تفسیر نمونه سے منتخب چند سوالات

1۔  جھاد کا مقصد کیا ھے؟ اور ابتدائی جھاد کس لئے؟

اسلامی جھاد کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ھے۔

۱۔ ابتدائی جھاد (آزادی کے لئے)

خداوندعالم نے انسان کی سعادت و خوشبختی، آزادی اور کمال تک پھنچنے کے لئے احکام بیان کئے ھیں، اور اپنے مرسلین کو ذمہ داری دی ھے تاکہ یہ احکام لوگوں تک پھنچائیں، اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ اسلامی احکام کو اپنے منافع میں مزاحم سمجھے اور ان کے پہچانے میں مانع اور رکاوٹ بنے تو انبیاء علیھم السلام کو اس بات کا حق ھے کہ پھلے انھیں گفتگو کے ذریعہ سمجھائے اور اگر ایسا ممکن نہ ھو تو طاقت کے ذریعہ ان کو راستہ سے ہٹا دیں اور آزاد طریقہ سے تبلیغ کے فر ائض انجام دیں۔

دوسرے الفاظ میں یوں کھیں کہ ھر معاشرہ کے لوگوں کا حق ھے کہ وہ راہ حق کے منادی افراد کی ندا کو سنیںاور اس دعوت کے قبول کرنے میں آزاد ھوں، لہٰذا اگر کوئی ان کو اس جائز حق سے محروم کرنا چاھے اور ان کو راہ خدا کے منادی افرادکی آواز سننے سے روکے ، تو ان کو یہ حق ھے کہ اس آزادی کو حاصل کرنے کے لئے کسی بھی طاقت کا سھار ا لیں، یھیں سے اسلام اور دیگر آسمانی ادیان میں ”ابتدائی جھاد “ کی ضرورت واضح و روشن ھوجاتی ھے۔

اور اسی طرح اگر کچھ لوگ مومنین پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے گزشتہ مذھب کی طرف لوٹ جائیں تو اس موقع پر بھی کسی طاقت کا سھارا لیا جاسکتا ھے۔

۲۔ دفاعی جھاد :

اگر کسی شخص یا گروہ پر دشمن کی طرف سے حملہ کیا جاتا ھے تو اس موقع پر تمام آسمانی اور انسانی قوانین اس بات کا حق دیتے ھیں کہ انسان اپنے دفاع کے لئے اٹھ کھڑا ھو اور اپنے دفاع کے لئے اپنی پوری طاقت لگادے، اور اپنی حفاظت کے لئے کوئی بھی حربہ اپنانے میں چون و چرانہ کرے، اس قسم کے جھاد کو ”دفاعی جھاد“ کھا جاتا ھے، اسلام کی مختلف جنگیں اسی طرح کی تھیں جیسے جنگ احزاب، جنگ احد، جنگ موتہ، جنگ تبوک، جنگ حنین وغیرہ، یہ تمام جنگیں دفاعی پھلو رکھتی تھیں۔

۳۔ کفر اور شرک کی نابودی کے لئے جھاد

اسلام ؛ اگرچہ دنیا بھر کے لوگوں کو اس دین (جو سب سے عظیم اور آخر ی دین ھے)کے انتخاب کے لئے دعوت دیتا ھے لیکن ان کے عقیدہ کی آزادی کا احترام کرتا ھے اسی وجہ سے جو اقوام آسمانی کتاب رکھتی ھیں ان کو اسلام قبول کرنے کے لئے غور و فکر کے لئے کافی فرصت دیتا ھے، او راگر انھوں نے اسلام قبول نہ کیا تو ان کے ساتھ ایک ”ھم پیمان اقلیت“ کے عنوان سے معاملہ کرتا ھے اور خاص شرائط کے تحت (جو نہ مشکل ھیں اور نہ پیچیدہ) ان کے ساتھ آرام و سکون کی زندگی بسر کرنے کا سبق دیتا ھے۔

لیکن کفر و شر ک نہ دین ھے ،نہ کوئی مذھب اور نہ ھی قابل احترام ھے، بلکہ ایک قسم کی خرافات، انحراف اور حماقت ھے، در اصل ایک فکری اور اخلاقی بیماری ھے جس کو کسی نہ کسی طرح ختم ھونا چاہئے۔

دوسروں کی ”آزادی“ اور ”احترام“کی بات ان مقامات پرکیجا تی ھے جھاں فکر و عقیدہ میں کوئی ایک صحیح اصل پائی جاتی ھو لیکن انحرافات، گمراھی اور فکری بیماری قابل احترام نھیں ھے اسی وجہ سے اسلام کا حکم ھے کہ کفر و شرک کا دنیا بھر سے نام و نشان تک مٹا دیا جائے ،چاھے جنگ کرنی پڑے، اگر بت پرستی کے بُرے آثار گفتگو کے ذریعہ ختم نہ ھوں تو جنگ کے ذریعہ ان کا خاتمہ کردیا جائے۔

ھماری مذکورہ باتوں سے گرجا گھروں کے زھریلے پروپیگنڈے کا جواب بھی واضح ھوجاتا ھے کیونکہ اس سلسلہ میں <لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّینِ> سے واضح آیت قرآن مجید میں موجود نھیں ھے۔

البتہ وہ لوگ اسلامی جھاد اور اسلامی جنگوں میں تحریف کرنے کے لئے مختلف بھانہ بازی کرتے ھیں جبکہ اسلامی جنگوں کی تحقیق سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ ان میں سے بہت سی جنگیں دفاعی پھلو رکھتی تھیں اور بعض وہ جنگیں جو ”ابتدائی جھاد “ کی صورت میں تھیں وہ بھی دوسرے ملکوں پر غلبہ کرنے اور مسلمانوں کو طاقت کے بل پر اسلام قبول کرانے کے لئے نھیں تھی بلکہ اس ملک میں حکم فرما ظالمانہ نظام کے خاتمہ کے لئے تھیں تاکہ اس ملک کے با شندے مذھب قبول کرنے میں آزاد رھیں۔

اس گفتگو پر تاریخ اسلام گواہ ھے،جن میں یہ بات بارھا بیان کی گئی ھے کہ جب مسلمان کسی ملک کو فتح کرتے تھے تودوسرے مذاھب کے پیرووٴں کو مسلمانوں کی طرح آزادی دیتے تھے اور اگر ان سے ایک معمولی جزیہ حاصل کرتے تھے جو امنیت اور حافظ امنیت لشکر کے خرچ کے لئے ھوتا تھا کیونکہ ان کی جان و مال اور ناموس اسلام کی حفاظت میں تھی یھاں تک کہ وہ اپنے دینی پروگرام کرنے میں بھی آزاد تھے۔

تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والے افراد اس حقیقت کو جانتے ھیں یھاں تک کہ اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے والے اور کتاب لکھنے والے عیسائی محققین نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ھے مثلاً کتاب ”تمدن اسلام و عرب“ میں تحریر ھے: ”دوسرے مذاھب کے ساتھ مسلمانوں کا طریقہٴ کار اتنا ملائم تھا کہ مذھبی روٴساء کو مذھبی پروگرام کرنے کی اجازت تھی“۔

یھاں تک کہ بعض اسلامی تاریخ میں یہ بھی بیان ھوا ھے کہ جو عیسائی اسلامی تحقیق کے لئے پیغمبر اکرم (ص)کی خدمت میںحاضر ھوتے تھے اپنی مذھبی دعاؤں کا پروگرام آزادطریقے سے مسجد النبی(مدینہ) میں انجام دیا کرتے تھے۔

اسلام میں خواتین کے حقوق 2۔ اسلام خواتین کے لئے کن حقوق کا قائل ھے؟

ظھور اسلام اور اس کی مخصوص تعلیمات کے ساتھ عورت کی زندگی ایک نئے مرحلہ میں داخل ھوئی جوپھلے مراحل سے بہت مختلف تھی، یہ وہ دور تھا جس میں عورت مستقل اور تمام انفرادی، اجتماعی اور انسانی حقوق سے فیض یاب ھوئی، عورت کے سلسلہ میں اسلام کی بنیادی تعلیمات وھی ھیں جن کا ذکر قرآنی آیات میں ھوا ھے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ھوتا ھے: <لَہُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوف>”عورتوں کے لئے ویسے ھی حقوق بھی ھیں جیسی ذمہ داریاں ھیں“۔

اسلام عورت کو مرد کی طرح کامل انسانی روح ،ارادہ اور اختیار کا حامل سمجھتا ھے اور اسے سیرِ تکامل اور ارتقا کے عالم میں دیکھتا ھے جو  مقصد خلقت ھے، اسی لئے اسلام دونوں کو ایک ھی صف میں قرار دیتا ھے اور دونوں کو ”یا ایھا الناس“ اور ”یا ایھا الذین آمنوا“ کے ذریعہ مخاطب کرتا ھے، اسلام نے دونوں کے لئے تربیتی، اخلاقی اور عملی پروگرام لازمی قرار دئے ھیں، ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ اٴَوْ اٴُنْثَی وَهو مُؤْمِنٌ فَاٴُوْلَئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ

”اور جو نیک عمل کرے گا چاھے وہ مرد ھو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان بھی ھو اسے جنت میں داخل کیا جائے گا“۔

ایسی سعادتیں دونوں صنف حاصل کرسکتی ھیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ اٴَوْ اٴُنثَی وَهو مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاةً طَیِّبَةً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اٴَجْرَہُمْ بِاٴَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ

”جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ھو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ھو ھم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انھیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رھے تھے“۔

مذ کورہ آیات اس بات کو واضح کردیتی ھیں کہ مرد ھو یا عورت اسلامی قوانین و اعمال پر عمل کرتے ھوئے معنوی اور مادی کمال کی منزلوں پر فائز ھوسکتے ھیں اور ایک طیب و طاھر زندگی میں قدم رکھ سکتے ھیں جو آرام و سکون کی منزل ھے۔

اسلام عورت کو مرد کی طرح مکمل طور پر آزاد سمجھتا ھے ، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَةٌ

”ھر نفس اپنے اعمال کا رھین ھے“۔

یا ایک دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہِ وَمَنْ اٴَسَاءَ فَعَلَیْہَ

”جو بھی نیک عمل کرے گا وہ اپنے لئے کرے گا اور جو بُرا کرے گا اس کا ذمہ دار بھی وہ خود ھی ھوگا“۔

اسی طرح یہ آیت بھی مرد اور عورت دونوں کے لئے ھیں، اسی لئے سزا کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِاٴةَ جَلْدَةٍ

”زنا کار عورت اور زنا کار مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگائے جا ئیں“۔

اس کے علاوہ دیگر آیات میں بھی ایک جیسے گناہ پردونوں کے لئے ایک جیسی سزا کا حکم سنایا گیا ھے۔

ارادہ و اختیار سے استقلال پیدا ھوتا ھے، اور اسلام یھی استقلال اقتصادی حقوق میں بھی نافذ کرتا ھے، اسلام بغیر کسی رکاوٹ کے عورت کو اس بات کی اجازت دیتا ھے کہ وہ ھر قسم کے مالی معاملات انجام دے اور عورت کو اس سرمایہ کا مالک شمار کرتا ھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

لِلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِمَّا اکْتَسَبْنَ

”مردوں کے لئے وہ حصہ ھے جو انھوں نے کمایا ھے اور عورتوں کے لئے وہ حصہ ھے جو انھوں نے کمایا ھے“۔

لغت میں ”اکتساب“ کے معنی کسب اور حاصل کرنے کے ھیں،اسی طرح ایک دو سرا قانون کلی ھے:

”النَّاسُ مُسَلِّطُونَ عَلَی اٴمْوَالِھِمْ“ یعنی تمام لوگ اپنے مال پر مسلط ھیں۔

 اس قانون کے پیش نظر یہ معلوم ھوتا ھے کہ اسلام عورت کے اقتصادی استقلال کا احترام کرتا ھے اور عورت مرد میں کسی فرق کا قائل نھیں ھے۔

خلاصہ یہ کہ اسلام کی نظر میں عورت؛ معاشرہ کا ایک بنیادی رکن ھے اسے ایک بے ارادہ، محکوم ، سر پرست کا محتاج سمجھنا خیال خام ھے۔

مساوات کے معنی میں غلط فھمی نہ ھو:

اسلام نے مساوات کی طرف خاص توجہ دی ھے اور ھمیں بھی متوجہ ھونا چاہئے لیکن خیال رھے کہ بعض لوگ بے سوچے سمجھے جذبات میں آکر افراط و تفریط کا شکار ھوجاتے ھیں اور مرد و عورت کے روحانی و جسمانی فرق اور ان کی ذمہ داریوں کے اختلاف تک سے انکار کر بیٹھتے ھیں۔

ھم جس چیز کا چاھیں انکار کریں تاھم اس حقیقت کا انکار نھیں کرسکتے کہ دو صنفوں میں جسمانی اور روحانی طور پر بہت فرق ھے، مختلف کتابوں میں اس کی تفصیلات موجود ھیں ،یھاں اس کی تکرار کی ضرورت نھیں، خلاصہ یہ کہ عورت وجودِ انسانی کی پیدائش کا ظرف ھے، نونھالوں کا رشد اسی کے دامن میں ھوتا ھے، جیسے وہ جسمانی طور پر آنے والی نسلوں کی پیدائش ،تربیت اور پرورش کے لئے پیدا کی گئی ھے اسی طرح روحانی طور پر بھی اسے عواطف ،احساسات اور جذبات کا زیادہ حصہ دیا گیا ھے ۔

ان وسیع اختلافات کے باوجود کیا یہ کھا جا سکتا ھے کہ مرد عورت کو تمام حالات میں ھم قدم ھونا چاہئے اور تمام کاموں میں سو فیصد مساوی ھونا چاہئے ؟!

کیا عدالت اور مساوات کے حامیوں کو معاشرے کے تقاضوں کے حوالے سے بات کرنا چاہئے ؟کیا یہ عدالت نھیں ھے کہ ھر شخص اپنی ذمہ داری پوری کرے اوراپنے وجود کی نعمتوں اور خوبیوں سے فیض یاب ھو؟اس لئے کیا عورت کا ایسے کاموں میں دخل اندازی کرنا جو اس کی روح اورجسم سے مناسبت نھیں رکھتے، خلاف ِعدالت نھیں ھے!

یھی وہ مقام ھے جھاں ھم دیکھتے ھیں کہ اسلام جو عدالت کا طرفدار ھے کئی ایک اجتماعی کاموں میں سختی یا زیادہ دقتِ نظروالے کاموںمثلاً گھر کے معاملات کی سر پرستی وغیرہ میںمرد کو مقدم رکھتا ھے اور معاونت وکمک کا مقام عورت کے سپرد کر دیتا ھے ۔

ایک گھر اور ایک معاشرے کومنتظم ھونے کی ضرورت ھو تی ھے اور نظم و ضبط کا آخری مرحلہ ایک ھی شخص کے ذریعہ انجام پانا چاہئے ورنہ کشمکش اور بے نظمی پیدا ھوگی۔

اگر تمام تعصبات سے بے نیاز ھو کر غور کیا جائے تو یہ واضح ھو جا ئے گا کہ مرد کی ساخت کے پیش نظر ضروری ھے کہ گھر کی سر پرستی اس کے ذمہ کی جائے اور عورت اس کی معاون ھو، اگر چہ کچھ لوگ ان حقائق سے چشم پوشی اختیار کرنے پرمُصر ھیں۔

آج کی دنیا میں بھی بلکہ ان اقوام میں بھی جو عورتوں کو مکمل آزادی ومساوات دینے کا دعویٰ کرتے ھیں،خارجی حالات زندگی اس بات کی نشاندھی کرتے ھیں کہ عملی طور پر وھی بات ھے جوھم بیان کر چکے ھیں اگر چہ باتیں اس کے برخلاف بناتے ھیں۔

عورت اور مرد کے معنوی اقدار

قرآن مجید نے مرد و عورت کو بارگاہ خداوندی اور معنوی مقامات کے لحاظ سے برابر شمار کیا ھے، اور جنس و جسمانی اختلاف ، نیزاجتماعی ذمہ داریوں کے اختلاف کو ترقی و کمال کی منزل حاصل کرنے کے لئے دلیل شمار نھیں کیا ھے بلکہ اس لحاظ سے دونوں کو بالکل برابر قرار دیا ھے، اسی وجہ سے دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا ھے، قرآن مجید کی بہت سی آیات اس وقت نازل ھوئی ھیں جس زمانہ میں متعدد اقوام و ملل عورت کو انسان سمجھنے میں شک کرتی تھیں اور اس کو نفرت و ذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا نیز عورت کو گناہ ، انحراف اور موت کا سر چشمہ سمجھا جاتا تھا!!

بہت سی گزشتہ اقوام تو یھاں تک مانتی تھی کہخداوندعالم کی بارگاہ میں عورت کی عبادت قبول نھیں ھے، بہت سے یونانی عورت کے وجود کو پست و ذلیل اور شیطانی عمل جانتے تھے، رومیوں اور بعض یونانیوں کایہ بھی عقیدہ تھا کہ عورت میں انسان کی روح نھیں ھوتی بلکہ انسانی روح صرف اور صرف مرد میں ھوتی ھے۔

قابل توجہ بات یہ ھے کہ انھیں آخری صدیوں میں اسپین کے عیسائی علمااس سلسلہ میں بحث و گفتگو کرتے تھے کہ کیا عورت؛ مرد کی طرح انسانی روح رکھتی ھے یا نھیں یا مرنے کے بعد اس کی روح جاویداں ھوجاتی ھے یا نھیں؟ اور بحث و گفتگو کے بعد اس نتیجہ پر پھنچے : چونکہ عورت کی روح؛ انسان و حیوان کے درمیان برزخ ھے (یعنی ایک حصہ انسانی روح ھے تو ایک حصہ حیوانی روح) لہٰذا اس کی روح جاویدانی نھیں ھے سوائے جناب مریم کے۔

یھاں سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ یہ تھمتیں جیسا کہ اسلام کو صحیح طور پر نہ سمجھنے والے افراد اعتراض کردیتے ھیں کہ اسلام تو صرف مردوں کا دین ھے ، عورتوں کا نھیں، واقعاً یہ بات کس قدر بیھودہ ھے، اصولی طور پر اگر عورت مرد کے جسمی اور عاطفی اور اجتماعی ذمہ داری کے فرق کے پیش نظر اسلامی قوانین پر غور و فکر کیا جائے تو عورت کی اھمیت اور عظمت پر ذرا بھی حرف نھیں آئے گا، اور اس لحاظ سے عورت مرد میں ذرا بھی فرق نھیں پایا جاتا، سعادت و خوشبختی کے دروازے دونوں کے لئے کھلے ھیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے: <بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ۔۔۔> (سب ایک جنس اور ایک معاشرہ سے تعلق رکھتے ھیں)

3۔ پردہ کا فلسفہ کیا ھے؟

بے شک عصر حاضر میں جس کو بعض لوگوں نے عریانی اور جنسی آزادی کا زمانہ قرار دیا ھے، اور مغرب نواز لوگوں نے اس کو عورتوں کی آزادی کا ایک حصہ قرار دیا ھے، لہٰذا ایسے لوگ پردہ کی باتوں کو سن کر منہ بناتے ھیں اور پردہ کو گزشتہ زمانہ کا ایک افسانہ شمار کرتے ھیں۔

لیکن اس آزادی اور بے راہ روی سے جس قدر فسادات اور برائیاں بڑھتی جارھی ھیں اتنا ھی پردہ کی باتوں پر توجہ کی جارھی ھے۔

البتہ اسلامی اور مذھبی معاشرہ میں خصوصاً ایرانی انقلاب کے بعد بہت سے مسائل حل ھوچکے ھیں اور بہت سے سوالات کا اطمینان بخش جواب دیا جا چکا ھے، لیکن چونکہ یہ مسئلہ بہت اھم ھے لہٰذا اس مسئلہ پر مزید بحث و گفتگو کی ضرورت ھے۔

مسئلہ یہ ھے کہ (بہت ھی معذرت کے ساتھ)کیا عورتوں سے (ھمبستری کے علاوہ) سننے ، دیکھنے اور لمس کرنے کی دوسری لذتیں تمام مردوں کے لئے ھيں یا صرف ان کے شوھروں سے مخصوص ھيں؟!

بحث اس میں ھے کہ عورتیں اپنے جسم کے مختلف اعضا کی نمائش کے ایک بے انتھا مقابلہ میں جوانوں کی شھوتوں کو بھڑکائیںاور آلودہ مردوں کی ھوس کا شکار بنیں یا یہ مسائل شوھروں سے متعلق ھيں؟!

اسلام اس دوسری قسم کا طرف دار ھے ، اور حجاب کو اسی لئے قرار دیا ھے، حالانکہ مغربی ممالک اور مغرب نواز لوگ پھلے نظریہ کے قائل ھیں۔

اسلام کہتا ھے کہ جنسی لذت اور دیکھنے ، سننے اور چھونے کی لذت شوھر سے مخصوص ھے اس کے علاوہ دوسرے کے لئے گناہ، آلودگی اور معاشرہ کے لئے ناپاکی کا سبب ھے۔

فلسفہ حجاب کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز نھیں ھے، کیونکہ:

۱۔ بے پردہ عورتیں معمولاً بناؤ سنگار اور دیگر زرق و برق کے ذریعہ جوانوں کے جذبات کو ابھارتی ھیں جس سے ان کے احساسات بھڑک اٹھتے ھیں اور بعض اوقات نفسیاتی امراض پیدا ھوجاتے ھیں،انسان کے احساسات کتنے ھیجان آور وزن کو برداشت کرسکتے ھيں؟ کیا نفسیاتی ڈاکٹر یہ نھیں کہتے کہھمیشہ انسان میں ھیجان سے بیماریاں پیدا ھوتی ھیں۔

خصوصاً جب یہ بھی معلوم ھو کہ جنسی غریزہ انسان کی سب سے بنیادی فطرت ھوتی ھے جس کی بنا پر تاریخ میں ایسے متعددخطر ناک حوادث اور واقعات ملتے ھیں جس کی بنیاد یھی چیز تھی،یھاں تک بعض لوگوں کا کھنا ھے: ”کوئی بھی اھم واقعہ نھیں ھوگا مگر یہ کہ اس میں عورت کا ھاتھ ضرور ھوگا“!

ھمیشہ بازاروںاور گلی کوچوں میں عریاں پھر کر احساس کو بھڑکانا؛ کیا آگ سے کھیلنا نھیں ھے؟ اور کیا یہ کام عقلمندی ھے؟!

اسلام تو یہ چاہتا ھے کہ مسلمان مرد اور عورت چین و سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں اور ان کی آنکھیں اور کان غلط کاموں سے محفوظ رھیں اور اس لحاظ سے مطمئن طور پر زندگی بسر کریں، پردہ کا ایک فلسفہ یہ بھی ھے۔

۲۔ مستند اور قطعی رپورٹ اس چیزکی گواھی دیتی ھیں کہ دنیا بھر میں جب سے بے پردگی بڑھی ھے اسی وقت سے طلاقوں میں بھی روز بروز اضافہ ھوتا جارھا ھے، کیونکہ ”ھر چہ دیدہ بیند دل کند یاد“  انسان جس کا عاشق ھوجاتا ھے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ھے لہٰذا انسان ھر روز ایک دلبرکو تلاش کرتا ھے تو دوسرے کو الوداع کہتا ھوا نظر آتا ھے۔

جس معاشرہ میں پردہ پایا جاتا ھے (اور اسلامی دیگر شرائط کی رعایت کی جاتی ھے) اس میں یہ رشتہ صرف میاں بیوی میں ھوتا ھے ان کے احساسات، عشق اور محبت ایک دوسرے کے لئے مخصوص ھوتے ھیں۔

لیکن ”اس آزادی کے بازار“ میں جبکہ عورتیں ؛ عملی طور پر ایک سامان کی حیثیت رکھتی ھیں (کم از کم جنسی ملاپ کے علاوہ) تو پھر ان کے لئے میاں بیوی کا عھد و پیمان کوئی مفھوم نھیں رکھتا، اور بہت سی شادیاں مکڑی کے جالے کی طرح بہت جلد ھی جدائی کی صورت اختیار کرلیتی ھیں، اور بچے بے سر پرست ھوجاتے ھیں۔

۳۔ فحاشی کا اس قدر عام ھوجانا اور نا جائز اولادیں پیدا ھونا؛ بے پردگی کے نتیجہ کا ایک معمولی سا درد ھے، جس کے بارے میں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نھیں ھے، یہ مسئلہ خصوصاً مغربی ممالک میں اس قدر واضح ھے جس کے بارے میں بیان کرناسورج کو چرا غ دکھاناھے، سبھی لوگ اس طرح کی چیزوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ سے سنتے رہتے ھیں۔

ھم یہ نھیں کہتے کہ فحاشی اور نا جائز بچوں کی پیدائش کی اصل وجہ یھی بے حجابی ھے،ھم یہ نھیں کہتے کہ مغربی ماحول اور غلط سیاسی مسائل اس میں موثر نھیں ھے، بلکہ ھمارا کھنا تو یہ ھے کہ عریانی اور بے پردگی اس کے موثر عوامل اور اسباب میں سے ایک ھے۔

فحاشی اور ناجائز اولاد کی پیداوار کی وجہ سے معاشرہ میں ظلم و ستم اور خون خرابہ میں اضافہ ھوا ھے، جس کے پیش نظر اس خطرناک مسئلہ کے پھلو واضح ھوجاتے ھیں۔

جس وقت ھم سنتے ھیں کہ ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں ھر سال پانچ لاکھ بچے ناجائز طریقے سے پیدا ھوتے ھیں، اور جب ھم سنتے ھیں کہ انگلینڈ کے بہت سے دانشوروں نے حکومتی عھدہ داروں کو یہ چیلنج دیا ھے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رھا تو ملک کی امنیت کو خطرہ ھے، (انھوں نے اخلاقی اور مذھبی مسائل کی بنیاد پر یہ چیلنج نھیں کیا ھے) بلکہ صرف اس وجہ سے کہ حرام زادے بچے معاشرہ کے امن و امان کے لئے خطرہ بنے ھوئے ھیں، کیونکہ جب ھمیں معلوم ھوتا ھے کہ عدالت کے مقدموں میں اس طرح کے افراد کا نام پایا جاتا ھے، تو واقعاً اس مسئلہ کی اھمیت کا اندازہ ھوتا ھے کہ جو لوگ دین و مذھب کو بھی نھیں مانتے ،اس برائی کے پھیلنے سے وہ بھی پریشان ھیں، لہٰذامعاشرہ میں جنسی فساد کو مزید پھیلانے والی چیزمعاشرہ کی امنیت کے لئے خطرہ شمار ھوتی ھے اور اس کے خطر ناک نتائج ھر طرح سے معاشرہ کے لئے نقصان دہ ھيں۔

تربیتی دانشوروں کی تحقیق بھی اسی بات کی عکاسی کرتی ھے کہ جن کالجوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ھیں یا جن اداروں میں مرد اور عورت ایک ساتھ کام کرتے ھیں اور ان کو ھر طرح کی آزادی ھے تو ایسے کالجوں میں پڑھائی کم ھوتی ھے اور اداروں میں کام کم ھوتا ھے اور ذمہ داری کا احساس بھی کم پایا جاتا ھے۔

۴۔ بے پردگی اور عریانی عورت کی عظمت کے زوال کا بھی باعث ھے، اگر معاشرہ عورت کو عریاں بدن دیکھنا چاھے گا تو فطری بات ھے کہ ھر روز اس کی آرائش کا تقاضا بڑھتا جائے گا اور اس کی نمائش میں اضافہ ھوتا جائے گا، جب عورت جنسی کشش کی بنا پر ساز و سامان کی تشھیر کا ذریعہ بن جائے گی ، انتظار گاھوںمیں دل لگی کا سامان ھوگی اور سیّاحوں کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گی تو معاشرہ میں اس کی حیثیت کھلونے یا بے قیمت مال و اسباب کی طرح گرجائے گی، اور اس کے شایانِ شان انسانی اقدار فراموش ھوجائیں گے، اور اس کا افتخار صرف اس کی جوانی، خوبصورتی اور نمائش تک محدود ھوکر رہ جائے گا۔

اس طرح سے وہ چند ناپاک فریب کار انسان نما درندوں کی سر کش ھواو ھوس پوری کرنے کے آلہٴ کار میں بدل جائے گی!۔

ایسے معاشرہ میں ایک عورت اپنی اخلاقی خصوصیات، علم و آگھی اور بصیرت کے جلووں کو کیسے پورا کرسکتی ھے اور کوئی بلند مقام کیسے حاصل کرسکتی ھے؟!

واقعاً یہ بات کتنی تکلیف دِہ ھے کہ مغربی اور مغرب زدہ ممالک میں عورت کا مقام کس قدر گرچکا ھے خود ھمارے ملک ایران میں انقلاب سے پھلے یہ حالت تھی کہ نام، شھرت، دولت اور حیثیت ان چند ناپاک اور بے لگام عورتوں کے لئے تھی جو ”فنکار“ اور آرٹسٹ کے نام سے مشھور تھیں، جھاں وہ قدم رکھتی تھیں اُس گندے ماحول کے ذمہ دار اُن کے لئے آنکھیں بچھاتے تھے اور انھیں خوش آمدید کہتے تھے۔

اللہ کا شکر ھے کہ ایران میں وہ سب گندگی ختم کردی گئی اور عورت اپنے اس دور سے نکل آئی ھے جس میں اسے رُسوا کردیا گیا تھا، اور وہ ثقافتی کھلونے اور بے قیمت ساز و سامان بن کر رہ گئی تھی، اب اس نے اپنا مقام و وقار دوبارہ حاصل کرلیا ھے اور اپنے کو پردہ سے ڈھانپ لیا ھے لیکن ایسا نھیں ھے کہ وہ گوشہ نشین ھوگئی ھو، بلکہ معاشرہ کے تمام مفید اور اصلاحی کاموں میں یھاں تک کہ میدان جنگ میں اسی اسلامی پردے کے ساتھ بڑی بڑی خدمات انجام دے رھی ھیں۔

حجاب کے مخالفین کے اعتراضات

(قارئین کرام!)  ھم یھاں پر حجاب کے مخالفین کے اعتراضات کو بیان کرتے ھیں اور مختصر طور پر ان کے جوابات بھی پیش کرتے ھیں:

۱۔ حجاب کے مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہ ھے کہ معاشرہ میں تقریباً نصف عورتیں ھوتی ھیں لیکن حجاب کی وجہ سے یہ عظیم جمعیت گوشہ نشین اور طبعی طور پر پسماندہ ھوجائے گی ، خصوصاً جب انسان کو کاروبار کی ضرورت ھوتی ھے اور انسانی کار کردگی کی ضرورت ھوتی ھے، تو اگر عورتیں پردہ میں رھیں گی تو اقتصادی کاموں میں ان سے فائدہ نھیں اٹھایا جاسکتا، نیز ثقافتی اور اجتماعی اداروں میں ان کی جگہ خالی رھے گی! اس طرح وہ معاشرہ میں صرف خرچ کریں گی اور معاشرہ کے لئے بوجھ بن کر رہ جائےں گی۔

لیکن جن لوگوں نے یہ اعتراض کیا ھے وہ چند چیزوں سے غافل ھیں یا انھوںنے اپنے کو غافل بنا لیا ھے، کیونکہ:

اولاً : یہ کون کہتا ھے کہ اسلامی پردہ کی وجہ سے عورتیں گوشہ نشین اور معاشرہ سے دور ھوجائیں گی؟ اگر گزشتہ زمانہ میں اس طرح کی دلیل لانے میں زحمت تھی تو آج اسلامی انقلاب (ایران) نے ثابت کر دکھایا ھے کہ عورتیں اسلامی پردہ میں رہ کر بھی معاشرہ کے لئے بہت سے کام انجام دے سکتی ھيں، کیونکہ ھم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ھے کہ خواتین ؛اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ھوئے معاشرہ میں ھر جگہ حاضر ھيں، اداروں میں، کار خانوں میں، سیاسی مظاھروں میں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں، ھسپتالوں میں، کلینکوں میں، خصوصاً جنگ کے دوران جنگی زخمیوں کی مرھم پٹی اور ان کی نگھداشت کے لئے، مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں، دشمن کے مقابلہ میں میدان جنگ میں، خلاصہ ھر مقام پر عورتوں نے اپنا کردار ادا کیا ھے۔

مختصر یہ کہ موجودہ حالات خوداس اعتراض کا دندان شکن جواب ھيں، اگرچہ ھم گزشتہ زمانہ میں ان جوابات کے لئے ”امکان“ کی باتیں کرتے تھے (یعنی عورتیں پردہ میں رہ کر کیا اجتماعی امور کو انجام دے سکتی ھیں) لیکن آج کل یہ دیکھ رھے ھیں، اور فلاسفہ کا کھنا ھے کہ کسی چیز کے امکان کی دلیل خود اس چیز کا واقع ھونا ھے، یہ بات خود آشکار ھے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نھیں ھے۔

ثانیاً: اگر ان چیزوں سے قطع نظر کریں تو کیا عورتوں کے لئے گھر میں رہ کر بچوں کی تربیت کرنا اور ان کو آئندہ کے لئے بہترین انسان بنانا تاکہ معاشرہ کے لئے بہترین اور مفید واقع ھوں، کیا یہ ایک بہتر ین اور مفید کام نھیں ھے؟

جو لوگ عورتوں کی اس ذمہ داری کو مثبت اور مفید کام نھیں سمجھتے، تو پھر وہ لوگ تعلیم و تربیت، صحیح و سالم اور پر رونق معاشرہ کی اھمیت سے بے خبر ھیں، ان لوگوں کا گمان ھے کہ مردو عورت مغربی ممالک کی طرح اداروں اور کارخانوں میں کام کرنے کے لئے نکل پڑیں اور اپنے بچوں کو شیر خوار گاھوں میں چھوڑ دیں، یا کمرہ میں بند کرکے تالا لگا دیا جائے اور ان کو اسی زمانہ سے قید کی سختی کا مزا چکھادیں۔

وہ لوگ اس چیز سے غافل ھیں کہ اس طرح بچوں کی شخصیت اور اھمیت درھم و برھم ھوجاتی ھے، بچوں میں انسانی محبت پیدا نھیں ھوتی،جس سے معاشرہ کو خطرہ در پیش ھوگا۔

 ۲۔ پردہ کے مخالفین کا دوسرا اعتراض یہ ھے کہ پردہ کے لئے برقع یا چادر کے ساتھ اجتماعی کاموں کو انجام نھیں دیا جاسکتا خصوصاً آج جبکہ ماڈرن گاڑیوں کا دور ھے، ایک پردہ دار عورت اپنے کو سنبھالے یا اپنی چادر کو ، یا اپنے بچہ کو یا اپنے کام میں مشغول رھے؟!۔

لیکن یہ اعتراض کرنے والے اس بات سے غافل ھیں کہ حجاب ھمیشہ برقع یاچادر کے معنی میں نھیں ھے بلکہ حجاب کے معنی عورت کا لباس ھے اگر چادر سے پردہ ھوسکتا ھو تو بہتر ھے ورنہ اگر امکان نھیں ھے تو صرف اسی لباس پر اکتفا کرے (یعنی صرف اسکاف کے ذریعہ اپنے سر کے بال اور گردن وغیرہ کو چھپائے رکھیں)

ھمارے دیھی علاقوں کی عورتوں نے زراعتی کاموں میں اپنا پردہ با قی رکھتے ھو ئے یہ ثابت کردکھایا ھے کہ ایک بستی کی رھنے والی عورت اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ھوئے بہت سے اھم کام بلکہ مردوں سے بہتر کام کرسکتی ھیں، اور ان کا حجاب ان کے کام میں رکاوٹ نھیں بنتا۔

۳۔ ان کا ایک اعتراض یہ ھے کہ پردہ کی وجہ سے مرد اور عورت میں ایک طرح سے فاصلہ ھوجاتا ھے جس سے مردوں میں دیکھنے کی طمع بھڑکتی ھے، اور ان کے جذبات مزید شعلہ ور ھوتے ھیں کیونکہ ”الإنسَانُ حَرِیصٌ عَلٰی مَا مُنِعَ“!( جس چیز سے انسان کو روکا جاتا ھے اس کی طرف مزید دوڑتا ھے)

اس اعتراض کا جواب یا صحیح الفاظ میں یہ کھا جائے کہ اس مغالطہ کا جواب یہ ھے کہ آج کے معاشرہ کا شاہ کے زمانہ سے موازنہ کیا جائے آج ھر ادارہ میں پردہ حکم فرما ھے، اور شاہ کے زمانہ میں عورتوں کو پردہ کرنے سے روکا جاتا تھا۔

اس زمانہ میں ھر گلی کوچہ میں فحاشی کے اڈے تھے، گھروں میں بہت ھی عجیب و غر یب ماحول پایا جاتا تھا، طلاق کی کثرت تھی ناجائز اولاد کی تعداد زیادہ تھی، وغیرہ وغیرہ۔

ھم یہ نھیں کہتے کہ اب یہ تمام چیزیں بالکل ختم ھوگئی ھیں لیکن بے شک اس میں بہت کمی واقع ھوئی ھے، ھمارے معاشرہ میں بہت سدھار آیا ھے اور اگر فضل خدا شامل حال رھا اور یھی حالات باقی رھے اور دوسری مشکلات بر طرف ھو گئی تو ھمارا معاشرہ اس برائی سے بالکل پاک ھوجائے گا اور عورت کی اھمیت اجاگر ھوتی جائے گی۔

4۔ میراث میں مرد کا حصہ عورت کے دو برابر کیوں ھے؟

اگرچہ میراث میں مرد کا حصہ عورت کے دو برابر ھے ، لیکن اگر غور و فکر کریں تو معلوم ھوگا کہ عورتوں کا حصہ مردوں کے دو برابر ھے! اور یہ اس وجہ سے ھے کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کی حمایت کی ھے۔

وضاحت:  اسلام نے مرد کے کاندھوں پر ایسی ذمہ داری رکھی ھے جس سے اس کی در آمد کا آدھا حصہ عورتوں پر خرچ ھوتا ھے، جبکہ عورتوں کے ذمہ کوئی خرچ نھیں ھے،چنا نچہ ایک شوھر پر واجب ھے کہ اپنی زوجہ کو ؛ مکان، لباس، کھانا اور دوسری چیزوں کا خرچ ادا کرے، اور اپنے بچوں کا خرچ بھی اسی کی گردن پر ھے، جبکہ عورتوں پر کسی طرح کا کوئی خرچ نھیں ھے یھاں تک کہ اپنا ذاتی خرچ بھی اس کے ذمہ نھیں ھے، لہٰذا ایک عورت میراث سے اپنا پورا حصہ بچا کر بینک میں رکھ سکتی ھے، جبکہ مرد اپنے حصہ کو بیوی بچوں پر خرچ کرتا ھے، جس کا نتیجہ یہ ھوگا کہ مرد کی آمدنی کا آدھا حصہ اھل و عیال پر خرچ ھوگا، اور آدھا اس کے لئے باقی رھے گا، جبکہ عورت کا حصہ اسی طرح محفوظ رھے گا۔

یہ مسئلہ وا ضح ھو نے کے لئے اس مثال پر توجہ کریں: فرض کریں کہ پوری دنیا کا مال و دولت ۳۰  ارب روپیہ ھے، جو میراث کے عنوان سے مردووں اور عورتوںمیں تقسیم ھونا ھے، تو اس میں ۲۰ ارب مردوں کا اور ۱۰ ارب عورتوں کا حصہ ھوگا، لیکن عورتیں عام طور پر شادی کرتی ھیں اور ان کی زندگی کا خرچ مردوں کے ذمہ ھوتا ھے، تو اس صورت میں عورتیں اپنے ۱۰ ارب کو بینک میں جمع کر سکتی ھیں، اور عملی طور پر مردوں کے حصہ میں شریک ھوتی ھیں، کیونکہ خود ان پر اور بچوں پر بھی مرد ھی کا حصہ خرچ ھوگا۔ اس بنا پر حقیقت میں مردوں کا آدھا حصہ یعنی ۱۰ ارب عورتوں پر خرچ ھوگا، اور وہ دس ارب جو ان کے پاس محفوظ ھے سب ملاکر ۲۰ ارب (یعنی دو تھائی) عو رتوں کے اختیار میں ھوگا، جبکہ عملی طور پر مردوں کے خرچ کے لئے صرف دس ارب ھی باقی رھے گا۔

نتیجہ یہ ھوا کہ عورتوں کا حقیقی خرچ اور فائدہ کے لحاظ سے مردوں کے دو برابر ھے، اور یہ فرق اس وجہ سے ھے کہ ان کے یھاں کاروبار کرنے کی قدرت کم پائی جاتی ھے، اور یہ ایک طرح سے منطقی اور عادلانہ حمایت ھے جس پر اسلام نے عورتوں کے لئے توجہ دی ھے، حقیقت میں ان کا حصہ زیادہ رکھا ھے، اگرچہ ظاھری طور پر ان کا حصہ مردوں سے آدھا رکھا ھے۔

 اسلامی روایات کے پیش نظر یہ معلوم ھوتا ھے کہ مذکورہ سوال پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ سے لوگوں کے ذھن میں موجود تھا جس کی بنا پر دینی رھبروں سے یہ سوال ھوتا رھا ھے، اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی طرف سے اس کا جواب دیا گیا ھے جن میں سے اکثر کا مضمون ایک ھی ھے، اور وہ جواب یہ ھے: ”خداوندعالم نے زندگی کا خرچ اور مھر مرد کے ذمہ رکھا ھے، اسی وجہ سے ان کا حصہ زیادہ قرار دیا ھے“۔

کتاب ”معانی الاخبار“ میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ھے کہ اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: ”میراث میں عورتوں کا حصہ مردوں کے حصہ سے آدھا اس وجہ سے رکھا گیا ھے کہ عورت جب شادی کرتی ھے تو وہ مھر لیتی ھے اور مرد دیتا ھے، اس کے علاوہ بیوی کا خرچ شوھر پر ھے، جبکہ عورت خود اپنی اور شوھر کی زندگی کے خرچ کے سلسلہ میں کوئی ذمہ داری نھیں رکھتی“۔

5۔ فلسفہ متعہ کیا ھے؟

یہ ایک عام اور کلی قانون ھے کہ اگر انسان کی طبیعی خواھشات صحیح طریقہ سے پوری نہ ھوں تو پھر اس کو پورا کرنے کے لئے غلط راستہ اپنانا پڑتا ھے، کیونکہ اس حقیقت کا انکار نھیں کیا جاسکتا کہ طبیعی خواھشات کا گلا نھیں گھوٹا جاسکتا ، اور اگر بالفرض ایسا کربھی لیا جائے تو ایسا کام عقلی نھیں ھے، کیونکہ یہ کام ایک طرح سے قانونِ خلقت سے جنگ ھے۔

اس بنا پر صحیح راستہ یہ ھے کہ اس کو معقول طریقہ سے پورا کیا جائے اور اس سے زندگی بہتربنانے کے لئے فائدہ اٹھایا جائے۔

اس بات کا بھی انکار نھیں کیا جاسکتا کہ جنسی خواھش انسان کی بہت بڑی خواھش ھوتی ھے، یھاں تک کہ بعض ماھرین کا کھنا ھے کہ جنسی خواھش ھی انسان کی اصل خواھش ھوتی ھے اور باقی دوسری خواھشات کی بازگشت اسی طرف ھوتی ھیں۔

اب یھاں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ بہت سے مواقع ایسے ھیں جن میں انسان خاص عمر میں شادی نھیں کرسکتا، یا شادی شدہ انسان طولانی سفر میں یہ جنسی خواھش پوری نھیں کرسکتا۔

یہ موضوع خصوصاً ھمارے زمانہ میں تعلیم کی مدت طولانی ھونے کے سبب اور بعض دیگرمسائل اور مشکلات کی بنا پر شادی دیر سے ھوتی ھے، اور بہت ھی کم نوجوان ایسے ھیں جو جوانی کے شروع اور اس خواھش کے شباب کے وقت شادی کرسکتے ھیں، لہٰذا یہ مسئلہ بہت مشکل بن گیا ھے۔

  اس موقع پر کیا کیا جائے؟ کیاایسے مواقع پر لوگوں کی اس خواھش کا (راھبوںکی طرح) گلا گھوٹ دیا جائے ؟ یا یہ کہ ان کو جنسی آزادی دے دی جائے اور عصر حاضر کی شرمناک حالت کو ان کے لئے جائز سمجھ لیا جائے؟

یاایک تیسرا راستہ اپنایا جائے جس میں نہ شادی جیسی مشکلات ھوں اور نہ ھی جنسی آزادی؟

المختصر: ”دائمی ازدواج“ (شادی) نہ گزشتہ زمانہ میں تمام لوگوں کی اس خواھش کا جواب بن سکتی تھی اور نہ آج، اور ھم ایک ایسے مقام پر کھڑے ھیں جھاں سے دو راستے نکلتے ھیں، یا ”فحاشی“ کو جائز مان لیں، (جیسا کہ مغربی ممالک میں آج کل رسمی طور پر صحیح مانا جارھا ھے) یا ”وقتی ازواج“ (یعنی متعہ)کوقبول کریں، معلوم نھیں ھے جو لوگ متعہ کے مخالف ھیں انھوں نے اس سوال کے لئے کیا جواب سوچ رکھا ھے؟!

متعہ کا مسئلہ نہ تو شادی جیسی مشکلات رکھتا ھے کہ انسان کو اقتصادی یا تعلیمی مسائل اجازت نھیں دیتے کہ فوراً شادی کرلے اور نہ ھی اس میںفحاشی کے درد ناک حادثات پیش آتے ھیں۔

متعہ پر ھونے والے اعتراضات

ھم یھاں متعہ کے سلسلہ میں کئے گئے کچھ اعتراضات کا مختصر جواب پیش کرتے ھیں:

۱۔ کبھی تو یہ کھا جاتا ھے کہ ”متعہ“ اور ”فحاشی“ میں کیا فرق ھے؟ دونوں ایک خاص مَبلَغ کے عوض”جسم فروشی“ ھی توھيں، در اصل یہ تو فحاشی اور جنس بازی کے لئے ایک نقاب ھے ، صرف ان دونوں میں چند صیغوں کا فرق ھے!!۔

جواب:  ان لو گوںکے اعتراض سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ یہ لوگ متعہ کے سلسلہ میں معلومات نھیں رکھتے، کیونکہ متعہ صرف دو جملہ کھنے سے تمام نھیں ھوتابلکہ بعض قوانین، شادی کی طرح ھوتے ھیں، یعنی ایسی عورت متعہ کی مدت میں صرف اسی مرد سے مخصوص ھے، اور مدت تمام ھونے کے بعد عدہ رکھنا ضروری ھے یعنی کم سے کم ۴۵ دن تک کسی دوسرے سے شادی یا متعہ نھیں کرسکتی، تاکہ اگر پھلے شوھر سے حاملہ ھوگئی ھے توواضح ھوجائے، یھاں تک کہ اگر مانعِ حمل چیزیںاستعمال کی ھوں تو اس مدت کی رعایت کرنا واجب ھے، اور اگر اس مرد سے حاملہ ھوگئی ھے تو یہ بچہ اس مرد کا ھوگا اور اولاد کے تمام مسائل اس پر نافذ ھوں گے، جبکہ فحاشی میں اس طرح کی کوئی قید و شرط نھیں ھے، پس معلوم یہ ھوا کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ھے۔

اگرچہ (میاں بیوی کے درمیان) میراث ، خرچ اور دوسرے احکام میں شادی اور متعہ میں فرق پایا جاتا ھے، لیکن اس فرق کی وجہ سے متعہ کو فحاشی کی صف میں قرار نھیں دیا جاسکتا، بھر حال یہ بھی شادی کی ایک قسم ھے اور شادی کے متعدد قوانین اس پر نافذ ھوتے ھیں۔

۲۔ متعہ پر دوسرا اعتراض یہ ھوتا ھے کہ اس قانون کے پیچھے بہت سے عیاش لوگ غلط فائدہ اٹھا سکتے ھیں، اور متعہ کی آڑ میں ھر طرح کی فحاشی کرسکتے ھیں، جبکہ اس کی اجازت نہ ھونے کی صورت میں بعض شریف انسان متعہ سے دور رہتے ھیں، اور شریف خواتین اس سے پرھیز کرتی ھیں۔

        جواب:  دنیا میں کس قانون سے غلط فائدہ نھیں اٹھایا جارھا ھے؟ کیا ھر فطری قانون کو اس لئے ختم کردیا جائے کہ اس سے غلط فائدہ اٹھایا جارھا ھے! ھمیں غلط فائدہ اٹھانے والوں کو روکنا چاہئے۔

مثال کے طور پر اگر بہت سے لوگ حج کے موقع سے غلط فائدہ اٹھانا چاھیں (جیسا کہ دیکھا گیا ھے) اور اس مبارک سفر میں منشیات کی تجارت کے لئے جائیں، تو کیا اس صورت میں لوگوں کو حج سے روکا جائے یا غلط فائدہ اٹھانے والوں کو روکا جائے؟!

اور اگر ھم دیکھتے ھیں کہ آج شریف انسان اس اسلامی قانون سے پرھیز کرتے ھیں، تو یہ قانون کا نقص نھیں ھے بلکہ قانون پر عمل کرنے والوں یا غلط فائدہ اٹھانے والوں کا نقص ھے، اگر آج ھمارے معاشرہ میں صحیح طریقہ پر متعہ کا رواج ھوجائے اور اسلامی حکومت خاص قوانین کے تحت اس سلسلہ میںصحیح منصوبہ بندی کرے ، تو اس صورت میں غلط فائدہ اٹھانے والوں کی روک تھام ھوسکتی ھے (اور ضرورت کے وقت ) شریف لوگ بھی اس سے کراہت نھیں کریں گے۔

۳۔ اعتراض کرنے والے کہتے ھیں: متعہ کی وجہ سے معاشرہ میں (ناجائز بچوں کی طرح) بے سرپرست بچوں کی تعداد میں اضافہ ھوجائے گا۔

جواب:  ھماری مذکورہ گفتگو مکمل طور پر اس اعتراض کا جواب ھے، کیونکہ ناجائز بچے قانونی لحاظ سے نہ باپ سے ملحق ھیں اور نہ ماں سے، جبکہ متعہ کے ذریعہ پیدا ھونے والے بچوں میں میراث اور اجتماعی حقوق کے لحاظ سے شادی سے پیدا ھونے والے بچوں سے کوئی فرق نھیں ھے، گویا اس حقیقت پر توجہ نہ کرنے کی وجہ سے مذکورہ اعتراض کیا گیا ھے۔

”راسل“ اور ”وقتی شادی“

آخر کلام میں مناسب معلوم ھوتا ھے کہ اس بات کی یاد دھانی کرادی جائے کہ مشھور و معروف انگریزی دانشور ”برٹرانڈ راسل “ کتاب ”زنا شوئی و اخلاق“ میں ”آزمائشی شادی“ کے عنوان سے اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ھے۔

 وہ ایک جج بنام ” بن بی لینڈسی“ کی تجویز ”دوستانہ شادی“ یا ”آزمائشی شادی“ کا ذکر کرنے کے بعد کہتا ھے:

جج صاحب موصوف کی تجویز کے مطابق جوانوں کو یہ اختیار ملنا چاہئے کہ ایک نئی قسم کی شادی کرسکیں جو عام شادی (دائمی نکاح) سے تین امور میں مختلف ھو:

الف: طرفین کا مقصد صاحب اولاد ھونا نہ ھو، اس سلسلہ میں ضروری ھے کہ انھیں حمل روکنے کے طریقہ سکھائے جائیں۔

ب۔ ان کی جدائی آسانی کے ساتھ ھوسکے۔

ج۔ طلاق کے بعد عورت کسی قسم کا نان و نفقہ کا حق نہ رکھتی ھو۔

راسل جج لینڈسی کا مقصد بیان کرنے کے بعد کہتا ھے: ”میرا خیال ھے کہ اس قسم کی شادی کو قانونی حیثیت دے دی جائے تو بہت سے نوجوان خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم وقتی نکاح پر تیار ھوجائیں گے اور وقتی مشترک زندگی میں قدم رکھیں گے، ایسی زندگی سے جو ان کی آزادی کا سبب بنے، تو اس طرح معاشرہ کی بہت سی خرابیوں، لڑائی جھگڑوں خصوصاً جنسی بے راہ روی سے نجات مل جائے گی۔

بھر حال جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ وقتی شادی کے بارے میں مذکورہ تجویز کس لحاظ سے اسلامی حکم کی طرح ھے، لیکن جو شرائط اور خصوصیات اسلام نے وقتی شادی کے لئے تجویز کی ھیں وہ کئی لحاظ سے زیادہ واضح اور مکمل ھیں، اسلامی وقتی شادی میں اولاد نہ ھونے کو ممنوع نھیں کیا گیا ھے اور فریقین کا ایک دوسرے سے جدا ھونا بھی آسان ھے، جدائی کے بعد نان و نفقہ بھی نھیں ھے

متعہ کی تاریخی حیثیت

علمائے اسلام کا اتفاق ھے بلکہ دین کے ضروری احکام میں سے ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں ”متعہ“ تھا، (اور سورہ نساء کی آیہٴ شریفہ <فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ اٴُجُورَہُنَّ فَرِیضَة> متعہ کے جواز پر دلیل ھے ، کیونکہ مخالف اس بات پر عقیدہ رکھتے ھیں کہ متعہ کا جواز سنت پیغمبر سے ثابت ھے) یھاں تک صدر اسلام میں مسلمان اس پر عمل کیا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت عمر کا یہ مشھور و معروف قول مختلف کتابوں میں ملتا ھے :

”مُتْعَتَانِ کَانَتَا عَلَی عَھْدِ رَسُولِ الله وَاٴنَا اُحرِّمُھُمَا وَ مُعَاقِب عَلَیْھِمَا: مُتعَةُ النِّسَاءِ وَ مُتْعَةُ الحجِّ“

”دو متعہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں رائج تھے اور میں ان کو حرام قرار دیتا ھوں، اورانجام دینے والوں کو سزا دوں گا، متعة النساء اور حج تمتع (جو حج کی ایک خاص قسم ھے)، چنانچہ حضرت عمر کا یہ قول اس بات کی واضح دلیل ھے کہ متعہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں ھوتا تھا، لیکن اس حکم کے مخالف کہتے ھیں کہ یہ حکم بعد میں نسخ ھوگیا ھے اور حرام قرار دیا گیا ھے۔

لیکن قابل توجہ بات یہ ھے کہ جن روایات کو ”حکم متعہ کے نسخ“ کے لئے دلیل قرار دیا جاتا ھے ان میں بہت اختلا ف پایا جا تا ھے، چنانچہ بعض روایات کہتی ھیں کہ خود پیغمبر اکرم (ص)نے اس حکم کو نسخ کیا ھے، لہٰذا اس حکم کی ناسخ خود پیغمبر اکرم (ص)کی سنت اور حدیث ھے، بعض کہتی ھیں کہ اس حکم کی ناسخ سورہ طلاق کی درج ذیل آیت ھے:

إِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاٴَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللهَ رَبَّکُمْ

”جب تم لو گ عورتوں کو طلاق دو تو انھیں عدت کے حساب سے طلاق دو اور پھر عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے ڈرتے رھو“۔

 حالانکہ اس آیہٴ شریفہ کا محل بحث سے کوئی تعلق نھیں ھے، کیونکہ اس آیت میں طلاق کی گفتگو ھے، جبکہ متعہ میں طلاق نھیں ھوتی متعہ میں مدت ختم ھونے سے جدائی ھوجاتی ھے۔

یہ بات مسلم ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں متعہ قطعی طور پر پایا جاتا تھا، اور اس کے نسخ ھونے پر کوئی محکم دلیل ھمارے پاس نھیں ھے، لہٰذا علم اصول کے قانون کے مطابق اس حکم کے باقی رھنے پر حکم کیا جائے گا، (جسے علم اصول کی اصطلاح میں استصحاب کھا جاتا ھے)۔

حضرت عمر سے منقول جملہ بھی اس حقیقت پر واضح دلیل ھے کہ متعہ کا حکم پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں نسخ نھیں ھوا تھا۔

اور یہ بات بھی واضح ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے علاوہ کوئی بھی شخص احکام کو نسخ کرنے کا حق نھیں رکھتا، اور صرف آنحضرت (ص)کی ذات مبارک ھی حکم خدا کے ذریعہ بعض احکام کو نسخ کرسکتی ھے، پیغمبر اکرم (ص)کی وفات کے بعد باب نسخ بالکل بند ھوچکا ھے ، اور اگر کوئی اپنے اجتھاد کے ذریعہ بعض احکام کو منسوخ کرے تو پھر اس دائمی شریعت میں کوئی چیز باقی نھیں رھے گی ، اور اصولی طور پر پیغمبر اکرم (ص)کی گفتگو کے مقابل اجتھاد کرے تو یہ ”اجتھاد مقابلِ نص“ ھوگا جس کا کوئی اعتبار نھیں ھے۔

مزے کی بات تو یہ ھے کہ صحیح ترمذی جو اھل سنت کی مشھور صحیح ترین کتابوں میں سے ھے،اور”دار قطنی“میں تحریر ھے: ”ایک شامی شخص نے عبد اللہ بن عمر سے”حج تمتع“ کے بارے میں سوال کیا توعبد اللہ بن عمر نے کھا: یہ کام جائز اور بہتر ھے ، اس شامی نے کھا: تمھارے باپ نے اس کو ممنوع قراردیا ھے، تو عبداللہ بن عمر بہت ناراض ھوئے اور کھا: اگر میرا باپ کسی کام سے نھی کرے، جبکہ پیغمبر اکرم (ص)نے اس کی اجازت دی ھو تو کیا تم لوگ سنت پیغمبر کو چھوڑ کر میرے باپ کی پیروی کروگے؟ یھاں سے چلے جاؤ

متعہ کے سلسلہ میں اسی طرح کی روایت”عبد اللہ بن عمر “ سے صحیح ترمذی میں بھی نقل ھوئی ھے،

اور ”محاضرات“ راغب سے نقل ھوا ھے کہ ایک مسلمان نے متعہ کیا تو لوگوں نے سوال کیا کہ اس کام کے جوازکا حکم کس سے حاصل کیا ھے؟ تو اس نے کھا: ”عمر“ سے! لوگوں نے تعجب کے ساتھ سوال کیا: یہ کیسے ممکن ھوسکتا ھے جبکہ خود عمر نے اس کام سے روکا ھے یھاں تک کہ انجام دینے والے کے لئے سزا کا وعدہ کیا ھے؟ تو اس نے کھا: ٹھیک ھے، میں بھی تو اسی وجہ سے کہتا ھوں، کیونکہ عمر نے کھا: پیغمبر اکرم  (ص)نے اس کو حلال کیا تھالیکن میں اس کو حرام کرتا ھوں، میں نے اس کا جواز پیغمبر اکرم (ص)سے لیا، لیکن اس کی حرمت کسی سے قبول نھیں کروں گا!

یھاں پر اس بات کی یاد دھانی ضروری ھے کہ اس حکم کے منسوخ ھونے کا دعویٰ کرنے والے بھی متضاد بیانات رکھتے ھیں اور تناقض اور تضاد گوئی کے شکار نظر آتے ھیں:

اھل سنت کی معتبر کتابوں میں متعدد روایات اس بات کی وضاحت کرتی ھیں کہ یہ حکم پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں ھرگز منسوخ نھیں ھوا تھا، بلکہ عمر نے اس کو ممنو ع قرار دیاھے، لہٰذا اس حکم کو   منسوخ ماننے والی ان تمام روایات کا جواب دیں، ان روایات کی تعداد ۲۴ ھے، جن کو علامہ امینی علیہ الرحمہ نے اپنی نامور کتاب ”الغدیر“ کی چھٹی جلد میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ھے،ھم یھاں پر ان میں سے دو نمونے پیش کرتے ھیں:

صحیح مسلم میں جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل ھوا ھے کہ انھوں نے کھا: ھم پیغمبر اکرم  کے زمانہ میں بہت آسانی سے متعہ کرلیتے تھے، اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رھا یھاں تک کہ عمر نے ”عمر بن حریث“ کے مسئلہ میں اس کام سے بالکل روک دیا

دوسری حدیث کتاب ”موطاٴ بن مالک“، ”سنن کبریٰ بیہقی“  اور ”عروہ بن زبیر“ سے نقل ھوئی ھے کہ ”خولہ بن حکیم“ نامی عورت حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں دربار میں حاضر ھوئی اور اس نے خبر دی کہ مسلمانوں میں ایک شخص ”ربیعہ بن امیہ“ نامی نے متعہ کیا ھے، تو یہ سن کر حضرت عمر نے کھا: اگر پھلے سے اس کام کی نھی کی ھوتی تو اس کو سنگسار کردیتا ،(لیکن آج سے اس کام پر پابندی لگاتا ھوں!)

کتاب بدایة المجتھد، تالیف ابن رشد اندلسی میں بھی تحریر ھے کہ جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ھیں: ”پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں اور ”ابوبکر“ کی خلافت اور”عمر“ کی آدھی خلافت تک متعہ پر عمل ھو تا تھا اس کے بعد عمر نے منع کردیا“۔

دوسری مشکل یہ ھے کہ اس حکم کے منسوخ ھونے کی حکایت کرنے والی روایات میں ضد ونقیض باتیں  ھیں، بعض کہتی ھیں: یہ حکم جنگ خیبر میں منسوخ ھوا ھے، بعض کہتی ھیں کہ ”روز فتح مکہ“ منسوخ ھوا اور بعض کہتی ھیں جنگ تبوک میں، نیز بعض کہتی ھیں کہ جنگ اوطاس میں منسوخ ھوا، لہٰذا ان تمام چیزوں سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ یہ تمام روایات جعلی ھیں جن میں اس قدر تناقض اور ٹکراؤ پایا جاتا ھے۔

(قارئین کرام!)  ھماری گفتگو سے یہ بات روشن ھوجاتی ھے کہ صاحب تفسیر المنار (دور حاضر کے سنی عالم ) کی گفتگو تعصب اور ہٹ دھرمی پر مبنی ھے، جیسا کہ موصوف کہتے ھیں: ”ھم نے پھلے تفسیر المنارکی تیسری اور چوتھی جلد میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ عمر نے متعہ سے منع کیا ھے لیکن بعد میں ایسی روایات ملی ھیں جن سے معلوم ھوتا ھے کہ متعہ کا حکم خود پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں منسوخ ھوگیا تھا نہ کہ زمانہ عمر میں منسوخ ھوا، لہٰذا اپنی گزشتہ بات کی اصلاح کرتے ھیں اور اس سے استغفار کرتے ھیں“۔یہ تعصب نھیں تو اور کیا ھے؟! کیونکہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں متعہ کا حکم منسوخ ھونے کی حکایت کرنے والی ضد و نقیض روایات کے مقابل ایسی روایات موجود ھیں جو اس بات کی حکایت کرتی ھیں کہ یہ حکم حضرت عمر کے زمانہ میں بھی تھا، لہٰذا نہ تو معافی کی گنجائش ھے اور نہ توبہ و استغفار کی ، اور جیسا کہ ھم نے پھلے بھی عرض کیا کہ اس معاصر کا پھلا نظریہ حقیقت ھے اور دوسرے نظریہ میں حقیقت کو چھپانے کی ناکام کوشش کی ھے!

ہ بات یونھی ظاھر ھے کہ نہ تو ”عمر“ اور نہ کوئی دوسرا شخص یھاں تک ائمہ معصومین علیھم السلام جو کہ پیغمبر اکرم (ص)کے حقیقی جانشین ھیں، کسی کو یہ حق نھیں ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں موجود احکام کو منسوخ کرے، اور اصولی طور پر آنحضرت (ص)کی وفات کے بعد اور وحی کا سلسلہ بند ھونے کے بعد نسخ معنی نھیں رکھتا، اور جیسا کہ بعض لوگوں نے ”کلامِ عمر“ کو اجتھاد پر حمل کیا ھے کہ یہ حضرت عمر کا اجتھاد ھے، یہ بھی تعجب کا مقام ھے کیونکہ ”نص“ کے مقابلہ میں ”اجتھاد“ ممکن ھی نھیں

6۔ عدّہ کا فلسفہ کیا ھے؟

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوا :

وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاٴَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ

 ”مطلقہ عورتیں تین حیض تک انتظار کر یں گی، (اور عدہ رکھیں گی)“۔

یھاں پر سوال یہ ھوتا ھے کہ اس اسلامی قانون کا فلسفہ کیا ھے؟

چونکہ طلاق کے ذریعہ معمولاً گھر اجڑنے لگتا ھے اور معاشرہ کا ناقابل تلافی نقصان ھوتا ھے، اسی وجہ سے اسلام نے ایسا قانون پیش کیا ھے تاکہ آخری منزل تک طلاق سے روک تھام ھو سکے، ایک طرف تو ”اس کوجائز کاموں میں سب سے زیادہ قابل نفرت“ قرار دیا گیا ھے اور دوسری طرف شادی بیاہ کے مسائل میں اختلاف کی صورت میں طرفین میں صلح و مصالحت کے اسباب فراھم کرنے کی کوشش کی ھے تاکہ حتی ا اس کام سے روک تھام ھو سکے۔

انھی قوانین میں سے طلاق میں تاخیر اور خود طلاق کو متزلزل کرنا ھے یعنی طلاق کے بعد عدہ کو واجب کیا ھے جس کی مدت تین ”طھر“ یعنی عورت کا تین مرتبہ خون حیض سے پاک ھونا۔

”عدّہ“ یا صلح و مصالحت اور واپس پلٹنے کا وسیلہ

کبھی کبھی بعض وجوھات کی بنا پر انسان میں ایسی حالت پیدا ھوجاتی ھے کہ ایک چھوٹے سے اختلاف یا معمولی تنازع سے انتقام کی آگ بھڑک جاتی ھے اورعقل وجدان پر غالب آجاتی ھے۔

 معمولاً گھریلو اختلاف اسی وجہ سے پیش آتے ھیں، لیکن اس کشمکش کے کچھ ھی بعد میاں بیوی ھوش میں آتے ھیں اور پشیمان ھوجاتے ھیں، خصوصاً جب یہ دیکھتے ھیں کہ ان کے بچے پریشان ھیں تو مختلف پریشانیاں لاحق ھوتی ھیں۔اس موقع پر مذکورہ آیت کہتی ھے: عورتیں ایک مدت عدّہ رکھیں تاکہ اس مدت میں غصہ کی جلد ختم ھوجانے والی لھریں گزر جائیں اور ان کی زندگی میں دشمنی کے سیاہ بادل چھٹ جائیں۔

خصوصاً اسلام نے اس عدّہ کی مدت میں عورت کو حکم دیا ھے کہ گھر سے باھر نہ نکلے، جس کے پیش نظر اس عورت کوغور فکر کا مو قع ملتا ھے  جو میاں بیوی میں تعلقات بہتر ھونے کے لئے ایک موثر قدم ھے۔لہٰذا سورہ طلاق کی پھلی آیت میں پڑھتے ھیں:

 لَا تُخْرِجُوہُنَّ مِنْ بُیُوتِہِن ۔۔۔ لَا تَدْرِی لَعَلَّ اللهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ اٴَمْرًا

 ”ان کو گھروں سے نہ نکالو ۔۔۔ تم کیا جانو شاید خداوندعالم کوئی ایسا راستہ نکال دے کہ جس سے آپس میں صلح و مصالحت ھوجائے“۔ اکثر اوقات طلاق سے پھلے کے خوشگوار لحظات ، محبت اور پیار کے گزرے ھوئے لمحات کو یاد کرلینا کافی ھوجاتا ھے اور پھیکی پڑجانے والی محبت میں نمک پڑ جاتا ھے۔

عدّہ؛ نسل کی حفاظت کا وسیلہ

عدّہ کا دوسرا فلسفہ یہ ھے کہ عدہ کے ذریعہ یہ معلوم ھوجاتا ھے کہ طلاق شدہ عورت حاملہ ھے یا نھیں؟ یہ صحیح ھے کہ ایک دفعہ حیض دیکھنا حاملہ نہ ھونے کی دلیل نھیں ھے، لیکن بسا اوقات دیکھا گیا ھے کہ عورت حاملہ ھونے کی صورت میں بھی شروع کے چند ماہ تک حیض دیکھتی ھے، لہٰذا اس موضوع کی مکمل رعایت کا حکم دیا گیا ھے کہ عورت تین دفعہ تک حیض دیکھے اور پاک ھوجائے، تاکہ یہ یقین ھوجائے کہ اپنے گزشتہ شوھر سے حاملہ نھیں ھے، پھر اس کے بعد دوبارہ نکاح کرسکتی ھے

اسلام کے بعض محرمات کا فلسفہ

7۔ غنا؛ کیا ھے اور اس کی حرمت کا فلسفہ کیا ھے؟

غنا (گانا) کی حرمت میں کوئی خاص مشکل نھیں ھے ، صرف موضوعِ غنا کو معین کرنا مشکل ھے۔

آیا ھر خوش آواز اور مترنم لہجہ غنا ھے؟

مسلّم طور پر ایسا نھیں ھے، کیونکہ اسلامی روایات میں بیان ھوا ھے اور مسلمین کی سیرت اس بات کی حکایت کرتی ھے کہ قرآن اور اذان وغیرہ کو بہترین آواز اور خوش لہجہ میں پڑھا جائے۔

کیا ھر وہ آواز جس میں ”ترجیع“ (گٹگری) یعنی آواز کا اتار چڑھاؤ پایا جاتا ھو، وہ غنا ھے؟ یہ بھی ثابت نھیں ھے۔

اس سلسلہ میں شیعہ اور اھل سنت کے فقھا کے بیان سے جو نتیجہ نکلتا ھے وہ یہ ھے کہ غنا ، طرب انگیز آواز اور لھو باطل ھے۔

واضح الفاظ میں یوں کھا جائے: غنا اس آھنگ اور طرز کو کھا جاتا ھے جو فسق و فجور اور گناھگاروں، عیاشوں اور بدکاروں کی محفلوں سے مطابقت رکھتا ھو۔

یا اس کے لئے یوں بھی کھا جاسکتا ھے کہ غنا اس آواز اور طرز کو کھا جاتا ھے جس سے انسان کی شھوانی طاقت ھیجان میں آجائے، اور انسان اس حال میں احساس کرے کہ اگر اس طرز اور آواز کے ساتھ شراب اور جنسی لذت بھی ھوتی تو کتنا اچھا ھوتا!۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ھے کہ کبھی ایک ”آھنگ“ اور ”طرز“ خود بھی غنا اور لھو و باطل ھوتا ھے اور اس کے الفاظ اور مفھوم بھی، اس لحاظ سے عاشقانہ فتنہ انگیز  اشعار کو مطرب طرز میں پڑھا جاتا ھے، لیکن کبھی صرف آھنگ اور طرز غنا ھوتا ھے لیکن اشعار یا قرآنی آیات یا دعا اور مناجات کو ایسی طرز سے پڑھیں جو عیاشوں اور بدکاروں کی محفلوں سے مناسب ھے، لہٰذا یہ دونوں صورتیں حرام ھیں۔ (غور کیجئے )

اس نکتہ کا ذکر کرنا ضروری ھے کہ غنا کے سلسلہ میں دو معنی بیان کئے گئے ھیں: ”عام معنی“ ، ”خاص معنی“ ، معنی خاص وھی ھیں جو ھم نے اوپر بیان کئے ھیں یعنی شھوانی طاقت کو ھیجان میں لانے والی اور فسق و فجور کی محافل کے موافق طرز اور آواز ۔

لیکن عام معنی : ھر بہترین آواز کو غنا کہتے ھیں، لہٰذا جن حضرات نے غنا کے عام معنی کئے ھیں انھوں نے غنا کی دو قسمیں کی ھیں، ”حلال غنا “، ”حرام غنا “۔

حرام غنا سے مراد وھی ھے جو ھم نے بیان کیا ھے اور حلال غنا سے ھر وہ دلکش اور بہترین آواز ھے جو مفسدہ انگیز نہ ھو اور محافل فسق و فجور سے مناسبت نہ رکھتی ھو۔

اس بنا پر غنا کی حرمت تقریباً اختلافی نھیں ھے، بلکہ اس کے معنی میں اختلاف ھے۔

اگرچہ ”غنا“ کے کچھ مشکوک موارد بھی ھیں (دوسرے تمام مفاھیم کی طرح) جس میں انسان کو معلوم نھیں ھوتا کہ فلاں طرز یا فلاں آواز فسق و فجور کی محفلوں سے مناسبت رکھتی ھے یا نھیں؟ اس صورت میں یہ آواز ”اصل برائت“ کے تحت جواز کا حکم رکھتی ھے (البتہ غنا کی مذکورہ تعریف کے پیش نظر اس کے مفھوم سے کافی معلومات کے بعد)

  یھیں سے یہ بات بھی روشن ھوجاتی ھے کہ وہ رزمیہ ترانہ جو میدان جنگ اور ورزش کے وقت مخصوص آھنگ و آواز کے ساتھ پڑھا جاتا ھے اس کے حرام ھونے پر کوئی دلیل نھیں ھے۔

البتہ غنا کے سلسلہ میں دوسری بحثیں بھی پائی جاتی ھیں جیسے غنا سے کیا کیا مستثنیٰ ھیں؟ اس سلسلہ میں کہ کس نے کس کو قبول کیا ھے اور کس نے کس کا انکار کیا ھے، فقھی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔

یھاں پر جس آخری بات کا ذکر ضروری ھے وہ یہ ھے کہ ھم نے جو کچھ اوپر بیان کیا ھے وہ پڑھنے سے متعلق ھے، لیکن موسیقی کے آلات اور ساز و سامان کی حرمت کے بارے میں دوسری بحث ھے جس کا ھماری بحث سے تعلق نھیں ھے۔

حرمت غنا کا فلسفہ

مذکورہ شرائط کے ساتھ ”غنا“ کے معنی اور مفھوم میں غور و فکر کرنے سے غنا کی حرمت کا فلسفہ بخوبی واضح ھوجاتا ھے۔

ھم یھاں پر ایک مختصر تحقیق کی بنا پر اس کے مفاسد اور نقصانات کو بیان کرتے ھیں:

الف: برائیوں کی طرف رغبت

تجربات اس بات کی نشاندھی کرتے ھیں (اور تجربات بہترین شاھد اور گواہ ھوتے ھیں) کہ غنا (یعنی ناچ گانے) سے متاثر ھونے والے افراد تقویٰ اور پرھیزگاری کی راہ کو ترک کرکے جنسی بے راہ روی کے اسیر ھوگئے ھیں۔

غنا کی محفلیں عام طور پر فساد کے مرکز ھوتی ھیں، یعنی اکثر گناھوں اور بدکاریوں کی جڑ یھی غنا اور ناچ گانا ھوتا ھے۔

بیرونی جرائد کی بعض رپورٹوں میں ھم پڑھتے ھیں کہ ایک پروگرام میں لڑکے اور لڑکیاں شریک تھیں وھاں ناچ گانے کا ایک مخصوص ”شو“ ھوا جس کی بنا پر لڑکوں اور لڑکیوں میں اس قدر ھیجان پیدا ھوا کہ ایک دوسرے پر حملہ آور ھوگئے اور ایسے واقعات پیش آئے جن کے ذکر کرنے سے قلم کو شرم آتی ھے۔

تفسیر ”روح المعانی“ میں ”بنی امیہ“ کے ایک عھدہ دار کے حوالہ سے نقل ھوا ھے جو کہتا تھا: غنا اور ناچ گانے سے پرھیز کرو، کیونکہ اس سے حیا کم ھوتی ھے، شھوت میں اضافہ ھوتا ھے، انسان کی شخصیت پامال ھوتی ھے، اور (یہ ناچ گانا) شراب کا جانشین ھوتا ھے، کیونکہ ایسا شخص وہ سب کام کرتا ھے جو ایک مست انسان (شراب کے نشہ میں) انجام دیتا ھے

اس سے معلوم ھوتا ھے کہ وہ لوگ بھی ناچ گانے کے فسادات اور نقصانات سے واقف تھے۔اور اگر ھم دیکھتے ھیں کہ اسلامی روایات میں بارھا بیان ھوا ھے کہ ناچ گانے کے ذریعہ انسان کے دل میں روحِ نفاق پرورش پاتی ھے، تو یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ھے، روح نفاق وھی گناھوں اور برائیوں سے آلودہ ھونا اور تقویٰ و پرھیزگاری سے دوری کا نام ھے۔

نیز اگر روایات میں بیان ھوا ھے کہ جس گھر میں غنا اور ناچ گانا ھوتا ھے اس میں فرشتے داخل نھیں ھوتے تو یہ بھی انھیں فسادات سے آلودگی کی وجہ سے ھے کیونکہ فرشتے پاک و پاکیزہ ھیں اور پاکیزگی کے طالب ھیں نیز آلودہ فضا سے بیزار ھیں۔

ب: یاد خدا سے غفلت

بعض اسلامی روایات میں ”غنا“ کے معنی میں ”لھو “ کا استعمال ھونے والا لفظ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ھے کہ غنا اور ناچ گانے کے ذریعہ انسان اتنا مست ھوجاتا ھے کہ یاد خداسے غافل ھوجاتا ھے۔

 حضرت امام علی علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ھوا ھے: ”کل ما  الھی عن ذکر الله فھو من المیسر“ (یاد خدا سے غافل کرنے والی (اور شھوت میں غرق کرنے والی) ھر چیز جوے کا حکم رکھتی ھے۔

ج۔ اعصاب کے لئے نقصان دہ آثار

غنا اور ناچ گانا نیز موسیقی، در اصل انسانی اعصاب کے نشہ کے عوامل میں سے ھے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ نشہ کبھی منھ کے ذریعہ انسان کے بدن میں پھنچتا ھے (جیسے شراب)

اور کبھی حس شامہ اور سونگھنے سے ھوتا ھے (جیسے ھیروئن)

اور کبھی انجکشن کے ذریعہ ھوتا ھے (جیسے مرفین)

اور کبھی حس سامعہ یعنی کانوں کے ذریعہ نشہ ھوتا ھے (جیسے غنا اور موسیقی)

اسی وجہ سے کبھی کبھی غنا اور ناچ گانے کے ذریعہ انسان بہت زیادہ مست ھوجاتا ھے، اگرچہ کبھی اس حد تک نھیں پھنچتا لیکن پھر بھی نشہ کا تھوڑا بہت اثر ھوتا ھے۔

اور اسی وجہ سے غنا میں نشہ کے بہت سے مفاسد موجود ھیں چاھے اس کا نشہ کم ھو یا زیادہ۔

” اگر مشھور موسیقی داں افراد کی زندگی پر دقیق توجہ کی جائے تو معلوم ھوگا کہ وہ آھستہ آھستہ اپنی عمر میں نفسیاتی مشکلات میں گرفتار ھوجاتے ھیں یھاں تک کہ ان کے اعصاب جواب دے دیتے ھیں، اور بہت سے افراد نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ھوجاتے ھیں، بعض لوگ اپنی عقل و شعور کھو بیٹھتے ھیں اور پاگل خانوں کے مھمان بن جاتے ھیں، بعض لوگ مفلوج اور ناتواں ھوجاتے ھیں، یھاں تک بعض لوگوں کا موسیقی کا پروگرام کرتے ھوئے بلڈ پریشر ھائی ھوجاتا ھے اور وہ موقع پر ھی دم توڑ جاتے ھیں“۔

مختصر یہ کہ غنا اور موسیقی کے آثار جنون کی حد تک ، بلڈ پریشر کا بڑھنا اور دوسرے خطرناک آثار اس درجہ ھیں کہ اس کے بیان کی کوئی ضرورت ھی نھیں ھے۔

عصر حاضر میں ناگھانی اموات کے سلسلہ میں ھونے والے اعداد و شمار سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ گزشتہ کی بنسبت اس زمانہ میں ناگھانی اموات میں بہت زیادہ اضافہ ھوگیا ھے، جس کی مختلف وجوھات ھیں ان میں سے ایک وجہ یھی عالمی پیمانہ پر غنا اور موسیقی کی زیادتی ھے۔

د۔ غنا ،استعمار کا ایک حربہ

عالمی پیمانہ پر استعمار ،عام لوگوں خصوصاً نسل جوان کی بیداری سے خوف زدہ ھے، اسی وجہ سے استعمار کے پاس اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پھنانے کے لئے اپنی منصوبہ بندی ھے کہ جس سے مختلف قوموں کوجھالت اور غفلت میں رکھنے کے لئے غلط سرگرمیوں کو رائج کرے۔

عصر حاضر میں منشیات صرف تجارتی پھلو نھیں رکھتی، بلکہ ایک اھم سیاسی حربہ ھے یعنی استعمار کی ایک اھم سیاست ھے، فحاشی کے اڈّے، جوے خانے اور دوسری غلط سرگرمی، منجملہ غنا اور موسیقی کو وسیع پیمانہ پر رائج کرنا استعمار کا ایک اھم ترین حربہ ھے، تاکہ عام لوگوں کے افکار کو منحرف کردیں، اسی وجہ سے دنیا بھر کی ریڈیو سرویسوں میں زیادہ تر موسیقی ھوتی ھے، اسی طرح ٹیلی ویژن وغیرہ میں بھی موسیقی کی بھر مار ھے۔

8۔ زنا کی حرمتکا فلسفہ کیا ھے؟

۱۔ زنا کے ذریعہ خاندانی نظام درھم و برھم ھوجاتاھے، ماں باپ اوراولادکے درمےان رابطہ ختم ھوجاتاھے جبکہ یہ وہ رابطہ ھے جو نہ صرف معاشرے کی شناخت کا سبب ھے بلکہ خود اولاد کی نشو ونما کا موجب بھی ھے، یھی رابطہ ساری عمر محبت کے ستونوں کو قائم رکھتا ھے اور انھیں دوام بخشتاھے۔

المختصر : جس معاشرے میںغیر شرعی اور بے باپ کی او لاد زیادہ ھواس کے اجتماعی روابط سخت متزلزل ھوجاتے ھيںکیونکہ ان روابط کی بنیاد خاندانی روابط ھی ھوتے ھیں۔

اس مسئلہ کی اھمیت سمجھنے کے لئے ایک لمحہ اس بات پر غور کرنا کافی ھے کہ اگر سارے انسانی معاشرے میں زنا جائز اور مباح ھوجائے اور شادی بیاہ کا قانون ختم کردیا جائے تو ان حالات میں غیر معین اور بے ٹھکانہ اولاد پیدا ھوگی، اس اولاد کو کسی کی مدد اور سر پرستی حاصل نہ ھوگی، اسے نہ پیدائش کے وقت کوئی پوچھے گا اور نہ بڑا ھونے کے بعد۔

اس سے قطع نظر برائیوں، سختیوں اور مشکلات میں محبت کی تاثیر تسلیم شدہ ھے جبکہ ایسی اولاد اس محبت سے بالکل محروم ھوجائے گی، اور انسانی معاشرہ پوری طرح تمام پھلوؤں سے حیوانی زندگی کی شکل اختیار کرلے گا۔

۲۔ یہ شرمناک اور قبیح عمل ھوس باز لوگوں کے درمیان طرح طرح کے جھگڑوں اور کشمکش کا باعث ھوگا، وہ واقعات جو بعض افراد نے بد نام محلوں اور غلط مراکز کی داخلی کیفیت کے بارے میں لکھے ھیں ان سے یہ حقیقت بالکل واضح ھوجاتی ھے کہ جنسی بے راہ روی بدترین جرائم کو جنم دیتی ھے۔

۳۔ یہ بات علم اور تجربہ نے ثابت کردی ھے کہ زنا طرح طرح کی بیماریاں پھیلانے کا سبب بنتا ھے، چنانچہ اسی بنا پر اس کے بُرے نتائج کی روک تھا م کے لئے آج کے دور میں بہت سے اداروں کی بنا رکھی گئی ھے اور بہت سے اقدامات کئے گئے ھیں، مگر اس کے باوجود اعداد وشمار نشاندھی کرتے ھیں بہت سے افراد اس راستہ میں اپنی صحت و سلامتی کھو بیٹھے ھیں۔

۴۔ اکثر اوقات یہ عمل اسقاط حمل، قتل ِ اولاد اور نسل کے قطع ھونے کا سبب بنتا ھے کیونکہ ایسی عورتیں ایسی اولاد کی نگرانی کے لئے ھرگز تیار نھیں ھوتیں، اصولاً اولاد ان کے لئے ایسا منحوس عمل جاری رکھنے میں بہت بڑی رکاوٹ ھوتی ھے، لہٰذا وہ ھمیشہ اسے پھلے سے ختم کردینے کی کوشش کرتی ھیں۔

یہ فرضیہ بالکل خیال خام ھے کہ ایسی اولاد حکومت کے زیر اہتمام چلنے والے اداروں میں رکھی جاسکتی ھے کیو نکہ اس فرض کی ناکامی عملی طور پر واضح ھوچکی ھے اور ثابت ھوچکا ھے کہ اس صورت میں بن باپ کی اولاد کی پرورش کس قدر مشکلات کا باعث ھے، اور نتیجتاً بہت ھی نامطلوب اور غیر پسندیدہ ھے، ایسی اولاد سنگدل، مجرم، بے حیثیت اور ھر چیز سے عاری ھوتی ھے۔

۵۔ اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ شادی بیاہ کا مقصد صرف جنسی تقاضے پورے کرنا نھیں ھے بلکہ ایک مشترکہ زندگی کی تشکیل ، روحانی محبت، فکری سکون، اولاد کی تربیت اور زندگی کے ھر موڑ پر ایک دوسرے کی ھر ممکن مدد کرنا شادی کے نتائج میں سے ھیں، اور ایسا بغیر اس کے نھیں ھوسکتا کہ عورت اور مرد ایک دوسرے سے مخصوص ھوں اور عورتیں دوسروں پر حرام ھوں۔

حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ھیں: ”میں نے پیغمبر اکرم سے سنا کہ آپ نے فرمایا: زنا کے چھ بُرے اثرات ھیں، ان میں سے تین دنیا سے متعلق ھیں اور تین آخرت سے:

 دنیاوی برے اثراث یہ ھیں کہ یہ عمل ،انسان کی نورانیت کو چھین لیتا ھے، روزی منقطع کردیتا ھے اور موت کو نزدیک کر دیتا ھے۔

اور اُخروی آثار یہ ھیں کہ یہ عمل پروردگار کے غضب ، حساب و کتاب میں سختی اور آتش جھنم میں داخل ھونے (یا اس میں دوام) کا سبب بنتا ھے

9۔ ھم جنس بازی کی حرمت کا فلسفہ کیا ھے؟

اگرچہ مغربی دنیا میں جھاں جنسی بے راہ روی بہت زیادہ رائج ھے ایسی برائیوں سے نفرت نھیں کی جاتی ، یھاں تک کہ سننے میں آیا ھے کہ بعض ممالک مثلاً برطانیہ میں پارلیمنٹ نے اس کام کو انتھائی بے شرمی سے قانونی جواز دے دیا ھے، لیکن ان برائیوں کے عام ھونے سے ان کی برائی اور قباحت میں ھرگز کوئی کمی نھیں آتی، اور اس کے اخلاقی، نفسیاتی اور اجتماعی مفاسد اپنی جگہ پر ثابت ھیں۔

بعض اوقات مادی مکتب کے بعض پیرو جو اس قسم کی آلودگیوں میں مبتلا ھیں اپنے عمل کی توجیہ کرنے کے لئے کہتے ھیں کہ اس میں طبی نکتہ نظر سے کوئی خرابی نھیں ھے لیکن وہ یہ بات بھول چکے ھیں کہ اصولی طور پر ھر قسم کا جنسی انحراف انسانی وجود کے تمام ڈھانچے پر اثر انداز ھوتا ھے اور اس کا اعتدال درھم و برھم کردیتا ھے۔

اس کی وضاحت یہ ھے کہ انسان فطری اور طبیعی طور پر صنف مخالف کی طرف زیادہ میلان رکھتا ھے اور یہ میلان انسانی فطرت میں بہت مضبوط جڑیں رکھتا ھے اور انسانی نسل کی بقا کا ضامن ھے، ھر وہ کام جو طبیعی میلان سے ہٹ کر انجام پذیر ھوتا ھے وہ انسان میں ایک قسم کی بیماری اور نفسیاتی انحراف پیدا کرتا ھے۔

وہ مرد جو جنسِ موافق کی طرف میلان رکھتا ھے اور وہ مرد جو اپنے کو اس کام کے لئے پیش کرتا ھے ھرگز کامل مرد نھیں ھے، جنسی امور کی کتاب میں ھم جنس بازی کو ایک اھم ترین انحراف قرار دیا گیا ھے۔

اگر یہ سلسلہ جاری رھے تو  انسان میں جنس مخالف کا میلان آھستہ آھستہ ختم ھوجاتا ھے اور اس کام کے مفعول میں آھستہ آھستہ زنانے احساسات پیدا ھونے لگتے ھیں اور دونوں میں بہت زیادہ جنسی ضعف پیدا ھوتا ھے جسے اصطلاح کے مطابق ”سرد مزاجی“ کھا جاتا ھے، اس طرح سے کہ ایک مدت کے بعدوہ (جنس مخالف سے) طبیعی اور فطری ملاپ کرنے پر قادر نھیں رہتے۔

اس چیز کے پیش نظر کہ مرد اور عورت کے جنسی احساسات جھاں ان کے بدن کے ارگانیزم (Organism)میں موثر ھیں وھاں ان کے روحانی اور مخصوص اخلاقی پھلوؤں پر بھی اثر انداز ھوتے ھیں، یہ بات واضح ھے کہ طبیعی اور فطری احساسات سے محروم ھوکر انسان کے جسم اور روح پر کس قدر ضرب پڑتی ھے، یھاں تک کہ ممکن ھے کہ اس طرح کے انحراف میں مبتلا افراد اس قدر سرد مزاجی کا شکار ھوجائیں کہ پھر اولاد پیدا کرنے کی طاقت سے بھی محروم ھوجائیں۔

اس قسم کے افراد عموماً نفسیاتی طور پر صحیح و سالم نھیں ھوتے اور اپنی ذات میں اپنے آپ سے ایک طرح کی بیگانگی محسوس کرتے ھیں اور جس معاشرہ میں رہتے ھیں اس سے خود کو لاتعلق سا محسوس کرنے لگتے ھیں، ایسے افراد قوت ارادی جو ھر قسم کی کامیابی کی شرط ھے آھستہ آھستہ کھو بیٹھتے ھیں اور ان کی روح میں حیرانی و سرگردانی آشیانہ بنالیتی ھے۔

ایسے فراد اگر جلد اپنی اصلاح کا ارادہ نہ کریں بلکہ لازمی طور پر جسمانی اور روحانی طبیب سے مدد نہ لیں اور یہ عمل ان کی عادت میں شامل ھوجائے تو اس بُری عادت کا ترک کرنا مشکل ھوجائے گا، بھر حال اگر مصمم ارادہ کرلیا جائے تو کسی بھی حالت میں اس عادت کو ترک کرنے میں دیر نھیں لگتی، بھر صورت مستحکم ارادہ ھونا ضروری ھے۔

بھر حال نفسیاتی سرگردانی انھیں آھستہ آھستہ منشیات اور شراب کی طرف لے جاتی ھے اور ایسے لو گ مزید اخلاقی انحراف کا شکار ھوجاتے ھیں، یہ ایک اور بڑی بد بختی ھے۔

یہ بات جاذبِ نظر ھے کہ اسلامی روایات میں مختصر اور پُر معنی عبارات کے ذریعہ ان مفاسد کی طرف اشارہ کیا گیا ھے ان میں ایک روایت حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ھے، کسی نے امام علیہ السلام سے سوال کیا: خدا نے لواط کو کیوں حرام کیا ھے؟ تو آپ نے فرمایا: ”اگر لڑکوں سے ملاپ حلال ھوتا تو مرد عورتوں سے بے نیاز ھوجاتے (اور ان کی طرف مائل نہ ھوتے) اور یہ چیز نسلِ انسانی کے منقطع ھونے کا باعث بنتی، اور جنس مخالف سے فطری ملاپ کے ختم ھونے کا باعث بنتی، اور یہ کام بہت سی اخلاقی اور اجتماعی خرابیوں کا سبب بنتا

یہ نکتہ بھی قابل ذکر ھے کہ اسلام ایسے افراد کے لئے جن سزاؤں کا قائل ھے ان میں سے ایک یہ ھے کہ فاعل پر مفعول کی بھن، ماں اور بیٹی سے نکاح حرام ھے یعنی اگر یہ کام نکاح سے پھلے ھوا ھو تو یہ عورتیں اس کے لئے ھمیشہ کے لئے حرام ھوجاتی ھیں۔

10۔ شراب کی حرمت کا فلسفہ کیا ھے؟

انسان کی عمر پرشراب کا اثر

ایک مغربی دانشور کا کھنا ھے کہ ۲۱ سے ۲۳ سالہ جوانوں میں ۵۱ فی صد شراب کے عادی مرجاتے ھیں جبکہ شراب نہ پینے والوں میں سے ۱۰ افراد بھی نھیں مرتے۔

ایک دوسرے مشھور دانشور نے کھا: بیس سالہ جوان جن کے بارے میں ۵۰ سال تک زندہ رھنے کی توقع کی جاتی ھے وہ شراب کی وجہ سے ۳۵ سال سے زیادہ زندہ نھیں رہ سکتے۔

بیمہ کمپنیوں کے تجربات سے ثابت ھوچکا ھے کہ شرابیوں کی عمر دوسروں کی نسبت ۲۵ سے ۳۰فیصد کم ھوتی ھے۔ ایک دوسرے اعداد و شمار سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ شرابیوں کی اوسط عمر ۳۵ سے ۵۰ سال ھے، جبکہ اصول صحت کا یہ اوسط ۶۰ سال سے زیادہ ھے۔

انسانی نسل میں شراب کی تاثیر

انعقاد نطفہ کے وقت اگر مرد نشہ میں تو ”الکلسیم حاد “ (Alcoalism) کی ۳۵ فیصد بیماریاں بچہ میں منتقل ھوتی ھیں اور اگر مرد اور عورت دونوں نشہ میں ھوں تو  ”الکلسیم حاد “ (Alcoalism)کی سو فیصد بیماریاں بچہ میں ظاھر ھوتی ھیں، اس بنا پر اولاد کے بارے میں شراب کی تاثیر پر زیادہ توجہ دینا ضروری ھے، ھم یھاں کچھ مزید اعداد و شمار پیش کرتے ھیں:

طبیعی وقت سے پھلے پیدا ھونے والے بچوں میں ۴۵ فیصد ماں باپ دونوں کی شراب نوشی کی وجہ سے پیدا ھوتے ھیں، ۳۱ فیصد ماں کی شراب نوشی کے باعث ھوتے ھیں اور ۱۷ فیصد باپ کے شرابی ھونے کی وجہ سے، پیدائش کے وقت زندگی کی توانائی سے عاری سو بچوں میں ۶ شرابی باپ کی وجہ سے اور ۴۵ فیصد شرابی ماں کی وجہ سے ایسے ھوتے ھیں، شرابی ماں کی وجہ سے ۷۵ فیصد اور شرابی باپ کی وجہ سے ۴۵ فیصد بچے پست قد پیدا ھوتے ھیں۔ شرابی ماؤں کی وجہ سے ۷۵ فیصد اور شرابی باپ کی وجہ سے بھی ۷۵ فیصد بچے کافی عقلی اور روحانی طاقت سے محروم ھوتے ھیں۔

اخلاق پر شراب کا اثر

شرابی شخص گھروالوں سے ھمدردی اور اھل و عیال سے کم محبت کرتا ھے بارھا دیکھا گیا ھے کہ شرابی باپ نے اپنی اولاد کو قتل کردیا ۔

شراب کے اجتماعی نقصانات

ایک انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر کے مھیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق  ۱۹۶۱ء میں ”نیون“ شھر کے شرابیوں کے اجتماعی جرائم کچھ اس طرح ھیں:

عام قتل:۵۰ فیصد

مار پیٹ اور زخم وارد کرنے کے جرائم۷۷۸ فیصد

جنسی جرائم ۸۸۸ فیصد۔

ان اعداد و شمار سے معلوم ھوتا ھے کہ بڑے بڑے جرائم زیادہ ترنشہ کی حالت میں انجام پاتے ھیں۔

شراب کے اقتصادی نقصانات

نفسیاتی امراض کے ایک ڈاکٹر کا کھنا ھے: ” افسوس کے ساتھ یہ کھنا پڑ رھا ھے کہ حکومتیں شراب کے ٹیکس اور منافع کا حساب تو کرتی ھیں لیکن ان اخراجات کو نظر میں نھیں رکھتی جو شراب کے بُرے اثرات کی روک تھام پر ھوتے ھیں، نفسیاتی بیماریوں کی زیادتی، ایسے بُرے معاشرہ کے نقصانات، قیمتی اوقات کی بربادی، حالت نشہ میں ڈرائیورنگ حادثات، پاک نسلوں کی تباھی، سستی، بے راہ روی، ثقافت و تمدن کی پسماندگی، پولیس کی زحمتیں اور گرفتاری، شرابیوں کی اولاد کے لئے پرورش گاھیں اور ھسپتال، شراب سے متعلقہ جرائم کے لئے عدالتوں کی مصروفیات، شرابیوں کے لئے قید خانے مختصر یہ کہ اگر شراب نوشی سے ھونے والے دیگر نقصانات کو جمع کیا جائے تو حکومتوں کو معلوم ھوگا کہ وہ آمدنی جو شراب سے ھوتی ھے وہ مذکورہ نقصانات کے مقابلہ میں کچھ بھی نھیں ھے۔

ان کے علاوہ شراب نوشی کے افسوسناک نتائج کا موازنہ نہ صرف ڈالروں سے نھیں کیا جاسکتا بلکہ احساسات کی موت، گھروں کی تباھی، آرزوؤں کی بربادی اور صاحبان فکر افراد کی دماغی صلاحیتوں کا نقصان، یہ سب کچھ پیسے کے مقابل نھیں لائے جاسکتے۔

خلاصہ یہ کہ شراب کے نقصانات اتنے زیادہ ھیں کہ ایک دانشور کے بقول اگر حکومتیں یہ ضمانت دیں کہ وہ شراب خانوں کا آدھا دروازہ بند کردیں تو یہ ضمانت دی جاسکتی ھے کہ ھم آدھے ھسپتالوں اور آدھے پاگل خانوں سے بے نیاز ھوجائیں گے۔

اگر شراب کی تجارت میں نوعِ بشر کے لئے کوئی فائدہ ھو یا فرض کریں کہ چند لمحوں کے لئے انسان اس کی وجہ سے اپنے غموں سے بے خبر ھوجاتا ھے تب بھی اس کا نقصان کھیں زیادہ، بہت وسیع ھے کہ اس کے فوائد اور نقصانات کا آپس میں موازنہ نھیں کیا جاسکتا۔

ھم یھاں پر ایک اور نکتہ کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ھیں، یہ نکتہ مختلف اعداد و شمار کا ایک مجموعہ ھے جن میں سے ھر ایک تفصیلی بحث کا محتاج کرتا ھے جس سے شراب کے نقصانات کا اندازہ ھوتا ھے۔

 ۱۔ برطانیہ میں شرابیوں کے دیوانہ پن کے سلسلہ میں ایک اعداد و شمار کے مطابق اس جنون کا دوسرے جنونوں سے مو ازنہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ۲۲۴۹ دیوانوں میں سے صرف ۵۳ دیوانے دوسری وجوھات کی بنا پر دیوانگی کا شکار ھوئے ھیں، اور باقی سب شراب کی وجہ سے دیوانہ ھوئے ھیں۔

۲۔ امریکہ کے ھسپتالوں کے ایک اعداد و شمار کے مطابق نفسیاتی بیماروں میں ۸۵ فی صد صرف شرابی تھے۔

۳۔ برطانوی دانشور ”بنٹم“ لکھتا ھے: شراب ؛ انسان کے اندر شمالی ممالک میں کم عقلی اور بے وقوفی اور جنوبی ممالک میں اس کے اندر دیوانہ پن پیدا کرتی ھے، اس کے بعد کہتا ھے کہ اسلامی قوانین نے ھر طرح کی شراب کو حرام قرار دیا ھے اور یہ اسلام کا ایک امتیاز ھے۔

۴۔ اگر ان لوگوں کے اعداد و شمار کو جمع کیا جائے جنھوں نے نشہ کی حالت میں خود کشی، ظلم و جنایت،گھروں کی بربادی اور عورتوں کی عصمت دری کی ھے تو واقعاً انسان کے ھوش اڑ جائیں گے۔

۵۔ فرانس میں ھر روز ۴۴۰ لوگ شراب پر اپنی جان قربان کرتے ھیں۔

۶۔ امریکہ کے ھسپتالوں میں نفسیاتی بیماریوں کی وجہ سے  ایک سال میں مرنے والوں کی تعداد”دوسری عالمی جنگ“ کے دو برابر ھے، امریکہ میں ڈاکٹروں کے کھنے کے مطابق نفسیاتی بیماریوں میں ”شراب“ اور ”سگریٹ“ بنیادی وجہ ھے۔

۷۔ ”ماھنامہ  علوم ابزار“ کی بیسوی سالگرہ کی مناسبت سے”ھوگر“ نامی دانشور کے اعداد و شمار کے مطابق : ۶۰ فی صد عمدی قتل، ۷۵ فی صد مار پیٹ اور زخمی کرنا، ۳۰ فیصد اخلاقی جرائم (منجملہ ماں بھن کے ساتھ زنا!) ۲۰ فی صد چوری شرابی پینے والوں سے متعلق ھیں، اور اسی دانشور کی تحقیق کے مطابق ۴۰ فیصد مجرم بچوں میں شراب کا سابقہ پایا جاتا ھے۔

۸۔اقتصادی لحاظ سے صرف برطانیہ میں شراب پینے والے ملازمین کی غیر حاضری کی وجہ سے ۵۰ ملین ڈالر (225.000.000روپیہ) کا نقصان ھوا ھے، جس رقم سے بچوں کے لئے ہزاروں اسکول اور کالج بنائے جا سکتے ھیں۔

۹۔ فرانس میں ایک اعداد و شمار کے مطابق شراب کی وجہ سے ھونے والے نقصانات کی شرح اس طرح ھے: شراب کی وجہ سے ۱۳۷  ارب فرانک فرانس کے بجٹ میں اضافہ کرنا پڑا:

۶۰ ارب فرانک ، کورٹ اور قید خانوں کا خرچ۔

 ۴۰ ارب فرانک ، عمومی فا ئد ہ مند امورکے لئے تعاون۔

۱۰ ارب فرانک ، شرابیوں کے ھسپتالوں کا خرچ۔

۷۰ ارب فرانک ، اجتماعی امنیت کے لئے خرچ۔

اس لحاظ سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ رو حا نی بیماروں ، ھسپتالوں، قتل و غارت، لڑائی جھگڑوں، چوری اور ایکسیڈنٹ وغیرہ کی تعداد براہ راست شراب خانوں کی تعداد سے متعلق ھے

11۔ محارم سے شادی کی حرمت کا فلسفہ کیا ھے؟

جیسا کہ ھم قرآن مجید میں پڑھتے ھیں:

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اٴُمَّہَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالاَتُکُمْ وَبَنَاتُ الْاٴَخِ وَبَنَاتُ الْاٴُخْتِ وَاٴُمَّہَاتُکُمْ اللاَّتِی اٴَرْضَعْنَکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ مِنْ الرَّضَاعَةِ وَاٴُمَّہَاتُ نِسَائِکُمْ وَرَبَائِبُکُمْ اللاَّتِی فِی حُجُورِکُمْ مِنْ نِسَائِکُمْ اللاَّتِی دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَإِنْ لَمْ تَکُونُوا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَحَلاَئِلُ اٴَبْنَائِکُمْ الَّذِینَ مِنْ اٴَصْلاَبِکُمْ وَاٴَنْ تَجْمَعُوا بَیْنَ الْاٴُخْتَیْنِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللهَ کَانَ غَفُورًا رَحِیمً

”تمھارے اوپر تمھاری مائیں، بیٹیاں ،بھنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ھے تمھاری رضاعی (دودھ شریک) بھنیں، تمھاری بیویوں کی مائیں، تمھاری پروردہ عورتیں جو تمھاری آغوش میں ھیں اور ان عورتوں کی اولاد جن سے تم نے دخول کیا ھے، ھاں اگر دخول نھیں کیا ھے تو کوئی حرج نھیں ھے، اور تمھارے فرزندوں کی بیویاں جو فرزند تمھارے صلب سے ھیں اور دو بھنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا سب حرام کردیا گیا ھے، علاوہ اس کے جو اس سے پھلے ھوچکا ھے کہ خدا بہت بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

 اس آیہٴ شریفہ میں یہ بیان ھوا کہ محرم عورتیں کون کون ھے جن سے شادی کرنا حرام ھے، اور اس لحاظ سے تین طریقوں سے محرمیت پیدا ھوسکتی ھے:

۱۔ ولادت کے ذریعہ، جس کو ”نسبی  رشتہ“ کھا جاتا ھے۔

۲۔ شادی بیاہ کے ذریعہ، جس کو ”سببی رشتہ“ کھا جاتا ھے۔

۳۔ دودھ پلانے کے ذریعہ ، جس کو ”رضاعی رشتہ“ کہتے ھیں۔

پھلے نسبی محارم کا ذکر کیا گیا ھے جن کی سات قسمیں ھیں، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اٴُمَّہَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالَا تُکُمْ وَبَنَاتُ الْاٴَخِ وَبَنَاتُ الْاٴُخْتِ

”تمھارے اوپر تمھاری مائیں، بیٹیاں ،بھنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں حرام ھیں“۔

یھاں پر یہ توجہ رھے کہ ماں سے مراد صرف وہ ماں نھیں ھے جس سے انسان پیدا ھوتا ھے، بلکہ دادی ، پردادی، نانی اور پر نانی کو بھی شامل ھے، اسی طرح بیٹیوں سے مراد اپنی بیٹی مراد نھیں ھے بلکہ ، پوتی اور نواسی اور ان کی بیٹیاں بھی شامل ھیں، اسی طرح دوسری پانچ قسموں میں بھی ھے۔

یہ بات یونھی واضح ھے کہ سبھی اس طرح کی شادیوں سے نفرت کرتے ھیں اسی وجہ سے تمام قوم و ملت (کم لوگوں کے علاوہ) محارم سے شادی کو حرام جانتے ھیں، یھاں تک کہ مجوسی جو اپنی کتابوں میں محارم سے شادی کو جائزما نتے تھے، لیکن آج کل وہ بھی انکار کرتے ھیں۔

اگرچہ بعض لوگوں کی کوشش یہ ھے کہ اس موضوع کو ایک پرانی رسم و رواج تصور کریں، لیکن ھم یہ بات جانتے ھیں کہ تمام نوعِ بشر میں قدیم زمانہ سے ایک عام قانون کا پایا جانا اس کے فطری ھونے کی عکاسی کرتا ھے، کیونکہ رسم و رواج ایک عام اور دائمی صورت میں نھیں ھوسکتا۔

اس کے علاوہ آج یہ حقیقت ثابت ھوچکی ھے کہ ھم خون کے ساتھ شادی کرنے میں بہت سے نقصانات پائے جاتے ھیں یعنی پوشیدہ اور موروثی بیماریاں ظاھر اور شدید ھوجاتی ھیں، (نہ یہ کہ خود ان سے بیماری پیدا ھوتی ھے) یھاں تک کہ بعض محارم کے علاوہ دیگر رشتہ داری میںشادی کو اچھا نھیں مانتے جیسے دو بھائیوں کی لڑکی لڑکا شادی کریں، دانشوروں کا ماننا ھے کہ اس طرح کی شادیوں میں ارثی بیماریوں میں شدت پیدا ھوتی ھے لیکن یہ مسئلہ دور کی رشتہ داریوں میں کوئی مشکل پیدا نھیں کرتا (جیسا کہ معمولاً نھیں کرتا) البتہ قریبی رشتہ داری (یعنی ایک خون )میںبہت سی مشکلات پیدا ھوتی ھیں۔

اس کے علاوہ محارم کے درمیان معمولاً جنسی جذابیت اور کشش نھیں پائی جاتی کیونکہ غالباً محارم ایک ساتھ بڑے ھوتے ھیں، اور ایک دوسرے کے لئے عام طریقہ سے ھوتے ھیں، مگر بعض نادر اور استثنائی موارد میں جن کو عام قوانین کا معیار نھیں بنایا جاسکتا، اور یہ بات بھی مسلم ھے کہ جنسی خواھشات شادی بیاہ کے برقرار رھنے کے لئے ضروری ھے، لہٰذا اگر محارم کے ساتھ شادی ھو بھی جائے تو ناپائیدار اور غیر مستحکم ھوگی۔

اس کے بعد رضاعی محارم کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے:

وَاٴُمَّہَاتُکُمْ اللاَّتِی اٴَرْضَعْنَکُمْ وَاٴَخَوَاتُکُمْ مِنْ الرَّضَاعَةِ

 ”وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ھے، اور تمھاری رضاعی (دودھ شریک) بھنیں تم پر حرام ھیں“۔

اگرچہ آیت کے اس حصہ میں صرف رضاعی ماں اور بھن کی طرف اشارہ ھوا ھے لیکن متعددروایات معتبر کتابوں میں موجود ھيں جن میں بیان ھو ا ھے کہ رضاعی محرم صرف انھیں دو میں منحصر نھیں ھے بلکہ پیغمبر اکرم (ص)کی مشھور و معروف حدیث کے پیش نظر دوسرے افراد میں شامل ھیں، جیسا آنحضرت  (ص)نے ارشاد فرمایا: ”یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب“ (یعنی تمام وہ افراد جو نسب کے ذریعہ حرام ھوتے ھیں (رضاعت) دودھ کے ذریعہ بھی حرام ھوجاتے ھیں)

البتہ محرمیت ایجاد ھونے کے لئے کتنی مقدار میں دودھ پلایا جائے اس کی کیفیت کیا ھونی چاہئے اس کی تفصیل کے لئے فقھی کتابوں (یاتوضیح المسائل وغیرہ)  کا مطالعہ فرمائیں۔

رضاعی محارم کی حرمت کا فلسفہ یہ ھے کہ دودھ کے ذریعہ انسان کے گوشت اور ہڈیاں مضبوط ھوتی ھيں لہٰذا اگر کوئی عورت کسی بچہ کو دودھ پلاتی ھے تووہ اس کی اولاد جیسی ھوجاتی ھے، مثال کے طور پر اگر کوئی عورت کسی بچہ کو ایک مخصوص مقدار میں دودھ پلائے تو اس دودھ سے اس بچہ کے بدن میں رشد و نمو ھوتا ھے جس سے اس بچہ اور اس عورت کے بچوں میں شباہت پیدا ھوتی ھے، در اصل دونوں اس عورت کے بدن کا ایک حصہ شمار ھوں گے جس طرح دو نسبی بھائی۔

اس کے بعد قرآن مجید نے محارم کی تیسری قسم کی طرف اشارہ کیا ھے اور اس کو چند عنوان کے تحت بیان کیا ھے:

۱۔ وَ اٴمِّہَاتُ نِسَائِکُمْ:  ”تمھاری بیویوں کی مائیں“ یعنی جب انسان کسی عورت سے نکاح کرتا ھے اور صیغہ عقد جاری کرتا ھے تو اس عورت کی ماں اور اس کی ماں کی ماں۔۔۔ اس پر ھمیشہ کے لئے حرام ھوجاتی ھیں۔

وَرَبَائِبُکُمْ اللاَّتِی فِی حُجُورِکُمْ مِنْ نِسَائِکُمْ اللاَّتِی دَخَلْتُمْ بِہِنَّ

”تمھاری پروردہ لڑکیاں جو تمھاری آغوش میں ھیں یعنی تمھاری ان بیویوں کی اولاد جن سے تم نے دخول کیا ھے، وہ تم پر حرام ھیں“ گویا اگرکسی عورت سے صرف  نکاح کیا ھے اور اس کے ساتھ ھمبستری نھیں کی اور اس عورت کی پھلے شوھر سے کوئی لڑکی ھو تو وہ حرام نھیں ھوگی،مگر اس بیوی سے ھمبستری کی ھو تو اس صورت میں وہ لڑکی بھی حرام ھوجائے گی، یھاں اس قید کا ھونا اس بات کی تائید کرتا ھے کہ ساس (خوش دامن)کے سلسلہ میں یہ شرط نھیں ھے (کیونکہ خوشدامن اس صورت میں حرام ھوتی ھے کہ جب بیوی کے ساتھ ھمبستری کی ھو) لہٰذا وھاں حکم مطلق ھے یعنی چاھے اپنی بیوی سے ھمبستری کی ھو یا نہ کی ھو ھر صورت میں ساس حرام ھے۔

اگرچہ ”فِی حُجُورِکُمْ“  کی ظاھری قید (یعنی تمھارے گھر میں ھو) سے یہ سمجھ میں آتا ھے کہ اگر بیوی کے پھلے شوھر سے لڑکی ھو ، اور وہ تمھارے گھر میں پرورش نہ پائے تو وہ اس صورت میں حرام نھیں ھے، لیکن دوسری روایات کے قرینہ اور اس حکم کے قطعی ھونے کی بنا پر یہ ”قید احترازی“ نھیں ھے ، ( یعنی یہ قید موضوع کو محرز اور معین کرنے کے لئے نھیں ھے) بلکہ اس سے حرمت کی طرف اشارہ ھے کیونکہ اس جیسی لڑکیوں کی عمر کم ھوتی ھے جن کی مائیں دوبارہ شادی کرتی ھیں اور وہ معمولاً سوتیلے باپ کی گھر میں اس کی لڑکیوں کی طرح پرورش پاتی ھیں، آیہٴ شریفہ کہتی ھے کہ در اصل یہ تمھاری بیٹیوں کی طرح ھیں، کیا کوئی اپنی بیٹی سے شادی کرتا ھے؟! چنانچہ اسی وجہ سے انھیں  ”ربیبہ“  کھا گیا ھے جس کے معنی پرورش پانے والی ھے۔

اس حصہ میں اس کی مزید تاکید ھوتی ھے کہ اگر اس زوجہ سے ھمبستری نہ کی ھو تو ان کی لڑکیاں تم پر حرام نھیں ھيں،

فَإِنْ لَمْ تَکُونُوا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَحَلاَئِلُ اٴَبْنَائِکُمْ الَّذِینَ مِنْ اٴَصْلاَبِکُمْ

”اور تمھارے فرزندوں کی بیویاں جو فرزند تمھارے صلب سے ھں“

در اصل ”مِنْ اٴَصْلاَبِکُمْ “ (تمھارے صلب سے ھو نے ) کی قید دور ِجاھلیت کی ایک غلط رسم کو ختم کرنے کے لئے ھے کیونکہ اس زمانہ میں رائج تھا کہ بعض افراد کو اپنا بیٹا بنا لیتے تھے، یعنی اگر کوئی کسی دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنالے تو اس پر حقیقی بیٹے کے تمام احکام نافذ کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے منھ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح نھیں کرتے تھے، لیکن اسلام نے منھ بولے بیٹے کو بیٹا قرار نھیں دیا اور اس غلط رسم و رواج کو بے بنیاد قرار دیدیا۔

۴۔ <وَاٴَنْ تَجْمَعُوا بَیْنَ الْاٴُخْتَیْنِ > ”اور تمھارے لئے دو بھنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا حرام کردیا گیا ھے“، یعنی ایک وقت میں دو بھنوں کا رکھنا جائز نھیں ھے، لیکن اگر دو بھنوں سے مختلف زمانہ میں اور پھلی بھن کی جدائی کے بعد نکاح کیا جائے تو کوئی حرج نھیں ھے۔

کیونکہ دور جاھلیت میں دو بھنوں کو ایک ساتھ رکھنے کا رواج تھا اور چونکہ بعض لوگ ایسا کئے ھوئے تھے لہٰذا قرآن مجید میں اضافہ کیا گیا: <إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ>”علاوہ اس کے جو اس سے پھلے ھوچکا ھے “ ، یعنی یہ حکم (دوسرے احکام کی طرح) گزشتہ پر عطف نھیں کیا جائے گا اور جن لوگوں نے اس حکم کے نازل ھونے سے پھلے ایسا کیا ھے ان کو کوئی سزا نھیں دی جائے گی اگرچہ اب ان دونوں میں سے ایک بیوی کا انتخاب کرے اور دوسری کو آزاد کردے۔

اور شاید اس طرح کی شادی سے روکنے کا راز یہ ھو کہ دو بھنیں نسبی لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت زیادہ محبت اور تعلق رکھتی ھیں، لیکن جس وقت ایک دوسرے کی رقیب ھوجائیں تو پھر اس گزشتہ رابطہ کو محفوظ نھیں رکھ سکتیں، اس طرح ان کی ”محبت میں تضاد“ پیدا ھوجائے گا جو ان کی زندگی کے لئے نقصان دہ ھے، کیونکہ ”محبت“ اور ”رقابت“ میں ھمیشہ کشمکش اور مقابلہ پایا جاتا ھے


تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ

سورہ بقرہ ، آیت ۲۵۶، ترجمہ: ”دین (قبول کرنے) میں کوئی جبر نھیں ھے“

تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ

سورہ بقرہ ،ا

سور ہ ٴغافر(مومن)، آ

سورہٴ نحل ، آیت

سورہ مدثر ، آیت

سورہ فصلت ، آیت

سورہ نور ، آیت نمبر

سورہ نساء ، آیت

دیکھئے مفردات راغب اصفھانی ،البتہ یہ نکتہ اس وقت ھے جب ”کسب“ اور ”اکتساب“ایک ساتھ استعمال ھو ۔

تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۱۱۳۔

”و  سٹر مارک“ ، عذر تقصیر بہ پیشگاہ محمد  (ص)، اور ”حقوق زن در اسلام“ اور اس سلسلہ میں دوسری کتابیں دیکھٴے

تفسیر نمونہ ، جلد  ۳، صفحہ

تفسیر نمونہ ، جلد ۱۴، صفحہ

تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ

اسلام کا یہ مسئلہ ھے کہ متعہ سے پیدا ھونے والے بچوں کے احکام شادی سے پیدا ھونے والے بچوں کی طرح ھیں، ان میں کوئی فرق نھیں پایا جاتا

کتا ب زنا شوئی و اخلاق صفحہ ۱۸۹و

تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ

سورہٴ نساء ، آیت ۲۴۔ ”جو بھی ان عورتوں سے تمتع کرے ان کی اجرت بطور فریضہ دے دے“

کنز العرفان ، جلد دوم، صفحہ ۱۵۸، اور تفسیر قرطبی ، تفسیر طبری میں مذکورہ جملہ کے مانند تحریر نقل ھوئی ھے، نیز سنن بیہقی ، جلد ۷ کتاب نکاح میں بھی وہ جملہ ذکر ھوا ھے

سورہ طلاق ، پھلی آیت

تفسیر قرطبی ، جلد ۲ ، صفحہ ۷۶۲ ، سورہٴ بقرہ، آیت ۱۹۵ کے ذیل میں۔

”متعہ ٴ حج“ سے مراد جس کو عمر نے حرام قرار دیا تھا یہ ھے کہ اس حج تمتع سے قطع نظر کی جائے ، حج تمتع یہ ھے کہ انسان حج کے لئے جاتا ھے تو پھلے محرم ھوتا ھے اور ”عمرہ“ انجام دینے کے بعد احرام سے آزاد ھوجاتا ھے(اور اس کے لئے حالت احرام کی حرام چیزیں یھاں تک کہ ھمبستری بھی جائز ھوجاتی ھے) اور اس کے بعد دوبارہ حج کے دوسرے اعمال نویں ذی الحجہ کو انجام دیتا ھے، دور جاھلیت میں اس کام کو صحیح نھیں سمجھا جاتا تھا اور تعجب کیا جاتا تھا کہ جو شخص ایام حج میں مکہ معظمہ میں وارد ھوا ھو اور حج انجام دینے سے پھلے عمرہ بجالائے، اور اپنا احرام کھول دے، لیکن اسلام نے واضح طور پر اس بات کی اجازت دیدی، اور سورہ بقرہ ، آیت  ۱۸۶ میں اس موضوع کی وضاحت فرمادی۔

شرح لمعہ ، جلد ۲ ،کتاب النکاح

کنز العرفان ، جلد دوم، صفحہ ۱۵۹(حاشیہ)

الغدیر ، جلد ۶، صفحہ ۲۰۶۔

الغدیر ، جلد ۶، صفحہ

بدایة المجتھد ،کتاب النکاح

تفسیر المنار ، جلد ۵، صفحہ

تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ

سورہٴ بقرہ ، آیت

تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ

ہ قاعدہ علم اصول میں ثابت ھے کہ اگر کسی کام کی حرمت پر کوئی دلیل نہ ھو تو اصل برائت جاری کی جائے گی یعنی وہ کام جائز ھے۔ (مترجم)

تفسیر روح المعانی ، جلد ۲۱، صفحہ

تاثیر موسیقی بر روان و اعصاب، صفحہ

تفسیر نمونہ ، جلد ۱۷ صفحہ

مجمع البیان ، جلد ۶، صفحہ

تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ

وسائل الشیعہ ، جلد ۱۴، صفحہ

تفسیر نمونہ ، جلد ۹، صفحہ

تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ

کتاب سمپوزیوم الکل ، صفحہ

کتاب سمپوزیوم الکل، صفحہ

تفسیر طنطاوی ، جلد اول، صفحہ

دائرة المعارف ،فرید وجدی ، جلد ۳، صفحہ

بلاھای اجتماعی قرن ما، صفحہ

مجمو عہ انتشارات جوان

کتاب سمپوزیوم الکل، صفحہ

مجموعہ انتشارات نسل جوان ، سال دوم صفحہ

نشریہ مر کز مطالعہ پیشرفتھای ایران (دربارہ الکل و قمار)

تفسیر نمونہ ، جلد ۵، صفحہ

سورہٴ نساء آیت

البتہ اسلام نے چچا زاد بھائی بھن میں شادی کو حرام قرار نھیں دیا ھے، کیونکہ ان کی شادی محارم سے شادی کی طرح نھیں ھے، اور اس طرح کی شادیوں میں خطرہ کم پایا جاتا ھے، اور ھم نے اس طرح کی بہت سی شادی دیکھی ھیں جن کے بچے صحیح و سالم ھیں اور استعداد و صلاحیت کے لحاظ سے بھی کوئی مشکل نھیں ھے

”حلائل “جمع” حلیلہ“مادہ ”حل“سے ھے اور اس سے وہ عورت مراد ھے جو انسان پر حلال ھے ،یا مادہ” حلول “ سے ھے جس سے مراد وہ عورت ھے جو ایک انسان کے پاس ایک ساتھ زندگی گزارتی ھو اور اس سے جنسی تعلقات رکھتی ھو

تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ