قرآن وسنت میں وحدت کا مقام

وحدت قوموں کی کامیابی کا راز

اس  میں  شک  نہیں ہے کہ قوموں کی کامیابی وکامرانی کا ایک رازان کا آپس میں اتفا ق و اتحاد رہا ہے جس طرح پانی کے قطرات کے متحد ہونے سے بڑے بڑے دریا تشکیل پاتے ہیں اور دریائوں کے مل جانے سے سمندربنتے ہیں اسی طرح انسانوں کے اتحادا ور جمع ہونے سے ایسی صفیں تشکیل پاتی ہیں جن پر نگاہ ڈالتے ہی دشمن وحشت زدہ ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر کبھی بھی ان پر چڑھائی کرنے کا تصور تک نہیں کرتا (( ترھبون بہ عدوّاللّٰہ وعدوّکم ))

ترجمہتم صف بندی کے ذریعہ اپنے اور خدا کے دشمن کو خوفزدہ کرو.( سورہ انفال٦٠   

  قرآن مجید مسلمانوں کو وحدت و اتحاد کے تنہا عامل حبل اللہ سے تمسک کی دعوت اور ہر طرح  کے اختلاف سے بچنے کا حکم دیتا ہے

  (( واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولا تفرّقوا ))( سورہ آل عمران ١٠٣.)

ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میںاختلاف پیدا نہ کرو ۔

قرآن نے مومنین کو آپس میں بھائی بھائی شمار کیا ہے اور ان سے یہ تقاضا کیاہے کہ ان کے آپس کے روابط وتعلقات دوستانہ اور بھائیوں کے مانند ہونا چا ہئیںا ور پھر چھوٹے سے چھوٹے اختلاف کی صورت میں بھی صلح کا دستور صادر فرمایا ہے

((انّماالمؤمنون اخوة فاصلحوا بین أخویکم واتّقوااللّہ لعلّکم ترحمون))(  سورہ حجرات ١٠.)

ترجمہ: مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے  بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے ۔

٢۔اختلاف جاہلیت کی علامت

جنگ بنو مصطلق میں مسلمانوں کی فتح کے بعد ایک انصاری اورمھاجر کے درمیا ن اختلاف ایجاد ہو گیا ،انصاری نے اپنے قبیلہ کو مدد کے لیے پکارا اور مہاجر نے اپنے قبیلہ کو ،جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی خبر ملی تو فرمایا  ان بری باتوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اس لیے کہ یہ جاہلیت کاطریقہ ہے جبکہ خدا وند متعال نے مومنین کوایک دوسرے کا بھائی اور ایک گروہ قرار دیا ہے ہرزمان ومکان میں ہر طرح کی فریاد ومدد خواہی فقط اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کی خاطر ہونی چاہیے نہ کہ ایک گروہ کی خیر خواہی اور دوسرے کو ضرر پہنچانے کی خاطر انجام پائے ۔ اس کے بعد جو بھی جاہلیت کے شعار بلند کرے گا اسے سزادی جائے گی ۔(  سیر ہ نبویہ ٣٣٠٣ غزوہ بنی مصطلق ؛ مجمع البیان ٥٢٩٣؛ رسائل و مقالات ١٤٣١. ) 

٣۔اختلاف بدترین عذاب

خدا وند متعال نے اپنی لاریب کتاب میں اختلاف کو بدترین عذاب شمار کرتے ہوئے فرمای

((  قل ہو القادر علی أن یبعث علیکم عذابا من فوقکم أو من تحت أرجلکم أو یلبسکم شیعا و یذیق بعضکم بأس بعض)) 

ترجمہکہہ دیجیے کہ وہی اس بات پر بھی قادر ہے کہ تمھارے اوپر سے یا پیروں کے نیچے سے عذاب بھیج دے یا ایک گروہ کو دوسرے سے ٹکرا دے اور ایک کے ذریعہ دوسر ے کوعذاب کا مزہ چکھا دے ۔( سورہ انعام ٦٥.)

ابن اثیر کہتے ہیں (شیعا )  سے مراد وہی مسلمانوںکے درمیان اختلاف ایجاد کرنا ہے۔

 (النہایہ فی غریب الحدیث ٢٥٢٠. )

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے لوگوں سے رابطہ نہ رکھنے کا حکم فرمایا جوآپس میں اختلاف ایجاد کرتے اور اس پر اصرار کرتے ہیں

(( انّ الّذین فرّقوا دینہم وکانوا شیعا لست منھم فی شیء انّما أمرُھم الی اللّہ ثمّ ینبئھم بما کانوا یفعلون))( سورہ انعام ١٦٥.)

ترجمہجن لوگوں نے اپنے دین میں اختلاف ایجاد کیا اورٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کے اعمال سے با خبر کرے گا ۔

خدا وند متعال نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ مشرکوںکے مانند آپس میں اختلاف اور اس پر فخر و مبا حات مت کریں 

    (( ولا تکونوا من المشرکین من الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا  کل حزب بما لدیھم فرحون ))( سورہ روم٣٢.)

ترجمہ  اور خبردار مشرکین میں سے نہ ہو جانا جنھوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور گروہوں میں  بٹ گئے ہیں پھرہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر مست ومگن ہے ۔ 

 ٤۔رسولخدا  ۖکاختلاف اُمت سے پریشان ہونا

امت مسلمہ کے درمیان ہر قسم کا اختلاف پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے پریشانی کا باعث تھا سیوطی اور دیگر مولفین نے نقل کیا ہے کہ شاس بن قیس نامی شخص جو زمانہ جاہلیت کا پرورش یافتہ اور مسلمانوں کے بارے میں حسد و کینہ اس  کے دل میں ٹھا ٹھیں مارتا رہتا تھا اس نے ایک یہودی جوان کوتیار کیا تاکہ اسلام کے دو بڑے قبیلوں اوس وخزرج کے درمیان اختلاف ایجاد کرے ۔ اس یہودی نے دونوں قبیلوںکے افراد کو زمانہ جاہلیت میں ان کے درمیان ہونے والی جنگوں کی یاد دہانی کروا کر ان کے درمیان آتش فتنہ روشن کر دی یہاں تک کہ دونوں قبیلے ننگی تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہوئے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر ملی تو انصار و مہاجرین کے ایک گروہ کے ہمراہ لڑائی کے مقام پر پہنچے اورفرمای

اے مسلمانو!کیا تم نے خدا کوفراموش کر ڈالا اور جاہلیت کے شعاربلندکرنے لگے ہو جبکہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں ،خداوند متعال نے تمھیں نور اسلام کی طرف ہدایت کرکے مقام عطا کیا ،جاہلیت کے فتنوں کو ختم کرکے تمھیں کفر سے نجات دی اور تمھارے درمیان الفت وبرادری برقرارکی ،کیا تم دوبارہ کفر کی طرف پلٹنا چاہتے ہو ؟

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس خطاب سے وہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ ایک شیطانی سازش ہے اپنے اس عمل پر پشیمان ہوئے ،اسلحہ زمین پر رکھ دیا اور آنسو بہاتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگا کر اظہار محبت کرنے لگے اور پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمراہی میں اپنے اپنے گھروں کی طرف واپس پلٹ گئے ( تفسیر در المنثور ٢٥٧ ؛ مجمع البیان ٤٣٢؛ فتح القدیر ١٣٦٨؛ تفسیر آلوسی ٤١٤؛ اسد الغابہ  ١١٤٩  .   )

حضرت علی کی نظر میں اختلا ف کے برے اثرات

١۔فکری انحراف کا باعث

حضرت علی علیہ ا لسلام معتقدتھے   ٫٫الخلاف یھدم الرأ ی ،،

اختلاف رائے کو نابود کردیتاہے۔(نہج البلاغہ ،حکمت٢١٥.)

  یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان پرسکون ماحول میں درست نظریہ بیان کر سکتا ہے جبکہ اختلافات کی فضا میں انحراف واشتباہ سے دوچار ہو جاتا ہے ۔

٢۔باطن کے نجس ہونے کی علامت

علی علیہ السلام اختلاف کی نجاست کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں 

٫٫انما انتم اخوان علی دین اللہ ،ما فرّق بینکم الّا خُبث السّرائر وسوء الضّمائر،،(نہج البلاغہ ،خطبہ ١١٣.)

٣۔ فتنہ کا باعث

حضرت علی علیہ السلام بخوبی جانتے تھے کہ شیطان اختلاف ایجادکر کے فتنہ کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے لہذافرمایا

٫٫انّ الشیطان یسنی لکم طرقہ ، ویریدأن یحلّ دینکم عقدة عقدة، ویعطیکم بالجماعة الفرقة ، وبالفرقة الفتنة ،،(نہج البلاغہ ، خطبہ ١٢١ )

ترجمہ یقینا شیطان تمہارے لئے اپنی راہیں آسان بنا دینا چاہتا ہے کہ ایک ایک کر کے تمہاری ساری گرہیں کھول دے وہ تمہیں اجتماع کے بجائے افتراق دے کر فتنوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے

 ٤۔شیطان کے غلبہ کا باعث

حضرت علی علیہ السلام نے یہ سمجھانے کے لئے کہ اختلاف شیطان کو اپنے اوپر مسلط کرنے کے سوا کچھ اور نہیں ہے فرمایا 

  ٫٫وألزموا السّواد الأعظم فانّ یداللہ مع الجماعة ،وایّاکم والفرقة فانّ الشاذ من النّاس للشّیطان ، کما أنّ الشّاذ من الغنم للذئب ،،()

 (نہج البلاغہ ،خطبہ ١٢٧.)

ترجمہ اور سواد اعظم کے ساتھ رہو کہ خدا کا ہاتھ اسی جماعت کے ساتھ ہے اور خبردار تفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ جا تا ہے وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہو جاتا ہے جس  طرح ریوڑ سے الگ ہوجانے والی بھیڑ بھیڑیئے کی نذرہو جاتی ہے ۔

٥۔دوگروہ میں سے ایک کے یقینا باطل ہونے کی علامت

امیرالمومنین علیہ السلام کے نزدیک اختلاف سے دوچار ہونا وہی باطل کی پیروی کرنا ہے لہذا فرمایا

  ٫٫  مااختلف دعوتان الاّ کانت احداھما ضلالة ،،

ترجمہ  جب بھی دو نظریوںمیں اختلاف ہو تو ان میں سے ایک یقینی طور پر باطل پر ہے ۔(نہج البلاغہ ، حکمت ١٨٣.)

یعنی ہمیشہ حق باطل کے مقابل میں ہے اور یہ دونوں کبھی جمع نہیںہو سکتے ۔

٦۔ اختلاف ایجا د کرنے والے کی نابودی واجب ہے

امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں

 ٫٫الا من دعا الی ھذاالشعار فاقتلوہ،ولوکا ن تحت  عمامتی ھذہ  ،،

ترجمہآگاہ ہو جائو جو بھی اختلاف کا نعر ہ لگائے اسے قتل کر دوچاہے میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو ۔( نہج البلاغہ ،خطبہ ١٢٧.)

ڈھکو اور شیعہ اتحاد پر کاری ضرب

 اس میں شک نہیں ہے کہ ہم ایک ایسے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں دشمنان اسلام، اسلام اور خاص طور پر تشیع کی نابودی کے لئے آپس میں معاہدہ کر چکے ہیں اور اپنے تمام تر سیاسی واقتصادی امکانات تشیع کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے بروئے کار لا رہے ہیں ، جیسا کہ امریکی سی آئی اے کا نمائندہ ڈاکٹر مائیکل برانٹ اپنی کتاب (مکاتب الہی کو جدا کرنے کا منصوبہA plan to divis and desnoylte theology  )میں لکھتا ہے

کتنی صدیوں سے عالم اسلام پر مغربی ممالک حکومت کرتے چلے آرہے ہیں اگرچہ اس آخری صدی میں اکثر اسلامی ممالک آزاد ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی ان کی آزادی ، سیاست ، تعلیم اور ثقافت پر مغرب کا قبضہ رہا ہے خاص طور پر ان ممالک کا سیاسی اور اقتصادی نظام ہمارے کنٹرول میں رہا ہے ۔

  ١٩٧٩ء میں ایران کے اسلامی انقلاب نے ہماری سیاست کوبہت نقصان پہنچایا ، ابتداء میں تو ہم نے یہ گمان کیا کہ یہ شاہ ایران کے ظلم و تشدد اور غلط سیاست کا نتیجہ ہے جس سے مذہبی عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں ، شاہ ایران کے معزول ہونے کے بعد دوبارہ ہم اپنی مرضی کے لوگ لاسکیں گے لیکن پہلے ہی دو تین سالوں میں جب امریکہ کو سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اسلام کی بیداری اور مغرب کے خلاف نفرت نے زور پکڑا،نیز انقلاب کا اثر شیعہ ممالک لبنان ، عراق ، بحرین ، کویت اور پاکستان تک پہنچ گیا تو اس وقت سی آئی اے کے سینئر افسروں کا اجلاس بلایا گیا جس میں برطانوی انٹیلی جنس کے شہرت یافتہ نمائندہ mixنے بھی شرکت کی ،اس اجلاس میں اس نتیجہ پر پہنچے کہ انقلاب اسلامی ایران کے باطن میں کچھ اور بھی عوامل پوشیدہ ہیں کہ جن میں سے مہم ترین عوامل شیعوں کی مرجعیت اورپیغمبر اسلامۖ کے نواسے حسین کی چودہ سو سال پہلے ہونے والی شہادت ہے جسے شیعہ حضرات انتہائی جوش و خروش سے مناتے ہیں یہی دو چیزیں ہیں جن کے باعث شیعہ دوسرے مسلمانوں سے زیادہ متحرک دکھائی دیتے ہیں ۔

  ا س اجلاس میں یہ طے پایا کہ شیعوں کے خلاف سازش کے لئے ایک الگ شعبہ تشکیل دیا جائے جس کے لئے پہلے ہی مرحلہ میں چالیس ملین ڈالر مختص کیا گیا ۔

اس نے مزید لکھا  ہے کہ اس کام کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا گیا

١۔ خبروں کا اکٹھا کرنا ۔

٢۔ شیعوں کے خلاف تبلیغات اور شیعہ و سنی کے درمیان فتنہ و فسادایجاد کرنا۔

٣۔ شیعوں کا مکمل خاتمہ۔

 پہلے مرحلہ کی تکمیل کے لئے ایک تحقیقی ٹیم کو پاکستان سمیت کئی ایک ممالک میں بھیجا گیا ان کی لائی گئی رپورٹوں پرتحقیق کرنے کے بعد تمام دنیا کے شیعوں کے درمیان چند ایک مشترک امور سامنے آئے ہیں 

ان کے مذہب کی قدرت کا اصلی سرچشمہ ان کے مجتہد ہیںجنہوں نے تشیع کی اس طولانی تاریخ میں کبھی بھی غیر شرعی حاکم کی بیعت نہیں کی ، یہاں تک کہ ایک مجتہد وقت (( آیت اللہ العظمی شیرازی )) کے ایک فتویٰ کی وجہ سے برطانیہ ایران میں اپنی کارکردگی نہ دکھا سکا ۔اسی طرح عراق جو شیعوں کا بہت بڑا علمی مرکز تھا صدام اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اسے نہ خرید سکا اور بالآخر اسے بند کرنے پر مجبور ہو گیا جبکہ قم نے شاہ ایران کا تختہ الٹ دیا اور آمریکہ سے جنگ کی ، لبنان میں آیت اللہ موسیٰ صدر کی تحریک نے برطانیہ ، فرانس اور اسرائیل کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا اور اسرائیل کے مقابلہ میں ایک بہت بڑی طاقت حزب اللہ کو تشکیل دیا ۔

 اس بناء پر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیںکہ

١۔ شیعوں سے ڈائریکٹ مقابلہ کرنے کی صورت میں کامیابی کا امکان بہت کم ہے لہذا پس پردہ رہ کر ان کے خلاف کام کیا جائے ۔

٢۔ ایسے افراد جو شیعو ں سے اختلاف رائے رکھتے ہیں انھیں شیعوںکے خلاف منظم و مستحکم کر کے شیعوں کے کافر ہونے کے نظریہ کو عام کر کے انھیں معاشرے سے جدا کیا جائے ۔

٣۔جاہل اور کم پڑھے افراد کی مدد کرکے انہیں شیعوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا جائے۔

٤۔ مرجعیت کے خلاف کام کیاجائے تاکہ لوگوں کے درمیان مجتہدوں کے بارے میں نفرت ایجاد کی جاسکے ۔

ڈاکٹر مائیکل برانٹ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے بارے میں لکھتا ہے

یہ مجالس اور ان کے سننے والے ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیںاس لئے کہ اسی عزاداری اور مجالس کی وجہ سے شیعوں کے اندر اس قدر جوش و جذبہ پایا جاتا ہے لہذا ہم نے اپنے بجٹ کا کچھ حصہ ذاکرین اور سامعین کے لئے معین کیا ہے تا کہ شیعوں میں سے جو لوگ دنیا پرست اورضعیف العقیدہ ہیں ان کی شناخت کر کے ان کے ذریعہ سے عزاداری میں رسوخ پیدا کیا جائے اور پھر ان لوگوں سے مندرجہ ذیل امور کا تقاضا کیا جائے

١۔ ایسے ذاکرین تیار کرنا یا ان کی سر پرستی کرنا جو شیعہ عقائد سے آشنائی نہ رکھتے ہوں

٢۔ شیعوں میں سے ایسے افراد کی مدد کرنا جو اپنی تحریر کے ذریعے شیعہ عقائد اور ان کے    علمی مراکز پر حملہ کرکے مذہب شیعہ کی بنیادوں کو منہدم کر سکتے ہوں ۔

٣۔ عزاداری میں ایسے رسم و رواج کی ترویج کرنا جن کا مذہب شیعہ سے کوئی تعلق نہ ہو ۔ لہذا اس کے لئے ضروری ہے کہ بڑے بڑے ذاکروں کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ تشیع ایک منطقی مذہب سے محض درویشی مذہب میں تبدیل اور اندر سے کھوکھلا ہو جائے۔

٤۔ مرجعیت کے خلاف کثرت سے مطالب جمع کرکے دولت پرست مولفین کے حوالے کئے جائیں تاکہ وہ انہیں ذاکروں اور عوام کے درمیان پھیلا سکیں ۔

    اس نے اس بات کی تاکید کی ہے کہ یوں ٢٠١٠ء تک تشیع کامرکز نابود ہو جائے گا اور جو لوگ باقی بچ جائیں گے ان کے اور ان کے مخالفین کے درمیان مسلحانہ جنگ ایجاد کر کے انہیں پراکندہ کر دیا جائے گا ۔(آ موزہ ھای شیعہ ١١، تالیف حسین رجبی؛اخبار جمہوری اسلامی ٥۔٣۔١٣٨٣.)

  شیعیان پاکستان اپنے تما م تر فکری اختلافات کے باوجود اہل بیت علیھم السلام کے بیان کردہ فرامین سے راہنمائی لیتے ہوئے اپنے درمیان اخوت اور بھائی چارے کو باقی رکھے ہوئے دشمنان اسلام کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار کے مانند محکم واستوار کھڑے تھے لیکن افسوس کہ ١٩٨٥ء میں محمد حسین ڈھکو نے (اصلاح الرسوم) نامی خرافات پر مشتمل کتاب لکھ کر اس وحدت وہمدلی کو پارہ پارہ کر دیا ، شیعیان علی پر بدعت کی تہمت لگا کر ان کی صفوںپر ایسی کاری ضرب لگائی جس کا جبران ممکن نہیں ہے ۔اور پھر علماء ومراجع عظام کے خلاف زبان درازی کر کے اسلام کے دیرینہ دشمنوں کے ہدف کو عملی جامہ پہنادیا ۔

  ( اس بات کے ثبوت کے لئے ماہنامہ دقائق الاسلام مارچ ٢٠٠٧ء اورچک نارنگ چکوال میں شہادت ثالثہ کے بارے میں ہونے والے سوال وجواب کی سی ڈی مشاہدہ فرمائیں .)