فصل اوّل کے تین امور میں سے پہلا امر جو تلاوت سے مخصوص تھا اس میں تلاوت کی کیفیت اور اس کی ذمہ داری وغیرہ سے متعلق باتیں بیان کی گئیں اب اس امر کے تحت آنے والے دو ابواب یعنی قرآن سے تمسک اور اس پر عمل کے باب اور نزدل قرآن کے باب پر یہاں اجمال کے ساتھ بحث کی جارہی ھے۔
قرآن سے تمسک اور اس پر عمل کے باب میں ”کافی“ کے اندر کئی روایتں نقل ھوئی ھیں جن میں سے ایک طویل حدیث یہاں نقل کررہے ھیں امام صادق علیہ السلام حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے نقل کرتے ھیں کہ آنحضرت نے فرمایا:
”ایھّا الناس انّکم فی داور ھدنة وانتم علیٰ ظھرسفروالسّیربکم سریع“
اے لوگوں! ابھی تم آرام کی جگہ اور صلح وآشتی کی منزل میں زندگی بسر کررہے ھو تم ابھی راہ میں ہو اور تمھیں تیزی کے ساتھ لے جایاجارہا ھے․
” وقدراٴ یتیم اللیّل والنھار والشّمس والقر یبلیان کلّ جدید ویقربان کلّ بعید ویاٴتیان بکل موعودفا عدّو الجھاز لبعد المجاز“
بلاشبہ تم نے دیکھاکہ شب دروز اور آفتاب وماہتاب کی گردشں ھر نٴی چیز کہنہ بنا دیتی ھیں، اور ھر دوری کو نزدیک کردیتی ھیں اور زمانہ کی یہ رفتار ھر وعدہ کی ھوئی چیز کو تمھارے سامنے پیش کرتی ھے، پس طویل مسافت کے لئے وسیلہ مہیا کرو کیونکہ تمھاری گزرگاہ اور عبور کی جگہ بہت دو رہے اور اس کے لئے وسیلہ کی ضرورت ھے۔
”قال: فقام المقداد بن الاسود فقال: یارسول اللہ وما دار الھدنة؟ قال دار بلاغ وانقطاع“
اس وقت مقداد بن اسود کھڑے ھوئے اور عرض کی یارسول اللہ: ”دارہدنہ “ کیا ھے؟ فرمایا: ایسا گھر جو پہنچانے والا اور جدا کرنے والا ھے(کیونکہ انسان کو آخرت کی منزل تک پہنچاتا ھے اور انسان دنیا میں جس جس چیز سے لگاوٴاور دوستی رکھتا ھے اس سے اسے جدا کر دیتا ھے
”فاذا البسّة علیکم الفتن کقطع اللیل المظلم فعلیکم بالقرآن فانّہ شافع مشفّع وماحل مصدق“
پس اگر فتنے اور آشوب تاریک رات کے حصوں کے مانند تمھیں ڈھانپ لیں تو قرآن کی طرف رجوع کرو کیونکہ قرآن ایسا شفاعت کرنے والا ھے جس کی شفاعت خدا کے یہاں مقبول ھے اور ایسا عرض گزار ھے جس کی شکایت قابل قبول ھے“
سچ ھے! اگر قرآن قیامت کے دن تمھاری شفاعت کرے اور تمھارے حق میں کلام کرے تاکہ خدا تمھارے ساتھ ازروئے عدل پیش نہ آئے بلکہ رحمت کو عدل کا ساتھی قرار دے اور صرف خدائے عادل نھیں بلکہ خدائے عادل ورحیم تمھارا حساب وکتاب کرے تو قرآن کی شفاعت مقبول قرار پائے گی۔ چنانچہ اگر خداوند عالم صرف عدالت کے ساتھ آپ کا حساب وکتاب کرے گا تو بڑی مشکل پیش آئے گی لیکن اگر رحمت بھی عدالت کے ساتھ شامل ھوگئی اور دونوں نے باہم آپ کا حساب وکتاب کیا تو نجات کی امید پیدا ھو جائے گی۔
جس طرح قرآن کی شفاعت خدا کے نزدیک قبول ھے یوں ھی اگر خدا نخواستہ وہ تمھاری شکایت کرے اور تمھاری بد اعمالیاں بیان کرے اور روز جزا کے مالک سے تمھاری شکایت کرے تو خداوندعالم اس کی شکایت کی تصدیق کرے گا، کیونکہ قرآن اللہ کا کلام ھے پس اگر وہ بندوں کی شکایت صاحب کلام تک پہنچائے تو متکلم اپنے کلام کی تصدیق کرے گا اور اس پر یقین کرے گا۔ اور وہ دن بہت سخت و دشوار ھے کہ قرآن مجید شفاعت کے بجائے ھماری شکایت کرے۔
”ومن جعلہ امامہ، قادہ الی الجنّة ومن جعلہ خلفہ ساقہ الیٰ النّار“
جو قرآن کو اپنے سامنے رکھے اور اس کی پیروی کرے تو قرآن اس کا ذمہ دار وضامن ھوگا اور اسے جنت کی جانب روانہ کرے گا اور جو شخص قرآن کو پس پشت ڈال دے(ببذکتاب اللّہ وراء ظہوہ) قرآن اسے دوزخ اور عذاب الٰہی کی طرف ھنکالے جائے گا۔
” وھوالدّلیل یدل علیٰ خیر سبیل“
اور قرآن ایسا رہنما ھے جو بھترین راہ کی نشان دہی کرتا ھے۔
” وہوکتاب فیہ تفصیل وبیان وتحصیل وہوالفصل لیس بالھزل“
وہ ایسی کتاب ھے جس میں ھر چیز کی تفصیل اور اس کا بیان ھے، اس سے حقائق حاصل ھوتے ھیں اور کوئی مبہم بیان اس میں نھیں پایا جاتا۔ وہ جو بات بھی کہتا ھے سنجیدہ اور فیصلہ کنندہ ھے اس میں کبھی مذاق اور غیر سنجیدگی نھیں پائی جاتی۔
” لہ ظھر وبطن“ قرآن میں ظاہر بھی ھے اور باطن بھی۔
قرآن کے ظاہر کو ظاہری علوم کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ھے لیکن اس کے باطن کو ظاہری، علوم سے نھیں سمجھا جاسکتا۔ امام صادق علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص تھا جو ایک مدرسہ کا اُستاد تھا اور اس نے فقہی ودینی مسائل میں کئی کتابیں بھی لکھی تھیں۔ ایک روز امام صادق علیہ السلام نے اس سے دریافت فرمایا: ” بماذاتفتی الناس“ کس چیز کے ذریعہ کے فتویٰ دیتے ھو؟اس نے عرض کی: ”بالقرآن“ میں قرآن سے لوگوں کو فتویٰ دیتا ھوں۔ حضرت نے فرمایا: تو قرآن سے فتویٰ دیتا ھے جبکہ خداوندعالم نے تجھے قرآن سے ایک حرف بھی عطا نھیں کیا ھے اور تو نے قرآن کے ایک حرف کی بھی میراث نھیں پائی ھے ” وماورّثک اللّٰہ من القرآن حرفاً“
وہ شخص جو ایک فرقہ کا پیشوا تھا اور جس نے قرآن کے احکام ومسائل سے متعلق کتابیں لکھی تھیں امام اس سے فرماتے ھیں تجھے قرآن کا ایک حرف بھی میراث میں نھیں ملا ھے! کیونکہ پڑھ لکھ کر حاصل کیا جانے والا علم قرآن کے ظاہر تو پہنچا سکتا ھے لیکن باطن قرآن کو وارثتی علم کے بغیر حل نھیں کیا جاسکتا اور جو وارث انبیاء ھے صرف وہی باطن قرآن سے حاصل کرسکتا ھے۔ اگر ایسے علماء پیدا ھوں جو حقیقاً انبیاء اور ان کے اوصاف کے وارث ھوں تو وہ باطن قرآن تک پہنچ سکتے ھیں مگر جس نے عملی طور سے انبیاء کی راہ کو ترک کردیا اور ظاہر قرآن کا کچھ علم حاصل کرلیا وہ قرآن کی میراث سے کچھ بھی نہ پائے گا۔
”فظاہرہ حکم وباطنہ علم، ظاہرہ انیق وباطنہ عمیق لہ تخوم وعلیٰ تخومہ تخوم لا تحصیٰ عجائبہ ولا تبلیٰ غرائبہ“
قرآن کاظاہر اور حکم دستور ھے اور اس کا باطن علم ودانش ھے۔ اس کا ظاہر خوبصورت ھے اور باطن دقیق وعمیق اس میں گہرائیاں پائی جاتی ھیں اور ان گہرائیوں میں بھی گہرائیاں ھیں۔ اس کے عجائب وغرائب ناقابل شمار اور سدا بہار ھیں جو کبھی فرسودہ نہ ھوں گے۔( کیونکہ قرآن صاحب علم اور حکمت خدا کی طرف سے آیا ھے اور شب وروز، زمانہ کی گردشوں اور آفتاب وماہتاب کے طلوع و غروب سے بالا تر ھے لھٰزا وہ کبھی زمان ومکان کی گردشوں سے فرسودہ و کہنہ نہ ھوگا)
” فیہ مصابیح الھدیٰ ومنار الحکمة ودلیل علیٰ المعرفة لمن عرف الصفة فلیجل جالِ بصرہ ولیبلغ الصفة نظرہ ینج من عطب ویتخلّص من نشب“
قرآن میں ھدایت کے چراغ، حکمت کی نشانیاں اور معرفت کی دلیل موجود ھیں لیکن یہ سب اس کے لئے ھے جو ان علامتوں اور صفتوں کو پہچانتا ھو پس آگے بڑھنے والا اور صاحب تحرک یہ چاہتا ھے کہ اپنی آنکھوں کو اور جلابخشے اور بغور مشاہدہ کرے تاکہ اس صفت کو درک کرسکے نیز ھلاکت سے نجات اور جہالت سے چھٹکارا پاسکے۔
قرآن اس الٰہی سائن بورڈ کے مانند ھے جو انسانی زندگی کی راہ میں نصب کیا گیا ھے لیکن اس کے لئے پاک فطرت کی ضرورت ھے تاکہ اس میں لکھی ھوئی علامتوں اور نشانیوں کو حاصل کرسکے اور حقیقت بینی کی ضرورت ھے تاکہ ان صفات کو دیکھ سکے جو شناخت ومعرفت کا سبب ھیں اور ان صفات کو درک کرتے ھوئے خود کو ھلاکت وجہالت سے دور کرے اور دوسروں کو بھی نجات بخشے۔
اس کے بعد آنحضرت استدلال فرماتے ھیں:
” فانّ التّفکر حیاة قلب البصیر کما یمشی المستنیر فی الظّلمات بالنور فعلیکم بحسن التخلّص وقلّة التربّص“([1])
صاحب بصیرت انسان غور فکر کے ذریعہ زندہ ھے اور فکر ھی انسانی دل کو حیات بخشتی ھے بالکل یوں ھی جیسے روشنی کا طالب نور یا چراغ کے ذریعہ اندھروں اور تارکیوں میں راہ طے کرتا ھے پس تم پر لازم ھے کہ بہتریں انداز میں نجات و رہائی کی کوشش کرو اور اس کے انتظار میں کم رہو( تم ایسے مسافر کے مانند ھو کہ اگر جلدی نھیں گئے اور خود کو مشغول رکھا تو خواہ مخواہ تمھیں خود ھی لے جایا جائے گا پس خود زمین پرجم کرنہ رہ جاؤ اور اس سے پہلے کہ لوگ لے جائیں تم خود چلے جاؤ اور خود چھٹکارہ حاصل کرو اور قید وبند نیز دنیا کے روابط وتعلقات سے اپنا دل ھٹالو(
شیخ کلینی، حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے ایک دوسری روایت نقل کرتے ھیں کہ آپ نے اصحاب و انصار سے فرمایا: ” اعلموانّ القرآن ھدی النّھار ونوراللّیل المظلم علیٰ ماکان من جھدوفاقة“([2])
جان لو کہ قرآن دن میں ھدایت اور رات میں روشنی ونورانیت فراہم کرتا ھے اگرچہ حاملان قرآن جدوجہد میں مصروف اور فقروفاقہ میں مبتلا ھوں یعنی مشکلات کا دباوٴ اور تنگ دستی ان کی روشن ضمیر میں آڑے نھیں آتی جبکہ اکثر حاملان قرآن زیادہ تر زندگی کے مشکلات اور فقر وتنگدستی کا شکار رہتے ھیں پھر بھی ان دونوں فضیلتوں یعنی دن کی ھدایت اور تاریک رات کی نورانیت سے شرف یاب ھوئے ھیں۔
ابن بابویہ قمی نے ایک روایت نقل کی ھے جس میں حضرت علی علیہ السلام اپنے فرزند محمد حنفیہ سے فرماتے ھیں:
” وعلیک بتلاوة القرآن والعمل بہ ولزوم فرائضہ وشرائعہ وحلالہ وحرامہ وامرہ ونہیہ والتھجّدبہ وتلاوتہ فی لیلک ونہارک فانّہ عہد من اللّہ تعلیٰ الیٰ خلفہ فہو واجب علیٰ کلَ مسلم ان ینظر کلّ یوم فی عہدہ ولو خمسین آیة“
میں تمھیں قرآن کی تلاوت اور اس کے احکام پر عمل کی تاکید کرتا ھوں۔ تم پر اس کے فرائض، واجبات، شرائع، حلال وحرام اور امرونہی کی پابندی ضروری ھے، قرآن کے ساتھ شب زندہ داری کرو۔ رات اور دن میں قرآن پڑھنا چونکہ یہ قرآن خداوندعالم کا اپنے بندوں کی طرف بھیجا ھوا عہدوپیمان ھے لھٰزا ھر مسلمان پر لازم ھے کہ خدا کے اس عہد پر نظر ڈالے چاہے ھر روز پچاس آیت ھی کیوں نہ پڑھے۔
” واعلم ان درجات الجنّة علیٰ قدر آیات القرآن فاذا کان یوم القیامة یقال لقاریٴ القرآن: اقرا ٴواٴرقا“
جان لو کہ جنت کے درجات قرآن کی آیتوں کے برابر ھیں۔ پس جب قیامت کا دن نمودار ھوگا تو قرآن کی تلاوت کرنے والے سے کہا جائے گا کہ تلاوت کرو اور بلندی حاصل کرو۔ یعنی جس قدر اس نے دنیا میں قرآن پڑھا اور اس کی تعلیم حاصل کی تھی اسی قدر قرآن وہاں ظاہر ھوگا۔ اور اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا آخرت میں اس کی ترقی اور درجات کی بلندی دنیا میں اس کے قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی مقدار سے تعلق رکھتی ھے۔ بلاشبہ جنت میں انبیا ء وصد یقین کے بعد حاملان قرآن سے پڑھ کر کسی کا درجہ نھیں ھے لھٰزا جنت کے درجوں کو قرآنی آیات کے ذریعہ حاصل کرنا چاہئے۔
شیخ کلینی نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت نقل کی ھے جس میں آنحضرت نے چند جملوں میں قرآن کی جامع وکامل تعریف بیان فرمائی ھے۔
” القرآن ھدیً من الضّلالة وتبیان من العمیٰ واستقالة من العثرہ ونور من الظلمة وضیاء من الاحداث وعصمة من الھلکة ورشد من الغوایة وبیان من الفتن وبلاغ من الدّنیا الیٰ آلاخرة وفیہ کمال دینکم وما عدل احد عن القرآن اِلّا الیٰ النّار“([3])
یعنی قرآن مندرجہ ذیل فضائل واوصاف کا حامل ھے۔
۱۔رہنما اور گمراہوں کی ھدایت کرنے والا۔
۲۔ہر اندھے کو بینائی عطا کر دیتا ھے۔
۳۔ ھر طرح کی لغرش سے بچاتا ھے۔
۴۔ ھر طرح کی ظلمت وتاریکی کے لئے نور وروشنی ھے۔
۵۔ ھر حادثہ میں امید کی کرن ھے۔
۶۔ ھر ھلاکت سے بچانے والا ھے۔
۷۔ ھر طرح کی گمراہی میں راہ راست دکھانے والا ھے۔
۸۔ تمام فتنوں کو واضح کرنے والا ھے۔
۹۔ انسان کو دنیا سے آخرت کی جانب لے جانے والا ھے۔
۱۰۔ تمہارے دین کا کمال قرآن میں ھے۔
۱۱۔ جس نے بھی قرآن سے منھ موڑا واصل جہنم ھوا۔
” کافی“ کتاب فصل القرآن میں دوسری رواتیں بھی ھیں جنھیں دقت نظر سے پڑھنا مفید ھوگا ھم نے یہاں چند روایتیں نمونہ کے طور پر نقل کی ھیں۔
اب چند روایتیں نزول قرآن کے سلسلہ میں کہ قرآن کب نازل ھوا اور کس سلسلہ میں نازل ھوا۔ پورا قرآن ایک مرتبہ میں نازل ھوا یا رفتہ رفتہ انشاء اللہ اس بحث کو آئندہ ذکر کریں گے۔