بدعت کی حقیقت قرآن و سنت کی روشنی میں

بدعت کی تعریف کے بارے میں جو نظریہ مولانا محمد حسین ڈھکو نے بیان کیا ہے اس کے متعلق نہایت حسن ظن سے کام لیتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے بدعت کے صحیح مفہوم کو نہیںسمجھا جس کی وجہ سے ہر وہ عمل یا قول جو اسے اپنی فکر کے مخالف نظر آیا اسے بد بینی کی عینک سے دیکھتے ہوئے بدعت قرار دے دیا ، لہذا ہم سب سے پہلے بدعت کے لغوی معنی کو بیان کررہے ہیں اور پھراس کے بعد قرآن وسنت کی رو سے بدعت کے بارے میں تحقیق کریں گے اور آخرمیں فقہاء کی نظر میں بدعت کو بیان کریں گے تا کہ یہ واضح ہو سکے کہ مولانا ڈھکو کی بیان کردہ تعریف کس قدر قرآن و سنت  اور علماء وفقہائے اسلام کے نظریہ سے سازگار ہے ۔

بدعت کالغوی معنیٰ

 جوہری لکھتے ہیں ''انشاء الشیء لا علی مثال السابق ، واختراعہ وابتکارہ بعد ان لم یکن ...''.

(الصحاح ٣ ١١٣؛ لسان العرب ٨٦؛ کتاب العین ٢٥٤).

بدعت کا معنی ایک بے سابقہ چیز کا اختراع کرنا ہے جس کا نمونہ پہلے موجود نہ ہو ۔.

نا آیات و روایات میں بدعت کے اس معنی کو حرام قرارنہیںدیا گیا اس لئے کہ اسلام انسانی زندگی میں نئی ایجادات کا مخالف نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کی تائید کرتا ہے جو ہمیشہ انسان کو اس کی انفرادی واجتماعی زندگی میں نئی ایجادات کی راہنمائی کرتی ہے۔

بدعت کا شرعی معن

دین میں بدعت کے جس معنی کے بارے میںبحث کی جاتی ہے وہ دین میں کسی شے کو دین سمجھ کر کم یا زیادہ کرنا ہے اور یہ معنیٰ اس لغوی معنیٰ سے بالکل جدا ہے جسے بیان کیا گیا

راغب اصفہانی لکھتے ہیں ''والبدعة فی المذہبایراد قول لم یستند قائلھا وفاعلھا فیہابصاحب الشریعة واماثلھا المتقدمة واصولھا المتقنة.(مفردات الفاظ القرآن ٣٩ .)

دین میں بدعت ہر وہ قول و فعل ہے جسے صاحب شریعت نے بیان نہ کیا ہو اور شریعت کے محکم و متشابہ اصول سے بھی نہ لیا گیا ہو

ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں ''والمحدثات بفتح الدال جمع محدثة ،والمراد بھا  ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع ویسمیہ فی عرف الشرع بدعة ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعة ''( فتح الباری ١٣  ٢١٢ . )

ہر وہ نئی چیز جس کی دین میںاصل موجود نہ ہو اسے شریعت میں بدعت کہا جاتا ہے اور ہر وہ چیز جس کی اصل پر کوئی شرعی دلیل موجود ہو اسے بدعت نہیں کہا جائے گا ۔ یہی تعریف عینی نے صحیح بخاری کی شرح (عمدة القاری ٢٥ ٢٧. )،مبارکپوری نے صحیح ترمذی کی شرح (تحفة الأحوذی ٧ ٣٦٦ .) ، عظیم آبادی نے سنن ابی داؤد کی شرح (عون المعبود ١٢ ٢٣٥.) اور ابن رجب حنبلی نے جامع العلوم میں ذکر کی ہے۔(جامع العلوم والحکم  ١٦٠ ، طبع ہندوستان.)

بدعت کے ارکان

گذشتہ مطالب کی بناء پر بدعت کے دو رکن ہیں

دین میں تصرف کرنا

ن میں کسی بھی قسم کا تصرف چاہے وہ اس میں کسی چیز کے زیادہ کرنے سے ہو یا اس میں سے کسی چیز کے کم کرنے سے مگر اس شرط کے ساتھ کہ تصرف کرنے والا اپنے اس عمل کو خدا یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف نسبت دے

لیکن انسانی طبیعت کے تنوع کی خاطر نئی ایجادات جیسے فٹ بال ، والی بال ، باسکٹ بال   وغیرہ بدعت نہیں کہلائیں گے

کتاب میں اس کی اصل کا نہ ہونا

بدعت کی اصطلاحی و شرعی تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی ایجادات اس صورت میں بدعت قرار پائیں گی جب منابع اسلامی میں ان کے بارے میںکوئی دلیل خاص یا عام موجود نہ ہو ۔

جب کہ ایسی نئی ایجادات جن کی مشروعیت کو بطور خاص یا عام قرآن و سنت سے استنباط کرنا ممکن ہو انھیں بدعت کا نام نہیںدیا جائے گا جیسے اسلامی ممالک کی افواج کوجدید اسلحہ سے لیس کرنا کہ جس کے جواز پر بعض قرآنی آیات کے عموم سے استنباط کیا جا سکتا ہے جیسا کہ یہ فرمان خداوند

(وََعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اﷲِ وَعَدُوَّکُمْ...)(  سورہ انفال .)

ترجمہ  اور ( مسلمانو!) ان کفار کے ( مقابلہ کے ) واسطے جہاں تک تم سے ہوسکے ( اپنے بازو کے ) زور سے اور بندھے ہوئے گھوڑوں سے ( لڑائی کا ) سامان مہیا کرو اس سے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن پر دھاک بٹھا لو گے

اسآیت شریفہ میں (وََعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ )جہاں تک ہو سکے اپنی طاقت مہیا کرو ۔کے حکم عام سے اسلامی افواج کو جدید ترین اسلحہ سے مسلح کرنے کا جواز ملتا ہے ۔(وہابیت ، مبانی فکری وکارنامۂ عملی ٨٣، تالیف آیت اللہ سبحانی ، خلاصہ کے ساتھ.)

بدعت قرآن کی رو سے

قانون گذاری کا حق فقط خدا ہی کو ہے

قرآن کی رو سے تشریع اور قانون گذاری کا حق فقط اور فقط خدا وندمتعال کو ہے اور کوئی دوسرا اس کے اذن کے بغیر قانون وضع کر کے اس کے اجراء کرنے کا حکم نہیں دے سکتا ۔

(اِنْ الْحُکْمُ ِلاَّ لِلَّہِ َمَرَ َلاَّ تَعْبُدُوا ِلاَّ ِیَّاہُ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ َکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ )(سورہ یوسف  ٤٠. )

ترجمہ  حکم تو بس خدا ہی کے واسطے خاص ہے اس نے تو حکم دیاہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔یہی سیدھا دین ہے مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے ہ

(اَمَرَ َلاَّ تَعْبُدُوا ِلاَّ ِیَّاہُ)کے قرینہ سے پتہ چلتا ہے کہ لفظ ( الحکم ) سے مراد قانون گذاری ہے

انبیاء کو بھی شریعت میں تبدیلی کا حق نہیں

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا وظیفہ شریعت الٰہی کولوگوں تک پہنچا نا اور اسے اجراء کرنا ہے وگرنہ احکام اسلام میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لا سکتے اور کفار کی آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے اس درخواست ۔کہ آپ اپنے دین میں تبدیلی لائیں یا ایسا قرآن لے کرآئیں جو ہماری مرضی کے مطابق ہو ۔ کے جواب میں خد اوند متعال نے اپنے نبیۖ کوحکم دیا

(... قُلْ مَا یَکُونُ لِی َنْ ُبَدِّلَہُ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِی ِنْ َتَّبِعُ ِلاَّ مَا یُوحَی ِلَیَّ ِنِّی َخَافُ ِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ )( سورہ یونس)

ترجمہ( اے رسول ۖ!) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں ۔ میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے میں تو اگر اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو بڑے ( کٹھن کے )دن سے ڈرتاہوں ۔

قرآن میں رہبانیت کی بدعت کی مذمت

خداوند متعال نے عیسائیوں کی رہبانیت جسے انھوں نے بندگا ن خداکی راہ پر جال کے طور پر بچھا رکھا ہے اسے بدعت اور خلاف شریعت قرار دیتے ہوئے سخت مذمت فرمائی ہے

(...َرَہْبَانِیَّةً ابْتَدَعُوہَامَا کَتَبْنَاہَا عَلَیْہِمْ ِلاَّ ابْتِغَائَ رِضْوَانِ اﷲِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا فَآتَیْنَا الَّذِینَ آمَنُوا مِنْہُمْ َجْرَہُمْ وَکَثِیر مِنْہُمْ فَاسِقُونَ )(سورہ حدید.)

ترجمہ  اور رہبانیت ( لذت سے کنارہ کشی ) ان لوگوں نے خو دایک نئی با ت نکالی تھی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر ( ان لوگوں نے ) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ( خو دایجاد کیا) تو اس کو بھی جیسا نبھانا چاہئے تھا نہ نبھا سکے ۔ تو جو لوگ ان میں سے ایمان لائے ان کو ہم نے اجر دیا ور ان میں بہت سے بد کار ہیں ۔ ( تفسیر نمونہ.)

بدعت ، خدا کی ذات پر تہمت لگانا ہے

خداوند متعال نے مشرکین کو دین میں بدعت ایجاد کرنے اوراسے خداکی طرف نسبت دینے کی وجہ سے سخت مذمت کرتے ہوئے فرمایا

(قُلْ َرََیْتُمْ مَا َنْزَلَ اﷲُ لَکُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْہُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ َاﷲُ َذِنَ لَکُمْ َمْ عَلَی اﷲِ تَفْتَرُونَ )(سورہ.)

ترجمہ ( اے رسول ۖ! ) تم کہہ دو کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ خدا نے تم پر روزی نازل کی تو اب اس میں سے بعض کو حرام اور بعض کو حلال بنانے لگے ۔ (اے رسولۖ!) تم کہہ دو کہ کیا خد انے تمہیں اجازت دی ہے یا تم خداپر بہتان باندھتے ہو ۔

بدعت ، خدا کی ذا ت پر جھوٹ باندھنا ہے

ایک اور آیت شریفہ میں تاکید کرتے ہوئے فرمای

(وَلاَتَقُولُوا لِمَا تَصِفُ َلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہَذَا حَلاَل وَہَذَا حَرَام لِتَفْتَرُوا عَلَی اﷲِ الْکَذِبَ ِنَّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اﷲِ الْکَذِبَ لاَیُفْلِحُونَ )( سورہ نحل.)

ترجمہ  او رجھوٹ موٹ جو کچھ تمہاری زبان پرآئے ( بے سمجھے بوجھے ) نہ کہہ بیٹھا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ اس کی بدولت خدا پر جھوٹ بہتان باندھنے لگو ۔ اس میں شک نہیں کہ جو لوگ خدا پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہ ہوں گے ۔

بدعت روایات کی روشنی میں

جس طرح قرآن مجید نے بدعت گذاروں کی شدید مذمت کی ہے اوران کے اقوال کو حقیقت سے دور ، جھوٹ اور تہمت پرمبنی قرا ردیا ہے اسی طرح شیعہ و سنی کتب کے اندر موجودہ روایات میں بھی بدعت گذارکی مذمت اور ا سے فاسق وبدکار انسان قرار دیا گیا ہے ، نمونہ کے طور پر چند ایک روایات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں

ہر بدعت مردود ہے

اہل سنت کی دو معتبر کتب صحیح بخاری اور صحیح مسلم میںحضرت عائشہ سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا قول نقل کیا گیا ہے کہ آپۖ نے فرمای

''من احدث فی امرنا ھذا، مالیس فیہ فھو رد''.(صحیح بخاری ٣١٦٧ ؛کتاب الصلح ، باب قول الامام لا صحابہ ...؛ صحیح مسلم ٥ ١٣٢ ، کتاب الاقضیة ، باب بیان خیر الشھود ..)

جو شخص ہماری لائی ہوئی شریعت میں ایسی چیز کا اضافہ کرے جو اس میں نہ ہو تو وہ مردود ہے ۔

زفرمای''...من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد''.(صحیح بخاری ٣ ٢٤ ،کتاب البیوع ، باب کم یجوز الخیار؛ صحیح مسلم ٥١٣٢، کتاب الاقضیة ، باب بیان خیر الشھود .)

جو شخص ایسا عمل کرے جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ عمل مردود ہے

ہر بدعت گمراہی ہے

صحیح مسلم میں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا فرمان بیان کیا گیا ہے

''فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھدی محمّد و شرّ ا لا مور محدثا تھا وکلّ بدعة ضلالة ''.(صحیح مسلم ٣ ١١ کتاب الجمعة ، باب تخفیف الصلاة والجمعة.)

بہترین کلام ، کلام خدا ہے اور بہترین ہدایت ، ہدایت پیغمبر گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور بد ترین امور بدعات ہیں جو دین میں ایجاد کی جاتی ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔

سنن نسائی میں ہے''کلّ بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار،،

ہربدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا راستہ جہنم ہے ۔(سنن نسائی٣ ١٨٨ ؛ جامع الصغیر سیوطی ١٢٤٣؛ صحیح ابن خزیمہ٣ ١٤٣ ؛ الدیباج علی مسلم ١ ٥.)

ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کایہ فرمان '' کل بدعة ضلالة'' ہر بدعت گمراہی ہے

منطوق و مفہوم یعنی ظاہر اور دلالت کے اعتبار سے ایک قاعدہ ٔ کلی ہے اس لئے کہ اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جہاں بھی بدعت پائی جائے وہ گمراہی ہے اور شریعت سے خارج ہے اس لئے کہ پوری کی پوری شریعت ہدایت ہے اس میں گمراہی کا کوئی امکان نہیں

اگر ثابت ہو جائے کہ فلاں حکم بدعت ہے تو منطق کے اعتبار سے یہ دو مقدمے (یہ حکم بدعت ہے       اور ہر بدعت گمراہی ہے ) صحیح ہیں جن کا نتیجہ یہ حکم گمراہی اور دین سے خارج ہے ۔ خود بخود ثابت ہو جائے گا

اورا س جملہ ''کل بدعة ضلالة '' سے آنحضرتۖ  کی مراد ہر وہ نیا کام ہے جس پر شریعت میں کوئی دلیل خاص یا عام موجود نہ ہو ۔(کل بدعة ضلالہ ،قاعدة شرعیہ کلیة بمنطوقھاومفھومھااما منطوقھا فکان یقال حکم کذابدعة وکل بدعةضلالة فلاتکون من الشرع لان الشرع کلہ ھدی فان ثبت ان الحکم المذکوربدعة صحت المقدماتانتجتاالمطلوب والمرادبقولہ ،................کلّ بدعة ضلالة ، مااحدث ولادلیل لہ من الشرع بطریق خاص ولاعام ، فتح الباری.)

بدعت گزار کے ساتھ ہم نشینی کی ممانعت

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں

''لا تصبحوا اہل البدع ولاتجالسوھم فتصیروا عند الناس کواحد منھم ، قال رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )  المرء علی دین خلیلہ وقرینہ''(اصول کافی ٢ ٣٧٥ ٣، باب مجالسة اہل المعاصی)

بدعت گزار وں کے ساتھ مت اٹھو بیٹھو کہ کہیں تمہیں بھی لوگ انھیں میں شمار نہ کرنے لگیں چونکہ انسان اپنے دوست کا ہم مذہب ہوتا ہے

اہل بدعت سے بیزاری واجب ہے

امام جعفر صادق علیہ السلام نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا

''واذا رأیتم اہل الریب والبدع من بعدی فاظھروا البراء ة منھم واکثروا من سبھم والقول فیھم والوقیعة..''(اصول کافی ٢ ٤٣٧٥، باب مجالسة اہل المعاصی .)

اگر میرے بعد اہل شک اور بدعت گزاروں کو دیکھو تو ان سے بیزاری ونفرت کا اظہار کرو ،ان پر سب وشتم اور ان کی برائی کو بیان کرو ( تاکہ معاشرے میں ان کا مقام گر جائے اور ان کی بات کی اہمیت نہ رہے .)

بدعت گذار کا احترام ، دین کی نابود

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں

''من تبسم فی وجہ مبتدع فقد اعان علی ھدم دینہ ''( بحار الانوار٤٧ ٢١٧،مناقب ابن شہر آشوب ٣ ٣٧٥ ؛ مستدرک الوسائل)

جو شخص بدعت گذار کے سامنے اظہار تبسم کرے اس نے دین کی نابودی میں اس کی مدد کی ہے .

نیز فرمای٫٫من مشیٰ الی صاحب بدعة فوقرہ فقد مشی فی ھدم الاسلام،،. (محاسن برقی ١ ٢٠٨؛ثواب الأعمال ٢٥٨؛من لا یحضرہ  الفقیہ ٣٥٧٢؛بحار الأنوار.)

جو شخص بدعت گذار کی ہمراہی اور ا س کا احترام کرے درحققیت اس نے دین اسلام کی نابودی کی طرف ایک قدم بڑھایا

بدعت کا مقابلہ کرنے کاحکم

مرحوم کلینی (رحمة اللہ علیہ )نے محمد بن جمہور کے واسطے سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے  نقل کیا ہے کہ آنحضرتۖ نے فرمایا

''اذا ظھرت البدع فی امتی فلیظھر العالم علمہ ، فمن لم یفعل فعلیہ لعنة اللہ ''۔(اصول کافی ١ ٥٤ ، باب البدع ، ح ٢.)

'' جب میری امت میں بدعات ظاہر ہونے لگیں تو علماء پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کا اظہار کریں ( اور اس بدعت کا راستہ روکیں ) پس جو ایسا نہ کرے اس پر خدا کی لعنت ہے ۔

بدعت کے بارے میں ڈھکوکا نظریہ

اس نے بدعت کی تعریف میں آئمہ معصومین علیہم السلام اور علماء کرام کے اقوال کو نقل کرنے کے بعد نتیجہ کے طور پر لکھا ہے

حضرت رسولخدا ۖاور حضرت علی المرتضی کے ان ارشادات اور ان علماء اعلام کے کلام سے جہاں بدعت کی مذمت واضح ہوتی ہے وہاں بدعت کی ماہیت و حقیقت بھی منکشف ہو جاتی ہے کہ ہر عقیدہ ، ہر نظریہ ، ہر عبادت ،ہر عادت ،ہر معاملہ اور ہر رسم اور ہر رواج جس کی صحت اور جواز پر شارع علیہ السلام کا کوئی خصوصی یا عمومی مستند فرمان موجود نہ ہو اور نہ ہی خالق دو جہان کے قرآن میں اس کے جواز پر کوئی نص موجود ہو اسے بدعت کہاجاتا ہے

...انہی حقائق کی بناء پر بعض محقق علماء نے بدعت کی تعریف بایں الفاظ کی ہے

ادخال ما لیس من الدین فی الدین

عنی٫٫ ہر وہ چیز جو دین میں داخل نہ ہو اسے دین میں داخل کرنا،،

اورجن علماء نے اس مذکورہ بالا تعریف کے ساتھ یہ پیوند لگایا ہے کہبقصد انہ من الدین یعنی جو چیز دین میں داخل نہ ہو اسے دین (جزء سمجھ کر ) دین میں داخل کرنا

ہماراخیال ہے یہ اضافی قید در اصل بدعت کو مشرف باسلام کرنیکی ناکام کوشش ہے ورنہ ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص نماز صبح دو رکعت کی بجائے تین رکعت پڑھے یا ہر رکعت میں دو دو رکوع بجا لائے تو یہ بہر حال بدعت ہو گی اور عبادت کے بطلان کا باعث ہو گی ، جزء عبادت سمجھ کر بجا لائے یا اس کے بغیر ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ٫٫ادخال ما لیس من الدین فی الدین بای قصد کان،،کا نام بدعت ہے اور وہ بہر حال حرام ہے خواہ وہ کوئی ورد ہو یا وظیفہ ،کوئی عمل ہو یا کوئی عبادت ۔(اصلاح الرسوم١٤و١٥. )( مولانا صاحب کے اس قول کے مطابق تو اگر کوئی شخص ہر روز قرآن مجید کا ایک پارہ پڑھنے یا ہر روز درود شریف کی ایک تسبیح پڑھنے کی عادت بنا لیتا ہے یا ہمیشہ  عبا و قبا اور عمامہ کے ساتھ مجلس  پڑھتا ہے تو بدعتی اور دین سے خارج ہے ۔جس کا ارتکاب وہ خود بھی کرتے رہتے ہیں اب نہیں معلوم کہ اب تک دین کے دائرہ میں موجود ہیں یا نکل چکے ہیں اس کا فیصلہ تو ہر انسان خود ہی کر سکتا ہے ۔ )

بدعت  کے بارے میں ڈھکو کے نظریے کی رد

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس نے بدعت کی تعریف میں کہاہے کہ کسی طرح کا نیا عمل ، قول یا رسم و رواج بدعت ہو گا چاہے اس کا انجام دینے والا اپنے اس عمل کو شریعت کی طرف نسبت دے یا نہ دے ، اس کے شر یعت کی جانب سے ہونے ارادہ کرے یا نہ کرے

ذیل میں ہم بدعت کے بارے میں فقہاء کے اقوال نقل کر رہے ہیںجس سے خود قارئین محترم مولاناڈھکو کے علمی مقام کا اندازہ لگا لیں گے اور یہ سمجھ لیں گے کہ ہمیشہ سے علمی مراکز اور علماء ومراجع کرام کی طرف رجوع کرنے کا غل غپاڑہ مچانے والا اب خود کیوں علماء و فقہاء کی مخالفت پر اتر آیا ہے ...!

بدعت علماء کی نظر میں

سید مرتضی  شیعہ متکلم و فقیہ نامور سید مرتضیٰ بدعت کی تعریف میں لکھتے ہیں

''البدعة زیادة  فی الدین أو نقصان منہ ،من اسناد الی الدین''(رسائل شریف مرتضی  ٢٢٦٤، ناشر دارالقرآن الکریم ،قم .)

بدعت ،دین میں کسی چیز کا دین کی طرف نسبت دیتے ہوئے کم یا زیادہ کرناہے

طریحی طریحی کہتے ہیں

''البدعة الحدث فی الدین ، ومالیس لہ اصل فی کتاب ولا سنة ، وانما سمیت بدعة؛ لان قائلھا ابتدعھا ھو نفسہ ''

بدعت، دین میں ایسا نیا کام ہے جس کی قرآن و سنت میں اصل موجود نہ ہو اور اسے بدعت کا نام اسلئے دیا گیا ہے کہ بدعت گذار اسے اپنے پاس سے اختراع کرتا ہے ۔

فاضل اردبیلی ریاض السالکین میں فاضل اردبیلی سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب منھاج البراعة فی شرح نہج البلاغہ جلد ٣صفحہ ٢٥٢ پر لکھا ہے

بدعت ایسا عمل ہے جسے بغیر دلیل کے شریعت کی طرف نسبت دی جائے ،،

(  ریاض السالکین٢٢٦٣.)

سید محسن امینیہ وہی شخصیت ہیں جنہیں مولانا موصوف نے اپنی کتاب اصول الشریعة کے صفحہ نمبر ٣٧٩پر مجاہد کبیر اور علاّمہ سے تعبیر کیا ہے۔وہ  بدعت کی تعریف میںفرماتے ہیں

دین میں ایسی چیز کا داخل کرنا جو اس کا جزء نہ ہو ، بدعت شمار ہو گا جیسے مباح کو حرام یا حرام کو مباح اور واجب کو حرام یاحرام کوواجب ،یا مستحب کو واجب اور واجب کو مستحب قرار دینا ۔(کشف الارتیاب ١٤٣؛ البدعة مفھومھا حدھا و آثارھا ٣٠.)

سید علی طباطبائی   انہوں نے کسی عمل کے تشریع و حرام ہونے کے لئے اس کے قصد قربت سے انجام دینے کی شرط لگائی ہے وہ سفر میں نماز وتیرہ کے ساقط ہونے کے بارے میںلکھتے ہیں

نماز وتیرہ کو سفر میں قصد قربت کی نیت سے بجا لانا تشریع و حرام ہو گا ،،۔( ریاض المسائل ٢١٣.)

دوسرے مقام پر لکھتے ہیں

تشریع یعنی کسی چیز کے شرعی ہونے کا عقیدہ رکھنا جبکہ اس پردلیل شرعی موجود نہ ہو

(ریاض المسائل ٢٢٥٧.)

اسی طرح اذان میں آواز کے گلے میں گھمانے کے بارے میں لکھاہے

اذان واقامت میں ترجیع مکروہ ہے لیکن اگر اس کے شرعی طور پر جائزہونے کا قصد کیاجائے تویہ عمل بدعت قرار پائے گا ۔(ریاض المسائل ٢٢٥٦.)

شہید ثانی اذان واقامت میں آواز کا کھینچنا مکروہ ہے اگر اس کے شرعی ہونے کا عقیدہ نہ رکھا جائے ،لیکن اگر اس کے شارع کی جانب سے ہونے کا عقیدہ رکھ کر بجا لایا جائے تو بدعت شمار ہو گا ۔( مسالک الافھام٩.)

میرزا آشتیانی دین میں کسی چیز کا اطاعت وعبادت کے قصد سے داخل کرنا جبکہ اس کا شرعی جواز ثابت نہ ہو ، اس معنی میں کہ اپنے عمل کو صاحب شریعت کی طرف نسبت دے ۔(بحر الفوائد ٨٠. )

محدث بحرینی  ایسا عمل جس کے جواز پر دلیل شرعی موجود نہ ہو اور اسے شریعت کی جانب سے سمجھ کر بجا لایا جائے تو وہ عمل بدعت و حرام ہو گا ۔( حدائق الناظرة ١٤١. )

آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی دام ظلہ العالي

وہ اپنی کتاب ( وہابیت بر سر دو راہی ) میں بدعت کی تعریف کرتے فرماتے ہیں

بدعت لغت میں وہی ہر طرح کی اچھی یا بری ایجاد ہے جیسا کہ پہلے اشارہ کر چکے ،اورفقہاء کی اصطلاح میں ٫٫کسی ایسی چیز کا دین میںداخل کرنا جو دین نہ ہو ،، ہاں جب بھی ایسی چیز جو دین نہ ہو اسے دین میں حکم الہی سمجھ کر داخل کریں تو بدعت کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ دو طرح سے انجام پا سکتا ہے  واجب کوحرا م اور حرام کو واجب ،ممنوع کو مباح اور مباح کو ممنوع قرار دینے سے

قارئین محترم ! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مندرجہ بالا تمام فقہاء نے بدعت کے اثبات کے لئے کسی غیر شرعی کام کو شریعت کی طرف نسبت دینے کی قید لگائی ہے لیکن اگر کوئی شخص ایک عمل انجا م دے مگر اسے شریعت کی طرف نسبت نہ دے تو اس کا وہ عمل بدعت شمار نہیں ہو گا جیسے نماز کے بعد مصافحہ کرنا وغیرہ ۔علمائے کرام کی بدعت کے بارے میں بیان کردہ تعریف کے مطابق محمد حسین ڈھکو کا نظریہ خود بخودباطل ہو جاتا ہے اس لئے کہ اس نے بدعت کی تعریف میں لکھا ہے  ٫٫ بای قصد کان ،،کسی بھی قصد سے دین میں کسی دوسری چیز کا داخل کرنا بدعت شمار ہو گاچاہے اسے دین اور شریعت کی طرف نسبت دی جائے یا نہ دی جائے ۔جبکہ یہ تعریف تمام علماء کے اقوال کے مخالف ہے لیکن ڈھکو بھی اپنے پیرو مرشد خالصی کی طرح ہمیشہ فقہاء کے خلاف فتوے دینے میں سر گرم رہتا ہے اور یوں ضعیف شیعوں کے عقائد کومتزلزل کرنے کی مذموم کوشش کرتا رہتا ہے ۔()

(دشمن علماء و مراجع، خالصی کی تعریف میں جو کچھ ڈھکو نے لکھا ہے اس کے لئے ان کی کتاب اصول الشریعة صفحہ نمبر ٢٦٧ کا مطالعہ فرمائیں اور مؤمنین یہ بھی یاد رکھیں کہ جس طرح خالصی کی موت کے بعد نہ تو اس کا نام و نشان رہا ہے اور نہ ہی اس کے باطل افکار بلکہ اس کی قبر کا نشان بھی مٹ چکا ہے اسی طرح اس دور کے جھوٹے مدعی اجتھاد کا بھی یہی حال ہوگا اس لئے کہ جو بھی خدا وند متعال نے دشمن اہل بیت علیہم السّلام کی یہی سزا مقرر کررکھی ہے جیسے کہ اس کی کئی ایک مثالیں آپ کے سامنے موجود ہیں ۔