قرآن کی روشنی میں اصحاب كہف

چند بيدار فكر اور باايمان نوجوان تھے ،وہ نازو نعمت كى زندگى بسر كر رہے تھے ،انھوں نے اپنے عقيدے كى حفاظت اور اپنے زمانے كے طاغوت سے مقابلے كے لئے ان سب نعمتوں كو ٹھوكر ماردى پہاڑ كے ايك ميں جا پناہ لى ،وہ جس ميں كچھ بھى نہ تھا ،يہ اقدام كر كے انھوں نے راہ ايمان ميں اپنى استقامت اور پا مردى ثابت كردى _

يہ بات لائق توجہ ہے كہ اس مقام پر قران فن فصاحت و بلاغت كے ايك اصول سے كام ليتے ہوئے پہلے ان افراد كى سر گزشت كو اجمالى طورپر بيان كرتا ہے تاكہ سننے والوں كا ذہن مائل ہو جائے ،اس سلسلے ميں چار ايات ميں واقعہ بيان كيا گيا ہے اور اس كے بعد ميں تفصيل بيان كى گئي ہے _

اصحاب كہف كى زندگى كا اجمالى جائزہ

پہلے فرمايا گيا ہے :''كيا تم سمجھتے ہو كہ اصحاب كہف و رقيم ہمارى عجيب ايات ميں سے تھے ''_(1)

زمين و اسمان ميں ہمارى بہت سى عجيب ايا ت ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك عظمت تخليق كا ايك نمونہ ہے ،خود تمہارى زندگى ميں عجيب اسرار موجود ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك تمہارى دعوت كى حقانيت كى نشانى ہے اور اصحاب كہف كى داستان مسلما ً ان سے عجيب تر نہيں ہے _

(1)سورہ كہف ايت 9

''اصحاب كہف''(اصحاب )كو يہ نام اس لئے ديا گيا ہے كيونكہ انھوں نے اپنے جان بچانے كے لئے ميں پناہ لى تھى جس كى تفصيل انكى زندگى كے حالات بيان كرتے ہوئے ائے گى _

ليكن ''رقيم ''دراصل ''رقم ''كے مادہ سے'' لكھنے ''كے معنى ميں ہے ،زيادہ تر مفسرين كا نظريہ ہے كہ يہ اصحاب كہف كا دوسرا نام ہے كيونكہ اخر كا ر اس كا نام ايك تختى پر لكھا گيا اور اسے كے دروزاے پر نصب كيا گيا _

بعض اسے اس پہاڑ كا نام سمجھتے ہيںكہ جس ميں يہ تھى اور بعض اس زمين كانام سمجھتے ہيں كہ جس ميں وہ پہاڑ تھا بعض كا خيال ہے كہ يہ اس شہر كانام ہے جس سے اصحاب كہف نكلے تھے ليكن پہلا معنى زيادہ صحيح معلوم ہوتا ہے _(1)

اس كے بعد فرمايا گيا ہے :

''اس وقت كا سوچو جب چند جوانوں نے ايك ميں جاپناہ لي''_(2)(3)

(1)رہا بعض كا يہ احتمال كہ اصحاب كہف اور تھے اور اصحاب رقيم اور تھے بعض روايت ميںان كے بارے ميں ايك داستان بھى نقل كى گئي ہے ،يہ ظاہر ايت سے ہم اہنگ نہيں ہے كيونكہ زير قران كا ظاہرى مفہوم يہ ہے كہ اصحاب كہف و رقيم ايك ہى گروہ كا نام ہے يہى وجہ ہے كہ ان دو الفاظ كے استعمال كے بعد صرف ''اصحاب كہف ''كہہ كر داستان شروع كى گئي ہے اور انكے علاوہ ہر گز كسى دوسرے گروہ كا ذكر نہيں كيا گيا ،يہ صورت حال خود ايك ہى گروہ ہونے كى دليل ہے

(2)سورہ كہف آيت10

(3)جيسا كہ قرآن ميں موجود ہے: ''اذا وى الفتية الى الكھف''

(فتية) فتى كى جمع ہے_در اصل يہ نوخيز و سرشار جوان كے معنى ميں ہے البتہ كبھى كبھار بڑى عمر والے ان افراد كے لئے بھى بولاجاتا ہے كہ جن كے جذبے جوان اور سرشار ہوں_اس لفظ ميں عام طورپر جوانمردى حق كے لئے ڈٹ جانے اور حق كے حضور سر تسليم خم كرنے كا مفہوم بھى ہوتا ہے_

اس امر كى شاہد وہ حديث ہے جو امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے_

امام(ع) نے اپنے ايك صحابى سے پوچھا:''فتى ''كس شخص كو كہتے ہيں؟-->

جب وہ ہر طرف سے مايوس تھے،انہوں نے بارگاہ خدا كا رخ كيا اور عرض كي:''پروردگاراہميں اپنى رحمت سے بہرہ ور كر''_(1)

اور ہمارے لئے راہ نجات پيدا كردے_

ايسى راہ كہ جس سے ہميں اس تاريك مقام سے چھٹكارا مل جائے اور تيرى رضا كے قريب كردے_ ايسى راہ كہ جس ميں خير و سعادت ہو اور ذمہ دارى ادا ہوجائے_

ہم نے ان كى دعا قبو ل كي''ان كے كانوں پر خواب كے پردے ڈال ديئے اور وہ سالہا سال تك ميں سوئے رہے''_

''پھر ہم نے انہيں اٹھايا اور بيدار كيا تا كہ ہم ديكھيں كا ان ميں سے كون لوگ اپنى نيند كى مدت كا بہتر حساب لگاتے ہيں''_(2)

داستان اصحاب كہف كى تفصيل

جيسا كہ ہم نے كہا ہے اجمالى طور پر واقعہ بيا ن كرنے كے بعد ميں اس كى تفصيل بيان كى گئي ہے_ گفتگو كا آغازيوں كيا گياہے: ''ان كى داستان،جيسا كہ ہے،ہم تجھ سے بيان كرتے ہيں''_(3)

ہم اس طرح سے واقعہ بيان كرتے ہيں كہ وہ ہر قسم كى فضول بات بے بنياد چيزوں اور غلط باتو ں سے پاك ہوگا_

<-- اس نے جواباً عرض كيا:''فتى '' نوجوان كو كہتے ہيں_

امام(ع) نے فرمايا: كيا تجھے نہيں پتہ كہ اصحاب كہف پكى عمر كے آدمى تھے ليكن اللہ نے انہيں''فتية''كہا ہے اس لئے كہ وہ اللہ پر ايمان ركھتے تھے_

اس كے بعد مزيد فرمايا: جو اللہ پرايمان ركھتا ہو اور تقوى اختيار كيے ہو وہ''فتى ''(جوانمرد) ہے_

(1)سورہ كہف آيت 10

(2)سورہ كہف آيت11تا12

(3)سورہ كہف آيت13

''وہ چند جوانمرد تھے كہ جو اپنے رب پر ايمان لائے تھے اور ہم نے ان كى ہدايت اور بڑھا دى تھي''_(1)

قرآن سے اجمالى طور پر اور تاريخ سے تفصيلى طور پر يہ حقيقت معلوم ہوتى ہے كہ اصحاب كہف جس دور اور ماحول ميں رہتے تھے اس ميں كفر و بت پرستى كا دوردورہ تھا_ايك ظالم حكومت كہ جو عام طور پر شرك،كفر،جہالت،ت گرى اور ظلم كى محافظ تھى لوگوں كے سروں پر مسلط تھي_

ليكن يہ جوانمرد كہ جو ہوش و صداقت كے حامل تھے آخر كار اس دين كى خرابى كو جان گئے_ انہوں نے اس كى خلاف قيام كامصصم ارادہ كرليا اور فيصلہ كيا كہ اگر اس دين كے خاتمے كى طاقت نہ ہوئي تو ہجرت كرجائيں گے_اسى لئے گزشتہ بحث كے بعد قرآن كہتا ہے:''جب انہوں نے قيام كيا اور كہا كہ ہمارا رب آسمان و زمين كا پروردگار ہے،ہم نے ان كے دلوں كو مضبوط كرديا_انہوں نے كہا كہ ہم اس كے علاوہ كسى معبود كى ہرگز پرستش نہيں كريں گے''_(2)

''اگر ہم ايسى بات كريں اور اس كے علاوہ كسى كو معبود سمجھيں تو ہم نے بے ہودہ اور حق سے دور بات نہيں كہي''_(3)

ان با ايمان جوانمردوں نے واقعاً توحيد كے اثبات اور ''الھہ'' كى نفى كے لئے واضح دليل كا سہارا ليا اوروہ يہ كہ ہم واضح طور پر ديكھ رہے ہيں كہ آسمان و زمين كا كوئي مالك اور پروردگار بھى وہى آسمانوں اورزمين كا پروردگار ہے_

اس كے بعد وہ ايك اور دليل سے متوسل ہو ئے اور وہ يہ كہ''ہمارى اس قوم نے خدا كے علاوہ معبود بناركھے ہيں''(4)

(1)سورہ كہف آيت 13

(2)سورہ كہف آيت 14

(3)سورہ كہف آيت 15

(4)سورہ كہف آيت 15

تو كيا دليل وبرہان كے بغير بھى اعتقاد ركھا جاسكتا ہے''وہ ان كى الوہيت كے بارے ميں كوئي واضح دليل پيش كيوں نہيں كرے''_(1)

كيا تصور،خيال يااندھى تقلےد كى بناء پر ايسيا عقيدہ اختيار كيا جاسكتا ہے؟يہ كيسا كھلم كھلا ظلم اور عظيم انحراف ہے؟

ان توحيد پرست جواں مردوں نے بہت كوشش كى كہ لوگوں كے دلوں سے شرك كا زنگ اتر جائے اور ان كے دلوں ميں توحيد كى كونپل پھوٹ پڑے ليكن وہاں تو بتوں اور بت پرستى كاايسا شور تھا اور ظالم بادشاہ كے ظلم بے داد كا ايسا خوف تھا كہ گويا سانس مخلوق خدا كے سينے ميں گھٹ كے رہ گئي تھى اور نغمہ توحيد ان كے حلق ميں ہى اٹك كررہ گيا تھا_

لہذا انھوں نے مجبوراًاپنى نجات كے لئے اور بہتر ماحول كى تلاش كے لئے ہجرت كا عزم كيا_لہذا باہمى مشورے ہونے لگے كہ كہاں جائيں،كس طرف كوكوچ كريں_ آپس ميں كہنے لگے:''جب اس بت پرست قوم سے كنارہ كشى اختيار كرلو خدا كو چھوڑ كر جنہيں يہ پوجتے ہيں ان سے الگ ہوجائو اور اپنا حساب كتاب ان سے جدا كرلو تو ميں جاپناہ لو_''

تا كہ تمہارا پروردگار تم پر اپنى رحمت كا سايہ كردے اور اس مشكل سے نكال كر تمہيں نجات كى راہ پر لگا دے_

''غار''ايك پناہ گاہ

''كہف''ايك معنى خيز لفظ ہے،اس سے انسان كى بالكل ابتدائي طرز زندگى كى طرف ذہن چلا جاتا ہے،وہ ماحول كہ جب راتيں تاريك اور سرد تھيں_ روشنى سے محروم انسان جانكاہ دروں ميں زندگى بسر كرتے تھے_ وہ زندگى جس ميں مادى آسائشےوں كا كوئي پتہ نہ تھا_ جب نہ نرم بستر تھے نہ خوشحالي_

(1)سورہ كہف آيت15

اب جب اس طرف توجہ كہ جيسا تاريخ ميں منقول ہے اصحاب كہف اس دور ميں بادشاہ كے وزير اور بہت بڑے اہل منصب تھے_ انہوں نے بادشاہ اور اس كے مذہب كے خلاف قيام كيا_ اس سے واضح ہو تا ہے كہ ناز و نعمت سے بھرى اس زندگى كو چھوڑنا اور اس پر نشينى كو ترجيح دينا كس قدر عزم،حوصلہ دليرى اور جانثارى كا غماز ہے،اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ ان كى روح كتنى عظيم تھي_

يہتاريك غار،سرد اور خاموش ضرور تھى اور اس ميں موذى جانوروں كا خطرہ بھى تھا ليكن يہاں نور و صفا اور توحيد و معنويت كى ايك دنيا آباد تھي_

رحمت الہى كے نور كى لكيروں نے اس كى ديواروں پر گويا نقش و نگار كرديا تھا اور لطف الہى كے آثار اس ميں موجزن تھے_ اس ميں طرح طرح كے مضحكہ خيز بت نہيں تھے اورظالم بادشاہ كا ہاتھ وہاں نہيں پہنچ سكتا تھا_ اس كى فضا نے جہل و جرم كے دم گھٹنے والے ماحول سے نجات عطا كردى تھى اور يہاں انسانى فكر پر كوئي پابندى نہ تھي،فكر وآزادى اپنى پورى وسعتوں كے ساتھ موجود تھي_

جى ہاںان خدا پرست جوانمردوں نے اس دنيا كو ترك كرديا كہ جو اپنى وسعت كے باوجود ايك تكليف دہ قيد خانہ كى مانند تھى اور اس كو انتخاب كرليا كہ جو اپنى تنگى و تاريكى كے باوجود وسيع تھي_

باكل پاكباز يوسف عليہ السلام كى طرح كہ جنہوں نے عزيز مصر كى خوبصورت بيوى كے شديد اصرار كے باوجودد اس كى سركش ہوس كے سامنے سر نہ جھكايا اور تاريك وخوف ناك قيد خانے ميں جانا قبول كرليا_اللہ نے ان كى استقامت و پامردى ميںاضافہ كرديا اور آخر كار انہوں نے بارگاہ خداوندى ميں يہ حيران كن جملہ كہا: ''پروردگارايہ قيد خانہ اپنى جانكاہ تنگى و تاريكى كے باوجود مجھے اس گناہ سے زيادہ محبوب ہے كہ جس كى طرف يہ عورتيں مجھے دعوت ديتى ہيں اور اگر تو ان كے وسوسوں كو مجھ سے دفع نہ كرے تو ميں ان كے دام ميںگرفتار ہوجائوں گا''_(1)

(1)سورہ يوسف آيت33

اصحاب كہف كا اہم مقام

قران اصحاب كہف كى عجيب و غريب زندگى كى كچھ تفصيلات بيان كررہا ہے_ان كى زندگى كى ايسى منظر كشى كى گئي ہے كہ گويا كوئي شخص كے سامنے بيٹھا ہے اور ميں سوئے ہوئے افراد كو اپنى آنكھوں سے ديكھ رہا ہے_

سورہ كہف ميں چھ نشانياں اور خصوصيات بيان كى گئي ہيں:

1_ كا دہانہ شمال كى طرف ہے اور چونكہ زمين كے شمالى نصف كرہ ميں واقع تھى لہذا سورج كى روشنى مستقيم اس ميں نہيں پڑتى تھي_جيسا كہ قرآن كہتا ہے:''اگر تو وقت طلوع سورج كو ديكھتا تو وہ كى دائيں جانب جھك كے گزرتا ہے اور غروب كے وقت بائيں جانب''_(1)

كا دہانہ شمال كى طرف ہونے كى وجہ سے اس ميں اچھى ہوائيں آتى تھيں كيونكہ يہ ہوائيں عموماً شمال كى جانب سے چلتى ہيں_ لہذا تازہ ہوا آسانى سے ميں داخل ہوجاتى اور ايك تازگى قائم ركھتي_

2_''وہ كى ايك وسيع جگہ ميں تھے''_(2)

يہ اس طرف اشارہ ہے كہ وہ كے دہانے پر موجود نہ تھے كيونكہ وہ تو عموماً تنگ ہوتا ہے_ وہ كے وسطى حصے ميں تھے تا كہ ديكھنے والوں كى نظروں سے بھى اوجھل رہيں اور سورج كى براہ راست چمك سے بھي_

3_''ان كى نيند عام نيند كى سى نہ تھي_''اگر تو انہيں ديكھتا تو خيال كرتا كہ وہ بيدار ہيں حالانكہ وہ گہرى نيند ميں سوئے ہوئے تھے''_(3)

يہ بات ظاہر كرتى ہے كہ ان كى آنكھيں بالكل ايك بيدار شخص كى طرح پورى طرح كھلى تھيں_ يہ استثنائي حالت شايد اس بناء پر تھى كہ موذى جانور قريب نہ آئيں كيونكہ وہ بيدار آدمى سے ڈرتے ہيں_يا اس كى وجہ يہ تھى كہ ماحول رعب انگيز رہے تا كہ كوئي انسان ان كے پاس جانے كى جرا ت نہ كرے اور يہ

(1)سورہ كہف آيت17

(2)سورہ كہف آيت17

(3)سورہ كہف آيت 18

صورت حال ان كے لئے ايك سپر كا كام دے_

4_''اس بناء پر كہ سالہا سال سوئے رہنے كى وجہ سے ان كے جسم بوسيدہ نہ ہوجائيں''_ہم انہيں دائي بائيں كروٹيںبدلواتے رہتے تھے_(1)

تا كہ ان كے بدن كا خون ايك ہى جگہ نہ ٹھہر جائے اور طويل عرصہ تك ايك طرف ٹھہرنے كى وجہ سے ان كے اعصاب خراب نہ ہوجائيں_

5_''اس دوران ميں ان كا كتا كہ جو ان كے ہمراہ تھا كے دہانے پر اپنے اگلے پائوں پھيلائے ہوئے تھا اور پہرہ دے رہا تھا''_(2)

اس سے پہلے ابھى تك قرآنى آيات ميں اصحاب كہف كے كتے كے بارے ميںكوئي بات نہيں ہوئي تھى ليكن قرآن واقعات كے دوران بعض اوقات ايسى باتيں كرجاتا ہے كہ جن سے دوسرے مسائل بھى واضح ہوجاتے ہيں_اسى طرح يہاں اصحاب كہف كے كتے كا ذكر آيا ہے،يہاں سے ظاہر ہوا كہ ان كے ہمراہ ايك كتابھى تھا جو ان كے ساتھ ساتھ رہتا تھا اور ان كى حفاظت كرتا تھا_

يہ كہ يہ كتا ان كے ساتھ كہاں سے شامل ہوا تھا،كيا ان كا شكارى كتا تھا يا اس چرواہے كا كتاتھا كہ جس سے ان كى راستے ميں ملاقات ہوئي تھى اور جب چرواہے نے انہيں پہچان ليا تھا تو اس نے اپنے جانور آبادى كى طرف روانہ كرديئے تھے اور خود ان پاكباز لوگوں كے ساتھ ہولياتھا كيونكہ وہ ايك حق تلاش اور ديدار الہى كا طالب انسان تھا_اس وقت كتا ان سے جدا نہ ہوا اور ان كے ساتھ ہوليا_

كيا اس بات كا يہ مفہوم نہيں ہے كہ تمام عاشقان حق اس تك رسائي كے لئے اس كے راستے ميں قدم ركھ سكتے ہيںاور كوئے يار كے دروازے كسى كے لئے بند نہيں ہيں_ظالم بادشاہ كے تائب ہونے والے وزيروں سے لے كر چرواہے تك بلكہ اس كے كتے تك كے لئے بارگاہ الہى كے دروازے كھلے ہيں_

(1)سورہ كہف آيت 18

(2)سورہ كہف آيت 18

كيا ايسا نہيں ہے؟، قرآن كہتا ہے :

''زمين و آسمان كے تمام ذرے،سارے درخت اور سب چلنے پھرنے والے ذكر الہى ميں مگن ہيں،سب كے سر ميں اس كے عشق كا سودا سمايا ہے اور سب كے دلوں ميں اس كى محبت جلوہ گر ہے''_(1)

6_ غار ميں اصحاب كہف كا منظر ايسا رعب دار تھا كہ اگر تو انہيں جھانك كے ديكھ ليتا تو بھاگ كھڑا ہوتا اور تيرا وجود سرتا پاخوفزدہ ہوجاتا''_(2)

''يہ ايك ہى موقع نہيں كہ خدامتعال نے رعب اور خوف كو اپنے باايمان بندوں كے لئے ڈھال بناياتھا_ بلكہ دوسرى جگہ بھى اس طرح كا خطاب ہوا ہے_ ''ہم جلد ہى كافروں كے دلوں پر رعب ڈال ديں گے_''(3)

دعائے ندبہ اور پيغمبر اسلام (ص) كے بارے ميں منقول ہے:

''خداونداپھر تونے اپنے پيغمبر كى مدد اس طرح كى كہ اس كے دشمنوں كے دلوں ميں رعب ڈال ديا''_

ليكن يہ رعب كہ جو اصحاب كہف كو ديكھنے والے كو سرتاپا لرزا ديتا،ان كى جسمانى حالت كے باعث تھا يا يہ كہ پراسرار روحانى طاقت تھى كہ جو اس سلسلے ميں كام كررہى تھي_اس سلسلے ميں آيات قرآنى ميں كوئي وضاحت نہيں ہے''_

ايك طويل نيند كے بعد بيداري

اصحاب كہف كى نيند اتنى لمبى ہوگئي كہ وہ تين سو نو سال تك سوئے رہے اور ان كى نيند موت سے بالكل ملتى جلتى تھى اور ان كى بيدارى بھى قيامت كى مانند تھي_ لہذا قرآن كہتا ہے:''اور ہم نے انہيں اسى طرح اٹھا كھڑا كيا''_(4)

(1)بنى اسرائيل 44

(2)سورہ كہف آيت18

(3)سورہ ال عمران ايت 151

(4)سورہ كہف آيت 19

يعنى اسى طرح كہ جيسے ہم اس پر قادر تھے كہ انہيںلمبى مدت تك سلائے ركھتے اورانہيں پھر سے بيدار كرنے پربھى قادر تھے_

ہم نے انہيں نيند سے بيدار كرديا، تاكہ وہ ايك دوسرے سے پوچھيں، ان ميں سے ايك نے پوچھا_ تمہارا خيال ہے كتنى مدت سوئے ہو؟انہوں نے كہا:''ايك دن يا دن كا كچھ حصہ''_(1)

اس ميں تردد شايدانہيں اس لے ہوا كہ جيسے مفسرين نے كہا ہے كہ وہ جب ميں آئے تھے تو دن كاابتدائي حصہ تھا اور آكر وہ سوگئے تھے اور جب اٹھے تو دن كا آخرى حصہ تھا_ يہى وجہ ہے كہ پہلے انہوں نے سوچا كہ شايد ايك دن سوگئے اور جب انہوں نے سورج كى طرف ديكھا تو انہيںخيال آيا كہ شايد دن كا كچھ حصہ سوئے ہيں_

ليكن آخركار چونكہ انہيں صحيح طرح سے معلوم نہ ہو سكا كہ كتنى دير سوئے ہيں لہذا كہنے لگے:تمہارا رب بہتر جانتا ہے كہ كتنى دير سوئے ہو_(2)

بعض كا كہنا ہے كہ يہ بات ان ميں سے بڑے نے كہى جس كا نام ''تمليخا'' تھا اور يہاںپر ''قالوا'' كا لفظ استعمال كيا گياہے كہ جو جمع كا صيغہ ہے اس كا استعمال ايك معمول كى سى بات ہے_

يہ بات انہوں نے شايد اس لئے كہى كہ ان كے چہرے سے،ناخنوں سے،بالوںسے اور لباس سے بالكل شك نہيں پڑتا تھا كہ وہ كوئي غير معمولى طور پر نيند ميں رہے ہيں_

بہر حال انہيں بھوك اور پياس كا احساس ہوا كيونكہ ان كے بدن ميں جو غذا تھى وہ توتمام ہوچكى تھي،لہذاپہلے انہوں نے يہى تجويز كى كہ''تمہارے پاس چاندى كا جو سكہ ہے اپنے ميں سے ايك كو دو تا كہ وہ جائے اور ديكھے كہ كس كے پاس اچھى پاكيزہ غذا ہے اور جتنى تمہيں چاہئے تمہارے لئے لے آئے''_(3)

''ليكن بہت احتياط سے جائے،كہيں ايسا نہ ہو كہ كسى كو تمہارے بارے ميں كچھ بتا بيٹھے''_(4)

(1)سورہ كہف آيت 19

(2)سورہ كہف آيت 19

(3)سورہ كہف آيت 19

(4)سورہ كہف آيت19

''كيونكہ اگر انہيں تمہارے بارے ميں پتہ چل گيا اور انہوں نے تمہيں آليا تو سنگسار كرديں گے يا پھر تمہيں اپنے دين(بت پرستي)كى طرف موڑ لے جائيں گے،''اور اگر ايسا ہوگيا تو تم نجات اور فلاح كا منہ نہ ديكھ پائوگے''_(1)

پاكيزہ ترين غذا

يہ بات بہت جاذب نظر ہے كہ اس داستان ميں ہم نے پڑھا ہے كہ اصحاب كہف جب بيدار ہوئے تو ظاہر ہے انہيں بہت بھوك لگ رہى تھى اور اس طويل مدت كے دوران ان كے جسم ميں جو غذا تھى ،وہ ختم ہو چكى تھى ليكن اس كے باوجود انھوں نے جسے كھانا لانے كے لئے بھيجا اسے نصيحت كى كہ ہر غذا نہ خريد لائے بلكہ ديكھ بھال كر كھانا بيچنے والوں كے پاس سے جو سب سے زيادہ پاكيزہ ہواسى كولے كر آئے_

بعض مفسرين كا كہنا ہے كہ اس سے ذبح شدہ جانور كى طرف اشارہ تھا كيونكہ وہ جانتے تھے كہ اس شہر ميں ايسے لوگ رہتے ہيں كہ جو نجس و ناپاك اور كبھى مردہ كا گوشت بيچتے ہيں يا بعض لوگوں كا كام ہى حرام كا تھا لہذا انہوں نے نصيحت كى ايسے لوگوں سے كھانا نہ خريدنا_

ليكن ظاہراًاس جملے كا وسيع مفہوم ہے كہ جس ميں ہر قسم كى ظاہرى اور باطنى پاكيزگى شامل ہے_

بہرحال جلدہى لوگو ں ميں ان عظيم جوانمردوں كى ہجرت كى داستان پھيل گئي_ظالم بادشاہ سيخ پا ہوگياكہ كہيں ايسا نہ ہوكہ ان كى ہجرت يا بھاگ نكلنالوگوں كى بيدارى اور آگاہى كا سبب بن جائے، اسے يہ بھى خطرہ تھا كہ كہيں وہ دور يا نزديك كے علاقے ميں جاكر لوگوں كو دين توحيد كى تبليغ نہ كرنے لگيں اور شرك و بت پرستى كے خلاف جدوجہد شروع كرديں_ لہذا اس نے خاص افراد كو مامور كيا كہ انہيں ہر جگہ تلاش كيا جائے اور ان كا كچھ اتہ پتہ معلوم ہو تو گرفتار كے لئے تعاقب كيا جائے اور انہيں سزادى جائے_

ليكن انہوں نے جتنى بھى كوشش كى كچھ نہ پايا اور يہ امر خود علاقے كے لوگوں كے لئے ايك معمہ اور

(1)سورہ كہف آيت20

ان كے دل و دماغ كے لئے ايك خاص نقطہ بن گيا_ نيز يہ امر كہ حكومت كے نہايت اہم چند اراكين نے ہر چيز كو ٹھوكر ماردى اور طرح طرح كے خطرات مول لے لئے شايد بعض لوگوں كى بيدارى اور آگاہى كا سرچشمہ بن گيا_

بہر حال ان افراد كى يہ حيران كن داستان ان كى تاريخ ميں ثبت ہوگئي اور ايك نسل سے دوسرى نسل كى طرف منتقل ہونے لگي_اور اسى طرح اس مسئلے كو صدياں گزرگئيں_

سامان خريدنے والے پر كيا گزري

آيئےب ديكھتے ہيں كہ اس پر كيا گزرى جو غذا لينے كے لئے آيا _وہ شہر ميں داخل ہوا تو اس كا منہ تعجب سے كھلے كا كھلا رہ گيا، شہر كى عمارتوں كى شكل و صورت تمام تبديل ہوچكى تھي،سب چہرے ناشناس تھے،لباس نئے انداز كے تھے اور جہاں پہلے محل تھے وہاں ويرانے تھے_

شايد تھوڑى دير كے لئے اس نے سوچا ہوكہ ابھى ميں نيند ميںہوں اور يہ جو كچھ ديكھ رہا ہوں سب خواب ہے_اس نے اپنى آنكھوں كو ملا_وہ سب چيزوں كو پھٹى پھٹى نگاہوں سے ديكھ رہا تھا_ اس نے سوچا كہ يہ كيسى حقيقت ہے كہ جس پريقين نہيں كيا جاسكتا_

اب وہ سوچنے لگا كہ وہ ميں ايك يا آدھا دن سوئے ہيں تو پھر يہ اتنى تبديلياں اتنى مدت ميں كيسے ممكن ہيں؟

دوسرى طرف اس كا چہرہ مہرہ اور حالت لوگوں كے لئے بھى عجيب اور غير مانوس تھي_ اس كا لباس،اس كى گفتار اور اس كا چہرہ سب نيا معلوم ہوتا تھا شايد اسى وجہ سے كچھ لوگ اسكى طرف متوجہ ہوئے اور اس كے پيچھے چل پڑے_

اس وقت لوگوں كا تعجب انتہاء كو پہنچ گيا جب اس نے جيب ميں ہاتھ ڈالا تا كہ اس كھانے كى قيمت ادا كرے جو اس نے خريدا تھا،دكاندار كى نگاہ سكتے پر پڑى وہ تين سو سال سے زيادہ پرانے دور كا تھا اور شايد اس زمانے كے ظالم بادشاہ دقيانوس كا نام بھى اس پر كنندہ تھا_ جب اس نے وضاحت چاہى تو خريدار نے جواب

ميں كہا:ميرے ہاتھ ميں تو يہ سكہ ابھى تازہ ہى آيا ہے_

قرائن اور احوال سے لوگو ںكو آہستہ آہستہ يقين ہوگيا كہ يہ شخص تو انہى افراد ميں سے ہے جن كا ذكر ہم نے تين سو سال پہلے كى تاريخ ميں پڑھا ہے اور بہت سى محفلوں ميں ہم نے جن كى پر اسرار داستان سنى ہے_

خود اسے بھى احساس ہوا كہ وہ اور اس كے ساتھى گہرى اور طولانى نيند ميں مستغرق رہے ہيں_ اس بات كى خبر جنگل كى آگ كى طرح سارے شہر ميں آن كى آن ميں پھيل گئي_

مو رخين لكھتے ہيں كہ اس زمانے ميں ايك نيك اور خدا پرست بادشاہ حكومت كرتا تھا ليكن معاد جسمانى اور موت كے بعد مردوں كے جى اٹھنے كے مسئلہ پر يقين كرنا وہاں كے لوگوں كے لئے مشكل تھا_ان ميں سے ايك گروہ كو اس بات پر يقين نہيں آتا تھا كہ انسان مرنے كے بعد پھر جى اٹھے گا ليكن اصحاب كہف كى نيند كا واقعہ معاد جسمانى كے طرفداروں كے لئے ايك دندان شكن دليل بن گيا_

اسى لئے قرآن كہتا ہے:''جيسے ہم نے انہيں سلاديا تھا اسى طرح انہيں اس گہرى اور طويل نيند سے بيدار كيا اور لوگوں كو ان كے حال كى طرف متوجہ كيا تا كہ وہ جان ليں كہ قيامت كے بارے ميں خدا كا وعدہ حق ہے_اور دنيا كے خاتمے اور قيام قيامت ميں كوئي شك نہيں''_(1)

كيونكہ صديوں پر محيط يہ لمبى نيند موت سے غير مشابہ نہيں ہے اور ان كا بيدار ہونا قبروں سے اٹھنے كى مانند ہے بلكہ كہا جاسكتا ہے كہ يہ سونا اور جاگنا كئي حوالوںسے مرنے اور پھر جى اٹھنے سے عجيب تر ہے كيونكہ وہ صديوں سوئے رہے ليكن ان كا بدن بوسيدہ نہ ہوا جبكہ انہوں نے كچھ كھايا نہ پيا،تو پھروہ اتنى لمبى مدت زندہ كس طرح رہے_

كيا يہ اس بات كى دليل نہيں كہ خدا ہرچيز اور ہر كام پر قادر ہے _ايسے منظر كى طرف نظر كى جائے تو موت كے بعد زندگى كا مسئلہ كوئي عجيب معلوم نہيں ہوتا بلكہ يقينى طور پر ممكن دكھائي ديتا ہے_

(1)سورہ كہف آيت21

اصحاب كہف كے واقعہ كا اختتام

جو شخص غذا لينے شہر ميں آيا تھا اس نے يہ صورت ديكھى تو جلدى سے كى طرف پلٹا اور اپنے دوستوں كو سارا حال سنايا،وہ سب كے سب گہرے تعجب ميں ڈوب گئے_اب انہيں احساس ہوا كہ ان كے تمام بچے،بھائي اوردوست كوئي بھى باقى نہيں رہا اور ان كے احباب و انصار ميں سے كوئي نہيں رہا_ ايسے ميں ان كو يہ زندگى بہت سخت اور ناگوار لگي_لہذا انہوں نے اللہ سے دعا كى كہ اس جہان سے ہمارى آنكھيں بند ہوجائيں اور ہم جوار رحمت حق ميں منتقل ہوجائيں_

ايسا ہى ہوا،اس دنيا سے انہوں نے آنكھيں بند كرليں_ ان كے جسم ميں پڑے تھے كہ لوگ ان كى تلا ش كو نكلے_(1)

اس مقام پر معاد جسمانى كے طرفداروں اور مخالفوں كے درميان كشمكش شروع ہوگئي_

مخالفين كى كوشش تھى كہ لوگ اصحاب كہف كے سونے اور جاگنے كے مسئلہ كو جلد بھول جائيں ''لہذا انہوں نے تجويز پيش كى كہ كا دروازہ بند كرديا جائے تاكہ وہ ہميشہ كے لئے لوگوں كى نگاہوں سے اوجھل ہوجائيں''_(2)

وہ لوگوں كو خاموش ہونے كے لئے كہتے تھے كہ ان كے بارے ميں زيادہ باتيں نہ كرو،ان كى داستان اسرار آميز ہے''ان كا پروردگار ان كى كيفيت سے زيادہ آگاہ ہے''_(3)

لہذا ان كا قصہ ان تك رہنے دو اورانہيں ان كے حال پر چھوڑ دو_

جبكہ حقيقى مومن كہ جنہيں اس واقعے كى خبر ہوئي اور جو اسے قيامت كے حقيقى مفہوم كے اثبات كے لئے ايك زندہ دليل سمجھتے تھے،ان كى كوشش تھى كہ يہ واقعہ ہر گز فراموش نہ ہونے پائے_ لہذا انہوں نے كہا: ''ہم ان كے مدفن كے پاس مسجد بناتے ہيں''_(4)

(1)سورہ كہف آيت21

(2)سورہ كہف آيت 21

(3)سورہ كہف آيت21

(4)سورہ كہف آيت21

تا كہ لوگ انہيں اپنے دلوں سے ہر گز فراموش نہ كريں علاوہ ازيں ان كى ارواح پاك سے لوگ استمداد كريں_

قرآن ميں ان چند اختلافات كى طرف اشارہ كيا گيا ہے،كہ جو اصحاب كہف كے بارے ميں لوگوںميںپائے جاتے ہيں،ان ميں سے ايك ان كى تعداد كے بارے ميں ہے_ ارشاد ہوتا ہے:''بعض لوگ كہتے ہيں كہ وہ تين تھے اورچوتھا ان كا كتا تھا''_

بعض كہتے ہيں كہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان كا كتا تھا_

يہ سب بلادليل باتيں ہيں اور اندھيرے ميں تير چلانے كے مترادف ہيں_

اور بعض كہتے ہيں كہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان كا كتّا تھا_

كہہ دے:ميرا رب ان كى تعداد بہتر جانتا ہے_

صرف تھوڑے سے لوگ ان كى تعداد جانتے ہيں_(1)

قرآن نے ان جملوں ميں اگر چہ صراحت سے ان كى تعداد بيان نہيں كى ليكن آيت ميں موجود بعض اشاروں سے سمجھا جاسكتا ہے كہ تيسرا قول صحيح اور مطابق حقيقت ہے كيونكہ پہلے اور دوسرے قول كے بعد (اندھيرے ميں تير مارنا) آيا ہے كہ جو ان اقوال كے لئے بے بنياد ہونے كى طرف اشارہ ہے ليكن تيسرے قول كے بارے ميں نہ صرف ايسى كوئي تعبير نہيں بلكہ اس كے ساتھ ہى فرمايا گيا ہے:كہہ دے:''ميرا رب ان كى تعداد سے بہتر طور پر آگاہ ہے''_اور يہ بھى فرمايا گيا ہے''ان كى تعداد كو تھوڑے سے لوگ جانتے ہيں ''_يہ جملے بھى اس تيسرے قول كى صداقت پر دلالت كرتے ہيں_

بہر حال آيت كے آخر ميں مزيد فرمايا گيا ہے:''استدلالى اور منطقى گفتگو كے علاوہ ان كے بارے ميں بحث نہ كر''_(2)

(1) سورہ كہف آيت 22

(2)سورہ كہف آيت22

بہر حال اس گفتگو كا مفہوم يہ ہے كہ وحى خدا پر بھروسہ كرتے ہوئے_ تو ان كے ساتھ بات كر كيونكہ اس سلسلے ميں محكم ترين دليل يہى ہے_'' لہذا جو لوگ بغير دليل كے اصحاب كہف كى تعداد كے بارے ميں بات كرتے ہيں ان سے اس بارے ميں سوال نہ كر''_(1)

اصحاب كہف كى نيند

قرآن ميں موجودہ قرائن سے اجمالاً معلوم ہوتا ہے كہ اصحاب كہف كى نيند بہت لمبى تھي_يہ بات ہر شخص كى حس جستجو كو ابھارتى ہے_ ہر شخص جاننا چاہتا ہے كہ وہ كتنے برس سوئے رہے_

قرآن اس داستان كے متعلق تردد كو ختم كرتے ہوئے آخر ميں اس سوال كا جوا ب ديتا ہے_

ارشاد ہوتا ہے:''وہ اپنى ميں تين سو سے نو برس زيادہ سوتے رہے''_(2)

اس لحاظ سے وہ كل تين سو نو سال ميں سوئے رہے_

بعض لوگوں كا خيال ہے كہ تين سو نو سال كہنے كى بجائے يہ جو كہا300/سال ،نوسال اس سے زيادہ،يہ شمسى اور قمرى سالوں كے فرق كى طرف اشارہ ہے كيونكہ شمسى حساب سے وہ تين سو سال رہے جو قمرى حساب سے تين سو نو سال ہوئے اور يہ تعبير كاا يك لطيف پہلو ہے كہ ايك جزوى تعبير كے ذريعے عبارت ميں ايك اور وضاحت طلب حقيقت بيان كردى جائے_

اس كے بعد اس بارے ميں لوگوں كے اختلاف آراء كو ختم كرنے كے لئے فرمايا گيا ہے:''كہہ ديجئے:خدا ان كے قيام كى مدت كو بہتر جانتا ہے_ كيونكہ آسمانو ں اور زمين كے غيب كے احوال اس كے سامنے ہيں ''_(3)اور وہ ہر كسى كى نسبت انہيں زيادہ جانتا ہے_

اور جو كل كائنات ہستى سے باخبر ہے كيونكر ممكن ہے كہ وہ اصحاب كہف كے ميں قيام كى مدت سے آگاہ نہ ہو_

(1)سورہ كہف آيت22

(2)سورہ كہف آيت 25

(3)سورہ كہف آيت26

غار كہاں ہے؟

يہ كہ اصحاب كہف كس علاقے ميں رہتے تھے اور يہ غار كہاں تھي؟اس سلسلے ميں علماء اور مفسرين كے درميان بہت اختلاف ہے،البتہ اس واقعے كے مقام كو صحيح طور پر جاننے كا اصل داستان،اس كے تربيتى پہلوئوں اور تاريخى اہميت پر كوئي خاص اثر نہيں پڑتا، يہ كوئي واحد واقعہ نہيں كہ جس كى اصل داستان تو ہميں معلوم ہے ليكن اس كى زيادہ تفصيلات معلوم نہيںہيں، ليكن مسلم ہے كہ اس واقعے كا مقام جاننے سے اس كى خصوصيات كو مزيد سمجھنے كے لئے مفيد ہوسكتا ہے_

بہر حال اس سلسلے ميں جو احتمالات ذكر كيے گئے اور جو اقوال نظرسے گزرے ہيںان ميں سے دو زيادہ صحيح معلوم ہوتے ہيں_

پہلا يہ كہ يہ واقعہ شہر''افسوس''ميں ہوا اور يہ اس شہر كے قريب واقع تھي_تركى ميں اب بھى اس شہر كے كھنڈرات ''ازمير'' كے قريب نظر آتے ہيں_ وہاں قريب ايك قصبہ ہے جس كا نام''اياصولوك''ہے اس كے پاس ايك پہاڑ ہے''ينايرداغ''_ اب بھى اس ميں ايك نظر آتى ہے جو افسوس شہر سے كوئي زيادہ فاصلہ پر نہيں ہے،يہ ايك وسيع ہے،كہتے ہيں اس ميں سينكڑوں قبروں كے آثار نظر آتے ہيں، بہت سے لوگوں كا خيال ہے كہ اصحاب كہف كى يہى ہے_

جيساكہ جاننے والوں نے بيان كيا ہے كہ اس كا شمال مشرق كى جانب ہے_اس وجہ سے بعض بزرگ مفسرين نے اس بارے ميں شك كيا ہے كہ يہ وہى غارہے، حالانكہ اس كى يہى كيفيت اس كے اصلى ہونے كى مو يد ہے كيونكہ طلوع كے وقت سورج كا دائيں طرف اور غروب كے وقت بائيں طرف ہونے كا مفہوم يہ ہے كہ كا دہانہ شمال يا كچھ شمال مشرق كى جانب ہو_

اس وقت وہاں كسى مسجد يا عبادت خانہ كا نہ ہونابھى ا سكے وہى ہونے كى نفى نہيں كرتا كيونكہ تقريباًسترہ صدياں گزرنے كے بعد ممكن ہے اس كے آثار مٹ گئے ہوں_

دوسرا قول يہ ہے كہ يہ وہ ہے كہ جو'' اردن'' كے دارالحكومت'' عمان'' ميں واقع ہے_يہ ''رجيب''نامى ايك بستى كے قريب ہے اس كے اوپر گرجے كے آثار نظر آتے ہيں_بعض قرائن كے مطابق ان كا تعلق پانچويں صدى عيسوى سے ہے _جب اس علاقے پر مسلمانو ںكا غلبہ ہوا تو اسے مسجد ميں تبديل كرليا گيا تھا اور وہاں محراب بنائي گئي تھى اور اذان كى جگہ كا اضافہ كيا گيا تھا_يہ دونوں اس وقت موجود ہيں_

اصحاب كہف كا واقعہ ديگر تواريخ ميں

يہ بات مسلم ہے كہ اصحاب كہف كا واقعہ كسى گزشتہ آسمانى كتاب ميں نہيں تھا(چاہے وہ اصلى ہو يا موجودہ تحريف شدہ)اور نہ اسے كتابوں ميں ہونا ہى چاہيئےھا كيونكہ تاريخ كے مطابق يہ واقعہ ظہور مسيح عليہ السلام كے صديوں بعد كا ہے_

يہ واقعہ''دكيوس''كے دور كا ہے،جسے عرب''دقيانوس''كہتے ہيں_ اس كے زمانے ميں عيسائيوں پر سخت ظلم ہوتا تھا_

يورپى مو رخين كے مطابق يہ واقعہ49 تا 152عيسوى كے درميان كا ہے_ان مو رخين كے خيال ميں اصحاب كہف كى نيند كى مدت 157سال ہے_يورپى مو رخين انہيں''افسوس كے 7 سونے والے ''كہتے ہيں_ جبكہ ہمارے ہاں انہيں''اصحاب كہف''كہا جاتا ہے_

اب ديكھتے ہيں كہ''افسوس''شہر كہاںہے؟سب سے پہلے كن علماء نے ان سونے والوں كے بارے ميں كتاب لكھى اور وہ كس صدى كے تھے؟

''افسوس''يا''اُفسُس''ايشيائے كوچك كا ايك شہر تھا (موجودہ تركى جو قديم مشرقى روم كا ايك حصہ تھا)يہ ''دريائے كاستر ''كے پاس''ازمير''شہر كے تقريباًچاليس ميل جنوب مشرق ميں واقع تھا_يہ''الوني'' بادشاہ كا پايہ تخت شمار ہوتا تھا_

افسوس اپنے مشہور بت خانے اور ''طاميس'' كى وجہ سے بھى عالمى شہرت ركھتا تھا_يہ دنيا كے سات عجائبات ميںسے تھا_

كہتے ہيں كہ اصحاب كہف كى داستان پہلى مرتبہ پانچويں صدى عيسوى ميں ايك عيسائي عالم نے لكھي_اس كا نام''اك''تھا_وہ شام كے ايك گرجے كا متولى تھا_ اس نے سريانى زبان كے ايك رسالے ميں اس كے بارے ميں لكھا تھا_اس كے بعد ايك اور شخص نے اس كاانگريزى زبان ميں ترجمہ كيا_اس كا نام ''گوگويوس''تھا ترجمے كا نام اس نے''جلال شہداء''كا ہم معنى ركھا تھا_

اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ ظہور اسلام سے ايك دوصدياں پہلے يہ واقعہ عيسائيوں ميں مشہور تھا اور گرجوں كى مجالس ميں اس كا تذكرہ ہوتا تھا_

البتہ جيسا كہ اشارہ كيا گيا ہے،اسلامى مصادر ميں اس كى جو تفصيلات آئي ہيں وہ مذكورہ عيسائيوںكے بيانات سے كچھ مختلف ہيں_جيسے ان كے سونے كى مدت كيونكہ قرآن نے صراحت كے ساتھ يہ مدت 309سال بيان كى ہے_

''ياقوت حمومي'' نے اپنى كتاب''معجم البلدان ج2ص806پر'' خرداد ''بہ نے اپنى كتاب ''المسالك والممالك''ص106تا110ميں اور ''ابوريحان بيروني'' نے اپنى كتاب''الاثار الباقيہ''ص290پر نقل كياہے كہ قديم سياحوں كى ايك جماعت نے شہر''آبس''ميں ايك ديكھى ہے جس ميں چند انسانى ڈھانچے پڑے ہيں_ ان كا خيال ہے كہ ہوسكتا ہے يہ بات اسى داستان سے مربوط ہو_

سورہ كہف ميں قرآن كے لب و لہجہ سے اور اس سلسلے ميں اسلامى كتب ميں منقول شانہائے نزو ل سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ داستان يہودى علماء ميں بھى ايك تاريخى واقعے كے طور پر مشہور تھي،اس سے يہ بات ثابت ہوجاتى ہے كہ طولانى نيند كا يہ واقعہ مختلف قوموں كى تاريخى ماخذ ميں موجود رہا ہے_(1)

* * * * *

(1)اصحاب كہف كا واقعہ كيا سائنس كے لحاظ سے قابل قبول ہے؟رجوع كريںتفسير نمونہ جلد7 ص86.