سے منع کیا ھے ؟
سعد نے جواب دیا:
تم حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان تین حدیثوں کوبھلا دیاجو حضرت علی (ع) کے فضائل میں بیان فرمائی تھی کہ اگر ایک بھی ان میں سے مجھے مل جاتی تو تمام دنیا و آخرت کی نعمتوں پر بھاری تھی لہٰذا ان کے ھوتے ھوئے میں حضرت علی علیہ السلام پر کس طرح لعن طعن کر سکتا ھوں آپ نے فرمایا:
جب حضرت رسول خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ تبوک میں تشریف لے جا رھے تھے ، آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنایا تو حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بنا کر جا رھے ھیں؟۔
اس وقت میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا:
اٴما ترضیٰ اٴن تکون مني بمنزلة ھارون من موسی الّا اٴنہ لا نبي بعدي۔
کیا آپ اس پر راضی نھیں ھیں کہ میرے ساتھ آپ کی نسبت وھی ھو جو حضرت ہارون کی حضرت موسیٰ سے تھی لیکن میرے بعد کوئی نبوت نھیں ھے۔
۳۔ اور تےسرا مقام یہ ھے کہ میں نے جنگ خیبر والے دن حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے بھی سنا:
لاٴعطین الرایة رجلا یحب اللہ ورسولہ ویحبہ اللہ ورسولہ۔
میں کل علم اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ھے، (او ر) اللہ اور اس کا رسول اسے دوست رکھتے ھیں۔
اس کے بعد حضرت نے فرمایا:
(حضرت) علی کو میرے پاس بلا لاؤ۔
حضرت علی علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لائے ،آپ(ع) کی آنکھیں کچھ خراب تھیںحضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں علم دیا اور اللہ نے فتح عطا فرمائی۔
اسی طرح جب یہ آیت قل تعالواندع ابناء نا و ابناء کم نازل ھوئی تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام ،حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکو اپنے پاس بلا کر فرمایا۔ پروردگارا! یھی میرے اھلبیت ھیں۔[65]
اس طرح آپ کے فضائل بیان کرتے ھوئے اللہ تعالی ارشاد فرماتا:
< یُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُونَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہُ مُسْتَطِیرًا وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَاٴَسِیرًاإِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللهِ لاَنُرِیدُ مِنْکُمْ جَزَاءً وَلاَشُکُورًا>[66]
اور وہ اپنی منتوں کو پورا کرتے ھیں اور اس دن سے خوف کھاتے ھیں جس کی سختی ھر طرف پھیل جا ئے گی اور وہ خدا کی محبت میں مسکین‘ یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ھیں، (اور یہ کھتے ھیں کہ)ھم تو فقط اللہ کی خوشنودی کے لیئے کھلاتے ھیں اور ھم کسی قسم کے بدلے اور شکریہ کے طالب نھیں ھیں ۔
ابن عباس کھتے ھیں کہ ایک مرتبہ حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام مریض ھو گئے تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اے ابو الحسن آپ اپنے بچوں کے لیئے منت مانےں ۔
حضرت علی علیہ السلام نے کھااگر خداوندمتعال انھیں صحت عطا فرمائے تو میں تین دن تک روزہ رکھوں گا اسی طرح جناب فاطمہ سلام اللہ علیھانے بھی ےھی منت مانی۔
آپ کی کنیز جناب فضہ ثوبیہ نے بھی منت مانی کہ اگر میرے سردار ٹھیک ھو جائیں تو میں تین روزے رکھوں گی حضرت علی علیہ السلام شمعون خیبری کے پاس گئے اور اس سے تین صاع جو قرض لئے اور جناب فاطمہ کے پاس آئے بی بی نے ایک صاع جو کو پیس کر اس سے روٹی تیار کی۔
حضرت علی علیہ السلام حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر گھر وآپس آئے اور جب ان کے سامنے کھانا چنا گیا تو دروازے پر ایک مسکین نے آواز دی۔
السلام علیکم اھل بیت محمد۔
اے اھل بیت محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پرسلام ھو۔
میں ایک مسکین مسلمان ھوں مجھے کھانا کھلائیں خدا آپ کو جنت کے پھل عطا کرے گا۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس آواز کو سنا تو فرمایا سارا کھانا اسے دے دیں اورخودپانی کے چند گھونٹ کے ساتھ روزہ افطار کیا۔
دوسرے دن حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھانے ایک صاع جؤ کی روٹیاں تیار کیں حضرت علی علیہ السلام حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر وآپس آئے جب کھانا لگایا گیا اس وقت ایک یتیم نے دروازہ پر آکر کہا۔
السلام علیکم اھل بیت محمد ۔
اے اھل بیت محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پر سلام ھو۔
مہاجرین میں سے ایک یتیم آپ کے دروازے پر کھڑا ھے ، اسکاباپ شھید ھو چکا ھے اسے کھانا کھلائیں۔
آپ(ع) نے سارا کھانا اسے دے دیا اور دوسرے دن بھی پانی کے علاوہ کچھ نہ چکھا جب تیسرا دن ھوا جنا ب فاطمہ (ع)نے آخری صاع گندم کوپیسا اور اس سے کھانا تیار کیا حضرت علی علیہ السلام جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر وآپس آئے اورکھانا لگایا گیا اس وقت دروازے پر کھڑے ایک قیدی کی صد ا بلند ھوئی۔
السلام علیکم اھل بیت النبوة۔
اے اھل بیت محمد آپ پر سلام ھو۔دشمنوںنے ھمیں اسیر بنایا ھمارے ساتھیوںکو شھید کیا اور کھانا تک نہ دیا آپ مجھ اسیر کو کھانا کھلائیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے ساری غذا اس کے حوالے کردی آپ نے تین شب وروز تک پانی کے علاوہ کچھ نھیں کھایا۔حضرت رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے سب کو بھوکا دیکھا اس وقت اللہ تعالی نے آپ کی شان میں قران مجےد میں: ھل اٴتی علیٰ الانسان حینٌ من الدھر سے لے کر جزاء ولا شکورا تک کی آیات نازل فرمائیں۔[67]
اور اللہ تعالی کا فرمان ھے۔
< قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی>[68]
اے رسول (ص)ان سے کہہ دیں کہ میں تبلیغ رسالت کے سلسلے میںاپنے قرابت داروں یعنی اھلبیت کی محبت کے علاوہ تم سے کوئی اجر نھیں مانگتا ۔
ایک اعرابی رسول خدا کی خدمت میں حاضر ھوا اور کھنے لگا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے اسلام قبول کروائیں تو حضرت نے فرمایا تم گواھی دوکہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نھیں اور اس کا کوئی شریک نھیں اور محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس کے عبد اور رسول ھیں۔ جب کلمہ تو حید اور رسالت پڑھ چکا تو کھنے لگا مجھ پر اس کی کوئی اجرت ھے۔
فرمایا :
نھیں مگر یہ کہ میرے قرابت داروں سے محبت ۔
اس نے کھا، آپ کے قرابت داروں کی محبت پر میں آپ کی بیعت کرتا ھوں اور جو شخص آپ اور آپ کے قرابت داروں سے محبت نھیں کرتا اللہ اس پر لعنت کرے ،اس وقت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آمین۔[69]
حضرت امام حسن علیہ السلام اپنے والد بزرگوار حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت کے دن خطبہ کے درمیان فرماتے ھیں:
ٴیایھا الناس من عرفني فقد عرفني، و من لم یعرفني فاٴنا الحسن بن علي واٴنا ابن النبي صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم واٴنا ابن الوصي واٴنا ابن البشیر واٴنا ابن النذےر واٴنا ابن الداعي الیٰ اللہ باذنہِ واٴنا ابن السراج المنےر۔
اے لوگو!جو مجھے جانتا ھے سو جانتا ھے اور جو نھیں جانتا وہ جان لے کہ میں حسن (ع)ابن علی( علیہ السلام )ھوں میں حضرت نبی ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرزند ھوں میں ابن وصی ھوں، میں بشارت دینے والے اور ڈرانے والے کا بیٹا ھوں، میں اللہ کی طرف دعوت دینے والے کا جگر گوشہ ھوں اور میں سراج منیر کا چشم وچراغ ھوں ۔
نیزمزید فرمایا:
واٴنا من اٴھل البیت الذین کان جبرےل ےنزل الےنا وےصعدْ من عندنا واٴنا من اھل البیت الذین اٴذھب اللہ عنھم الرجس وطھرھم تطھیرا واٴنا من اٴھل البیت الذی افترض اللہ مودتھم علیٰ کل مسلم فقال تبارک وتعالی لنبیہ صلی اللہ علیہ ( وآلہ وسلم ) : قل لا اٴساٴلکم علیہ اجراً الا المودة في القربیٰ۔
میں ان اھلبیت کے ساتھ تعلق رکھتا ھوں جن کے ہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام آتے اور ھمارے ہاں سے آسمان کی طرف جاتے ھیں،میں ان اھلبیت سے ھوں جن سے اللہ تعالی نے رجس کو دور رکھا ھے اور انھیں ایسا پاک و پاکیزہ رکھا جیسا پاک رکھنے کا حق ھے، میں ان اھلبیت کی فرد ھوں جن کی محبت کو اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں پر واجب اور ضروری قرار دی۔
اور اللہ تبارک تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ارشاد فرمایا:
ان لوگوں سے کہہ دیں میں تم سے اپنے اھلبیت کی محبت کے علاوہ کوئی اجر رسالت نھیں مانگتا۔ بھرحال جو شخص نیکی کو پہچان لیتا ھے اس کی نیکیوں میں اضافہ کردیاجا تا ھے اور نیکیوں کی پہچان ھم اھلبیت کی محبت ھے ۔[70]
یہاں تک تو ھم نے یہ بیان کیا ھے کہ آیت مودة حضرت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قرابت داروں کی شان میں نازل ھوئی البتہ وہ روایات جو بتاتی ھیں فقط حضرت علی علیہ السلام ، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام ھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قرابت دار ھیں۔ ان روایات کی تعداد بھت زیادہ ھے اور وہ سب روایات مندرجہ بالا مطلب کی حکایت کرتی ھیں۔
جناب زمخشری صاحب اپنی کتاب کشاف میں آیت مودة کی تفسیر بیان کرتے ھوئے کھتے ھیں:
جب آیت مودة نازل ھوئی تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کے قرابت دار کون ھیںجن کی محبت ھم پر واجب کی گئی ھے۔
تب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
وہ علی (علیہ السلام) ،فاطمہ (سلام اللہ علیہا) اور ان کے دو بیٹے ھیں۔
تفسیر کبیر میں فخر رازی آیت مودة کی تفسیر بیان کرتے ھوئے صاحب کشاف کی روایت نقل کرنے کے بعدکھتے ھیں:
فثبت اٴن ھؤلاء الاربعة اٴقارب النبي صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم۔
پس ثابت ھو گیا کہ یھی چار ھستیاں ھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قرابت دار ھیں۔
اس کے بعدمزید کھتے ھیں:
جب یہ بات ثابت ھوگئی تو ھم پر واجب ھے کہ ھم مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر دوسروں کی نسبت ان کی زیادہ عزت اور تعظیم کریں۔
۱۔بے شک اھلبیت علیھم السلام وہ ھستیاں ھیں کہ جن کی طرف تمام امور کی بازگشت ھوتی ھے اور ھروہ شخص جس کی بازگشت ان (اھل بیت ) کی طرف ھو وھی محبت کا حقدار ھے۔
اور اس میں بھی کسی قسم کا شک و شبہ نھیں ھے کہ حضرت فاطمہ(ع) ‘حضرت علی(ع) حضرت امام حسن(ع) اور حضرت امام حسین(ع) کا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ گھراتعلق ھے اور یہ مطلب تواتر کے ساتھ روایات میں موجود ھے ۔
۲۔ یہ بات بلاشک و تردید ھے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاسے بھت محبت کرتے تھے اورحضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکے متعلق فرمایا:
فاطمة بضعة مني ےؤذےني ماےؤذےھا
فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ھے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے ایذیت پھنچائی۔
یہ بات بھی مواتر روایات سے ثابت ھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم،حضرت علی علیہ السلام، حضرت حسن علیہ السلام اورحضرت حسین علیہ السلام سے بھت زیادہ محبت کرتے تھے، جب یہ سب کچھ روز روشن کی طرح واضح ھے تو امت پر( اللہ تعالی کے درجہ ذیل فرامےن کی روشنی میں)اھلبیت کی اطاعت اور محبت ضروری ھے ۔
۱۔< وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون۔>[71]
ان کی اتباع کرو تا کہ تم ھدایت پا جاؤ ۔
۲۔< فَلْیَحْذَرْ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ اٴَمْرِہِ ۔۔۔>[72]
پس ان لوگوں سے ڈرو(بچو)جو امر خدا کی مخالفت کرتے ھیں ۔
۳۔< قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمْ اللهُ ۔۔۔>[73]
اے رسول ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ھو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا ۔
۴۔<لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللهِ اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔۔۔>[74]
بے شک تمہارے لیئے رسول اللہ کی زندگی بھترین نمونہ ھے ۔
۳۔ آل کے لئے دعا ایک بھت بڑا منصب ھے اسی وجہ سے اس کو تشھد کی صورت میں نماز کے اختتام پر واجب قرار دیا گیا ھے اور اس کی صورت اللھم صلی علی محمد و آلہ محمد ھے۔
یہ تعظیم آل کے علاوہ کسی اور کے حق میں بیان نھیں ھوئی ھے،ان سب مطالب کی اس بات پر دلالت ھے کہ حضرت محمد(ص) و آل محمد(ص) کی محبت ھم سب پر واجب ھے۔[75]
تفسیر المیزان میں جناب ابن عباس سے روایت موجود ھے کہ جب یہ آیت” قل لا اٴساٴ لکم علیہ اجراً الاّ المودة في القربیٰ ۔۔“نازل ھوئی تو لوگوں نے پوچھا :
یا رسول اللہ آپ کے قرابت دار کون ھیں جن کی محبت واجب قرار دی گئی ھے۔
آپ(ص) نے فرمایا ان سے مراد علی (ع)۔فاطمہ(ع)۔اور ان کی اولاد( علیھم السلام) ھیں۔صاحب تفسیر میزان کھتے ھیں کہ طبرسی نے مجمع البیان میں وولداھاکی جگہ و” ولدھا“ کا لفظ استعمال کیا ھے ۔[76]
[1] صحیح ترمذی ج ۲ ص۳۰۱،اسی طرح حاکم نے بھی مستدرک ج۳ ص ۱۳۶پر اس مطلب کو ذکر کیا ھے اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی یھی مطلب بیان کیا ھے۔
[2] المستدرک ج ۳ ص ۱۳۶۔
[3] حاکم کھتے ھیں کہ شیخین کی شرط پر یہ حدیث صحیح ھے۔مستدرک الصحیحین ج۳ ص۴۹۹
[4] ابن حجر ، الاصابہ فی تمیز الصحا بہ ج ۸، قسم اول، ص ۱۸۳
[5] کنز العمال ج ۶ ص۳۹۵ ۔
[6] کنز العمال۶ ص ۱۵۶ ۔
[7] کشف الغمہ ج ۱ ص ۷۹۔
[8] کشف الغمہ ج ۱ ص ۸۳۔
[9] مناقب خوارزمی ص ۵۶۔
[10] شرح نھج البلاغہ ج ۴ ص ۱۲۲۔
[11] کشف الغمہ ج۱ ص ۸۵۔
[12] تاریخ طبری ج ۲ ص ۵۶۔
[13] ارشاد ج۱ ص۳۲۔
[14] ابن حجرا لاصابہ ج ۷ حصہ اول ص۱۶۷۔
[15] سورہ مائدہ آیت ۵۵۔
[16] الکشاف ج۱ ص ۶۴۹۔
[17] سورہ ھود آیت ۱۷۔
[18] سیوطی نے در منثور میں اس آیت کے ذیل میں اس مطلب کو بےان کےا ھے۔
[19] سورہ سجدہ :آیت۱۸۔
[20] واحدی اسباب نزول ص۲۶۳۔
[21] سورہ تحرےم:آیت۴۔
[22] ابن حجر العسقلانی فتح الباری ،ج ۱۳ ص ۲۷۔
[23] سورہ حاقة آیت ۱۲۔
[24] تفسیر ابن جریر الطبری ج ۲۹ ص ۳۵۔
[25] سورہ رعد آیت ۷۔
[26] کنز العمال ج ۶ ص۱۵۷۔
[27] سورہ بقرہ آیت ۲۷۴۔
[28] اس روایت کو اسد الغابہ میں ابن اثیر جزری نے ج ۴ ص ۲۵، ذکر کےا ھے۔ اور اسی مطلب کو زمحشری نے تفسیرکشاف میں نقل کیا ھے ان کے علاوہ دوسری کتب میں بھی ےھی تفسیر مذکور ھے ۔
[29] سورہ مریم آیت ۹۶۔
[30] ریاض النضرہ ج ۲ ص ۲۰۷،الصواعق ابن حجر ص۱۰۲، نور الابصار شبلنجی ص ۱۰۱۔
[31] سورہ البینہ آیت ۷
[32] صواعق محرقہ ابن حجر ص ۹۶،نور الابصار شبلنجی ص ۷۰ اور ص ۱۰۱ ۔
[33] سورہ توبہ آیت ۱۱۹۔
[34] سورہ توبہ آیت ۱۱۹۔
[35] سوره توبه آیت 19.
[36] سیوطی در منثور در ذیل آیت۔
[37] سورہ توبہ آیت ۲۰تا ۲۱۔، تفسیر ابن جریر طبری ج ۱۰ ص ۶۸۔
[38] سورہ صافات آیت۲۴۔
[39] الصواعق محرقہ ابن حجر ص ۷۹ ۔
[40] فخر رازی نے تفسیر کبیر میں سورہ مائدہ کی اس آیت کے ذیل میں یہ تفسیر بیان کی ھے ۔
[41] سورہ مائدہ آیت ۵۴۔
[42] سورہ نحل آیت۴۳۔
[43] تفسیر ابن جریرطبری ج ۱۷ ص۵۔
[44] سورہ زمر: ۲۲۔
[45] ریاض النضرہ ‘محب طبری ج ۲ ص ۲۰۷۔
[46] سورہ احزاب :۲۳۔
[47] صواعق محرقہ ابن حجر ص ۸۰۔
[48] سورہ زمر :۳۳۔
[49] سیوطی در منثور ذیل تفسیر آیہ ۔
[50] سورہ رحمن: ۱۹تا ۲۲ ۔
[51] سیوطی در منثور ۔
[52] سورہ جاثیہ : ۲۱۔
[53] تفسیر کبیر ،فخر الدین رازی ذیل تفسیر آیہ۔
[54] سورہ فرقان: ۵۴۔
[55] نور الابصار شبلنجی ص۱۰۲۔
[56] سورہ عصر۔
[57] درمنثور تفسیر سورہ عصر۔
[58] سورہ اعراف :۴۶ ۔
[59]صواعق محرقہ ابن حجرص ۱۰۱۔
[60] تا ریخ بغداد‘ خطیب بغدادی ج۶ ص ۲۲۱۔
[61] صواعق محرقہ ص ۷۶ ،نور الابصار ص ۷۳۔
[62] سورہ احزاب آیت ۳۳ ۔
[63] صحیح ترمذی ج ۲ ص۳۱۹۔
[64]سورہ آل عمران آیت ۶۱۔
[65] صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ با ب فضایل علی ابن ابی طالب (ع)۔
[66] سورہ دھر آیت :۸ و:۹۔
[67] اسد الغابہ ابن جزری ۔ج۵ ص۵۳۰۔
[68] سورہ شوری آیت ۲۳۔
[69]حلیة الاولیاء ج ۳ ص ۲۰۱۔
[70] مستدرک صحیحین ج ۳ص ۱۷۲۔
[71]سورہ اعراف آیت ۱۵۸۔
[72] سورہ نور آیت ۶۳۔
[73] سورہ آل عمران آیت ۳۱۔
[74] سورہ احزاب آیت ۲۱۔
[75] فخر رازی تفسیر کبیر ذیل آیت مودة ۔
[76]المیزان فی تفسیر القرآن ج ۸ ص ۵۲۔