قرآن کی روشنی ميں نفاق و منافقين کا تصور

 قرآن مجيد حكم دے رھا ھے كے اپنے آشكار و مخفي دشمنوں كو خوفزدہ كرنے كے لئے پوري طاقت سے مستعدر ھو اور طاقت حاصل كرو تاكہ تمھاري قدرت و اقتداران كي خلاف ورزي روكنے كا ذريعہ ھوجائے۔

(واعدّوا لھم ما استتطعتم من قوۃ و من رباط الخيل ترھبون بہ عدّو اللہ و عدوكم آخرين من دونھم لا تعلمونھم اللہ يعلمھم)

اور تم سب ان كے مقابلہ كے لئے امكاني قوت اور گھوڑوں كي صف بندي كا انتظام كرو جس سے اللہ كے دشمن اپنے دشمن اور ان كے علاوہ جن كو تم نھيں جانتے ھو اور اللہ جانتا ھے (منافقين) سب كو خوفزدہ كردو۔

اس آيت سے استفادہ ھوتا ھے كہ اسلامي نظام ميں طاقت و قدرت كا حصول تجاوز و قانون كي خلاف ورزي روكنے كا وسيلہ ھے نہ تجاوز گري كا ذريعہ۔

منافقين ان افراد ميں سے ھيں جو ھميشہ اسلامي نظام و سر زمين پر تعرض و تجاوز كا خيال ركھتے ھيں لھذا نظامي و انتظامي اعتبار سے آمادگي اور معاشرہ كا صاحب بصارت و دانائي ھونا سبب ھوگا كہ وہ اپنے خيال خام سے باز رھيں، اس نكتہ كا بيان بھي ضروري ھے كہ قوت و قدرت كا حصول (آمادگي) صرف جنگ و معركہ آرائي پر منحصر نہ ھو اگر چہ جنگ ورزم ميں مستعد ھونا، اس كے ايك روشن و واضح مصاديق ميں سے ھے، ليكن دشمن كي خصوصيت، اس كے حملہ آور وسائل كي شناخت و پھچان كے لئے بصيرت كا وجود، حصول قدرت و اقتدار كے اركان ميں سے ھے۔

جب كہ منافقين كا شمار خطرناك ترين دشمنوں مں ھوتا ھے لھذا، نفاق اور اس كي خصوصيت و صفات كي شناخت ان چند ضرورتوں ميں سے ايك ھے جسے عالم اسلام ھميشہ قابل توجہ قرار دے۔

اس لئے كہ ممكن ھے ھزار چھرے والے دشمن (منافق) سے غفلت ورزى، شايد اسلامي نظام و مسلمانوں كے لئے ايسي كاري ضرب ثابت ھو جو التيام و بھبود كے قابل ھي نہ ھو۔

نفاق كے لغوي و اصطلاحي معانى

لفظ نفاق كا ريشہ اور اس كے اصل

لفظ نفاق كے معنى، كفر كو پوشيدہ، اور ايمان كا ظاھر كرنا ھے، نفاق كا استعمال اس معني ميں پہلي مرتبہ قرآن ميں ھوا ھے، عرب ميں اسلام سے قبل اس معني كا استعمال نھيں تھا، ابن اثير تحرير كرتے ھيں:

((وھو اسم لم يعرفہ العرب بالمعني المخصوص وھو الذي يستر كفرہ و يظھرہ ايمانہ))

لفظ نفاق كا اس خاص معني ميں استعمال لغت كے اعتبار سے چار احتمال ھوسكتا ھے:

پہلا احتمال: يہ ھے كہ نفاق بمعني اذھاب و اھلاك كے ھيں، جيسے (نفقت الدّابۃ) كہ حيوان كے برباد و ھلاك ھوجانے كے معني ميں ھے۔

نفاق كا اس معني سے تناسب يہ ھے كہ منافق اپنے نفاق كي بنا پر اس ميت كے مثل ھے جو برباد و تباہ ھوجاتي ھے۔

دوسرا احتمال: نفاق ذيل عبارت سے اخذ كيا گيا ھے:

((نفقت لسلعۃ اذا راجت و كثرت طلابھا))

وہ سامان جو بھت زيادہ رائج ھو اور اس كے طلب گار بھي زيادہ ھوں تو يہاں پر لفظ "نفق" كا استعمال ھوتا ھے، اس بنا پر اھل لغت كا اصطلاحي مفھوم سے مرتبط ھوتے ھوئے، نفاق يہ ھے كہ منافق ظاھر ميں اسلام كو رواج ديتا ھے، كيوں كہ اسلام كے طلب گار زيادہ ھوتے ھيں۔

تيسرا احتمال: نفاق، زمين دوز راستہ كے معني ميں استعمال ھوا ھے۔

((النفق سرب في الارض لہ مخلص الي المكان))

اس اصل كے مطابق منافق ان افراد كے مثل ھے جو خطرات كي بنا پر زمين دوز راستہ (سرنگ) ميں مخفي ھوجائے، يعني منافق بھي اسلام كے لباس كو زيب تن كركے خود كو محفوظ كرليتا ھے اگر چہ مسلمان نھيں ھوتا ھے۔

چوتھا احتمال: نفاق كا ريشہ "نافقاء" ھے، صحرائي چوھے اپنے گھر كے لئے دو راستہ بناتے ھيں ايك ظاھر و آشكار راستہ، اس كا نام "قاصعاء" ھے، دوسرا مخفي و پوشيدہ راستہ، اس كا نام "نافقاء" ھے، جب صحرائي چوھا خطرہ كا احساس كرتا ھے تو، قاصعاء سے داخل ھوكر نافقاء سے فرار كرتا ھے۔

اس احتمال كي بنا پر، منافق ھميشہ خروج كے لئے دو راستہ اپناتا ھے، ايمان پر كبھي بھي ثابت قدم نھيں رھتا اگر چہ اس كا حقيقي راستہ كفر ھے ليكن اسلام كا ظاھر كر كے اپنے كو خطرے سے بچا ليتا ھے۔

ابتدا ميں دو احتمال يعنى، نفاق بمعني ھلاك ھونے اور ترويج پانے كے سلسلے ميں علماء لغت كي طرف سے كوئي تائيد نھيں ملتي ھے، لھذا ان معاني سے اعراض كرنا چاھئے، ليكن تيسرے اور چوتھے احتمال ميں سے كون سا احتمال اساسي و بنيادي ھے اس كے لئے مزيد بحث و مباحثہ كي ضرورت ھے۔

تمام مجموعي احتمالات سے ايك نكتہ ضرور سامنے آتا ھے، وہ يہ كہ نفاق كے معاني ميں دو عنصر قطعاً موجود ھے، 1: عنصر دورخى، 2:عنصر پوشيدہ كارى

اس بنا پر نفاق كے معاني ميں دو رخي و پوشيدہ كاري كا بھي اضافہ كردينا چاھئے، منافق وہ ھے جو دو روئي كا حامل ھوتا ھے، اور اپني صفت كو پوشيدہ بھي ركھتا ھے۔

قرآن و احاديث ميں نفاق كے معانى

روايات و قرآن ميں نفاق دو معاني اور دو عنوان سے استعمال ھوا ھے:

1۔ اعتقادي نفاق

قرآن و حديث ميں نفاق كا پہلا عنوان اسلام كا ظاھر كرنا، اور باطن ميں كافر ھونا، اس نفاق كو اعتقادي نفاق سے تعبير كيا جاتا ھے۔

قرآن ميں جس مقام پر بھي نفاق كا لفظ استعمال ھوا ھے يہي معني منظور نظر ھے، يعني كسي فرد كا ظاھر ميں اسلام كا دم بھرنا، ليكن باطن ميں كفر كا شيدائي ھونا۔

سورہ منافق كي پہلي آيت اسي معني كو بيان كر رھي ھے۔

(اذا جاءك المنافقون قالوا نشھد انك لرسول اللہ واللہ يعلم انك لرسولہ واللہ يشھد ان المنافقون لكاذبون)

پيغمبر! يہ منافقين آپ كے پاس آتے ھيں، تو كھتے ھيں كہ ھم گواھي ديتے ھيں كہ آپ اللہ كے رسول ھيں، اور اللہ بھي جانتا ھے كہ آپ اس كے رسول ھيں ليكن اللہ گواھي ديتا ھے كے يہ منافقين اپنے قول ميں جھوٹے ھيں۔

سورہ نساء ميں منافقين كي باطني وضعيت اس طريقہ سے بيان كي گئي ھے۔

(و دّو لو تكفرون كما كفروا فتكونون سواء)

يہ منافقين چاھتے ھيں كہ تم بھي ان كي طرح كافر ھوجاؤ اور سب برابر ھوجائيں۔

اس بنياد پر امكان ھے كہ مسلمانوں ميں بعض افراد ايسے ھوں جو اسلام كا اظھار كرتے ھوں اور باطن ميں دين اور اس كي حقانيت پر اعتقاد نہ ركھتے ھوں۔

ليكن ان كے اس فعل كا محرك كيا ھے؟ اس كا ذكر تاريخ نفاق كي فصل ميں بيان ھوگا، اس نوعيت كے افراد كا فعل نفاق ھے اور ان كو منافق كھا جاتا ھے۔

يقيناً بعض افراد كا اسلام، جو فتح مكہ كے وقت مسلمان ھوئے تھے اسي زمرہ ميں آتا ھے، مثال كے طور پر ابوسفيان كا اسلام، پيامبر عظيم الشان كے بعد كے واقعات، خصوصاً عثمان كے دورہ خلافت ميں ظاھر ھوجاتا ھے كہ، ان كا اسلام چال بازي اور مكاري سے لبريز تھا، آھستہ آھستہ خلافتي ڈھانچے ميں اثر و رسوخ بڑھاتے ھوئے اسلام كے پردے ميں كفر ھي كي پيروي كرتے تھے، يھاں تك كہ عثمان كے عصر خلافت ميں ابوسفيان، سيد الشھدا حضرت حمزہ كي قبر كے پاس آكر كھتا ھے، اے حمزہ! كل جس اسلام كے لئے تم جنگ كر رھے تھے، آج وہ اسلام گيند كے مثل ميري اولاد ميں دست بدست ھو رھا ھے

ابوسفيان، خلافت عثمان كے ابتدائي ايام ميں خاندان بني اميہ كے اجتماع ميں اپنے نفاق كا اظھار يوں كرتا ھے، خاندان تميم وعدي (ابوبكر و عمر كے بعد) خلافت تم كو نصيب ھوئي اس سے گيند كي طرح كھيلتے رھو اور اس گيند (خلافت) كے لئے قدم، بني اميہ سے انتخاب كرو، يہ خلافت صرف سلطنت و بشر كي سرداري ھے اور جان لو كہ ميں ھر گز جنت و جھنم پر ايمان نھيں ركھتا ھوں

جس وقت ابوبكر نے امور خلافت كو اپنے ھاتھ ميں ليا ابوسفيان چاھتا تھا كہ مسلمانوں كے درميان اختلاف و تفرقہ پيدا ھوجائے اور اسي غرض كے تحت مولائے كائنات علي ابن ابي طالب عليہ السلام سے حمايت و مساعدت كي پيشكش كرتا ھے ليكن حضرت علي عليہ السلام اس كو اچھے طريقہ سے پہچانتے تھے، پيشكش كو ٹھكراتے ھوئے فرمايا: تم اور حق كے طرفدار؟! تم تو روز اوّل ھي سے اسلام و مسلمان كے دشمن تھے آپ نے اس كي منافقانہ بيعت كے دراز شدہ دست كو رد كرتے ھوئے چھرہ كو موڑ ليا

بھر حال اس ميں كوئي شك نھيں كہ ابوسفيان ان افراد ميں سے تھا جن كے جسم و روح، اسلام سے بيگانے تھے اور صرف اسلام كا اظھار كرتا تھا۔

2۔ اخلاقي نفاق

نفاق كا دوسرا عنوان اور معني جو بعض روايات ميں استعمال ھوا ھے اخلاقي نفاق ھے، يعني دينداري كا نعرہ بلند كرنا، ليكن دين كے قانون پر عمل نہ كرنا، اس كو اخلاقي نفاق سے تعبير كيا گيا ھے

البتہ اخلاقي نفاق كبھي فردى اور كبھي اجتماعي پہلوؤں ميں رونما ھوتا ھے، وہ فرد جو اسلام كے فردى احكام و قوانين اور اس كي حيثيت كو پامال كر رھا ھو وہ فردى اخلاقي نفاق ميں مبتلا ھے اور وہ شخص جو معاشرے كے حقوق و اجتماعي احكام كو جيسا كہ اسلام نے حكم ديا ھے نہ بجالاتا ھو تو، وہ نفاق اخلاق اجتماعي سے دوچار ھے۔

فردى، نفاق اخلاق كي چند قسميں، ائمہ حضرات كي احاديث كے ذريعہ پيش كي جارھي ھيں، حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں:

((اظھر الناس نفاقاً من امر با لطاعۃ ولم يعمل بھا ونھي عن المعصيۃ ولم ينتہ عنھا)) كسي فرد كا سب سے واضح و نماياں نفاق يہ ھے كہ اطاعت (خداوند متعال) كا حكم دے ليكن خود مطيع و فرمان بردار نہ ھو، گناہ و عصيان كو منع كرتا ھے ليكن خود كو اس سے باز نھيں ركھتا۔

حضرت امام صادق عليہ السلام مرسل اعظم سے نقل كرتے ھوئے فرماتے ھيں:

((ما زاد خشوع الجسد علي ما في القلب فھو عندنا نفاق))

جب كبھي جسم (ظاھر) كا خشوع، خشوع قلب (باطن) سے زيادہ ھو تو ايسي حالت ھمارے نزديك نفاق ھے۔

حضرت امام زين العابدين عليہ السلام اخلاقي نفاق كے سلسلہ ميں فرماتے ھيں:

((ان المنافق ينھي ولا ينتھي و يامر بما لا ياتي …… يمسي وھمہ العشا وھو مفطر و يصبح وھمہ النوم ولم يسھر))

يقيناً منافق وہ شخص ھے جو لوگوں كو منع كرتا ھے ليكن خود اس كام سے پرھيز نھيں كرتا ھے، اور ايسے كام كا حكم ديتا ھے جس كو خود انجام نھيں ديتا، اور جب شب ھوتي ھے تو سواء شام كے كھانے كے اسے كسي چيز كي فكر نھيں ھوتي حالانكہ وہ روزہ سے بھي نھيں ھوتا، اور جب صبح كو بيدار ھوتا ھے تو سونے كي فكر ميں رھتا ھے، حالانكہ شب بيداري بھي نھيں كرتا (يعني ھدف و مقصد صرف خواب و خوراك ھے) ۔

ذكر شدہ روايات اور اس كے علاوہ ديگر احاديث جو ان مضامين پر دلالت كرتي ھيں ان كي روشني ميں بے عمل عالم اور ريا كار شخص كا شمار انھيں لوگوں ميں سے ھے جو فردى اخلاقي نفاق سے دوچار ھوتے ھيں۔

نفاق اخلاقي اجتماعي كے سلسلہ ميں معصومين عليہ السلام سے بھت سي احاديث صادر ھوئي ھيں، چند عدد پيش كي جارھي ھيں۔

امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں:

((ان المنافق…… ان حدثك كذبك و ان ائتمنہ خانك وان غبت اغتابك وان وعدك اخلفك))

منافق جب تم سے گفتگو كرے تو جھوٹ بولتا ھے، اگر اس كے پاس امانت ركھو تو خيانت كرتا ھے، اگر اس كي نظروں سے اوجھل رھو تو غيبت كرتا ھے، اگر تم سے وعدہ كرے تو وفا نھيں كرتا ھے۔

پيامبر عظيم الشان (ص) نفاق اخلاقي كے صفات كو بيان كرتے ھوئے فرماتے ھيں:

((اربع من كن فيہ فھو منافق وان كانت فيہ واحدة منھن كانت فيہ خصلۃ من النفاق من اذا حدّث كذب واذا وعد اخلف واذا عاھد غدر واذا خاصم فجر))

چار چيزيں ايسي ھيں كہ اگر ان ميں سے ايك بھي كسي ميں پائي جائيں تو وہ منافق ھے، جب گفتگو كرے تو جھوٹ بولے، وعدہ كرے تو پورا نہ كرے، اگر عھد و پيمان كرے تو اس پر عمل نہ كرے، جب پيروز و كامياب ھوجائے تو برے اعمال كے ارتكاب سے پرھيز نہ كرے۔

امير المومنين حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں:

((كثرة الوفاق نفاق))

كسي شخصي كا زيادہ ھي وفاقي اور سازگاري مزاج و طبيعت كا ھونا يہ اس كے نفاق كي علامت ھے۔

ظاھر سي بات ھے كہ صاحب ايمان ھميشہ حق كا طرف دار ھوتا ھے اور حق كا مزاج ركھنے والا كبھي بھي سب سے خاص كر ان لوگوں سے جو باطل پرست ھيں سازگار و ھمراہ نھيں ھوتا، دوسرے الفاظ ميں يوں كھا جائے، صاحب ايمان ابن الوقت نھيں ھوتا۔

نفاق اجتماعي كا آشكار ترين نمونہ اجتماعي زندگي و معاشرے ميں دور روئي اور دو زبان كا ھونا ھے، يعني انسان كا كسي كے حضور ميں تعريف و تمجيد كرنا ليكن پس پشت مذمت و برائي كرنا۔

صاف و شفاف گفتگو، حق و صداقت كي پرستارى، صاحب ايمان كے صفات ميں سے ھيں، صرف چند ايسے خاص مواقع ميں جھاں اھم حكمت اس بات كا اقتضا كرتي ھے جيسے جنگ اور اس كے اسرار كي حفاظت، افراد اور جماعت ميں صلح و مصالحت كي خاطر صدق گوئي سے اعراض كيا جاسكتا ھے

پيامبر اكرم حضرت محمد مصطفے صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اس نوعيت كے نفاق كے انجام و نتيجہ كے سلسلہ ميں فرماتے ھيں:

((من كان لہ وجھان في الدنيا كان لہ لسانان من نار يوم القيامۃ))

جو شخص بھي دنيا ميں دو چھرے والا ھوگا، آخرت ميں اسے دو آتشي زبان دي جائے گي۔

امام حضرت محمد باقر عليہ السلام بھي اخلاقي نفاق كے خدو خال كي مذمت كرتے ھوئے فرماتے ھيں:

((بئس العبد يكون ذاوجھين و ذالسانين يطري اخاہ شاھداً و يأكلہ غائباً ان اعطي حسدہ وان ابتلي خذلہ))

بھت بدبخت و بد سرشت ھے، وہ بندہ جو دو چھرے اور دو زبان والا ھے، اپنے ديني بھائي كے سامنے تو تعريف و تمجيد كرتا ھے اور اس كي غيبت ميں اس كو ناسزا كھتا ھے، اگر اللہ اس كے ديني بھائي كو كچھ عطا كرتا ھے تو حسد كرتا ھے، اگر كسي مشكل ميں گرفتار ھوتا ھے تو اس كي اھانت كرتا ھے۔

اسلام ميں وجود نفاق كي تاريخ

مشھور نظريہ

مشھور و معروف نظريہ، نفاق كے وجود و آغاز كے سلسلہ ميں يہ ھے كہ نفاق كي بنياد مدينہ ميں پڑى، اس فكر و نظر كي دليل يہ ھے كہ مكہ ميں مسلمين بھت كم تعداد اور فشار ميں تھے، لھذا كم تعداد افراد سے مقابلے كے لئے، كفار كي طرف سے منافقانہ و مخفيانہ حركت كي كوئي ضرورت نھيں تھى، مكہ كے كفار ومشركين علي الاعلان آزار و اذيت، شكنجہ ديا كرتے تھے۔

عظيم الشان پيامبر اسلام حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے مدينہ ھجرت كرنے كي بنا پر اسلام نے ايك نئي كروٹ لى، روز بروز اسلام كے اقتدار و طاقت، شان و شوكت ميں اضافہ ھونے لگا، لھذا اس موقع پر بعض اسلام كے دشمنوں نے اسلام كي نقاب اوڑھ كر دينداري كا اظھار كرتے ھوئے اسلام كو تباہ و نابود كرنے كي كوشش شروع كردى، اسلام كا اظھار اس لئے كرتے تھے تاكہ اسلام كي حكومت و طاقت سے محفوظ رہ سكيں، ليكن باطن ميں اسلام كے جگر خوار و جاني دشمن تھے، يہ نفاق كا نقطہ آغاز تھا، خاص كر ان افراد كے لئے جن كي علمداري اور سرداري كو شديد جھٹكا لگا تھا، وہ كچھ زيادہ ھي پيامبر اكرم اور ان كے مشن سے عناد و كينہ ركھنے لگے تھے۔

عبد اللہ ابن ابي انھي منافقين ميں سے تھا، رسول اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے مدينہ ھجرت كرنے سے قبل اوس و خزرج مدينہ كے دو طاقتور قبيلہ كي سرداري اسے نصيب ھوني تھى، ليكن بد نصيبي سے واقعۂ ھجرت پيش آنے كي بنا بر سرداري كے يہ تمام پروگرام خاكستر ھوكر رہ گئے، بعد ميں گر چہ اس نے ظاھراً اسلام قبول كرليا، ليكن رفتار و گفتار كے ذريعہ، اپنے بغض و كينہ، عناد و عداوت كا ھميشہ اظھار كرتا رھا، يہ مدينہ ميں جماعت نفاق كا رئيس و افسر تھا، قرآن مجيد كي بعض آيات ميں اس كي منافقانہ اعمال و حركات كي نشاندھي كي گئي ھے۔

جب پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم مدينہ ميں وارد ھوئے۔ اس نے پيامبر عظيم الشان (ص) سے كھا: ھم فريب ميں پڑنے والے نھيں، ان كے پاس جاؤ جو تم كو يھاں لائے ھيں اور تم كو فريب ديا ھے، عبد اللہ ابن ابي كي اس ناسزا گفتگو كے فوراً بعد ھي سعد بن عبادہ رسول اسلام كي خدمت ميں حاضر ھوئے عرض كي آپ غمگين و رنجيدہ خاطر نہ ھوں، اوس و خزرج كا ارادہ تھا كہ اس كو اپنے اپنے قبيلہ كا سردار بنائيں گے، ليكن آپ كے آنے سے حالات يكسر تبديل ھوچكے ھيں، اس كي فرمان روائي سلب ھوچكي ھے، آپ ھمارے قبيلے خزرج ميں تشريف لائيں، ھم صاحب قدرت اور باوقار افراد ھيں

اس ميں كوئي شك نھيں كہ نفاق كا مبدا ايك اجتماعي و معاشرتي پروگرام كے تحت مدينہ ھے، نفاقِ اجتماعي كے پروگرام كي شكل گيري كا اصل عامل حق كي حاكميت و حكومت ھے، جو پہلي مرتبہ مدينہ ميں تشكيل ھوئى، پيامبر عظيم الشان كا مدينہ ميں وارد ھونا و اسلام كا روز بروز قوي و مستحكم ھونا باعث ھوا كہ منافقين كي مرموز حركات وجود ميں آئيں، البتہ منافقين كي يہ خيانت كارانہ حركتيں پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي جنگوں ميں زيادہ قابل لمس ھيں۔

قرآن مجيد ميں بطور صريح جنگ بدر، احد، بني نظير، خندق و تبوك نيز مسجد ضرار كے سلسلہ ميں منافقين كي سازشيں بيان كي گئي ھيں۔

مدينہ ميں جماعت نفاق كے منظّم و مرتب پروگرام كے نمونے، غزوہ تبوك كے سلسلہ ميں پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے لئے مشكلات كھڑي كرنا، مسجد ضرار كي تعمير كے لئے، چال بازي و شعبدہ بازي كا استعمال كرنا۔

پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كا غزوۂ تبوك كے لئے اعلان كرنا تھا كہ منافقين كي حركات ميں شدت آگئى، غزوہ تبوك كے سلسلہ ميں منافقانہ حركتيں اپنے عروج پر پھنچ چكي تھيں، مدينہ سے تبوك كا فاصلہ تقريباً ايك ھزار كيلو ميٹر تھا، موسم بھي گرم تھا، محصول زراعت و باغات كے ايام تھے، اس جنگ ميں مسلمانوں كي مدّ مقابل روم كي سوپر پاور حكومت تھى، يہ تمام حالات منافقين كے فيور (موافق) ميں تھے، تاكہ زيادہ سے زيادہ افراد كو جنگ پر جانے سے روك سكيں، اور انھوں نے ايسا ھي كيا۔

منافقين كے ايك اجتماع ميں جو سويلم يھودي كے يھاں برپا ھوا تھا، جس ميں منافق جماعت كے بلند پايہ اركان موجود تھے، طے يہ ھوا كہ مسلمانوں كو روم كي طاقت و قوت كا خوف دلايا جائے، ان كے دلوں ميں روم كي ناقابل تسخير فوجي طاقت كا رعب بٹھايا جائے۔

اس جلسہ اور اھداف كي خبر پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو پھنچى، آپ نے اسلام كے خلاف اس سازشي مركز كو ختم نيز دوسروں كي عبرت كے لئے حكم ديا، سويلم كے گھر كو جلاديا جائے آپ نے اس طريقہ سے ايك سازشي جلسہ نيز ان كے اركان كو متفرق كر كے ركھ ديا

مسجد ضرار كي تعمير كے سلسلہ ميں نقل كيا جاتا ھے كہ منافقين ميں سے كچھ افراد رسول اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي خدمت ميں حاضر ھوئے، ايك مسجد قبيلۂ بني سالم كے درميان مسجد قبا كے نزديك بنانے كي اجازت چاھى، تاكہ بوڑھے، بيمار اور وہ جو مسجد قبا جانے سے معذور ھيں خصوصاً باراني راتوں ميں، وہ اس مسجد ميں اسلامي فريضہ اور عبادت الھي كو انجام دے سكيں، ان لوگوں نے تعمير مسجد كي اجازت حاصل كرنے كے بعد رسول اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے افتتاح مسجد كي درخواست بھي كى، آپ نے فرمايا: ميں ابھي عازم تبوك ھوں واپسي پر انشاء اللہ اس كام كو انجام دوں گا، تبوك سے واپسي پر ابھي آپ مدينہ ميں داخل بھي نہ ھوئے تھے كہ منافقين آپ كي خدمت ميں حاضر ھوئے اور مسجد ميں نماز پڑھنے كي خواھش ظاھر كى، اس موقع پر وحي كا نزول ھوا جس نے ان كے افعال و اسرار كي پول كھول كر ركھدى، پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے مسجد ميں نماز پڑھنے كے بجائے تخريب كا حكم ديا تخريب شدہ مكان كو شھر كے كوڑے اور گندگي ڈالنے كي جگہ قرار ديا۔

اگر اس جماعت كے فعل كي ظاھري صورت كا مشاھدہ كريں تو پيامبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے ايسے حكم سے حيرت ھوتي ھے ليكن جب اس قضيہ كے باطني مسئلہ كي تحقيق و جستجو كريں تو حقيقت سامنے آتي ھے، يہ مسجد جو خراب ھونے كے بعد مسجد ضرار كے نام سے مشھور ھوئى، ابو عامر كے حكم سے بنائي گئي تھى، يہ مسجد نھيں بلكہ جاسوسي اور سازشي مركز تھا، اسلام كے خلاف جاسوسي و تبليغ اور مسلمانوں كے درميان تفرقہ ايجاد كرنا اس كے اھداف و مقاصد تھے۔

ابو عامر مسيحي عالم تھا زمانۂ جاھليت ميں عبّاد و زھّاد ميں شمار ھوتا تھا اور قبيلۂ خزرج ميں وسيع عمل و دخل ركھتا تھا، جب مرسل اعظم نے مدينہ ھجرت فرمائي مسلمان آپ كے گرد جمع ھوگئے خصوصاً جنگ بدر ميں مسلمانوں كي مشركوں پر كاميابي كے بعد اسلام ترقي كرتا چلا گيا، ابو عامر جو پھلے ظھور پيامبر (ص) كا مژدہ سناتا تھا جب اس نے اپنے اطراف و جوانب كو خالي ھوتے ديكھا تو اسلام كے خلاف اقدام كرنا شروع كرديا، مدينہ سے بھاگ كر كفار مكہ اور ديگر قبائل عرب سے، پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے خلاف مدد حاصل كرني چاھى، جنگ احد ميں مسلمانوں كے خلاف پروگرام مرتب كرنے ميں اس كا بڑا ھاتھ تھا، دونوں لشكر كي صفوں كے درميان ميں خندق كے بنائے جانے كا حكم اسي كي طرف سے تھا، جس ميں پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم گر پڑے آپ كي پيشاني مجروح ھوگئي دندان مبارك ٹوٹ گئے، جنگ احد كے تمام ھونے كے بعد، باوجود اس كے كہ مسلمان اس جنگ ميں كافي مشكلات و زحمات سے دوچار تھے، اسلام مزيد ارتقاء كي منزليں طے كرنے لگا صدائے اسلام پھلے سے كھيں زيادہ بلند ھونے لگي ابو عامر، يہ كاميابي و كامراني ديكھ كر مدينہ سے بادشاہ روم ھرقل كے پاس گيا تاكہ اس كي مدد سے اسلام كي پيش رفت كو روك سكے، ليكن موت نے فرصت نہ دي كہ اپني آرزو و خواھش كو عملي جامہ پھنا سكے، ليكن بعض كتب كے حوالہ سے كھا جاتا ھے، كہ وہ بادشاہ روم سے ملا اور اس نے حوصلہ افزا وعدے بھي كئے۔

اس نكتہ كو بيان كر دينا بھي ضروري ھے كہ اس كي تخريبي حركتيں اور عناد پسند طبيعت كي بنا پر پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اسے فاسد كا لقب دے ركھا تھا، بھر حال اس كے قبل كہ وہ واصل جھنم ھوا، ايك خط مدينہ كے منافقين كے نام تحرير كيا جس ميں لشكر روم كي آمد اور ايك ايسے مكان و مقام كي تعمير كا حكم تھا جو اسلام كے خلاف سازشي مركز ھو، ليكن چونكہ ايسا مركز منافقين كے بنانا چنداں آسان نھيں تھا لھذا انھوں نے مصلحتاً معذوروں، بيماروں، بوڑھوں كي آڑ ميں مسجد كي بنياد ڈال كر ابو عامر كے حكم كي تعميل كى، مركز نفاق مسجد كي شكل ميں بنايا گيا، مسجد كا امام جماعت ايك نيك سيرت جوان بنام مجمع بن حارثہ كو معين كيا گيا، تاكہ مسجد قبا كے نماز گزاروں كي توجہ اس مسجد كي طرف مبذول كي جاسكے، اور وہ اس ميں كسي حد تك كامياب بھي رھے، ليكن اس مسجد كے سلسلہ ميں آيات قرآن كے نزول كے بعد پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اس مركز نفاق كو خراب كرنے كا حكم دے ديا ،تاريخ كا يہ نمونہ جسے قرآن بھي ذكر كر رھا ھے منافقين كي مدينہ ميں منظّم كار كردگي كا واضح ثبوت ھے۔

مشھور نظريہ كي تحقيق

مشھور نظريہ كے مطابق نفاق كا آغاز مدينہ ھے، اور نفاق كا وجود، حكومت و قدرت سے خوف و ھراس كي بنا پر ھوتا ھے، اس لئے كہ مكہ كے مسلمانوں ميں قدرت و طاقت والے تھے ھي نھيں، لھذا وھاں نفاق كا وجود ميں آنا بے معني تھا، صرف مدينہ ميں مسلمان صاحب قدرت و حكومت تھے لھذا نفاق كا مبداء مدينہ ھے۔

ليكن نفاق كي بنياد صرف حكومت سے خوف و وحشت كي بنا پر جو اس كے لئے كوئي دليل نھيں ھے، بلكہ اسلام ميں منصب و قدرت كے حصول كي طمع بھي نفاق كے وجود ميں آنے كا عامل ھوسكتي ھے، لھذا، نفاق كي دو قسم ھوني چاھئے:

1۔ نفاقِ خوف: ان افراد كا نفاق جو اسلام كي قدرت و اقتدار سے خوف زدہ ھوكر اظھار اسلام كرتے ھوئے اسلام كے خلاف كام كيا كرتے تھے۔

2۔ نفاقِ طمع: ان افراد كا نفاق جو اس لالچ ميں اسلام كا دم بھرتے تھے كہ اگر ايك روز اسلام صاحب قدرت و سطوت ھوا، تو اس كي زعامت و مناصب پر قابض ھوجائيں يا اس كے حصّہ دار بن جائيں۔

نفاق بر بناء خوف كا سر چشمہ مدينہ ھے، اس لئے كہ اھل اسلام نے قدرت و اقتدار كي باگ ڈور مدينہ ميں حاصل كيا۔

ليكن نفق بر بناء طمع و حرص كا مبداء و عنصر مكہ ھونا چاھئے، عقل و فكر كي بنا پر بعيد نھيں ھے كہ بعض افراد روز بروز اسلام كي ترقى، اقتصادي اور سماجي بائيكاٹ كے باجود اسلام كي كاميابى، مكرر رسول اعظم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي طرف سے اسلام كے عالمي ھونے والي خوش خبري وغيرہ كو ديكھتے ھوئے دور انديش ھوں، كہ آج كا ضعيف اسلام كل قوت و طاقت ميں تبديل ھوجائے گا، اسي دور انديشي و طمع كي بنا پر اسلام لائے ھوں، تاكہ آئندہ اپنے اسلام كے ذريعہ اسلام كے منصب و قدرت كے حق دار بن جائيں۔

اس مطلب كا ذكر ضروري ھے كہ منافق طمع كے افعال و كاركردگي منافق خوف كي فعاليت و كاركردگي سے كافي جدا ھے، منافق خوف كي خصوصيت خراب كارى، كار شكنى، بيخ كنى، اذيت و تكليف سے دوچار كرنا ھے، جب كہ منافق طمع ايسا نھيں كرتا، بلكہ وہ ايك تحريك كي كاميابي كے سلسلہ ميں كوشش كرتے ھيں، تاكہ وہ تحريك ايك شكل و صورت ميں تبديل ھوجائے، اور يہ قدرت كي نبض اور دھڑكن كو اپنے ھاتھوں ميں لے سكيں، منافق طمع صرف وھاں تخريبي حركات كو انجام ديتے ھيں جھاں ان كے بنيادي منافع خطرے ميں پڑجائيں۔

اگر ھم نفاق طمع كے وجود كو مكہ قبول كريں، تو اس كي كوئي ضرورت نھيں كہ نفاق كا وجود اور اس كے آغاز كو مدينہ تسليم كيا جائے۔

جيسا كہ مفسر قرآن علامہ طباطبائي (رح) اس نظريہ كو پيش كرتے ھيں ، آپ ايك سوال كے ذريعہ كو مذكورہ مضمون كي تائيد كرتے ھوئے فرماتے ھيں، باوجوديكہ اس قدر منافقين كے سلسلہ ميں آيات، قرآن ميں موجود ھيں، كيوں پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات كے بعد منافقين كا چرچا نھيں ھوتا، منافقين كے بارے ميں كوئي گفتگو اور مذاكرات نھيں ھوتے، كيا وہ صفحہ ھستي سے محو ھوگئے تھے؟ كيا پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات كي بنا پر منتشر اور پراكندہ ھوگئے تھے؟ يا اپنے نفاق سے توبہ كرلي تھى؟ يا اس كي وجہ يہ تھي كہ پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات كے بعد صاحبان نفاق طمع، صاحبان نفاق خوف كا تال ميل ھوگيا تھا، اپني خواھشات و حكمت عملي كو جامۂ عمل پھنا چكے تھے، اسلام كي حكومت و ثروت پر قبضہ كر چكے تھے اور بہ بانگ دھل يہ شعر پڑھ رھے تھے:

((لعبت ھاشم بالملك فلا خبر جاء ولا وحي نزل))

خلاصۂ بحث يہ ھے كہ نفاق اجتماعي ايك منظّم تحريك كے عنوان سے مدينہ ميں ظھور پذير ھوا، ليكن نفاق فردى جو بر بناء طمع و حرص عالم وجود ميں آيا ھو اس كو انكار كرنے كي كوئي دليل نھيں، اس لئے كہ اس نوعيت كا نفاق مكہ ميں بھي ظاھر ھوسكتا تھا، وہ افراد جو پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے دستور و حكم سے سر پيچي كرتے تھے، ان ميں بعض وہ تھے جو مكہ ميں مسلمان ھوئے تھے، يہ وھي منافق تھے جو طمع و حرص كي بنا پر اسلام كا اظھار كرتے تھے۔

مرض نفاق اور اس كے آثار

نفاق، قلب اور دل كي بيماري ھے، قرآن كي آيات اس باريكي كي طرف توجہ دلاتي ھيں، پاكيزہ قلب خدا كا عرش اور اللہ كا حرم ھے ، اس ميں اللہ كے علاوہ كسي اور كا گذر نھيں ھے، ليكن مريض و عيب دار دل، غير خدا كي جگہ ھے ھوا و ھوس سے پر دل شيطان كا عرش ھے، قرآن مجيد صريح الفاظ ميں منافقين كو عيب دار اور مريض دل سمجھتا ھے:

(في قلوبھم مرض)

نفاق جيسي پُر خطر بيماري ميں مبتلا افراد، بزرگترين نقصان و ضرر سے دوچار ھوتے ھيں، اس لئے كہ آخرت ميں نجات صرف قلب سليم (پاكيزہ) كے ذريعہ ھي ميسر ھے، ھوا و ھوس سے پر، غير خدا كا محبّ و غير خدا سے وابستہ دل نجات كا سبب نھيں۔

(يوم لا ينفع مال ولا بنون الا من اتي اللہ بقلب سليم)

اس دن مال اور اولاد كام نھيں آئيں گے۔ مگر وہ جو قلب سليم كے ساتھ اللہ كي بارگاہ ميں حاضر ھو۔

قرآن مجيد اس مرض و بيماري كي شناخت و واقفيت كے سلسلہ ميں كچھ مفيد نكات كا ذكر كر رھا ھے، تمام مسلمانوں كو ان نكات كي طرف توجہ ديني چھاھئے تاكہ اپنے قلب و دل كي صحت و سلامتي و نيز مرض كو تشخيص دے سكيں، نيز ان نكات كے ذريعہ معاشرے كے غير سليم و نادرست قلوب كي شناسائي كرتے ھوئے ان كے مراكز فساد و فتنہ سے مبارزہ كرسكيں۔

ايك سرسري جائزہ ليتے ھوئے آياتِ قرآني جو منافقين كي شناخت ميں نازل ھوئي ھيں ان كو چند نوع ميں تقسيم كيا جاسكتا ھے۔

وہ آيات جو اسلامي معاشرے ميں منافقين كي سياسي و اجتماعي روش و طرز كو بيان كرتي ھيں، وہ آيات جو منافقين كي فردى خصوصيت نيز ان كي نفسياتي شخصيت و عادت كو رونما كرتي ھيں، وہ آيات جو منافقين كي ثقافتي روش و طرز عمل كو اجاگر كرتي ھيں، وہ آيات جو منافقين سے مبارزہ و رفتار كے طور و طريقہ كو پيش كرتي ھيں۔

پھلي نوع كي آيات ميں منافقين كي سياسي و معاشرتي اسلوب، اور دوسري نوع كي آيات ميں منافقين كي انفرادي و نفسياتي بيماري كي علامات كا ذكر ھے اور تيسري نوع كي آيات ميں منافقين كي كفر و نفاق كے مرض كو وسعت دينے نيز اسلام كو تباہ و برباد كرنے كے طريقے كو بيان كيا گيا ھے، چوتھي نوع كي آيات ميں منافقين كي كار كردگي كو بے اثر بنانے كے طريقۂ كار كو پيش كيا گيا ھے، اگر چہ قرآن ميں جو آيات منافقين كے سلسلہ ميں آئي ھيں وہ ان كي اعتقادي نفاق كو بيان كرتي ھيں، مگر جو آيات منافقين كي خصوصيت و صفات كو بيان كرتي ھيں وہ ان كي منافقانہ رفتار و گفتار كو پيش كر رھي ھيں خواہ اعتقادي ھوں يا نہ ھوں منافقين كے جو خصائص بيان كئے گئے ھيں، منافقانہ رفتار و گفتار كي شناخت كے لئے معيار و پيمانہ قرار دئے گئے ھيں، اس كے مطابق جو فرد يا جماعت بھي اس نوع و طرز كي رفتار و روش كي حامل ھوگي اس كا شمار منافقين ميں ھوگا۔


26- سورہ انفال/60۔

نھايۃ، ابن اثير، بحث "نفق" و نيز: لسان العرب، ج10، ص359۔

سورہ نساء/ 89۔

قاموس الرجال، ج10، ص89۔

الاصابہ، ج4، ص88۔

تفسير سورہ توبہ و منافقون۔

يقيناً اخلاق كي يہ حالتيں، رذائل كے اجزا ميں سے ھے ليكن يہ كہ عادت رذيلہ روايات ميں نفاق پر اطلاق ھوتي ھے يا نھيں يہ وہ موضوع ھے جسے اجاگر ھونا چاھئے علامہ مجلسي بحار الانوار ج72 ص108 ميں اس نظريہ كي تائيد كرتے ھيں كہ روايات ميں اسي معني ميں استعمال ھوا ھے، اصول كافى ج2 ميں ايك باب صفت النفاق و المنافق ھے اس باب كي اكثر احاديث انفرادي، اجتماعي اخلاقي نفاق كے سلسلہ ميں بيان كي گئي ھے يہ خود دليل ھے كہ نفاق روايات ميں اس خاص معني (نفاق اخلاقي) جس كا ميں نے اشارہ كيا ھے استعمال ھوا ھے۔

غرور الحكم، حديث 3214۔

اصول كافى، ج2، ص396۔

اصول كافى، ج2، ص396۔

المحجۃ البيضاء، ج5، ص282۔

خصال شيخ صدوق، ص254۔

ميزان الحكمت، ج8، ص3343۔

غيبت و كذب سے مستثنٰي موارد كے سلسلہ ميں اخلاقي و فقھي كتب جيسے جامع السعادات اور مكاسب كي طرف مراجعہ كريں۔

المحجۃ البيضاء، ج5، ص280۔

المحجۃ البيضاء، ج5، ص282۔

علام الورى، ص44، بحار الانوار، ج19 ص108۔

سيرت ابن حشام، ج2، ص517، منشور جاويد قرآن، ج4، ص112۔

سورہ توبہ، 107 كے بعد كي آيتيں۔

مجمع البيان، ج3، ص72۔

تفسير الميزان، ج19 ص287 تا 290، سورہ منافقون كي آيات 1/ 8 كے ذيل ميں۔

"قلب المؤمن عرش الرحمن" بحار الانوار، ج58، ص39۔ "لقلب حرم اللہ فلا تسكن حرم اللہ غير اللہ" بحار الانوار، ج70، ص25۔

سورہ بقرہ/ 10، مائدہ/52 ، توبہ/ 125، محمد/ 20۔ 29: بعض آيات ميں (في قلوبھم مرض) كے ھمراہ منافقون كا بھي ذكر كيا گيا ھے، جيسے سورہ انفال كي آيت نمبر 49 و سورہ احزاب كي آيت نمبر 12 (اذا يقول المنافقون والذين في قلوبھم مرض) يھاں يہ سوال سامنے آتا ھے كہ بيمار دل والے منافق ھي ھيں يا ان كے علاوہ دوسرے افراد، علامہ طباطبائي (رح) تفسير الميزان، ج15، ص286، ج9، ص99، ميں ان دونوں كو الگ الگ شمار كرتے ھيں، آپ كا كھنا ھے كہ بيمار دل والوں سے مراد ضعيف الاعتقاد مسلمان ھيں، اور منافقين وہ ھيں جو ايمان و اسلام كا اظھار كرتے ھيں ليكن باطن ميں كافر ھيں، بعض مفسرين كي نظر ميں، بيمار دل صفت والے افراد منافق ھي ھيں، نفاق كے درجات ھيں، نفاق كا آغاز قلب و دل كي كجي اور روح كي بيماري سے شروع ھوتا ھے، اور آھستہ آھستہ پايۂ تكميل كو پھنچتا ھے، ليكن ميرے خيال ميں منافقون، و (والذين في قلوبھم مرض) دو مترادف الفاظ كے مثل ھيں جيسے فقير و مسكين، اگر يہ دو لفظ ساتھ ميں استعمال ھو تو ھر لفظ ايك مخصوص معني كا حامل ھوگا، ليكن اگر جدا استعمال ھوتو دونوں كے معني ايك ھي ھوں گے، اس بنا پر وہ آيات جس ميں لفظ منافقون و (في قلوبھم مرض) ايك ساتھ استعمال ھوئے ھيں، دونوں كے مستقل معني ھيں، منافقون يعني اسلام كا اظھار و كفر كا پوشيدہ ركھنا، و (في قلوبھم مرض) يعني ضعيف الايمان يا آغاز نفاق، ليكن جب (في قلوبھم مرض) كا استعمال جدا ھو تو اس سے مراد منافقين ھيں، كيوں كہ منافقين وھي ھيں جو (في قلوبھم مرض) كے مصداق ھيں،

سورہ شعراء/ 88 و 89۔